Pages

Monday 2 January 2012

Al Risala | January 2012 (الرسالہ,جنوری)

2

-امر یکا کا سفر (قسط 1–)

37

- عاشورا کا روزہ

38

- معرفت کے دو پہلو

39

- شکر قلیل، شکر کثیر

40

- محبت الٰہی سے محرومی کیوں

41

- خدا کا پڑوس

42

- موت کی حقیقت

43

- سب سے بڑی بے خبری

44

- دعوت الی اللہ کی ذمے داری

45

- الرسالہ ایک مشن

46

- ایک تاثر


امریکا کا سفر

امریکا (USA) کے لیے میرا پہلا سفر نومبر 1983 میں ہوا تھا۔ اس کے بعد بار بار امریکا کا سفر ہوتا رہا۔ اِن سفروں کی روداد ماہ نامہ الرسالہ میں شائع ہوچکی ہے۔ موجودہ سفر جون 2011 میں ہوا۔ اِس سفر میں میرے کئی ساتھی میرے ہم راہ تھے۔ اِس سفر کی مختصر روداد ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
یہ سفر امریکا میں مقیم الرسالہ مشن سے وابستہ گروپ کی دعوت پر ہوا۔ اِس گروپ کے صدر خواجہ کلیم الدین صاحب ہیں۔ اِس سفر کے لیے تقریباً ایک سال سے کلیم الدین صاحب کا اصرار تھا۔ 15 جون 2011 کو یہ سفر شروع ہوا، اور 6 جولائی 2011 کو سفر سے واپسی ہوئی۔
15 جون 2011 کی شام کو ہم لوگ دہلی ائر پورٹ پر پہنچے۔ میں وہاں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ میرے ساتھی فوراً ہی دعوتی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔ انھوں نے ائر پورٹ کے عملہ (staff) کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے ہاتھ میں کتاب لے کر یہ کہتے ہوئے لوگوں کو پیش کرتے— یہ آپ کے لیے ایک اسپریچول گفٹ ہے:
This is a spiritual gift for you.
ائر پورٹ کے مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ جہاز کے اندر داخل ہوئے۔ یہ ائر انڈیا کا جہاز تھا جو درمیان میں رکے بغیر دہلی سے نیو یارک (امریکا) جاتا ہے۔ جہاز کے اندر میرے ساتھیوں نے اپنا دعوتی مشن جاری رکھا۔ انھوں نے جہاز کے اندر کئی لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔ جہاز کے پائلٹ اور جہاز کے عملہ کو بھی قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
جہاز کے اندر ایک ہندو ائر ہاسٹس کو ہمارے ساتھی نے قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ اس نے کہا کہ اِس سے پہلے حج کی فلائٹ میں ایک مسلمان نے مجھ کو قرآن کا عربی نسخہ دیاتھا۔ میں بہت چاہتی تھی کہ میں انگریزی زبان میں قرآن کا ترجمہ پڑھوں۔ آج قرآن کا انگریزی ترجمہ پاکر مجھ کو بہت خوشی ہورہی ہے۔ مذکورہ ائر ہاسٹس جب قرآن لے کر گئی تو ایک دوسری ائر ہاسٹس آئی۔ اس نے ہمارے ساتھی سے کہا کہ مجھے بھی قرآن کی ایک کاپی چاہیے۔ اس نے ہمارے ساتھی کا نام پوچھا۔ ’’رجت ملہوترا‘‘ نام سن کر اس کو تعجب ہوا۔ اس نے مسٹر رجت ملہوترا (Rajat Malhotra) سے کہا کہ آپ کیسے قرآن دے رہے ہیں۔ مسٹررجت نے کہا کہ میں سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کا ایک ممبر ہوں۔ سی پی ایس کے تحت ہم، لوگوں کو پیس اور اسپریچولٹی کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔
ائر انڈیا کی فلائٹ دہلی سے نیویارک کے لیے براہِ راست فلائٹ ہے۔ دہلی سے نیویارک کا فاصلہ تقریباً 12 ہزار کیلومیٹر ہے۔ یہ 15 گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ کچھ لوگوں نے دہلی میں کہا تھا کہ یہ آپ کے لیے ایک ٹائر سم (tiresome) سفر ہوگا۔ مگر جہاز کے اندر نیند آگئی۔ اس کی وجہ سے وقت بہ آسانی گزر گیا— نیند انسان کے لیے ایک عجیب نعمت ہے، سفر میں بھی اور حضر میں بھی۔ قرآن میں اِس حقیقت کی طرف اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: وجعلنا نومکم سُباتاً (78:9) یعنی ہم نے نیند کو بنایا تمھاری تکان رفع کرنے کے لیے۔
راستے میں جہاز کے اندر مختلف اخبارات برائے مطالعہ موجود تھے۔ دہلی سے چھپنے والے ایک اخبار میں یہ خبر تھی کہ ہماچل پردیش کے ایک اہم علاقے میں ایک وی آئی پی (VIP)کی بیٹی کو گھر بنانے کے لیے زمین دی گئی۔ چوں کہ عام قانون کے تحت یہ زمین نہیں دی جاسکتی تھی، اس لیے قانون میں تبدیلی کرکے ان کو یہ زمین دی گئی۔
یہ عام بات ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کی فرمائش کو رد نہیں کرپاتے۔ ماں باپ اِسی کو محبت سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو فیور (favour) دیتے رہیں۔ مگر یہ ایک تباہ کن مزاج ہے۔ بچوں کے بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب بلا شبہہ اِسی قسم کی نام نہاد پدرانہ شفقت ہے۔ انڈیا کے بڑھے ہوئے کرپشن کا سب سے بڑا سبب یہی اولاد نوازی ہے۔
جہاز فضا میں بلند ہو کر 35 ہزار فٹ کی بلندی پر تیزی سے پرواز کرنے لگا۔ کوئی زمینی سواری اس طرح تیزی سے نہیں چل سکتی، کیوں کہ باربار راستے میں مختلف قسم کی رکاوٹیں آتی ہیں جو اس کے سفرکو کھنڈت کرتی رہتی ہیں۔ لیکن ہوائی جہاز کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ تمام رکاوٹوں سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ اونچی بلڈنگوں اور پہاڑوں سے بھی اوپر چلاجاتا ہے۔ اِس لیے جہاز کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مسلسل اپنی پرواز کو جاری رکھ سکے۔ میںنے سوچا کہ یہی انسان کا معاملہ بھی ہے۔ انسان بھی اپنے ذہنی سفر (intellectual journey) کو اُسی وقت کامیابی کے ساتھ جاری رکھ سکتا ہے، جب کہ وہ زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں نہ الجھے، وہ تمام مسائل سے اوپر اٹھ جائے۔ایسا ہی انسان اپنے ذہنی ارتقا کے سفر کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھ سکتاہے۔
اُس وقت فضا میں بادل تھے۔ جہاز بادلوں سے گزرتا ہوا آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ ہوائی جہاز کے اسٹاف کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہمارا جہاز جلد ہی نیویارک کے ائر پورٹ پر اترنے والا ہے۔ جہاز کا ایک ائرپورٹ سے ٹیک آف کرکے ہوا میں اڑنا اور پھر دوسرے ائر پورٹ پر لینڈ کرنا، ٹکنالوجی کا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر مجھ کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ در اصل فرشتے تھے جنھوںنے جہاز کو دہلی سے اڑایا اور آخر کار اس کو نیویارک کے ائر پورٹ پر اتار دیا۔
نیویارک کا ائر پورٹ بہت بڑا ائر پورٹ ہے اس کے اندر مختلف مقامات پر اِس طرح کے جملے لکھے ہوئے تھے۔ مثلاًایک جملہ یہ تھا— گلوبل وارمنگ سے لڑنے کے لیے ساتھ دیجئے:
Let’s join hands to fight global warming.
آج کل ائرپورٹ پر رینڈم چیکنگ ہوتی ہے۔ اِس کے تحت ائر پورٹ پر ہمارے دو ساتھیوںکو روک دیا گیا۔ کچھ دیر تک پوچھ گچھ کرنے کے بعد آخر کار ان کو چھوڑ دیاگیا۔
اِسی قسم کا ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔ میرے سر پر پگڑی تھی۔ چیکنگ کرنے والے آدمی نے میری پگڑی کی طرف اشارہ کیا۔ میںنے فوراً اپنی پگڑی اتاردی۔ اس نے مسکرا کر کہا— اوکے۔ اِسی طرح چیک کرنے والے آدمی نے میرا جوتا اتروانا چاہا۔ میں نے فوراً اپنا جوتا اتار دیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، آگے جائیے۔
اس طرح کی چیکنگ پر اکثر لوگ غصہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہم تو کوئی مجرم نہیں ہیں، پھر ہماری چیکنگ کیوں۔ مگر یہ سوچ درست نہیں۔ چیک کرنے والے کو اگر پیشگی طورپر یہ معلوم ہوکہ مجرم کون ہے تو وہ اس کی چیکنگ کرنے کے بجائے اس کو گرفتار کرکے پولس کے حوالے کردے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کی چیکنگ ہمیشہ عمومی اصول کی بنا پر ہوتی ہے، وہ شخصی علم کی بنا پر نہیں ہوتی۔ اِس لیے اِس طرح کے واقعے پر مشتعل ہونا درست نہیں۔
16 جون 2011 کو ہم لوگ ائر پورٹ سے باہر آئے۔ یہاں دو صاحبان ہمارا انتظار کررہے تھے — خواجہ کلیم الدین (ایم ایس سی)، اور ڈاکٹر وقار عالم۔ دونوں صاحبان ہمارے دعوتی مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر وقار عالم نیویارک میں رہتے ہیں۔ ائر پورٹ سے ہم لوگ دو گاڑیوں پر روانہ ہوئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہم لوگ ڈاکٹر وقار عالم کے گھر پہنچے۔ یہ ایک پر فضا مقام تھا۔ یہاں ہم لوگوں نے ناشتہ کیا۔ اس کے بعد اہلِ خانہ اور اپنے ساتھیوں کی مختصر نشست میں کچھ باتیں ہوئیں۔
ڈاکٹر وقار عالم کی اہلیہ کا نام نصرت فاطمہ ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کو امریکا میں دوسروں کی طرح تنہائی (loneliness) کا احساس ہوتا ہوگا۔ میں نے کہا کہ آپ اگر تسبیح فاطمہ کی اسپرٹ کو اپنے اندر شامل کرلیں تو آپ کا گھر فرشتوں سے بھرا رہے گا۔ میںنے کہا کہ تسبیح فاطمہ کوئی پراسرار چیزنہیں۔ تسبیح فاطمہ کا مطلب ہے —فرشتوں کو اپنا مددگار بنانا۔
ڈاکٹر وقار عالم کی لڑکی سائکالوجی کا کورس کررہی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ امریکا میں اِس کورس کے لئے جاب کے مواقع کیسے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ۔ اُن سے بات کرتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ امریکا میں نفسیاتی علاج کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ میں نے کہا کہ اِس کاسبب مادی دنیا سے مایوسی ہے۔ پہلے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ مادی ترقی ان کو سکون دے گی، لیکن مادی ترقی کے باوجود ان کو سکون نہیں ملا۔ اس صورت حال نے امریکا میںنفسیاتی علاج کی ضرورت بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔
نیویارک میں مختصر قیام کے بعد ہمارا قافلہ فلیڈیلفیا (Philadelphia) کے لیے روانہ ہوا۔ یہ پورا سفر اِس طرح گزرا جیسے کہ ہم لوگ سرسبز وادی (green valley) کے درمیان سے گزر رہے ہوں۔ یہ 6 لین کی نہایت عمدہ سڑک تھی۔ سڑک کے دونوں طرف درختوں کی گھنی قطاریں تھیں۔ ہوائی کثافت (air pollution)بہت کم تھی۔
فطرت کے اِن مناظر کو دیکھ کر میں نے کہا کہ مومن کے لیے یہ مناظر ایک کائناتی سامانِ معرفت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر عارفانہ ذہن پیدا ہوچکا ہو تو اس کے لیے یہ پورا سفر ایک ربانی تجربہ بن جائے گا۔ وہ تخلیق کے مناظر میں خالق کی موجودگی (presence) کا تجربہ کرے گا۔ اس کے لیے یہ پورا سفر سفرِ معرفت بن جائے گا۔
تقریباً 2 گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہم لوگ فلیڈیلفیا میں خواجہ کلیم الدین کے مکان پر پہنچے۔ اُن کا یہ مکان شہر سے دور ایک دیہی علاقہ (countryside) میں واقع ہے جس کا نام بن سلیم (Bensalem)ہے۔ امریکا میں دیہی علاقے نہایت صاف ستھرے اور پر فضا ہوتے ہیں۔ لوگ عام طورپر شہروں میں بزنس یا جاب کرتے ہیں اور دیہی علاقے میں گھر لے کر یہاں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں کے دیہی علاقوں میں وہ تمام سہولتیں پوری طرح موجود ہوتی ہیں جو بڑے بڑے شہروں میں پائی جاتی ہیں۔
اس سفر کا پہلا اجتماع 16 جون 2011کی شام کو خواجہ کلیم الدین صاحب کے مکان پر ہوا۔ یہ ایک پر فضا اور وسیع مکان تھا۔ یہاں الرسالہ مشن سے وابستہ افراد، عورت اور مرد، دور دور سے آئے۔ اِس موقع پر میں نے دعوت کے موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کو سچا داعی بننا ہے تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے دل کو مدعو کی نفرت سے پاک کریں۔ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل ماحول کے بغیر دعوت کا کام کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں، داعی کو یک طرفہ صبرو اعراض کی تعلیم دی گئی ہے۔تقریر کے بعد حاضرین کو بولنے کا موقع دیاگیا۔ ہر ایک نے دعوتی مشن کی نسبت سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
میںنے کہا کہ امریکا میں دعوت کے کام کو منظم طور پر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ لوگ اپنے درمیان ایک شخص کو امیر مقرر کریں۔ مشورہ کے بعد یہ طے ہوا کہ خواجہ کلیم الدین صاحب امریکا کے دعوتی حلقے کے امیر ہوں گے۔ مزید یہ طے ہوا کہ دعوتی مشن سے وابستہ افراد کا ماہانہ اجتماع کیا جائے۔ یہ اجتماع اگر لوگوں کے جمع ہونے کی صورت میں نہ ہوسکے تو الیکٹرانک اجتماع کیا جائے، یعنی ٹیلی فونی رابطہ کے ذریعہ، جس کو عام طورپر ٹیلی فون کانفرنسنگ کہاجاتا ہے۔
اِس موقع پر میں نے کہا کہ اجتماعی کوشش کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا، اور اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لیے باہمی اتحاد ضروری ہے۔ میںنے کہاکہ آپ لوگوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ آپ ہر حال میں اپنے ساتھیوں کے درمیان اتحاد کو قائم رکھیں، کسی بھی عذر کی بنا پر اتحاد کوتوڑنا آپ کے لیے جائز نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ میں سے ہر شخص اپنے اندر ’’رائے کی قربانی‘‘ کا حوصلہ پیدا کرے۔ رائے کی قربانی کے بغیر اتحاد کو برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ آپ باہمی اتحاد کے ساتھ دعوت کا کام کریں۔ اگر کسی معاملے میں ساتھیوں کی رائے مختلف ہو توآپ لوگ باہم مشورہ اور کھلا ڈسکشن کریں۔ اگر اِس ڈسکشن سے اتفاقِ رائے ہوجائے تو بہتر ہے۔ اگر مشورہ اور ڈسکشن کے باوجود کسی رائے پر تمام ساتھیوں کااتفاق نہ ہوسکے تو اُس وقت اپنے ذمے دار کے مشورے پر عمل کریں۔ آپ کا ذمے دار جو رائے دے، اُس پر سب لوگ متفق ہو کر باہمی تعاون سے کام کریں۔ اجتماعی زندگی میں اِس کے سوا اتحاد کا اور کوئی فارمولا نہیں۔
16 جون 2011 کو فجر کی نماز خواجہ کلیم الدین صاحب کی رہائش گاہ پر ادا کی گئی۔ اِس میں میرے ساتھی اور کلیم الدین صاحب کے اہلِ خانہ شریک ہوئے۔ نماز کے بعد میں نے کچھ تربیتی باتیں کہیں۔ مثلًاً یہ کہ انسان (آدم) کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو جنت میںبسایا، لیکن شجرِ ممنوعہ کا پھل کھانے کے بعد اس کو موجودہ زمین پر بھیج دیا گیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو پہلے یہ موقع دیاگیا تھا کہ اس کی نسل عمومی طور پر جنت میں داخلہ پائے، لیکن آدم کی روش سے یہ بات سامنے آئی کہ جنت انسان کو عمومی بنیاد پر نہیں، بلکہ انتخابی بنیاد پر دی جانی چاہئے۔ اِس لیے انسان کو موجودہ زمین پر بسایا گیا۔ اب وہی انسان جنت میں جائے گا جو اپنے عمل سے اس کا استحقاق ثابت کرے۔
ایک بات میں نے یہ کہی کہ انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ پیدائشی طورپر ایک آئڈیل دنیا کا طالب ہے۔ اِس آئڈیل دنیا کا دوسرانام جنت (Paradise) ہے۔ انسان کی اِس نفسیات میں ایک اہم سراغ (clue) موجود ہے، اور وہ جنت کا وجودہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ— طالب کا وجود مطلوب کی موجودگی کاایک فطری ثبوت ہے۔
یہاں کے زمانہ قیام میں برابر لوگوںسے ملاقاتیں اور گفتگو ئیں ہوتی رہیں۔ اِس طرح مختلف قسم کے تجربات پیش آئے۔ مثلاً ایک ملاقات میں ایک صاحب نے کہا کہ میں ایک سنی فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میری بیوی شیعہ خاندان میں پیدا ہوئیں۔ بعد کو ہم دونوں نے آپ کا لٹریچر پڑھا۔ اب ہم دونوں نہ شیعہ ہیں اور نہ سنی۔ اب ہم صرف مسلمان ہیں۔
ایک صاحب نے کہا آپ بڑی عمر کے لوگوں کی اصلاح کا کام کررہے ہیں۔زیادہ مفید طریقہ یہ ہے کہ آپ اسکول کھول لیں اور ابتدائی عمر سے اصلاح کا کام شروع کریں۔ انھوںنے کہا :
Catch them at tender age.
میں نے کہا کہ یہ نظریہ عملاً غلط ثابت ہوچکا ہے۔ بہت سے لوگوں نے یہ کام کیا اور بچوں کو لے کر انھیں اسکولوں میں پڑھایا، لیکن اس کا مطلوب نتیجہ نہ نکل سکا۔ اِس لیے آپ کو چاہیے کہ آپ نتیجہ (result) کی بنیاد پر اپنی رائے بنائیں، نہ کہ محض تصوراتی نظریے کی بنیاد پر۔ میں نے کہا کہ اصل کام ذہن کی تشکیل (intellectual engineering) ہے، جو کہ صرف پختگی (maturity) کی عمر میں کی جاسکتی ہے۔ناپختگی (immaturity) کی عمر میں ذہن کی مطلوب تشکیل ممکن نہیں۔
مسٹر ندیم کاظمی امریکا کے ایک معروف شخص ہیں جو عرصے سے ملّی ورک میں مشغول ہیں۔ میںنے گفتگو کے دوران دعوتی کام کی اہمیت بتائی۔ میںنے کہا کہ فارمل ایجوکیشن (formal education) صرف پروفیشن کی نسبت سے ہے۔ جہاں تک شخصیت سازی کا تعلق ہے، اس کے لیے صرف انفارمل ایجوکیشن (informal education) ہی مفید ہوسکتی ہے۔ ان کو ہمارے یہاں کا مطبوعہ انگریزی لٹریچر دیاگیا۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ قرآن کا ڈسٹری بیوشن کررہے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک اچھا کام ہے، لیکن یہ ڈسٹری بیوشن دعوت کے نام پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مذہبی ہم آہنگی (interfaith harmony) کے نام پر ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ہم قرآن کا ڈسٹری بیوشن دعوت کے عنوان سے کررہے ہیں، آپ اس کام کو مذہبی ہم آہنگی کے نام سے کرنا شروع کردیجئے۔ آپ تجویز مت پیش کیجئے، بلکہ عملاً خود اِس کام کو شروع کردیجئے۔
16 جون 2011کی شام کو ڈیوڈ شینک (Rev. David Shenk) اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مسلم- کرسچن ڈائلاگ کے موضوع پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ اپنی اِ س کتاب میں وہ 52 ایسے سوالات کے جوابات دے رہے ہیں، جو کہ عیسائیت کے بارے میں لوگ عام طورپر پوچھتے ہیں۔
میں نے مسٹر ڈیوڈ سے ایک سوال پوچھا۔ میںنے کہا کہ اتنا زیادہ کوشش کے باوجود مسلم-کرسچن ڈائلاگ نا کام کیوں ہے۔ پھر میں نے کہا کہ میں ایسے کئی ڈائلاگ میں شریک ہوا ہوں۔ میںنے پایا ہے کہ اکثر لوگ ڈبیٹ(debate) اور ڈائلاگ میں فرق نہیں کرتے۔ وہ ڈائلاگ کے نام پر سیمنار کرتے ہیں اور پھر وہاں ڈبیٹ کرنے لگتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ڈائلاگ کا مقصد کامن گراؤنڈ تلاش کرنا ہوتا ہے، جب کہ ڈبیٹ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی سے مقابلہ میں اپنی برتری کو ثابت کیاجائے۔ سب سے پہلے اِس سوچ کو بدلنا چاہیے۔ اِس کے بعد ہی کوئی ڈائلاگ مفیدہوسکتا ہے۔
مسٹر ڈیوڈ نے بتایا کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ریورنڈ (Reverend) کا ٹائٹل استعمال نہیں کرتے۔انھوں نے کہا کہ خدا کی نظر میں سب برابر ہیں۔ جب ہم خدا کے یہاں پہنچیں گے تو وہاں ہم ’’ریورنڈ‘‘ نہیں کہے جائیں گے۔
انھوں نے اپنی نئی کتاب (Time in Mogadishu) دی۔ جاتے وقت انھوںنے کہا:
You are a group of scholars.
16 جون 2011 کی شام کو مغرب کی نماز میں سورہ الفیل اور سورہ قریش پڑھی گئی۔ نماز کے بعد دونوں سورتوں کی روشنی میں، میں نے بتایا کہ اِن سورتوں میں داعی گروہ کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے، وہ یہ کہ خدا نہ صرف داعی گروہ کی مدد کرے گا، بلکہ وہ اس گروہ کی بھی مدد کرے گا جو ابھی صرف پوٹنشیل داعی گروہ کی حیثیت رکھتا ہو، حتی کہ اگر اسباب کے اعتبار سے، اس کی حفاظت کے مواقع نہ ہوں تو خدا ایسے گروہ کو اپنی خصوصی نصرت کے ذریعے بچائے گا، جیساکہ بنو اسماعیل، جو کہ پوٹنشیل داعی گروہ کی حیثیت رکھتے تھے، ان کو واقعۂ فیل کے وقت خدا کی خصوصی نصرت کے ذریعے بچایا گیا۔
ایک اسلام پسند مسلمان نے گفتگو کے دوران کہا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات (complete code of life) ہے۔ میںنے کہا کہ اسلام کی یہ تعبیر درست نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل اسپرٹ ہے جو ہمارے پورے وجود کو اللہ کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ اِس کے بعد میں نے مذکورہ مسلمان کو صحابی رسول صعصعہ بن معاویہ کا واقعہ سنایا۔ روایت کے مطابق، صعصعہ بن معاویہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ نے ان کو سورہ الزلزال سنائی، یہاں تک کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے اِس آیت پر پہنچے: فمن یعمل مثقال ذرۃٍ خیراً یرہ، ومن یعمل مثقال ذرّۃ شراً یرہ(99: 7-8)۔ صعصعہ بن معاویہ نے اِس آیت کو سن کر کہا: حسبی أن لا أسمع غیرہا (اِس کے بعد میں کچھ اور نہ سنوں، تب بھی یہ میرے لیے کافی ہے)۔
مذکورہ آیت صرف محاسبۂ آخرت کی آیت تھی، مگر صحابی رسول کو اِسی ایک آیت میں پورا اسلام مل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مکمل آئڈیالوجی کانام مکمل اسلام ہے، نہ کہ مکمل کوڈ کا۔ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کا نام دینا، اسلام کو ایک مینول فارم (manual form) کی حیثیت دینا ہے۔
خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر پر روزانہ ہماری تربیتی مجلسیں ہوتی تھیں۔ روزانہ مختلف اوقات میں، میں کسی تربیتی نکتے پر نصیحت کے انداز میں گفتگو کرتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ہمارے ساتھیوں میں سے بعض افراد شاپنگ یا سائٹ سیئنگ (sight seeing) کے لیے شہر چلے گئے، اور وہ اس تربیتی مجلس میں شریک نہ ہوسکے۔ وہ جب واپس آئے تو میں نے اُن سے کہا کہ آپ لوگ اِس کو معمولی بات سمجھ رہے ہیں، مگر یہ ایک نہایت سنگین بات ہے۔ جو لوگ معمولی عذر (excuses) کی بناپر اِس مجلس میں شریک نہیں ہوئے، وہ فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوگئے۔فرشتوں کی صحبت کوئی سادہ بات نہیں۔ فرشتوں کی صحبت سے انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرتی ہے۔ یہی خدائی انعام ہے۔ یہ خدائی انعام اِسی دنیا سے شروع ہوجاتا ہے اور وہ آخرت تک چلا جاتا ہے۔
ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ شہید جب آخرت میں اپنا اجر دیکھے گا تو وہ یہ تمنا کرے گا کہ کاش، میں 100 بار شہید ہوتا۔ میں نے کہا کہ یہ بات صرف معروف شہادت کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ دعوتِ دین کی راہ میں دی جانے والی ہر قربانی پر صادق آتی ہے۔
ایک گفتگو کے دوران میں نے کچھ مسلمانوں سے کہا کہ اہلِ ایمان کے لیے دہرا اجر کی بشارت دی گئی ہے، مگر یہ کوئی فضیلت نہیں۔ یہ اہلِ ایمان کی دہری ذمے داری کے سبب سے ہے۔ ایک، مومن ہونے کی نسبت سے، اور دوسری، امتِ محمدی کا فرد ہونے کی نسبت سے۔ پیغمبر آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بعد کی انسانی نسلوں تک خدا کا پیغام پہنچائے۔ نبی کا آنا اگرچہ اب ختم ہوگیا ہے، مگر نبی کا مشن ختم نہیں ہوا۔ اگر ایک مسلمان نماز، روزہ نہ کرے تو ا س کا مسلمان ہونا مشتبہ ہے۔ اِسی طرح اگر وہ دعوت کا کام نہ کرے تو اس کا امتِ محمدی میں شامل ہونا مشتبہ قرار پائے گا۔
میں نے کہا کہ قیامت میں اگر امتِ محمدی کے گروپ میں شامل نہ کیاگیا تو اُس وقت ہمارا حال کیا ہوگا۔ روایات میں آیا ہے کہ کچھ لوگوںکو فرشتے پکڑ کر جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو اِس حال میں دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ فرشتے کہیں گے کہ نہیں، اِن لوگوں نے آپ کے بعد آپ کے دین کو چھوڑ دیا تھا۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ انگریزی کے علاوہ، مقامی زبانوں میں کیا کام کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں مقامی زبانوں کے لوگ بھی زیادہ تر مقامی زبانوں کے علاوہ، انگریزی زبان میں پڑھتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں عام طورپر تعلیم یافتہ طبقے کے مطالعے کی زبان انگریزی ہے۔ یہی تعلیم یافتہ طبقہ ملائِ قوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس لیے ہم نے خاص طورپر انگریزی زبان کو اپنی دعوت کی توسیع واشاعت کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہم یہ پسندکرتے ہیں کہ سی پی ایس انٹرنیشنل سے وابستہ افراد زیادہ سے زیادہ انگریزی زبان ہی میں کام کریں:
The official language of CPS is English.
میں نے اپنے تجربے میں پایا کہ امریکا کے لوگ بہت زیادہ پریکٹکل ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ اختلاف کو فوراً ختم کردو اور آگے بڑھو۔ ایسے موقع پر ایک امریکی فوراً یہ کہہ دے گا:
Let’s move on, everything is ok!
آج کل دنیا میں ایمپاورمینٹ (empowerment) کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ مثلاً ویمن ایمپاورمینٹ، کمیونٹی ایمپاورمینٹ، مسلم ایمپاور مینٹ، وغیرہ۔ اِس کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ— سب سے زیادہ ضروری اسپریچول ایمپاور مینٹ ہے:
The most important empowerment is spiritual empowerment.
ایک صاحب نے پوچھا کہ اسپریچول ایمپاورمینٹ کا فارمولا کیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ فارمولا بہت سادہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ — منفی باتوں کو نظر انداز کیجئے اور ہر معاملے میں مثبت پہلو کو دریافت کرنے کی کوشش کیجئے:
Ignore negative experiences, and try to find positive items in everything.
امریکا میں جو تارکینِ وطن (immigrants) ہیں، وہ عام طورپر فخر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ امریکا کو تاریکنِ وطن نے ترقی دی ہے۔ ایک موقع پر کچھ اِس قسم کے لوگوں نے یہ بات کہی۔ میں نے کہا کہ یہ صرف آپ لوگوں کی خوش فہمی ہے۔ اگر آپ لوگ ایسے ہی تھے تو آپ لوگوں نے خود اپنے ملکوں کو ترقی کیوں نہیں دی۔ پھر میں نے کہا کہ امریکاکی خاص صفت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ صرف میرٹ (merit)کی بنیاد پر فیصلہ کرتاہے۔ یہاں کے ہر فرد کو یقین ہوتا ہے کہ اگر اس نے محنت کرکے اپنا جوہر دکھایا تو اس کو ضرور ترقی ملے گی۔ میں نے کہا کہ:
It was Mr. Incentive who developed America and not Mr. Immigrant.
ایک موقع پر کچھ لوگوں سے جنت کا ذکر ہوا۔ میں نے کہا کہ قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ویُدخلہم الجنۃ عرفہا لہم (46:6) ۔ جنت کی یہ پہچان کہاں ہوتی ہے۔ یہ پہچان اِسی دنیا میں ہوتی ہے۔ میں نے کہا امریکا میں ڈیولپمنٹ کاجوکام ہوا ہے، وہ گویا اِسی قسم کا ایک کام ہے۔ میں جب امریکا کے خوب صورت شہروں کو دیکھتاہوں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ:
America is an introductory version of paradise.
17 جون 2011 کوجمعہ کا دن تھا۔ ہم لوگوں نے فلیڈیلفیا کی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی۔ امام صاحب نے انگریزی میں خطبہ دیا۔ اِس خطبے میں انھوںنے غیر مسلموں کے لیے بد دعا کی اور عربی زبان میں اِس طرح کے الفاظ کہے: اللہم أہلک الکفرۃ والیہود والمشرکین۔
میں نے سوچا کہ بات یہ ہے کہ مفروضہ دشمنوں کے لیے بددعا میں مسٹر اور مولوی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ مشرق سے مغرب تک تقریباً ہر مسلمان اِس میں مشغول ہے۔ اگر وہ منہ سے بد دعا نہیں کرتا تو وہ اپنے دل میں منفی خیال لئے ہوئے ہے۔
ایک مجلس میں کچھ لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان مغربی قوموں کے لیے نگیٹیو (negative) ہوگئے ہیں، اِس لیے وہ اِن قوموں کو اپنا مدعو نہ بنا سکے۔ مغرب میں دعوت الی اللہ کے غیر معمولی امکانات موجود ہیں، مگرمذکورہ منفی نفسیات کی بنا پر یہ امکانات واقعہ نہ بن سکے۔ کچھ لوگ بطور خود قرآن کو پڑھ کر اسلام قبول کرلیتے ہیں، لیکن خود مسلمانوں کے اندر حقیقی معنوں میں غیر مسلموں کے لیے کوئی دعوتی عمل موجود نہیں۔ امریکا میں مسلمانوں کی فلاح کے نام پر بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن غیر مسلموں میں دعوت کے لیے حقیقی معنوں میں کوئی تحریک موجود نہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ قرآن میں بہت زیادہ تکرار (repetition) ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تکرار نہیں ہے، بلکہ وہ ایک پہلو کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت ہے۔مثلاً قرآن میں آدم اور ابلیس کا قصہ کئی بار بیان ہوا ہے۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ہر بار اس کا ذکر کسی نئے پہلو سے کیا گیاہے۔
ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ انسان کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو مائنڈ دیاگیا ہے۔ یہ مائنڈ حکمت (wisdom) کو دریافت کرنے کا لامتناہی خزانہ ہے۔ حیوانات اِس حکمت کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ میں نے کہا کہ:
Animal plus wisdom is man. Man plus wisdom is super animal.
18 جون 2011 کی صبح کو ہم لوگوں نے خواجہ کلیم الدین صاحب کی رہائش گاہ پر فجر کی نماز ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد لوگ بیٹھ گئے۔ میںنے کہا کہ حدیث میں آیا ہے: مَن صلی الصبح فہو فی ذمۃ اللہ (جس نے صبح کی نماز ادا کی، وہ اللہ کے ذمے میں آگیا)۔ میںنے کہا کہ یہ کوئی پراسرار بات نہیں، بلکہ یہ ایک معلوم بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ نماز آدمی کے اندر جو صفات پیدا کرتی ہے، وہ اس کے لیے ایک طرف شیطان سے اور دوسری طرف سماج سے حفاظت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مثال کے طورپر نماز کے شروع میں یہ کلمہ ادا کیا جاتا ہے: اللہ اکبر۔ یہ دراصل تواضع (modesty) کا سبق ہے۔ اِسی طرح نماز کے خاتمہ پر کہاجاتا ہے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ نماز اہلِ ایمان کے اندر دوسروں کے لیے سلامتی (peace) کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ یہ دونوں صفات اخلاقی اعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ جس آدمی کے اندر تواضع ہو، اور دوسروں کے لیے اُس کے دل میں سلامتی کا جذبہ ہو، ایسا آدمی اپنے آپ سماج کا سب سے زیادہ مطلوب انسان بن جائے گا۔ اس کا یہ کردار اِس بات کا ضامن بن جائے گا کہ وہ کسی بھی سماج میں ایک با عزت شہری بن کر رہ سکے۔
ایک بار میں نے انڈیا کے ایک مسلم پروفیسرکا سفر نامہ پڑھا۔ یہ بیرونی ملک کا سفر نامہ تھا۔ اِس میں انھوں نے اپنا ایک تجربہ اِس طرح بیان کیا تھا کہ وہاں ٹرین کے ایک سفر میں ایک مسافر نے میوہ جات اور چائے کافی سے ہماری ضیافت کی۔ ہم نے بھی ان کو تحفے میں ہندستانی چائے اور قلم پیش کیا۔ یہ ہماری عادت ہے کہ میں جب بھی غیر ممالک میں جاتاہوں تو کچھ یہاں کی چیزیں ساتھ لے کر جاتا ہوں، تاکہ نئے احباب کو کچھ تحفہ پیش کرسکوں۔
لیکن میرے ساتھ جو لوگ سفر میں آئے تھے، ان کے اندر دعوتی مزاج تھا۔ چناں چہ پورے سفر میں اُن کا یہ حال تھا کہ جب بھی وہ کسی کو دیکھتے تو وہ یہ کوشش کرتے کہ اس کو قرآن کا ترجمہ یا کوئی اور اسلامی پمفلٹ بطور تحفہ پیش کریں۔ یہ سلسلہ دہلی ائر پورٹ سے شروع ہوا، اس کے بعد برابر پورے سفر میں جاری رہا۔ مسلمانوں کے اندر اگر دعوتی مزاج ہو تو یقینا وہ جان لیں گے کہ ان کے پاس دوسروں کو پیش کرنے کے لیے جو سب سے بڑی چیز ہے، وہ قرآن ہے۔
18 جون 2011 کی صبح کو خواجہ کلیم الدین صاحب کی رہائش گاہ پر فجر کی نماز کے بعد مجلس میں کئی لوگ جمع ہوگئے۔ یہاں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ یہاں جو باتیں ہوئیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کی قرآن (3: 64)میں کلمۂ سواء (religious common ground) کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ ایک عمومی اصول ہے۔ اس کو جنرلائز کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ موجودہ زمانے میں داعی اور مدعو کے درمیان امن (peace) کی حیثیت اِسی کلمہ سواء کی ہے۔ آج کے حالات میں ہم کو چاہیے کہ امن کو کامن گراؤنڈ بنا کر لوگوں کے درمیان دعوہ ورک کریں۔
امریکا میں یہ رواج ہے کہ لوگ کار کے ذریعے لمبی لمبی دوری کا سفر کرتے ہیں۔ اِس کے مطابق، امریکا کے زمانہ قیام میں مختلف مقامات پر بہت سے پروگرام بنائے گئے۔ اِن تمام مقامات پر مجھ کو کار کے ذریعے جانا تھا۔ یہ پروگرام زیادہ تر لوگوں کے گھروں پر تھے۔ اِس میں زیادہ تر یہ ہوتا تھا کہ صاحب خانہ کے یہاں پروگرام کے ساتھ کھانے کا بھی انتظام ہوتا تھا۔ لوگ وہاں جمع ہو کر کھانا کھاتے اور پھر پروگرام میں شریک ہوتے۔
فلیڈیلفیا کے سینٹ پال چرچ کی دعوت پر 18 جون 2011 کو وہاں مجھے ایک تقریر کرنے کا موقع ملا۔حاضرین میں چند یہودی سامعین تھے اور زیادہ تر مسیحی۔ مجھے تقریر کا جو موضوع دیاگیا تھا، وہ یہ تھا:
Peaceful Activism in Islam.
میں نے قرآن اور حدیث کے حوالے سے انگریزی زبان میں اِس موضوع پر ایک تقریر کی۔ آخر میں سوال وجواب کا پروگرام تھا۔ ایک کرسچن فادر نے سوال کیا کہ عیسی مسیح نے کہا ہے کہ — اپنے دشمن سے محبت کرو: Love your enemies (Luke 6:35)
انھوں نے کہا کہ کیا قرآن میں بھی اِس طرح کی کوئی تعلیم پائی جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے قرآن کی سورہ حم السجدہ کی وہ آیت پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے:
Good and evil deeds are not equal. Repel evil with what is better; then you will see that one who was once your enemy has become your dearest friend. (41: 34)
اِس کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن کی اِس آیت کے مطابق، کوئی دشمن ابدی دشمن نہیں ہے۔ ہر دشمن ایک امکانی دوست (potential friend) ہے۔ اِس لیے ہم کو چاہیے کہ ہم اِس امکان کو واقعہ بنائیں۔ ہم اپنے مثبت رویّے سے اپنے دشمن کو اپنا دوست بنا لیں۔
سینٹ پال چرچ میں حاضرین کے لیے دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا۔ یہ نہایت سادہ ویجٹیرین کھانا تھا۔ کھانا زیادہ تھا اس لیے وہ کافی بچ گیا۔ آخر میں منتظمین نے حاضرین کو چھوٹے چھوٹے بیگ دئے اور کہا کہ آپ لوگ اِس کھانے کو اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔
امریکی کلچر میں ایک خاص بات یہ ہے کہ امریکی لوگ کسی معاملے میں تکلف نہیں کرتے۔ اِس معاملے میںامریکی کلچر، برٹش کلچر کے برعکس ہے۔ امریکی کلچر میں بے تکلفی کی ایک عجیب مثال یہ ہے کہ یہاں جب کوئی شخص لنچ (lunch) یا ڈنر (dinner) دیتا ہے تو بچے ہوئے کھانے کو پیک کرکے آنے والوں کے حوالے کردیتا ہے، تاکہ وہ گھر جاکر اس کو استعمال کرسکیں۔ یہ یہاں کا عام رواج ہے۔ مسلم گھروں میں بھی میں نے یہی کلچر دیکھا کہ وہ آنے والوں کو کھانا پیک کرکے دے دیتے ہیں۔ اِس طرح یہاں کھانا ضائع نہیں ہوتا۔
19 جون 2011 کو میری لینڈ (Maryland State)میں میرے دو پروگرام ہوئے۔ فلیڈیلفیا سے میری لینڈ کا سفر بذریعہ کار دوگھنٹے میں طے ہوا۔ اِن سفروں کے لیے خواجہ کلیم الدین صاحب نے ایک بڑی گاڑی کا انتظام کیا تھا جس میں ہمارے تمام ساتھی بیٹھ جاتے تھے۔ ایک لمبی سیٹ پر میںلیٹ کر سفر کرتا تھا۔ سفرکے دوران میں سوگیا تھا۔ میرے ایک ساتھی نے مجھ کو جگادیا۔ انھوں نے کہا کہ کراچی سے مولاناعبداللطیف صاحب کا ٹیلی فون آیا ہے، وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سوتے ہوئے آدمی کو جگانا نہیں چاہئے۔ میرے ساتھی نے کہا — ساری (sorry) ۔ میں نے کہا کہ یہ ’’ساری‘‘ کی بات نہیں۔ یہ ایک اصول کو جاننے کی بات ہے، وہ یہ کہ جب کوئی شخص سورہا ہو تو اُس وقت اُس کو نہ جگائیے۔ بعد کو جب وہ اٹھے تو اُس وقت آپ کو اس سے جو کہنا ہے، وہ کہئے۔
میری لینڈ میں میرے دو پروگرام تھے۔ایک مز گل زیبا کی رہائش گاہ پر، اور دوسرا میری لینڈ کی مسجد میں۔ مز گل زیبا کے مکان پر سینئر افراد کے علاوہ نوجوان افراد بھی اکھٹا تھے۔ مز گل زیبا کے بیٹے ہارون (12 سال) کو میں نے کچھ نصیحت کے کلمات کہے۔ پھر ان کی ڈائری پر میں نے یہ الفاظ لکھ دئے:
Make Islam your mission, and make learning your profession.
میری لینڈ اسٹیٹ کی مسجد میں جو پروگرام تھا، اس کا عنوان یہ تھا:
Islam and Modern Age
یہاں موضوع کی مناسبت سے میں نے کچھ باتیں کہیں۔ آخر میں سوال وجواب ہوا۔ یہ تمام توضیحی سوالات تھے۔ کسی نے کوئی تنقیدی سوال نہیں کیا۔ ایک سوال اسوۂ رسول پر تھا۔ میں نے کہا کہ اسوۂ رسول کا معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم کو چاہیے کہ ہم رسول اللہ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور آپ کے طریقے کو اپنی زندگی میں ڈھالیں۔ مثلاً رسول اللہ نے نماز کے بارے میں فرمایا: صلوا کما رأیتمونی أصلّی۔ اِس اصول کا تعلق صرف نماز سے نہیں ہے، بلکہ زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات سے ہے۔ اِس حدیث کا توسیعی مطلب یہ ہوگا: اعملوا کما رأیتمونی أعمل(جس طرح تم مجھ کو عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہو، اسی طرح تم بھی عمل کرو)۔
میری لینڈ کی ایک مجلس میں ایک مسلمان تاجر سے ملاقات ہوئی۔ وہ امریکا میں کتابوں کی نشر و اشاعت کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے قرآن کا ایک انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ آپ کا ترجمہ دیکھنے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب میں آپ ہی کے ترجمے کو پھیلاؤں گا، کیوں کہ مختلف پہلوؤ ںسے یہ ترجمہ زیادہ بہتر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک سروے کے مطابق، اِس ترجمہ قرآن کو پڑھ کر ہر سال تقریباً 300 امریکن اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ ابھی حال ہی میں ایک بڑے عہدے پر فائز امریکن بھی اِس ترجمہ قرآن کو پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔
بالٹیمور میں ایک اسلامی ادارہ قائم ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
Islamic Society of Baltimore (ISB)
اِس سوسائٹی کے تحت بالٹیمور کی جامع مسجد میں 19 جون 2011 کی شام کو ایک پروگرام رکھا گیا۔ یہ ایک جدید طرز کی کافی بڑی مسجد تھی۔ اِس میں نمازیوں کے لیے ہر طرح کی سہولت موجود تھی۔ اِس پروگرام کا اشتہار چھاپ کر لوگوں کو پیشگی طورپر اِس کی اطلاع کردی گئی تھی۔ اِس پروگرام کے لیے تقریر کا عنوان یہ تھا: Islam in the Modern Age
اِس موضوع پر انگریزی زبان میں 45 منٹ کی ایک تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔
امریکا میں عام طور پر رواج ہے کہ لوگ یہاں مغرب سے پہلے شام کا کھانا (dinner) کھاتے ہیں۔ کھانے کے بعد مغرب کی نماز ہوتی ہے اور اس کے بعد پروگرام شروع ہوتا ہے، جو کہ دیر تک چلتا ہے۔ بالٹیمور کی مسجد میں بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ پروگرام عصر کے بعد شروع ہوا، اور رات کو دس بجے کے بعد عشا کی نماز پر اس کا خاتمہ ہوا۔ پروگرام کے بعد مز گل زیبا نے تمام شرکا کو الرسالہ اردو اور انگریزی کی کاپیاں برائے مطالعہ پیش کیں۔ اِس کے بعد ہم لوگ میری لینڈ واپس آگئے۔ یہاں ہم لوگوں کا قیام مز گل زیبا کے مکان پر تھا۔ صبح کو میری لینڈ سے فلیڈیلفیا کے لیے واپسی ہوئی۔
20 جون 2011 کو خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر پر حسب معمول اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک تربیتی نشست ہوئی۔ خواجہ کلیم الدین ایک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ آج وہ اپنے اسکول چلے گئے، اِس لیے آج کوئی خارجی پروگرام نہیں تھا۔ آج کی مجلس میں مجھ سے تربیت اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا۔ میں نے لوگوں کو یہ حدیث رسول سنائی: ما نحل والد ولدہ من نُحل أفضل من أدب حسنٍ (مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 4977 ) یعنی کسی والد کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرے۔
میں نے کہا کہ یہاں تربیت سے مراد یہ ہے کہ اولاد کو صحیح اسلامی زندگی گزارنے کے لیے تیار کیا جائے۔ اِس میں عبادت کے علاوہ تمام اخلاقی اوصاف شامل ہیں۔ مثلاً ڈسپلن، حکمت (wisdom) اور زندگی کے اصول، وغیرہ۔
خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر کے باہر سڑک کے پاس ایک بڑے قسم کا ڈسٹ بن (dustbin) رکھا ہوا تھا۔ میںنے قریب جاکر دیکھا تو اس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
Waste Management
امریکا میں کوڑا (waste) اٹھانے کا طریقہ یہ ہے کہ گھر والے خود اپنے گھر کا کوڑا نکال کر اپنے گھر کے باہر رکھے ہوئے ایک بند ڈسٹ بن(dustbin) میں رکھ دیتے ہیں۔ بعد کو ایک بند گاڑی آتی ہے اور اس کوڑے کو وہاں سے اٹھا کر لے جاتی ہے۔
ایک مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہر گز نہیں۔ اصل یہ ہے کہ مسلمان اپنی نادانی کی قیمت ادا کرتے ہیں:
Muslims are paying the price of their own unrealistic policies.
مثلاً سڑک پر جب ہندوؤں کا جلوس نکلتا ہے تو مسلمان غیر ضروری طور پر اُن لوگوں سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ جلوس کا راستہ بدلو۔ اِس پر دونوں فرقوں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے اور فرقہ وارانہ فساد کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسی حالت میں عقل کا تقاضا یہ ہے کہ آپ جلوس کو نہ روکیں، وہ خاموشی سے گزر جائے گا اور فرقہ وارانہ فساد نہیں بھڑکے گا۔ مگر مسلمان عام طورپر ہر جگہ عقل کے اِس امتحان میں ناکام ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔
ایک صاحب نے بعض منکرینِ حدیث کا تذکرہ کیا۔ میں نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے، وہ بلاشبہہ غلطی میں مبتلا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث، حکمتِ اسلام کا خزانہ ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن میں دینی احکام کا اصولی علم دیا گیا ہے اور اس کی تفصیلات حدیث سے معلوم ہوتی ہیں۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے، لیکن اِس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حدیث، ربانی حکمت (divine wisdom) کو جاننے کا واحد مستند ذریعہ ہے۔
امریکا کے زمانۂ قیام میں خواجہ کلیم الدین صاحب کی لڑکی مز انعم (18 سال) سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے بتایا کہ مئی 2011 میں وہ کالج کے ایک تعلیمی پروگرام میں ساؤتھ افریقہ گئیں۔ وہاں انھیں چند شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔انھوں نے ساؤتھ افریقہ کے بارے میں چند باتیں بتائیں۔ ایک بات انھوںنے یہ بتائی کہ ساؤتھ افریقہ میں حقوق انسانی (Human Rights) کے تحفظ کے لیے بہت سے قانون بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو قانونی طورپر ہر قسم کا حق دیاگیا ہے۔ مثال کے طورپر یہاں کے قانون کے مطابق، ایک وہ حق بھی ہے جس کو رائٹ ٹوپریگننسی (Right to Pregnancy) کہاجاتا ہے۔ اس کو سن کر میں نے کہا کہ یہ موجودہ زمانے کا کمال سمجھا جاتا ہے کہ اس نے ہر ملک میں حقوق انسانی کے قوانین بنائے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ باعتبار نتیجہ اس قانون سازی کے بعد کیا ہوا۔ میڈیا کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک میں حقوق انسانی کے قوانین جس طرح کاغذ پر لکھے ہوئے ہیں، اس طرح وہ حقیقی انسانی زندگی میں واقعہ نہیں بنے۔
اصل یہ ہے کہ حقوق انسانی کا تحفظ قانون سازی کے ذریعہ نہیں ہوتا، بلکہ ذہن سازی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس معاملے کا تعلق ایجوکیشنل ایکٹوزم سے ہے، نہ کہ لیگل ایکٹوزم سے۔ عجیب بات ہے کہ ساری دنیا میں حقوق انسانی کے نام پر ہیومن رائٹس ایکٹوزم کی دھوم ہے۔ آج کی دنیا کا ایک تلخ پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ایجوکیشن کو پروفیشنل سے وابستہ کردیاگیا ہے، تعمیر شخصیت جدید ایجوکیشن کا موضوع نہیں۔
خواجہ کلیم الدین صاحب، حیدرآباد (انڈیا) میں 1952 میں پیدا ہوئے۔ انھوںنے عثمانیہ یونی ورسٹی (حیدرآباد)سے بی ایس سی اور بھوپال یونی ورسٹی سے ایم ایس سی (کیمسٹری) کی ڈگری لی۔ اِس کے بعد وہ 1982 میں نائجیریا (افریقہ) چلے گئے۔ اس کے بعد وہ 1989 میں نائجیریا سے امریکا منتقل ہوگئے۔ اپنے پروفیشن کے اعتبار سے وہ اسکول ٹیچر ہیں، اور مشن کے اعتبار سے وہ پوری طرح دعوت الی اللہ کے مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔خواجہ کلیم الدین صاحب ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ وہ الرسالہ کے پہلے شمارہ (اکتوبر 1976) سے اس کا برابر مطالعہ کررہے ہیں۔ جب وہ نائجیریا میں تھے، اُس وقت انھوں نے خود اپنی کوشش سے الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن نکالنا شروع کیا تھا۔ اب کلیم الدین صاحب مستقل طورپر امریکا میں مقیم ہیں اور اپنے ساتھیوں کے تعاون سے وہ دعوت کا کام اتنے بڑے پیمانے پر کررہے ہیں کہ حالیہ سفر میں جب میں نے قریب سے اُن کے کام کو دیکھاتو میں نے کہا کہ آپ نے تو امریکا میں دعوہ انڈسٹری قائم کردی۔
خواجہ کلیم الدین صاحب ’الرسالہ فورم انٹرنیشنل‘ (Al-Risala Forum International) کے تحت یہاں دعوتی کام کررہے ہیں۔ ادارے کا پتہ حسب ذیل ہے:
Al-Risala Forum International
2665 Byberry Road, Bensalem, PA 1920 (USA)
Tel: 617-960-7156, email: kkaleemuddin@gmail.com
Website: www.alrisala.ecrater.org
امریکا میں ان کے پاس ایک نہایت کشادہ گھر ہے۔ انھوںنے اپنے پورے گھر کو دعوہ سنٹر بنا رکھا ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب مختلف پہلوؤں سے جو دعوتی کام کررہے ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ انھوںنے الرسالہ مشن کو انٹرنیٹ کے دور میں داخل کیا۔ انھوں نے بطور خود الرسالہ کی ویب سائٹ (www.alrisala.org) بنائی۔ اِس ویب سائٹ پر انھو ں نے ماہ نامہ الرسالہ کے شمارے اور مطبوعات الرسالہ کو صوتی (audio)اور بصری (visual) انداز میں اپ لوڈ کردیا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر اس کے ذریعے دعوتی کام ہورہا ہے۔ امریکا کا موجودہ سفر خواجہ کلیم الدین صاحب اور ان کے ساتھیوں ہی کی کوشش سے عمل میں آیا۔
اِس سفر کی دریافتوں میں سے ایک دریافت مسز تسنیم تھیں۔ وہ خواجہ کلیم الدین کی اہلیہ ہیں اور عجیب وغریب صلاحیتوں کی مالک ہیں۔ وہ گھر کا پورا کام کرتے ہوئے مسلسل طورپر دعوہ ورک کرتی ہیں۔ امریکا میں ان کے بہت سے رشتے دار ہیں۔ ان سب کو وہ دعوہ ورک کے لیے ٹیلی فون پر انکریج (encourage) کرتی رہتی ہیں اور ان کو دعوہ لٹریچر بھیجتی رہتی ہیں۔ وہ پورے معنوں میں خواجہ کلیم الدین صاحب کی دعوہ پارٹنر ہیں۔
مجھے اِس سلسلے میں کئی تجربے ہوئے۔ ایک بار میں کار کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام پر جارہا تھا۔ راستے میں ہم ایک ریسٹ ایریا (Rest Area) پر رکے۔ یہاں ایک امریکی مسلمان اپنی اہلیہ کے ساتھ مل گئے۔ مسز تسنیم نے ان سے باقاعدہ گفتگو کی اور ان کو کتابیں دیں ۔ بعد کو ان کا ٹیلی فون آیا اور مسز تسنیم کی دعوت پر وہ اپنی اہلیہ اور اپنے دو بچوں کے ساتھ ان کے گھر پر ملنے آئے۔
21 جون 2011 کو ہم لوگ بذریعہ کار یارڈلے (Yardley) پہنچے۔ یہاں ڈاکٹر انیس میمن کے گھر پر ایک پروگرام رکھا گیا تھا۔ حسب معمول مغرب سے پہلے شام کا کھاناکھایا گیا۔ اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی گئی، پھر میری تقریر ہوئی۔ اِس پروگرام میں مردوں کے علاوہ، عورتیں بھی کافی تعداد میں موجود تھیں۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ ڈاکٹر انیس میمن ہمارے دعوتی مشن میں شامل ہیں۔ وہ اپنے کلینک میں ہمارے یہاں کا چھپا ہوا ترجمہ قرآن اور ریلٹی آف لائف کی کاپیاں رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ہر مریض (patient) کو قرآن کا ترجمہ اور ریلٹی آف لائف بطور اسپریچول گفٹ (spiritual gift) پیش کرتے ہیں۔یہاں ایک موقع پرکچھ غیر مسلم حضرات کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا۔ ایک صاحب نے اِس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا— وہ (ترجمہ) قرآن آگیا جس کا لمبی مدت سے انتظار تھا:
Here comes the much awaited Quran.
قرآن کے بارے میں یہ تجربہ ہمارے ساتھیوں کو بار بار پیش آیا ہے۔ جب لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا جاتا ہے تو وہ اس کو اِس طرح لیتے ہیں جیسے کہ وہ پہلے سے اس کے منتظر تھے۔
ایک صاحب 40 سال پہلے امریکا میں آئے تھے۔ یہاں انھوں نے بزنس کے علاوہ، کئی ملی کام کئے۔ مثلاً مسلم لڑکیوں کے لیے اسکول کا قیام، وغیرہ۔ پہلے وہ اپنے کاموں کے بارے میں بہت زیادہ پُرامید تھے، مگر معلوم ہوا کہ نتیجے کو دیکھ کر وہ مایوس ہوگئے، یہاں تک کہ اب وہ امریکا کو چھوڑ کر اپنے سابق وطن پاکستان واپس چلے گئے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہا ںانھوں نے ایک یتیم خانہ قائم کیا ہے اور سوشل ورک (social work) کررہے ہیں۔
میرے علم کے مطابق، یہ تجربہ بہت عام ہے۔ میں انڈیا کے اندر اور انڈیا کے باہر کئی ایسے مسلمانوں کو جانتاہوں جنھوں نے ملی ورک شروع کیا۔ ابتدا میں وہ اپنے کام سے بہت پُرامید تھے، لیکن بعد کو جب انھوں نے نتیجہ (result)دیکھا تو وہ اپنے کام کے بارے میں مایوس ہوگئے اور آخر تک اِسی مایوسی کے عالم میں پڑے رہے۔اِس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے یہاںمیں نے ایک صاحب سے کہا کہ اِس قسم کا حادثہ صرف ملی ورک میں پیش آتا ہے، دعوہ ورک میں نہیں۔ اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ ملی ورک اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ایسا کام ہے جس میں ہمیشہ نتیجہ (result) مطلوب ہوتا ہے، مگر دعوہ ورک کا نشانہ نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ تبلیغ ہوتا ہے، یعنی مدعو تک اپنی بات کو پہنچادینا۔ اِسی حقیقت کو قرآن کی اِس آیت میںبیان کیاگیا ہے: فذکّر إنما أنت مذکّر، لست علیہم بمصیطر۔
یہاں سفر کے دوران ایک بار کراچی سے مولاناعبد اللطیف صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ وہ اور ان کے ساتھی پاکستان کے مختلف مقامات پر بڑے پیمانے پر دعوتی کام کررہے ہیں۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ ہر مہینے ماہ نامہ الرسالہ پاکستان سے چھاپ کر شائع کرتے ہیں۔ عبد اللطیف صاحب نے پوچھا کہ امریکا کے سفر میں آپ کے ساتھ کتنے آدمی ہیں۔ میں نے کہا کہ ہمارے ساتھ صرف اتنے ہی آدمی نہیں ہیں جو دہلی سے آئے ہیں، بلکہ وہ اُس سے بہت زیادہ ہیں، یہ فرشتے ہیں۔ ہمارے ساتھ فرشتوں کی ایک فوج ہے۔ جو لوگ تخریبی کام کرتے ہیں، اُن کے ساتھ شیطان کی فوج ہوتی ہے۔ ہم دعوتی کام کررہے ہیں، اِس لیے ہمارے ساتھ فرشتوں کی فوج ہے۔
جب میں امریکا میں تھا تو انڈیا سے میرے ایک ساتھی نے نئی دہلی کے ایک اردو ماہ نامہ (جولائی 2011) میں چھپا ہوا ایک مضمون بذریعہ ای میل مجھ کو بھیجا۔ یہ مضمون 4 صفحہ پر مشتمل تھا۔ اِس مضمون میں میرے بارے میں یہ الفاظ درج ہیں:
’’مثبت مثبت کی رٹ لگاتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ نفسیاتی طور پر منفی ذہنیت مولانا پر مسلط ہوگئی۔ اب انھیں اپنے علاوہ، پوری تاریخ اسلام میں کہیں بھی کوئی قابلِ قدر شخصیت یا تحریک نظر نہیں آتی۔ مثبت مثبت کی رٹ کے ساتھ تاریخِ اسلام، شخصیاتِ اسلام اور ماضی وحال کے مسلمانوں میں کیڑے نکالنا مولانا کا محبوب مشغلہ بن گیا‘‘ (صفحہ 61 )
اِس قسم کی بات کئی لوگوں نے میرے بارے میں کہی یا لکھی ہے۔ میں نے اُن لوگوں سے کہا کہ آپ متعین حوالے کے ساتھ بتائیں کہ میں نے اِن الفاظ میں اِس طرح کی بات کہاں لکھی ہے۔ لیکن اُن میں سے کسی نے میری اپنی تحریر کے حوالے سے اِس کا کوئی ثبوت نہیںدیا۔ اصل یہ ہے کہ میری تحریریں تجزیاتی انداز میں ہوتی ہیں۔ مگر اپنے غیر علمی ذہن کی بنا پر لوگ اس کو سمجھ نہیں پاتے، وہ علمی تحلیل وتجزیہ کو تعییب اور تنقیص کے ہم معنی سمجھ لیتے ہیں۔
امریکا میں کچھ ایسے مسلمان ہیں جنھوں نے شروع میں الرسالہ مشن کا ساتھ دیا، مگر دھیرے دھیرے وہ اس سے الگ ہوگئے۔ ایسے لوگوں سے گفتگو کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ لوگ ملی ذہن کے لوگ تھے۔ ان کی سوچ مسلم اورینٹیڈ (Muslim-oriented)سوچ تھی۔ وہ الرسالہ مشن سے یہ سوچ کر قریب ہوئے کہ یہ گویامسلم ایمپاور منٹ کا ایک مشن ہے۔ دھیرے دھیرے جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ انسان اورینٹیڈ مشن ہے اور اس کا خاص نشانہ غیر مسلموں میں قرآن کا پیغام پہنچانا ہے تو وہ اِس سے دور ہوگئے۔ یہ لوگ دوسرے اکثر مسلمانوں کی طرح ملی کام کو کام سمجھنے والے تھے۔ ان کے نزدیک دوسرے لوگ ان کی نظر میں صرف ’’غیر قوم‘‘ یا ’’اغیار‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے کئی لوگ میرے تجربے میں آئے ہیں، انڈیا میں بھی اور انڈیا کے باہر بھی۔
ہمارے کچھ ساتھی خواجہ کلیم الدین صاحب کے ساتھ فلیڈیلفیا کے پوسٹ آفس گئے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب 11 کارٹن باکس لے کر وہاں گئے تھے۔ ہر باکس میں 100 قرآن تھے۔ یہ قرآن کینیڈا، کیلی فورنیا اور امریکا کے دوسرے شہروں کے لیے بذریعہ ڈاک روانہ کئے گئے۔ امریکا میں کئی شہروں میں دعوہ ورک ہو رہا ہے۔ اُن کے لیے فلیڈیلفیا کے دعوہ سینٹر سے برابر قرآن بھیجا جاتا ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب کی یہ دعوتی سرگرمیاں امریکا اور کینیڈا دونوں ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ روزانہ دعوت کے مختلف کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ خواجہ کلیم الدین صاحب کے گھر پر یہ منظر دیکھ کر میں نے کہا کہ—آپ نے تو یہاں ایک دعوہ انڈسٹری کھول دی ہے۔
امریکا کے لیے میرا یہ دسواں سفر تھا۔ اِس بار میرا سفر نسبتاً زیادہ لمبا رہا۔ بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں، بہت سے لوگوں کے گھروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرا عام تجربہ یہ تھا کہ یہاں کے لوگ بظاہر پُرراحت زندگی گزاررہے ہیں، لیکن یہاں عام طورپر یہ حال ہے کہ جب بھی اُن سے کسی سنجیدہ موضوع پر بات ہوتی ہے تو اچانک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذہنی بونے پن (intellectual dwarfism) کا شکار ہیں۔ گویا کہ ہر عورت اور مرد زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ :
Here, I am comfortable physically, but here I am deprived intellectually.
ذہنی ارتقا سے اِس محرومی کا راز کیا ہے۔ اِس کا راز یہ ہے کہ امریکا کا کلچر جبری مادیت (compulsory materialism) کا کلچر ہے۔ یہاں کے انسان کے پاس زندگی کے روحانی پہلو کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں، اور فطرت کا قانون ہے کہ زندگی کے جس پہلو کو لمبی مدت تک غیراستعمال شدہ حالت میں رکھا جائے، وہ معطّل ہو کر رہ جاتا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ بادشاہ بابر جب کشمیر گیا اور اس نے وہاں کے فطری حسن کو دیکھا تو اس نے کہا:
اگر فردوس برروئے زمین است ہمین است وہمین است و ہمیں است
لیکن بابر (وفات: 1530 )کا یہ قول غالباً امریکا کے خوبصورت شہروں پر زیادہ صادق آتا ہے۔ امریکا میں فطرت کے مناظر بہت زیادہ ہیں۔ پھر یہاں کے مناظر کو خوب صورت تر بنا کر ان کے درمیان خوب صورت شہر بسائے گئے ہیں۔ اس طرح امریکا کے شہروں کے بارے میں زیادہ درست طورپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ امریکا میں فطرت کے مناظر کے درمیان بنے ہوئے یہ خوب صورت شہر گویا ’مساکن طیبۃ فی جنات عدن‘کا ایک بعید تعارف ہیں۔
لیکن دو ہفتہ سے زیادہ امریکا میں قیام اور یہاں کے مختلف شہروں میں بار بار جانے کے بعد میں نے دریافت کیا کہ امریکا کو اگر جنت سے تشبیہہ دی جائے تو امریکا کی جنت، جنت مع الحزن کا مصداق ہوگی اور آخرت کی جنت، جنت بغیر الحزن کا مصداق۔
قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہواہے: یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات(2:276) یعنی اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کوبڑھاتا ہے۔ اِس آیت کو مفسرین عام طور پر in terms of money لیتے رہے، یعنی ربا (سود) میں کمائی گھٹتی ہے اور غیر ربا اکانومی میں اقتصادیات بڑھتی ہے۔ امریکا کے سفر میں مجھے جو باتیں سمجھ میں آئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ یہ تفسیر جدید انسان کے لیے قابل فہم نہیں۔ کیوں کہ وہ دیکھتا ہے کہ مبنی بر ربا اکانومی میںخوب مادی ترقی ہو رہی ہے۔
ایک مسلمان جو ایک ایشیائی ملک سے یہا ں آکر آباد ہوئے ہیں، ان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ امریکا کی سوسائٹی میں ہرآدمی سود کے نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے لیے ممکن ہوتا ہے کہ ہم زندگی شروع کرتے ہی تمام چیزیں حاصل کرلیں۔ یہاں اگر آپ کو جاب مل جائے تو آپ بینک سے سودی قرض لے کر اچانک سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں، گھر، کار، بچوں کی تعلیم، وغیرہ۔ اس کے بعد کمائی کا ایک حصہ سود کی قسط کی شکل میں دیتے رہئے اور تمام مادّی سامان سے فائدہ اٹھاتے رہئے۔
میں برابر سوچتارہا کہ اس آیت کی وہ تفسیر کیا ہے جس سے آج کا ذہن ایڈریس ہو سکتا ہو، جس سے آج کے ذہن کو مطمئن کیا جاسکے۔ پھر میری سمجھ میں آیا کہ یہاں جس برکت کا ذکر ہے، اس سے مرادغالباً ذہنی ترقی اور اسپریچول ترقی ہے۔
ربا (interest) کیا ہے۔ ربا دراصل مور منی (more money) کلچر کی سب سے زیادہ خودغرضانہ شکل ہے۔ ربا کے نظام میں جو کلچر فروغ پاتا ہے، اس میں سارا زور زندگی کے مادی پہلو پر ہوتاہے۔ اس میں ذہنی ارتقا یا روحانی ارتقا کا کوئی خانہ نہیں ہوتا۔ اِس طرح ربا کے نظام کے تحت جو ترقی ہوتی ہے، وہ یک طرفہ ترقی (one sided development) ہوتی ہے۔ اِس نظام کے تحت لوگ جسمانی اعتبار سے شان دار دکھائی دیتے ہیں، وہ اچھے اچھے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں، لیکن ذہنی اور روحانی ارتقا کے اعتبار سے عام طور پر وہ پس ماندگی کی آخری حد تک پہنچے ہوتے ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارے موجودہ پروگرام میں ایک صاحب کینڈا سے آئے تھے۔ انھوںنے کہا کہ کینڈا میں میں جس آفس میں کام کرتا ہوں، وہاں بہت سے یہودی اور عیسائی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ ایک سوال یہ کرتے ہیں کہ تمھارے قرآن میں انجیر اور زیتون کا چرچا کیاگیا ہے۔ ہمارے کینڈا میں بہت سے اچھے اچھے پھل ہوتے ہیں، لیکن ان کا تمھارے قرآن میں کوئی ذکر نہیں۔ پھر ہم کینڈا کے لوگ کیسے تمھارے قرآن کو مانیں۔ قرآن عرب اور شام کے لیے تھا، وہ امریکا اور کینڈا کے لیے نہیں۔ اس قسم کا سوال وجواب صرف اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رک گیا ہے۔ ذہنی اعتبار سے ترقی یافتہ آدمی اِس قسم کا سوال نہیں کرسکتا۔
امریکا کے زمانۂ قیام میں یہاں مجھ کو شہروں کے علاوہ دیہات (countryside) میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ چیزوں کا جو معیار (standard) شہر میں ہے، وہی دیہات میں بھی ہے۔ مثلاً مکان، سڑک، بجلی وغیرہ کا نظام۔ ان معاملات میں یہاں شہر اور دیہات میں کوئی فرق نہیں۔ اصل یہ ہے کہ امریکا میں چیزوں کی معیاربندی (standardization) کی گئی ہے، جب کہ انڈیا جیسے ملکوں میں ابھی تک چیزوں کی معیار بندی نہیں ہوئی ہے۔
امریکا کی ایک صفت یہ ہے کہ یہاں ہر چیز اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب مسابقت(competition) ہے۔ یہاں ہر کام کے لیے پرائیویٹ کمپنیاں ہوتی ہیں۔ ان کے درمیان سخت مقابلہ کا ماحول قائم رہتا ہے۔ اِس سے ہر کمپنی یہ چاہتی ہے کہ وہ کارکردگی کا اعلیٰ معیار پیش کرے، تاکہ وہ عوام میں مقبولیت حاصل کرسکے۔
یہاں کے ایک پروگرام میں ایک صاحب آئے۔ ان کی گود میں ان کی چھوٹی بچی تھی۔ وہ مسلسل اپنی چھوٹی بچی میں مشغول تھے وہ اگر چہ بظاہر ہمارے پروگرام میں شریک تھے، مگر ان کا سارا دھیان اپنی بچی میں لگا ہوا تھا۔ اس کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا جب کہ میں نے اپنی ایک بات کو ان سے دہرانے کے لیے کہا تو وہ اس کو صحیح طریقہ پرنہ دہرا سکے۔ میں نے کہا کہ ہیومنزم (Humanism) کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس کی فلاسفی ہے— خدا کی سیٹ پر انسان کوبٹھانا:
Transfer of seat from God to man.
میں نے کہا کہ اِسی کا نام شرک ہے، اور یہی فعل ہر زمانے میں ہوا ہے۔ ہر زمانے میں اور آج بھی انسان کسی نہ کسی غیر خدا کو خدا کے مقام پر بٹھاتا رہا۔ کسی نہ کسی غیر خدا کو کوئی انسان اپنا سول کنسرن (sole concern) بناتا رہا۔ مثلاً:
Transfer of seat from God to Nature
Transfer of seat from God to King
Transfer of seat from God to Holymen
Transfer of seat from God to Dollar
Transfer of seat from God to Self
Transfer of seat from God to Children
23 جون 2011 کی صبح کو یہاںکے ایک بلیک مسلم ملاقات کے لیے آئے۔ انھوںنے ہمارے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ ان کا نام رفیق فرینڈ تھا۔ اس کے بعد ان سے ڈسکشن ہوا۔ انھوں نے کہا کہ میں انٹرنٹ پر آپ کی تحریریں پڑھتا ہوں۔ آپ ہمیشہ آئڈیالوجی پر زور دیتے ہیں، آپ سسٹم کی بات نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ اسلام کا اصل مشن دعوت ہے۔ دعوت کا مطلب ہے توحید کی آئڈیالوجی کو لوگوں تک پہنچانا۔ جہاں تک سوشل سسٹم کی بات ہے، وہ تمام تر حالات پر موقوف ہے۔ ہمارا کام افراد کی ذہن سازی کا کام ہے۔سوشل سسٹم ہمارا نشانہ نہیں۔
امریکا کے زمانہ قیام میں روزانہ لوگ مختلف قسم کے سوالات کرتے تھے اور میںان کا جواب دیتا تھا۔ مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ یہاں ہم کو حلال میٹ نہیں ملتا تو ہم کیا کریں۔ میںنے کہا کہ مچھلی، انڈا اور سبزی ،دال کھائیے اور اگر میٹ آپ کے لیے ضروری ہے تو آپ امریکا کو چھوڑ کر اپنے ملک واپس چلے جائیے۔
