Pages

Sunday 1 December 2013

Al Risala | December 2013 (الرسالہ،دسمبر)


حدیث ِ رسول — ایک مطالعہ

قرآن اور حدیث
خالص علمی اعتبار سے، قرآن اور حدیث میں کوئی فرق نہیں- جس پیغمبر کی زبان سے حدیث کے الفاظ نکلے ہیں، قرآن کا کلام بھی یقینی طورپر اُسی پیغمبر کے ذریعے حاصل ہوا ہے- گویا کہ عام حدیث اگر صرف حدیث ہے تو قرآن کی حیثیت حدیثِ قدسی کی ہے- حدیث کے معاملے میں اگر راوی یہ کہتا ہے کہ: سمعتُ عن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، تو قرآن کے معاملے میں پیغمبر یہ کہتا ہے کہ: سمعتُ عن جبریل-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے ہمارا تعلق براہِ راست نہیں ہے، بلکہ ہمارے اور قرآن کے درمیان ایک پیغمبر کا واسطہ موجود ہے- اگر پیغمبر کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو قرآن ہمارے لیے صرف لائبریری کی ایک کتاب کے مانند ہوجائے گا، وہ خدا کی طرف سے اتارا ہوا کلام نہ رہے گا- اِس کے بعد قرآن کے حق میں وہ تاریخی اعتباریت (historical credibility) ہی باقی نہ رہے گی جس کی بنیاد پر ہم قرآن کو خدا کا ایک معتبر کلام مانتے ہیں-
کسی کا یہ کہنا کہ میں قرآن کو مانتا ہوں، مگر میں حدیث کو نہیں مانتا، یہ کوئی سادہ بات نہیں- یہ بظاہر قرآن کو مانتے ہوئے قرآن کا انکار کرنا ہے- حقیقت یہ ہے کہ جن راویوں کے ذریعے ہم کو حدیثِ رسول پہنچی ہے، اُنھیں راویوں کے ذریعے ہم کو قرآن بھی ملا ہے- آج جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ براہِ راست ہم پر نہیں اترا- وہ ٹھیک اُسی سلسلۂ روایت کے ذریعے ہم کو ملا ہے جس سلسلۂ روایت کے ذریعے احادیث رسول ہم تک پہنچی ہیں- ایسی حالت میں ایک کو ماننا اور دوسرے کو نہ ماننا، خالص غیر منطقی اور غیر علمی بات ہے- ایسے موقف کے لیے حقیقی طور پر کوئی جواز موجود نہیں-
حدیث، ایک اعتبار سے، قرآن کے انطباق (application) کو بتاتی ہے- مثال کے طورپر قرآن میں ہے کہ تم اللہ کا ذکر کثیر (33:41)کرو- اِس آیت کا عملی انطباق ہم کو حدیث کے ذریعے معلوم ہوتا ہے- حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ: کان النبی صلى اللہ علیہ وسلم یذکر اللہ على کلّ أحیانہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:597)- اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ہر موقع (occasion) کو اللہ کی یاد کے لیے پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بناتے تھے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل مستند طورپر بتاتا ہے کہ قرآن کی اصولی تعلیم کا عملی انطباق کیا ہے-
کتاب اورسنت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے آخری زمانے میں صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ترکتُ فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسّکتم بہما: کتاب اللہ وسنّة رسولہ (موطّأ، رقم : 1619)پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطاب صحابہ کے واسطے سے، تمام امت سے ہے- آپ نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں- تم ہرگز گم راہ نہیں ہوگے، جب تک تم اِن دونوں چیزوں کو پکڑے رہوگے- یہ دو چیزیں ہیں — اللہ کی کتاب، اور اُس کے رسول کی سنت-
قرآن اور سنت دونوں یکساں طورپر ہدایت الہی کا ماخذ ہیں- آج قرآن ایک چھپی ہوئی کتاب کی صورت میں ہر ایک کے پاس موجود ہے، لیکن ساتویں صدی عیسوی میں جب قرآن، کلامِ الہی کی حیثیت سے اترا تو وہ کتاب کی صورت میں نہیں اترا تھا، بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوا تھا- معاصر اہلِ ایمان نے جس طرح حدیث کو پیغمبر کی زبان سے سنا، اُسی طرح انھوں نے قرآن کو بھی پیغمبر کی زبان سے سنا- پیغمبر کے بتانے سےسننے والوں نے یہ جانا کہ قرآن، اللہ کا کلام ہے- گویا کہ عام حدیث اگر حدیثِ رسول ہے تو قرآن کی حیثیت حدیثِ قدسی کی ہے-
حسبنا کتاب اللہ
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہدایت کے لیے قرآن کافی ہے، ہدایت کے لیے ہم کو حدیث کی ضرورت نہیں- یہ ایک نیا ظاہرہ ہے جو موجودہ زمانے میں پیدا ہوا ہے- اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اِس سے پہلے کبھی یہ ذہن موجود نہ تھا- کچھ لوگ کہتے ہیں ساتویں صدی عیسوی میں خوارج کے نام سے جو فرقہ ظاہر ہوا، وہ یہی ذہن رکھتا تھا- علی اور معاویہ کے درمیان جو نزاع پیدا ہوئی، اس کے تصفیہ کے لیے خوارج نے قرآن کا حوالہ دیا تھا- انھوں نے قرآن کو نیزے پر اٹھایا اور یہ نعرہ بلند کیا: حسبنا کتاب اللہ-
قدیم زمانے کے خوارج آج کل کی اصطلاح میں، ’’اہلِ قرآن‘‘ نہ تھے- انھوں نے حسبنا کتاب اللہ کا نعرہ حدیث کے مقابلے میں نہیں دیا تھا، وہ صرف اِس معنی میں تھا کہ قرآن کی آیت: حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا(4:35) کے مطابق، اِس معاملے کو تحکیم کے اصول کے مطابق حل کیا جائے، یعنی ایک حکَم (arbitrator) علی بن ابی طالب کے گروہ سے لیا جائے اور دوسرا حکم معاویہ بن ابی سفیان کے گروہ سے لیا جائے- اور یہ دونوں حکم باہمی گفت وشیند سے جو فیصلہ دیں، اس کو دونوں گروہ مان لیں- چناں چہ تاریخ بتاتی ہے کہ ابو موسی اشعری اور عمر وبن العاص حکم کے طورپر مقرر کئے گئے اور اِس کے مطابق فیصلے کا اعلان کیا گیا-
قرآن اور حدیث کا تعلق
یہ ایک حقیقت ہے کہ دینِ اسلام کا مستند ماخذ قرآن بھی ہے اور حدیث (سنت) بھی- قرآن سے مراد وہ مجموعہ ہے جو وحی کی بنیاد پر مرتب ہوا اور جس کے اندر 114 سورتیں ہیں- سنتِ رسول فنی تعریف (definition)کے مطابق، تین چیزوں کا نام ہے— قول، عمل، اور تقریر- قول سے مراد وہ الفاظ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مختلف مواقع پر ادا ہوئے- عمل سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آپ نے خود کرکے دکھایا- تقریر سے مراد وہ چیز ہے جو آپ کے سامنے کی گئی اور آپ نے براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اس کی تائید فرمائی- انھیں دونوں چیزوں (قرآن اور سنت) کے مجموعے کا نام دینِ اسلام ہے- یہ دونوں چیزیں یکساں طورپر اسلامی احکام کا ماخذ ہیں-
تاہم دونوں میں ایک فرق ہے- وہ فرق یہ ہے کہ اصولی طورپر قرآن میں دین کی اساسات بیان کی گئی ہے اور حدیث سے ہم کو دین کی تفصیلات کا علم حاصل ہوتا ہے- اساسات اور تفصیلات کا یہ فرق بالکل فطرdی ہے- یہ فرق ہر جگہ موجود رہتا ہے، خواہ دینی علم کا معاملہ ہو، یا سیکولر علم کا معاملہ-مثال کے طورپر سائنس کے دو شعبے مانے جاتے ہیں — خالص سائنس (pure science)، اور انطباقی سائنس (applied science) - یہی معاملہ اسلام کا ہے- اسلام میں بھی ایک خالص اسلام (pure Islam) ہے، اور دوسرا انطباقی اسلام(applied Islam) ہے- اِس تقسیم کو دین اور شریعت کے الفاظ میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے- اسلام کو سمجھنے کے لیے یا اُس پر عمل کرنے کے لیے اس کے دونوں پہلوؤں سے واقفیت یکساں طورپر ضروری ہے- اِس سلسلے میں یہاں چند مثالیں درج کی جاتی ہیں، جن سے اِس معاملے کی نوعیت کا اندازہ ہوگا-
غلط تقابل
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے، ہم کو حدیث کی ضرورت نہیں، وہ دراصل ایک غلط تقابل (wrong comparision)کا شکار ہیں- جب وہ قرآن کا نام لیتے ہیں تو اُن کے ذہن میں وہ قرآن ہوتا ہے جو آج چھپا ہوا مجلد صورت میں اُن کے سامنے موجودہے- اِس کے برعکس، جب وہ حدیث کا ذکر کرتے ہیں تو اُس وقت اُن کے ذہن میں ابتدائی دور کی وہ تاریخ ہوتی ہے، جب کہ حدیث کا ذخیرہ منتشر صورت میں تھا اور اُس کو مدوّن صورت میں جمع کیا گیا- وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ کرتے ہیں کہ آج کے مطبوعہ قرآن کا تقابل، ماضی کے اُس ذخیرہ حدیث سے کرتے ہیں، جب کہ حدیثیں منتشر طورپر غیر مطبوعہ صورت میں موجود تھیں- حالاں کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ دونوں کا تقابل قبل از تدوین حالت اور بعد از تدوین حالت سے کیا جائے، یعنی مطبوعہ قرآن کا تقابل، مطبوعہ حدیث سے کیا جائے اور اِسی طرح غیر مطبوعہ قرآن کا تقابل، غیرہ مطبوعہ حدیث سے-
تاریخ کے مطابق، قرآن اور حدیث دونوں ہی پر دو مختلف دور گزرے ہیں، یعنی قبل از تدوین دور، اور بعد از تدوین دور- اِس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ قبل از تدوین قرآن کا تقابل، قبل از تدوین حدیث سے کیا جائے، اور بعد از تدوین قرآن کا تقابل بعد از تدوین قرآن سے کیا جائے- مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا- جو لوگ اِس طرح کے خیالات سے متاثر ہوتے ہیں، اُن کے ساتھ عملاً یہی ہوتا ہے کہ وہ حدیث کا انکار کرنے والوں کا لٹریچر پڑھتے ہیں اور اس سے متاثر ہوجاتے ہیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کہ اپنے مطالعے کی تکمیل کے لیے قرآن کی ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کریں- اگر ایسے لوگ دوطرفہ مطالعہ کریں تو وہ محسوس کریں گے کہ جس بنیاد پر وہ حدیث کے استناد کو رد کررہے ہیں، اگر وہ بنیاد علمی طورپر درست ہے تو اِسی بنیاد پر اُنھیں قرآن کے استناد کو بھی رد کرنا پڑے گا- اُنھیں یا تو دونوں کو لینا ہے، یا دونوں کو رد کرنا ہے- مگر وہ اِس معاملے میں تیسرا انتخاب (third option) لیے ہوئے ہیں، اور اِس طرح کے معاملے میں کبھی تیسرا انتخاب درست نہیں ہوتا-
حدیث کی تدوین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اُس وقت حدیثیں زیادہ تر صحابہ کے حافظے میں تھیں- وہ مختلف مقامات پر اُن کا چرچا کرتے رہے-اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز (وفات: 720ء) کو یہ خیال ہوا کہ جس طرح قرآن کی تدوین ہوئی ہے، اسی طرح حدیث کی بھی تدوین کردی جائے- اِس سلسلے میں صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: انظر ماکان من حدیث رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فاکتبہ، فإنی خفت دروسَ العلم وذہاب العلماء (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 97) یعنی خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے ایک تابعی عالم ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھیلی ہوئی احادیث کو جمع کرو اور ان کو قید ِ تحریر میں لاؤ- کیوں کہ مجھے ڈر ہے کہ علم مٹ جائے اور علماباقی نہ رہیں- اِسی طرح خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے اُس زمانے کے ایک مشہور تابعی عالم محمد بن شہاب الزہری (وفات: 124ہجری) کو حدیث جمع کرنے کا حکم دیا- اسی طرح انھوں نے اسلامی ملکوںکے دوسرے حکام کو بھی ذخائر حدیث کے جمع وتدوین کا تاکیدی حکم بطور فرمان بھیجا-
اِس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز، اسلامی ریاست کے تحت، احادیث کو مدوّن کرنا چاہتے تھے، لیکن جلد ہی خلیفہ کی وفات ہوگئی اور یہ کام اُس وقت انجام نہ پاسکا- اِس کے بعد عباسی خلافت کا زمانہ آیا- اُس وقت علماءِ اسلام کی ایک بڑی جماعت نے بطور خود اِس کام کو انجام دیا، جن کو محدثین کہاجاتا ہے-
حفاظتِ قرآن، حفاظتِ حدیث
حفاظت قرآن کا طریقہ جو دورِ نبوت میں اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ جب قرآن کا کوئی حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا تو آپ اس کو بول کر لکھوا دیتے- اس کام کے لیے صحابہ میں کئی لوگ مقرر تھے جن کو کُتّاب کہاجاتا ہے- لکھنے کا یہ کام املا (dictation) کے ذریعے ہوتا تھا-
اُس زمانے میں کاغذ بہت کم یاب تھا، اِس لیے لوگ مختلف چیزوں پر لکھ لیا کرتے تھے- مثلاً جھلّی پر یا لکڑی پر یا پتھرکے ٹکڑوں پر، وغیرہ-اِس طرح وحی اور کتابت دونوں کا سلسلہ مسلسل طورپر جاری رہا- صحابہ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ تھے جنھوں نے پورے قرآن کو حفظ کرلیا تھا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اُس وقت ہزاروںلوگوں کے حافظے میں قرآن محفوظ تھا- اِسی کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں متفرق چیزوں پر قرآن لکھا ہوابھی پایا جاتا تھا-
اول دن سے ایسا ہواکہ قرآن عبادت کے طور پر ہر مسجد اور ہر گھر میں مسلسل طورپر پڑھا جانے لگا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کے مشورے سے یہ طے ہوا کہ قرآن کو ایک جلد کی صورت میں لکھ کر تیار کردیا جائے- خلیفہ اول ابوبکر بن ابی قحافہ نے اِس مقصد کے لیے مشہور کاتبِ وحی زید بن ثابت الانصاری (وفات: 665ء) کو مقرر کیا- وہ روزانہ مدینہ کی مسجد نبوی میں بیٹھ جاتے اور لوگوں سے کہتے کہ جس کے پاس جو لکھا ہوا قرآن ہے، وہ اس کو لے آئے-چناں چہ مسجد نبوی میں مکتوب اجزا کا ایک ڈھیر اکھٹا ہوگیا- زید بن ثابت خود پورے قرآن کے حافظ تھے، لیکن انھوں نے احتیاط کا اصول اختیار کرتے ہوئے یہ کیا کہ صحابہ سے قرآن کے مختلف اجزا سنتے اور اس کی تصدیق مکتوبات سے کرتے-
اِس طرح انھوں نے اِس معاملے میں وہ طریقہ اختیار کیا جس کو ڈاکٹر موریس بکائی(وفات: 1998) نے ڈبل چیکنگ سسٹم (double checking system) کہا ہے، یعنی یاد داشت کی مطابقت لکھے ہوئے سے کرنا اورلکھے ہوئے کو یادداشت سے جانچنا- اِس طریقے کو اختیار کرتے ہوئے انھوں نے پورا قرآن مرتب کیا، یہ قرآن غالباً قدیم طرز کے کاغذ پر لکھا گیا تھا، جس کو قرطاس (papyrus) کہا جاتا تھا-کتابت کی تکمیل کے بعد اِن اوراق کی جِلد بنائی گئی-یہ جلد چوکور (square)کی صورت میں تھی، اِس لیے اس کا نام رَبعہ رکھا گیا، یعنی چوکور سائز کی کتاب- اِس ربعہ کو ایک مستند نسخہ کے طورپر زوجہ رسول حفصہ بنت عمر کے گھر رکھوادیا گیا-اِس ربعہ کی تیاری کے لیے قرآن کے جو متفرق اجزا اکھٹا کیے گئے تھے، اُن کا ایک ڈھیر مسجد نبوی میں موجود تھا- صحابہ کے مشورے سے  اِس پورے ڈھیر کو اُس کے مالکان کو واپس نہیں کیا گیا، بلکہ اُن سب کو جلا کر ختم کردیاگیا-
اس کے بعد تیسرے خلیفہ عثمان بن عفّان کا زمانہ آیا - اُس وقت بہت سے صحابہ نے بطور خود لکھ کر پورے قرآن کا مجموعہ تیار کرلیا تھا- یہ مجموعے بھی غالباً قدیم کاغذ پر لکھے گئے تھے- لیکن اِن مجموعوں میں کئی قسم کے فرق پائے جاتے تھے- اِس بنا پر، قرأتِ قرآن کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگئے - کوئی شخص ایک انداز سے قرآن کو پڑھتا، اور کوئی شخص دوسرے انداز سے- خلیفہ سوم نے اُس وقت ایسا کیا کہ خلیفہ اول کے زمانے میں قرآن کا جو مستند نسخہ حضرت حفصہ کے گھر پر رکھا گیا تھا، اُس کو منگوایا اور کتابت کے ماہرین کی مدد سے اس کی بہت سی نقلیں تیار کروائیں- قرآن کے یہ نسخے بھی غالباً قدیم طرز کے کاغذ پر لکھے گئے تھے- پھر خلیفہ سوم نے قرآن کے اِن مجلد نسخوں کو مسلم ممالک کے مختلف مرکزی شہروں میں بھیج دیا، جہاں اُن کوشہر کی جامع مسجدوں میں رکھ دیا گیا- لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ اب جو شخص قرآن کی نقل تیار کرے، وہ اِسی مستند نسخے سے قرآن کی نقل تیار کرے-
حضرت عثمان نے جب قرآن کے یہ مستند نسخے تیار کرائے تو اُس وقت دوبارہ یہ حالت تھی کہ بہت سے لوگوں کے پاس قرآن کے ایسے نسخے تھے جس کو انھوں نے بطور خود تیار کیا تھا- اِن نسخوں میں فرق پایا جاتا تھا- اِس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خلیفہ سوم نے یہ کیا کہ انھوں نے تمام غیر سرکاری نسخوں کو اکھٹاکروایا اور پھر اُن کو صحابہ کی موجودگی میں جلا کر ختم کردیا- اِس طرح قرآن کے نسخے عہدِ صحابہ میں دوبار جلائے گئے — پہلی بار، خلیفہ اول کے زمانے میں قرآن کے متفرق اجزا جلائے گئے تھے- دوسری بار، خلیفہ سوم کے زمانے میں قرآن کی جلدیں صحابہ کے اتفاق رائے سے جلائی گئیں- اِس معاملے کی تفصیل کتابوں میں موجود ہے- مثلاً ملاحظہ ہو: تفسیر الجامع لأحکام القرآن للقرطبی کا دیباچہ (خطبة الکتاب)-
اسلام کے دور اول میں خود صحابہ کے زمانے میں ایسا کیوں ہوا کہ قرآن کے اجزا، یا اس کے نسخے جلا کر ختم کردئے گئے- اِس کا ایک معلوم سبب تھا- اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں کتابت کا جو طریقہ رائج تھا، اُس میں نقطہ اور اعراب (pronouncement)نہیں ہوا کرتا تھا- جو اہلِ زبان تھے، وہ تو ایسی عبارت کو نقطہ اور اعراب کے بغیر صحیح طورپر پڑھ لیتے تھے، جس طرح ایک شخص جس کی مادری زبان اردو ہو، وہ اردو کی موجودہ کتابوں کو درست طورپر پڑھ لے گا جن میں اعراب موجود نہیں ہوتا-
اسلام جب تک اہلِ عرب تک محدود تھا، اُس وقت تک اِس قسم کی تحریر کو پڑھنے میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا تھا- لیکن جب اسلام عرب کے باہر مختلف ملکوں میں پھیلا تو یہ مسئلہ شدت کے ساتھ پیدا ہوگیا-اُس وقت قرآن کے جو نسخے ہوتے تھے، وہ نقطہ اور اعراب کے بغیر ہوتے تھے- غیر عرب لوگ حروف شناسی کے ذریعے عبارت کو پڑھنا سیکھ لیتے تھے، لیکن تلفظ کے معاملے میں وہ شدید غلطیاں کرتے تھے- اِس غلطی کا ایک سبب یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل عربی حروف کا تلفظ مختلف انداز سے کرتے تھے- مثلاً عرب کا قبیلہ قیس ’ک‘ کی آواز کو ’ش‘ کی صورت میں نکالتا تھا- چناں چہ وہ قرآن کی آیت: جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا(19:24) کو اِس طرح پڑھنے لگا: جَعَلَ رَبُّشِ تَحْتَشِ سَرِیًّا- اِسی طرح قبیلہ تمیم ’س‘ کی آواز کو ’ت‘ کی صورت میں ادا کرتا تھا- مثلاً وہ قرآن کی آیت: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ کو قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاتِ کی صورت میں پڑھتا تھا-
نقطہ اور اعراب کا مسئلہ اور بھی زیادہ سنگین تھا- کیوں کہ غیر منقوط اور غیر معرب الفاظ کو مختلف صورتوں میں پڑھا جاسکتا تھا، نقطہ اور اعراب کے بغیر اس کا تعین سخت مشکل تھا- مثال کے طورپر قرآن کی پہلی سورہ میں مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی آیت ہے- اِس آیت میں مَالِک کا لفظ اگر نقطہ اور اعراب کے بغیر ہو تو اس کو کم ازکم پانچ صورتوں میں پڑھاجاسکتا ہے- مثلا: مٰلِکْ، مَلَکْ، مَلِکْ، مُلْک، مِلْک-
خلافتِ راشدہ کے آخری زمانے تک یہ حال تھا کہ لوگوں نے قرآن کے نسخے لکھ کر بڑی تعداد میں تیار کر لئے تھے، لیکن یہ تمام نسخے نقطہ اور اعراب کے بغیر تھے-چناں چہ لوگوں کے درمیان قرآن کی قرأت میں بہت زیادہ اختلافات پیدا ہوگئے، یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے شخص کی تکفیر اور تفسیق کرنے لگا- یہ مسئلہ بے حد سنگین صورت اختیار کرگیا، حتی کہ امت کا اتحاد خطرے میں پڑ گیا- اُس وقت اموی خلیفہ عبد المالک بن مروان (وفات: 705ء) نے اپنے گورنر حجاج بن یوسف الثقفی (وفات:714ء)کو حکم دیا کہ وہ اِس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرے- حجاج نے علما اور ماہرین کے مشورے سے یہ طے کیا کہ قرآن کی آیتوں کو نقطہ اور اعراب کے ساتھ لکھا جائے- موجودہ زمانے میں جو قرآن ہر جگہ پایا جاتا ہے، وہ حجاج کے زمانے کے اِسی منقوط اور معرب قرآن کی نقل ہے-
اِس کے بعد ایک اور مسئلہ باقی تھا، وہ اسلوبِ کتابت کا مسئلہ تھا- قدیم کتابت میں وہ حسن موجود نہ تھا جو آج کے نسخوں میں نظر آتا ہے- مختلف ماہرین نے اِس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی- آخر کار مشہور خطاط ابو علی محمد بن علی بن مُقلہ (وفات: 940ء) نے وہ خوب صورت خط ایجاد کیا جس کے مطابق، بعد کو قرآن لکھا جانے لگا- موجودہ قرآنی خط ابن مقلہ کے اِسی خط کی مزید ترقی یافتہ شکل ہے- قدیم عربی خط کو خطِ کوفی کہاجاتا ہے اور ابن مقلہ کے خط کو خطِ نسخ-
اِس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو ابتدائی زمانے میں قرآن کے ساتھ پیش آئیں- اِن کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خود قرآن کے ساتھ بھی تقریباً اُسی قسم کے معاملات پیش آئے ہیں جو حدیث کے ساتھ پیش آئے ہیں- اہلِ قرآن، حدیث کی جن باتوں کو لے کر حدیث کو مشتبہ ثابت کرتے ہیں، اُسی طرح مستشرقین (orientalists) قرآن کے بارے میں ایسا کرتے ہیں کہ وہ ابتدائی زمانے میں پیش آنے والی باتوں کو لے کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن ایک مشتبہ کتاب ہے-حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں، کسی آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا آپشن ہے- وہ یا تو قرآن اور حدیث دونوں کے استناد کو مانے، یا دونوں کے استناد کا انکار کردے- کیوں کہ جن باتوں کو لے کر وہ حدیث کا انکار کرے گا، تقریباً وہی باتیں قرآن کے لیے بھی موجود ہوں گی-
قرآن اور حدیث کا معاملہ
قرآن اور حدیث کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں، وہ براہِ راست طورپر پوری انسانیت سے جڑا ہوا ہے- اس کے بغیر خالق کے تخلیقی پلان کو سمجھنا ممکن ہی نہیں- ایک لفظ میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن تخلیقی منصوبے کا خدائی بیان (divine statement of the creation plan) ہےاور سنت ربانی حیات کا زندہ مظاہرہ (living demonstration of divine life) - قرآن اور حدیث کو اِس سے کم سمجھنا، قرآن اور حدیث کی بھی تصغیر ہے اور نعوذ باللہ، خدا کی تصغیر بھی-
اللہ تعالی نے جب انسان (آدم) کو پیدا کیا تو آغاز ہی میںاس کو جنت میں بسا دیا- اللہ تعالی نے انسانِ اول سے کہا: تم اور تمھاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور اس میں سے کھاؤ فراغت کے ساتھ جہاں سے چاہو- اور اس درخت کے قریب مت جانا، ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤگے (2:35)-اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے جب انسان کو پیدا کیا تو آغاز ہی میں اُس کو جنت میں بسا دیا- گویا کہ ابتدائی طورپر جنت، انسان کو عمومی بنیاد (general basis) پر دی گئی تھی، یعنی سارے عورت اور مرد جنت میں قیام کریں اور خدا کی حمد کرتے ہوئے اُسی سے انجوائے (enjoy) کریں- لیکن انسان مطلوب معیار پر پورا نہیں اترا، اِس لیے اس کو جنت سے نکال کر موجودہ زمین پر بسا دیاگیا اور خدا کا یہ فیصلہ ہوا کہ اب جنت، انسان کو انتخابی بنیاد(selective basis) پر دی جائے گی، یعنی صرف اُن لوگوں کو جو قول وعمل سے اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کریں-
انسان کے بارے میں اِس تخلیقی نظام کو بتانے کے لیے اللہ تعالی نے یہ کیا کہ ایک طرف اُس کو قرآن کی شکل میں ایک مستند ہدایت نامہ دے دیا، اور دوسری طرف، سنتِ رسول کی شکل میں اس کے لیے ایک عملی نمونے کا انتظام فرمادیا- خدا کے منصوبے کو سمجھنے کے لیے دونوں چیزیں یکساں طور پر ضروری ہیں، کیوں کہ قرآن میں صرف بنیادی چیزوں کا ذکر ہے- اور جہاں تک تفصیلی باتوں کا تعلق ہے، وہ صرف سنتِ رسول میں پائی جاتی ہے-
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجئے- قرآن کی سورہ البلد میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو مشقت (toil) میں پیدا کیا (90:4)- قرآن کی اِس آیت میں ایک عالمی حقیقت کو بتایا گیا ہے- ہر عورت اور مرد کو اِس دنیا میں کہیں نہ کہیں مصیبت (suffering) کا تجربہ پیش آتا ہے- اِس واقعے کو لے کر پوری تاریخ میں تمام لوگ منفی سوچ کا شکار ہورہے ہیں- ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی میں یہ مصیبتیں کیوں پیش آتی ہیں، حتی کہ بہت سے لوگ اِ س واقعے کو خدا کے وجود کے خلاف سب سے بڑی دلیل سمجھتے ہیں-مگر حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ زندگی کی مصیبت (suffering) اپنے اندر ایک عظیم مثبت پہلو رکھتی ہے- یہ مصیبت دراصل زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا معاملہ ہے- زندگی کی مصیبت قابلِ شکر ہے، نہ کہ قابلِ شکایت-
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک حدیث کا مطالعہ کیجئے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن اللہ إذا أحب قوماً ابتلاہم (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 2396) یعنی اللہ جن لوگوںسے محبت کرتاہے، اُن کو آزمائش (مصیبت) میں ڈال دیتا ہے-
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مصیبت کا معاملہ جو انسان کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ اُس کے لیے خدا کی رحمت ہوتا ہے، وہ اس کا تزکیہ کرکے اس کو جنت کا مستحق بناتا ہے، مصیبت آدمی کی سرکشی کو ختم کرتی ہے، مصیبت آدمی کے اندر گہری فکر پیدا کرتی ہے، مصیبت آدمی کو کٹ ٹو سائز (cut to size) بناتی ہے، مصیبت آدمی کے اندر احتیاط کا مزاج پیدا کرتی ہے، مصیبت آدمی کے اندر احتساب (introspection) کی کیفیت کو جگاتی ہے، مصیبت آدمی کے اندر خدا کی یاد پیدا کرتی ہے، مصیبت آدمی کو فرشتوں کا ہم نشیں بناتی ہے، وغیرہ-
اِس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو ہم کو حدیث سے معلوم ہوتی ہیں- حدیث کا فائدہ صرف یہ نہیں ہے کہ اُس سے پانچ وقت کی نماز کا علم حاصل ہوتا ہے، یا کچھ شرعی احکام معلوم ہوتے ہیں- حدیث کا فائدہ اِس سے بہت زیادہ ہے- حدیث آدمی کی معرفت کو بڑھاتی ہے، حدیث آدمی کے لیے تزکیہ کا ذریعہ بنتی ہے، حدیث آدمی کی بصیرت میں اضافہ کرتی ہے، حدیث کسی آدمی کو قرآن فہمی کے قابل بناتی ہے، حدیث آدمی کے لیے ربانی تربیت کا ذریعہ ہے، وغیرہ-
حفاظت ِ حدیث کا اہتمام
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر عباسی دور تک کا جو زمانہ ہے، اس کی تاریخ مکمل طورپر موجود ہے- اِس سلسلے میں عربی کتابوں کے مطالعے سے پورے معاملے کو سمجھاجاسکتا ہے- یہ مطالعہ بتاتا ہے کہ دورِ اول کے اہلِ ایمان نے حفاظتِ حدیث کا بھی وہی اہتمام کیا جو انھوں نے حفاظتِ قرآن کے سلسلے میں کیا تھا- اِس اعتبار سے، دونوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں- دونوں کے بارے میں ایسا کیا گیا کہ ایک طرف ان کو لکھا جاتا رہا اور دوسری طرف اُن کو حافظے میں محفوظ کرلیا گیا- یہ سلسلہ نسل درنسل جاری رہا، یہاں تک کہ انیسویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس کا زمانہ آیا اور قرآن اور حدیث دونوں کے ذخیرے کو طباعت کے ذریعے آخری طورپر محفوظ کردیا گیا-
