Pages

Thursday 1 January 2015

Al Risala | January 2015 (الرسالہ،جنوری)

4

-حکمت ِ قرآن

5

- قرآن، کتابِ تدبر

6

- محبت خداوندی

7

- داخل القلب ایمان

8

- ہدایت ، دین ِحق

10

- اللہ کی نعمتیں

11

- انسانی خیر خواہی

12

- جنت کی زندگی

14

- دانش مند کون

15

- تاریخی انتخاب

16

- خدا کی نشانیاں

17

- انصاف کا طریقہ

18

- اعلیٰ اخلاق

19

- موت کا واقعہ

20

- ;کلمات اللہ کا اظہار

21

- دشمن میں دوست

22

- شکر کی نفسیات میں جینا

23

- مشکل کے ساتھ آسانی

24

- مسائل کی دنیا

25

- شخصیت کاارتقا

26

- قرآن کو کتابِ مہجور بنانا

28

- ذہنی سکون

29

- تاریخ کا قانون

30

- انسان کی تخلیق

31

- قرآن کی زبان

32

- اعلیٰ انسان

33

- غیب پر یقین

34

- مزکىّٰ شخصیت

35

- زوجین کا اصول

36

- امت ِ وسط

37

- ربانی زندگی

38

- ایک اجتماعی حکم

39

- غیر سیاسی مشن

40

- کامیاب تدبیر ِکار

41

- توبہ کا طریقہ

42

- عمل بقدر استطاعت

43

- سیئہ کا حسنہ بن جانا

44

- امن کلچر

45

- تشدد کا خاتمہ

46

- زوالِ امت، اصلاحِ امت

48

- مبنی برشوریٰ نظام


حکمت ِ قرآن

قرآن میں کل ایک سو چودہ سورتیں ہیں- آیات قرآنی کی تعداد تقریباً ساڑھے چھ ہزار ہے- قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں قانونی احکام کی آیتیں بہت کم ملیں گی- آیتوں کی زیادہ تعداد وہ ہے جن میں حکمت یا نصیحت کی باتیں ہیں- یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن، کتابِ حکمت (book of wisdom) ہے، نہ کہ کتابِ احکام(book of commandment)-
اِس سلسلہ میں قرآن کی یہ آیت ایک رہنما آیت کی حیثیت رکھتی ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (38:29) یعنی یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں- اس آیت سے قرآن کا اسلوب معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ ہدایت انسانی کے بنیادی اصولوں (fundamentals) کوبتانا تاکہ لوگ اس کی روشنی میں تخلیقِ خداوندی اور حیاتِ انسانی کے معاملات پر غور کریں اور اپنے لیے صراطِ مستقیم (right path) کو معلوم کریں-
قرآن کا مقصد قانونی دفعات کو بتانا نہیں ہے، بلکہ انسان کی قوت فہم کو متحرک کرنا ہے، تاکہ انسان کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development) کا عمل جاری ہو- قرآن میں اِس سلسلہ میں چھ ہم معنی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں — عقل، فؤاد، قلب، لُب، حِجْر، نُہی- یہ تمام الفاظ ذہن (mind) کے لیے استعمال ہوتے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا نشانہ انسان کا ذہن (mind) ہے- قرآن کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر تفکر اور تدبر کی صلاحیت کو زندہ کیا جائے- انسان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ذاتی سوچ (self-thinking) کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک ارتقا یافتہ شخصیت (developed personality) کی صورت میں تعمیر کرے-
قرآن کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو غیب میں اپنے خالق کا مشاہدہ کرنے والا بنائے، تاکہ وہ شہود میں اپنے خالق کا مشاہدہ کرسکے-
واپس اوپر جائیں

قرآن، کتابِ تدبر

قرآن کی سورہ صٓ کی ایک آیت یہ ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (38:29)یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں- اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک فکری کتاب ہے، نہ کہ قانون وضوابط کی کتاب-
Quran is a book of thought, not a book of commandment.
اللہ نے انسان کو ذہن (mind) عطا کیا ہے، جو کہ لامحدود فکری صلاحیت کا مالک ہے- لیکن ذہن کو اپنے تفکیری عمل (intellectual process) کو درست طورپر جاری کرنے کے لیے ایک فکری گائڈ(intellectual guide) درکار تھی- قرآن اسی قسم کا ایک فکری گائڈ ہے، جو اس بات کا ضامن ہے کہ انسان کا تفکیری عمل بھٹکے بغیر درست سمت میں چلتا رہے- دنیا کی زندگی میں انسان کی سرگرمیوں کے لیے مختلف سمتیں ہیں- انسان ان سمتوں کو جان سکتا ہے، لیکن اپنی محدودیت کی بنا پر وہ اس پر قادر نہیں کہ وہ یہ جانے کہ اس کی سرگرمیوں کے فطری حدود کیا ہیں- اس کی سرگرمیوں کے لیے درست رخ کیا ہے- فطرت کے قانون کے مطابق کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے، اور کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں- زندگی کے راستوں میں اس کو کہاں تک چلنا ہے، اور کہاں ضرورت ہے کہ وہ اپنے قدم کو روک دے-
قرآن، آدمی کے لیے یہی گائڈ بک ہے- قرآن میں قانونی احکام کی تفصیل نہیں- قرآن کا سارا خطاب عقل (reason) سے ہے- قرآن کا نشانہ یہ ہے کہ انسان کی عقل کو تربیت دے کر اس کو اس قابل بنائے کہ وہ خود اپنی ذاتی فکر (self-thinking) کے ذریعہ اپنے اندر مطلوب ربانی شخصیت کی تعمیر کرے-
واپس اوپر جائیں

محبت خداوندی

قرآن کی سورہ البقرة میں اہلِ ایمان کی ایک صفت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ۭ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۭ (2:165) یعنی اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں- ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے- اور جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں-
قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان کے اندر حب شدید (strong affection) صرف ایک اللہ کے لیے ہونا چاہئے- یہ حب شدید سادہ طور پر صرف عقیدہ کا معاملہ نہیں ہے- یہ دراصل اللہ کی اعلی معرفت کا معاملہ ہے- جب انسان کو گہرے مطالعہ اور گہرے تدبر کے نتیجہ میں اللہ کی اعلی دریافت ہوتی ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے تمام اعلی جذبات (sentiments) اللہ سے وابستہ ہو جاتے ہیں- وہ اپنے اندر اور اپنے باہر، ہر طرف اللہ کی عظمت (glory) کو دیکھنے لگتا ہے- وہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ ہر آن اس پر نعمتوں کی بارش کررہا ہے- یہ احساسات اس پر اتنی شدت سےطاری ہوتے ہیں کہ اللہ اس کو اپنا سب کچھ نظر آنے لگتا ہے- یہی وہ چیز ہے، جس کو مذکورہ آیت میں حبِّ شدید سے تعبیر کیاگیا ہے-
یہ حب شدید صرف ایک قلبی تعلق کا معاملہ نہیں ہے، وہ ایک ایسا تجربہ ہے جو آدمی کی پوری زندگی کے رخ کو بدل دیتا ہے، وہ آدمی کو ایک نئی راہ عمل عطا کرتا ہے، وہ آدمی کی سرگرمیوں کا مرکز ومحور بن جاتا ہے- اللہ سے حب شدید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی سوچ تمام تر اللہ کی تابع ہوجاتی ہے- ایسا انسان اللہ کے مشن کو اپنا مشن بنا لیتا ہے- وہ اللہ کے لیے جینے والا اور اللہ کے لیے مرنے والا بن جاتا ہے-آیت میں اللہ سے حب شدید کو خبر کے صیغے میں بتایا گیا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان کے اندر اپنے خالق سے حبّ شدید ذاتی دریافت (self discovery) کے طور پر پیدا ہوتی ہے، نہ کہ ایک خارجی حکم کی قانونی پیروی کے طورپر-
واپس اوپر جائیں

داخل القلب ایمان

ایمان لانے والوں کے بارے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے: قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ۭ (49:14) یعنی اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، کہو کہ تم ایمان نہیں لائے- بلکہ یوں کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا، اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا-
اسلام کا آغاز کلمہ ایمان کے اقرار سے شروع ہوتا ہے، مگر اللہ کے نزدیک اتنا ہی کافی نہیں- آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس لسانی سطح کے ایمان کو عقلی سطح کا ایمان بنائے- یہ گویا کلمہ گوئی کے بعد اس کی تکمیل ہے- اسی تکمیلی ایمان کو قرآن میں داخل القلب ایمان کہا گیاہے- اس آیت میں قلب سے مراد دل (heart) نہیں بلکہ قلب سے مراد ذہن (mind) ہے- داخل القلب ایمان کوئی پراسرار واقعہ نہیں، وہ مکمل معنوں میں ایک شعوری ارتقا کا معاملہ ہے-
اصل یہ ہے کہ قبول اسلام کے بعد انسان کی زندگی میں ایک فکری عمل (intellectual process) شروع ہوتا ہے جو اس کی آخری عمر تک جاری رہتا ہے -وہ قرآن میں تدبر کرتا ہے، وہ سنت رسول کا مطالعہ کرتاہے، وہ اپنے ہر تجربہ اور مشاہدہ پر غور وفکر کرتاہے، وہ زندگی کے تمام معاملات کا تجزیہ (analysis) کرتاہے- یہ ایک مسلسل تفکیری عمل ہے، جو شعور کی سطح پر مسلسل جاری رہتاہے-
اس عمل کو ایک لفظ میں مومنانہ غور وفکر کا عمل کہا جاسکتا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر ایک ارتقا یافتہ ذہن (developed mind) تیار ہوتا ہے- اس طرح آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ ہر تجربہ کو اپنے ایمان کی غذا بنالے، وہ ہر کرائسس کو مینیج(manage)کرکے اس کو بے اثر کردے، وہ ہر منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرلے، وہ ہر اختلاف پر غور کرکے اپنے اتحاد کو بدستور باقی رکھے-
واپس اوپر جائیں

ہدایت ، دین ِحق

قرآن کی سورہ التوبہ میں ایک تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (9:33)۔ یعنی اسی نے اپنے رسول کو بھیجا ہے ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو سارے دین پر غالب کردے، خواہ یہ شرک کرنے والوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
قرآن کی اس آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں، ہدیٰ اور دین حق۔ یہ دونوں لفظ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ہدیٰ سے مراد خدا کا محفوظ ہدایت نامہ(preserved book of divine guidance)ہے، اور دین حق سے مراد اس حقیقت الہٰی کا ایک ثابت شدہ واقعہ (established fact) ہونا۔
جہاں تک ہدیٰ کا تعلق ہے، وہ نزول کے وقت ہی سے ایک محفوظ ہدایت نامہ ہے۔ اس میں اس اعتبار سے کسی اضافہ کی ضرورت نہیں۔ مگر جہاں تک اس کے دوسرے پہلو کا معاملہ ہے، وہ ایک لمبے تاریخی عمل کے دوران اپنی آخری تکمیل تک پہنچے گا۔اس عمل میں وہ لوگ بھی حصہ لیں گے، جو صاحب ایمان ہیں، اور وہ لوگ بھی بالواسطہ طور پر اس کا حصہ بنیں گے جو ایمان کا دعویٰ نہیں رکھتے۔
خدائی ہدایت کے محفوظ ہو نے کا معاملہ قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (15:9)۔ یعنی یہ یاددہانی (قرآن) ہم نے اتاری، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قرآن کے متن کی یہ حفاظت اتنی کامل صورت میں ہوئی ہے کہ اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ حفاظت اولاً حفظ (memorization) کے ذریعہ ہوئی، اس کے بعد کاغذ پر کتاب کی صورت میںہوئی۔ اب یہ حفاظت مزید اضافہ کےساتھ انٹر نیٹ کے ذریعہ ہو رہی ہے۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو، یعنی ہدایت ربانی (دین حق) کا براہین و حجج کے ذریعہ آخری حد تک مدلل ہونا بھی اب ایک واقعہ بن چکا ہے۔ اس واقعہ کی پیشگی اطلاع قرآن کی اس آیت میں دی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (41:53) یعنی ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں جس چیز کو اظہارِ دین کہا گیا ہے، اس سے مراد یہی اظہار ہے۔ یہاں اظہار ِ دین میں کسی پولٹیکل غلبہ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس سے وہ غلبہ مراد ہے، جو آئڈیالوجی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ یعنی حجج و براہین (عقلی دلائل) کے ذریعہ غلبہ۔ اظہار ِ دین بذریعہ دلائل کے دو دور ہیں، روایتی دور اور سائنسی دور۔ قدیم دور روایتی دور تھا۔ اس دور میں علما اور متکلمین نے اپنے زمانے کے عقلی معیار کے مطابق قرآن کومدلل بنایا، یہاں تک کہ ان کے معاصرین کو قرآن کی صداقت پر کوئی شبہ باقی نہ رہا۔
موجودہ زمانہ سائنس کا زمانہ ہے، اس دور کو عقل کا دور (age of reason) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی یہ واقعہ پیش آچکا ہے کہ جو نئے حقائق ظاہر ہوئے ہیں، انہوں نے کسی بھی درجہ میں قرآن کی صداقت کو مشتبہ نہیں کیا ہے، بلکہ انھوں نے قرآن کی صداقت کو از سرِ نو مزید مدلل بنا دیا ہے۔
موجودہ زمانہ علم کے انفجار (knowledge explosion) کا زمانہ ہے۔ نئی تحقیقات کے ذریعہ جو ڈاٹا (data)حاصل ہوا ہے، اس نے غور و فکر کے دائرے کو بہت بڑھا دیا ہے۔ اس طرح جو فریم ورک بنا ہے، وہ تمام تر ایک نیا اور وسیع تر فریم ورک ہے۔ اس نئے فریم ورک نے صرف یہ کیا ہے کہ اس نے اللہ کے دین کو زیادہ سمجھنے اور اس کو زیادہ یقین کے ساتھ اختیار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی نعمتیں