ایک صاحب نے کہا کہ یہاں کی سوسائٹی میں ہمارے بچے بگڑ رہے ہیں۔ ہم کیا کریں۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ سوسائٹی کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں، لیکن میرے نزدیک خود آپ لوگ اِس بگاڑ کے ذمے دار ہیں۔آپ لوگوں نے یہاں آکر صرف ایک کام کیا اور وہ تھا ڈالر کمانا۔ ڈالر کما کر آپ نے اپنے بچوں کی خوب پیمپرنگ(pampering) کی۔ اور پیمپرنگ بچوں کو صرف بگاڑتی ہے۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ اب اصلاح کا آغاز یہ ہے کہ آپ خود اپنے آپ کو بدلیں۔ بچوں کو یا سوسائٹی کو ذمے دار ٹھہرانے سے کوئی فائدہ نہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ میری بیٹی ایک عیسائی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ میں کیا کروں۔ میں نے کہا کہ اِس معاملے میں فتویٰ کی زبان کاکوئی فائدہ نہیں۔ آپ حرام وحلال کی زبان بولیں گے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ آپ اپنی لڑکی کو بتائیے کہ اِس طرح کی شادی کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ اس طرح کی شادیوں کا انجام ہمیشہ طلاق ہوتا ہے، پھر ایسی شادی سے کیا فائدہ۔ شادی پوری زندگی کا ایک معاملہ ہے، وہ کوئی وقتی معاملہ نہیں۔
امریکا کے صدر براک اوباما نے 22 جون 2011 کی شام کو 13 منٹ کی ایک تقریر کی جو ٹی وی پر ہر جگہ سنائی گئی۔ اس تقریر میں انھوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر ہمارا مشن پورا ہوچکا ہے۔ ہم اپنی 33 ہزار فوج کو سال بھر کے اندر واپس بلالیں گے۔ انھوںنے کہا کہ القاعدہ نے ہمارے خلاف یہ بات پھیلائی تھی کہ امریکا نے اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے:
America is at war with Islam
عجیب بات ہے کہ القاعدہ کا یہ نظریہ سارے مسلمانوں میں پھیل گیا۔ تقریباً ہر مسلمان امریکا سے نفرت کرنے لگا۔ عرب کے لوگ کہنے لگے کہ: أمریکا عدوالإسلام رقم واحد۔ مگر کسی نے حقائق کی روشنی میں اس کا تجزیہ نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ڈائرکٹ یا انڈائرکٹ طور پر امریکا کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا جو کام ہورہا ہے، وہ تمام مسلم ملکوں سے بھی زیادہ ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ انسان بے بنیاد پروپیگنڈے کا شکار ہوا ہے۔ اس کا پہلا واقعہ آدم اور ابلیس کی صورت میں ہوا۔ابلیس نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ آدمی کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ تم کو جنت کی اصل نعمت دی ہی نہیں گئی۔ آدم اس سے متاثر ہوئے اور انھوںنے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا۔ آدم کو جنت میں 99 فی صد سے زیادہ نعمتیں ملی ہوئی تھیں۔ شجر ممنوعہ کی حیثیت ایک فی صدسے بھی کم تھی۔ مگر جھوٹے پروپیگنڈے کے نتیجے میں آدم 99 فی صد سے زیادہ کو بھول گئے اور ایک فی صد سے کم پر ان کا دھیان چلا گیا۔ شیطان کا یہ فتنہ آج بھی تمام دنیا میں جاری ہے۔
ایک تعلیم یافتہ مسیحی سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے اپنا ایک پمفلٹ دیا۔ اس کا ٹائٹل یہ تھا:
Have You Been Rescued By the Lifeguard of the Universe?
اس پمفلٹ کے صفحہ 13 پر بتایا گیا تھا کہ مسیحی عقیدہ کی حیثیت لائف گارڈ (lifeguard) کی ہے۔ زندگی میں جب بحران آتا ہے تو اس کے ذریعہ آپ نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ جس طرح پانی کے طوفان میں لائف گارڈ آپ کو بچا لیتا ہے، اسی طرح مسیحی عقیدہ، آخرت میں آپ کے لیے لائف گارڈ کا کام دے گا، وہ آپ کے لیے نجات کا ذریعہ بن جائے گا۔
مسیحی حضرا ت کے یہاں حضرت مسیح کا تصور مُنَجَِّی کاتصور ہے، یعنی نجات دینے والا۔اس نظریہ کو بتاتے ہوئے پمفلٹ کے صفحہ 9 پر یہ الفاظ درج ہیں:
When I have leaks in my plumbing, I need a plumber. When electrical things quit, I need an electrician. When my marriage doesn’t work, I need a counselor. When the car breaks down, I need a mechanic. When finances fail, I need an advisor. When I am sick, I need a doctor. When I sink, I need a savior.
یہ پورا استدلال تمثیل پر قائم ہے۔ تمثیل کے ذریعہ استدلال قدیم روایتی زمانہ میں عام تھا۔ خاص طور پر تمام مذاہب تمثیلی استدلال پر قائم تھے۔ سائنس کے ذریعہ جو فکری انقلاب آیا، اس نے تمثیلی استدلال کو بے بنیاد ثابت کردیا۔ موجودہ زمانہ میں کہاجاتا ہے کہ :
Analogy is the weakest form of argument.
موجودہ زمانہ میں علمی شعبوں میں تمثیلی استدلال کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ مگر مذہب کے دائرہ میں تمثیلی استدلال کا طریقہ بدستور رائج ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ صرف ’’شردھالو‘‘ قسم کے لوگ مذہب کے دائرہ میں آتے ہیں، ذہین اور تعلیم یافتہ افراد مذہب میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جدید انسان کو مذہب کے دائرہ میں لانے کے لیے مبنی بر عقل مذہب کی ضرورت ہے۔ مبنی بر تمثیل مذہب اس زمانہ کے انسان کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
فلیڈیلفیا میں ہماری قیام گاہ جس روڈ پر تھی، اس کے سامنے سڑک کی دوسری طرف ایک وسیع کامپلیکس تھا۔ یہ کامپلیکس خصوصی طورپر سینئر سٹی زن کے لیے مخصوص تھا۔ اس کے سامنے وسیع لان تھا۔ اس لان میں فوارہ تھا اور کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ہمارے ایک ساتھی ٹہلتے ہوئے وہاں تک پہنچ گئے اور لان کے کنارے واک کرنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد اندر سے ایک آدمی آیا اور اس نے نرم لہجے میں کہا:
You know, this is private property.
اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ جگہ صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو یہاں رہتے ہیں، باہر والوں کے لیے نہیں۔ امریکی معاشرہ بہت زیادہ رائٹ کانشس (right-conscious) معاشرہ ہے۔ ان کے یہاں حقوقِ انسانی کا جو تصور ہے، اس میں کسی کے پرائیویٹ دائرہ میں داخل ہونا جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ چناں چہ کامپلیکس کے بیرونی حصے میں اس مضمون کے بورڈ جگہ جگہ لگے ہوئے تھے:
Trespassers will be prosecuted.
پرائیویسی (privacy) کا یہ اصول پُرعافیت زندگی کے لیے بہت اچھا ہے، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں انٹریکشن (interaction)کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور انٹریکشن ذہنی ارتقا کے لیے بہت ضروری ہے۔
18 جون 2011 کو فلیڈیلفیا کے سینٹ پال چرچ میں جو پروگرام ہوا تھا، اس میں مسٹر لاری سنائڈر (Larry Snider) بھی موجود تھے۔ انھوںنے سوال وجواب میں حصہ لیا تھا اور میری تقریر پر پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد 23 جون 2011 کی شام کو وہ اپنی اہلیہ ڈانا (Donna) کے ساتھ میری قیام گاہ پر ملاقات کے لیے آئے۔ اُن سے دیر تک گفتگو ہوئی۔ پھر ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دوسری اسلامی کتابیں برائے مطالعہ دی گئیں۔ اِس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
ہم لوگوں سے ملاقات کرکے مسٹر لاری سنائڈر بہت متاثر ہوئے۔ چناں چہ بعد کو انھوںنے فلیڈیلفیا کے ایک مقامی نیوز پیپر (بکس کاؤنٹی ٹائمس) میں ’’اسلام اور پیس‘‘ کے موضوع پر ایک مضمون شائع کیا۔ مسٹر لاری سنائڈر کا یہ مضمون اگلے صفحات میں نقل کیا جاتا ہے۔
Islam: A Religion of Peace
Since our journey of discovery, our 20 Christian, Muslim, Jewish and Unitarian clergy and lay leaders have shared their experiences with more than150 audiences, and we have hosted key individuals and institutional representatives from Israel and the West Bank who shared their knowledge. This year, we began a continuing series of facilitated interfaith conversations at area houses of worship, bringing the public together to discuss the core of their faith and to safely learn about the beliefs of others. Soon after our return in 2008, I met Kaleem, aka Khaja Kaleemuddin, a teacher, and began to hear about his mentor, Maulana Wahiduddin Khan, an Indian scholar and spiritual leader who has written dozens of books on the meaning of the Quran and the role of Islam in the world today. Kaleem always had examples of the Maulana's writing to hand out to all who were interested at our events, and to introduce people to his message. I read some of his articles and began to look carefully at his books. The message was both positive and vitally important to all of us, that Islam is a religion of peace and that terrorism and jihad are against the central principals enunciated in the Quran. It turned out that my friend Kaleem operates a distribution center for the writings and spiritual guidance of Maulana Wahiduddin Khan in the United States. It's right here in Bensalem, and is known as the Centre for Peace and Spirituality. Kaleem told me that the Maulana, an Indian term of honor equivalent to sheikh, would be visiting the United States and coming to Bucks County as a base for his travels in America. Kaleem arranged speaking engagements locally at St. Paul's Episcopal Church in Philadelphia and at the Zubaida Foundation here in Yardley. These local presentations would supplement a major address at the national convention of the Islamic Society of North America in Rosemont, Ill., as well as speeches in Washington and New York City. I looked forward to seeing and hearing this extraordinary spiritual leader - who has received numerous awards from his own government and the international community - at Rev. Cliff Cutler's St. Paul's Church on June 18th. When I got there, I realized that Maulana Wahiduddin Khan traveled with his family and his primary disciple from New Delhi and that his children, (the Maulana is 85 years old), are all serious students of religion and politics with his granddaughters actively completing advanced degrees. After a brief introduction, Maulana Wahiduddin Khan began to speak in English while being recorded for a future video release. His words were simple and powerful, and it became clear that this man is truly a messenger of peace on a journey to teach all people that Islam is a religion of peace. He said that “No war is permitted in Islam except when it is attacked, and only a state can go to war. That is an accepted principal of Islam . The Quran says that if you kill a single person, then you have killed all mankind.” He spoke about a visit to Palestine: “I visited Palestine and asked,“Why are you not interested in peace?” ‘We want peace with justice,’ was the reply. I said, “You are wrong. Peace is not justice. Peace opens the door to justice. It gives you the opportunity. First of all establish peace . . . then you have to avail the opportunities.” He went on to talk about Islamic extremism and terror. “Modern militancy among Muslim countries cannot be ended by conflict. You have to develop a personal bond. You have to change their mind. Without changing the mind, you cannot eliminate violence. My mission is the same. By the grace of God, I’ve change the minds of thousands and thousands of Muslims.” The Maulana went on to take questions, including one about the similarity between the Christian instruction to love your neighbor and a Muslim directive from the Quran. The Maulana quoted from his translation of the Quran, chapter 41:34: “Good and evil deeds are not equal. Repel evil with what is better; then you will see that one who was once your enemy has become your dearest friend.” I must tell you that I read every day about war and peace and the results of religious extremism. The organization I represent is a vehicle to bring people together to begin to understand each other, to recognize the humanity in all religions, and to build relationships that encourage us to walk together on a path of peace. I have been overwhelmed by the message of the Maulana at a time when so many of us have only seen Islam as a religion of violence. His message is an antidote to the violence, and his teaching represents a means to transform the extremism that threatens all religions and all democracies - and that frankly, after 9/11, scares the hell out of us all. You can go to the website listed above and read his writings. Order his books, including his translation of the Quran, which is available in paperback and easy to read, and his incredible “The Prophet of Peace,” which I am now reading. Meeting this man, hearing his words and realizing how critical they are in our battle to defeat Muslim extremism and all extremism, is like a breath of fresh air filling me with hope and renewing my faith in the future. (Bucks County Courier Times, Friday July 1, 2011)
ایک صاحب ماہ نامہ الرسالہ کے قاری ہیں۔ انھوںنے کہا کہ آپ ولیمہ اور شادی کے مروّجہ فنکشن کے خلاف ہیں، تو کیا ہم لوگوں کو اس طرح کے فنکشن میں نہیں جانا چاہیے۔ میںنے کہا کہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اصولاً میںشادی اور ولیمہ کی دھوم کو اسراف سمجھتا ہوں، اور قرآن کے مطابق، اسراف بلاشبہہ ایک شیطانی کام ہے(17: 27)۔ لیکن جب لوگوں کا حال یہ ہو کہ اس مسئلہ کو جانتے ہوئے وہ شادی میں دھوم مچائیں اور اس میں ہمیں بلائیں تو میرا مسلک یہ ہے کہ دعوتی نقطۂ نظر سے اس میں ہم کو جانا چاہیے۔ ہم وہاں اس طرح جائیں کہ ہمارے پاس دعوتی لٹریچر ہو اور اس کو وہاں تقسیم کیا جائے۔ کیوں کہ جو لوگ وہاں اکھٹا ہوئے ہیں، وہ کسی دوسرے طریقہ سے ہمیں نہیں مل سکتے۔ انھوںنے کہا کہ کیا اس فائدے کے پیش نظر ہم کو بھی اس طرح کے فنکشن کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ دوسروں کے فنکشن میں جانا دعوت ہے، اگر ہم خود اس طرح کے فنکشن کریں تو یہ اسراف بن جائے گا۔ہمیں ایک معاملے اور دوسرے معاملے میں فرق کرنا چاہیے۔
امریکا میں سفر کے دوران بار بار مختلف مقامات سے الرسالہ مشن کے ساتھیوں کے ٹیلی فون مل رہے تھے۔ مثلاً پاکستان سے عبد اللطیف صاحب کا، کیلی فورنیا سے ڈاکٹر مزمل صدیقی کا، وغیرہ۔ وہ لوگ برابر سفر کے احوال پوچھتے رہتے تھے۔ یہ ایک نیا ظاہرہ ہے جو جدید کمیونکیشن کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں یہ ممکن نہیں تھا کہ آدمی سفر میں ہو اور دور دراز مقام سے اس کا ربط قائم رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب نعمت ہے۔ یہ امکان صرف اِس لیے پیدا ہوا ہے کہ اللہ کو ماننے والے لوگ ایک منظم منصوبے کے تحت ساری دنیا میں خدا کا پیغام پہنچا سکیں۔
23 جون 2011 کو ہم لوگ باوا محی الدین فیلو شپ فارم دیکھنے کے لیے گئے۔ یہ فارم شہر سے دور ایک پہاڑی علاقہ (Chester County) میں واقع ہے۔ یہاں باوا محمد رحیم محی الدین (وفات: 1986 ) کا مزار واقع ہے۔ باوا محی الدین ایک صوفی تھے۔ وہ سری لنکا کے رہنے والے تھے۔ 1971 میں وہ اپنے کچھ مریدین کی دعوت پر امریکا آئے۔ اس کے بعد وہ امریکا ہی میں مقیم ہوگئے۔ یہاں انھوں نے صوفیانہ طرز پر کام شروع کردیا۔ ان کے مریدوں میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ اِس فارم کے انچارج مسٹر مائیکل گرین ہیں۔ یہاں کی مسجد میں ہم لوگوں نے نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میں نے اسلام اور روحانیت کے موضوع پر آدھ گھنٹے تقریر کی۔ پرگرام کے بعد یہاں لوگوں نے سادہ ویجٹیرین کھانا کھایا۔ یہاں صوفی طرز پر صرف ویجٹیرین کھانے کا رواج ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے باوا محی الدین فارم میں آئے ہوئے زائرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ یہاں کی لائبریری میں ہمارے یہاں کا چھپا ہوا لٹریچر رکھاگیا۔ اِس فارم میں ہم لوگ کئی گھنٹے تک رہے۔ یہ ایک خوب صورت فارم تھا۔ یہاں ہر طرف سبزہ، گارڈن اور خوش رنگ پھول لگے ہوئے تھے۔
24 جون 2011 کی صبح کو میری رہائش گاہ پر الرسالہ کے قارئین اور ہمارے دعوتی مشن سے وابستہ لوگوں کی میٹنگ ہوئی۔ مذکورہ واقعہ کے پس منظر میں میں نے کہا کہ امریکا کے سفر میں مجھے قرآن کی ایک سورہ کا جدید ریلونس (relevance) سمجھ میں آیا۔ سورہ الفیل میں جس واقعہ کا ذکر ہے، وہ صرف ایک وقتی واقعہ نہیں ہے۔ اس میں ایک مخصوص ریفرنس میں اللہ کی ایک سنت کا بیان ہے۔ اور وہ یہ کہ حق کی دعوت کو لے کر اٹھنے والے کی مدد نہ صرف معمول کے اسباب کے ذریعہ کی جاتی ہے، بلکہ اگر ضرورت ہو تو غیر معمولی اسباب کے تحت بھی اس کی مدد کی جاتی ہے۔ میںنے کہا کہ 570 ء میں ابرہہ کے حملہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے چڑیوں کے جھنڈ کے ذریعے حق کی مدد فرمائی۔ موجودہ زمانے میں یہی مدد انسانوں کے جھنڈ کے ذریعہ کی جارہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا مشن خالص دعوتی مشن ہے۔لیکن خلاف واقعہ طورپر ہمارے خلاف اتنا زیادہ منفی پروپیگنڈا کیا گیا کہ ساری دنیا میں لوگ ہمارے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے۔ یہ طاقت ور منفی پروپیگنڈا بلا شبہہ ویسا ہی تھا جیسا کہ ابرہہ کا کعبہ پر حملہ۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے چڑیوں کے جھنڈ کے ذریعہ ابرہہ کے حملہ کو ناکام کردیا تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہی مدد اس طرح ہورہی ہے کہ ہمارے دعوتی مشن کی پشت پر اللہ تعالیٰ نے ایک مضبوط ٹیم فراہم کردی۔ اس ٹیم کے افراد صرف وہی نہیں ہیں جو امریکا کے سفر میں میرے ساتھ ہیں، بلکہ دنیا میں ہر جگہ ایسے افراد پیدا ہوچکے ہیں جو کسی مادی انٹرسٹ کے بغیر دعوتی مشن میں اپنا رول ادا کررہے ہیں۔ یہ لوگ اتنے زیادہ با شعور ہیں کہ کوئی بھی پروپیگنڈا ان کو کسی شبہہ یا غلط فہمی میں مبتلا نہیں کرسکتا۔
مسٹر فائق فاروقی (کمیونکیشن انجینئر) کیلی فورنیا میں رہتے ہیں۔ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں، نیز انھوں نے ہماری اکثر کتابیں پڑھی ہیں۔ وہ 6 گھنٹے کے ہوائی جہاز کے سفر کے بعد ہمارے پروگرام میں شرکت کے لیے فلیڈیلفیا آئے۔ وہ لاہور کے رہنے والے ہیں۔ وہ شروع سے آخر تک ہمارے پروگرام میں شریک رہے۔ مسٹر فائق کے والدین لاہور میں رہتے ہیں۔ آج کل وہ اُن سے ملنے کے لیے کیلی فورنیا آئے ہوئے ہیں۔ اُن کی خواہش تھی کہ فائق صاحب اپنے والدین کے ساتھ کیلی فورنیا میں ٹھہریں۔ لیکن اِس کے باوجود مسٹر فائق پروگرام میں شرکت کے لیے آئے۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے الرسالہ میں لکھا تھا کہ داعی کے لیے ضروری ہے کہ مشن کو وہ پرائمری بنائے اور دوسری چیزوں کو سکنڈری۔ اِسی اصول پر عمل کرتے ہوئے میں یہاں آگیا۔
مسٹر فائق جب ملاقات کے لیے آئے تو ابتدا میں وہ بہت زیادہ سوالات کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ جواب دینے سے آپ کے سوالات ختم نہیں ہوں گے۔ آپ پڑھئے اور سنئے۔ پھر میں نے اُن کے سرپر ہاتھ رکھ کر دعا کی۔ اِس کے بعد وہ میری ہر مجلس میں شریک رہتے تھے، لیکن سوالات نہیں کرتے تھے۔ مسٹر فائق نے کئی مجلسوں میں شرکت کے بعد کہا کہ اب میرا دل ہلکا ہوگیا۔ مجھ کو ذہنی سکون حاصل ہوگیا۔ میرے تمام سوالا ت اپنے آپ ختم ہوگئے۔ میں نے کہا کہ جب سوالات ختم ہوجائیں، تب کنفیوژن فری مائنڈ (confusion-free mind)بنتا ہے اور سچائی کے لیے آدمی کا سینہ کھل جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عاشورا کا روزہ