اِس سلسلے میں یہ صرف ایک غلط فہمی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کی تھی کہ قرآن کو لکھا جائے اور حدیث کو نہ لکھا جائے- تاریخی طورپر یہ ثابت ہے کہ دورِ اوّل کے علما اور محدثین نے صحابہ کے درمیان بکھری ہوئی حدیثوں کو غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے اکھٹا کیا- رجالِ حدیث اور متونِ حدیث کی تحقیق کے لیے نئے علوم وضع کیے- کامل چھان بین (scrutiny)کے بعد انھوں نے مستند احادیث کے مجموعے تیار کیے اور غیرمستند روایتوں کو الگ کردیا- مسند امام احمد بن حنبل جس کو حدیث کا انسائیکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے، اُس میں تیس ہزار روایتیں موجود ہیں- بقیہ روایتوں کو ملا کر احادیث رسول کی تعداد تقریباً پچاس ہزار ہوجاتی ہے- پچھلے ادوار میں یہ حدیثیں کتابوں کی شکل میں ہوتی تھیں- اب کمپیوٹر کے دور میں حدیثوں کے اِس ذخیرے کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا گیاہے-
احادیث کی تنقیح کا یہ کام ہزار سال سے جاری تھا- ہر دور میں علما تاریخی معلومات کی روشنی میں دوبارہ احادیث کے مجموعے کا جائزہ لیتے رہے، شخصی طور پر بھی اور ادارے کے طورپر بھی- موجودہ زمانے میں مشہور عرب محدث شیخ محمد ناصر الدین الالبانی (وفات: 1999) نے پورے ذخیرۂ حدیث کا ازسرِ نو جائزہ لیا اور لمبے مطالعہ اور تحقیق کے بعد 21 ضخیم مجلّدات تیار کیے- انھوں نے خالص علمی تحقیق کے بعد مستند روایتوں کو غیر مستند روایتوں سے الگ کردیا اور دونوں کو جدید طباعتی معیار پر شائع کردیا- اِس مجموعے کی 7 جلدیں مستند احادیث پر مشتمل ہیں اور اُن کا نام یہ ہے: سلسلة الأحادیث الصحیحة وشیء من فقہہا وفوائدہا- اِس مجموعے کی 14 جلدیں غیر مستند روایتوں پر مشتمل ہیں اور اُن کا نام یہ ہے: سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة وأثرہا السیئ فی الأمة.یہ پورا مجموعہ انٹرنیٹ (ww.waqfeya.com) پر موجود ہے.
حقیقت یہ ہے کہ حفاظت اور تدوین کے اعتبار سے، علماءِ امت نے قرآن اور حدیث دونوں کے لیے یکساں طورپر کام کیا ہے، حتی کہ دور طباعت سے پہلے حدیث کے حُفّاظ بھی اُسی طرح ہوتے تھے  جس طرح قرآن کے حفاظ ہوتے ہیں- اِس اعتبار سے، دونوں کے درمیان اصلاً جو واحد فرق ہے، وہ یہ کہ قرآن کے غیر مستند ذخیرے کو جلا کر ختم کردیا گیا اور صرف مستند مجموعہ کو باقی رکھاگیا- جب کہ حدیث کے معاملے میں یہ ہوا کہ ان کی تنقیح کا کام تو پوری طرح کیا گیا، لیکن غیر مستند روایتوں کو کتابوں میں باقی رکھا گیا، اُن کو جلا کر ختم نہیں کیاگیا-
لیکن اِس فرق کی بنا پر دونوں کے درمیان کوئی حقیقی فرق واضح نہیں ہوتا- کیوں کہ جو چیز علمی معیار پر غیر مستند ثابت ہوجائے، وہ اہلِ علم کے لیے عملاً بھی غیر مستند ثابت ہوجاتی ہے، خواہ وہ کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہو یا موجود نہ ہو-علوم کی تاریخ میں اِس نوعیت کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں- مثال کے طورپر شمسی نظام(solar system) کو لیجئے- کو پرنکس (Nicolaus Copernicus) اور گلیلیو (Galileo Galilei) کی تحقیقات کے بعد آفتاب مرکزی ماڈل (heliocentric model)کو ایک مسلمہ کے طورپر مان لیا گیا ہے، جب کہ اِس سے پہلے اِس معاملے میں لمبی مدت تک زمین مرکزی ماڈل (geocentric model)کو درست تسلیم کیا جاتا تھا-
اگر آپ لائبریری اور میوزیم کا جائزہ لیں تو آپ پائیں گے کہ زمین مرکزی ماڈل کی بنیاد پر تیار کیا جانے والا لٹریچر اب بھی ہر جگہ موجود ہے، اس کو جلا کر ختم نہیں کیا گیا- اس کے باوجود آج کی دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں کرتا کہ وہ قدیم لٹریچر کو لے کر زمین مرکزی ماڈل کی صحت کا دعوی کرے- لوگوں کو چاہئے کہ اِسی اصول کو وہ حدیث کے معاملے میں بھی اختیار کریں- مستند حدیثوں کے علاوہ، وہ دوسری روایتوں کو غیر معتبر مان کر رد کردیں- وہ اِن غیر معتبر روایتوں کی تحریری موجودگی کو اُسی طرح عذر نہ بنائیں جس طرح وہ زمین مرکزی ماڈل کی تحریری موجودگی کو عذر نہیں بناتے-
کتابتِ حدیث کا مسئلہ
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں، مسند احمد، صحیح مسلم، الدارمی میں آئی ہے- صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: عن أبی سعید الخدری أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال: لا تکتبوا عنّی، ومن کتب عنّی غیر القرآن فلیمحہ، وحدّثوا عنّی ولا حرج، ومن کذب علی، قال ہَمّام: أحسبہ قال متعمّدا، فلیتبوّأ مقعدہ من النار (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 5326) یعنی ابو سعید الخدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے نہ لکھو (قرآن کے سوا)، اور جس نے لکھا مجھ سے قرآن کے سوا، وہ اُس کو مٹا دے- اور میری باتوں (حدیثوں) کو بیان کرو، اِس میں کوئی حرج نہیں- اور جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ فرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر جھوٹ باندھا، تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالے-
امام نووی نے اِس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ایک قول اِن الفاظ میں نقل کیا ہے: إنما نہى عن کتابة الحدیث مع القرآن فی صحیفة واحدة، لئلاّ یختلط فیشتبہ على القاری فی صحیفة واحدة (صحیح مسلم بشرح النّووی، جلد 18، صفحہ 130) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابتِ حدیث سے منع فرمایا، اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک ہی صحیفہ میں قرآن کے ساتھ حدیث کو لکھنے سے منع فرمایا، تاکہ دونوں مل نہ جائیں اور ایک صحیفہ میں ہونے کی وجہ سے قاری کو اشتباہ نہ پیش آئے-
اِس تشریح سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ کتابتِ حدیث کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت مطلق معنوں میں نہ تھی- وہ صرف اِس معنی میں تھی کہ قرآن اور حدیث دونوں کو ایک ہی کاغذ یا ایک ہی صحیفہ میں ساتھ ساتھ نہ لکھو- کیوں کہ اِس صورت میں یہ اندیشہ تھا کہ قاری کو اشتباہ پیش آجائے اور وہ قرآن اور حدیث دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہ دیکھ سکے- گویا کہ یہ ممانعت مشروط تھی، نہ کہ مطلق-یہ دراصل احتیاط کا ایک معاملہ تھا- کیوں کہ پچھلے اہلِ کتاب کے یہاں ایسا ہوچکا تھا کہ اُن کے علما اپنے پیغمبر کی بات کو وحی کے ساتھ ملا کر لکھ دیتے تھے- اِس طرح اُن کے یہاں ایسا ہوا کہ خدا کا کلام اپنی اصل صورت میں محفوظ نہ رہا، بلکہ وہ انسانی کلام کے ساتھ مختلط ہوگیا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ حکم دراصل اِسی پس منظر میں تھا-
چناں چہ صحابہ نے ایک ہی کاغذ یا ایک ہی صحیفہ پر قرآن اور حدیث دونوں کو ایک ساتھ لکھنا بند کردیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کو وہ علاحدہ کاغذ یا صحیفہ میں بدستور لکھتے رہے- روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ متعدد صحابہ نے الگ صحیفوں میں حدیثیں لکھ کر جمع کی تھیں- امام نووی نے اپنی شرح میں، صحابہ کے متعدد صحیفۂ احادیث کا ذکر کیا ہے- یہ صحیفے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لکھے گئے تھے جو منتخب احادیث پر مشتمل تھے- اِن میں سے ایک صحیفہ وہ ہے جو علی بن ابی طالب نے تیار کیا تھا- حضرت ابو ہریرہ کے حسب ذیل قول سے بھی یہ ثبوت ملتاہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں صحابہ حدیث کی کتابت کرتے تھے- حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ عبد اللہ بن عمر وبن العاص حدیث لکھتے تھے، جب کہ میں نہیں لکھتا تھا :أن عبد اللہ بن عمرو کان یکتب، ولا أکتب. )شرح النووی، جلد 18، صفحہ: 130)
اِس معاملے میں ہمّام بن منبِّہ (وفات: 749ء) کا حوالہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے- ہمام بن منبہ ایک تابعی ہیں- انھوں نے صحابی رسول، حضرت ابو ہریرہ (وفات : 678ء)کی صحبت اختیار کی اور اُن سے حدیثیں لے کر صحیفہ کی صورت میں لکھتے رہے- امام احمد بن حنبل (وفات: 855ء)کی مسند (جلد 2، صفحات: 212-319 ) میں یہ صحیفہ مکمل طورپر موجود ہے- صحیفہ ہمام بن منبہ مخطوطہ کی صورت میں بعض کتب خانوں میں موجود تھا- ڈاکٹر محمد حمید اللہ (وفات: 2002) نے اس کو ایڈٹ کرکے شائع کردیا ہے- اِس صحیفہ میں 140 روایتیں ہیں-
قولی تواتر، عملی تواتر
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ سنت کے دو حصے ہیں— قولی تواتر، اور عملی تواتر۔ قولی تواتر سے مراد پیغمبر اسلام کی سنت کا وہ حصہ ہے جو لفظی روایت کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ اس لفظی روایت میں چوں کہ راویوں کا نسل در نسل تسلسل پایا جاتاہے، اِس لیے اس کو قولی تواتر کا درجہ دیاجاتاہے۔ اِس کے مقابلے میں، سنت کا جو حصہ عمل سے تعلق رکھتا ہے، وہ بھی راویوں کے مسلسل عمل کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، اِس لیے اُس کو عملی تواتر کہا جاتاہے۔
قولی تواتر کوجاننے کا ذریعہ کیا ہے، یہ ذریعہ حدیث کی کتابیں ہیں۔ محدثین جو کہ زیادہ تر تابعین کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے یہ کیا کہ جو روایتیں صحابہ اور تابعین کے ذریعے چلی آرہی تھیں، اُن کو جمع کیا، پھر اُن کو چھانٹ کر مستند روایتوں اور غیر مستند روایتوں کو الگ کیا اور پھر مستند روایتوں کو راویوں کے نام کی تصریح کے ساتھ حدیث کی کتابوں میں قلم بند کردیا۔ حدیث کی یہ کتابیں پہلے ہاتھ سے لکھے ہوئے قلمی نسخوں (manuscripts) کی صورت میں تھیں، اب وہ چھپ کر عمومی طورپر ہر ایک کے لیے قابلِ حصول ہوگئی ہیں۔
عملی تواتر کو جاننے کا ذریعہ کیا ہے، عملی تواتر کو جاننے کے دو ذرائع ہیں— حدیث کی کتابیں، اور اسلامی ادارے (Islamic institutions)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا کہ ایک طرف آپ نے قولی طورپر نماز کا حکم بتایا اور دوسری طرف، آپ نے فرمایا : صلّوا کما رأیتمونی أصلی (صحیح الجامع للألبانی، رقم الحدیث: 893 ) یعنی جس طرح تم نے مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اُسی طرح تم نماز پڑھو۔اِسی طرح آپ نے قولی طور پر حج کا حکم بتایا اور اِسی کے ساتھ آپ نے فرمایا: خُذوا عنی مناسککم (مسند أحمد، رقم الحدیث: 3548) یعنی جس طرح تم نے مجھ کو حج کرتے ہوئے دیکھا، اُسی طرح تم حج ادا کرو۔
دین کو جاننے کا یہ دو طرفہ طریقہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پایا جاتا تھا، وہی دو طرفہ طریقہ بعد کو بھی مسلسل طور پر جاری رہا، یعنی احکامِ دین کو قولی اعتبا رسے، حدیث کی کتابوں کے ذریعہ جاننا، اور احکامِ دین کے عملی پہلو کو قائم شدہ اداروں (established institutions) کے ذریعے جاننا۔ مثلاً نماز کا قولی حکم حدیث میں تواتر کی صورت میں موجود ہے، اور اس کی عملی صورت مساجد میں قائم شدہ نمازِ با جماعت کی صورت میں۔ اِس طرح مسجد کا ادارہ نماز کے عملی تواتر کو بتانے کا ذریعہ ہے۔ اِسی طرح رمضان کے مہینے میں روزے کا حکم حدیث میں تواتر کی صورت میں موجود ہے- امت کا اجتماعی طورپر روزہ رکھنا، روزے کے حق میں عملی تواتر کا درجہ رکھتاہے۔ اِسی طرح حج کا حکم قولی طورپر حدیث میں موجود ہے اور ہر سال ذی الحجہ کے مہینے میں لاکھوں مسلمان مکہ میں جمع ہو کر مناسکِ حج ادا کرتے ہیں۔ یہ حج کے عملی تواتر کو جاننے کا ذریعہ ہے، وغیرہ۔
واضح ہو کہ جہاں تک اثباتِ حکم کا تعلق ہے، ا س کا اصل ذریعہ قول ہے، یعنی کوئی چیز جب تک قول کے ذریعے ثابت نہ ہو، اس کو حکمِ شرعی کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔کوئی حکم جب قول کے ذریعے ثابت ہوجائے تو اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کی عملی صورت کیا ہے۔ دینی احکام کے معاملے میں عملی تواتر کی حیثیت یہی ہے۔ اِس معاملے میں برعکس صورت اختیار نہیں کی جاسکتی، یعنی پہلے عمل کو حکمِ شرعی کا درجہ دیا جائے اور پھر اس کے بعد اس کی تائید کے لیے قول تلاش کیا جائے۔
قرآن اور سنتِ متواترہ
قرآن اور سنت متواترہ کی حیثیت کیا ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1997) نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کے مقدمے میں بجا طورپر لکھا ہےکہ:
’’قرآن مجید اور شریعت کی اصطلاحات (صلوة، زکوة، صوم، حج، عمرہ، قربانی، مسجد حرام، صفا، مروہ، سعی ، طواف، وغیرہ) کا مفہوم بیان کرنے کا حق صرف صاحبِ وحی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ہے۔ آپ جس طرح اس کتاب کے لانے والے تھے، اسی طرح آپ اس کے معلّم اور مبیّن بھی تھے۔ اور یہ تعلیم وتبیین آپ کے فریضۂ رسالت ہی کا ایک حصہ تھی۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ یہ بات قطعیت کے ساتھ کس طرح معلوم ہو کہ فلاں اصطلاح کا یہ مطلب خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ سو جہاں تک معروف دینی اصطلاحات کا تعلّق ہے، یہ سوال کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اِس لیے کہ اِس قسم کی ساری اصطلاحات کا حقیقی مفہوم بالکل عملی شکل میں سنتِ متواترہ کے اندر محفوظ کردیاگیا ہے۔ اور یہ سنتِ متواترہ بعینہ اُنھی قطعی ذرائع سے ثابت ہے جن سے قرآن مجید ثابت ہے۔ اُمّت کے جس تواتر نے قرآن کریم کو ہم تک منتقل کیا ہے، اُسی تواتر نے دین کی تمام اصطلاحات کا عملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ فرق ہے کہ ایک چیز قولی تواتر سے منتقل ہوئی ہے اور دوسری چیز عملی تواتر سے۔ اِس وجہ سے اگر قرآن مجید کو ماننا ہم پر واجب ہے تو ان ساری اصطلاحات کی اُس عملی صورت کو ماننا بھی واجب ہے جو سلف سے خلف تک بالتواتر منتقل ہوئی ہے۔ ان کی صورت میں اگر کوئی جزئی قسم کا اختلاف ہے تو اس اختلاف کی دین میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ پانچ وقت کی نمازیں سب جانتے ہیں اور مانتے ہیں اور اُسی قطعیت کے ساتھ جانتے اور مانتے ہیں جس قطعیت کے ساتھ وہ قرآن کو جانتے اور مانتے ہیں- رہا بعض جزئی امور میں کوئی فرق تو یہ فرق کوئی اہمیت رکھنے والی شے نہیں ہے۔ اِس طرح کے معاملات میں دلائل کی روشنی میں جس پہلو پر بھی جس کا اطمینان ہو، اس کو اختیار کرسکتا ہے۔
منکرینِ حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم وصلوٰۃ، حج وزکوٰۃ اور عمرہ وقربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور امّت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے، اس میں اپنی ہوائے نفس کے مطابق، ترمیم وتغیر کرنا چاہتے ہیں، صریحاً خود قرآن مجید کے انکار کے مترادف ہے۔ اِس لیے کہ جس تواتر نے ہم تک قرآن کو منتقل کیا ہے، اُسی تواتر نے ان اصطلاحات کی عملی صورتوں کو بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر وہ ان کو نہیں مانتے تو پھر خود قرآن کو ماننے کے لیے بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔
اصطلاحات کے معاملے میں تنہا لغت پر اعتماد بالکل ایک غلط چیز ہے۔ صوم وصلوٰۃ کا لغت میں جو مفہوم بھی ہو، لیکن دین میں ان کا وہی مفہوم معتبر ہوگا جو شارع نے واضح فرمایا ہے۔ اِن دینی اصطلاحات کے بارے میں مولانا فراہی اپنے مقدمۂ تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اِسی طرح تمام اصطلاحاتِ شرعیہ مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، مسجد حرام، صفا، مروہ اور مناسک حج وغیرہ اور ان سے جو اعمال متعلق ہیں، تواتر وتوارث کے ساتھ سلف سے لے کر خلف تک سب محفوظ رہے۔ اس میں جو معمولی جزئی اختلافات ہیں، وہ بالکل ناقابلِ لحاظ ہیں…جو نماز مطلوب ہے، وہ وہی نماز ہے جو مسلمان پڑھتے ہیں۔ ہر چند کہ اس کی صورت وہیئت میں بعض جزئی اختلافات ہیں۔ جو لوگ اِس قسم کی چیزوں میں زیادہ کھوج کرید کرتے ہیں، وہ اُس دینِ قیم کے مزاج سے بالکل ہی نا آشنا ہیں جس کی تعلیم قرآن مجیدنے دی ہے…پس جب ایسے اصطلاحی الفاظ کا معاملہ پیش آئے، جن کی پوری حدوتصویر قرآن میں نہ بیان ہوئی ہو تو صحیح راہ یہ ہے کہ جتنے حصے پر تمام امّت متفق ہے، اتنے پر قناعت کرو …ورنہ خود بھی شک میں پڑوگے اوردوسروں کے اعمال کو بھی غلط ٹھہراؤ گے اور تمھارے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جو اس جھگڑے کا فیصلہ کرسکے۔‘‘(صفحہ: 13)
قرآن اور حدیث
دینِ اسلام کے دو ماخذ (sources) ہیں— قرآن اور حدیث- قرآن، خدا کا کلام ہے اور حدیث، رسول خدا کا کلام- قرآن وحی پر مبنی ہے اور حدیث، الہام (inspiration) پر مبنی- دونوں ہی مستند ہیں،اِس فرق کے ساتھ کہ ایک لفظی ہے اور دوسرا معنوی-قرآن ڈائرکٹ طورپر خدا کا کلام (word of God) ہے، اور حدیث انڈائرکٹ طورپر خداکے بھیجے ہوئے پیغمبر کا کلام ہے- علما عام طورپر، قرآن کو وحیِ متلو کہتے ہیں، اور حدیث کو وحیِ غیر متلو- قرآن اور حدیث میں ظاہری نسبت کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن استناد (authenticity) کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں-
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں اتارا گیا- یہ زمانہ پرنٹنگ پریس کے وجود میں آنے سے پہلے کا زمانہ ہے- اُس زمانے میں کلام کو محفوظ کرنے کا اصل ذریعہ حافظہ (memory) ہوا کرتا تھا- کثرتِ استعمال کی بنا پر اس زمانے کے لوگوں کا حافظہ عام طورپر بہت زیادہ قوی ہوتا تھا، نہ صرف عربوں کا بلکہ ساری دنیا کا- اس زمانے کے جو کلام مختلف زبانوں میں آج ہمارے کتب خانوں میں موجود ہیں- مثلاًعرب کے اشعار کا مجموعہ (جمہرة أشعار العرب) اور قدیم عرب کے خطبے (جمہرة خُطب العرب) کے مجموعے جو آج مطبوعہ شکل میں پائے جاتے ہیں، وہ ابتداء ً انسانی حافظے میں تھے اور پھر بعد کو انھیں لکھاگیا- یہ ایک تاریخی واقعہ ہےکہ قدیم زمانے میں کلام کی حفاظت کا اصل ذریعہ انسانی حافظہ ہوا کرتا تھا- اورکتابت (writing) کی حیثیت اضافی (additional) ہوتی تھی- اِس قدیم رواج کے مطابق، قرآن اور حدیث دونوں کی حفاظت (preservation) کا عام ذریعہ یکساں طورپر انسانی حافظہ تھا-قوی الحافظہ ہونے کی بنا پر ایسا ہوتا تھا کہ چاہے قرن کی آیات ہوں یا رسولِ خدا کا کلام، دونوں سنتے ہی لوگوں کے حافظے میں پوری طرح محفوظ ہوجاتے تھے-یہ حفاظت اتنی زیادہ قوی تھی کہ قدیم زمانے میں لوگوں کو ان پر حفاظت کے نقطۂ نظرسے کبھی شبہہ نہیں ہوا-
قرآن میں یہ حکم تھا کہ رسول سے جو کچھ تم کو ملے، تم اس کی پیروی کرو اور جس سے رسول تم کو روکے، اُس سے تم رک جاؤ(59:7)- اِس بنا پر لوگوں نے قرآن کی حفاظت کا جس طرح اہتمام کیا، ٹھیک اُسی طرح انھوں نے کلامِ رسول کی حفاظت کا بھی اہتمام کیا- وہ جس طرح قرآن کی آیتوں کو دوسروں کو سناتے تھے، اِسی طرح وہ دوسروں سے برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا بھی چرچا کرتے تھے- یہ چرچا نہ صرف دعوت ا ور تربیت کے لئے اہم تھا، بلکہ اِس تکرار کی بنا پر وہ لوگوں کی یادداشت میں برابر پختہ ہوتا رہتا تھا-
قدیم زمانے کی کتبِ سماوی جو بعدکو محفوظ نہیں رہیں، اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ لکھی نہیں گئیں- قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت موسی کو لکھی ہوئی تختیاں (7:145)دی گئی تھیں- پچھلی کتب سماوی کے محفوظ نہ ہونے کا سبب اصلاً یہ تھاکہ پیغمبر کے بعد ان کی حفاظت کے لئے مضبوط ٹیم موجود نہ رہی، جو نسل درنسل اس کی حفاظت کی ضامن ہوتی-
دورِ اول میں قرآن اور حدیث دونوں کی حفاظت کا یکساں طور پر اہتمام کیاگیا- حدیث کے بارے میں یہ ہوا کہ شروع میں آپ نے حدیث کو لکھنے سے منع فرمادیا (لا تکتبوا عنّی غیرَ القرآن) لیکن بعد کو آپ نے لوگوں سے یہ کہا کہ تم حدیث کو بھی لکھا کرو (قیّدوا العلم بالکتابة)- جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، اس کے بارے میں شروع سے حافظہ کے علاوہ، کتابت کا اہتمام کیاگیا- یہ قرآن کی حفاظت کے لئے ایک اضافی (additional) انتظام تھا، ورنہ قرآن بیش تر صحابہ کو یاد تھا اور وہ اس کو برابر مختلف صورتوں میں دہراتے رہتے تھے- مثلاً نماز میں اور دعوت کے موقع پر، وغیرہ- حفظِ قرآن کی یہ روایت بعد کو بھی تحفیظ القرآن کے مدرسوں کی صورت میں جاری رہی اور اب تک جاری ہے-
حقیقت یہ ہے کہ دورِ اول میں قرآن اور حدیث دونوں کی حفاظت کا اہتمام یکساں طورپر کیا گیا- دونوں کے درمیان فرق حفاظت (preservation)کا نہیں تھا، بلکہ وہ طریقِ حفاظت (method of preservation) کا فرق تھا- حدیث کو لکھنے کا کام خود دورِ اول میں شروع ہوچکا تھا- مختلف صحابہ نے اپنے اپنے حالات کے اعتبار سے کچھ حدیثیں لکھی تھیں-ان میں سے حدیث کا ایک بڑا مجموعہ وہ ہے جو صحیفہ ابن ابی ہمام کے نام سے مشہور ہے- ابو ہمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی، ابو ہریرہ کے شاگرد تھے- انھوںنے براہِ راست طورپر ابو ہریرہ سے حدیثیں سنیں ، ان کو کاغذ پر لکھا- ان کا صحیفہ اب بھی برلن اور دمشق کے کتب خانے میں موجود ہے-یہ تحریری صحیفہ اس بات کا ایک یقینی ثبوت ہے کہ حدیثیں لکھ کر محفوظ کی گئی تھیں-
بعد کے زمانے میں قصّاص (story tellers) نے بہت سی حدیثیں وضع کیں اور ان کو عوام میں پھیلا دیا- یہ کام زیادہ تر عباسی خلافت کے زمانے میں ہوا- مگر اسی زمانے میں محدثین اور علماکی بڑی تعداد اٹھی- اس نے طویل سفر کرکے تمام احادیثِ رسول کو اکٹھا کیا- انھوں نے رجالِ حدیث پر باقاعدہ کتابیں لکھیں اور خالص علمی اعتبار سے حدیث کا باقاعدہ فن بنایا اور پھر تمام حدیثوں کو چھانٹ کر مستند حدیثوں کو غیر مستند روایتوںسے الگ کردیا- یہ کام خالص علمی سطح پر انجام پایا-
مشہور محدث محمد ناصر الدین الالبانی نے دوبارہ تمام حدیثوں کا از سر نو جائزہ لیا- یہ بلاتشبیہ اسی قسم کا ایک کام تھا جیساکہ خلیفۂ اول کے زمانے میں زید بن ثابت الانصاری نے کیا تھا- انھوں نے اُس زمانے میں قرآن کے تمام لکھے ہوئے اجزا کا از سرِ نو جائزہ لیا، اور پھر وہ مجموعۂ قرآن مرتب کیا جو مصحفِ عثمانی کے نام سے مشہور ہے- اِسی طرح محدث الالبانی نے تمام حدیثوں کا جائزہ لے کر دوبارہ مستند اور غیرمستند حدیثوں کو الگ کردیا- اِس کام میں انھوں نے اپنی تقریباً پوری عمر صرف کردی-
اسوۂ حسنہ
قرآن کی سورہ الاحزاب میں یہ آیت آئی ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (33:21)- اِس آیت میں اُسوہ کے معنی ماڈل (model) کے ہیں- قرآن کی اِس آیت سے حدیث کی اہمیت معلوم ہوتی ہے- حدیث، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ریکارڈ ہے- حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کا نقشہ حیات (life style) کیا تھا- حدیث یا نقشہ حیات کے ریکارڈ کا کام اس لیے ممکن ہوسکا کہ پیغمبر اسلام کے ساتھ قابلِ لحاظ تعداد میں ایک مضبوط ٹیم جمع ہوگئی- انھوں نے پیغمبر کے شب وروز کو دیکھا اور اس کو بعد کی نسلوں تک محفوظ طورپر پہنچایا- اصحابِ رسول کی یہ ٹیم اگر موجود نہ ہوتی تو پیغمبر اور بعد کی نسلوں کے درمیان ایک بُعد (gap)پیدا ہوجاتا اور بعد کے لوگوں کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن نہ ہوتا کہ پیغمبر اسلام کا نقشہ حیات کیا تھا-
حدیث سادہ طورپر صرف احکام کو معلوم کرنے کا ذریعہ نہیں ، بلکہ یہ حدیث کا ذخیرہ ہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا نقشہ حیات کیا تھا- اِسی کا نام ماڈل ہے- حدیث کو الگ کرنے کے بعد یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا کہ پیغمبر اسلام کا ماڈل کیا تھا- قرآن سے دین کی صرف آئڈیالوجی معلوم ہوتی ہے، قرآن سے دین کا ماڈل معلوم کرنا ممکن نہیں-
ماڈل کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں- ماڈل کے بغیر اسلام کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کرنا ممکن نہیں- سیرتِ رسول کا ماڈ ل اگر موجود نہ ہو تو صرف قرآن کافی نہیں ہوسکتا- ماڈ ل کے بغیر قرآن صرف ایک مجرّد نظریہ (abstract ideology) بن جائے گا- لوگ اس کو پڑھیں گے ، لیکن قرآن کے مطابق، اپنی عملی زندگی کی تشکیل ناممکن ہوجائے گی-
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجئے- قرآن میں باربار یہ آیا ہے کہ اللہ کا ذکرِ کثیر (33:40) کرو- لیکن قرآن سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ذکرِ کثیر (اللہ کو زیادہ یاد کرنا) کی عملی صورت کیا ہے- کچھ لوگوں نے اِس کو گنتی کے معنی میں لیا اور اس کا نصاب بنایا، یعنی اتنے ہزار بار اللہ اللہ کرنا یا اتنے لاکھ بار اللہ اللہ کرنا- لیکن ذکر کثیر کا یہ مطلب نہیں-ذکرِ کثیر کا حقیقی مطلب حسب ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے- ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ عائشہ کہتی ہیں کہ: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یذکر اللہ على کل أحیانہ - اِس روایت میں ’حین، کا لفظ موقع (occasion) کے معنی میں ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع کو یا ہر تجربہ اور ہر مشاہدہ کو پوائنٹ آف ریفرنس(point of reference) بنا کر اس کے حوالے سے اللہ کو یاد کرتے تھے- مثلاً چڑیا کو ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھ کر اللہ کے تخلیقی کمال کو یاد کرنا، وغیرہ-
پیغمبر کے فرائض
پیغمبر کے فرائض کو قرآن میں چار مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے- قرآن کی یہ آیت معمولی لفظی فرق کے ساتھ چار مرتبہ آئی ہے- وہ آیت یہ ہے: ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ (62:2) یعنی وہی اللہ ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول اُنھیں میں سے اٹھایا- یہ رسول اُن کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، اور اُن کا تزکیہ کرتاہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے-
قرآن کی اِس آیت میں پیغمبر کے چار کام بتائے گئے ہیں — تلاوتِ آیات، تعلیمِ کتاب، تزکیہ، تعلیم حکمت- خدا کا نبی ہونے کی حیثیت سے پیغمبر کی جو ذمے داریاں ہیں، اُن سب کو اِن چار عنوانات کے تحت بیان کردیا گیا ہے- ان کا مطالعہ کرکے پیغمبر کے پورے مشن کو سمجھا جاسکتا ہے-
