Pages

Sunday 1 June 2014

Al Risala | June 2014 (الرسالہ،جون)

2

-سیئات، حسنات

3

- لائف سپورٹ سسٹم

4

- توبۂ نصوح

6

- آزادی کا غلط استعمال

7

- انجامِ آخرت

8

- متشابہ جنت، حقیقی جنت

9

- زمین کی حفاظت

10

- نقل وحرکت

12

- انسان، ٹکنالوجی

13

- حقیقت پسندانہ مزاج

16

- سب کچھ خدا کا عطیہ

18

- قرآن کا پیغام

22

- کائنات کا سائنسی مطالعہ

23

- مسلم تاریخ کا احیا

24

- مردوزن کی مساوات

25

- تخلیق ِ انسانی کا مقصد

32

- دہشت گردی کا مسئلہ

35

- ردّ عمل کی سیاست

38

- پیغمبرانہ ماڈل

39

- شخصیت کی پہچان

40

- اپنی تاریخ سے کٹنا

43

- انتخابِ اول، انتخابِ ثانی

44

- ترقی کا زینہ

45

- فخر اور نفرت


سیئات، حسنات

قرآن کی سورہ الفرقان میں ایک قانونِ فطرت کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَـیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (25:70) یعنی مگر جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے-
God will change the evil deeds of such people into good ones.
قرآن کی اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ اللہ اُن کے سیئات کو معاف کردے گا- اِس کے برعکس، یہ فرمایا کہ اللہ اُن کے سیئات کو بدل کر اُن کو حسنات میں تبدیل کردے گا- یہ ایک بے حد قابلِ غور بات ہے کہ ایسا کیوں کر ہوتا ہے کہ خود سیئات بدل کر حسنات بن جائیں-
قرآن کی اِس آیت میں دراصل ایک نفسیاتی قانون کو بتایا گیاہے- انسان جب ایک غلطی کرے اور اس کے بعد اس کے اندر شدت کے ساتھ یہ احساس جاگ اٹھے کہ میں نے ایک غلطی کردی، تویہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی- اِس کے بعد اس کے اندر فطری طورپر شرمندگی (repentance)کا احساس پیدا ہوجاتا ہے- یہ احساس اُس کے لیے ایک ذہنی بھونچال کا کام کرتاہے- اِس کے بعد شدت کے ساتھ اس کے اندر محاسبہ (introspection)کی سوچ پیدا ہوجاتی ہے- وہ شدید طورپر اپنی اصلاح کے لیے متحرک ہوجاتا ہے- اس کے اندر ایک نئے قسم کی ذہنی بیداری (intellectual awakening) پیدا ہوجاتی ہے- یہ ذہنی بیداری اس کی پوری شخصیت میں ایک مثبت انقلاب کا باعث بن جاتی ہے- وہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اپنی اصلاح کے کام میں مشغول ہوجاتا ہے، اِس طرح اس کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرتی ہے- یہ فطرت کا ایک قانون ہے- جس آدمی کی فطرت زندہ ہو، اُس کا وہی حال ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا- ایسے انسان کاحال یہ ہوتا ہے کہ غلطی کا احساس اُس کے اندر ایک نیا پراسس جاری کردتیا ہے- یہ اِسی فطری پراسس کی تکمیل ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں بیان کیاگیاہے-
واپس اوپر جائیں

لائف سپورٹ سسٹم

قرآن کی سورہ الاعراف کی ایک آیت یہ ہے : وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ ۭقَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ (7:10) یعنی ہم نے تم کو زمین میں جگہ دی اور ہم نے تمھارے لیے اس میں زندگی کا سامان فراہم کیا، مگر تم بہت کم شکر کرتے ہو-
’معایش‘ کا لفظ ’معیشة‘ کی جمع ہے- قرآن کی اِس آیت میں معایش سے مراد اسبابِ معیشت ہیں، یعنی کھانا اور پینا اور دوسری وہ تمام چیزیں جن پر انسانی زندگی کا مدار ہو- مفسر القرطبی نے معایش کی وضاحت اِن الفاظ میں کی ہے: ما یُتعیَّش بہ من الطعم والمشرب وماتکون بہ الحیاة (تفسیر القرطبی: 7/167)
اسباب معیشت سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے-ایسے اسباب جو انسان جیسی مخلوق کی بقا کے لیے ضروری ہیں، وہ صرف سیارہ زمین پر پائے جاتے ہیں- وسیع کائنات میں کسی دوسرے مقام پر یہ اسباب ِ حیات موجود نہیں-
لائف سپورٹ سسٹم انسان کے لیے ایک استثنائی عطیہ ہے، ایسا عطیہ جو ساری کائنات میں کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں- لائف سپورٹ سسٹم میں بے شمار آئٹم ہیں- ان میں سے کوئی بھی آئٹم انسان خود سے پیدا نہیں کرسکتا- یہ پورا نظام اللہ کی طرف سے انسان کے لیے یک طرفہ عطیہ کی حیثیت رکھتا ہے- یہ عطیہ اپنے آپ اِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان سے اس کے بارے میں یقیناً سوال کیا جائےکہ اس نے اِس عطیے کا حق ادا کیا یا نہیں-
یہی مطلب ہے قرآن کی اِس آیت کا: ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (102:8) یعنی پھر اُس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں یقیناً پوچھا جائے گا:
Then on the Day you shall be questioned about the favours.
واپس اوپر جائیں

توبۂ نصوح

قرآن کی سورہ التحریم میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم لوگ اللہ سے توبہ نصوح کرو اور توبہ نصوح تمھارے لیے جنت میں داخلے کا سبب بنے گی (66:8)- توبۂ نصوح سے مراد مخلصانہ توبہ (sincere repentance) ہے- توبہ نصوح کیا ہے، اس کو قرآن کی سورہ النساء کی دو آیتوں کے مطالعے سے سمجھا جاسکتا ہے- وہ آیتیں یہ ہیں: اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗىِٕکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا ؀ وَلَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌ ۭاُولٰۗىِٕکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا (4:17-18) ۔
قرآن کی اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کی دو قسمیں ہیں— ایک، مقبول توبہ اور دوسری، غیر مقبول توبہ- مقبول توبہ وہ ہے جو حقیقی احساسِ خطا کے بعد پیدا ہو اور جو ایک ایسے نئے اور پُر عزم فیصلے کے ہم معنی ہو جس کو آدمی نے اپنے دل ودماغ کی پوری طاقت کے ساتھ کیا ہو- اِس کے برعکس، غیر مقبول توبہ وہ ہے جو کسی حقیقی فیصلے کے ہم معنی نہ ہو، بلکہ اس کی حیثیت صرف لِپ سروس (lip service) کی ہو-
توبۂ نصوح کیا ہے، اس کی مزید وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن اللہ یقبل توبة العبد ما لم یغرغر(سنن الترمذی، رقم الحدیث: 3537) یعنی اللہ غرغرہ پیش آنے تک بندے کی توبہ قبول کرتاہے-
جب موت کا وقت قریب آتا ہے اور انسان محسوس کرتاہے کہ اب اس کے لیے زندگی کی مزید مہلت باقی نہیں رہی، اُس وقت ایک صاحبِ فکر انسان کے اندر زبردست بھونچال آجاتا ہے- اس کی وہ حالت ہوجاتی ہے جس کو نفسیات کی اصطلاح میں برین اسٹارمنگ (brain storming) کہا جاتا ہے- اُس وقت اس کو شدید طورپر یہ احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر ضائع کردی- اس کو اپنا مستقبل بالکل تاریک دکھائی دینے لگتا ہے- کسی انسان پر اگر یہ زلزلہ خیز حالت طاری ہوجائے تو ایک لمحے کے اندر اس کو توبہ نصوح کی توفیق حاصل ہوجائے گی- اس کے گناہ اس کے اعمال نامے سے اچانک ڈلیٹ (delete) ہوجائیں گے-
یہی وہ حالت ہے جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ (الجامع الصغیر للسیوطی، رقم الحدیث: 3387) یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا تھا- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک مومن حقیقی توبہ کرے تو اللہ تعالی عین اُسی وقت اس کے گناہوں کو اس کے اعمال نامے سے حذف کردے گا- ایک گناہ گار شخصیت اچانک ایک بے خطا شخصیت کی صورت اختیار کرلے گی-
توبہ کا معاملہ سادہ معنوں میں صرف خطا اور عفوِ خطا کا معاملہ نہیں ہے، اس کی اہمیت اس سے زیادہ ہے- توبہ ایک نفسیاتی عمل (psychological process) ہے، جس کے ذریعے ایک انسان کو موقع ملتا ہے کہ وہ مسلسل اپنی شخصیت کی تعمیر جاری رکھے، یہاں تک کہ وہ پورے معنوں میں مزکی شخصیت (purified personality) بن جائے-
انسان کو سب سے زیادہ جو چیز جھنجھوڑتی ہے، وہ خطاکاری کا احساس ہے، نہ کہ معصومیت کا احساس- معصومیت کے احساس سے آدمی کے اندر ٹھہراؤ آتا ہے، جب کہ خطاری کا احساس آدمی کے اندر ایک ذہنی بھونچال پیدا کردیتا ہے- یہی وہ بھونچال ہے جو آدمی کے اندر چھپے ہوئے پوٹنشیل (potential)کو جگاتا ہے- وہ شدت کے ساتھ آدمی کے اندر اصلاح کا جذبہ پیدا کردیتا ہے- اِس لیے حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کو ایسا انسان پسند ہے جو غلطی کرے اور معافی مانگے (خیر الخطائین التوابون)- کسی شخص کے اندر اِس نفسیاتی اصلاح کے جاری ہونے ہی کا شرعی نام توبہ نصوح ہے- توبہ نصوح اپنی حقیقت کے اعتبار سے محض کچھ الفاظ کی ادائیگی کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک نفسیاتی بھونچال کا نام ہے- ایک ایسا نفسیاتی بھونچال کہ جب وہ کسی انسان کے اندر آتا ہے تو اس کی پوری شخصیت کو بدل دیتاہے-
واپس اوپر جائیں

آزادی کا غلط استعمال

قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(30:41) یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے، تاکہ اللہ اُن کو مزا چکھائے اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں-
دنیا میں جو فساد یا کرپشن (corruption) پایا جاتا ہے، وہ تخلیق کا حصہ نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom)کا حصہ ہے- موجودہ زمانے میں فضائی آلودگی (air pollution) اور آبی آلودگی (water pollution)کا مسئلہ اپنی آخری حد تک بڑھ گیا ہے- یہ آلودگی تخلیق کے آغاز میں موجود نہ تھی، حتی کہ جدید صنعتی انقلاب سے پہلے وہ بہت کم پائی جاتی تھی- مگر جدید صنعتی انقلاب کے بعد آلودگی کا مسئلہ انتہائی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے-
تاکہ اللہ ان کو مزا چکھائے اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ بازآئیں — اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی فساد کی صورت میں جو مسئلہ اِس دنیا میں پیش آتا ہے، اُس کی حیثیت ایک شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) کی ہے- وہ اِس لیے ہے تاکہ انسان سوچے، تاکہ انسان مصنوعاتِ خداوندی اور مصنوعاتِ انسانی کا تقابل کرکے یہ دریافت کرے کہ اللہ کی قدرت کتنی زیادہ ہے اور اس کے مقابلے میں انسان کا عجز کتنا زیادہ بڑھا ہوا ہے- اللہ کی مصنوعات میں کہیں کوئی نقص (67:3) نہیں، جب کہ انسان کی مصنوعات نقائص سے بھری ہوئی ہیں-
یہ دریافت ایمان باللہ کا دروازہ ہے- آدمی جتنا زیادہ اِس حقیقت کو دریافت کرے گا، اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کی معرفت حاصل کرے گا- عجزِ انسانی کی دریافت معرفتِ الہی کی دریافت کا آغاز ہے- جو انسان عجز کی دریافت سے محروم رہے، وہ معرفتِ الہی کی دریافت سے بھی محروم رہے گا- عجز کے سوا کوئی دروازہ نہیں جس کے ذریعے آدمی معرفت کی دنیا میں داخل ہوسکے-
واپس اوپر جائیں

انجامِ آخرت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن الرجل لیعمل عمل أہل الجنة فیما یبدو للناس، وہو من أہل النار- وإن الرجل لیعمل عمل أہل النار فیما یبدوا للناس، وہو من أہل الجنة (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4202) یعنی ایک آدمی لوگوں کے خیال کے مطابق، اہلِ جنت کا عمل کرتا ہے، حالاں کہ وہ جہنم والوں میں سے ہوتا ہے- اور ایک آدمی لوگوں کے خیال کے مطابق، اہلِ جہنم کا عمل کرتا ہے، حالاں کہ وہ جنت والوں میں سے ہوتا ہے-
اِس حدیث میں فیما یبدو للناس کا لفظ بہت اہم ہے- اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص بظاہر (face vlue)پر کچھ اور ہوتا ہے، مگر حقیقت کے اعتبار سے، وہ کچھ اور ہوتا ہے- یہاں ’فیما یبدو للناس‘ کے مقابلے میں، ’فیما یبدو للہ‘ کا لفظ محذوف ہے- دنیا کی زندگی میں ’فیما یبدو للناس‘ کے اعتبار سے، آدمی بظاہر کچھ اور دکھائی دے سکتا ہے، لیکن آخرت میں اس کا معاملہ ’فیما یبدو للہ‘ کے اعتبار سے ہوگا- یہ بات صالح انسان کی نسبت سے بھی ہے اور غیر صالح انسان کی نسبت سے بھی-
تاہم یہ معاملہ دنیا کی زندگی میں بھی کسی نہ کسی موقع پر کھل جاتا ہے- د ونوں قسم کے انسانوں کی زندگی میں آخر کار کوئی ایسا شاکنگ واقعہ (shocking event) پیش آتا ہے جس کے بعد اندر کی شخصیت کھل کر باہر آجاتی ہے- یہ اللہ کے قانون کے تحت ہوتا ہے- مثلاً قدیم مکہ میں حمزہ بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے تھے، مگر ایک واقعے نے ان کو ہلا دیا اور انھوں نے اعلان کردیا کہ: دینی دین محمد (میرا دین وہی ہے جو محمد کا دین ہے)- اِسی طرح قدیم مدینہ میں ایک شخص عبد اللہ بن اُبی تھا- وہ بظاہر کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگیا تھا، لیکن مدینہ میں ایک واقعہ پیش آیا جس کے بعد اس کا داخلی نفاق نمایاں ہوگا اور وہ اسلام سے خارج قرار پایا- یہ واقعہ ہر انسان کے ساتھ پیش آتا ہے، کسی بھی انسان کا اِس معاملے میں کوئی استثنا (exception)نہیں-
واپس اوپر جائیں

متشابہ جنت، حقیقی جنت

قرآن کی سورہ محمد میں اہلِ جنت کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَــنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (47: 6) یعنی اللہ اہلِ ایمان کو جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ نے اُن کو اِس جنت کی پہچان کرادی ہے۔
اِس آیت میں پہچان سے کیا مراد ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت اور جنت کے بارے میں بہت زیادہ سوچتا ہے، وہ جنت کے بارے میں کچھ ایسے سراغ (clues) پالیتاہے جس کے حوالے سے وہ جنت کے بارے میں خصوصی دعا کرے اور آخر کار وہ اللہ کے نزدیک جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے۔جنت کی اِس پہچان کا تعلق موجودہ دنیا سے ہے، نہ کہ آخرت کی دنیا سے۔
مثلاً اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت کی نعمتوں کا تجربہ کریں گے تو اُن کا جو حال ہوگا، اُس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْہَا مِنْ ثَمَـــرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوْا ھٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۙ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِہًا ( 2: 25) یعنی جب بھی اہل جنت کو جنت کے باغوں میں سے کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ وہی ہے جو اِس سے پہلے ہم کو دیاگیا تھا، اور ملے گا اُن کو ایک دوسرے سے ملتا جلتا۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا کو جنت کے متشابہ (similar) بنایا ہے۔ جب ایک مومن غور وفکر کرتاہے تو وہ اِس حقیقت کو دریافت کر لیتا ہے کہ موجودہ دنیا، جہاں خدا نے اس کو رہنے کا موقع دیا ہے، وہ جنت کے مشابہ دنیا ہے۔
یہ دریافت بندۂ مومن کے اندر ایک قسم کا اہتزاز (thrill) پیدا کرتی ہے۔ وہ شکر کے احساس کے تحت کہہ اٹھتا ہے کہ — خدایا، تو نے موت سے پہلے کی زندگی میں مجھ کو متشابہ جنت عطا کردی ، اب تو موت کے بعد کی زندگی میں مجھ کو حقیقی جنت میں داخل فرمادے۔
واپس اوپر جائیں

زمین کی حفاظت

موجودہ زمانے میں جو آلات دریافت ہوئےہیں، ان کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ خلائی واقعات کا نہایت صحت کے ساتھ مشاہدہ کیا جاسکے- اُنھیں میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ 23 جولائی 2012 کو سورج کی سطح پر ایک مقناطیسی طوفان آیا تھا- یہ طوفان زمین کے اوپر بہت بڑی تباہی (havoc)برپا کرسکتا تھا، مگر ایسا نہیں ہوا- کیوں کہ یہ طوفان سورج کی ایک سمت میں آیا تھا، جب کہ زمین اپنی گردش کے اعتبار سے اُس وقت سورج کے دوسری سمت میں تھی-اس طرح کے واقعات ہماری دنیا میں روزانہ پیش آرہے ہیں- یہ واقعات قرآن کی اُس آیت کی تفسیر ہیں جس میں کہاگیا ہے: قُلْ مَنْ یَّـکْلَـؤُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ ۭ بَلْ ہُمْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہِمْ مُّعْرِضُوْنَ(21:42)-
کائنات میں انسان کی حفاظت کا یہ انتظام بتاتا ہے کہ اللہ کتنے زیادہ بڑے پیمانے پر انسان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کررہاہے- انسان اپنی غفلت کی بنا پر اِس حقیقت سے بے خبر رہتا ہے- اگر انسان اِس حقیقت کو جانے تو بلا شبہہ اس کی زندگی میں ایک ربانی انقلاب آجائے-
Massive solar storm almost hit Earth in 2012
London: A massive magnetic storm with a speed of 3,000 km per second enough to circle Earth five times in one minute and the likes of which has not been seen in the past 150 years almost hit the world in 2012. But as it tore through Earth’s orbit, releasing energy equivalent to that of about a billion hydrogen bombs, good fortune prevailed on the Blue Planet, which was placed on the other side of the sun at the time. Had the eruption come nine days earlier, it would have hit Earth, potentially destroying our electrical grid, disabling satellites and GPS and disrupting our increasingly electronic lives, wreaking havoc and causing fireworks. Experts confirmed on Wednesday that a fierce solar eruption known as coronal mass ejections blasted away from the sun and sent a pulse of magnetized plasma barrelling into space and through Earth’s orbit. (The Times of India, New Delhi, March 20, 2014, p. 19)
واپس اوپر جائیں

نقل وحرکت

کسی تحریک(movement) کی کامیابی کے لیے صرف آئڈیالوجی کافی نہیں- اس کے لیے ایسی چیز بھی ضروری ہے جو عملی مظاہرے کی حیثیت رکھتی ہو- اِس کی ایک صورت نقل وحرکت ہے- اِس نقل وحرکت کو قرآن میں سیاحت (9:112)کہاگیا ہے- قدیم یونان میں ایک گروپ تھا جس کو مشّائین (travellers)کہاجاتا تھا- یہ لوگ مسلسل طور پر پیدل سفر کرتے تھے اور اِس طرح لوگوں کے درمیان اپنے افکار پھیلاتے تھے- حضرت مسیح کے بعد سینٹ پال نے اِس طریقے کو اختیار کرتے ہوئے مسیحیت کو مختلف ملکوں میں پھیلایا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو غزوات اور سرایا پیش آئے، وہ بھی ایک اعتبار سے اِسی زمرے میں آتے ہیں- مسلم صوفیا کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ اپنے مریدوں کے ساتھ سفر کرتے تھے اور جگہ جگہ اپنا حلقہ (order) بناتے تھے- موجودہ زمانے میں تبلیغی جماعت نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا ہے اور اسی بنا پر اس کو ’’مسجد وار تحریک‘‘ کہاجاتا ہے-
الرسالہ مشن کی توسیع کے لیے بھی نقل وحرکت کے طریقے کو بڑے پیمانے پر اختیار کرنا ضروری ہے- اب اللہ کے فضل سے ہر شہراور ہر بستی میں قارئین الرسالہ کے حلقے بن چکے ہیں- ضرورت ہے کہ الرسالہ مشن کے لوگ سفرکرکے ہرجگہ پہنچیں، وہ ہر مقام پر قارئین الرسالہ سے ملیں، اُن کو متحرک کریں، ان کو منظم کریں، ہرجگہ ہفتے وار اجتماعات کا نظم کریں، ہرجگہ لائبریری قائم کریں، وغیرہ- جدید کمیونکیشن نے اس کو ممکن بنا دیا ہے کہ اب نقل وحرکت کے کام کو مزید اضافے کے ساتھ کیا جائے، یعنی نہ صرف جسمانی نقل وحرکت، بلکہ الیکٹرانک نقل وحرکت بھی-
موجودہ زمانے میں کمیونکیشن کی ترقی نے نقل وحرکت کے کام کو بہت آسان بنا دیاہے- الرسالہ مشن سے وابستہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اِس امکان کو بھر پور طورپر استعمال کریں- نقل وحرکت کے بغیر اگر الرسالہ مشن حسابی رفتار (arithmetic progression) سے آگے بڑھ رہا ہے تو نقل وحرکت کے بعد وہ ہندسی رفتار (geometric progression) سے آگے بڑھنے لگے گا-
دعوتی نقل وحرکت کا یہ کام ممبئی کے حلقہ الرسالہ نے عملاً شروع کردیا ہے- وہ منظم انداز میں اِس کام کو انجام دے رہے ہیں- وہ مہاراشٹریہ کے مختلف مقامات پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ جاتے ہیں- اِس دعوتی کام کے لیے وہ جدید ٹکنالوجی کا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں- اُن کو اِس کام میں ہرجگہ لوگوں کا تعاون حاصل ہو رہا ہے- اِس طرح اِس علاقے میں یہ دعوتی مشن تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے- اِس معاملے میں جو لوگ ممبئی والوں کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ حسب ذیل ٹیلی فون پر اُن سے ربط قائم کرسکتےہیں— محبوب بھائی09619163993:
دعوتی نقل وحرکت کا یہی وہ کام ہے جس کو قرآن میں سیاحت کہاگیا ہے- اس سلسلے میں قرآن میں ’السائحون والسائحات‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں- اِس سے معلوم ہوتاہے کہ سیاحت کا یہ کام اہلِ ایمان مردوں اور اہلِ ایمان عورتوں دونوں کو یکساں طورپر انجام دینا ہے- دونوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ دعوتی مشن کے کام میں دوسرے طریقوں کے علاوہ نقل وحرکت کے طریقوں کو استعمال کریں- وہ دعوت کے عمل کو ایک متحرک عمل بنادیں-
سیاحت کا مطلب ہے — سفر کرنا (to travel) - سفر ایک عام انسانی ضرورت ہے- سفر چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑا بھی- سفر قریب کی منزل کے لیے بھی ہوتا ہے اور دور کی منزل کے لیے بھی- سفر کی نوعیت کا تعلق خود سفر سے نہیں ہے، بلکہ مسافر سے ہے- مسافر کا جو مقصد حیات ہو، اُسی سے اس کے سفر کا مقصد بھی متعین ہوتاہے- مثلاً تاجر کا سفر تجارت کے لیے ہوتا ہے- سیاح کا سفر تفریح کے لیے ہوتا ہے، وغیرہ-مومن اپنے عقیدے کے اعتبار سے، ایک صاحبِ مشن انسان ہوتا ہے - مومن کی زندگی کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اُس نے جس سچائی کو دریافت کیا ہے، اس سچائی کو وہ تمام دنیا والوں تک پہنچائے- یہی وہ صفت ہے جو مومن کی سیاحت کو ایک دعوتی سیاحت بنادیتی ہے- وہ جہاں جاتا ہے، اس کا مشن بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے- سفر کے ہر مرحلے میں اس کا دعوتی مشن جاری رہتا ہے- اِس معاملے میں عورت اور مرد کا کوئی فرق نہیں- مومن ا ور مومنہ دونوں ہمیشہ دعوتی توسیع کے اِس کام میں سرگرم رہتے ہیں-(14 اپریل 2014)
واپس اوپر جائیں

انسان، ٹکنالوجی

امریکا کے ایک سفر میں مجھ کو ایک سنٹردیکھنے کا موقع ملا- یہ ایک روحانی مشن کا سنٹر تھا- اِس مشن کے بانی (founder) کا انتقال ہوچکا تھا- بانی جیسی کوئی زندہ شخصیت وہاں موجودہ نہ تھی- اِس کے باوجود سنٹرمیں مشن کی تمام سرگرمیاں بدستور جاری تھیں- میں نے غور کیا تو بانی کی غیرموجودگی کے باوجود مشن کی سرگرمیوںکے بدستور جاری رہنے کا سبب دو چیزیں تھیں — ٹیم اور ٹکنالوجی-
بانی کا انتقال ہوا تو اس نے اپنے بعد دو چیزیں چھوڑی تھیں: ڈیڈی کیٹڈ ٹیم (dedicated team) اور تحریر اور تقریر کی شکل میں اپنا پیغام- بانی نے اپنی سنجیدہ کوششوں کے ذریعے بہت سے افراد کو متاثر کیا،یہاں تک کہ اس کےمشن کی پشت پر ایک مضبوط ٹیم بن گئی-
اِس کے علاوہ بانی نے بہت سی کتابیں لکھیں اور بڑی تعداد میں اس کی تقریروں سے آڈیو کیسٹ اور ویڈیو کیسٹ تیار ہوگئے- سنٹر میں میں نے دیکھا کہ اس کی ٹیم نہایت سنجیدہ انداز میں اِن چیزوں کو استعمال کررہی ہے- اس نے وہاں لائبریری اور ریڈنگ روم بنایا- کتابوں کے ڈسٹری بیوشن کے لیے نظام قائم کیا- وہاں میں نے دیکھا کہ رات دن کے بڑے حصے میں مسلسل آڈیو کیسٹ اور ویڈیو کیسٹ چلتے تھے۔ اِس کے علاوہ نہایت منظم پیمانے پر اس کی ترسیل کی جارہی تھی، اُس کو جگہ جگہ ڈاک کے ذریعے بھیجا جارہا تھا- اِسی طرح کمپیوٹر ٹکنالوجی کا استعمال بھی وہاں بھر پور طورپر کیا جارہا تھا-
انسان کے وجود کے دو پہلو ہیں— اس کی آواز اور اس کی جسمانی شخصیت- پچھلے زمانے میں انسان کی وفات کے بعد یہ دونوں چیزیں باقی نہیں رہتی تھیں- اب ٹکنالوجی نے یہ ممکن کردیا ہے کہ انسان کی آواز اور اس کی شخصیت دونوں بظاہر اِس طرح باقی رہیں جیسے کہ وہ انسان اب بھی پوری طرح موجود ہے- موجود زمانے میں کسی مشن کے تسلسل کو قائم رکھنے کا یہ ایک نیا امکان ہے جو جدید ٹکنالوجی کے ذریعے پیدا ہوا ہے-
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندانہ مزاج

نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کا علاقہ بہت خاص علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت یہاں لوگ سیروتفریح کے لیے آتے ہیں۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک شخص وہاں آیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور اس کا بچہ تھا۔ بچے نے اپنے باپ سے آئس کریم کی فرمائش کی۔ باپ نے فوراً اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا۔ اس نے آئس کریم کا ایک پیکٹ خریدا اور پھر تینوں کھڑے کھڑے آئس کریم کھانے لگے۔ میں نے اُس آدمی کے چہرے کو دیکھا تو اس کے چہرے پر فخر کی چمک تھی۔ گویا کہ خاموش انداز میں وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری جیب میں پیسہ ہے اور میں اپنے پیسے سے آئس کریم خرید کر اپنے بچے کی فرمائش پوری کرسکتا ہوں۔ یہ پورا واقعہ اُس کے نزدیک ’’میں‘‘ کاکارنامہ تھا۔ اِس کے لیے اُسے کسی اور کا احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
یہی تمام انسانوں کا حال ہے۔ تمام عورت اور مرد اِسی احساس میں جی رہے ہیں۔ اِس احساس نے لوگوں کے اندر سے تواضع(modesty) کا جذبہ چھین لیا ہے۔ ہر آدمی کا کیس کبر(arrogance) کا کیس بنا ہوا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا صرف ایک مذہب ہے، اور وہ ایگوازم (egoism)ہے۔ اِس ایگوکلچر نے ہر ایک کو خود پسند اور سرکش اور متکبر بنا دیا ہے۔ لوگوں کا یہ مزاج صرف اُس وقت تک چھپا رہتا ہے، جب تک ان کی انا کو چھیڑا نہ جائے۔ اَنا کو چھیڑتے ہی ہر آدمی بتا دیتا ہے کہ وہ کبر کا کیس تھا، اگر چہ وہ بظاہر متواضع (modest) بنا ہوا تھا۔
یہ مزاج سرتاسر غیر حقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ اگر آدمی حقیقتِ واقعہ پر غور کرے تو وہ کبھی بھی متکبرنہ بنے۔ کیوں کہ اِس دنیا میں کسی کے لیے متکبر بننا مضحکہ خیز حد تک بے معنیٰ ہے۔ چناںچہ کوئی سائنٹسٹ کبھی متکبر نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اُس کا میدانِ مطالعہ علومِ قطعیہ(exact sciences) ہوتے ہیں۔ اِس بنا پر اس کے اندر اپنے آپ حقیقت پسندی کا مزاج آجاتا ہے۔
ہر سائنٹسٹ، شعوری یا غیرشعوری طورپر جانتا ہے کہ اس کو کامل طورپر حقیقتِ واقعہ کی پابندی کرنا ہے۔ اگر وہ حقیقت ِ واقعہ سے ذرا بھی ہٹے تو وہ مطلوب نتیجے تک پہنچنے سے محروم رہ جائے گا۔ گویا کہ اگزیکٹ سائنس، اس کے اندر اگزیکٹ تھنکنگ کا مزاج بناتی ہے۔ اور ایگزیکٹ تھنکنگ ہی کا دوسرا نام حقیقت پسندی ہے۔
اب انڈیا گیٹ کے مذکورہ واقعہ کو لیجیے۔ آدمی کے اندر فخر کا جذبہ کیوں آیا۔ صرف اس لیے کہ اس کے اندر سائنسی مزاج، بالفاظ دیگر، حقیقت پسندانہ مزاج موجود نہ تھا۔ اگر اس کے اندر صحیح مزاج موجود ہوتا تو آئس کریم کا پیکٹ اس کے تواضع میںاضافہ کرتا نہ کہ فخر اور گھمنڈ میں، جیسا کہ عملاً پیش آیا۔
آئس کریم کیا ہے۔ آئس کریم ایک عظیم تحفہ ہے۔ آئس کریم کو وجود میں لانے میں ایک طرف نیچر کا طویل کائناتی عمل شامل ہے، اور دوسری طرف انسان کی تہذیبی جدوجہد کا لمبا سفر اس کو وجود میں لانے میں سرگرم رہا ہے۔ اِس طرح ناقابلِ یقین حد تک ایک پُراز واقعات تاریخ کے نتیجے میں وہ وقت آیا کہ ایک شخص کو خوب صورت کیس میں پیک کی ہوئی آئس کریم حاصل ہوسکے۔
ایک سائنسی نظریے کے مطابق، تقریباً دس بلین سال پہلے وسیع کائنات گیسوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد لمبے عمل کے نتیجے میں ہائڈروجن اور آکسیجن مخصوص تناسب میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے۔ اِس کے نتیجے میں پانی وجود میںآیا۔ اس کے بعد لمبی مدت تک زمین پر پانی برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں زمین پر پانی کے ذخیرے اکھٹا ہوگیے۔ اس کے بعد حیوانات وجود میں آئے۔ آخر میں انسان اِس زمیں پر آباد ہوا۔
اِس طرح لمبی مدت کے عمل کے نتیجے میں دودھ دینے والے جانور پیدا ہوئے۔ پھر انسانی تہذیب کا عمل شروع ہوا۔ انسانی تہذیب ہزاروں سال تک ایک ارتقائی سفر طے کرتی رہی۔ اس نے حیوانات سے دودھ حاصل کیا۔ پھر اِس د ودھ کے مختلف مرکبات بنائے۔ پھر جدید صنعت ظہور میں آئی۔ اس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ دودھ کو آئس کریم کی شکل میں ڈھالا جاسکے۔ اور اس کو خوب صورت پیکٹ میں پیک کرکے بازار میں لایا جائے۔
عالمِ فطرت اور انسانی تہذیب دونوں کے اس لمبے مشترک عمل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج جب ایک آدمی چند روپیے دے کر بازار سے آئس کریم کا پیکٹ حاصل کرتا ہے تو اِس پورے عمل (process) کے مقابلے میں آدمی کا اپنا حصہ ایک فی بلین سے بھی بہت زیادہ کم ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی کے ہاتھ میں جب آئس کریم کا پیکٹ آئے تو وہ سرتاپا تواضع میں ڈھل جائے۔ دوطرفہ احسان مندی کے جذبے سے اُس کی گردن جھک جائے۔ فخر اور گھمنڈ کاکوئی ذرہ بھی اس کے دل میں باقی نہ رہے۔
یہ صرف آئس کریم کا معاملہ نہیں۔ اِس دنیا میں ہر چیز کا معاملہ یہی ہے۔ کوئی بھی چھوٹی یا بڑی چیز جس کو آدمی استعمال کرتاہے، وہ اِسی طرح انسان کے لیے ایک عالمی عطیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک طرف فطری سپورٹ (natural support) اور دوسری طرف تہذیبی سپورٹ (civilizational support)، اِن دونوں قسم کے عظیم سپورٹ کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی مرد یاعورت اِس زمین پر آباد ہو اور اپنے لیے ایک کامیاب زندگی حاصل کرسکے۔
اِس واقعے کا اِدراک انسان کے لیے بے حد اہم ہے۔ اِسی ادراک کے نتیجے میں انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیداہوتی ہے جس کو تواضع کہاجاتا ہے۔ یہی تواضع انسان کی اصل پہچان ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع نہیں، وہ گویا کہ انسان بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ خدا کا عطیہ

عرب میںجب پٹرول کی دولت آئی تو وہاں اچانک زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ ایک عرب شیخ پہلے معمولی خیمے میں رہتا تھا۔ اُس کی زندگی کاانحصار تمام تر اونٹ کے اوپر تھا، پھر اچانک اُس کے پاس پٹرول کی دولت آگئی۔ اس کے ایک دوست نے اس کے لیے سویزرلینڈ میں جدید طرز کا ایک شان دار مکان خریدا۔ عرب شیخ ہوائی جہاز سے سفر کرکے وہاں پہنچا اور اپنے خوب صورت مکان کو دیکھا تو اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اُسی کا مکان ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔
وہ اپنے مکان کی دیوار اور اس کے فرنیچر کو ہاتھ سے چھو کر دیکھتا تھا کہ وہ سچ مچ اپنے مکان میں ہے، یا وہ خواب میں کوئی تصوراتی محل دیکھ رہا ہے۔ بہت دیر کے بعد جب اس کو یقین ہوا کہ یہ ایک حقیقی مکان ہے اور وہ اُسی کا اپنا مکان ہے تو وہ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ سجدے میں گر پڑا اور دیر تک اِسی حالت میں پڑا رہا۔
یہ کیفیت جو ایک عرب شیخ کے اوپر گزری، یہی کیفیت ہر انسان کے اوپر بہت زیادہ بڑے پیمانے پر گزرنا چاہیے۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کی صورت میںہر انسان کو وہی چیز ملی ہوئی ہے، جو عرب شیخ کو سویزر لینڈ کے مکان کی صورت میں ملی۔ سویزر لینڈ کا مکان عرب شیخ کے لیے جتنا عجیب تھا، اس سے بے شمار گُنا زیادہ عجیب موجودہ کائنات ہے جو کوئی قیمت ادا کیے بغیر ہر اِنسان کو ہر لمحہ ملی ہوئی ہے۔ ہر انسان کاکیس مزید اضافے کے ساتھ وہی ہے جو مذکورہ عرب شیخ کا کیس تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان، کامل طورپر عاجز اورمحروم انسان ہے۔ پھر اس کو موجودہ دنیا کی صورت میں سب کچھ دے دیا جاتا ہے۔ فطرت اپنے تمام خزانوں کے ساتھ تاحیات اس کی خدمت گزار بن جاتی ہے۔
انسان کا پیدا ہونا ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ انسان اگر اپنے بارے میں سوچے تووہ ایک ایک چیز پر دہشت زدہ ہو کر رہ جائے گا۔ ایک ایسا انسان جوزندگی رکھتا ہے، جس کے اندر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ہے، جو سوچتا ہے اور چلتا ہے، جو منصوبہ بناتا ہے اور اس کو اپنے حسب منشا عمل میں لاتا ہے۔ یہ سب اتنی زیادہ انوکھی صفات ہیں جو انسان کو اپنے آپ بلا قیمت ملی ہوئی ہیں۔ انسان اگر اِس پر سوچے تو وہ شکر کے احساس میں ڈوب جائے۔
پھر یہ دنیا جس کے اندر انسان رہتا ہے، وہ حیرت ناک حد تک ایک موافقِ انسان دنیا ہے۔ زمین جیسا کُرہ ساری وسیع کائنات میںکوئی دوسرا نہیں۔ یہاں پانی ہے، یہاں سبزہ ہے، یہاںہواہے، یہاںدھوپ ہے، یہاں کھانے کا سامان ہے اور دوسری اَن گنت چیزیں خالق کے یک طرفہ عطیے کے طورپر موجود ہیں۔ یہ چیزیں زمین کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
اگر آدمی اِس حقیقت کو سوچے تو وہ مذکورہ عرب شیخ کی طرح شکر کے احساس سے سجدے میں گر پڑے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کو فارگرانٹیڈ(for granted) طور پر لیے رہتاہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ جوکچھ ہے، اُس کو ہونا ہی چاہیے۔ جوکچھ اُس کو ملا ہوا ہے، وہ اُس کو ملنا ہی چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا امتحان ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے شعور کو زندہ کرے۔ وہ بار بار سوچ کر اِس حقیقت کو سمجھے کہ وہ سرتا پا ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ مکمل طورپر خدا کے دینے سے ملا ہے۔ خدا اگر نہ دے تو اُس کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔ جو چیزیں انسان کو بظاہر اپنے آپ مل رہی ہیں، اُن کو وہ اِس طرح لے، جیسے کہ وہ ہر وقت براہِ راست خدا کی طرف سے بھیجی جارہی ہیں۔ وہ ملی ہوئی چیزوں کو دی ہوئی چیزوں کے طور پر دریافت کرے۔
خدا کا مطلوب انسان وہ ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ بظاہر اسباب کے تحت ملنے والے سامانِ حیات کو بلااسباب خدا کی طرف سے ملاہوا سمجھے، وہ معمول(usual) کو خلافِ معمول (unusual) کے طورپر دیکھ سکے، وہ غیب کو شُہود کے درجے میں دریافت کرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںخدا کا دیدار نصیب ہوگا اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے پڑوس میںبنائی جانے والی ابدی جنت میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا پیغام

قرآن کی سورہ مریم میں قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ (19:97)یعنی قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ وہ اہلِ تقویٰ کے لیے بشارت ثابت ہو۔ ’بشارت‘ کا مطلب اچھی خبر (good news) ہے۔ قرآن، خدا کی ایک مستند کتاب ہے۔ قرآن تمام انسانوں کو ایک اچھی خبر دینے والا ہے۔ وہ اچھی خبر یہ ہے کہ انسان اگر دنیا کی محدود زندگی میں حسنِ عمل کا طریقہ اختیار کرے تو وہ موت کے بعد کی زندگی میں ابدی جنت میں جگہ پائے گا۔
قرآن کے مطابق، یہ اچھی خبر اُن افراد کے لیے ہے جو دنیا کی زندگی میں تقوی کی روش اختیار کریں- جنت عمومی طورپر ہر انسان کو نہیں ملے گی، وہ صرف اُس انسان کو ملے گی جو دنیا کی زندگی میں تقوی کا ثبوت دے (3:133)- جنت ایک معیاری دنیا ہے- اِس معیاری دنیا میں جگہ پانے کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ تقوی ہے-قرآن کے مطابق، یہی وہ منصوبۂ تخلیق (creation plan) ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کرکے اس کو محدود مدت کے لیے سیارۂ ارض (planet earth) پر بسایا گیا ہے۔ سیارۂ ارض انسان کے لیے کوئی عیش گاہ نہیں ہے، وہ مذکورہ مقصد کے لیے مقامِ انتخاب (selection ground) ہے۔ یہاں وہ افراد چُنے جارہے ہیں جو اپنی اعلیٰ صفات کی بنا پر جنت جیسی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ یہی بات قرآن کی سورہ الملک میں اِن الفاظ میں کہی گئی ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا )67:2)یعنی اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتاہے:
He created death and life so that He might test you, and find out which of you is best in conduct.
اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں، وہ وسیع تر تقسیم (division) میں دوہیں— مادی دنیا اور انسان۔ مادی دنیا سے مراد وہ پوری وسیع کائنات ہے جس کو نیچر (nature)کہاجاتاہے۔ مادی دنیا مکمل طورپر خدا کے مقرر کئے ہوئے قانون (divine laws) کے تحت کام کررہی ہے۔ وہ خدا کے قانون سے ادنی انحراف نہیں کرتی۔ مگر انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان پوری کائنات میں ایک استثنا کی حیثیت رکھتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو انتخاب کی آزادی (freedom of choice) عطا کی گئی ہے۔ انسان کو کامل اختیار حاصل ہے کہ وہ خود اپنی سوچ کے مطابق، اپنے قول وعمل کا فیصلہ کرے۔ یہ بات قرآن کی مختلف آیتوں میں بتائی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں، حالاں کہ اُسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے، خوشی سے یا ناخوشی سے، اور سب اُسی کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘ (3: 83)۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کا ترجمہ یہ ہے:’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا، تو وہ دین اُس سے ہر گز قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں ناکام انسانوں میں سے ہوگا‘‘ (3: 85)
قرآن کی اِس آیت میں لفظ ’اسلام‘ (submission) استعمال کیا گیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کی جو اطاعت بقیہ کائنات سے جبری (compulsory) طورپر مطلوب ہے، انسان سے یہ مطلوب ہے کہ اِسی اطاعت کو وہ کامل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق، جنت کی بشارت متقی انسانوں کے لیے ہے۔ متقی کا لفظی مطلب ہے — ڈرنے والا یا بچنے والا۔ ڈرنا یا بچنا کیا ہے، یہ دراصل حساسیت (sensitivity) کا ایک ظاہرہ ہے۔ جب آدمی کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ باشعور ہوجائے تو فطری طور پر وہ اس کے بارے میں بہت زیادہ حساس (sensitive) ہوجاتاہے۔ انسان کی زندگی میں سب سے بڑا رول اِسی حساسیت کا ہے۔ آدمی جس چیز کے بارے میں حساس نہ ہو، وہ اس کو نظر انداز کرے گا، اور جس چیز کے بارے میں وہ حساس ہو، وہ چیز اس کا کنسرن (concern) بن جائے گی۔ عین اپنے مزاج کے مطابق، اُس کو وہ سب سے زیادہ قابلِ توجہ چیز سمجھنے لگے گا۔
قرآن کا پیغام یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچائے۔ وہ اپنے شعورکو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ اپنی زندگی میں خدا کی اطاعت ہی اُس کا سب سے بڑا کنسرن (sole concern) بن جائے، کوئی دوسری چیز اس کی حساسیت کا مرکز نہ بنے۔
قرآن کی اِس آیت میں د راصل اُس چیز کا حکم دیاگیا ہے جس کو ایک لفظ میں صحیح طرزِ فکر کہاگیا ہے۔ انسانی زندگی کی درستگی کا سارا مدار اِس پر ہے کہ اس کے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہو جائے۔ وہ اپنے قول اور عمل کے معاملے میں اپنے آپ کوپوری طرح قانونِ خداوندی کے مطابق بنالے۔
ایسے آدمی کا حال کیا ہوگا، اُس کو قرآن میں مختلف مقامات پر بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَلَا تَــقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰۗىِٕکَ کَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا (17: 36)یعنی تم اُس چیز کے پیرو نہ بنو جس کا تمھیں علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل سب کی، آدمی سے پوچھ ہوگی۔
قرآن کی اِس آیت میں د راصل اُس چیز کا حکم دیاگیا ہے جس کو ایک لفظ میں صحیح طرزِ فکر کہاگیا ہے۔ انسانی زندگی کی درستگی کا سارا مدار اِس پر ہے کہ اس کے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہو جائے۔ وہ اپنے قول اور عمل کے معاملے میں اپنے آپ کوپوری طرح قانونِ خداوندی کے مطابق بنالے۔
انسان کو سننے کی طاقت، دیکھنے کی طاقت اور سوچنے کی طاقت اِس لیے دی گئی ہے، تاکہ انسان اُن کا استعمال کرکے اپنے لیے اُس صحیح روش کو جان سکے جس کو قرآن میں صراطِ مستقیم کہاگیاہے۔ صراطِ مستقیم سے ہٹنا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے اپنی ملی ہوئی صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال نہیں کیا۔ ایساآدمی اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ مواخذہ (accountable) قرار پائے گا، کو ئی بھی عذر اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا 30: 57) )۔اِسی طرح حیاتِ انسانی کا ایک اصول یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کبر (arrogance) کی نفسیات سے بچائے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ(31: 18) یعنی تم زمین میں اکڑ کر نہ چلو۔ بے شک اللہ کسی اکڑنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
قرآن کی اِس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے لیے سب سے بُری اخلاقی صفت کیا ہے، وہ کبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کبر تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کے برعکس، تواضع (modesty) تمام بھلائیوں کا سرچشمہ۔ قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے جو متواضع ہو اور کبر کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔
قرآن کی سورہ الفجر میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے ساتھ جو خوش گوار یا نا خوش گوار تجربات پیش آتے ہیں، وہ صرف ابتلا (test) کے لیے ہوتے ہیں، مگر انسان ایسے واقعات کو منفی معنی میں لے لیتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ خوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أکرمن‘ کی نفسیات میںمبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ برتری (superiority complex) کی نفسیات میں۔ اِس کے برعکس، اگر اُس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أہانن‘ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ کم تری (inferiority complex) کی نفسیات میں (89:15-16)۔
قرآن کے مطابق، یہ دونوں چیزیں انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ انسان کے ساتھ کوئی خوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ اور اگر اس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ جو انسان اِس طرح معتدل شخصیت کا ثبوت دے، اس کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (89:27)کہاگیا ہے، یعنی کامپلکس فری انسان (complex-free soul) ۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کسی انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اُس کو موت کے بعد کی ابدی زندگی میں جنت میں داخلہ مل جائے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اِنَّ ھٰذَا لَہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ؀ لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ (37:60-61)یعنی یقینا یہی بڑی کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔اِس سے معلوم ہواکہ قرآن کے مطابق، انسان کا گول (goal) کیا ہونا چاہئے، وہ گول صرف ایک ہے، اور وہ جنت ہے۔ جنت سادہ طور پر صرف ایک عیش گاہ نہیں ہے۔ جنت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رب العالمین کا پڑوس ہے، اور بلاشبہہ کسی انسان کے لیے اِس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی کہ اس کو ابدی زندگی میں اپنے رب کا پڑوس (neighbourhood) حاصل ہوجائے۔ جنت کی یہ خصوصیت قرآن کی اِس دعا سے معلوم ہوتی ہے: رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ (66:11) یعنی اے میرے رب، میرے لیے تو اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے۔
واپس اوپر جائیں

کائنات کا سائنسی مطالعہ

کائنات کے سائنسی مطالعے کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک مشہور عالم نے لکھا ہے — کائنات کے اسرار کی جستجو اور رموزِ فطرت کی عقدہ کشائی کا ذوق ایمان کے دروازے کی کلید ہے- لیکن جس جستجو کا مطلوب خدا نہ ہو اور جو عقدہ کشائی ایمان بالآخرت کی طرف رہبری کرنے والی نہ ہو، قرآن کے نزدیک یہ جستجو ہرزہ گردی اور یہ عقیدہ کشائی بادپیمائی ہے-
موجودہ سائنس کا موضوع کائنات (nature)کا مطالعہ ہے- مگر سائنس کا مقصد نہ فلسفیانہ مطالعہ ہے اور نہ مذہبی مطالعہ- فلسفیانہ مطالعہ ا ور مذہبی مطالعہ دونوں، علمی اصطلاح کے مطابق، سبجیکٹیو مطالعہ (subjective study) کے طریقے ہیں- اس کے برعکس، سائنس کا طریقِ مطالعہ وہ ہے جس کو آبجیکٹیو مطالعہ (objective study) کہاجاتا ہے، یعنی کائنات کے صرف اُس پہلو کا مطالعہ جو تجربے اور مشاہدے کی گرفت میں آتا ہو-
سائنسی تحقیق کی حیثیت کسی مذہبی کتاب جیسی نہیں ہے- اپنے موضوعِ مطالعہ کے اعتبار سے، سائنس کی حیثیت صرف یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ڈیٹا(data) فراہم کردے- یہ ہمارا کام ہے کہ ہم سائنس کے فراہم کردہ ڈیٹا کو کس طرح استعمال کرتے ہیں- میںنے سائنس کا مطالعہ اِسی نقطہ نظر کے تحت کیا ہے- میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ اقتباس اِس معاملے میں صورتِ حال کی صحیح نمائندگی نہیں ہے- اِس معاملے میں زیادہ درست طورپر کہنے کی بات یہ ہے کہ — کائنات خداکی تخلیق ہے- کائنات کا مطالعہ براہِ راست طورپر تخلیق کی دریافت ہے اور بالواسطہ طورپر خدا کی دریافت-
سائنس کو صرف سائنس کے اعتبار سے دیکھنا چاہیے- سائنس نے گہرے مطالعے کے ذریعے فطرت کے بارے میں قابلِ قدر ڈیٹا (valuable data) فراہم کردئے ہیں- یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اِس ڈیٹا کو استعمال کرکے اسلام کا نیا علمِ کلام مرتب کریں- یہ ہمارے اپنے عمل کا معاملہ ہے، نہ کہ سائنس کے طریقِ مطالعہ کا معاملہ-
واپس اوپر جائیں

مسلم تاریخ کا احیا

1799 میں مسلم دنیا میں دو بڑے بڑے واقعات ہوئے۔ایک طرف، اِسی سال میسور (انڈیا) کے سلطان ٹیپو، انگریز فوج سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اس کے بعد انگریزی فوج کے جنرل نے خوش ہو کر کہا تھا:
Today, India is ours.
دوسری طرف، اِسی سال(1799) بحرِ روم (Mediteranean Sea) میں واقع عثمانی ترکوں کے طاقت ور بحری بیڑہ (naval fleet) پر یورپی قوموں نے حملہ کیا اور اس کو تباہ کردیا۔ اِس کے بعد یورپی فوج کے جنر ل نے خوش ہو کر کہا تھا:
This is the beginning of the end.
1799 مسلمانوں کے عروج کے خاتمے کی علامت ہے۔ دوسری طرف، یہی 1799 مسلمانوں کے زوال کے آغاز کی علامت ہے۔ اِس کے بعد پوری مسلم دنیا میں احیائِ ملت کے نام سے زبردست سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ مگر لمبی مدت کی غیر معمولی قربانیوں کے باوجود احیائِ ملت کی یہ دوسو سالہ جدوجہد اپنے مطلوب نتیجے کے اعتبار سے، سرتا سر ناکام رہی۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ اس کا نقطۂ آغاز ہی درست نہ تھا۔اُس وقت اٹھنے والے مسلم رہناؤں کے لیے جو فوری ریفرنس (immediate reference) تھا، وہ مسلمانوں کی سیاسی تاریخ تھی۔ چناں چہ مسلم احیا کی تحریک عملاً مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کے احیا کی تحریک بن گئی۔ حالاں کہ احیا کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلمان تاریخ سے گزر کر دورِ نبوت تک پہنچیں اور وہ سنتِ رسول کے احیا کو اپنا نشانہ بنائیں، نہ کہ مسلم تاریخ کے احیا کو۔
اِسی غلطی کا یہ نتیجہ ہے کہ اِس دور میں اٹھنے والی مسلم تحریکوں کا نشانہ فکر اسلامی کا احیا نہ رہا، بلکہ عملاً مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کا احیا اُن کا نشانہ بن کررہ گیا۔
واپس اوپر جائیں

مردوزن کی مساوات

مردوزن کی مساوات (gender equality)کا لفظ پہلی بار یورپ میں استعمال کیا گیا - ابتداء ً اِس کا مطلب تھا عورت اور مرد دونوں کو ووٹ کا یکساں حق دینا-اس کے بعدیہ اصطلاح بہت مقبول ہوئی اور ہر اعتبار سے مردوزن کی مساوات کو بتانے کے لیے اس کو ایک معیاری اصطلاح کا درجہ حاصل ہوگیا- بیسویں صدی کے نصف آخر میں مزید تحقیقات کے بعد مساواتِ مردوزن کا نظریہ تنقید کا شکار ہوگیا-
اِس سلسلے میں رسرچ کے متعدد نتائج شائع ہوچکے ہیں- اِس سلسلے کی تازہ ترین تحقیق وہ ہے جو امریکا کی پنسلوینیا یونی ورسٹی میں ہوئی ہے اور وہ امریکا کے ایک جرنل (Proceedings of the National Academy of Science) کے شمارہ 3 دسمبر 2013 میں چھپی ہے- اِس رسرچ کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (4 دسمبر 2013) میں شائع ہوا ہے-
اِس رسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان شدید فرق (stark difference) پایا جاتا ہے- اِس میں بتایا گیا ہے کہ عورتوں کی ذہنی ساخت اور مردوں کی ذہنی ساخت میں فرق ہوتا ہے:
Women's brains are designed for social skills and memory, while men's are for perception and coordination. (The Times of India, New Delhi, December 4, 2013, page 23)
عورت اور مرد کی فطری ساخت میں فرق ایک عظیم حکمت پر مبنی ہے، وہ یہ کہ دونوں زندگی کی گاڑی چلانے میں دو پہیے کا رول ادا کریں- دونوں اپنے اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مددگار بنیں- عورت اور مرد کے درمیان مساوات بہ اعتبار رتبہ ہے، نہ کہ بہ اعتبار رول:
Equal in status, but different in role.
واپس اوپر جائیں

