Pages

Monday 2 November 2015

Al Risala | November 2015 (الرسالہ،نومبر)

4

-کلامِ الٰہی کی تبلیغ

5

- آخرت کی تلافی

6

- کریڈٹ لینے کا مزاج

7

- خطبۂ حجۃ الوداع

11

- توحید— انسانیت کی منزل

35

- مخالفین مذہب کا استدلال

42

- شادی کا مسئلہ

43

- سوال وجواب

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


کلامِ الٰہی کی تبلیغ

قرآن کی سورہ نمبر9 میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّى یَسْمَعَ کَلَامَ اللَّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لَا یَعْلَمُونَ (التوبۃ: 6)یعنی اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص تم سے پناہ مانگے تو تم اس کو پنا ہ دو، تاکہ وہ اﷲ کا کلام سنے، پھر اس کو اس کے امان کی جگہ پہنچا دو۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے۔
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ محدود طور پرصرف پر مستأمِن (asylum seeker) کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ وہ ایک عام دعوتی حکم کے معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم بستی کو ایک ایسی بستی ہونا چاہیے، جہاں کلام اللہ (word of God) کی تبلیغ کا ماحول ہو۔ جہاں کا ہر گھر عملاً ایک دعوتی گھر ہو، جہاں کی ہرمسجد ایک دعوتی مسجد ہو، جہاں کا ہر مدرسہ ایک دعوتی مدسہ ہو، جہاں کی ہر مجلس ایک دعوتی مجلس ہو۔ جب ایسا ہو گا ،اسی وقت یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ وہاں آنے والا کوئی انسان اللہ کی بات کو سنے ۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے۔ کوئی تجارتی بستی ہو تو وہاں ہر طرف تجارت کی آواز سنائی دے گی۔ یہی معاملہ اہل ایمان کی کسی بستی کا ہے۔ اہل ایمان کی بستی اگر زندہ بستی ہو تووہ ہر اعتبار سے دعوت حق کی ایک بستی ہوگی۔ اہل ایمان کی بستی کو ایک ایسی بستی ہونا چاہیے، جہاں آنے والا کوئی شخص اپنے آپ حق سے متعارف ہونے لگے۔ جس طرح تجارتی بستی میں ہر طرف تجارت کی آواز گونجتی ہے، اسی طرح اہل ایمان کی بستی وہ ہے جہاں ہر طرف حق کی آواز سنائی دیتی ہو۔
اہل ایمان کی کوئی بستی دعوتی بستی اس وقت ہوسکتی ہے، جب کہ وہاں رہنے والے افراد کے دلوں میں دعوتی ذمہ داری کا احساس موجود ہو۔ اسی کےساتھ ان کے دلوں میں عام انسان کے لیے خیر خواہی کا جذبہ پایا جاتا ہو۔ یہ دونوں باتیں اگر موجود ہوں تو اہل ایمان کی بستی اپنے آپ دعوتی بستی بن جائے گی۔ایسی بستی کا ہر فرد گویاایک داعی ہوگا، اور وہاں آنے والا ہر فرد گویا ایک مدعو۔
واپس اوپر جائیں

آخرت کی تلافی

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، قال :أتدرون ما المفلس؟قالوا: المفلس فینا من لا درہم لہ ولا متاع، فقال: إن المفلس من أمتی یأتی یوم القیامة بصلاة، وصیام، وزکاة، ویأتی قد شتم ہذا، وقذف ہذا، وأکل مال ہذا، وسفک دم ہذا، وضرب ہذا، فیعطى ہذا من حسناتہ، وہذا من حسناتہ، فإن فنیت حسناتہ قبل أن یقضى ما علیہ أخذ من خطایاہم فطرحت علیہ، ثم طرح فی النار (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2581) یعنی ابو ہریرہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ، کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے۔لوگوں نے کہا کہ ہم میں مفلس وہ ہے، جس کے پاس نہ درہم ہو، اور نہ کوئی سامان۔ آپ نے کہا کہ بے شک میری امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے نماز کے ساتھ، اور روزے کے ساتھ اور زکاۃ کے ساتھ، مگر اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، اور کسی کا خون بہایا ہوگا، اور کسی کو مارا ہوگا، پس ان میں سے ہر ایک کو اِس کی نیکیوں میں سے دیا جائے گا، پھر اگر لوگوں کو ان کا بدلہ دینے سے پہلےاس کی نیکیاں ختم ہوجائیں،تو اُن لوگوں کی خطاؤں میں سے لیا جائے گا، اور ان کو اس کے اوپر ڈال دیا جائے گا، پھر اس کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔
اس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک مسلمان بظاہر عبادت گزار ہو، مگر اسی کے ساتھ وہ اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہو۔ بظاہر عبادت گزاری کے باوجود، وہ بدزبانی کرے، لوگوں کے اوپر جھوٹا الزام لگائے، وہ ناحق کسی کا مال غصب کرلے، اس نے کسی کو قتل کیا ہو، اس نے کسی کو مارا ہو تو قیامت میں اس کی نیکیوں کو لے کر انھیں دے دیا جائے گا، جن کے اوپر اس نے دنیا میں ظلم کیا تھا۔ اور اگر یہ کافی نہ ہو تو مظلوموں کے گناہوں کو لے کر اس کے اوپر ڈال دیا جائے گا، اور پھر اس کو جہنم میں داخل کردیا جائے گا— یہ حدیث اتنی سخت ہے کہ اس کو سن کر آدمی کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

کریڈٹ لینے کا مزاج

احساسِ برتری (superiority complex) کا ایک ظاہرہ یہ ہے کہ آدمی ایسے عمل کا کریڈٹ لینا چاہتا ہے جس کو اس نے کیا نہیں۔ اس کردار کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیاہے: وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا (3:188)۔ اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ فارسی شاعر فردوسی (وفات: 1025) نے اپنی مشہور نظم شاہنامہ میں ایرانی پہلوان رستم کا ذکر کیا ہے۔ رستم اپنی قابلیت سے ایک مشہور پہلوان بنا تھا۔ لیکن فردوسی نے شاہنامہ میں اس کی بابت یہ شعر لکھا ہے کہ میں نے اس کورستم پہلوان بنایا ہے، ورنہ وہ اکھاڑےکا ایک معمولی آدمی تھا:
منش کردہ ام رستمِ پہلواں وگرنہ یلے بود در سیستاں
قومی مزاج کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندستان کے مسلمان اس کی ایک واضح مثال ہیں۔ آزادی (1947) کے بعد یہاں کے مسلم قائدین نے مسلمانوں کے اندر یہ ذہن بنایا کہ ہمارا ووٹ اس ملک میں بیلنسنگ(balancing) ووٹ ہے۔ہم اس ملک میں بادشاہ گر (kingmaker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ہم جس کو چاہیں جتائیں اور جس کو چاہیں ہرائیں۔اس مزاج کا مظاہرہ بڑے پیمانے پر مئی 2014 کے جنرل الیکشن میں ہوا۔ اس موقعے پر ہندوستان کے مسلمانوں نے متفقہ طور پر یہ کوشش کی کہ الیکشن میں بی جےپی کو ہرائیں۔ مگر نتیجہ الٹا بر آمد ہوا۔ بی جے پی کو اتنی بڑی کامیابی ہوئی کہ مسلمانوںکے نزدیک سب سے زیادہ معتوب آدمی ملک کا پرائم منسٹر بن گیا۔
فرضی کریڈٹ لینے کا مزاج دوسروں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا لیکن جن لوگوں کے اندر یہ مزاج ہو، ان کو ضرور اس کا نقصان پہنچتا ہے۔ اس صفت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کے اندر غیر حقیقت پسندانہ مزاج بنتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو زیادہ سمجھنے لگتا ہے، اور دوسروں کو کم۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسان کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development) کا عمل رک جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خطبۂ حجۃ الوداع