محرم کی دسویں تاریخ کے روزہ کو عاشورا کا روزہ کہا جاتا ہے۔ کچھ مسلمان اِس روزے کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں اور اِس دن اہتمام کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں۔ روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشورا کے روزے کی وہ اہمیت نہیں ہے جو عام طورپر مسلمانوں کے درمیان رواجی طورپر پائی جاتی ہے۔ وہ صرف ایک مستحب روزہ ہے، جیسا کہ دوسرے بہت سے مستحبّات۔
روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو وہاں اہلِ مکہ کے درمیان دورِ جاہلیت سے ایک رواج چلا آرہا تھا، اور وہ عاشورا کا روزہ تھا۔ وہ اِس کو حضرت ابراہیم سے منسوب کئے ہوئے تھے۔ مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِس رواج کے تحت عاشورا کا روزہ رکھا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ آئے تو یہاں اُس وقت یہود بڑی تعداد میں آباد تھے۔ یہود بھی عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے۔ وہ اس کو حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ یہود کے اِس رواج کے تحت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینہ میں عاشورا کا روزہ رکھا۔
اِس سے معلوم ہوا کہ عاشو را کا روزہ دوسرے مذہبی گروہ کے رواج کے تحت تھا، مکہ میں مشرکین کے قدیم رواج کے تحت، اور مدینہ میں یہود کے قدیم رواج کے تحت۔ یہاں یہ سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک شریعت لائے تھے، پھر آپ نے دوسرے مذہبی گروہوں کے رواج کے تحت کیوں عاشورا کا روزہ رکھا۔ یہ دراصل تالیفِ قلب کی عظیم حکمت کے تحت تھا۔ چناں چہ ابن حجر العسقلانی نے اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: أن یکون ذلک استئلافاً للیہود کما استألفہم باستقبال قبلتہم (فتح الباری، کتاب الصوم، با ب صیام یوم عاشوراء) حقیقت یہ ہے کہ عاشورا کے روزے کا معاملہ کسی دن کی فضیلت کی بنا پر نہیں تھا، بلکہ وہ تالیفِ قلب کے لیے تھا۔ مکہ میں قیام کے دوران آپ نے مشرکینِ مکہ کی تالیفِ قلب کے لیے اُن کے رواج کے تحت اُسی دن روزہ رکھا۔ اور مدینہ میں یہود کی تالیفِ قلب کے تحت، آپ نے اُن کے رواج کے مطابق وہاں روزہ رکھا۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کے دو پہلو