1- پیغمبر کا پہلا کام تلاوتِ آیات ہے، یعنی وحی کے ذریعے ملے ہوئے کلامِ الہی کو بے کم وکاست لوگوں تک پہنچانا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام پوری طرح انجام دیا اور آج وہ قرآن کی صورت میں ایک محفوظ کتاب کے طور پر ہمارے پاس موجود ہے-
2- پیغمبر کا دوسرا کام تعلیم کتاب ہے- تعلیم کتاب سے مراد تفسیر کتاب ہے، یعنی قرآن کی آیتوں کی شرح کرنا- اِس شرح کی دو صورتیں ہیں- ایک، یہ کہ آیت کے مفہوم کی نظری وضاحت- دوسرے، یہ کہ آیت میں جو تعلیم دی گئی ہے، اس پر عمل کرکے اس کا مستند عملی نمونہ قائم کرنا-
3- پیغمبر کا تیسر ا کام تزکیہ ہے- تزکیہ سے مراد دینی بنیاد پر افراد کی شخصیت کی تعمیر ہے- یہ کام پیغمبر نے روز مرہ کی صحبت کے ذریعے انجام دیا- پیغمبر نے تزکیہ کے اصول بھی بتائے اور واقعات کے حوالے سے اس کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا- حدیثِ رسول یا سنتِ رسول اِسی پیغمبرانہ عمل کا ریکارڈ ہے-
4- پیغمبر کا چوتھا کام حکمت کی تعلیم ہے-حکمت سے مراد بصیرت (wisdom) ہے- یہ کام بھی پیغمبر نے روز مرہ کی صحبتوں کے درمیان انجام دیا- پیغمبر نے لوگوں کو بتایا کہ دینی زندگی یا دعوتی عمل کو انجام دینے کے لیے بصیرت کا تقاضا کیا ہے، وہ کون سی حکمت ہے جس کو اختیار کرکے ایک مومن اپنے فرائض کو کامیابی کے ساتھ انجام دے سکتا ہے-
انکارِ حدیث کا مسئلہ
امت کی بعد کی نسلوں میں فطری طورپر بگاڑ پیدا ہوتا ہے-یہ ایک قانونِ فطرت ہے، اِس میں کوئی استثنا نہیں- اِس معاملے میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ امت کی بعد کی نسلوں میں بگاڑ پیدا ہوا- اصل مسئلہ یہ ہے کہ بگاڑ کے وقت اصلاح کا صحیح اسلوب اختیا ر کیاگیا یا غلط اسلوب- بگاڑ کے وقت جو مصلحین یا مجددین اٹھتے ہیں، وہ اگر غلط اسلوب اختیار کریں تو خواہ اُن کی نیت درست ہو، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ بگاڑ میں مزید اضافہ ہوجائے گا- انکارِ حدیث کا ظاہرہ اِسی غلطی کا ایک نتیجہ ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امتِ مسلمہ کو جس دین پر چھوڑا تھا، وہ امت کی پہلی نسل اور دوسری نسل (صحابہ اور تابعین) کے زمانے میں بڑی حد تک اپنی ابتدائی حالت پر باقی رہا- لیکن امت کی تیسری نسل میں واضح طورپر بگاڑ آگیا- اصل دین سے انحراف کی صورتیں نمایاں طورپر دکھائی دینے لگیں- اُس وقت مصلحین اور مجددین کو فطری طورپر تشویش پیدا ہوئی- وہ کوشش کرنے لگے کہ امت کو دوبارہ اُس دین پر قائم کریں جو پیغمبر اسلام نے اپنے قول وعمل کے ذریعہ پیش فرمایاتھا-
اب اصلاح کے لیے ممکن طورپر دو اسلوب تھے — ایک، روایتی اسلوب اور دوسرا، عقلی اسلوب- روایتی اسلوب کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں کے اعتقادی مسلّمہ کی بنیاد پر انھیں اصلاح کے لیے آمادہ کیا جائے- دوسرا اسلوب یہ تھا کہ لوگوں کو ان کے عقلی مسلّمہ کی بنیاد پر اصلاح کے لیے آمادہ کیا جائے- پہلے اسلوب کو مبنی بر روایت (tradition-based) اسلوب کہہ سکتے ہیں- اور دوسرے اسلوب کو مبنی بر عقل (reason-based) اسلوب کہا جاسکتا ہے-
اِس معاملے میں مبنی بر عقل اسلوب ہی درست اسلوب تھا- یہ وہی اسلوب تھاجس کو قرآن میں بار بار اختیار کیاگیا ہے- قرآن بار بار انسان کی عقل کو خطاب کرتا ہے- عقل کو خطاب کرنے کا مطلب ہے— انسان کے اپنے مسلمہ پر اس کے ذہن کو ایڈریس کرنا- یہ اسلوب مؤثر بھی ہے اور اس کے ذریعے کوئی نئی خرابی پیدا نہیں ہوتی- یہی وہ اسلوب تھا جس کے ذریعے سے اصحابِ رسول کا گروہ وجود میں آیا، یعنی امت کی پہلی نسل-
لیکن قدیم دور کے مصلحین، خاص طور پر عباسی دور کے مصلحین نے یہ غلطی کی کہ انھوں نے عقلی اسلوب کو اختیار نہیں کیا، بلکہ روایتی اسلوب کو بڑے پیمانے پر اختیار کرلیا- غالباً اِس لیے کہ اُس وقت بگاڑ کے باوجود پیغمبر کو امت کے اندر ایک مسلمہ شخصیت کی حیثیت حاصل ہوچکی تھی- اور یہ امید کی جاسکتی تھی کہ پیغمبر کے حوالے سے جو بات کہی جائے گی، وہ امت کے افراد کے لیے لازمی طورپر قابلِ قبول ہوگی-یہ سوچ اصولاً درست تھی، لیکن عملی طورپر ابتدا ہی میں اس کے دو گروہ بن گئے — ایک، محدثین کا گروہ- اور دوسرا واضعین ِحدیث کا گروہ- محدثین نے بجا طورپر یہ کیا کہ انھوں نے علمِ حدیث کی بنیاد رکھی- انھوںنے حدیث رسول سے استفادہ کرنے کے لیے پختہ علمی اصول وضع کیے- انھوں نے غیر معمولی محنت کے ذریعے صحیح احادیث کے مجموعے تیار کئے- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ امت کے افراد، پیغمبر کے مستند اقوال اور اعمال کو جانیں اور اس پر عمل کریں-
مگر اِسی کے ساتھ مصلحین کا ایک اور گروہ پیدا ہوا، جس کو واضعین حدیث کا گروہ کہا جاتاہے- یہ لوگ اُس غلطی کا شکار ہوئے جس کا ایک مظاہرہ خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوچکا تھا- اِس ظاہرے کو حضرت انس بن مالک کی ایک روایت میں کأنہم تقالّوہا (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5063) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی کچھ لوگوں نے عبادت کے معاملے میں پیغمبر اسلام کی سنت کو کم سمجھا اور بطور خود اس پر اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا- اِس مزاج کو ایک لفظ میں کم تر اندازہ کرنا (to underestimate) کہاجاسکتا ہے-
اِسی غلط مزاج کی بنا پر عباسی دور کے مصلحین نے ترغیب اور تشویق کے لیے حدیثیں وضع کرنا شروع کیا- اِس کے بعد صوفیا نے بھی اِسی اسلوب کو اختیار کرلیا- انھوں نے تزکیہ کے لیے بطور خود نئے نئے طریقے وضع کئے -یہ اسلوب اتنا زیادہ پھیلا کہ بعد کو علما اور واعظین اور مبلغین کی اکثریت نے اپنی تقریر اور تحریر میں اس کو اختیار کرلیا، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ اگر واضعِ حدیث بن گئے تو دوسرے لوگ ناقلِ موضوعات-
اِس روایت میں ’’تقالّوہا‘‘ کا لفظ بہت اہم ہے- اِس کا مطلب ہے کسی چیز کو کم سمجھنا، اس کا کم تر اندازہ (underestimation) کرنا- اصولی طورپر یہی مزاج ہے جو ہر قسم کی بدعات کا اصل سبب ہے- اپنے ذہن(mindset) کی بنا پر ایک آدمی قرآن اور حدیث کی تعلیم کو کم سمجھتا ہے اور بظاہر اچھی نیت سے اُس میں اضافہ کرتاہے- مگر دین کے معاملے میں اِس قسم کا اضافہ یقینی طورپر باطل ہے- کوئی بھی عذر اس کو جائز ٹھیرانے کے لیے کافی نہیں-
حدیث کے الفاظ میں یہ سرتاسر جھوٹ (کذب) ہے- اِس سلسلے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- صحیح البخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: مَن کذب علی فلیتبوّأ مقعدہ من النار (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 107) یعنی جس نے میرے اوپر جھوٹ کہا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے-دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: من یقل علی ما لم أقل، فلیتبوّأ مقعدہ من النار (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 109) یعنی جس نے میری طرف منسوب کرتے ہوئے وہ کہا جو میں نے نہیں کہا ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے-
اِس قسم کی روایتیں جو احادیث کی کتابوں میں آئی ہیں، وہ اپنے مفہوم میں نہایت واضح ہیں- اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے صرف وہی بات کہی جاسکتی ہے جو آپ نے خود فرمایا ہو- کوئی ایسی بات جو آپ نے نہ کہی ہو، اس کو آپ کی طرف منسوب کرکے کہنا، یقینی طورپر ایک فعلِ حرام کی حیثیت رکھتا ہے-
بہت سے مصلحین اور صوفیا اور علما جنھوں نے بطور خود شریعت میں اضافے کئے ہیں اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے، وہ اِس کے جواز میں کہتے ہیں کہ یہ کذب نہیں- اِس لیے کہ یہ رسول اللہ کی تائید میں ہے، نہ کہ آپ کی مخالفت میں (أنہ کذب لہ، لا علیہ)، یعنی دینی امور میں اِس قسم کا اضافہ، اضافہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ترغیب وتشویق ہے-مگر اس قسم کا کوئی بھی عذر اِس معاملے میں قابلِ قبول نہیں- دین میں اِس قسم کا اضافہ، خواہ وہ عمداً ہو یا سہواً، وہ عذر کے ساتھ ہو یا عذر کے بغیر، بظاہر وہ چھوٹا ہو یا بڑا، ہر حال میں وہ فعل حرام کی حیثیت رکھتا ہے- کوئی شخص اپنی رائے کے طورپر کچھ بھی کہنے کا حق رکھتا ہے- لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منسوب کرکے کچھ کہنا، بلا شبہہ حرام ہے اور اللہ تعالی کے یہاں اس کی سخت پکڑ ہوگی- (2009)
حدیثوں میں اختلاف کا مسئلہ
ایک شخص جب حدیث کا تفصیلی مطالعہ کرتا ہے تو وہ پاتا ہے کہ حدیثوں میں کافی اختلاف ہے جو عام طورپر قرآن میں نظر نہیں آتا- یہ دیکھ کر وہ الجھن میں پڑجاتا ہے اور حدیث کی صحت کا انکار کردیتا ہے- مگر یہ کم فہمی کی بات ہے- اصل یہ ہے کہ قرآ ن میں اسلام کے بنیادی اصول بتائے گئے ہیں جو ہمیشہ یکساں رہتے ہیں- اس کے مقابلے میں حدیث اس بات کا ریکارڈ ہے کہ ان غیر متغیر اصولوں کو روزانہ کے بدلتے ہوئے حالات میں کس طرح منطبق کیاگیا- عملی زندگی چوں کہ ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتی، اس لیے فطری طورپر انطباق میں فرق ہوجاتا ہے- حدیثوں میں جو بظاہر اختلاف نظر آتا ہے، وہ دراصل اسی فطری فرق کی بنا پر پیدا ہوا ہے- وہ حکم کا اختلاف نہیں، بلکہ انطباق کا اختلاف ہے-
مثال کےطورپر ہدیہ (gift)کے مسئلے کو لیجئے- ایک طرف بہت سی روایتیں ہیں جن میں ہدیہ اور تحفہ کی اہمیت پر زور دیاگیا ہے- اسی کے ساتھ اس کے برعکس روایتیں بھی ہیں- مثلاً موطا (باب ما جاء فی المہاجرة) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے کو ہدیہ دو، اس سے باہمی محبت پیدا ہوگی اور عداوت جاتی رہے گی: تہادوا تحابّوا وتذہب الشحناء (موطأ الإمام مالک،رقم الحدیث: 1651)-
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ ہدیہ اور تحفہ کے لین دین سے آپس میں انسیت او رمحبت بڑھتی ہے- اسی طرح ہدیہ اور تحفہ نہ دینے سے دوری پیدا ہوتی ہے- اور اگر کوئی ہدیہ دے اور اس کو قبول نہ کیا جائے تو اس کا برعکس اثر ہوگا، آپس میں نفرتیں بڑھیں گی، باہمی تعلقات میں کھنچاؤ اور تناؤ کی حالت پیدا ہوجائے گی- اس طرح کی کیفیت دیر تک باقی رہے تو ایسے ماحول میں کوئی تعمیری کام کرنا سرے سے ناممکن ہوجائے گا- اِسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایا کے تبادلے کی تلقین بھی کی اور خود بھی اس پر عمل فرمایا-روایات سے ثابت ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی ہدیہ دیا جاتا تو آپ خوشی کے ساتھ اس کو قبول فرماتے تھے :کان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقبل الہدیة. (فتح الباری بشرح صحیح البخاری: 249/5)
اب جہاں تک اہلِ اسلام سے ہدیہ قبول کرنے کا تعلق ہے، اس میں احادیث میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، لیکن غیر مسلموں کے سلسلے میں روایت میں اختلاف ہے- کچھ روایتیں بتاتی ہیں کہ کسی غیر مسلم نے ہدیہ پیش کیا تو آپ نے شوق کے ساتھ اس کو قبول فرمایا- دوسری طرف ایسی بھی روایتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتا :إنی لا أقبل ہدیة مشرک.( فتح الباری: 5/273)
سنن أبی داؤد (باب فی الإمام یقبل ہدایا المشرکین) میں ایک واقعہ نقل کیاگیا ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عظیم فدک (غیر مسلم حکمراں) کا ہدیہ قبول فرمایا- پھر عین اسی باب میں دوسری روایت ہے کہ ایک غیر مسلم نے ہدیہ پیش کیا تو آپ نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا .(سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 3055)
یہاں واضح طورپر ایک ہی معاملے میں دو مختلف مسلک اختیار کیا گیا-مگر یہ کوئی تضاد نہیں ہے، بلکہ ایک سادہ فطری حقیقت ہے- اس فرق کا سبب نفسِ حکم کا فرق نہیں ہے، بلکہ حالات کا فرق ہے اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ حالات کی رعایت ہمیشہ ایک حکم کے انطباق میں فرق پیدا کردیتی ہے- اس معاملے کی وضاحت کے لئے یہاں دو مثالیں نقل کی جاتی ہیں-
1- روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار حاکموں اور سرداروں سے ہدیہ قبول فرمایا- مثلاً تبوک کی مہم (رجب 9ہجری) میں آپ نے تیس ہزار اصحاب کے ساتھ سفر فرمایا تھا-اِس مہم کے ذیل میں جو واقعات پیش آئے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ اس علاقے کے مقام ایلہ کا حاکم یوحنا بن روبہ آپ کی خدمت میں آیا- اس نے آپ کو ایک سفید خچر کا ہدیہ پیش کیا، جو واضح طورپر اس بات کی علامت تھی وہ آپ کے ساتھ اچھے تعلق قائم کرناچاہتا ہے- چناں چہ آپ نے خوشی کے ساتھ اس کا ہدیہ قبول فرمایا- اس کے بعد معتدل فضا میں اس سے بات ہوئی- اس نے آپ سے صلح کرلی اور جزیہ دینے پر راضی ہوگیا-(فتح الباری: 405/3)-
یہ واقعہ واضح طور پر تالیف قلب کا واقعہ ہے- ایک حاکم جس سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے، اگر اس کا ہدیہ قبول نہ کیا جائے تو تلخی پیدا ہوگی اور بہتر تعلقات قائم کرنا مشکل ہوجائے گا- اس کے برعکس، اس کا ہدیہ قبول کرنا اور اپنی طرف سے اس کو ہدیہ پیش کرنا قربت اور انس کا ذریعہ ہے- یہی وجہ ہے کہ آپ نے غیر مسلم حاکموں سے ان کا تحفہ قبول فرمایا- سرداروں اور حکمرانوں سے ہدیہ قبول کرنے کے متعدد واقعات حدیث کی کتابوں میں آئے ہیں-
اب دوسری نوعیت کی مثال لیجئے- سنن أبی داؤد (رقم الحدیث: 3057) اور بعض دوسری کتابوں میں ایک روایت آئی ہے- اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مشرک عیاض بن حمار المجاشعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی بطور ہدیہ پیش کی- آپ نے پوچھا کہ کیا تم نے اسلام قبول کرلیا- انھوں نے کہا کہ نہیں- آپ نے فرمایا: فإنی نہیت عن زَبْد المشرکین (مجھے مشرکوں کا عطیہ لینے سے منع کیاگیا ہے( .فتح الباری 273/5-
واقعات بتاتے ہیں کہ یہ انکار حقیقةً کوئی انکار نہ تھا، بلکہ وہ شفقت کا ایک معاملہ تھا- اپنی زبان میں ہم اس کو ایک قسم کا ترغیبی انکار کہہ سکتے ہیں- اصل یہ ہے کہ عیاض بن حمار آپ کی تحریک توحید سے متاثر تھے اور ذاتی طورپر آپ کے عقیدت مند بن چکے تھے- مگر ابھی تک انھوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا- آپ نے مذکورہ الفاظ میں ہدیہ کا انکار کرکے اُن کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا- حسبِ توقع اس کا مفید اثر ہوا اور جلد ہی انھوں نے باقاعدہ اسلام قبول کرلیا- چناں چہ اب اُن کو اسلام کی تاریخ میں عیاض بن حمار المجاشعی رضی اللہ عنہ لکھا جاتا ہے- ) (1997
حدیثِ رسول: افادیت کے چند پہلو
حدیث کے لفظی معنی بات (word) کے ہیں- اصطلاحی طورپر حدیث سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر وہ بات ہے جو آپ نے کہا یا جس پر آپ نے عمل کیا یا جس کی آپ نے تصدیق کی- قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آیا ہے کہ : وَاِنَّکَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْم(68:4) یعنی بے شک تم ایک اعلی اخلاق پرہو- اِس آیت میں’عظیم‘ کا لفظ شخصی تعریف کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دینِ خداوندی میں جس اعلی اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے، تم اُس اعلی اخلاق کا عملی نمونہ ہو- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ کا اخلاق کیا تھا- انھوں نے جواب دیا کہ: کان خلقہ القرآن (الأدب المفرد، رقم الحدیث: 308) یعنی آپ کا اخلاق قرآن تھا- حضرت عائشہ کا یہ قول حدیثِ رسول یا سنتِ رسول کی اصل حقیقت کو بتاتا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کا عملی انطباق تھے- قرآن اگر قرآن ہےتو رسول اللہ کی حیثیت انطباقی قرآن (applied Quran) کی ہے- یہ ویسا ہی ہے جیساکہ کہا جاتا ہے کہ ایک ہے اسپریچویلٹی اور دوسری چیز ہے اپلائڈ اسپریچویلٹی (applied spirituality) -
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے جو کتابی مجموعے تیار کیے گئے ہیں، اُن کی تعداد تقریباً 50 تک پہنچتی ہے- یہ احادیث گویا رسول اللہ کی پوری زندگی کا تعارف ہیں- آج کل کی زبان میں کہاجاسکتا ہے کہ احادیث کا مجموعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور عمل کا انسائکلوپیڈیا ہے- اِن احادیث میں جو مختلف مضامین آئے ہیں، اُن کا اشارہ قرآن میں موجود ہے-
احادیث کے دس اہم پہلو
1- حدیث تبیین ِ قرآن: قرآن، دینِ خدا وندی کی بنیادی تعلیمات (basics) کا مجموعہ ہے- حدیث اس کی تفصیل ہے جو کہ خود مہبطِ قرآن کی زبان سے بیان کی گئی ہے-
2- حدیث اسوۂ رسول: خدا کی کتاب پر عمل کرنے والا سب سے پہلا شخص ہمیشہ خود پیغمبر ہوتا ہے- حدیث پیغمبر کے اِسی عمل کا ریکارڈ ہے-
3- حدیث پوائنٹ آف ریفرنس: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی واقعات سے بھری ہوئی زندگی تھی، اِس لیے آپ کی زندگی میں حیاتِ انسانی کی رہنمائی کے لیے ہر قسم کے حوالے موجود ہیں-
4- حدیث معیارِ حق: حدیث بتاتی ہے کہ کسی معاملے میں فیصلے کا صحیح معیار (right criterion) کیا ہے، انفرادی معاملات میں بھی اور اجتماعی معاملات میں بھی-
5- حدیث صحبت ِ رسول: بعد کے زمانے کے لوگوں کے لیے حدیث صحبتِ رسول (companionship of the Prophet)کا بدل ہے- حدیث صحبتِ رسول کا تسلسل ہے- حدیث کے ذریعے ہر آدمی گویا اصحابِ رسول جیسا تجربہ کرسکتا ہے-
6- حدیث پیغمبرانہ معرفت: حدیث ایک اعتبار سے، پیغمبرانہ معرفت کا ریکارڈ ہے- اِس اعتبار سے، حدیث کا ذخیرہ حصولِ معرفت کے لیے ایک بنیادی رہنما کی حیثیت رکھتا ہے-
7- حدیث نقطۂ آغاز: حدیث کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے آدمی کو ہر معاملے میں درست نقطہ آغاز (right starting point) ملتا ہے- اِس طرح اُس کے لیے ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو حقیقی معنوں میں نتیجہ خیز بناسکے-
8- حدیث دلیلِ نبوت: حدیث کا استثنائی اسلوب اور اس کی استثنائی معنویت اتنا زیادہ نمایاں ہے کہ اس کا مطالعہ قاری کے لیے نبوت کی دلیل بن جاتا ہے-
9- حدیث تاریخی دستاویز: حدیث پیغمبر کی سرگرمیوں کا ریکارڈ ہے- اِس اعتبار سے، حدیث پیغمبر کے حق میں تاریخی دستاویز (historical document)کی حیثیت رکھتی ہے-
10- حدیث وحیِ غیر متلو: قرآن وحی متلو ہے اور حدیث وحی غیر متلو- اِس اعتبار سے حدیث کا مطالعہ گویا قرآن کے مطالعے کی توسیع (extension) کے ہم معنی ہے-
حدیث تبیینِ قرآن
قرآن خدا کی کتاب ہے- اِس میں دین کی تمام بنیادی تعلیمات کو بتادیا گیا ہے-تاہم اِن تعلیمات کی تفصیل قرآن میں موجود نہیں-یہ تفصیل یا توجیہہ صحابہ (ہم عصر اہلِ ایمان) نے براہِ راست طورپر رسول سے حاصل کی- اس کے بعد یہ تمام معلومات احادیث کی حیثیت سے جمع ہوئیںاور پھر کتبِ حدیث کی صورت میں مدون ہوگئیں- یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِس طرح بیان کی گئی ہے: وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ اِلَّا لِتُـبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْہِ ۙ وَہُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ (16:64) یعنی ہم نے تم پر کتاب صرف اِس لیے اتاری ہے کہ تم اُن کو وہ چیز کھول کر سنادو جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں- اور وہ ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں-
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، قرآنی آیات کی تشریح وتوضیح ہیں- رسول کی حیثیت ’مہبطِ قرآن‘ کی ہے- آپ نے قرآن کی جس آیت کی جو تشریح کی، وہی اصلاً اُس آیت کی مستند تشریح ہے- یہاں اِس معاملے کی وضاحت کے لیے چند مثالیں درج کی جاتی ہیں-
سورہ العنکبوت میں یہ آیت آئی ہے: اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْکَرِ ۭ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ۭ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ (29:45) یعنی تم اِس کتاب کو پڑھو جو تم پر وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کرو- بے شک نماز بے حیائی سے اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے، اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو-
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دینِ اسلام میں نماز ایک بے حد اہم عبادت ہے- لیکن اِس عبادت کی عملی صورت کیا ہو، اس کو جاننے کے لیے ایک زندہ انسان کی ضرورت ہے- یہ معیاری انسان ہم کو رسول کی صورت میں حاصل ہوتا ہے- اِس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: صلوا کما رأیتمونی، أصلی (السنن الکبرى للبیہقی، رقم الحدیث: 3672) یعنی تم نماز اُس طرح پڑھو، جس طرح تم مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو- صحابہ نے رسول کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور پھر اس کو احادیث کے ذریعے امت تک پہنچایا-
قرآن کی ایک آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے: کَلَّا ۭ لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (96:19) یعنی ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مان اور سجدہ کر اور قریب ہوجا- اِس آیت میں سجدۂ قربت سے کیامراد ہے، اس کا علم ایک حدیث سے ہوتا ہے- ایک مشہور حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: تعبد اللہ کأنک تراہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:4499 ) یعنی اللہ کی عبادت اِس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو- مذکورہ آیت اور حدیث پر غور کرنے سے معلو م ہوتا ہے کہ عبادت اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ عابد کا شعور اتنا ترقی کرے کہ اس کو خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ ہونے لگے- یہ احساس اتنا شدید ہو کہ عابد کو یہ محسوس ہونے لگے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے-
حج بھی ایک عبادت ہے- حجة الوداع کی روایات میں سے ایک روایت وہ ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کی اصل حقیقت کیا ہے- اسامہ بن شُریک ایک صحابی ہیں- وہ کہتے ہیں کہ منیٰ میں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے- کوئی شخص کہتا کہ اے خدا کے رسول، میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی، کوئی کہتا کہ میں نے رمیِ جمار سے پہلے حلق کرالیا، کسی نے کہا کہ میں نے پہلے قربانی کی اور اس کے بعد میں نے رمی کیا- اِسی طرح لوگ مختلف قسم کے سوالات پوچھتے رہے- آپ اِس قسم کے سوالات کے جواب میں فرماتے: افعل ولا حرج، افعل ولا حرج، لا حرج إلا على رجل افترض عِرض رجل مسلم، وہو ظالم، فذلک الذی حرج وہلک (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 329 ) یعنی کرلو، کوئی حرج نہیں- کرلو، کوئی حرج نہیں- حرج کی بات تو یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے بھائی کو بے عزت کرے- ایسا ہی شخص ظالم ہے- اُسی نے حرج والا کام کیا اور ہلاک ہوا-
اِس حدیث رسول سے ایک اہم بات معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ عبادت میں اصل اہمیت عبادت کی اسپرٹ کی ہے- جہاں تک عبادت کے فارم کا تعلق ہے، وہ عملاً ضروری ہے، لیکن اگر عبادت کے فارم میں بظاہر کوئی فرق واقع ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک قابلِ قبول ہے، بشرطیکہ عبادت کی اسپرٹ میں فرق نہ ہوا ہو- گویا کہ عبادت میں عابد کا فوکس سب سے زیادہ عبادت کی اسپرٹ پر ہونا چاہئے، نہ کہ عبادت کے فارم پر-
حدیث اسوۂ رسول
قرآن کی سورہ الاحزاب میں یہ آیت آئی ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا (33:21) یعنی تمھارے لیے اللہ کے رسول (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے، اُس شخص کے لیے جو اللہ کا اور وہ آخرت کے دن کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے-
قرآن کی یہ آیت غزوہ احزاب (5 ہجری) کے بعد اتری- اِس اعتبار سے، اُس کا ایک انطباق وہ ہے جو اِس غزوہ کے دوران ظاہر ہوا- لیکن اِسی کے ساتھ اُس کا ایک وسیع تر انطباق بھی ہے- اِس اعتبار سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اہلِ ایمان کے لیے اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے-غزوۂ احزاب کے زمانے میں جو واقعات پیش آئے، اُن کی تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے- یہاں اِس سلسلے کی صرف ایک روایت نقل کی جاتی ہے جو اپنے مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے نہایت جامع ہے- اس میںپوری زندگی کے لیے رہنمائی ملتی ہے-
غزوہ احزاب 5 ہجری میں پیش آیا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بارہ ہزار کا لشکر مکہ سے روانہ ہوا ہے اور مدینہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے- آپ نے اِس معاملے میں اپنے اصحاب سے مشورہ کیا- حضرت سلمان فارسی کے مشورے سے یہ طے ہوا کہ ٹکراؤ سے بچنے کے لیے یہ کیا جائے کہ مدینہ کے شمال مغربی حصے میں دو پہاڑوں کے درمیان ایک خندق (trench) کھود دی جائے- چناں چہ ایسا ہی کیاگیا- اہلِ مکہ کا لشکر جب مدینہ کی سرحدپر پہنچا تو خندق پر اُن کو اپنی پیش قدمی روکنی پڑی- یہ اہلِ عرب کے لیےایک نیا تجربہ تھا- چناں چہ اس کو دیکھ کر لشکر کے سردار نے کہا: واللہ إن ہذہ لمکیدة ماکانت العرب تکیدہا (السیرة النبویة لابن ہشام: 182/4 ) یعنی خدا کی قسم، یہ ایک ایسی تدبیر ہے جیسی تدبیر سے اہلِ عرب اب تک ناواقف تھے-
یہ خندق لشکر کی مزید پیش قدمی کے لیے رکاوٹ (buffer)بن گئی- تقریباً ایک مہینہ پڑاؤ ڈالنے کے بعد اہلِ مکہ واپس چلے گئے-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ واقعہ صرف ایک وقتی واقعہ نہیں، اِس واقعے میں انسانی زندگی کے لیے ایک جامع رہنمائی موجود ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں جب ٹکراؤ کی صورت پیش آئے تو اُس وقت تم ٹکراؤ کا آپشن نہ لو، بلکہ یک طرفہ تدبیر کے ذریعے اپنے اور فریقِ ثانی کے درمیان ایک آڑ یا فاصل (buffer) قائم کرلو- اِس طرح تم متشددانہ ٹکراؤ اور اس کے نقصان سے بچ جاؤ گے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں مختلف صورتوں میں اِس طریقے کو اختیار کیا- مثلاً غزوۂ حدیبیہ (6 ہجری) کے موقع پر آپ نے فریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر اُن سے دس سال کا ناجنگ معاہدہ (no-war pact) کرلیا- یہ بھی اپنے اور فریقِ ثانی کے درمیان فاصل قائم کرنے کی ایک صورت تھی- اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصبر معول المؤمن (حلیة الأولیاء: 342/5 )یعنی صبر مومن کی ڈھال ہے- گویا اجتماعی زندگی میں صبر کا طریقہ اپنے اور فریقِ ثانی کے درمیان فاصل قائم کرنے کی ایک صورت ہے-
