Pages

Wednesday 1 April 2015

Al Risala | April 2015 (الرسالہ،اپریل)

4

-قرآنی انقلاب

7

- نورِ الہی کا اتمام

8

- امن کا دور

11

- جہاد بالقرآن، جہاد بالسیف

13

- اجتماعی نظام، اصلاح افراد

15

- فہم قرآن

18

- تفسیر قرآن کا ایک اصول

20

- قرآن کا ایک پہلو

22

- ذمہ داری بقدر استطاعت

23

- انسان کا مقصد

24

- تبدیلی کے دودور

26

- قرآن کا تصورِ تاریخ

28

- قرآنی طریق ِ کار

29

- انسانیت کی منزل جنت

30

- خلافت ارضی

31

- انسان کا امتحان

32

- اسلام کی تعلیمات

33

- ایک قرآنی اسلوب

34

- قوّام کا اصول

35

- عدل کا مسئلہ

36

- کلمۂ سَوا کا اصول

37

- کائناتی شخصیت

38

- نظریہ، تاریخ

39

- اسلام کے دو پہلو

41

- عالمی نشانۂ دعوت

42

- صبر کی اہمیت

43

- جنتی کام

45

- قرآن اور مثلِ قرآن

47

- دنیا ، آخرت

48

- آیت امانت


قرآنی انقلاب

قرآن سادہ معنوں میں ایک مذہبی کتاب نہیں- قرآن کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ تاریخ میں ایک بڑا انقلاب لایا جائے- اسی بات کو قرآن میں لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ( 9:33) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- یہ انقلاب اچانک نہیں آسکتا تھا- اس کی صورت صرف یہ تھی کہ تاریخ میں ایک طاقت ور عمل (strong process) جاری کیا جائے- اس عمل کو اس طرح جاری رکھنا تھا کہ انسانی آزادی بھی باقی رہے، اور یہ عمل بھی تاریخ میں سفر کرتے ہوئے اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ جائے- اللہ کے منصوبے کے تحت یہ عمل ساتویںصدی عیسوی کے نصف اول میں شروع ہوا، اور بیسویں صدی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا- موجودہ زمانے میں جس ظاہرہ کو عام طور پر مغربی تہذیب کہاجاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی عمل کی تکمیل کا دوسرا نام ہے- اِس لحاظ سے اس تہذیب کو زیادہ درست طورپر خدائی تہذیب (Divine Civilization) کہنا چاہئے۔
نظام فطرت
خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق انسان کو موجودہ زمین (planet earth) پر ابتلا (test) کے لیے پیدا کیا گیا ہے- اس مقصد کے لیے انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- فرشتوں کی نگرانی میں یہ دیکھا جارہاہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کررہاہے، اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کررہا ہے- اِسی ریکارڈ کے مطابق ہر فرد کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا-مگر انسانوں کی اکثریت نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا- اس غلط استعمال کی سب سے زیادہ نامطلوب صورت یہ تھی کہ کچھ انسانوں نے پوری دنیا میںاجارہ داری (monopoly) کا نظام قائم کردیا— سیاسی اجارہ داری، اقتصادی اجارہ داری، مذہبی اجارہ داری، خاندانی اجارہ داری، وغیرہ- اجارہ داری کے اس نظام کی بنا پر انسانی آزادی کا وہ ماحول باقی نہ رہا جو مطلوب امتحان کے لئے ضروری تھا- اللہ تعالی نے یہ چاہا کہ اجارہ داری کے اس نظام کو ختم کرکے دنیا میں فطری آزادی کا ماحول واپس لایا جائے- قرآن کے ذریعہ یہی انقلاب مطلوب تھا، جس کو ایک لفظ میں ختمِ اجارہ داری (de-monopolization) کہاجاسکتا ہے-
سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ
یہ غیر فطری نظام اصلاً سیاسی اجارہ داری کے زور پر قائم تھا- اس لیے یہ مطلوب تھا کہ تاریخ میں ایک ایسا عمل جاری کیا جائے، جس کے نتیجہ میں سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے، اور نتیجتاً دوسری تمام اجارہ داریاں بھی ختم ہوجائیں- تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کے ذریعہ یہ عمل شروع ہوا- اس عمل کے دوران سب سے پہلے عرب میں قبائلی اجارہ داری (tribal monopoly) کا دور ختم کیا گیا- اس کے بعد اصحابِ رسول کے ذریعے ساسانی سلطنت اور رومی سلطنت کا خاتمہ کیاگیا-یہ دنیا سے سیاسی اجارہ داری ختم کرنے کا آغاز تھا- اس کے بعد جب مسلمان زمین کے مختلف حصوں میں پھیلے تو انھوں نے مختلف مقامات پر قائم شدہ چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو ختم کرکے ہمیشہ کے لیے سیاسی اجارہ داری کے دور کا خاتمہ کردیا-
تاہم مسلمان اس تاریخی عمل میں صرف بقدر نصف اپنا حصہ ادا کرسکے- سابقہ شاکلہ (previous mindset) کے تحت، مسلمانوں نے یہ کیا کہ خلافت کے نام سے دوبارہ خاندانی نظامِ حکومت (dynasty) کو قائم کردیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان مطلوب عمل میں صرف جزئی کردار ادا کرسکے-
کروسیڈس کا دور
بارھویں اور تیرھویں صدی میں مسلم حکومتوں اور مسیحی حکومتوں کے درمیان جنگ پیش آئی- اس جنگ میں بظاہر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی، لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے کروسیڈس کا یہ واقعہ، مذکورہ تاریخی عمل میں ایک شفٹ (shift)کا ذریعہ بن گیا- اس کے بعد یورپ میں ایک نیا عمل شروع ہوا، جس کو بعض مورخین نے روحانی کروسیڈس (spiritual crusades) کا نام دیا ہے، یعنی غیر سیاسی کروسیڈس- کروسیڈس سے پہلے مذکورہ عمل مسلم اقوام کے ذریعہ جاری ہوا- مسلمان اس عمل کو سیاسی سطح پر انجام دے رہے تھے- مگر یہ عمل اپنے مطلوب خاتمہ تک نہیں پہنچا- اس کے بعد اللہ تعالی کو یہ منظور ہوا کہ اس عمل کی ذمہ داری مغربی اقوام کو سونپی جائے- چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور مغربی اقوام نے مذکورہ عمل کو اس کی آخری حد تک پہنچایا- اس کے بعد یہ ہوا کہ تدریجی طورپر وہ دور ختم ہوگیا جس کو اوپر ہم نے اجارہ داری کا دور کہا ہے-
شفٹ کا یہ واقعہ خدائی منصوبے کے تحت ہوا- چنانچہ حدیث میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیاگیا ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (البخاری: 3062) یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد فاجر (secular) انسان کے ذریعہ کرے گا- ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: لیؤیدن اللہ ہذا الدین بقوم لاخلاق لھم (صحیح ابن حبان: 4517) یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد ایسی قوم کے ذریعہ کرے گا، جن کا (دین میں) کوئی حصہ نہ ہوگا- ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ لیؤید ہذا الدین برجال ما ہم من أھلہ (مجمع الزوائد: 9567) یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جو اہل (دین) میں سے نہ ہوں گے- اس حدیث میں بظاہر غیرمسلم اقوام سے مراد مغربی اقوام ہیں-
کروسیڈس کی لڑائیوں میں مغربی قوموں کو ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) ہوئی- یہ شکست خدائی منصوبے کے مطابق تھی- اس شکست نے ایک نیا جبر (compulsion) پیدا کیا- مغربی قومیں اس زمانے میں مسلم قوموں کی حریف بن گئی تھیں، لیکن کروسیڈس کی لمبی لڑائی میں شکست کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ مغربی قومیں فوجی میدان میں لڑ کر مسلمانوں پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتیں- اس صورت حال نے مغربی قوموں کو مجبور کیا کہ وہ غیر فوجی میدان میں اپنا عمل جاری کریں- یہی وہ عمل ہے جس کو نشأة ثانیہ (Renaissance)کہاجاتا ہے- مغربی یورپ میں یہ عمل چودھویں صدی عیسوی سے لے کر سولھویں صدی عیسوی تک جاری رہا- یہی وہ دور ہے جس زمانے میں یورپ میں پرنٹنگ پریس ایجاد کیاگیا-اس کے بعد یورپ میں مزید ترقیاں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ ترقی یافتہ زمانہ آیا جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہاجاتا ہے- یہ تہذیب پوری انسانی تاریخ کا ایک اعتبار سے نقطۂ عروج ہے- مغربی تہذیب کے زمانے میں وہ تمام واقعات پیش آئے جو قرآنی اسکیم کے تحت مطلوب تھے- اس لیے زیادہ درست طورپر اس کو خدائی تہذیب (Divine Civilization) کہنا چاہئے- مغربی تہذیب نے یہ کیا کہ اجارہ داری کے دور کو ختم کردیا، اس طرح انسانی آزادی کا وہ مطلوب ماحول پیدا ہوگیا جو خدا کے نقشۂ تخلیق کے مطابق درکار تھا-
واپس اوپر جائیں

نورِ الہی کا اتمام

قرآن میں مستقبل کے ایک واقعہ کا ذکر ہے، اس کو اتمام نور ( 61:8) کہاگیا ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نزول یا اسلام کے ظہور سے جو کچھ مطلوب تھا، وہ فوراً حاصل ہونے والا نہ تھا-اس کے لیے ضروری تھاکہ تاریخ میں ایک لمبا عمل (long process) جاری ہو، اور پھر اس کی تکمیل پر تمام مطلوب چیزیں کلی طورپر حاصل ہوجائیں-
یہ مطلوب نشانہ کب پورا ہوا- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں جو انقلاب آیا، وہ اس معاملے کا آغاز تھا- اس انقلاب نے تاریخ میں ایک عمل (process)جاری کیا- ہزار سال سے زیادہ مدت تک یہ طاقت ور عمل مختلف صورتوں میں تاریخ میں جاری رہا- یہاں تک کہ آخری طورپر بیسویں صدی عیسوی میں یہ تمام چیزیں کامل طورپر حاصل ہوئیں-اس عمل میں مختلف اقوام عالم نے حصہ لیا- کسی نے شعوری طورپر اور کسی نے غیر شعوری طورپر، کسی نے دینی جذبہ کے تحت اور کسی نے سیکولر جذبہ کے تحت، کوئی براہِ راست طورپر اس تاریخی عمل کا حصہ بنا اور کوئی بالواسطہ طورپر اس تاریخی عمل کا حصہ بنا-
قرآن کی مذکورہ آیت میں نور الہی سے مراد کوئی پراسرار چیز نہیں ہے- اس سے مراد ہدایت انسان کی وہ تحریک ہے، جو اللہ کی خصوصی نصرت سے شروع ہوئی ، اور انسانی آزادی، اور اسباب وعلل کو باقی رکھتے ہوئے مسلسل طورپر جاری رہی- اس عمل کی تکمیل اس طرح نہیں ہوسکتی تھی، جس طرح روشن سورج نکلتا ہے- سورج کا سفر خلا (space) میں جاری ہوتاہے، جب کہ دعوتِ توحید کا مشن انسانوں کے درمیان جاری ہوتا ہے- اس فرق کی رعایت کے ساتھ ہدایت الہی کا مشن تاریخ میں جاری ہوا اور مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اپنی تکمیل تک پہنچا- بیسویں صدی اس عمل کی تکمیل کی صدی تھی- اب دعوت کے تمام مطلوب مواقع کھل چکے ہیں- اہلِ ایمان کو چاہئےکہ وہ ان مواقع کو پہچانیں، اور بھر پور طور پر ان کو استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں

امن کا دور

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عن خباب بن الأرت شکونا إلى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، وھو متوسد بردة لہ فی ظل الکعبة، فقلنا: ألا تستنصر لنا، ألا تدعولنا؟ فقال: قد کان من قبلکم، یؤخذ الرجل فیُحفَر لہ فی الأرض، فیُجعَل فیہا، فیُجَاء بالمنشار فیُوضَع على رأسہ فیُجعَل على نصفین، ویُمشَط بأمشاط الحدید ما دون لحمہ وعظمہ، فما یصدہ ذلک عن دینہ- واللہ لیُتَمنَّ ہذا الأمر، حتى یسیرَ الراکبُ من صنعاء إلى حضر موت، لا یخاف إلا اللہ والذئب على غنمہ، ولکنکم تستعجلون (صحیح البخاری: 6943)
یعنی حضرت خباب کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی-اور اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں اپنی ایک چادر کا تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے- ہم نے کہا کہ کیا آپ ہمارے لیے مدد نہیں مانگتے، کیا آپ ہمارے لیے دعانہیں کرتے- آپ نے فرمایا: تم سے پہلے جو لوگ تھے ان کا حال یہ تھاکہ ایک شخص کو پکڑا جاتا، پھر اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا، پھر اس کو اس میں گاڑ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا، پھر اس کو آدمی کے سر پر رکھا جاتا، پھر آرا چلا کر اس آدمی کے جسم کے دو ٹکڑے کردئے جاتے- لوہے کی کنگھی سے، اس میں کنگھی کی جاتی یہاں تک کہ وہ اس کے گوشت اور ہڈی تک پہنچ جاتا، مگر یہ چیز آدمی کو اس کے دین سے نہ روکتی- قسم اللہ کی، اللہ اِس امر کو ضرور پورا کرکے رہے گا، یہاں تک کہ یہ حال ہوگا کہ ایک مسافر صنعاء سے حضرموت تک جائے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہ ہوگا- اور اس کو اپنی بکریوں پر صرف بھیڑیے کا ڈر ہوگا، مگر تم لوگ جلدی کررہے ہو-
اس حدیث میں دراصل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے ایک اہم پہلو کو بتایا گیا ہے- پیغمبر اسلام کے مشن کا ایک پہلو یہ تھا کہ اس دنیا میں ایسا انقلاب لایا جائے، جس کے نتیجے میں دنیا میں مذہبی امن قائم ہوجائے- ہزاروں سال سے جاری شدہ مذہبی تشدد (religious persecution) کا مکمل خاتمہ ہوجائے- تاہم آپ کے مشن کا یہ نتیجہ ایک تدریجی عمل کے ذریعہ مستقبل میں ظاہر ہونے والا تھا، نہ کہ فوری طور پر خود زمانۂ رسول میں-
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ عمل شروع ہوا- پہلے قبائلی سطح پر مذہبی تشدد کا خاتمہ ہوا- اس کے بعد ایک تدریجی عمل کے ذریعہ حکومتی سطح پر اس کا عملاً خاتمہ ہوگیا- یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں اقوام متحدہ (UNO) قائم ہوئی- اس کے تحت دنیا کی تمام قوموں کے نمائندوں نے بین اقوامی طورپر یہ عہد کیا کہ ان کے ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے خلاف تشدد نہیں کیاجائے گا-
تشدد (violence) ایک ایسا معاملہ ہے جو ہمیشہ دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے، تشدد کرنے والا اور تشدد کا شکار ہونے والا- قدیم زمانے میں مذہب ، حکومت کا ایک شعبہ سمجھا جاتا تھا- یہ سمجھا جاتا تھاکہ جائز مذہب وہی ہے جو سرکاری مذہب (official religion) ہو- کوئی شخص سرکاری مذہب کے سوا کوئی اور مذہب اختیار کرے تو یہ ایک ایسا جرم تھا، جو حکومت سے بغاوت کے ہم معنی تھا- یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں اس شخص کو تشدد کا شکار ہونا پڑتا تھا،جو حکومت کے اختیار کردہ مذہب کے سوا کسی اور مذہب کو اپنا مذہب بنائے-
قدیم زمانے میں ساری دنیا میں خاندانی حکومتوں کا نظام قائم تھا- یہ لوگ اپنی حکومت کے استحکام کے لیے، کسی اختلاف کو برداشت نہیں کرتے تھے- یہ صورت حال اللہ کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھی-
اللہ کی منشا یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں ہر انسان کو آزادی حاصل ہو، تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کس نے صحیح طریقہ اختیار کیا اور کس نے غلط طریقہ اختیار کیا- اس لیے رسول اور رسول کے ماننے والوں کو یہ حکم دیاگیا کہ تم لوگ مذہبی تشدد پر مبنی اس نظام کو ختم کردو ( 8:39)، تاکہ انسانوں کے درمیان وہ حالت فطری قائم ہوجائے جو خالق کو مطلوب ہے-
مذکورہ حدیث میں اسی منصوبۂ خداوندی کا ذکر کیا گیا ہے- اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے فیصلہ کے مطابق، حتمی طورپر یہ ہونے والا ہے کہ دنیا میں مذہبی آزادی (religious freedom) آئے، اور مذہبی تشدد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے-
مذہبی آزادی کا یہ دور بیسویں صدی میں پوری طرح آگیا- اب مذہب کے معاملے میں کسی کے اوپر کوئی جبر نہیں- اب تشدد کا معاملہ صرف اس شخص یا گروہ کے ساتھ پیش آئے گا، جو اپنی طرف سے غیر ضروری تشدد کرکے فریق ثانی کو جوابی تشدد کا موقع دے- تشدد کرنے والے کو بہر حال جوابی تشدد کا شکار ہونا پڑے گا، خواہ اس نے اپنا تشدد مذہب کے نام پر کیا ہو یا مذہب کے سوا کسی اور نام پر-
واپس اوپر جائیں

جہاد بالقرآن، جہاد بالسیف

اسلام میں جہاد کے عمل کو خصوصی درجہ حاصل ہے- جہاد کا مطلب لڑائی نہیں ہے، جہاد کا لفظی مطلب بھرپور کوشش (utmost struggle)ہے- کوئی شخص ایک مقصد کے حصول میں اپنی ساری کوشش صرف کردے تو اسی کا نام جہاد ہے- قرآن کے مطابق، جہاد کی دو بڑی صورتیں ہیں، جہاد بالقرآن اور جہاد بالسیف-جہاد بالقرآن کا ذکر قرآن میں اس طرح آیا ہے: وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَاداً کَبِیْراً (25:52) یعنی اور قرآن کے ذریعہ ان سے جہاد کرو، بڑا جہاد - قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ قرآن کے پیغام کو لوگوں کے درمیان نظریاتی طورپر پھیلایا جائے، یعنی پرامن طورپر دعوتی کام (peaceful dawah work) انجام دینا- اسلام کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے- یہ ایک پر امن پیغام رسانی کا عمل ہے، جو ہمیشہ اور ہر حال میں جاری رہنے والا ہے-
جہاد بالسیف کو قرآن میں قتال (war) کہاگیا ہے ،اور اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَقَٰتِلُوہُمْ حَتَّىٰ لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ ٱلدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ ۚ فَإِنِ ٱنتَہَوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ. (8:39) یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے- اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے- پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ ان کے عمل کو دیکھنے والا ہے- اِس آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتال کا یہ عمل کوئی مستقل عمل نہیں - وہ ایک محدود عمل ہے، جو صرف ختم فتنہ تک جاری رہے گا- فتنہ ختم ہوجائے تو یہ قتال بھی ختم ہوجائے گا-
ایک حدیث کی وضاحت
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: الجہاد ماض إلى یوم القیامة، مذ بعث اللہ محمدا صلى اللّہ علیہ وسلم إلى آخر عصابة من المسلمین، لا ینقض ذلک جور جائر، ولا عدل عادل (المعجم الأوسط للطبرانی، رقم الحدیث: 4775) یعنی جہاد جاری رہے گا قیامت تک، اس وقت سے جب کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا، مسلمانوں کی آخری جماعت تک- اس کو نہ ظالم کا ظلم روکے گا اور نہ عادل کا عدل-
حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جہاد سے مراد جہاد بالقرآن ہے نہ کہ جہاد بالسیف- حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ جہاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی شروع ہوجائے گا- یہ کون سا جہاد تھا جو کہ پیغمبراسلام کی بعثت کے بعد شروع ہوا- جیسا کہ معلوم ہے، بعثت کے بعد پیغمبر اسلام تیرہ سال تک مکہ میں رہے- اس دوران آپ نے کوئی جہاد بالسیف نہیں کیا- آپ نے جوکچھ کیا، وہ صرف یہ تھا کہ آپ اہلِ مکہ کے درمیان پرامن طورپر قرآن کا پیغام پھیلاتے رہے-دوسری بات یہ کہ حدیث میں بتایا گیاہے کہ عادل حاکم کا زمانہ ہو تب بھی جہاد کا یہ عمل جاری رہے گا- ظاہر ہے کہ اس سے مراد جہاد بالسیف نہیں ہوسکتا، کیوں کہ عادل حاکم کے خلاف جہاد ایک فساد کا عمل ہوگا نہ کہ جہاد کا- اس سے مراد لازمی طور پر جہاد بالقرآن ہے، یعنی پرامن دعوتی عمل- پرامن دعوتی عمل ایک ایسا کام ہے، جس کا تعلق ظالم حکمراں یا عادل حکمراں سے نہیں ہے- دعوتی عمل کا مقصد ہے ہر پیدا ہونے والے عورت اور مرد تک اللہ کا پیغام پہنچانا- یہ مکمل طورپر ایک پرامن عمل ہے جو ہر دور میں بلا انقطاع جاری رہے گا-
جہاد کا لفظی مطلب کوشش کرنا (to strive) ہے- اصلاً جہاد کا لفظ پرامن کوشش کے لئے بولا جاتا ہے- مثلاً حدیث میں آیا ہے: المجاہد من جاہد نفسہ فی طاعة اللہ (مسند احمد، رقم الحدیث: 23958)-یعنی جہاد کرنے والا وہ ہے جو اپنے نفس سے اللہ کی اطاعت میں جہاد کرے-اس روایت کے مطابق جہاد ایک ایسا عمل ہے جو خود اپنے نفس کے خلاف ہوتا ہے- ظاہر ہے کہ اپنے نفس کے خلاف جو جہاد کیا جائے گا وہ صرف پرامن جہاد ہوگا، یعنی اپنے نفس کا محاسبہ کرنا، اپنی خواہشوں کو کنٹرول کرنا-حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں جہاد کا لفظ دعوت الی اللہ کے لئے آیا ہے، یعنی دعوتی مشن کے لئے پرامن جدوجہد- دعوتی مشن ایک مستقل مشن ہے- وہ مختلف انداز میں اور مختلف طریقوں سے ہر دور میں جاری رہتا ہے- مثلاً دنیا کی ہر زبان میں قرآن کے ترجموں کی اشاعت، ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق اسلامی لٹریچر تیار کرکے اس کو پھیلانا، دعوت کی عالمی اشاعت کے لئے پروگرام بنانا، موجودہ زمانے میں الیکٹرانک طریقوں کو اسلام کا پیغام پھیلانے کے لئے استعمال کرنا، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

اجتماعی نظام، اصلاح افراد

اسلام میں اجتماعی نظام کا اصول الگ ہے، اور افراد کی اصلاح کا اصول الگ- یہی طریقہ خالق کے قائم کردہ فطری نظام کے مطابق ہے- اگر ان دونوں پہلوؤں کو ایک کردیا جائے تو دونوں میں سے کسی کی اصلاح کا حق ادا نہیں ہوگا- جب کہ دونوں پہلوؤں کا نظم الگ کرنے کی صورت میں دونوں کا حق ادا کرنا ممکن ہوجاتا ہے-
اصل یہ ہے کہ فرد کی اصلاح کا معاملہ آخرت سے جڑا ہوا ہے- آخرت میں ہر فرد سے اس کے ذاتی عمل کی بنیاد پر الگ الگ معاملہ کیا جائے گا- اس لیے اسلامی نقشے میں فرد کے معاملے کو اس کے ذاتی فیصلے پر منحصر قرار دیا گیا ہے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ : وَقُلِ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ ۖ فَمَن شَآءَ فَلْیُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْیَکْفُرْ(18:29)- اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد (individual) کے معاملے میں اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ پرامن انداز میں حق کی وضاحت کی جاتی رہے- دلائل کے ذریعہ حق کو لوگوں کے لیے قابل قبول اور قابل فہم (understandable) بنایا جاتا رہے- یہ فرد کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرتا ہے یا وہ اس کا انکار کردیتا ہے-
جہاں تک مجتمع (society) کی بات ہے، اس کا اصول قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأَمْرُھُمْ شُوْرَیٰ بَیْنَہُمْ (42:38) یعنی اور ان کا نظام شوریٰ پر ہے- قرآن کی اس آیت کا ترجمہ اگر انگریزی زبان میں کیا جائے تو وہ یہ ہوگا:
And whose affairs are decided by mutual consultation.
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے مطابق سماج کا نظام شوریٰ پر مبنی ہونا چاہئے، اسی طریقہ پر جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہاجاتا ہے- یعنی اجتماعی معاملات میں سماج کے افراد سے مشورہ کیا جائے، اور پھر یا تو اتفاق رائے کی بنیاد پر یا کثرت رائے کی بنیاد پر اجتماعی معاملات کا فیصلہ کیا جائے- یہی جمہوریت کی روح ہے، اور یہی شوریٰ کا مقصود بھی-
اصل یہ ہے کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اس دنیا میں ہر انسان کو آزادی حاصل ہے- یہ آزادی اتنی زیادہ حتمی ہے کہ اس کو منسوخ (abolish)کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں- اس لئے سماجی نظم کے معاملے میں صرف عملیت (pragmatism) کا طریقہ چل سکتاہے، معیار (idealism) کا طریقہ سماج کے معاملے میں قابل عمل نہیں- اگر سماج کے معاملے میں آئیڈیلزم کو چلایا جائے تو نتیجہ کے اعتبار سے اس کا انجام بدنظمی (anarchy) ہوگا، نہ کہ آئیڈیلزم-
اس معاملے کا قابل عمل حل یہ ہے کہ سماج کے معاملے میں جمہوریت کا طریقہ اختیار کیا جائے، یعنی مقرر مدت پر آزادانہ اور منصفانہ الیکشن (free and fair election) ہو، اور پھر منتخب افراد کے ذریعہ محدود مدت کے لیے ایک سماجی نظم قائم کیا جائے- یہ نظم سماج یا عوام کی رضامندی کی بنیاد پر مقرر مدت (term) تک چلایا جائے گا، نہ کہ کسی معیاری اصول کی بنیاد پر- مقرر مدت پوری ہونے پر دوبارہ الیکشن ہو، اور منتخب افراد دوبارہ محدود مدت کے لیے نظم کو سنبھالے- اجتماعی نظم کے معاملے میں یہی صورت قابل عمل ہے، اور یہی صورت خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہے-
افراد کے معاملے میں جو کچھ مطلوب ہے، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّىٰہَا. فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَىٰہَا. قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّىٰہَا. وَقَدْ خَابَ مَن دَسّٰہَا.(91:7-10) اور نفس انسانی اور جیسا کہ اس کو ٹھیک کیا، پس اس کو سمجھ دی اس کی بدی اور نیکی کی- کامیاب ہوا جس نے اس کو پاک کیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو آلودہ کیا-
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیقی نقشہ کے مطابق، فرد کی اصلاح، ہر شخص کا اپناذاتی معاملہ ہے -ہر شخص کو خود یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی فطرت کو زندہ کرے، اور خالق کے مطلوب نقشے کے مطابق، اپنی شخصیت کی تعمیر کرے- اسی شخصیت کو قرآن میں مزکیّٰ شخصیت (purified personality) کہا گیا ہے- یہ مزکیّٰ شخص ایک خود تعمیر کردہ انسان (self-made man) ہوتا ہے- یہی وہ انسان ہے، جس پر دنیا کی زندگی میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اور یہی وہ انسان ہے جس کو آخرت میں جنت کے ابدی باغوں میں داخل کیا جائے گا-
واپس اوپر جائیں

