Pages

Monday 1 April 2013

Al Risala | April 2013 (الرسالہ،اپریل)

2

-اسلام کی دریافت

20

- ہدایت اور اظہارِ دین

27

- دعوہ ایکٹوزم


اسلام کی دریافت

قرآن کی سورہ المائدہ میں ایک آیت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دورِ آخر میں نازل ہوئی- اس کا ایک حصہ یہ ہے: اَلْیَوْمَ یَىِٕسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ ۭ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(5:3) یعنی آج منکر تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے، پس تم ان سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو- آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا-
قرآن کی اِس آیت میں اکمالِ دین یا تکمیلِ دین (completion of religion) سے مراد فہرستِ احکام کی تکمیل نہیں ہے اور نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اسلام حکومتی معنوں میںغالب ہوگیا ہے- اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسلام کی راہ کے موانع (obstacles) ختم ہوگئے- خود آیت کے الفاظ سے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے- کیوں کہ آیت میں اکمالِ دین کا مطلب یہ بتایا گیاہے کہ اب خشیتِ انسانی (human fear) کا دور ختم ہوگیا- اب خدا کے دین کے حق میں ایسے اسباب جمع ہوگئے ہیں جو اُس کو اِس سے محفوظ کردیتے ہیں کہ وہ ماضی کی طرح انسانی رکاوٹوں اور مذہبی جبرکا شکار بنے-
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں ہزاروں سال کے درمیان مسلسل پیغمبر آتے رہے (23:44) - مگر جیسا کہ معلوم ہے، کسی بھی پیغمبر کی تعلیمات محفوظ نہ رہ سکیں، حتی کہ اِن پیغمبروں کا مدوّن تاریخ (recorded history) میں کوئی ریفرنس بھی موجود نہیں- اِس کا سبب یہ تھا کہ پیغمبروں کے مشن کو محفوظ رکھنے کے لیے جو تائیدی عناصر (supporting elements) درکار تھے، وہ ان کو حاصل نہ ہوسکے- پیغمبر آخر الزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب کے ساتھ اللہ تعالی نے اِن تائیدات کو جمع کردیا- اِس طرح یہ ممکن ہوا کہ آپ کی تعلیمات ابدی طورپر محفوظ ہوجائیں- قرآن کی مذکورہ آیت میں اِسی معاملے کو اِن الفاظ میں بیان فرمایا کہ اب خدا کا دین خشیتِ انسانی کے دور سے باہرآگیا ہے-
پچھلے پیغمبروں کی تعلیمات کے محفوظ نہ ہونے کا سبب کیا تھا، اس کا سبب یہ تھا کہ حفاظت کا یہ کام اسباب کے ذریعے ہوسکتا تھا- مگر پچھلے پیغمبروں کے ساتھ یہ اسباب جمع نہیں ہوئے- مثلاً کسی پیغمبر کا کام یا تو شخصی اعلان تک محدود رہا، یا یہ ہوا کہ صرف چند افراد اُن کا ساتھ دینے والے بنے، اور صرف چند افراد حفاظتِ دین کے لیے کافی نہیں- اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے ساتھ ایک خصوصی معاملہ یہ کیا کہ پیشگی طورپر ایک موافق نسل تیار کی- نسل سازی کا یہ کام حضرت ابراہیم اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کے ذریعے عرب کے صحرا میں کیا گیا-
عرب کے صحرا میں نسل سازی کا یہ مشن تقریباً ڈھائی ہزار سال تک چلتا رہا، اس کے بعد ایک نئی نسل تیار ہوئی جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے- اِسی نسل میں 570 عیسوی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے- اِس نسل کے درمیان آپ نے پیغمبر کی حیثیت سے تقریباً 23 سال تک کام کیا- ان میں سے عورتوں اور مردوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے دین میں داخل ہوگئی- اِس طرح وہ گروہ بنا جس کو اصحاب کہاجاتا ہے- ایک اندازے کے مطابق، اصحابِ رسول (عورت اور مرد) کی تعداد تقریباً 2 لاکھ تھی- اصحابِ رسول کی اِسی جماعت کے ذریعے وہ موافق اسباب فراہم ہوئے جن کو ہم نے تائیدی عناصر (supporting elements) کا نام دیا ہے-
اصحابِ رسول کا رول
اصحابِ رسول کی یہی جماعت ہے جس نے پہلی بار اِس کو ممکن بنایا کہ خدا کے دین کا ایک محفوظ ایڈیشن تیار ہوگیا- اِس سلسلے میں اصحابِ رسول کے رول کے مختلف پہلو ہیں- اِس کا ایک پہلو یہ ہے کہ پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک تاریخی شخصیت بن جائے- قدیم دور میں جو پیغمبر آئے، اُن کی تعداد روایات میں تقریباً ایک لاکھ 24 ہزار بتائی گئی ہے، لیکن معروف تاریخی معیار کے مطابق، اِن میں سے کسی بھی پیغمبر کی حیثیت ’’تاریخی پیغمبر‘‘ کی نہیں ہے، حتى کہ حضرت مسیح جو پیغمبر اسلام سے قریب تر زمانے میں آئے، ان کے بارے میں بھی برٹرینڈ رسل (وفات: 1970) نے لکھا ہے کہ — تاریخی طورپر یہ امر سخت مشتبہ ہے کہ مسیح کا کبھی وجود بھی تھا:
Historically, it is quite doubtful whether Christ ever existed at all. (Why I Am Not A Christian, 1967, Touchstone, UK, p. 266)
تاریخ میں پیغمبروں کا اندراج نہ ہونے کا سبب کیا تھا- اِس کا سبب تاریخ نگاری کا قدیم ذوق تھا- ابن خلدون (وفات: 1406) سے پہلے ، تاریخ کو بادشاہوں کی تاریخ کے ہم معنی سمجھا جاتا تھا- قدیم پیغمبروں کے ساتھ چوں کہ حکومت اور سیاست کے واقعات جمع نہیں ہوئے، اِس لیے ان کو تاریخی طورپر ناقابلِ ذکر سمجھ لیا گیا-
اِس صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالی نے گویا مورخین (historians) کی ایک نئی نسل (generation) تیار کی- یہ صحابہ اور تابعین تھے جنھوںنے اِس معاملے میں عملاً وہ رول انجام دیا جس کو اِس سے پہلے پروفیشنل مورخین انجام دیتے تھے- صحابہ اور تابعین نے پیغمبر اسلام اور آپ کی تعلیمات سے متعلق تمام واقعات کا مستند ریکارڈ تیار کیا، پہلے حافظے کی صورت میں اور پھرتحریر کی صورت میں- یہی وہ محفوظ ریکارڈ ہے جس کو آج قرآن اور حدیث اور سیرت کے نام سے جانا جاتا ہے-
یہ ریکارڈ پہلے صحابہ کے ذریعے تیار ہوا، پھر تابعین اور تبع تابعین کے ذریعے اس کا تسلسل جاری رہا- اِسی طرح امت کی بعد کی نسلوں نے اِس کام کی تدوین میں مزید کارنامے انجام دیے- یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاںتک کہ اٹھارھویں صدی عیسوی میں پریس کا دور آگیا- اب پیغمبر اسلام اور آپ کے متعلق تمام معلومات کا تاریخی ریکارڈ مطبوعہ کتابوں کی صورت میں محفوظ ہوگیا- اِس طرح ایسا ہوا کہ پیغمبر اسلام کو استثنائی طورپر ایک مستند تاریخی پیغمبر کا درجہ حاصل ہوگیا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس حیثیت کا اعتراف خود سیکولر مورخین نے کھلے طورپر کیا ہے- مثال کے طورپر فرانسیسی مستشرق ارنسٹ ریناں (Joseph Ernest Renan)جس کی وفات 1892 میں ہوئی، اس نے 1851 میں ایک مقالہ شائع کیا- اس کا عنوان یہ تھا:
Muhammad and the Origins of Islam.
اِس مقالے میں ارنسٹ ر یناں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کا کھلا اعتراف کرتےہوئے لکھا تھا کہ— بڑے مذاہب کے دوسرے بانیوں کے برعکس، پیغمبر محمد واحد شخص ہیں جوکہ تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے:
Unlike the other founders of major religions, the Prophet Muhammad was born in the full light of history.
پیغمبر اسلام کا مشن
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی مشن کیا تھا، اس کو قرآن کی دو آیتوں میں اِس طرح بیان کیا گیاہے: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ ۭ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ، ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (61:8-9) یعنی وہ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنی پھونک سے بجھا دیں، حالاں کہ اللہ اپنے نور کو ضرور مکمل کرے گا، خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو- اللہ ہی نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ، تاکہ وہ اس کو تمام دین پر غالب کردے، خواہ یہ مشرکوںکو کتنا ہی ناگوار ہو-
قرآن کی اِن آیتوں میں دولفظ استعمال کیے گئے ہیں: ہدى اور دین- اِسی کے ساتھ اِن میں دو اور لفظ استعمال کیے گئے ہیں: اتمام اور اظہار- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اتمام کا تعلق ہدى سے ہے اور اظہار کا تعلق دین سے- اِس میں دراصل اللہ کے دو مطلوب کا ذکر ہے- ایک ہے، نورِ ہدایت کا اتمام، اور دوسرا ہے، دین خداوندی کا اظہار وغلبہ-
نورِ ہدایت کیا ہے، وہ اصلاً دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے- یہ دوچیزیں قرآن اور سنتِ رسول ہیں- قرآن، اللہ کے دین کا نظریاتی متن(ideological text) ہے- اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ قرآن کا مستند ہدایت نامہ اپنی کامل صورت میں محفوظ ہوجائے، تاکہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے وہ خدائی ہدایت کو جاننے کا مستندذریعہ ہو- اِس مطلوب الہی کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (15:9) یعنی قرآن کو ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں-
قرآن کی حفاظت مکمل طورپر ایک پرامن کام تھا- اللہ تعالی نے ایسے اسباب پیدا کیے کہ قرآن کامل طورپر ایک محفوظ کتاب بن جائے، تاکہ وہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے خدا کی ہدایت کو معلوم کرنے کا مستند ماخذ بن سکے- یہ کام مکمل طورپر انجام پاگیا- اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج پریس کے دورمیں قرآن کے چھپے ہوئے نسخے تمام دنیا میں اس طرح موجود ہیں کہ ہر عورت اور مرد جب چاہے، اس کو حاصل کرسکے-
حفاظتِ قرآن کے اِس واقعے کا اعتراف سیکولر محققین نے بھی کھلے طورپر کیا ہے- مثال کے طورپر اسکاٹش مستشرق سر ولیم میور (Sir W. Muir)جس کی وفات 1905 میں ہوئی، اس نے قرآن کی بابت لکھا ہے کہ — غالباً دنیا میں کوئی دوسری کتاب ایسی موجود نہیں جو کہ 12 صدیوں تک اپنی کامل حفاظت کو برقرار رکھے:
There is probably, in the world, no book which has remained for 12 centuries with so pure a text.