حجۃ الوداع کا خطبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری اہم ترین تقریر ہے۔ یہ وہ خطبہ ہے جو آپ نے ۹ ؍ذی الحجہ۱۰ ھ کو عرفات کے میدان میں دیا تھا۔ حجۃ الوداع گویا زمانۂ نبوت کا سب سے بڑا اسلامی اجتماع تھا۔ اس موقع پر تقریباً سوا لاکھ اصحاب رسول جمع تھے۔ اس وقت اپنی وفا ت سے تقریباً دو ماہ قبل آپ نے یہ خطبہ دیا۔ اس میں آپ نے ان تمام باتوں کا آخری اعلان فرمایا جس کے لیے آپ مبعوث کئے گئے تھے۔
حدیث کی کتابوں میں حجۃ الوداع کا نہایت تفصیلی تذکرہ ہے۔ مگر خطبہ حجۃ الوداع کسی روایت میں ایک کامل متن کی صورت میں مذکور نہیں۔ مختلف روایتوں میں اس کے متفرق اجزاء ملتے ہیں۔ متعدد اہل علم نے ان اجزا ء کو جوڑ کر ایک مجموعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔یہ خطبہ ایک لفظ میں خدا کی عظمت اور انسان کی مساوات کا اعلان تھا۔ آپ نے بتایا کہ انسانوں کے درمیان صحیح تقسیم صرف ایک ہے اور وہ خداپرست ہونے اور خدا پر ست نہ ہونے کی ہے۔ اس کے سوا دوسری تمام تقسیمات مصنوعی ہیں۔ آپ نے انہیں باطل ٹھہرا یا اور امت کو ذمہ دار بنایا کہ وہ ہمیشہ اس کا اعلان کرتی رہے۔
اس اعلان کا ایک عملی اظہار یہ تھا کہ جس وقت سوا لاکھ انسانوں کے درمیان آپ نے عظمتِ خداوندی اور مساوات انسانی کا یہ خطبہ دیا اس وقت آپ کے سب سے زیادہ قریب دو آزاد شدہ غلام تھے۔ ایک بلال حبشی جو آپ کی سواری کی مہار پکڑے ہوئے تھے۔ اور دوسرے اسامہ بن زید جو آپ کے سر پر کپڑے کا سایہ کئے ہوئے تھے۔یہاں اس اہم خطبے کا ترجمہ نقل کیاجا رہا ہے:
ترجمہ
بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تمہارے اوپر حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس شہر میں حرام ہے۔ سن لو کہ جاہلیت کے معاملے کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے ہے اور جاہلیت کے تمام خون با طل کر دئے گئے اور سب سے پہلا خون جو میں باطل کرتا ہوں وہ ہمارا خون، ربیعہ بن حارث کا خون ہے۔ اس نے بنو سعد سے دودھ پلانے والی کوطلب کیا تھا پھر اس کو ہذیل نے قتل کیا۔ اور جاہلیت کے تمام سود باطل ہیں۔ اور سب سے پہلا سود جو میں باطل کرتا ہوں وہ ہمارے خاندان کا سود، عباس بن عبد المطلب کا سود ہے وہ سب کا سب باطل ہے۔ تم لوگ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے۔ اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمہ سے حلال کیا ہے۔ اور ان کے اوپر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو، جس کا آنا تمہیں پسند نہیں، نہ آنے دیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو ایسی مار مار سکتے ہو جو ظاہر نہ ہو۔ اور تمہارے اوپر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کو معروف طریقہ پر کھانا اور کپڑا دو۔ اور میں تمہارے درمیان ایک چیز چھوڑ رہا ہوں۔ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑو گے تو تم گمراہ نہ ہوگے۔ وہ چیز خدا کی کتاب ہے۔ اور تم سے میری بابت پوچھا جائے گا۔ تو تم کیا کہو گے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پہونچا دیا اور ادا کر دیا اور خیر خواہی کی۔ آپ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر اس کو لوگوں کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ۔
دوسرا خطبہ
اے لوگو تم کیا جانتے ہو کہ تم کس مہینہ میں ہو اور تم کس دن میں ہو اور تم کس شہر میں ہو۔ لوگوں نے کہا کہ حرام دن اور حرام شہر اور حرام مہینہ میں۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے اوپر اسی طرح قیامت تک کے لیے حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارا یہ مہینہ اور تمہارا یہ شہر حرام ہے۔پھر فرمایا۔ میری بات سنو اور اس کے مطابق زندگی گزارو۔ خبردار، ظلم نہ کرنا۔ بے شک کسی مسلمان آدمی کا مال لینا جائز نہیں، الاّ یہ کہ وہ راضی ہو۔ سنو، جاہلیت کا ہر خون اور مال اور شرف قیامت تک کے لیے میرے دونوں قدموں کے نیچے ہیں اور پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ ابن حارث ابن عبد المطلب کا خون ہے۔اس نے بنو سعد سے دودھ پلانے والی کو طلب کیا تھا۔ پھر ہذیل نے اس کو قتل کر دیا۔ جاہلیت کے تمام سود باطل کئے گئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ پہلا سود جو باطل کیا جائے وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ تمہارے لیے تمہارا راس المال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تمہارے اوپر کوئی ظلم کیا جائے۔ سنو، زمانہ گھوم گیا (پس وہ آج) اسی نقط پر ہے جس دن کہ خدا نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : خدا کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں، خدا کی کتاب میں، جس دن کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار مہینے محترم ہیں۔یہی سیدھا دین ہے، پس تم ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ سنو، میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ سنو، شیطان اس سے مایوس ہو چکا ہے کہ نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں، لیکن آپس میں تم کو بر انگیختہ کرکے وہ اپنا مقصد حاصل کرے گا۔ اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ کیونکہ وہ تمہاری دست نگر ہیں۔ وہ اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتیں اور تمہارے اوپر ان کا حق ہے اور ان کے اوپر تمہارا حق ہے، یہ کہ تمہارے بستر پر وہ تمہارے سوا کسی اور کو نہ آنے دیں اور نہ ایسے شخص کو تمہارے گھر میں آنے دیں جس کو تم نا پسند کرتے ہو۔ پھر اگر تم ان سے نافرمانی کا اندیشہ محسوس کرو تو ان کو نصیحت کرو۔ اور ان کو خواب گاہوں میں چھوڑ دو۔ اور ان کو ہلکی مار مارو۔ اور انہیں معروف طریقے پر کھانے اور کپڑے کا حق ہے۔ تم نے ان کو خدا کی امانت کے طور پر لیا ہے۔ اور ان کی شرمگا ہوں کو اللہ کے کلمہ سے حلال کیا ہے۔ سنو، جس کے پاس کوئی امانت ہو تو وہ اس کو صاحب امانت کو واپس کر دے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور فرمایا۔ کیا میں نے پہونچا دیا، کیا میں نے پہونچا دیا۔ پھر آپ نے کہا جو حاضر ہے وہ غیر حاضر کو پہونچا دے کیونکہ بہت سے وہ لوگ جنہیں پہونچایا جائے وہ سننے والوں سے زیادہ خوش بخت ہوتے ہیں۔ (مسند احمد)
تشریح
اس پورے خطبہ کا خلاصہ اس کے اس لفظ میں ہے : الا لاتظلموا۔ الا لا تظلموا۔ (خبردارظلم نہ کرنا۔ خبر دار ظلم نہ کرنا) اس خطبہ کا مقصد ظلم کے ہر دروازہ کو بند کرنا ہے خواہ وہ جھوٹے توہمات کی وجہ سے پیدا ہوا ہو یا غلط قوانین کی وجہ سے یا غرور اور سرکشی کی وجہ سے۔اس مقصد کے لیے اعلان کر دیا گیا کہ اصولی طور پر ہر آدمی کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو دوسرے کے لیے حرام ہے، اِ لاّ یہ کہ اللہ کے واضح قانون کی بنا پر اس کا جواز ثابت ہوتا ہو۔ جاہلی روایات اور انتقامی جذبات کے تحت ایک دوسرے کے خلاف جو کارروائیاں کی جاتی ہیں وہ مطلق طور پر ممنوع قرار دیدی گئیں۔
سودی لین دین کو با لکل حرام قرار دے دیا گیا جو کہ سماج کے مختلف طبقات کے درمیان معاشی ظلم پیدا کرتا ہے۔ نیز دوسرے بالو اسطہ طریقوں سے سماجی انصاف میں زبردست رکاوٹ ہے۔ عورتوں کے حقوق کو واضح طور پر متعین کر دیا گیا۔ اور مردوں کو اس سے روک دیا گیا کہ وہ عورت کو کمزور پاکر انھیں اپنی زیادتی کا نشانہ بنائیں۔
انسانوں کے درمیان باہمی معاملات کے لیے خدا کی کتاب اور رسول کی سنت کو آخری معیار قرار دے دیا گیا۔ لوگوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنا ہر جھگڑا قرآن و سنت کے احکام کے ماتحت طے کریں، خواہ قرآن و سنت کا فیصلہ ان کی مرضی کے موافق ہو یا ان کی مرضی کے خلاف۔
مسلمانوں کو ان کی گمراہی کے واحد سب سے بڑے سبب سے روکا گیا، اور وہ آپس کی نزاع ہے۔ خدا نے آخری دین کو اتنا محفوظ اور مستحکم کر دیا ہے کہ اب دین میں بگاڑ کے لیے شیطان کوئی راستہ نہیں پا سکتا۔ البتہ مختلف قسم کے جھوٹے نزاع کھڑے کرکے وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑائے گا۔ مسلمان اگر اس فتنہ سے بچ گئے تو پھر کوئی دوسری چیز انھیں ہر گز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر امانت کی ادائیگی کا احساس پیدا ہو۔ خدا کے دین کو دوسروں تک پہونچانا بھی ادائیگی امانت ہے۔ لوگوں کے اموال کو انھیں لوٹانا بھی ادائیگی امانت ہے۔ اہل شخص کی اہلیت کا اعتراف کرکے اس کے لیے جگہ خالی کر دینا بھی ادائیگی امانت ہے۔ اور مسلمان کو پابند کیا گیا ہے کہ امانت کی ادائیگی کے ہر معاملہ میں وہ پوری طرح امین اور ذمہ دار ثابت ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ خطبہ گویا ایک زندہ پکار ہے۔ وہی حاجی حقیقی معنوں میں حاجی ہے جو حج کے دوران اس پکار کو سنے اور وہاں سے اس حال میں لوٹے کہ یہ خطبہ اس کی پوری زندگی کا لائحۂ عمل بن گیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