نزاع کے موقع پر اپنے اور فریقِ ثانی کے درمیان فاصل (buffer) قائم کرنا ایک حکیمانہ تدبیر ہے- دوسرے لفظوں میں اس کو مہلت حاصل کرنے کی تدبیر (buying-time method) کہاجاسکتا ہے- اِس تدبیر کے ذریعے آدمی کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کو ٹکراؤ میں ضائع کرنے سے بچ جائے- وہ اِس حاصل شدہ وقت کو موقع (opportunity) کے طورپر استعمال کرے-
حدیث پوائنٹ آف ریفرنس
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اور آپ کے اصحاب کی زندگی واقعات سے بھری ہوئی زندگی (eventful life) تھی- آپ کی زندگی میں اور آپ کے اصحاب کی زندگی میں ہر قسم کے واقعات پیش آئے اور پھر یہ واقعات حدیثوں کی صورت میں ریکارڈ ہوگئے- جو شخص رسول اور اصحابِ رسول کی زندگی کا مطالعہ کرے گا، وہ حیرت انگیز طورپر پائے گا کہ اس کے اندر حقیقی واقعات موجود ہیں- اِس بناپر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کی زندگی کے حوالے سے ہر معاملے میں مستند رہنمائی حاصل کی جاسکے-
اِس معاملے کی ایک مثال وہ واقعہ ہے جو روایت میں اِس طرح آیا ہے: وکانت قریش إنما تسمى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم مذمما، ثم یسبّونہ- فکان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول: ألا تعجبون لِما صرف اللہ عنّی من أذى قریش- یسبّون ویہجون مذمّما وأنا محمد (السیرة النبویة لابن ہشام: 201/2 ) یعنی قریش (مکی دور میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذمّم (مذمت کیا ہوا) کے نام سے پکارتے تھے اور پھر آپ کو برابھلا کہتے تھے- چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے اصحاب سے) کہتے تھے کہ کیا تم کو اِس پر تعجب نہیں ہےکہ اللہ نے مجھےقریش کی اذیت سے بچا لیا ہے- وہ مذمم کہہ کر میری ہجو کرتےہیں، حالاں کہ میرا نام محمد ہے-
اِس واقعے سے زندگی کا ایک اہم اصول ملتا ہے، وہ یہ کہ جب کوئی شخص اشتعال کی بات کرے تو سننے والا خوب صورت جواب دے کر اس کو غیر موثر بنادے- یہ زندگی کی ایک حکمت ہے- اِس حکمت کو دوسرے الفاظ میں، اویسیو رپلائی (evasive reply) کہاجاسکتا ہے-
اِس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ ایک بار حضرت ابو بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے- ایک شخص وہاں آیا اور آکر وہ حضرت ابو بکر کو برا بھلا کہنے لگا- حضرت ابو بکر پہلی بار سن کر چپ رہے- اس نے دوسری بار ان کو برا بھلا کہا تو اُس وقت بھی وہ چپ رہے- مگر جب اس نے تیسری بار ان کو برا بھلا کہا تو حضرت ابو بکر خاموش نہ رہ سکے اور جواب میں بول پڑے- یہ دیکھ کر رسول اللہ وہاں سے اٹھ گئے- حضرت ابو بکر نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، آپ کیوں اٹھ گئے- آپ نے فرمایا کہ اے ابو بکر، جب تک تم چپ تھے، خدا کا فرشتہ تمھاری طرف سے جواب دے رہا تھا، جب تم بول پڑے تو فرشتہ وہاں سے چلا گیا: إن الملک کان یرد عنک ، فلما تکلمتَ ، ذہب الملک، ووقع الشیطان ، وکرہتُ أن أجلس(شرح السنة للبغوی، رقم الحدیث:3586 )
اِس واقعے میں فرشتے کا لفظ کسی پراسرار معنی میں نہیں ہے- اِس سے مراد عملاً وہی ہے جس کو قرآن میں النفس اللوامة (75:2) یعنی ضمیر (conscience) کہا گیا ہے- اِس واقعے میں یہ عمومی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص تم کو ناحق ستائے تو تم صرف یہ کرو کہ رد عمل کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے خاموش ہوجاؤ- تمھاری خاموشی کا یہ فائدہ ہوگا کہ مذکورہ شخص کا ضمیر جاگ اٹھے گا- اِس طرح تم خود اپنے مخالف کے اندر اپنا ایک حامی پیدا کرسکتے ہو-
حدیث معیارِ حق
زندگی کی ایک اہم ضرورت وہ ہے جس کو معیار (criterion) کہا جاتا ہے-زندگی کے معاملات میں ہمیشہ یہ ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی معیار ہو جس کے حوالے سے معاملے کا فیصلہ کیا جاسکے- دین میں یہ حیثیت مستند طورپر صرف دو چیزوں کو حاصل ہے — قرآن اور حدیث- یہی وہ بات ہے جو قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان کی گئی ہے: فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ(4:59) یعنی (اے ایمان والو) اگر تمھارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو تم اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو-
قرآن میں دین کی اساسی تعلیمات بتائی گئی ہیں اور تفصیل کے اعتبار سے زندگی کے بہت سے معاملات ہیں جن کے بارے میں ہم کو احادیث سے رہنمائی ملتی ہے- اِس طرح قرآن اور حدیث کی صورت میں ایک ایسا مستند معیار مل جاتا ہے جو لوگوں کو اِس سے بچاتا ہے کہ لوگ خود اپنے ذہن (mindset) سے رائےقائم کریں- اِس طرح یہ اصول حاصل ہوتا ہے کہ ہر نزاعی موقع پر قرآن اور حدیث کے حوالے سے لوگوں کو صحیح طریقے کی رہنمائی دی جاسکے- اگر قرآن اور حدیث کا معیار موجود نہ ہو تو کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس کے حوالے سے لوگوں کو مستند طور پر کوئی رہنمائی دی جاسکے-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی غیر موافق بات نظر آتی ہے تو لوگ فوراً اس کے خلاف ٹکراؤ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں- وہ کہتے ہیں کہ اِس طرح کے معاملے میں کارروائی نہ کرنا بزدلی ہے- یہ ذہن لوگوں کے اندر بہت زیادہ عام ہے- اب سوال یہ ہے کہ اِس معاملے میں فیصلہ کن رہنمائی کہاں سے حاصل کی جائے- اِس کا جواب ہمیں ایک حدیث میں ملتا ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ینبغی للمؤمن أن یُذلّ نفسہ قالوا: وکیف یذل نفسہ؟ قال: یتعرض من البلاء لما لا یُطیق (الترمذی، رقم الحدیث:2254) یعنی مومن کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے- لوگوں نے پوچھا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو کس طرح ذلیل کرے گا- آپ نے فرمایا کہ وہ ایسی آزمائش کا سامنا کرے جس سے نپٹنے کی اس کے اندر طاقت نہ ہو-
اِس حدیث رسول سے اجتماعی زندگی کے لیے ایک اہم اصول ملتا ہے- وہ یہ کہ اجتماعی زندگی میں کوئی اقدام کرنا صرف اُس وقت جائز ہے جب کہ اقدام سے کوئی مثبت نتیجہ (positive result) نکلنے والا ہو- جس اقدام کا نتیجہ منفی صورت میں نکلنے والا ہو، ایسا اقدام کرنا مومن کا طریقہ نہیں- دوسرے لفظوں میں یہ کہ جو اقدام کاؤنٹر پروڈکٹیو (counterproductive) ثابت ہونے والا ہو، اُس سے مومن کو اُسی طرح بچنا چاہیے جس طرح کسی حرام فعل سے بچا جاتا ہے-
حدیث صحبتِ رسول
حدیث کیا ہے، وہ گویا صحبتِ رسول کی مستند رپورٹ ہے- حدیث کی کتابوں میں جو روایتیں جمع کی گئی ہیں، اُن کی نوعیت یہی ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے ساتھ آپ کی صحبت میں بیٹھتے تھے- وہ نہایت غور کے ساتھ آپ کی باتیں سنتے تھے- پرنٹنگ پریس کے زمانے سے پہلے لوگوں کے حافظے نہایت قوی ہوتے تھے- چناں چہ رسول اللہ کی کہی ہوئی باتیں لوگوں کو پوری طرح یاد ہوجاتی تھیں- بعد کو اِن باتوں کو باقاعدہ طورپر لکھا جانے لگا- اِس طرح حدیث کی وہ کتابیں تیار ہوئیں جو اب ہمارے کتب خانوں میں پائی جاتی ہیں-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ اقوال ہمیشہ فطری اسلوب میں ہوتے تھے- آج اگر کوئی شخص اِن اقوالِ رسول کو توجہ کے ساتھ پڑھے، وہ ذہنی طورپر اپنے آپ کو اُس ماحول میں پہنچا دے، جب کہ یہ باتیں کہی جارہی تھیں، تو پڑھنے والے کو اپنی شعوری بیداری کی بنا پر ایسا محسوس ہوگا جیسے وہ پیغمبر کی صحبت میں پہنچ گیا ہے اور براہِ راست طورپر آپ کی باتوں کو سن رہا ہے- اِس طرح احادیث نے گویا کہ پیغمبر کی صحبت کو ابدی بنادیا ہے-اِس کی ایک مثال مشہور حدیث جبریل ہے- جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- صحیح مسلم میں اس کو باب بیان الإیمان کے تحت دیکھا جاسکتا ہے-
آپ یکسو ہو کر اور استحضار کے ساتھ اِس حدیث کو پڑھیں توحدیث کا متن آپ کو اِس طرح اپنی طرف کھینچ لے گا کہ آپ محسوس کریں گے کہ آپ بھی مدینہ کی اُس مجلس میں ہیں جہاں پیغمبر اور جبریل کے درمیان یہ مکالمہ ہوا — تقریباً یہی معاملہ تمام دوسری حدیثوں کا بھی ہے-
حدیث پیغمبرانہ معرفت
احادیث کا جو مجموعہ مختلف کتابوں کی صورت میں مرتب ہوا ہے، وہ سادہ طورپر صرف پیغمبر کے اقوال کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ وہ پیغمبر کی شخصیت کا مکمل تعارف ہے- کہاجاتا ہے کہ کسی انسان کا کلام اُس انسان کا تعارف ہوتا ہے- یہ بات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے بارے میں مزید اضافے کے ساتھ درست ہے- مثال کے طورپر یہاں ایک روایت کا مطالعہ کیجئے: أمرنی ربی بتسع: خشیة اللہ فی السر والعلانیة، وکلمة العدل فی الغضب والرضا، والقصد فی الفقر والغنا، وأن أصل من قطعنی، وأعطی من حرمنی، وأعفوا عن من ظلمنی، وأن یکون صمتی فکراً، ونطقی ذکراً، ونظری عبرة (جامع الأصول، رقم الحدیث: 9317 )یعنی میرے رب نے مجھے 9 باتوں کا حکم دیا ہے : کھلے اور چھپے ہر حال میں، میں خدا سے  ڈرتا رہوں- غصے میں ہوں یا خوشی میں، ہمیشہ انصاف کی بات کہوں- محتاجی اور امیری دونوں حالتوں میں، میں اعتدال پر قائم رہوں- جو مجھ سے کٹے، میں اُس سے جُڑوں- جو مجھے محروم کرے، میں اُس کو دوں- جو مجھ پر ظلم کرے، میں اس کو معاف کردوں- میری خاموشی غوروفکر کی خاموشی ہو- میرا بولنا یادِ الہی کا بولنا ہو- میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو-
اِس حدیث کو بار بار پڑھیے- اِس پر گہرائی کے ساتھ غور کیجئے- اگر آپ سنجیدگی کے ساتھ ایسا کریں تو آپ کو محسوس ہوگاکہ آپ پیغمبر کو دیکھے بغیر دیکھ رہے ہیں- آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے کہ پیغمبر کی شخصیت آپ کے سامنے مستحضر ہوگئی ہو- آپ محسوس کریں گے کہ آپ پیغمبر کے ذوق (taste) کو دریافت کررہے ہیں- آپ پیغمبر کی ترجیحات (priorities)سے باخبر ہورہے ہیں- آپ کو نظر آرہا ہوگا کہ پیغمبر کے ذہن میں کس قسم کا تھاٹ پراسس (thought process) چلتا رہتا تھا- پیغمبر کی اخلاقی قدریں (moral values) کیا تھیں جن کے مطابق، وہ انسانوں کے ساتھ معاملہ کرتا تھا- پیغمبر کے دن اور رات کن کیفیات میں بسر ہوتے تھے، وغیرہ-
غرض یہ کہ آپ اِس روایت اور دوسری روایتوں میں غور کرکے پیغمبر کی اعلی ربانی شخصیت کی پوری تصویر دیکھ سکتے ہیں، حتی کہ آپ کا شعور مکمل طورپر بیدار ہو تو آپ کی یہ دریافت تقریباً اتنا ہی زیادہ حقیقی ہوسکتی ہے، جتنا کہ پیغمبر کے ہم عصر اہلِ ایمان کی دریافت ہوسکتی تھی-
حدیث نقطۂ آغاز
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کامل معنوں میں ایک عملی انسان تھے- آپ نے زیرو (zero) سے اپنے مشن کا آغاز کیا اور پھر اس کو کمال کے درجے تک پہنچایا- اِس اعتبار سے، آپ کی زندگی میں اِس مشکل مسئلے کا ایک کامیاب نمونہ ملتاہے کہ اپنے عمل کا آغاز کہاں سے کیا جائے- آپ کی حدیثیں آپ کی اِسی عملی زندگی کا ریکارڈ ہیں- آپ کی حدیثوں کے مطالعے سے نہایت واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ کسی عمل کادرست نقطہ آغاز (right starting point) کیا ہے-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کے مشن کا ایک جُز یہ تھا کہ کعبہ کی عمارت کو بتوں سے  پاک کیا جائے، جہاں اُس وقت تقریباً  360 بت رکھے ہوئے تھے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ کعبہ میں جاتے تھے- آپ وہاں نماز پڑھتے تھے- لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے- لیکن مکی دور کے 13 سال تک آپ نے کبھی اِن بتوں سے تعرض نہیں کیا، حتی کہ کعبہ میں ان کی موجودگی پر احتجاج بھی نہیں کیا، حالاں کہ آپ کے مشن میں یہ شامل تھاکہ کعبہ سے بتوں کا خاتمہ کیا جائے، جیسا کہ آپ نے فتحِ مکہ کے بعد کیا-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس عمل سے ایک اہم اصول اخذ ہوتا ہے، وہ یہ کہ کسی عمل کا نقطہ آغاز کیا ہے- کسی عمل کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ بالواسطہ طورپر پُرامن دعوت کی شکل میں اپنے عمل کا آغاز کیا جائے- جہاں تک عملی اقدام کا تعلق ہے، وہ صرف اس وقت کیا جائے جب کہ وہ پوری طرح ممکن ہوچکا ہو، جب وہ وقت آجائے کہ کوئی نیا مسئلہ پیدا کیے بغیر اس کو تکمیلی سطح تک پہنچایا جائے-
حدیث دلیلِ نبوت
حدیث کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے کی ایک محکم دلیل ہے، یعنی کلام اپنے آپ میں یہ گواہی دیتاہے کہ متکلم کوئی عام انسان نہ تھا، بلکہ وہ اللہ رب العالمین کا پیغمبر تھا- حدیث کے ذخیرے میں اِس طرح کی بہت سی روایتیں ہیں- یہاں اِس سلسلے میں صرف ایک حدیث کا ذکر کیا جاتا ہے-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایا: أنا سید وُلد آدم، ولا فخر، ولواء الحمد بیدی یوم القیامة، ولا فخر (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 4308) یعنی میں اولادِ آدم کا سردار ہوں، اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں- اور قیامت کے دن حمد کا علَم میرے ہاتھ میں ہوگا اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قوال آپ کی فضیلت کے بارے میں نہیں ہے- وہ دراصل ایک تاریخی واقعہ کی پیشین گوئی ہے- اِس میں ایک ایسے واقعے کا ذکر ہے جو اِسی دنیا میں پیش آئے گا- قیامت میں جو کچھ ہوگا، وہ صرف یہ کہ قیامت میں ہرچیز سے التباس کا پردہ اٹھ جائے گا- اِس لیے قیامت میں ہرایک بلا اشتباہ اُس واقعے کو جان لے گا جو موجودہ دنیا میں ایک تاریخ کے طورپر پیش آیا تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ساتویں صدی کے ربع اول میں کہی تھی- اُس وقت کے حالات میں بظاہر اس کا ادنی امکان نہیں تھا کہ آپ کسی وقت پوری نسلِ انسانی میں نمایاں ترین شخص کی حیثیت اختیار کرسکتے ہیں-
یہ بات صرف اللہ رب العالمین کے علم میں تھی کہ وہ خاتم النبیین کو ایک ایسی تاریخی شخصیت (historical figure)کا درجہ دینے والا ہے جو تمام نسلِ انسانی میں ممتاز ترین درجہ ہے- یہ اِس لیے تھا کہ لوگوں کے لیے آپ کو پہچاننا ممکن ہوجائے- ’وسید وُلد آدم‘ کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ — استثنائی طورپر تاریخ کا عظیم ترین انسان:
Exceptionally, the greatest man of history.
یہ اللہ کا ایک منصوبہ تھا جو اِس لیے تھا کہ خاتم النبیین کو خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے پہچاننا لوگوں کے لیے مشکل نہ رہے- چناں چہ اللہ کے مخصوص منصوبے کے تحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ایسا تاریخی عمل (historical process) جاری ہوا کہ رسول اللہ کی ذات بطور ایک تاریخی واقعہ کے پوری انسانی نسل کی نمایاں ترین شخصیت بن گئی- یہ ایک ایسا معلوم واقعہ ہے کہ سیکولر مبصرین نے بھی عام طورپر اس کو تسلیم کیا ہے- یہاں اِس سلسلے میں صرف دو حوالے نقل کیے جاتے ہیں-
مشہور کمیونسٹ رائٹر ایم این رائے (وفات: 1954) کی ایک کتاب ہے جو 1939 میں پہلی بار دہلی سے شائع ہوئی- یہ کتاب تقریباً 100 صفحات پر مشتمل ہے- اِس کتاب کا نام یہ ہے:
The Historical Role of Islam
مصنف نے اپنی اِس کتاب میں دورِ اول میں پیش آنے والے اسلامی انقلاب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں— اسلام کا پھیلاؤ تمام معجزاتی واقعات میں سب سے بڑا معجزاتی واقعہ تھا:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
یہ سب سے بڑا معجزاتی واقعہ کیا تھا- یہ دراصل رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے پیش آنے والا وہ فکری انقلاب تھا جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ایک عظیم تاریخی عمل (great historical process) شروع ہوا، جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اِس نقطہ انتہا پر پہنچا کہ پیغمبر اسلام کی ذات مسلمہ طورپر پوری نسلِ انسانی کے درمیان ممتاز ترین شخصیت بن گئی- یہی وہ تاریخی واقعہ ہے جس کو پیغمبر اسلام نے ’سید ولد آدم‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے-
ایم این رائے نے اپنی کتاب میں جس واقعے کا ذکر غیر معمولی معجزہ کے طور پر کیا ہے، وہ اِس معاملے کے اُس پہلو سے تعلق رکھتا ہے جس کو عالمی انقلابی عمل کہاجاسکتا ہے، جس کے نتیجے کے طورپر پیغمبر اسلام کی شخصیت پوری نسل آدم میں ممتاز ترین شخصیت بن گئی-
اِس انقلابی واقعے کا دوسرا پہلو وہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِسی ممتاز حیثیت سے تعلق رکھتا ہے- اِس موضوع پر ایک مشہور کتاب وہ ہے جو امریکا کے ایک مسیحی مصنف ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے شائع کی ہے- مصنف نے اپنی اِس کتاب میں پوری انسانی تاریخ کے ایک سو ممتاز ترین افراد کی لسٹ تیار کی ہے- یہ افراد مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں- اِس کتاب میں انھوں نے ان تمام افراد کا ترتیب وار ذکر کیا ہے- اِس فہرست میں سب سے پہلا نام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے- مصنف نے پیغمبر اسلام کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں— آپ تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی ا ور دنیوی سطح پر بھی:
Muhammad was the only man in history who was supremely successful on both, the religious and secular levels. (Dr. Michael H. Hart, The 100, New York 1978)
ڈاکٹر مائکل ہارٹ کی یہ کتاب گویا ’سید ولد آدم‘ کی تاریخی تشریح ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات 14 سو سال پہلے کہی تھی، وہ اُس وقت ایک پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی- ہزار سالہ عمل کے بعد یہ پیشین گوئی ایک تاریخی واقعہ بنی- یہ بات عملی طورپر اتنی زیادہ مسلّم ہوگئی کہ موجودہ زمانے کے بہت سے مبصرین نے کھلے طورپر اِس واقعے کا اعتراف کیا ہے- انھیں میں سے ایک امریکی مصنف ڈاکٹر مائکل ہارٹ ہیں-
حدیث تاریخی دستاویز
احادیث کی ایک اہم حیثیت یہ ہے کہ وہ اسلام اور شخصیاتِ اسلام کے لیے ایک تاریخی دستاویز (historical document)کی حیثیت رکھتی ہیں- یہ احادیث ایک اعتبار سے، اسلام کے مسائل بتاتی ہیں اور دوسرے اعتبار سے، وہ اسلام کی مستند تاریخ ہیں- حدیث اور سیرت پر جو کتابیں تیار کی گئی ہیں، وہ گویا تاریخ اسلام کی جلدیں ہیں- احادیث کا یہی مجموعہ ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کو ایک مستند تاریخی بنیاد (historical base) حاصل ہوگئی ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بہت سے پیغمبر آئے، لیکن اِن تمام پیغمبروں کی شخصیت غیر تاریخی شخصیت بن کر رہ گئی، حتی کہ حضرت مسیح جو پیغمبر اسلام سے صرف 6 سو سال پہلے پیدا ہوئے، اُن کے بارے میں بھی معتبر تاریخی روایات موجود نہیں- چناں چہ برٹرنڈ رسل (وفات: 1970) نے لکھا ہے کہ — تاریخی طورپر یہ بات بالکل مشتبہ ہے کہ مسیح کا کبھی وجود بھی تھا:
Historically, it is quite doubtful whether Christ ever existed at all.
ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ کیوں ایسا ہے کہ پیغمبر اسلام کو ایک واحد استثنا کے طورپر تاریخی پیغمبر مانا جاتا ہے-پروفیسر فلپ کے ہٹی نے لکھا ہے کہ — محمد تاریخ کی مکمل روشنی میں پیدا ہوئے:
Muhammad was born within the full light of history.
ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیا (وفات: 1910) ایک بنگالی اسکالر تھے- انھوں نے تمام مذاہب اور مذہبی شخصیتوں کا مطالعہ کیا- اپنے اِس مطالعے کے بعد انھوں نے اسلام قبول کرلیا- انھوںنے اپنے اِس مطالعے کی تفصیل بتاتے ہوئے اپنی کتاب میں یہ الفاظ لکھے ہیں— اف، یہ کتنی بڑی راحت کی بات ہےکہ آدمی آخرکار حقیقی معنوں میں ایک ایسے تاریخی پیغمبر کو پالے جس پر وہ یقین کرسکے:
Oh, what a relief to find after all a truly historical prophet to believe in.
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو انبیا آئے، اُن میں سے کسی کو تاریخی شخصیت (historical figure) کا درجہ حاصل نہیں-خالص علمی اعتبار سے، پچھلے تمام انبیا اعتقادی انبیا ہیں، نہ کہ تاریخی انبیا- ایسی حالت میں کیوں کر ایسا ہوا کہ پیغمبر اسلام کو استثنائی طورپر تاریخی شخصیت کا درجہ حاصل ہوگیا- دوسری تمام شخصیتیں جن کو تاریخی شخصیت کہاجاتا ہے، اُن کویہ درجہ صرف اِس لیے حاصل ہوا کہ مدوّن تاریخ (recorded history) کی صورت میں تاریخ کا جو ذخیرہ تیار ہوا ہے، اس میں اُن کا تذکرہ موجود ہے- لیکن پیغمبر اسلام کو جو تاریخی حیثیت ملی، وہ اصلاً مدوّن تاریخ کے ریکارڈ کی بنا پر نہیں ملی-پھر اِس استثنائی واقعے کا سبب کیا تھا-
اِس کا سبب وہ لٹریچر ہے جس کو حدیث لٹریچر کہاجاتا ہے-حدیث لٹریچر صرف شرعی احکام کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ وہ اُن تاریخی واقعات کا مجموعہ بھی ہے جو پیغمبر اسلام کی زندگی میں پیش آئے- پیغمبر اسلام واحد پیغمبر تھے جو اپنی 23 سالہ پیغمبرانہ زندگی میں ایک وسیع ٹیم بنانے میں کامیاب ہوئے، جن کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے-
یہ اصحابِ رسول یا پیغمبر اسلام کی ہم عصر ٹیم (contemporary team) آپ کی پوری زندگی میں آپ کے ساتھ رہی- انھوں نے آپ کے ساتھ دعوت الی اللہ کا کام کیا- وہ آپ کے ساتھ حج اور عبادت میں شریک ہوئے- سفر اور حضر میں وہ آپ کے ساتھ ہوتے تھے- صلح اور جنگ کے تمام مواقع پر وہ آپ کے ساتھ شریک رہے- انھوں نے آپ کی انفرادی زندگی کو بھی دیکھا اور آپ کی اجتماعی سرگرمیوں کا بھی مشاہدہ کیا- پیغمبر اسلام کی زندگی کے اِن تمام پہلوؤں کو انھوں نے محفوظ کیا- حفاظتِ احادیث کا یہ سلسلہ اصحابِ رسول کے بعد بھی نسل درنسل جاری رہا، یہاں تک کہ حدیث کی وہ کتابیں تیار ہوگئیں جو اب ہر کتب خانے میں مطبوعہ شکل میں موجود ہیں-
احادیثِ رسول کے ناقل جن کو رُواة (narrators) کہاجاتا ہے، وہ سادہ طورپر صرف ناقلِ حدیث نہ تھے، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ ناقلِ تاریخ بھی تھے- انھوںنے پیغمبر اسلام کی زندگی کی تمام سرگرمیوں کو نہایت صحت کے ساتھ محفوظ کردیا- یہی وہ ریکارڈ ہے جس نے پیغمبر اسلام کو خالص علمی اعتبار سے، ثابت شدہ طورپر تاریخی پیغمبر کا درجہ دے دیا-
جیسا کہ معلوم ہے، اسلام کے دو مستند ماخذ ہیں— قرآن اور حدیث- جہاں تک اسلام کی بنیادی تعلیمات کا معاملہ ہے، وہ سب کی سب قرآن میں موجود ہیں- لیکن پیغمبر اسلام کی زندگی کا وہ حصہ جس کو تاریخ کہاجاتا ہے، اُس کا مستند ماخذ صرف احادیث کا ذخیرہ ہے- احادیث کو اگرحذف کردیا جائے تو اسلام اور پیغمبر اسلام کی تاریخی بنیاد ختم ہوجائے گی- اِس کے بعد اسلام اور پیغمبر اسلام کی حیثیت صرف ایک عقیدے کی ہوگی، نہ کہ تاریخ کی-مثال کے طورپر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے- یہ واقعہ اتنا اہم تھا کہ قرآن میں استثنائی طورپر اس کو فتح مبین (clear victory) کہاگیا ہے- لیکن اِس واقعے کی تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں- اِس واقعے کی تمام تفصیلات ہم کو حدیث اور سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتی ہیں- یہی معاملہ پیغمبر اسلام کی زندگی کے دوسرے تمام واقعات کا ہے-
حدیث وحیِ غیر متلو
قرآن وحی متلو ہے اور حدیث وحی غیر متلو، یعنی قرآن خدا کا مبنی بر وحی کلام (revealed word of God) ہے اور حدیث خدا کا مبنی بر الہام کلام (inspired word of God) قرآن اگر حدیثِ قدسی ہے تو حدیث، حدیثِ رسول-قرآن اگر لفظی قرآن ہے تو حدیث گویا معنوی قرآن- قرآن اور حدیث دونوں کا اصل منبع (source) ایک ہے-اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے کسی پیچیدہ فنی بحث کی ضرورت نہیں، قرآن اور حدیث کا سادہ مطالعہ ہی اِس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے- اگر آپ عربی زبان جانتے ہیں اور آپ کے اندر متاثر ذہن (preoccupied mind) نہیں ہے تو آپ کا کامن سنس (common sense) ہی اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے کافی ہوجائے گا- آپ محسوس کریں گے کہ قرآن اور حدیث کے اسلوب میں واضح فرق موجود ہے- زبان کے اشتراک کے باوجود صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا متکلم اورہے اور حدیث کا متکلم اور-
اسلوب کے اِس فرق کے باوجود جہاں تک معنی کی بات ہے، معنی کے اعتبار سے، دونوں کے اندر کامل مشابہت پائی جاتی ہے- صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو معنوی سرچشمہ قرآن کا ہے، وہی معنوی سرچشمہ حدیث کا بھی ہے- اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک روایت کا مطالعہ کیجئے: وعلى العاقل مالم یکن مغلوباً على عقلہ أن تکون لہ ساعات: ساعة یناجی فیہا ربّہ، وساعة یحاسب فیہا نفسہ، وساعة یتفکر فیہا فی صنع اللہ، وساعة یخلو فیہا لحاجتہ من المطعم والمشرب- (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 361 ) یعنی عقل مند شخص کے لیے لازم ہے کہ اُس پر کچھ لمحات گزریں— ایسا لمحہ جب کہ وہ اپنے رب سے باتیں کرے، ایسا لمحہ جب کہ وہ اپنی ذات کا محاسبہ کرے، ایسا لمحہ جب کہ وہ خدا کی تخلیق میں غور کررہا ہو اور ایسا لمحہ جب کہ وہ کھانے اور پینے کی ضرورتوں کے لیے وقت نکالے-
اِس حدیثِ رسول کا مطالعہ کیجئے- اِس حدیث کار بانی مزاج اور اس کا الہامی اسلوب اپنی روح کے اعتبار سے، اُس دین کی نمائندگی کررہا ہے جو دین قرآن میں پایا جاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