(The Life of Muhammad from Original Sources, p. xxiii)
قرآن کے بعد، خدا کے نورِ ہدایت کا دوسرا جز وہ ہے جس کو قرآن میں پیغمبر خدا کا اسوہ حسنہ (33:21) کہاگیا ہے، یعنی عملی اعتبار سے خدا پرستانہ زندگی گزارنے کا مستند نمونہ - پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک پُرازواقعات زندگی (eventful life) تھی- آپ کی زندگی میں ہر طرح کے حالات پیش آئے-آپ نے ہر صورت حال میں خدا پرستانہ زندگی کا عملی نمونہ قائم کیا- آپ کے اِس اعلی نمونے کو قرآن میں خلقِ عظیم (68:4) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- پیغمبراسلام کی زندگی کے یہ نمونے حدیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں-
اسلام کا یہ پہلو اتنا زیادہ واضح ہے کہ سیکولر مورخین نے بھی کھلے طورپر اس کا اعتراف کیا ہے- اس کی ایک مثال برٹش اسکالر ڈیوڈ جارج ہاگرتھ(David George Hogarth) ہے، جس کی وفات 1927 میں ہوئی- اس نے اپنی ایک کتاب میں پیغمبر اسلام کے بارے میں لکھا ہے کہ — پیغمبر اسلام کا روز مرہ کا سلوک خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس نے ایسی حیثیت اختیار کرلی جس کی اب تک لاکھوں لوگ اہتمام کے ساتھ پیروی کررہے ہیں- انسانی نسل کے کسی طبقے کا کوئی آدمی یہ درجہ حاصل نہ کرسکا کہ ایک معیاری انسان کی حیثیت سے اِس طرح اس کا کامل اتباع کیا جائے:
Serious or trivial, his daily behaviour has instituted a course which millions observe at this day with conscious mimicry. No one regarded by any section of the human race as perfect man has been imitated so minutely. (Arabia, p. 52)
ہُدى سے مراد نظریاتی ماڈل ہے- خدا کی ہدایت کا یہ نظریاتی ماڈل قرآن اور سنتِ رسول کی شکل میں مستند طور پر محفوظ ہوگیا ہے- یہ نظریاتی ماڈل اب ہمیشہ کے لیے پیغمبر کا بدل ہے-
اظہارِ دین
قرآن کی مذکورہ آیتوں میں دو چیزوں کا ذکر ہے — ہدی اور دین- دونوں کی حیثیت ایسے مطلوب کی ہے جن کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے ذریعے حاصل کرنا مقدر تھا- لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے- ہدی سے مراد ایک نظریاتی مطلوب ہے، اور دین سے مراد ایک عملی مطلوب- جب قرآن کا متن محفوظ ہوگیا اور پیغمبر اسلام کا ماڈل حدیث اور سیرت کی کتابوںکے ذریعے مستند طورپر مدوّن ہوگیا تو اس کے بعد وہ مطلوب آخری طور پر حاصل ہوگیا جس کو آیت میں ہدى کے لفظ میں بیان کیاگیا تھا- اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے سے اپنی ہدایت کا مستند ماخذ تیار کردیا- اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اِس خدائی ماخذ سے اپنے لیے ہدایت حاصل کرتا ہے یا ہدایت حاصل نہیں کرتا-
اظہارِ دین کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- اِس معاملے میں اظہار، یعنی غلبہ مطلوب ہے، نہ کہ صرف نظریاتی معیار کا وجود میں آنا- اِس لیے اظہارِ دین سے ایک ایسا مطلوب مراد لیاجائے گا جو بالفعل وقوع میں آیا- بالفعل وقوع میں آنے سے کم درجے کی کوئی چیز اس کی تفسیر نہیں بن سکتی- اِس آیت میں اظہارِ دین سے حکومتی نظام یا قانونی نظام مراد نہیں لیاجاسکتا- اِس لیے کہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں یا آپ کے بعد کامل معنوں میں ایسا کوئی نظام نہیں بنا اور نہ بن سکتا ہے، اِس لیے کہ اِس دنیا کو اللہ تعالی نے انسانی آزادی کے اصول پر بنایا ہے (فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ)- ایسی حالت میں یہ ممکن ہی نہیں کہ یہاں معیاری معنوں میں کوئی کامل نظام بنایا جاسکے- امتحان کی مصلحت کے تحت دی ہوئی انسانی آزادی اِس طرح کے معیاری نظام کو قائم کرنے میں حتمی طورپر مانع ہے- اِس دنیا میں جب آئڈیل کا حصول ممکن نہیں تو آئڈیل کے حصول کو نشانہ بنانا بھی درست نہیں ہوسکتا-
ایسی حالت میں، اظہارِ دین کی آیت میں دین کے اظہار کی ایسی تفسیر کرنی پڑے گی جو عملی طورپر وقوع میں آئی ہو- اِس اعتبار سے غور کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اِس آیت میں دین سے مراد شرعی دین نہیں ہے، بلکہ فطری دین ہے، اور اظہارِ دین کا مطلب ہے انسانی زندگی میں خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، حالتِ فطری کا قائم ہوجانا- دین کا یہ مفہوم قرآن کی ایک اور آیت میں موجود ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں:اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ (3:83)- اِس آیت میں دین سے مراد دینِ شرعی نہیں ہے، بلکہ دینِ فطری ہے، یعنی وہ دین جس پر تمام کائنات بالفعل قائم ہے-یہ دین فطری کیا ہے، وہ قرآن کی اِس آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ(67:2) یعنی اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سےکون اچھا کام کرتا ہے- اور اللہ بہت زبردست ہے، بخشنے والا ہے-
اصل یہ ہے کہ اللہ نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کو پیدا کرکے سیارہ ارض پر بسایا- انسان کو زمین پر بسانا بطور امتحان (test) تھا، تاکہ امتحانی حالات سے گزار کر احسن العمل افراد کا انتخاب کیا جائے، یعنی ایسے عورت اور مرد کا انتخاب جنھوں نے کامل آزادی کے باوجود اپنے آپ کو پوری طرح حدودِ الہی کا پابند بنایا، جنھوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) نہیں کیا- یہی منتخب افراد وہ لوگ ہیں جن کو پوری تاریخ سے لے کر ابدی جنتوں میں بسایا جائے گا- زمین پر یہ آزادانہ ماحول اللہ کو لازمی طور پر مطلوب ہے- آزادی کے اِس نظام کو کوئی بھی شخص یا گروہ اگر منسوخ (abolish) کرے تو اللہ ہر گز اس کو قبول نہیں کرے گا، وہ ایسے افراد یا گروہ کا لازما خاتمہ کردے گا-
بادشاہت کے نظام کا خاتمہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 610 عیسوی میں ہوئی- اُس وقت یہ حال تھا کہ ساری دنیا میں کچھ انسانوں نے بادشاہت کا نظام قائم کردیاتھا- یہ شاہی نظام عملاً جبریت (despotism) کے ہم معنی تھا- اِس نظام نے انسانوں سے اُس آزادی کو چھین لیا تھا جو اللہ نے ان کو عطا کی تھی- یہ صورتِ حال اللہ کو مطلوب نہیں تھی، کیوں کہ وہ اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کی منسوخی کے ہم معنی تھا- اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ اِس جابرانہ نظام سے ٹکرا کر اس کو ختم کردیں، تاکہ دنیا میں دوبارہ اللہ کی مطلوب حالتِ فطری قائم ہوجائے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اُس زمانے میں ایک طرف عرب میں ملکی سطح پر قبائلی نظام تھا- اِس قبائلی نظام نے بھی عملاً انسانی آزادی کو ختم کررکھا تھا- اِس صورتِ حال کا اشارہ قرآن کی مختلف آیتوں میں کیاگیا ہے- مثلاً: اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْہٰى عَبْدًا اِذَا صَلّٰى (96:9) یعنی کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جو منع کرتا ہے، ایک بندے کو جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو-
پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کا پہلا ٹکراؤ اس قبائلی نظام سے ہوا-اِس کے نتیجے میںمحدود نوعیت کی کچھ جنگیں (limited wars) پیش آئیں- آخر کار8ہجری میں مکہ فتح ہوا، جو عرب کے قبائلی نظام کا مرکز تھا- فتح مکہ کے بعد سارے عرب میں قبائل کا زور ٹوٹ گیا اور آزادی کی حالت قائم ہوگئی-فتح مکہ کے بعد اصحاب رسول کو غلبہ حاصل ہوگیا- اِس غلبہ کا مرکز مدینہ تھا- یہ غلبہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے حکومت قائم ہونے کے ہم معنی نہ تھا، بلکہ وہ صرف یہ تھا کہ انتظامیہ (administration) قبائلی سرداروں کے ہاتھ سے نکل کر اصحابِ رسول کے ہاتھ میں آگیا-
اِس اعتبار سے دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ عرب کے باہر اُس وقت دو بڑی شہنشاہتیں (empires) قائم تھیں — ایک، ساسانی ایمپائر(Sassanid empire) اور دوسرے، بازنتینی ایمپائر (Byzantine empire) - ساسانی ایمپائر کا دار السلطنت عراق کا قدیم شہر ساسانیان (Ctesiphon) تھا اور بازنتینی ایمپائر کا دار السلطنت ترکی کا شہر قسطنطنیہ (Constantinople) تھا- ساسانی ایمپائر دراصل اُس وقت کے رومن ایمپائر کا مشرقی بازو (eastern wing) تھا- یہ دونوں ایمپائر عرب کے قریب واقع تھے اور وہ اُس وقت کی دنیا میں بادشاہت پر مبنی جبری نظام کے نمائندے بنے ہوئے تھے- اِن دونوں ایمپائر نے اللہ کی دی ہوئی آزادی کو عملاً منسوخ کر رکھا تھا، جو کہ اللہ کو کسی حال میں مطلوب نہ تھا- بازنتینی سلطنت کا اقتدار 15 ملکوں پر تھا- اس کا خاتمہ 678 عیسوی میں ہوا- اور ساسانی سلطنت کا اقتدار 13 ملکوں پر تھا- اس کا خاتمہ 651 عیسوی میں ہوا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن حکمرانوں کو اپنے نمائندوں کے ذریعے خطوط بھیجے- اِس کا مقصد یہ تھا کہ حکمراںپر امن طورپر اپنے جابرانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے تیار ہوجائیں، مگر ایسا نہ ہوسکا- ساسانی حکمراں نے آپ کے مکتوب کو اتنا حقیر سمجھا کہ اس نے اس کو پھاڑ کر پھینک دیا- اس کے بعد پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کا دونوں سے ٹکراؤ پیش آیا- اِس ٹکراؤ میں اللہ کی مدد پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کے ساتھ تھی، چناں چہ وہ پوری طرح کامیاب ہوئے-
یہ ایک عظیم تاریخی واقعہ تھا، جس نے انسانی تاریخ کے دھارے کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا- چناں چہ اللہ نے ایک اسرائیلی پیغمبرحبقّوق کے ذریعے اس کی پیشگی خبر دے دی تھی جو موجودہ بائبل میں بدستور موجود ہے- اِس پیشگی خبر کے الفاظ یہ ہیں — وہ کھڑا ہوا اور زمین تھرا گئی- اس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں- ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے- قدیم ٹیلے جھک گئے- اس کی راہیں ازلی ہیں:
He stood and measured the earth; He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered, the perpetual hills bowed. His ways are everlasting (Habakkuk 3:6)
مذکورہ بیان میں ’’وہ‘‘ سے مراد پیغمبر اسلام ہیں، اور ’’پہاڑیوں‘‘ سے مراد سیاسی پہاڑیاں ہیں، یعنی ساسانی ایمپائر اور بازنتینی ایمپائر- ’’اس کی راہیں ازلی ہیں‘‘ سے مراد ہے خدا کے دین کا ابدی طورپر محفوظ ہوجانا- بائبل کی یہ پیشین گوئی پیغمبر اسلام کے ذریعے کامل طورپر پوری ہوئی-
نئے دور کا آغاز
جبر پر مبنی مذکورہ دونوں سیاسی ایمپائر کا خاتمہ ساتویں صدی عیسوی میں ہوا- یہ دونوں ایمپائر آزادانہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے تھے- جب یہ دونوں ایمپائر ختم ہوئے تو دنیا میں آزادی کا ایک نیا دور آیا- اِس نئے دور کے حالات نہ صرف مسلم مورخین کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں، بلکہ سیکولر مورخین نے بھی کھلے طورپر اس کا اعتراف کیا ہے-
اِنھیں سیکولر مورخین میں سے ایک فرانسیسی مورخ ہنری پرین (Henri Pirenne) ہے، جس کی وفات 1935 میں ہوئی- ہنری پرین نے اپنے مطالعے کے نتیجے میں کھلے طورپر اِس تاریخی حقیقت کا اعتراف کیا ہے- ہنری پرین نے لکھا ہے کہ ساسانی ایمپائر اور بازنتینی ایمپائر نے دنیا میں مطلق شہنشاہیت (monarchical absolutism) کا نظام قائم کررکھاتھا- اصحابِ رسول نے اپنی غیرمعمولی قربانی کے ذریعے اِس نظام کو توڑ دیا- اِس واقعے کے نتیجے میں تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا- ہنری پرین کے الفاظ میں — اسلام نے زمین کے نقشے کو بدل دیا- تاریخ کے روایتی نظام کا خاتمہ ہوگیا:
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown. (History of Western Europe, p. 46)
ساتویں صدی عیسوی میں جب سیاسی جبر کے نظام کا خاتمہ کیا گیا تو اس کے بعد دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا- یہ انقلاب فوری نتیجے کے معنی میں نہ تھا، بلکہ وہ ایک پراسس (process) کی حیثیت رکھتا تھا- اِس کے بعد انسانی زندگی میں پہلی بار ایک نیا تاریخی عمل (historical process) شروع ہوا- یہ تاریخی پراسس برابر چلتا رہا، یہاںتک کہ وہ اپنے آخری نقطہ انتہا (culmination) تک پہنچ گیا- یہ آخری نقطہ انتہا وہی ہے جس کو عام طورپر مغربی تہذیب (western civilization) کہاجاتا ہے- اِس تاریخی عمل کے دو بڑے دھارے تھے — ایک، وہ جس کو جدید اصطلاح میں، جمہوریت (democracy) کہا جاسکتا ہے- اور دوسرا، وہ جس کو جدید ٹکنالوجی پر مبنی صنعت کہنا درست ہوگا-
عام طورپر مسلم علما مغربی تہذیب کے بعض ناپسندیدہ پہلو کو دیکھ کر اس کے بارے میں منفی ہوگئے ہیں، مگر یہ ناپسندیدہ پہلو دراصل مغربی تہذیب کا کلچرل پہلو ہے، وہی اصل مغربی تہذیب نہیں ہے- اصل مغربی تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہی چیز ہے جس کو ہم نے خدا کے دین کے حق میں تائیدی عنصر کی حیثیت سے بیان کیا ہے-
جمہوریت کا دور
اہلِ علم کے درمیان عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system) کے اعتبار سے جو ترقیاں ہوئی ہیں، اُن سب کی بنیاد جمہوریت ہے- سمجھا جاتاہے کہ یہ دراصل انقلاب فرانس (1789) تھا جس کے بعد دنیا میں جمہوریت کادور آیا، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ انقلا ب فرانس (French Revolution) ایک تاریخی عمل کا نقطہ انتہا تھا- یہ تاریخی عمل انقلاب فرانس سے بہت پہلے عرب میں اسلامی انقلاب کے بعد شروع ہوا-
قرآن میں اِس معاملے میں یہ اصولی حکم اِن الفاظ میں دیاگیا تھا: أَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ (42:38)یعنی وہ اپنا کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں:
Their affairs are decided by mutual consultation.
وہ چیز جس کو موجودہ زمانے میں نظام جمہوریت کہا جاتاہے، اُسی کو قرآن میں نظامِ شوری کہاگیا ہے- شورى کا یہ تصور اسلام کے اجتماعی نظام کی بنیاد ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کا جو اجتماعی نظام بنا، اس کو عام طورپر خلافت کہاجاتا ہے- اِس خلافت کا اگر دوسرا نام تجویز کرناہو تو یقیناً وہ جمہوری خلافت ہوگا-اِس معاملے کی ایک مثال خلیفہ ثانی عمر فاروق (وفات: 644ء) کا ایک واقعہ ہے- اِس واقعے کو یہاں نقل کیاجاتاہے:
’’خلیفہ دوم عمر فاروق کے زمانے میں عمروبن العاص مصر کے گورنر تھے- انھوں نے ایک بار گھوڑوں کی دوڑ کرائی- اِس دور میں گورنر کے بیٹے کا گھوڑا بھی شریک تھا، مگر جب دوڑ ہوئی تو ایک مصری (غیر مسلم) کا گھوڑا آگے بڑھ گیا- مصری نے فتح کے جوش میں کوئی ایساجملہ کہا جو گورنرکے صاحب زادے (محمد بن عمرو بن العاص) کو برا معلوم ہوا اور انھوں نے مذکورہ مصری کو کوڑے سے مار دیا- مارتے ہوئے ان کی زبان سے نکلا: خذہا وأنا ابن الأکرمین (یہ لو، اور میں شریفوں کی اولاد ہوں)- حضرت انس بن مالک اِس قصے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ مصری اِس کے بعد مصر سے چل کر مدینہ پہنچا اور خلیفہ عمر فاروق سے شکایت کی کہ گورنر کے لڑکے نے اس طرح اس کو کوڑے سے مارا ہے- حضرت عمر نے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو، اور فوراً اپنے ایک خاص آدمی کو مصر بھیجا کہ عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے محمد بن عمرو جس حال میں ہوں، اسی حال میں ان کو لے کر مدینہ آؤ- چناں چہ وہ لوگ مدینہ لائے گئے- جب وہ مدینہ پہنچے تو خلیفہ عمر نے فرمایا: أین المصری، دونک الدرة فاضرب بہا ابنَ الأکرمین(مصری کہاں ہے- یہ کوڑا لو اور اس سے شریف زادہ کو مارو)-اس کے بعد مصری نے کوڑا لیا اور گورنر مصر کے سامنے ان کے صاحب زادہ کو مارنا شروع کیا- وہ مارتا رہا، یہاں تک کہ ان کو زخمی کردیا- خلیفہ عمر درمیان میں کہتے جاتے تھے کہ شریف زادہ کو مارو- جب وہ خوب مار چکا تو خلیفہ عمر فاروق نے کہا کہ ان کے والد عمرو بن العاص کے سر پر بھی ایک کوڑا مارو، کیوں کہ خدا کی قسم، ان کے بیٹے نے صرف اپنے باپ کی بڑائی کے زور پر تم کو مارا(فواللہ ماضربک ابنہ إلا بفضل سلطانہ)- مصری نے کہا کہ اے امیر المومنین، جس نے مجھ کو مارا تھا، اس کو میں نے مارلیا- اِس سے زیادہ کی مجھے حاجت نہیں- خلیفہ عمر نے کہا: خدا کی قسم، اگر تم ان کو بھی مارتے تو ہم تمھارے اور ان کے درمیان حائل نہ ہوتے، یہاں تک کہ تم خود ہی ان کو چھوڑ دو- پھر آپ نے عمرو بن العاص سے مخاطب ہو کر فرمایا: یا عمرو، متى استعبدتم الناس وقدولدتہم أمہاتہم أحراراً (اے عمرو، تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا، حالاں کہ اُن کی ماؤں نے ان کو آزاد پیدا کیا تھا)‘‘- سیرة عمر بن الخطاب، علی محمد الصلاّبی (1/306)
ساتویں صدی عیسوی میں اسلامی انقلاب کے تحت پیدا ہونے والا یہ جمہوری پراسس (democratic process) تاریخ میں سفرکرتا رہا- آخری کار وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچا- خلیفہ عمر فاروق کے مذکورہ واقعے کے تقریباً 11 سو سال بعد فرانس کے جمہوری مفکر روسو (Jean Jacques Rosseau) نے اپنی مشہور کتاب سوشل کنٹریکٹ (Contract Social) 1762 میں شائع کی- اِس کتاب کا پہلا جملہ خلیفہ عمر فاروق کے قول کی بازگشت تھا- کتاب کا وہ پہلا جملہ یہ تھا — — انسان آزاد پیدا ہوا تھا، لیکن میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہوں:
Man was born free, but I see him in chains.