توحید— انسانیت کی منزل

خدا انسانیت کی منزل ہے۔ اس دنیا میں وہی انسان کامیاب ہے جو ایک خدا کو اپنا سب کچھ بنالے۔ ہر انسان ایک نامکمل وجود ہے۔ خدا کے ساتھ وابستہ ہو کر وہ اپنے آپ کو مکمل کرتا ہے۔ خدا انسانیت کے تمام تقاضوں کی واحد تکمیل ہے۔
ہر انسان ایک روحانی تلاش میں ہے۔ ہر انسان اپنے لئے سکون واعتماد کا ایک مرکز چاہتا ہے۔ یہ مرکز صرف ایک خدا ہے۔ خدا انسان کی روحانی تلاش کا واحد جواب ہے۔ جس انسان نے خدا کو پالیا، اس نے گویا وہ سب کچھ پالیا جس کو وہ اپنے فطری تقاضے کے تحت پانا چاہتا ہے۔
موجودہ دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے انسان کو ایک دستور حیات درکار ہے جو اس کو بتائے کہ لوگوں کے درمیان اس کو کس طرح رہنا ہے اور کس طرح نہیں رہنا ہے۔جو اس کو زندگی کی گائڈ بک عطا کرے۔ انسان کی اس طلب کا ماخذ بھی خدا ہے۔ خدا ہی انسان کو وہ قابل اعتماد رہنمائی دیتا ہے جس کی مدد سے وہ روشنی اوراندھیرے میں یکساں طورپر درست سفر کرسکے۔
خدا انسان کا خالق او رمالک ہے۔ وہی اس کا حق دار ہے کہ وہ انسان کو بتائے کہ زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے۔ انسانیت کا قافلہ کہاں سے شروع ہوا اور وہ کہاں جارہا ہے۔ وہ صحیح راستہ کیا ہے جس پر چل کر وہ بھٹکے بغیر منزل پر پہنچ سکے۔
ہر انسان کی سب سے پہلی اور سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ اس خدا کو پائے، وہ اپنے آپ کو خدا سے وابستہ کرے، وہ اس سے محبت کا تعلق قائم کرے ۔ وہ اپنی پوری زندگی کا رخ خدا کی طرف موڑ دے۔ خدا رخی زندگی (God-oriented life) ہی اس دنیا کی واحد درست زندگی ہے۔ جو ایسی زندگی کو اپنائے وہی کامیاب ہے اور جو ایسا نہ کرسکے وہی محروم اور ناکامیاب۔
کائنات کا نور
قرآن کی سورہ نمبر 24 میں بتایا گیا ہے: اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ(النور: 35) اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یعنی اس پوری کائنات میں جہاں بھی کوئی روشنی ہے وہ خدا کی ذات سے ہے۔ خدا اگر روشنی نہ دے تو کہیں اور سے کسی کو بھی روشنی ملنے والی نہیں۔
سورج اگر نہ ہو تو زمین پرہر طرف اندھیرا چھا جائے۔ اسی طرح اگر ستارے نہ ہو ں تو ساری کائنات گہری تاریکی میں ڈوب جائے۔ خدا نے ساری کائنات میں بے شمار تعداد میں انتہائی روشن قسم کے متحرک اجسام پھیلا دئے ہیں جو کائنات کے ہر حصہ کو مسلسل طورپر روشنی کا تحفہ دے رہے ہیں۔ اگر یہ کائناتی انتظام نہ ہو تو دنیا اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تاریکی کا ایک بھیانک غار بن جائے گی۔
یہ مادی روشنی کا معاملہ ہے۔ یہی معاملہ فکری اور روحانی روشنی کا ہے۔اس دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو ضرورت ہے کہ اس کے ذہن کو وہ رہنمائی ملے جس کی روشنی میں وہ صحیح طور پر سوچے اور اس کو وہ روحانی خوراک ملے جو اس کے سینہ میں حکمت حیات کا باغ اگا دے۔ اس فکری اور روحانی روشنی کا سرچشمہ بھی صرف اور صرف خداوند ذوالجلال ہے۔ یہ روحانی روشنی بھی ایک خدا کے سوا کہیں اور سے انسان کو ملنے والی نہیں۔
علمِ توحید
توحید کا عقیدہ اسلام میں اساسی عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے۔ توحید کے موضوع پر عربی اور دوسری زبانوں میں بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ آپ اِن کتابوں کو پڑھیں تو اُن میں آپ کو غرض و غایت کے اعتبار سے، اِس طرح کے الفاظ لکھے ہوئے ملیں گے: علمِ توحید سب سے افضل علم ہے۔ معاذ بن جبل کی مشہور روایت میں توحید کے عقیدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلیت دی تھی۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ توحید کا علم سب سے افضل علم ہے، وغیرہ۔
علمِ توحید بلاشبہہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔لیکن عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اہمیت اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ ایک افضل علم ہے۔ علمی اعتبار سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ ایک اساسی علم ہے۔ اساسی علم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ توحید ہی وہ بنیاد ہے جس پر بقیہ اسلامی اعمال کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ توحید کی اساس نہیں تو بقیہ اعمال بھی نہیں۔
فکری انقلاب
توحید محض ایک روایتی عقیدے کا نام نہیں۔ توحید دراصل عظیم ترین فکری انقلاب ہے جو عظیم ترین فکری دریافت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ توحید یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اپنے خالق اور مالک کی حیثیت سے دریافت کرے۔ اللہ جو پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے، اس کی دریافت جب کسی انسان کو ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں ایک فکری بھونچال پیدا ہوجاتاہے۔ اس کے اندر معرفت کا سمندر ایک طوفان بن کر داخل ہوجاتا ہے۔ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں ایک کامل نوعیت کی تبدیلی آجاتی ہے۔ اِس کے بعد وہ ایک نیا انسان بن جاتاہے۔ اِسی نئے انسان کا نام مؤحد انسان ہے۔
اسلامی دعوت کے کام کا آغاز یہ ہے کہ انسان کے اندر عقیدۂ توحید کی بنیاد پر ایک فکری انقلاب برپا کیا جائے۔ اِس فکری انقلاب کے بعدہی ایک انسان موحد انسان بنتا ہے، اور جب اِس انقلابی فکر کے حامل بہت سے افراد پیدا ہوجائیں تو اُن کے مجموعے سے وہ معاشرہ پیدا ہوتا ہے جس کو اسلامی معاشرہ کہاجاتاہے۔
توحید کا مفہوم
توحید کیا ہے۔توحید کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو ایک مانا جائے۔ یہ یقین کیا جائے کہ تمام طاقتیں اور ہر قسم کے اختیارات صرف ایک خدا کو حاصل ہیں۔ وہی تنہا عبادت کا مستحق ہے۔ عبادت کی قسم کا کوئی بھی فعل خدا کے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ خدا ہی انسان کی مرادیں اور حاجتیں پوری کرتا ہے۔ خدا ہی کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ برتری صرف ایک خدا کا حق ہے، کسی اور کو اس دنیا میں حقیقی برتری حاصل نہیں۔ ایسا ہر عقیدہ باطل ہے جس میں ان تمام پہلوؤں میں خدا کے سوا کسی اور کو شریک کیا جائے۔
قرآن میں توحید کے عقیدہ کو ایک آیت میں اس طرح بیان کیاگیا ہے— اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے والا۔ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کےبغیر سفارش کرے۔ وہ جانتاہے جوکچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جو وہ چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ تھکتا نہیں ان کے تھامنے سے اور وہی ہے بلند مرتبہ والا اوربڑا (البقرۃ: 255)
خدا کی پرستش کرنا، اپنے خالق ومالک کی پرستش کرنا ہے جو واقعی طورپر انسان کی پرستش کا حق دار ہے۔ اس کے برعکس کوئی آدمی جب غیر خدا کے آگے سر جھکاتا ہے تو وہ اپنے جیسی ایک مخلوق کے آگے سرجھکا تا ہےجو اس کا حق دار نہیں کہ اس کے آگے سر جھکایا جائے۔ خدا کی پرستش انسان کو عظمت عطا کرتی ہے اور غیرخدا کی پرستش اس کو توہمات میں مبتلا کردیتی ہے۔خدا کی پرستش سے معرفت حق کے دروازے کھلتے ہیں، اس کے برعکس آدمی جب غیر خدا کی پرستش کرتا ہے تو وہ حق کی معرفت کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کرلیتا ہے۔