Friday 1 November 2013

Al Risala | November 2013 (الرسالہ،نومبر)

2

-قرآن ایک جامع ہدایت

3

- تعاہُد کیا ہے

4

- دورِ جدید میں سیرت نگاری

5

- مغرب کا کیس

6

- ایک حکیمانہ اصول

9

- اجتہاد کی اہمیت

13

- منصوبۂ خداوندی

21

- اسلام کا انقلابی رول

27

- اسلام اور جنگ

32

- قانونِ شریعت کا نفاذ

36

- خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان

37

- مس ورلڈ

38

- خود کشی کیوں

39

- کسی کی انا کو مت چھیڑیے

40

- سوال وجواب


قرآن ایک جامع ہدایت

قرآن کی سورہ النحل میں قرآن کی ایک خصوصیت اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ (16:89) یعنی ہم نے تم پر الکتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا کھلا بیان ہے- اور ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے فرماں برداروں کے لیے-
’تبیانًا لکل شیء‘ کا مطلب کیا ہے- اس کا مطلب ہے —مقصدِ قرآن کی نسبت سے ہر چیز کا بیان- اِس سے مراد عام انسانی فہرست نہیں ہے، بلکہ اِس سے اُس دین کی فہرست ہے جو اللہ کو مطلوب ہے- مشہور عربی لغت لسان العرب میں اِس کی توضیح اِن الفاظ میں کی گئی ہے: بُین لک فیہ کلُّ ما تحتاج إلیہ أنت وأمتک من أمر الدین (68/13) یعنی قرآن میں اُن تمام چیزوں کو بیان کردیا گیا ہے جو امرِ دین کی نسبت سے تمھارے لیے اور تمھاری امت کے لیے ضروری ہیں-
جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن میں تمام سائنسی مضامین اور تمام عمرانی علوم (social sciences) موجود ہیں، وہ اس سے بے خبر ہیں کہ قرآن کا مقصد نزول کیا ہے-قرآن اِس لیے نہیں اتارا گیاہے کہ وہ انسان کو تمام دنیوی علوم سے واقف کرائے- حدیث میں واضح طورپر اس کی تردید موجود ہے- تابیرِ نخل کے واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس معاملے کو ایک جامع اصول کے طورپر اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: أنتم أعلم بأمر دنیاکم (صحیح مسلم، رقم الحدیث:6277 )
اصل یہ ہے کہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ وہ انسان کو اس کی ابدی فلاح کے معاملے میں رہنمائی دے- اِس ابدی فلاح کا تعلق آخرت کی فلاح سے ہے- قرآن میں اُن رہنما اصولوں کو بتایا گیا ہے جن کی پیروی کرکے انسان آخرت کی ابدی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے- جہاں تک دنیوی معاملات کا تعلق ہے، اس کے بارے میں انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی تحقیق اور تجربے کے ذریعے اُن کو معلوم کرے-
واپس اوپر جائیں

تعاہُد کیا ہے

قرآن کے بارے میں ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: عن أبی موسى عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال: تعاہدوا القرآن، فوالذی نفسی بیدہ لہو أشد تفصیًا من الإبل فی عقلہا (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5033) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قرآن کی حفاظت کرو، کیوں کہ قرآن اُس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ نکل جانے والا ہے جس طرح اونٹ اپنی رسی سے چھوٹ کر نکل جاتا ہے-
اِس حدیث میں قرآن کی حفاظت (تعاہد)سے مراد اس کی لفظی حفاظت نہیں ہے، بلکہ اس کی معنوی حفاظت ہے- ’’تعاہد‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو مسلسل طو رپر اپنی سوچ کا مرکز بنائے رہو، تمھارے اندر قرآن رخی تفکیر (Quran-oriented thinking) پیدا ہوجائے، تم ہمیشہ قرآن میں نئے نئے معانی تلاش کرتے رہو، تم قرآن کو مسلسل طور پر اپنے ذہن کا حصہ (intellectual part) بنا لو- قرآن کے معانی، بہ الفاظِ دیگر، قرآنی طرزِ فکر، ایک ایسی چیز ہے جو صرف اُس وقت آدمی کے ذہن کا حصہ بنتا ہے جب کہ آدمی اس پر مسلسل طورپر سوچے، جب کہ وہ اس کے تفکیری عمل (thinking process) کا مستقل جز بنا ہوا ہو- اگر ایسا نہ ہوتو قرآن بہت جلد فراموشی کے خانے میں چلا جائے گا- وہ آدمی کے زندہ حافظہ (living memory) میں باقی نہ رہے گا-
اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زندگی میں آدمی ہر لمحہ مسائلِ دنیا سے دوچار رہتا ہے- طرح طرح کے دنیوی تقاضے ہر لمحہ آدمی کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں- قرآن مکمل طورپر ایک کتاب آخرت ہے، جب کہ انسان مکمل طورپر ایک دنیوی مخلوق ہے- یہی وہ فرق ہے جس کی طرف مذکورہ حدیث رسول میں اشارہ کیاگیا ہے-اِس صورتِ حال میں کسی مومن کے لیے صاحبِ قرآن بننے کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ وہ اپنے اندر تجریدی فکر (detached thinking) کی صلاحیت پیدا کرے- وہ ایک غیر قرآنی دنیا میں قرآنی ذہن کے ساتھ رہ سکے-
واپس اوپر جائیں

دورِ جدید میں سیرت نگاری

موجودہ زمانے میں مسلم اہلِ قلم کے درمیان ایک موضوع بہت مقبو ل ہوا ہے- اِس موضوع کو عام طورپر ’’دورِ جدید میں سیرت نگاری‘‘ کہاجاتا ہے- مگر اِس موضوع پر جو کتابیں چھپی ہیں، اُن کو دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے مصنفین اِس بات سے بے خبر ہیں کہ دورِ جدید میں سیرت نگار ی کا مطلب کیا ہے-حقیقت یہ ہے کہ اصل موضوع سے اِن کتابوں کا کوئی تعلق نہیں-
اِس موضوع پر شائع شدہ کتابوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اُن کے لکھنے والوں نے کچھ مغربی مصنفین کو اسلام کا دشمن فرض کرلیا اور یہ سمجھا کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو ’’مسخ‘‘ کرنے کی کوشش کررہے ہیں- اِس مفروضے کے تحت انھوں نے بطور خود اِن ’’اسلام دشمنوں‘‘ کا جواب دینے کی کوشش کی ہے-اِسی جوابی سیرت نگاری کو وہ بطور خود ’’دورِ جدید میں سیرت نگاری‘‘ سمجھتے ہیں-
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ ایک بالکل نیا زمانہ ہے- پچھلے دور کو اگر روایتی دور کہاجائے تو موجودہ دور کو سائنسی دور کہا جائے گا- اب سیرتِ رسول کے اعتبار سے، یہ ضرورت ہے کہ سیرت کو اِس طرح لکھا جائے کہ وہ دورِ جدید سے پوری طرح متعلق (relevant) نظر آئے- موجودہ زمانے کی اصل ضرورت سیرتِ رسول کا یہی ریلونس (relevance)ثابت کرنا ہے، نہ کہ مفروضہ مخالفینِ اسلام کا جواب دینا-
دورِ جدید میں سیرت نگاری ایک اجتہادی موضوع ہے، وہ کوئی روایتی یا تقلیدی موضوع نہیں- اس کام کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف، جدید ذہن کا مطالعہ خالص غیر جانب دارانہ انداز میں کیا جائے اور دوسری طرف، پیغمبر اسلام کی سیرت کو گہرے مطالعے کے ذریعے دوبارہ سمجھنے کی کوشش کی جائے- راقم الحروف کے مطالعے کے مطابق، مغربی مصنفین، اسلام یا پیغمبر اسلام کے مخالف نہیں ہیں، بلکہ اُن کا طریقِ مطالعہ (method of study) مختلف ہے- مسلمان اگر سیرت کا مطالعہ خوش عقیدگی کے ذہن کے تحت کرتے ہیں تو مغربی مصنفین اس کا مطالعہ موضوعی (objective) انداز میں کرتے ہیں- اِسی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان اِس معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں-
واپس اوپر جائیں

مغرب کا کیس

ڈاکٹر صہیب حسن (لندن) کا ایک مضمون ایک عرب شیخ صالح الحُصیّن (وفات: 2013)کے بارے میں چھپا ہے-اس میں انھوں نے مغربی تہذیب یا مغرب کے بارے میں شیخ صالح الحصین کا نقطہ نظر بتاتے ہوئے لکھا ہے — اگر ایک مسلمان کو اہلِ مغرب پر تنقید کرنا ہے تو وہ صرف اُن کے عیوب پر تنقید کرے- اہلِ مغرب کی خوبیوں کا نہ صرف اعتراف کرنا چاہئے، بلکہ اس میں ہمیں اُن سے مسابقت کرنا چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اسلام میں عدل ہر قیمت پر مطلوب ہے- (ماہ نامہ ’صراطِ مستقیم‘، ستمبر 2013، صفحہ 25، برمنگھم، لندن)
عرب شیخ کے اِس ملفوظ میں غالبًا اہلِ مغرب کی اخلاقی خوبیوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے- مسلمانوں میں اور بھی ایسے کئی لوگ ہیں جو انفرادی سطح پر اہلِ مغرب کی اخلاقی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں- مگر اس قسم کا اعتراف ایک کم تر اعتراف ہے- اہلِ مغرب کی دوسری اِس سے زیادہ بڑی دین ہے جس کو غالباً مسلم علما نہ جانـتے ہیں اور نہ وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں-
اہلِ مغرب کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ دینِ اسلام کے لیے مُؤید (supporter) کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ اِس دین کی تائید سیکولر لوگوں کے ذریعے بھی کرے گا- تائید دین کا یہ کام سب سے زیادہ اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پایا ہے- حدیث میں تائید دین کے جس واقعے کی پیشین گوئی کی گئی ہے، بلاشبہہ اہلِ مغرب سب سے زیادہ اس کے مصداق ہیں-
اہلِ مغرب نے پہلی بار فطرت (nature) میں چھپی ہوئی اُن حقیقتوں کو دریافت کیا جو اعلی معرفت کے حصول کا ذریعہ ہیں- اہلِ مغرب کی سائنسی دریافتوں نے تاریخ میں پہلی بار اِس بات کو ممکن بنایا ہے کہ اسلام کے نظریات کو خالص علم انسانی کی سطح پر ثابت شدہ بنایا جاسکے- یہ اہلِ مغرب تھے جو دنیا میں پہلی بار کامل معنوں میں مذہبی آزادی کا دور لائے- ماڈرن کمیونکیشن غیر مشترک طورپر اہلِ مغرب کا عطیہ ہے، جس نے اسلام کی عالمی اشاعت کو ممکن بنادیا ہے، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

ایک حکیمانہ اصول

سلمان فارسی، اصفہان (ایران) میں پیدا ہوئے، پھر وہ مدینہ آئے- یہاں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا- ان کی وفات مدائن (ایران) میں 35 ہجری (655 عیسوی) میں ہوئی-
ہجرت کے پانچویں سال وہ واقعہ پیش آیا جس کو عام طورپر غزوہ خندق کہاجاتا ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ مکہ کے سرداروں نے مختلف قبائل کے تعاون سے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے- اس کے افراد ;کی تعداد دس ہزار ہے- یہ لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے مکہ سے روانہ ہوچکاہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب معمول مدینہ میں اپنے اصحاب کو جمع کیا اور اُن سے مشورہ کیا کہ اِس طرح کی صورت حال میں ہم کو کیا کرنا چاہیے- یہ بات واضح تھی کہ مسلمان اُس وقت اتنے بڑے لشکر سے جنگی مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے- اِس لیے سوال یہ تھا کہ اِس لشکر سے مقابلے کے لیے جنگ کے سوا دوسری کون سی تدبیر اختیار کی جائے-
اُس وقت سلمان فارسی کھڑے ہوئے- انھوں نے کہا کہ میرا تعلق فارس (ایران) سےہے- میں نے دیکھا ہے کہ فارس کے حکمراں جب دشمن سے ٹکراؤ کرنا نہیں چاہتے تو وہ اپنے اور دشمن کے درمیان ایک خندق کھود دیتے ہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس تجویز کو پسند فرمایا اور مدینے کے تمام قابلِ کار مسلمان خندق کھودنے میں مصروف ہوگئے، یہاں تک کہ 6 دن کی لگاتار محنت کے بعد خندق تیار ہوگئی- مدینہ اُس وقت تین طرف سے پہاڑوں اور کھجور کے گھنے درختوں سے گھرا ہوا تھا - اِس لیے اِس سمت سے حملہ آور فوج مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتی تھی- البتہ مدینہ کا شمال مغربی حصہ خالی تھا- اِس سمت سے کوئی فوج حملہ آور ہوسکتی تھی- مدینے کے اِسی کھلے ہوئے حصے کی طرف خندق کھودی گئی- اِس خندق کی چوڑائی اور گہرائی تقریباً تین تین میٹر تھی- اس کی لمبائی 6 میل (10 کیلومیٹر) تھی-
اہلِ مکہ کی اِس حملہ آور فوج کے سردار ابو سفیان تھے جو بعد کو اسلام میں داخل ہوگئے- دس ہزار کا یہ لشکر جب سفر کرتے ہوئے مدینہ کی سرحد پر پہنچا تو اس وقت تک خندق کھودی جاچکی تھی- اہلِ مکہ کا یہ لشکر اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھا- قدیم زمانے میں بظاہر اُن کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ خندق کو پار کرکے مدینہ کے اندر داخل ہوجائیں- چناں چہ جب وہ مدینہ کی سرحد پر پہنچے اور خندق کو دیکھا تو انھوں نے کہا: واللہ إن ہذہ لمکیدة ما کانت العرب تکیدہا (بخدا، یہ ایک ایسی تدبیر ہے جس تدبیر سے اہلِ عرب با خبر نہ تھے)-
یہ خندق، دوسرے لفظوں میں، اُس وقت ایک حاجز (buffer) کی حیثیت رکھتی تھی- وہ ایک ایسی تدبیر تھی جس نے اہلِ اسلام اور ان کے مخالفوں کے درمیان ایک ناقابلِ عبور آڑ قائم کردی تھی- چناں چہ نتیجہ یہ ہوا کہ مخالفین کا لشکر مدینہ کے باہر تقریباً ایک مہینہ تک پڑاؤ ڈالے رہا- وہ اپنے مقام سے مسلمانوں کو آواز دیتے تھے کہ تم مدینہ سے باہر آؤ، مگر مسلمان باہر نہیں آئے- آخر کار مخالفین کا یہ پورا لشکر مایوس ہو کر واپس چلا گیا-
ایک ابدی اصول
خندق کا یہ واقعہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، وہ زندگی کا ایک ابدی اصول ہے- انفرادی زندگی کا بھی اور اجتماعی زندگی کا بھی- وہ اصول یہ ہے کہ اگر کوئی فرد یا گروہ تمھارا مخالف بن جائے تو اس سے ٹکراؤ نہ کرو، بلکہ ٹکراؤ کے بجائے تدبیر کا راستہ اختیار کرو- وہ تدبیر یہ ہے کہ اپنے اور حریف کے درمیان ایک آڑ (buffer) قائم کردو- اِس طرح پیش آمدہ مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا- جس مسئلے کو تم ٹکرا کر ختم کرنا چاہتے ہو، وہ مسئلہ ٹکراؤ کے بغیر خود حالات کے نتیجے میں ختم ہوجائے گا، جیسا کہ خود غزوۂ خندق کے موقع پر ہوا-
اِس حاجز یا آڑ کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں- قدیم زمانے میں حاجز قائم کرنے کے لیے دیوار بنانا یا خندق کھودنا پڑتاتھا- موجودہ زمانے میں نئے وسائل کی دریافت نے اِس تدبیر کی نئی نئی صورتیں پیدا کی ہیں- آدمی اگر صورتِ حال پر مشتعل ہونے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو آسانی کے ساتھ وہ موقع کے لحاظ سے ایک کامیاب تدبیر دریافت کرسکتاہے-
اِس معاملے کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ 1950کے بعد مصر اور مغربی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھی، یہاں تک کہ اُس وقت کے مصری صدر جمال عبد الناصر کے ذہن میں انتہا پسندانہ خیالات آنے لگے، چناں چہ انھوں نے یہ نا عاقبت اندیشانہ اقدام کیا کہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے مصر میں مقرر کیے ہوئے پیس کیپنگ فورس (peace-keeping forse) کے دستے کو واپس کردیا- پیس کیپنگ فورس کی حیثیت اُ س وقت فریقین کے درمیان بفر (buffer)کی تھی- اس کو واپس بھیجنا بفر کو ختم کرنے کے ہم معنی تھا-
اس کے بعد 29 اکتوبر 1956 کو جمال عبد الناصر نے تالیوں کی گونج کے درمیان اعلان کیا کہ آج ہم نے نہر سوئز (Suez Canal)کو نیشنلائز کرلیا ہے- یہ اعلان بین الاقوامی اصول کے سرتاسر خلاف تھا- فطری طورپر فریقِ ثانی کے درمیان اِس کا سخت ردِّ عمل ہوا- اِس کے بعد حالات بہت خراب ہو گئے، یہاں تک کہ جون 1967 کی 6 روزہ جنگ پیش آئی، جس کے بعد مصر اور فلسطین کا بڑا حصہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا-
واپس اوپر جائیں

اجتہاد کی اہمیت

اجتہاد کا لفظی مطلب ہے— بھر پور کوشش کرنا (بذل الوسع فی طلب الأمر)- شرعی اصطلاح میں، اجتہاد کا مفہوم یہ ہے کہ نئی صورتِ حال میں اسلام کے کسی اصول کے عملی انطباق کو جاننے کے لیے کامل فکری جدوجہد کی جائے- یہ اجتہاد ایک فطری ضرورت ہے- وہ ہر حال میں جاری رہتاہے- خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اجتہاد کا عمل صحابہ کے درمیان جاری تھا اور بعد کو وہ امت کے اندر مسلسل طورپر جاری رہا-
دورِ جدید ہر اعتبار سے ایک بدلا ہوا دور تھا- فطری طور پر اِس دور میں مسلمانوں کے لیے یہ سوال پیدا ہوا کہ وہ نئے حالات میں اسلام کے اصول کو ازسرِ نو منطبق کریں- یہ ایک اجتہادی تقاضا تھا، مگر دورِ جدید کے مسلم اہلِ علم اِس اجتہاد میں مکمل طورپر ناکام رہے- وہ نئے حالات کی نسبت سے، اسلامی اصولوں کا ازسرِ نو انطباق (re-application) تلاش نہ کرسکے-یہی وہ چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کا بحران (crisis) کہاجاتاہے- بحران کیا ہے- بحران دراصل مسئلہ(problem) ہی کا دوسرا نام ہے- مسئلہ زندگی کا لازمی حصہ ہے- جب کسی پیش آمدہ مسئلے کو حل کرلیا جائے تو وہ صرف مسئلہ رہے گا، اور اگر مسئلہ اتنا پیچیدہ ہو کہ وہ بظاہر ایک غیر حل شدہ مسئلہ (unsolved problem) نظر آنے لگے تو اِسی کا دوسرا نام بحران ہے- موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ وہ اِسی قسم کے بحران میں مبتلا ہوگئی ہے-
اسلام کا آغاز 610 عیسوی میں عرب میں ہوا- وہ بہت تیزی سے پھیلا اور صرف نصف صدی کے عرصے میں اس نے ایک عالمی حیثیت حاصل کرلی- پہلے مسلمانوں کی مقامی حکومتیں قائم ہوئیں- عباسی دور میں مسلمان ایک مسلم ایمپائر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے- سیاسی اقتدار کا یہ دور مختلف قسم کے نشیب وفراز کے ساتھ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا-مسلمانوں کے سیاسی عروج کی انتہا اور ان کے سیاسی زوال کا نقطہ آغازاگر متعین کرناہو تو وہ 1799قرار پائے گا- مسلم دنیا میں 1799 میں دو بڑے واقعات پیش آئے- ایک واقعہ بحرِ روم (Mediterranean Sea) میں پیش آیا، اور دوسرا واقعہ میسور (انڈیا) میں- ایک طرف، یہ ہوا کہ یورپی حکومتوں نے 1799 میں ترکی کے طاقت ور بحری بیڑا (naval fleet) پر حملہ کرکے اس کو بحر روم میں تباہ کردیا-یہ واقعہ اتنا بڑا تھاکہ اُس وقت کے انگریز جنرل نے انتہائی خوشی کے عالم میں کہا تھا کہ — آج انڈیا ہمارا ہے(Today India is ours)-
اِس کے بعد رفتہ رفتہ تمام مسلم ملکوں میں مغربی طاقتوں کا دبدبہ قائم ہوگیا- عین اُسی زمانے میں مسلم دنیا میں جوابی تحریکیں شروع ہوئیں- عرب سے عجم تک ہر جگہ مسلم رہنماحرکت میں آگئے- اِن تمام مسلم رہنماؤں کا مشترک نشانہ صرف ایک تھا، اور وہ تھا مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ (past glory) کو واپس لانا- یہ جدوجہد انیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی- اب وہ اکیسویں صدی میں پہنچ چکی ہے، لیکن نتیجہ (result)کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم رہنماؤں کی کوشش نے صرف مسلمانوں کی تباہی میں اضافہ کیا، وہ کسی بھی درجے میں اپنے مطلوب نشانے کو پورا نہ کرسکے-
دورِ جدید میں مسلمانوں کے لیے جو مسئلہ پیداہوا، اس کے مقابلے میں کامیاب منصوبہ بندی کے لیے پہلی ضرورت یہ تھی کہ مسئلے کی نوعیت کو دریافت کیا جائے- مگر اِس دور کے مسلم رہنما اِس پہلو سے مکمل طورپر بے خبر رہے- اپنے روایتی ذہنی کے مطابق، انھوںنے اِس مسئلے کو دشمن کے حملے کے مقابلے میں، دفاع کا مسئلہ سمجھا، حالاں کہ وہ بدلےہوئے حالات میں نئے اجتہادکا مسئلہ تھا- نوعیتِ مسئلہ کی دریافت میں مسلم رہنماؤں کی ناکامی نے اُن کی جوابی کارروائی کو مکمل طورپر ایک غیرمتعلق کارروائی کا درجہ دے دیا- نتیجہ یہ ہوا کہ دو سوسال کی جان ومال کی عظیم قربانی کے باوجود نتیجہ (result) کے اعتبار سے، امتِ مسلمہ کو کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا-
دورِ جدید میں جو اجتہاد درکار تھا، وہ بنیادی طورپر وہی تھا جس کو ’فرقان‘ (8:29) کہاگیا ہے، یعنی ایک معاملے کو دوسرے معاملے سے الگ کرنا- امتِ مسلمہ کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے- یہی وہ کام ہے جس کے بارے میں یہ مطلوب ہے کہ امتِ مسلمہ اس کو ہرحال میں جاری رکھے- اِس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو سیاسی اقتدار کہاجاسکتا ہے- دعوت الی اللہ، امتِ مسلمہ کا مشن ہے، اور سیاسی اقتدار، امتِ مسلمہ کی تاریخ کا ایک حصہ ہے- موجودہ زمانے میں مسلمان جس بحران کا شکار ہوگئے تھے، اس کا واحد حل یہ تھا کہ مشن اور تاریخ کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے، مگر ہمارے رہنما بروقت یہ کام نہ کرسکے- نتیجہ یہ ہوا کہ امت مسلسل طورپر بحران کی حالت میں پڑی رہی-
موجودہ زمانے میں بہت سے نئے امکانات پیدا ہوئے تھے- یہ امکانات یا مواقع اسلام کے مشن کے اعتبار سےبے حد مفید تھے- مگر مسلم رہنماؤں پر سیاسی ذہن کا اتنا غلبہ تھاکہ وہ اِن غیر سیاسی مواقع کو دیکھ \نہ سکے- وہ دوسری قوموں سے بے فائدہ سیاسی لڑائی لڑتے رہے اور جدید مواقع کو دعوتی مشن کے لیے استعمال کرنے میں ناکام رہے-
اِس معاملے کی ایک متوازی مثال یہ ہے کہ عین اسی زمانے میں مسیحی چرچ بھی عین اِسی قسم کے بحران میں مبتلا ہوا- مسیحی چرچ جس کا مرکز روم تھا، وہ قدیم زمانے میں تقریباً پورے یورپ میں ایک بے تاج بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا- اُس زمانے میںپوپ (pope)یورپ کا پولٹکل ماسٹر بنا ہوا تھا-
اس زمانے میں یورپ کے سائنس دانوں نے طبیعی دنیا میں نئی حقیقتیں دریافت کیں- یہ دریافتیں مسیحی طرز کے روایتی عقائد سے ٹکراتی تھیں- چناں چہ سائنس دانوں اور مسیحی چرچ کے درمیان شدید ٹکراؤ شروع ہوگیا- اِس تصادم کی تفصیل اِس کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
History of the Conflict Between Religion and Science by William Draper
اِس مسئلے میں مسیحی چرچ نے حقیقت پسندانہ طریقہ اختیار کیا- وہ چرچ اور اسٹیٹ کی عملی علاحدگی پر راضی ہوگئے- مگر یہ علاحدگی سادہ طور پر مذہب اور سیاست کی علاحدگی کے ہم معنی نہ تھی، بلکہ وہ سیاسی محدودیت کے ہم معنی تھی- دوسرے لفظوں میں یہ کہ پوپ مسیحی ایمپائر کا رقبہ گھٹا کر اس پر راضی ہوگیا کہ اس کا دائرہ اختیار روم کے ایک چھوٹے رقبے تک محدود رہے، جس کو ویٹکن (Vatican) کہاجاتا ہے- ویٹکن پورے معنوں میں ایک خود مختار ریاست ہے- اس کا اپنا آزادانہ نظام ہے- ہر ملک میں اس کے سفارت خانے قائم ہیں-
ویٹکن کی صورت میں ایک محدود مسیحی ریاست کا یہ قیام 1929 میں پیش آیا- یہ معاملہ مسیحی پوپ اور حکومتِ اٹلی کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعے انجام پایا- اِس معاملے کو لیٹران معاملہ (Lateran Treaty) کہا جاتا ہے- اِس معاہدے پر حکومت اٹلی کی طرف سے اُس وقت کے پریمیر (premier)مسولینی (Benito Mussolini)نے دستخط کئے تھے، اور مسیحی چرچ کی طرف سے کاردینال گاسپیری (Cardinal Gasparri) نے اپنے دستخط کئے تھے-اِس معاہدے کے ذریعے مسیحی چرچ نے اپنی حیثیت کو بدستور برقرار رکھا- یہ بلاشبہہ ایک دانش مندانہ تدبیر تھی جو اُسی قسم کے ایک تخلیقی فکر پر مبنی تھی جس کو اجتہاد کہاجاتاہے- بدقسمتی سے، موجودہ زمانے کے مسلم رہنما اِس قسم کا اجتہاد نہ کرسکے- چناں چہ موجودہ زمانے میں انھوں نے صرف ناکامی کی تاریخ بنائی، وہ کامیابی کی تاریخ نہ بناسکے-
موجودہ زمانے میں اِسی قسم کے ’’فرقان‘‘ کا ایک واقعہ سیکولر اعتبار سے پیش آیا- اِس واقعے کا تعلق چین (China) سےہے- چین میں 1919 سے کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہے- کمیونسٹ پارٹی نے اپنے نظریے کے مطابق، وہاں اسٹیٹ اکانمی (state economy) کا نظام قائم کررکھا تھا- اِس نظام کے تحت چین کی اقتصادی ترقی رک گئی تھی-
چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ایک رکن ڈینگ زیوپنگ (Deng Xiaoping) تھا- پہلے اس نے روس میں تعلیم پائی- اس کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے فرانس گیا- فرانس کے قیام کے دوران اُس نے دیکھا کہ فرانس میں اقتصادی ترقی ہورہی ہے، لیکن چین اُس قسم کی ترقی سے محروم ہے- فرانس سے واپسی کے بعد ڈینگ زیوپنگ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا چیر مین بن گیا- اس کے بعد اس نے ایک انقلابی کام کیا- اس نے چین میں سیاست اور اقتصادیات کے درمیان علاحدگی کا اصول رائج کیا- اس نے یہ کیا کہ سیاسی اقتدار پر کمیونسٹ پارٹی کا قبضہ باقی رکھتے ہوئے اقتصادیات کو مکمل طور پر آزاد کردیا- اِس دانش مندانہ تدبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین میں اقتصادی ترقی کا دروازہ کھل گیا- آج یہ حال ہے کہ امریکا کے بعد چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی اکانمی سمجھا جاتاہے-(2012)
واپس اوپر جائیں