قرآن کی سورہ نمبر 102 میں قیامت کا ذکر ہے- اس کے بعد یہ آیت آئی ہے: ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم (التکاثر: 8) یعنی پھر اس دن یقیناً تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا- اِس آیت میں نعمت (divine blessing) سے مراد وہ تمام مادی چیزیں ہیں، جن کے درمیان انسان زندگی گزارتا ہے، جن کے مجموعہ کو عام طورپر لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے- یہ ایک حقیقت ہےکہ ہر نعمت کے ساتھ جواب دہی (accountability) کا تصور شامل ہے- نعمت کا ملنا اپنے آپ میں اس بات کا ایک خاموش اعلان ہے کہ ایک دن آنے والا ہے، جب کہ انسان سے یہ پوچھا جائے گا کہ اس نے ان نعمتوں کے لیے منعم (giver) کا اعتراف کیا یا نہیں-
مگر یہ صرف خارجی نعمتوں کی بات نہیں- انسان کو اس کی اپنی ذات میں جو اعلی صفات دی گئی ہیں، وہ بھی اس کے لیے خدا کی نعمتیں ہیں- ان نعمتوں کے بارے میں بھی انسان سے پوچھا جائے گا کہ اس نے دنیا کی زندگی میں ان کا استعمال کس طرح کیا:
How did you utilize the qualities given to you by God?
انسان کو اس کی ذات کے اعتبار سے یا خارجی دنیا کے اعتبار سے جو چیزیں ملی ہیں، ان میں سے ہر چیز اس کے لیے عظیم نعمت (great blessing) ہے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) نہ لے، بلکہ وہ ان کو شعوری طورپر دریافت کرے- وہ ان نعمتوں کے لیے کامل معنوں میں خالق کا اعتراف کرے- وہ ان خدا داد نعمتوں کو نہ ضائع کرے، اور نہ ان کا غلط استعمال کرے، بلکہ وہ ان کا صحیح استعمال کرے- وہ دانش مندانہ منصوبہ (wise planning) کے ذریعہ ان کا درست استعمال کرے- اس معاملہ میں وہ خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کو جانے، اور وہ اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتے ہوئے ان کا وہی استعمال کرے جو خالق کو مطلوب ہے- یہی کامیابی کا واحد راز ہے-
واپس اوپر جائیں

انسانی خیر خواہی

قرآن کی سورہ الاعراف میں پیغمبر کی زبان سے اپنے مدعو کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ (7:68)۔ یعنی اور میں تمھارا خیر خواہ اور امین ہوں۔ پیغمبر کی یہ خیر خواہی صرف اپنی قوم کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ اس کی خیر خواہی تمام انسانوں کے لئے ہوتی ہے:
Well wishing for all mankind
خدا کی طرف سے جو پیغمبر دنیا میں آئے، ان سب کا مشن ایک تھا۔ اس پیغمبرانہ مشن کے دو بنیادی نکتے تھے،ایک اللہ کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنانا، اور بلاتفریق ہر انسان کا خیرخواہ ہونا۔ یہی مشن پچھلے تمام پیغمبروں کا تھا، اور پیغمبر آخر الزماں محمد ﷺ کا مشن بھی۔ اب امت محمدی کو ہر زمانے میں اسی مشن کو زندہ رکھنا ہے۔
اللہ کو اپنا کنسرن بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے شعور کو اتنا بیدار کرے کہ وہ دریافت (discovery) کے درجہ میں اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل کرے۔ یہ معرفت اتنی زیادہ گہری ہو کہ وہ انسان کے پورے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ لے۔ انسان کی پوری شخصیت اسی معرفت میں ڈھل جائے۔ اس کی سوچ اور اس کا قول و عمل اس کے عین مطابق ہو جائے۔ یہی وہ عارفانہ شخصیت ہے جس کو قرآن میں ربانی شخصیت (3:79)کہا گیا ہے۔
انسانی خیر خواہی وہ بنیادی اصول ہے، جس پر تمام انسانی تعلقات کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ اِس کے ذریعہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر انسان دوستی (human friendly behaviour) کا کردار بنتا ہے۔ سماج کا ہر فرد سماج کے لئے دینے والا ممبر (giver member) بن جاتا ہے۔ اپنی اصول پسندی کی بنا پر سماج کا ہر فرد قابل پیشین گوئی کردار (predictable character)کا حامل بن جاتا ہے۔ ہر انسان کے اندریہ مزاج پرورش پاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے ، جو سلوک وہ دوسروں سے اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی زندگی

قرآن کی سورہ فصلت میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت کے لئے جنت کی زندگی کیسی ہوگی۔ اس سلسلہ میں فرشتوں کی زبان سے ان کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ (41:31)۔ یعنی اور تمھارے لئے وہاں وہ سب ہے، جس کو تمھارا دل چاہے، اور تمھارے لئے وہاں وہ سب ہے، جس کو تم طلب کرو۔
قرآن کی اس آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں— اشتہاء اور ادعاء۔ اشتہاء کا مطلب ہے چاہنا (to desire)، اور ادعاء کا مطلب ہے طلب کرنا (to demand)۔ یہ دونوں الفاظ جنت کی دو مختلف نعمتوں کو بتارہے ہیں، اور وہ ہیں مادی نعمت اور فکری نعمت۔ اشتہاء میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جن کا تعلق مادی خواہش (material desire) سے ہے، اور ادعاء میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں ، جن کا تعلق ذہنی طلب (intellectual demand) سے ہے۔ جنت میں یہ دونوں قسم کی نعمتیں اہل جنت کو کامل درجے میں حاصل ہوں گی۔جب کہ موجودہ دنیا میں ان چیزوں کا حصول صرف محدود طور پر ممکن ہوتا ہے۔
انسان کی جو مادی خواہشیں ہیں، وہ اسے موجودہ دنیا میں بھی حاصل ہیں، لیکن صرف محدود طور پر۔ انسان اپنے پیدائشی مزاج کے اعتبار سے یہ چاہتا ہے کہ اس کی ہر خواہش اس کو لامحدود طور پر حاصل ہو۔ لیکن موجودہ عارضی دنیا میں خواہشات کی لامحدود تسکین ممکن نہیں۔ جنت میں یہ محدودیت ختم ہو جائے گی۔ جنت ایک لامحدود دنیا ہوگی۔ اس لئے وہاں اہل جنت کے لئے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنی ہر خواہش کی تکمیل لامحدود طور پر حاصل کر سکیں۔یہی معاملہ انسان کی ذہنی طلب (intellectual demand)کا ہے۔ انسان کے اندر تفکیر (thinking) کی صلاحیت ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے تفکیری عمل (thinking process) کو لا محدود طور پر جاری کر سکے۔ مگر موجودہ دنیا میں جو دستیاب فریم ورک (available framework)ہے، وہ محدود فریم ورک ہے۔ اس لئے یہاں وہ اپنے تفکیری عمل کو صرف محدود طور پر جاری کر سکتا ہے- جنت میں یہ محدودیت ختم ہو جائے گی، اس لئے جنت میں اہل جنت کے لئے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنے تفکیری عمل کو لا محدود طور پر جاری کر سکے۔
موجودہ دنیا میں ان کا تفکیری عمل زمان و مکان کے اندر (within space and time) جاری ہوتا ہے۔ جنت کی لامحدود دنیا میں ان کے تفکیری عمل کا زمان و مکان کے ما وراء (beyond space and time) جاری ہونا ممکن ہو جائے گا۔ موجودہ محدود دنیا میں یہ فکری نعمت ممکن نہیں، مگر جنت کی لامحدود دنیا میں یہ انوکھی فکری نعمت اہل جنت کے لئے آخری حد تک قابل حصول ہو جائے گی۔اسی طرح انسان کی ایک اور فکری طلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے درمیان رہے، جن کی ویو لینتھ (wavelength) ایک ہو، جو اپنے ذوق اور اپنی عادات کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں۔ ایسے اعلیٰ افراد پر مشتمل معیاری سماج (ideal society) موجودہ دنیا میں کبھی بن نہیں سکتا۔ موجودہ دنیا میں اعلیٰ افراد کا حصول ممکن ہے، لیکن اجتماعی سطح پر اعلیٰ سماج کا حصول ممکن نہیں۔
جنت، اہل حق کی اِسی طلب کا جواب ہے۔ جنت میں یہ ہوگا کہ اللہ اپنی قدرت سے پوری تاریخ کے منتخب اعلیٰ افراد کو یکجا کردے گا۔ اس بنا پر جنت حسن رفاقت کا سماج (النساء: 69) بن جائے گا۔ اس طرح جنت میں اہلِ جنت کی یہ طلب پوری ہو جائے گی۔ یہ منتخب افراد جنت میں اپنی پسند کا وہ اجتماعی ماحول اعلیٰ صورت میں پالیں گے، جو ان کا اجتماعی مطلوب تھا، لیکن دنیا کی زندگی میں اس کو پانا ان کے لئے ممکن نہ ہو سکا۔ آخرت میں اللہ کی خصوصی عنایت سے یہ ناممکن چیز ان کے لئے ممکن ہوجائے گی۔
جنت کی اسی نادر صفت کی بنا پر، جنت کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (32:17) یعنی کوئی نہیں جانتا کہ ان لوگوں کے لئے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایک حدیث قدسی میں جنت کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: أعددت لعبادی الصالحین : ما لا عین رأت ، ولا أذن سمعت ، ولا خطر على قلب بشر (صحیح البخاری :3244) یعنی میں نے اپنے صالح بندوں کے لئے ایسی چیز تیار کر رکھی ہے، جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی دل میں اس کا خیال گزرا۔
واپس اوپر جائیں

دانش مند کون

قرآن کی سورہ النحل میں شہد کی مکھی (bee) کی مثال دی گئی ہے کہ وہ کس طرح سفر کرکے آتی ہے، اور پھول سے اس کا رس (nectar)لے کر واپس چلی جاتی ہے-اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ( 16:69) یعنی بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور کرتے ہیں-
قرآن کی اس آیت میں نشانی سے مراد یہ ہے کہ اس واقعہ میں اہلِ فکرکے لیے سبق ہے- اس مثال میں ایک مادی واقعہ کے ذریعہ ایک غیر مادی سبق (non-material lesson) دیاگیا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوچاہئے کہ وہ شہد کی مکھی کی طرح ہر تجربہ سے ایک حکمت کی بات اخذ کرے-
To extract wisdom from every experience.
جس طرح شہد کی مکھی یہ کرتی ہے کہ وہ آس پاس کی دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے صرف ایک چیز کو دیکھتی ہے، اور وہ پھول کے اندر پایا جانے والا نکٹر کنٹنٹ (nectar content) ہے- اسی طرح دنیا کی تمام مادی چیزوں کے اندر ایک اسپریچول کنٹنٹ (spiritual content) موجود ہوتا ہے -
آدمی کو اتنا زیادہ تیار ذہن (prepared mind) ہونا چاہئے کہ وہ جس چیز کو دیکھے، اس پر جو تجربہ گزرے، ہر چیز سے اس کے سبق والے جزء کو اخذ کرلے- وہ آس پاس کی دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے صرف ایک چیز پر فوکس کرے، اور وہ چیزوں کے اندر سبق کا پہلو ہے- وہ چیزوں کے اندر سے ان کے سبق کے پہلو کو لے، اور اس کے بعد زندگی کے سفر میں آگے بڑھ جائے- جو شخص سبق کے اس پہلو کو لے سکے، وہی دانش مندآدمی ہے، اسی کے اندر اس اعلی شخصیت کی تعمیر ہوگی جس کو دانش مند شخصیت کہاجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