فہم قرآن

فہم قرآن کی کلید (key) کیاہے، اس کے بارے میں اہلِ علم نے کئی باتیں لکھی ہیں- مثلاً کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کے لئے پندرہ علوم کا جاننا ضروری ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت شان نزول کی روایات کی ہے- کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ سب سے اچھا طریقہ تفسیر، تفسیر القرآن بالقرآن ہے- کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ قرآن فہمی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت نظم (order)کی ہے، نظم بین الآیات، نظم بین السور- ان کے نزدیک نظم قرآن کو جاننا ہی قرآن فہمی کی اصل کلید (master key)ہے-
مگر ان میں سے ہر بات صرف جزئی طورپر درست ہے، نہ کہ کلی طورپر- اصل یہ ہے کہ قرآن فہمی کی دو سطحیں (levels) ہیں- ایک ہے قرآن، اوردوسری چیزہے تطبیقی قرآن (applied Quran)- قرآن فہمی کی پہلی سطح یہ ہے کہ بوقت نزول، قرآن کے معاصرین کے لئے اس کا مفہوم کیا تھا- قرآن فہمی کی دوسری سطح یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے بدلے ہوئے حالات میں قرآن کی تطبیقی معنویت (applied meaning) کیا ہے-
قرآن فہمی کی مذکورہ تمام شرطیں صرف سطحِ اول کے اعتبار سے قرآن کے فہم (understanding) میں مددگار ہوسکتی ہیں- مگر جہاں تک قرآن فہمی کی دوسری سطح کا معاملہ ہے، یعنی عصر حاضر کی نسبت سے قرآن کی تطبیقی معنویت، اس اعتبار سے تمام شرطیں بالکل ناکافی ہیں- سطحِ اول کے اعتبار سے قرآن کو جاننے کا فائدہ صرف یہ ہےکہ آدمی کے لئے قرآن تاریخی اعتبار سے ایک قابل فہم کتاب بن جائے- مگر جہاں تک عصر حاضر کی بات ہے، اس اعتبار سے آج کے انسان کو قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ملے گی- وہ عقیدہ کی حد تک قرآن کو مانے گا، لیکن زمانے کی نسبت سے قرآن کو اپنے لئے ایک زندہ رہنما (living guide) بنانا اس کے لئے ممکن نہ ہوگا- حالاںکہ قرآن کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ ابدی طور پرہر انسان کے لئے ایک رہنما کتاب ہے-
اس معاملے کی ایک مثال قرآن کی سورہ یوسف ہے- اس قصہ کو اللہ تعالی نے احسن القصص (best story)کہاہے- اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس سورہ میں کوئی غیر معمولی بات بتائی گئی ہے-
عربی زبان اور دوسری زبانوں میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں، ان میں سورہ یوسف کے بارے میں کافی بحث موجود ہے- لیکن یوسف کا قصہ احسن القصص کیوں ہے، اس پر کسی تفسیر میں کوئی واضح رہنمائی نہیں ملتی- عقل کا تقاضا ہےکہ جب یوسف کا قصہ احسن القصص ہے تو اس کا احسن ہونا صرف گزرے ہوئے ماضی کے اعتبار سے نہیں ہوسکتا، ضروری ہے کہ زمانہ حاضر کے اعتبار سے اس میں کوئی احسن رہنمائی موجود ہو-
اس پہلو سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورہ میں احسن القصص کا لفظ حقیقتاً احسن منہج (best method) کے معنی میں ہے، یعنی طریقہ کار کا بہترین نمونہ- حضرت یوسف کا قصہ قرآن اور بائبل دونوں میں آیا ہے- دونوں کے مطالعے سے جو تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں بادشاہت کا نظام تھا- اس زمانے میں زراعت کسی حکومت کا سب سے بڑا شعبہ ہوتا تھا- اس وقت کا مصری بادشاہ اس پر راضی ہوگیا کہ پولیٹکل اتھاریٹی کے اعتبار سے وہ تخت پر رہے، اور حکومت کا نظام حضرت یوسف کے سپرد کردے- قرآن میں یہ بات اس طرح کہی گئی ہے کہ مصر میں دین ملک (law of the land) بدستور بادشاہ کا ہو، اور خزائن ارض (ملک مصر کا زرعی نظام) حضرت یوسف کے ہاتھ میں رہے- اس معاملے کو بائبل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:
فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا-
Only in regard to the throne will I be greater than you. (Genesis: 41/40)
حضرت یوسف کا زمانہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- اس زمانے کا مصری بادشاہ اس پر راضی ہوگیا کہ قانونی اعتبار سے پولیٹکل اتھاریٹی (political authority) کا درجہ اس کو حاصل ہو، اور نان پولیٹکل (non-political) دائرے میں زمین کا انتظام حضرت یوسف کے ہاتھ میںرہے- یہ گویا پولیٹکل سیٹلمنٹ (political settlement) کا ایک معاملہ تھا،جس میں تخت پر تو بادشاہ بیٹھا ہوا تھا، لیکن جہاں تک ملکی انتظام کا معاملہ ہے، وہ عملاً حضرت یوسف کے ہاتھ میں دے دیا گیا (12:56) -
حضرت یوسف کو مصر میں یہ مواقع ایک بادشاہ کے ذاتی مزاج کی بنا پر شخصی طورپر حاصل ہوئے تھے- اب تطبیقی تفسیر کے اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانے میں یہ مواقع خود زمانی تبدیلی کی بنا پر تمام اہل ایمان کو عمومی طورپر حاصل ہوگئے ہیں- جدید جمہوری تصور کے مطابق کوئی حاکم (ruler) صرف چند سال کے لئے ہوتا ہے- موجودہ زمانے میں حکومت کی حیثیت اصولاً انتظام (administration) کے ادارے کی ہوتی ہے- انتظامی دائرے کے باہر کے تمام شعبے بشمول مذہبی تبلیغ، آزاد شعبے کی حیثیت رکھتے ہیں- ہر فرد کو حق ہے کہ وہ تمام غیر حکومتی شعبوں میں جس طرح چاہے عمل کرے، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے پرامن طریقہ (peaceful method) اختیار کرے، وہ کسی کے خلاف ٹکراؤ کا معاملہ نہ کرے، نہ عام شہری کے خلاف اور نہ حکومت کے خلاف-
گویا کہ زمانی تبدیلی کے نتیجے میں اب احسن القصص کی حیثیت ایک عالمی اصول کی ہوگئی ہے- یہ اس سورہ کی تطبیقی تفسیر ہے- اس تفسیر کی روشنی میں سورہ یوسف آج کے انسان کے لئے ایک رہنما سورہ بن جاتی ہے- یہی طریقہ پورے قرآن کے لئے مطلوب ہے- اس طرح قرآن آج کے انسان کے لئے ایک رہنما کتاب بن جاتا ہے جب کہ مذکورہ تفسیری اصولوں کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن ماضی کی ایک گزری ہوئی کہانی کی مانند نظر آئے گا-
واپس اوپر جائیں

تفسیر قرآن کا ایک اصول

قرآن میں اہلِ ایمان کے دو گروہوں کا ذکر ہے- ایک وہ جن کے لیے مُستَضْعفین (4:97) کا لفظ آیا ہے، یعنی کمزور (the weak)- ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن میں کہاگیا ہے کہ وہ ہجرت کرکے دوسرے پرامن مقامات پر چلے جائیں- اہلِ ایمان کا دوسرا گروہ وہ ہے، جو صاحب قوت ہو- ایسے لوگوں کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ تم ائمہ کفر ( 9:12) سے جنگ کرو، اور ان کے اوپر غلبہ حاصل کرو-
امام ابن تیمیہ (وفات: 728ھ) نے ان آیتوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو مسلمان کمزور حالت میں ہوں، وہ صبر اور صفح کے اصول پر عمل کریں- اور دوسرا مسلم گروہ ، جو صاحب قوت ہو اس کو چاہئے کہ وہ قتال کرکے مخالفین کو زیر کرے (الصارم المسلول: 2/412-414)- یہی تقریباً تمام مسلم علماء کا مسلک ہے- عام طورپر مسلمان اسی طرز فکر کو اسلامی طرز فکر سمجھتے ہیں- مگر یہ طرز فکر اسلامی بصیرت کے مطابق نہیں- یہ طرز فکر آج ایک غیر متعلق طرز فکر بن چکا ہے-
ضعیف اور قوی کے الفاظ مطلق (absolute) الفاظ نہیں- ان کا تعین ہمیشہ حالات کی نسبت سے ہوتا ہے- قدیم زمانے میں جو حالات تھے، ان کے تحت ضعیف اور قوی کی یہ تقسیم بنی تھی- نئے حالات میں یہ تقسیم ختم ہوچکی ہے- اب نہ کوئی ضعیف ہے اور نہ کوئی قوی- اب ہر آدمی خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، یکساں طورپر آزاد انسان کی حیثیت رکھتا ہے- موجودہ زمانہ حقوق انسان (human rights)کا زمانہ ہے، اب نئے حالات نے قدیم طرز کی تفریق ختم کردی ہے-
قدیم زمانہ بادشاہت (kingship) کا زمانہ تھا- قدیم سیاسی نظام کے تحت انسانوں کی تقسیم حاکم (ruler)اور محکوم (ruled)کی صورت میں کی جاتی تھی- اب نئے حالات میں جمہوری تصور کے تحت ہر انسان کو اپنے عمل کی مکمل آزادی حاصل ہے، بشرطیکہ وہ پرامن رہے، اور کسی دوسرے فرد یا گروہ پر تشدد نہ کرے- قدیم زمانہ اگر محکومی کا زمانہ تھا، تو موجودہ زمانہ آزادی کا زمانہ ہے- قدیم زمانے میں حاکم کے حکم کی خلاف ورزی جرم تھی، موجودہ زمانے میں امن کے اصول کی خلاف ورزی اور تشدد کی حیثیت جرم کی ہے-
قرآن میں قتال کا جو حکم دیاگیا تھا، وہ کوئی ابدی حکم نہیں تھا- اس کا مقصد کسی وقتی نظام کا خاتمہ نہ تھا، بلکہ اس کا مقصد اس عمومی دور کا خاتمہ تھا، جس کے تحت لوگوں کو عمل کی آزادی حاصل نہ تھی- جب لوگوں کو عمل کی آزادی حاصل ہوجائے تو قتال کا حکم بھی ایک غیر متعلق (irrelevant) حکم بن جائے گا-
یہی وہ بات ہے، جو قرآن کی اِس آیت میں کہی گئی ہے: وَقَٰتِلُوہُمْ حَتَّىٰ لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ ٱلدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ ۚ فَإِنِ ٱنتَہَوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ.(8:39) یعنی اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے- پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ ان کے عمل کو دیکھنے والا ہے-
قرآن کی اس آیت میں فتنہ سے مراد قدیم زمانے کا وہ دور حکمرانی ہے، جس کو مطلق العنان حکومت (despotism) کہاجاتا ہے- یہ نظام خدا کی اسکیم کے خلاف تھا- یہ نظام چونکہ فوجی طاقت کے زور پر قائم تھا، اس لئے اس کو فوجی طاقت ہی سے ختم کیا جاسکتا تھا- چنانچہ حکم دیا گیا کہ اس نظام کو بذریعہ قتال ختم کردو- آیت میں ویکون الدین کلہ للہ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں حالت فطری قائم ہوجائے، مصنوعی رکاوٹ کا خاتمہ ہوجائے، اور انسان کھلے ماحول میں آزادی کے ساتھ اپنا عمل کرسکے- لمبے تاریخی عمل کے بعد، یہ مطلوب نظام اب ساری دنیا میں عملاً قائم ہوچکا ہے-
اگر آدمی تشدد (violence) کا ارتکاب نہ کرے تو وہ کہیں بھی ضعیف نہیں، اس کے لئے کہیں رکاوٹ نہیں- یہ دور جدید کا تقاضا ہے- نیا دور آزادی کا دور ہے، اور تشدد آزادی کا نقیض (opposite) ہے- ایک شخص یا گروہ کا تشدد، دوسرے شخص یا گروہ کی آزادی کو منسوخ (abolish) کرنے کے ہم معنی ہے- جس طرح توحید کے کلچر میں شرک امر ممنوع بن جاتا ہے، اسی طرح آزادی کے کلچر میں تشدد کی حیثیت ایک امر ممنوع کی ہے- تشدد کے سوا کوئی اور چیز نہیں جو موجودہ دورِ آزادی میں انسان کو اس کی آزادی سے محروم کرنے والی ہو-
واپس اوپر جائیں

