Pages

Saturday 1 September 2012

Al Risala | September 2012 (الرسالہ,ستمبر)


خصوصی شمارہ ۔ ترکی کا سفر

راقم الحروف کا ایک سفر ترکی کے لیے ہوا۔ یکم مئی 2012 کی صبح کو دہلی سے روانگی ہوئی اور 7مئی 2012 کی صبح کو دہلی واپسی ہوئی۔ یہ نئے تجربات سے بھرا ہوا ایک سفر تھا۔ اِس سفر کی مختصر روداد یہاں درج کی جاتی ہے۔ اِس سفر میں میرے ساتھ حسب ذیل افراد تھے — مسٹر رجت ملہوترا، مولانا محمد ذکوان ند وی، ڈاکٹر فریدہ خانم۔
ترکی میں ایک غیر سیاسی تحریک ہے۔ اس کو سوشیوایجوکیشنل (Socio-educational) تحریک کہا جاسکتا ہے۔ یہ تحریک دنیا کے تقریباً 90 ملک میںکام کررہی ہے۔ اِس تحریک کے بانی اور قائد استاد محمد فتح اللہ گولن (M. Fethullah Gülen) ہیں۔ موجودہ سفر اسی تحریک کی دعوت پر ترکی کے سرحدی شہر غازی عین تیپ (Gazentep) میں منعقد ایک انٹرنیشنل کانفرنس کے لیے ہوا۔ کانفرنس کی بنیادی تھیم یہ تھی —— السراج النبویّ ینیر درب البشریة الحائرة:
Solutions for Social Challenges — The Prophet's Way
کانفرنس میں شرکت کے لیے رسمی طور\پر ہم کو جو دعوت نامہ ملا، وہ عربی مجلہ ’حراء‘ کی طرف سے تھا۔ یہ ایک علمی، فکری اور ثقافتی مجلہ ہے۔ وہ ایک دو ماہی (bi-monthly) مجلہ ہے جو استانبول (ترکی) سے نکلتا ہے۔ گولن تحریک کے تحت اِس طرح کے کئی میگزین مختلف عالمی زبانوں میں شائع کئے جاتے ہیں۔
یکم مئی 2012 کو صبح سویرے دہلی سے روانگی ہوئی۔ روانگی سے پہلے دہلی کے ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے جب سنا کہ میں ترکی جارہا ہوں تو انھوں نے کہا کہ —— ترکی میں صرف اپنے لوگ رہتے ہیں یا وہاں غیر قوم کے لوگ بھی ہیں۔یہ ایک غیر سیاسی اور دین دار مسلمان تھے۔ انھوں نے جو بات کہی، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سوچ کیا ہے۔ وہ دنیا کو دو قسم کے لوگوں میں بانٹے ہوئے ہیں — اپنے لوگ اور غیر لوگ۔ اِس مزاج نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں سے عام انسانوں کے لیے خیر خواہی چھین لی ہے۔ اِسی نفسیات کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوتی ذہن کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اگر کوئی شخص بظاہر دعوت کا نام لیتاہے تو وہ بھی اس کے لیے عام طورپر نام نہاد مسلم ایمپاورمینٹ (Muslim empowerment) کا ایک حصہ ہوتا ہے۔
گھر سے ائرپورٹ تک کا سفر بہت جلد طے ہوگیا۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ ہم لوگ گھر سے صبح کو 3 بجے نکلے تھے۔ اِس بنا پر اُس وقت روڈ پر کہیں بھی ریڈ لائٹ نہیں تھی۔ ہم لوگوں کو دہلی سے اندراگاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ کے ٹرمنل نمبر 3 سے روانہ ہونا تھا۔ اِس ٹرمنل کی تعمیر حال میں ہوئی ہے۔ وہ تقریباً یورپین معیار کا ہے۔ یہ پرائیوٹائزیشن (privatization) کا کرشمہ ہے جس کا آغاز سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ (وفات: 2004 ) کے زمانے میں ہوا۔
نئے ائر پورٹ کی ایک قابلِ ذکر بات یہ ہےکہ یہاں ایک نہایت خوب صورت پریئر روم (Prayer Room) بنایا گیاہے۔ اس کا نام اگرچہ پریئر ر وم ہے، مگر حقیقت میں وہ مسجد ہے۔ اس کے دو الگ الگ حصے ہیں۔ ایک حصہ مردوں کی عبادت کے لیےاور دوسرا حصہ خواتین کی عبادت کے لیے۔ ہمارے ساتھیوں نے وہاں فجر کی نماز ادا کی اور مسجد میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس برائے مطالعہ رکھ دیے۔
ائر پورٹ کے ایک حصے میں ایک بڑے سائز کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس پر انگریزی میں جلی حرفوں میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے — ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا:
It has never been done before!
بورڈ لگانے والوں نے کسی اورمفہوم میں یہ بورڈ لگایا تھا، مگر یہ بات زیادہ بڑے پیمانے پر جدید دعوتی مواقع پر صادق آتی ہے۔ مثلاً مذہبی آزادی، عالمی اسفار، ماڈرن کمیونکیشن اور ملٹی میڈیا، وغیرہ۔مذہبی مردم شماری کے ایک امریکی ادارہ (US Religion Census) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ — امریکا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے:
The Fastest Growing Religion in America is Islam.
حالیہ برسوں میں اِس قسم کی خبریں بار بار آتی رہیں۔ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ، اِس کا سبب یہی جدید دعوتی مواقع ہیں۔ جدید دعوتی مواقع نے ہمارے لیے اسلام کی پُرامن اشاعت کے نئے مواقع کھول دئے ہیں۔
دہلی ائر پورٹ پر پہنچ کر دومزید ہم سفر مل گئے — مسٹر علی اکیز(Ali Akkiz) ا ور پروفیسر زبیراحمدفاروقی۔ دونوں کی ہم راہی ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ پروفیسر زبیر احمد فاروقی اِس کانفرنس میں مندوب (delegate) کی حیثیت سے جارہے تھے، اور مسٹر علی اکیز ترکی ہمارےمعاون کی حیثیت سے۔ مگر مسٹر علی ہمارے لیے معاون پلس ثابت ہوئے۔ ان کی وجہ سے یہ سفر ہم لوگوں کے لیے بہت آسان ہوگیا۔
پروفیسر زبیر احمد فاروقی (67 سال) جون پور (یوپی) کے رہنے والے ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم دار العلوم دیوبند میں ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے عربی تقریر وتحریر میں مہارت حاصل کی۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے عربی ڈپارٹمنٹ میں ہیڈ رہ چکے ہیں۔ اُن سے میں نے پوچھا کہ عربی زبان میں مہارت کا راز کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنون۔ آدمی جب جنون کی حدتک کسی چیز کا طالب بن جائے تو وہ ضرور اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایک اور سوال میں نے ان سے یہ کیا کہ فیملی لائف کو کامیاب بنانے کا راز کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایڈجسٹمنٹ (adjustment) ۔
مسٹر علی اکیز (35 سال)کی مادری زبان ترکی ہے۔ اس کے علاوہ وہ انگریزی زبان سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارے ساتھی مختلف موضوعات پر برابر اُن سے تبادلہ خیال کرتے رہے۔
ہمارے ساتھ سفر میں ذاتی بیگ کے علاوہ، 5 بڑے بڑے کارٹن (carton) تھے۔ اِس میں دعوتی لٹریچرپیک کیا گیا تھا۔ چیک اِن (check-in) کے کاؤنٹر پر ائر پورٹ کے آدمی نے پوچھا کہ اِس کے اندر کیا ہے۔ہمارے ساتھی نے کہا کہ —— اسپریچول بکس (spiritual books)۔ اس نے مزید کوئی سوال نہیں کیا، بلکہ فوراً اوکے (ok) کہہ کر اس کو چیک اِن کردیا۔
اِس واقعے میں ہمارے لیے ایک سبق تھا۔ پچھلے زمانے میں اِس قسم کا معاملہ صرف رائل پیکٹ (royal packet) کے ساتھ کیا جاتاتھا۔ یہ دور جدید کا خاصہ ہےکہ اب وہی معاملہ مزید اضافے کے ساتھ اسپریچول پیکٹ کے ساتھ کیا جاتاہے — ہمارے ساتھیوں نے یہاں ائر پورٹ کے عملہ کو ہندی اور انگریزی میں چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ دیا۔ اس کو لوگوں نے ’تھینک یو‘ کہہ کر بخوشی قبول کیا۔
دہلی سے استانبول (Istanbul) کا سفر ٹرکش ائرلائنز (Turkish Airlines) کی فلائٹ نمبر 0717کے ذریعے طے ہوا۔ یہ تقریباً 7 گھنٹے کا سفر تھا۔ دہلی اور استانبول کے درمیان ڈھائی گھنٹے کا فرق ہے، یعنی جب دہلی میں 12 بج رہےہوں گے تو اُس وقت استانبول میں ساڑھے نو بج رہے ہوں گے۔ ٹرکش ائرلائنز کی ہر چیز جدید معیار کے مطابق نظر آئی۔ جہاز جب مجھ کو لے کر فضا میں تیز رفتاری کے ساتھ اڑ رہا تھا، اُس وقت مجھ کو قرآن کی یہ آیت یاد آئی: ولقد کرّمنا بنی آدم، وحملناہم فی البر والبحر(70:17)۔
اِس آیت میں فضائی سفر اپنے آپ میں شامل ہے۔ میں نے سوچا کہ ابتدائی دور ہی میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے گھوڑا پیدا کردیا۔ گھوڑا گویا کہ قدرتی طورپر ایک کسٹم میڈ (custom made) سواری کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے بعد انسانی ذہن سفر کے نئے نئے طریقوں کو دریافت کرتا رہا، یہاں تک کہ ہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کا زمانہ آگیا۔ تمام مخلوقات میں یہ صرف انسان ہے جس کے ساتھ اللہ نے اِس خصوصی ’’تکریم‘‘ کا معاملہ کیا ہے۔
راستے میں ٹرکش ائر لائنز کی فلائٹ میگزین (Sky Life) کا شمارہ مئی 2012 مطالعے کے لیے موجود تھا۔ اس کے ایک صفحے پر ترکی اور انگریزی زبان میں یہ اشتہار درج تھا:
Your ideas are important to us... to help us serve you better, please fill in the form at the back of the magazine. Your opinions and suggestions will be given careful consideration.
یہ جدید دور کے تجارتی اخلاق کی ایک مثال ہے۔ اِس کو کسٹمر فرینڈلی کلچر (customer-friendly culture) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح دعوت الیٰ اللہ کے لیے بھی مدعو فرینڈلی کلچر (Mad‘u-friendly culture) درکار ہے۔ دعوت کا کام صرف اعلان کا کام نہیں ہے، بلکہ وہ خیر خواہانہ اعلان کا کام ہے۔ مدعو کی کامل رعایت کے بغیر دعوت الی اللہ کا کام درست طورپر انجام نہیں پاسکتا۔
راستے میں دورانِ پرواز جب کھانا دیاگیا تو اس سے پہلے خوب صورت چھپا ہوا مینو (Menu) دیا گیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا— بادلوں کے اوپر ہمارے رستوراں میں آپ کا سواگت ہے:
Welcome to our restaurant above the clouds!