تاریخی انتخاب

انسان کے بارے میں خدا کے تخلیقی نقشہ کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (67:2) یعنی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون حسن عمل والا ہے:
He created death and life so that He might test you, and find out which of you is best in conduct.
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کے بارے میں اس کے خالق کا تخلیقی نقشہ یہ ہے کہ عورت ا ور مرد کو مختلف حالات میں زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے، اور پھر ان افراد کا انتخاب کیا جائے جو زندگی کے مختلف احوال کے درمیان یہ ثابت کرتے ہوںکہ وہ اپنے قول وعمل میں اعلیٰ معیار پر قائم رہنے والے ہیں-
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے بارے میں خالق کا منصوبہ مبنی بر فرد منصوبہ ہے، نہ کہ مبنی بر مجموعہ منصوبہ- اِس نقشہ تخلیق کے مطابق پوری تاریخ سے ایسے افراد منتخب کیے جارہے ہیں، جو ہر آزمائش کے بعد حسن عمل کے معیار پر پورے اتریں- ایسے جو افراد پائے جائیں، ان کو پوری تاریخ سے منتخب کرلیا جائے گا، اور پھر ان منتخب افراد کو جنت کی معیاری دنیا میں بسادیا جائے گا، جہاں وہ ابدی طور پر خوشیوں کی زندگی گزاریںگے-
خالق کا تخلیقی منصوبہ یہ نہیں ہے کہ دنیا میں معیاری نظام قائم کیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں معیاری نظام (ideal system) کا قائم ہونا ممکن نہیں- یہاں صرف معیاری افراد بن سکتےہیں- یہی معیاری افراد خالق کا اصل مطلوب ہیں-
تاریخ کے خاتمہ پر ان معیاری افراد کو پورے انسانی مجموعہ سے منتخب کرلیا جائے گا- جنت انھیں منتخب افراد کے سماج کا نام ہے-
واپس اوپر جائیں

خدا کی نشانیاں

قرآن میں خالق کے ایک منصوبہ کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ۭ(41:53)یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خودان کے اندر بھی- یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے-
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں وسیع پیمانےپر خدائی صداقت کی نشانیاں (signs) موجود تھیں، لیکن وہ بالقوہ (potential) حالت میں پائی جاتی تھیں- خدا کو یہ مطلوب تھا کہ اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنایا جائے- جب ایسا ہوگا تو قرآن کا پیغام سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ پیغام بن جائے گا-
مذکورہ آیت میں اس واقعہ کو اللہ کی طرف منسوب کیاگیا ہے- مگر یہ اسلوب کی بات ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں کچھ ایسے افراد اٹھیں گے جو اس امکان کو واقعہ بنائیں گے، اور اس طرح یہ ہوگاکہ قرآن کی آئیڈیالوجی صرف ایک نظری صداقت نہ رہے گی بلکہ وہ علمی طورپر ایک ثابت شدہ صداقت (established fact) بن جائے گی-
فطرت (nature) کے اندر چھپے ہوئے اس امکان کو واقعہ بنانے کا کام انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مکمل طورپر انجام پاچکا ہے- یہ واقعہ مغرب کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ انجام دیا ہے- قرآن میں جو چیزیں بطور اشارہ بیان کی گئی تھیں، وہ اب معلوم حقیقت بن چکی ہیں- اب عالمِ اصغر (micro world)اور عالم اکبر (macro world) دونوں کے اندر چھپی ہوئی نشانیاں پوری طرح انسان کے علم میں آچکی ہیں- دور جدید کا یہی واقعہ ہے جس کی پیشگی خبر قرآن میں کی گئی تھی- یہ سائنسی واقعہ ایک تائید ِ دین کا واقعہ ہے- حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے حق میں یہ تائیدی واقعہ زیادہ تر سیکولر اہلِ علم کے ذریعہ انجام پائے گا- (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 3062)
واپس اوپر جائیں

انصاف کا طریقہ

قرآن کی سورہ الحدیدکی ایک آیت یہ ہے: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ( 57:25) یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ اتاری کتاب اور ترازو، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں-
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ خالق کے نقشہ کے مطابق انصاف پیروی کرنے کی چیز ہے، نہ کہ نافذ کرنےکی چیز:
Justice is a subject of following rather than a subject of implementation.
اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے مکمل آزادی عطا کی ہے- انسان کوئی کام اسی وقت کرتاہے جب کہ وہ خود اس کو کرنا چاہتا ہو- جس کام کے لیے آدمی کے اندر محرک (incentive) موجود نہ ہو، اس کو قانونی حکم یا سیاسی طاقت کے ذریعہ اس کے درمیان نافذ نہیں کیا جاسکتا-
یہ بلا شبہہ ایک مطلوب چیز ہے کہ لوگ اپنے قول وعمل میں انصاف (justice) کی پیروی کریں- وہی سماج ایک بہتر سماج ہے جس کے افراد کے اندر یہ اسپرٹ زندہ ہو- لیکن یہ اسپرٹ تعلیم وتربیت کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے، نہ کہ سیاسی طاقت کے ذریعہ- اس لیے قرآن کا سارا زور اس پر ہے کہ افراد کے اندر انصاف کا شعور پیدا کیا جائے، افراد کے اندر انصاف پر عمل کرنے کا داعیہ (incentive) پیداکیا جائے-انصاف کو اگر افراد کی تعلیم وتربیت کاموضوع بنایا جائے تو ایسی کوشش ہمیشہ مطلوب نتیجہ تک پہنچے گی- لیکن اگر انصاف کو طاقت کے زور پر نفاذ(implementation) کا موضوع بنایا جائے تو اس کے نتیجہ میں جو چیز وجود میں آئے گی، وہ انصاف نہ ہوگا بلکہ صرف ظلم وفساد ہوگا- اس دنیا میں کوئی چیز صرف اس وقت درست طور پر حاصل کی جاسکتی ہے، جب اس کو خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan)کے مطابق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے- کوئی دوسرا طریقہ اس دنیا میں نتیجہ خیز ہونے والا نہیں-
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ اخلاق

قرآن کی سورہ القلم میں پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَإنَّکَ لَعَلٰٓی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ( 68:4) یعنی اور بے شک تم ایک اعلیٰ اخلاق پر ہو- قرآن کی اس آیت میں پیغمبر کے حوالے سے تمام انسانوں کو بتایا گیا ہے کہ ہر عورت اور مرد کو چاہئے کہ وہ اس دنیا میں اعلیٰ اخلاق کے ساتھ رہے-
Living with a high level of character
اعلیٰ اخلاق کیاہے- اس سے مراد اعلیٰ انسانی اوصاف ہیں- اس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا نشانہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) کی تعمیر کرے- پیدائشی طورپر انسان کے اندر تمام اعلیٰ اوصاف موجود ہیں- مگر وہ پوٹینشیل (potential)کے روپ میں ہیں- یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے فطری پوٹینشیل کو ایک عملی واقعہ بنائے-
یہ کام اعلیٰ اخلاق کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے- اس دنیا میں انسان کو مسائل کے درمیان رہنا پڑتاہے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ان مسائل کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھے- انسان کو اس دنیا میں بار بار منفی تجربات (negative experiences) پیش آتے ہیں- ضرورت ہے کہ انسان اس منفی تجربہ کو مثبت تجربہ بنائے- اس دنیا میںانسان کو طرح طرح کے نقصان اٹھانے پڑتے ہیں، انسان کو چاہئے کہ وہ ان نقصانات کو بھلائے، اور ہر بار نئے حوصلہ کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرے- اس دنیا میں انسان کو وہ نہیں ملتا جس کو وہ چاہتا ہے، ایسی حالت میں انسان کو چاہئے کہ وہ ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ (art of adjustment) سیکھے-
انہی اوصاف کا نام اعلیٰ اخلاق (high morality)ہے- یہی اس دنیا میں انسان کے لیے مقرر نقشۂ حیات ہے-آدمی کو چاہئے کہ وہ اس مقرر نقشۂ حیات کی کامل پیروی کرے- یہی اِس دنیا میں کامیابی کا واحد راستہ ہے-
واپس اوپر جائیں

موت کا واقعہ

قرآن کی کئی آیتوں میںموت کا ذکر ہے- ایک آیت یہ ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(29:57) یعنی ہر انسان کو موت کا مزہ چکھناہے- پھر تم ہماری طرف لوٹائے جاؤگے:
Every soul will taste death and then to Us you shall return.
موت ہر آدمی کے لیے ایک لازمی تجربہ ہے- موت کیا ہے؟ موت، آدمی اور اس کی بنائی ہوئی دنیا کے درمیان کامل انقطاع (total detachment) کردینے والی ہے، ایک ایسا انقطاع جس کے بعد انسان کے لیے اپنی دنیا کی طرف دوبارہ لوٹنا ممکن نہ ہوگا- یہ موت کے واقعہ کا ایک ایسا پہلو ہے جو ہر عورت اور مرد کو ہلا دینے والا ہے- انسان کی اوسط عمر تقریباً ستر سال ہے- ہر آدمی عملاً اپنی عمر کا صرف ایک استعمال کرتا ہے، اور وہ ہے اپنے لیے یہاں ایک دنیا بنانا- مگر موت ایک لمحہ کے اندر آدمی کو اس کی بنائی ہوئی دنیاسے جدا کردیتی ہے-
موت ہر آدمی کے لیے ایک جبری یاد دہانی (compulsory reminder) ہے، اس بات کی یاد دہانی کہ انسان کی منزل (destination) کوئی اور ہے- موجودہ دنیا سے اس کا جبری انخلاء (compulsory eviction)ہونے والا ہے- اس کے بعد وہ اپنے خالق کی طرف لوٹایا جائے گا- وہ جہاں سے آیا تھا وہیں وہ دوبارہ چلا جائے گا-
قرآن اسی حتمی واقعہ (fatal event) کو یاد دلانے والی کتاب ہے، کچھ آیتوں میں براہِ راست طورپر، تو کچھ آیتوں میں بالواسطہ طورپر- قرآن کا پیغام یہ ہے کہ اپنی زندگی کے اس حتمی واقعہ کو بہت زیادہ یاد کرو- یہاں تک کہ تمھاری سوچ موت رخی سوچ بن جائے، نہ کہ حیات رخی سوچ- تم قبل ازموت دور (pre-death period) میں بعد ازموت دور (post-death period) کے لیے تیاری کو اپنا مقصد حیات بنا لو-قرآن سے اسی مسلسل تعلق کو حدیث میں تعاہد کہاگیاہے-
واپس اوپر جائیں

کلمات اللہ کا اظہار

قرآن کی دو آیتوں میں ایک مشترک مفہوم بیان ہوا ہے- ان میں سے ایک آیت یہ ہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (31:27) یعنی اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ،روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی- بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے-
قرآن کی اِس آیت اور دوسری ہم مضمون آیت (18:109) میں جس حقیقت کا بیان ہے وہ کوئی پراسرار خبر نہیں، بلکہ وہ ایک ایسا واقعہ ہے، جس کو ’’قلم‘‘ کے ذریعہ پیش آنا ہے، اور وہ ہے کلمات اللہ کو دریافت کرکے ان کو قلم بند کرنا- وہ ظاہرہ جس کو موجودہ دنیا میں جدید تہذیب (modern civilization) کہاجاتا ہے، وہ اسی کلمات اللہ کی انفولڈنگ (unfolding)کا آغاز ہے- کلمات اللہ کی بقیہ انفولڈنگ کا تسلسل جنت میں جاری رہے گا- یہ بلا شبہہ اہل جنت کا سب سے زیادہ لذیذ مشغلہ ہوگا- کلمات اللہ یا آلاء اللہ کی تعداد لامحدود ہے، اس لیے تہذیب کا یہ جنتی فیز(phase) ابد تک جاری رہے گا-
موجودہ دنیوی تہذیب کے مقابلہ میں یہ جنتی تہذیب کادور ہوگا- انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ تھرلنگ تجربہ (thrilling experience) وہ ہے جس کو دریافت (discovery) کہاجاتا ہے- کلمات اللہ کی دریافت اور ان کو اعلیٰ وسائل کے ذریعہ مرتب کرنا، یہی وہ غیر معمولی عمل ہے جس کو قرآن میں شغل فاکہہ (36:55) کہاگیا ہے، یعنی لذیذ مشغلہ (enjoyable activities) - یہ لذیذ ’’قلمی عمل‘‘ کوئی سادہ عمل نہ ہوگا، وہ جنت کی معیاری دنیا کے انتہائی اعلیٰ وسائل کے ذریعہ انجام پائے گا- جنت کا آئیڈیل ماحول اور جنت کے معیاری وسائل اس کام کو اہلِ جنت کے لیے ناقابلِ قیاس حد تک پر مسرت بنا دیں گے-
واپس اوپر جائیں