قرآن کا ایک پہلو

قرآن کی آیتوں میں کچھ آیتیںوہ ہیں جن کا تعلق حال سے ہے، اور کچھ آیتیں وہ ہیں جن کا تعلق مستقبل سے ہے- مثلاً قرآن میں یہ حکم ہے کہ: فَآمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ (7:158) یعنی پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر- یہ آیت جس وقت اتری، اسی وقت وہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب تھی- اسی طرح مثلاً قرآن میں یہ آیت آئی ہے کہ: وَاَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِکْرِیْ (20:14) یعنی اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو- قرآن کی یہ آیت جس وقت اتری اسی وقت وہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب تھی- اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَإذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (6:152) یعنی اور جب بولو تو انصاف کی بات بولو- یہ آیت بھی جس وقت اتری، اسی وقت وہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب تھی-
قرآن میں اس طرح کی کثیر آیتیں ہیں، جو باعتبار حال (present)مطلوب تھیں- یعنی جس وقت یہ آیتیں اتریں، اسی وقت اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہوگیا کہ ان آیتوں میں جو احکام دئے گئے ہیں ان کی وہ بلا تاخیر تعمیل کریں- جو آدمی ان آیتوں کو سننے کے بعد، اُن کی تعمیل نہ کرے، اس کے لئے اندیشہ تھا کہ وہ اللہ کے نزدیک خارج از اسلام قرار پائے-
ان کے علاوہ قرآن میں کچھ اور آیتیں ہیں جن کا تعلق مستقبل (future)سے تھا- یعنی بوقت نزول ان کی حیثیت پیشین گوئی کی تھی، اور ان آیتوں کا تحقق نزول کے بعد آنے والے دور میں ہونے والا تھا- اس طرح کی آیتیں دو قسم کی ہیں- ایک وہ جن میںصراحتاً مستقبل کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے، اور دوسری آیتیں وہ ہیں، جن میں بظاہر مستقبل کا صیغہ نہیں ہے، لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ظہور صرف مستقبل میں ہونے والا تھا-
مستقبل کی آیتیں
پہلی قسم کی آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ( 41:53)یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی- یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے- قرآن کی اس آیت میں واضح طور پر مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیاہے- یعنی اس میں ایک ایسے واقعے کا ذکر ہے، جو قرآن کے نزول کے بعد آنے والے زمانے میں ظاہر ہونے والا تھا-
اسی طرح قرآن میں حضرت موسی کے زمانے کے فرعون مصر کے تذکرے کے تحت یہ آیت آئی ہے: فَٱلْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ ءَایَةً ۚ وَإِنَّ کَثِیرًا مِّنَ ٱلنَّاسِ عَنْ ءَایَٰتِنَا لَغَٰفِلُونَ.(10:92)یعنی پس آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے، اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں- قرآن کی اس آیت میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ اگر چہ نزول قرآن سے پہلے مصر میں پیش آچکا تھا، لیکن عملاً وہ لوگوں کے لئے ایک غیر معلوم واقعہ تھا- کیونکہ معاصر تاریخ میں اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا- اس لحاظ سے آیت کے اس مصداق کی حیثیت ایک پیشین گوئی کی تھی، جو بعد کو ظاہر ہونے والی تھی-
واپس اوپر جائیں

ذمہ داری بقدر استطاعت

خدا کے دین میں ذمہ داری بقدر استطاعت کا اصول ہے- استطاعت سے زیادہ کا مکلف بنانا اللہ کا طریقہ نہیں- یہ اصول فرد (individual) کے لئے بھی ہے، اور اجتماع (society)کے لئے بھی- حوالے کے لئے ملاحظہ ہو، قرآن کی آیت 2:286 اور 64:16-
فرد اور اجتماع کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے- جہاں تک فرد کا تعلق ہے، اس کے ذاتی معاملات پر اس کو پورا اختیار ہوتا ہے- ایک فرد کے لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لئے جس چیز کو درست سمجھے، اس کو مکمل طور پر اختیار کرے- ایک فرد اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسندی (idealism) کو اپنا طریقہ بنا سکتا ہے-
اجتماع کا معاملہ اس کے برعکس ہے- اجتماعی یا سماجی معاملہ ہمیشہ کئی لوگوں کے درمیان ہوتا ہے- سماج کے معاملے میں وہی طریقہ چل سکتا ہے، جس پر سب کا اتفاق ہو- اس کے برعکس کوئی طریقہ اگر خارجی طور پر کسی کی طرف سے سماج کے اوپر نافذ کیا جائے تو لازماً لوگوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوجائے گا- ایسے موقع پر سماج کے اندر پہلے اختلاف آئے گا، پھر ٹکراؤ آئے گا، پھر نفرتیں بڑھیں گی، اور پھر آخر میں تشدد (violence) کی نوبت آجائے گی- گویا مطلوب چیز تو حاصل نہ ہوگی، البتہ اس کا برعکس نتیجہ فساد کی صورت میں سامنے آجائے گا- اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ دونوں کے تقاضے کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے- فرد کے لئے معیار کا اصول ہو، اور اجتماع کے لئے قابل عمل کا اصول- اس فارمولے کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Idealism at the individual level, pragmatism at the social level.
مثلاً عدل (justice)کی بات کہنا ہر آدمی کے اپنے اختیار کی چیز ہے- اس کے برعکس عدل کا نظام قائم کرنا پورے سماج کا معاملہ ہے- پہلی چیز فرد کے ذاتی اختیار پر منحصر ہے، اور دوسری چیز سماج کے مجموعی اختیار پر-
واپس اوپر جائیں

انسان کا مقصد

انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے، وہ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ( 51:56) اور میں نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیاہے کہ وہ میری عبادت کریں- عبد اللہ ابن عباس کے شاگرد مجاہد تابعی (وفات: 104ھ) نے إلا لیعبدون کی شرح ان الفاظ میں کی ہے: إلا لیعرفونی (تفسیر القرطبی) یعنی تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں-
یہاں معرفت سے مراد دریافت (discovery) ہے- انسان کو اللہ نے غیر معمولی ذہن (mind) کے ساتھ پیدا کیا ہے- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے ذہن کو استعمال کرے،وہ تمام متعلق پہلوؤں پر غور کرے، اس طرح اپنے ذاتی غوروفکر (contemplation) کے ذریعہ وہ سچائی کی دریافت تک پہنچے، وہ دنیا میںخود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered truth) پر کھڑاہو- یعنی ایک ایسی دنیا جہاں ہر چیز مجبورانہ اطاعت پر قائم ہے، وہاں انسان اپنے ارتقا یافتہ ذہن کے تحت اختیارانہ اطاعت کا ثبوت دے-
خود دریافت کردہ سچائی کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں- یہ کسی آدمی کو اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچائے، وہ اپنے اندر focused thinking پیدا کرے، وہ پورے معنوں میں متلاشی انسان(seeker person) بن جائے- اس طرح جب ایک شخص اپنے آپ کو اپنے پورے وجود کے ساتھ، مطالعہ اور تدبر میں لگا دیتاہے تو اس کے بعد اللہ کی خصوصی مدد اس کو حاصل ہوتی ہے، وہ اللہ کا ایک مخلَص (chosen) بندہ بن جاتا ہے- اس پر اللہ کے انسپریشن (inspiration) کا نزول ہونے لگتا ہے- ان تمام تجربات اور مطالعات کے درمیان اس کے اندر ایک عارفانہ شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے- وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے، جس نے اللہ کی مدد سے خود سچائی کو دریافت کیا، اللہ کی مدد سے وہ اپنے آزادانہ اختیار کے تحت اللہ کا تابع بنا- یہی وہ افراد ہیں جو تخلیق کا اصل مقصود ہیں-
واپس اوپر جائیں

تبدیلی کے دودور

قرآن کی سورہ التوبہ میں ایک منصوبۂ الٰہی کا ذکر ان الفاظ میں کیاگیا ہے: إِنَّ ٱللَّہَ ٱشْتَرَىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَٰلَہُم بِأَنَّ لَہُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ یُقَٰتِلُونَ فِى سَبِیلِ ٱللَّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ وَٱلْإِنجِیلِ وَٱلْقُرْءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَہْدِہِ مِنَ ٱللَّہِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُوا۟ بِبَیْعِکُمُ ٱلَّذِى بَایَعْتُم بِہِ ۚ وَذَٰلِکَ ہُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِیمُ. (9:111) یعنی بلاشبہ اﷲ نے مومنوں سے ان کی جان اور ان کے مال کو خرید لیا ہے جنت کے بدلے۔ وہ اﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ پھروہ قتل کرتے اور قتل کئے جاتے ہیں ۔ یہ اﷲ کے ذمہ ایک سچا وعدہ ہے، تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں ۔ اور اﷲ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے۔ پس تم خوش ہوجاؤ اس معاملہ پر جو تم نے اﷲ سے کیا ہے۔ اور یہی ہے سب سے بڑی کامیابی-
قرآن کی اس آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، اس کو الفوز العظیم (supreme achievement) کہاگیا ہے- مزید یہ کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا ذکر اس سے پہلے تورات اور انجیل میں بھی آچکا ہے- فَیَقتلون ویُقتلون کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ ایک بہت بڑا منصوبۂ الٰہی (divine plan) ہے- یہ ایک ایسی مہم تھی جس کے لئے ضروری تھا کہ اہل ایمان اس کے لئے آخری ممکن قربانی دے دیں- اس کے بعد ہی ایسا ہوسکتا تھا کہ یہ خدائی منصوبہ تکمیل تک پہنچے اور اس منصوبہ میں اپنا حصہ اداکرنے والوں کو جنت کے اعلیٰ درجا ت میں جگہ ملے-
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس منصوبہ الہٰی کے دو مرحلے (phases)تھے- ایک مرحلہ وہ تھا، جس کی تکمیل اصحاب رسول کے زمانے میں، ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی، اور دوسرا مرحلہ وہ ہے، جس کے لیے یہ مقدر تھاکہ وہ بعد کے زمانے میں انجام پائے- آیت کا اسلوب بتاتا ہے کہ اس سے مراد ایک بہت بڑا منصوبہ ہونا چاہئے-
قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں تاریخ کے ایک عظیم انقلاب کا بیان ہے، یعنی مخالفِ اسلام دور کو ختم کرنا اور موافقِ اسلام دور کو لانا- پیغمبر اسلام سے پہلے تاریخ کا جو دور گزرا ہے، اس میں بہت سے پیغمبر آئے، لیکن ہر پیغمبر کو غیر معمولی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا- اس لیے ان پیغمبروں کا مشن صرف دعوت کے مرحلے تک رہا، وہ انقلاب کے مرحلے تک نہیں پہنچا- اس کا سبب یہ تھا کہ قدیم دور ایک مخالف اسلام دور تھا- یہ دور سیاسی طاقت کے زور پر قائم تھا، ضروری تھا کہ اس دور کو ختم کیا جائے- مگر اس دور کو ختم کرنا جان ومال کی عظیم قربانی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا، اصحاب رسول نے یہی کارنامہ انجام دیا-
جب اصحابِ رسول کی قربانیوں سے مخالفِ اسلام دور ختم ہوا تو اس کے بعدفطری طور پر یہ ہوا کہ انسانی تاریخ میں ایک نیا عمل (process)جاری ہوگیا- یہ ایک نہایت گہرا عمل تھا-اس عمل کی انجام دہی میں اہل ایمان کے علاوہ غیر اہل ایمان (سیکولر اقوام) بھی شریک ہوئے- اس عمل کی تکمیل مغرب میں ہوئی- پہلے مرحلے میں مخالفِ اسلام دور کا خاتمہ کیا گیا تھا- دوسرے دور میں تمام موافقِ اسلام مواقع کھل گئے-
پہلے دور کو قرآن میں ختم فتنہ(8:39)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے- دوسرے مرحلے میں پیش آنے والے واقعے کو مواقع کا انفجار(opportunity explosion) کہاجاسکتا ہے- پہلے مرحلے کا کام اصحاب رسول نے مکمل طورپر انجام دیا، اور اس بنا پر وہ جنت کے مستحق قرار پائے- دوسرے دور میں کرنے کا کام یہ ہے کہ پیش آمدہ مواقع کو دریافت کرکے ان کو دعوت حق کے لیے بھرپور طورپر استعمال کیا جائے-
اصحابِ رسول نے اس معاملہ میں منصوبۂ الہی کے پہلے مرحلہ کو ظہور میں لانے کے لیے اپنا حق ادا کیا، اور فوزِ عظیم کے مستحق قرار پائے- اب جو لوگ پیدا شدہ مواقع کو بھر پور استعمال کرکے دوسرے مرحلے کا کام انجام دیں گے، یعنی پیغام حق کی عالمی تبلیغ ، وہ دوبارہ فوز عظیم کے مستحق قرار پائیں گے، جس طرح دور اول کے لوگ فوز عظیم کے مستحق قرا ر پائے ـتھے-
واپس اوپر جائیں