پیغمبر اسلام کی وفات کے تقریباً 30 سال بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ شورائی خلافت اپنے ڈھانچے کے اعتبار سے، ایک خاندانی خلافت بن گئی، لیکن اسلامی انقلاب کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ اِس ظاہری تبدیلی کے باوجود خلافت کا جمہوری مزاج بدستور باقی رہا- اِس معاملے کی بہت سی مثالیں تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں- بطور مثال یہاں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے-
ہارون رشید کا ایک واقعہ
ہارون رشید عباسی دور کا پانچواں خلیفہ ہے- وہ 766 میں پیدا ہوا اور 809 میں اس کی وفات ہوئی- اس کا ایک واقعہ اِن الفاظ میں نقل کیاگیا ہے: وذُکر أن یہودیاً کانت لہ حاجة عندہارون الرشید، فاختلف إلى بابہ سنةً ، فلم یقض حاجتہ، فوقف یوماً على الباب- فلما خرج ہارون سعى حتى وقف بین یدیہ وقال: اتق اللہ یا أمیر المؤمنین، فنزل ہارون عن دابتہ وخرّ ساجداً- فلما رفع راسہ أمر بحاجتہ فقضیت- فلما رجع قیل لہ: یا أمیر المؤمنین، نزلت عن دابتک لقول یہودیّ- قال: لا، ولکن تذکرتُ قولَ اللہ تعالى: وإذا قیل لہ اتق اللہ أخذتہ العزة بالإثم، فحسبہ جہنم، ولبئس المہاد- (تفسیر القرطبی، 19/3 ) یعنی کہا جاتا ہے کہ ایک یہودی تھا جس کو ہارون رشید سے ایک کام تھا- وہ شخص اِس کام کے لیے خلیفہ کے دروازے پر ایک سال تک جاتا رہا، مگر خلیفہ نے اس کی ضرورت پوری نہ کی، پھر ایک دن وہ یہودی، خلیفہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا- جب ہارون رشید باہر نکلا تو وہ شخص تیزی سے آکر خلیفہ کے سامنے کھڑا ہوگیا، اور کہا— اے امیر المومنین، اللہ سے ڈرئیے- یہ سن کر ہارون رشید اپنی سواری سے اترا اور سجدے میں گر پڑا- پھر ہارون رشید نے سجدے سے سراٹھایا اور اس نے حکم دیا اور یہودی کی ضرورت پوری کردی گئی- پھر جب ہارون رشید لوٹا تو اس سے کہا گیا کہ اے امیر المومنین، کیا آپ ایک یہودی کے قول پر اپنی سواری سے اتر گئے- ہارون رشید نے کہا کہ نہیں، بلکہ مجھے اللہ تعالی کا یہ قول یاد آیا: وإذا قیل لہ اتق الّلہ أخذتہ العزة بالإثم فحسبہ جہنم، ولبئس المہاد (2:206)
ساتویں صدی عیسوی میں اسلامی انقلاب آیا، اس کے بعد تاریخ میں جو پراسس جاری ہوا، اس کا دوسرا پہلو وہ تھا جس کو ہم نے جدید ٹکنالوجی پر مبنی صنعت کہا ہے- یہ دوسرا پراسس خاص طورپر عباسی عہد (750-1258)میں بغداد میں شروع ہوا، پھروہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اسپین پہنچا- اسپین میں اس نے غیر معمولی ترقی حاصل کی- اسپین کی مسلم خلافت 711 میں شروع ہوئی اور 1492میں ختم ہوئی- اِس مدت میں جو سائنسی ترقیاں ہوئیں، وہی مغرب کے صنعتی انقلاب کی بنیاد بنیں- مسلم خلافت کے زمانے میں سائنس میں جو ترقی ہوئی، اس کے بغیر مغرب میں سائنس کی ترقی ممکن نہ ہوتی- مورخین نے اس واقعے کا کھلے طور پر اعتراف کیا ہے- اس کی ایک مثال رابرٹ بریفالٹ (Robert Briffault)کی ہے- وہ فرانس میں پیدا ہوا اور لندن میں اس کی وفات ہوئی- بریفالٹ نے مغرب کی نشاةِ ثانیہ سے پہلے عربوں کے سائنسی رول کا اعتراف کرتےہوئے لکھا ہے کہ — یہ بہت زیادہ قابلِ قیاس بات ہے کہ عربوں کے رول کے بغیر یورپ کی جدید صنعتی تہذیب ہر گز کبھی وجود میں نہ آتی:
‘It is highly probable that but for the Arabs modern European civilization would never have arisen at all'. Robert Briffault (1876-1948)
(The Making of Humanity, p.190, published in 1919; publisher: G. Allen & Unwin Ltd, UK, pp. 371)
اس طرح کی رائیں کئی اور مغربی اسکالر وںنے دی ہیں- مثلاً برٹرنڈ رسل، فیلدنگ گیرسن (Fielding Garrison) برناڈلوئی (Bernard Lewis) ، وِل ڈیورنٹ(Will Durant)، وغیرہ-یہاں وِل ڈیورنٹ کا ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے:
Muslim scientists helped in laying the foundations for an experimental science with their contributions to the scientific method and their empirical, experimental and quantitative approach to scientific study. (The Age of Faith, by Will Durant (1980), 4/162
یعنی مسلم سائنس دانوں نے سائنٹفک طریقِ عمل میں اپنے کنٹری بیوشن اور اپنے تجرباتی اور کمیاتی منہج کے ذریعے سائنسی مطالعے کی بنیاد رکھنے میں مدد دی-
اسلامی تحریک اکیسویں صدی میں
قرآن کی مذکورہ آیات (61:8-9) سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے جو انقلاب مطلوب تھا، اُس انقلاب کے د و حصے تھے — ایک، اتمامِ نور، اور دوسرے، اظہارِ دین- اب اکیسویں صدی میں یہ دونوں مطلوب چیزیں پوری طرح واقعہ بن چکی ہیں- اِس طرح اب اسلامی تحریک اپنے فائنل دور میں پہنچ چکی ہے- اب فائنل رول اہلِ ایمان کو ادا کرنا ہے- اب اہلِ ایمان کا کام ہے کہ وہ اِس تاریخی انقلاب کو سمجھیں اور اس کے ذریعے پیدا ہونے والے امکانات (opportunities) کو بھر پور طورپر استعمال کریں-
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، اِس مطلوب خداوندی کا ایک پہلو وہ تھا جس کو قرآن میں، اتمامِ نور سے تعبیر کیاگیا ہے- اتمامِ نور سے مراد ایک ایسا واقعہ ہے جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے، پوری طرح ایک پرامن اورغیر سیاسی واقعہ ہے، اور وہ ہے خدا کے دین کے مستند ایڈیشن کا پوری طرح محفوظ ہو جانا- یہ واقعہ اِس طرح انجام پاچکا ہے کہ خدا کی کتاب( قرآن) کا متن (text) کامل طورپر محفوظ ہوچکا ہے- اِسی کے ساتھ پرنٹنگ پریس کا دور دنیا میں آگیا ہے- اِس طرح یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قرآن کا متن اور اس کے ترجمے تیار کرکے ہر زبان میں شائع کیے جائیں اور اس کو تمام اقوامِ عالم تک پہنچا دیاجائے-
اِس سلسلے میں دوسرا مطلوب وہ ہے جس کو قرآن میں اظہارِ دین کہاگیا ہے، یعنی دین کو غلبہ کی حیثیت مل جانا- یہ دوسرا مطلوب بھی اکیسویں صدی میں پوری طرح حاصل ہوگیا ہے- اب اہلِ ایمان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اظہارِ دین کے ذریعے حاصل ہونے والے مواقع کو بھر پوراستعمال کریں- جیسا کہ عرض کیا گیا، اظہار ِ دین سے مقصود یہ تھا کہ دنیا میں وہ حالتِ فطری قائم ہوجائے- یہ واقعہ بھی پوری طرح انجام پاچکا ہے- اب دنیا میں پوری طرح مذہبی آزادی آچکی ہے- کسی بھی رکاوٹ کے بغیر دنیا کے کسی ملک میںدعوتی مشن کو جاری کرنا ممکن ہوگیا ہے- اِس انقلاب کے بعد تاریخ میں پہلی بار یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ انسانی تاریخ میں تلوار کا دور ختم ہوگیا- اب صرف پُرامن عمل کا دور ہے- تاریخ کا یہ دور عین دعو تی مشن کے حق میں ہے-
اظہارِ دین، یعنی دنیا میں حالتِ فطری کے قائم ہونے کی بنا پر بہت سے موافق حالات وجود میں آئے ہیں- اِن میں سے دو بےحد اہم ہیں- ایک ہے، کائنات میں چھپی ہوئی اللہ کی نشانیوں کا دریافت ہوجانا- اور دوسرا ہے، جدید مواصلات (modern communication) جس نے تاریخ میں پہلی بار اُس عالمی مشن کو مکمل کرنے کا موقع فراہم کیا جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً(25:1)
آیاتِ الہی کا ظہور
آیات اللہ یا آیاتِ معرفت کا ظہور پیشگی طورپر مقدر تھا- قرآن میں اِس کی پیشین گوئی اِن الفاظ میں کی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ(41:53)- قرآن کی اِس آیت میں جس چیز کو آفاق وانفس میں نشانیوں کا ظہور بتایا گیا ہے، وہ دراصل دورِ جدید میں نظریاتی سائنس کے ذریعے دریافت ہونے والے حقائقِ فطرت ہیں- اِن حقائق نے دورِ جدید میںمعرفتِ خداوندی کے نئے دروازے کھول دئے ہیں-اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ اللہ کا کوئی بندہ تخلیقاتِ الہیہ میں کمالاتِ الہیہ کو دیکھے اور معرفتِ خداوندی کا اعلی درجہ حاصل کرے- نیز اِسی کے ذریعے یہ بھی ممکن ہوگیا ہے کہ اِن حقائق فطرت کو دعوت الی اللہ کے عمل میں جدید دلائل کے طورپر استعمال کیا جائے- اِس طرح دعوت کے عمل کو خود انسان کے علمی مسلّمہ کے مطابق، ثابت شدہ بنادیا جائے-
اِس سائنسی انقلاب کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو موجودہ زمانے میں دورِ مواصلات (age of communication) کہاجاتا ہے- اِس دورِ مواصلات نے تاریخ میں پہلی بار اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ دعوت الی اللہ کے اُس عالمی نشانے کو پورا کیا جاسکے جس کی پیشین گوئی ایک حدیث رسول میں اِن الفاظ میں کی گئی تھی : لایبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام، بعزّ عزیز وذلّ ذلیل ) زمین کی پشت پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر باقی نہیں رہے گا، جہاں اللہ اسلام کا کلمہ نہ پہنچا دے، عزت والے کو عزت کے ساتھ اور ذلت والے کو ذلت کے ساتھ،یعنی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے (willingly or unwillingly)-
دنیا میں حالتِ فطری کے قائم ہونے سے موجودہ زمانے میں جو نئے مواقع کھلے ہیں، وہ سارے انسانوں کے لیے ہیں- یہ ممکن نہیں ہے کہ اِن مواقع پر کسی ایک گروہ کی اجارہ داری (monopoly) قائم ہوجائے- خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، آزادی (freedom) ہر انسان کا فطری حق ہے، مومن کا بھی اور غیر مومن کا بھی- یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ آزادی صرف اہلِ ایمان کو حاصل ہو اور دوسرے لوگوں کے لیے وہ منسوخ قرار پائے- دوسرے لوگ بھی اپنی آزادی کو کھلے طورپر استعمال کریں گے- اگر کسی کے استعمالِ آزادی سے اہلِ ایمان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو یہ اہلِ ایمان کا اپنا مسئلہ ہے، وہ دوسروں کا مسئلہ نہیں- دوسروں پر صرف یہ پابندی لگائی جاسکتی ہےکہ وہ اپنی آزادی کو اِس طرح استعمال نہ کریں کہ وہ دوسروں کے لیے جسمانی جراحت (physical injury) کا سبب بن جائے- اِس ایک پابندی کے سوا، کوئی اور پابندی نہ مطلوب ہے اور نہ ممکن-
خلاصہ کلام
ایک اسلامی اسکالر کا مقالہ نظر سے گزرا- اِس مقالے میں انھوں نے لکھا تھا کہ اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ بنیادی طورپر دو ہے— توحید اور عدل- توحید (Monotheism) سے مراد ان کے نزدیک انفرادی عقیدہ تھا، اور عدل (justice) سے مراد عدل پر مبنی اجتماعی نظام- انھیں دو تصورات کے تحت انھوں نے پورے اسلام کی تشریح کی تھی-
مگر میرے مطالعہ کے مطابق، اسلام کا یہ تصور درست نہیں- حقیقت یہ ہے کہ توحید اورعدل دونوں ہی انفرادی نوعیت کے احکام ہیں- توحید سے مراد ہے ایک انسان کا انفرادی عقیدہ، اور عدل سے مراد ہے، ایک انسان کا انفرادی سلوک- قرآن کے مطابق، اللہ تعالی نے انسان کو معرفت کے لیے پیدا کیا ہے (51:56)- انسان کو اللہ تعالی نے عقل دی- اب انسان سے یہ مطلوب ہےکہ وہ عقل کو استعمال کرکے اپنے خالق کو دریافت کرے- یہی دریافت، خدا پرستانہ زندگی کا آغاز ہے- اِس دریافت کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے- جب کسی شخص کو حقیقی معنوں میں یہ دریافت ہوتی ہے تو اس کے بعد فطری طورپر اس کی پوری زندگی میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے- اس کی پوری شخصیت ایک نئی شخصیت بن جاتی ہے، وہ پورے معنوں میں ایک ربانی انسان بن جاتاہے-