دشمن میں دوست

قرآن کی سورہ فصلت میں زندگی کا ایک قانون ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ( 41:34) یعنی اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کرو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی قریبی دوست-
قرآن کی اس آیت کے مطابق کوئی انسان پیدائشی طورپر دوست یا دشمن نہیں ہوتا، بلکہ حالات کے تحت وہ کسی کا دوست اور کسی کا دشمن بن جاتاہے- دوستی اور دشمنی سب حالات پر منحصر ہے، اور حالات کو بنانے والا انسان ہے- کوئی آدمی اپنے گرد جیسے حالات بنائے گا، اس کے مطابق دوسروں کے ساتھ اس کے تعلقات قائم ہوں گے-اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بظاہر آپ کا دشمن ہے، وہ امکانی طورپر آپ کا دوست ہے- انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ایک موجود امکان کو واقعہ بنائے- اس کے بعد وہ دیکھے گا کہ جس شخص کو وہ اپنا دشمن سمجھے ہوئے تھا، وہ اس کا قریبی دوست بن گیا ہے-
Every enemy is your potential friend, you have to turn this potential into actual.
لوگوں کو اپنا دشمن سمجھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی نفرت اور شکایت میں جینے لگتا ہے- اس کے ذہن میں منفی سوچ (negative thinking)آجاتی ہے- آخر کار یہ ہوتاہے کہ وہ مثبت سوچ (positive thinking) سے محروم ہوجاتا ہے، جب کہ مثبت سوچ ہر قسم کی انسانی ترقیوں کے لیے پہلی شرط ہے- اس دنیا میں اعلی ترقی صرف اس انسان کو ملتی ہے، جو دوسروں کے بارے میں خیر خواہی (well wishing) کی نفسیات میں جیتاہو- جو دوسروں کو اپنا سمجھے نہ کہ غیر، جو دوسروں کو اپنی قوم کا حصہ سمجھے نہ کہ غیر قوم کا حصہ، جو دوسروں کے لیے وہی چاہے جو وہ خود اپنے لیے چاہتا ہے، اور یہ تمام چیزیں صرف مثبت ذہن کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں-
واپس اوپر جائیں

شکر کی نفسیات میں جینا

مسلمان ہر روز اپنی نماز میں قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہیں: الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (1:1) یعنی ساری حمد صرف اللہ کے لیے ہے جوسارے عالَم کا رب ہے- حمد کی حقیقت شکر ہے- ساری حمد اللہ کے لیے ہے ،کا مطلب یہ ہے کہ سارا شکر اللہ کے لیے ہے-
قرآن کی اس آیت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس کو صرف زبان سے پڑھ دیا جائے، بلکہ وہ ایک تربیت کا کلمہ ہے- وہ ہر روز مسلمان کو ایک حقیقت کی یاد دلاتاہے- وہ یہ کہ انسان کو چاہئے کہ وہ روزانہ پیش آنے والے واقعات پر غور کرے- وہ واقعات کی ایسی مثبت توجیہہ (positive explanation) تلاش کرے، جو اس کو ہر حال میں شکر کرنے والا انسان بنا دے، وہ ہردن اس احساس سے بھرا رہے کہ کائنات کا خالق ایک نہایت مہربان خالق ہے، وہ ہر وقت خالق کے لیے اور تمام انسانوں کے لیے شکر واعتراف کا رسپانس (response) دیتا رہے-
قرآن کی یہ آیت مومن کی حقیقی تصویر کو بتارہی ہے- سچا مومن وہ ہے جو الحمد للّٰہ کی نفسیات میں جیے- اس کے برعکس جو انسان لا حَمدَ للّٰہ کی نفسیات میں جیتا ہو، وہ سچا مومن نہیں- وہ زبان سے تو الحمد للّٰہ کہتا ہے، لیکن اس کا دل عملاً یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ لا حَمدَ للّٰہ- یہ نفسیات منافقت کی نفسیات ہے، نہ کہ ایمان کی نفسیات-
اس معاملہ کا تعلق حالات کی توجیہہ سے ہے- جو آدمی حالات کی مثبت توجیہہ کرے، وہ الحمد للّٰہ کی نفسیات میں جیے گا، اور جو آدمی حالات کی مثبت توجیہہ نہ کرسکے، وہ لاحَمدَ لِلّٰہ کی نفسیات میں جینے والا انسان بن جائے گا- الحمد للّٰہشکر کا کلمہ ہے اور لاحَمدَ لِلّٰہ ناشکری کا کلمہ-گویا کہ الحمد للّٰہکہنے سے پہلے ایک اور چیز مطلوب ہے،اور وہ ہے الحمد للّٰہکی شعوری معرفت-جو آدمی الحمد للّٰہکہنے سے پہلے اس کی شعوری معرفت حاصل کرچکا ہو، وہی درست طورپر الحمد للہ کہے گا، اور جو آدمی اس شعوری معرفت سے خالی ہو، اس کی زندگی میں الحمد للہ ایک حقیقت کے طورپر شامل نہیں ہوسکتا-
واپس اوپر جائیں

مشکل کے ساتھ آسانی

قرآن میں فطرت کا ایک قانون ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۝ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:5-6)یعنی پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے- یعنی زندگی میں ہر پرابلم کے ساتھ نیا موقع (opportunity) ہے- یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتیں-
قرآن کی اس آیت میں مع العسر کا لفظ ہے نہ کہ بعد العسر کا لفظ- اس کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ پہلے مشکل آتی ہے، اس کے بعد آسانی آتی ہے- بلکہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو عین اسی وقت اور اسی کے ساتھ آسانی بھی ضرور آتی ہے- دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلہ جب آتاہے تو اپنے ساتھ مواقع بھی ضرور لاتا ہے:
With every problem, there are opportunities.
فطرت کا یہ اصول، ایک عام اصول ہے- وہ فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی-فرد اور قوم دونوں کو ایسا کرنا چاہئے کہ جب ان کی زندگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہ کرے، بلکہ مشکل کو ایک نارمل واقعہ سمجھے اور ساری توجہ اس بات پر لگادے کہ فطرت کے نظام کے مطابق وہ کون سے مواقع ہیں جو اس مشکل کے ساتھ ہمارے لیے آئے ہیں-
آدمی کو فطرت کے اس قانون کا شعور ہو تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ پیش آمدہ صورت حال میں کبھی منفی سوچ میں مبتلا نہ ہوگا، اور نہ مایوسی کا شکار ہوگا- وہ ہر حال میں اپنے اعتدال کو باقی رکھے گا- وہ ہر حال میں نارمل ذہن کے ساتھ حالات پر غور کرے گا، اور نئے مواقع کو استعمال کرکے ان کو اَویل (avail) کرے گا، اور بہت جلد ایک نئی ترقی کی اونچائی پر پہنچ جائے گا-موجودہ زمانے میں جو لوگ ٹکراؤ کا کلچر چلارہے ہیں ا ن کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انھوں نے مسائل کو دریافت کیا، لیکن وہ مواقع کو دریافت نہ کرسکے- اگر وہ اس کو جانتے تو اپنی ساری توانائی مواقع کے استعمال میں لگا دیتے-
واپس اوپر جائیں

مسائل کی دنیا

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ زمین وآسمان (کائنات) کو اللہ نے بہترین تخلیق پر پیدا کیا ہے - ساری کائنات میں تم کہیں کوئی نقص یا فطور (flaw)نہیں پاؤگے( 67:3) - ایک طرف کائنات کے بارے میں قرآن کا یہ بیان ہے، اور دوسری طرف انسان کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ انسان کو مشقت یا کبد ( 90:4) میں پیدا کیا گیا - پوری تاریخ کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انسان کا کیس خسر (العصر) کا کیس ہے، یعنی گھاٹا (loss) کا کیس- انسانی دنیا اور بقیہ دنیا میں یہ فرق کیوں-
حقیقت یہ ہے کہ انسانی وجود سے لے کر عالم کائنات تک پوری تخلیق بہترین تخلیق پر پیدا کی گئی ہے- خالق کی تخلیق میں creation کے اعتبار سےپورے عالم کائنات میں کہیں کوئی ذاتی نقص (defect) موجود نہیں- نقص یا فساد (evil) صرف انسانی سماج میں پایا جاتاہے، جسے انسان خود اپنی سرگرمیوں سے وجود میں لاتاہے- اس کا سبب یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپر آزاد ہے- یہ انسانی آزادی کا غلط استعمال ہے، جس کی وجہ سے انسانی دنیا میں وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو فلاسفہ خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں-
انسانی دنیا کا مسائل کی دنیا (world of problems) ہونا کوئی نقص کی بات نہیں- اس معاملہ کا ایک مثبت پہلو (positive aspect) ہے- ان مسائل کی وجہ سے دنیا میں چیلنج کی صورت حال پیدا ہوتی ہےاور تمام انسانی ترقیاں ہمیشہ چیلنج کے ذریعہ ظہور میں آتی ہیں- انسان کو اس کے خالق نے لامحدود پوٹینشیل (potential) کے ساتھ پیدا کیا ہے- اس پوٹینشیل کو ایکچول(actual) بنانا صرف چیلنج کے حالات میں ممکن ہے- اگر چیلنج نہ ہو تو انسان کی شخصیت میں چھپے ہوئے امکانات ظہور میں نہیں آئیں گے، انسانی ارتقا کا عمل مکمل طورپر رک جائے گا، انسان اپنی تکمیل سے محروم رہ جائے گا-
واپس اوپر جائیں

شخصیت کاارتقا

قرآن کی ایک اصطلاح تزکیہ ہے- انسانی فلاح کا ذریعہ قرآن میں تزکیہ ( 91:9-10) کو بتایا گیاہے- قرآن کے مطابق جنت کی اعلی دنیا میں صرف ان افراد کو داخلہ ملے گا جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ ( 20:76) کیا تھا-
تزکیہ کا لفظی مطلب تطہیر (purification) ہے- جس طرح خام لوہا (ore) مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک با معنی مشین کی صورت اختیار کرتاہے، اسی طرح انسان کی شخصیت بھی مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک مزکی شخصیت (purified soul) کی صورت اختیار کرتی ہے-
یہ شدید مراحل کیا ہیں، یہ شدید مراحل وہ ہیں جب کہ انسان کو غیر مطلوب حالات سے سابقہ پیش آتا ہے- یہ غیر مطلوب حالات وہ مواقع ہیں، جن سے گزرتے ہوئے انسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے-
جب انسان کی ایگو پر ضرب لگے اور وہ عدل پر قائم رہے، جب انسان کو غصہ آئے اور وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرلے، جب انسان کو کوئی بڑائی ملے لیکن وہ متواضع (modest) بنا رہے، جب انسان کےاندر انتقام کی آگ بھڑکے اور وہ اپنے اندر ہی اندر اس آگ کو بجھا دے، جب انسان کے اندر کسی کے خلاف نفرت جاگ اٹھے اور وہ پھر بھی اس کے لیے اپنی خیر خواہی کو باقی رکھے، جب انسان پر کوئی دباؤ نہ ہو، اس کے باوجود وہ اعتراف (acknowledgement) کا ثبوت دے، وغیرہ- یہی وہ مواقع ہیں جو انسان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں-
یہ مواقع معتدل حالات میں پیدا نہیں ہوسکتے، یہ صرف غیر معمولی حالات (abnormal situation) میں پیداہوتے ہیں- قرآن کے مطابق اس امتحان میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جس کے اندر صبر کی صفت پائی جائے ( 41:35)-
واپس اوپر جائیں