خداکی معرفت کے دو پہلو ہیں —محبت، اور خشیت۔ خدا ایک طرف رحیم ہے، اور دوسری طرف وہ عادل ہے۔ انسان جب خدا کی بے پایاں رحمت کوسوچتا ہے تو اس کے اندر وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں: أشد حبّا للہ (2: 165) کہا گیا ہے، یعنی اللہ سے بہت زیادہ محبت کرنے والے۔اِسی طرح جب ایک انسان خدا کے عادل ہونے کو سوچتا ہے تو اس کے اندر وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں: ولم یخش إلا اللہ (9: 18) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
مومن کی شخصیت اِنھیں دوکیفیات کے ذریعے بنتی ہے۔ ایک طرف، وہ اپنے رب سے بہت زیادہ محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف، وہ اپنے رب سے بہت زیادہ ڈرنے والا ہوتاہے۔ خدا کی محبت ایک ایسی محبت ہے جو سراپا درد سے بھری ہوتی ہے۔ اِسی طرح خدا سے خوف ایک ایسا خوف ہے جو محبت کے جذبات سے معمور ہوتاہے۔ یہ ایک ایسا تعلق ہے جس میںآدمی جس ہستی سے پانے کی امید رکھتا ہے، اُسی ہستی کے بارے میں اس کو یہ اندیشہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کہیں اپنی رحمتوں سے اس کو محروم نہ کردے۔ یہ محبت اور خوف کا ایک ایسا امتزاج ہے جس کو محسوس کیاجاسکتا ہے، لیکن اس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
یہی اعلیٰ معرفت کی پہچان ہے۔ اعلیٰ معرفت سکون بھی ہے اور تڑپ بھی۔اعلیٰ معرفت امید بھی ہے اور خوف بھی۔ اعلیٰ معرفت یقین بھی ہے اور بے یقینی بھی۔ اعلیٰ معرفت قربت بھی ہے اور دوری بھی۔ اعلیٰ معرفت ایک ایسا مقام ہے جہاں بندے کو کبھی یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ منزل پر پہنچ گیا اور کبھی اس کو یہ شبہہ ہوتا ہے کہ وہ ابھی راستے میں سرگرداں ہے۔ کبھی وہ اِس احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ وہ فل اسٹاپ (full stop) تک پہنچ گیا، اور کبھی وہ اِس شک میں مبتلا رہتاہے کہ ابھی وہ کاما (comma)کے مرحلے سے گزر رہا ہے — محبت اور خشیت کی اِنھیں کیفیات کا نام معرفت ہے۔
واپس اوپر جائیں