منصوبۂ خداوندی

بارش کے موسم میں بارش ہو تو یہ اِس بات کا ایک خاموش اعلان ہوتاہے کہ کسان اٹھیں اور اپنے کھیتوںمیں کام کرکے اُن میں بیچ ڈالیں، تاکہ کھیتوں سے سرسبز وشاداب فصل اگے-لیکن کسان اگر ایسا کرے کہ وہ اپنے گھر سے نکل کر پہاڑ کی طرف جائے اور وہاں وہ کوہ پیمائی (mountaineering) کرنے لگے- کوئی انسان اگر ایسا کرے تو کوششوں اور قربانیوں کے باوجود وہ کوئی نتیجہ حاصل نہ کرسکے گا، کیوں کہ وہ خالق کی مرضی کے خلاف چل رہا ہے-
یہی معاملہ دین کا بھی ہے- دین کے معاملہ میں بھی یہی ہوتاہے کہ اللہ کی طرف سے امکانات کھولے جاتے ہیں- اہلِ ایمان کا کام ہوتاہے کہ وہ اِن امکانات کو پہچانیں اور اُن کو بھر پور طورپر استعمال(avail) کریں- اگر اہلِ ایمان ایسا کریں کہ اللہ نے امکانات تو کہیں اور کھولے ہوں، لیکن اہلِ ایمان کسی دوسرے محاذپر کوشش شروع کردیں- اہلِ ایمان اگر ایسی غلطی کریں تو خواہ وہ کتنی ہی قربانیاں دیں، مگر اس کا کوئی نتیجہ ہر گز برآمد نہیں ہوگا- ایسے لوگ قرآن کے الفاظ میں، حبطت أعمالہم فی الدنیا والآخرة کا مصداق قرار پائیں گے-
اِس دنیا میں کوئی بھی عمل صرف انسان کی کوشش سے کامیاب نہیں ہوسکتا- اِس دنیا میں کسی عمل کی کامیابی کی لازمی شرط یہ ہے کہ اس کو خداکی تائیدحاصل ہو- یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی عقل کا امتحان ہو رہا ہے- خدا کی طرف سے جب بھی کوئی امکان کھولا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ ایک خاموش امکان کی صورت میں ہوتا ہے- اس کے ساتھ کبھی آسمان سے آواز نہیں آتی، حتی کہ جب اِس دنیامیں خدا کا کوئی پیغمبر آتا ہے تو بلاشبہہ وہ خدا کا ایک خصوصی منصوبہ ہوتاہے، لیکن اُس وقت بھی آسمان سے یہ آواز نہیں آتی کہ — اے لوگو، یہ خدا کا رسول ہے- اس کو سنو اور اس کا اتباع کرو- یہ ایک دریافت کا معاملہ ہے جو انسان کو اپنی عقل کے استعمال کے ذریعے خود کرنا پڑتاہے-
موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اِس معاملے میں مکمل طورپر ناکام رہے- موجودہ زمانے میں خدا نے انتہائی اعلی قسم کے دینی مواقع کھول دئے ہیں، لیکن مسلم رہنما، خواہ وہ عرب رہنما ہوں یا غیر عرب رہنما، سب کے سب اِس معاملے میں بے خبر رہے- وہ خدا کی اسکیم کے خلاف کسی اور میدان میں زور آزمائی کرتے رہے- نتیجہ یہ ہوا کہ 200 سال سے بھی زیادہ مدت تک جان ومال کی قربانیاں دینے کے باوجود اُنھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا-
خدا کا مقصود کیا ہے
خدا کے نزدیک کرنےکا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انسان کو خدا کے منصوبۂ تخلیق سے باخبر کیا جائے-اِسی مقصد کے لیے خدا نے اپنے تمام رسول بھیجے، اور اِسی مقصد کے لیے آخر میں قرآن بھیجا اور اس کے متن (text) کو مکمل طور پر محفوظ کردیا- قرآن اِس تخلیقی منصوبے کا ایک مستند بیان (authentic statement)ہے- اب ضرورت ہے کہ یہ خدائی بیان ہر دور کے انسانوں تک پہنچتا رہے- اِسی عمل کا نام دعوت الی اللہ ہے-
مقامی دعوت سے عالمی دعوت تک
پچھلے زمانوں میں جن داعیوں نے دعوت الی اللہ کا کام کیا، ان کا کام مقامی دائرے تک محدود رہا- دعوت کا کام ہمیشہ وسائل کی مدد سے ہوتا ہے اور پچھلے زمانے میں عالمی وسائل نہ ہونے کی بناپر زیادہ وسیع دائرہ میں کام نہیں کیا جاسکتا تھا-انسانی آبادی پورے کرہ ارض پر پھیلی ہوئی تھی، لیکن پچھلے زمانے کے داعیوں کا دعوتی کام وسائل کے فقدان کی وجہ سے عملاً مقامی دائرے تک محدود رہا-
تائید کا انتظام
اللہ تعالی نے عالمِ فطرت (nature)کے اندر بالقوہ (potential) طور پر ایسے امکانات رکھے تھے جن کو دریافت کرکے اہلِ ایمان عالمی دائرے میں اپنے دعوتی عمل کو انجام دے سکیں- یہ امکان بنیادی طورپر وہ تھا جس کو کمیونکیشن (communication) کہاجاتاہے- وہ تمام چیزیں جن کو موجودہ زمانے میں ماڈرن کمیونکیشن (modern communication) کہا جاتا ہے، وہ فطرت کے امکانات کو دریافت کرکے ہی وجود میں آئے ہیں— پرنٹنگ پریس، تیز رفتار سواریاں اور ملٹی میڈیا، سب کا سب، عالم فطرت کے امکانات کو دریافت کرکے تیار کیاگیا ہے- یہ تمام مواصلاتی ذرائع اِسی لیے وجود میں آئے ہیں کہ اہلِ ایمان اُن کو بھر پور طورپر استعمال کریں اور اللہ کے پیغام کو پرامن طورپر تمام انسانوں تک پہنچا دیں-
موجودہ مسلمانوں کی ناکامی
اسلام کے ظہور کے بعد اللہ تعالی نے مسلمانوں کو سیاسی اقتدار عطا کیا- یہ سیاسی اقتدار ساتویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارھویں صدی تک کسی نہ کسی طورپر جاری رہا- اِس اقتدار کا مقصد حکومت یا عیش وعشرت نہیں تھا- اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمان بے خوف ہو کر فطرت (nature) کی تحقیق کریں اور فطرت میں چھپے ہوئے امکانات کو دریافت کرکے وہ مواصلاتی وسائل تیار کریں جن کے ذریعے سے دعوت الی اللہ کے کام کو عالمی طورپر انجام دیا جاسکے-
اِس معاملے میں اللہ تعالی نے ایسے اشارے کردئے تھے جو مسلمانوں کے لیے اپنے رول کو سمجھنے کے لیے کافی ہوسکتے تھے، مگر مسلمان اشارے کی زبان کو سمجھ نہ سکے- مثلاً قرآن میں کثرت سے ایسی آیتیں ہیں جن میں یہ بتایا گیاہے کہ زمین اور آسمان کی تمام چیزیں تمھارے لیے مسخر کردی گئی ہیں - اِس کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کی تخلیق اِس طرح ہوئی ہے کہ انسان اُس میں غوروفکر کرکے اس کے اندر چھپے ہوئے موافق امکانات کو دریافت کرے اور اُن کو اپنے حق میں استعمال کرے- وہ چیز جس کو آج مواصلاتی ٹکنالوجی کہاجاتا ہے، وہ سب اِس کے اندر شامل ہے-
دوسرا اہم اشارہ وہ ہے جو اسراء کے واقعے کی صورت میں پیش آیا- مکی دور کے آخر میں یہ واقعہ ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی انتظام کے تحت ایک رات کے اندر مسجد حرام (مکہ) سے مسجد اقصی (یروشلم) لے جایا گیا اور پھر واپس اپنے مقام پر پہنچا دیاگیا- اِس واقعے کا ذکر قرآن کی سورہ الاسراء (17) میں کیا گیاہے- واضح ہو کہ مکہ اور یروشلم کے درمیان تقریباً 1250 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، یعنی رٹرن جرنی (return journey) کے اعتبار سے 2500کلومیٹر کا فاصلہ-
قرآن کی جس سورہ میں اِس واقعے کا ذکر ہے، اس میں مقصدِ سفر کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: لنریہ من آیاتنا (17:1) یعنی تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں:
So that We might show him some of Our signs.
اِس آیت میں جس نشانی کا ذکر ہے، اس سے مراد خود سفر ہے، نہ کہ یروشلم میں واقع کوئی چیز- اللہ تعالی نے اپنے آخری پیغمبر کے ذریعے جو کتاب ہدایت (قرآن) بھیجی، وہ اِس لیے تھی تاکہ وہ کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچے- یہ عالمی پیغام رسانی کیوں کر ممکن ہوگی، اس کے بارے میں اشاراتی طورپر بتایا گیا کہ عالمِ فطرت (nature) میں اللہ نے بالقوہ طورپر تیز رفتار ترسیل (rapid communication) کے امکانات رکھ دئے ہیں جن کو دریافت کرکے واقعہ بناؤ اور اُن کو تمام اہلِ عالم تک پیغام خداوندی (قرآن) کو پہنچانے کے لیے استعمال کرو-
استبدالِ قوم کا اصول
امتِ مسلمہ کو اللہ تعالی نے لمبی مدت تک یہ موقع دیاکہ وہ فطرت کے اِس امکان کو واقعہ بنائے اور قرآن کے سلسلے میں اپنی عالمی ذمے داری کو پورا کرے، لیکن امتِ مسلمہ کے رہنما اور قائدین اِس راز کو نہ سمجھ سکے- وہ دوسرے میدانوں میں سرگرم رہے، لیکن دعوت الی اللہ کے عالمی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جو عمل مطلوب تھا، اُس عمل کو انجام دینے میں وہ پوری طرح ناکام رہے-
اِس کے بعد اللہ تعالی کی وہ سنت ظاہر ہوئی جس کو قرآن میں استبدالِ قوم (47:38) کہا گیاہے، یعنی ایک خدائی مطلوب کو انجام دینے میں اگر ایک گروہ ناکام ہوجائے تو اس کی جگہ دوسرے گروہ کو لے آنا— موجودہ زمانے میں جن مغربی قوموں نے دورِ مواصلات (age of communication) پیدا کیا ہے، وہ اِسی استبدالِ قوم کی توسیعی صورت ہے-
تائید بذریعہ سیکولر اقوام
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی پیشین گوئیاں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں- اُن میں سے ایک پیشین گوئی کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062) یعنی اللہ یقیناً اِس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا-
اِس حدیث میں ’فاجر‘ سے مراد سیکولر ہے- اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب امتِ مسلمہ دعوتِ دین کے عالمی ذرائع کو دریافت کرنے میں ناکام ہوجائے گی تو اُس وقت اللہ تعالیٰ سیکولر لوگوں کو کھڑا کرے گاجو اِس کام کو انجام دیں، یعنی جب دینی محرک (religious incentive)اِس کام کو انجام دینے میں ناکام ہوجائے گا تو اللہ کچھ لوگو ں کو دنیوی محرک (secular incentive) کے ذریعہ اٹھائے گا- وہ فطرت میں تحقیق وجستجو کے ذریعے فطرت میں چھپے ہوئے امکانات کو واقعہ بنائیںگے- یہ اُن لوگوں کی طرف سے امتِ مسلمہ کے لیے ایک سپورٹنگ رول ہوگا-
موجودہ زمانے میں، خاص طورپر انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں، اہلِ مغرب نے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں جو دریافتیں کی ہیں، وہ سب اِسی نوعیت کی ہیں- اِن دریافتوں کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنے دعوتی مشن کو انجام دینے کے لیے ایک خارجی سپورٹ کا انتظام کیا ہے-
ملی رہنماؤں کی ناکامی
اہلِ مغرب نے تائید کا جو کام انجام دیا، اُس کے پیچھے کوئی دینی جذبہ نہیں تھا- یہ کام انھوں نے اپنے مادی اور قومی جذبے کے تحت کیا- یہ بالکل فطری تھا- اِس قسم کے ذاتی محرک کے بغیر وہ خارجی سپورٹ فراہم کرنے کا کام انجام نہیں دے سکتے تھے- مزید یہ کہ جب انھوں نے اتنا بڑا تاریخی کام انجام دیا تو یہ بھی فطری تھا کہ اُن کو عالمی دبدبہ حاصل ہوجائے- کسی بڑے رول کے ساتھ دبدبہ اِس طرح جڑا ہوا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا- اِس کے ذریعے اُن کو نہ صرف مادی فائدے حاصل ہوئے، بلکہ اُن کو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر سیاسی غلبہ بھی حاصل ہوگیا- یہ اُن کے سپورٹنگ رول کی قیمت تھی- اِس قیمت کے بغیر وہ اپنا سپورٹنگ رول انجام نہیں دے سکتے تھے-
موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے اِس راز کو نہیں سمجھا- وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنے میں عاجز رہے- وہ اِس حکمت (wisdom) کا ثبوت نہ دے سکے جس کو اِن الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ — متعلق حصے کو لینا اور غیر تعلق حصے کو چھوڑدینا-
مغربی قومیں جب جدید طاقتوں کے ساتھ ایشیا اور افریقہ میں داخل ہوئیں تو اِس داخلے کے دو پہلو تھے — ایک، یہ کہ اِن مغربی قوموں نے فطری طورپر اُس وقت کی مسلم دنیا میں سیاسی غلبہ حاصل کرلیا- اِس واقعے کا دوسرا پہلو یہ تھاکہ یہ قومیں اُس عظیم نعمت کو لے کر آئی تھیں جو خود اسلام کا عین مطلوب تھا، جس کا ہزار سال سے تاریخ کو انتظار تھا، یعنی جدید مواصلات (modern communication)-مگر موجودہ زمانے کے مسلم رہنمابر وقت اُس دانش مندی کا ثبوت نہ دے سکے جو اُس وقت اُن سے مطلوب تھی، یعنی سیاسی مسئلے کو عملی طورپر نظر انداز کرنا اور کمیونکیشن کے جدید ذرائع کو بھر پور طور پر دعوت کے لیے استعمال کرنا- موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل اِسی دانش مندی کے فقدان کا نتیجہ ہیں-
ایک عرب شیخ عبد الرحمن الحبنکہ نے اپنی ایک کتاب میں بتایا ہے کہ اِس وقت امتِ مسلمہ کے تمام مسائل کا اصل سبب تین اژدہے ہیں- مصنف کے نزدیک، یہ تین اژدہے یا یہ تین بڑے سانپ یہ ہیں— استعمار (colonialism)، استشراق (orientalism)، مسیحی مبلغین (Christian missionaries)- یہ کسی ایک مصنف کی بات نہیں، یہی موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنماؤں کی سوچ ہے- اسی غلط سوچ کا یہ نتیجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان پچھلے 200 سال اِن مفروضہ ’’افاعی‘‘ سے لڑنے اور ان کو ختم کرنے میں مشغول ہیں، لیکن عملی نتیجہ مکمل طورپر برعکس صورت میں ظاہر ہوا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں ’’افاعی‘‘ اپنی حقیقت کے اعتبار سے افاعی نہ تھے، بلکہ مذکورہ حدیثِ رسول کے مطابق، وہ مویدینِ اسلام (supporters of Islam) کی حیثیت رکھتے تھے- یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوششوں سے موجودہ زمانے میں وہ چیز وجود میں آئی جس کو جدید مواصلات کہا جاتاہے- جدیدمواصلات کو انھوں نے اپنے مقصد کے لیے ڈیولپ کیا تھا، لیکن جدید مواصلات، عالمی مواصلات ہیں، اُن پر کسی کی اجارہ داری نہیں- اگر مسلم علما ا ور رہنما صرف یہ کرتے کہ وہ اِن مفروضہ افاعی کے خلاف ٹکراؤ کا محاذ نہ کھولتے اور پُرامن طریقِ کار اختیار کرتے تو بلاشبہہ وہ جدید مواصلات کو کامل طورپر اپنے حق میں استعمال کرسکتے تھے اور اسلام کی عالمی دعوت کے اُس منصوبے کو پورا کرسکتے تھے، جس کا تاریخ کو ہزارسال سے انتظار ہے-
ایک تاریخی حوالہ
پروفیسر ٹی ڈبلوآرنلڈ (Thomas Walker Arnold) ایک ممتاز برٹش مستشرق (orientalist) تھے- وہ 1864 میں لندن میں پیداہوئے اور 1930 میں اُن کی وفات ہوئی- انھوںنے اپنے وسیع مطالعہ کی بنیاد پر اسلامی دعوت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی تھی- یہ کتاب 508 صفحات پر مشتمل ہے- وہ پہلی بار 1896 میں شائع ہوئی- اِس کتاب کا نام یہ ہے:
The Preaching of Islam
اِس کتاب میں بتایاگیاہے کہ ساتویں صدی عیسوی سے لے کر بعد کے ہزار سال تک مختلف ملکوں میں اسلام کی دعوت کس طرح پھیلی- مثال کے طورپر افریقہ کے بارے میں انھوں نے ایک رپورٹ کے حوالے سے اپنی اِس کتاب میں لکھاہے کہ — اِس وقت جس رفتار سے افریقہ میں اسلام پھیل رہا ہے، اس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نائجر دریا کے دونوں کناروں پر 1910 تک مشکل ہی سے کوئی گاؤں بچے گا جو اسلام کے حلقے میں نہ آگیا ہو:
A Christian missionary reports: “When I came out in 1898, there were few Muhammadans to be seen below Iddah. Now they are everywhere, excepting below Abo, and at the present rate of progress there will scarcely be a heathen village on the river (Niger) banks by 1910.” (p. 329)
پروفیسر آرنلڈ نے یہ بات مغربی افریقہ کے نائجر دریا کے دونوں طرف واقع بستیوں کے بارے میں لکھی ہے- واضح ہو کہ نائجر دریاتقریباً چار ہزار دو سو کلو میٹر (4, 180) لمبا ہے- وہ افریقہ کے پانچ ملکوں کے درمیان بہتا ہے، یعنی — گائنا (Guinea)، مالی (Mali)، نائجر(Niger) بینن (Benin)، نائجیریا (Nigeria)- اِسی مثال پر دوسرے ملکوں کے بارے میں قیاس کیا جاسکتاہے-
اسلام کی دعوتی توسیع کا یہ عمل انیسویں صدی میں عین اُس وقت رک گیا، جب کہ پرنٹنگ پریس اور جدید مواصلات کی آمد نے اسلامی دعوت کی عالمی توسیع کا امکان بڑے پیمانے پر کھول دیا تھا— اِس کا سبب یہ تھا کہ انیسویں صدی میں جب یہ نئے امکانات کھلےتو عین اُسی زمانے میں ایک ’’مسئلہ‘‘ بھی پیدا ہوگیا، وہ یہ کہ مغربی تہذیب اور مغربی استعمار (Western Colonialism) نے نئے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے مسلم ملکوں میں اپنا دبدبہ قائم کرلیا-
اُس وقت یہ ہوا کہ تمام دنیا کے مسلمان منفی رد عمل (negative reaction)میں مبتلا ہوگئے- انھوں نے مغربی تہذیب اور مغربی استعمار کے خلاف لڑائی کا محاذ کھول دیا- کچھ لوگ تقریر اور تحریر کے ذریعے اِس قومی مہم میں شریک ہوگئے، اور کچھ لوگوں نے بطور خود اس کو جہاد قرار دے کر اس کے خلاف مسلح جنگ چھیڑدی-
یہ صورتِ حال عملاً آج بھی باقی ہے- دعوت کے مواقع برباد ہورہے ہیں اور مسلمان انتہائی ناکام طورپر قومی اور سیاسی لڑائی میں مشغول ہیں- اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے جب کہ ساری دنیا کے مسلمان ان تباہ کن سرگرمیوں کو مکمل طورپر ختم کردیں اور پوری یکسوئی کے ساتھ دعوت الی اللہ کے کام میں مشغول ہوجائیں- (2012)
واپس اوپر جائیں