تخلیق ِ انسانی کا مقصد

ہر زمانے کے اہلِ فکر ہمیشہ یہ سوچتے رہے ہیں کہ انسان کی تخلیق کا مقصد (purpose of creation) کیا ہے- معلوم تاریخ کےمطابق، تقریباً 5 ہزار سال سے انسان اِس سوال کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے- مگر اکیسویں صدی عیسوی کے ربع اول تک اِس کا کوئی متفق علیہ جواب انسان دریافت نہ کرسکا-
مشہور برٹش سائنس داں سر جیمز جینز (وفات: 1946) نے اپنی کتاب پراسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں لکھاہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیں گئی تھی:
It seems that man has strayed in a world that was not made for him.
اِس موضوع پر سوچنے والے لوگوں نے عام طورپر مایوسی کی باتیں کی ہیں- ایک روسی مصنف نے لکھا ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز حسین (beautiful) ہے، صرف ایک چیز ہے جو حسین نہیں، اور وہ انسان ہے-
ڈاکٹر الکسس کیرل نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے- اِس موضوع کی پیچیدگیوں کی بناپر انھوں نے اِس کا نام انسانِ نامعلوم (Man the Unknown)رکھ دیا ہے- برطانی مصنف ایڈورڈ گبن نے لکھا ہے کہ انسانی تاریخ جرائم کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے-
فرانس کے مشہور فلسفی ڈیکارٹ نے انسان کی ہستی پر غور کیا- اس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں(I think, therefore, I exist)- ڈیکارٹ کے اِس قول سے صرف انسان کے وجود کی تصدیق ہوتی ہے، لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ انسان کے وجود کا مقصد (purpose of existence) کیا ہے-
مشہور یونانی فلسفی ارسطو (وفات: 322 ق م) نے اِس مسئلے پر غور کیا- انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ — صرف قانونی نظام یہ کرسکتاہے کہ وہ لوگوں کو اُن کے وحشیانہ سلوک سے بچائے:
The legal system alone saves people from their own savagery.
ارسطو کو معلمِ اول کہاجاتا ہے- چناںچہ یہی سوچ بعد کی تاریخ میں رائج ہوگئی- ارسطو کی سوچ کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو اعلی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، لیکن یہ اوصاف ابتدائی طورپر بالقوہ حالت میں ہوتے ہیں- اِس بالقوہ کو بالفعل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک موافق سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system) موجود ہو- اُس وقت کا یونانی بادشاہ سکندر اعظم (وفات: 323 ق م) ارسطو کا شاگرد تھا- ارسطو نے چاہا کہ بادشاہ کے تعاون سے وہ یونان میں مطلوب سیاسی اور سماجی نظام بنا سکے، مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا- چناں چہ ارسطو مایوسی(despair) کی حالت میں صرف 62 سال کی عمر میں مرگیا-
ارسطو کے نزدیک انسانی فلاح صرف صالح اجتماعی نظام کے ذریعے ممکن ہوسکتی تھی- ارسطو نے اپنے اس تصور کو فلسفہ کی زبان میں بیان کیا- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس نے اپنے اِس تصور کو فلاسفائز (philosophise)کیا- اِس کے ایک عرصہ بعد جرمنی میں کارل مارکس(وفات: 1883) کا دور آیا- کارل مارکس نے اِس تصور کو اقتصادی اصطلاحوں میں بیان کیا- دوسرے لفظوں میں یہ کہ مارکس نے اِس تصور کو سیکولر ائز (secularise)کیا- مگر کارل مارکس، عالمی کمیونسٹ پارٹی اور اِس تصور پر بننے والی سوویت ریاست (USSR) سب کی سب، اپنے اجتماعی نشانے کے حصول میں مکمل طورپر ناکام ہوگئے-
اِس کے بعد یہ فکری منہج مسلمانوں کے درمیان رائج ہوا- عرب دنیا میں سید قطب (وفات: 1966) اور برصغیر ہند میں سید ابو الاعلی مودودی(وفات: 1979) پیدا ہوئے- اِن لوگوں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر اِس فکری منہج کو اسلام میں داخل کردیا- انھوں نے اسلام کی سیاسی تفسیر بیان کی- انھوں نے اسلامی زندگی کے لیے اس کے مطابق، سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system)کے  قیام کو ضروری قرار دیا — ارسطو نے اِس تصور (concept) کا فلسفیانہ ایڈیشن تیار کیا تھا- کارل مارکس نے اِس تصور کا سیکولر ایڈیشن بنایا اور سید قطب اور سید ابو الاعلی مودودی نے اِس تصور کا اسلامی ایڈیشن تیار کردیا-
تاریخ بتاتی ہے کہ پچھلے ڈھائی ہزار سال کے دوران یہ نظریہ کبھی بھی واقعہ نہ بن سکا- کبھی کسی ملک میں ایسا نہیں ہوا کہ مصلح کے بیان کردہ نشانے کے مطابق، کوئی اجتماعی نظام یاکوئی سماجی نظام قائم ہوا- تاریخ بتاتی ہے کہ اِس نظریے کے تمام علم بردار آخر کار مایوسی کی حالت میں مرے، وہ دنیا کواپنے تصور کے مطابق، مطلوب نظام نہ دے سکے-
اِس سے بھی زیادہ تلخ بات یہ ہے کہ اِس قسم کے تمام نام نہاد مصلحین کا انجام یہ ہوا کہ وہ تعمیر کے نام پر اٹھے اور دنیا کو عملاً تخریب کا تحفہ دے کر چلے گئے- ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم نے ساری دنیا کے خلاف جنگ چھیڑ دی- کارل مارکس کے ماننے والوں نے اپنا مفروضہ نظام قائم کرنے کے نام پر روس میں 25 ملین انسانوں کو ہلاک کردیا- سید قطب اور سید ابو الاعلی مودودی کی تحریک کے نتیجے میں مختلف ملکوں میں اپنے مطلوب نظام کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد (armed struggle) شروع ہوئی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو مزید تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ملا-
اجتماعی اصلاح کی اِن تحریکوں کا یہ منفی انجام کیوں ہوا- اِس کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی نظام کا تعلق براہِ راست سیاسی اقتدار سے ہے- جب بھی آپ کسی ملک میں اپنی پسند کا اجتماعی نظام قائم کرنے کے لیے اٹھیں گے تو وہاں لازماً اُن لوگوں سے آپ کا ٹکراؤپیش آئے گا جو بروقت سیاسی اقتدار پر قابض ہیں- اِس طرح اجتماعی نظام کا نظریہ اول دن سے ٹکراؤ کے ہم معنی بن جاتاہے-
سیاسی ٹکراؤ کوئی سادہ بات نہیں- سیاسی ٹکراؤ کا طریقہ عین اپنے نتیجے کے طور پر انسان کو دو طبقوں میں تقسیم کردیتاہے- اسلام کے پولٹکل مفسرین کے الفاظ میں، ایک، ’’طاغوت‘‘ اور دوسرے، مخالفِ طاغوت- مخالفِ طاغوت گروہ اپنی تحریک کو پہلے قائم شدہ حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کے طورپر شروع کرتا ہے-آغاز میں یہ کام بظاہر پُرامن طورپر شروع ہوتا ہے، لیکن جب پُرامن ذریعہ ناکام ہوجاتا ہے تو اس کے بعد دھیرے دھیرے قائم شدہ حکومت کے خلاف تشدد شروع ہوجاتا ہے، پھر جب تشدد سے بھی مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو اس کے بعد آخری چارۂ کار کے طورپر خود کش بم باری شروع کردی جاتی ہے- اجتماعی انقلاب کا نتیجہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر صرف اجتماعی ہلاکت بن کر رہ جاتا ہے-اِس معاملے میں تباہ کن ناکامی کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی انقلاب کا نظریہ اپنے آپ میں ایک غیرفطری نظریہ ہے- وہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں کوئی ایسا نظریہ کبھی مثبت نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا جو خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہو-
خالق کا نقشۂ تخلیق
خالق کا نقشہ تخلیق(creation plan) کیا ہے- اس کو جاننے کا واحد مستند ذریعہ صرف قرآن ہے- قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے انسان کو جس نقشے کے مطابق، پیدا کیا ہے، وہ کسی مفروضہ اجتماعی نظام پر مبنی نہیں ہے، وہ تمام تر انفرادی اصلاح کے تصور پر مبنی ہے- خالق نے دنیا میں اپنی اسکیم کو برروئے کار لانے کے لیے ہر دور میں پیغمبر بھیجے- اِن تمام پیغمبروں کا نشانۂ دعوت ہمیشہ فرد (individual) ہوا کرتا تھا، نہ کہ کسی قسم کا سوشیو پولٹکل سسٹم (socio-political system) خالق کا اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، اصل کنسرن (concern) یہ نہیں ہے کہ دنیا میں اجتماعی سطح پر کوئی آئڈیل نظام بنایا جائے- خالق کا نشانہ فرد سازی ہے، مجتمع سازی نہیں، کیوں کہ تخلیقی نقشے کے مطابق، مجتمع سازی آئڈیل معنوں میں ممکن ہی نہیں- آئڈیل نظام یا آئڈیل سماج صرف جنت میں قائم ہوسکتا ہے- موجودہ دنیا کی حیثیت انتخابی میدان (selection ground) کی ہے- خالق کی منشا یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ایسے اعلی افراد چنے جائیں جو آخرت کی ابدی جنت میں بسائے جانے کے مستحق ہوں-اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی سورہ البقرہ کا مطالعہ کرنا چاہئے- اِس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیتوں کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیںجانتے۔ اور اللہ نے سکھادئے آدم کو سارے نام، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان لوگوں کے نام بتائو‘‘۔ (2:30-31)
اللہ تعالی نے جب انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ زمین کو اِس آزاد مخلوق کے چارج میں دے دے، اُس وقت فرشتوں نے یہ شبہہ ظاہر کیا کہ آزادی پاکر انسان زمین پر فساد کرے گا اور خون بہائے گا- فرشتوں کا یہ شبہہ بے بنیاد نہ تھا- خود قرآن کے بیان سے ثابت ہے کہ فی الواقع ایسا ہی ہوا- ساتویں صدی کے ربع او ل میں جب قرآن اترا تو اللہ تعالی نے اس میں یہ آیت شامل فرمائی: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (30:41) یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے-
یہاںیہ سوال ہے کہ جب بطور واقعہ وہی ہوا جس کا شبہہ فرشتوں نے ظاہر کیا تھا، تو پھر اللہ نے اولادِ آدم کو کیوں پیدا کیا اور کیوں اُن کو زمین پر بسنے کا موقع دیا-
جیسا کہ معلوم ہے، آدم کی پیدائش سے لے کر ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول تک جب کہ قرآن نازل ہوا، ہر قوم اور ہر بستی میں مسلسل طورپر اللہ کی طرف سے نذیر (بتانے والے) آتے رہے، اس کے باوجود آدم کی بعد کی نسلوں میں پیدا ہونے والے لوگوں کی اکثریت مفسد ثابت ہوئی، حتی کہ پوری تاریخ فساد سے بھری ہوئی تاریخ بن گئی- ایسی حالت میں یہ سوال ہےکہ اللہ تعالی نے انسان کو کیوں پیدا کیا- اِس سوال کا جواب قرآن کی مذکورہ آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے-
قرآن کی اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے آدم کو اُن کی اولاد کے نام (أسماء) بتائے- یہاں علمِ اسماء سے مراد علمِ مسمَّیات ہے- یہاں اسم سے مراد افراد کے نام (names)نہیں، بلکہ یہاں اسم سے مراد مُسمّیٰ (named) ہے، یعنی نام سے موسوم افراد-دوسری بات یہ کہ اُس وقت آدم کے سامنے اللہ نے اُن کی اولاد کے جن لوگوں کو پیش کیا، وہ پوری ذریتِ آدم یا پورا مجموعۂ انسانی نہ تھا- کیوں کہ اگر تمام پیدا ہونے والے انسان اُن کے سامنے پیش کیے جاتے تو فرشتوں کا شبہہ رفع نہیں ہوسکتا تھا، بلکہ اِس قسم کے مظاہرے سے فرشتوں کے شبہہ کی تصدیق ہوجاتی- کیوں کہ خود قرآن کی تصدیق کے مطابق، پیدا ہونے والے انسانوں کی عظیم اکثریت عملاً مفسدثابت ہوئی-
اِس پہلو پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نےاُس وقت پوری اولادِ آدم کو نہیں بلکہ صرف اولادِ آدم کے منتخب افراد کو پیش کیا تھا- یہ منتخب افراد وہی تھے جن کو قرآن میں دوسرے مقام پر نبی اور صدیق اور شہید اور صالح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے (4:69)- یہ مظاہرہ اللہ تعالی نے صرف فرشتوں کے لیے نہیں کیاتھا، بلکہ بالواسطہ طورپر اُس کا مخاطب وہ انسان بھی تھے جو اللہ کے مقصد تخلیق کو سمجھنا چاہتے ہوں-
اِس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی سورہ الملک کی ایک آیت سے معلوم ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)- اِس آیت سے اور قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق سے اللہ تعالی کا مقصود احسن العمل افراد ہیں، پورے مجموعۂ انسانی میں عدل اور فلاح کا نظام قائم کرنا منصوبہ الہی کا نشانہ نہیں-
اِس کا سبب یہ ہے کہ خالق نے جس نقشے کے تحت انسان کو پیدا کیا، اس میں ایسا ہونا ممکن ہی نہ تھا- کیوں کہ اِس منصوبۂ تخلیق کے مطابق، ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی تھی- ہر انسان کے لیے کامل معنوں میں آزادانہ انتخاب (freedom of choice) کا موقع کھلا ہوا تھا- ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات تھی کہ لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں اور اِس طرح اکثر لوگ عملاً مفسد بن جائیں-اِس بنا پر اللہ تعالی نے ایک قابلِ عمل نشانے کا انتخاب کیا، یعنی اپنے منصوبہ تخلیق کو مبنی بر فرد کے اصول پر قائم کرنا، نہ کہ مبنی بر مجموعہ کے اصول پر-
اللہ تعالی کے مقرر کردہ نقشہ تخلیق کے مطابق، اب جو ہورہاہے، وہ یہ کہ زمین پر کامل معنوں میں آزادی کا ماحول ہے- لوگ ایک کے بعد ایک پیدا ہورہے ہیں- اُن میں سے کوئی فرد اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کوئی غلط استعمال- عین اُسی وقت ایک غیبی نظام کے تحت فرشتے ہرایک کا پورا ریکارڈ تیار کررہے ہیں- یہ ریکارڈ قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہوگا- اُس وقت جو ہوگا، اس کو قرآن میں پیشگی طورپر مختلف الفاظ میں بیان کردیا گیاہے- مثلاً کہاگیا ہے: فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (42:7) یعنی ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں-
تخلیق کے اِس تصور کے مطابق، آخرت میں یہ ہوگا کہ پوری نسلِ انسانی سے صالح افراد چنے جائیں گے، یعنی وہ لوگ جنھوں نے یہ ثبوت دیا تھا کہ آزادی کے باوجود انھوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کیا- آزادی کے باوجود وہ کامل معنوں میں با اصول زندگی کے پابند رہے، آزادی کے باوجود انھوںنے اپنے آپ کو پوری طرح بے راہ روی سے بچایا- اِس طرح انھوں نے ثابت کیا کہ وہ جنت کے آئڈیل معاشرے میں بسائے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں- آخرت میں پوری تاریخ بشری کے اِن منتخب افراد کو جنت کے معیاری معاشرے میں بسادیا جائے گا، اور بقیہ لوگ جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرنے میں ناکام رہے، اُن کو دوسرے انسانوں سے الگ کرکے کائناتی کوڑا خانہ (universal litterbin) میں ڈال دیا جائےگا، جس کا دوسرا نام جہنم ہے- (2013)
واپس اوپر جائیں

دہشت گردی کا مسئلہ

دہشت گردی (terrorism) کیا ہے۔ دہشت گردی اور جنگ (war) کے درمیان بہت مشابہت ہے۔ اِس لیے دہشت گردی کی ایسی تعریف کرنا ضروری ہے جس میں دہشت گردی کو جنگ سے الگ کیا جاسکے۔ دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ جنگ باقاعدہ طور پرقائم شدہ حکومت کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کا نام ہے، اور دہشت گردی اُس مسلّح کارروائی کو کہا جاتا ہے جو غیر ریاستی افراد (non-state actors) کے ذریعے انجام دی گئی ہو۔ ریاست کی طرف سے کیا جانے والا تشدد اپنے حق کا غلط استعمال ہے، اور غیر ریاستی تنظیم کی طرف سے کیا جانے والا تشدد ایک ایسا کام ہے جس کا سرے سے ان کو حق ہی نہیں۔
اِس تعریف (definition)کے مطابق، دہشت گردی اسلام میں سراسر ناجائز ہے۔ کیوں کہ اسلام کا اصول یہ ہے کہ: الرحیل للإمام (جنگ کا اعلان صرف حاکمِ وقت کا ایک خصوصی حق ہے)۔ غیر ریاستی افراد کو اگر کسی فرد یا کسی ادارے سے شکایت ہے تو اُن کے لیے صرف ایک ہی آپشن (option) ہے، یہ کہ وہ پُرامن انداز کے پابند رہتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کریں۔ غیر ریاستی افراد کو کسی بھی عذر (excuse) کی بنا پر مسلح کارروائی کی اجازت نہیں۔ غیر ریاستی افراد یا ادارہ اگر کسی معاملے میں مسلح کارروائی کا طریقہ اختیار کریں تو اِسی کا نام دہشت گردی ہے۔
غیر ریاستی افراد اگر اپنی مسلح کارروائی کو جہاد کا نام دیں تو جہاد کا نام دینے سے اُن کا عمل جہاد نہیں بن جائے گا، اِس کے باوجود وہ فساد قرار پائے گا۔ اللہ کی نظر میں ایسے لوگ مفسد قرار پائیں گے، نہ کہ مصلح۔ایک قائم شدہ حکومت اسلام کے مطابق، نیز عالمی طور پر تسلیم شدہ اصول کے مطابق، جنگ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ لیکن یہ حق ایک لازمی شرط کے ساتھ مشروط ہے، وہ یہ کہ یہ جنگ صرف دفاع (defence) کے لیے ہونا چاہئے، یعنی اُس وقت جب کہ ایک ملک دوسرے ملک کے اوپر جارحیت کرے۔ اِس قسم کی جارحیت کے خلاف جنگ کرنا ہر حکومت کا حق ہے، بشرطیکہ یہ ثابت ہوجائے کہ جارح ملک نے بالقصد جارحانہ کارروائی کا معاملہ کیا ہے۔
اسلام کے مطابق، ظلم یا دشمنی کے حوالے سے ایک قائم شدہ حکومت بھی کسی کے خلاف جنگ نہیں چھیڑ سکتی۔ اگر کسی حکومت کو یہ شکایت ہو کہ اس کے خلاف کسی کی طرف سے دشمنی کا عمل کیاجارہا ہے، تب بھی اس کو پرامن حدود میں رہ کر اپنی جوابی تدبیر کرنا چاہیے۔ ظلم یا دشمنی کا حوالہ کسی حکومت کو یہ جواز فراہم نہیںکرتا کہ وہ ا س کے خلاف مسلح کارروائی شروع کردے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (41: 34 (یعنی بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہیں۔ تم برائی کو اُس چیز سے دفع کرو جو زیادہ بہتر ہے، تو تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمھارے دمیان عداوت ہے، گویا وہ ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمنی اور دوستی دونوں اضافی الفاظ ہیں۔ خالق نے ہر انسان کو فطرتِ سلیم پر پیدا کیا ہے۔ بظاہر اگر کوئی شخض ظلم یا دشمنی کرتا ہوا نظر آئے تو اس کو بھی بالقوۃ دوست (potential friend) کے روپ میں دیکھنا چاہیے۔ اپنی طرف مثبت روش کے ذریعے یہ کوشش کرنا چاہیے کہ بالقوۃ دوست آپ کا بالفعل دوست (actual friend) بن جائے۔
قرآن کی ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے: الصلح خیر (4:128 (یعنی مصالحت کا طریقہ بہترین طریقہ ہے۔ اِسی طرح حدیثِ رسول میں آیا ہے کہ: إن اللہ یعطی علی الرفق، ما لا یعطی علی العُنف (صحیح مسلم، رقم الحدیث:2593 ) یعنی اللہ نرمی پر وہ دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔
’صلح‘ اور ’رفق‘ کو ایک لفظ میں امن (peace) کہہ سکتے ہیں۔ اسلام میں امن پر بہت زور دیاگیا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر حال میں امن کا طریقہ اختیار کرو، خواہ امن قائم کرنے کے لیے تم کو یک طرفہ صبر کا طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں صلح حدیبیہ اِسی قسم کی تدبیرِ امن کی ایک واضح مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔اسلام میں امن کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں دی گئی ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام میں امن کی حیثیت سماجی اعتبار سے، خیرِ اعلیٰ (summom bonum) کی ہے۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کام کو انجام دینے کے لیے امن کی ضرورت ہوتی ہے، حتی کہ پر امن حالات کے بغیر نماز اور روزہ جیسی چیزیں بھی حسن وخوبی کے ساتھ انجام نہیں دی جاسکتیں۔ دعوت اور اصلاح، اسلام کا اہم فریضہ ہے، مگر دعوت اور اصلاح کا کام موثر طورپر صرف اُس وقت انجام پاسکتاہے، جب کہ حالات معتدل ہوں اور فریقین کے درمیان پُرامن فضا پائی جاتی ہو۔
اِس سے معلوم ہوا کہ قانونِ فطرت کے مطابق، جنگ سرے سے کوئی آپشن نہیں۔ جنگ کے ذریعے کوئی مثبت نتیجہ حاصل کرنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ پہلی عالمی جنگ (world war) اور دوسری عالمی جنگ، دونوں تاریخ کی عظیم ترین جنگیں تھیں، مگردونوں جنگیں صرف عالمی تباہی پر ختم ہوئیں۔ اِن جنگوں سے کسی بھی فریق کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلح تصادم (armed conflict) ہر حال میں بربادی کا ذریعہ ہے۔ خواہ یہ مسلح تصادم ریاست کے ذریعے انجام پایا ہو یا کسی غیر ریاستی تنظیم (NGO) کے ذریعے۔
واپس اوپر جائیں

ردِ ّ عمل کی سیاست

بیسویں صدی عیسوی میں تمام دنیا کے مسلمانوں کے اندر ایسی تحریکیں اٹھیں جن کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے سیاسی اور قانونی نظام کو قائم کیا جائے۔ عرب دنیا میں سید قطب (وفات: 1966 )، برصغیر ہند میں سید ابو الاعلی مودودی (وفات: 1979 ) انڈونیشیا میں عبد القہار مذکر (وفات: 1965 )، سوڈان میں حسن تُرابی (پیدائش: 1932 )اِس کی مثالیں ہیں۔ اِن لوگوں نے تقریر اور تحریر کے ذریعے مسلمانوں میں سیاسی احیا(political revival) کی کوشش کی۔
اِس قسم کی سیاسی تحریکیں، سب کی سب، رد عمل (reaction)کی تحریکیں تھیں۔ وہ نو آبادیاتی دور (colonial age) کے خلاف رد عمل کے طور پر پیدا ہوئیں۔ وہ اصلاً قومی سیاسی تحریکیں تھیں، لیکن اُن کو مسلمانوں کے درمیان اِس لیے مقبولیت حاصل ہوگئی، کیوں کہ اُن کے رہنماؤں نے انھیں اسلام کی اصطلاحوں میں بیان کیاتھا۔
جس زمانے میں نو آبادیاتی طاقتوں کا ظہور ہوا، اُس زمانے میں دنیا کے بڑے حصے میں مسلم سلطنتیں قائم تھیں۔ بر صغیر ہند میں مغل سلطنت، ترکی اور عرب ممالک میں عثمانی سلطنت، وغیرہ۔ اِسی طرح ایشیا اور افریقہ کے بیش تر علاقے، مسلم سلطنت کے تابع تھے۔نوآبادیاتی طاقتیں جب مسلم دنیا میں داخل ہوئیں تو اُس وقت کی مسلم سلطنتوں نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی، لیکن فوجی اور اقتصادی اعتبار سے نو آبادیاتی طاقتوں (colonial powers)کو برتری حاصل تھی، اِس لیے ہر میدان میں وہ غالب آتی چلی گئیں۔ یہ صورتِ حال، مسلم رہ نماؤں کے لیے ناقابلِ برداشت تھی، چناں چہ وہ ان کے خلاف لڑنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔یہ جدوجہد ابتدا ء ًغیر مسلّح انداز میں شروع ہوئی۔ مثلاً سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لٹریچر تیار کرکے اس کو پھیلانا شروع کردیا۔ اِس لٹریچر میں اسلام کو اِس حیثیت سے پیش کیاگیا تھا کہ اسلام کے وجود وبقا کے لیے سیاسی غلبہ لازمی طورپر ضروری ہے۔ اِس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم دوبارہ اسلام کو سیاسی اعتبار سے غالب کرنے کی کوشش کریں۔
اِسی درمیان 1948 میں فلسطین میں اسرائیل کا قیام عمل میںآیا۔ یہ مسلمانوں کے لیے بے حد ناقابلِ برداشت تھا۔ بال فور ڈکلریشن کے مطابق، یہودیوں کو محدود کوٹا سسٹم (limited quota system) کے تحت ، فلسطین کے ایک علاقے میں واپسی کی اجازت دی گئی۔ اصولاً یہ کوئی غلط فیصلہ نہ تھا۔ کیوں کہ یہ یہودی دراصل ڈائس پورا (diaspora)سے تعلق رکھنے والے تھے۔ اور ڈائس پورا سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کی فلسطین واپسی خود قرآن (5:21)کے مطابق، اصولاً درست تھی، لیکن مسلمان جو پہلے سے نو آبادیاتی مسئلے کی بنا پر مغربی قوموں سے برہم تھے، وہ مزید شدت کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہوگئے۔
سیاسی جہاد کی یہ تحریکیں ابتداء ً پُرامن انداز میں شروع کی گئیں، لیکن پرامن انداز جب پیشِ نظر مقصد کے لیے مفید ثابت نہیں ہوا، تو جہاد کے نام پر مسلّح تحریک شروع کردی گئی۔ مگر رہنماؤں نے دوبارہ یہ دیکھا کہ مسلّح جہاد سے بھی وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں، تو اس کے بعد انھوں نے خود کش بم باری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کرلیا۔ خوکش بم باری بلاشبہہ اسلام میں حرام تھی، لیکن مسلم رہنماؤں نے اُسے استشہاد (طلب شہادت) کا نام دے کر اپنے لیے اس کو بطور خود جائز قرار دے دیا۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں جوصورتِ حال ہے، وہ یہ کہ مسلح جہاد اور خود کُش بم باری کے باوجود، مسلم رہنما اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلح جہاد عملاً کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوا ہے۔ اِس نام نہاد جہاد کے ذریعے مسلمان کچھ حاصل تو نہ کرسکے، البتہ جو کچھ انھیں حاصل تھا، اس کو بھی انھوں نے کھو دیا۔اِس معاملے کو خالص اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے، تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مسلم رہنماؤں کا رد عمل، خواہ وہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف ہو، یا اسرائیل کے خلاف، وہ اسلام سے انحراف کا نتیجہ تھا، نہ کہ اسلام کی پیروی کا نتیجہ۔ اِس معاملے میں مسلم رہنماؤں کی تحریکیں صحیح ڈائرکشن سے ہٹی ہوئی تھیں، وہ فطرت کے قانون کی خلاف ورزی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار جانی اور مالی قربانیوں کے باوجود اُنھیں اپنے مطلوب مقصد میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
اِس معاملے کو قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے، تو قرآن میں ایک واضح آیت موجود ہے، جو اِس معاملے میں رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن کی سورہ آل عمران میںاِسی قسم کی صورتِ حال کا حوالہ دیتے ہوئے، فطرت کا یہ اصول بتایا گیا تھا: تلک الأیّام نداولہا بین الناس(2:140) یعنی سیاسی اقتدار کسی ایک گروہ کی اجارہ داری (monopoly)نہیں، سیاسی اقتدار کبھی ایک گروہ کے پاس رہے گا اور کبھی دوسرے گروہ کے پاس۔ دوسرے لفظوں میں، یہ کہ جب سیاسی اقتدار میں تبدیلی ہو، تو اس کے خلاف رد عمل کرنا کوئی صحیح پالیسی نہیں۔
قرآن کی اِس تعلیم کا مقصد خود سپردگی اور پسپائی نہیں ہے، وہ دراصل ایک اعلیٰ حکمت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ منفی رد عمل کے بجائے، مثبت منصوبہ بندی کے ذریعے صورتِ حال کا مقابلہ کیا جائے۔جب بھی سیاسی اقتدار میں تبدیلی ہوتی ہے، تو وہ صرف تبدیلی کے ہم معنیٰ نہیںہوتی، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ نئے مواقع کے ظہور کے ہم معنیٰ ہوتی ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے، جو خدا نے قائم کیا ہے۔ جب بھی کوئی قوم دیر تک اقتدار کی حالت میں رہے، تو اس کے اندر جمود پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی تخلیقی صلاحیت (creativity) ختم ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں سیاسی تبدیلی در اصل اِس لیے ہوتی ہے کہ اُس قوم کے جمود(stagnation) کو توڑا جائے۔ چیلنج کی صورت حال پیدا کرکے اُس کے اندر نئی بیداری لائی جائے۔ ہر گروہ لمبے اقتدار کے بعد ایک غیر تخلیقی گروہ (uncreative group) بن جاتا ہے۔ سیاسی اقتدارمیں تبدیلی دراصل اِس لیے ہوتی ہے کہ اس کو دوبارہ ایک تخلیقی گروہ (creative group) بنایا جائے۔
مسلم رہنما اگر فطرت کے اِس قانون (law of nature)کو سمجھتے، تو ان کے لیے صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، بلکہ اُس کو وہ اپنے لیے ایک چیلنج سمجھیں اور مثبت ذہن کے تحت، پُرامن طورپر وہ اس کا سامنا کریں، جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعدجاپان نے امریکا کے مقابلے میں کیا اور کامیابی حاصل کی۔ مگر مسلم رہنمااِس راز کو نہ سمجھ سکے۔ وہ منفی رد عمل کا شکار ہوگئے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں مثبت رد عمل کا نتیجہ مثبت صورت میں نکلتا ہے، اور منفی رد عمل کا نتیجہ منفی صورت میں۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے، اِس میں کسی بھی گروہ کا کوئی استثنا نہیں۔(2009)
واپس اوپر جائیں