قرآن کا تصورِ تاریخ

قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے- اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے دائیں ہاتھ میں- وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ( 39:67)- اس آیت کی تفسیرمیں ایک روایت ہے جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: یقبض اللہ الأرض ویطوی السماوات بیمینہ ثم یقول: أنا الملک، أین ملوک الأرض (صحیح البخاری: 4812)، یعنی اللہ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا پھر کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں زمین میں بادشاہی کرنے والے-
قرآن کی اس آیت میں اللہ کی قدر نہ کرنے کا مطلب اللہ کے نقشۂ تخلیق کا کمتر اندازہ (underestimation) کرنا ہے، اور شرک کا مطلب ہے اللہ کے نقشۂ تخلیق کے سوا کسی خود ساختہ نقشے کو اپنی زندگی کے لئے اپنانا- حدیث رسول مزید یہ بتاتی ہے کہ اس دار الامتحان میں یہ صورت عملاً قیامت تک جاری رہے گی، یہاںتک کہ قیامت میں اللہ ظاہر ہوجائے گا، اور اعلان کرے گا کہ اصل مطلوب تو یہ تھا کہ زندگی کو خالق کے نقشۂ تخلیق پر چلایا جائے، مگر خود ساختہ حکمرانوں (self-styled rulers)نے زمین پر اپنی مرضی کو جاری کردیا- یہ آیت اور حدیث کسی سیاسی معنی میں نہیں ہے، اس کا مطلب صرف یہ ہےکہ اللہ نے زمین کو دار الامتحان (testing ground) کے طور پر بنایا ہے- اللہ کی مرضی یہ تھی کہ زمین پر آزادی کا ماحول قائم رہے تاکہ ہر انسان کی جانچ ممکن ہوسکے- اور یہ واضح ہوسکے کہ کس شخص نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اور کس شخص نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا-
ہزاروں سال تک بادشاہوں نے انسان کو مذہبی آزادی (religious freedom)سے محروم کررکھا تھا- اس کے بعد حالات میں تبدیلی ہوئی، یہاں تک کہ ساتویں صدی عیسوی میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ موقع ملا کہ وہ بادشاہی نظام کا خاتمہ کردیں، اور انسان کے لئے مذہبی آزادی کا دروازہ کھول دیں- اب انسانی تاریخ اسی دور آزادی سے گزر رہی ہے-
قرآن وحدیث کے اس بیان پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ اللہ رب العالمین ہے جو انسانی تاریخ کو مینیج (manage)کررہا ہے- یہ خدائی مینجمنٹ اس مصلحت کے تحت ہورہا ہے کہ دنیا کا اصل کیریکٹر، اس کا دار الامتحان (testing ground) ہونا قیامت تک باقی رہے، اور آزادانہ عمل کے تحت ہر فرد کا ریکارڈ تیار ہوسکے-
اللہ رب العالمین کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق انسان تاریخ کا منیجر (master of history) نہیں ہے- انسان صرف اپنی ذات کا منیجر ہے- انسان کو یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ تاریخ کا کنٹرولر(controller of history)بننے کی کوشش کرے- انسان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر کنٹرول کرے، وہ اپنے آپ کو توحید اور عدل (justice) پر قائم کرے- یہی الدین ہے اور اسی کی ذاتی پیروی کا نام اقامت دین ہے-
قدیم زمانے میں بادشاہوں نے تاریخ کا منیجر بننے کی کوشش کی- یہ اللہ کے نقشہ تخلیق کے خلاف تھا، اس لئے اللہ نے ہمیشہ کے لئے بادشاہی نظام کا خاتمہ کردیا- موجودہ زمانہ آزادی اور جمہوریت کا زمانہ ہے، یہ زمانہ خود اللہ کے نقشۂ تخلیق کے تحت وجود میں آیا ہے- اس نظام کے تحت ہر عورت اور ہرمرد کو یہ موقع ہے کہ وہ آزادانہ طورپر جو چاہے کرے، اور اپنے قول وعمل کے مطابق وہ اللہ کے یہاں اپنا درجہ متعین کرے-موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اللہ کے اس نقشہ تخلیق کو نہیں سمجھا- انھوں نے اللہ کے دین کی خود ساختہ تعبیر (self-styled interpretation) کے تحت اپنا یہ منصب فرض کرلیا کہ وہ ساری دنیا میں اپنی حکومت قائم کریں- یہ گویا دوبارہ تاریخ کا منیجر (manager of history) بننے کی کوشش ہے- یہ بلاشبہہ اللہ کی اسکیم کے خلاف ہے- اللہ کسی کو یہ موقع دینے والا نہیں کہ وہ تاریخ کا منیجر بن جائے- مسلمانوں کی ذمہ داری خود اپنے آپ کو اللہ کے تابع بنانا ہے، نہ کہ انسانی تاریخ کا منیجربننا- یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کا خود ساختہ جہاد مکمل طورپر ناکام ہورہا ہے- مسلمانوں کا خود ساختہ جہاد ان کو تاریخ کا منیجر تو نہ بنا سکا، البتہ وہ خود ایک تباہ شدہ قوم بن کر رہ گئے-
واپس اوپر جائیں

قرآنی طریق ِ کار

قرآن نے جس طرح انسانی زندگی کی ایک آئڈیالوجی دی ہے، اسی طرح قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس آئڈیا لوجی کے مطابق زندگی گزارنے کا درست طریقہ کیا ہے- اگر آدمی قرآن کا نام لے، لیکن وہ طریق کار کے معاملے میں قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی نہ کرے تو محض قرآن کا نام لینے کی بنا پر اس کا کیس قرآن کا کیس نہیں بن جائے گا-طریق کار کے معاملے میں قرآن میں اصولی ہدایات موجود ہیں، اس کے علاوہ قرآن میں پیغمبروں کاجو تذکرہ ہے وہ گویا قرآنی طریق کار کا عملی ماڈل ہے- آدمی کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں کھلے ذہن کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے- وہ ایک طرف قرآن سے طریق کار کا اصول دریافت کرے، اور دوسری طرف پیغمبروں کے حالات سے اس کا عملی نمونہ بھی دریافت کرے- خدا کی اس دنیا میں کسی انسان کے لیے کامیابی کا یہی واحد طریقہ ہے-
اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَلَا تُطِعِ ٱلْکَـٰفِرِینَ وَٱلْمُنَـٰفِقِینَ وَدَعْ أَذَاہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّـہِ ۚ وَکَفَىٰ بِاللَّـہِ وَکِیلًا (33:48) اور تم منکروں اور منافقوں کی بات نہ مانو اور ان کے ستانے کو نظر انداز کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو- اور اللہ بھروسہ کے لیے کافی ہے- قرآن کی اس آیت سے یہ اصول ملتا ہےکہ اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ فریق ثانی کی ایذاؤں پر ہر گز دھیان نہ دیں، اور کامل یکسوئی کے ساتھ اپنا مثبت مشن جاری رکھیں- اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو لازماً اللہ کی مدد حاصل ہوگی- وہ اپنی کوتاہیوں کے باوجود اپنے مشن کو پورا کرنے میں کامیاب رہیں گے-
اس معاملے کی ایک مثال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا وہ واقعہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے- صلح حدیبیہ کا واقعہ 6 ھ میں پیش آیا- اس واقعے کا مختصر ذکر قرآن کی سورہ نمبر 48 میں کیا گیاہے اور اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے- اس واقعے سے زندگی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اجتماعی زندگی میں امن (peace) صرف یک طرفہ شرطوں کو ماننے سے قائم ہوتا ہے، دوطرفہ شرطوں (bilateral conditions)کی بنیاد پر کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا- یہی فطرت کا اصول ہے-
واپس اوپر جائیں

انسانیت کی منزل جنت

قرآن کی سورہ فاطر میں بتایا گیاہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہوجائیں گے، اور وہاں کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو ان کی زبان سے نکلے گا: وَقَالُوا۟ ٱلْحَمْدُ لِلَّہِ ٱلَّذِىٓ أَذْہَبَ عَنَّا ٱلْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَکُورٌ(35:34) یعنی اور وہ کہیں گے، شکر ہے اﷲ کاجس نے ہم سے غم کو دور کردیا، بے شک ہمارا رب معاف کرنے والا، قدر کرنے والا ہے-
And they will say, All praise belongs to God who has removed grief from us. Surely, our Lord is Most Forgiving, Most Appreciating.
جنت کی یہ انوکھی صفت ہوگی کہ وہاں ہر قسم کے غم کا خاتمہ ہو جائے گا- موجودہ دنیا اگر دارالحَزن تھی تو جنت ایک ایسی دنیا ہوگی جو خالی از حزن (sorrow-free world) ہوگی- جنت میں نہ کوئی نفسیاتی غم ہوگا، اور نہ کوئی مادی غم-
قرآن کے مطابق موجودہ دنیا میں انسان کو ضرورت کی تمام چیزیں حاصل ہیں (14:34)- لیکن ایک چیز ایسی ہے جو موجودہ دنیا میں اس کے لازمی جز کی حیثیت سے شامل ہے، اور وہ غم (حزن) ہے-
موجودہ دنیا میں آدمی خواہ کچھ بھی حاصل کرلے لیکن کسی نہ کسی اعتبار سے اس میں غم کا پہلو شامل رہتا ہے— جسمانی تکلیف، نفسیاتی پریشانی، کھونے کا اندیشہ، حادثہ، بیماری، تکان(boredom) ، تشنۂ تکمیل خواہش (unfulfilled desire)، بڑھاپا، موت، مستقبل کا اندیشہ، ملی ہوئی چیزوں کا امپرفکٹ (imperfect) ہونا، عدم یقین (uncertainty)، آدمی کی محدودیت(limitations)، نتیجہ پر کنٹرول نہ ہونا، دوسروں کا خوف، تردد (tension) ، وغیرہ-
جنت میں حزن کا نہ ہونا، ان تمام باتوں کو بتا رہا ہے، اور جو مقام ابدی طورپر حزن سے اس طرح خالی ہو، وہ بلا شبہہ انسان کی منزل ہے، اس سے کم کوئی چیز انسان کی منزل نہیںہوسکتی-
واپس اوپر جائیں

خلافت ارضی

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے: إِنِّى جَاعِلٌ فِى ٱلْأَرْضِ خَلِیفَةً (2:30) - اس سے مراد نہ خدا کا خلیفہ ہونا ہے، اور نہ اسلامی خلیفہ ہونا- اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر با اختیار مخلوق کی حیثیت سے آباد کیا ہے- یہ اختیارانہ حیثیت نہ فرشتوں کو حاصل ہے، اور نہ سورج اور چاند کو-
قرآن کی دوسری متعلق آیتوں کو لے کر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو استثنائی ذہن دیاگیا اور پھر اس کو آزادی عطا کی گئی- اس کا مقصد یہ تھاکہ انسان اپنے ذہن کو استعمال کرے، اور پھر وہ خود دریافت کردہ معرفت پر کھڑا ہو- مخلوقات سے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ حمد ہے- پوری کائنات اللہ رب العالمین کی مجبورانہ حمد کررہی ہے- مگر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے، آزادانہ طورپر خدائی سچائی کو دریافت کرے، اور کسی جبر کے بغیر اس پر کھڑا ہو- یہی خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) وہ چیز ہے جو انسان کو ابدی جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے-
اس حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: عن عبد اللہ ابن عمرو قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: ما من شئ اکرم على اللہ یوم القیامة من ابن آدم- قیل یا رسول اللہ، ولا الملائکة؟ قال: ولا الملائکة؛ إن الملائکة مجبورون بمنزلة الشمس والقمر (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 14509) یعنی حضرت عبد اللہ ابن عمرو بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے افضل درجہ انسان کا ہوگا، کہاگیا کہ اے اللہ کے رسول، کیا فرشتوں سے بھی؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں، فرشتوں سے بھی، کیونکہ فرشتے سورج اور چاند کی مانند مجبور ہیں— حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ کا لفظ کسی عہدہ کو نہیں بتاتا، بلکہ وہ صرف نوعیتِ حمد کو بتاتا ہے-
واپس اوپر جائیں

انسان کا امتحان

قرآن میں ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے اندر وہ اعلی معرفت پیدا ہونی چاہئے، جب کہ وہ کہہ سکے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ( 1:1) -دوسری طرف قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ( 90:4)، یعنی انسان کو اس کے خالق نے مشقت(hardship)میں پیدا کیا ہے- ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کاامتحان یہ ہے کہ وہ مشقت کے حالات میں حمد کی اسپرٹ کے ساتھ جئے- وہ منفی حالات میں مثبت سوچ (positive thinking) کے ساتھ زندگی گزارے-یہ بظاہر متضاد صورت حال (contradictory situation) ہے- پھر اس متضاد صورت حال کی حکمت کیا ہے-
اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے لامحدود صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے- انسان کے دماغ میں لامحدود امکانات چھپے ہوئےہیں- انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے پوٹینشل (potential) کو ایکچول (actual)میں تبدیل کرے، وہ اپنے لاشعور میں چھپے ہوئے امکانات کو بیدار کرے، اس کو اپنے شعو رکا حصہ بنائے- یہ کام معتدل حالات میں نہیں ہوسکتا، وہ صرف چیلنج کے حالات میں ہوسکتا ہے- دنیا کی مشقتیں انسان کے لئے اسی چیلنج کا سبب بنتی ہیں-
چیلنج انسان کے دماغ کو زلزلے سے دوچار کرتا ہے، چیلنج انسان کے ذہن میں وہ ہلچل پیدا کرتا ہے جس کو نفسیات کی زبان میں ذہنی طوفان (brainstorming) کہاجاتا ہے- یہی وہ زلزلہ خیز حالات ہیں جو انسان کے اندر چھپے ہوئے امکانات کو بروئے کار لاتے ہیں- دنیا کے پرمشقت حالات انسان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ذہنی ارتقا کے مراحل سے گزرے، وہ اعلی معرفت کے ساتھ الحمد للہ رب العالمینکہہ سکے- دنیا میں پرمشقت حالات کاہونا، انسان کے لئے ایک عظیم رحمت ہے- اس کے بغیر انسان کے اندر ذہنی بیداری اور روحانی ارتقا (spiritual development)ممکن نہ ہوتا-
واپس اوپر جائیں

اسلام کی تعلیمات

اسلام کی کچھ تعلیمات وہ ہیں جو علی الاطلاق (absolute sense) طورپر مطلوب ہیں- اور دوسری تعلیمات وہ ہیں جن کا حکم حالات کی نسبت سے متعین ہوتاہے- مثلاً عبادت وہ عمل ہے، جو ہر فرد سے مطلق طورپر مطلوب ہے- اس کے برعکس سیاست کا تعلق حالات سے ہے، جیسے حالات ویسا سیاسی حکم-
عبادت کا اصول حدیث کے الفاظ میں یہ ہے : صلوا کما رأیتمونی أصلی (البخاری، رقم الحدیث: 6008) یعنی نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو- اس کے مقابلہ میں سیاست کا تعلق حالات سے ہے- اس معاملہ میں اسلام کی تعلیم یہ ہے: وَأمْرُھُمْ شُوْرَى بَیْنَہُمْ ( 42:38) یعنی اور ان کا نظام شوری پر ہے- اس سے معلوم ہوا کہ سیاست کے معاملہ میں کوئی مطلق ماڈل نہیں، وہ تمام تر اجتماعی حالات پر موقوف ہے-
عبادت ایک انفرادی معاملہ ہے- وہ ایک ذاتی پیروی کی چیز ہے- اس لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی عبادت کے معاملے میں ذاتی طورپر جس طریقے کو معیاری طریقہ سمجھے، اس کو اپنی ذاتی زندگی میں اختیار کرلے، لیکن سیاست کا معاملہ ایک اجتماعی معاملہ ہے- سیاست کے معاملے میں وہی طریقہ عملاً چل سکتا ہے، جس پر تمام لوگ راضی ہوں- ایک شخص یا ایک گروہ اگر ایسا کرے کہ وہ سیاست کے معاملہ میں اپنے پسندیدہ ماڈل کو نافذ (implement) کرنے لگے تو اس سے لازماً ٹکراؤ ہوگا، اور باعتبار نتیجہ اصلاح کے بجائے فساد پھیل جائے گا-
اس مسئلے کا قابل عمل حل یہ ہے کہ سیاست کے معاملے کوشوری (اجتماعی مشورہ) کا معاملہ قرار دیاجائے- شورائی نظام کو موجودہ زمانے میں جمہوری نظام کی حیثیت سے قبول عام حاصل ہوگیا ہے- اس لئے اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ بھی اس مقبول عام جمہوری طریقے کو مانیں اور اس کے مطابق سیاسی نظام کی تشکیل کریں-
واپس اوپر جائیں