اسی قسم کاربانی انسان تخلیق کا اصل مقصود ہے- اِسی قسم کے ربانی افراد، نہ کہ ربانی معاشرہ، خدا کے تخلیقی منصوبے کا اصل مقصود ہیں- موجودہ دنیا میں ایسےافراد پوری انسانی تاریخ سے منتخب کیے جائیں گے اور پھر اِن منتخب افراد کی بنیاد پر آخرت کی دنیا میں ایک اعلی ربانی معاشرہ وجود میں آئے گا- یہی وہ افراد ہیں جو خدا کی ابدی جنتوں میں جگہ پائیں گے-
خالق نے اِس دنیا میں انسان کو کامل آزادی دی ہے- یہ آزادی برائے امتحان ہے، نہ کہ برائے استحقاق- انسان کو یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے- یہ آزادی قیامت سے پہلے منسوخ ہونے والی نہیں- اِس آزادی کی بنا پر ایسا ہے کہ اِس دنیا میں اعلی افراد تو بنتے ہیں، لیکن اعلی معاشرہ یا اعلى نوعیت کا اجتماعی نظام کبھی نہیں بنتا- انسانی زندگی کی یہ نوعیت قیامت تک بدستور باقی رہے گی-قیامت کے بعد ایک نئی کامل دنیا بنے گی- وہاںپوری تاریخ کے منتخب افراد بسائے جائیں گے اور جو لوگ اپنی آزادی کا صحیح استعمال نہ کرسکے، اُن کو جمع کرکے کائناتی کوڑے خانے میں ڈال دیا جائے گا— خداکے تخلیقی منصوبے کے مطابق، انسانی زندگی کی حقیقت یہی ہے- انسانی زندگی کی بامعنی تعبیر صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ اِس خدائی منصوبے کو ذہن میں رکھ کر اس کی تعبیر کی جائے، انسانی تاریخ کو بامعنی تعبیر دینے کا دوسرا کوئی طریقہ نہیں-
واپس اوپر جائیں

ہدایت اور اظہارِ دین

قرآن کی سورہ الفتح کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا :
God is One Who has sent His Messenger with guidance and the true religion, so that God may have it prevail over all religions, God suffices as a witness. (48:28)
1- آیت کا اسلوب بتاتا ہے کہ اِس آیت میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ کوئی انسانی واقعہ نہیں، بلکہ وہ ایک حتمی فیصلہ ہے، یعنی اللہ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ لازماً ایساہو- مزید یہ کہ قرآن کی یہ آیت اُس فیصلہ خداوندی کے بارے میں ہے جس کا تعلق خاتم النبیین سے ہے اور چوں کہ خاتم النبیین کی نبوت قیامت تک کے لیے ہے، اِس لیے اِس فیصلے کا انطباق بھی لازماً قیامت تک جاری رہے گا- اِس آیت میں پیغمبریا امتِ مسلمہ کےمشن کو نہیں بتایا گیا ہے، بلکہ اس میں اللہ کے ایک فیصلے کو بتایا گیا ہے، جو پوری انسانی تاریخ میں لازماً ایک واقعہ بنے گا-
2- دوسری چیز ہدایت ہے- ہدایت سے مراد اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی الہامی ہدایت ہے- اِس الہامی ہدایت کے بارے میں اللہ کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ ہر اعتبار سے محفوظ رہے، اس کا عربی متن، اس کی زبان، اس کا لہجہ، حتی کہ اس کا طرزِ کتابت، وغیرہ- قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا- اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ کتاب (قرآن) ہر اعتبار سے محفوظ ہے- پرنٹنگ پریس اور ریکارڈنگ کا دور بتاتا ہے کہ اب قرآن کی یہ حفاظت مزید اضافے کے ساتھ یقینی بن چکی ہے-
3- اظہارِ دین سے مراد خود دین کا اظہار ہے، نہ کہ دین کے سوا کسی اور چیز کا اظہار- اِس آیت میں اظہارِ دین سے مراد سیاسی اقتدار یا اجتماعی نظام نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا دین بحیثیت دین ِ حق اپنے نظریاتی غلبہ کو ہمیشہ برقرار رکھے گا- یہ غلبہ بہ اعتبار حجت (دلیل) ہوگا، نہ کہ بہ اعتبار نظام-دینِ حق کے نظریاتی غلبہ کو ہمیشہ برقرار رکھنا تاریخ کا مشکل ترین منصوبہ ہے، کیوں کہ اِس مقصد کو اِس طرح حاصل کرنا ہے کہ انسان کی آزادی پوری طرح برقرار رہےاور اِس کے ساتھ دین کا نظریاتی غلبہ بھی مسلسل طورپر قائم رہے- اِس نوعیت کا پیچیدہ منصوبہ کسی بھی انسان کے بس میں نہیں- اِس مقصد کے حصول کےلیے انسانی تاریخ کو اِس طرح مینج (manage) کرنا ہے کہ تاریخ کا آزادانہ سفر بھی جاری رہے اور یہ مقصد بھی حسب منشا حاصل ہوجائے-
اِس مقصد کے لیے اللہ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب بھی کچھ لوگ بطور خود دینِ حق کا کوئی غلط ایڈیشن (false edition) تیار کریں تو اس کے بعد خود تاریخ میں ایسے اسباب پیدا ہوں جو اِس ایڈیشن کا خاتمہ کردیں اور اِس طرح دینِ حق کی صداقت بدستور برقرار رہے-تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام کے ظہور کے وقت سے اب تک ایسے 3 بڑے واقعات پیش آئے ہیں ، جب کہ انسان نے خود ساختہ طور پر دین کا ایک غلط ایڈیشن تیار کیا، لیکن اس کے بعد تاریخی عمل کے تحت ایسے حالات پیداہوئے جنھوںنے مذہب کے اِس غلط متبادل (wrong alternative) کو حجت (دلیل) کی سطح پر ختم کردیا- اِس طرح دین حق کی نظریاتی صداقت بدستور تاریخ میں قائم رہی-
تاریخ میں اِس نوعیت کی پہلی مثال مظاہر فطرت کی پرستش (nature worship) ہے جس کو مذہب کی زبان میں شرک کہاجاتا ہے- فطرت کی پرستش کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے مظاہر، سورج، چاند ستارے، وغیرہ میں خدائی صفات (divine attributes) کو فرض کرکے ان کی پرستش کرنا- مظاہر فطرت کی یہ پرستش قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک قائم رہی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اللہ تعالی نے تاریخ میں ایسا انقلابی عمل جاری کیا جس کے نتیجے میں آخر کار وہ دور آیا جس کو سائنسی دور کہاجاتا ہے- جدید سائنس کے ذریعے مظاہر فطرت کی موضوعی تحقیق (objective exploration) کی گئی- اِس کے نتیجے میں علمی طورپر یہ ثابت ہوگیا کہ فطرت میں کوئی اُلوہیت (divinity)نہیںہے- اِس طرح انسان کے خود اپنی عقلی مسلّمہ پر یہ ثابت ہوگیا کہ فطرت صرف مخلوق ہے، اس کے اندر کوئی بھی الوہی صفت (divine attribute) نہیں- اِس طرح، خداکے دین کا دینِ حق ہونا بدستور ثابت شدہ بنا رہا-
قدیم تاریخ میں دین حق کا دوسرا غلط متبادل (false alternative) شخصیت پرستی (personality cult) کی صورت میں پیدا ہوا- شخصیت پرستی کا سیاسی اظہار بادشاہت کے ادارہ کی صورت میں ہوا- بادشاہ کے متعلق مان لیا گیا کہ وہ دوسرے انسانوں کے مقابلےمیں، پراسرار فوقیت رکھتا ہے- اِس طرح بادشاہ کو عملاً وہ درجہ دے دیاگیا جو معبود کا درجہ ہونا چاہیے-یہ بادشاہت یا سیاسی شخصیت پرستی انسانی تاریخ میں کئی ہزار سال تک جاری رہی- بادشاہت کے دور میں انسانی سوچ کا مرکز ومحور بادشاہ بن گیا- اعلی انسانی جذبات بادشاہ کے ساتھ وابستہ کردئے گئے- عام طورپر یہ مان لیاگیا کہ — جو بادشاہ کا مذہب ، وہی سب کا مذہب (الناس على دین ملوکہم)
بادشاہت کے زمانے میں ساری دنیا میں زراعت کا دور قائم تھا- اُس زمانے میں زراعت (agriculture) اقتصادیات کا واحد ذریعہ تھی— زمین کا مالک ہونے کی بنا پر بادشاہ اقتصادیات کا واحد مالک بنا ہوا تھا- بادشاہ کو یہ حیثیت تھی کہ بادشاہ دینے والا ہے اور بادشاہ چھیننے والا- اُس زمانے میں بادشاہ کو عملاً وہ درجہ ملا ہوا تھا، جو درجہ خدا کا ہونا چاہیے- اِن حالات میں یہ تصور پیدا ہوا کہ بادشاہ حاکم (ruler) ہے اور دوسرے تمام لوگ محکوم (ruled) کی حیثیت رکھتے تھے- قدیم زمانے کی اِس نفسیات کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا:
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
اِس طرح بادشاہ گویا خدا کا ایک سیاسی متبادل (political alternative) بن گیا تھا- گویا دین باطل نے دین حق کی جگہ لے رکھی تھی- اللہ تعالی کو یہ صورتِ حال مطلوب نہ تھی، چناں چہ تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا- یہ عمل ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوا، جب کہ عرب میں قبائلی سرداری کا نظام رائج تھا اور عرب کے اطراف میں دو بڑے ایمپائر قائم تھے — ساسانی ایمپائر اور بازنتینی ایمپائر- بائبل کے الفاظ میں، یہ گویا سیاسی چٹانیں تھیں- رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے اِن سیاسی چٹانوں کو توڑ کر تاریخ میں ایک نیا سیاسی عمل جاری ہوا- یہ عمل سفر کرتے ہوئے آخرکار یورپ پہنچا- اِس سیاسی عمل کا نقطہ انتہا 1789 میں پیش آنے والا فرانسیسی انقلاب تھا-
اِس انقلاب کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا جس کو جمہوریت کہاجاتا ہے- جمہوریت نے شخصی بادشاہت کے تصور کا خاتمہ کردیا اور دنیا میں عوامی حکومت کا دور آیا، جس کا فارمولا یہ تھا:
Government of the people, by the people, for the people.
اِس جمہوری انقلا ب نے قدیم طرز کی شخصی بادشاہت (monarchy)کا خاتمہ کردیا، پہلے یورپ میں اور اس کے بعد ساری دنیا میں- اِس طرح دنیا میں بادشاہی مذہب کا خاتمہ ہوگیا اور نظری طورپر دین حق دوبارہ دنیا میں قائم ہوگیا- دین حق کا یہ قیام سیاسی اقتدار یا حکومتی نظام کے معنی میں نہ تھا، بلکہ وہ حجت کی سطح پر دین حق کا فکری اظہار تھا- یہ واقعہ اتفاقاً پیش نہیں آیا، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ تاریخ میں ایک عظیم خدائی آپریشن کا نتیجہ تھا-جمہوریت صرف ایک سیاسی نظریہ نہ تھا، اس کا ایک اور اہم تر پہلو یہ تھا کہ اس نے اُس سیاسی الوہیت (political divinity)کے تصور کا خاتمہ کردیا جس کو بنیاد بنا کر قدیم زمانے کے بادشاہ اپنی عظمت قائم کیے ہوئے تھے- جمہوری انقلاب کے بعد سیاسی اقتدارصرف ایک انتظامیہ (administration)بن کر رہ گیا، ایک مقدس ادارے کی حیثیت سے اس کا خاتمہ ہوگیا-
اِس سلسلے کی تیسری مثال وہ ہے جس کو ہیومن ازم (Humanism) کہاجاتا ہے- ہیومن ازم ایک جدید فلسفہ ہے جس کو دوسرےالفاظ میں، انسان پرستی کہاجاسکتا ہے- یہ دین حق کا آخری غلط متبادل ہے جو بیسویں صدی کے نصف آخر میں زیادہ طاقت کے ساتھ پیداہوا- یہی معاملہ وجودیت (Existentialism) کا ہے، جس کا بانی فرانسیسی فلسفی سارترے (Jean Paul Sartre) ہے جس کی وفات 1946 میں ہوئی- وجودیت بھی دراصل ہیومن ازم کا فلسفیانہ ایڈیشن ہے-
ہیومن ازم کیا ہے، ہیومن ازم ایک غیر خداپرستانہ فلسفہ ہے- ہیومن ازم ایک فکری نظام ہے جس کا مقصد ساری اہمیت انسان کو دینا ہے، نہ کہ خدا یا کسی فوق الفطری طاقت کو:
Humanism: An outlook or system of thought attaching prime importance to human, rather than divine or supernatural matters.
دورِ جدید کے بہت سے فلسفی ہیومن ازم کے نقطہ نظر کے حامی بن گئے- مثلاً جرمن فلسفی لدوگ فیور باخ (Ludwig Feverbach) جس کی وفات 1872 میں ہوئی، اس نے لکھا ہے کہ — انسان ہی خدا ہے- اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں:
God is nothing other than man himself.
امریکی فلسفی ولیم جیمس (William James) جس کی وفات 1910 میں ہوئی، وہ بھی ہیومن ازم کا حامی تھا، انگلش فلسفی جولین ہکسلے (Julian Huxley) جس کی وفات 1975 میں ہوئی، اس نے ہیومن ازم کی حمایت میں ایک کتاب لکھی- اس کا ٹائٹل یہ ہے:
Religion Without Revelation
اِس کتاب میں ہیومن ازم کی تعریف اِس طرح کی گئی ہے — سیٹ کا خدا سے انسان کی طرف منتقل ہوجانا(Transfer of seat from God to Man.)-
ہیومن ازم کے موضوع پر عام قاری کے لیے ایک قابلِ مطالعہ کتاب یہ ہے:
Humanism: A Very Short Introduction, by Stephen Law, 2011
بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہیومن ازم کے فلسفے کو کافی فروغ حاصل ہوا- لوگوں نے یہ فرض کرلیا کہ انھیں دین خداوندی کا ایک بدل مل گیا ہے- غیر خدا پرست طبقے میں یہ سمجھا جانے لگا کہ — انسان ہی ہر اعتبار سے سب کچھ ہے(Man is the measure of all things.)