اِس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ یہ جنتی مہمان نوازی کی ایک جھلک ہے۔ یہ اعلیٰ مہمان نوازی (high hospitality) دنیا میں غیر معیاری صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ آخرت میں وہ اللہ کے منتخب بندوں کو معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
کھانـے میں جو چیزیں دی گئی تھیں، اُن میں سے ایک ترکی میوہ ہیزیل نٹ(Hazelnut) تھا۔ اس کے پیکٹ پر لکھا ہوا تھا : Miracle Nut یعنی معجزاتی میوہ۔ اس کو دیکھ کر ہمارے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ عارف انسان کے لیے اِس دنیا کی ہر چیز معجزہ (miracle) ہے، حتیٰ کہ ایک پارٹکل بھی معجزاتی پارٹکل (miracle particle) ہے۔ یہ شعور اگر آدمی کے اندر بیدار ہو تو ا س کو ہر چیز، خواہ بظاہر وہ چھوٹی ہو یا بڑی، ایک معجزاتی رحمت نظر آئے گی۔
دہلی سے استانبول کا سفر 7 گھنٹے کا نان اسٹاپ سفر تھا۔ عام حالت میں اِس قسم کا طویل سفر بہت اکتادینے والا ہوتا ہے، مگر اللہ کے فضل سے جہاز کے اندر مجھے نیند آگئی اور جب نیند کھلی تو جہاز میںاعلان ہورہا تھا کہ ہم بہت جلد استانبول کے ائر پورٹ پر اترنے والے ہیں۔ نیند کو قرآن میں سُبات (78:9)کہاگیا ہے، یعنی راحت (repose) کا ذریعہ۔ حقیقت یہ ہے کہ نیند انسان کے لیے ایک عجیب نعمت ہے۔ میڈیکل سائنس اب تک یہ دریافت نہ کرسکی کہ نیند کیوں آتی ہے۔
گفتگو کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914) نے 120 سال پہلے مئی 1892 میں انڈیا سے ترکی کا سفر کیا تھا۔ وہ بمبئی سے اسٹیم شپ کے ذریعے روانہ ہوئے اور 22 دن سفر کرنے کے بعد استانبول پہنچے۔ اِس کے مقابلے میں ہمارا سفر صرف 7 گھنٹے میں مکمل ہوگیا۔ یہ واقعہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ پچھلے 120 سال کے اندر اللہ تعالی نے ہمارے لیے کتنے بڑے بڑے مواقع کھول دئے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ مواقع اِس لیے کھلے تھے کہ مسلمان اُس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور جدید ذرائع کو استعمال کرتےہوئے دعوت الی اللہ کا کام عالمی سطح پر انجام دیں، مگر عجیب بات ہے کہ مسلمان اکیسویں صدی میں بھی اِس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ وہ نہ حقیقی معنوں میں اللہ کا شکر ادا کرسکے اور نہ انھوں نے جدید ذرائع کو استعمال کرتےہوئے دعوت الی اللہ کا کام انجام دیا۔
ٹرکش ائر لائنز جس سے ہم لوگ سفر کر رہے تھے، اُس کی سروس بالکل یورپی معیار کی تھی۔ پوری پرواز نہایت پرسکون رہی۔ آخر میں لینڈنگ بھی پوری طرح اسموتھ لینڈنگ (smooth landing) تھی۔ راستے میں ہمارے ساتھیوں نے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ جہاز کا پائلٹ اپنی کیبن میں تھا۔ جہاز کے ایک اسٹاف کے ذریعہ اس کو قرآن کا انگریزی ترجمہ بھیجا گیا۔ استانبول کے ائرپورٹ پر پائلٹ نے کیبن سے باہر نکل کر ہمارے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا۔
استانبول کے انٹرنیشنل ائر پورٹ کا نام اتاترک ائر پورٹ ہے۔ وہ ترکی کے یورپین سائڈ (Thrace) میں واقع ہے۔ ائر پورٹ پر لمبا راستہ طے کرنے کے لیے میں وھیل چیئر استعمال کرتا ہوں۔ ائر پورٹ پر میں نے دیکھا کہ یہاں اس کا ایک پورا ڈپارٹمنٹ قائم ہے۔ صرف ایک مسافر کو جہاز سے اتار کر باہر پہنچانے کے لیے جدید طرز کی مخصوص گاڑیاں ہیں جن کو ہینڈل کرنےکے لیے کئی آدمیوں کا عملہ (staff)ہے۔اِن لوگوں نے جس طرح ہوائی جہاز سے اتار کر مجھ کو ائر پورٹ کے باہر کھڑی ہوئی گاڑی تک پہنچایا، وہ پورا معاملہ ورک کلچر(work culture) کا اعلی نمونہ تھا۔ یہ سب ترکی کے اُس وسٹرنائزیشن(westernization) کا نتیجہ ہے جس کو مذہبی مسلمان عام طورپر مغرب زدگی کا نام دیتے ہیں۔
کانفرنس کے منتظمین نے ہم لوگوں کے لیے ایک مخصوص گاڑی رزرو (reserve) کررکھی تھی۔ یہ گاڑی شروع سے آخر تک ہمارے استعمال میں رہی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارا ترکی ڈرائیور عام ہندستانی ڈارئیور سے بالکل مختلف تھا۔ وہ کوئی غیر ضروری بات نہیں کرتا تھا۔ اِس گاڑی کے ذریعے ہم لوگ مسٹر علی کے ہم راہ ائر پورٹ سے ہوٹل کے لیے روانہ ہوئے۔ سڑکیں بہت کشادہ اور ہموار تھیں۔ سڑکوں پر ہندستان جیسا رش (rush)نظر نہیں آیا۔ سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کی کثیر منزلہ خوب صورت عمارتیں نظر آئیں۔ جگہ جگہ سرسبز علاقے دکھائی دے رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف کثرت سے مسجدوں کے بلند مینار دکھائی دے رہے تھے۔
میرا اندازہ ہے کہ ترکی میں جو اعلی انفراسٹرکچر ہے، وہ غالباً دوسرے کسی مسلم ملک میں موجود نہیں۔ ترکی کی شہری پلاننگ بظاہر مغربی طرز کی ہے، لیکن ترکی کے شہروں اور مغربی ملکوں کے شہروں میں ایک نمایاں فرق نظر آتا ہے، وہ یہ کہ مغربی ملک کے ایک شہر میں بلڈنگیں ہوں گی، لیکن مسجد کے مینار وہاں دکھائی نہیں دیںگے ۔ لیکن ترکی میں جدید طرز کی بلڈنگوں کے ساتھ ترکی طرز کے مینار دونوں کے درمیان فرق کو نمایاں کررہے ہیں۔ استانبول کا شہر ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے، اِس لیے اس کے مختلف حصوں میں بہت زیادہ نشیب وفراز پایا جاتا ہے۔
ترکی، شرقِ اوسط کا ایک ملک ہے۔ وہ جزئی طورپر ایشیا میں واقع ہے اور جزئی طور پر یورپ میں۔ دو براعظم کے درمیان اُس کا واقع ہونا اس کی تاریخ بنانے میں ایک مرکزی عامل ہے، اس کے کلچر میں اور اس کی سیاست میں۔ عام طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ ترکی، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتاہے:
Turkey is a country of the Middle East lying partly in Asia and partly in Europe. Its location in two continents has been a central factor in its history, culture and politics. Turkey has often been called a bridge between East and West (EB. 18/782)
ترکی کے ایشیائی حصے کو اناطولیہ (Anatolia)اور اس کے یورپی حصے کو تھریس (Thrace) کہاجاتاہے۔اِس طرح ترکی گویا مشرقی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان ایک سنگم (junction) کا کام کررہا ہے۔ترکی کا یہ مخصوص جغرافیہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ ترکی کا مشن کیا ہے۔ وہ مشن ہے— مشرق سے ملی ہوئی خدائی ہدایت کو اہلِ مغرب تک پہنچانا۔
استانبول کے جس ہوٹل (Sözbir Royal Residency) میں ہمارا قیام تھا، وہ آبنائے باسفورس کے کنارے ہے۔ یہ ہوٹل ایشین سائڈ (Anatolia)میں واقع ہے۔ ہماری گاڑی باسفورس کے اوپر بنے ہوئے اُس جدیدطرز کے پل سے گزری جس کو 1973میں برٹش انجینئروں نے تعمیر کیا تھا۔ یہ ایک لمبا اور کشادہ پل ہے۔باسفورس کا یہ پل ترکی کے یورپی حصے کو ترکی کے ایشین حصے سے جوڑتا ہے۔ ائر پورٹ سے ہوٹل تک کا یہ راستہ 45 منٹ میں طے ہوا۔
ہوٹل میں میں جس کمرہ (suite) میں تھا، اس میں ہر قسم کا آرام وراحت کا سامنا تھا، لیکن مجھے کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں تھی، حتی کہ میں نے اس کے جدید طرز کے باتھ روم میں کبھی غسل بھی نہیں کیا۔ یہاں میری ساری دل چسپی صرف ایک چیز سے تھی اور وہ تھی کمرے کی پشت پر لگے ہوئے شیشے کے پاس بیٹھ کر باسفورس کا منظر دیکھنا۔
باسفورس (Bosphorus) ایک ابنائے (strait) ہے۔ باسفورس بحرِ اسود(Black Sea) اور بحرِ مرمرا(Sea of Marmara)کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔آبنائے باسفورس 1452 عیسوی میں ترکوں کے قبضے میں آیا۔ آبنائے باسفورس میرے لیے فطرت کے حسن کا اتھاہ منظر تھا۔ سمندر کا پانی، اُس میں چلتی ہوئی اسٹیم بوٹ، اس کےاوپر اڑتے ہوئے پرندے، ہواؤں سے ہلتے ہوئے سرسبز درخت، آسمان کا منظر، سورج کی روشنی، یہ تمام چیزیں مل کر ایمان افروز منظر کا نمونہ بنی ہوئی تھیں۔ میں جب بھی کمرے میں ہوتا، اس کو دیکھ کر خالق کو اور اس کی تخلیق کو یاد کرتا رہتا۔
دوپہر کا کھانا ہم لوگوں نے اِسی ہوٹل میں کھایا۔ کھانا سادہ تھا اور مغربی ذوق کے مطابق، مرچ مسالے سے خالی۔یہاں وجیٹیرین فوڈ اور نان ویجٹیرین فوڈ دونوں موجود تھے، مگر میں نے اپنی عادت کے مطابق، صرف ویجیٹیرین فوڈ لیا۔
ترکی میں غالباً سگریٹ اسموکنگ کا کافی رواج ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ وہ لوگ اندر کمرے میں یا لوگوں کے درمیان اسموکنگ(smoking) نہیں کرتے، وہ جاکر کھلے ایریا میں اسموکنگ کرتے ہیں۔یہ طریقہ ترکی میں کئی جگہ نظرآیا۔ ہوٹل میں بھی یہی منظر دکھائی دیا۔ آج کل سگریٹ کے ہر پیکٹ پر یہ قانونی وارننگ (statutory warning) لکھی رہتی ہے کہ— سگریٹ پینا صحت کے لیے مضر ہے:
Cigarette smoking is injurious to health.
اِس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب سگریٹ بنانے والی کمپنیاں جانتی ہیں کہ سگریٹ پینا صحت کے لیے مضر ہے، تو وہ سگریٹ سازی کا کام کیوں کرتی ہیں۔اِس کا سبب موجودہ زمانے میں آزادی کا لامحدود تصور ہے۔ اِس بنا پر حکومت نہ سگریٹ ساز کمپنیوں پر پابندی لگاتی ہے اور نہ سگریٹ نوشوں کو وہ جبراً روک سکتی ہے۔ لامحدود آزادی کے اِس تصور پر ایک امریکی اسکالر نے کہا تھا— ہم آزادی کا تحمل نہیں کرسکتے:
We cannot afford freedom
انڈیا میں میرے جاننے والوں میں ایک صاحب کو تمباکو اور سگریٹ نوشی کی عادت تھی۔ لوگوں کی نصیحت سے وہ سگریٹ چھوڑ نہیں پاتے تھے۔ مجھ کو معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ سگریٹ پینا کوئی سادہ بات نہیں۔ سگریٹ پینے والا آدمی فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجاتا ہے، اور جو شخص فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجائے، وہ اسپریچول ڈیولپمینٹ سے محروم ہوجائے گا۔ کیا آپ اِس کا تحمل کرسکتے ہیں کہ آپ اسپریچول ڈیولپمینٹ سے محرومی میں جئیں اور اِسی حالت میں مر کر دنیا سے آخرت کی طرف چلے جائیں۔ میری بات کا اُن پر بہت اثر ہوا۔ انھوں نے اُسی دن سے سگریٹ پینا چھوڑ دیا۔
عصر کی نماز کے بعد ہم لوگ مسٹر علی کے ساتھ استانبول کے ایک خاص مقام کو دیکھنے کے لیے گئے۔ اس کا نام یہ ہے — چمل جہ (Camlica)۔ یہ استانبول کی سب سے اونچی پہاڑی ہے۔ وہ سطح سمندرسے 267 میٹر بلندہے۔یہاں سے شہر کا بیش تر حصہ دکھائی دیتاہے۔ یکم مئی 2012 کو لیبر ڈے (Labour Day) تھا، اِس بنا پر یہاں لوگوں کی کافی بھیڑ نظر آئی۔ میں نے مسٹر علی سے پوچھا کہ آپ کا ملک مشرق اور مغرب دونوں حصوں میں واقع ہے۔ آپ اپنے کو مشرقی سمجھتے ہیں یا مغربی۔ انھو ں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ — مائنڈ سے یورپین اور ہارٹ سے ایشین۔
عام طور پر لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ جب وہ کسی سے ملتے ہیں تو ہمیشہ اپنی بات سناتے ہیں، لیکن میرا مزاج اِس سے مختلف ہے۔ میں یہ کرتا ہوں کہ دوسروں سے باربار سوال کرکے ان کی بات سنتا ہوں، یہی میں نے یہاں بھی کیا۔ مسٹر علی سے میں بار بار سوال کرتا رہا اور ان کی باتیں سنتا رہا۔ میں نے پایا کہ مسٹر علی کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ اُن کو بہت سے واقعات یاد ہیں۔ تاریخ سے ان کو خصوصی دل چسپی ہے۔ وہ ترکی کے علاوہ، انگریزی اور رشین زبان جانتے ہیں۔ آج کل وہ عربی اور اردو زبان سیکھ رہے ہیں۔
اِس سلسلے میں گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ ترکی میں ایک مقولہ ہے — ایک زبان، ایک انسان۔ دوزبان، دو انسان۔تین زبان تین انسان:
Bir lisan bir insan, iki lisan iki insan, Üç insan üç insan
مابعد اتاترک دور (post-Atatürk period) پر گفتگو کرتے ہوئے مسٹر علی اکیز نے کہا کہ ترکی میں اِس دور میں دو خاص ترک مفکر پیدا ہوئے۔ دونوں کی سوچ غیر سیاسی اور تعمیری سوچ ہے — بدیع الزماں سعید نورسی (وفات: 1960) نے ترکوں کو نئے دور میں زندگی کی تعمیر کے لیے ایک فکر دیا۔ اور استاذ فتح اللہ گولن (پیدایش: 1941 ) نے اِس فکر کو ایک باقاعدہ عمل کی صورت دی۔ میں نے کہا کہ جہاں تک میرا خیال ہے، گولن تحریک کو سوشیو ایجوکیشنل تحریک (socio-educational movement) کہا جاسکتا ہے۔مسٹر علی نے اِس سے اتفاق کیا۔
ترکی میںآج غروب شام کو 8 بجے تھا۔ مغرب کے بعد ہم نے یہاں رات کا کھانا (dinner) کھایا۔ یہاں ایک خوب صورت ریستوراں تھا۔ اِس طرح کے ریستوراں میں اکثر کافی شور رہتا ہے، مگر یہاں ہمیں شور کا تجربہ نہیں ہوا۔
گفتگو کے دوران مسٹر علی سے میں نے کہا کہ نومبر 2008میں میں اپنے بعض ساتھیوں کے ہم راہ قبرص (Cyprus) گیا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ قبرص کے مشرقی حصے پر، جو کہ قبرص کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے، اس پر ترکوں کا قبضہ ہے۔ یہ قبضہ 1974 سے قائم ہے۔ اِس کی وجہ سے قبرص کے مسیحی لوگوں میں ترکی کے خلاف منفی جذبات پائے جاتے ہیں۔ میں نے کہا قبرص پر اِس قبضے کو میںترکی کے لیے ایک سیاسی بوجھ (political liability) سمجھتا ہوں، وہ جدید ترکی کے لیے کوئی قیمتی اثاثہ (asset)نہیں۔ترکی کو چاہیے کہ وہ قبرص میں اپنے قبضے کو چھوڑ دے اور اس کے بعد وہاں پُرامن انداز میں دعوہ ورک کرے۔ مسٹر علی نے اِس رائے کی اہمیت کو تسلیم کیا۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ دعوت کو عام طور پر لوگ تبدیلئ مذہب (conversion) کے ہم معنی سمجھتے ہیں، مگر یہ درست نہیں۔ دعوت دراصل نظریے کا ایکسچینج (exchange of thought) ہے۔ ہر ایک کو یہ حق ہے کہ وہ سچائی کے بارے میں اپنی دریافت (discovery)کو پُرامن طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ داعی کو جاننا چاہیے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں دعوت کا کام کررہا ہے جہاں ہر ایک کو خود خدا کی طرف سے مکمل آزادی (total freedom) حاصل ہے۔ کوئی داعی ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ مدعو کی آزادی کو اُس سے چھین لے۔ ایسی حالت میں دعوہ ورک ففٹی ففٹی کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی پچاس فی صد داعی کی طرف سے دعوت اور پچاس فی صد مدعو کی طرف سے قبولیت (acceptance)۔ میں نے مزید کہا کہ پوری تاریخ عملی طورپر ناکامی کی تاریخ نظر آتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے قابلِ حصول اور ناقابلِ حصول کے درمیان فرق نہیں کیا۔ انھوں نے ناقابلِ حصول کو اپنا نشانہ بنا لیا، حالاں کہ انھیں صرف قابلِ حصول کو اپنا نشانہ بنانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اِس دنیا میں آئڈیل (ideal) کا حصول ممکن نہیں۔ جو آدمی آئڈیل کا طالب ہو، اس کو چاہیے کہ وہ آخرت کے لیے عمل کرے۔