شکر ِقلیل، شکر ِکثیر

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من لم یشکر القلیل، لم یشکر الکثیر (مسند احمد، جلد 4 ، صفحہ 278 ) یعنی جو شخص کم پر شکر نہیں کرے گا، وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرے گا۔ اِس حدیثِ رسول میں فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے، وہ قانون یہ ہے کہ چھوٹے واقعے کو یاد کرنے سے بڑے بڑے واقعات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔
نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ میں بہت سے الگ الگ فائل (files) ہوتے ہیں۔ مثلاً محبت کا فائل، نفرت کا فائل، اعتراف (acknowledgement)کا فائل، ظلم کا فائل، وغیرہ۔ جوچیزیں انسان کے تجربے اورمشاہدے میں آتی ہیں،اُن کو دماغ الگ الگ ان کے متعلق فائل میں ڈالتا رہتا ہے۔ آدمی جب کسی ایک واقعے سے متاثر ہو تو اُس وقت انسان کا دماغ ٹریگر (trigger) ہوجاتاہے اور پھر فوری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اُس نوعیت کا فائل کھل جاتا ہے اور اس نوعیت کے تمام واقعات آدمی کے ذہن میںتازہ ہوجاتے ہیں۔
فطرت کا یہ قانون شکر اور اعتراف کے معاملے میں بھی بے احد اہمیت رکھتا ہے۔ مثلاً آج آپ کو ایک موبائل ملا۔ اُس سے آپ نے دور کے ایک شخص سے بات کی۔ اُس وقت آپ نے سوچا کہ پہلے زمانے میں مجھ کو دوسرے کسی آدمی سے ربط کرنے میں کتنی مشکل پیش آتی تھی، اِس پر آپ نے گہرے تاثر کے ساتھ خدا کا شکر ادا کیا تو اس کے بعد فوراً یہ ہوگا کہ آپ کا دماغ ٹریگر ہوجائے گا۔ اُسی وقت دماغ کا وہ فائل کھل جائے گا جس میں آپ کی پوری زندگی میں پیش آنے والے شکر واعتراف کے تمام آئٹم (item) محفوظ ہیں۔فطرت کے اِس نظام کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ شکر کے چھوٹے واقعے کی یاد، شکر کے دوسرے تمام واقعات یاد دلا دیتی ہے۔ اِس طرح شکر کا چھوٹا واقعہ بڑے شکر کا سبب بن جاتاہے، یہاں تک کہ آدمی کے دل میں شکر کا چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ شکر کا احساس خدا سے آدمی کے تعلق کو بڑھاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اعلیٰ معرفت کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

محبت الٰہی سے محرومی کیوں

قرآن کے مطابق، خدا کی اعلیٰ معرفت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جس کو اللہ سے اعلیٰ تعلق قائم ہوجائے۔ اللہ سے اعلیٰ تعلق کی پہچان یہ ہے کہ انسان کو اللہ سے حبّ شدید (2: 165) اور اللہ سے خوفِ شدید (9: 18) پیدا ہوجائے۔
جب کسی انسان کو اللہ کے ساتھ اِس قسم کا گہرا تعلق پیدا ہوجائے تو اس کے اندر ذکرِ کثیر (33: 41)کی صفت پیدا ہوجاتی ہے، یعنی اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا، اللہ کے لیے بہت زیادہ سوچنا۔ اللہ کے ساتھ تعلق میں اگر ایک فی صد بھی کمی آجائے تو ایسے انسان کو اللہ کی اعلیٰ معرفت حاصل نہیں ہوگی۔
یہود کا حال بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ ان کا گہرا تعلق اللہ سے نہ رہا، بلکہ اپنے اَحبار اور رُہبان سے ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں وہ اللہ کی اعلیٰ معرفت سے محروم ہوگئے۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال ہے۔ مسلمانوں کے ہر گروہ کے کچھ بڑے (bigs) ہیں اور ان کا گہرا تعلق اپنے اِنھیں بڑوں سے ہے، نہ کہ خداوند ذوالجلال سے۔
اپنے اِن بڑوں کو انھوں نے مقدس نام دے رکھے ہیں۔ مثلاً اکابر، اسلاف، مشائخ، بزرگانِ دین، وغیرہ۔مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اِنھیں مفروضہ بڑوں سے گہرا قلبی تعلق رکھتے ہیں۔ اِس گہرے قلبی تعلق کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے اِن بڑوں کے خلاف علمی تنقید کو بالکل پسند نہیں کرتے۔
یہ غیر خدا کے ساتھ حب شدید کا تعلق قائم کرنا ہے او ر جو لوگ کسی غیر خدا کے ساتھ حب شدید کی نفسیات میں مبتلا ہوں، وہ کبھی اللہ کی محبت کی توفیق نہیں پاتے۔ ایسے لوگوں کے حصے میں صرف رسمی عقیدہ آتاہے، نہ کہ اعلیٰ ایمان باللہ جو آدمی کو اعلیٰ معرفت تک پہنچانے والا ہو—محبت الٰہی کی ایک قیمت ہے، اور یہ قیمت ادا کئے بغیر کسی کو اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا پڑوس