ایک قرآنی اسلوب

قرآن کا ایک اسلوب یہ ہے کہ ایک خصوصی حوالہ (particular reference)کے ذریعہ عمومی اصول (general principle)کو بیان کرنا- اس کی ایک مثال قرآن کی سورہ آل عمران کی ایک آیت میں اس طرح ملتی ہے: ٱلَّذِینَ قَالَ لَہُمُ ٱلنَّاسُ إِنَّ ٱلنَّاسَ قَدْ جَمَعُوا۟ لَکُمْ فَٱخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَانًا وَقَالُوا۟ حَسْبُنَا ٱللَّہُ وَنِعْمَ ٱلْوَکِیلُ(3:173) یعنیجن سے لوگوں نے کہا کہ دشمن نے تمہارے خلاف بڑی طاقت جمع کر لی ہے اس سے ڈرو ،لیکن اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اﷲ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
اس آیت پر غور کرنے سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے- وہ یہ کہ جب انسان کے اندر زندہ ایمان (living faith) موجود ہو تو ہر انسانی خطرہ اس کے یقین میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے- خطرہ کی حالت اس کے لئے ایک مثبت کمپلشن (compulsion) کی صورت پیدا کرتی ہے- جب وہ محسوس کرتاہے کہ انسان کی رسی اس سے چھوٹ رہی ہے تو اس کا ایمان مزید بیدار ہوجاتا ہے، اور وہ اللہ کی رسی کو اور شدت کے ساتھ پکڑ لیتاہے- اس طرح ہر محرومی اس کے لئے ایک نئی یافت کا سبب بن جاتی ہے-
خشیت انسانی کے موقع پر یقین خداوندی میں اضافہ ہونا، ایک داخلی عمل (internal process) کے ذریعہ ہوتاہے- خشیت انسانی کا پیش آنا، اس کے اندر ایک ذہنی دھماکہ پیدا کرتاہے- اب اگر اس کے اندر زندہ ایمان موجود نہ ہو تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے گا، وہ پست ہمت بن کر رہ جائے گا-
اس کے برعکس، اگر اس کے اندر زندہ ایمان موجود ہو تو ہر انسانی خشیت کا واقعہ اس کو ایمانی غذا عطا کرے گا- اللہ کی طرف رجوع ہونے کی بنا پر اس کے یقین میں اضافہ ہوجائے گا- وہ مزید استقامت کے ساتھ اللہ کے دین پر قائم ہوجائے گا- ہر بحران اس کی شخصیت میں ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا-
واپس اوپر جائیں

قوّام کا اصول

قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ (4:34) یعنی مرد عورتوں کے اوپر قوام ہیں- قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ حکم کے اسلوب میں نہیں ہے بلکہ وہ خبر کے اسلوب میں ہے- یعنی اس آیت میں یہ حکم نہیں دیاگیا ہے کہ مردوں کو عورتوں کے اوپر قوام بناؤ، بلکہ یہ کہاگیا ہے کہ بطور واقعہ مرد عورت کے اوپر قوام ہیں-
قرآن کی اس آیت میں خطاب کا رخ عورت کی طرف نہیں ہے بلکہ مرد کی طرف ہے- یعنی مرد کو اپنے اندر وہ صفت پیدا کرنا چاہئے کہ عورت خود اپنے فیصلے سے مرد کو گھر میںقوام کا درجہ دے دے- اسلوب کے اعتبار سے اس معاملے میں اصل ذمے داری مرد کی ہے، نہ کہ عورت کی-
اصل یہ ہے کہ فطری طور پر عورت کے اندر ایک احساس موجود ہوتاہے، جس کو عدم تحفظ کا احساس (sense of insecurity)کہا جاسکتاہے- یہ ایک فطری احساس ہے جو کہ انسان اور حیوان دونوں کے اندر یکساں طورپر پایا جاتا ہے- یہ کسی خارجی حکم کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ خود پیدائشی فطرت کا معاملہ ہے-مرد اگر ایسا کرے کہ وہ اپنی رفیقۂ حیات کے ساتھ محبت کا تعلق رکھے، وہ اس کے مزاج کی رعایت کرے، وہ اس کے نسوانی تقاضے کو پورا کرے، وہ اپنے قول وعمل سے اس بات کا ثبوت دے کہ عورت نے ایک شوہر کی صورت میں اس انسان کو پالیا ہے جو اس کے عدم تحفظ کے احساس کا قابل اعتماد جواب ہے تو کسی جبر یا کسی مطالبہ کے بغیر ایسا ہوگا کہ عورت عملاً اپنے شوہر کو اپنی زندگی میں قوام کا درجہ دے دے گی-یہ معاملہ قوامیّت یا غیر قوامیت کا نہیں ہے، بلکہ وہ یہ ہے کہ گھر کے نظام کو معتدل طورپر کس طرح چلایا جائے تاکہ وہ فائدے حاصل ہوں، جو خاندانی نظام کے تحت خالق کو مطلوب ہیں- خاندان سماج کی اکائی (unit) ہے، خاندان کے درست ہونے سے پورا سماج درست ہوتا ہے- خاندان کو درست حالت پر قائم رکھنے کے لئے قوّام کا اصول اسی طرح اہم ہے جس طرح کسی کمپنی کو درست طورپر چلانے کے لئے باس (boss)کا اصول-
واپس اوپر جائیں

عدل کا مسئلہ

قرآن میں عدل کا مادہ 28 بار استعمال ہوا ہے-اس کے علاوہ عدل کے ہم معنی الفاظ بھی قرآن کی آیتوں میں بار بار استعمال ہوئے ہیں- اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عدل (justice) کی اہمیت بہت زیادہ ہے- مگر اسلوب کے اعتبار سے قرآن کی آیتوں میں ایک فرق پایا جاتا ہے- زیادہ مقامات پر قرآن میں عدل کا لفظ لازم کے صیغے (intransitive form) میں استعمال ہوا ہے- مثلاً وَإذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (6:152) یعنی جب بولو تو انصاف کی بات بولو- عام حالات میں عدل کا تقاضا یہی ہے- عام حالات میں ہر انسان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ انصاف کی بات کہے، وہ لوگوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرے- مومن پر یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ عملاً ایک منصفانہ حکومت قائم کرے- اس کی اصل ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں منصفانہ روش اختیار کرے-
دوسرا استعمال وہ ہے جہاں قرآن میں عدل کا حکم متعدی کے صیغہ (transitive form) میں آیا ہے، یعنی عدل کا نظام قائم کرنا- اس کی ایک مثال وہ ہے جو حضرت داؤد کے ذیل میں آئی ہے: یَا دَاؤُدُ إِنَّا جَعَلْنَٰکَ خَلِیفَةً فِى ٱلْأَرْضِ فَٱحْکُم بَیْنَ ٱلنَّاسِ بِٱلْحَقِّ(38:26) یعنی اے داؤد،ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ (حاکم ) بنایا ہے تو لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو- قرآن کی اس آیت میں حق کا لفظ عدل وقسط کے معنی میں آیا ہے- اس سے معلوم ہوا کہ حاکم (ruler) کا فرض ہےکہ وہ عدل کو عملاً نافذ کرے- وہ دوسروں کو عدل وقسط کا پابند بنائے-
اسلام کے مطابق انسان کی ذمے داری بقدر استطاعت (2:286) ہے- عام انسان جس کو اقتدار حاصل نہیں ہے، اس کی ذمے داری یہ ہے کہ اپنے دائرہ عمل میں ہمیشہ وہ انصاف کی روش اختیار کرے- لیکن جس شخص کو اللہ اقتدار کامالک بنائے، اس کو ذاتی انصاف پسندی کے علاوہ یہ بھی کرنا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بقدر انصاف کا نظام قائم کرے- بقدر امکان وہ لوگوں کو عدل کا پابند بنائے-
واپس اوپر جائیں

کلمۂ سَوا کا اصول

قرآن کی سورہ آل عمرانمیں اجتماعی زندگی کے اصول کو ان الفاظ میں بتایا گیاہے: قُلْ یَٰٓأَہْلَ ٱلْکِتَٰبِ تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ کَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا ٱللَّہَ(3:64) یعنی کہو اے اہلِ کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساںہے کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔
کلمہ سوا کا مطلب کامن ٹرم (common term)یا کامن گراؤنڈ (common ground) ہے- یہ بات جو قرآن میں کہی گئی ہے، وہ اجتماعی زندگی کا ایک عمومی اصول ہے- اجتماعی زندگی میں جب کوئی کام کرنا ہو تو اس کے آغاز کا درست طریقہ یہ ہے کہ طرفین کے درمیان کامن گراؤنڈ کو تلاش کیا جائے، اور اُس کے حوالے سے اپنا کام شروع کیا جائے- یہ طریقہ قابل عمل بھی ہے، اور باعتبار نتیجہ زیادہ مؤثر بھی-
کامن گراؤنڈ کی کوئی محدود فہرست نہیں- جن لوگوں کے درمیان یا جس زمانے میں کام کرنا مطلوب ہو، اس کے مطابق دیکھا جائے گا کہ وہ کیا چیز ہے جو اس وقت کے حالات میں طرفین کے درمیان کامن گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہے- کامن گراؤنڈ کا تعین کسی نظریاتی ماڈل کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ عملی حالات کی بنیاد پر اس کا تعین کیا جائے گا، ورنہ وہ مؤثر نہ ہوسکے گا-
مثلاً، قدیم زمانے میں ایک مذہبی نظریہ طرفین کے درمیان کامن گراؤنڈ بن سکتا تھا- موجودہ زمانہ سیکولرزم کا زمانہ ہے- اب مؤثر عمل کے لئے ضروری ہوگاکہ طرفین کے درمیان کوئی سیکولر نوعیت کا کامن گراؤنڈ تلاش کیا جائے- ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ اندیشہ ہےکہ کیا جانے والا عمل مؤثر نہ ہو، وہ فریق ثانی کی نسبت سے بے نتیجہ ہو کر رہ جائے- کامن گراؤنڈ کی ضرورت صرف آغاز کار کے لئے ہے- آغاز کے بعد بقیہ چیزیں تدریجی طورپر خود بخود اس کا حصہ بنتی چلی جائیں گی- کامن گراؤنڈ کا تعلق پرکٹیکل وزڈم (practical wisdom) سے ہے، نہ کہ مطلق معنوں میں آئیڈیالوجی سے-
واپس اوپر جائیں

کائناتی شخصیت

قرآن میں فرعون مصر کا ذکر ہے، جس کو اللہ نے اس کی سرکشی کی بنا پر تباہ کردیا تھا- اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ ٱلسَّمَآءُ وَٱلْأَرْضُ وَمَا کَانُوا۟ مُنظَرِینَ (44:29) یعنی پس نہ ان پر آسمان رویا اور نہ زمین، اور نہ ان کو مہلت دی گئی۔قرآن کی اس آیت میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کے مرنے پر آسمان وزمین نہیں روتے- دوسری طرف اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کی موت پر آسمان وزمین روتے ہیں- اِس دوسرے پہلو کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے: مامن انسان إلا لہ بابان فی السماء یصعد عملہ فیہ، وینزل رزقہ، فإذا مات العبد المؤمن بکیا علیہ (حلیة الأولیاء: 3/53) یعنی ہر انسان کے لئے آسمان میں دو دروازے ہوتے ہیں، ایک دروازے کے ذریعہ اس کا عمل اوپر جاتا ہے، اور دوسرے دروازے کے ذریعہ اس کا رزق نازل ہوتا ہے، جب بندۂ مومن پر موت آتی ہے تو دونوں اس کے لئے روتے ہیں-
اس حدیثِ رسول میں تمثیل کے اسلوب میں ایک عظیم حقیقت کو بتایا گیاہے- وہ یہ کہ ایک سچا مومن ایک کائناتی شخصیت کا حامل ہوتا ہے- وہ تدبر اور تفکر کے ذریعے مسلسل طور پر اللہ کی طرف سے معرفت کا رزق حاصل کرتا رہتا ہے، وہ خدا کی تخلیق میں غور وفکر کرکے مسلسل طورپر ربانی رزق حاصل کرتا رہتا ہے- اس اعتبار سے وہ گویا پوری کائنات کے لئے ایک مطلوب شخص بن جاتا ہے، کیونکہ کائنات اسی لئے پیدا کی گئی ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس پر غور کرکے اس سے حق کی معرفت حاصل کرے-
حقیقت یہ ہے کہ مومن کی ایک فزیکل شخصیت (physical personality) ہوتی ہے، اور دوسری اس کی فکری شخصیت (intellectual personality) - مومن کی فزیکل شخصیت اس کے جسم تک محدود ہوتی ہے، لیکن اس کی فکری شخصیت پوری کائنات تک پھیلی ہوئی ہے- فکر کی سطح پر بننے والی شخصیت ہی وہ کائناتی شخصیت ہے، جس کے کھونے پر زمین وآسمان پر وہ کیفیت گزرتی ہے، جس کو یہاں رونے سے تعبیر کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