پیغمبرانہ ماڈل

انڈیا کی ایک مسلم تنظیم کے اجتماع میں ایک مشہور مسلم اسکالر کی تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد حاضرین میں سے ایک مسلمان نے پوچھا کہ انڈیا میں مسلمان اقلیت میں ہیں، غیر مسلم لوگ یہاں اکثریت میں ہیں۔ ایسی حالت میں، ہندستانی مسلمانوں کے لیے اسلام میں کیا رہنمائی دی گئی ہے۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مقرر نے جواب دیا: یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کیوں کہ اسلام میں پوزیشن آف اسٹرینتھ (position of strength) کا ماڈل موجود ہے، مگر اسلام میں پوزیشن آف ماڈسٹی (position of modesty) کا ماڈل موجود نہیں۔
یہ جواب بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم اسکالر اور مسلم رہنما اسلام کے نام سے صرف بعد کو بننے والی مسلم تاریخ کو جانتے ہیں، وہ دورِ اول میں بننے والے پیغمبرانہ ماڈل کو نہیں جانتے، حالاں کہ دورِ اول کا ماڈل تمام تر پوزیشن آف ماڈسٹی ہی پر مبنی ہے۔ یہ بعد کو قائم ہونے والے مسلم ایمپائر کی بات ہے، جب کہ وہ ماڈل بنا جس کو پوزیشن آف اسٹرینتھ کا ماڈل کہاجاتا ہے۔
دورِ اول میں اسلام کا ماڈل کیا ہے، وہ واضح طورپر قرآن میں موجود ہے۔ پیغمبر کو قرآن کی ابتدائی دور کی سورہ المدثر میں مخاطب کرتے ہوئے کہاگیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۝ قُمْ فَاَنْذِرْ ۝ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۝ (74: 1-3)یعنی اے پیغمبر، تم پرامن انداز میں دعوت الی اللہ کا فکری کام کرو اور پولٹکل سسٹم کے معاملے میں تم مکمل طورپر عدم تعرض کا طریقہ (non-confrontational method) اختیار کرو۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دورِ اول کا پیغمبرانہ ماڈل دو بنیادی اصولوں پر مبنی تھا — دعوہ ایکٹوزم (dawah activism) ، اور پولٹکل اسٹیٹس کوازم (political statusquoism)، یعنی پرامن ذرائع سے دعوت کا عمل کرنا اور سیاسی معاملات میں کامل طورپر عدم ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنا۔ یہی پیغمبرانہ ماڈل اسلام کا اصل ماڈل ہے اور مسلمانوں کو اِسی پیغمبرانہ ماڈل کو اختیار کرنا ہے، مسلم اقلیت کے علاقے میں بھی، اور مسلم اکثریت کے علاقے میں بھی۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی پہچان

امام مالک نے اپنی کتاب الموطا میں ایک باب کے تحت یہ روایت نقل کی ہے- باب کا عنوان ہے: باب ماجاء فی التُّقى-
قال مالک: وبلغنی أن القاسم بن محمد کان یقول: أدرکتُ الناس ما یعجبون بالقول- قال مالک: یرید بذلک العمل- إنما یُنظر إلى عملہ، ولا ینظر إلى قولہ- یعنی مالک نے کہا کہ مجھ کو قاسم بن محمد تابعی کے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے ایسے لوگ (صحابہ) پائے ہیں جن کا حال یہ تھا کہ وہ قول پر خوش یا متعجب نہیں ہوتے تھے- مالک نے کہا کہ اِس سے ان کی مراد عمل تھا- بے شک کسی انسان کا عمل دیکھا جائے گا، اس کا قول نہیں دیکھا جائے گا-
اِس روایت میں ایک اہم حقیقت کو بتایا گیا ہے، وہ یہ کہ انسان کا قول اس کی پہچان نہیں ہے- کسی انسان کی حقیقی پہچان وہ ہے جو عملی تجربے کے بعد سامنے آئے- کسی شخص کے قول میںاس کی حقیقی شخصیت ظاہر نہیں ہوتی- لوگوں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ جب کسی بات کو کہتے ہیں تو وہ اس کو کہتے ہوئے اپنے موافق بات کو مبالغے کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اور جوبات ان کے لیے غیر موافق ہے، اس کو وہ یا تو بیان نہیں کرتے یا گھٹا کر بیان کرتے ہیں- کسی بات کے ایک پہلو کو بڑھاکر بتانا اورا س کے دوسرے پہلو کو کم کرکے بتانا، یہ ایک ایسی عادت ہے جو تقریباً ہر انسان میں ہوتی ہے- اِسی عادت کے ذریعے وہ اپنی حقیقی شخصیت کو چھپائے رہتا ہے-
کسی انسان کی حقیقی شخصیت صرف اُس وقت سامنے آتی ہے جب کہ وہ ٹسٹ (test)پر آجائے- آدمی قول میں اپنی شخصیت کو چھپا سکتا ہے، لیکن عملی تجربے میں اپنی حقیقی شخصیت کو چھپانااس کے لیے ممکن نہیں ہوتا — دانش مند وہ ہے جو کسی شخص کے بارے میں اس کے حقیقی عمل کو دیکھ کر رائے بنائے، نہ کہ اس کی خوش نما تحریر و تقریرکو سن کر-
واپس اوپر جائیں

اپنی تاریخ سے کٹنا

مولانا شبلی نعمانی نے 1913 میں اعظم گڑھ (یوپی) میں دارالمصنفین کا ادارہ قائم کیا- اس کے چند دنوں کے بعد 18 نومبر 1914کو 57 سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوگیا- مولانا شبلی نعمانی نے اپنے آخری دنوں میں اپنے شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی کو بلایا اور اُن کو دار المصنفین کا پورا چارج دے دیا-
مولانا سید سلیمان ندوی نے پوری سنجیدگی اور انہماک کے ساتھ دارالمصنفین کا کام کیا اور دارالمصنفین کے بارے میں مولانا شبلی کے خواب کو واقعہ بنایا- بعد کو اپنے بعض ساتھیوںسے اُن کا اختلاف ہوا، یہاں تک کہ دل برداشتہ ہو کر 1946 میں انھوں نے دار المصنفین کو چھوڑ دیا- وہ پہلے بھوپال اور پھر پاکستان چلے گئے- دار المصنفین چھوڑنے کے 7 سال بعد 23 نومبر 1953 کو 69 سال کی عمر میں پاکستان (کراچی) میں ان کا انتقال ہوگیا- یہ 7 سال جو مولاناسید سلیمان ندوی نے  دارالمصنفین سے باہر گزارے، وہ بلاشبہہ ان کی زندگی کے سب سے زیادہ قیمتی سال تھے-مگر یہ قیمتی سال اپنی تاریخ چھوڑنے کی وجہ سے ضائع ہوگئے، وہ حقیقی طور پراستعمال نہ ہوسکے-
مولانا سید سلیمان ندوی جب دار المصنفین کو چھوڑنے کا ارادہ کررہے تھے، اُس وقت دار المصنفین میں اُن کے ایک ساتھی شاہ معین الدین احمد ندوی (وفات: 1974)موجود تھے- وہ اِس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ: ’’سید صاحب مہینوں اس کے بارے میں کش مکش میں مبتلا رہے- راقم سے بھی انھوں نے رائے پوچھی- میں نے عر ض کیا کہ کسی ادارے کے بانی کو اُسے چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کی یہ پہلی مثال ہوگی- فرمایا: یہ تو صحیح ہے، مگر دارالمصنفین میں سکون کے ساتھ رہنےکی شکل کیا ہے- اِس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا‘‘- (حیاتِ سلیمان، از: شاہ معین الدین احمد ندوی، صفحہ 515)
شاہ معین الدین احمد ندوی نے دار المصنفین نہ چھوڑنے کا جو مشورہ دیا، وہ بلاشبہہ اپنے آپ میں ایک درست مشورہ تھا، لیکن مشورہ دینے کا جو انداز تھا، وہ موثر نہیں ہوسکتا تھا- مولانا سید سلیمان ندوی دار المصنفین کے بانی (founder)نہیں تھے- مزید یہ کہ اِس مشورے میں یہ بات واضح نہ تھی کہ دار المصنفین چھوڑنے کا نقصان کیا ہے- ایسی حالت میں یہ ایک فطری بات تھی کہ یہ مشورہ مولانا سیدسلیمان ندوی کے مائنڈ کو ایڈریس نہ کرے اور وہ ان کے لیے قابلِ قبول نہ ہوسکے-
اصل یہ ہے کہ مولانا سید سلیمان ندوی کا دار المصنفین چھوڑنا کوئی سادہ بات نہ تھی- یہ خود اپنی بنائی ہوئی تاریخ کو چھوڑنے کے ہم معنی تھا، اور کوئی بھی شخص اپنی بنائی ہوئی تاریخ کو چھوڑنے کا تحمل نہیں کرسکتا- لوگوں کی نظر میں انسان کی حیثیت اس کی تاریخ سے متعین ہوتی ہے اور تاریخ ہمیشہ کسی ماحول میں بنتی ہے- جو آدمی اپنے ماحول کو چھوڑدے، اس نے اپنی بنائی ہوئی تاریخ کوچھوڑدیا- کوئی بھی دوسری چیز اِس غلطی کی تلافی نہیں کرسکتی-
مولانا سید سلیمان ندوی 33 سال دار المصنفین میں رہے- اِس 33 سال میں انھوں نے اپنی علمی تاریخ بنائی، لیکن اگر توسیعی اعتبار سے دیکھئے تو یہ مدت اور زیادہ لمبی ہے- مولانا سید سلیمان ندوی وابستگانِ شبلی کی حیثیت سے 1907 میں نمایاں ہوئے- یہ وہ سال ہے جب کہ مولانا شبلی ندوة العلما (لکھنؤ) میں تھے اور مولانا سید سلیمان ندوی ان کے شاگرد تھے-اُس وقت ندوہ میں ایک سالانہ جلسہ ہوا- اِس موقع پر مولانا سید سلیمان ندوی نے عربی میں ایک برجستہ تقریر کی- اِس تقریر سے مولانا شبلی نعمانی اتنا زیادہ خوش ہوئے کہ انھوںنے عین جلسہ گاہ میں اپنے سر کی پگڑی اتار کر مولانا سید سلیمان ندوی کے سر پر رکھ دی- (ملاحظہ ہو: حیاتِ سلیمان، صفحہ 28-27)-
اِس اعتبار سے دیکھئے تو مولانا سید سلیمان ندوی کی علمی تاریخ 1907 سے شروع ہوتی ہے- گویا کہ 1946میں جب سید صاحب نے دار المصنفین کو چھوڑا تو اُن کی علمی تاریخ کی مدت تقریباً 40 سال ہوچکی تھی- یہ چالیس سالہ تاریخ مولانا سید سلیمان ندوی کا سب سے بڑا سرمایہ تھی- وہ اگر دار المصنفین میں رہتے تو وہ اپنی اِس 40 سالہ تاریخ کے درمیان رہتے- اُن کی ہر تقریر اور تحریر میں اِس 40 سالہ تاریخ کا وزن شامل رہتا، مگر انھوں نے اِس حقیقت کو نہیں سمجھا اور خود اپنی تاریخ سے اپنے آپ کو کاٹ لیا- اِس طرح یہ ہوا کہ اُن کے لیے جو رول مقدر تھا، اُس کو ادا کیے بغیر وہ اِس دنیا سے چلے گئے-
دار المصنفین کو چھوڑنے کا جواز مولانا سید سلیمان ندوی نے یہ بتایا تھاکہ دار المصنفین میں سکون کے ساتھ رہنےکی شکل نہیں- مولانا سید سلیمان ندوی کے اِس جملے کی حیثیت عذر کی نہیں، بلکہ بے خبری کی ہے- مولانا سید سلیمان ندوی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت نگار تھے- یہ بلاشبہہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام نے اُس سے بہت زیادہ بے سکونی کے حالات میں کام کیا جو مولانا سید سلیمان ندوی کو دارالمصنفین میں پیش آئے- اِس کا اندازہ پیغمبر اسلام کی اہلیہ حضرت عائشہ کے اِس قول سےہوتاہے کہ: حطمہ الناس (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1215 ) یعنی لوگوں نے آپ کو روند ڈالا تھا-
مولانا سید سلیمان ندوی نے پیغمبر اسلام کی سیرت لکھی، مگر اِس معاملے میں انھوں نے پیغمبراسلام کی زندگی سے سبق حاصل نہیں کیا- اگر وہ سبق حاصل کرتے تو وہ کبھی ایسی غلطی نہ کرتے کہ بے سکونی کو اپنے لیے عذر بنا لیتے، حالاں کہ بے سکونی سرے سے کوئی عذ ر ہی نہیں- اِس دنیا میں بے سکونی کو مینیج (manage) کرنا ہے، نہ کہ اُس کو عذر بنانا- یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس: الصحة والفراغ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5962)
کوئی ادارہ اپنے آپ میں مقدس نہیں ہوتا- کسی ادارے کو چھوڑنا کوئی گناہ کی بات نہیں- لیکن ادارے کو چھوڑنے کی دو صورتیں ہیں— ایک ہے ذاتی شکایت (personal grievance) کی بنا پر چھوڑنا، اور دوسرا ہے اصول (principle) کی بنا پر چھوڑنا- ذاتی شکایت کی بنا پر ادارے کا چھوڑنا ہرگز درست نہیں، کیوں کہ ذاتی شکایت حقیقتاً فطرت کے نظام کا حصہ ہے، نہ کہ کسی کے ناروا سلوک کا حصہ- البتہ اصول کی بنا پر کسی ادارے کو چھوڑنا بلا شبہہ جائز ہے، کیوں کہ اصول کا تعلق دینِ حق سے ہوتا ہے، نہ کہ کسی کی اپنی ذات سے-
واپس اوپر جائیں

انتخابِ اول، انتخابِ ثانی

ذاتی زندگی کا معاملہ ہو تو ایک شخص معیار (ideal)کا انتخاب کرسکتا ہے، لیکن اجتماعی زندگی کے معاملے میں کبھی معیار کا انتخاب ممکن نہیں ہوتا-اِس لیے اجتماعی زندگی کے بارے میں صحیح اصول یہ ہےکہ جب انتخابِ اول (first choice) ممکن نہ ہو تو انتخابِ ثانی (second choice) کو اختیار کرلیا جائے-
اِس اصول کی حکمت یہ ہے کہ انتخابِ اول کو اختیار کرنے کی صورت میں اگر معیار حاصل ہوتا تھا، تو انتخابِ ثانی کی صورت میں امن اور استحکام (stability) حاصل ہوجاتا ہے- اجتماعی زندگی کے لیے یہی واحد عملی طریقہ ہے، اِس کے سوا کوئی اور طریقہ عملاً ممکن ہی نہیں-
یہی فطری اصول پیغمبر کی سنت بھی ہے- مثلاً ہجرتِ مدینہ کے وقت فرسٹ چوائس یہ تھا کہ مکہ میں تیرہ سال کی جدوجہد سے جو جزئی کامیابی ہوئی تھی، وہ مزید جدوجہد کے ذریعے مکمل کامیابی تک پہنچے- اور سکنڈ چوائس یہ تھا کہ مکہ چھوڑ دیا جائے، تاکہ ٹکراؤ سے بچ کر پُرامن ماحول میں اپنا مشن جاری رکھا جائے- اُس وقت پیغمبر نے اپنے لیے سکنڈ چوائس کو اختیار کرلیا-اِسی طرح حدیبیہ کے موقع پر فرسٹ چوائس یہ تھا کہ سفر کو جاری رکھتے ہوئے آپ مکہ پہنچیں اور عمرہ کریں- اور سکنڈ چوائس یہ تھا کہ وہ درمیان میں اپنےسفر کو ختم کرکے مدینہ واپس چلے جائیں- پیغمبر نے اُس وقت بھی سکنڈ چوائس کو لینے کا فیصلہ کیا-
یہی فطرت کا اصول ہے اور یہی پیغمبر کی سنت بھی- اِس دنیا میں کسی بھی میدان میں کامیابی اِسی اصول کو اختیار کرکے حاصل ہوسکتی ہے- یہی قدیم زمانے میں بھی ممکن تھا او ر یہی موجودہ زمانے میں بھی ممکن ہے- فرسٹ چوائس ہمیشہ آدمی کی ذاتی خواہش کے مطابق ہوتا ہے، اِس لیے وہ ہمیشہ فرسٹ چوائس پر اصرا ر کرتا ہے، لیکن یہ طریقہ یقینی طورپر غیر عملی ہے- نتیجہ خیز طریقہ صرف یہ ہے کہ حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے آدمی سکنڈ چوائس پر راضی ہوجائے-
واپس اوپر جائیں

ترقی کا زینہ

زندگی ہم وار راستے پر سفر کرنے کا نام نہیں۔ زندگی میں ہمیشہ وہ ناموافق صورتِ حال پیش آتی ہے جس کو بحران (crisis) کہا جاتا ہے۔ زندگی میں بحران سے بچنا ممکن نہیں۔ اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے کرائسس مینج مینٹ (crisis management) کے آرٹ کو جاننا۔ انسان کو عقل اِسی لیے دی گئی ہے کہ وہ اِس آرٹ کو جانے اور اس کو استعمال کرے۔
زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو بحران کوئی برائی نہیں، بحران ہر آدمی کے لیے ایک مفید تجربہ ہے۔ ہر بحران آدمی کے لیے کامیابی کا نیا موقع کھولتا ہے۔ اِس معاملے میں صحیح فارمولا صرف ایک ہے— بحران کو ایک نئے موقع میں تبدیل کردو:
Turn the crisis into an opportunity.
انسان کو جو عقل دی گئی ہے، اس کے اندر بے پناہ امکانات چھپے ہوئے ہیں۔ عام حالات میں یہ امکانات سوئے ہوئے رہتے ہیں، معتدل حالات میں یہ امکانات کبھی نہیں جاگتے۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ انسان کی زندگی میں بحران پیدا ہو، تاکہ اس کا ذہن جاگے، تاکہ اُس کی عقلی صلاحیتیں بیدار ہو کر زیادہ بڑے بڑے کام کرسکیں۔ زندگی ایک چیلنج ہے اور چیلنج کا مقابلہ کرنا ہی وہ چیز ہے جو کسی انسان کے لیے ترقی کے دروازے کھولتاہے۔
بحران ہمیشہ فطرت کے نظام کے تحت پیش آتا ہے۔ اِس لیے کسی مفروضہ دشمن کے خلاف شکایت اور احتجاج کرنا ایک غیر متعلق بات ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جب اس کی زندگی میںکوئی بحران پیش آئے تو وہ شکایت اور احتجاج میں وقت ضائع نہ کرے، بلکہ وہ اپنی عقلی صلاحیتوں کو متحرک کرنے کی کوشش کرے۔ اِس کے بعدوہ دیکھے گا کہ بحران اس کے لیے ترقی کا نیا زینہ بن گیا ہے۔
یہ اصول فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی، ذاتی زندگی میں بھی کامیابی کا یہی راز ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی کامیابی کا یہی راز۔
واپس اوپر جائیں

فخر اور نفرت

انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کے اندر ایک نفسیات مشترک طور موجود رہتی ہے — فخر اور نفرت۔ فخر کا جذبہ اپنے لیے، اورنفرت کا جذبہ دوسروں کے لیے۔ ہرآدمی اِنھیں دو احساسات کے درمیان جیتاہے اور اِنھیں دو احساسات کے درمیان مرجاتاہے۔
یہ دونوں جذبات اتنے قوی ہیں کہ فخر کا اگر صرف ایک ذرہ اسے مل جائے تواس کو لے کروہ اپنے فخر کا گنبد کھڑا کردیتا ہے۔ اِس طرح اگر اُس کو نفرت کا ایک ذرہ مل جائے تو اُس کو لے کر وہ دوسروں کو نفرت کا موضوع بنا لیتاہے۔ یہ دونوں جذبے اتنا زیادہ عام ہیں کہ اُس کو انسان کا عالمی مزاج کہاجاسکتاہے۔
اِس مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر آدمی اپنے بارے میں فخر کی نفسیات میں جیتا ہے، اور دوسرے کے بارے میں نفرت کی نفسیات میں۔ یہ دونوں جذبات دھیرے دھیرے انسان کے لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ انسان کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ اُس کو اِس معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہر صورتِ حال میں یہ چیزیں اپنے آپ اس کے اندر پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہر صورتِ حال اپنے آپ اُ س کو اپنے لیے فخر کی غذا دینے والی بن جاتی ہے۔
اِس طرح ہر صورتِ حال اپنے آپ اُس کو دوسروں کے بارے میں نفرت کی غذا دیتی رہتی ہے۔ یہ دو طرفہ نفسیاتی عمل آدمی کے اندر اِس طرح مسلسل طورپر جاری رہتا ہے کہ اِس میں اس کی کنڈیشننگ ہوجاتی ہے۔
یہ برائی آدمی کے اندر سوچے بغیر اپنے آپ پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب اُس کو ختم کرنا ہو تو آدمی کو سوچ کر اسے ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہ اِس معاملے کا سب سے زیادہ نازک پہلو ہے۔ اِس معاملے میں کوئی شخص اپنی اصلاح اُسی وقت کرسکتا ہے، جب کہ وہ شعوری طورپر اس کو دریافت کرلے، وہ شعوری طورپر اپنے اوپر اصلاح کا عمل کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

Al Risala | July 2014 (الرسالہ،جولائی)

2

-خوش آمدید، خوش آمدید

3

- علم کی بادشاہت

4

- اعمال کا باطل ہونا

5

- شکایت، شکایت، شکایت

6

- دعوتِ عام کا حکم

7

- اختلاف کے باوجود

8

- مبنی بر فرد منصوبۂ تخلیق

9

- کامیاب طریقہ کار

10

- اولاد کا فتنہ

11

- عوامی جذبات کا استحصال

12

- قومی فخر نہیں

20

- تعمیر ِخویش کاطریقہ

22

- سیکولرزم کیا ہے

24

- مسلمان کی اصل حیثیت

26

- بااصول زندگی

28

- مسلمان عالمی محاصرےمیں

29

- جمہوریت کا دور

30

- امر بالمعروف اور نہی عن المنک

32

- پیغمبرانہ کردار

33

- فساد اور اسبابِ فساد

34

- صحیح نقطۂ آغاز

35

- اسلامی تحریک کا اصول

37

- کائنات کی معنویت

38

- تنظیم کافی نہیں

39

- ضرورت اور مقصد

40

- اپنے آپ پر نظر ِثانی

41

- سوال وجواب

45

- خبرنامہ اسلامی مرکز


خوش آمدید، خوش آمدید

مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953) نے اپنا ایک واقعہ اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’1920 کی تحریک خلافت کے سلسلے میں میرا یورپ جانا ہوا- وہاں میں ایک بار انگلستان سے فرانس گیا- اُس وقت میں اِسی مشرقی لباس میں تھا- اگر چہ میں انگریزی زبان جانتا اور سمجھتاتھا، لیکن فرنچ زبان سے واقفیت نہیں تھی- فرانس کے ساحل پر اترتے ہی ایک کانسٹبل نے فرنچ زبان میں کچھ کہا- میں سمجھا کہ اس نے میرے مشرقی لباس پر کچھ طنز کیا ہوگا- چناں چہ میں نے اس کا وہ فرنچ جملہ یاد رکھا اور ہوٹل پہنچ کر اپنے ایک فرنچ رفیق سے اُس جملے کا ترجمہ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اُس کانسٹبل نے مجھے اجنبی دیکھ کر خوش آمدید کہا اور کہا کہ دیکھو، ہمارا ملک کتنا اچھا ہے- میرے دل پر اس کا بڑا اثر ہوا اور یہ احساس ہوا کہ یہاں کے معمولی درجے کے لوگوں میں بھی اپنے ملک کی عزت اور مسافروں کو خوش آمدید کہنے کا کتنا جذبہ پایا جاتاہے‘‘- (مجلہ الشارق، اعظم گڑھ، مارچ- اپریل 2014)
فرانس کے ساحل پر خوش آمدید کا یہ واقعہ پڑھ کر مجھے خوش آمدید کا دوسرا واقعہ یاد آیا جو اللہ کے مخلص بندوں کے ساتھ آخرت میں پیش آئے گا- اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں کیاگیا ہے: وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَـــتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ (39:73) یعنیجو لوگ اپنے رب سے ڈرے، وہ گروہ درگروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے۔یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دئے جائیں گے اور اس کے محافظ ان سے کہیں گے کہ سلام ہو تم پر،شاد رہو، پس جنت میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ کے لیے-
مومن ایک حساس انسان کا نام ہے- مومن کی بڑھی ہوئی حساسیت اس کے اندر یہ مزاج پیدا کرتی ہے کہ ہر تجربہ میں اس کو آخرت کی تصویر دکھائی دے- سچا مومن وہ ہے جس کا حال یہ ہوجائے کہ دنیا کا ہربراتجربہ اس کو جہنم کی یاد دلائے اور دنیا کا ہر اچھا تجربہ اس کو جنت کی یاد دلانے والا بن جائے-
واپس اوپر جائیں