توحید صرف ایک ہے ، مگر شرک کی ہزاروں قسمیں ہیں۔ موحد انسان کا مرکز توجہ اور مرکز عبودیت صرف ایک خدا ہوتا ہے۔وہ ہر حال میں اور اپنی پوری زندگی میں اسی ایک خدا کواپنا سب کچھ بنائے ہوئے رہتا ہے۔ مگر مشرک انسان کا کوئی ایک مرکزی نقطہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شرک کی بے شمارقسمیں بن جاتی ہیں — ستارہ پرستی، زمین پرستی، بت پرستی، ارباب پرستی، قبر پرستی سے لے کر نفس پرستی،دولت پرستی، اقتدار پرستی ، مفاد پرستی، اولاد پرستی، وغیرہ۔
یہ تمام چیزیں درجہ بدرجہ غیر اللہ کی پرستش میں شامل ہیں۔ اور قرآن میں ان کی کھلی مذمت کی گئی ہے۔ موحد انسان وہ ہے جو ہر قسم کی برتر حیثیت صرف ایک خدا کو دے۔ اسی سے اپنی مراد مانگے۔ اسی کے سامنے مراسم پرستش بجا لائے، اسی پر سب سے زیادہ بھروسہ کرے، اسی کو ہر اعتبار سے برتر حیثیت دے۔
پرستش کسی سے تعلق کے اظہار کا آخری درجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرستش کی تمام صورتیں صرف ایک خدا کا حق ہیں۔ پرستش کی نوعیت کی کوئی چیز کسی غیرخدا کے لیے جائز نہیں۔
خوف ومحبت کا مرکز
توحید کا مطلب ہے ایک اللہ پر اعتماد کرنا اور اپنے سارے دل اور اپنے سارے دماغ کے ساتھ اس سے وابستہ ہوجانا، اُسی کواپنے خوف ومحبت کے جذبات کا مرکز بنانا۔ انسان کے سوچنے اورمحسوس کرنے کی جو صلاحیتیں دی گئی ہیں، وہ اپنا کوئی نہ کوئی توجہاتی مرکز چاہتی ہیں۔ آدمی فطری طورپر چاہتا ہے کہ کوئی ہو جس کی طرف وہ لپکے، جس سے وہ امید رکھے، جس کے اوپر وہ بھروسہ کرے، جس کی یاد کووہ سرمایۂ حیات بنائے۔
آدمی اپنی ہستی کا ایک مرکز بنائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ خواہ یہ مرکز دولت واقتدار ہو یا قبریں اور دیوی دیوتا، یا کوئی دوسری چیز۔ یہ مرکز اگر اللہ کے سوا کوئی اور ہو تو یہ شرک ہے۔ اور اگر انسان صرف اللہ رب العالمین کو اپنی ہستی کا مرکز بنائے تو اسی کو توحید کہتے ہیں۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ آدمی اپنی توجہات کو صرف اللہ کی طرف موڑ دے۔ اس کے سوا کوئی چیزاس کے لئے مرکز توجہ کی حیثیت سے باقی نہ رہے۔
آدمی جب خدا کو اپنا معبود بناتا ہے تو وہ ایک ہستی کواپنا معبود بناتا ہے جو حقیقی طورپر موجود ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی آدمی غیر خدا کو اپنا معبود بنائے تو اس نے ایک ایسی چیز کو اپنا معبود بنایا جس کا واقعات کی دنیا میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں،خواہ بظاہر اس نے اس مفروضہ معبود کی ایک صورت بنا کر اپنے سامنے رکھ لی ہو۔ جوآدمی خدا کو اپنا معبود بنائے اس نے طاقت کے حقیقی سرچشمہ کو پالیا۔
اس کے برعکس جو آدمی غیر خدا کو اپنا معبودبناتا ہے وہ ایک ایسے توہماتی مفروضہ سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ خدا کا عبادت گزار ابدی سعادت سےہمکنار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس غیر خدا کے عبادت گزار کے لئے ابدی محرومی کے سوا کوئی اور چیزنہیں۔
پیغمبروں کا مشن
پچھلے زمانوں میں خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے وہ سب اسی لئے آئے کہ وہ انسان کو شرک سے ڈرائیں اور انھیں توحید کی تعلیم دیں، تاکہ انسان اس کے مطابق، اپنی زندگی کی اصلاح کرے اور دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کرسکے۔ مگر انسانیت کی لمبی تاریخ میں تقریباً ہر پیغمبر کے ساتھ ایسا ہوا کہ لوگوں کی زیادہ تعداد نے ان کی بات کو ماننے سے انکار کردیا۔ خاص طورپر سماج کے بڑے لوگ کبھی پیغمبر کو ماننے یا ان کا ساتھ دینے پرراضی نہیں ہوئے۔ اس تاریخی واقعہ کو قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے — افسوس ہے بندوں کے اوپر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے (یس: 30)۔
خدا کےپیغمبروں کو نظرانداز کرنے کا یہ معاملہ اس حد تک بڑھا کہ پچھلے دور میں آنے والے پیغمبر وں کوانسانی تاریخ کے ریکارڈ سے حذف کردیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ماضی کی مدون تاریخ میں بادشاہوں کی داستانیں توپڑھتے ہیں مگر پیغمبروں کا تذکرہ مدون تاریخ میں سرے سے موجود ہی نہیں۔
اس معاملہ میں صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا واحد استثناء ہے۔ آپ کو اللہ تعالی کی خصوصی مدد حاصل ہوئی۔ چنانچہ آپ نے پہلی بار ردّ شرک اور اثبات توحید کی تحریک کو ایک ایسی زندہ تحریک بنایا جس نے اس تحریک کو فکری مرحلہ سے اٹھا کر عملی انقلاب کے مرحلہ تک پہنچا دیا اور اس کی ایک مستقل تاریخ بنادی۔
دورکاوٹ
ردّ شرک اوراثبات توحید کی یہ تحریک قدیم زمانہ میں کیوں عملی انقلاب کے درجہ تک نہ پہنچ سکی۔ اس کا سبب خاص طورپر دو تھا : ایک، بادشاہت کا نظام، دوسرے، توہماتی افکار کا غلبہ۔ یہی دو بنیادی اسباب تھے جو پیغمبروں کے مشن کے خلاف ایک مستقل رکاوٹ بنے رہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے دور میں مشرکانہ بادشاہت کا نظام قائم تھا۔ موجودہ زمانہ میں جمہوری سیاست کا اصول رائج ہے۔ سیاسی لیڈر عوامی ووٹوں کے ذریعہ اپنے لئے حکمرانی کا حق حاصل کرتے ہیں۔ قدیم زمانہ کے بادشاہ اس کے برعکس یہ کرتے تھے کہ وہ لوگوں کو یہ یقین دلا کر حکومت کرتے تھے کہ ہم خدا کے نمائندے ہیں۔ ہم خدا کی اولاد ہیں۔
اسی نظریہ کے تحت قدیم زمانہ میں سورج ونشی اور چندر ونشی کا عقیدہ پیدا ہوا۔ گویا موجودہ زمانہ میں حکومت کی بنیاد سیکولر جمہوریت ہے جب کہ قدیم زمانہ میں حکومت کی بنیاد مشرکانہ عقیدہ پر ہوتی تھی۔ اسی واقعہ کی طرف قرآن میں ان الفاظ میںاشارہ کیاگیا ہے: أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلٰى (النازعات: 24)۔ اس بنا پر یہ بادشاہوں کے عین سیاسی مفاد میں تھا کہ شرک کا عقیدہ دنیا میں قائم رہے۔چنانچہ ان کی خصوصی سرپرستی کے تحت عبادت گاہ سے لے کر جینے مرنے کی رسموں تک زندگی کا پورا نظام شرک کے اوپر قائم ہوگیا تھا۔
یہ مشرکانہ نظام قدیم زمانہ میںہزاروں سال تک تمام دنیا میںچھایا رہا۔ بادشاہوں کی سرپرستی کی بنا پریہ مشرکانہ نظام اتنا زیادہ طاقتور ہوگیا کہ وہ ہمیشہ پیغمبروں کے خلاف ایک مؤثر رکاوٹ بنا رہا۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ قدیم زمانہ میں پیغمبروں کی تحریک صرف پیغام رسانی کے مرحلہ تک محدود رہی، وہ وسیع تر عملی انقلاب کے مرحلہ تک نہ پہنچ سکی۔
اس سلسلہ میں دوسری رکاوٹ وہ تھی جس کو توہماتی افکار کا دَور کہا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانہ میں جب کہ جدید قسم کی سائنسی دریافتیں نہیں ہوئی تھیں، انسان فطرت کے مظاہر کی صحیح نوعیت کونہیں سمجھ پایا تھا۔ وہ دیکھتا تھا کہ دنیا میں مختلف قسم کی حیران کن چیزیں ہیں۔ سورج،چاند، ستارے،پہاڑاور سمندر، زمین اور آسمان، درخت اور حیوانات وغیرہ وغیرہ۔