مگر عین اِسی زمانے میں ایک نیا طاقت ور ظاہرہ پیدا ہوا جس نے ہیومن ازم کے تصور کو عملاً باطل ثابت کردیا- یہ طاقت ور ظاہرہ وہ تھا جس کو عام طورپر گلوبل وارمنگ کہاجاتا ہے، یعنی عالمی سطح پر حرارت کا غیر متناسب طورپر بڑھ جانا جس کے نتیجے میں زمین پر زندگی کا نظام درہم برہم ہوجائے-
موجودہ زمانے میں جدید ٹکنالوجی کے ظہور کے بعد انڈسٹری کو بہت ترقی ہوئی- مختلف ملکوں میں کثیر تعداد میں بڑے بڑے کارخانے قائم ہوئے- اِن کارخانوں کو چلانے کے لیے جو ایندھن (fuel) استعمال ہوتا تھا، اُس سے مسلسل طورپر بڑی مقدار میں کاربن خارج ہونے لگا- اِس اخراج کو کاربن ایمیشن (carbon emission) کہاجاتا ہے- اِس کاربن ایمیشن نے زمین کے اوپر قائم شدہ فضا کو خطرناک حد تک آلودہ بنا دیا-
اِس فضائی آلودگی یا فضائی حرارت کے نتیجے میں ;کئی ناقابلِ حل مسائل پیدا ہوگئے- اِس کے نتیجے میں برف کے بڑے بڑے ذخائر، پہاڑوں کے گلیشیر، نارتھ پول اور ساؤتھ پول کی آئس کیپ (ice cap) ، سمندروں میں تیرتے ہوئے برفانی پہاڑ(iceberg) تیزی سے پگھلنے لگے- اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ سمندروں کی سطح بڑھنے لگی- نازک حیوانات (fragile animals) مرنے لگے- اِس طرح کے واقعات کے نتیجے میں یہ ہوا کہ زمین پر قائم شدہ لائف سپورٹ سسٹم تباہ ہونے لگا، حتی کہ اب سائنس داں یہ خبر دے رہے ہیں کہ زمین بہت جلد انسان کے لیے ناقابلِ رہائش بن جائے گی-
اِس صورتِ حال کا پیدا ہونا کوئی سادہ واقعہ نہیں- یہ دراصل ہیومن ازم کے فلسفے کی موت کا اعلان ہے- ہیومن ازم کے فلسفے میں یہ مان لیا گیا تھا کہ انسان کائنات میں مرکزی مقام (central position) رکھتا ہے- انسان کی اِس حیثیت کو ماننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ مانا جائے کہ انسان کو ہر طرح کی قدرت حاصل ہے، انسان اپنے مستقبل کا مالک ہے- اگر انسان واقعةً اِس طرح کی طاقت رکھتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ موجودہ زمانے میں زمین پر واقع ہونے والی اُس انسان کُش تباہی کو روکے جو گلوبل وارمنگ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے- گلوبل وارمنگ کو روکنے میں انسان کی ناکامی نے ہیومن ازم کے فلسفے کا آخری طورپر خاتمہ کردیا ہے-
جب گلوبل وارمنگ کا ظاہرہ سامنے آیا تو تمام دنیا کی حکومتیں اور تمام دنیا کے سائنس داں بڑے پیمانے پر متحرک ہوگئے- کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں اِس موضوع پر ہونے والی کانفرنس (دسمبر2009) میں دنیا کے تمام ملکوں کے سائنس داں بڑی تعداد میں اکھٹا ہوئے - اِس طرح کی کوششیں حکومتوں کی طرف سے بھی کی جارہی ہیں اور سائنس دانوں کی طرف سے بھی- اِس موضوع پر تحقیقات اور تجربات کا سلسلہ ساری دنیا میں مسلسل طورپر جاری ہے، مگر نتیجے کے اعتبار سے وہ مکمل طورپر ناکام ثابت ہوا- گلوبل وارمنگ کا خطرہ مسلسل طورپر بڑھ رہا ہے- اب وہ خطرناک سطح تک پہنچ چکا ہے، مگر اُس کو روکنے کے لیے انسان کی ہر کوشش پوری طرح بے نتیجہ ثابت ہورہی ہے-
گلوبل وارمنگ کا یہ تجربہ کوئی سادہ واقعہ نہیں- وہ ہیومن ازم کے نظریے کے کامل اِبطال (total negation) کے ہم معنی ہے- حقیقت یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ کے ظاہرے نے اُسی طرح ہیومن ازم کے فکر کا خاتمہ کردیا ہے جس طرح اس سے پہلے فطرت پرستی کو سائنس نے ختم کیا تھا اور جمہوریت کے ذریعے بادشاہت کا خاتمہ کردیا گیا تھا-
موجودہ گلوبل وارمنگ بھی پچھلے خدائی آپریشن کی طرح ایک خدائی آپریشن ہے جس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دینِ حق کے لیے ہیومن ازم کا متبادل ایک بے بنیاد متبادل (false alternative)تھا- اِس طرح خدائی فیصلے کے مطابق، دین حق نے دوبارہ تاریخ میں فکری اظہار کا وہ درجہ حاصل کرلیا جو خدا نے اس کے لیے ابدی طورپر مقدر کیا تھا-
خلاصہ کلام
اوپر جو کچھ کہاگیا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن نے ساتویں صدی کے ربع اول میں یہ اعلان کیا تھا کہ خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت ہی مستند ہدایت (authentic guidance) ہے اور خدا کا دین ہی دینِ حق ہے- خدا نے یہ مقدر کر دیا تھا کہ خدا کی نازل کردہ ہدایت (قرآن) ابدی طور پر پوری طرح محفوظ رہے- تاریخ بتاتی ہے کہ ہدایت کے بارے میں خدا کا فیصلہ کامل طورپر پورا ہوا-
اِس سلسلے میں دوسری چیز خدا کا نازل کردہ دین ہے- خدا کی نظر میں یہی دین ہمیشہ کے لیے دین حق کی حیثیت رکھتا ہے- اِس دین کے بارے میں خدا کا یہ فیصلہ تھا کہ جب بھی انسان بطور خود اس کا کوئی غلط متبادل تیار کرے تو خود تاریخ میں ایسے اسباب پیدا ہوں جو مسلّمہ دلائل کی سطح پر اس کو غیرمعتبر ثابت کردیں- خداکے اِس فیصلے کا اظہار بھی تاریخ میں بار بار ہوتا رہا اور اب اکیسویں صدی میں جو صورتِ حال ہے، وہ یہ ہے کہ ہدایت اور دینِ حق دونوں کے معاملے میں انسان کے پاس کوئی دوسرا انتخاب باقی نہیں- اب حقیقت کے اعتبار سے، انسان کے لیے ایک ہی ممکن انتخاب ہے اور وہ وہی ہے جو خدا نے خاتم النبیین کی بعثت کے وقت اس کے لیے مقدر کردیا تھا-
واپس اوپر جائیں

دعوہ ایکٹوزم

From Political Activism to Dawah Activism
مشہور محدث امام مالک بن انس (وفات: 179 ہجری) کا ایک قول اِن الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: لا یصلح اٰخر ہذہ الأمة، إلا بما صلح بہ أولہا (مسند الموطأ، رقم الحدیث: 783) یعنی اِس امت کے دورِ آخر کے لوگوں کی اصلاح بھی اُسی طرح ہوگی، جس طرح اِس امت کے دورِ اول کے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی-
امت کے لیے یہ طریقہ اصلاح کیاہے، اس کا اندازہ رسول اور اصحابِ رسول کے دور کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے- رسول اور اصحابِ رسول کے دور کو اسلام کا دورِ اول کہا جاسکتا ہے- اِس دور میں جو کچھ پیش آیا، اس کی تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے- اِس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا- 13 سال تک آپ پُرامن انداز میں اپنے مشن کو چلاتے رہے- اِس مدت میں مکہ کے کچھ افراد نے اسلام قبول کیا، لیکن وہاں کی بڑی اکثریت آپ کی مخالف بن گئی- انھوںنے ہر صورت سے آپ کو ستانا شروع کردیا، یہاں تک کہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ رسول اور اصحابِ رسول یا تو مکہ سے ہجرت کرجائیں یا اہلِ مکہ کی طرف سے جارحانہ کارروائی کا سامنا کریں-
اُس وقت حضرت عمر فاروق اور دوسرے اصحاب نے کہا کہ اگر ہم سے جنگ کی جاتی ہے تو ہم جنگ کریں گے- پیغمبر اسلام نے حضرت عمر فاروق کو مخاطب کرتےہوئے فرمایا: یا عمر، إنا قلیل (سیرت ابن کثیر: 1/441) یعنی اے عمر، ہم تھوڑے ہیں- پیغمبر اسلام کا یہ جواب کوئی سادہ جواب نہ تھا- اِس کا مطلب یہ تھا کہ ابھی فریقِ ثانی کے ساتھ ٹکراؤ کا وقت نہیں آیا- اللہ کے منصوبے کے مطابق، یہ ایک قبل از وقت بات ہوگی کہ ہم فریقِ ثانی سے لڑ جائیں- ابھی ہمیں صبر کرتے ہوئے حالات کو اُس نوبت تک پہنچانا ہے جہاں اللہ اُس کو پہنچانا چاہتا ہے-
دعوت اور نصرت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اِس معاملے میں جو ماڈل (model) قائم ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ پیغمبرانہ مشن کے دو بڑے حصے ہیں- پہلے حصے کا عنوان دعوت ہے، اور دوسرے حصے کا عنوان نصرت، یعنی اہلِ ایمان کو یہ کرنا ہے کہ پہلے وہ احساسِ ذمے داری کے تحت، دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں- وہ آخری حد تک پرامن رہتے ہوئے اپنے دعوتی مشن کو جاری رکھیں- وہ کسی حال میں رد عمل یا ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کریں- اِس کے بعد اہلِ ایمان کے ساتھ جو کچھ ہوگا، وہ تمام تر اللہ کی نصرت کے تحت ہوگا- اللہ کی نصرت کے تحت اہلِ ایمان کے لیے مزید مواقع کھلتے چلے جائیں گے- اہلِ ایمان کا کام یہ ہے کہ وہ اِن مواقع کو پہچانیں اور دانش مندانہ طورپر ان کو استعمال کریں، یہاں تک کہ ان کا سفرِ دعوت اپنی آخری منزل تک پہنچ جائے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو نمونہ قائم ہوا، اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں نصرتِ الہی کے ظہور کے تین مرحلے ہیں- وہ مرحلے حسب ذیل ہیں:
1- نصرت باعتبارِ حفاظت (Nusrat in terms of security)
2- نصرت باعتبارِ پراسس (Nusrat in terms of process)
3- نصرت باعتبارِ فتح (Nusrat in terms of victory)
4- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں اپنا دعوتی مشن شروع کیا تو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو یہ ہدایت دی گئی: یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۝ قُمْ فَاَنْذِرْ ۝ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ۝ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ۝ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ ۝ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرْ ۝ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ (74:1-7)- یہ قرآن کی سورہ المدثر کی ابتدائی آیتیں ہیں- یہ سورہ اگر چہ بالکل ابتدا میں نازل ہوئی، لیکن تلاوت کی ترتیب کے اعتبار سےوہ مصحف کے آخری حصے میں شامل ہے- اِن آیات میں پیغمبر اسلام کو جو ہدایت دی گئی، اس کا مطلب یہ تھا کہ تم پُر امن انداز میں دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہو- مشن کے بقیہ مراحل کا تعلق تمام تر اللہ کی نصرت سے ہے- تم انتظار کی پالیسی پر قائم رہو اور جب اللہ کی نصرت ظاہر ہو تو تم اس کے مطابق، اُس کو استعمال کرو-
نصرت باعتبارِ حفاظت
جیسا کہ عرض کیاگیا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610عیسوی میں مکہ میںاپنا دعوتی مشن شروع کیا- آپ نے یک طرفہ طورپر امن کی روش اختیار کرتےہوئے اپنے مشن کو جاری رکھا- اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا- انھوںنے آپ کے ساتھ مخالفت کا طریقہ اختیار کیا- جب حالات بہت زیادہ شدید ہوگئے، اُس وقت بھی آپ نے ٹکراؤ سے مکمل اعراض کیا- یہاںتک کہ نبوت کے 13 سال بعد آپ مکہ چھوڑ کر مدینہ آگئے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ آپ نے اور آپ کے اصحاب نے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ اپنے مقامِ عمل (work place) کو بدل دیا-
واقعات بتاتے ہیں کہ ہجرت کے بعد بھی مکہ کے مشرک سردار خاموش نہیں ہوئے، بلکہ انھوںنے یک طرفہ طورپر مسلّح جارحیت کا طریقہ اختیار کیا- انھوںنے باقاعدہ جنگی تیاری کرکے مدینہ پر حملہ کردیا- یہ واقعہ پیغمبر اسلام کی ہجرت کے 16 ماہ بعد پیش آیا- مدینہ سے تقریباً 80 میل دور بدر کے مقام ~پر دونوں فریقوں کے درمیان جنگ ہوئی- اِس جنگ کو تاریخ میں غزوہ بدر کہاجاتا ہے- یہ صرف یک روزہ جنگ تھی جو 17 رمضان 2 ہجری کو پیش آئی- اِس جنگ میں فریق ِ مخالف کی طرف سے ایک ہزار مسلح افراد تھے جو پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے- دوسری طرف 313 کی تعداد میں اصحابِ رسول تھے، جو کم تر جنگی تیاری کے باوجود اپنے دفاع کے لیے بدر کے مقام پر پہنچے تھے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفسہ عملاً اِس جنگ میں شریک نہ تھے- البتہ آپ کے لیے میدانِ جنگ سے باہر وقتی طورپر ایک عریش (hut) بنایاگیا تھا- روایات میں آتا ہے کہ جب دونوں گروہوں کے درمیان مسلح ٹکراؤ کا وقت آیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گر پڑے- اُس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے: اللہم إنک إن تہلک ہذہ العصابة من أہل الإسلام فلا تعبد فی الأرض أبدا (مسند أحمد :1/112) یعنی اے اللہ، اگر تو اِس گروہ کو ہلاک کردے تو اِس کے بعد زمین پر کبھی تیری عبادت نہ ہوگی-
اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام کی دعا قبول فرمائی اور قرآن (3:124-125) کے بیان کے مطابق، میدانِ جنگ میں کئی ہزار کی تعداد میں فرشتے بھیجے- اِس کے بعد جو واقعہ پیش آیا، اُس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ (3:123)
یہ معاملہ جو غزوہ بدر کے وقت پیش آیا، وہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا- یہ وہی چیز تھی جس کو ہم نے نصرت باعتبار حفاظت سے تعبیر کیا ہے، یعنی منصوبۂ الہی کی تکمیل سے پہلے مخالفین نے یک طرفہ حملہ کرکے یہ کوشش کی کہ اصحابِ رسول کا خاتمہ کردیا جائے، مگر یہ قبل از وقت تھا- ابھی وہ وقت آنے والا تھا جب کہ اصحابِ رسول کی جماعت اپنا آخری دعوتی رول ادا کرے- اِس کے لیے ضروری تھا کہ اِس جماعت کو مخالفین کے حملے سے بچا کر محفوظ رکھا جائے-
اصل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے جب مکہ میں اپنا دعوتی مشن شروع کیا، اُسی وقت سے اللہ تعالی کا ایک منصوبہ زیر عمل آگیا- وہ منصوبہ یہ تھاکہ ایک مدت تک مختلف واقعات کے دوران پیغمبر اسلام اور آپ کی دعوتِ توحید کا خوب چرچا ہو، تاکہ مکہ اور اطرافِ مکہ کے لوگ اُس سے باخبر ہوجائیں- لوگوں کے اندر بڑے پیمانے پر اِس بارے میں تجسس (curiosity) پیدا ہوجائے اور پھر اُن کے اِس تجسس کو استعمال کرکے یہ موقع فراہم کیا جائے کہ لوگ بڑے پیمانے پر آپ کے مشن کو سمجھنے کی کوشش کریں-
نصرت باعتبارِ پراسس