علم کی بادشاہت

مشہور محدث عبد اللہ بن مبارک (وفات: 181ھ) کا ایک واقعہ ہے- ایک بار خلیفہ ہارون رشید اپنے محل میں تھا-اُس وقت محل کی ایک کنیز بازار کی طرف دیکھ رہی تھی- اس نے دیکھا کہ عبد اللہ بن مبارک کے استقبال کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد امڈ کر بازار کی طرف جارہی ہے- خلیفہ نے کنیز سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے- کنیز نے کہا کہ امیر المومنین، آج عبد اللہ بن مبارک بغداد آرہے ہیں- اصل بادشاہی آپ کی نہیں، اصل بادشاہی عبد اللہ بن مبارک کی ہے جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں- آپ کی بادشاہی توصرف فوج کے زور پر قائم ہے-(مجلہ الشارق، اعظم گڑھ، مارچ- اپریل 2014 )-
تاریخ کے اِس واقعے میں بہت بڑا سبق ہے، وہ یہ کہ سیاسی بادشاہت سے زیادہ بڑی چیز علم کی بادشاہت ہے- سیاسی بادشاہت کے لیے زوال ہے، لیکن علم کی بادشاہت کے لیے کوئی زوال نہیں- سیاسی بادشاہت ایک محدود بادشاہت ہے، لیکن علم کی بادشاہت ایک ایسی بادشاہت ہے جو کسی جغرافی حد کی پابند نہیں-موجودہ زمانے میں اِس معاملے کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے- موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے- آج اگر آدمی ایک کتاب کو لکھ کر اس کو چھاپے اور اس کے مطبوعہ نسخے تیار کرے تو یہ مطبوعہ کتاب وہاں بھی ہوگی جہاں آدمی جسمانی طورپر موجود نہ ہوگا- موجود ہ زمانہ ٹکنالوجی کا زمانہ ہے- آج یہ ممکن ہے کہ آدمی ایک جگہ بولے اور اس کی آواز زمین کے ہر حصے میں سنائی دے، حتی کہ عین اُسی وقت اس کی متحرک تصویر بھی لوگوں کے سامنے آجائے- کسی بادشاہت کا ایک زمینی رقبہ ہوتا ہے، لیکن اہلِ علم کے اثر کی وسعت کسی زمینی رقبے کی پابند نہیں، وہ ہرجگہ اور ہر مقام پر یکساں طور پر پہنچ سکتی ہے-علم کی اہمیت بلا شبہہ تمام چیزوں سے زیادہ ہے، عالم کی اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اور دوسروں کے اعتبار سے بھی- انسان کو چاہیے کہ وہ سیاست میں اعلی مقام حاصل کرنے کے بجائے علم کے میدان میںاعلی مقام حاصل کرنے کی کوشش کرے- سیاست کے میدان میں ہمیشہ مزاحمت کا اندیشہ ہوتا ہے، لیکن علم کے میدان میں کسی مزاحمت کا کوئی اندیشہ نہیں- علم کا میدان ایک ایسا میدان ہے جو ہمیشہ خالی رہتاہے-
واپس اوپر جائیں

اعمال کا باطل ہونا

قرآن کی سورہ الکہف میں ایک کردار کو اِس طرح بیان کیا گیاہے:قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا؁ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (18:102-104)یعنی کہو، کیا میں تم کو بتاؤں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ گھاٹے میں کون لوگ ہیں- یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں اکارت ہوگئی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں-
قرآن کی اِس آیت میں دراصل اُس نفسیاتی حالت کا ذکر ہے جس کو موجودہ زمانے میں کنڈیشننگ کہاجاتا ہے- جن لوگوں کا کیس کنڈیشنڈ مائنڈ (conditioned mind) کا کیس ہو، اُن کا حال یہ ہوجاتا ہےکہ وہ اپنے مانوس تصور ہی کو درست سمجھنے لگتے ہیں-
اپنے اِس ذہنی شاکلہ (mind-set) کی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں، وہی حقیقت کے اعتبار سے بھی صحیح ہے- لیکن آخرت میں ان کے یہ اعمال باطل قرار پائیں گے، یعنی بے نتیجہ ہوجائیں گے-
اعمال کا باطل ہونا کوئی پراسرار چیز نہیں -اُس سے مراد ہے مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہونا- دنیا میں کسی انسان سے جو چیز مطلوب ہے، وہ یہ کہ اس کے اندر مزکیّٰ شخصیت بنے، یعنی وہ شخصیت جو جنت میں داخلے کے قابل ہو- ایسے لوگوں کو آخرت میں معلوم ہوگا کہ جو کچھ وہ کرتے رہے، وہ صرف ایک غیر متعلق کام تھا- وہ ان کی شخصیت کو مزکیّٰ شخصیت بنانے میں کار آمد نہ تھا-
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ بطور خود اپنی زندگی کا ایک نشانہ بناتے ہیں- وہ اس میں اپنی ساری طاقت لگا دیتے ہیں- اُن کا ذاتی خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کررہے ہیں، لیکن اچانک موت آتی ہے جو اُن کے پورے محل کو ڈھا دیتی ہے- موت کے بعد آدمی اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے جہاں اس کی سابقہ کوششیں کچھ بھی اس کے کام نہیں آتیں-
واپس اوپر جائیں

شکایت، شکایت، شکایت

قرآن کی سورہ یوسف میں ایک پیغمبر کی زبان سے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَى اللّٰہِ ( 12:86) یعنی میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں-
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی انسان یا انسانوں کے کسی گروہ کے خلاف شکایت میں مبتلا ہوجائے-اِس واضح قرآنی تعلیم کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ تمام مسلمان شکایت کی نفسیات میں جیتے ہیں- ہر ایک نے کوئی دشمن یا ظالم دریافت کر رکھا ہے جس کے خلاف وہ تقریر یا تحریر کی صورت میں شکایت کی زبان استعمال کرتا رہتا ہے- یہ ایک عمومی گمراہی ہے جو مشرق سے مغرب تک تمام مسلمانوں میں کم وبیش چھائی ہوئی ہے-
اِس کا سبب کیا ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے شکایت کو حق وانصاف کے مسئلے سے جوڑرکھا ہے- شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خلاف ظلم اور دشمنی کا معاملہ کیا جارہا ہے- ایسی حالت میں از روئے انصاف ہم کو حق ہے کہ ہم شکایت کی زبان بولیں- یہ ایک جائزکردہ برائی (justified evil) کا معاملہ ہے- اِسی کی بابت کہا گیا ہے کہ شکایت کا تعلق کسی دوسرے سے نہیں، بلکہ انسان کی اپنی ذات سے ہے- شکایت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کے اندر منفی سوچ آجاتی ہے اور منفی سوچ بلا شبہہ تمام نیکیو ں کی قاتل ہے- اِسی بنا پر اسلام میں دوسروں کے لیے دعوت ہے، دوسرے کے لیے شکایت نہیں-موجودہ زمانے کے مسلمان کا کیس ایک لفظ میں وکٹم ہڈ (victimhood) کا کیس ہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں عام طورپر زیادتی کے احساس (feeling of victimhood) میں جی رہے ہیں- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی اصلاح کا صحیح آغاز یہ ہے کہ اُن کے اِس منفی احساس کو بدل کر اُن کے اندر صحیح احساس پیدا کیا جائے- یہ صرف اُس وقت ہوسکتا ہے جب کہ مسلمانوں کو ذہنی اعتبار سے اِس کے لیے تیار کیا جائے کہ تم جن شکایتوں کو لے کر احساسِ محرومی میں مبتلا ہو، وہ زندگی کے حقائق ہیں، وہ چیلنج کے واقعات ہیں، نہ کہ ظلم کے واقعات-
واپس اوپر جائیں

دعوتِ عام کا حکم

قرآن کی سورہ الانعام میں ارشاد ہوا ہے:وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ (6:19)یعنی کہو کہ میری طرف یہ قرآن وحی کیاگیا ہے، تاکہ میں بھی اس کے ذریعے سے تم کو ڈراؤں، اور وہ بھی ڈرائیں جن کو یہ قرآن پہنچے- مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1998) نے اِس آیت کی تشریح اِن الفاظ میں کی ہے: ’’عام طورپر مفسرین نے ’ومن بلغ‘ کو ضمیر ِ منصوب پر معطوف مانا ہے، یعنی یہ قرآن اِس لیے مجھ پر وحی کیاگیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو اور اُن سب کو بیدار وہوشیار کروں جن تک یہ پہنچے- لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ ضمیر ِ متکلم پر معطوف ہے، یعنی میں اس کے ذریعے سے تم کو خبردارکروں اور جن کو یہ پہنچے- لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ ضمیر ِ متکلم پر معطوف ہے، یعنی میں اس کے ذریعے سے تم کو خبردار کروں اور جن کو یہ پہنچے، وہ بھی اپنی اپنی جگہ پر اس کے ذریعے سے لوگوں کو خبردار کریں‘‘- (تدبرقرآن، جلد 3، صفحہ 31)- مذکورہ آیت کی یہ تفسیر بالکل درست ہے- اِس آیت میں ایک اہم دعوتی مسئلہ بیان ہوا ہے، وہ یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح اپنے معاصر انسانوں پر دعوت وتبلیغ کی ذمّے داری ادا فرمائی، اِسی طرح امتِ محمدی کے بعد کے لوگوں پر یہ فرض ہے کہ وہ ہر زمانے میں اپنے ہم عصر انسانوں پر دعوت وتبلیغ کی ذمے داری نسل درنسل ادا کرتے رہیں- دعوت وتبلیغ کی ذمے داری ایک ابدی ذمے داری ہے- امتِ محمدی کی بعد کی نسلوں پر یہ ذمے داری ٹھیک اُسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا کی طرف سے عائد کی گئی تھی- دعوت وتبلیغ کی ذمے داری ایک ایسی ذمے داری ہے جو کبھی اور کسی حال میں ساقط نہیں ہوسکتی-
دعوت کا یہ مسئلہ جس طرح قرآن میں مذکور ہے، اِسی طرح وہ حدیث میں بھی بیان ہوا ہے- چناں چہ حجة الوداع کے موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو، اور نیابةً پوری امت کو، خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مجھے اللہ نے تمام انسانوں کی طرف بھیجا ہے- تم میری طرف سے میرا پیغام تمام لوگوں تک پہنچا دو- اِسی طرح آپ نے فرمایا تھا کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ میرا پیغام اُن لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں (فلیبلغ الشاہدُ الغائب)-
واپس اوپر جائیں

اختلاف کے باوجود

علماءِ سلف کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے درمیان دینی مسائل میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا تھا- اِس کے باوجود ہر عالم دوسرے عالم کا احترام کرتا تھا-اِس سلسلے میں یہاں دو واقعات نقل کیے جاتے ہیں: ’’ابن عبد البر نے نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل اور علی بن المدینی کے درمیان ایک مسئلے پر بحث ہوئی اور بحث ایسی ہوئی کہ دونوں طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں- مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ آپس میں بد مزگی پیدا ہوجائے گی، لیکن علی بن المدینی واپس جانے لگے تو امام احمد بن حنبل نے ان کے ساتھ اِس درجہ احترام کا معاملہ کیا کہ آگے بڑھ کر ان کی رکاب تھام لی (جامع بیان العلم: 2/107)-
اِسی طرح یونس صدقی امام شافعی کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں- ایک دن ایک مسئلے میں استاذ سے خوب بحث ہوئی، پھر جب اگلی ملاقات ہوئی تو امام شافعی نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ کیا یہ بات بہتر نہ ہوگی کہ ہم بھائی بھائی بن کررہیں، خواہ کسی مسئلے میں بھی ہمارے درمیان اتفاق پیدا نہ ہوسکے: ألا یستقیم أن نکون إخواناً وإن لم نتفق فی مسألة‘‘- (سیر أعلام النبلاء: 10/16 ، بحوالہ: ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، جون 2014، صفحہ: 41)
اِس طرح کے واقعات کا مطلب صرف باہمی احترام (mutual respect) نہیں ہے، بلکہ اِن واقعات میں ایک اور زیادہ بڑا پہلو ہے اور وہ ہے اختلافِ رائے (difference of opinion) کا احترام- دوسرے الفاظ میں یہ کہ اختلاف ِ رائے کو علمی پہلو سے دیکھنا، نہ کہ شخصی پہلو سے-
اختلافِ رائے کا احترام کوئی سادہ بات نہیں، اس کا براہِ راست تعلق ذہنی ارتقا سے ہے- جس ماحول میں اختلافِ رائے کو برا نہ سمجھا جائے، وہاں لازماً ڈسکشن کا ماحول ہوگا- لوگ علمی دلائل کے ذریعے اپنا اپنا نقطہ نظربیان کریں گے- جہاں اختلافِ رائے کو برا سمجھنے کے بجائے اختلافِ رائے کا احترام پایا جاتا ہو، وہاں ذہنی جمود نہ ہوگا، بلکہ ایسے ماحول میں ذہنی ارتقا کا عمل جاری رہے گا اور ذہنی ارتقا بلاشبہہ کسی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے-
واپس اوپر جائیں

مبنی بر فرد منصوبۂ تخلیق

انسانی تاریخ(human history)، اپنے آغاز سے لے کر اپنے انجام تک، ایک بامعنی تسلسل (meaningful continuation) ہے- انسانی تاریخ آدم اور حوا کی تخلیق سے شروع ہوئی-آخر میں یہ ہوگاکہ پوری تاریخ میں بکھرے ہوئے منتخب افراد (selected persons)کو یکجا کرکے جنت کی پرامن کالونیوں میں بسا دیا جائے گا، جہاں وہ ہر قسم کے خوف اور اندیشے سے محفوظ ہو کر زندگی گزاریں گے اور کبھی اس سے نکلنا نہ چاہیں گے-
عام طورپر لوگوں کی نظر میں تاریخ کی منفی تصویر ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ وہ تاریخ کو اپنے خود ساختہ ماڈل کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، وہ تاریخ کو خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کی نسبت سے نہیں دیکھتے- لوگ تاریخ کو مبنی بر نظام ماڈل (system-based model)کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، جب کہ خالق نے موجودہ دنیا کو افراد کے انتخابی مقام(selection ground)کے اعتبار سے بنایا ہے-
موجودہ دنیا میں ہر فرد حالتِ امتحان میں ہے- جو فرد امتحان میں پورا اترتا ہے، وہ خالق کی انتخابی فہرست میں آجاتا ہے- خالق کا تخلیقی منصوبہ مبنی بر فرد (individual-based) ہے، نہ کہ مبنی برمجموعہ (mass-based)- خالق کا نشانہ پورا مجموعۂ انسانی نہیں ہے، بلکہ وہ استثنائی افراد ہیں جو مختلف قسم کے امتحانی حالات سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو مطلوب ربانی انسان کی حیثیت سے تیار کریں- موجودہ دنیا میں انسانی سرگرمیاں اور خالق کا منصوبہ دونوں متوازی طورپر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں- خالق، انسان کی آزادی کو منسوخ کیے بغیر، تاریخ کو اِس طرح مینج (manage)کررہا ہے کہ انسان کے لیے آزادیِ اختیار (freedom of choice) کا موقع پوری طرح باقی رہے اور اِسی کے ساتھ تاریخ میں ربانی تہذیب کا ڈیولپمنٹ بھی مسلسل طورپر جاری رہے-
اِس دو طرفہ عمل (two-fold process) میں بظاہر انسانی سرگرمیوں کے واقعات غالب نظر آتے ہیں- انسانی سرگرمیوں کا عمل بالائے سطح (surface) پر ہوتا ہے- اس کے مقابلے میں، خالق کے منصوبے کا عمل زیر ِ سطح (underneath) جاری رہتا ہے-انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے یہی صورت قابلِ عمل تھی، اِس لیے خالق نے اُس کو اختیار فرمایا-
اِس فرق کی بنا پر خالق کے منصوبے کو سمجھنے کے لیے گہری بصیرت درکار ہے- خالق کے منصوبے کو وہی لوگ دریافت کرسکتے ہیں جو انسانی تاریخ کو مجموعہ کی نسبت سے دیکھنے کے بجائے فرد کی نسبت سے دیکھیں، جو تاریخ کے بظاہر منفی جنگل میں چھپے ہوئے مثبت اجزا کو دریافت کرسکیں-
تاریخ کا مطالعہ خود اپنے ذہنی مفر وضات کی روشنی میں کیا جائے تو مطالعہ کرنے والے کو مایوسی اور کنفیوزن کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا، لیکن اگر مطالعہ کرنے والا ایسا کرے کہ وہ خالق کے تخلیقی منصوبے کو اپنا رہنما بنا کر تاریخ کو دیکھے تو وہ پائے گا کہ تاریخ میں ایک با معنی منصوبہ (meaningful planning) موجود ہے- بظاہر مفسد (corrupt) بھیڑ کے درمیان افراد کی سطح پر مطلوب شخصیتیں اُسی طرح موجود ہیں جیسے خاردار جھاڑیوں کے درمیان جا بجا خوب صورت پھول-
اِسی دریافت کا نام معرفت ہے- اِسی معرفت کی بنیاد پر وہ کیرکٹر بنتے ہیں جو اللہ کے یہاں سچائی کی سیٹ (54:55) پر جگہ پانے کے مستحق ہیں- معرفت دنیا کی نسبت سے، ایک دریافت ہے اور آخرت کی نسبت سے، اللہ کا ابدی انعام -
واپس اوپر جائیں

کامیاب طریقہ کار

ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: عن سہل بن سعد الساعدی، قال: أتى النبی صلى اللہ علیہ وسلم رجل، فقال، یا رسول اللہ دُلّنی على عمل إذا أنا عملتہ احبنی اللہ وأحبنی الناس؟ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: ازہد فی الدنیا یحبک اللہ، وازہد فیما فی أیدی الناس یحبک الناس (ابن ماجہ، رقم الحدیث: 4102) یعنی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا- اس نے کہا کہ اے خداکے رسول، مجھے ایک ایساعمل بتائے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو میں اللہ کا محبوب بن جاؤں اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کے معاملے میں تم زاہد بن جاؤ، اللہ تم سے محبت کرے گا- اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے، اس کے معاملے میں تم زاہد بن جاؤ تو لوگ تم سے محبت کریں گے-
اِس حدیثِ رسول میں ’زہد‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- زہد کا لفظی مطلب بے رغبتی (indifference) ہے، یعنی دلچسپی نہ رکھنا، بے تعلق ہوجانا- دنیا سے بے رغبتی کا مطلب دنیا کو عملاً چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں رہے، لیکن قلبی تعلق کے اعتبار سے، وہ آخرت سے جڑا ہوا ہو- جس آدمی کے اندر زہد کی یہ صفت ہوگی، اس کے اندر فطری طور پر ایک نئی شخصیت پیدا ہوگی- اپنی سوچ اور اپنے قول وعمل کے اعتبار سے وہ عام دنیا داروں سے مختلف ہوجائے گا- اس کے اندر وہ اخلاقی اور روحانی اوصاف پیدا ہوں گے جو خدا پرستانہ زندگی کے اعتبار سے مطلوب ہیں-
جو آدمی لوگوں کے درمیان اِس طرح رہے کہ وہ اُن سے پانے کی امید رکھتا ہو، وہ لوگوں کی نظر میں حقیر بن جائے گا- لوگ ایسے آدمی کو عزت دیتےہیں جو اُن کو اپنے آپ سے اونچا دکھائی دے- حریص آدمی کبھی دوسروں سے اونچا نہیں ہوتا، اِس لیے وہ دوسروں کی نظر میں قابلِ عزت بھی نہیں ہوتا— بے غرضی کی روش آدمی کو لوگوں کے درمیان باعزت بناتی ہے اور خودغرضی کی روش آدمی کو دوسروںکی نگاہوں میں ذلیل کردیتی ہے-
واپس اوپر جائیں

اولاد کا فتنہ

یوپی کے ایک مسلمان دہلی میں آکر آباد ہوئے- انھوںنے پراپرٹی کا بزنس کیا- انھوں نے اِس بزنس میں کافی دولت کمائی- مگر اُن کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی- ایک بار ان کی ماں دہلی آئیں- انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا دہلی میں ایک بڑے گھر میں رہتا ہے- دنیا کی ہر چیز اس کے پاس ہے، مگر شادی کو کافی عرصہ گزرنے کے باوجود اُن کے یہاں اولاد نہیں ہوئی-اُن کی ماں اِس بات پر کافی پریشان ہوئیں- وہ اکثر کہتی تھیں کہ — ہائے میرے بیٹے کی دولت کون لے گا-
اِس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ (64:15)کیوں کہاگیا ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے بیٹے کو اپنی ذات کی توسیع (extension) سمجھتے ہیں- اُن کو یقین ہوتا ہے کہ اُن کی کمائی ان کے بعد ضائع نہیں ہوگی، بلکہ اپنے بیٹے کی صورت میں بالواسطہ طورپر وہ اُن کو حاصل رہے گی-
اولاد کے بارے میں اِسی تصور کی بنا پر لوگوں کے لیے اولاد ایک فتنہ بن جاتی ہے- اِس تصور کے تحت جو ذہن بنتا ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی موت کی سنگینی سے غافل ہوجاتا ہے- موت کے بعد کے احوال پر وہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچتا- شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ موت اور موت کے بعد کی حقیقتوں کے معاملے سے بے خبر ہوجاتا ہے-
اولاد کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اُس کے ذریعے نسلِ انسانی کا بقا وتسلسل جاری رہتا ہے- جہاں تک دولت کی بات ہے، وہ باپ کے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے اور بیٹےکے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ- دولت کو اگر اِس ذہن کے تحت دیکھا جائے تو دولت کبھی مسئلہ نہ بنے- کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے بہترین تحفہ یہ ہے کہ وہ تعلیم وتربیت کے ذریعے اس کو اچھا انسان بنائے-اِسی حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ما نَحَلَ والد ولدَہ من نُحل أفضل من أدب حسن- (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 1952)
واپس اوپر جائیں

عوامی جذبات کا استحصال

حضرت ابو ذر غفاری کی ایک روایت کے مطابق، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر الدجال أخوف علی أمتی (مسند احمد: 145/5) یعنی میں اپنی امت پر دجال سے بھی زیادہ ایک اور چیز سے ڈرتا ہوں۔ پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول، وہ کیا چیز ہے جس سے آپ اپنی امت کے اوپر دجال سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ گمراہ کرنے والے لیڈر (الأئمۃ المضلین)۔
اِس حدیث میںدجال کا حوالہ بتاتا ہے کہ یہ گمراہ کرنے والے رہنما دجال کے زمانے میں ظاہر ہوں گے- مزید غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس سے مراد جدید میڈیا اور جدید کمیونکیشن کا زمانہ ہے- اِن ذرائع کی بنا پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو ایڈریس کیا جائے اور اِس طرح غلط رہنمائی (mislead) کرکے اُن کو بھٹکا دیا جائے- موجودہ زمانے میں اپوزیشن کی سیاست (politics of opposition) اِسی کی ایک مثال ہے-اِس سیاست کی سب سے زیادہ تباہ کن صورت وہ ہے جس کو اینٹی انکمبنسی فیکٹر (anti-incumbency factor) کو استعمال کرنا کہا جاتا ہے، یعنی حکمرانوں کے خلاف شکایتوں کو لے کر جذباتی تحریکیں چلانا اور اِس طرح عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کردینا- سیکولر جماعتوں کی کامیابی کا راز بھی یہی منفی سیاست ہے اور نام نہاد اسلامی جماعتوں کی کامیابی کا راز بھی یہی منفی سیاست-
موجودہ زمانے کے سیاست پسندرہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ اسلامی جماعت کے نام پر ایک پارٹی بنائیں گے اور پھر حکمرانوں کی کمیوں کو تلاش کرکے وہ اُن کے خلاف دھواں دھار تحریکیں چلائیں گے- اِس کے بعد جب وہ بظاہر سیاسی کامیابی حاصل کرلیں گے تو وہ کہیں گے کہ اسلام جیت گیا، حالاں کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ ایک اسلامی سیاست کی جیت ہوتی ہے، نہ کہ اسلام کی جیت-یہ کامیابی عوامی جذبات کے استحصال(exploitation)کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، نہ کہ حقیقتاً دین خداوندی کے احیا کی بنیاد پر-
واپس اوپر جائیں