نظریہ، تاریخ

کسی مشن کاایک حصہ وہ ہے، جس کو نظریہ (ideology)کہا جاتا ہے، اور دوسری چیز وہ ہے جس کو عملی تدبیر (strategy) کہا جاتاہے-بنیادی نظریہ کی حیثیت ابدی اصول کی ہوتی ہے- اس کے برعکس، عملی تدبیر ہمیشہ حالات کے اعتبار سے اختیار کی جاتی ہے- یہ دونوں چیزیں ہر مشن میں ہوتی ہیں، خواہ وہ کوئی مذہبی مشن ہو یا کوئی سیکولر مشن-
مثلاً، مہاتما گاندھی کا مشن ایک سیکولر مشن تھا، ان کی آئیڈیا لوجی تمام تر اہنسا (nonviolence) پر مبنی تھی- اس کے مطابق انھوں نے اپنی پوری تحریک چلائی- اسی کے ساتھ وقت کے عملی تقاضے کے تحت انھوں نے ایک طریقہ اختیار کیا، جس کو سول نافرمانی (civil disobedience) کہا جاتا ہے- ان کی امن کی آئیڈیالوجی، ان کے مشن کا مستقل حصہ تھی- لیکن سول نافرمانی کی حیثیت ایک وقتی تدبیر کی تھی، جو حالات کی نسبت سے مطلوب تھی- حالات جب بدلے تو سول نافرمانی کا طریقہ ایک غیر متعلق (irrelevant) طریقہ بن گیا-
یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے- اسلام کی آئیڈیالوجی توحید کی آئیڈیالوجی ہے، یہ مکمل طورپر ایک پرامن آئیڈیالوجی ہے- نظریۂ توحید کی حیثیت اسلام میں ابدی نظریہ کی ہے- اس میں کبھی کوئی تبدیلی آنے والی نہیں-اسی کے ساتھ اسلام کے دو ر اول کی تاریخ بتاتی ہے کہ اشاعت توحید کے پرامن مشن کے ساتھ عرب میں غزوات بھی پیش آئے، یعنی فریق ثانی کے ساتھ جنگ- مگر یہ غزوات (قتال) اسلام کی تاریخ میں عملی تدبیر کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ آئیڈیالوجی کا مستقل حصہ نہیں- قرآن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں قسم کی تعلیمات کو الگ کرکے دیکھا جائے- توحید کی آیتوں کو اسلام کی ابدی آئیڈیالوجی کا حصہ سمجھاجائے، اور قتال کی آیتوں کو حالات کی نسبت سے پیش آنے والی وقتی تدبیر کا حصہ- موجودہ زمانے میں عالمی حالات مکمل طور پر بدل گئے ہیں، پہلے اگر دورِ قتال تھا تو اب دورِ امن ہے- ایسی حالت میں قتال کو اب عملاً اسلام کی وقتی تاریخ کا حصہ سمجھا جائے گا، نہ کہ اسلام کے ابدی مشن کا حصہ-
واپس اوپر جائیں

اسلام کے دو پہلو

اسلام کے علمی مطالعے کے لئے ضروری ہےکہ اس کی آئیڈیالوجی کو اور اس کی تاریخ کو الگ کرکے دیکھا جائے- کیوں کہ اسلام کی آئیڈیالوجی ابدی ہے، لیکن اس کی تاریخ میں فطری طورپر ایسے اجزا شامل ہیں جو وقتی حالات کی نسبت سے اسلام کی تاریخ کاجز بنے تھے- حالات بدلنے کے بعد ان اجزاء کی حیثیت صرف گزرے ہوئے ماضی کی وقتی تاریخ کی ہے، آئیڈیالوجی کی طرح اس کی حیثیت ابدی نہیں-
اسلام کی آئیڈیالوجی، توحید الٰہ (oneness of God) کی ابدی حقیقت پر مبنی ہے- لیکن ساتویں صدی کے نصف اول میں جب اسلام کا ظہور ہوا، اس وقت دنیا میں شرک کا غلبہ تھا- مزید یہ کہ اس زمانے میں ساری دنیا میں بادشاہت (kingship) کا نظام قائم تھا- اس زمانے کے بادشاہوں نے شرک کو سرکاری مذہب (official religion) کی حیثیت دے دی تھی- اس بنا پر اس زمانے کا نظام عملاً مشرکانہ بادشاہت کا نظام بن گیا تھا- یہ نظام مذہبِ توحید کے لئے ایک جارحانہ مسئلہ (violent problem) کی حیثیت اختیار کئے ہوئے تھا-
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمام تر ایک پر امن مشن ہے، لیکن مذکورہ حالات کی بنا پر فطری طورپر ایسا ہوا کہ فریق ثانی کی طرف سے متشددانہ مخالفت شروع ہوگئی- پہلے قبائلی سردار (Tribal Chief) کی طرف سے، اور اس کے بعد اس وقت کے قائم شدہ ایمپائر (ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کی طرف سے)-اس جنگ میں مشرکانہ اقتدار کی حیثیت جارح کی تھی، اور اسلام کی حیثیت مدافع کی تھی- یہ جنگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شروع ہوئی اور خلیفہ ثانی عمرفاروق (وفات: 23ھ /644ء) کے زمانے میں اصولاً ختم ہوگئی- مسلح مزاحمت (armed struggle) کی یہ مدت تقریباً 25 سال ہے- اللہ کی خصوصی نصرت کے تحت اس مختصر مدت میں مشرکانہ اقتدار کا زور ٹوٹ گیا- اب یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کا اصل مشن، پر امن دعوتِ توحید مزاحمت کے خطرے کے بغیر جاری کیا جائے اور قیامت تک اس کو جاری رکھا جائے-
وقت کے مشرکانہ اقتدار سے اسلام کی مسلح مزاحمت (armed struggle) کا تعلق وقتی حالات سے تھا، وہ اسلام کی آئیڈیالوجی کا ابدی حصہ نہ تھا- مگر بعد کے زمانے میں حضرت عثمان کی شہادت (35 ھ656/ء) کے وقت امت میں ایسا بحران (crisis)پیدا ہوا کہ لوگ آئیڈیالوجی اور تاریخ کے اس فرق کو بھول گئے، اور بحرانی حالات کے تحت لوگوں کے درمیان دوبارہ جنگ شروع ہوگئی، جب کہ اللہ کے منصوبے کے مطابق اب جنگ کا زمانہ ختم ہوچکا تھا، اور وہ وقت آگیا تھا کہ معتدل حالات میں توحید کی پرامن دعوت کو شروع کیا جائے، اور اس کو قیامت تک جاری رکھا جائے-
بعد کے زمانے میں وہ لڑائی پیش آئی، جس کو تاریخ میں فتنۂ ابن الزبیر کہا جاتاہے- اس وقت صحابیٔ رسول حضرت عبد اللہ ابن عمر (وفات: 73ھ) مدینہ میں موجود تھے، مگر وہ لڑائی میں شریک نہیں تھے، کچھ لوگ حضرت عبد اللہ ابن عمر سے ملے- انھوں نے قتالِ فتنہ کی آیت ( 8:39) کا حوالہ دے کر کہا کہ قرآن میں حکم دیاگیا ہے کہ فتنہ کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرو، پھر آپ کیوں ہماری جنگ میںشریک نہیں ہیں- حضرت عبد اللہ ابن عمر نے جواب دیا: قاتلنا حتى لم تکن فتنة، وکان الدین للہ، وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتى تکون فتنة، ویکون الدین لغیر اللہ (صحیح البخاری: 4513) یعنی ہم نے جنگ کی یہاںتک کہ فتنہ ختم ہوگیا، اور دین اللہ کے لئے ہوگیا، اور تم چاہتے ہو کہ تم لڑو یہاں تک کہ فتنہ دوبارہ آجائے، اور دین غیر خداکے لئے ہوجائے-
حضرت عبد اللہ ابن عمر کے اس قول پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اللہ کے حکم کے تحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو جنگ شروع ہوئی، وہ ایک وقتی مقصد کے لئے تھی- یہ مقصد حضرت عمرفاروق کے زمانۂ خلافت میں حاصل ہوگیا- اب اہلِ ایمان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی نئے عنوان کے حوالے سے دوبارہ جنگ شروع کردیں- اب انھیں صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت اسلام کے پرامن دعوتی مشن میں لگادیں- اگر کوئی شخص یا گروہ دوبارہ جنگ چھیڑنے کی کوشش کرے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پر امن تدبیر کے ذریعہ جنگ کو روک دیں، تاکہ پرامن دعوت کا کام بلاوقفہ جاری رہے-
واپس اوپر جائیں

عالمی نشانۂ دعوت

قرآن کی سورہ الفرقان میں یہ آیت آئی ہے: تَبَارَکَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِہِۦ لِیَکُونَ لِلْعَٰلَمِینَ نَذِیرًا(25:1) یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے آگاہ کرنے والا ہو۔
اس آیت کے مطابق یہ مطلوب تھا کہ قرآن کا پیغام دنیا بھر کے تمام انسانوں تک پہنچے- مگر ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ، جب کہ قرآن اترا، ایسا ہونا ممکن نہ تھا- کیوں کہ عالمی پیغام رسانی کے لیے جو وسائل درکار تھے، وہ وسائل بوقت نزول قرآن موجود نہ تھے- حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں نشانۂ دعوت کا ذکر تھا، جہاں تک تکمیل دعوت کی بات ہے، وہ مستقبل میں پورا ہونے والا تھا- قرآن کی مذکورہ آیت کا یہ پہلو ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے-
پیغمبر اسلام کی ایک پیشین گوئی حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد: 23814) زمین کی پشت پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہ ہوگا، مگر اللہ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کردے گا-
کرۂ ارض کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں کلمہ اسلام کا داخل ہونا کوئی سیاسی نشانہ نہ تھا، یہ ایک پرامن دعوتی نشانہ تھا- ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو اس وقت وہ وسائل عملاً موجود نہ تھے جو اس عالمی نشانے کی تکمیل کے لئے ضروری تھے- یہ عالمی وسائل صرف موجودہ زمانے میں دستیاب ہوئے ہیں جب کہ پرنٹنگ پریس اور ماڈرن کمیونی کیشن کا زمانہ آیا-
مذکورہ قرآنی آیت اپنے انطباق کے اعتبار سے پوری امت مسلمہ کو آواز دے رہی ہے- موجودہ امت کے لئے اس کا تقاضا ہے کہ وقت کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے قرآن کے پیغام کو سارے اہلِ عالم تک پہنچا دے-
واپس اوپر جائیں

صبر کی اہمیت

قرآن میں صبر کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے- ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّمَا یُوَفَّى ٱلصَّٰبِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْرِ حِسَابٍ (39:10) یعنی بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔صبر کی اتنی زیادہ اہمیت اس لئے ہے کہ صبر (patience) آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مثبت اعمال کرسکے، جو غیر معمولی اجر کا باعث بنتے ہیں-
اصل یہ ہے کہ اسلام میں ساری اہمیت تعمیر شخصیت کی ہے، جس کو قرآن میں تزکیہ (20:76) کہاگیا ہے- موجودہ دنیا امتحان (test)کی دنیا ہے- یہاں مسلسل طورپر دوسروں کی طرف سے ایسے حالات پیش آتے رہتے ہیں، جو آدمی کو گوارا نہیں ہوتے، جو آدمی کے اندر نفرت، غصہ، اشتعال اور منفی سوچ جیسی کیفیات پیدا کردیتے ہیں- اس قسم کی منفی کیفیات آدمی کو مسلسل طورپر ڈسٹریکٹ (distract) کرتی رہتی ہیں- وہ آدمی کی توجہ کو صحیح رخ سے ہٹا کر غلط رخ کی طرف کردیتی ہیں-
یہ ایک تباہ کن صورت حال ہے- مگر یہ ناموافق صورتِ حال فطرت کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے- کوئی آدمی اس ناخوش گوار صورت حال کا خاتمہ کرنے پر قادر نہیں- ایسی حالت میں اس کے مضر انجام سے اپنے کو بچانے کی صورت صرف یہ ہے کہ آدمی ہر ایسے ناخوش گوار موقعے پر صبر کا طریقہ اختیار کرے-
صبر کی یہ اہمیت تدبیر کے اعتبار سے ہے- صبر کی یہ اہمیت اس لئے ہے کہ وہ آدمی کو رد عمل سے بچاتا ہے، اور رد عمل (reaction) ہر قسم کی برائیوں کی جڑ ہے- ہر برائی ابتداء ً کسی ناخوشگوار واقعہ کے خلاف رد عمل سے پیدا ہوتی ہے، اور پھر بڑھ کر وہ بگاڑ (breakdown) کی آخری حد تک پہنچ جاتی ہے- صبر آدمی کو رد عمل سے بچاتا ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو رد عمل سے بچالے، وہ گویا تمام برائیوں سے محفوظ ہوگیا-
واپس اوپر جائیں