مظاہر کے اس تعدد کو دیکھ کر انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ ان کے خالق بھی کئی ہیں یا یہ کہ مختلف مظاہر خود مختلف خداؤں کا ظہور ہیں۔ اس طرح تعدّدِ مظاہر کی بنا پر تعدّدِ الٰہ کا نظریہ پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ سورج اور چاند کوان کے غیر معمولی پن کی بنا پر خدا یا دیوتا سمجھا جانے لگا۔ انسان کے لئے یہ ناقابل یقین ہوگیا کہ جب مخلوقات میں اتنا زیادہ تنوع اور تعدد ہے تو ان سب کا خدا ایک کیسے ہوسکتا ہے۔
اسی حقیقت کی طرف خداکے پیغمبر حضرت ابراہیم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا تھا: رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا (ابراہیم: 36) یعنی فطرت کے یہ نمایاں مظاہر (سورج، چاند وغیرہ) نے انسان کو دھوکہ میں ڈال دیا۔ لوگ انھیں مظاہر کو عظیم سمجھنے لگے۔ حالانکہ انھیں چاہیے تھا کہ وہ ان تمام چیزوں کوعظیم خدا کی مخلوق سمجھیں۔ مگر اس کے برعکس انھوںنے خود مخلوقات ہی کو خدا سمجھ کر ان کو پوجنا شروع کردیا۔
موجودہ زمانہ میں مذکورہ دونوں افسانوں کا خاتمہ ہوگیا۔ ایک طرف جمہوری افکار کے ذریعہ ساری دنیا میں جو طاقتور سیاسی انقلاب آیا اس نے قدیم طرزکی مشرکانہ بادشاہت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا۔
اب آج کی دنیا میں قدیم طرز کے بادشاہوں کا کہیںوجود نہیں۔ وہ جدید جمہوریت کے سیلاب میں خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔ اس جدید سیاسی انقلاب کے بعد مشرکانہ عقیدہ یا مشرکانہ نظام اس موثر سرپرستی سےمحروم ہوگیا جو ردّ شرک اوراثباتِ توحید کی دعوت میںطاقتور رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اب یہ امکان پوری طرح کھل گیا ہے کہ پیغمبرانہ دعوت کو بھر پور طورپر جاری کیا جائے اوراس کواس طرح چلایا جائے کہ اول سے آخر تک کسی بھی مرحلہ میں اس کوکسی مزاحمت کا خطرہ نہ ہو۔
توحید کا آغاز
توحید کاآغاز معرفت (realization) سے ہوتا ہے۔ یعنی خدا کو خالق و مالک کی حیثیت سے دریافت کرنا ۔ کسی انسان کو جب خدا کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ اس کو قرآن میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میںایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:
اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اِس سبب سے کہ ان کو حق کی معرفت حاصل ہوئی۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اُس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔ پس اللہ ان کو اِس قول کے بدلہ میں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا (المائدة : 83-85 ) ۔
خدا کی معرفت آدمی کے اندر کس قسم کی شخصیت پیدا کرتی ہے، اس کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذِکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (الانفال: 2)
توحید کا خطاب
توحید کے عقیدہ کا خطاب اصلاً انسان سے ہے نہ کہ کسی نظام سے۔ یہ عقیدہ ایک فرد کے اندر جگہ پکڑتا ہے۔ وہ فرد کو یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا اس کا خالق اور مالک ہے۔ وہ فرد کو خدا کی عظمت کے احساس میں سرشار کردیتا ہے۔ وہ انسان کی پوری شخصیت کو خدا کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ وہ انسان کے فکر اور احساس کا کامل رہنما بن جاتا ہے۔
ایسا انسان خدا کو یاد کرنے والا بن جاتا ہے۔ وہ خدا کی پکڑ سے بچنا چاہتا ہے اور خدا کے انعام کا حریص بن جاتا ہے۔ توحید کا عقیدہ انسان کی داخلی شخصیت میں اِس طرح بھونچال بن کر داخل ہوتا ہے کہ وہ اس کی پوری زندگی کو ہِلا دیتا ہے۔ وہ خدا کو اپنا سب کچھ بنا لیتا ہے۔ اس کا جینا اور مرنا خدا کے لیے بن جاتا ہے۔ اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی (God-oriented life) بن جاتی ہے۔
توحید اور شرک
قرآن کی سورہ نمبر2کی ایک آیت یہ ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ۭ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۭ وَلَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ (البقرۃ: 165 ) یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وہ عذاب سے دوچار ہوںگے تو وہ سمجھ لیتے کہ زور سارا کا سارا اللہ کا ہے اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا نِدّ ٹھہرایا جائے۔ نِدّ کے معنی مِثل (equal) کے ہیں۔ اللہ کے سوا، کسی اور کو اُس کا نِدّ ٹھہرانا شرک ہے، خواہ وہ کلی معنی میں ہو یا جزئی معنی میں۔
اللہ کا نِدّ ٹھہرانا کن پہلوؤں سے ہوتا ہے، مذکورہ آیت میںاِس کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں— محبت، اور قوت۔ قرآن کی ایک اور آیت کے مطابق، اِس کا تیسرا پہلو خشیت (التوبۃ:18 ) ہے۔ بنیادی طورپر یہی تین چیزیں ہیں جو شرک کی پہچان ہیں۔ مذکورہ تینوں معاملے میں جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو شریک کیا، اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ حتی کہ اگر کسی شخص نے خود اپنے آپ کو اِس قسم کا درجہ دیا تو اس کا کیس بھی شرک کا کیس بن جائے گا (الجاثیۃ:23 )۔
اِس بات کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے — توحید کا مطلب ہے ہر اعتبار سے، صرف ایک اللہ کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنانا، اور شرک کا مطلب ہے— جزئی یا کلی طورپر کسی غیر اللہ کو اِس کنسرن میں شریک کرنا۔
جب کوئی شخص اللہ کو اِس حیثیت سے دریافت کرے کہ یہ اللہ ہے جس نے اس کو عدم سے وجود بخشا، جس نے اس کو اعلیٰ درجے کی شخصیت عطا فرمائی، جس نے اس کو زمین جیسے نادر سیارے پر آباد کیا، جس نے اُس کے لیے لائف سپورٹ سسٹم کا انتظام کیا، وغیرہ۔ اِس طرح کا احساس آدمی کے اندر اللہ کے ساتھ بے پناہ تعلق پیدا کرتا ہے، وہ اللہ کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ یہی اللہ کے ساتھ شدید محبت کی بنیاد ہے۔
پھر جب وہ اللہ کی اِس حیثیت کو دریافت کرتا ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کا یک طرفہ عطیہ ہیں، کسی بھی وقت اللہ اس کو چھین سکتا ہے۔ پھر یہ کہ ہر عطیہ کے ساتھ جواب دہی (accountability) جڑی ہوئی ہے۔ یہ احساس اس کو مزید اِس اندیشے میں مبتلا کردیتا ہے کہ اگر میںنے ان عطیاتِ الٰہی کا حق ادا نہ کیا تو اللہ کے یہاں میری سخت پکڑ ہوگی۔ یہ احساسات آدمی کے اندر وہ کیفیت پیدا کردیتے ہیں جس کو قرآن میں خوفِ شدید (التوبۃ:18 ) کہا گیا ہے۔
اِسی کے ساتھ آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ اِس دنیا میں سارا اختیار صرف ایک اللہ کو حاصل ہے، اللہ کے سوا کسی اور کو جزئی درجے میں بھی کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اللہ ہی دینے والا اور اللہ ہی محروم کرنے والا ہے۔ یہ احساس اُس کو اپنے عجز ِ کامل کی یاد دلاتا ہے۔ وہ اِس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں پاتا کہ وہ اللہ کے آگے اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کردے۔
اہلِ توحید اور اہلِ شرک