قومی فخر نہیں

دورِ اوّل میںجو لوگ اسلام میں داخل ہوئے، اُن کے لیے اسلام ایک ذاتی دریافت (discovery) تھا۔ وہ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت میں جینے والے لوگ تھے۔ تقریباً سو سال کے بعد مسلمانوں کی یہ پہلی نسل ختم ہوگئی۔ اِس کے بعد نسلی مسلمانوں کا دَور آیا۔
اِس دور کے لوگوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، اُس میںاہلِ اسلام کو سیاسی دبدبہ حاصل ہوچکا تھا۔پہلے دور میں اگر اسلام دریافتِ خداوندی کے ہم معنیٰ تھا تو دوسرے دور میں اسلام ایک پولٹکل ایمپائر کے ہم معنیٰ بن چکا تھا۔یہ دوسرا دور قریب ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اِس ہزار سال کے اندر مسلم فکر کا جو ارتقا ہوا، وہ خلافت کے نام پر سیاسی عظمت (political glory)پر مبنی تھا۔ اب مسلمانوں کے تمام ادارے، مسلم نسلوں کو فخر اور عظمت کا سبق دینے لگے۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بر تر سمجھنے لگے۔ بعد کی مسلم نسلوں میں، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ ذہن بن گیا کہ ہم ہر اعتبار سے دوسری قوموں سے افضل ہیں، دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔
مگر اٹھارھویں صدی عیسوی میں ایک نیا انقلاب آیا۔ قانونِ فطرت کے تحت، اب مسلم ایمپائر ٹوٹنے لگا۔ مسلمان زندگی کے ہر میدان میں دوسروں سے پیچھے جانے لگے۔ اب مغربی قوموں نے سیاسی اور تہذیبی برتری کا درجہ حاصل کرلیا۔ اچانک مسلمانوں کے ساتھ یہ فکری حادثہ پیش آیا کہ جس دنیا میں وہ دوسروں کے مقابلے میں برتری کے احساس میں جی رہے تھے، وہاں وہ مجبور ہوگیے کہ دوسروں کے مقابلے میں کم تری کے احساس میں زندگی گزاریں۔بیسویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں یہ صورتِ حال پوری طرح واضح ہوگئی۔ اُس وقت مسلم دنیا میں بڑی تعداد میں مصلحین (reformers) پیدا ہوئے، مگر اِس نیے مرحلے میںہمارے رہنماؤں سے یہ بھیانک غلطی ہوئی کہ وہ ردّعمل کی نفسیا ت کے ساتھ اُبھرے۔ میرے علم کے مطابق، اِس دَور کاکوئی ایک بھی مسلم رہنما ایسا نہیںہے جو ردّ عمل کی نفسیات سے اوپر اُٹھ کر معاملے کو سمجھے اور خالص مثبت انداز میں مسلمانوں کو فکری رہنمائی دے۔
حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی ٔاقتدار کا یہ معاملہ، فطرت کے ایک قانون (3:140)کے تحت ہوا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیامیں غلبہ واقتدار بھی، دوسری دُنیوی چیزوں کی طرح، امتحان کا ایک پرچہ (test paper)ہے۔ اقتدار کے اوپر کسی ایک قوم کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتی، وہ کبھی ایک قوم کے پاس رہے گا اورکبھی دوسری قوم کے پاس۔ فطرت کا یہی قانون تھا جس کا نفاذ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اوپر ہوا۔
ایسے وقت میں مسلم رہنماؤں کو صرف ایک کام کرنا تھا، وہ یہ کہ وہ مسلمانوں کے اندر خود احتسابی (introspection)کا مزاج پیدا کریں۔ وہ مسلمانوں کو اصلاح اور تعمیر اور استحکام کے داخلی کاموںمیں لگائیں۔ وہ مسلمانوں کو جدید تعلیم میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھائیں۔ وہ مسلمانوں کو جدید سائنس اور جدید صنعت اور تجارت کے میدان میں ترقی کرنے کا سبق دیں۔ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ سیاسی اقتدار کے باہر سیکڑوں قیمتی مواقع (opportunities)ہیں جو اُن کے لیے پوری طرح کھُلے ہوئے ہیں، اِس لیے انھیں چاہیے کہ وہ سیاسی ٹکراؤ کا راستہ چھوڑ کر پُرامن تعمیر کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ ماضی کو بھُلا کر مستقبل کی نئی تعمیر کو اپنا نشانہ بنائیں۔
اِس دَور کے مسلم رہنماؤں کے لیے ضروری تھا کہ وہ مسلمانوں کو تعمیری رہنمائی دیں، یعنی پُرامن طورپر داخلی تعمیر واستحکام کا راستہ بتانا۔ مگر ہر ایک نے مسئلے کو صرف ایک خارجی مسئلہسمجھا۔ ہر ایک نے مسلمانوں سے کہا کہ دوسرے لوگ ظالم اور غاصب ہیں تم اُن سے لڑ کر اپنے لیے زندگی کا حق حاصل کرو، یعنی انھوں نے تعمیری رہنمائی کے بجائے، عسکری رہنمائی دی۔ اِس معاملے میں عرب لوگوں کو اپنے موجودہ مزاج کے تحت صرف ایک ماڈل نظر آیا، اور وہ صلاح الدین ایوبی (وفات: 1193 ) کا ماڈل تھا۔ چناں چہ عرب ذہن کی نمائندگی کرتے ہوئے عرب شاعرالزرکلی نے کہا:
ہاتِ صلاح الدین، ثانیۃً فینا جدّدی حطّین، أوشبہ حطّینا
صلاح الدین کو دوبارہ ہمارے پاس لاؤ، اور حطین کا معرکہ یا حطین جیسا معرکہ دوبارہ گرم کرو۔
امیر شکیب ارسلان (وفات: 1946 ) نے اپنی مشہور کتاب : لماذا تأخّر المسلمون وتقدّم غیرھم (1938) میں مسلمانوں کو دوبارہ عسکری معرکہ آرائی پر ابھارا ہے اور عسکری اقدام کو کامیابی کا راز بتایا ہے۔ اِس سلسلے میں انھوں نے حسب ذیل شعر نقل کیا ہے:
تأخّرتُ أستبقی الحیاۃَ، فلم أجد لنفسی حیاۃً، مثل أن أتقدّما
میں زندہ رہنے کے لیے (میدانِ جنگ) سے پیچھے رہا، لیکن میں نے اپنے لیے کوئی زندگی نہ پائی۔ زندگی تو صرف آگے بڑھنے والوں کے لیے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض غیر مسلم مصنفین نے دورِ جدید کے مسلم ذہن کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ عسکریت (militancy)کی تصویر ہے۔ اِس سلسلے میں رام موہن گاندھی نے اقبال کا یہ مصرعہ نقل کیا ہے:
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اِس مصرعے کا انگریزی ترجمہ انھوںنے حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:
For every vein of falsehood, every Muslim was a knife.
اِس دور کے تمام مسلم رہنما ردّ ِ عمل کی نفسیات کا شکار ہوگیے تھے، اِس لیے وہ صرف منفی رُخ پر سوچتے رہے۔ انھوں نے انتہائی غیر دانش مندانہ طورپر یہ کیا کہ غیر مسلم قوموں کو اسلام دشمن قرار دے کر، مسلمانوں کو اُن سے متنفّر کردیا۔ مسلمان اِس قابل نہ رہے کہ وہ نئی ابھرتی ہوئی قوموں کے بارے میں مثبت رائے قائم کریں، وہ اُن سے نئی حقیقتوں کو سیکھیں۔
اِس نئی صورت حال کے پیش آنے کے بعد، اصل ضرورت یہ تھی کہ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ غیرمسلم اقوام کا کیس اُن کے خلاف دشمنی کا کیس نہیں، بلکہ وہ اُ ن کے لیے چیلنج کا کیس ہے۔ فطرت کے عمومی قانون کے تحت، اِن قوموں نے مسلمانوں کو چیلنج دیا ہے، اور اب مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ مثبت ذہن کے ساتھ اِس کا سامنا کریں۔ وہ پورے معاملے پر نظر ثانی کرکے نئی منصوبہ بندی کے تحت دنیا میں دوبارہ اپنا مقام بنائیں۔ یہی مسلمانوں کی صحیح رہنمائی تھی، مگر منفی نفسیات میں مبتلا رہنما مسلمانوں کو یہ صحت مند رہنمائی دے سکے اور پوری مسلم دنیا منفی سوچ اور غصہ اور نفرت میں مبتلا ہو کر رہ گئی۔
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں پوری مسلم دنیا میں بڑی تعداد میں مسلم رہنما پیدا ہوئے، مگر اِن تمام مسلم رہنماؤں کا کیس مشترک طورپر وہی تھا جو اوپر بیان ہوا۔ عرب دنیا میں اِس زمانے میں سیدجمال الدین افغانی، سید قطب، امیر شکیب ارسلان، وغیرہ نے یہی کام کیا۔
میرے علم کے مطابق، رہنماؤں کی لمبی فہرست میں کوئی بھی اِس معاملے میں استثنا (exception)کی مثال نہیں۔ یہ منفی رہنمائی مسلمانوں کو جہاد کے نام پر تشدد تک لے گئی، اور جب مسلمان دوسروں کو ہلاک کرنے پر قادر نہ ہوسکے تو انھوں نے خود کُش بم باری (suicide bombing) کے ذریعے خود اپنے آپ کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔
اِس صورت حال کا ایک انوکھا ظاہرہ وہ ہے جس کو میں نظر یاتی خود فریبی سے تعبیر کروں گا۔ موجودہ زمانے میں آپ کو بہت سے مسلمان ملیں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم کو سید قطب کی تحریروں اور ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں اور احمد دیدات کے کیسیٹس کے ذریعے نیا ایمان حاصل ہوا ہے۔ اِن حضرات کے افکار سے ہم کو دوبارہ اسلام ملا ہے، ورنہ ہم اسلام سے دور چلے گیے تھے۔
میںنے اِن حضرات کے کیس پر بہت غور کیا۔ میرے نزدیک یہ مسلم رہنما منفی خوراک دیتے ہیں، نہ کہ مثبت خوراک۔ پھر کیسے ایسا ہوا کہ اُن کی باتوں سے کچھ لوگوں کو مثبت اسلام مل گیا۔ اِس قسم کے بہت سے لوگوں سے میری ملاقاتیں ہوئیں۔ گہرے جائزے کے بعد آخری طورپر جوبات میری سمجھ میں آئی، وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو جو چیز ملی ہے، وہ قومی اسلام ہے نہ کہ حقیقی اسلام۔ بیسویں صدی میں بہت سے مسلمان، خاص طورپر مسلم نوجوان، اِس احساس میں جی رہے تھے کہ دوسری قوموں نے اُن کا قومی فخر اُن سے چھین لیا ہے۔ مسلّح جہاد کے باوجود وہ اپنے اِس قومی فخر کو دوبارہ حاصل نہ کرسکے۔
اِس دوران میں یہ ہوا کہ کچھ ایسے لوگ نکلے جوالفاظ کی دنیا میں ان کے جذباتِ فخر کی تسکین فراہم کررہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ مغرب کی سائنسی ترقی مسلم دماغوں کی خوشہ چینی کے ذریعے ہوئی ہے۔ کسی نے مسلمانوں کی سیاسی فتوحات پر کتابیں لکھ کر اُن کو ماضی کی عظمت دوبارہ یاد دلائی۔ کسی نے بتایا کہ اسلام کا نظام دنیا کے تمام نظاموں سے زیادہ اعلیٰ اور برتر(superior) ہے۔ کسی نے بتایا کہ مغربی تہذیب ایک ایسا درخت ہے جو صرف زہریلے پھل دے سکتا ہے۔ کسی نے بتایا کہ مغربی تہذیب اپنی موت آپ مررہی ہے، تاکہ مسلمانوں کو دوبارہ ان کا بلند مقام حاصل ہوجائے۔ کسی نے بتایا کہ دنیا کا اسٹیج مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance)کا انتظار کررہا ہے:
اُٹھ، کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے
موجودہ زمانے میں شاعروں اور خطیبوں اور انشا پردازوں کے علاوہ، ایک اور طبقہ پیداہوا جس کو مسلم ڈبیٹر (مُناظر) کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے شان دار اسٹیج بنائے اور وہاں پُرجوش تقریریں کیں۔ انھوںنے ٹی وی کے اسکرین پر مناظرانہ مظاہرے کیے۔ انھوں نے مسلم نفسیات کو یہ کہہ کر فرضی فتوحات کی خوراک دی کہ — اِن سب کو بُل ڈوز کردو:
Bulldoze them all.
یہ مسلم ڈبیٹر اِس آخری حد تک گیے کہ جب مسلمانوں کو ٹررسٹ (terrorist)کہاگیا تو انھوںنے کہا کہ ہاں، ہم ٹررسٹ ہیں۔ مگر ہم پولس کی طرح مجرمین کے لیے ٹررسٹ ہیں:
Every Muslim should be a terrorist. A terrorist is a person who causes terror. The moment a robber sees a policeman, he is terrified. A policeman is a terrorist for the robber. Similarly, every Muslim should be a terrorist for the anti-social elements of society, such as thieves, dacoits and rapists.
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کو قطب اور اقبال اور مودودی اور احمد دیدات کے ذریعے اسلام ملا، وہ دراصل ایک شدید قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔وہ قومی اسلام کو ربّانی اسلام کا درجہ دے رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ انھوںنے اِن حضرات کے ذریعے اپنے قومی فخر کو دوبارہ حاصل کرلیا، مگر غلط فہمی کی بنا پر انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ اُن کو حقیقی اسلام حاصل ہوگیا ہے۔
اِسی قسم کے ایک مسلمان سے2007 میں میری ملاقات دہلی میں ہوئی۔ اُن کے والدین شام سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر وہ شام کو چھوڑ کر ترکی گئے۔ پھر ترکی سے وہ آسٹریلیا منتقل ہوگیے۔ اِس وقت یہ فیملی آسٹریلیا میںرہ رہی ہے۔ مسٹر مرادکی تعلیم آسٹریلیا کے اسکول اور کالج میں ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ یہ اسکول ایک کرسچن اسکول تھا۔ وہاں انھیں بتایا جاتا تھا کہ عیسائیت (Christianity)زیادہ اچھا مذہب ہے، اور اسلام اُس کے مقابلے میں کم تر مذہب ہے۔
وہ اسلام کی اِس منفی تصویر سے سخت پریشان تھے۔ پھر انھیں احمد دیدات جیسے لوگوں کو سننے کا موقع ملا۔ اِس سے اُن کے ذہن میں اسلام کی عظمت (glory)دوربارہ لوٹ آئی۔ وہ اسلام کو اپنے لیے فخر کی ایک چیز سمجھنے لگے۔ پھر اسی مجلس میںانھوں نے بتایاکہ میں تاج محل دیکھنے کے لیے آگرہ گیا تھا۔ مجھے تاج محل دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ میں نے سوچا کہ تاج محل کو بنانے والے مسلمان تھے، مگر آج ہندو لوگ اُس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
میں نے کہا کہ آپ کی اِس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو احمد دیدات جیسے لوگوں کے ذریعے جو اسلام ملا ہے، وہ اسلام نہیں ہے، بلکہ صرف قومی فخر ہے۔ اگر آپ کو حقیقی اسلام ملا ہوتا تو آپ تاج محل کے بارے میں اِس قسم کی منفی بات نہ کہتے۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کو انڈیا میں صرف تاج محل دکھائی دیا۔ انڈیا میںاس کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ بڑی چیز موجو ہے، اور وہ دعوتی عمل کی آزادی ہے۔ تاج محل کو لے کر آپ کا ذہن منفی سوچ کا شکار ہوگیا، حالاں کہ اگر آپ انڈیا میں موجود دعوتی مواقع کو لے کر سوچتے تو آپ کا دل شکر کے جذبات سے بھر جاتا۔
میرے تجربے کے مطابق، یہی اُن تمام لوگوں کا معاملہ ہے جو شاعروں اور مُناظروں کی باتوں کو سُن کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوںنے اسلام کو پالیا ہے، حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ جس چیز کو انھوںنے دریافت کیاہے، وہ اسلام کے نام پر محض فخر (pride)ہے۔ اور فخر صرف ایک مذموم چیز ہے، نہ کہ کوئی پسندیدہ چیز۔کسی آدمی نے حقیقی اسلام کو پایا ہے یا نہیں، اُس کا معیار صرف ایک ہے، اور وہ فکرِآخرت ہے۔ جس آدمی کا اسلام اُس کے اندر گہرے طورپر آخرت کی فکر پیدا کردے، اُسی نے فی الحقیقت اسلام کو پایا۔ جس آدمی کا اسلام اُس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو نہ دکھائے، اُس نے اسلام کو پایا ہی نہیں۔اُس نے کسی اور چیز کو پایا ہے اور غلطی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس نے اسلام کو پالیا ہے۔
اسلام کا آغاز، خدا کی معرفت سے ہوتا ہے۔ خداکی معرفت ایک ایسی بالا تر ہستی کی معرفت ہے جو انسان کا خالق ہے، جو انسان کا مالک ہے، جس نے انسان کو زندگی کے تمام سامان دیے ہیں۔ جب انسان خدا کو دریافت کرتاہے تو اُسی کے ساتھ وہ یہ بھی دریافت کرتا ہے کہ انسان کے بارے میں خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ خدا کا یہ تخلیقی نقشہ اُس کو بتاتا ہے کہ دنیا میں جو سامانِ حیات اُس کو ملے ہوئے ہیں، وہ سب کے سب امتحان کے پرچے ہیں۔ یہ چیزیں اُس کو حق کے طورپر نہیں ملی ہیں، بلکہ وہ اِس لیے ملی ہیں کہ اُن کے ذریعے انسان کو جانچ کر دیکھا جائے کہ وہ جہنم کی سزا کے قابل ہے، یا جنت کے انعام کے قابل۔
یہ دریافت اُس کو آخری حد تک تڑپا دیتی ہے۔ دنیا کی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے ہروقت اُس کو قرآن کی یہ آیت یاد آتی ہے : ثمّ لتسئلن یومئذ عن النّعیم(102:8)یعنی پھر یقیناً تم سے اُس دن نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ پھر خدا کی معرفت اور جنت اور جہنم کا یقین اور مواخذۂ آخرت (accountability)کا شدید احساس، اُس کو ایسا بنا دیتا ہے کہ اِس دنیا میںمیرا کوئی حق (right)نہیں، یہاں میری صرف ذمّے داریاں ہی ذمّے داریاں ہیں۔
یہ احساس اُس کو آخری حد تک فرض شناس (duty conscious) بنا دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا ذہن بنتا ہے جس میں دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنی ذمّے داریوں کو سوچتا ہے، نہ کہ دوسروں کی کوتاہیوں کو۔ اُس کی نظر ہمیشہ اپنی غلطیوں پر ہوتی ہے، نہ کہ دوسروں کی زیادتیوں پر۔ اُس کا دل دوسروں کے لیے ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے بھر جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تعمیر ِخویش کاطریقہ

قرآن کی سورہ آل عمران میں ایک اصول اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: إن تصبروا وتتّقوا لایضرّکم کیدہم شیئاً (3:120) یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو تو دوسروں کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی۔
قرآن کی یہ آیت فطرت کے ایک قانون کو بتاتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں سازش کا ہونا، اصل مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ صبر اور تقویٰ کا نہ ہوناہے۔ جن لوگوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود ہو، اُن کے لیے دوسروں کی سازش اور دشمنی غیر موثر ہو کر رہ جائے گی، وہ اُن کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔
صبر کوئی انفعالی صفت نہیں۔ صبر کا مطلب وہ اعلیٰ انسانی صفت ہے جس کو سیلف کنٹرول (self control) کہاجاتا ہے، یعنی دوسروں کے پیدا کردہ مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور خود اپنی مثبت سوچ کے تحت اپنی زندگی کا منصوبہ بنانا۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی سوچ خود رُخی سوچ (self-oriented thinking) نہ ہو، بلکہ وہ خدا رُخی سوچ(God-oriented thinking) ہو۔ سماج کے اندر اُس کا سلوک خدا کی تعلیمات کے مطابق ہو، نہ کہ اپنی خواہشات اور جذبات کے مطابق۔ جو لوگ صبر اور تقویٰ کی اِس روش کو اختیار کریں، اُن کے خلاف دوسروں کی منفی کارروائیاں اپنے آپ بے اثر ہوجائیں گی۔ کیوں کہ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی غیر مطلوب واقعہ ہمیشہ دو طرفہ کارروائی کے نتیجے میں پیش آتا ہے، نہ کہ صرف یک طرفہ کارروائی کے نتیجے میں۔
یہ فطرت کا ایک قانون ہے کہ کوئی شخص یا گروہ معتدل ذہن کے تحت کسی کے خلاف کوئی مخالفانہ کارروائی نہیں کرتا۔ ایک شخص یا گروہ کسی دوسرے کے خلاف کوئی منفی کارروائی صرف اُس وقت کرتاہے، جب کہ اُس کو بھڑکا دیا گیا ہو۔ ہر منفی کارروائی کسی اشتعال انگیز کارروائی کے نتیجے میں جوابی طورپر پیش آتی ہے۔ صبر اور تقوی آدمی کو اِس سے روکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف اشتعال انگیز کارروائی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ صبر اور تقویٰ کسی شخص یا گروہ کے لیے حفاظت کا یقینی ذریعہ ہے۔ ایسا شخص یا گروہ کسی بھی حال میں دوسرے کو مشتعل کرنے والا کام نہیں کرے گا، اِس لیے فطری طور پر وہ دوسرے کی طرف سے پیش آنے والی جوابی کارروائی سے بھی محفوظ رہے گا۔
یہ فطرت کا قانون ہے جس کو خود خالقِ فطرت نے مقرر کیا ہے۔ ایسی حالت میں سازش کے خلاف چیخ و پکار کرنا ایک بے فائدہ کام ہے۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو داخلی طورپر مستحکم بنایا جائے، خود اپنے اندر زیادہ سے زیادہ صبر اور تقویٰ کی اسپرٹ پیدا کی جائے۔ اِس کے بعد شکایت کے اسباب اِس طرح ختم ہوجائیں گے، جیسے کہ وہ تھے ہی نہیں۔
خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) کے مطابق، زندگی میں ہمیشہ دو مختلف قسم کی چیزیں موجود رہتی ہیں— مسائل (problems) اور مواقع(opportunities) ۔ جس طرح زندگی میں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں، اسی طرح زندگی میں ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں دانش مندی کا طریقہ، اسلام کے مطابق، یہ ہے کہ — مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع کو استعمال کیا جائے۔ مسائل سے الجھنا، صرف اُس وقت کو ضائع کرنا ہے جو اِس دنیا میں ہم کو زندگی کی مثبت تعمیر کے لیے ملا ہوا ہے۔ یہی دانش مندی ہے اور یہی اسلام کا طریقہ بھی۔
واپس اوپر جائیں

سیکولرزم کیا ہے

رسول اور اصحابِ رسول کو حکم دیتے ہوئے قرآن میں کہاگیا تھا: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (8:39) یعنی تم اُن سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین، سب کا سب، اللہ کے لیے ہوجائے-
قرآن کی اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے، جو کہ قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے دنیا میں قائم تھا- یہ نظامِ جبر خداکے تخلیقی نقشے کے خلاف تھا، اِس لیے حکم دیاگیا کہ اس کو ختم کردو، خواہ اِس کے لیے تم کو جنگ کرنی پڑے، تاکہ دنیا میں مذہبی آزادی کا دور پیدا ہو اور انسان اللہ کے حکم پر چلنے کے لیے پوری طرح آزاد ہوجائے-
یہ ایک دور کو بدلنے کا حکم تھا، اور کسی دور کی تبدیلی اچانک نہیں ہوتی، بلکہ وہ لمبے تاریخی عمل (historical process) کے ذریعے ہوتی ہے- رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں سے انسانی تاریخ میں یہ عمل جاری ہوا- مختلف حالات کے دوران وہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ یورپ کی نشاةِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد وہ اپنی تکمیل تک پہنچا- سیاسی نظام میں سیکولرزم کااصول اِسی انقلاب کا نتیجہ ہے-
سیکولرزم کوئی اینٹی مذہب (anti-religion) نظریہ نہیں ہے- سیکولرازم کا مطلب صرف یہ ہے کہ سیاسی اقتدار، مذہب کے معاملے میں عدم مداخلت (non-interference) کی پالیسی اختیار کرے- مصلحین کی مسلسل کوشش کے نتیجے میں آج سیکولرازم کا یہ سیاسی نظریہ انٹرنیشنل سطح پر ایک مسلّمہ اصول (accepted norm) بن چکا ہے- اس کو اقوامِ متحدہ (United Nations) کا سینکشن (sanction) حاصل ہے- اصولی طور پر دنیا کی تمام حکومتیں اِس پالیسی کو اختیار کرچکی ہیں-
سیکولرزم کے اِس جدید نظریے نے تاریخ میں پہلی بار مذہبی جبر کا خاتمہ کردیا ہے- آج ہرانسان کا یہ ایک مسلمہ حق ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے، اختیار کرے اور جس مذہب پر چاہے، عمل کرے اور جس مذہب کی چاہے، تبلیغ کرے- اِس حق (right) کو استعمال کرنے کی صرف ایک شرط ہے، وہ یہ کہ انسان جو کچھ کرے، اس کو وہ پرامن طور پر کرے، کسی بھی حال میں وہ تشدد کا طریقہ اختیار نہ کرے-
موجودہ زمانے میں بار بار میڈیا میں اِس قسم کی خبریں آتی ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں ملک میں اسلام پسند جماعتوں پر تشدد کیا گیا- مثلاً الاخوان المسلمون کے لیڈر سید قطب کو 1965 میں پھانسی دی گئی- جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابو الاعلی مودودی کو 1948 میں جیل کی سزا دی گئی، مگر اس قسم کے تمام واقعات سیاسی بنیاد پر ہوئے، نہ کہ حقیقةً مذہبی بنیاد پر- اِس قسم کے تمام لوگوں کو جو سزائیں دی جارہی ہیں، وہ دراصل سیاسی سزائیں ہیں، نہ کہ مذہبی سزائیں-
اصل حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کچھ اسلام پسند لیڈر اٹھے- انھوں نے خود ساختہ طورپر یہ نظریہ پیش کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے جو اپنے قیام کے لیے لازماً حکومت چاہتا ہے- ہمارا یہ مذہبی فرض ہے کہ ہم اقتدار پر قابض حکمرانوں سے لڑ کر ان سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیں اور اسلام پسند افراد کو حکومت کرنے کا موقع دیں- اِس سیاسی نظریے کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام پسند جماعتوں اور ارباب ِ اقتدار کے درمیان ٹکراؤ ہوگیا- اربابِ اقتدار نے اسلام پسند جماعتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کیں- اربابِ اقتدار کی طرف سے یہ کارروائیاں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے تھیں، نہ کہ اسلام یا مذہب اسلام کو مٹانے کے لیے-
موجودہ زمانے کے نام نہاد اسلام پسندوں پر صحابی رسول عبد اللہ بن عمر کے وہ الفاظ صادق آتے ہیں جو انھوں نے اپنے زمانے میں اس قسم کے لوگوں کے بارے میں کہے تھے، یعنی اللہ نے تاریخ میں انقلاب برپا کرکے ایسے حالات پیداکردئے تھے کہ اہلِ اسلام کو اربابِ اقتدار کی مداخلت کا اندیشہ باقی نہ رہے- اہلِ اسلام مذہب کی حقیقی تعلیمات پر کسی روک ٹوک کے بغیر آزادی کے ساتھ عمل کرسکیں- مگر اہلِ اسلام نے خود ساختہ طورپر اسلام کی سیاسی تعبیر کی- وہ اربابِ اقتدار کو  اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے سرگرم ہوگئے- اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مذہبی تشدد دوبارہ تاریخ میں واپس آگیا-
واپس اوپر جائیں