قرآن کو کتابِ مہجور بنانا

قرآن کی سورہ الفرقان کی ایک آیت یہ ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (25:30) یعنی اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو ایک چھوڑی ہوئی کتاب بنادیا-
قیامت میں ہر پیغمبر اپنی امت کے بارے میں شہادت دے گا- مذکورہ آیت میں اُس شہادت کا ذکر ہے، جو پیغمبر اسلام اپنی امت کی بعد کی حالت کے بارے میں قیامت میں دیں گے- آپ قیامت میں بتائیں گے کہ میں نے اپنی امت کو قرآن پر قائم کیا تھا- لیکن بعد کے زمانے میں میری امت نے قرآن کو ایک چھوڑی ہوئی کتاب (discarded book) بنا دیا- ایسا اس لئے ہوگا تاکہ امت کے بگاڑ کا الزام پیغمبر پر نہ آئے- یہ کوئی انوکھی بات نہیں - یہ وہی بات ہے، جو ہر امت کے ساتھ پیش آئی، اور امتِ محمدی کے ساتھ بھی اس کے دور زوال میں پیش آئے گی-یہ قیامت کا ایک معاملہ ہے، اس کو پیشگی طورپر یہاں ذکر کیا گیا تاکہ لوگ متنبہ ہوں، اور اگر مجموعہ نہیں تو کم ازکم افراد اس انجام سے اپنے کو بچالیں-بعد کے زمانے میں امت محمدی کا عین یہی حال ہوا- رسول اللہ نےامت کے تین ادوار کو قرون مشہود لہا بالخیر کہا تھا، یعنی دورِ رسالت، دورِ صحابہ، دورِ تابعی- اس کے بعد دھیرے دھیرے امت کےاندر فقہ کا ڈیولپمنٹ ہوا- اب امت محمدی جس دین پر کھڑی ہوئی ہے، وہ عملاً قرآن کا دین نہیں ہے بلکہ فقہ کا دین ہے- امت نے قرآن کے دین کو چھوڑ کر فقہ کا دین اختیار کرلیا ہے-
مثلاً قرآن کا مطالعہ کیجئے تو اس میں عبادت خشوع اور تقوی کی چیز نظر آئے گی، یعنی روح (spirit) کی چیز- لیکن بعد کو وضع ہونے والی فقہ میں عبادت مکمل طورپر ایک مبنی بر فارم عمل (form based practice)بن گئی- قرآن کے مطابق ساری دنیا دارالانسان تھی، لیکن فقہ میں دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیاگیا— دار الکفر، دارالحرب- قرآن میں جہاد ،جہاد بالقرآن (25:52) کا نام ہے، مگر فقہ نے جہاد کو جہاد بالسیف کے ہم معنی بنا دیا-
یہی معاملہ پورے فقہی نظام کا ہے- قرآن میں تفکر اور تدبر اور تعقل کو اہم ترین درجہ دیاگیا ہے، لیکن فقہ میں اس مضمون کا کوئی باب موجود نہیں- قرآن کے اعتبار سے معرفت اور دعوت دین کا ستون ہے، مگر فقہ میں معرفت اور دعوت کے ابواب حذف ہیں- فقہ میںاتفاق رائے سے یہ مسئلہ وضع کیاگیا کہ شاتم رسول کو بطور حد قتل کردیا جائے، مگر قرآن میں سرے سے اس مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں- فقہ میں یہ قانونی دفع شامل کی گئی کہ ارتداد کرنے والے کو قتل کردیا جائے، مگر قرآن میں کوئی ایسا حکم سرے سے موجود نہیں، وغیرہ-
یہ فقہ رسول اللہ کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد عباسی دور میں ڈیولپ ہوئی- اس فقہ کے واضعین کو امام اور مجتہد کہاجانے لگا- اعلان کے ساتھ یا بلا اعلان، یہ سمجھا جانے لگا کہ فقہا نے قرآن کے احکام کو فقہ میں تفصیل کے ساتھ مدون کردیا ہے- اب امت کو اپنا دین فقہ سے اخذ کرنا ہے- اس طرح بعد کو تیار ہونے والی فقہ، دین کا ماخذ بن گئی، اور قرآن عملاً برکت اور تلاوت کی کتاب بن گیا-
یہی وہ صورت حال ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اس طرح بیان کیاگیاہے کہ قیامت میں جب تمام پیغمبر اپنی اپنی امتوں کے بارے میں یہ بتائیں گے کہ انھوںنے اپنی امت کو وہی دین دیا تھا جو اللہ نے ان پر نازل کیا تھا، لیکن بعد کے زمانے میں امت نے دین کا ایک خود ساختہ ورژن (version)تیار کرلیا، اور دین کے نام پر اس پر قائم ہوگئے- یہی معاملہ خود پیغمبر اسلام کے ساتھ پیش آئے گا- حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے اپنی امت کے بارے میں فرمایا: لتتبعن سنن من کان قبلکم (صحیح البخاری: 7320)- یہ ایک پیشگی خبر تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی- امت محمدی نے اپنے زوال کے دور میں وہی کیا، جو پچھلے پیغمبروں کی امتوں نے اپنے زوال کے زمانے میں کیا تھا- البتہ یہاں ایک فرق ہے، وہ یہ کہ پیغمبر اسلام کا لایا ہوا قرآن پوری طرح محفوظ ہے، آپ کی سنت بھی پوری طرح محفوظ ہے- اس طرح یہ امکان ہمیشہ باقی رہے گا کہ قرآن وسنت کے مطالعہ سے دین محمدی کو دوبارہ دریافت کیاجائے، اور اس کو اصل صورت میں اختیار کیا جائے- قرآن وسنت کا محفوظ ہونا، اس بات کی ضمانت ہے کہ مجموعہ کی سطح پر خواہ بگاڑ آجائے، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ امت میں ایسے افراد موجود رہیں گے، جو اصل دین کو دوبارہ دریافت کریں، اور اس کے کامل پیرو بن جائیں-
واپس اوپر جائیں

ذہنی سکون

قرآن کی سورہ الرعد کی ایک آیت یہ ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ۭ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ( 13:28) یعنی وہ لوگ جو ایمان لائےاور جن کے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہوتے ہیں- سنو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے- قرآن کی اس آیت میں اطمینان قلب سے مراد ذہنی سکون (peace of mind) ہے- انسان جب ذہنی سکون سے محروم ہوتا ہے تو اس کا سبب صرف ایک ہوتاہے، اور وہ ہے خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) پر راضی نہ ہونا- انسان جب خدا کے تخلیقی نقشہ پر راضی ہوجائے تو اسی کا نام ذہنی سکون ہے، اور جب خدا کے تخلیقی نقشہ پر راضی نہ ہو تو اس سے وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو ذہنی سکون سے محرومی کہاجاتا ہے-
اصل یہ ہے کہ انسان ایک آزاد مخلوق ہے- اس کے اندر ذاتی سوچ (self-thinking) کی صلاحیت پائی جاتی ہے- وہ چاہتا ہے کہ دنیا اس کی سوچ سے مطابقت کرے- وہ اپنی خواہش کے مطابق ایک دنیا بنائے، اور اس کے اندر وہ زندگی گزارے-مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا- اس لیے وہ ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوجاتاہے- انسان کے سوا جو دنیا ہے، اس میں ہر جگہ امن (peace) پایا جاتاہے- اس کا سبب یہ ہے کہ بقیہ دنیا مکمل طورپر خالق کے آگے سرینڈر کئے ہوئے ہے- انسان اپنی آزادی کی بنا پر خالق کے آگے سرینڈر کرنا نہیں چاہتا، یہی غیر مطابقت وہ چیز ہے جو انسان کو اطمینانِ قلب سے محروم کردیتی ہے-
اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ انسان اپنے شعور کو اتنا زیادہ ترقی یافتہ بنائے کہ وہ خدائی تخلیق کی حکمت کو سمجھ سکے- اس کا ذاتی شعور خدا کے برتر شعور سے ہم آہنگ ہوجائے- جو آدمی ذہنی ارتقا (intellectual development)کی اس سطح تک پہنچ جائے، وہ کائنات کی اس حقیقت (reality) کو شعوری طورپر دریافت کرلے گا اور پھر وہ بھی اسی طرح خالق کے آگے سرینڈر کردے گا جس طرح بقیہ کائنات خالق کے آگے سرینڈر کئے ہوئے ہے- یہی وہ روش ہے جس کے نتیجہ کا نام اطمینان قلب یا ذہنی سکون ہے-
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا قانون

انسانی تاریخ کے بارے میں خدا وند عالم کا ایک قانون ہے- اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ۭ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۚ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (3:140) یعنی اگر تم کو کوئی زخم پہنچے تو مقابل قوم کو بھی ویسا ہی زخم پہنچا ہے، اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہـتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو گواہ بنائے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا-
اِس آیت میں اس صورت حال کا ذکر ہے کہ فتح وشکست یا غلبہ اور مغلوبیت کے معاملہ کے حالات کبھی یکساں نہیں ہوتے- کبھی ایک قوم کو غلبہ ملتاہے اور کبھی دوسری قوم کو- یہ اتفاقی بات نہیں ہے- یہ خالق کے انتظام کا معاملہ ہے- انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، خالق انسانی تاریخ کا اس طرح نظم کررہا ہے:
Managing history while maintaining human freedom
اصل یہ ہےکہ دوسری چیزوں کی طرح غلبہ بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے- چنانچہ کبھی ایک گروہ کو غلبہ دے کر اس کا امتحان لیا جاتا ہے، اور کبھی دوسرے گروہ کو- غلبہ کے معاملہ میں کسی ایک گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتی-
اگر کسی ایک گروہ کو مستقل طورپر غلبہ دے دیا جائے تو اس کے اندر جمود (stagnation) پیدا ہوجائے گا- اس طرح انسانی زندگی میں ترقی کا عمل (process of development) رک جائے گا- اس لیے خود خالق کی طرف سے ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں جو قیادت کو بدلتے رہتے ہیں- انسان کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ کو خدائی فیصلہ سمجھ کر اس کو قبول کرے- وہ غلبہ کو بھی امتحان سمجھے اور مغلوبیت کو بھی امتحان-
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تواس وقت اللہ اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا، اس کا ایک حصہ یہ تھا: قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاۗءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْن (2:30) یعنی فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں- اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں- اللہ نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے-
اللہ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے زمین پر آباد کیا- اس وقت فرشتوں کے اندر یہ شبہہ پیدا ہوا کہ جب انسان کو آزادی حاصل ہوگی تو اس کو آزادی کے غلط استعمال کی بھی آزادی ہوگی،اور جب ایسا ہوگا تو اس زمین میں فساد اور خون ریزی جیسے واقعات پیش آئیں گے، جو بظاہر کائنات کے مجموعی نقشہ کے خلاف ہوگا- اللہ نے جو جواب دیا اس سے تخلیق کی حکمت معلوم ہوتی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی نظر مجموعہ انسانی پر تھی، مگر اللہ کی نظر افراد انسانی پر-
اس جواب کا مطلب یہ تھاکہ اللہ کا تخلیقی منصوبہ باعتبار مجموعہ نہیں ہے، بلکہ باعتبار افراد ہے- مجموعہ کے اعتبار سے بلا شبہہ ایسا ہوگا کہ انسانوں کے اندر فساد جیسے واقعات پیش آئیں گے- لیکن اسی مجموعہ کے اندر ایسے افراد بھی پیدا ہوں گے، جو آزادی کے باوجود خود اپنے فیصلہ سے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کریں، اور یہی افراد اصل مطلوب خداوندی ہیں-
فساد اور خون ریزی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ بظاہر منفی واقعات ہیں، لیکن یہ منفی واقعات لوگوں کے ذہن کو جگائیں گے، وہ لوگوں کے اندر تفکیری عمل (intellectual process) جاری کریں گے- وہ لوگوں کو موقع دیں گے کہ وہ اپنے ذہنی امکانات کو بروئے کار لائیں اور اپنے اندر اس اعلیٰ شخصیت کی تعمیر کریںجس کو قرآن میں مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہا گیاہے-
واپس اوپر جائیں

قرآن کی زبان

قرآن کی 29 سورتوں میں کچھ حروف آئے ہیں، جن کو حروف مقطعات کہاجاتا ہے- قَطّعَ کے معنی ہیں: ٹکڑے ٹکڑے کرنا (to cut, to separate, to divide) - یہ حروف مقطعات دراصل عربی زبان کے حروف تہجی (alphabets) ہیں-
حروف مقطعات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن انسانی زبان میںہے نہ کہ ملاٴ اعلیٰ کی زبان میں- وہ علامتی طورپر بتاتے ہیں کہ قرآن اپنی زبان کے اعتبار سے ایک انسانی زبان (26:195) میں اتارا گیا ہے- قرآن پر اسی طرح تدبر کرو، جس طرح تم کسی انسانی زبان کے کلام میںتدبر کرتے ہو- مگر تفسیر بالرائے کے انتہا پسندانہ تصور کی بنا پر لوگوں نے قرآنی آیات پر کھلا تدبر نہیں کیا- اس بنا پر وہ قرآن کے عمیق معانی تک نہ پہنچ سکے- انھوں نے قرآن کی زبان کو پراسرار سمجھ لیا- اس ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن ان کے لیے ایک مقدس کتابِ برکت بن کر رہ گیا- صحیح یہ ہے کہ قرآن میں کھلا تدبر کیا جائے- البتہ یہ تدبر لازمی طورپر متقیانہ تدبر ہونا چاہئے-
مثال کے طورپر سورہ النحل کی پانچ آیتوں ، 4 تا 8، کو لیجئے، ان آیتوں میں پہلے انسان کی تخلیق کا ذکر ہے، اس کے بعد اگلی آیتوں میں کچھ قدرتی سواریوں کا ذکر ہے- آخر میں غیر معلوم تخلیق کی طرف اشارہ کیاگیا ہے- اگر آپ ان آیتوں کو صرف مقدس آیات کے طورپر لیں تو آپ پر اُن کے گہرے معانی نہیں کھلیں گے- اس کے برعکس، اگر آپ اس کو انسانی زبان کا ایک کلام سمجھ کر تدبر کریں تو آپ پر ایسے معانی کھلیں گے، جو آپ کے لیے تعلق باللہ کا اعلیٰ تجربہ بن جائیں-غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ان آیتوں میں اللہ کی تین رحمتوں کا ذکر ہے- پہلے اللہ کی اِس رحمت کا کہ اس نے انسان کو پیدا کیا، اُس کے بعد چند علامتی مثالوں کے ذریعہ اللہ کی اِس رحمت کا کہ اس نے انسان کے لیے اس دنیا میں مکمل قسم کا لائف سپورٹ سسٹم (life support system) رکھ دیا، آخر میں یخلق ما لا تعلمون کے الفاظ میں اللہ کی اُس رحمت کی طرف اشارہ ہے، جس کو صنعتی تہذیب (industrial civilization) کہاجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ انسان