آدمی جب خدائے واحد پر سچا یقین کرتا ہے تو نفسیاتی سطح پر خدا سے اس کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد روحانی تاروں پر اس کی پوری ہستی جگمگا اٹھتی ہے۔ وہ اپنی یادوں میں خدا کوپانے لگتا ہے۔ وہ اپنے آنسوؤں میں خدا کی جھلک دیکھنے لگتا ہے۔ اس کی سوچ اورجذبات میںخدا اس طرح بس جاتا ہے جیسے کہ وہ خدا کے پڑوس میں پہنچ گیا ہو، جیسے کہ وہ خدا کے رحمت بھرے سایہ میں زندگی گزارنے لگا ہو۔
قرآن میں شرک کے بارہ میں بتایا گیا ہے کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے (لقمان: 13)۔ ظلم کا مطلب ہے کسی چیز کو غیر جگہ پر رکھ دینا (وضع الشیٔ فی غیرموضعہ)۔ یعنی شرک (خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا) اس کائنات میں سراسر اجنبی ہے۔ اس دنیا میں شرک کا عقیدہ رکھنے یا مشرکانہ فعل کرنے کے لئے کائنات میں کوئی جگہ نہیں۔
اس دنیا کا خالق ایک ہی خدا ہے۔ وہی اس کا مالک ہے۔ وہی اس کو سنبھالنے والا ہے۔ اسی کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہیں۔ ایسی حالت میں جو شخص خدا کے سوا کسی اور کو خدا مانے یا کسی اور کو خدا کی خدائی میں شریک کرے اس نے ایک خود ساختہ مفروضہ کو واقعی حقیقت کا درجہ دے دیا۔ اس نے ایک ایسی چیز کو موجود فرض کیا جس کا اس دنیا میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
مشرکانہ طرز فکر تمام برائیوں میں سب سے بڑی برائی ہے۔ جس آدمی کا ذہن مشرکانہ طرز پر سوچے، جس آدمی کے دل میں مشرکانہ خیالات پرورش پائیں، وہ ایک بے حقیقت چیز کو اختیار کرتا ہے۔ کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کی تردید کرتی ہے۔
شرک کا عقیدہ یا نظریہ آدمی کو فکری غذا دینے والا نہیں۔ وہ اس کو اس روحانی روشنی سے منور کرنے والا نہیں جس کے بغیر آدمی کا پورا وجود ہی اس دنیا میں بے معنی ہو جاتا ہے۔
توحید کی حقیقت کو کسی ایک لفظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ بندے کے ایک ایسے تعلق کا نام ہے جو محبت اور خوف اور توکل کے جذبات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کوئی بندہ اس وقت اللہ کا موحد بنتا ہے جب کہ وہ اللہ کو اس طرح پائے کہ وہی اس کا محبوب بن جائے۔ اسی پر وہ سب سے زیادہ بھروسہ کرنے لگے۔ اس کو سب سے زیادہ جس بات کا اندیشہ ہو وہ یہ کہ کہیں اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو اس کو خدا کی رحمتوں سے محروم کردے۔ ان تمام انسانی جذبات کے لئے صرف اللہ کوخاص کرلینے کا نام توحید ہے۔ اس سلسلہ میں یہاں قرآن سے چند آیتیںنقل کی جاتی ہیں:
’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وہ عذاب سے دوچار ہوںگے تو وہ سمجھ لیتے کہ زور سارا کا سارا اللہ کا ہے اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے‘‘۔(البقرۃ: 165 )
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۭ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (التغابن: 13) یعنی اﷲ ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، اور ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔
اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَــیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًا ۭ وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ (الانبیاء: 90) یعنی وہ لوگ دوڑتے تھے بھلائیوں پراورپکارتے تھے ہم کو امید سے اور ڈر سے اور وہ ہمارے آگے عاجزی کرنے والے تھے۔
ان آیات کے مطابق توحید، اعتقادی طورپر یہ ہے کہ آدمی سب سے زیادہ اپنے رب سے محبت کرنے لگے۔ اس کے لئے سب سے زیادہ بھروسہ کی چیز اس کا خدا بن جائے۔ اس کی امیدیں اور اس کے اندیشے اللہ کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوجائیں کہ وہ اپنے روز وشب کے لمحات میں اس کو بے تابانہ پکارنے لگے۔
اِسی دریافت کا نام معرفت (realization) ہے۔ اِس دریافت سے جس کے اندر وہ شخصیت بنے جب کہ ایک اللہ ہی اس کے لیے سب کچھ بن جائے، وہ اُسی کی یاد میں جئے اور یہی سوچ اس کی غالب سوچ بن جائے، ایسا انسان شریعت کی اصطلاح میں مو حّد ہے۔ اِس کے برعکس، اللہ جس کا واحد کنسرن نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ وہ دوسری چیزوں کو بھی اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہو، ایسا انسان شریعت کی اصطلاح میں شرک میں مبتلاہے۔ موحد کی شخصیت انٹگریٹیڈ پرسنالٹی (integrated personality) ہوتی ہے، اور مشرک کی شخصیت اسپلٹ پرسنالٹی(split personality) ۔
شریعت کے مطابق، اللہ انسان کی اصل غایت ہے، اور دوسری چیزیں صرف اس کی ضرورت۔ توحید اور شرک دونوں کا تعلق حقیقت سے ہے، نہ کہ صرف مظاہر سے۔
توحید اور شرک کا فرق
قرآن کے مطابق، شرک کا عقیدہ تمام انسانی برائیوں کی جڑ ہے۔ اس کے مقابلہ میں توحید کا عقیدہ تمام انسانی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ قرآن میں واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا گیا ہے— بے شک اللہ اس کو نہیں بخشے گا کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے۔ لیکن اس کے علاوہ جو کچھ ہے اس کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ اور جس نے کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرایا اس نے بڑا طوفان باندھا۔ (النساء: 48)
توحید کا مطلب خالق کو پالینا ہے اور شرک کا مطلب یہ ہے کہ آدمی مخلوقات میںاٹک کررہ جائے۔ توحید حقیقت کی سطح پر جینے کا نام ہے اور شرک کا مطلب توہمات کی سطح پرجینا۔ توحید اپنی فطرت کی دریافت کا نتیجہ ہے اور شرک اپنی فطرت سے بے خبری کا نتیجہ۔ اہل توحید ہی اس دنیا کے مطلوب انسان کی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ یہی لوگ ہیںجو خالق کی منشا کے مطابق ہیں۔
دنیا کے بنانے والے نے اس کو جس منصوبے کے تحت بنایا ہے، اہل توحید اس منصوبۂ الہی کی تکمیل کررہے ہیں۔ وہ اس نقشہ پر ہیں جس نقشہ پر انسان کو ہونا چاہئے۔ اہل توحید خدا کے مطلوب انسان ہیں۔ وہ دنیا میں دنیا کے مالک کی مرضی کو پورا کررہے ہیں۔
شرک اور اہلِ شرک کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ شرک خدا کی دنیا میں ایک اجنبی تصور ہے۔ اہلِ توحید اگر اس دنیا میں مطلوب لوگ (wanted people) ہیں تو اہلِ شرک اس کے برعکس غیر مطلوب لوگ (unwanted people) ۔ شرک کے عقیدہ کواس دنیا میں اس کے مالک کی سند حاصل نہیں۔ شرک کی روش اس دنیا میں ایک ایسی روش ہے جس کی اجازت دنیا کے مالک نے دنیا میں بسنے والوں کو نہیں دی۔
گول خانہ میں کوئی چوکور چیزرکھی جائے تو وہ اس کے اندر فٹ نہیں بیٹھے گی۔ جب کہ گول خانہ میں گول چیز بالکل فٹ بیٹھ جاتی ہے۔ یہی معاملہ توحید اور شرک کا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے صرف توحید کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس لئے توحید کا تصور یاموحدانہ زندگی اس کی فطرت کے عین مطابق ہے جب کہ شرک کا عقیدہ یا مشرکانہ زندگی انسانی فطرت کے مطابق نہیں۔
مشرک انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ غیر خدائی چیزیں اس کی توجہات کا مرکز بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس لئے پیش آنے والے مختلف حالات میں اس کا رویہ بھی انھیں غیر خدائی ہستیوں کی نسبت سے متعین ہوتا ہے۔ وہ اپنی کامیابی میں بھی انھیں کی طرف دوڑتا ہے اور ناکامی میں بھی وہ انھیں کی پناہ تلاش کرنا چاہتا ہے۔