جنتی کام

قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کا مستحق امیدوار (deserving candidate) بننے کی تین خاص شرطیں ہیں- دنیا میں جو شخص ان شرطوں کو پورا کرے گا، اس کو آخرت کی ابدی جنت میں داخلہ ملے گا- وہ تین شرطیں یہ ہیں:
1- جنت میں داخلہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی خالق (Creator) کی گہری معرفت حاصل کرے- وہ تخلیق (creation)میں غور وفکر کرکے مسلسل طورپر اپنی معرفت کو بڑھاتا رہے، یہاں تک کہ اس کے اندر ایک ایسی ربانی شخصیت پیدا ہوجائے جو ہر لمحہ الحمد للہ (praise belongs to God) کی اسپرٹ میں جینے لگے- جو لوگ دنیا میں اپنے اندر اس قسم کی شخصیت بنائیں، انھیں کو آخرت میں یہ موقع ملے گا کہ وہ دوبارہ جنت کے معیاری ماحول میں الحمد للہ (39:75) کہنے کی توفیق پائیں-
2- جنت میں داخلے کا مستحق بننے کی دوسری شرط وہ ہے جو انسانوں کی نسبت سے مطلوب ہے- اس شرط کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: إِلَّا مَنْ أَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (26:89) یعنی مگر وہ جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے- قلب سلیم کا مطلب پاک دل (sound heart) ہے- قلب سلیم کا مطلب دوسرے الفاظ میں وہی ہے جس کو ربانی شخصیت کہاجاتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتاہے تو وہ تخلیقی اعتبار سے قلب سلیم کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے- ہر عورت اور ہر مرد فطرت پرپیدا ہوتے ہیں، اور فطرت پر پیداہونے کا نام ہی قلب سلیم کے تحتپیداہونا ہے- مگر موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے- یہاں کے تمام حالات امتحان کی مصلحت کے ساتھ بنے ہیں- اس لئے یہاں ہمیشہ ہر قسم کے منفی ومثبت دونوں قسم کے اسباب موجود رہتے ہیں- اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں پیدا ہوتے ہی آدمی کی کنڈیشننگ (conditioning) شروع ہوجاتی ہے- پیدا ہونے کے وقت آدمی مسٹر نیچر ہوتاہے، لیکن اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ مسٹرکنڈیشنڈ (Mr. Conditioned) بن جاتا ہے-
اس بنا پر قلب سلیم والا آدمی وہ ہے جو بڑا ہونے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو اس ابتدائی فطرت پر قائم کرے، جس پر پیداکرنے والے نے اس کو پیدا کیا تھا- یعنی وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning)کرے- وہ اپنی سوچ، اپنے مزاج اور اپنی عادات کے اعتبار سے اپنے اندر اس مثبت شخصیت (positive personality) کی تعمیر کرے، جو جنت کے معاشرے کا ممبر بننے کے لئے ضروری ہے-
جنت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جنت میں ہر طرف امن کا ماحول ہوگا- یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جنت کو دار السلام (Home of Peace)کہاگیا ہے- جنت میں ہر طرف صدق گفتاری (54:55) کا ماحول ہوگا- جنت میں نہ کوئی لغو (nuisance) گفتگو کرنے والا ہوگا، اور نہ گناہ کی بات کرنے والا (56:25)- موجودہ دنیا ان صفات کی تربیت کا مقام ہے، جو افراد موجودہ دنیا میں اپنے اندر یہ صفات پیدا کریں، وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے معیاری معاشرے کے ممبر بنائے جائیں گے-
3- جنت کے استحقاق کی تیسری شرط یہ ہے کہ آدمی کو اسی دنیا میں جنت کا تعارف ( 47:6) حاصل ہوجائے- یہ حال اس انسان کا ہوتاہے، جو موجودہ دنیا میں اپنے ذہن کو اتنا ترقی یافتہ بنائے کہ اس کو شعوری طورپر جنت کی دریافت ہوجائے، وہ فطرت کے مناظر (natural scenes)کے اندر جنت کی جھلک (glimpse) دیکھنے لگے، وہ درختوں کی ہریالی میں جنت کے حسن کو دریافت کرلے، وہ چڑیوں کے چہچہے میں جنت کا نغمہ سننے لگے، وہ دریا میں شفاف پانی کو بہتے ہوئے دیکھے تو وہ جنت کی نہروں کو یادکرنے لگے-
جنت میں داخلے کا فیصلہ ہر عورت اور ہر مرد کے ذاتی کردار کی بنیاد پر ہوگا- جس فرد نے دنیا کی زندگی میں اپنے اندر مذکورہ قسم کے اوصاف کو پیداکیا ہوگا، وہی آخرت میں اس کا مستحق قرار پائے گا کہ اس کو جنت میں داخلہ ملے- جنت کسی آدمی کو اس کی ذاتی خصوصیت (merit) کی بنیاد پر ملے گی، کسی اور مفروضہ کی بنیاد پر کسی شخص کو ہرگز جنت ملنے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

قرآن اور مثلِ قرآن

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: ألاإنی أوتیت الکتاب ومثلہ معہ (أبوداؤد: 4604) یعنی سن لو کہ مجھے کتاب (قرآن) دیاگیا ہے اور اسی کے ساتھ اس کا مثل- ایک اور روایت ان الفاظ میں آئی ہے : إنی اوتیت الکتاب ومایعدلہ (صحیح ابن حبان: 12)یعنی مجھے کتاب دی گئی اور وہ جو اس کے برابر ہے-
اس حدیث میں مثلِ قرآن سے مراد قرآن کی تبیین ہے- یہ تبیین، احادیث رسول کی صورت میں مدون ہوکر کتابوں میں موجود ہے- مثلِ قرآن سے مراد وحی غیر متلو ہے، جن کو عام طورپر حدیث کہاجاتاہے- گویا قرآن، قرآن ہے، اور حدیث مثلِ قرآن-
مثلِ قرآن کے الفاظ پر مزید غور کیجئے تو کہا جاسکتا ہے کہ مثلِ قرآن سے مراد تطبیقی قرآن (applied Quran) ہے- قرآن کی صورت میں پیغمبر اسلام کو دین کی اصولی تعلیمات دے دی گئی، لیکن ہمیشہ اجتہاد کی ضرورت رہتی ہے- یعنی روز مرہ کے حالات میں قرآن کی تعلیمات کی موافق حالات تطبیق تلاش کرنا- یہ تطبیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ خاص نہیں ہے- وہ قیامت تک اہلِ علم کے درمیان جاری رہے گی- تاہم اہل علم کی تطبیق کی حیثیت زمانی ہوگی، نہ کہ ابدی - اگر قرآن کے ساتھ مثلِ قرآن (تطبیق) موجود نہ ہو توقرآن ہر دور کے لوگوں کے لئے رہنما کتاب نہیں بن سکتا-
مثال کے طورپر قرآن میں ایک اجتماعی اصول ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرَی بَیْنَھُمْ ( 42:38) یعنی اور ان کا نظام شورى پر ہے- قرآن کی اس آیت کی تبیین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کی ہے: کما تکونون کذلک یؤمّر علیکم (مشکاة المصابیح: 3717) یعنی اجتماعی زندگی کا امیر خود مجتمع کے مشورے سے طے ہوگا- موجودہ زمانے میںاس تطبیق کی مزید توسیع کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعی نظم کا فیصلہ جمہوریت (democracy) کے اصول پر بذریعہ انتخاب (election) کیاجائے گا-
اسی طرح ایک اور مثال یہ ہے کہ قرآن میں تیاری کا حکم دیتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (8:60) یعنی اور ان کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے تیار رکھو قوت- اس آیت میں قوت سے کیا مراد ہے- اس سلسلہ میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی(صحیح مسلم: 1917) یعنی سن لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، سن لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، سن لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے-
مذکورہ حدیث تطبیق کی ایک مثال ہے- اس میں اعداد قوت کی قرآنی تعلیم کو ساتویں صدی عیسوی کے حالات کے اعتبار سے بیان کیاگیا ہے- موجودہ زمانے میں حالات بدل چکے ہیں، اب نئے حالات کے لحاظ سے اعداد قوت کا مطلب ہوگا، اعداد علم- یعنی علم اور سائنس کے اعتبار سے اپنے آپ کو قوی بنانا- آج کی قوت تیر اندازی نہیں ہے، بلکہ وہ علوم ہیں جن کو سائنسی علوم کہاجاتاہے-
قرآن کی یہ تطبیق بھی ایک سنت رسول ہے، جو علمائے اسلام کے لئے ہر دور میں قابل اتباع ہے- ہر زمانے میں قوت کا معیار اور موثر کام کرنے کے طریقے بدلتے رہتے ہیں- قدیم قبائلی کلچر (tribal culture) میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جنگ کے ذریعہ دبدبہ قائم ہوتا ہے- مگر موجودہ زمانے میں نئے وسائل کے تحت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ پر امن طریقہ (peaceful method) کے ذریعہ دبدبہ قائم کیا جائے-یہی معاملہ ادبی اسلوب (idiom)کا ہے- اس اعتبار سے بھی موجودہ زمانے میں نئے نئے اسلوب رائج ہوئےہیں- تطبیق کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قرآن کی تعلیمات کو آج کے اسلوب میں بیان کیا جائے- مثلاً قرآن میں نقل وحرکت کے ذریعہ دعوت کو سیاحت کہاگیاہے- آج کے اسلوب میں اس کو دعوہ اِن ایکشن (dawah in action) کہاجاسکتا ہے- قرآن اپنے مشن کے اعتبار سے ہمیشہ ایک رہے گا، لیکن اپنی تطبیق (application) کے اعتبار سے اس میں اضافے ہوتے رہیں گے- جیساکہ حدیث میں آیا ہے: لا تنقضی عجائبہ (الترمذی: 2906) یعنی قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے-
واپس اوپر جائیں

دنیا ، آخرت

انسان پیدائش سے پہلے غیر موجود تھا، پھر اللہ نے اس کو پیداکرکے وجود ( 19:9) بخشا- انسان جب پیدا ہو کر سیارۂ ارض (planet earth) پر آتا ہے تو معجزاتی طورپر وہ پاتا ہے کہ یہاں اس کے لئے ضرورت کی ہر چیز موجود ہے- اسی واقعے کو قرآن میںان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأَتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوْہُ ( 14:34) یعنی اور اس نے تم کو ہر چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا-
تخلیق کے بعد یہ انسان کے اوپر خدا کی دوسری رحمت ہے- یہ انوکھی بات ہے کہ انسان کو پیدا ہوتے ہی فی الفور ایک ایسی دنیا مل جاتی ہے، جہاں اس کے لئے تمام سامان حیات پیشگی طورپر موجود ہیں- گویا کہ خالق ہر پیداہونے والے انسان سے یہ کہہ رہاہے کہ اے میرے بندے، جاؤ اور میری دنیا میں آزادانہ طورپر رہو- وہاں تمھارے لئے تمھاری ضرورت (need) کی تمام چیزیں وافر مقدار میں بلا قیمت موجود ہیں- یہی معاملہ مزید اضافے کے ساتھ آخرت کا ہے- آخرت کے دورِ حیات میں انسان کے لئے جو معیاری جنت بنائی گئی ہےاس کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِىٓ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ(41:31) یعنی اور تمھارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کو تمھارا دل چاہے اور تمھارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے-
یہ انسان کے لئےناقابلِ قیاس حد تک ایک عجیب رحمت کا معاملہ ہے-یعنی ایک ابدی نوعیت کی معیاری دنیا- گویا خالق انسان سے یہ کہہ رہا ہے کہ اے میرے بندے، آخرت کے ابدی دور حیات میں تمھارے رب نے تمھارے لئے ایک ایسی آئڈیل دنیا تیار کررکھی ہے، جہاں تمھاری طلب (demand) اور تمھاری اشتہا (desire) کے مطابق تم کو ہر چیز ملے گی- جہاں تمھارے لئے کامل فُل فِل مینٹ (total fulfillment)کا انتظام ہے- ایک ایسی دنیا جو پوری طرح حَزَن (sorrow) سے خالی ہوگی- موجودہ دنیا کا سامان حیات ہر پیداہونے والے انسان کے لئے ہے، لیکن آخرت کی جنت صرف اس انسان کے لئے ہوگی، جو اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کرے-
واپس اوپر جائیں

آیت امانت

قرآن کی سورہ الاحزاب کی دو آیتوں میں تخلیق آدم کی نوعیت کو بیان کیاگیا ہے- ان کا ترجمہ یہ ہے: ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔تاکہ اﷲ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے۔ اور اﷲ بخشنے والا ،مہربان ہے(33:72-73) ۔
قرآن کی اس آیت میں آدم (انسان)کی منفرد نوعیت کو بتایا گیا ہے- کائنات کی بقیہ تمام چیزوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں- اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ وہ ایک صاحبِ اختیار مخلوق پیدا کرے- اس منصوبے کے تحت اللہ نے انسان کو پیدا کیا- مذکورہ آیت میں امانت سے مراد اختیار (freedom of choice) ہے- اس منصوبے کے تحت انسان کو جو صلاحیتیں دی گئیں، ان کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ انسان ایڈونچرسٹ (adventurist) بن گیا- یہی وہ حقیقت ہے، جس کو ظلوم وجہول کے الفاظ سے تعبیر کیا گیاہے-
انسان کو امانت کی نعمت دینا، انسان کے لئے عظیم رحمت کا معاملہ تھا-اس امانت (اختیار) کو پاکر یہ اندیشہ تھا کہ انسان بگاڑ کا شکار ہوجائے، مگر یہی وہ احوال ہیں جن کے اندر وہ مطلوب انسان بنتا ہے، جس کو قرآن میں مومن کہاگیا ہے- لیکن انسان فرشتہ نہیں، انسان لازمی طورپر غلطی کرتا ہے، تاہم انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ ہر غلطی کے بعد ندامت (repentance) میں مبتلا ہوتا ہے- وہ توبہ کرتا ہے، یعنی وہ یوٹرن لیتاہے- توبہ کے معاملے میں اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انسان سے توبہ کو قبول فرمائےگا- مزید یہ کہ غلطی کرنا اور پھر توبہ کرنا کوئی سادہ بات نہیں- یہ ایک ذہنی عمل (intellectual process) ہے۔ اس کے دوران انسان کی شخصیت اعلی ترقی کے مدارج طے کرتی ہے، اور آخر کار جنت میں داخلے کا مستحق بن جاتی ہے-
واپس اوپر جائیں