چمل جہ (Camlica)سے روانہ ہو کر ہم لوگ رات کو 10بجے ہوٹل پہنچے۔ یہاں ایک مجلس میں میں نے اپنے ساتھیوں سے گفتگو کرتےہوئے اپنا ایک تاثر اِس طرح بیان کیا۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں کمائی کے مواقع بہت بڑھ گئے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ساری دنیا میں ایک ظاہرہ دکھائی دیتاہے، وہ ہے ذہنی ارتقا کا رک جانا۔ موجودہ زمانے میں فکری اعتبار سے، اعلی درجے کے لوگ پیدا نہیں ہورہے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اِس زمانے میں تقریباً ہر آدمی پروفیشنل (professional) بناہوا ہے۔ اِس طرح کے لوگوں کو ایک شخص نے حیوانِ کاسب (earning animal) کا نام دیا تھا۔ اِس کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگوں کا ذہنی ارتقا رک گیا ہے۔ اِس مسئلے کو ایک لفظ میں ذہنی بونا پن (intellectual dwarfism) کہاجاسکتا ہے۔
اگلے دن 2 مئی 2012 کی صبح کو 9 بجے ہوٹل سے گولن تحریک کے تحت قائم اکیڈمی (Akademi) کے لیے روانگی ہوئی۔ ہوٹل سے اکیڈمی بذریعے کار 15 منٹ کے فاصلے پر تھی۔ یہاں صبح کا ناشتہ کیاگیا۔ اِس دوران ہر ایک نے مختصر انداز میں اپنا تعارف پیش کیا۔ میں نے اپنے بارے میں کہا کہ میں ایک صوفی داعی ہوں، یعنی مزاج کے اعتبار سے صوفی اور اپنے مشن کے اعتبار سے داعی۔ یہاں اکیڈمی کے ارکان کے علاوہ، افریقہ کے مختلف ملکوں کے نمائندہ افراد اور الجزائر کے لوگ بھی موجود تھے۔یہ لوگ کانفرنس میں شرکت کے لیے ترکی آئے تھے۔
ناشتے کے بعد یہاں میری ایک تقریر ہوئی۔ اِس کا موضوع تھا —’’اسلام میں حکمت (wisdom) کی اہمیت‘‘ ۔ میں نے انگریزی زبان میں تقریر کی۔ اُس کا عربی ترجمہ اُسی وقت پروفیسر زبیر احمد فاروقی نے کیا۔ پروفیسر زبیراحمد فاروقی عربی سے انگریزی اور انگریزی سے عربی ترجمے کے اکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔
اِس تقریر میں میں نے ایک بات یہ کہی کہ قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، عسر کے ساتھ ہمیشہ یسر موجود ہوتا ہے (فإن مع العسر یسراً، إن مع العسر یسراً)۔ اِس لیے تم عسر (problem) کو نظر انداز کرو اور یسر (opportunity)کو دریافت کرکے اس کو استعمال کرو۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طورپر عسر کے اعلان کو سب سے بڑا کام سمجھتے ہیں۔ اِس کی ایک مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ ایک عرب عالم عبد الرحمن الحبنکہ نے ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس کا ٹائٹل یہ ہے: الأفاعی الثلاثة (تین بڑے سانپ)۔
میں نے تقابلی طورپر کہا کہ حضرت موسی کو جادوگروں کے سانپ کو دیکھ کر خوف لاحق ہوا۔ اُس وقت اللہ تعالی نے کہا کہ تم اپنا عصا ڈال دو، وہ اس سانپ کونگل جائے گا(7:117)۔ میں کہا کہ خاتم النبیین کی امت کے پاس بھی ایک عصا ہے اور وہ قرآن ہے۔ قرآن ہر زمانے کے ’’افاعی‘‘ کو نگل جانے کے لیے کافی ہے، مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اِس حقیقت سے بے خبر ہیں۔
یہ 45 منٹ کی تقریر تھی۔ مجلہ حراء کے مدیر مسٹر نوزادصواش اِس پروگرام کو کوآرڈی نیٹ کررہے تھے۔ انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: نقتبس الحکمة من داعیة الحکمة۔
تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام آدھ گھنٹے تک جای رہا۔ لوگوں نے مختلف سوالات کئے۔ڈاکٹر محمد موسی باباعمی (جنرل ڈائریکٹر معہد المناہج، الجزائر) نے ایک سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تقریر میں قرآن کو ’کتاب الثورة‘ کہا ہے۔ اِس کا کیا مطلب ہے۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ قرآن بلاشبہہ ایک انقلابی کتاب ہے، لیکن وہ فکری معنوں میں انقلابی کتاب ہے، نہ کہ سیاسی معنوں میں۔ قرآن آدمی کو ایک آئڈیالوجی دیتا ہے اور یہ آئڈیالوجی مبنی بر فطرت ہونے کی وجہ سے انسان کے مائنڈ کو ایڈریس کرتی ہے۔ اِس طرح قرآن، آدمی کے اندر ایک فکری بھونچال پیدا کرکے اس کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔
اِس پروگرام کے بعد اکیڈمی کے اوپری منزل کے ایک غُرفہ (upper chamber) میں ایک مخصوص نشست ہوئی۔ یہ ایک کانفرنس روم تھا۔ اس کی دیوار میں چاروں طرف بڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے جہاں سے استانبول شہر کا خوب صورت منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اِس پروگرام میں مجلہ ’’حراء‘‘ کے ایڈیٹر مسٹر نوزاد صواش نے عربی زبان میں گولن تحریک کا مختصر تعارف پیش کیا، اور تحریک کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا۔انھوں نے کہا کہ گولن تحریک کا مقصد ہے— غیر سیاسی دائرے میں رہتے ہوئے سماجی خدمت اور تعلیم کا فروغ۔
مسٹر نوزاد صواش استاد محمد فتح اللہ گولن کے براہِ راست شاگردوں میں سے ہیں۔ انھوں نے استاد فتح اللہ گولن کے بارے میں کئی باتیں بتائیں۔ مثلاً انھوں نے کہا کہ استاذ کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ ان کے اندر فوٹو گریفک میموری (photographic memory) پائی جاتی ہے۔ اِسی طرح وہ ایک اعتدال پسند آدمی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ استاذ فتح اللہ ایک حوصلہ مند (ambitious) طبیعت کے آدمی ہیں۔ کسی ایک حد پر رکنے کے بجا ئے ہمیشہ ان کی نگاہ آگے کی طرف رہتی ہے۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ ہم لوگوں نے مختلف زبانوں میں کئی ٹی وی چینل شروع کیے۔ ہم نے استاذ فتح اللہ گولن کو جب اِس کی خبر دی تو انھوں نے کہا کہ ابھی ہم میڈیا کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ہم کو اسی پر اکتفا نہیں کرنا ہے، بلکہ ہم کو ابھی اِس میدان میں بہت آگے بڑھنا ہے۔ اِس سلسلے میں مسٹر نوزادصواش نے کہا کہ: لا یفرح الأستاذ من الإنجاز، بل یتطلع دائما إلى الإنجازات۔ اِس میٹنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کانفرنس کا پروگرام کیاہوگا۔
یہاں کئی عرب فضلا سے ملاقات ہوئی۔ مثلاً کویت کے عربی مجلہ : الوعی الإسلامی (1965) کے مدیر فیصل یوسف احمد العلی، اور دکتور محمد وائل الحنبلی الدمشقی۔ ملاقات کے دوران فیصل یوسف العلی نے بتایا کہ وہ میری کتاب الاسلام یتحدی پڑھ چکے ہیں۔الحنبلی اِس وقت ترکی کے جامعہ سلجوق میں حدیث کے موضوع پر توسیعی لیکچر دے رہے ہیں۔
اِس موقع پر میں نے آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی۔ میری تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ پروفیسر زبیر احمد فاروقی نے میری تقریر کا ترجمہ عربی زبان میں کیا۔ میں نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں، اُن میں سے دو باتیں یہ تھیں— ایک یہ کہ اسلام کے مقابلے میں عصری تحدیات میرا اصل موضوع ہے۔ میری کتابیں زیادہ تر اِسی موضوع پر ہیں، براہِ راست یا بالواسطہ۔ دوسری بات میں نے ایک حدیثِ رسول کو لے کر کہی جو کہ اِن الفاظ میںآئی ہے: إن اللہ یرفع بہذا القرآن أقواماً ویضع بہ آخرین (سنن الدارمی، رقم الحدیث: 3365 )
میں نے کہا کہ اِس حدیث میں ’’رفع‘‘ سے مراد سیاسی رفع نہیں ہے، بلکہ نظریاتی رفع ہے۔ قرآن کی یہ اہمیت موجودہ سائنسی زمانے میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر قسم کی ترقیات کے باوجود شعوری یا غیر شعوری طور پر آج کا انسان حقیقت کی تلاش میں ہے۔ قرآن واحد کتاب ہے جس کا موضوع یہی ہے کہ انسان کو زندگی کی حقیقت بتائی جائےاور اس کو خدا کے تخلیقی پلان سے آگاہ کیا جائے۔ موجودہ زمانے میں اسلامی مشن کا سب سے بڑا آئٹم یہی ہے کہ قرآن کو لوگوں کی قابلِ فہم زبان میں اُن تک پہنچایا جائے۔
یہ اکیڈمی جدید طرزِ تعمیر کے مطابق بنائی گئی ہے۔ یہاں ایک مسجد، کانفرنس ہال، لائبریری اور مختلف آفس اور رہائشی کمرے بنے ہوئے ہیں۔ عربی مجلّہ ’’حراء‘‘ اور ترکی مجلہ ’’ینی امید‘‘ (امید ِ نو) کا دفتر بھی اِسی اکیڈمی میں ہے۔ یہاں کام کرنے والے افراد زیادہ تر ترک ہیں۔ یہ لوگ ترکی کے علاوہ، عربی زبان بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہاں کے متعدد اراکین جامع ازہر (قاہرہ) کے تعلیم یافتہ ہیں۔
اکیڈمی کی لائبریری میں میری کتاب الاسلام یتحدی کا ترکی ایڈیشن موجود تھا۔ عربی سے ترکی زبان میں اس کا ترجمہ مسٹر عاکف نوری نے کیا ہے، جو استانبول سے پہلی بار 1977میں شائع ہوا۔اِس کے بعد سے اب تک الاسلام یتحدى کے کئی ترکی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
اکیڈمی میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم لوگ سما ہاسپٹل (Sema Hospital) کے لیے روانہ ہوئے۔ منتظمین نے سماہاسپٹل کے معائنے کا یہ پروگرام صرف ہم لوگوں کے لیے بنایا تھا۔ یہ ہاسپٹل گولن گروپ کے تحت چلائے جانے والے اسپتالوں میں سے ایک ہے۔اکیڈمی سے ہاسپٹل تک بذریعہ کار آدھ گھنٹے کا راستہ تھا۔ یہ ہاسپٹل بحرِ مرمرا (Sea of Marmara) کے ساحل پر واقع ہے۔ وہ جدید طرز تعمیر کے مطابق بنایا گیا ہے۔ اس میں تمام میڈیکل شعبے موجود ہیں۔ اُس کا عملہ (staff) سب کا سب ترک ماہرین پر مشتمل ہے۔ پورا ہاسپٹل نہایت صاف اور نہایت منظم دکھائی دیا۔ اِس ہاسپٹل کا جائے وقوع فطرت کے ماحول میں ہے۔ اس کے ایک طرف بحرِ مرمرا ہے اور دوسری طرف خوب صورت گارڈن۔ وہ ہاسپٹل سے زیادہ ایک صحت گاہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کو دیکھ کر میں نے کہا کہ:
It is more than a hospital.
یہاں ہم لوگوں کو دوپہر کا کھانا (lunch) کھانا تھا۔سامنے واقع ایک ڈائننگ ہال میں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد ہاسپٹل کے چیئر مین مسٹر مصطفی Mustafa Özcan)) نے گولن تحریک کے بارے میں مختصر طورپر بتایا۔ انھوں نے کہا کہ گولن تحریک کا ماٹو تین چیزیں ہیں : اللہ کا خوف، اللہ کی عظمت، اللہ کی محبت(مخافة اللہ،  مہابة اللہ، محبة اللہ)۔
مسٹر مصطفی ترکی زبان میں بول رہے تھے۔ اس کا انگریزی ترجمہ اُن کے سکریٹری مسٹریوجل دُراک (Yugel Durak) نے کیا۔ اِس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے میرے ایک ساتھی نے کہا کہ اگریہ سوچا جائے کہ اِس قسم کاترجمہ انسان کے سواکوئی دوسری مخلوق نہیں کرسکتی تو یہ واقعہ بلاشبہہ خدا کی عظمت اور خدا کے شکر کا ایک پُراہتزاز تجربہ (thrilling experience) بن جائے گا۔
پروگرام کے آخر میں ہاسپٹل کے چیئرمین مسٹر مصطفی نے خود اپنے ہاتھ سے ہماری ٹیم کے ہر فرد کو گفٹ آئٹم دئے۔ اِس میں استاذ محمد فتح اللہ گولن کی عربی اورانگریزی کتابوں کا ایک سیٹ اور رسٹ واچ (wrist watch) شامل تھی۔ اِس موقع پر انھوں نے بڑے سائز کا ایک میمنٹو (memento) پیش کیا۔ اِس میں سِلور حروف (silver letters) میں آیت الکرسی اور قرآن کی کچھ آیتیں لکھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اِس میمنٹوکو ہم خود اپنے ساتھی مسٹر علی اکیز کے ذریعے آپ کے آفس میں پہنچوادیں گے، آپ کو خود اُس کو یہاں سے دہلی لے جانا نہیں پڑے گا۔
سما ہاسپٹل سے روانہ ہو کر ہم لوگ شام کوہوٹل واپس آگئے۔ یہاں کچھ دیر قیام کرنے کے بعد دوبارہ شام کو 8 بجے ایک پروگرام کے لیے ہوٹل سے روانہ ہوئے۔ استانبول میں گولن تحریک کے تحت مؤسسة الفرات التربویة التعلیمیة (Firat Education Centre) کے نام سے ایک بڑا تعلیمی سنٹر قائم ہے۔ یہ جدید طرز کی ایک کئی منزلہ عمارت ہے۔ اِس عمارت کی پانچویں منزل پر کانفرنس میں شریک ہونے والے مختلف ملکوں کے نمائندہ افراد کی ملاقات کا ایک پروگرام تھا۔ استانبول میں استاذ محمد فتح اللہ گولن کا قیام اِسی منزل پر ہوتا ہے۔
یہاں پہنچ کر ہم لوگوں نے مغرب کی نماز ادا کی۔ مغرب کی نماز ہمارے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے پڑھائی۔ نماز کے بعد یہاں کئی لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ مثلاً شیخ ابراہیم صالح الحسین (نائجیریا، افریقہ)، شیخ عبد الناصر ابو الفیصل (رئیس الجامعة، جامعة العلوم الاسلامیہ العالمیة، اردن) سب لوگوں نے کہا کہ ہم نے آپ کی کتاب الاسلام یتحدی پڑھی ہے۔
نماز کے بعد اِسی تعلیمی سنٹر میں ترکی کے ایک ٹی وی چینل (Samanyolu TV) نے میرا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا جو ترکی میں نشر کیاگیا۔ انھوں نے خاص طورپر تین چیزوں کے بارے میں پوچھا— استاذ فتح اللہ گولن، ترکی اور دعوت الی اللہ۔ استاذفتح اللہ کے بارے میں میں نے کہا کہ میرے مطالعے کے مطابق،استاذ گولن بلا شبہہ ایک تخلیقی مفکر ہیں۔ اِسی طرح میں نے بتایا کہ ترکی مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترکی کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ مشرق کے ربانی وزڈم کو مغرب کے لوگوں تک پہنچائے۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ ہمارے ساتھیوں نے چینل کے لوگوں کو ہمارے یہاں کا چھپا ہوا دعوتی لٹریچر دیا۔