مسلمان کی اصل حیثیت

اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے، مسلمان داعی ہیں اور دوسری تمام اقوام اُن کی مدعو، یعنی مسلمان خدا کے امین ہیں اور اُن کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اِس امانت کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اِسی فرض کی ادائیگی میںاُن کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی نازک خدائی ذمّے داری کا معاملہ ہے۔ مسلمان اپنی اِس ذمے داری کو صرف اُس وقت ادا کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اِس ذمے داری کے تقاضوں کو سمجھیں اور اُس کو اپنی زندگی میں بھر پور طور پر استعمال کریں۔ داعی کی ذمّے داری صرف داعیانہ کردار کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہے، داعیانہ کردا ر کے بغیر دعوتی ذمّے داری کو ادا کرنا اُسی طرح ناممکن ہے جس طرح کسی عورت کے لیے مادرانہ شفقت کے بغیر ماں کی ذمّے داری کو ادا کرنا۔
قرآن کے الفاظ میں، دعوت کا آغازنُصح (7:68) سے ہوتا ہے، یعنی مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی۔ دعوتی اخلاق کا تقاضا ہے کہ داعی کے دل میں اپنے مدعو کے لیے صرف مثبت جذبات ہوں، منفی جذبات سے اُس کا دل مکمل طورپر خالی رہے۔ اِسی کا نام یک طرفہ خیر خواہی ہے۔ اِس قسم کی یک طرفہ خیر خواہی کے بغیر داعی اپنی داعیانہ ذمّے داری کو ادا نہیں کرسکتا۔
موجودہ دنیا کا نظام اِس طرح بنا ہے کہ یہاں ہمیشہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے، اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے ناخوش گوار تجربات ہوتے رہتے ہیں، ایک کی کوئی بات دوسرے کے لیے اشتعال انگیزی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے، اور فطرت کے نظام کو بدلنا ہرگز کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں، داعی کے اندر اپنے مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی کا جذبہ صرف اُس وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب کہ وہ یک طرفہ اخلاقیات کے اصول پر قائم ہو۔ لوگوں کے ساتھ اُس کی روش دوسروں کے عمل کے زیر اثر نہ بنے، بلکہ وہ اُس کے اپنے سوچے سمجھے اصول کے تحت بنی ہو۔ وہ ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔
مسلمان داعی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں۔ داعیانہ شریعت میں، شکایت اور احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کیوں کہ مسلمان جس قوم کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں گے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مدعو قوم ہوگی۔
مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی مدعو قوم کے ساتھ حریف قوم جیسا معاملہ کریں۔ مسلمانوں کوہر حال میں اور ہر قوم کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق کو برقرار رکھنا ہے۔ کیوں کہ معتدل تعلقات کے ماحول ہی میں دعوت الی اللہ کا کام ہوسکتا ہے۔ جہاں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان معتدل تعلقات نہ ہوں، وہاں دعوت کا کام انجام دینا ممکن ہی نہیں۔
قرآن کی سورہ الاحزاب میںایک حکم اِن الفاظ میںآیا ہے: دَعْ أذاہم وتوکّل علی اللہ (33:48) یعنی اُن کی ایذاؤں کو نظر انداز کرو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے نہ مانگ کر اللہ سے مانگو، مطالباتی طریقہ چھوڑ کر دعا کا طریقہ اختیار کرو۔ اِسی لیے ہر پیغمبر نے اپنی مدعو قوم سے کہا کہ: لا أسئلکم علیہ مالاً(11:11) یعنی میں تم سے کسی مادّی فائدے کا طالب نہیں ہوں۔ میں صرف دینے والا ہوں، نہ کہ تم سے کوئی چیز لینے والا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مدعو قوم کے مقابلے میں، حقوق (rights)کے نام پر مطالباتی مہم چلانا، پیغمبرانہ سنت کے مطابق، سرے سے جائز ہی نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ مگر جوچیز ختم ہوئی، وہ نبوت ہے، نہ کہ کارِ نوبت۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کوئی نیا پیغمبر آنے والا نہیں۔ لیکن جہاں تک پیغمبرکے دعوتی مشن کی بات ہے، وہ ہمیشہ اور ہر قوم کے درمیان جاری رہے گا۔ پیغمبر کے دعوتی مشن میں، بقدر استطاعت، اپنا حصہ ادا کرے۔ یہ دعوتی عمل ہر فردِ مسلم کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو لوگ اِس فرض کو ادا نہ کریں، اُن کے لیے سخت اندیشہ ہے کہ خدا کے نزدیک، وہ پیغمبر کے امتی ہونے کا حق اپنے لیے کھو دیں۔
واپس اوپر جائیں

بااصول زندگی

دنیا کا نظام اِس طرح بناہے کہ یہاں ہمیشہ ایک کو دوسرے سے اختلاف پیش آتا ہے۔ یہ اختلاف مبنی بر فطرت ہے۔ اِس لیے اُس کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں، کامیاب زندگی کا اصول صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے ساتھ ایڈجسٹ (adjust) کرکے زندگی گزاری جائے۔ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہمی مفاد(mutual interest) کی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم کیا جائے۔ اِس دنیا میں اِس کے سوا، کوئی انتخاب (option) کسی کے لیے ممکن نہیں۔
اِس معاملے میں، مسلمانوں کا معاملہ دوسروں سے الگ نہیں ہے، البتہ مسلمان کو اِس معاملے میں ایک امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ دوسروں کے لیے یہ ایڈجسٹ مینٹ (adjustment) صرف مفاد (interest) کا ایک معاملہ ہے، مگر مسلمان کے لیے یہ معاملہ ایک اعلیٰ عبادت کا معاملہ بن جاتا ہے۔اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک اصول کے تحت ہوتا ہے، جب کہ دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف دنیوی مفاد کے تحت پیش آتا ہے۔
مسلمان اپنی حیثیت کے اعتبار سے، ایک خدائی مشن کے حامل ہیں، یعنی خدا کے ابدی پیغام کو دوسرے تمام انسانوں تک پہنچانا۔پیغام رسانی کا یہ کام صرف اُس وقت درست طورپر انجام پاسکتا ہے، جب کہ مسلمانوں اور غیر مسلم قوموں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں۔ مسلمان جب دوسری قوموں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے تو اُس کا محرّک (incentive) اُس کا یہی دعوتی ذہن ہوتا ہے۔ وہ ذاتی مفاد کے لیے ایڈجسٹ مینٹ نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف اِس لیے ایڈجسٹ مینٹ کرتا ہے، تاکہ اُس کا دعوتی مشن کسی رکاوٹ کے بغیر (peaceful) پُر امن انداز میں جاری رہے۔
محرک کا یہ فرق بہت اہم ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک ایسا عبادتی عمل بن جاتا ہے جو اُس کو آخرت میںاجر عظیم کا مستحق بنادے۔ اِس کے برعکس، دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف ذاتی مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے، اِس سے زیادہ اُس کی کوئی اور حیثیت نہیں۔
مذکورہ قسم کا ایڈجسٹ مینٹ موجودہ دنیا کا ایک لازمی قانون ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص یا گروہ کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر اصولی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُن کو مفاد کی بنیاد پر لازماًایڈ جسٹ مینٹ کا معاملہ کرنا ہوگا۔ مگر ایسی صورت میں ان کا ایڈجسٹ مینٹ عبادت کا عمل نہ ہوگا، بلکہ وہ صرف موقع پرستی (expediency) کا ایک معاملہ ہوگا، یعنی وہی چیز جس کو شریعت کی زبان میں منافقت (hypocrisy) کہاجاتا ہے۔ اصول پسندی، ایک اعلیٰ اخلاقی صفت ہے، اِس کے مقابلے میں، موقع پرستی ایک انتہائی بُری صفت ۔
اِس دنیا میں کسی آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) ہے— اخلاص، یا منافقت۔ مخلصانہ زندگی میں منافقت کا کوئی مقام نہیں۔ اِسی طرح منافقانہ زندگی میںاخلاص کا کوئی درجہ نہیں۔ دعوتی مشن واحد مشن ہے جو آدمی کو اِس معاملے میں منافقانہ روش سے بچاتا ہے۔ دعوتی مشن آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ ربانی مشن کی خاطر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ داعی بھی ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے، مگر اُس کا ایڈجسٹ مینٹ اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر ۔
یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اِس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر دعوتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُنھیں ذاتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کرنا پڑے گا۔ گویا کہ اگروہ دوسروں کے درمیان مخلص بن کر نہ رہیں تو اُنھیں دوسروں کے درمیان منافق بن کر رہنا ہوگا، اور بلاشبہہ منافقانہ زندگی سے زیادہ بُری کوئی چیز اِس دنیا میں نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان عالمی محاصرےمیں

موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کا عام مزاج یہ ہے کہ مسلمان عالمی سطح پر زیر محاصرہ (under siege) ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تمام قومیں مسلمانوں کی مخالف ہیں۔ تمام قوموں نے مسلمانوں کے خلاف سازش کر رکھی ہے۔ تمام قومیں متفقہ طور پر یہ چاہتی ہیں کہ مسلمان دوبارہ ابھرنے نہ پائیں، چناں چہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر سطح پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
یہ سوچ سرتاسر ایک بے بنیاد سوچ ہے۔ خالص علمی اعتبار سے اِس کی کوئی حقیقت نہیں۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خود خالق کے نقشے کے مطابق، مسابقت (competition) اور چیلنج پر قائم ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس نظام کے بناپر کوئی آگے بڑھتا ہے اورکوئی پیچھے ہوجاتاہے، کوئی پانے والا بنتا ہے اور کوئی کھونے والا۔یہ نظام اِس لیے ہے تاکہ زندگی کی سرگرمیاں جاری رہیں، تاکہ ہر فرد اور ہر گروہ کو عمل کا محرک (incentive) ملتا رہے۔
فطرت کے اِس نظام کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ایک گروہ اپنی کوشش کے ذریعے آگے بڑھ جاتا ہے اور وہ دوسرے گروہ کو پیچھے چھوڑ دیتاہے۔ ایسی حالت میں پچھڑے ہوئے گروہ کو چاہئے کہ وہ اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے، وہ کھوئی ہوئی بازی کو دوبارہ جیتنے کے لیے اپنی ساری توانائی خرچ کردے۔ زندگی کو چیلنج سمجھنا آدمی کو نیا جذبۂ عمل دیتا ہے۔ اِس کے برعکس، سازش اور دشمنی کا نظریہ آدمی کو منفی نفسیات میں مبتلا کرکے اس کو زندگی کی دوڑ میں پیچھے ڈال دیتا ہے۔
موجودہ زمانے کی مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں چیلنج کو محاصرہ سمجھ لیا۔ اِس طرح انھوںنے ایک مثبت واقعے کو خالص منفی رخ دے دیا۔ مسلمانوں کی یہی غلط سوچ ہے جس کی اصلاح میں ان کی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں موجودہ زمانے کے مسلمان زوال کا شکار ہوئے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ عروج تک پہنچ سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

جمہوریت کا دور

1789میں یورپ میں وہ سیاسی انقلاب آیا جس کو فرانسیسی انقلاب (French Revolution) کہاجاتا ہے- اِس انقلاب کے بعد دنیا ایک نیے سیاسی دور میں داخل ہوگئی، یعنی جمہوریت (democracy) کا دور- جمہوریت سے پہلے دنیا میں بادشاہت کا دور تھا، یعنی شخصی حکمرانی کا دور- اُس زمانے کی سیاسی مساوات (political equation) حاکم اور محکوم (ruler and ruled) کے اصول پر قائم تھی، لیکن جمہوریت کے دور میں یہ سیاسی مساوات ختم ہوگئی-جمہوریت کے نظام میں نہ کوئی حاکم ہوتا ہے اور نہ کوئی محکوم- اب حکومت کو عملاً حکومت نہیں کہاجاتا، بلکہ اس کو صرف انتظامیہ (administration)کہا جاتا ہے- کوئی انتظامیہ مستقل نہیں ہوتی، ہر چند سال کے بعد الیکشن کی بنیادپر انتظامیہ بدلتی رہتی ہے-
موجودہ زمانے کی جمہوریت سیکولرزم کے اصول پر قائم ہے- اس اصول کے تحت موجودہ زمانے میں مذہبی امور کو مذہبی افراد یا مذہبی تنظیموں کے دائرے کا معاملہ قرار دے دیا گیا ہے- اُن کو آزادی ہےکہ وہ اپنے مذہبی معاملات کا انتظام جس طرح چاہیں کریں، صرف اِس شرط پر کہ وہ دوسروں کے ساتھ مداخلت یا تشدد کا معاملہ نہیں کریں گے-
جمہوری نظام میں حکومت کا تعلق صرف مشترک قومی امور سے ہوتا ہے- مثلاً اقتصادیات، شہری پلاننگ، انفراسٹرکچر، وغیرہ- جمہوریت کا یہ نظام مذہبی گروہوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہے- مذہبی گروہ اگر مذہب کے دائرے میں رہے، وہ نزاعی سیاست کو اُس میں شامل نہ کرے، تو وہ ہر حال میں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرسکتا ہے- خواہ الیکشن میں کوئی ایک پارٹی جیتے یا دوسری پارٹی، انتظامی اعتبار سے وقتی طورپر کوئی ایک پارٹی اقتدار میں آئے یا دوسری پارٹی- جمہوریت کے زمانے میں اگر کوئی مذہبی گروہ کسی پرابلم سے دوچار ہوتا ہے تو وہ یقینی طورپر صرف ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی ناعاقبت اندیشانہ سیاست کا نتیجہ ہوگا، نہ کہ خود جمہوری نظام کا نتیجہ-(16 مئی 2014)
واپس اوپر جائیں

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

آج کل مسلمان مختلف مقامات پر متشددانہ کارروائی میں مبتلا ہیں۔ جب اُن کو اِس سے روکا جائے، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کررہے ہیں جس کا حکم ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ اِس سلسلے میں وہ اُس حدیثِ رسول کو پیش کرتے ہیں جس میںاہلِ ایمان کو تغییر ِ منکَرکا حکم دیاگیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: مَن رأی منکم منکراً فلیغیّرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان (صحیح مسلم، کتاب الإیمان) یعنی تم میں سے جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، اور اگر وہ اِس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان سے، اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنے دل سے، اور یہ سب سے زیادہ کم زور ایمان ہے۔دوسری روایت میں اِس حدیث کا پہلا ٹکڑا اِن الفاظ میں آیا ہے: مَن رأی منکراً فاستطاع أن یغیّرہ بیدہ فلیغیّرہ بیدہ (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم) یعنی جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو اگر وہ استطاعت رکھتا ہو تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ روایت کے بقیہ الفاظ مشترک ہیں۔
اِس حدیث کو عام طورپر تشدد کے جواز میں پیش کیا جاتاہے، حالاں کہ حدیث میں اِس کا ذکر نہیں ہے۔ اِس حدیث میں منکر کو عملاً بدل دینے، یا عملاً بدل دینے کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں اس کے خلاف بولنے کا ذکر کیاگیا ہے، نہ کہ منکر کو دیکھ کر لوگوں کے اوپر تشدد کرنے کا، یا خود کُش بم باری (suicide bombing) کا۔ اِس حدیث سے متشددانہ کارروائیوں کا جواز ہر گز نہیں نکلتا۔
اِس روایت میں منکر کی تغییر کا لفظ آیا ہے۔ تغییر کے معنی عربی زبان میں بدل دینے (replacement) کے ہیں، یعنی منکَر کی حالت کو بدل کر غیر منکر کی حالت قائم کرنا۔ اِس حدیث میںاصلاحِ حال کا حکم ہے، نہ کہ تخریب اور فساد کا۔
عربی زبان کے مشہور لغت ’لسان العرب‘ میں تغییر کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے— غیّرہ: حوّلہ وبدّلہ کأنہ جعلہ غیر ما کان (40/5) اس کی تغییر کی، یعنی اس کو بدل دیا۔ گویا کہ اس کو ایسا بنا دیا جیسا کہ وہ پہلے نہ تھا۔ امام راغب الاصفہانی (وفات: 1108 )نے اپنی کتاب ’المفردات فی غریب القرآن‘ میں اِس لفظ کی تشریح اِس طرح کی ہے: یقال غیّرتُ داری إذا بنیتھا بناءً غیر الّذی کان۔ کہاجاتا ہے کہ میں نے اپنے گھر کی تغییر کی، یعنی جب تم اس کی تعمیر کو بدل کر دوسری طرح اس کی تعمیر کرو (صفحہ 368 )۔
موجودہ زمانے میں جگہ جگہ جہاد کے نام پر تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔یہ ’’مقدس تشدد‘‘ مسلم رہنماؤں کی قیادت میں انجام پارہا ہے۔ اِس فعل میںتقریباً تمام امت شریک ہے۔ اِس لیے کہ جو لوگ براہِ راست اس میں شریک نہیں ہیں، وہ اس کے بارے میں خاموش ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، اُن کی یہ خاموشی بالواسطہ شرکت کا درجہ رکھتی ہے۔ اِس لیے اسلامی اصول کے مطابق، پوری امت کو اِس عمل میں شریک مانا جائے گا، کچھ لوگوں کو براہِ راست طورپر، اور بقیہ لوگوں کو بالواسطہ طورپر۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اِس متشددانہ عمل کا کوئی بھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ اِس عمل کا ہر جگہ صرف ایک ہی نتیجہ نکل رہا ہے، اور وہ تخریب ہے، نہ کہ تعمیر۔ ایسی حالت میں بلا شبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ متشددانہ کارروائیاں اور جو کچھ ہوں، لیکن وہ تغییر ِ منکر کا عمل ہر گز نہیں۔ تغییر ِ منکر یہ ہے کہ آدمی ناپسندیدہ صورت ِ حال کو بدل کر اس کی جگہ پسندیدہ صورتِ حال قائم کرے۔ اِس کے برعکس، ایک ایسی کوشش جو کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہو، وہ یقینی طورپر تخریب اور فساد ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی عمل۔
کسی غیر مطلوب صورتِ حال کو دیکھ کر اس کے خلاف منفی رد عمل ظاہر کرنا، صرف فساد کا ایک عمل ہے، وہ تغییر ِمنکر نہیں۔ تغییر ِمنکر مکمل طورپر ایک مثبت عمل ہے۔ وہ حالات کی اصلاح کے لیے کیا جاتا ہے، نہ کہ حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے۔ اصلاحِ حال کا طریقہ یہ ہے کہ غیر متاثر ذہن کے ساتھ حالات کا مطالعہ کیا جائے اور پھر تعمیری منصوبہ بندی کے ذریعے صورتِ حال کو درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اِس کے خلاف کریں، وہ بلاشبہہ مفسد ہیں، نہ کہ مصلح۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبرانہ کردار

عام لوگ انسان کو دشمن اور دوست میں تقسیم کرتے ہیں، لیکن داعی کے ذہن میں یہ تقسیم نہیں ہوتی۔ داعی کی نظر میں ہر انسان صرف انسان ہوتاہے، خواہ وہ بہ ظاہر اپنا ہو یا غیر۔ داعی کے رویّے کو ایک لفظ میں، انسان دوست (human-friendly) رویہ کہہ سکتے ہیں۔
عام انسان کا مزاج یہ ہوتاہے کہ— دشمن سے بائیکاٹ کرو، دشمن کو بدنام کرو، دشمن سے انتقام لو، دشمن کو ذلیل کرنے کی کوشش کرو، دشمن کے لیے بد دعائیں کرو، دشمن کی کردار کشی کرو، دشمن کو سبق سکھاؤ، وغیرہ۔ یہ طریقہ داعیانہ اسپرٹ کے خلاف ہے۔ جولوگ اس قسم کا مزاج رکھتے ہوں، وہ کبھی خدا کے دین کے داعی نہیں بن سکتے۔اس کے برعکس، داعی کا مزاج مکمل طورپر مثبت مزاج ہوتا ہے۔ داعی کی نظر میں ہر ایک اس کا اپنا ہوتا ہے۔ بہ ظاہر کوئی شخص دشمنی کرے تب بھی داعی کے اندر اس کے خلاف نفرت پیدا نہیں ہوتی۔ داعی کا ذہن یہ ہوتاہے کہ— دشمن کے ساتھ ناصحانہ روش اختیار کرو، اچھے سلوک کے ذریعے دشمن کو اپنا دوست بناؤ، اپنی تنہائیوں میں دشمن کے لیے دعائیں کرو، دشمن سے محبت کرو، دشمن کے بارے میں ہمیشہ پُرامید رہو، دشمن کو اپنے جیسا ایک انسان سمجھو، ہر حال میں دشمن کے خیر خواہ بنے رہو، دشمن کی ہلاکت کا متمنی ہونے کے بجائے اُس کو خدا کی ابدی رحمتوں میں حصے دار بنانے کی کوشش کرو۔ اِس معاملے میں داعیانہ کردار کیا ہے، اس کو ایک شاعر نے پیغمبر کے حوالے سے بجا طور پر اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
راہ میں جس نے کانٹے بچھائے، گالی دی، پتھر برسائے
اُس پر چھڑکی پیار کی شبنم، صلی اللہ علیہ وسلم
دعوت کے عمل کے لیے داعیانہ کردار ضروری ہے۔ جو شخص داعی کا کریڈٹ لینا چاہتا ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کرے۔ داعیانہ کردار کے بغیر داعی بننے کی کوشش کرنا، قرآن کے الفاظ میں، بِن کئے پر کریڈٹ لینے کے ہم معنیٰ ہے (یحبّون أن یُحمدوا بما لم یفعلوا)، جب کہ خدا کے یہاں کسی شخص کو حقیقی عمل پر کریڈٹ ملتاہے، نہ کہ فرضی دعوے پر۔
واپس اوپر جائیں

فساد اور اسبابِ فساد

کوئی فساد (riot) جب ہوتا ہے تو وہ اچانک نہیں ہوتا ۔ ہر فساد سے پہلے اُس کے اسباب ظاہر ہوتے ہیں جو دھیرے دھیرے فساد بن جاتے ہیں۔ گویا کہ ہر فساد دراصل اسبابِ فساد کا نقطہ انتہا (culmination) ہوتاہے۔ اِس لیے فساد کے خلاف اصلاحی کوشش کا آغاز، ظہورِ فساد سے پہلے ہونا چاہیے نہ کہ ظہورِ فساد کے بعد۔ اسلام میں نہی عن المنکر کا مطلب یہی ہے۔ نہی عن المنکر کا حکم اِسی لیے دیا گیا ہے کہ فساد سے پہلے اسبابِ فساد کو روکا جائے، تاکہ فساد کی نوبت نہ آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسبابِ فساد کو ختم کرنے کی کوشش کرنا، اصلاح ہے۔ اور فساد ہوجانے کے بعد متحرک ہونا صرف لیڈری ہے۔ جو لوگ اسبابِ فساد کے ظہور کے وقت خاموش رہیں اور جب عملاً فساد ہوجائے تو وہ جوش وخروش کے ساتھ حرکت میں آجائیں، ایسے لوگ خود بھی فساد انگیزی کے مجرم ہیں۔ اِس قسم کے لوگوں ہر گز کو اصلاحِ فساد کا کریڈٹ (credit)نہیں مل سکتا۔ اصلاحِ فساد کا کام، فسادسے پہلے شروع ہوتا ہے، نہ کہ عملی طور پر فساد ہوجانے کے بعد۔
اسبابِ فساد کیا ہیں۔ جب کسی سماج میں نفرت کی بولی بولی جائے، جب ایسا ہو کہ کسی گروہ کو ظالم اور دشمن بتا کر اس کے خلاف بُری خبریں پھیلائی جائیں، جب کسی سماج میں ایسے لوگ اس کے لیڈر بن جائیں جو ذاتی ذمے داریوں (duties) کی بات نہ کرتے ہوں، بلکہ وہ حقوق (rights) کو لے کر اپنی محرومی کی داستان سناتے ہوں، جب اپنے لوگوں کی برائیوں پر اُن کو نہ روکا جائے اور دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی مہم چلائی جائے، تو سمجھ لیجیے کہ ایسے سماج میںاسبابِ فساد کی آگ بھڑکائی جارہی ہے، جو کسی نہ کسی دن بڑھ کر عملی فساد کی صورت اختیار کرلے گی۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ قوم کے رہنما خود اپنی قوم کی اصلاح پر ساری توجہ لگائیں، نہ کہ دوسری قوم کے خلاف لوگوں کے اندر منفی جذبات پیدا کریں۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ مفسد ہیں، نہ کہ مُصلح۔فساد کا علاج اسبابِ فساد کی روک تھا م ہے، نہ کہ فساد کے خلاف شکایت اور احتجاج۔
واپس اوپر جائیں

صحیح نقطۂ آغاز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے جب مکہ میں تھے تو وہاں کے سرداروں نے آپ کو حکومت کی پیش کش کی۔انھوں نے کہا: إنْ ترید مُلکاً ملّکناک علینا (اگر تم حکومت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنے اوپر حاکم بنانے کے لیے تیار ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ما أطلب الملک علیکم (میں تمھارے اوپر حکومت نہیں چاہتا)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب سے اسلامی تحریک کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اسلامی تحریک کا نقطۂ آغاز (starting point) حکومت یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اسلامی تحریک کا اصل نقطۂ آغاز فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا ہے، ایک ایک فرد کے ذہن کی تشکیل نو (re-engineering of mind) کرنا ہے۔
اسلامی تحریک کا فارمولا دو نکات (points) پر مشتمل ہے— فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا، اور پولٹکل سسٹم کے معاملے میں حالتِ موجودہ کو تسلیم کر لینا:
Change in personality, statusquoism in system
اسلامی تحریک کی یہی فطری ترتیب ہے۔ اگر اِس ترتیب کو بدل دیا جائے، یعنی اگر پولٹکل سسٹم کو بدلنے سے تحریک کا آغاز کیا جائے تو سوسال کی جدوجہد کے بعد بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ فرد کی تبدیلی سے آغاز کرکے نظام کی تبدیلی تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اگر نظام کی تبدیلی سے آغاز کیا جائے تو ایسی تحریک کسی انجام تک پہنچنے والی نہیں۔ ایسی تحریک صرف تباہی میںاضافہ کرے گی، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
فرد کے اندر ذہنی تبدیلی سے تحریک کاآغاز کرنے کی صورت میں فی الفور تحریک کو مثبت آغاز مل جاتا ہے۔ لیکن سسٹم سے آغاز کرنے کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آخر کار تحریک ایک بند گلی میں پہنچ کر رک جاتی ہے۔ اس کے پیچھے بھی اندھیرا ہوتا ہے اور اس کے آگے بھی اندھیرا۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی تحریک کا اصول