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یُؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَاۗءُ ۚ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ۭوَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ (البقرة: 269) یعنی وہ جس کو چاہتا ہے حکمت دے دیتا ہے اور جس کو حکمت ملی اس کو بڑی دولت مل گئی- اور نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں-قرآن کی اس آیت کے مطابق انسان کے لیے سب سے بڑی چیز حکمت (wisdom) ہے- حکمت کے بغیر انسان ایک حیوان کی مانند ہے- یہ حکمت ہی ہے جو انسان کو حیوان سے برتر درجہ عطا کرتی ہے-
حکمت کے ذریعہ انسان، ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنا جانتا ہے- حکمت کے ذریعہ یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ فیس ویلو (face value) سے آگے جاکر چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھ سکے- انسان کی تمام ترقیوں کا راز منصوبہ بندی (planning) میں ہے، اور درست منصوبہ بندی حکمت کے بغیر نہیں ہوسکتی-
کسی انسان کی زندگی میں پہلے ذہنی ارتقا (intellectual development) آتا ہے- اس کے بعد اس کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا ہوتی ہے، جس کو حکمت (wisdom)کہا جاتا ہے- وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ حدیث کے الفاظ میں، چیزوں کو ویسے ہی دیکھے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں (اللہم ارنا الأشیاء کما ہی)-
حکمت آدمی کےاندر وہ صفت پیدا کرتی ہے جس کوحقیقت پسندانہ نقطہ نظر (realistic approach) کہا جاتا ہے- اس کے اندر فخر اور گھمنڈ کی سوچ ختم ہوجاتی ہے- وہ ایک متواضع انسان (modest man) بن جاتا ہے- اس کے اندر صبر (patience)کی صفت پیدا ہوجاتی ہے- وہ تشدد کے مقابلہ میں امن (peace) کی اہمیت کو شعوری طورپر جان لیتاہے- یہی وہ صفات ہیں جو انسان کو اعلیٰ انسان بناتی ہیں-
واپس اوپر جائیں

غیب پر یقین

قرآن کی سورہ نمبر 2 کی شروع کی آیات یہ ہیں: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ٻ فِیْہِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ ۝ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرة: 2-3 ) یعنی یہ اللہ کی کتاب ہے- اِس میں کوئی شک نہیں- یہ ہدایت ہے متقیوں کے لیے، جو ایمان لاتے ہیں غیب پر- قرآن کی اِس آیت میں ایمان بالغیب کا مطلب سادہ طور پر یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی زبان سے آمنتُ بالغیب کہہ دے، بلکہ یہ ہےکہ آدمی غیب کے بارے میں عقلی طورپر (rationally) اُسی طرح یقین کرسکے جس طرح وہ شہود پر یقین کرتاہے-
غیب پر ایمان لاناایک اعلیٰ ذہنی ارتقا (high level of intellectual development) کا معاملہ ہے- ایک انسان اپنی فطری طاقتوں کو استعمال کرتا ہے، وہ اپنے بارے میں اور کائنات کے بارے میں مسلسل طورپر غور وفکر کرتا ہے، وہ کتاب وسنت کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے، وہ زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے مسلسل طورپر گہرا سبق لیتا رہتا ہے، وہ خدا کی نشانیوں (آیات) پر غور کرکے تخلیق کے گہرے رموز تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے- اس طرح اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنے ذہنی ارتقا کی بنا پر وہ نہ دکھائی دینے والی چیزوں پر بھی اسی طرح یقین کرسکے، جس طرح کوئی شخص دکھائی دینے والی چیزوں پر یقین کرتا ہے-
غیب (unseen) پر ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیب پر ایمان نہیں ہے، بلکہ وہ یہ ہے کہ آدمی کی تفکیری صلاحیت اتنی زیادہ بلند ہوجائے کہ اس کے لیے غیب اور شہود میں کوئی فرق باقی نہ رہے- وہ غیبی حقیقتوں کو اتنی گہرائی کے ساتھ دریافت کرلے کہ اپنے شعور کے اعتبار سے اس کے لیے ان حقیقتوں کو نہ ماننابالکل غیر ممکن ہوجائے- ایمان بالغیب دراصل غیب کو ماننے کا نام نہیں بلکہ وہ شعور کا وہ ارتقائی درجہ ہے، جہاں باعتبار حقیقت اس کے لیے ایمان بالغیب اور ایمان بالشہود میں کوئی فرق باقی نہ رہے-
واپس اوپر جائیں

مزکىّٰ شخصیت

قرآن میںاہلِ جنت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیاہے:جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ۭ وَذٰلِکَ جَزٰۗؤُا مَنْ تَزَکّٰى ( 20:67) یعنی ان کے لیے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی- وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جو اپنا تزکیہ کرے- قرآن کی اِس آیت کے مطابق، جنت ان افراد کے لیے ہے، جو اپنے اندر پاکیزہ شخصیت کی تعمیرکریں:
Paradise is for purified soul
تزکیہ سے مراد کوئی پراسرار عمل نہیں ہے- تزکیہ ایک معلوم واقعہ ہے- قرآن میں جس تزکیہ کا ذکر ہے، وہ پراسرار معنوں میں کوئی دل پر مبنی (heart based) عمل نہیں، بلکہ وہ ایک مبنی برذہن (mind based) عمل ہے- تزکیہ ایک مسلسل شعوری عمل ہے، جس کے ذریعہ آدمی مسلسل غوروفکر کے ذریعہ اپنے ذہن کی تعمیر نو (re-engineering of mind)کرتا ہے-
انسان کےاندر غیر معمولی فکری صلاحیت پائی جاتی ہے- ایمان آدمی کے اندر اس فکری صلاحیت کو بیدار کرتاہے- ایمان کے بعد آدمی کے اندر ایک زندہ شعور جاگتا ہے، جس کے تحت وہ فکر وتدبر کی ایک نئی زندگی شروع کرتا ہے، وہ ہر قسم کی ذہنی سرگرمیوں کے ذریعہ اپنے شعور کو ارتقا یافتہ شعور بناتاہے- وہ اپنی شخصیت کو ایک اعلیٰ ربانی شخصیت میں تبدیل کرتاہے-
کسی انسان کو جنت میں داخلہ مقداری عمل کی بنیاد پر نہیں ملے گا بلکہ جنت صرف اس انسان کو ملے گی، جس نے باعتبار کیفیت (in terms of quality) اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کیا- یہی جنت میں داخلہ کی شرط ہے- مزید یہ کہ جنت میں داخلہ بربنائے استحقاق ہوگا، نہ کہ بربنائے سفارش-تزکیہ کا تعلق کسی محدود مدتی کورس سے نہیں ہے، تزکیہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، جو انسان کی پوری زندگی میں کسی وقفہ کے بغیر جاری رہتا ہے-
واپس اوپر جائیں

زوجین کا اصول

قرآن کی سورہ الذاریات میں تخلیق کے اصول کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ( 51:49) یعنی اور ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا تاکہ تم نصیحت حاصل کرو-
مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں ہر چیز، خواہ وہ مادی ہو یا غیر مادی، اس کا ایک زوج (pair) موجود ہے- جیسے مادی ذرات میں پازیٹو پارٹیکل کے ساتھ نیگیٹو پارٹیکل، نباتات میں میل پلانٹ (male plant) کے ساتھ فیمیل پلانٹ(female plant)، حیوانات میں ہی انیمل (he animal) کے ساتھ شی اینمل(she animal) موجود ہیں- اسی طرح انسان کی دنیا میں بھی عورت کے ساتھ مرد پیدا کیے گیے ہیں-
مگر انسان کا معاملہ دوسری مخلوقات سے مختلف ہے- انسان کے لیے زوجین کی پیدائش کافی نہیں- انسان اس کے سوا بھی ایک اور چیز کا طالب ہے- انسان اپنی نفسیات کے اعتبار سے زوجین کے سوا ایک اور چیز چاہتا ہے- اس کو دوسرے الفاظ میں انسان کا فطری ہیبی ٹیٹ (habitat) کہاجاسکتاہے- موجودہ دنیا انسان کے لیے اس کا ہیبی ٹیٹ نہیں- انسان ہر اعتبار سے ایک کامل دنیا چاہتا ہے، مگر موجودہ دنیا کسی بھی اعتبار سے کامل دنیا نہیں-
اس دنیا میں انسان کے سوا جو چیزیں ہیں، ان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے اور دنیا کے درمیان کامل مطابقت پائی جاتی ہے- لیکن انسان کا معاملہ مختلف ہے، انسان اور دنیا کے درمیان مطابقت موجود نہیں- یہ عدم مطابقت پوری کائنات میں ایک استثنائی واقعہ ہے- انسانی زندگی کا یہ استثنائی پہلو تقاضا کرتاہے کہ انسان کو اس کی مطلوب دنیا حاصل ہو- اسی مطلوب دنیا کا نام جنت ہے جو انسان کے لیے اس کے مطلوب مسکن کی حیثیت رکھتی ہے- جنت کا امکان اپنے آپ میں جنت کے وجود کا ثبوت ہے-
واپس اوپر جائیں

امت ِ وسط

قرآن کی ایک آیت میں امت محمدی کی ذمہ داری کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ۭ (2:143) یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنادیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا-
قرآن کی اس آیت میں امت محمدی کی نیابتی حیثیت کو بتایا گیاہے- ختم نبوت کے بعد امت محمدی مقام نبوت پر ہے- اس کی حیثیت امت وسط، بیچ کی امت (middle ummah) کی ہے، یعنی قرآن وسنت کی صورت میں اس کو جو دین پیغمبر اسلام سے ملا ہے، اس کو وہ قیامت تک تمام انسانوں تک پہنچاتی رہے-
یہ در میانی رول امت محمدی کی لازمی ذمہ داری ہے- اسی رول کی ادائیگی پر امت محمدی کا امت محمدی ہونا متحقق ہوتاہے- اگر امت محمدی اپنا یہ رول ادا نہ کرے تو اس کا امت محمدی ہونا ہی مشتبہ ہوجائے گا- یہی دعوتی رول امت محمدی کا اصل منصبی فریضہ ہے- کوئی دوسرا کام، خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیاگیا ہو، وہ اس رول کا بدل نہیں بن سکتا-
اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس رول کے تقاضے کو پوری ذمہ داری کے ساتھ اداکیا جائے- مثلاً ہمیشہ مدعو کا خیر خواہ بنے رہنا، مدعو کے ساتھ حریفانہ کش مکش سے کامل طورپر پرہیز کرنا، قرآن وسنت کے پیغام کو اس طرح پیش کرنا جو لوگوں کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو، مدعو سے کسی حال میں اجر کا طالب نہ ہونا، مدعو کے ساتھ کسی بھی قسم کی مطالباتی مہم کو کامل طورپر ترک کردینا، اپنے اور مدعو کے درمیان ہر قیمت پر امن کا ماحول قائم رکھنا، وغیرہ- اسی دعوتی ذمہ داری کی ادائیگی پر امت محمدی کے مستقبل کا انحصار ہے- اسی پر دنیا میں بھی ان کے لیے کامیابی ہے اور اسی پر آخرت میں بھی ان کے لیے کامیابی ہے-
واپس اوپر جائیں

ربانی زندگی

قرآن کی سورہ آل عمران میں اہلِ ایمان کی زندگی کا نقشہ ان الفاظ میں بتایا گیا: کونوا ربانیین (3:79) یعنی تم ربانی زندگی اختیار کرو(adopt Rab oriented life) -
انسان کی زندگی اس کے ذہن (mind) کے تحت ہوتی ہے- کوئی انسان جیسا سوچتا ہے، ویسا ہی وہ کرتاہے- اس اعتبار سے ہر عورت اور مرد کا ایک نقطہ نظر (way of thinking) ہوتا ہے- یہی نقطہ نظر اس کی زندگی میں مرکزی رول ادا کرتاہے- کونوا ربانیین کا مطلب یہ ہے کہ رب رخی (Rab oriented) زندگی اختیار کرو، تمھاری سوچ کا فوکس صرف ایک رب العالمین ہو-
آیت میں یہ نہیں کہاگیا ہے کہ دنیا میں ربانی نظام قائم کرو، بلکہ یہ کہاگیا ہے کہ اپنی ذات کے اعتبار سے ربانی زندگی اختیار کرو- یہ ایک انفرادی حکم ہے، جو ہر عورت اور مرد سے مطلوب ہے، اس کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں-
ربانی زندگی آدمی کے ذہن سے شروع ہوتی ہے- آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعہ زندگی کی حقیقت کو دریافت کرے، وہ رب العالمین کی اعلی معرفت حاصل کرے، وہ اپنی زندگی کو خدائی معیار کے مطابق بامقصد زندگی بنائے، وہ اپنی پوری زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ دے-
ربانی زندگی کی اساس ہمیشہ معرفت خداوندی پر قائم ہوتی ہے- ربانی زندگی میں کسی انسان کا واحد کنسرن (sole concern)یہ ہوتاہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق سوچے، وہ اللہ کی مرضی کے مطابق بولے، اس کا پورا کردار اللہ کی مرضی میں ڈھلا ہوا ہو، یہ اصول اس کی زندگی کا رہنما اصول بن جائے کہ اس کو اپنے ہر قول اور اپنے ہر عمل کا جواب آخرت میں دینا ہے، جہاں اللہ کی عدالت قائم ہوگی- دنیا کے نقصان کے بجائے آخرت کا نفع نقصان اس کی توجہات کا مرکز بن جائے-
ربانی زندگی سے مراد کوئی ظاہری شکل وصورت کا نام نہیں- ربانی زندگی اسپرٹ پر مبنی زندگی کا نام ہے، نہ کہ کسی فارم یا وضع قطع پر مبنی زندگی کا نام-
واپس اوپر جائیں