جنت کیا ہے، جنت دراصل خداکے پڑوس میں رہنے کا نام ہے (66:11) ۔ موت سے پہلے کی دنیا میں مومن احساس کے اعتبار سے، خدا کے پڑوس میں جیتا ہے۔ موت کے بعد کی دنیا میں مومن واقعہ کے طورپر خدا کے پڑوس میں زندگی گزارے گا۔
خدا بلا شبہہ تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ اِس لیے کسی انسان کو حقیقی سکون صرف خدا کے پڑوس میں مل سکتا ہے، اِس سے کم تر درجے کی کوئی چیز انسان کے لیے حقیقی سکون کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
موجودہ دنیا دراصل اسی قسم کے انسانوں کا انتخابی مقام (selection ground) ہے۔ یہاں اُن انسانوں کو چنا جارہا ہے جو اپنی صفات کے اعتبار سے، خدا کے پڑوس میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ جن کی سوچ، جن کی سرگرمیاں، جن کے جذبات، جن کا سلوک، جن کے معاملات اُس اعلیٰ اخلاقی معیار پر پورے اتریں جو خدا کا پڑوسی بننے کے لیے مطلوب ہیں۔ یہی لوگ اِس عزت کے لیے منتخب کئے جائیں گے۔ یہ انتخاب فرشتوں کے ریکارڈ کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
آخرت کی ابدی زندگی میں کسی کو خدا کے پڑوس میں رہنے کی یہ خوش قسمتی تمام تر ذاتی خصوصیت (merit) کی بنیاد پر حاصل ہوگی۔
خدا کا پڑوس گویا کہ ایک کائناتی باغ ہے۔ اِس کائناتی باغ میں صرف خدائی معیار پر پورااترنے والے لوگ ہی جگہ پائیں گے۔خدائی معیار سے کم تر کوئی چیز کسی آدمی کو اِس کائناتی باغ میں جگہ دینے والی نہیں۔
یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے دنیا کی زندگی میں صرف خدا کواپنا واحد کنسرن (supreme concern) بنایا ہو، جن کی سوچ اور جن کے جذبات تمام تر خدا کے لیے وقف ہوگئے ہوں جن کی صبح بھی خدا کی یاد سے معمور ہو اور جن کی شام بھی خدا کی یاد سے معمور۔ یہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو خدا کے پڑوس میں رہنے کے لیے منتخب کئے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

موت کی حقیقت

قرآن کی سورہ آل عمران میں آیا ہے: کل نفس ذائقۃ الموت (3: 185) یعنی ہر انسان موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ انسان دنیا کے ذائقوں میں جیتا ہے، مگر آخر کار جو ذائقہ انسان کے لیے مقدر ہے، وہ موت کا ذائقہ ہے۔ موت کا ذائقہ اتنا زیادہ تلخ ہے کہ وہ دوسرے تمام ذائقوں کو منہدم کردینے والا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات، الموت (الترمذی، کتاب الزہد) یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔
ذائقہ یا لذت کا لفظ یہاں کسی محدود معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ وسیع تر معنوں میں ہے۔ آدمی ایک لذت پسند مخلوق (pleasure-seeking animal) ہے۔ ہر چیز میں اس کو لذت محسوس ہوتی ہے۔ کھانے پینے میں، اچھا کپڑا پہننے میں، اچھا گھر بنانے میں، اچھی سواریوں پر سفر کرنے میں، تفریح کی مجلسوں میں شریک ہونے میں، شہرت اور اقتدار کی سیٹ پر بیٹھے میں، وغیرہ۔
اِس قسم کی تمام چیزوں میں آدمی کو بے پناہ لذت ملتی ہے۔ وہ اِن لذتوں میں گم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ حقیقۃً یہ سوچے کہ موت کے آتے ہی اچانک یہ تمام لذتیں اس سے چھن جائیں گی، تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔ مثلاً جب کوئی شخص دوسرے انسان کی عیب زنی کرتا ہے تو غیر شعوری طورپر اس کو یہ خوشی حاصل ہوتی ہے کہ میں ایک بے عیب انسان ہوں۔ جب کوئی انسان کسی کو ذلیل کرتاہے تو یہ اس کے لیے اس کی انا (ego) کی تسکین کا باعث ہوتاہے۔ کوئی شخص ناحق طورپر کسی کے مال وجائداد پر قبضہ کرتاہے تو وہ اس کو اپنی ہوشیاری سمجھ کر اطمینان حاصل کرتاہے۔
اِس قسم کی مختلف صورتیں ہیں جن پر عمل کرکے انسان کو خوشی اور فخر (pride)کا احساس ہوتاہے۔ وہ اپنے آپ کو کامیاب انسان سمجھ لیتاہے۔ لیکن اگر اس کو یقین ہو کہ موت کا فرشتہ کسی بھی وقت آئے گا، اور اچانک اس کی زندگی کا خاتمہ کردے گا، اِس حقیقت کا احساس اگر کسی کو حقیقی طورپر ہوجائے تو وہ محسوس کرے گا کہ موت سے پہلے ہی اس کی موت واقع ہوچکی ہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی بے خبری

مرنے والے مرگئے— یہ سب کو معلوم ہے۔ مگر ایک اور خبر ایسی ہے جو کسی کو معلوم نہیں، وہ یہ کہ مجھے بھی ایک دن مرنا ہے۔ ایک دن میرا بھی وہی انجام ہونے والا ہے جو انجام دوسروں کا ہوچکا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ لوگ دوسروں کو ہر روز مرتا ہوا دیکھتے ہیں، لیکن خود اپنے آپ کو وہ اُس سے الگ (exempt) کر لیتے ہیں۔ گویا کہ ہر آدمی بلا اعلان اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ — دوسروں کو مرنا تھا، وہ مرگئے، لیکن میں تو مرنے والا نہیں۔
یہ بے خبری ایک ہلاکت خیز بے خبری ہے۔ یہ وہ انوکھی بے خبری ہے جس کو شتر مرغ کی عادت (ostrich habit) کہا جاتاہے۔ کوئی شخص اپنی موت کے بارے میں سوچے یا نہ سوچے، موت بہر حال اس کی طرف دوڑی چلی آرہی ہے۔
موت گویا کہ ایک انفرادی زلزلہ ہے۔ زلزلہ اعلان کے بغیر آتا ہے۔ اِسی طرح موت بھی اعلان کے بغیر آتی ہے۔ زلزلے کے مقابلے میں ہر آدمی بے بس ہے۔ اِسی طرح موت کے مقابلے میںبھی ہر آدمی بالکل بے بس ہے۔ موت آچانک آتی ہے اور وہ آدمی کے خیالی محل کو مکمل طور پر ڈھا دیتی ہے۔ انسان اگر یہ چاہے کہ وہ موت کو روک دے تو ایسا ہونے والا نہیں۔ موت کا اپنا قانون ہے، جو انسان کی مرضی کے بغیر اپنا کام کرتاہے۔
اس صورت ِ حال کا تقاضا ہے کہ ہر آدمی موت کے بارے میں بے حد حساس ہو۔ وہ ہر لمحہ موت کو یاد کرتا رہے۔ ہر روز جب شام آئے تو وہ محسوس کرے کہ اب اس کے لیے اگلی صبح مقدر نہیں۔ ہر روز جب وہ اپنے بستر پر سوئے تو اس کا احساس یہ ہو کہ اب دوبارہ اِس دنیا میں میری نیند کھلنے والی نہیں۔ یہ احساس اگر آدمی کو ہوجائے تو وہ آخری حد تک ہل جائے گا۔ اس کے لیے جینا سادہ معنوں میں صرف جینا نہ رہے گا، بلکہ وہ موت کا انتظار بن جائے گا— خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو موت کے اچانک حملے سے پہلے موت سے با خبر ہوجائیں، وہ موت کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری کرلیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ کی ذمّے داری

مارچ 1978 میں میرا ایک سفر جموں وکشمیر کے لیے ہوا تھا۔ اِس سفر میں میری ملاقات مرزا محمداعظم صاحب (راجوری) سے ہوئی۔ وہ راجوری میں فارسٹر (forester) تھے۔ وہ باہر سے جب کبھی گھر آتے تو اپنے بچوں کے لیے مٹھائی اور پھل وغیرہ لاتے۔ ستمبر 1975 کے ایک دن وہ گھر میں داخل ہوئے تو کسی وجہ سے وہ بچوں کے لیے کچھ نہ لاسکے۔ حسب معمول بچے اُن کے گرد جمع ہوگئے۔ جب معلوم ہوا کہ وہ کوئی کھانے پینے کی چیز نہیں لائے تو بچوں کو جھٹکا لگا۔ اُن کے چھ سالہ بچے ارشد محمود طارق نے اپنی پہاڑی زبان میں کہا:
اگر تُساں اَساں وسطے کجھ نی آندہ، پھر تُس کُمھانے وسطے آئے!
(اگر آپ ہمارے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں لائے تو پھر آپ گھر کس لیے آئے ہیں)۔
یہ صرف ایک شخص کا واقعہ نہیں، یہ ہم میںسے ہر ایک پر منطبق ہوتا ہے۔ ہر آدمی جو خدا پر ایمان لائے، ایمان کے ساتھ ہی اس کی یہ ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ دعوت وشہادت کا کام انجام دے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا کام قرار دیا ہے۔ قرآن میں اِس کو اللہ کی مدد کرنا کہاگہا ہے (61: 14)۔ایک صاحب ایمان اگر موت سے پہلے کی زندگی میں دعوت و شہادت کا کام نہ کرے تو وہ یہ سنگین خطرہ مول لے رہا ہے کہ آخرت میں جب اُس کا سامنا اللہ سے ہو تو اللہ یہ کہہ دے کہ — جو کام میں نے تمھارے سپرد کیا تھا، اُس کو تم نے انجام نہیں دیا، پھر تم یہاں کس لیے آئے ہو:
If you failed to perform the task I assigned you, then why did you come here?
یہ سنگین لمحہ ہر ایک کے سامنے آخرت میں پیش آنے والا ہے۔ اِس کا تقاضا ہے کہ ہر صاحبِ ایمان اپنی توانائی کا سب سے بڑا حصہ دعوت الی اللہ کے کام میں لگائے، تاکہ وہ اِس انجام سے بچ جائے کہ آخرت میں اللہ اُس کو نظر انداز کردے، جس طرح اُس نے دنیا میں اللہ کے کام کو نظر انداز کردیاتھا۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ — ایک مشن

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ ماہ نامہ الرسالہ (نئی دہلی) کے مستقل قاری ہیں۔ میں نے اُن سے الرسالہ کے بارے میں اُن کا تاثر پوچھا۔ انھوںنے کہا کہ لوگ عام طورپر چیزوں کو اُس کے فیس ویلو (face-value) پر لیتے ہیں۔ وہ ظاہر کے اعتبار سے، چیزوں کے بارے میں اپنی رائے بناتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ الرسالہ کو بھی عام طرز کا ایک رسالہ سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ وہ رسالہ پلس ہے۔ الرسالہ یا میگزین کے لفظ سے لوگجس چیز کو جانتے ہیں، وہ صرف ایک صحافتی مجموعہ ہے۔ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ الرسالہ ایک مشن ہے، نہ کہ معروف معنوں میں، صرف ایک مجلہ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ماہ نامہ الرسالہ صرف ایک مجلہ نہیں، بلکہ وہ ایک مشن ہے۔ غالباً الرسالہ کو پڑھنے والوں میں بہت ہی کم ایسے افراد ہوں گے جو اِس حقیقت کو سمجھتے ہوں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ جب کسی چیز کا کوئی معروف ماڈل بن جائے تو لوگ اُس نوعیت کی کسی چیز کو اُسی معروف ماڈل پر قیاس کرکے اُس کے بارے میں رائے بنا تے ہیں۔رسالہ یا پیریڈیکل (periodical) کا ایک معروف ماڈل ماحول میں موجود ہے۔
لوگ اِسی معروف ماڈل پر قیاس کرتے ہوئے الرسالہ کو بھی صرف ایک پیریڈیکل سمجھ لیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ الرسالہ، صحافت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک استثنائی مجلہ ہے۔ الرسالہ ایک مشن کا نمائندہ ہے۔ ایک شخص پورے مہینے ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپتا ہے، اس کے بعد الرسالہ جیسا ایک پرچہ وجود میں آتا ہے۔
لوگوں نے نہ تو الرسالہ جیساکوئی مجلہ پڑھا اور نہ صاحبِ الرسالہ جیسے کسی مین آف مشن (man of mission) سے کبھی ان کی ملاقات ہوئی۔ اِس لیے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ الرسالہ کو پڑھ کر بھی الرسالہ کو سمجھ نہیں پاتے۔
واپس اوپر جائیں

ایک تاثر

مسٹر کشن جیونت راؤ پاٹل (پیدائش: 1943 ) ناندیڑ (مہاراشٹر) کے رہنے والے ہیں۔ وہ 1976 سے الرسالہ پابندی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ان کے پاس الرسالہ کی مکمل فائلیں موجود ہیں۔ انھوںنے صرف الرسالہ پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھی۔ یکم مئی 2011 کو اُن سے نئی دہلی میں ملاقات ہوئی۔ میںنے اُن سے الرسالہ کے بارے میں اُن کا تاثر پوچھا۔ انھوںنے کہا —الرسالہ پڑھنے سے پہلے، میں بول کر سوچتا تھا۔ اب میں سوچ کر بولتا ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ایک مسلمان پروفیسر نے اُن سے پوچھا کہ آپ کی مصروفیت کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ موت کی تیاری۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہ نامہ الرسالہ جو لوگ گہرائی کے ساتھ پڑھتے ہیں، اُن کے اندر کس قسم کا مزاج بنتا ہے۔ اِس مزاج کو ایک لفظ میں سنجیدگی (sincerity) کہہ سکتے ہیں۔ الرسالہ کا مقصد لوگوں کے اندر صالح سوچ پیدا کرنا ہے، اور جب کسی آدمی کے اندر صالح سوچ پیدا ہوجائے تو اس کا حال وہی ہوگا جس کا ایک نمونہ اوپر کی مثال میں نظر آتاہے۔
ماہ نامہ الرسالہ میں نہ فخر (pride) کی باتیں ہوتی ہیںاور نہ شکایت (complaint) کی باتیں۔ الرسالہ میں نہ مسلمانوں کے قومی مسائل کا تذکرہ ہوتا ہے اور نہ الرسالہ میں مسلم ایمپاورمنٹ (Muslim empowerment) کی باتیںہوتیں۔
ماہ نامہ الرسالہ میں صرف خدا اور آخرت کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایسی تحریروں کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ قاری کے اندر شکایت اور احتجاج (protest)کا ذہن نہ پیدا ہو، بلکہ اس کے اندر خود احتسابی (self-introspection) کا مزاج پیداہو۔ اللہ کے فضل سے، الرسالہ کے قار ئین میں اِسی قسم کا مزاج پیدا ہورہا ہے۔ الرسالہ لوگوں کے اندر مثبت سوچ پیدا کرتاہے، اور مثبت سوچ بلاشبہہ تمام خوبیوں اور بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔
واپس اوپر جائیں