اسلام کا انقلابی رول

مورخ ابنِ کثیر نے اپنی مشہور کتاب البدایة والنہایة میں ابنِ اسحاق کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے- اِس روایت میں ایک واقعے کا ذکر ہے جو نبوت کے دسویں سال مکہ میں پیش آیا - وہ واقعہ یہ ہے کہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اپنی آخر عمر میں جب بیمارہوئے اور اُن کا مرض بڑھ گیا تو قبیلہ قریش کے لوگوں نے آپس میں کہا کہ حمزہ اور عمر نے اسلام قبول کرلیا اور محمد کا امر (دین) پورے قبیلہ قریش میں پھیل گیا- آؤ ہم ابو طالب کے پاس چلیں- وہ ہم سے عہد لے لیں اپنے بھتیجے کے بارے میں اور بھتیجے سے عہد لے لیں ہمارے بارے میں- کیوں کہ خدا کی قسم، ہم اِس سے مامون نہیں ہیں کہ وہ ہمارے امر(دین) پر غالب آجائے- چناں چہ قریش کے سردار ابو طالب کے پاس آئے اور اُن سے بات کی- یہ تھے— عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام، امیہ بن خلف، ابو سفیان بن حرب، وغیرہ- انھوں نے کہا کہ اے ابو طالب، آپ کا ہمارے نزدیک جو درجہ ہے، وہ آپ کو معلوم ہے- آپ پر جو وقت آچکا ہے، وہ آپ خود دیکھ رہے ہیں- آپ کے بارے میں ہمیں تشویش ہے-ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو معاملہ ہے، اُس سے آپ باخبر ہیں- آپ ان کو بلائیے- اُن سے ہمارے بارے میں عہد لے لیجئے اور ہم سے ان کے بارے میں عہد لے لیجئے، تاکہ وہ ہم سے باز رہیں اور ہم اُن سے باز رہیں، تاکہ وہ ہمارے دین سے تعرض نہ کریں اور ہم ان کے دین سے تعرض نہ کریں- پھر ابو طالب نے رسول اللہ کو بلایا اور آپ ان کے پاس آئے- ابو طالب نے آپ سے کہا کہ اے میرے بھتیجے، یہ تمھاری قوم کے بڑے لوگ ہیں- یہ تمھارے پاس جمع ہوئے ہیں، تاکہ تمھارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہوجائے- اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’یاعمّ، کلمة واحدة تعطونہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم (البدایةوالنہایة 3/123) یعنی اے میرے چچا، میں اُن سے صرف ایک کلمہ چاہتا ہوں جس کو اگر وہ دے دیںتو وہ عرب کے مالک بن جائیں گے اور عجم تمھارے تابع ہو جائیں گے-
اس کے بعد آپ نے بتایاکہ وہ کلمہ یہ ہے کہ تم کہو کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور تم چھوڑ دو اُن چیزوں کو جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتےہو(تقولون لا إلہ إلا اللہ وتخلعون ما تعبدون من دونہ) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قول میں ایک تاریخی بات کو مخاطبین کی مانوس زبان میں کہاگیا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشن کوئی محدود مشن نہیں ہے- یہ خالق کی ایک عظیم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے- یہ ایک د ور کو ختم کرکے دوسرے دور کو لانے کا منصوبہ ہے- اگر تم اُس کا ساتھ دو تو یہ تمھارے لیے سرفرازی کا باعث ہوگا- اِس مشن کا ساتھ دے کر تم ایک نئے دورِ تاریخ کے نقیب (harbinger) بن سکتے ہو-
توحید کے مشن کے ذریعے بعد کی تاریخ میں یہ انقلابی دور آیا- اُس نے انسانی تاریخ کے رخ کو بدل دیا- مگر عجیب بات ہے کہ مسلم علما اور مورخین نے اِس واقعے کو صرف امتِ مسلمہ کے ایک سیاسی فخر (political glory) کے طور پر لیا- وہ اِس انقلاب کے وسیع تر پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر رہے- لیکن سیکولر مورخین نے اِس پہلو کو دریافت کیا اور کھلے طورپر اس کا اعتراف کیا- انھیں میں سے ایک فرانس کا مورخ ہنری پرین (وفات: 1935) ہے- ہنری پرین نے اِس حقیقت کا اظہار اِن الفاظ میں کیا ہے— اسلام نے زمین کے نقشے کو بدل دیا- تاریخ کا روایتی ڈھانچہ توڑ دیا گیا:
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown.
اِس تاریخی واقعے کی اصل اہمیت اِس اعتبار سے نہیں تھی کہ اس کے نتیجے میں ایک مسلم ایمپائر وجود میں آئے- اِس واقعے کی اصل اہمیت یہ تھی کہ اُس نے انسانی تاریخ کے سفر کو صحیح رخ کی طرف موڑ دیا، اس نے انسانی تاریخ کو خدائی منصوبے کے ساتھ ہم آہنگ کردیا-
اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو زمین پر بسایا اور اس کو ہر طرح کی آزادی دی- اِس تخلیق کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انسان موجودہ دنیا میں آئڈیل حکومت بنائے یا آئڈیل سماج قائم کرے- انسان کی آزادی کی بنا پر دنیا میں وہی ہونا تھا جس کو فرشتوں نے فساد (2:30) سے تعبیر کیا تھا- تخلیق کے اعتبار سے، فساد کا لفظ کوئی منفی لفظ نہیں- اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں مختلف قسم کے ناموافق حالات پیدا ہوں، تاکہ انسان کے لیے مسلسل طورپر چیلنج کی صورت حال باقی رہے- چیلنج کی یہ صورتِ حال عین مقصودِ تخلیق ہے، کیوں کہ اِسی صورتِ حال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ افراد کے لیےامتحان کا ماحول جاری رہے اور مطلوب افرادکا انتخاب ممکن ہوسکے-
قرآن کی سورہ الانعام میں انسان کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے: وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی ى(6:94)-قرآن کے اِن الفاظ کا لفظی ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی نے اِس طرح کیا ہے— اور آئے تم ہمارے پاس ایک ایک- شاہ عبد القادر دہلوی کا یہ ترجمہ قرآن کی مذکورہ آیت کا نہایت صحیح ترجمہ ہے- ’فرادى‘ کا لفظ ’فرد‘ کی جمع ہے، یعنی افراد- قرآن کی یہ آیت خدا کے تخلیقی منصوبے کے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے- اللہ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کو زمین پر بسایا- اِس آبادکاری کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انسان دنیا میں بہتر سماجی نظام بنائے- بہتر سماجی نظام کی جگہ صرف جنت ہے-
خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا اقامتِ نظام کے لیے نہیں ہے، بلکہ انتخابِ افراد کے لیے ہے- حقیقت یہ ہے کہ انسان کی آزادی کی بنا پر اِس دنیا میں کسی معیاری نظام کا بننا ممکن ہی نہیں- پوری تاریخ میں تقریباً تمام ذہن، مسلم اور غیر مسلم دونوں، ایک ہی مشترک غلطی میں مبتلا رہے ہیں- انھوں نے بہتر سماجی نظام قائم کرنے کو اپنی جدوجہد کا نشانہ بنایا- مگر بلا استثنا سب کے سب اِس مقصد میں ناکام رہے- اس کا سبب یہ تھا کہ اِس قسم کا نشانہ عملی طورپر ممکن ہی نہ تھا، کیوں کہ وہ منصوبہ خداوندی کے خلاف تھا-
خالق نے اپنے منصوبے کے مطابق، دنیا کو اِس طرح بنایا ہے کہ وہ ہمیشہ ’دار الکبد‘ بنی رہے- اِس طرح یہ ممکن ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر قسم کے حالات پیدا ہوں- لوگوں کو بار بار نقصان (2:155) کا تجربہ ہو- طرح طرح کے حادثات پیش آئیں- انسان اور شیطان کی طرف سے آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر لوگوں کے درمیان کشمکش جاری رہے- یہ ناموافق حالات عین مطلوب ہیں- کیوں کہ اِسی صورتِ حال کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہر انسان کے بارے میں یہ دیکھا جائے کہ مختلف حالات کے درمیان اس نے کیسا رسپانس دیا- اُس نے حالات کو اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے استعمال کیا یا منفی رد عمل میں اپنا وقت ضائع کردیا-
امتحانی صورتِ حال کے اِس نتیجے کا تعلق افراد سے ہے- ہر فرد الگ الگ حالتِ امتحان میں ہے- ہر فرد الگ الگ اپنا ریکارڈ تیار کررہا ہے- ہر فرد الگ الگ یہ بتا رہا ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہے یا نہیں-
اسلامی انقلاب کا مقصد
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے جو انقلاب آیا اور آخر کار اس کے نتیجے میں دنیا کا نقشہ بدل گیا، وہ اِسی لیے تھا کہ مذکورہ قسم کی حالت دنیا میں غیر منقطع طورپر جاری رہے- اسلامی انقلاب کا مقصد نہ کوئی ایمپائر قائم کرنا تھا اور نہ کوئی بہتر سیاسی یا سماجی نظام- اِس انقلاب کا واحد مقصد یہ تھا کہ فرد کے لیے اپنی شخصیت کی تعمیر کے مواقع لامحدود طور پر کھل جائیں- جو فرد یہ چاہے کہ اس کو حقیقتِ اعلی کو دریافت کرنا ہے، اُس کو اپنی شخصیت کو جنتی شخصیت کے طورپر ڈیولپ کرنا ہے، اِسی کے ساتھ اُس کو دعوت الی الخیر (3:104) کے مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنانا ہے، جو فرد یا افراد ایسا چاہیں، اُن کے لیے ہر قسم کے مواقع پوری طرح کھلے رہیں-
اسلامی انقلاب کا مقصد اصلاً یہی تھا- اسلامی انقلاب کا مقصد یہ تھا کہ زمین پر عالمی مواقع کی ایک دنیا (world of universal opportunities) وجود میں آئے- اِس قسم کی ایک دنیا صرف لمبے عمل کے ذریعے بن سکتی تھی- چناں چہ ایسا ہی ہوا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد تاریخ میں جو پراسس جاری ہوا تھا، وہ تقریباً ہزار سال تک اپنا کام کرتا رہا، یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا-
عجیب بات ہے کہ اسلامی انقلاب کی اِس نوعیت کو نہ مسلم مفکرین نے سمجھا اور نہ غیر مسلم مفکرین نے- دونوں کے لیے اس کا مشترک سبب یہ تھا کہ وہ تاریخ کا مطالعہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کی روشنی میں نہ کرسکے- وہ خود اپنے خود ساختہ ذہن کے تحت تاریخ کا مطالعہ کرتے رہے- اِس بنا پر دونوں گروہوں کا حال یہ ہوا کہ وہ اُس خدائی حکمت (divine wisdom) سے بے خبر رہے جو انسانی تاریخ کے درمیان مسلسل طورپر اور موثر طورپر جاری رہی-
دورِ آزادی
اسلام کا ظہور تاریخ میں ایک انقلاب کا ظہور تھا- رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں کے ذریعے تاریخ انسانی میں پہلی بار آزادی کا دور آیا- اِس سے پہلے ہزاروں سال سے دنیا میں شخصی سلطنت کا مستبدانہ نظام (despotism) قائم تھا- اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہوچکی تھیں کہ بظاہر اُن کو ختم کرنا ناممکن ہوگیا تھا- رسول اور اصحاب رسول کی قربانیوں سے تاریخ میں ایک ایسا طاقت ور پراسس جاری ہوا جس نے شخصی مطلق العنانی کے نظامِ حکومت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا-قرآن میں اِس انقلابی واقعے کی طرف اِن الفاظ میںاشارہ کیا گیا ہے: وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا(24:55) یعنی ایسا لازماً ہونا ہے کہ دنیا سے دورِ خوف کا خاتمہ ہو اور دورِ امن ابدی طورپر دنیا میں آجائے-
حضرت عمر فاروق نے ایک عظیم سلطنت کے حکمراں کی حیثیت سے اپنے عہد خلافت میں اِسی حقیقت کا اظہار کیا تھا، جب کہ انھوں نے ایک واقعے کے بعد مصر کے مسلم گورنر کو خطاب کرتےہوئے کہا: یا عمرو، متى استعبدتم الناس وقد ولدتہم أمہاتہم أحرارا(سیرة عمر بن الخطاب، علی محمد الصلاّبی: 1/306) یعنی اے عمرو، تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا، جب کہ ان کی ماؤں نے اُن کو آزاد پیدا کیا تھا-
یہ انقلابی عمل تاریخ میں جاری رہا، یہاں تک کہ وہ سفر کرتے ہوئے یورپ تک پہنچ گیا- گیارہ سو سال کے بعدفرانس کے جمہوری مفکر روسو(Rousseau) نے اپنی کتاب' سوشل کنٹریکٹ''میں لکھا کہ — انسان آزاد پیدا ہوا تھا، لیکن میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہوں:
Man was born free, but I see him in chains.
اِسی انقلابی عمل (revolutionary process)کے بعد کے مرحلے میں 1789 میں فرانسیسی انقلاب (French Revolution) کا واقعہ ہوا- اِس انقلابی عمل کی تکمیل 1948 میں ہوئی جب کہ دنیا کی تمام قوموں کے اتفاق سے اقوامِ متحدہ (UNO) کی عالمی تنظیم وجود میں آئی-
انسانی تاریخ میں آزادی کے دور کا آنا کوئی سادہ بات نہ تھی- یہ گویا کہ تاریخ میں ایک شاہ ضرب (master stroke) کا معاملہ تھا جس کے نتیجے میں اُن تمام امکانیات کی انفولڈنگ (unfolding) شروع ہوگئی جس کو خالق نے انسان کے لیے مقدر کیا تھا-
اِس دورِ آزادی کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسانی زندگی میں آزادی کا وہ دور شروع ہوا جب کہ کھلے ماحول میں ہر عورت اور مرد کا امتحان (test) ممکن ہوسکے- اِسی کے نتیجے میں دنیا کی سیاست میں سیکولرازم اور جمہوریت کا زمانہ آیا جس نے تاریخ میں پہلی بارمذہبی جبر کا مکمل خاتمہ کردیا- اِسی کے بعد یہ ممکن ہوا کہ انسان ہر قسم کے توہمات (superstitions) سے آزاد ہو کر فطرت کا مطالعہ کرے- اِسی مطالعے کا نتیجہ سائنسی علوم کا ظہور تھا جس نے پہلی بار انسان کے لیے اعلی معرفت (higher realization) کا دروازہ کھول دیا- اِسی کے نتیجے میں پرنٹنگ پریس اور جدید مواصلات کی دریافت ہوئی جس نے تاریخ میں پہلی بار عالمی دعوت کو ممکن بنا دیا، وغیرہ-
موجودہ زمانے میں آزادی کو خیر اعلی کہاجاتا ہے- یہ بات بالکل درست ہے-لیکن موجودہ دنیا میں آزادی کے ساتھ آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom)کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے- اِس بنا پر آزادی کی قدر وقیمت کو صرف اُس وقت سمجھا جاسکتا ہے، جب کہ لوگوں کی طرف سے آزادی کے غلط استعمال کے پہلو کو الگ کرکے اس کا مطالعہ کیا جائے- ( 2013)
واپس اوپر جائیں

اسلام اور جنگ

ایک حدیثِ رسول میں، قرآن کی بابت بتایا گیا ہے کہ: لکلّ آیة منہا ظَہر وبطن (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 75) یعنی قرآن کی ہر آیت کا ایک مفہوم وہ ہے جو سطور (lines) میں ہے اور دوسرا وہ ہے جو اس کے بین السطور میں پایا جاتا ہے- یہ حدیث اگر چہ قرآن کے بارے میں ہے، لیکن توسیعی مفہوم کے اعتبار سے حدیثِ رسول بھی اس میں شامل ہے- یہ ایک حقیقت ہےکہ قرآن اور حدیث کے متن میں تفسیری اور تشریحی اضافہ کرنا پڑتا ہے- اِس اضافے کے بغیر، قرآن وحدیث کی معنویت واضح نہیں ہوتی-
مثال کے طورپر قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (30:41)- قرآن کی اِس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے: ’’خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے‘‘- مگر اِس لفظی ترجمے سے آیت کا اصل مفہوم واضح نہیں ہوتا- آیت کے اصل مفہوم کو جاننے کے لیے اس میں یہ تشریحی اضافہ کرنا پڑے گا کہ — خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا، اس لیے کہ لوگوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا-
اِسی طرح ایک حدیثِ رسول اِن الفاظ میں آئی ہے: مَن قال لا إلہ إلا اللہ، دخل الجنة- اس حدیث کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ جس شخص نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جنت میں داخل ہوگا- حدیث کا یہ ترجمہ حدیث کے اصل مفہوم کو واضح نہیں کرتا- حدیث کے اصل مفہوم کو واضح کرنے کے لیے اس میں یہ اضافہ کرنا پڑے گا کہ —جس شخص نے اِ س حقیقت کا اقرار کیا کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور اس کے مطابق اس نے عمل کیا، وہ جنت میں داخل ہوگا-
جنگ کا مسئلہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو آگاہ کرتے ہوئےفرمایا تھا: إذا وضع السیفُ فی أمتی، لم یُرفع عنہم إلى یوم القیامة(مسند احمد، جلد 5، صفحہ 278) - اِس حدیث کا لفظی ترجمہ یہ ہے— جب میری امت کے اندر تلوار داخل ہوجائے تو قیامت تک وہ اُس سے اٹھائی نہیں جائے گی- مذکورہ حدیثِ رسول کا یہ ترجمہ لفظی طورپر ایک صحیح ترجمہ ہے- لیکن صرف یہ ترجمہ، حدیث کی اصل معنویت کو ظاہر نہیں کرتا-
بظاہر اس حدیث میں امت کے اندر تلوار کے اُس داخلے کا ذکر ہے جو عہد رسالت کے بعد پیش آئے گا- لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو امت کےاندر تلوار کا داخلہ خود زمانہ رسول میں پیش آچکا تھا- جیسا کہ معلوم ہے، غزوۂ بدر، غزوۂ حنین، غزوۂ خیبر کے مواقع پر امتِ محمدی نے تلوار اٹھائی، جب کہ اِن چاروں مواقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم باحیات تھے- اس کے علاوہ، قرآن کی متعدد آیتوں میں خود زمانہ رسول میں قتال کا ذکر ہے- بظاہر یہ ایک تضاد کی صورت حال ہے- اِس لیے ہمیں کوئی ایسا اصول دریافت کرنا پڑے گا جو اِس ظاہری تضاد کو رفع کرنے والاہو -
جنگ کی دو قسمیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو جنگ پیش آئی، اس کی نوعیت کیا تھی، وہ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (8:39) یعنی تم اُن سے قتال کرو، یہاںتک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب کا سب، اللہ کے لیے ہوجائے-
اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے- قدیم زمانے میں اُس وقت کے سیاسی فلسفہ (political philosophy) کی بنا پر، ساری دنیا میں مذہبی جبر کا کلچر قائم تھا- اِس کلچر نے قدیم زمانے میں پُرامن دعوت (peaceful Dawah) کو عملاً ناممکن بنا دیا تھا- یہ تصور، خدا کے تخلیقی پلان کےخلاف تھا، کیوں کہ خدا نے اپنے تخلیقی پلان کے تحت، ہر انسان کو فکر اور اظہارِ خیال کی کامل آزادی عطا کی ہے-
مذہبی جبر پر مبنی مذکورہ سیاسی فلسفہ خدا کی دی ہوئی آزادی کو منسوخ کرنے کے ہم معنی تھا- خدا کو مطلوب تھاکہ مذہبی جبر کا یہ مصنوعی نظام ختم ہو اور مذہبی آزادی کا فطری نظام قائم ہوجائے- اِس لیے اللہ تعالی نے رسول اور اصحابِ رسول کو یہ حکم دیا کہ ہر قیمت پر اِس مصنوعی نظام کو ختم کرو، خواہ اس کے لیے تم کو جنگ کرنا پڑے- رسول اور اصحابِ رسول نے اِس حکمِ خداوندی کی تعمیل کی، یہاں تک کہ اِس جبری نظام کا خاتمہ ہوگیا-
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے عبد اللہ بن عمر کی ایک روایت کا مطالعہ مفید ہوگا- عبد اللہ بن عمر (وفات: 73 ہجری) کے زمانے میں وہ جنگ پیش آئی جس کے قائد ایک طرف، عبد اللہ بن زبیر تھے اور دوسری طرف،اموی حاکم حجاج بن یوسف الثقفی- یہ واقعہ تاریخ میں ’’فتنۂ عبد اللہ بن زبیر‘‘ کے نام سے مشہور ہے-
عبد اللہ بن عمر اِس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے- دو مسلمان اُن کے پاس آئے اور اُن کو عار دلاتے ہوئے کہا کہ آپ اِس جنگ میں شریک نہیں ہیں، حالاں کہ اللہ تعالی نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتَّی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ(8:29)- عبد اللہ بن عمر نے کہا: قاتلنا حتى لم تکن فتنة، وکان الدین للہ- وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتى تکون فتنة، ویکون الدین لغیر اللہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4513) یعنی ہم نے جنگ کی یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوگیا، اور دین اللہ کے لیے ہوگیا- اور تم چاہتے ہوکہ جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ دوبارہ واپس آجائے اور دین غیراللہ کے لیے ہوجائے-
عبد اللہ بن عمر کے اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر تھا- ہم نے لڑ کر اس مذہبی جبر کو ختم کردیا- اب فطرت کے نظام کے مطابق، مذہب کے معاملے میں انسان کو آزادی حاصل ہوگئی، جب کہ تم لوگ اپنے سیاسی مفاد کے لیے جنگ کررہے ہو اور اِس طرح دوبارہ ایک نئے قسم کا فتنہ برپا کررہے ہو-
ایک دورکا خاتمہ، دوسرے دورکا آغاز
اللہ نے انسان کو اِس دنیا میں امتحان (test) کے لیے رکھا ہے- امتحان کی اِس مصلحت کی بنا پر اللہ نے انسان کو کامل آزادی دی ہے- اس کو اِس دنیا میں فریڈم آف چوائس (freedom of choice) حاصل ہے- یہ آزادی اگر باقی نہ رہے تو اللہ کا تخلیقی پلان درہم برہم ہوجائے گا- اِسی مصنوعی صورت ِ حال کو قرآن میں فتنہ کہا گیا ہے، اور فتنہ کی اِسی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے رسول اور اصحابِ رسول کو جنگ کا حکم دیاگیا-
اِس معاملے کی تفصیل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں مذہب پر مبنی قومیت (nationality based on religion) کا اصول رائج تھا- اِس اصول کی بنا پر مذہب، اسٹیٹ کا معاملہ قرار پاگیا تھا- اسٹیٹ کا مذہب، اسٹیٹ سے وفاداری کی علامت بن گیا تھا- یہی وجہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں اسٹیٹ سے مختلف عقیدہ رکھنا، اسٹیٹ سے بغاوت کے ہم معنی بن گیاتھا- یہی وہ صورتِ حال ہے جس نے قدیم زمانے میں مذہبی جبر (religious persecution) کا نظام قائم کررکھا تھا-
ساتویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں جو انقلاب آیا، اُس نے اسٹیٹ کے تحت قائم شدہ مذہبی جبر کا خاتمہ کردیا- مذہبی جبر کے خاتمے کے بعد تاریخ میں ایک نئے سیاسی نظریے کا آغاز ہوا- اِس کے بعد جو پراسس شروع ہوا، اس کی تکمیل انیسویں صدی میں یورپ میں ہوئی- اب مبنی برمذہب قومیت آخری طورپر متروک قرار پائی- اِس کے بعد قومیت کا وہ نظام بنا جس کو وطن پر مبنی قومیت (nationality based on homeland) کہاجاتاہے-
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ انسان کے اندر اپنے وطن سے محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے- یہ ایک عملی معاملہ ہے، نہ کہ کوئی اعتقادی معاملہ- قدیم زمانے میں مبنی برمذہب قومیت نے اِس معاملے کو مذہبی عقیدے کا درجہ دے رکھا تھا- اِس لحاظ سے، مبنی برمذہب قومیت کا نظریہ ایک فطری تصور تھا- ایسی حالت میں ضرورت تھی کہ اِس تعلق کو فطری بنیاد پر قائم کیا جائے- موجودہ زمانے میں مبنی بروطن قومیت کے نظریے نے یہی کام انجام دیا ہے- اب تمام دنیا میں اِس اصول کو مان لیا گیا ہے کہ قومیت کا تعلق وطن سے ہے، نہ کہ مذہبی عقیدے سے- یہی نظام، فطرت کے مطابق ہے، اور اسلام دینِ فطرت ہونے کی حیثیت سے اِسی نظریے کی تائید کرتا ہے-
قومیت ایک سیاسی نظریہ ہے، اور مذہب ایک غیر سیاسی عقیدہ- قدیم ریاستی نظریے کے تحت مذہبی جبر کا تصور پیداہوا- اِس تصور نے دینِ توحید اور اس کی دعوت کے لیے غیر ضروری مسئلہ پیدا کردیا تھا- موجودہ زمانے میں وطن پر مبنی قومیت کے نظریے نے یہ ایک درست کام انجام دیا ہے کہ اس نے قومیت کی بنیاد مذہب کے بجائے وطن پر قائم کردی ہے- یہ تبدیلی عین اسلام کے مطابق ہے- اس نے موجودہ زمانے میں پُرامن دعوتی عمل کے لیے لامحدود دروازے کھول دئے ہیں-
قدیم زمانے میں اسلام اور اُس وقت کی حکومتوں کے درمیان جو جنگ پیش آئی، وہ ایک ناگزیر ضرورت کے تحت پیش آئی- کیوں کہ اہلِ اسلام جب توحید کی دعوت دیتے تھے تو اُس زمانے کے مبنی بر مذہب قومیت نظریے کی بنا پر اہلِ اقتدار یہ سمجھتے تھے کہ توحید کی دعوت، ریاست سے بغاوت کے ہم معنی ہے- اِس بنا پر وہ داعیانِ توحید کو اپنا حریف (rival) سمجھ لیتے تھے، جس کا نتیجہ جنگ ہوتا تھا- یہ جنگ قدیم نظام کی طرف سے جارحانہ طور پر ہوتی تھی اور اہلِ توحید کی طرف سے اس کی حیثیت ناگزیر دفاع کے ہم معنی تھی-
موجودہ زمانے میں وطن پر مبنی سیاسی تصور نے مذہب اور سیاست کے درمیان ٹکراؤ کا خاتمہ کردیا ہے- یہی وجہ ہے کہ اب مذہبی جبر (religious persecution)کا قدیم نظام باقی نہیں رہا اور داعیانِ توحید کو یہ موقع مل گیا کہ وہ ریاست سے ٹکراؤ کا خطرہ مول لئے بغیر اپنے پُرامن دعوتی عمل کو بلا رکاوٹ جاری رکھ سکیں- (2012)
واپس اوپر جائیں

قانونِ شریعت کا نفاذ

موجودہ زمانے میں مختلف مسلم ملکوں میں قانونِ شریعت کے نفاذ کی تحریکیں چلائی گئیں۔ مثلاً افغانستان، ایران، سوڈان اور پاکستان وغیرہ۔ ہر جگہ تقریباً ایک ہی قسم کی صورتِ حال نظر آتی ہے۔ ہرجگہ کے مسلمان دو گروہوں میں بٹ گئے— حاکم اور محکوم۔ اِن دونوں گروہوں کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں زبردست نقصان پیش آیا۔ اِن ملکوں میں شریعت کا قانون تو نافذ نہ ہوسکا، البتہ نفرت اور جبر اور تشدد کا ماحول ہر جگہ قائم ہوگیا۔
اسلامی قانون کے نفاذ کی تحریک اِس طرح الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب (counter productive) کیوں بن گئی۔ اِس کا راز یہ ہے کہ ہر جگہ نفاذِ شریعت کا نعرہ تو دیاگیا، لیکن نفاذِ شریعت کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی نہیں کی گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، پیغمبر کی حیثیت سے دنیا میں 23 سال رہے۔ آپ کے مشن کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ عرب میں اسلامی شریعت کو نافذ کریں اور بالفعل آپ نے کامیابی کے ساتھ ایسا کیا۔ لیکن اُس زمانے کے عرب سماج میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ مسلمان، نفاذِ شریعت کے نام پر دوگروہ بن کر آپس میں لڑ رہے ہوں، جیسا کہ موجودہ زمانے میں مسلم ملکوں میں پیش آیا۔
اِس سوال کا جواب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ عائشہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ قرآن میں پہلے وہ سورتیں اُتریں جن کو مفصّل کہاجاتا ہے، یعنی وہ سورتیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے، یہاں تک کہ جب لوگ رجوع ہو کر اسلام پر آگئے، اُس وقت حلال اور حرام والے احکام اترے (حتّی إذا ثاب الناس إلی الإسلام، نزل الحلال والحرام) اگر شروع میں یہ اترتا کہ شراب نہ پیو، تو وہ ضرور یہ کہتے کہ ہم توشراب کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور اگر شروع میں یہ اترتا کہ زنا نہ کرو، تو وہ ضرور یہ کہتے کہ ہم تو کبھی زنا نہیں چھوڑیں گے (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب تالیف القرآن)۔
اِس روایت میں ثاب کا لفظ آیا ہے۔ ثاب یثوب کے معنی ہیں: حالتِ اصلی کی طرف لوٹنا۔ مشہور عالمِ لغت راغب الاصفہانی (وفات: 1108ء) نے اِس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: رجوع الشیٔ إلی حالتہ الأولی التی کان علیہا( المفردات، صفحہ 83 ) یعنی کسی چیز کا اپنی اُس سابقہ حالت کی طرف لوٹنا جس پر وہ پہلے قائم تھی۔
اِسی بات کو اگر لفظ بدل کر بیان کیا جائے، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِ س کا مطلب ہے— حالت فطری کی طرف واپسی۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے، ہر انسان صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر ماحول کے اثر سے وہ دھیرے دھیرے اپنی اصل فطرت سے ہٹ جاتا ہے۔ اِسی کا نام بگاڑ ہے۔ صحیح معاشرہ قائم کرنے کا عمل، اِسی بگاڑ کو درست کرنے سے شروع ہوتا ہے، یعنی فطرت سے انحراف کی حالت کو ختم کرنا اور دوبارہ لوگوں کو ان کی حالتِ فطری پر قائم کرنا۔ ایک لفظ میں اِس عمل کو ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کہاجاسکتا ہے۔
حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ— انسان کی ڈی کنڈیشننگ کرکے اُس کو حالتِ فطری کی طرف واپس لاؤ۔ جب ایسا ہوگا تو اس کے بعد انسان کے اندر احکام کو قبول کرنے کی استعداد پیدا ہوجائے گی، اور نفاذِ شریعت کا کام بہ سہولت انجام پاسکے گا۔ گویا کہ پیغمبر اسلام کے طریقے کے مطابق، کسی سوسائٹی میں نفاذِ شریعت کے عمل کا آغاز، فکری تطہیر سے ہوتا ہے، نہ کہ قانون کے عملی نفاذ سے۔
موجودہ زمانے میں 57 مسلم ملک ہیں۔ ہر مسلم ملک میں مسلم رہنماؤں نے شریعت کے نفاذ کی تحریک چلائی، مگر لمبی جدوجہد کے باوجود کسی بھی ملک میں یہ تحریکیں اپنے مطلوب مقصد میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ ہر ملک میں اِن تحریکوں نے صرف تشدد اور جبر کی روایتیں قائم کیں۔
اِس اعتبار سے مسلم ملکوںکو دو گروپ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک قسم کے ملک وہ ہیں، جہاں حکم راں اور عوام کے درمیان پُرتشدد مقابلہ جاری ہے۔ دوسری قسم کے مسلم ملک وہ ہیں جہاں جبر کا نظام قائم ہوگیا ہے۔ یہ وہ ملک ہیں جہاں حکم راں طبقے نے نفاذِ شریعت کی تحریکوں کو مقہور کرلیا اور جبر کے زور پر اپنی حکم رانی قائم کرلی۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں حالتیں، اسلامی نقطۂ نظر سے غیر مطلوب حالتیں ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ سنت کے مطابق، مسلم ملکوں میں کام کرنے کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلم رہنما اپنے کام کا آغاز غیر سیاسی میدان میں کرتے ۔ وہ پُرامن تعلیم وتربیت کے ذریعے لوگوں کے ذہن اور ان کے کردار کو بدلتے۔
اِس تعمیری عمل کے دوران وہ ملک کے سیاسی نظام کے معاملے میں اسٹیٹس کوازم (statusquoism) کا طریقہ اختیار کرتے ۔وہ یہ پالیسی اختیار کرتے کہ سیاست اور حکومت کے معاملے کو جمہوری عمل (democratic process) کے حوالے کردیتے۔ سیاست کے معاملے میں وہ لوگوں کو موقع دیتے کہ پُرامن الیکشن کے ذریعے وہ جس کو چاہیں منتخب کریں اور پھر یہ منتخب لوگ ملک کا سیاسی نظام چلائیں۔مسلم رہنما اگر اس دو طرفہ حکمت کو اختیار کرتے، تو یقینی طورپر ایسا ہوتا کہ بتدریج ملک کے حالات بدل جاتے ۔ اِن ملکوںمیں پہلے ذہن اور کردار کے اعتبارسے انقلاب آتا، اور پھر دھیرے دھیرے سیاست اور حکومت کے میدان میں بھی انقلاب آجاتا۔ مگر حکمتِ نبوی کو اختیار نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم رہ نما جو کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے، اُس کو تو وہ حاصل نہ کر سکے، البتہ انھوںنے مسلم سماج کے اندر بہت سے نئے نقصانات کا اضافہ کردیا۔
حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ایسی روایتیں آ ئی ہیں جن میں مسلمانوں کو شدت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ حکم رانوں میں بگاڑ کے وقت اُن کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ اِن روایتوں میں شدت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے حکم رانوں میں تم خواہ کتنا ہی بگاڑ دیکھو، تم ہر گز اُن سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار مت کرو۔ اگر تم ضروری سمجھو، تو صرف تنہائی میں نصیحت پر اکتفا کرو، عملی ٹکراؤ یا حکم رانوں کو بدلنے کی تحریکیں ہر گز نہ چلاؤ۔
عدم ٹکراؤ کی اِس پالیسی کا مطلب سرینڈر کرنا نہیں ہے۔ یہ دراصل یہ بتانے کے لیے ہے کہ سیاسی بگاڑ کے حالات میں تمھارے عمل کا نقطۂ آغاز کیا ہونا چاہیے۔ ایسے حالات میں تمھارے عمل کا نقطۂ آغاز یہ ہونا چاہیے کہ تم انتہائی حد تک پُرامن رہتے ہوئے، غیر سیاسی دائرہ کار میں لوگوں کو ایجوکیٹ(educate) کرنے کی کوشش کرتے رہو۔ یہ کوشش مسلسل جاری رکھو، یہاں تک کہ حالات اِس حد تک بدل جائیں کہ پُرامن طورپر تبدیلی ممکن ہوجائے۔
اسلام کی پالیسی ہر معاملے میں نتیجہ خیز عمل (result oriented action) کے اصول پر ہوتی ہے۔ عمل کا مثبت نتیجہ نکلے تو عمل کرو، اور اگر مثبت نتیجہ نکلنے والا نہ ہو، تو سیاست سے مکمل طورپر الگ رہتے ہوئے پُرامن اصلاح کا طریقہ اختیار کرو، اِس طریقے کو اختیار کرنے سے ہمیشہ امن قائم ہوتا ہے، اور اِس طریقے کے خلاف عمل کا نتیجہ ہمیشہ تشدد کی صورت میں نکلتا ہے۔(2009)
واپس اوپر جائیں

خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان

امریکا میں بیماری اور اس پر کنٹرول کے لیے ایک ادارہ قائم ہے- اِس ادارے کا نام یہ ہے:
US Centre for Disease Control and Prevention
اِس ادارے کے تحت جو اعداد وشمار جمع کیے گئے ہیں، اس کے مطابق، امریکا میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے- مثلاً 2010 میں روڈ حادثے میں مرنے والوں کی تعداد 33,687 تھی- اِس کے مقابلے میں، اِسی سال امریکا میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد 38,364 تھی- (ٹائمس آف انڈیا، نئی دہلی، 4 مئی 2013، صفحہ 21)
یہ معاملہ صرف امریکا کا نہیں ہے، بلکہ تمام ترقی یافتہ ملکوں کا ہے- جرمنی، فرانس، اسپین، جاپان اور چین ہر جگہ خود کشی کرنے والے انسانوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے- اعداد وشمار کے مطابق، خود کشی کرنے و الوں کی تعداد ترقی یافتہ ملکوں میں زیادہ ہے-
ایسا کیوں ہے- اِس کا سبب یہ ہےکہ موجودہ زمانے میں جب مادی ترقی کا دور آیا تو انسان نے یہ سمجھا کہ اب وہ دنیا ہی میں اپنی جنت بنا سکتا ہے- وہ اپنی تمام خواہشوں (desires) کو آخری حد تک پورا کرسکتا ہے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا، بظاہر مادی ترقیوں کے باوجود انسان کو فل فل مینٹ (fulfilment) حاصل نہ ہوسکا-
جب انسان بقدر ضرورت (need)کی سطح پر جی رہا تھا، تو اس کو فل فل مینٹ حاصل نہ تھا- اُس وقت اس نے سمجھا کہ جب آرام (comfort) کی سطح پر جینا نصیب ہوگا تو اس کو فل فل مینٹ حاصل ہوجائے گا، مگر ایسا نہ ہوسکا- پھر لگژری (luxury) کا دور آیا، مگر انسان اب بھی فل فل مینٹ (fulfilment) سے محروم تھا- اب انسان مایوسی کی حالت میں جی رہا ہے اور اِسی مایوسی کا ایک ظاہرہ خود کشی کی بڑھتی ہوئی رفتار ہے-
واپس اوپر جائیں

مس ورلڈ

نونیت کور (Navneet Kaur Dhillon) چندی گڑھ میں 1992 میں پیدا ہوئی- بیوٹی کے ایک مقابلے میں وہ کامیاب ہوئی اور مس انڈیا کا ٹائٹل حاصل کیا- اب وہ مس ورلڈ (Miss World)کے مقابلے کے لیے تیاری کر رہی ہے- اس نے اپنے آپ کو پوری طرح اِس تیاری کے کام میں لگا دیا ہے- ایک انٹرویو کے دوران اس نے کہا کہ — میں مس ورلڈ کے تصور میں جیتی ہوں، مس ورلڈ کے تصور میں سانس لیتی ہوں، اب صرف یہ باقی ہے کہ مجھے مس ورلڈ کا تاج پہنایا جائے:
I am living, breathing Miss World; only the crowning is left.
ٹائمس آف انڈیا (2 ستمبر 2013) میں اِس خبر کو پڑھ کر میں نے سوچا کہ کیا وجہ ہے کہ بہت سے لوگ مس ورلڈ اور مسٹر ورلڈ کا ٹائٹل حاصل کرنے کے لیے ہیرو، بلکہ سپر ہیرو بن جاتے ہیں، مگر یہی بے تابانہ شوق لوگوں کے اندر جنت (paradise) کے لیے نہیں ہوتا- دنیا میں بے شمار لوگ ہیں، لیکن اُن میں سے کوئی مس پیراڈائز اور مسٹر پیراڈائز کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ہیرو بننے پر تیار نہیں-
میں نے غور کیا تو خود مذکورہ رپورٹ میں اِس کا جواب موجود تھا- نونیت کور جو رات دن اپنی تیاری میں لگی ہوئی ہے، اُس نے اِس مقصد کے لیے اپنی بے پناہ محنت کی توجیہ کرتے ہوئے کہا — یہ ایک ایسا موقع ہے جو پوری زندگی میں صرف ایک بار آئے گا اور مجھے بہر حال اس کو حاصل کرنا ہے:
This is a once-in-a lifetime chance. I have to do it.
مس ورلڈ بننے کا چانس اُس کے لیے صرف ایک بار ہے — یہی وہ چیز ہے جو مذکورہ خاتون کو ہیرو بنائے ہوئے ہے- جب اُس نے دیکھا کہ اِس کا چانس میرے لیے دوبارہ آنے والا نہیں ہے تو اس کے دل میں یہ جذبہ ابھرا کہ وہ اس کی تیاری میں اپنی ساری طاقت لگا دے- یہی دریافت اگر کسی عورت یا مرد کو جنت کے بارے میں ہوجائے تو وہ بھی اِسی طرح مس پیراڈائز یا مسٹر پیراڈائز بن جائے گا-
واپس اوپر جائیں

خود کشی کیوں

بالی وڈ کی ایک ایکٹرس جِیا خان نے 3 جون 2013 کوممبئی میں خود کشی کرلی- اس وقت اس کی عمر 25 سال تھی- وہ جوہو کے ایک فلیٹ میں رہتی تھی- وہاں کوئی سوسائڈ نوٹ (suicide note)نہیں پایا گیا- فلم ڈائرکٹر رام گوپال ورما نے بتایا کہ ضیا خان کو تین سال سے کوئی کام نہیں ملا تھا- اس نے رام گوپال ورما سے ایک ملاقات میں کہا تھاکہ اس کے قریب کا ہر آدمی اس کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ ناکام ہے:
The last time I met her, Jiah told me that everyone around her makes her feel like a failure.
ضیا خان نے جو کہا، وہ خود کشی کے لیے کوئی عذر (excuse) نہیں ہے- انسان کو چاہئے کہ وہ خود اپنے آپ کو دریافت کرے، نہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو ویسا سمجھے جیسا کہ دوسرے لوگ اس کو بتارہے ہیں- حقیقت یہ ہے کہ دنیا غیر ہمدرد (unsympathetic) لوگوں سے بھری ہوئی ہے- اس دنیا میںحقیقی معنوںمیں کوئی شخص دوسرے کا خیر خواہ(well-wisher) نہیں ہوتا، حقیقی معنوں میں کوئی شخص کسی کا اعتراف (acknowledgement)نہیں کرتا- یہ کام آدمی کو خود کرنا ہے کہ وہ اپنے بے لاگ جائزہ سے اپنی قدروقیمت کو متعین کرے- وہ اپنے ذاتی یقین پر کھڑا ہو، نہ کہ دوسروں کے ماننے یا نہ ماننے پر-
عقل مند آدمی وہ ہے جو دوسروں کی تعریف سے خوش نہ ہو اور دوسروں کی تنقید اُس کو غمگین نہ کرے- دوسروں کی تعریف پر خوش ہونے والا آدمی اپنے بارے میں زیادہ اندازہ (overestimation) میں مبتلا ہوجاتا ہے- اِسی طرح دوسروں کی تنقید پر غمگین ہونے والا آدمی اپنے بارے میں کم تر اندازہ (underestimation) کا شکار ہوجاتا ہے- اور دونوں قسم کا مزاج بلا شبہہ آدمی کے لیے یکساں طورپر مہلک ہے-
واپس اوپر جائیں

کسی کی انا کو مت چھیڑیے

ہر آدمی کی ایک انا ہوتی ہے- کوئی آدمی اُسی وقت تک معتدل (normal) رہتا ہے جب تک اس کی انا سوئی ہوئی ہو- جیسے ہی آپ اس کی انا کو چھیڑیں، اس کا اعتدال ختم ہوجائے گا- اِسی حقیقت کا اظہار ایک انگریزی مثل میں اس طرح کیاگیا ہے— ہر گز کسی کو فارگرانٹیڈ نہ لو:
Never take someone for granted.
ہر عورت اور مرد پیدائشی طور پر انا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں- انا (ego) ہر انسان کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے، حتى کہ ایسے افراد جو بظاہر متواضع (modest) دکھائی دیتے ہوں، وہ بھی اتنا ہی زیادہ انا کی نفسیات لیےہوئے ہوتے ہیں جتنا کہ بظاہر غیر متواضع انسان- دونوں کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ پہلا شخص اُس وقت انانیت (egoism) کا کیس بنتا ہے جب کہ اس کی انا پر ضرب لگادی جائے، جب کہ دوسری قسم کا انسان ہر وقت کبر (arrogance) کی تصویر بنا رہتا ہے-
ایسی حالت میں سماج کےاندر عافیت کی زندگی گزارنے کا ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ آپ لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بے حد محتاط رہیں اور کبھی کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالیں جس سے دوسرے کی انا پر ضرب پڑتی ہو-
یہ ایک عملی حقیقت ہے کہ آدمی سماج کے اندر سب سے لڑ کر نہیں رہ سکتا- ایسی حالت میں سماج کے اندر باعافیت زندگی گزارنے کی ایک ہی صورت ہے، اور وہ ہے — دوسروں کے جذبات کی رعایت کرتے ہوئے اس سے معاملہ کرنا-
اِس معاملے میں آدمی کے پاس صرف دو میں سے ایک کا اختیار (choice) ہے، یا تو دوسروں سے  لڑکراپنی زندگی کو غیر ضروری طورپر مشکل بنا لینا، یا اپنے کو بے مسئلہ انسان (no-problem person) بنا کر دوسروں کے شر سے اپنے آپ کو بچالینا- جو آدمی اپنے آپ کو بے مسئلہ بنالے، وہ اِس سے بچ جاتاہے کہ دوسرے انسان اس کے لیے مسئلہ (problem) بنیں-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کا بنیادی سبب کیا ہے؟ اس زوال وانحطاط کا منبع کہاں ہے- اصلاحِ احوال کی ہر کوشش کیوں ناکام ہوگئی- اور یہ سوال کہ اس زوال وانحطاط کے منبع کو بند کرنے کی تدبیر کیا ہونی چاہئے- کیا اس کا سب سے بنیادی سبب ہمارے بیچ کئی لاکھ حدیث ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے دو سو سال بعد مرتب کی گئی ہے یا کوئی دوسری وجہ ہے، براہِ کرم رہنمائی فرمائیں- (سید ثاقب علی ہاشمی، پٹنہ، بہار)
جواب
1- امتِ مسلمہ کا زوال کسی پراسرار سبب کی بنا پر نہیں ہے- یہ ایک عام فطری قانون کی بنا پر ہے اور وہ وہی ہے جس کو ابنِ خلدون (وفات: 1406 ) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: للأقوام أعمار، کما للأفراد أعمار- جن گروہ کا کوئی نظریہ (ideology) نہ ہو، جس کا مقصد صرف کھانا کمانا ہو، اُس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ عام حالات میں زوال کا شکار نہ ہو، لیکن ایسا گروہ جوایک نظریہ یا آئڈیالوجی کی بنیاد پر بنے، اُس کے لیے ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی بعد کی نسلوں میں نظریاتی ضعف آجاتا ہے- وہ ایک نظریاتی گر وہ کے بجائے صرف ایک قومی گروہ بن کر رہ جاتا ہے- اِسی حالت کا نام زوال ہے-
یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال ہوا ہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اسلام بطورنظریہ یا اسپرٹ باقی نہیں رہا، اب وہ صرف ایک کلچر کے طور پر باقی ہے، جیساکہ زوال یافتہ قوموں کے درمیان ہمیشہ ہوتا ہے- موجودہ زمانے کے مسلمان ایک کلچرل گروپ کی حیثیت سے زندہ ہیں، نہ کہ ایک نظریاتی گروپ کی حیثیت سے-
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بہت سی اصلاحی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ سب کی سب اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں- اِس ناکامی کا سبب یہ تھاکہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے اِس مفروضے کے ساتھ اپنا کام شروع کیا کہ یہاں ایک ’’خیرِامت‘‘ موجود ہے اور اس کو زندہ کرنے کے لیے صرف یہ کرنا ہے کہ اس کے اندر جوش وولولہ پیدا کردیا جائے- اقبال کا یہ شعر اِسی ذہن کی نمائندگی کرتاہے:
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی
احیاءِ امت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اِس بات کو تسلیم کیا جائے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان خیر امت نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک زوال یافتہ امت (degenerated community) ہیں- اِس اعتراف کے بعد آپ کو صحیح نقطہ آغاز مل جائے گا، یعنی لوگوں کے اندر سب سے پہلے ایمانی شعور پیدا کرنا- مزید یہ کہ اصلاحِ امت کا کام اصلاحِ افراد سے شروع ہوگا، اِس طرح نہیں کہ مسلمانوں کی بھیڑ جمع کرکے اسٹیج سے اُن کے سامنے پرجوش تقریر کی جائے- یہ بھی صحیح آغاز نہیں کہ اسلام کے نام سے بڑے بڑے ادارے یا مسلم حکومتیں قائم کی جائیں- اِس قسم کی کوششوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دیمک زدہ لکڑی پر کوئی عمارت کھڑی کرنا- ایسا منصوبہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا-
بعض جماعتوں نے اصلاحِ ایمان کے نام سے تحریکیں چلائیں، لیکن اصل نشانے کے اعتبار سے وہ بھی ناکام ہوگئیں- اِس ناکامی کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے فضائل کی کہانیاں سنا کر امت کو بیدار کرنا چاہا- یہ ایسا ہی تھا جیسے امانی (2:78) کی بنیاد پر کسی قوم کو اٹھایا جائے- مگر فضائل کی کہانیوں یا امانی کی داستانوں کے ذریعے کسی زوال یافتہ قوم کو دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا-
زوال یافتہ امت کو دوبارہ زندہ کرنے کا صحیح طریقہ وہ ہے جو کہ مبنی بر افراد ہو، نہ کہ مبنی بر قوم- اِس طریقے کو قرآن میں بتا دیا گیا ہے- اِس کو سمجھنے کے لیے آپ قرآن کی سورہ الحدید کی آیت 17 کا مطالعہ کیجئے- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب ’’قیادت نامہ‘‘، صفحہ: 180-183)-
2- حدیث کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے، نہ اُس کا کوئی تعلق زوالِ امت سے ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’تجدید دین‘‘، صفحہ 21-38) حقیقت یہ ہے کہ اختلاف ایک امرِ فطری ہے، وہ ہمیشہ ہوگا، اختلاف خالق کے تخلیقی منصوبے کا لازمی حصہ ہے- اختلاف کو ختم کرنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ اختلاف کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ برداشت کی عدم موجودگی ہے- زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہوا ہے کہ وہ اختلاف کو ڈسکشن کا موضوع نہیں بناتے، اختلاف پیش آتے ہی وہ بر ہم ہوجاتے ہیں، یہ برہمی اتنی زیادہ بڑھتی ہے کہ ٹکراؤ اور جنگ کی نوبت آجاتی ہے- اگر آپ کو مسلمانوں کی اصلاح کرنا ہے تو اختلاف کے خاتمے کی ناممکن الحصول کوشش نہ کیجئے، بلکہ اُن کے اندر برداشت اور تحمل کی صفت پیدا کیجئے- اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اختلاف ان کے لیے رحمت بن گیا ہے- اختلاف کو اگر ڈسکشن (discussion) کا موضوع بنایا جائے تو اِس سے ذہنی ارتقا ہوتا ہے اور اگر اختلاف کو ختم کرنےکی کوشش کی جائے تو اختلاف تو ختم نہ ہوگا، البتہ قوم برباد ہو کر رہ جائے گی-
سوال
میں ماہ نامہ الرسالہ کا ایک عرصۂ دراز سے مستقل خریدار اور قاری ہوں- آپ کی تحریر کردہ بہت سی کتابیں میں نے پڑھی ہیں- زکوة کے مصارف میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی مد میں ’’تملیک‘‘ کے ذریعہ زکوة اور فطرہ وغیرہ کی رقم کا استعمال ایک عام بات ہوگئی ہے-
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں آپ جیسا عالمِ دین ہی غیر جانبداری کے ساتھ ایک تحقیقی مقالہ یا کتاب اِس موضوع پر تحریر کرسکتا ہے جس میں تملیک کی تعریف ، شرعی حیثیت، ابتدا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں تملیک کی موجودگی اور اس پر عمل آوری جیسے سوالات کا تشفی بخش جواب تحریر ہو اور غیر جانبدارانہ تجزیہ بھی ہو- (اقبال حسین، اجین، مدھیہ پردیش)
جواب
زکات کے موضوع پر کافی لکھا گیا ہے- اِس سلسلے میں میں آپ کو تین کتابیں پڑھنے کا مشورہ دوں گا— زکات کا اجتماعی نظام (مولانا ابو الکلام آزاد)، فقہ الزکات (ڈاکٹر یوسف القرضاوی)، مسئلہ تملیک کی شرعی حیثیت (مولانا شہاب الدین ندوی)-
زکات کے معاملے میں ’’لامِ تملیک‘‘ کی بحث صرف ایک فنی بحث ہے، اس کی بنیاد قرآن اور حدیث کے کسی واضح حکم پر مبنی نہیں ہے- جن علمانے لامِ تملیک کا مسئلہ وضع کیا ہے، وہ اُن کا صرف ذاتی استنباط ہے اور استنباط کے معاملے میں ہمیشہ اختلاف کی گنجائش رہتی ہے- آپ کو یہ حق ہے کہ آپ چاہیں تو اِس استنباط کو مانیں، یا اگر آپ کے پاس کوئی دلیل شرعی موجود ہو تو آپ جائز طور پر یہ حق رکھتے ہیں کہ آپ اِس استنباط کو نہ مانیں-
خود ماہ نامہ الرسالہ میں اِس موضوع (زکات کا مسئلہ) پر ایک مضمون چھپ چکا ہے- آپ اس کو بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں (ماہ نامہ الرسالہ، جنوری 1997، صفحہ:14-18)-
سوال
عرض ہے کہ میں نے جولائی 2013 کا الرسالہ ملاحظہ کیا- ہمیشہ کی طرح معنی خیز اور علمی باتوں سے مزین ہے اور ہمیشہ کی طرح کچھ نہ کچھ اختلافی باتیں ذہن میں کھٹک پیدا کرنے والی ہیں-آپ نے تبلیغی جماعت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ تحریک لوگوں کو نماز پر کھڑا کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی اور بعد کو اس میں غلو اور تعصب آگیا (صفحہ: 15)- پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اس کا تعارف غلط پیش کیا ہے- مولانا الیاس کے بقول، وہ اِس تحریک سے یہ چاہتے تھے کہ امت اُسی سطح پر آجائے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو چھوڑ کر گئے تھے- یہ آپ کے قول کے برخلاف، ایک ہمہ گیر عنوان ہے جو اُسی فکر ومنہج کے ساتھ اب تک چلا آتا ہے اور انشاء اللہ چلتا رہےگا- کچھ لوگوں کے ذاتی کردار کو کسی تحریک پر تبصرہ کی شکل میں پیش نہیں کیا جاسکتا، ٹھیک اُسی طرح جیسے کوئی مسلمانوں کے اعمال سے اسلام پر تبصرہ کرے- میں ایک سال کی جماعت سے حال ہی میں لوٹا ہوں، میں نے اِس شجر کی کچھ شاخوں کو تو باغی ضرور پایا ہے، لیکن جڑیں معمولی تغیر کے ساتھ اب بھی مضبوط ہیں، اور اگر آپ کی نظر میں کوئی چیز غلط ہے تو اس کی وضاحت کریں- (عبد الحسیب، کیرانہ،یوپی)
جواب
تبلیغی جماعت کے بارے میں الرسالہ میں جو بات میں نےلکھی ہے، وہ کوئی ذاتی رائے نہیں ہے- مولانا انعام الحسن کاندھلوی (وفات: 2006) جو تبلیغ میں تیسرے ’’حضرت جی‘‘کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ مبینہ طور پر کہتے تھے کہ تبلیغی تحریک ایک مسجد وار تحریک ہے- مولانا انعام الحسن کاندھلوی کا یہ بیان کوئی مخفی بیان نہیں ہے، تبلیغ کے سبھی لوگ اس سے واقف ہیں-
دوسری بات یہ کہ میں خود جماعت میں گیا ہوں- میں نے اپنے ذاتی تجربے میں یہی پایا ہے کہ ہر بار مسجد میں ایک ہی قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں- ایک ہی قسم کی کتاب پڑھ کر ہمیشہ سنائی جاتی ہے اور تقریر میں ہمیشہ تقریباً ایک ہی قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں- میں نے الرسالہ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ ایک واقعہ ہے، وہ کوئی ذاتی تبصرہ نہیں-
غلو کی بات جو میں نے لکھی ہے، وہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے- مجھ سے بہت سے لوگوں نے یہ بات کہی کہ تبلیغی جماعت میں غلو کا مزاج آگیا ہے- یہ وہ لوگ ہیں جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، وہ اس کے مخالف نہیں- غلو کیا چیز ہے- غلو دراصل جمود (stagnation) کا نام ہے اور یہ ظاہرہ ہر تحریک میں بعد کو پیدا ہوجاتا ہے- تبلیغی جماعت اِس معاملے میں کوئی مستثنیٰ جماعت نہیں-
آپ نے مولانا الیاس کاندھلوی (وفات: 1944) کے جس ملفوظ کا ذکر کیا ہے، وہ ملفوظ بجائے خود درست ہوسکتا ہے، لیکن تحریکیں کسی ملفوظ پر نہیں چلتیں، تحریکوں کے ارتقا کے اپنے اسباب وعوامل (factors) ہوتے ہیں- یہی اسباب وعوامل ہیں جو تحریکوں کے حال اور مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں، نہ کہ کوئی ملفوظ-
سوال
1980 کے شروع کا کوئی مہینہ ہوگا جب میں نے الرسالہ اور مولانا صاحب کی بعض تصانیف دیکھی تھیں- پہلے میںنے الرسالہ کی ایک کاپی اٹھائی اور اس کے اوراق الٹ پلٹ کرکے دیکھا تو اس میں اس وقت چند آیتوں کا ترجمہ اور تفسیر تھی جو میں نے پڑھی اور کافی پسند آئی، پھر میںنے وہ الرسالہ خرید لیا اور اس وقت سے لے کر آج تک الرسالہ خریدتا آرہا ہوں اور بغور پڑھتا آرہا ہوں- الرسالہ ہاتھ میں آنے کے بعد جب تک اس کو پڑھ کر مکمل نہ کرلوں، چین نہیں ملتا - الرسالہ کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب کی دیگر تصانیف میں سے 70% کتابیں بھی منگاکر پڑھ چکا ہوں- اس وقت مطالعہ میں جو کتاب چل رہی ہے، وہ ہے ’’کتاب معرفت‘‘-میری تعلیم بہت کم ہے، لیکن الرسالہ کے مسلسل مطالعے سےجو میں نے اثرات قبول کئے، وہ درج ذیل ہیں-
1- سب سے پہلا الرسالہ پڑھ کر محسوس کیا کہ الرسالہ میرے احساس کی علمی پیاس بجھانے والا ایک ذریعہ ہے- الرسالہ کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے میں ہر دینی اجتماع میں شریک ہو کر دینی باتیں سنتا تھا، مگر علمی ذوق تشنہ رہتا تھا- جب الرسالہ کے ساتھ ساتھ دیگر کتابیں بھی پڑھ لیں تو ایسا لگا کہ اب تلاش حق کا ذریعہ الرسالہ اور مولانا کی دیگر تصانیف ہیں- الرسالہ کا مطالعہ کرنے سے پہلے میرا ذہن بند تھا اور پھر محسوس ہواکہ الرسالہ سے پہلے حق کی پکڈنڈیوں پر چل رہا تھا اور اب شاہ راہ پرچلنے لگا ہوں-
2- الرسالہ کا مطالعہ کرنے پہلے میرے ذہن کی یہ حالت تھی کہ میں اگر کسی موضوع پر غور کرتا تو کچھ سوچنے کے بعد میرا ذہن آگے سوچنے سے رک جاتا تھا- اور ایک طرح کی پریشانی محسوس ہوتی تھی- لیکن جب سے الرسالہ پڑھنا شروع کیا، آہستہ آہستہ میرا ذہن کھلتا گیا اور کسی بھی بات پر غور کرنا آسان ہوتا گیا، یہاں تک کہ اب کوئی بھی بات یا مسئلہ آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے- میں نے صرف الرسالہ پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ میں نے آپ کی دیگر تصانیف کا بھی مطالعہ کیا-جیسے ’’الاسلام‘‘، ’’تجدید دین‘‘ وغیرہ-
3- ہر ماہ کے الرسالہ کا انتظار رہتا ہے اور ملتے ہی پڑھناشروع کردیتا ہوںاور جب تک ختم نہ کرلوں، چین نہیں ملتا-یہی حال باقی کتابوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے-
4- الرسالہ کے مطالعہ سے دین اور دنیا کی اہم معلومات حاصل ہوتی رہتی ہیں-
5- الرسالہ کو مسلسل پڑھتے رہنے سے خود ایسا احساس ہوتاہے کہ آپ خودبھی ڈگری یافتہ ہوگئے ہیں- جن حضرات نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی ہو، وہ مولانا کا لٹریچر پڑھیں-
6- الرسالہ کے مطالعہ سے ذہن کا ارتقا ہوتا ہے- ذہن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اور ہم خود ہی غور فکر کرنے لگتے ہیں-
7- الرسالہ کے مسلسل پڑھتے رہنے سے آدمی اپنی گفتگو میں مثبت انداز اختیار کرتا ہے-
8- الرسالہ کے متواتر مطالعہ سے اپنے اندر کی جھجھک بھی دور ہوجاتی ہے- کسی مسئلہ پر چند صاحبان کے درمیان خود بھی کچھ بولنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے-
9- الرسالہ کے پڑھنے والوں کے اندر سنجیدگی پیدا ہوجاتی ہے-
10- الرسالہ پڑھنے والے حضرات لایعنی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنے آپ خاموشی سے غور وفکر میں مشغول ہوتے ہیں الرسالہ کا مشن ہی یہ ہے کہ ہر مسلمان آخرت پسند بنے-
11- الرسالہ کے لگاتار پڑھنے سے سب سے بڑا فائدہ قرآن وحدیث کی تفسیر پڑھنے سے ملتا ہے - گویا الرسالہ کے مطالعہ سے ہم تفسیر کا مطالعہ بھی جاری رکھے ہوتے ہیں-
12- الرسالہ کے مسلسل مطالعے کے ذریعہ ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جوابات بھی ملتے رہتے ہیں-
13- الرسالہ کے مسلسل مطالعے سے اپنی اردو کے ساتھ انگریزی بھی ٹھیک ہوجاتی ہے- جن الفاظ کے معنی ہم ڈکشنری میں نہیں دیکھ سکتے، وہ الرسالہ میں مل جاتے ہیں-
14- ڈگری یافتہ حضرات کے لئے صرف ڈگری کافی نہیں ہوتی، ان کو چاہئےکہ وہ کسی عالمِ دین کے لٹریچر کا مطالعہ کریں- مطالعہ کے لئے مولانا صاحب کا لٹریچر بہترین لٹریچر ہے- ساتھ میں الرسالہ کا بھی مطالعہ جاری رکھیں-
آخر میں مولانا صاحب کا شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں جنھوں نے الرسالہ کے ذریعے اور اپنی تصانیف اور لٹریچر سے ہم کو ایک اچھا مسلمان اور ہندستان کے لئے ایک اچھا شہری بننے میں بہت مدد دی ہے- (سرفراز الدین، ٹیلر ماسٹر، بنگلور)
جواب
یہ تحریر اِس بات کی ایک اچھی مثال ہے کہ دعوت کا نشانۂ عمل متلاشی افراد (individual seekers) ہیں، نہ کہ بھیڑ ایکٹوزم (crowd activism) ، یعنی متلاشی افراد کو لے کر اُن پر محنت کرنا، نہ کہ بھیڑ اکھٹا کرکے اُن کے سامنے تقریریں کرنا-
ہر سماج میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جن کے اندر روحِ تجسس (spirit of inquiry) پائی جاتی ہے، جو افکار کے جنگل میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سچائی کیا ہے- دعوت کا عمل ابتداء ً عمومی انداز میں شروع ہوتا ہے، لیکن اِس عمل کا مقصد متجسس افراد کو دریافت کرنا ہے- جب داعی کو ایسے افراد مل جائیں تو اس کو چاہئے کہ وہ ایسے افراد پر اپنی ساری طاقت خرچ کرے-
اِس معاملے میں داعی کا مزاج چیونٹی جیسا مزاج ہوتاہے- چیونٹی جب کسی ڈھیر کو پاتی ہے تووہ یہ نہیں دیکھتی کہ وہاں دوسری کیا کیا چیزیں موجودہیں- وہ صرف شکر (sugar)کے دانوں کو دیکھتی ہے اور اپنی پوری توجہ شکر کے اِنھیں دانوں پر لگا دیتی ہے- یہی داعی کا طریقہ ہے- داعی کو چاہئے کہ وہ اِسی چیونٹی کلچر کو اختیار کرے-
اجتماعی حالات خواہ کتنے ہی زیادہ بگڑے ہوئےہوں، لیکن ہر سماج میں متلاشی حق افراد ضرور موجود ہوتے ہیں- ایسے ہی افراد داعی کا اصل سرمایہ ہیں- یہ افراد تعلیم یافتہ بھی ہوسکتے ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی- وہ سند اور ڈگری رکھنے والے بھی ہوسکتے ہیں اور سند اور ڈگری نہ رکھنے والے بھی— مذکورہ خط اِس معاملے کی ایک اچھی مثال ہے-
واپس اوپر جائیں