ایک اجتماعی حکم

قرآن میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے یہ حکم دیاگیا ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ (6:108) یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو سب وشتم نہ کرو، ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو سب وشتم کرنے لگیں گے-
قرآن کی اِس آیت میں ایک اہم اجتماعی اصول بتایا گیاہے-وہ یہ کہ اہلِ ایمان کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ دوسروں کے برے سلوک کی شکایت کریں، بلکہ انھیں یہ کرنا چاہئے کہ وہ شکایت کے اسباب کو اپنی طرف سے ختم کردیں- ایسے معاملات میں اہلِ ایمان احتساب غیر کے بجائے احتساب خویش کا طریقہ اختیار کریں، وہ دوسروں کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے اپنے حصے کی غلطی کو تلاش کریں، اور وہ اس کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائیں-
شکایت کوئی یک طرفہ رویہ نہیں- جب بھی کوئی شحص یا گروہ دوسرے کی شکایت کرتاہے تو ایسی ہر شکایت کے پیچھے ہمیشہ کوئی رد عمل کا واقعہ ہوتاہے- اس معاملہ میں قرآن نے یہ حکم دیا ہے کہ — تم اپنی طرف کے عمل (action) سے بچو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم فریقِ ثانی کے رد عمل (reaction) سے بچ جاؤگے-قرآن کی اس ہدایت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب بھی تم کو کسی سے شکایت ہو تو ایسا مت کرو کہ تم فوراً دوسرے کے خلاف شکایت کا ہنگامہ کھڑا کردو- اس کے بجائے تم کو یہ کرنا چاہئے کہ خود اپنے اندر ان اسباب کو تلاش کرو، جو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر فریق ثانی کی اِس روش کا سبب بن رہےہیں-
اجتماعی زندگی میں اصلاح کا یہی واحد طریقہ ہے— اپنے حصہ کی غلطی کو درست کرو- دوسرا فریق اپنے آپ اپنے حصہ کی غلطی کی اصلاح کرلے گا- اجتماعی زندگی میں ہر قابل شکایت بات کسی اشتعال کی بنا پر پیدا ہوتی ہے- ضرورت ہے کہ اجتماعی زندگی میں نگرانی کا یہ ماحول موجود ہو کہ کوئی فرد اشتعال انگیزی کی کوئی کارروائی نہ کرنے پائے- یہی وہ طریقہ ہے جس کو اختیار کرنے سے کسی سماج میں امن کا ماحول قائم ہوتا ہے-
واپس اوپر جائیں

غیر سیاسی مشن

قرآن کی سورہ الغاشیہ میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے یہ ہدایت دی گئی ہے: فَذَکِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ ؀ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ؀ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَکَفَرَ ؀ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ ؀ اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ ؀ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ ؀ (88:21-26) یعنی پس تم یاددہانی کرو، تم صرف یاددہانی کرنے والے ہو- تم ان پر داروغہ نہیں- مگر جس نے روگردانی کی اور انکار کیا- تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا- ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے- پھر ہمارے ذمہ ہے ان سے حساب لینا-
قرآن کی اس آیت کا خطاب صرف پیغمبر سے نہیں ہے، بلکہ اس کا خطاب ہرداعی سے ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت آخری حدتک ایک پرامن نصیحت کا نام ہے، نہ کہ حاکمانہ طورپر کسی نظریہ کو نافذ کرنے کا نام- اس حقیقت کو حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور کے ایک عامل کے نام ایک خط میں اس طرح لکھا تھا: ان اللہ إنما بعث محمدا صلى اللہ علیہ وسلم داعیا، ولم یبعثہ جابیا(البدایة والنہایة لابن کثیر، 9/188) یعنی اللہ نے بے شک اپنے پیغمبر کو داعی بنا کر بھیجا ہے، اس نے پیغمبر کو ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا-
پیغمبر کا مشن، پرامن دعوت کا مشن ہے- پیغمبر کے مشن کا تعلق نہ سیاست سے ہے اور نہ حکومت سے-پیغمبر کا مشن یہ ہے کہ پرامن طریقہ کار کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جائے کہ موجودہ دنیا میں ان کو کس قسم کی زندگی گزارنی چاہئے، جو ان کی آخرت کی زندگی کو کامیاب کرنے والی ہو- جس کے نتیجہ میں وہ دنیا میں اللہ کی مدد کے مستحق قرار پائیں، اور آخرت میں ان کو جنت کے باغوں میں داخل کیا جائے- جہاں وہ ابدی طورپر حزن اور خوف سے پاک زندگی گزاریں- پیغمبر کا مشن قرآن کے الفاظ میں انذار اور تبشیر کا مشن ہے، یعنی اللہ کی پکڑ سے بچانا اور اللہ کے انعام کی خوش خبری دینا- پیغمبر کا مشن اصلاً دنیا میں کوئی سیاسی نظام قائم کرنے کا مشن نہیں ہے- پیغمبر کا مشن افراد کو ایڈریس کرنے کا مشن ہے- پیغمبر کا مشن یہ ہے کہ ہر فرد اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے مطابق بنائے، تاکہ وہ ابدی طور پر اللہ کی رحمتوں کا مستحق قرار پائے-
واپس اوپر جائیں

کامیاب تدبیر ِکار

کسی مقصد کے حصول کے لیے قرآن کا بتایا ہوا طریقہ کیا ہے، یہ بات قرآن کی سورہ النحل کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتَى اللّٰہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَاَتٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ ( 16:26) یعنی ان سے پہلے والوں نے بھی تدبیر یں کیں- پھر اللہ ان کی عمارت پر بنیادوں سے آیا، پس چھت اوپر سے ان کے اوپر گر پڑی اور ان پر عذاب وہاں سے آگیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا-
Those who were before them did also plan, but Allah came upon their structure at the very foundations, so that the roof fell down upon them from above them; and the punishment came upon from where they knew not.
اس آیت میں تمثیل کے اسلوب میں بتایا گیا ہے کہ مقصد کے حصول کا موثر طریقہ کیا ہے- وہ یہ کہ عمارت کے ظاہری ڈھانچے کو نشانہ نہ بنایا جائے، بلکہ اس کی بنیاد پر عمل کیا جائے- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 ء میں مکہ میں توحید کا مشن شروع کیا- اس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے ـتھے، مگر پیغمبر اسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی پر کوئی احتجاج نہیں کیا، اور نہ بتوں کو توڑنے کی کوشش کی-
آپ نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ کیا کہ پرامن طور پر نظریہ توحید کی اشاعت شروع کردی- دوسرے لفظوں میں یہ کہ عمارت کو مظاہر شرک سے پاک کرنے کے بجائے دلوں کو شرک سے پاک کرنا- جس کو قرآن میں تطہیر ثیاب ( 74:4) کہاگیا ہے- یہ تدبیر کامیاب ہوئی اور 20 سال سے بھی کم مدت میں پرامن طورپر کعبہ بتوں سے پاک ہوگیا— یہی اصول کسی معاملہ میں حقیقی کامیابی حاصل کرنے کا فطری طریقہ ہے-
واپس اوپر جائیں

توبہ کا طریقہ

انسان کی تخلیق اس طرح ہوئی ہے کہ وہ بار بار غلطی کرتاہے- خدائی شریعت میں اس کا حل تو بہ ہے، یعنی غلطی کرنے کے بعد پلٹنا اور دوبارہ اپنے کو اصلاح یافتہ بنانا- اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗىِٕکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا ( 4:17) یعنی توبہ ، جس کو قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے، وہ ان لوگوں کی ہے جو بری حرکت نادانی سے کربیٹھتے ہیں- پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں- وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول کرتاہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے-
قرآن کی اِس آیت کے مطابق توبہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ توبۂ قریب (repentance without delay) ہو- جو توبہ دیر میں کی جائے، وہ توبہ کا صحیح طریقہ نہیں- توبۂ قریب فطرت کے نظام کے مطابق ہے، جب کہ توبۂ بعید فطرت کے نظام کے مطابق نہیں-
خالق نے انسان کے اندر ایک صلاحیت رکھی ہے، اس کو ضمیر (conscience) کہاجاتا ہے- آدمی جب غلطی کرتاہے تو اس کے فوراً بعد اس کا ضمیر متحرک ہوجاتا ہے- آدمی کو شدید طورپر اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے، مگر یہ احساس ہمیشہ یکساں طورپر باقی نہیں رہتا- شروع میں یہ احساس نہایت شدید ہوتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ کمزور ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ اگر توبہ میں زیادہ دیر کی جائے تو ندامت کا احساس عملاً ختم ہوجائے گا- آدمی کے اندر اصلاح کا طاقتور محرک باقی نہ رہے گا- جاننے کے اعتبار سے وہ اپنی غلطی کو جانے گا، لیکن اس ضرورت کا احساس اس کے اندر باقی نہ رہے گا کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے-
پہلے اگر اس کا کیس زندہ ضمیر کا تھا تو بعد کو اس کا کیس مردہ ضمیر کا کیس بن جائے گا- آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت کے اس نظام کو سمجھے، وہ غلطی کے بعد فوراً کھلی توبہ کرے- اگر اس نے توبہ میں دیر کی تو توبہ کا احساس ہی اس کے اندر باقی نہ رہے گا-
واپس اوپر جائیں

عمل بقدر استطاعت

قرآن کی سورہ التغابن میںایک حکم ان الفاظ میں دیاگیا ہے:فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ ۭ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ( 64:16) یعنی پس تم اللہ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے، اور سنو اور مانو اور خرچ کرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اور جو شخص دل کی تنگی سے محفوظ رہا تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں-
’’عمل بقدر استطاعت‘‘ کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے- زندگی کا یہی واحد فطری اصول ہے- انسان جب دنیا میں کوئی عمل کرنا چاہتا ہے تو یہ ہمیشہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہوتاہے- انسان اتنا ہی کرسکتاہے، جتنا خارجی حالات اس سے موافقت کریں- خارجی حالات کی موافقت کے بغیر کوئی شخص کوئی کام نہیں کرسکتا-
اپنی ذات کے لیے آدمی صد فی صد کی اصطلاح (term) میں سوچ سکتا ہے، لیکن جب معاملہ سماج کا ہو تو عملاً یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی صد فی صد کو اپنا نشانہ بنائے- اس لیے اس دنیا کے لیے فطری اصول یہ ہے کہ— اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسند بنئے اور سماج کے معاملے میں عملی امکان کے مطابق منصوبہ بنائیے:
Idealism at individual level, Pragmatism at social level.
اپنی ذات کے معاملے میں آدمی کو خود سوچنا ہے، اور خود ہی اس کو اپنی زندگی میںاختیار کرنا ہے- اس لیے انفرادی معاملے میں معیار پسندی ممکن ہوتی ہے، مگر جب معاملہ سماجی یا اجتماعی ہو تو کسی کے لیے اتنا ہی کام کرنا ممکن ہوتاہے، جتنا دوسرے لوگ اس سے موافقت کریں- اس لیے ضروری ہے کہ جب معاملہ سماج کا ہو تو آدی پریگمیٹک (pragmatic) بن جائے- اس کے خلاف کرنے کا نتیجہ ہمیشہ صرف ایک ہوتاہے— مقصد تو حاصل نہ ہو، البتہ لوگوں کے اندر ایسا ٹکراؤ شروع ہوجائے جو کبھی ختم نہ ہوسکے-
واپس اوپر جائیں