انٹرویو کے بعد اِسی مرکز میں شام کے کھانے (dinner) کا انتظام تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد ہم لوگوں کو ایک ہال میں لے جایاگیا۔ یہاںدیوار پرلگے ہوئے ایک بڑے اسکرین پر استاذ فتح اللہ گولن کا ایک ویڈیو دکھایا گیا۔ یہ ان کی ایک پرانی تقریر کا ویڈیو تھا۔یہ تقریر ترکی زبان میں تھی، جس کا عربی ترجمہ اسکرین پر ساتھ ساتھ آرہا تھا۔
یہ تقریر قرآن کے موضوع پر تھی۔ تقریر کا اسلوب واعظانہ تھا، مگر وہ مسحور کن تھا۔ اس میں باڈی لینگویج (body language) کا بہت زیادہ استعمال پایا جاتا تھا۔ تقریر کے دوران مقرر خود بھی رورہے تھے اور حاضرین کی طرف سے بھی بلند آ واز سے رونے کی آواز آرہی تھی۔ تقریر کے دوران انھوں نے قرآن کا ایک نسخہ اپنے ہاتھ میں اٹھایا اور اُس کودکھاتے ہوئے حاضرین سے کہا کہ تم نے خدا کی کتاب کو یتیم بنا دیا۔ تقریر کے دوران انھوں نے ایک حدیثِ رسول سنائی جس کے الفاظ یہ تھے: یأتی على الناس زمان، القرآن فی وادٍ، وہم فی وادٍ غیرہ (کنز العمال، رقم الحدیث: 29118) یعنی لوگوں کے اوپر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن کسی اور وادی میں ہوگا اور لوگ قرآن کے سوا کسی اور وادی میں ہوں گے۔
پروگرام کے خاتمے پر ہم لوگوں کو وہ کمرہ دکھایا گیا جس میں استاذ فتح اللہ گولن قیام کرتے ہیں، جب کہ وہ استانبول آتے ہیں۔ آج کل وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ یہ کمرہ بالکل سادہ تھا۔ وہاں کی نمایاں چیز صرف کتابیں تھیں جو ترتیب کے ساتھ دیوار کی الماری میں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ کتابیں عربی اور ترکی زبان میں تھیں۔یہاں ہال کےاندر دیوار پر ایک خوب صورت طغری لگا ہوا تھا۔ اِس میں ایک لمبی روایت خطِ ثلث میں جلی قلم سے لکھی ہوئی تھی۔اِس روایت کا ایک حصہ یہ تھا: لا تشغلوا أنفسکم بالدعاء على الملوک (مجمع الزوائد 5/242) یعنی تم حکمرانوں کے خلاف بد دعا کا طریقہ اختیار نہ کرو۔
عشا کی نماز کے بعد ہم لوگ اِس تعلیمی سنٹر سے روانہ ہو کر ہوٹل آگئے۔ اِس وقت یہاں سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ ٹمپریچر گھٹ کر 12 ڈگری ہوگیا تھا، جب کہ آج دوپہر میں یہاں کا ٹمپریچر 20 ڈگری تھا۔
3 مئی 2012 کی صبح کو ہوٹل پر ناشتہ کیا گیا۔اِس کے بعد ساڑھے نو بجے ہم لوگ استانبول کے اُس مقام کو دیکھنے کے لئے روانہ ہوگئے جہاں جامع ایوب ہے۔ یہاں ایک بڑا کامپلکس تعمیر کیاگیا ہے۔ اِس کے اندر حضرت ابو ایوب انصاری کا مقبرہ ہے۔ یہ مقام ترکی کے مغربی حصہ(Thrace) میں واقع ہے۔ کامپلکس کے باہر ایک وسیع احاطہ ہے جس کا فرش سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ اِس کے باہر مارکیٹ اور کئی اوپن رستوراںکھلے ہوئے ہیں۔
یہ کامپلکس تین چیزوں پر مشتمل ہے— جامع ایوب، مزارِ ایوب، قبرستانِ ایوب۔ کامپلکس کے اندر ایک بڑے کمرے میں حضرت ایوب کی قبر ہے۔ یہاں اُس وقت کچھ تعمیری کام ہورہا تھا، اِس لیے باہر لگی ہوئی ایک جالی سے ہم لوگوں نے قبر کو دیکھا۔ یہ ایک اونچی قبر تھی جو ہرے رنگ کے کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ جالی کے ایک طرف ترکی زبان میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے: Duâ Kapisi ۔ ہمارے ساتھی مسٹر علی نے بتایا کہ اِس کا مطلب ہے: دعا کا در وازہ۔ میں نے دیکھا کہ ترکی لوگ اور دوسرے زائرین یہاں آتے تھے اور خاموشی سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرکے چلے جاتے تھے۔
مقبرے کے سامنے ایک چھوٹا سا احاطہ ہے۔ اس میں ایک قدیم درخت لگا ہوا ہے۔ یہ درخت 5 سوسال پرانا ہے۔ اس کو سلطان محمد فاتح نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔ اِس احاطے کے سامنے قدیم طرز کی ایک بڑی مسجد ہے۔ اِس کو سلطان محمد فاتح نے 1458عیسوی میں بنوایا تھا۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے اِس مسجد میں دورکعت نماز اداکی۔ میں نے نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ اُس وقت خیال آیا کہ اب سے 14 سوسال پہلے عرب کی ایک جماعت کس طرح یہاں آئی اور کس طرح انھوں نے یہاں دین ِ اسلام کی اشاعت کی۔ یہ سوچتے ہوئے میرا دل بھر آیا۔ اُس وقت آنسوؤں کے ساتھ میری زبان سے یہ دعا نکلی— خدایا، تو مجھ کو اور میرے مشن میں ساتھ دینے والے تمام مردوں اور عورتوں کو صحابہ کے اُس دعوتی قافلے میں شامل فرما۔ وما ذلک على اللہ بعزیز۔
مسجد کے اندر کچھ عورتیں اور مرد بھی ذکر ودعا میں مشغول نظر آئے۔ مسجد کے عقبی حصے میں ایک قبرستان ہے۔ یہاں بہت سے ترک علما اور کچھ مشہور عثمانی خاندان کے حکمرانوں کی قبریں ہیں۔
ترکی میں عثمانی خلافت (Ottoman Empire) 1299 ء میں قائم ہوئی، اور 1924 ء میں عملاً وہ ختم ہوگئی۔ ترکی میں سلطان محمد فاتح (وفات: 1481 (کے وقت سے یہ طریقہ رائج تھا کہ جب کوئی سلطان تخت نشیں ہوتا تو اُس وقت جامع ایوب (مقبرہ حضرت ایوب انصاری) پر اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی۔ یہاں شیخ الاسلام (مفتیٔ اعظم قسطنطنیہ) خاندانِ عثمانی کے بانی سلطان عثمان خان (وفات: 1326 ) کی تاریخی تلوار اس کی کمر میں حمائل کرتے۔ یہ شاہی رسم سلطان کی تاج پوشی کا لازمی حصہ تھی۔
حضرت ابو ایوب کا پورا نام خالد بن کلیب بن ثعلبہ ہے۔ ان کا تعلق مدینہ کے بنی نجار قبیلے سے تھا۔ وہ مدینہ میں رہتے تھے۔ انھوں نے بدر و احد اور خندق اور دوسرے تمام غزوات میں شرکت کی۔ وہ ایک بہادر انسان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 622 میں جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو ابتداء ً آپ نے ابوایوب انصاری کے گھر میں قیام کیا۔ حضرت معاویہ کے زمانے میں حضرت ابو ایوب انصاری یزید بن معاویہ کے ساتھ صحابہ کے ایک قافلے میں قسطنطنیہ کے لیے دعوتی مہم پر روانہ ہوئے۔ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 80 سال تھی۔ صحابہ کے اِس قافلے میں دوسرے صحابہ کے علاوہ، حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت حسن اور حسین بھی شامل تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری راستے میں بیمار ہوگئے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو وصیت کی کہ اگر راستے میں میری موت آجائے تب بھی مجھ کو اپنے ساتھ منزل (ارضِ روم، قسطنطنیہ) لے جانا اور وہیں مجھ کو دفن کرنا۔ چناں چہ انتقال کے بعد ان کی تدفین قسطنطنیہ (استانبول) میں کی گئی۔ یہ 52 ہجری (672 عیسوی) کا واقعہ ہے۔
جامع ایوب کو دیکھنے کے بعد ہم لوگ استانبول کی ایک تاریخی مسجد کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ اس کا نام رستم پاشا (Rustem Pasha Mosque) ہے۔
The Rüstem Pasha Mosque is an Ottoman mosque located in Strawmat Weavers Market in the Tahtakale neighborhood, of the Eminönü district of Istanbul, Turkey. The Rüstem Pasha Mosque was designed by Ottoman imperial architect Mimar Sinan . Rüstem Pasha died in July 1561 and the mosque was built after his death from around 1561 until 1563.
یہاں مسجد کے امام صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ یہاں کے دیگر ائمہ مساجد کی طرح کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھے۔ تاہم مزاج کے اعتبار سے وہ نہایت سادہ تھے۔ ہم لوگوں کی تواضع کے لیے انھوں نے چائے کے ساتھ بھنی ہوئی مونگ پھلی پیش کی۔مجھے ان کی یہ سادہ تواضع بہت پسند آئی۔ سادہ تواضع ہی اسلام کی اسپرٹ کے مطابق ہے، مگر موجودہ زمانے میں سادہ تواضع کا طریقہ مسلمانوں میں تقریباً معدوم ہوچکا ہے۔
سی پی ایس کے ایک ممبر ڈاکٹر ثانی اثنین خاں اِس سے پہلے استانبول آئے تھے۔ انھوں نے امام صاحب کو ہمارے یہاں سے چھپے ہوئے انگریزی ترجمۂ قرآن کی کاپیاں دی تھیں۔ ہم وہاں پہنچے تو یہ ترجمۂ قرآن وہاں مسجد کے گیٹ پر ایک اونچی جگہ پر رکھا ہوا نظر آیا۔ اِس مسجد میں سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ یہ سیاح بھیڑ لگا کر قرآن کاانگریزی ترجمہ یہاں سے لے رہے تھے۔ استانبول کے ایک بڑے پریس (Imak Offset)نے یہ پیش کش کی ہے کہ ڈسٹری بیوشن کے لیے جتنے بھی انگریزی ترجمۂ قرآن کی ضرورت ہوگی، وہ اُس کو نو پرافٹ، نولاس (no profit, no loss) کی بنیاد پر چھاپ کر دیں گے۔
مسجد کے امام اسماعیل(Ismail Karakelle) ترجمہ قرآن کو پھیلانے کا کام نہایت ذوق وشوق سے کررہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے وہ سیاحوں کو قرآن اپنے ہاتھ سے دیتے تھے تو سیاح کم دلچسپی لیتے تھے، پھر انھوں نے یہ کیا کہ قرآن کے سائز کا ایک خوب صورت بیگ بنایا او ر اس میں قرآن کا نسخہ رکھ دیا۔ یہ بیگ سیاحوں کے ذوق کا ہے، اِس لئے وہ اس کو بخوشی لے لیتے ہیں۔ جس مقام پر قرآن کے نسخے رکھے گئے ہیں، وہاں پر بڑے حروف میں یہ الفاظ لکھ دئے گئے ہیں:
Free Spiritual Gift
امام صاحب نے کہا کہ ہم اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ حکومتی سطح پر ایک وقف بنادیا جائے، تاکہ اس کے تحت ترکی کے ہر تاریخی مقام پر سیاحوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا جاسکے۔ رستم پاشا مسجد میں جب میں آیا تو میں نے دیکھا کہ یہاں مختلف ملکوں کے سیاح بڑی تعداد میں آرہے ہیںاور جب وہ مسجد کو دیکھ کر واپس ہوتے ہیں تو ہر ایک کے ہاتھ میں قرآن کا ایک نسخہ ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ مسجد پہلے صرف ایک عبادت خانہ تھی، مگر اب وہ ’مسجد پلس‘ ہوگئی ہے۔ وہ مسجد کے ساتھ قرآن ڈسٹری بیوشن کا ایک عالمی سنٹر بن گئی ہے۔ امام صاحب نے بتایا کہ مسجد کے علاوہ بھی وہ یہاں قرآن کا ترجمہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً حال میں استانبول کے ایک مقام پر سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں غیر ملکی لوگ بھی شامل تھے۔ اِس موقع پر انھوں نے ایک ہزار لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیا۔
امام صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے ایک بات یہ کہی کہ ایک رپورٹ کے مطابق، 2011 میں 31 ملین سے زیادہ غیر ملکی سیاح ترکی میں آئے۔ یہ لوگ معروف معنوں میں صرف سیاح نہیں، بلکہ وہ ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ملک سے نکل کر یہاں آتے ہیں اور ہمارے دروازےپر آکر دستک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے حاملینِ قرآن، ہم یہاں ہیں، لاؤ تم ہم کو خدا کا وہ کلام دو جو تم کو پیغمبر اسلام کے ذریعے ملا ہے۔ امام صاحب نے میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ آنے والے سیاح نہ صرف یہ کہ ہمارے ملک میں آکر ہم کو دستک دے رہے ہیں،بلکہ وہ ہماری مسجدوں میں داخل ہو کر ہم سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور قرآن کیا ہے۔
میں نے کہا کہ اِس طرح کا دعوتی ماحول ہر مسلم ملک میں موجود ہے، مگر مذہب کے نام پر ہونے والی باہمی لڑائیوں نے وہاں کے مسلمانوں کو دعوتی مزاج سے محروم کر رکھا ہے، جب کہ ترکی میں کمال آپریشن کے بعد آنے والے کھلے پن (openness) کی وجہ سے یہاں دعوت کے موافق ماحول موجود ہے۔
ترکی میں کثرت سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔چناں چہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ:
’’ترکی میں سیاحت یا ملازمت کی غرض سے آنے والے غیر مسلم ہر دن اپنے اطراف میں آباد مساجد سے پانچ دفعہ اذان کی آواز سن کر اس سے متاثر ہوتے ہیں اور دینِ اسلام کے بارے میں مزید معلومات کے حصول کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ چناں چہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ غیر ملکی افراد کی قابلِ ذکر تعداد مقامی دار الافتا کے دفتر میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کرنے کی غرض سے آنے لگی ہے، جن میں اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ چناں چہ ترکی حکومت کے شعبہ برائے اسلامی امور کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق، پچھلے ایک سال میں 634 غیر ملکی افراد اسلام قبول کرچکے ہیں، جن میں 467 خواتین ہیں۔ اِن افراد کی عمر 30 تا 35 سال بتائی گئی ہے۔ ان کا تعلق جرمنی، ہالینڈ، فرانس، چین، برازیل، امریکا، رومانیہ اور اسٹونیا سے بتایا جاتا ہے۔یہاں کے مفتی علی مراشلیگل نے بتایا کہ اسلام کی جانب ان کے رجحان کا آغاز عموماً اذان کی آواز کا سننا ہوتا ہے، دوسرے مرحلے میں مسجد کے امام سے رابطہ، قرآن مجید کا مطالعہ اور پھر اسلام کے قبول کرنے کا اعلان ہوتا ہے‘‘۔ (پندرہ روزہ تعمیر حیات، لکھنؤ، 25مئی 2012، صفحہ 19)
یہ واقعہ فطرت کی اہمیت کو بتاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ شامل ہے کہ وہ سچائی کی تلاش کرے۔ یہ فطری طلب گویا پیشگی طورپر ہر انسان کے لیے سچائی کو اس کا مطلوب بنائے ہوئے ہے۔ جیسے ہی کسی انسان کو سچائی اپنی بے آمیز صورت میں ملتی ہے، وہ اس کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر فوراً قبول کرلیتاہے — اسلام دینِ فطرت ہے اور بلاشبہہ یہی اسلام کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
رستم پاشا مسجد سےنکل کر ہم لوگ استانبول کے مشہور سائنسی میوزیم کو دیکھنے کے لئے گئے۔ اس میوزیم کا نام یہ ہے:
The Istanbul Museum of the History of Science and Technology in Islam.