اس کی مفروضہ غیر خدائی ہستیاں ہی ہر صورت حال میں اس کے دل ودماغ پر چھائی رہتی ہیں۔ موحد انسان اگر اپنے تجربات سے توحید کی غذا پاتا رہتا ہے تو مشرک انسان کے لئے اس کے تجربات مشرکانہ غذا کے حصول کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
شرک کی بے ثباتی
شرک کیا ہے۔شرک یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود بنائے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی انسان ، اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود بناتا ہے، تو وہ اپنے لیے نہایت بُرے بدل کا انتخاب کرتا ہے: بِئْسَ لِلظَّالِمِیْنَ بَدَلاً (الکہف: 50) یعنی یہ کتنا زیادہ بُرا بدل ہے ظالموں کے لئے:
How bad a substitute they have chosen ! (18:50)
یہ آیت گویا کہ پوری تاریخ پر ایک تبصرہ ہے۔ انسان نے بار بار ایسا کیا ہے کہ اُس نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنے لیے معبود کا درجہ دیا۔ لیکن ہر بار یہ ثابت ہوا کہ انسان کا انتخاب (choice) نہایت برا انتخاب تھا۔ ایک اللہ کے سوا، کسی کا بھی یہ درجہ نہیں کہ اس کو اپنا معبود بنایا جائے۔
قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک انسان، نیچر کو معبود کا درجہ دیتا رہا۔ چناں چہ دنیا میں عمومی طورپر وہ نظامِ پرستش رائج ہوا جس کو فطرت پرستی (nature worship) کہاجاتا ہے۔
سورج، چاند، پہاڑ، دریا، سمندر اور دوسری چیزوں کے بارے میں انسان نے یہ فرض کرلیا کہ اُن کے اندر اُلوہیت (divinity) موجود ہے۔ اِس مفروضہ کی بنا پر، نیچر کی ہر چیز انسان کے لیے قابلِ پرستش بن گئی ۔
دورِ سائنس
جدید سائنس کے زمانے میں نیچر کی ہر چیز کو تحقیق کا موضوع بنایاگیا، ہر چیز کا آزادانہ مطالعہ کیا جانے لگا۔ اِس تحقیق سے معلوم ہوا کہ نیچر صرف نیچر ہے، اُس میں کسی بھی قسم کی الوہیت (divinity) موجود نہیں۔ اِس دریافت کے بعد فطرت پرستی (nature worship) کا افسانہ ختم ہوگیا۔ نیچر نے معبود ہونے کی حیثیت کو کھودیا۔
اِس کے بعد موجودہ زمانے میں صنعتی تہذیب (industrial civilization) کا دور شروع ہوا۔ اِس جدید تہذیب سے انسان کو بہت سی ایسی چیزیں ملیں، جو اُس کو پہلے نہیں ملی تھیں۔ جدید تہذیب کی اِس کامیابی نے بہت سے لوگوں کو فریب میں مبتلا کردیا۔وہ یہ سمجھنے لگے کہ جدید صنعتی تہذیب، اُن کے لیے معبود کا بدل (substitute)ہے۔ جدید تہذیب سے لوگوں کو وہی تعلق قائم ہوگیا جو معبودِ حقیقی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ انسانی صنعت کا ایک بہت بڑا منفی پہلو ہے، وہ یہ کہ انسانی صنعت صرف تہذیب کو وجود میں نہیں لاتی، بلکہ وہ اِسی کے ساتھ صنعتی کثافت (industrial pollution) بھی پید ا کرتی ہے۔
اکیسویں صدی عیسوی میں یہ صنعتی کثافت اپنی اُس حد کو پہنچ گئی جس کو گلوبل وارمنگ کہاجاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ جدید صنعت ہمارے لیے جو دنیا بنا رہی ہے، وہ ایک پُر کثافت دنیا ہے، یعنی ایک ایسی دنیا جہاں انسان جیسی کسی مخلوق کے لیے رہنا ہی ممکن نہیں۔
انسان یہ سمجھتا تھا کہ صنعتی تہذیب اُس کے لیے اِسی دنیا کو جنت بنادے گی، مگر معلوم ہوا کہ صنعتی تہذیب جو دنیا بنارہی ہے، وہ اپنی آخری حد پر پہنچ کر انسان کے لیے ایک صنعتی جہنم (industrial hell) کے سوا اور کچھ نہیں۔ اِس طرح، صنعتی تہذیب کا مفروضہ معبود بھی ایک باطل معبود ثابت ہوا۔
اب انسان نے ایک اور معبودتلاش کیا۔ یہ معبود انسان کی خود اپنی ذات، یا سیلف(self) ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ خود انسان کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جس کو وہ اپنے باہر تلاش کررہا ہے۔ اِس ذہن کے تحت، یہ فرض کرلیا گیا کہ انسانی وجود کا صرف ایک منفی پہلو ہے، اور وہ موت ہے۔ لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ جدید میڈیکل سائنس یہ مسئلہ حل کردے گی اور انسان ابدی طور پراِس دنیا میں جینے کے قابل ہوجائے گا۔
مگر میڈیکل سائنس بے شمار تحقیقات کے باوجود اِس معاملے میںناکام ہوگئی، جدید میڈیکل سائنس، انسان کو ابدی زندگی (longevity) کا فارمولا نہ بتا سکی۔ چناں چہ یہ نظریۂ معبودیت بھی بے بنیادثابت ہوکر ختم ہوگیا۔
اب انسانی علم اُس مقام پر پہنچا ہے، جہاں اس کے لیے صرف ایک انتخاب (choice) باقی رہ گیاہے، اوروہ یہ کہ وہ حقیقت پسند بنے اور اللہ واحد کو اپنا معبود تسلیم کرکے اس کے آگے جھک جائے۔ اِسی حقیقت پسندانہ اعتراف میں انسان کی دنیوی کامیابی کا راز بھی ہے اور اِسی میں اس کی اُخروی کامیابی کا راز بھی۔
قدیم شرک، جدید شرک
موجودہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کے دوراستے ہیں— سیدھا راستہ اور بھٹکاؤ کا راستہ (النّحل: 9)۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ آدمی خالق کو اپنی زندگی میں مرکزی مقام دے، وہ خالق کو اپنا سب کچھ بنالے۔ بھٹکاؤ کا راستہ یہ ہے کہ آدمی مخلوق میں گُم ہو جائے، وہ مخلوق کی نسبت سے اپنی زندگی کا پورا نقشہ بنائے۔ پہلے طریقے کا نام توحید ہے،اور دوسرے طریقے کا نام شرک ہے۔ہماری کائنات میں صرف دو چیزیں ہیں— خالق اور مخلوق ۔ خالق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام توحید ہے، اور مخلوق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام شرک۔
جیسا کہ معلوم ہے، انسانیت کے آغاز ہی سے ہر زمانے میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور انسان کو صحیح اور غلط کی رہ نمائی دیتے رہے۔ ہر پیغمبر کا مشن ایک ہی تھا— انسان کو توحید کی طرف بلانا، اور اس کو شرک سے بچنے کی تلقین کرنا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہر زمانے میں توحیدایک تھی، اسی طرح شرک بھی ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔
قدیم شرک یا شرک کا قدیم ورژن (ancient version of shirk) نیچر پرستی (nature worship) پر قائم تھا۔ نیچر کی حیثیت مخلوق کی ہے۔ قدیم زمانے کے انسان نے نیچر کو معبود کا درجہ دے دیا۔ وہ نیچر پرستی کی بُرائی میںمبتلا ہوگیا، یعنی خالق کی پرستش کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِسی کو مظاہرِ فطرت کی پرستش کہاجاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں بھی یہ شرک اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ آج کا انسان بھی یہی کررہا ہے کہ وہ خالق کے بجائے مخلوق کو اپنا سب کچھ (supreme concern) بنائے ہوئے ہے۔ قدیم شرک اور جدید شرک کے درمیان جو فرق ہے، وہ ظاہر کے اعتبار سے ہے، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قدیم انسان نے نیچر کو پرستش کا موضوع (object of worship) بنایا تھا۔ جدید انسان نے نیچر کو تفریح کا موضوع (object of entertainment) بنا لیا ہے۔ جذباتِ عُبودیت کا مرکز پہلے بھی مخلوقات تھیں، اور اب بھی جذباتِ عبودیت کا مرکز مخلوقات ہیں۔