سیئہ کا حسنہ بن جانا

قرآن کی سورہ الفرقان میں اہلِ ایمان کے ساتھ پیش آنے والے ایک معاملے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَـیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (25:70) یعنی، مگر جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا- اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے-
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ فرمانِ خداوندی کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ قانونِ خداوندی کی بات ہے- یعنی انسان جب ایمان اور عمل صالح اور توبہ کی زندگی اختیار کرتا ہے، اور اس دوران اس سے کسی سیئہ (evil deed)کا صدور ہوتا ہے تو قانون فطرت کے مطابق اس کے اوپر ایسی کیفیات گزرتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کا سیئہ (evil deed) اس کے لیے حسنہ (good deed) کی صورت اختیار کرلیتاہے-
اس آیت میں اس انسان کا ذکر ہے جس کو معرفت کے درجہ میں ایمان حاصل ہوا- اس کا یہ ایمان اتنا طاقت ور تھا کہ اس کی زندگی میں ایک عملی انقلاب آگیا- ایسے آدمی سے اگر کبھی انسانی کمزوری کی بنا پر کسی برائی کا صدور ہوگا تو یہ اس کے لیے کوئی سادہ بات نہ ہوگی- بہت جلد ایسا ہوگا کہ اس کے اندر شدید ندامت (repentance) کا جذبہ پیداہوگا- وہ یہ سوچ کر تڑپ اٹھے گا کہ مجھ سے اپنے رب کے معاملے میں تفریط کا معاملہ ہوگیا ( 39:56)-
ایسا آدمی برائی کے صدور کے بعد تڑپے گا، وہ روئے گا، وہ دعائیں کرے گا، برائی کا احساس اس کی شخصیت میں ایک زلزلہ پیدا کردے گا- اس کی رات اور اس کے دن توبہ کی کیفیات میں گزرنے لگیں گے- اِن چیزوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرے گی، اس کے اندر ایک عزم بیدار ہوگا، اس کے تعلق باللہ میں ایک نیا دور آجائے گا- یہی وہ واقعہ ہے جس کو مذکورہ آیت میں تبدیل سیئہ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

امن کلچر

قرآن کا مطلوب کلچر، امن کلچر ہے- یہ بات قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتی ہے: الصُّلْحُ خَیْر (4:128) یعنی صلح بہتر ہے- اس آیت میں صلح کا لفظ باعتبار نتیجہ ہے- صلح (reconciliation) ایک تدبیر ہے- اس کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ فریقین کے درمیان امن کی حالت قائم ہوجاتی ہے، اورامن کے لازمی نتیجہ کے طورپر مواقع (opportunities)کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں-
اجتماعی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت، مواقع کی ہوتی ہے- تمام مقاصد، خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی، ہمیشہ موجودمواقع کو استعمال (avail) کرکے حاصل ہوتے ہیں- فقہ کا ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ مالا یتم الواجب إلا بہ فہو واجب (موسوعة الفقہیة، کویت: 1/73) یعنی جس چیز کے بغیر واجب کی ادائیگی نہ ہو سکے، وہ بھی واجب ہے-
انسان ہمیشہ کسی مجتمع (society) کے اندر رہتا ہے- کوئی شخص کسی شرعی مقصد کی تکمیل صرف اس وقت کرسکتا ہے، جب کہ سماج کے اندر امن کا ماحول ہو- امن کے بغیر کسی مقصد کی تکمیل عملاً ممکن نہیں- شرعی مقصد کی حیثیت اگر فرض کی ہے تو امن کی حیثیت وسیلہ کی- مذکورہ اصول کے مطابق اہلِ ایمان کے اوپر فرض ہے کہ وہ ہمیشہ سماج کے اندر امن کا ماحول قائم رکھیں- مگر امن کا مسئلہ نفاذ (implementation) کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان آخری حد تک امن مخالف سرگرمی سے اپنے آپ کو بچائیں-
یہ ایک عظیم حکمت (wisdom)کی بات ہے- اس حکمت کو ملحوظ رکھنے پر ہی تمام کامیابیوں کا انحصار ہے- جس طرح ایک شرعی فریضہ اہلِ ایمان کی ذاتی ذمہ داری ہوتی ہے اسی طرح یکساں طورپر اہلِ ایمان کی یہ بھی ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قیمت پر امن کا ماحول برقرار رکھیں (establishing peace at any cost) - اس معاملے میں وہ کسی بھی عذر کو عذر نہ بنائیں-
واپس اوپر جائیں

تشدد کا خاتمہ

قدیم عرب میں قرآن کے ذریعہ جس طرح تشدد کا خاتمہ ہوا، اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا ۚ وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ۭ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ( 3:103) یعنی اور اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے- پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی- پس تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے- اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا- اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ پاؤ-
قرآن عرب میں ساتویں صدی کے نصف اول میںاترا- اس وقت عرب میں مختلف قبائل آباد تھے- ان کے درمیان مستقل طورپر قبائلی جنگ (tribal war) جاری رہتی تھی- لڑائی کی نفسیات یہ ہے کہ جو فریق ہارتا ہے، وہ اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا- بلکہ اس کے اندر انتقام (revenge) کا جذبہ ابھر آتا ہے- اس طرح ہر شکست کے بعد انتقامی لڑائی جاری رہتی ہے- اس انتقامی کلچر کی بنا پر عرب میں مسلسل جنگ (chain war) کا ماحول قائم ہوگیا تھا-
اسی مسلسل جنگ کو قرآن میں آگ کا گڑھا کہاگیا ہے- اس آگ کے گڑھے سے نکلنے کا طریقہ قرآن میں یہ بتایا گیا کہ اہلِ ایمان یک طرفہ طور پر جنگ کا خاتمہ کردیں- اس کے بعد فریق ثانی اپنے آپ جنگ سے رک جائے گا، اور عملاً جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا- چنانچہ اس وقت کے اہلِ ایمان نے یہی کیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے بعد عرب میں مسلسل جنگ کا خاتمہ ہوگیا-
جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کا یہی واحد کامیاب فارمولا ہے- کسی سماج میں جنگ کا ماحول دو طرفہ بنیاد (bilateral basis) پر کبھی ختم نہیں ہوتا- جنگ کا خاتمہ صرف یک طرفہ بنیاد (unilateral basis)پر ہوتا ہے، نہ کہ دوطرفہ بنیاد پر-
واپس اوپر جائیں

زوالِ امت، اصلاحِ امت

روایت میں آیا ہے کہ مکی دور میں اہل مکہ اور یہود کے درمیان ایک مکالمہ ہوا- اس کے بعد سورہ التوبہ کی آیت نمبر 19 نازل ہوئی- وہ مکالمہ یہ تھا : قیل إن المشرکین قالوا للیہود، نحن سقاةالحجاج وعمار المسجد الحرام- فنحن أفضل أم محمد وأصحابہ؟ فقالت الیہود لہم أنتم أفضل (التفسیر الکبیر، الرازی) یعنی کہا جاتا ہے کہ مکہ کے مشرکین نے یہود مدینہ سے کہا کہ ہم حاجیوں کو پانی پلانے والے اور مسجد حرام کا انتظام کرنے والے ہیں- پس ہم زیادہ افضل ہیں یا محمد اور ان کے اصحاب- یہود نے ان سے کہا کہ تم لوگ افضل ہو-
اس واقعہ کے بعد قرآن کی یہ آیت اتری: اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ ِ ۭ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ ۭوَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (9:19) یعنی کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد حرام کے انتظام کرنے کو برابر کردیااس شخص کے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا-اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے- اور اللہ ظالم لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا-
قرآن کی اس آیت میں ایک واقعہ کے حوالے سے ایک اصولی بات بتائی گئی ہے- وہ یہ کہ کسی امت کا زوال یافتہ ہونا کیا ہے، اور یہ کہ جب کوئی امت دینی اعتبار سے اپنے زوال کے دور میں پہنچ جائے تو اس وقت اس کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے مصلح کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے- اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دور زوال میں دین کا جو بگڑا ہوا فارم ان کے یہاں پایا جاتا ہے، اسی کو وہ اصل دین سمجھ لیتے ہیں-قدیم مکہ کے مشرکین، معروف قومی معنوں میں مشرکین نہ تھے، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ملت ابراہیم کا زوال یافتہ حصہ تھے- اپنے طریقہ میں کنڈیشننگ کی وجہ سے وہ سمجھتے تھے کہ جو بگڑا ہوا دین ان کے یہاں ہے، وہی عین دین ابراہیم ہے- اسی یقین کی بنا پر انھوں نے یہود مدینہ سے مذکورہ سوال کیا، اور یہود چوںکہ خود بھی اپنے زوال کی بنا پر دین موسی کی ایک بگڑی ہوئی صورت پر قائم تھے، اس معاملہ میں ان کی نفسیات بھی وہی تھی، جو مکہ والوں کی نفسیات تھی- اس لئے انھوں نے کہہ دیا کہ تمھارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعتبار سے دین ابراہیمی کے مجدد تھے- آپ مکہ کے لوگوں کے درمیان دوبارہ اصل دین ابراہیمی کو زندہ کرنا چاہتے تھے- آیت کے الفاظ کمن آمن باللہ والیوم الآخر دراصل پیغمبر کے طریق اصلاح کو بتارہے ہیں،اور وہ یہ کہ آپ کا طریقہ ایمان کو زندہ کرنا تھا-
اس معاملہ کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ قدیم اہل مکہ اپنے دینی زوال کی بنا پر ایک بے روح مذہب (spiritless religion) پر قائم تھے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان جو کام کیا، وہ گویا با روح مذہب (spiritful religion) کو ان کے درمیان زندہ کرنا تھا-ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت سے مراد یہی اسپرٹ والا مذہب ہے-
قرآن کی یہ آیت ایک تاریخی حوالے کے ذریعہ یہ بتارہی ہے کہ امت مسلمہ جب اپنے دورِ زوال میں پہنچے گی تو اس کا کیا حال ہوگا، اور اس کے درمیان دوبارہ احیا (revival) کا کام کس طرح کرنا چاہئے- اس آیت میں زوال یافتہ امت کی تصویر بھی ہے، اور یہ بات بھی کہ دورِ زوال کے بعد دورِ عروج میں لانے کے لیے مصلح کو کیا کرنا چاہئے-
دورِ زوال میں ایسا نہیں ہوتا کہ امت اپنے دین سے بے تعلق ہوجائے، اپنے خیال کے مطابق وہ پوری طرح دین پر قائم ہوتی ہے، لیکن یہ دین محض ایک بے روح اعمال (spiritless form) کا ایک دین ہوتا ہے- ایسا دین اللہ کو مطلوب نہیں- اللہ کو وہ دین مطلوب ہے جو ایک زندہ دین ہو، اور پوری طرح ربانی اسپرٹ پر قائم ہو-
زوال کے دور میں مصلحین کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ اسپرٹ سے خالی دین کو دوبارہ اسپرٹ سے بھرا ہوا دین بنائیں، وہ بے روح ڈھانچہ (spiritless form) کو دوبارہ باروح ڈھانچہ (spiritful form) بنادیں-
واپس اوپر جائیں

مبنی برشوریٰ نظام

قرآن کی سورہ الشوریٰ کی ایک آیت یہ ہے: وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَیْنَہُمْ ۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ (42:38) یعنی اور وہ جنھوں نے اپنے رب کی دعوت کوقبول کیا اور نماز قائم کی اور ان کا نظام شوری پر ہے، اور ہم نے جو کچھ انھیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں-قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق فرد (individual) اور اجتماع (society) کے لیے خدا کا پسندیدہ طریقہ کیا ہے- وہ یہ کہ انفرادی عقیدہ کے معاملے میں آئیڈیل مطلوب ہے اور سماجی نظام کے معاملہ میں پریکٹکل (practical)- ہر فرد سے یہ مطلوب ہے کہ وہ مطالعہ اور تحقیق کے ذریعہ سچائی کو دریافت کرے، اور جب اس کو سچائی کی دریافت ہوجائے تو وہ اپنی ذات کے اعتبار سے پوری طرح اس کو اختیار کرلے- اس معاملہ میں کسی فرد سے عذر (excuse) قبول نہیں کیا جائے گا-اجتماع (society) کا معاملہ اس سے مختلف ہے- اجتماع بہت سے افراد کے مجموعے کا نام ہے- ہر فرد آزادانہ طورپر سوچتا ہے، ہر فرد آزادانہ طورپر رائے قائم کرتاہے- اس بنا پر اجتماعی معاملے میں کامل اتفاق رائے کبھی ممکن نہیں ہوتا- اس کا عملی حل صرف یہ ہے کہ اجتماعی معاملہ کو مشورہ (consultation)پر مبنی قرار دیا جائے- دوسرے الفاظ میں یہ کہ اجتماعی معاملہ میں فیصلہ کثرت رائے کی بنا پر ہوگا، نہ کہ کامل اتفاق رائے کی بنا پر-موجودہ زمانہ میں اسی اجتماعی اصول کو جمہوریت (democracy) کہاجاتاہے- ڈیموکریسی دراصل اکثریت کی حکومت (majority rule)کا نام ہے- جمہوریت کے تحت اکثریت کی رائے  بذریعہ الیکشن معلوم کی جاتی ہے- جمہوری نظام یہ ہے کہ الیکشن کی بنیاد پر اکثریت کے نمائندہ کو محدود مدت کے لیے حکومت (انتظامیہ) کا کام چلانے کا موقع دیا جاتاہے- محدود مدت (ٹرم) کے خاتمہ پر دوبارہ الیکشن ہو، اور اسی طرح بار بار الیکشن کے ذریعہ فیصلہ کیا جاتا رہے- یہی اس معاملہ میں اسلام کا طریقہ ہے-
واپس اوپر جائیں