یہ میوزیم ایک بڑے رقبے میں واقعہ ہے۔ اِس کا نام گل خانہ پارک (Rose Garden) ہے۔ یہ ایک وسیع اور پر فضا مقام ہے۔ یہاں پارک میں چنار کے درخت کثرت سے موجود ہیں۔ یہ میوزیم ایک ترکی سلطان کے قدیم محل میں بنایا گیا ہے۔ اِس کے اندر مسلمانوں کی سائنٹفک اور ٹکنکل ترقی کے نمونے موجود ہیں، جوکہ ساتویں صدی عیسوی سے لے کر سترھویں صدی عیسوی کے دور تک محیط ہیں۔
اِس میوزیم کو مشہور ترکی اسکالرڈاکٹر فواد سیزگین (Fuat Sezgin) نے 2008 میں قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر فواد سیزگین 1924 میں پیدا ہوئے۔ 1961 میں وہ استانبول سے جرمنی منتقل ہوگئے۔ اُس وقت سے اب تک وہ فرینکفرٹ یونی ورسٹی (Johann Wolfgang Goethe University) میں ہسٹری آف نیچرل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے ترکی کے علاوہ، جرمنی میں ہسٹری آف عرب اسلامک سائنس کے موضوع پر 1982میں ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر فواد سیزگین کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی مشہور کتاب ’’تاریخ التراث العربی‘‘ ہے۔
اِس تاریخی میوزیم کے تعارفی پملفٹ کے آخر میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
Thanks to this Museum, Istanbul has been enriched by yet another bridge between East and West, one which explores the deep historical relationship of the scientific traditions in eastern and western cultures.
ترکی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک کلچرل برج (cultural bridge) ہے۔ اِس کے علاوہ، اُس کا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ وہ مشرق کے وزڈم (wisdom) کو مغرب تک پہنچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے تحت قائم کردہ القرآن مشن (Al۔Quran Mission) اِسی تعلق کو زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
استانبول کے اِس تاریخی میوزیم کو دیکھ کر میں نے کہا کہ ڈاکٹر فواد سیزگین اور ان کے ساتھیو ںنے بلا شبہہ ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔ انھوں نے علم کے معاملے میں مسلمانوں کے تاریخی کنٹری بیوشن کو بتایا ہے۔ یہ میوزیم عملی طورپر بتاتا ہے کہ مسلمانوں نے قدیم اورجدید سائنس کے درمیان کس طرح پُل کا کام انجام دیا۔
سائنس میوزیم دیکھنے کے بعد ہم لوگ ایک ریستوراں (Can Kurtaran) کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ نئے انداز کا ایک اوپن ریستوراں ہے جو بحرِ مرمرا کے کنارے واقع ہے۔ اِسی ریستوراں کے قریب وہ تاریخی مسجد واقع ہے جس کو آیا صوفیہ اور مسجد سلطان احمد کہاجاتاہے۔ اِس ریستوراں میں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔
کھانے سے پہلے اپنے میزبان (مسٹر علی اکیز) کے سامنے میں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم لوگ اِس وقت 6 آدمی ہیں۔ آپ صرف 4 کھانا منگوائیے۔ وہ ہم سب کے لیے کافی ہوجائےگا۔ حدیث میں آیا ہے: طعام الواحد یکفی الاثنین (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2059) مگر یہ بات عام رواج کے خلاف تھی، اِس لیے میری تجویز کے خلاف زیادہ کھانا آگیا۔
اِس معاملے میں ایک طریقہ یہ ہے کہ کھانا بقدر ضرورت منگایا جائے، تاکہ وہ ضائع نہ ہو۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو امریکا میں رائج ہے۔ وہاں لوگ بچے ہوئے کھانے کو رکھ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اگلے وقت ا س کو استعمال کرتے ہیں، اس کے لیے میزبان اور ہوٹل دونوں نہایت خوشی سے ایک خوب صورت بیگ مہیا کردیتے ہیں۔
یہاں ترکی کے ایک پبلشر اور مصنف مسٹر محمد امین اپنے والد کے ساتھ مجھ سے ملنے کے لیے آگئے تھے۔ وہ کھانے میں شریک رہے اور آخر میں کھانے کا بل بھی انھوں نے ادا کیا۔ بعد کو انھوں نے مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو استانبول میں واقع اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ میری ایک کتاب کا ترجمہ انھوں نے ترکی زبان میں چھاپا ہے۔ انھوں نے کتاب کا مضمون بتایا، لیکن کتاب کا نام ان کو یاد نہیں تھا۔ اُس وقت کھانے کی میز پر بیٹھے بیٹھے میرے ایک ساتھی مسٹر رجت ملہوترانے ڈاکٹر ثانی اثنین خاں کو دہلی ٹیلی فون کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اِس کتاب کا اصل نام ’نحو البعث الإسلامی‘ ہے۔
اِس تجربے کے بعد میں نے کہا کہ استانبول اور دہلی کے درمیان تقریباً 5 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ جدید ٹکنالوجی کا کرشمہ ہے کہ اتنی دوری کے باوجود ایک لمحے میں دونوں کے درمیان گفتگو ہوگئی۔ میں نے کہا کہ اِس طرح کی بے شمار نعمتیں ہیں جو اللہ تعالی نے اِس دور میں ظاہر کی ہیں۔ مگر اِن نعمتوں پر خدا کا شکر کرنے والا کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا، نہ مسلمانوں میں اور نہ دوسرے لوگوں میں۔ مسلمان اپنے قومی ذہن کی بنا پر حقیقی شکر سے محروم ہیں اور دوسرے لوگ اپنے تفریحی ذہن کی بناپر۔میں نے کہا اللہ کے عطیات پر آدمی اگر شکر کا رسپانس نہ دے سکے، تو وہ اِس آیت کا مصداق بن کر رہ جائے گا: یتمتعون ویأکلون کما تأکل الأنعام (12 :47)
3 مئی 2012 کو استانبول کے دوسرے تاریخی مقامات کو دیکھنے کا پروگرام تھا، مگر بعض وجوہ سے آج اس پروگرام کو ملتوی کردیاگیا۔ چناں چہ ہم لوگ ریستوراں سے روانہ ہو کر 5بجے شام کو ہوٹل آگئے۔راستےمیں گاڑی کے اندر میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1924 میں جب ترکی میں عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تو ساری دنیا کے مسلمانوں نے اس کو ’’اسلام دشمنوں کی سازش‘‘ کے معنی میں لیا، حالاں کہ وہ قانونِ فطرت کا ایک معاملہ تھا۔ وہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان سیاسی رول کے بجائے دعوتی رول ادا کرنے کی تیاری کریں۔ مگر مسلمان، فطرت کے اِس اشارے کو سمجھ نہ سکے اور سارا وقت شکایت اور احتجاج میںضائع ہوگیا۔ جس طرح سورج کا نکلنا اِس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ لوگ نئے دن میں نیا کام کریں۔ اِسی طرح خلافت کے سیاسی ادارے کا خاتمہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ مسلمان نئے مواقع کو سمجھیں اور دورِ جدید میں ان کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کریں۔
ترکی میں ہم لوگوں کے لیے ہر قسم کی سہولتوں کا انتظام تھا، لیکن حقیقی سکون پھر بھی حاصل نہیں تھا۔ اِس پر بات کرتے ہوئے میرے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ — انسان غیرِ جنت کا تحمل بھی نہیں کرسکتا، پھر وہ جہنم کا تحمل کیسے کرسکے گا۔ یہ صورتِ حال بلاشبہہ ایک عظیم دعا کے لیے پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کی حیثیت رکھتی ہے، اور وہ ہے— جنت کی دعا۔ مومن وہ ہے جس کو دنیا کا ہر خوش گوار تجربہ جنت کی یاد دلائے اور ہر ناخوش گوار تجربہ اس کے اندر جہنم سے پناہ مانگنے کا شدید جذبہ پیدا کردے۔
3 مئی 2012کو ہم لوگ واپس ہو کر اپنے ہوٹل پہنچے۔ یہاں ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ہم لوگ اپنے کمرے کے اُس حصے میں بیٹھ گئے جہاں سے باسفورس کا منظر نہایت صاف دکھائی دیتا تھا۔ اُس وقت میں نے گفتگو کے دوران اپنے ساتھیوں سے کچھ باتیں کہیں جس کو انھوں نے اُسی وقت ریکارڈ کرلیا۔ یہ باتیں زیادہ تر تذکیری اور دعوتی نوعیت کی تھیں۔
ایک بات میں نے یہ کہی کہ مجھے آج کی مسلم دنیا میں دو مقامات ایسے دکھائی دے رہے ہیں جہاں سے اسلام کے حق میں دو بڑے واقعات ہونے والے ہیں — ایک، کشمیر اور دوسرا، ترکی۔ کشمیرسے اسلام کے مذہب امن ہونے کا اعلان، اور ترکی سے اسلام کی عالمی اشاعت۔ آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کی عمومی امیج (image)یہ بن گئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ یہ میڈیا کا پروپیگنڈہ نہیں ہے، بلکہ خود مسلمانوں کی غلط روش کے نتیجے میں ایساہوا ہے۔ انھیں میں سے ایک کشمیر کے مسلمان ہیں۔کشمیر کے مسلمان نادان لیڈروں کے فریب میں آگئے اور انھوں نے اسلام کے نام پر کشمیر میں تشدد کلچر چلادیا۔ اب اگر کشمیر کے مسلمان کھلے طور پر اعلان کردیں کہ ہم کو گمراہ کیا گیا تھا۔ اسلام پورے معنوں میں امن کا مذہب ہے اور ہم نے اپنی سابق روش کو چھوڑ کر پرامن اسلام پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے، تو اُن کا یہ اعلان بلاشبہہ اسلام کی امیج کو درست کردے گااور اس کے بعد کشمیر میں اسلامی دعوت کے نئے راستے کھل جائیں گے۔ اس موضوع پر حال میں میری ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اردو میں اِس کا نام ’’صبحِ کشمیر‘‘ ہے اور انگریزی میں اس کا نام یہ ہے:
Dawn over Kashmir
دوسرا مقام ترکی ہے۔ ترکی میں میرے اندازے کے مطابق، وہ حالات پوری طرح تیار ہیں، جب کہ ترکی اسلامی دعوت کا عالمی مرکز بنے۔ اِس موضوع پر ان شاء اللہ، میری ایک مستقل کتاب چھپنے والی ہے۔ اس کا نام یہ ہوگا: Turkey Rediscovered
جب میں حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر کے سامنے کھڑا تھا، اُس وقت مجھے یہ بتایا گیا کہ ترکی میں اور بھی بہت سے صحابہ کی قبریں ہیں۔ اُس وقت میرے دل کی عجیب کیفیت ہوئی۔ مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئی: لمثل ہذا، فلیعمل العاملون (61 :37)۔
میں نے کہا کہ خدایا، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے عمل کے نتیجے میں جنت کا استحقاق حاصل کیا۔ میرے پاس تو کوئی عمل نہیں، پھر میرا کیا انجام ہوگا۔ اُ س وقت مجھے قرآن کی ایک اور آیت یاد آئی۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں: وفی أموالہم حق للسائل والمحروم (19 : 51)۔ میں نے کہا کہ خدایا، تو نے بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ حق داروں کے علاوہ، سائل کو بھی اُن کا حصہ دیں۔ تیرا قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں عمل کرنے والے کو بھی ملے اور سائل کو بھی ملے۔ میں تیری رحمت سے امید کرتا ہوں کہ تو میرے ساتھ یہی سلوک کرےگا۔ میں اپنے عمل کی بنیاد پر جس چیز کا مستحق نہیں ہوں، اس کو تو میرے سوال کی بنیاد پر مجھے دے دے گا۔
پھر میں نے کہا کہ قرآن کی مذکورہ آیت (لمثل ہذا، فلیعمل العاملون) میں غالباً یہ بات بھی شامل ہے کہ: لمثل ہذا، فلیسئل السائلون— جنت کا استحقاق صرف دو چیزوں سے ہوتا ہے، حقیقی عمل، یا حقیقی دعا۔ اِس کے سوا کوئی تیسری چیز آدمی کو جنت کا مستحق بنانے والی نہیں۔
میرا تجربہ ہے کہ پوری امت ایک غلطی میں مبتلا ہے۔ اور وہ جنت کا کم تر اندازہ کرنا۔ لوگ ایسی چیزو ں کو جنت کی قیمت سمجھے ہوئے ہیں جن کا جنت کے حصول سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً صلوة التسبیح پڑھنے پر جنت، مسلم گھر میں پیدا ہونے پر جنت، کسی بزرگ کا دامن تھام لینے پر جنت، کسی درگاہ کے ’’دروازۂ جنت‘‘ سے گزر جانے پر جنت، کسی مقدس قبرستان میں دفن ہونے پر جنت۔ کلمہ گوئی پر جنت، مفروضہ دشمن کے خلاف لڑنے پر جنت، مسلمانوں کے قومی کلچر کو اختیار کرلینے پر جنت، وغیرہ۔ اِس ذہن کی ایک علامتی مثال ایک شاعر کا یہ شعر ہے:
نوکِ خامہ سے کھول لیں گے سہیل بابِ فردوس گر کھلا نہ ہوا
یہ محض ایک تخیلاتی شعر ہے، حصولِ جنت کے معاملے سے اِس کا کوئی تعلق نہیں — جنت کا دروازہ کسی انسان کے لیے اس کے ’’نوکِ خامہ‘‘ سے نہیں کھلے گا، بلکہ وہ صرف اللہ کی رحمت سے کھلے گا۔
3مئی 2012کی شام کا کھانا ہم لوگوں نے ہوٹل میں کھایا۔ کھانے کی میز پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ عرب اسپرنگ (Arab Spring) کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔میں نے کہا کہ یہ اصطلاح خود عربوں نے نہیں بنائی ہے، بلکہ امریکیوں نے بنائی ہے۔ عرب لوگ اِس کو ’’نہضة إسلامیة‘‘ کہتے ہیں، یعنی اسلامی بیداری (Islamic resurgence) ۔مگر میں دونوں ہی کو خوش فہمی سمجھتا ہوں۔آج کل جو کچھ عرب ملکوں میں ہورہا ہے، وہ نہ عرب اسپرنگ ہے اورنہ اسلامک رسرجینس۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف رد عمل کی ایک سیاست ہے۔ اور منفی رد عمل سے کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔ عرب ملکوں کا موجودہ ہنگامہ صرف ایک اینٹی اسٹیبلشمینٹ (anti-establishment) ہنگامہ ہے، وہ ہر گز کوئی پرواسلام (pro-Islam) تحریک نہیں۔
ایک مجلس میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں عرب ملکوں میں اسلام کے نام پر مختلف سرگرمیاں جاری ہیں، اِن سرگرمیوں کو ایک لفظ میں ’صحوة إسلامیة‘ کہا جاتا ہے، یعنی اسلامی بیداری۔ مگر میرے اندازےکے مطابق، یہ صحوة إسلامیة نہیں ہے، بلکہ وہ صحوة قومیة ہے۔ اِن سرگرمیوں کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلقنہیں۔
میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں عام طورپر ایسا ہوگیا ہے کہ اسلام اور مسلمان کو ہم معنی الفاظ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنی قومی سرگرمیوں کو صرف قومی نام دیں، وہ ان کو اسلام کا نام نہ دیں۔ قومی سرگرمیوں کو اسلام کا نام دینے سے خدا کا دین بدنام ہوتا ہے اور خدا کے دین کو بدنام کرنا بلا شبہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کا یہ قومی مزاج بہت قدیم زمانے سے چلا آرہاہے۔ حافظ شیرازی چودھویں صدی عیسوی کے ایک ایرانی شاعر تھے۔ یہی شکایت انھوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کے بارے میں اِن الفاظ میں کی تھی:
حافظا، مے خور ورندی کن وخوش باش ولے دامِ تزویر مکن چوں دگراں قرآن را
4 مئی 2012 کی صبح کو ہم لوگوں نے ہوٹل میں ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد ہم لوگ ساڑھے نو بجے فاتح کالج کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ بذریعہ کار 45 منٹ کا راستہ تھا۔
یہ کالج گولن تحریک کے تحت چلایا جارہا ہے۔ یہ کالج استانبول کے ایک کھلے ہوئے ایریا میں واقع ہے۔ اس کا کیمپس کافی بڑا ہے۔ یہ کالج جدید طرز کی 6 منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ کالج کے تعارف نامے میں اس کی بابت یہ الفاظ درج تھے:
Fatih College — our school, which is the new campus of Fatih College, started in the 2010-2011 academic year and it has pre-school, primary school, Anatolian High Schools and Science High Schools within. Our school offers a wide range of educational facilities in areas such as social and sport development to the students in modern conditions with the latest technology.