پراسس کے اِ س معاملے کو قرآن میں رفعِ ذکر (94:4) کہاگیا ہے، یعنی لوگوں کے درمیان توحید کے مشن کا چرچا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں اپنی دعوتی مشن کا آغاز کیا تو ہر دن نئے نئے واقعات پیش آتے رہے — کبھی آپ، لوگوں کے مجمع میں جاکر اُن کو قرآن سنارہے ہیں، کبھی مکہ کے کسی آدمی کے قبولِ اسلام پر مخالفین کی طرف سے اس پر تشدد کیا جارہاہے، کبھی کسی مسلمان کو حرمِ مکہ میں نماز پڑھنے سے روکا جارہاہے، کبھی باہر سے مکہ آنے والا کوئی شخص پیغمبراسلام سے اِس معاملے میں سوال وجواب کررہاہے، کبھی حج کا موسم ہے اور مختلف قبائل کے لوگ مکہ آرہے ہیں اور آپ وہاں جاکر اُن کے سامنے اپنے مشن کا تعارف پیش کررہے ہیں، کبھی آپ کا اور آپ کے خاندان کا بائکاٹ کیا جارہاہے، کبھی مکہ کے سرداروں کی ایذارسانی سے مجبور ہوکر اصحابِ رسول کا ایک قافلہ مکہ سے ہجرت کرکے حبش جارہا ہے، کبھی آپ اپنے مشن کے تحت طائف اوردوسرے مقامات پر جاتے ہیں، کبھی دار الندوہ میں پیغمبر اسلام کے خلاف مشورہ ہورہا ہے اور آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے، وغیرہ-
پھر جب مکہ میں 13 سال قیام کے بعد آپ مکہ سے 300 میل کی دوری پر واقع شہر مدینہ چلے جاتے  ہیں تواِس تذکرے میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتاہے- اب غزوات اور سرایا اور جھڑپوں (skirmishes) جیسے واقعات کے نتیجے میں آپ کا اور آپ کے مشن کا چرچا تمام عرب میں، حتی کہ اطرافِ عرب میں پھیل جاتاہے- آپ کے مخالفین کی مخالفانہ کارروائیوں کے نتیجے میں بظاہر بہت سے واقعات ہورہے تھے جو مسلسل لوگوں کے علم میں آرہے تھے- اسی کے ساتھ ایک بلا اعلان عمل جاری تھا- یہ عمل اِن واقعات کے درمیان ایک انڈر کرنٹ یا زیر سطح عمل (under the surface process) کی حیثیت رکھتا تھا- وہ لوگوں کے اندر نہایت تیزی سے تجسس کی نفسیات پیدا کررہا تھا- لوگ فطری طور پر جاننا چاہتے تھے کہ یہ مشن کیا ہے اور اِس مشن سے وابستہ افراد کا معاملہ کیا ہے- تجسس کی یہ زیریں رو اللہ کے منصوبے کے مطابق، عین مطلوب تھی، کیوں کہ اُس سے پیغمبر اسلام کے مشن کے دعوتی مواقع مسلسل طورپر بڑھ رہے تھے- یہی وہ عمل ہے جس کو ہم نے نصرت باعتبار پراسس کا نام دیا ہے-
نصرت باعتبارِ فتح
ہجرت کے دوسرے سال اِس انڈرکرنٹ عمل پر تقریباً 20 سال گزر چکے تھے- نصرت باعتبار پراسس کا عمل اپنی تکمیل کے مرحلے تک پہنچ گیا تھا- اب ضرورت تھی کہ اِس پیداشدہ امکان کو بھر پور طورپر دعوت کے لیے استعمال (avail) کیا جائے- مگر مخالف فریق نے جنگ اور ٹکراؤ کا جو ماحول بنا رکھا تھا، اس کی موجودگی کی بنا پر اِس پیدا شدہ موقع کو استعمال کرنا عملاً ناممکن ہوگیا تھا- اِس لیے اب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت حکمت کے ساتھ ایک نیا منصوبہ بنایا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت مدینہ میں تھے- اللہ تعالی نے آپ کو خواب دکھایا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ جارہے ہیں- آپ نے یہ خواب اپنے اصحاب کو بتایا- اِس کو سن کر لوگ بہت خوش ہوئے- وہ عمرہ کے لیے مکہ جانے کی تیاری کرنے لگے- اِس کے مطابق، آپ یکم ذی القعدہ 6 ہجری کو عمرہ کے ارادے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے- اُس وقت تقریباً 15 سو مہاجرین اور انصار آپ کے ساتھ تھے-اہلِ مکہ کو پیغمبر اسلام کے اِس سفر کی اطلاع ہوگئی- انھوںنے طے کیا کہ وہ کسی قیمت پر پیغمبر اسلام کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے- چناں چہ انھوں نے آگے بڑھ کر حدیبیہ کے مقام پر آپ کے قافلے کو روک دیا جو کہ مکہ سے 9 میل کے فاصلے پر واقع تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حدیبیہ میں پڑاؤ ڈال دیا- اِس کے بعد اہلِ مکہ کے نمائندے وہاں آنے لگے اور تقریباً دو ہفتے تک دونوں فریق کے درمیان گفت وشنید جاری رہی- اِس گفتگو کے دوران پیغمبر اسلام کو یہ موقع ملا کہ آپ اہلِ مکہ سے یہ کہیں کہ ہمارے اور تمھارے درمیان ٹکراؤ اور جنگ کی جو صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، وہ ایک غیر مطلوب چیز ہے- اور ضروری ہے کہ اس کو ختم کردیا جائے- آخر کار یہ طے ہوا کہ فریقین کے درمیان صلح کا معاہدہ (peace treaty)ہوجائے-
صلح کا یہ معاہدہ جب کاغذ پر لکھا جانے لگا تو اہلِ مکہ کے نمائندہ سردار نے شدید انداز میں حمیتِ جاہلیہ(48:26) کا مظاہرہ کیا- انھوں نے ضد اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کی یک طرفہ شرطوں کی بنیاد پر معاہدہ کیا جائے، حتی کہ انھوںنے اصرار کیا کہ ’’رسول اللہ‘‘ کے لفظ کو معاہدے کی تحریر سے مٹا دیا جائے- پیغمبر اسلام نے اہلِ مکہ کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر مان لیا، صرف اِس لیے کہ اِس معاہدے کے ذریعے دونوں فریق کے درمیان امن کا ماحول قائم ہورہا تھا-
حدیبیہ کا معاہدۂ صلح اہلِ مکہ کی یک طرفہ شرطوں کی بنیاد پر ہوا تھا- چناں چہ صحابہ کے اندر اس کے خلاف شدید رد عمل پیداہوا- عمر فاروق نے کہا: لما نعطی الدنیة من دیننا (صحیح البخاری،رقم الحدیث:2731) یعنی ہم اپنے دین کے معاملے میں اِس ذلت آمیز معاہدے کو کیوں قبول کریں- ایک صحابی نے رسول اللہ سے کہا کہ آپ نے مدینہ میں اپنے ایک خواب کے حوالے سے ہم کو بتایا تھا کہ ہم عمرہ کرنے مکہ جارہے ہیں، پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ عمرہ کے بغیر درمیان سے لوٹ رہے ہیں- آپ نے جواب دیا کہ کیا میں نے یہ کہا تھا کہ ہم اِسی سال مکہ جاکر عمرہ کریں گے (أفأخبرتک أنا نأتیہ العام؟)- اِن تمام مخالفتوں کے باوجود آپ نے اہلِ مکہ سے  امن کا معاہدہ کرلیا اور حدیبیہ سے مدینہ کے لیے واپسی کا فیصلہ فرمالیا-
معاہدہ حدیبیہ کی تکمیل کے فوراً بعد وہ سورہ اتری جو قرآن میں الفتح کے نام سے شامل ہے- اِس سورہ کا آغاز اِن الفاظ سے ہوتا ہے: اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا (48:1) یعنی ہم نے تم کو کھلی فتح دے دی- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سورہ اپنے اصحاب کو پڑھ کر سنائی تو ابتداء ً صحابہ کو یہ بیان بہت عجیب معلوم ہوا- عمر فاروق نے کہا: أو فتح ہو یا رسول اللہ- قال: نعم، والذی نفسی بیدہ إنہ لفتح (القرطبی 16/261) یعنی اے خدا کے رسول، کیا یہ کوئی فتح ہے- رسول اللہ نے فرمایا کہ ہاں، اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقیناً وہ فتح ہے- اِسی طرح ایک اور صحابی نے کہا: ما ہذا بفتح- فقال: بل ہو أعظم الفتوح- (القرطبی 16/260) یعنی یہ تو کوئی فتح نہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں وہ فتح ہے، بلکہ سب سے بڑی فتح ہے-
معاہدہ حدیبیہ دراصل ایک تدبیر تھی- اُس نے عمل کے میدان کو بدل دیا- اِس سے پہلے اہلِ ایمان مجبور تھے کہ وہ ٹکراؤ اور جنگ کے میدان میں فریقِ ثانی سے مقابلہ کریں، لیکن اب اُن کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ اپنی پوری قوت کو یکسوئی کے ساتھ دعوت کے میدان میں استعمال کریں- میدانِ عمل کی یہ تبدیلی بے حد اہم تھی- اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ صرف دو سال کے محدود عرصے میں اسلام پورے جزیرہ عرب میں پھیل گیا-
اِس نتیجے کو دیکھتے ہوئے مشہور تابعی ابن شہاب الزہری (وفات: 124 ہجری) نے کہا تھا کہ: لقد کان الحدیبیة أعظم الفتوح(القرطبی، 16/261) یعنی حدیبیہ اسلام میں سب سے بڑی فتح تھی- مگر یہ سادہ طورپر صرف نتیجے کی بات نہیں، بلکہ وہ منصوبہ (planning) کی بات تھی- یہ کوئی اتفاقی نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ ایک گہری منصوبہ بندی کے ذریعے پیش آنے والا منصوبہ تھا- یہی وہ چیز ہے جس کو ہم نے نصرت باعتبار فتح کا عنوان دیا ہے-
یہ معاملہ دراصل نصرت بذریعہ پراسس کا معاملہ تھا-حدیبیہ سے پہلے تقریباً 20 سال تک بظاہر ٹکراؤ اور مخالفت کے جو واقعات پیش آرہے تھے، اُن کے ساتھ فطری طورپر ایک زیر سطح پراسس جاری تھا- اِس پراسس کو ایک لفظ میں، منفی تعارف کہاجاسکتا ہے- اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ شعوری یا غیر شعوری طورپر ہر ایک کے لیے اسلام ایک ایسی حقیقت بن گیا جو یہ تقاضا کررہا تھا کہ اُ س کو براہِ راست جاننے کی کوشش کی جائے- دوسرے لفظوں میں، اِس صورتِ حال نے بڑے پیمانے پر اسلام کے لیے دعوت کے مواقع پیدا کردئے، جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے-
معاہدہ حدیبیہ کا معاملہ بلا شبہہ ایک حکیمانہ منصوبہ بندی کا معاملہ تھا- یہ حکیمانہ منصوبہ بندی تمام تر فطرت کے قوانین پر مبنی ہے، اِس لیے ہر زمانے میں دوبارہ اس کا کامیاب تجربہ کیا جاسکتا ہے، جس طرح دورِ اول میں اس کا کامیاب تجربہ کیاگیا تھا ’’نصرت باعتبار فتح‘‘ کا معاملہ خصائص نبوی کا معاملہ نہیں، بلکہ وہ اسوہ نبوی کا معاملہ ہے- اس کو ہر زمانے میں اُسی طرح دہرایا جاسکتا ہے جس طرح پیغمبر کے دوسرے نمونوں کو دہرایا جاسکتاہے-
حدیبیہ اور اسوہ رسول
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (33:21) یعنی اللہ کے رسول میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے- اِس آیت میں ’اسوہ‘ کسی محدود معنی میں نہیں ہے، وہ پیغمبر کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے- پیغمبر اپنی پوری زندگی کے اعتبار سے، اہلِ ایمان کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے- اِس عموم میں استثنا صرف کسی ایسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کو صراحتاً پیغمبر کے ساتھ خاص کیاگیا ہو- مثلاً ازدواج کے معاملے میں بعض پہلوؤں سے آپ کے ساتھ استثنا کا معاملہ، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: خَالِصَةً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ(33:50)-
حقیقت یہ ہے کہ رسول کا ہر قول اورہر فعل امت کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہوگا، الا یہ کہ رسول کے کسی فعل کو صراحتاً رسول کی ذات کے ساتھ خاص کیاگیا ہو-اِس اصول کی روشنی میں معاہدہٴ حدیبیہ کا معاملہ بلا شبہہ ایک قابلِ تقلید اسوہ رسول کی حیثیت رکھتا ہے- جب بھی اور جہاں بھی وہ حالات پیدا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 6 ہجری میں پیدا ہوئے تھے، تواُس وقت اسوہ حدیبیہ اُسی طرح امت کے لیے قابلِ اتباع بن جائے گا، جس طرح وہ دورِ اول کے اہلِ ایمان کے لیے قابلِ اتباع بنا تھا-
معاہدہ حدیبیہ ایک فتح کا معاملہ تھا- فتح کا معاملہ صرف پیغمبر کے لیے خاص نہیں، وہ تمام امت کے لیے یکساں طورپر مطلوب ہے- قرآن میں بار بار فتح کو اہلِ ایمان کے لیے ایک عمومی مطلوب کی حیثیت سے بتایا گیا ہے- مثلاً: وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ (61:13) جب فتح پوری امت کے لیے ایک مطلوب شے ہے تو فتح کی تدبیر بھی یقینی طورپر پوری امت کے لیے ایک مطلوب شے ہوگی- فتح اور تدبیر ِ فتح کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا-
یہاں تدبیر ِ فتح سے مراد سیاسی فتح (political victory) نہیں ہے، بلکہ نظریاتی فتح (ideological victory) ہے- موجودہ زمانے میں اِس نظریاتی فتح کا امکان پوری طرح پیدا ہوچکا ہے- مگر اِس نظریاتی فتح کو واقعہ بنانا صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ حکمتِ حدیبیہ کو سمجھا جائے اور آج کے حالات کے لحاظ سے اس کا استعمال کیاجائے-
حکمتِ حدیبیہ
حدیبیہ کے واقعے کو سیرت کی کتابوں میں غزوة الحدیبیہ کے عنوان کے تحت درج کیاجاتا ہے- اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حدیبیہ کا واقعہ دوسرے بہت سے غزوات میں سے ایک غزوہ تھا- حالاںکہ حدیبیہ کا واقعہ نہ غزوة تھا اور نہ دوسرے واقعاتِ نبوی کی طرح صرف ایک واقعہ- حقیقت یہ ہے کہ حدیبیہ کا واقعہ ایک اعلی درجے کا منصوبہ تھا- حدیبیہ کے واقعے کو، معروف معنی میں، غزوہ کہنا بلا شبہہ اس کا کم تر اندازہ (underestimation) کرنے کے ہم معنی ہے-
حکمتِ حدیبیہ دراصل ایک فطری قانون ہے- اِس قانون کا ذکر قرآن کی سورہ الفتح میں اِن الفاظ میں کیاگیا ہے: ۭ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا (48:27) یعنی اللہ نے وہ بات جانی جو تم نے نہ جانی-یہ قرآن کا ایک اسلوب ہے- اِس سے مراد اللہ کا علم غیب نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ، اُس وقت ایک صورتِ حال موجود تھی، لیکن اس کو جاننے کے لیے ربانی عقل درکار تھی، عام آدمی اُس کو سمجھ نہیں سکتا- عام آدمی ہمیشہ چیزوں کو فیس ویلو (face value) پر لیتاہے، عام آدمی صرف اُس بات کو جان پاتا ہے جو سطح پر ہوتی ہے- لیکن ربانی عقل رکھنے والا انسان اپنی بصیرت کے تحت اُس حقیقت کو جان لیتا ہے جو وہاں زیر سطح موجود ہوتی ہے-
6 ہجری میں عرب کے اندر یہ صورتِ حال تھی کہ بظاہر لوگ پیغمبر کے مخالف بنے ہوئے تھے، لیکن داخلی نفسیات کے اعتبار سے، ہر ایک کے اندر سکنڈ تھاٹ (second thought)آچکاتھا، یعنی شعوری یا غیر شعوری طورپر مذہبِ توحید کے بارے میں دلوں کے اندر نرم گوشہ (soft corner) کا پیدا ہونا- اِس کی ایک علامتی مثال خالد بن الولید (وفات: 21ہجری) کا واقعہ ہے- وہ فتحِ مکہ سے کچھ پہلے ایمان لائے- وہ اپنے اُس وقت کے احساس کو اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں: قد شہدتُ ہذا المواطن کلَّہا على محمد صلى اللہ علیہ وسلم، فلیس فی مواطن أشہدہ إلا أنصرف وأنا أرى فی نفسی أنی موضع فی غیر شیٴ (حیاة الصحابة، جلد1، صفحہ 160)