اسلامی تحریک کا اصول یہ ہے کہ ٹکراؤ سے کامل پرہیز کرتے ہوئے اپنا مشن چلایا جائے۔ اِس پالیسی کو دو لفظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— پولٹکل اسٹیٹس کوازم، نان پولٹکل ایکٹوزم:
Political statusquoism, non-political activism
اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اقتدار سے ٹکراؤ نہ کرنا اور غیر سیاسی دائرے میں جو مواقع ہیں، اُن کو بھر پور استعمال کرنا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں یہی طریقہ اختیار فرمایا۔ اِسی طریقے کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ کو ہر اعتبار سے غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اِس طریقے کو دوسرے لفظوں میں، حکیمانہ طریقِ کار کہاجاسکتا ہے۔
اِس طریقِ کار کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کو فوراً ہی اپنے عمل کے لیے ایک نقطۂ آغاز (starting point) مل جاتا ہے۔ اِس کے بعد یہ ممکن ہوجاتاہے کہ آدمی اپنی توانائی کو بے نتیجہ کاموں میں ضائع نہ کرے، وہ اپنی پوری توانائی کو صرف نتیجہ خیز کاموںمیں صرف کرے، وہ تمام موجود امکانات کو اپنے مشن کے حق میں استعمال کرسکے۔
یہ طریقِ کار اِس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی کے اندر مکمل طورپر مثبت ذہن باقی رہے، وہ کسی بھی مرحلے میں منفی سوچ (negative thinking) کاشکار نہ بنے۔ وہ ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھے۔ اُس کو ہر دنیا اپنی دنیا نظر آئے۔ ہر صورتِ حال کو وہ اپنے لیے موافق صورتِ حال سمجھے۔ شکایت اور احتجاج (protest) سے اُس کا ذہن مکمل طورپر پاک ہو۔
یہ طریق کار دراصل وہی ہے جس کو تدریجی طریقِ کار (gradual method) کہاجاتاہے، یعنی فطری انداز سے ماحول میں تبدیلی لانا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں تدریجی طریقِ کار ہی نتیجہ خیز طریقِ کار ہے۔ اِس کے سوا جو طریقے ہیں، وہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والے ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
Fine-Tuning in the Universe
“There is plenty of good scientific evidence that our universe began about 14 billion years ago, in a Big Bang of enormously high density and temperature, long before planets, stars and even atoms existed. But what came before? [The physicist Lawrence] Krauss in his book discusses the current thinking of physicists that our entire universe could have emerged from a jitter in the amorphous haze of the subatomic world called the quantum foam, in which energy and matter can materialize out of nothing. Krauss’s punch line is that we do not need God to create the universe. The quantum foam can do it quite nicely all on its own. Aczel asks the obvious question: But where did the quantum foam come from? Where did the quantum laws come from? Hasn’t Krauss simply passed the buck? Legitimate questions. But ones we will probably never be able to answer. [“...The fine-tuning problem] For the past 50 years or so, physicists have become more and more aware that various fundamental parameters of our universe appear to be fine-tuned to allow the emergence of life — not only life as we know it but life of any kind. For example, if the nuclear force were slightly stronger than it is, then all of the hydrogen atoms in the infant universe would have fused with other hydrogen atoms to make helium, and there would be no hydrogen left. No hydrogen means no water. On the other hand, if the nuclear force were substantially weaker than it is, then the complex atoms needed for biology could not hold together. In another, even more striking example, if the cosmic “dark energy” discovered 15 years ago were a little denser than it actually is, our universe would have expanded so rapidly that matter could never have pulled itself together to form stars. And if the dark energy were a little smaller, the universe would have collapsed long before stars had time to form. Atoms are made in stars. Without stars there would be no atoms and no life. So, the question is: Why? Why do these parameters lie in the narrow range that allows life? (Book: ‘Why Science Does Not Disprove God’ by mathematician Amir D. Aczel, who is currently researcher in the history of science at Boston University. The above are excerpts taken from a review on the book by physicist Alan Lightman for The Washington Post, April 11, 2014)
واپس اوپر جائیں

کائنات کی معنویت

سائنس فطرت (nature) کے مطالعے کا نام ہے- فطرت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کو ہم کائنات کہتے ہیں- سائنسی مطالعے کا آغاز کچھ ابتدائی باتوں سے ہوا، لیکن یہ مطالعہ جتنا زیادہ بڑھتا گیا، اتنا ہی یہ ظاہر ہوتا گیا کہ کائنات ایک بے حد بامعنی کائنات ہے- کائنات کی کوئی بھی ایسی تشریح جو کائنات کی معنویت کے اعتراف پر قائم نہ ہو، وہ سائنسی تحقیقات سے مطابقت نہیں رکھتی-
مثلاً سائنسی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ کائنات کے اندر ایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے- اب اگر یہ نہ مانا جائے کہ کائنات کا ایک ذہین ڈیزائنر (intelligent designer)ہے تو کائنات کا نادر ظاہرہ ناقابلِ توجیہ بن جاتاہے-
اِسی طرح سائنس کے مطالعے نے بتایا کہ ہماری کائنات ایک کسٹم میڈ (custom-made) کائنات ہے، یعنی وہ انسان جیسی مخلوق کے تقاضوں کے عین مطابق ہے- اب اگر ایک ایسے خالق کو نہ مانا جائے جس نے دو الگ الگ چیزوں کے درمیان اِس مطابقت کو قائم کیا، تو اِس ظاہرے کی کوئی قابلِ فہم توجیہہ ممکن نہیں- اِسی طرح مختلف شعبوں میں سائنس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے مختلف اجزا آپس میں بے حد مربوط ہیں اور ان کے درمیان ایک انتہائی فائن ٹیوننگ (fine-tuning) پائی جاتی ہے تو اِس مائنڈ باگلنگ (mind-boggling) ظاہرے کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں-
سائنس کوئی مذہبی سبجیکٹ نہیں، سائنس کا موضوع خالق کی دریافت نہیں- سائنس کا موضوع تخلیق (creation)کی دریافت ہے، لیکن خالق (Creator) تخلیق سے جدا نہ تھا، اِس لیے تخلیق کا مطالعہ عملاً خالق کا مطالعہ بن گیا- سائنس نے اپنے مطالعے کے ذریعے جو چیزیں دریافت کیں، وہ سب خدائی نشانیوں کا اظہار بن گئیں جن کو قرآن میں ’آیات اللہ‘  (signs of God) کہاگیا ہے- اِس اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگا کہ تخلیق کی معنویت کی دریافت خالق کی معنویت کی دریافت کے ہم معنی ہے-
واپس اوپر جائیں

تنظیم کافی نہیں

تحریکوں کا یہ عام طریقہ ہے کہ لوگ ایک تنظیم بنا لیتے ہیں اور تنظیم کے تحت ایک طریقِ کار مقرر کرکے اس کے مطابق، اپنا کام شروع کردیتے ہیں- اِس طریقے کا یہ فائدہ ہے کہ کام بظاہر تسلسل کے ساتھ ہونے لگتا ہے- ہر فردِ تحریک کو معلوم ہوتا ہے کہ اُسے کیا کرنا ہے اور اِس معلوم نقشے کے مطابق، وہ اپنا مقرر کام ہر روز انجام دیتا رہتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز جس کو ایک منظم کام کہاجاتا ہے، وہ صرف ایک بے روح نظم (spiritless routine)کا اعادہ ہے- اِس طریقے میں بظاہر کام ہوتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن اس کے تحت افراد کا روحانی ارتقا (spiritual development) نہیں ہوتا- اپنی داخلی شخصیت کے اعتبار سے، وہ جہاں پہلے دن تھے، وہیں وہ آخری دن بھی رہتے ہیں-
صحیح طریقہ یہ ہے کہ افراد کے اندر زندہ شخصیت پیدا کی جائے- افرادِ تحریک محسوس کریں کہ ہر دن اُن کے اندر شخصی ارتقا(personality development) ہورہا ہے-
یہ مقصد صرف اُس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ افرادِ تحریک کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کی جائے- ہر آدمی خود سوچے، وہ خود اپنے عمل کا نقشہ بنائے، ہر انسان پروگرام ساز (programme maker) انسان بن جائے، نہ کہ بنے بنائے پروگرام کو بطور رُٹین (routine) دہرانے والا-
زندہ تحریک وہ ہے جس کے افراد ذاتی داعیہ کے تحت متحرک ہوئے ہوں، جن کے اندر شعوری بیداری اتنی زیادہ آچکی ہو کہ وہ آزادانہ طورپر سوچیں اور آزاد ارادے کے تحت اپنے آپ کو تحریک کے کام کے لیے وقف کردیں-
یہی وہ طریقہ ہے جو حقیقی معنوں میں نتیجہ پیدا کرنے والا ہے- مقررہ پروگرام کے تحت کیا جانے والا عمل بظاہر عمل ہوتا ہے، لیکن وہ مطلوب نتیجے سے خالی ہوتا ہے-
واپس اوپر جائیں

ضرورت اور مقصد

دنیا بقدر ضرورت، دین بقدر ہمت — ایک عالم کا یہ قول کسی انسان کے لیے سب سے اچھا فارمولا ہے۔ ہر آدمی کی ایک ضرورت ہے، اور دوسرا اس کا مقصد ہے۔ ہر فرد اور گروہ کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کی پلاننگ اِس طرح کرے کہ دنیا کے معاملے میں وہ اپنے آپ کو بقدر ضرورت پر قانع بنائے، اور اپنے مقصد کے معاملے میں وہ اپنی زیادہ سے زیادہ توانائی صرف کرے۔
یہی معاملہ سیاست کا بھی ہے۔ ایک سچے انسان کے لیے سیاست یا سیاسی اقتدار کبھی زندگی کی منزل نہیں بن سکتا۔ اِس معاملے میں صرف ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ سیاسی اعتبار سے جو کچھ اُس کو عملاً ملا ہواہے، وہ اس پر راضی ہوجائے، اور غیر سیاسی دائرے میں وہ اپنے پورے حوصلے کے ساتھ اپنا حصہ ادا کرے۔دنیا کی دوسری چیزوں کی طرح سیاست کے معاملے میں بھی یہ ہوتا ہے کہ کسی کو کم ملتاہے اور کسی کو زیادہ۔ تاریخ میں جو لڑائیاں ہوئی ہیں، وہ اِس لیے ہوئیں کہ جن لوگوں کو سیاست میں کم حصہ ملا تھا، وہ اُن سے لڑ گئے جن کو بظاہر سیاست میں زیادہ حصہ ملا تھا۔ یہی تمام خرابیوںکی جڑ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دوسری مادی چیزوں میں قناعت مطلوب ہے، اُسی طرح سیاست کے معاملے میں بھی قناعت مطلوب ہے۔ سیاسی قناعت سے امن قائم ہوتاہے، اور سیاسی عدم قناعت سے جنگ اور ٹکراؤ۔ مزید یہ کہ سیاسی عدم قناعت کا نقصان مادی عدم قناعت سے بھی زیادہ ہے۔ مادی عدم قناعت کسی آدمی کو صرف اپنی ذات کے اعتبار سے غیر مطمئن بناتی ہے، مگر سیاسی عدم قناعت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورا سماج مہلک بے اطمینانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔ مادی عدم قناعت اگر صرف ذاتی نادانی ہے تو سیاسی عدم قناعت ایک قومی نادانی۔
قناعت کا اصول ایک بے حد حکیمانہ اصول ہے- اس کی ضرورت جس طرح ذاتی معاملات میں ہے، اُسی طرح بلکہ مزید شدت کے ساتھ اس کی اہمیت اجتماعی اور سیاسی معاملات میں بھی ہے- قناعت ایک حکمت کی بات ہے، معروف معنوں میں وہ کوئی درویشی کی بات نہیں-
واپس اوپر جائیں

اپنے آپ پر نظر ِثانی

آسٹرین نیرولوجسٹ وکٹر فرینکل (1905-1997) کا ایک با معنی قول ہے- اُس نے انسان کے بارے میں کہا — جب ہم حالات کو بدلنے کے قابل نہیں ہوتے، تو یہ اِس بات کا چیلنج ہوتا ہے کہ ہمیں خود اپنے آپ کو بدلنا چاہیے:
When we are no longer able to change a situation—we are challenged to change ourselves. (Viktor Frankl)
ہر انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے جس تبدیلی کا منصوبہ بنایا تھا، اُس کے مطابق، میں حالات کو بدل نہ سکا- اِس قسم کا تجربہ جب کسی انسان کو پیش آئے تو اس کو کیا کرنا چاہیے-
اُس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنی ناکامی کا سبب باہر تلاش کرے- اِس کے برعکس، صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے، وہ خارج کو بدلنے کی مزید کوشش نہ کرے- وہ یہ کرے کہ حقیقت پسندانہ انداز میں پورے معاملے پر ازسرِ نو غور کرے اور پھر ممکن دائرے میں اپنے عمل کا نیا نقشہ بنائے-
روڈ پر چلتے ہوئے اگر کوئی شخص راستے سے بھٹک جائے تو وہ یوٹرن (U turn)لینے میں کبھی دیر نہیں کرتا- لیکن زندگی کے وسیع تر سفر میں بہت کم لوگ اس اصول کی پیروی کرتے ہیں- زندگی کے سفر میں اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک بار جس راستے پر چل پڑے، اُسی پر چلتے رہتے ہیں، حتی کی اگر ان کی غلطی کی نشان دہی کی جائے، تب بھی وہ ایسا نہیں کرتے کہ غلط سمت کو چھوڑ کر صحیح سمت میں وہ اپنا سفر شروع کردیں- وہ اپنے مانوس راستے ہی پر چلتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اِسی حال میں مرجاتے ہیں— غلطی کرنا غلطی نہیں ہے، بلکہ اصل غلطی یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کی اصلاح کرنے پر راضی نہ ہو-
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میں الرسالہ کا ایک مستقل قاری ہوں- اِسی کے ساتھ میں آپ کے لکچر بھی سنتا ہوں- مجھے الرسالہ کی دعوتی سوچ سے اتفاق ہے- اِس سے مسلمانوں کو بہت فائدہ مل رہا ہے- دو چیزوں کی وضاحت مطلوب ہے- ایک الرسالہ کے حسب ذیل دو اقتباسات کی وضاحت، جس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ اعتدال کو کس طرح مانتے ہیں- اِسی طرح آپ کے لکچر میں بار بار میں نے سنا ہے کہ دوسرے علمانے کچھ نہیں کیا، وہ سب ٹکراؤ اور تشدد میں لگے رہے، اِس کی وضاحت-(محمد حارث، پاکستان)
1- ’’اکثر لوگ اعتدال اور توسط کی بات کرتے ہیں، مگراعتدال اور توسط اپنے آپ میں کوئی اصول نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے معاملات میں صرف دو نقطۂ نظر ہیں— معیاری نقطۂ نظر، اور عملی نقطہ نظر۔ جہاں تک ’’معتدل نقطۂ نظر‘‘ کا تعلق ہے، وہ اپنے آپ میں کوئی اصول نہیں۔معیاری نقطۂ نظر (idealism) وہ ہے جو خالص اصول پر مبنی ہو، جو ابدی طورپر ایک ہی مستند اصول کے طور پر قائم رہے۔ مثلاً سچ بولنا ایک ابدی اصول ہے، اصول کے اعتبار سے وہ کبھی بدلنے والا نہیں۔ عملی نقطہ نظر (pragmatism) سے مراد وہ طریقہ ہے جس میں نتائج کو ملحوظ رکھا گیا ہو، جو خالص اصول پر مبنی نہ ہو، بلکہ وہ عملی پہلوؤں کی رعایت پر مبنی ہو۔زندگی کے معاملات میں کوئی موقف اختیار کرنے کے لیے اعتدال اور توسط کوئی معیار (yardstick) نہیں ہے۔ یہ معیار صرف دو ہے— ایک، یہ کہ خالص اصولی طورپر جو نقطہ نظر درست ہو، اس کو اختیار کرنا۔ یہ آئڈیل ازم (idealism) ہے۔ خالص ذاتی معاملات میں آئڈیل ازم پوری طرح قابلِ عمل ہوتا ہے۔ اِس لیے جہاں خالص ذاتی معاملہ ہو، وہاں آدمی کو وہی کرنا چاہیے جو آئڈیل ازم کا تقاضا ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں معاملہ ففٹی ففٹی ہوجاتا ہے، یعنی پچاس فی صد آدمی کی اپنی سوچ، اور پچاس فی صد دوسرے متعلق افراد کی سوچ۔ عملی نقطۂ نظر (pragmatism)کا لفظ زندگی کے اِسی دوسرے دائرے کے بارے میں بولا جاتا ہے‘‘۔ (ماہ نامہ الرسالہ، نومبر 2010، صفحہ 34)
2- اسی طرح آپ نے ایک اور جگہ لکھا ہے کہ:’’آدمی کو چاہئے کہ جب بھی وہ اپنے کسی منصوبے کی تکمیل کرنا چاہے تو ہمیشہ وہ حالات پر پوری نظر رکھے- وہ ایسا نہ کرے کہ وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلنے لگے- وہ ایسا نہ کرے کہ وہ کسی ایک پہلو کو نظر انداز کرکے دوسرے پہلو کی طرف بہت زیادہ جھک جائے-وہ ایسا بھی نہ کرے کہ وہ اپنا زیادہ اندازہ (overestimation) کرے اور حالات کا کم تر اندازہ (underestimation) کرنے لگے- اِس قسم کی کوئی بھی غلطی اس کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کافی ہے-آدمی اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک انتہا پسند مخلوق ہے- آدمی اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ ایک پہلو کی طرف اِس طرح جھک جاتا ہے کہ وہ دوسرے پہلو کی رعایت کرنے سے قاصر ہوجاتاہے- اِس قسم کے عدم توازن کے ساتھ کسی شخص کا اِس دنیا میں کامیاب ہونا ممکن نہیں- توازن بلاشبہہ ایک اہم اصول ہے، لیکن توازن سے مراد عملی معاملات میںتوازن کا طریقہ اختیار کرنا ہے، نہ کہ فکری اور نظریاتی معاملات میں توازن کا طریقہ اختیار کرنا- نظری معاملات میں آدمی کا نشانہ آئڈیل ہونا چاہئے، لیکن عملی معاملات میں اس کو پریکٹکل بن جانا چاہیے‘‘- (ماہ نامہ الرسالہ، اگست 2013، صفحہ 40)
جواب
1- قصدواعتدال بلا شبہہ اسلام میں مطلوب ہے- قصد واعتدال اسلام کا ایک اہم اصول ہے- اُس کا تعلق صرف انفرادی معاملات سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اجتماعی معاملات اور ملی پالیسی سے بھی ہے- قصد واعتدال کی اہمیت رسول اور اصحابِ رسول کی سنت سے ثابت ہے- اِس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں-
قصد واعتدال کا مطلب توسط یا میانہ روی (moderation) ہے، یعنی معاملات میں درمیانی طریقہ (middle course) اختیار کرنا- قصد واعتدال کا تعلق دراصل اجتماعی زندگی سے ہے، خواہ وہ عبادتی معاملہ ہو یا غیر عبادتی معاملہ- دوسرے الفاظ میں اس کو پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کہاجاسکتا ہے- اجتماعیات میں چوں کہ معاملے کے فریق ایک سے زیادہ ہوجاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اجتماعیات میں دوسروں کی رعایت کی جائے- ایسا نہ کرنے کی صورت میں غیر ضروری ٹکراؤ ہوگا اور اُس کے نتیجے میں مختلف قسم کے مسائل پیدا ہوں گے-
لیکن جہاں تک عقیدے یا نظریے کا معاملہ ہے، اُس میں یہ مطلوب ہے کہ آدمی معیار پسند ہو- وہ اپنی سوچ کو انتہائی حد تک خالص بنائے، ذاتی سوچ کے معاملے میں وہ کم تر از معیار (less than ideal) کو برداشت نہ کرے، یعنی اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسند (idealist) ہونا اور دوسروں کے معاملے میں عملی (practical) بن جانا-
2- کسی شخص کی تردید یا نفی کی بات میں نے کبھی نہیں کہی- کسی شخص کے نقطہ نظر میں جو بات قرآن وسنت کے خلاف ہو، اُس کا تجزیہ قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں کرنا، یہی میرا طریقہ ہے-
اِس معاملے میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ناقد وہ طریقہ اختیار کرے جس کو ایک شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے — عیب ِ مے جملہ بہ گفتی ہنرش نیز بگو-
یہ طریقہ بذاتِ خود درست ہوسکتا ہے، لیکن وہ داعی کا طریقہ نہیں- داعی کا مقصد یہ ہوتاہے کہ لوگوں کے اندر ذہنی انقلاب لایا جائے- اِس بنا پر داعی ہمیشہ کسی ایک چیز پر فوکس دیتا ہے-
تنقید کے معاملے میں اصل شرط یہ نہیں ہے کہ ناقد قابلِ تنقید اجزا کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ زیر تنقید شخص کی خوبیوں کا ذکر بھی کرے، یہ شرط غیر عملی ہے- صحیح طریقہ یہ ہے کہ ناقد عناد (malice) کی نفسیات سے پاک ہو- اس کی ساری توجہ صرف زیر تنقید شخص کے فکری انحراف پر ہو، نہ کہ اُس چیز پر جس کو ذاتیات کہاجاتا ہے-
میرے نزدیک نقدِ صحیح یقینی طور پر ایک جائز کام ہے، لیکن معاندانہ اظہارِ خیال کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں- نقدِ صحیح پر ایک شخص کو اللہ کے یہاں انعام مل سکتا ہے، لیکن معاندانہ اظہارِ خیال ایک ایسی چیز ہے جس پر آخرت میں سخت مواخذے کا اندیشہ ہے-
سوال
آپ دین کی سیاسی تعبیر پر اکثر تنقید کرتے رہتے ہیں- اِس تعبیر کا اصل نقصان کیاہے، اس کو واضح فرمائیں- (ایک قاری الرسالہ، مہاراشٹر)
جواب
دین کی سیاسی تعبیر بلاشبہہ ایک غلط تعبیر ہے- وہ بلا شبہہ تفسیر بالرائے کی ایک صورت ہے- دین کی سیاسی تعبیر نظری اعتبار سے ایک غلط تعبیر ہے اور عملی اعتبار سے وہ ایک تباہ کن نظریے کی حیثیت رکھتی ہے- دین کی سیاسی تعبیر میں تشدد ایک لازمی جز کی حیثیت رکھتا ہے- دین کی سیاسی تعبیر کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اسلام کی بنیاد پر سیاسی حکومت قائم کریں- حکومت ایک ایسا ادارہ ہے جس پر کسی کا قبضہ ہوتا ہے، اس لئے قائم شدہ اقتدار کو ختم کیے بغیراسلامی حکومت قائم نہیں کی جاسکتی-
دین کی سیاسی تعبیر کا یہی وہ منفی پہلو ہے جس کی بنا پر اول دن سے تشدد اس کا ایک لازمی حصہ بن جاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک، دین کی سیاسی تعبیر اپنے نتیجے کے اعتبار سے ایک نزاعی تعبیر ہے:
Political interpretation of Islam in terms of result is confrontational interpretation of Islam.
اِس موضوع پر تفصیلی مطالعے کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں: تعبیر کی غلطی، دین کی سیاسی تعبیر، دین وشریعت-
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 227

1- گڈورڈ بکس اور سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے تعاون سے ہندستان اور ہندستان سے باہر کے ملکوں میں خاص طور پرانگریزی ترجمہ قرآن کے ذریعے دعوتی کام جاری ہے- مثلاًجون 2013 سے فلسطین اور اسرائیل کے شہروں ، یروشلم، بیت لحم، ہیبرون، ناصرہ کے علاوہ دوسری جگہوں پر وہاں کے مقامی اور فلسطینی نوجوان روزانہ کی بنیاد پر دعوتی کام کررہے ہیں- گڈورڈ بکس کی طرف سے، اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی بک لٹ (What is Islam)کی دس دس ہزار کاپیاں بھیجی گئ ہیں- یہ نوجوان وہاں آنے والے غیر مسلم زائرین (tourists) تک یہ دعوتی لٹریچررضاکارانہ طورپر پہنچارہے ہیں-
2- کیرلا (ملاپورم) میں 6-9 فروری 2014 کے درمیان ’’اتحاد شُبّان المجاہدین‘‘ کی طرف سے ایک کانفرنس (Mujahid State Conference) ہوئی- اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس کانفرنس میںشرکت کی اور 6 فروری 2014کو یہاں خطاب کیا- کانفرنس میں بڑے پیمانے پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی طرف سے حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیاگیا-
3- نئی دہلی کے پرگتی میدان میں 15-23 فروری 2014 کے دوران ایک انٹرنیشنل بک فیر ہوا- یہاں گڈورڈ بکس نے اپنا اسٹال لگایا- یہاں سے بڑی تعداد میں زائرین(visitors) کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کے تراجم دیے گئے-
4- مسقط کے عمان ایکزیبیشن سنٹر میں 27 فروری سے 8مارچ 2014 کے دوران ایک انٹرنیشنل بک فیر ہوا- اِس میں نئی دہلی سے گڈورڈ بکس نے شرکت-یہاں زائرین کو بڑی تعداد میں دعوتی پمفلٹس دئے گئے-
5- بحرین (انٹرنیشنل ایکزیبیشن سنٹر) میں 26 مارچ 2014 سے 6 اپریل 2014 کے دوران ایک انٹرنیشنل بک فیر ہوا- اِس میں گڈورڈبکس (نئی دہلی) نے بھی شرکت کی-یہاں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے قرآن کے تراجم اور اسلامی لٹریچرحاصل کیا-
6- لندن کے ارل کورٹ (Earl Court) میں 8-10 اپریل 2014 کے درمیان ایک بک فیر ہوا- اِس میں گڈورڈبکس (نئی دہلی) نے شرکت کی-یہ اسٹال دعوتی اعتبارسے بہت کامیاب ثابت ہوا-
7- لکھنؤ (نہرو واٹکا لین) میں 4-14 اپریل 2014کے دوران ایک نیشنل بک فیر ہوا- اِس میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے شرکت کی- بک اسٹال کا انتظام مسٹر محمد احمد خان نے سنبھالا-یہاں لکھنؤ کے مقامی ممبران کے تعاون سے بڑی تعداد میں لوگوں تک الرسالہ مطبوعات اور دعوتی لٹریچر پہنچایا گیا-
8- انڈیا ٹی وی (نوئیڈا) کے نمائندہ مسٹر آنند پرکاش پانڈے نے 24 اپریل 2014 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا- انٹرویو کا موضوع 2014 کا لوک سبھا الیکشن تھا- انٹرویوکے دوران موضوع سے متعلق سوالات کا جواب دیاگیا- گفتگو کے دوران ایک بات یہ کہی گئی کہ مسلمانوں کو نگیٹیو ووٹنگ (negative voting) کا طریقہ کسی بھی حال میں اختیار نہیں کرنا چاہئے-
9- مختلف قسم کے دعوتی تجربات اور تاثرات کا ایک حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
— I want to share a recent incident with you that happened because of your literature. This whole lot was brought with the idea of distributing it to the multitude of guests who were supposed to attend the marriage ceremony of my cousin on 23rd of June 2013. I had full authority and permission from the groom to distribute your literature on his wedding day. In course of the distribution, one of my cousin brother badly critisized you as an author and scholar by saying that “this literature belongs to a person who says, separate your parents from you.” I got to know all this from the groom himself. The groom trusted me and told me to continue the distribution on his behalf. The books and leaflets were distributed among both men and women and they accepted it with gratitude. Just the next day I received a call from the very same cousin who criticized your work, demanding some of your English leaflets. Fortunately, he had read some of your leaflets through his brother-in-law , who was also in the marriage ceremony. This “criticizer” is a professor of botany at the Islamia College of Science and Commerce. He was very impressed by your literature and said that “These are golden words which were hidden from me till now. ” Finally, he asked me if I had some more English leaflets so that he can distribute them among the students of his college. (Zahoor Ahmad Mir, Kashmir)
— I am very happy and thankful to Fathima Sarah, choosing for the work of Dawah in Pondicherry University. I received 50 copies of the Holy Quran, and almost 100 magazines (Spirit of Islam) I distributed 30 copies so for to the students and research scholars mostly non Muslims and they were all happy. (Mohd Amir Paray, Department of Food Science & Technology, Pondicherry University)
— I am a retired government servant from Pakistan. I luckily got a copy of the Quran as a gift from IPIC, Birmingham. Two days back I completed the first study of this Quran. It is a wonderful and a very appropriate translation. The commentary is even more praiseworthy. I have studied many English translations, but I enjoyed reading this one the most. This commentary is different and unique in style. (Col. Muhammad Shahbaz, Pakistan )
— Arun Shourie requests Indians to read Maulana Wahiduddin Khan's book Indian Muslims: The Need for a Positive Outlook. It is, he says: “one of the most important books written after independence” (NDTV, May 16, 2014)
واپس اوپر جائیں