کالج کی بلڈنگ کی آخری منزل پر ایک وسیع کانفرنس ہال بنایا گیاہے۔ یہاں کالج کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔یہاں کالج کے افراد کے علاوہ، کانفرنس میں آنے والے کچھ شرکا بھی موجود تھے۔ اِس مجلس کے آغاز میں کالج کے ڈائریکٹر مسٹر اوغورتمبول (Ugur Tombul)نے کالج کا مختصر تعارف پیش کیا۔ اِس ذیل میں انھوں نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ یہ کالج آپ کا کالج ہے۔ یہ شہر آپ کا شہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ کالج کا مقصد ایسی نسل تیار کرنا ہے جو اسلامی معتقدات پر قائم ہو اور اِسی کے ساتھ وہ انسانیت کی خدمت کرنے والی ہو۔
کالج میں ابتداء ً مہمانوں کی تواضع کے لیے زمزم اور کھجور پیش کی گئی۔ اس کے بعد کچھ تازہ پھل دئے گئے۔ اس کو دیکھ کر ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ عام طور پر لوگوں کا یہ حال ہےکہ وہ آبِ زمزم کا ایک ایک قطرہ پی لیتے ہیں، جب کہ عام پانی کے معاملے میں وہ ایسا نہیں کرتے، حالاں کہ دونوں پانی یکساں طور پر اللہ کی عظیم نعمتیں ہیں۔
استاذ فتح اللہ گولن نے سب سے زیادہ زور تعلیم (education)پر دیا ہے۔ یہ بلاشبہہ صحیح اسٹارٹنگ پوائنٹ (right starting point)ہے۔ اِس کے حوالے سے میں نے ایک مجلس میں کہا کہ یہ بلاشبہہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ استاذ فتح اللہ گولن کے اندر صحیح طرز فکر پایا جاتا ہے۔
یہاں سب سے پہلے مجھ کو بولنے کا موقع ملا۔ میں نے تعلیم کے موضوع پر انگریزی زبان میں 15منٹ کی ایک مختصر تقریر کی۔ اِس کا بر وقت عربی ترجمہ پروفیسر زبیر احمد فاروقی نے کیا۔ اِس کے بعد مجلس کے دوسرے شرکا نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
4 مئی 2012 کو جمعہ کا دن تھا۔ کالج کے پروگرام کے بعد ہم لوگ گولن تحریک کے تحت نکلنے والے اخبار زمن (Zaman) کے آفس میں گئے۔ ا س کا آفس جدید طرز کے ایک بڑے کامپلکس میں واقعہ ہے۔ یہ اخبار ترکی کا مشہور اخبار ہے۔ اس کا سرکولیشن ایک ملین ہے۔ زمن کے دفتر کی کئی منزلہ عمارت کی ایک منزل پر مسجد بنائی گئی ہے۔ یہ جدید طرز کی ایک کشادہ اور خوب صورت مسجد تھی۔ مسجد کے ایک حصے میں عورتوں کے لیے نماز کا انتظام تھا۔ یہاں نمازیوں کی تعداد کافی تھی، پوری مسجد بھری ہوئی تھی۔ یہ سب کے سب لوگ اخبار (زمن) کے اسٹاف کے لوگ تھے۔امام سے لے کر مقتدی تک سب کے سب کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھے۔ترکی کے سفر سے پہلے ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ کمال اتاترک نے ترکوں کے لیے ہیٹ (hat) پہننے کو قانونی طورپر لازم قرار دے دیاتھا، مگر ہم کو اپنے سفر میں کوئی ترک ہیٹ پہنے ہوئے نظر نہیں آیا، نہ مسجد کے اندر، نہ مسجد کے باہر۔ ان کے سروں پر نہ ہیٹ ہوتا تھا اور نہ قدیم ترکی ٹوپی۔
اخبار زمن کے اِس کیمپس میں پرنٹنگ پریس بھی موجود ہے۔ یہاں سے اخبار کے علاوہ، استاد فتح اللہ گولن کی کتابیں انتہائی اعلی معیار پر چھپی ہیں۔ اس پبلشر کا نام یہ ہے: دار النیل للنشر۔
جمعہ کی نماز کے بعد زمن اخبار کے وسیع ہال میں دوپہر کا کھانا (lunch) کھایا گیا۔ کھانے کے دوران کانفرنس میں آنے والے مختلف شرکا سے ملاقات ہوئی۔ مثلاً مفتی مصر شیخ علی جمعہ، وغیرہ۔ مولانا محمد ذکوان ندوی نے ان کو میری کتاب ’الإسلام یتحدى‘ اور ’الدعوة إلى اللہ‘ کا ایک نسخہ پیش کیا۔ ’الاسلام یتحدى‘ کو دیکھ کر انھوں نے کہا کہ میں اِس کتاب کو 35سال پہلے پڑھ چکا ہوں۔ واضح ہو کہ ’الاسلام یتحدى‘ کا عربی ایڈیشن پہلی بار 1969 میں @کویت سے چھپا تھا۔ یہاں کئی عرب علما سے ملاقات ہوئی۔ اِن میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ’الاسلام یتحدى‘ کےبعد میری دوسری کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ میرے ساتھی نے ان کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ ’الاسلام یتحدى‘ کے بعد میری دوسری کئی کتابیں مختلف زبانوں میں چھپ چکی ہیں۔ خاص طور پر میری تفسیر ’تذکیر القرآن‘ کا عربی ایڈیشن 3جلدوں میں مصر کے ادارہ دار الوفا (منصورہ) سے 2008میں چھپ گیا ہے۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ایڈیشن تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اِس ادارے نے راقم الحروف کی ایک اور کتاب ’’خاتونِ اسلام‘‘ کا عربی ترجمہ (المرأۃ بین شریعۃ الإسلام وحضارۃ الغرب) شائع کیا ہے۔ ادارے کا مکمل پتہ یہ ہے:
دار الوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع، جمہوریۃ مصر العربیۃ، المنصورۃ
ش- الإمام محمد عبدہ المواجہۃ لکلیۃ الآداب، ص ب: 230
Tel: +2050 22 56 230, Fax: +20502260 974
e.mail: darelwafa@hotmail.com
www.darelwafaa.com
دار الوفا (مصر) کا اپنا ویب سائٹ ہے۔ اِس ویب سائٹ پر تذکیر القرآن کے عربی ایڈیشن کا تعارف اِن الفاظ میں دیکھا جاسکتا ہے:
Ÿ إن الغرض الرئیسی من ہذا التفسیر بصفۃ خاصۃ، ہو (التذکیر بالقرآن) ومن حیث أن القرآن نفسہ إنما جاء من أجل تحقیق ہذہ الغایۃ، أی التذکیر و الموعظۃ، فإن الجانب الذی أولاہ المؤلف القسط الاوفر من إتمامہ، فی طرح مضامین ہذا التفسیر ہو أن یجد فی القاری منہلا فیاضا أومرتعا خصبا یضمن لہ اشباع حاجتہ إلی التذکیر والاعتبار والاتعاظ۔
Ÿ وحاول المؤلف اتباع اسلوب الفقرات فی طرح مضامین ہذا التفسیر أی أنہ عمد إلی فقرۃ من فقرات القرآن، ثم تناول ما یندرج تحتہا من فکرۃ أو توجیہ معنوی بالتفسیر والإیضاح کموضوع متسلسل، وذلک حرصا منہ علی ألاتنقطع من القاریٔ سلسلۃ المعانی والمفاہیم المطروحۃ خلال قراء تہ فی فقرۃ تفسیریۃ معینۃ، ولکی یتمکن من التزود المستمر المتواصل (بالغذاء التذکیری) للقرآن الکریم۔
Ÿ ولقد توخی المؤلف الشیخ وحید الدین خان فی إعداد (تذکیر القرآن) من الحکمۃ، ما جعل کل فقرۃ من فقراتہ، مستقلۃ بذاتہا، وذلک لاحتوائہا علی فکرۃ قرآنیۃ واضحۃ محدّدۃ، فسواء قرأ القاری صفحۃ واحدۃ من التفسیر، أم قرأ مجموعۃ کبیرۃ من الصفحات، فإنہ لا یکد ینتہی من قراء تہ إلا ویکون قد ظفر بنصیب من (الموعظۃ القرآنیۃ) علی أیۃ حال۔
= وقد توخی الایجاز إلی الحد الممکن، غیر عارض للتفاصیل المتصلۃ بالجانب اللغوی، أو الجانب الفقہی أو الجانب الکلامی، أو ما إلی ذلک من الجوانب والوجوہ الأخری للمدلول القرآنی، وإنما الشیٔ الذی جعلہ نصب عینیہ،ہو أن یتسم تفسیر القرآن بطابع من البساطۃ التی یتمیز بہا القرآن نفسہ، فإن القرآن، من جہۃ یعکس جلال اللہ وعظمتہ، ومن جہۃ أخری، ہو مراٰۃ تنعکس علیہ عبودیۃ الإنسان بجمیع نواحیہا، وہذہ ہی النقاط الجوہریۃ التی یتمحور حولہا ہذا التفسیر، ویحاول تجلیتہا بأسلوب موجز وبسیط، بعیدا عن التعقیدات الفنیۃ۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ترجمہ مولانا ابوصالح انیس لقمان ندوی نے کیا ہے۔ وہ مالے گاؤں (مہاراشٹر)میں 1965 میں پیدا ہوئے۔ اب وہ ابو ظبی (عرب امارات) میں رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو عربی زبان سے عشق ہے۔ عربی کے علاوہ، وہ انگریزی زبان میں بھی لکھنے پڑھنے اور بولنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
اِس عربی تفسیر کے کئی سیٹ گولن تحریک کے اداروں کی لائبریری کے لیے دئے گئے۔ نیز میری تین کتابوں کا ایک سیٹ استاذ فتح اللہ گولن کو میرے دستخط سے بھجوایا گیا— التذکیر القویم، الإسلام یتحدى، الدعوة إلى اللہ۔
ترکی کی جس کانفرنس کے لیے ہم لوگ آئے تھے، اس کا انعقاد ترکی کے ایک دوسرے سرحدی شہر غازی عین تیپ (Gazentep) میں کیاگیا تھا۔ استانبول میں ہمارا قیام پیشگی طورپر اِس لیے تھا کہ ہم اِس تاریخی شہر کو دیکھیں اور یہاں کے تعلیمی اور سماجی اداروں کا براہِ راست طورپر مشاہدہ کرسکیں۔ عام طورپر کانفرنس کے شرکا کو براہِ راست غازی عین تیپپہنچنا تھا۔ چناں چہ اخبار زمن کے آفس سے ہم لوگ سیدھے کمال اتاترک کے ڈومسٹک ائر پورٹ گئے۔ یہاں سے ائر پورٹ صرف 15 منٹ کے فاصلے پر تھا۔ائرپورٹ پر کافی بھیڑ نظر آئی۔ یہاں سیکورٹی کا انتظام سخت تھا۔ مختلف مراحل پر بار بار چیکنگ ہوتی رہی۔ تاہم یہ سب جدید طرز کے آلات کے ذریعے بہت منظم انداز میں ہورہا تھا۔ ایک ترک ساتھی نے اِس کو دیکھ کر کہا کہ ترکی میں امریکا سے زیادہ، لوگ امن کے بارے میں حساس واقع ہوئے ہیں۔
یہاں ہمارے ساتھیوں نے ائر پورٹ کے عملہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ ہمارے ساتھ ترکی زبان میں چھپا ہوا ایک خوب صورت پمفلٹ تھا، وہ بھی یہاں لوگوں کو دیاگیا۔اس کا عنوان یہ تھا— اکیسویں صدی میں ترکی کا رول 21. Yüzyılda Tükiye’nin Rolü) (ائر پورٹ پر افریقہ سے آئے ہوئے کچھ علما سے ملاقات ہوئی۔ یہ انڈیا کے رہنے والے تھے، مگر وہ افریقہ (زامبیا) میں مقیم ہیں۔ ہمارے ساتھی نے ان کودعوتی پمفلٹ اور ’کتاب معرفت‘ دی۔ اس کو انھوں نے خوشی کے ساتھ لیا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے بتایا کہ وہ ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔
ائر پورٹ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ جہاز میں داخل ہوئے۔ یہ ٹرکش ائرلائنز (TK-2224)کا نسبتاً ایک چھوٹا جہاز تھا۔ استانبول سے غازی عین تیپکا فاصلہ تقریباً ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر (848.27) ہے۔ سوا گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم لوگ غازی عین تیپکے ائرپورٹ پر اتر گئے۔ یہ ایک چھوٹا اور خوب صورت ائر پورٹ تھا۔ فضا میں بادل تھے اور ائر پورٹ کے چاروں طرف دور دور تک پہاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔
ائر پورٹ سے بذیعہ کار ہم لوگ شہر کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ راستہ تقریباً 45 منٹ میں طے ہوا۔ غازی عین تیپمیں ہمارا قیام یہاں کے مشہور ہوٹل توجان (Tugcan)میں تھا۔ لیکن پہلے ہم لوگ اوغورپلازا ہوٹل(Uğur Plaza) میں گئے۔ یہاں مغرب کی نماز کے بعد ڈنر (dinner) کا انتظام تھا۔ ڈنر کے بعد ہم لوگ توجان ہوٹل چلے گئے جہاں ہمارا قیام تھا۔ یہ ہوٹل بذریعہ کار یہاں سے 10 منٹ کے فاصلے پر تھا۔
یہ جدید طرز کا ایک ملٹی اسٹوری ہوٹل تھا۔ یہاں ہوٹل کے پانچویں فلور پر ہم کو ایک سویٹ (suite) میں ٹھہرایا گیا۔ ہمارے ساتھیوں کے قیام کے لیے اِس ہوٹل کے فرسٹ فلور پر ڈبل بیڈ کا ایک دوسرا روم دیاگیا تھا۔ ہوٹل میں ہر قسم کی راحت کا سامان موجود تھا، لیکن مجھے اِس قسم کے سامانوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میں اپنے سادہ انداز میں ہوٹل میں رہا اور پھر واپس آگیا۔
5 مئی 2012 کو صبح کا ناشتہ اِسی ہوٹل میں تھا۔ کانفرنس کے تمام شرکا نے ایک بڑے ہال میں میزوں کے گرد بیٹھ کر ناشتہ کیا۔یہ پورا ہال کھانے کے مختلف آئٹم سے بھرا ہوا تھا، مگر میں نے اپنی عادت کے مطابق، ناشتے کے لیے صرف دو چیزیں لیں۔ شہد اور براؤن بریڈ۔
ناشتے کے بعد ہم لوگ شہر کے اُس مقام پر گئے جہاں کانفرنس کی کارروائی کا انتظام تھا۔ یہ جدید طرز کا ایک انتہائی وسیع ہال تھا۔ یہاں رسپشن کے پاس کئی بک اسٹال تھے۔ ہمارے ساتھی کئی کارٹن میں ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں لے گئے تھے۔ مثلاً قرآن کا انگریزی ترجمہ اور عربی اور انگریزی کی دوسری کتابیں۔ اِن میں ترکی زبان میں چھپا ہوا ایک پمفلٹ تھا جو اِسی موقع کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ تمام مطبوعات رسپشن کاؤنٹر کے سامنے لگی ہوئی میزوں پر رکھ دی گئیں۔ کانفرنس کے شرکا اور مقامی لوگوں نے یہاں سے مفت کتابیں حاصل کیں۔ یہ کتابیں ہاٹ کیک کی طرح تھوڑی ہی دیر میں ختم ہوگئیں۔
5 مئی 2012 کی صبح کو 11 بجے کانفرنس کا آغاز یہاں کے ایک اجتماعی سنٹر (Sehit Kamil Culture and Congress Centre)میںہوا۔ سب سے پہلے ایک نوجوان ترک قاری نے قرآن کی تلاوت سے کانفرنس کا آغاز کیا۔ یہ تلاوت مصری لہجے میںتھی۔ انھوں نے تلاوت کے لیے سورہ احزاب کی آیات 21-27 اور 36-48 کا انتخاب کیا تھا۔
قرأت کے بعد کانفرس کے ناظم مسٹر کمال گولن (Kemal Gülen) نے کانفرنس کا اور اس کے پروگرام کا تعارف کرایا۔ ان کی تقریر ترکی زبان میں تھی۔ اِس کانفرنس کا اہتمام مجلہ ’حراء‘ کی طرف سے کیاگیا تھا۔ چناں چہ تعارفی تقریر کے بعد مجلہ ’حراء‘ کے ایڈیٹر مسٹر نوزاد صواش کی تقریر ہوئی۔ انھوں نے کانفرنس کے مقاصد کی مزید وضاحت کی۔
اِس کانفرنس میں مجھے افتتاحی تقریر (inaugural address) کا موقع دیاگیا۔ میں نے انگریزی میں 15 منٹ کی ایک تقریر کی۔ تقریر کا موضوع دعوت الی اللہ تھا۔ اُس وقت میں شدید کیفیت میں تھا۔ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں نے کیا کہا، لیکن سننے والوں کا بیان ہے کہ تقریر کے دوران میں خود بھی روتا رہا اور سامعین بھی روتے رہے۔