خالد بن الولید کے اِن الفاظ کو اگر جنرلائز کیا جائے تو اُس وقت کے عربوں کی اکثریت کا احساس یہی ہوچکا تھا- اگر چہ خارجی سطح پر ٹکراؤ اور مخالفت کا ماحول نظر آتا تھا، لیکن داخلی نفسیات کے اعتبار سے بیش تر لوگ فقد صغت قلوبکما (66:4) کا نمونہ بن چکے تھے-
یہ صورتِ حال تھی جس کو استعمال (avail) کرنے کے لیے ایک عملِ اعتدال (process of normalization) درکار تھا، کیوں کہ معتدل ماحول کے بغیر اِس امکان کو استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا- یک طرفہ بنیاد پر معاہدہ حدیبیہ کرکے یہی معتدل ماحول بنایاگیا- اور اس کے بعد فطری طور پر وہ نتیجہ برآمد ہوا جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا(110:1-2)
ظاہرِ دنیا، باطنِ دنیا
صلح حدیبیہ 6 ہجری میں ہوئی- اِس واقعے کو قرآن میں فتح مبین (48:1) کہاگیا ہے- جس حکمت (wisdom) کے تحت حدیبیہ کا معاہدہ کیاگیا، اُس کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا (48:27) یعنی اللہ نے وہ بات جانی جو تم نے نہ جانی، پس اللہ نے اس سے پہلے ایک فتحِ قریب ٹھہرادی-
قرآن کی اِس آیت میں بظاہر دنیا کا اور آخرت کا ذکر ہے، مگر اِس آیت کا ایک توسیعی مفہوم (extended sense) بھی ہے، جس کا اشارہ آیت کے اِس لفظ میں ملتاہے: یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا(30:7)- گویادنیا کا ایک ظاہر ہے اور ایک اس کا باطن ہے- مگر ظاہربیں لوگ صرف اس کے ظاہر کو جانتے ہیں، وہ اس کے باطن سے بے خبر رہتے ہیں، یعنی اکثر لوگ چیزوں کو ان کے فیس ویلو (face-value) پر لیتے ہیں، حالات کے گہرے پہلوؤں تک ان کی نظر نہیں پہنچتی-
یہ آیت قرآن میں صلح حدیبیہ کے سیاق میں اتری- اِس پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے آیت پر غور کیجئے تو اس سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سطح (surface) پر جو کچھ نظر آتا ہے، وہ صرف حالات کا ظاہری پہلو ہوتا ہے، اِس کے سوا ایک اور چیز ہوتی ہے جو انڈرکرنٹ(undercurrent) ہوتی ہے- جس آدمی کے اندر ربانی بصیرت ہو، وہ سطح سے گزر کر انڈرکرنٹ امکانات کو دیکھ لے گا- وہ سطح کی باتوں کو نظر انداز کرے گا اور جوچیز انڈر کرنٹ ہے، اس کو دریافت کرکے اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے گا-
یہ ایک حکمتِ حیات ہے، یعنی سطح کی باتوں کو نظر انداز کرکے انڈر کرنٹ جو حالات ہیں، ان کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرنا- معاہدۂ حدیبیہ اِسی حکمت کی ایک پیغمبرانہ مثال ہے- یہ مثال پیروانِ رسول کے لیے ایک ابدی ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے- پیروانِ رسول کو چاہیے کہ وہ رسول اللہ کے اِس نمونے کو اپنے حالات پر منطبق کریں اور اُس عظیم کامیابی کے حصے دار بنیں جو اِس حکمت پر اللہ نے مقدر کی ہے-
اکیسویں صدی میں حدیبیہ منصوبہ
اکیسویں صدی میں دوبارہ وہی حالات زیادہ بڑے پیمانے پر پیدا ہوگئے ہیں جو کہ پہلی صدی ہجری میں معاہدہ حدیبیہ کے وقت عرب میں پیدا ہوئے تھے- اکیسویں صدی میں دوبارہ پوری طرح وہ امکان پیداہوگیا ہے جب کہ معاہدہ حدیبیہ کی تاریخ کو عالمی سطح پر دہرایا جائے- اِس امکان کو اپنے حق میں واقعہ بنانے کی شرط دوبارہ وہی ہے جو دورِ اوّل میں پیش آئی، اور وہ ہے صابرانہ دانش مندی یا دانش مندانہ صبر-
موجودہ زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مغربی قومیں نئے ذرائع سے مسلح ہو کر پوری دنیا میں پھیل گئیں- انھوںنے ہرجگہ اپنا دبدبہ قائم کردیا- یہ واقعہ زیادہ بڑے پیمانے پر اٹھارھویں صدی عیسوی میں پیش آیا- اُس وقت کی دنیا میں مسلمانوں کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم تھیں — برصغیر ہند میں مغل ایمپائر، ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں ترک ایمپائر، وغیرہ- مغربی قوموں نے مسلمانوں کی اِن سلطنتوں کو مغلوب کرلیااور ہر جگہ اپنا دبدبہ قائم کرلیا- اِس عمل کا نقطۂ آغاز متعین کرنا ہو تو وہ 1799 قرار پائے گا- اسی سال دو بڑے فیصلہ کُن واقعے ہوئے- ایک طرف، اِسی سال بحرِ متوسط (Mediterranean Sea) میں مغربی طاقتوں نے ترکوں کے عظیم بحری بیڑہ (naval fleet) پر حملہ کرکے اس کو مکمل طور پر تباہ کردیا- اور دوسری طرف، اِسی سال برٹش فوج نے سلطان ٹیپو کی فوج کو کامل شکست دے دی- اِس کے بعد برٹش جنرل نے فاتحانہ جذبے کے ساتھ کہا تھا کہ— آج انڈیا ہمارا ہے(Today, India is ours!)-
اِس کے بعد انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مسلسل اِس طرح کے واقعات ہوتے رہے- مثلاً 1857 میں انڈیا میں مغل سلطنت کا خاتمہ، 1924 میں خلافتِ عثمانی کا خاتمہ، 1948 میں اسرائیل کا قیام، اور پھر دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے بعد نام نہاد امریکی امپیریل ازم (American Imperialism) کا ظہور، وغیرہ-
اِس طرح کے واقعات نے پوری مسلم دنیا میں شدید رد عمل پیدا کیا- ہرجگہ نفرت اور تشدد اور جہاد ایکٹوزم شروع ہوگیا- ہرجگہ کے مسلمانوں میں وہی جارحانہ کلچر وجود میں آگیا جس کی ترجمانی عرب شاعر خیر الدین الزرکلی (وفات: 1976) کے اِن الفاظ سے ہوتی ہے:
ہاتِ صلاحَ الدین ثانیةً فینا جدّدی حِطّین أو شبہ حطینا
(صلاح الدین کو دوبارہ ہمارے درمیان لے آؤ- حطین یا حطین جیسا معرکہ دوبارہ گرم کرو)
واقعات بتاتے ہیں کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی دوسوسالہ مدت تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ’’جہاد ایکٹوزم‘‘ کی صدی تھی- تمام مسلم دنیا اِس جہاد ایکٹوزم میں شامل تھی، اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ تقریر اور تحریر کی زبان میں نفرت اور تشدد کی بولی بول رہے تھے، اور بقیہ لوگ باقاعدہ ہتھیاروں کے ذریعے اپنے مفروضہ دشمن کے ساتھ باقاعدہ لڑائی چھیڑے ہوئے تھے، لیکن یہ دوسو سالہ مقابلہ آرائی یک طرفہ طورپر مسلمانوں کی مغلوبیت پر ختم ہوئی-
آج ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی بولی بول رہے ہیں— ہم مخالفین کی سازشوں سے گھرے ہوئے ہیں، ہم دشمنوں کی معاندانہ کارروائیوں کا شکار ہیں، وغیرہ- اِس موضوع پر آج کا مسلم پریس، عربی، فارسی، انگریزی اور اردو میں جو کچھ کہہ رہاہے، اس کا خلاصہ ایک جملے میں یہ ہےکہ — ہم محاصرہ کی حالت میں ہیں(We are under siege) -
زیرِ سطح امکانات
سطح پر بظاہر وہ حالات تھے جن کو عام طورپر اینٹی مسلم حالات کہاجاتاہے، لیکن عین اِسی مدت میں  زیرِ سطح کچھ دوسری سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری تھیں- یہ سرگرمیاں وہ تھیں جو سماجی اور سیاسی اور علمی سطح پر جاری تھیں- اِن سرگرمیوں کے چیمپین بھی مغربی قوموں کے لوگ تھے-اِن سرگرمیوں کے نتیجے میں اِس مدت میں دنیا میں مذہبی آزادی آئی- جمہوریت کا دور آیا، امن (peace) کو خیر اعلی (summum bonum) کا درجہ دے دیاگیا، رواداری (tolerance) کو ایک عالمی مسلّمہ قرار دے دیا گیا، جدید تقاضوں کے تحت ساری دنیا میں ایک نیا ذہن پیدا ہواجس کو انسان دوست ذہن (human-friendly mind) کہا جاسکتا ہے-پھر اِسی کے ساتھ اِس مدت میں ٹکنالوجی کو غیرمعمولی ترقی ہوئی، پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا، الیکٹرانک کلچر وجود میں آیا-پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے ایک نیا دور پیدا کیا جس کو دورِ مواصلات کہاجاتا ہے-
اِسی کے ساتھ ایک اور ترقی بہت بڑے پیمانے پر وجود میں آئی جس کو علم یا سائنس کی ترقی کہاجاتا ہے- اِس ترقی نے فطرت کے اندر چھپے ہوئے حقائق انسان کے سامنے کھول دئے- علم کے تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں ظہور میں آئیں- یہ تبدیلیاں جو موجودہ زمانے میں پیدا ہوئیں، وہ عین اسلام کے حق میں تھیں-اپنی حقیقت کے اعتبارسے، یہ اُس موافق دور کا ظہور تھا جس کی خبر پیشگی طورپر قرآن (41:53)میں دی گئی تھی-
موافقِ اسلام دور
موجودہ زمانے میں جو تبدیلیاں ظہور میں آئی ہیں، وہ اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی انسائکلوپیڈیا بھی ان کا احاطہ نہیں کرسکتی- ان کے بیان کے لیے ایک پوری لائبریری کی ضرورت ہے- تاہم مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِن تبدیلیوں کی بناپر تاریخ انسانی میں پہلی بار ایک نیادور پیداہوا، ایک ایسا دور جس کا تصور قدیم انسان نہیں کرسکتا تھا- یہ دور اپنی حقیقت کے اعتبار سے، مکمل طورپر ایک موافقِ اسلام دور ہے-
مزید یہ کہ دورِ جدید کے یہ عظیم امکانات تمام تر امن کے تصور پر مبنی ہیں- اِن امکانات کو استعمال کرنے کے لیے نہ جنگ کی ضرورت ہے اور نہ کوئی سیاسی ایمپائر قائم کرنے کی- اِن جدید مواقع کا یہ ایک حیرت انگیز پہلو ہے کہ ان کو مکمل طور پر پُر امن ذرائع (peaceful means) کے تحت استعمال کیا جاسکتا ہے- اِن جدید مواقع کو استعمال کرنے کے لیے کسی بھی مرحلے میں نہ جنگ کی ضرورت ہے اور نہ پولٹکل پاور کی-
سیکولر مثال
اِن صفحات میں جو بات کہی جارہی ہے، وہ صرف ایک مذہبی بات نہیں ہے، یہ دراصل ایک اصولِ فطرت (law of nature) ہے- خالق نے جن اصولوں کے تحت اِس دنیا کو بنایا ہے، اُن میں سے ایک اصول یہ بھی ہے- اِس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں سطح (on the surface) پر ہوتی ہیں جن کو ہر آدمی دیکھ سکتاہے، اور کچھ زیادہ بڑی چیزیں ہوتی ہیں، مگر وہ ہمیشہ زیر ِ سطح (under the surface) ہوتی ہیں- اِن دوسری چیزوں کو ہمیشہ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو بصیرت (wisdom) رکھنے والے ہیں- اِس دنیا میں زیادہ بڑی کامیابی صرف اُن لوگوں کے لیے مقدر ہے جو انڈرکرنٹ چیزوں کو دیکھ سکیں اور اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں-
اِس کی ایک مثال جاپان ہے- دوسری عالمی جنگ میں جاپان محوری گروپ (Axis powers) کے ساتھ تھا- اُس زمانے میں جاپان ایک تشدد پسند قوم کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن جنگ کے دوران امریکا نے جاپان پر ایٹمی حملہ کیا- اس نے جاپان کے دو شہر ہیروشیما(Hiroshima) اور ناگاساکی (Nagasaki) پر اگست 1945 میں دو ایٹم بم گرائے- یہ جاپان کے لیے ایک ہلاکت خیز تجربہ تھا- اِس کے بعد جاپان بظاہر پوری طرح ایک تباہ شدہ ملک بن گیا-
اُس وقت جاپان کا سیاسی لیڈر ہیروہٹو(Hirohito) تھا- ہیرو ہٹو ایک مدبر آدمی تھا- اس نے اپنی بصیرت سے یہ جانا کہ سرفیس پر جو حالات ہیں، وہ بظاہر جاپان کے لیے ناموافق ہیں، لیکن انڈر کرنٹ جو صورتِ حال ہے، وہ جاپان کے لیے ایک موافق امکان کی حیثیت رکھتی ہے-
اُس وقت کی دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں— روس اور امریکا- دونوں ملک بھاری مصنوعات (hardware) میں مشغول تھے اور ہلکی مصنوعات (software) کا میدان تقریباً خالی تھا- جاپان نے شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس حقیقت کو جانا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ اِس مخفی امکان کو استعمال کرے-
اِس کے بعد جاپان نے دو کام کیے- ایک طرف، جاپان نے یہ کیا کہ اس نے امریکا سے ٹکراؤ کو یک طرفہ طور پر ختم کردیا، اور اپنی ساری توجہ تعلیم اور صنعت کے میدان کی طرف موڑ دیا- اِس کے بعد جو ہوا، وہ یہ کہ تقریباً 30 سال کے اندر جاپان کی ایک نئی تاریخ وجود میں آگئی- جاپان نے نہ صرف جنگ کے نقصانات کی تلافی کردی، بلکہ اس نے اتنی ترقی کی وہ جدید دور میں اقتصادی سپرپاور(economic superpower) بن گیا- یہ معجزہ اِس طرح پیش آیا کہ جاپان نے سرفیس کے حالات کو نظر انداز کیا اور انڈر کرنٹ جو امکانات چھپے ہوئے تھے، ان کو استعمال کیا-
اِس معاملے کی دوسری مثال وہ ہے جو انڈیا میں پیش آئی- انڈیا میں تقریباً 200 سال تک برٹش حکومت قائم رہی- 1857 میں انڈیا میں آزادی کی لڑائی شروع ہوئی- یہ لڑائی ہتھیاروں کے بل پر شروع کی گئی تھی- اِس جنگ میں کچھ مسلم لیڈر اور کچھ ہندو لیڈر شریک تھے- آزادی کی یہ جنگ تقریباً 60 سال تک جاری رہی، مگر اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کسی اور صورت میں نہیں نکلا-آخر کار 1919 میں مہاتما گاندھی سیاست کے میدان میں آئے اور انھوںنے جنگ آزادی کی قیادت سنبھالی- اُس وقت انڈیا بظاہر ایک تباہ شدہ ملک بنا ہوا تھا، لیکن مہاتما گاندھی نے شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس حقیقت کو جانا کہ یہاں انڈر کرنٹ ایک اور صورتِ حال موجود ہے جو انڈیا کے لیے ایک موافق امکان کی حیثیت رکھتی ہے- شرط صرف یہ ہے کہ تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن کا طریقہ اختیار کیا جائے-
یہ انڈر کرنٹ امکان کیا تھا، وہ یہ تھاکہ جس زمانے میں برطانیہ انڈیا پر حکومت کررہا تھا، اُسی زمانے میں یورپ کے ملکوں میں شاہی خاندان راج کررہے تھے— اِن یورپی ملکوں میں اِن حکومتوں کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر تحریکیں اٹھیں- بڑے بڑے یورپی دماغوں نے یہ نظریہ پھیلایا کہ کسی خاندان کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی ملک پر حکومت کرے- اِس سیاسی تحریک کے نتیجے میں ایک سیاسی اصول پورے یورپ میں ایک مسلّم اصول بن گیا- اِس اصول کو عام طورپر حکومتِ خود اختیاری (self-determination) کا اصول کہاجاتاہے:
The right of a people to decide upon its own form of government without coercion or outside influence.