تقریر کے بعد کئی لوگوں کے تبصرے سامنے آئے۔ کانفرنس کے کوآرڈینیٹر (co-ordinator)مسٹر کمال گولن نے اپنی تقریر کے دوران میرے بارے میں کہا کہ— اسٹیج پر ان کی موجودگی اپنے آپ میں ایک خاموش خطاب تھا۔ اُن کو دیکھ کر مجھے حضرت ابو ایوب انصاری یاد آگئے، کیوں کہ وہ جب ترکی آئے تھے تو وہ بھی اِسی طرح بوڑھے تھے، اُس وقت اُن کی عمر 80 سال ہوچکی تھی۔ اِسی طرح حراء میگزین کے ایڈیٹر مسٹر نوزاد صواش نے گفتگو کے دوران مجھ سے کہا کہ کانفرنس کو آپ ہی نے شروع کیا اور وہ آپ ہی پر ختم ہوگئی۔ انھوں نے کہا کہ کانفرنس میں آپ کا خطاب سننے کے بعد ہم نے سوچا کہ کانفرنس کو ختم کرکے اب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، کیوں کہ جو کچھ کہنا تھا وہ آپ نے کہہ دیا۔ اِسی طرح ایک ترک اسکالر نے کہا کہ:
You were the hero of this conference.
کانفرنس کے خاتمے پر ابھی میں اسٹیج ہی پر تھا کہ لوگ ہجوم کرکے میرے پاس آگئے۔ کوئی آٹوگراف لے رہا تھا، کوئی میرے ساتھ تصویر کھنچوارہا تھا، کوئی میری کتاب پر میرے دستخط لینا چاہتا تھا۔ یہ صورت حال دیر تک باقی رہی۔ ترکی کے ایجوکیشن منسٹر ڈاکٹر محمد گورمازبھی وہاں موجود تھے۔ وہ عربی بول رہے تھے۔
خطاب کے بعد وہ میرے پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تقریر میں حضرت ابو ایوب انصاری کا جو حوالہ دیا، اس نے مجھ کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔ انھو ں نے کہا کہ وہ میری عربی کتابیں پڑھ چکے ہیں— ترکی کے لوگوں نے جس اعلی اعتراف کا مظاہرہ کیا، وہ بلاشبہہ ان کے زندہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
میرے ساتھی نے یاد دلایا کہ میں نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ جب میں استانبول میں حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر کے پاس کھڑا تھا تو وہاں مجھے ایک خاموش آواز سنائی دی۔ یہ آواز خاموش تھی، لیکن وہ بہت زیادہ واضح تھی۔ وہ آواز یہ تھی کہ اے امتِ محمد، تم کہاں ہو۔ ہم نے  ماقبل کمیونکیشن دور میں خدا کا پیغام یہاں تک پہنچایا تھا۔ اب تم اٹھو اور آگے بڑھ کر اِس پیغام کو مابعد کمیونکیشن دور کی مدد سے پوری دنیا میں پہنچا دو۔ ہم نے قدیم دنیا کے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا تھا، تم جدید دنیا کے انسانوں تک خدا کا پیغامِ رحمت پہنچا دو۔
کانفرنس ہال سے ہم لوگ نکلے تو یہاں استانبول کے ٹی وی چینل الترکیہ (TRT) کی ٹیم موجود تھی۔ اس ٹیم کے نمائندہ مسٹر جمیل جوموش تھے۔ انھوں نے میرا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اُن کے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کا حل کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مسائل (problem)زندگی کا حصہ ہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع (opportunities) کو استعمال کیا جائے:
Ignore the problems, avail the opportunities.
مسٹر جمیل جوموش نے دورانِ گفتگو سوال کیا کہ کیا استاذ فتح اللہ گولن سے آپ کی ملاقات ہوئی ہے۔ میں نے کہا نہیں، البتہ میں نے ان کی بعض کتابیں دیکھی ہیں۔ میں ان کی قدر کرتاہوں۔وہ ایک مخلص اور تعمیر پسند لیڈر ہیں۔
کانفرنس مجموعی طورپر دو دن تک جاری رہی، لیکن میں اور میرے ساتھی اس کے صرف پہلے سیشن (افتتاحی اجلاس) میں شریک رہے۔ کانفرنس ہال سے نکلنے کے بعد ہم لوگوں کو اوغور پلازا ہوٹل لے جایاگیا جہاں دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا۔
یہاں ہوٹل میں مختلف ملکوں کے کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ اُن میں سے ایک مسٹر احمد (Ahmet Alibasic) تھے۔ وہ بوسنیا سے اِس کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مجھ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ بہت پہلے سے میری کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے انگریزی زبان میں چھپی ہوئی ایک کتاب دی۔ یہ کتاب 615 صفحات پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب کو 5 مصنفین نے مشترک طورپر ایڈٹ کیا ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ تھا:
Yearbook of Muslims in Europe, (Vol. 3, Brill, Leiden-2011)
پروفیسر احمد کتاب کے 5 ایڈیٹروں میں سے ایک ہیں۔ اُن کے بارے میں کتاب میں یہ الفاظ درج ہیں:
Ahmet Alibasic is a lecturer at the Faculty of Islamic Studies, University of Sarajevo, and Director of the Center for Advanced Studies in Sarajevo. He was educated in Kaula Lumpur (Islamic Studies, political sciences, and Islamic civilization). He also served as the first director of the Interreligious Institute in Sarajevo (2007-2008).
مسٹر احمد سے دعوت کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ بوسنیا میں اور یورپ کے دوسرے حصوں میں قرآن کا ترجمہ زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ مسٹر احمد کو ہمارے یہاں کا چھپا ہوا انگریزی ترجمہ قرآن دیا گیا۔ اِس کو انھوں نے بہت پسند کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں یہاں سے جانے کے بعد منظم طورپر اِس کے لیے کام کروں گا کہ یورپ میں اور خاص طورپر بوسنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اِس ترجمہ قرآن کو پہنچایا جائے۔
کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگ اپنے ہوٹل واپس آگئے۔ یہاں کچھ دیر قیام کرنے کے بعد ہم لوگوں کو دوبارہ اوغور پلازا ہوٹل لے جایاگیا ہے۔ یہاں مغرب کے بعد شام کا کھانا (dinner) تھا۔ اِس کے ساتھ یہاں کانفرنس کی ایک نشست بھی ہوئی۔ کھانے کے بعد کانفرنس کے مختلف شرکا نے مختصراً یہاں خطاب کیا۔ ان میں سے ایک تیونس کے ملیح المرعشی تھے۔ انھوں نے پر جوش انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا: نحن نرید أن نعید مجد الأمّة الإسلامیة فی العصر الحاضر (ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں امتِ اسلامیہ کی عظمت کو ہم دوبارہ واپس لائیں)۔
یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلم رہنماؤں او ر دانش وروں کا ذہن ہے۔ وہ ملتِ مسلمہ کی ’’عظمتِ رفتہ‘‘ کو دوبارہ واپس لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں سن کر میں سوچتا ہوں کہ وہ کون سی عظمت ہے جس کو یہ لوگ واپس لانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک مادّی آسودگی اور دینی سرگرمیوں کی بات ہے، وہ بلا شبہہ مسلمانوں کو پچھلے ادوار کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ حاصل ہے۔ حتی کہ سیاست کے اعتبار سے بھی ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کی 58 حکومتیں ہیں۔ دعوت کے مواقع بھی پچھلے ادوار کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ حاصل ہیں، پھر وہ کون سی عظمت ہے جس کے کھونےپر موجودہ زمانے کے مسلمان فریاد وماتم میں مبتلا ہیں۔ وہ صرف ایک ہے اور وہ نام نہاد پولٹکل ایمپائر ہے۔ پچھلے پولٹکل ایمپائر کے زمانے میں مسلمانوں کو جو کچھ حاصل تھا، اُس سے بھی بہت زیادہ آج مسلمانوں کو حاصل ہے۔ پھر یہ فریاد وماتم کس لیے۔ یہ صرف ابلیس کی تزئین ہے۔ ابلیس چاہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو شکر کے جذبات سے محروم کرکے اُنھیں ناشکری کے جذبات میں مبتلا کردے، تاکہ اُس کا وہ چیلنج پورا ہو جو اُس نے اِن الفاظ میں کیا تھا: ولا تجد أکثرہم شاکرین (7:17)۔
اِس سلسلے میں ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ تاریخ کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اُس سے بالکل مختلف ہے جس میں آج کل کے تقریباً تمام مسلم مقررین اور محررین مبتلا ہیں۔اسلامی نقطہ نظر کے اعتبار سے، صحیح یہ ہے کہ تاریخ کو مواقع (opportunities) کے اعتبار سے دیکھا جائے، نہ کہ مسائل (problems) کے اعتبار سے۔ مسائل کو نظر انداز کرنا اور مواقع کو استعمال کرنا، یہی سنتِ رسول ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِس اہم ترین سنتِ رسول کا شعور موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں مفقود ہوگیا ہے۔
ترکی کے وزیر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر محمد گورماز (Dr. Mehmet Görmez) بھی اِس پروگرام میں شریک تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہم لوگوں کے ساتھ ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں۔ لفٹ (lift)میں بھی وہ عام آدمی کی طرح آتے جاتے ہیں۔ اُن کے ساتھ کوئی سکیورٹی موجود نہیں۔ یہ سادگی ترکی کے سوا کسی بھی مسلم ملک میں موجود نہیں۔
یہ فرق کیوں ہے۔ اِس فرق کا سبب وہی بدنام آپریشن ہے جس کو کمال ازم (Kemalism) کہاجاتا ہے۔ کمال اتاترک (وفات: 1938 ( کی امیج (image)علما کے درمیان یہ ہے کہ وہ ایک اسلام دشمن انسان تھا، مگر ایسا نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ کمال اتاترک نے فرسودہ مشرقی کلچر کے تحت پیدا شدہ جمود (stagnation)کو ختم کرکے اس کی جگہ وہ کلچر رائج کیا جو خود اس کی اپنی زبان میں ’’سائنٹفک کلچر‘‘ تھا۔ اِسی سائنٹفک کلچر کا یہ نتیجہ ہےکہ ترکی واحد ملک ہے جہاں مغرب کی ترقی یافتہ قوموں کی وہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کے معترف خود ہمارے علما ہیں۔ مثلاً ڈسپلن، وقت کی پابندی، ورک کلچر، وغیرہ۔
ترکی کے اِس سفر کے دوران ایک عجیب تجربہ یہ ہوا کہ یہاں کمال اتاترک کی نہ کوئی تعریف کرنے والا ملا اور نہ تنقید کرنے والا۔ میں نے ایک تعلیم یافتہ ترک سے اتاترک کے بارے میںسوال کیا، مگر انھوں نے اِس موضوع پر کچھ زیادہ گفتگو نہیں کی۔ اگر یہی موجودہ ترکوں کا مزاج ہے تو وہ نہایت درست مزاج ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی کو بھلانا اور ساری توجہ حال پر مرتکز کردینا۔ یہ بلاشبہہ وہی مزاج ہے جس کو تعمیر پسندانہ مزاج کہا جاتا ہے۔
6 مئی 2012 کی صبح کو غازی عین تیپ سے استانبول کے لیے روانگی تھی۔ چناں چہ ناشتے کے بعد ہم لوگ ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہوٹل سے ائر پورٹ تک کا سفر 45منٹ میں طے ہوا۔ راستے میں مختلف مقامات پر ہرے بھرے درختوں کی قطاریں دکھائی دیں۔یہ انجیر اور زیتون اور پِستہ (Pistachio)کے درخت تھے۔
علامہ بدر الدین العینی نویں صدی ہجری کے مشہور محدثین میں سے ہیں۔ ان کی پیدائش 762ہجری میں اسی شہر غازی عین تیپ میں ہوئی۔ بعد کو وہ قاہرہ (مصر) میں مقیم ہوگئے اور یہیں 855 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ غازی عین تیپ کی نسبت سے ان کو ’’العینی‘‘ کہاجاتا ہے۔ علامہ العینی کی بہت سی کتابیں ہیں۔ ان میں سب سے مشہور کتاب بخاری کی شرح عمدة القاری فی شرح البخاری ہے جو 11 جلدوں میں چھپ کر شائع ہوگئی ہے۔
غازی عین تیپ سے صبح کو ساڑھے آٹھ بجے ٹرکش ائرلائنز کی فلائٹ نمبر 2221 کے ذریعے استانبول کے لیے روانگی ہوئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم لوگ استانبول کے ائر پورٹ پر پہنچ گئے۔ ائر پورٹ سے روانہ ہو کر ہم لوگ سب سے پہلے اناطولو ایجنسی (Anadolu Ajansi) گئے۔ یہ ایک سرکاری نیوز ایجنسی ہے۔ اس کو 92 سال پہلے کمال اتاترک نے 1920 میں قائم کیا تھا۔ اس کی بلڈنگ بہت بڑی اور نہایت منظم تھی۔ اس کا ہر حصہ نہایت صاف ستھرا تھا۔ انڈیا میں ورلڈ اسٹینڈرڈ (world standard) کی بات بہت کی جاتی ہے، لیکن عملاً یہاں کوئی بھی چیز ورلڈ اسٹینڈرڈ کے مطابق نہیں، لیکن ترکی میں ہر چیز ورلڈ اسٹینڈرڈ کے مطابق نظر آئی۔
اناطولو ایجنسی میں ایک پوری ٹیم نے میرا ویڈیوانٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں تھا۔ وہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔انٹرویور مسٹر توران ترکی (Turan Kislakci)تھے۔ وہ اِس ایجنسی کے عربی نیوز شعبہ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ انھوں نے جو سوالات کئے، اُن سے اندازہ ہوتاتھا کہ وہ میری زندگی اور میرے مشن سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انٹرویو کا موضوع اصلاً ’’اسلام اور ماڈرن تہذیب‘‘ تھا، لیکن سوالات کے اعتبار سے یہ ایک جامع انٹرویوتھا۔ سوالات کے دوران جو موضوعات زیر بحث آئے، اُن میں سے کچھ یہ تھے — اسلام اور عصرِ حاضر، سیکولرزم ، ڈیموکریسی، عرب اسپرنگ، اسلامی حکومت، شیعہ سنی اختلافات، تقسیمِ ہند، اسلام میں عورت کا مقام، دورِ جدید میں دعوت الی اللہ کے امکانات، وغیرہ۔
ایک سوال اتاترک کے کمال ازم (Kemalism) کے بارے میں تھا۔ میں نے کہا کہ اتاترک کا کیس اسلام دشمنی کا کیس نہیں تھا۔ اتاترک کا آپریشن دراصل جمود اور فرسودہ مسلم کلچر کے خلاف تھا جو آخری زمانے میں خلافت عثمانی کے زوال کے نتیجے میں پیدا ہوگیا تھا۔ میں نے کہا:
The case of Ataturk was not one of modernization of Islam, instead it was one of Islamization of Modernism.
ترکی کے جدید ڈیولپ مینٹ میں مصطفی کمال اتاترک (وفات: 1938 ) کا ابتدائی رول ہے۔ کمال اتاترک فطری طورپر ایک جرأت مند اور باعزم آدمی تھے۔ یہ کمال اتاترک ہی تھے جو ترکی میں ریڈیکل ریفارم (radical reform) لے آئے۔ مثلا رومن رسم الخط کو ترکی زبان کا رسم الخط بنانا، مغربی طرزِ تعلیم کو ترکی میں رائج کرنا، وغیرہ۔ اِن انقلابی تبدیلیوں کے پیچھے کمال اتاترک کا نظریہ کیا تھا، وہ اصولی طورپر اُن کے اِس مشہور قول میں ملتا ہے — سائنس انسانی زندگی کی سب سے زیادہ قابلِ اعتماد رہنما ہے:
Science is the most reliable guide in life (EB/2/257)
کمال اتاترک جو تبدیلیاں لائے، اُن کو مخالفِ اسلام (anti-Islam) کہنا درست نہ ہوگا۔ زیادہ صحیح طورپر اتاترک کا مشن مخالفِ جمود (anti-stagnation) مشن تھا۔
ترکی میں کمال اتاترک کی ریڈیکل کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سی مثبت چیزیں پیدا ہوئیں۔ مثلاً طویل جمود کا ٹوٹنا، لوگوں میں اوپن نیس (openness)کا آنا، جدید تعلیم کا فروغ، مغربی کلچر سے ڈائنا مزم (dynamism) کا آنا،مثبت سیکولر قدروں (positive secular values) کو فروغ، جدید وسائل کو رواج دینا، ترکی زبان کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کی بنا پر کمپیوٹر کی تیز رفتار ترقی کا ممکن ہوجانا، عالمی انٹریکشن (global interaction) کا عمومی پھیلاؤ، حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (realistic thinking) کا رواج، علاحدگی پسندی (separatism) کا خاتمہ، ہر شعبے میں جدید کاری (modernization) ، وغیرہ۔
مصطفی کمال اتاترک کوئی مذہبی انسان نہیں تھے، وہ صرف ایک سیکولر انسان تھے۔ مگر ترکی میں جو انقلابی تبدیلیاں ان کے ذریعے وجود میں آئیں، وہ باعتبار نتیجہ ایسی تھیں جن سے اسلامی دعوت کے نئے مواقع کھل گئے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ مسٹر توران نے میرے جوابات سے اتفاق کیا۔
اناطولو ایجنسی کے پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ توپ کاپی پیلیس میوزیم دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ توپ کاپی پیلیس (Topkapi Palace)عثمانی خلفا کا محل تھا۔ اب اُس کو میوزیم بنا دیاگیا ہے۔ یہ میوزیم ایک بہت بڑے قلعہ کی صورت میں ہے۔ اس کے بہت سے حصے ہیں۔ اس کو چند گھنٹوں میں دیکھا نہیں جاسکتا۔ہم نے اس کے کچھ حصوں کو دیکھا۔ یہاں مسلم دورِ تاریخ کے نوادرات بہت کثرت سے موجود ہیں۔ یہ میوزیم اپنے بیش قیمت تاریخی نوادرات کی وجہ سے دنیا کے مشہور ترین میوزیم میں شمار ہوتا ہے۔
اِس میوزیم میں جو چیزیں رکھی گئی ہیں، ان میں سے چند چیزیں یہ تھیں —— رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب چیزیں۔ مثلاً آپ کا جبہ، آپ کی دو تلواریں، شاہِ مقوقس کے نام آپ کا مکتوب، وغیرہ۔ تاریخی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں عباسی خلفا کے پاس موجود تھیں۔ چناں چہ 1517 میں مملوک سلطنت کو شکست دینے کے بعد جب عثمانی سلطان سلیم اول (وفات: 1520 ء) کو ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ کا لقب دیاگیا، اُس وقت مصر میں مقیم آخری عباسی خلیفہ المتوکل علی اللہ الثالث (وفات: 1543 ء) کی طرف سے سلطان سلیم کو ’’خلافت‘‘ کا منصب بھی عطا کردیاگیا۔ اِسی کے ساتھ المتوکل نے سلطان سلیم کو مذکورہ تاریخی چیزیں بھی سندِ خلافت کے طورپر دے دیں۔ اِس کے بعد سے عثمانی سلاطین کو ’’خلیفہ‘‘ کہاجانے لگا۔ اُس وقت سے یہ تاریخی چیزیں استانبول کے توپ کاپی پیلیس میں موجود ہیں۔ اِس کے علاوہ، اِس میوزیم میں عثمانی سلاطین کی بہت سی یادگاریں، لائبریری اور مختلف بادشاہوں کے شاہی تخت بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ایرانی بادشاہ اسماعیل صفوی کا تخت، وغیرہ۔
اس کے بعد ہم لوگ استانبول میں اپنے آخری پروگرام کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہ مسٹر محمدامین ترکی (Mehmet Emin Baspehlivan) کی دعوت پر اُن کے گھر جانا تھا۔ مسٹر محمد امین پبلشر بھی ہیں اور اِسی کے ساتھ مصنف بھی۔ انھوں نے ہماری بعض کتابیں ترکی زبان میں شائع کی ہیں۔ ان کے ادارے کا نام یہ ہے: Excellence Publishing Ltd. STI
مسٹر محمد امین استانبول کی ایک پاش کالونی میں رہتے ہیں۔ یہ ایک نہایت صاف ستھری کالونی تھی، دہلی کی کسی پاش (posh) کالونی سے بہتر۔ یہاں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ اس کے بعد فیملی کی سطح پر گھر کے ایک ہال میں مختصر پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں میں نے دعوت الی اللہ کی اہمیت کے بارے میں کچھ باتیں کہیں۔ آدھ گھنٹے کے خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔یہاں میں انگریزی میں گفتگو کررہا تھا۔ مسٹر علی اکیز ترکی زبان میں اس کا ترجمہ کررہے تھے۔
گھر کی ایک خاتون نے سوال کیا کہ آپ قرآن کے ترجمے کو لوگوں کے درمیان ڈسٹری بیوٹ (distribute)کرنے پر بہت زور دیتے ہیں۔ کیا صرف قرآن ڈسٹری بیوٹ کرنے سے دعوت کا حق ادا ہوجائے گا۔
اِس کے جواب میں میں نے کہا کہ ہاں، قرآن مکمل دعوت ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دعوت کا مقصد کنورژن (conversion) نہیں ہے۔ دعوت کا مقصد انذار وتبشیر (19:97) ہے، یعنی خدائی ہدایت نامے کو لوگوں تک پہنچا دینا، اور قرآن پہنچانے کے بعد یہ کام بلاشبہہ اصولی طورپر انجام پا جاتا ہے۔ داعی کا کام خدا کے پیغام کو پُرامن انداز میں مدعو تک پہنچا دینا ہے۔ اِس کے بعد یہ مدعو کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کے بارے میں کیا رسپانس دیتا ہے۔
مسٹر امین کا گھر بظاہر ایک ماڈرن گھر تھا، لیکن اُن کے مزاج میں سادگی اور دین داری تھی۔ ان کی بیوی اور ان کی والدہ دونوں حافظِ قرآن تھیں۔ انھوں نے قرآن کا ایک حصہ پڑھنے کی درخواست کی۔ چناں چہ ہمارے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے قرآن کی سورہ الم نشرح (94)کی تلاوت کی۔ اس کے بعد میں نے اِس سورہ کی تشریح کی۔ میں نے ایک بات یہ کہی کہ اِس دنیا کا نظام اِس طرح بنایا گیاہے کہ یہاں عسر کے ساتھ یسر بھی لازماً موجود رہتا ہے۔
گھر کی ایک خاتون نے یہ سوال کیا کہ ڈفرنس کو مینج (manage) کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کا طریقہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ ڈفرنس کو فطرت کا ایک حصہ سمجھا جائے۔ ڈفرنس کو لے کر شدید طورپر حساس ہونے کے بجائے، اس کے بارے میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے جس کو اِس مشہور مقولے میں بیان کیا گیا ہے: Take it easy ۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈفرنس کوئی مسئلہ نہیں، یہ لوگوں کی اپنی حساسیت ہے جس نے ڈفرنس کو غیر ضروری طورپر ایک مسئلہ بنا دیا ہے۔
مسٹر امین کے گھر سے اتاترک انٹرنیشنل ائرپورٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ ائر پورٹ یہاں سے قریب تھا۔ ائر پورٹ پر چیکنگ معمول کے مطابق تھی۔ مسٹر علی اکیز بار بار منع کرنے کے باوجود ائرپورٹ کے اندر آخری گیٹ تک ہمارے ساتھ رہے اور ہر مرحلے میں ہماری مدد کرتے رہے۔ آج کا پورا دن ہمارے لیے ایک ہیکٹک دن (hectic day) تھا، لیکن مسٹر علی آخر تک نہایت خوش دلی کے ساتھ غازی عین تیپ سے استانبول ائر پورٹ تک کے تمام مراحل میں ہمارا ساتھ دیتے رہے۔
جدید ترکی میں یہ مزاج ہم نے ہر جگہ دیکھا۔ اِن لوگوں کے اندر وہ چیز عام طورپرپائی جاتی ہے جس کو ورک کلچر (work culture) کہاجاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ اِن لوگوں میں شرافت اور فراخ دلی اور سادگی جیسے اخلاقی اوصاف عام طورپر دیکھنے میں آئے۔
واپسی کے سفر میں جہاز کے اندر کچھ چیزیں مطالعے کے لئے موجود تھیں۔ اُن میں سے ایک مشہور ترک اخبار زمن (Zaman) تھا۔ اس کا انگریزی ایڈیشن ٹوڈیز زمن (Today's Zaman) کے نام سے نکلتا ہے۔ اس کے شمارہ 6مئی 2012 میں ایک مضمون اِس عنوان کے تحت تھا:
Book Reading: Not Appropriate As A Punishment
مضمون نگار کا نام یہ تھا— Erol Yilmaz ۔ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ ترکی کی عدالت نے پچھلے دس سال سے ایک نیا تجربہ شروع کیاہے، وہ ہے چھوٹے جرائم (minor crimes) پر مطالعہ کتب کی سزادینا۔ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ اِس قسم کے بعض جرائم مثلاً عورتوں پر تشدد، وغیرہ پر یہ سزا دینا کہ وہ ایک مدت تک صرف کتابوں کا مطالعہ کریں، یعنی قید خانے کے بجائے، وہ دارالمطالعہ میں زندگی گزاریں:
So the punishment took place not in any sort of prison but rather in what is referred to in developed countries as "people's university", or the public library. (p. 4)
جہاز کے اندر رات کو حسب معمول نیند آگئی۔ فلائٹ نہایت ہموار (smooth) تھی۔ 7گھنٹے کا راستہ سوتے ہوئے گزر گیا۔ 7 مئی 2012 کی صبح کو ساڑھے چار بجے ہم لوگ دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ پر پہنچ گئے۔
جب میں ائر پورٹ کے باہر اُس مقام پر پہنچا، جہاں مجھ کو نظام الدین جانے کے لئے کار پر بیٹھنا تھا، ہمارے ساتھ ائر پورٹ کا ایک ہندو کارکن تھا جو ہماری وھیل چیئر کو چلارہا تھا۔ ہمارے ایک ساتھی نے اس کو کچھ رقم دینا چاہا، مگر اس نے لینے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو تو آپ کا آشیرواد چاہئے۔ میں ایک ایگزام (امتحان) میں بیٹھنے والا ہوں۔ مجھے آشیرواد دیجئے کہ میں اپنے ایگزام میں پاس ہوجاؤں۔ میں نے نوجوان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کے لیے دعا کی۔ ہمارے ساتھی نے اُس کو ہندی زبان میں چھپا ہوا ایک پمفلٹ دیا۔
دہلی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے سب سے پہلا جو تجربہ ہوا، وہ ہوائی کثافت (air pollution) کاتجربہ تھا۔ ترکی میں موسم نہایت خوش گوار تھا اور ہوائی کثافت بہت کم تھی، لیکن دہلی میں ہوائی کثافت اتنی زیادہ تھی کہ سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔ اِس فر ق کو اگر بلین ٹائم بڑھا دیا جائے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ آخرت کی جہنم کیا ہوگی اور آخرت کی جنت کیا۔
(یہ سفر نامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیاگیا)
واپس اوپر جائیں