یہ سیاسی انقلاب یورپ میں پہلے فکری سطح پر آیا- اس کے بعد اس نے عملی صورت اختیار کی- اِس سیاسی انقلاب کا پہلا عملی اظہارفرانس میں ہوا-یہ فرنچ ریولوشن (French Revolution) تھا جو 1789 میں پیش آیا- اِس انقلاب کے بعد فرانس میں شخصی بادشاہت ختم ہوگئی اور جمہوری حکومت قائم ہوگئی- دھیرے دھیرے یہ انقلاب پورے یورپ میں پھیل گیا-
مہاتما گاندھی نے اِس سیاسی مسلّمہ کو استعمال کیا- انھوں نے کہا کہ خود یورپ کے حالات بتاتے ہیں کہ اب بادشاہت کا دور ختم ہوچکا ہے اور ہر ملک کو حق ہے کہ وہ اپنے یہاں قومی حکومت قائم کرے- مہاتما گاندھی نے اِس اصول کو لےکر انڈیا کی تحریک آزادی کو نیا رخ دے دیا- انھوںنے تشدد کا طریقہ چھوڑ کر پورے معنوں میں پرامن طریقہ اختیار کیا، جس کو وہ اہنسا(non-violence) کہتے تھے-مہاتما گاندھی کی یہ پرامن جدوجہد جہد آزادی برٹش حکومت کے لیے نیا مسئلہ بن گئی- انھوں نے محسوس کیا کہ پہلے، جدوجہد آزادی کو دبانا آسان تھا- کیوں کہ وہ لوگ برٹش حکومت کے خلاف ہتھیار استعمال کرتے تھے- اِس طرح برٹش حکومت کو موقع ملتا تھا کہ وہ ان کے خلاف ہتھیار استعمال کرکے انھیں کچل دے- اِس تبدیلی نے برٹش حکمرانوں سے ہتھیار کے استعمال کا جواز چھین لیا- اِس صورت حال کا اندازہ ایک واقعے سے ہوتا ہے- اُس زمانے میں ایک برٹش کلکٹر نے اپنے سیکریٹریٹ کو یہ تار بھیجا — براہِ کرم، بذریعہ ٹیلی گرام یہ بتائیے کہ ’’شیر‘‘ کو ہتھیار کے استعمال کے بغیر کیسے ہلاک کیا جائے:
Kindly wire instructions how to kill a tiger non-violently.
یہ ایک سیکولر مثال ہے کہ کس طرح ایک لیڈر نے اپنے زمانے کے انڈر کرنٹ حالات کو سمجھا اور کامیابی کے ساتھ اس کو استعمال کیا- حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ اصول فطرت کا ایک اصول ہے- یہ ایک فطری امکان ہے جو ہمیشہ اور ہر صورتِ حال میں موجود رہتا ہے- اِس امکان کو ہر بڑے مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، خواہ وہ سیکولر مقصد ہو یا مذہبی مقصد- یہی امکان موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لیے پوری طرح موجود ہے- ضرورت ہےکہ اس کو سمجھا جائے اور حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرکے حکیمانہ انداز میں اس کو استعمال کیا جائے-
فضلِ عظیم کا معاملہ
قرآن کی سورہ النساء میں ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے: وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہٗ لَہَمَّتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ ۭوَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْءٍ ۭ وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ۭ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا (4:113) یعنی اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو اُن میں سے ایک گروہ نے یہ ٹھان لیا تھا کہ وہ تم کو بہکاکر رہے گا، حالاں کہ وہ اپنے آپ کو بہکارہے ہیں، وہ تمھارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے- اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری ہے اور تم کو وہ چیز سکھائی ہے جس کو تم نہیں جانتے تھے، اور اللہ کا فضل ہے تم پر بہت بڑا-
قرآن کی اِس آیت میں ’فضل‘ کا لفظ کسی پُراسرار معنی میں نہیں ہے- فضل کے لفظی معنی ہیں: زیادہ یا شئ مزید (additional thing)- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے علاوہ ایک مزید چیز دی گئی جو کہ ختم نبوت کارول ادا کرنے کی نسبت سے آپ کے لیے ضروری تھی، یعنی وہ اسباب یا مواقع جن کو استعمال کرکے آپ خاتم النبیین کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دے سکیں- مثلاً ہاجرہ اور اسماعیل کے ذریعے سے ایک نئی نسل کی تیاری جس کا ذکر قرآن کی سورہ ابراہیم (14) کی آیت نمبر 37 میں کیا گیاہے، یا ساسانی ایمپائر اور بازنتینی ایمپائر کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر دونوں کو کمزور کردینا، جس کا اشارہ قرآن کی سورہ الروم کی آیت نمبر 2 میں کیا گیا ہے- مذکورہ آیت (4:113) میں اِسی قسم کی نصرت مراد ہے، نہ کہ پُراسرار قسم کی کوئی شخصی فضیلت- نصرت کا یہ خصوصی معاملہ پیغمبر کے مشن کی نسبت سے تھا، نہ کہ پیغمبر کی ذات کی نسبت سے-
قرآن کی مذکورہ آیت میں علم کی تعلیم (وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ( سے مراد علمِ وحی نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد مذکورہ قسم کے موافق امکانات سے پیغمبر کو باخبر کر نا ہے- یہی اسلوب سورہ الفتح 48)) میں اختیار کیاگیا ہے جہاں ’علم ما لم تعلموا‘ کا لفظ آیا ہے- سورہ الفتح کی اِس آیت میں علم سے مراد وہ موافق امکانات ہیں جو معاہدہ حدیبیہ کے اندر باعتبار نتیجہ چھپے ہوئے تھے-
اصل یہ ہےکہ اللہ تعالی نے پچھلے زمانوں میں ہزاروں سال کے دوران بہت سے پیغمبر بھیجے(23:44)- اِن پیغمبروں نے نبوت کا فریضہ پوری طرح انجام دیا، لیکن ان کا مشن صرف اعلانِ توحید تک پہنچا- اُن میں سے کسی کے زمانے میں نہ مطلوب قسم کی امت بنی اور نہ دینِ خداوندی کا متن محفوظ ہوسکا اور نہ توحید پر مبنی عمومی انقلاب آیا، جو کہ اللہ تعالی کو مقصود تھا-
یہی وجہ تھی جس کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لیے اللہ تعالی نے خصوصی اسباب فراہم کیے- اِن اسباب کو استعمال کرکے یہ ممکن ہوا کہ دنیا میں توحید پر مبنی انقلاب آئے اور دینِ خداوندی کی نئی تاریخ بنے- پیغمبر اسلام کے لیے وحی کے علاوہ، جو مزید موافق اسباب فراہم کیے گئے، اِنھیں کو قر آن میں فضل کہاگیا ہے، یعنی اضافی اسباب یا مزید نصرت- اللہ تعالی نے ایک لمبی مدت کے اندریہ اضافی اسباب فراہم کیے، یہاں تک کہ رسول اور اصحابِ رسول کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ اِن اسباب کو استعمال کرکے وہ اللہ تعالی کے منصوبے کی تکمیل کریں-
قرآن کی مذکورہ آیت میں ’وعلّمک ما لم تکن تعلم‘ اُس وحی کے لیے نہیں ہے جو قرآن کی سورت میں آپ پر نازل ہوئی- بلکہ اِس سے مراد وہ علم ہے جس کا تعلق مذکورہ موافق امکانات سے  ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے خصوصی طورپر اِن موافق امکانات کی خبر دی، تاکہ آپ شعوری طورپر اِن امکانات سے واقف ہوں اور ان کو اپنے مشن کے حق میں استعمال کرسکیں-
6 ہجری میں پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان حدیبیہ کے مقام پر جو معاہدہ ہوا تھا، وہ اس معاملے کی ایک واضح مثال ہے- جیسا کہ معلوم ہے، حضرت عمر فاروق کو اِس معاہدے پر سخت اختلاف ہوگیا تھا- اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے درمیان جوگفتگو ہوئی، اس کا ایک حصہ کتابوں میں اِس طرح نقل ہوا ہے: قال عمر: فأتیتُ أبابکر، فقلتُ یا أبابکر، ألیس ہذا نبی اللہ حقاً؟ قال: بلى- قلت: ألسنا على الحق وعدونا على الباطل؟ قال: بلى، قلتُ: فلم نعطی الدنیة فی دیننا إذاً؟ قال: أیہا الرجل، إنہ رسول اللہ ولیس یعصی ربہ، وہو ناصرہ، فاستمسک بغرزہ، فواللہ إنہ على الحق-(تفسیر ابن کثیر4/199) یعنی عمر فاروق کہتےہیں کہ پھر میں ابوبکر کے پاس گیا- میں نے کہا کہ اے ابوبکر، کیا رسول اللہ نبی برحق نہیں ہیں- انھوں نے کہا کہ ضرور آپ نبی برحق ہیں- میں نے کہا کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم حق پر ہیں اور ہمارا دشمن باطل پر ہے- انھوں نے کہا کیوں نہیں- میں نے کہا کہ پھر کیوں ہم اپنے دین کے معاملے میں ذلت کو اختیار کریں- ابوبکر نے کہا کہ اے شخص، وہ اللہ کے رسول ہیں- وہ کبھی اپنے رب کی خلاف ورزی نہیں کریں گے- اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا- تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو لازم پکڑو- خدا کی قسم، وہ حق پر ہیں-
دورِ جدید کی مثال
قرآن کی مذکورہ آیت میں اللہ کے جس ’فضل عظیم‘ کا ذکر ہے، اس کا ظہور صرف ایک بار نہیں ہوا، بلکہ خدا کی دوسری رحمتوں کی طرح وہ بھی تاریخ میں بار بار دہرایا جارہا ہے- موجودہ زمانے میں یہ فضل یا اضافی نصرت بہت بڑے پیمانے پر ظاہر ہوچکی ہے-اہلِ ایمان کا کام یہ ہے کہ وہ اس کو پہچانیں اور اس کو خدائی مشن کے حق میں بھر پور طورپر استعمال کریں-
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اِس لیے بھیجا، تاکہ وہ سارے عالم کوامرِ حق سے آگاہ کردے(25:1)- اِس آیت میں جس عالمی نشانے کا ذکر ہے، وہ اول دن سے مطلوب تھا، مگر اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، اِس دنیا میں کسی نشانے کی تکمیل کراماتی طورپر نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسباب کے ذریعے ہوتی ہے- اِس عالمی دعوتی نشانے کو انجام دینے کے لیے قدیم زمانے میں عالمی مواصلات کا نظام عملاً موجود نہ تھا، اِس بنا پر مطلوب نشانہ بھی قدیم زمانے میں پورا نہ ہوسکا-
اِس مقصد کے لیے اللہ تعالی نے تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کیا- اِس پراسس کی تکمیل باقاعدہ طورپر انیسویں صدی میں ہوئی- انیسویں صدی اور اس کے بعد کی صدی میں وہ تمام اسباب وجود میں آگئے جو دینِ حق کی عالمی پیغام رسانی کے لیے ضروری تھے- آج جس چیز کو دورِ مواصلات کہاجاتاہے، وہ دراصل اِسی خدائی منصوبے کے تحت وجود میں آیا ہے-
یہ دورِ مواصلات اور اِس نوعیت کے دوسرے تائیدی ذ رائع گویا کہ دورِ جدید کے ’فضل عظیم‘ کی حیثیت رکھتے ہیں- ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبر اسلام کو اُس زمانے کے اعتبار سے فضلِ عظیم یا موافق اسباب دئے گئے تھے، موجودہ زمانے میں پیغمبر کی امت کو دوبارہ جدید تقاضوں کے مطابق، فضلِ عظیم یا موافق اسباب عطا کیے گئے ہیں- اب امت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے زمانے کے فضلِ عظیم کو پہچانے اور اس کو استعمال کرکے اپنے آپ کو اللہ کی عظیم سعادتوں کا مستحق بنائے- POIU
واپس اوپر جائیں