موجودہ زمانے کے انسان کا نظریہ یہ ہے کہ اپنے آج (now) میں خوش رہو، کل کی فکر چھوڑ دو۔ یہ ’’آج‘‘ کیا ہے۔ یہ وہی سامانِ حیات ہے جو ہم کو نیچر کی صورت میں ملا ہے۔ یہ سامانِ حیات خدا کی دی ہوئی نعمتیں ہیں۔ تفریح کے سامانوں میں سے کوئی بھی سامان انسان نے خود نہیں بنایا، وہ اس کو خالق کی طرف سے ملا ہے۔ یہ خالق ہے جو ساری چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ آج کے انسان نے یہ کیا کہ اُس نے نعمت (blessing) کو لیا، اور منعم (giver) کو چھوڑ دیا۔ یعنی خالق رُخی نظریے کو ترک کرکے، مخلوق رخی نظریے کو اختیار کرلیا۔
انسان کی یہ فطرت ہے کہ اُس کو جب کوئی چیز ملے تو وہ دینے والے کا اعتراف کرے۔ احساسِ تشکُّر (gratitude) انسان کی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ موجودہ زمانے میں انسان نے دوبارہ یہ کیا کہ اُس نے اپنے احساسِ تشکر کو خالق کے بجائے مخلوق کی طرف موڑ دیا۔ جو قلبی اعتراف اس کو مُنعم کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا، اُس کو وہ منعم کی پیدا کردہ مخلوق کے لیے پیش کرنے لگا۔
آج کل کے لوگوں کی باتیں سنیے، یا ان کی تحریریں پڑھیے تو بار بار اِس قسم کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ہر آدمی اپنے روزانہ کے تجربات میں اِس کے نمونے دیکھ سکتا ہے۔ یہاں مثال کے طورپر میںایک حوالہ نقل کروں گا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (27 جنوری 2008 ) میں اِس موضوع پر ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس کے لکھنے والے کا نام ڈونا (Donna Devane) ہے۔ اِس مضمون کاعنوان یہ ہے:
Be happy here and now.
آج کے زمانے میں انسان ایک عام مسئلے سے دوچار ہے۔ یہ مسئلہ ٹنشن یا اسٹریس (stress) ہے۔ یہ ٹنشن کیوںہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کو اُس کی مطلوب خوراک نہیںدے رہا ہے۔ وہ خالق کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بھر پور انتفاع کررہا ہے، لیکن وہ خالق کا اعتراف نہیںکرتا۔ یہ بے اعترافی، یا عدم تشکر فطرت کے خلاف ہے۔ اِس لیے وہ انسان کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر ٹنشن یا اسٹریس کا سبب بنا ہوا ہے۔
موجودہ انسان نے اِس کا یہ غیر فطری حل دریافت کیا ہے کہ دینے والے کے بجائے، خود دی ہوئی چیزوں پر تشکر کا اظہار کرنا۔ مذکورہ مضمون اِسی جدید ذہن کی نمائندگی کررہا ہے۔ چناں چہ اس میں کہاگیا ہے کہ — تم ملی ہوئی چیزوں پر خوب تشکر کا اظہار کرو اور تم ٹنشن سے بچ جاؤ گے۔ اِس سلسلے میں مضمون نگار کے الفاظ یہ ہیں:
Gratitude fills my soul as I enjoy my computer, more about my home, enjoy the feeling of a hug from my daughter. There is so much to be grateful for each moment of each day. I find that where gratitude goes, joy flows, spend a few moments throughout the day with thought shifter statements. A few of the thought shifter statements that I use are: I am so happy and joyful to believe. I am so happy and grateful for this wonderful mind, and body that allow me to enjoy touch, taste, sound, and movement. I am so happy and grateful for my family, and friends, and the love we share. I am so happy and grateful for my home and utilities. I am so happy and grateful for my computer, my internet, my ability to type and share with friends all over the world.
انسان کے اندر جس طرح بھوک اور پیاس کا طاقت ور جذبہ موجود ہے، اُسی طرح یہ جذبہ بھی انسان کے اندر نہایت طاقت ور شکل میںموجود ہے کہ وہ اپنے محسن کے احسان کا اعتراف کرے۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان اِس کا تحمل نہیںکرسکتا کہ اُس کو کسی سے کوئی بڑی چیز ملے اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ آدمی کا فطری مزاج یہ ہے کہ جب اُس کو کسی سے کوئی بڑا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی پوری شخصیت چاہتی ہے کہ چیخ کر وہ اس کا اعتراف کرے۔ یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جس سے کوئی بھی عورت یا مرد خالی نہیں۔
انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ سب خداکا عطیہ ہے۔ خواہ اس کا اپنا وجود ہو یا اس کے باہر کا۔ وہ پورا نظام جس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے، سب کا سب اس کو خدا کی طرف سے یک طرفہ عطیہ کے طور پر ملا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کی فطرت چاہتی ہے کہ وہ اِن تمام عطیات (blessings) کے لیے ان کے مُعطی (giver) کا بھر پوراعتراف کرے۔
اِن عطیات میںسے ایک قسم اُن عطیات کی ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے انسان کو مل رہے ہیں۔ مثلاً ہوا اور پانی اور روشنی ، وغیرہ۔ اور دوسری چیزیں وہ ہیں جو بالواسطہ طورپر خدا کا عطیہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو انسان نے عالمِ فطرت میں دریافت کرکے خدا کی دی ہوئی عقل کے ذریعے اُن کو مختلف قسم کی مصنوعات میںتبدیل کیا ہے۔ مثلاً تمام قسم کے کنزیومر گُڈس (consumer goods) ۔
یہ تمام عطیات تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے سارے دل اور سارے دماغ کے ساتھ اُن کا اعتراف کرے۔ لیکن خود ساختہ فلسفوں کے تحت ،انسان نے یہ کیا کہ اُس نے عطیات کو لیا، اور اُن کے معطی (giver) کو حذف کردیا۔ یہ ایک بھیانک غلطی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی فطرت ایڈریس ہونے سے رہ گئی:
The human nature was left unaddressed.
یہ کسی انسان کے لیے ایک داخلی تضاد کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد اِسی داخلی تضاد میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا وہ مسئلہ جس کو ٹنشن اور اسٹریس کہا جاتا ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسی داخلی تضاد کا نتیجہ ہے۔
اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد:28 ) یعنی اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتاہے:
Peace of mind can be achieved only through the remembrance of God (13: 28)
شرک خفی
’’اور جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کےدل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تویکایک خوش ہوجاتے ہیں‘‘ (الزمر: 45)
مفسر آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میںاپنا ایک ذاتی واقعہ بیان کیا ہے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی کسی مصیبت میں ایک مرے ہوئے بزرگ کو پکار رہا ہے۔ انھوں نے کہا، اے شخص! خدا کو پکار۔ وہ خود فرماتا ہے : وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة:186) ان کی یہ بات سن کر آدمی سخت غصہ میں آگیا۔ بعد کو لوگوں نے انھیں بتایا کہ وہ کہتا ہے کہ ’’آلوسی اولیاء کے منکر ہیں‘‘۔ کچھ لوگوں نے اس کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کی نسبت سے ولی جلد سن لیتےہیں (تفسیر الآلوسی، 12/266)۔
یہ ذہنیت کبھی کھلی کھلی غیر اللہ پر اعتماد کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جس کوشرک جلی کہاجاتا ہے۔ کبھی یہ ذہنیت شرک خفی کی صورت میں ہوتی ہے جس کو آج کل کی زبان میں شخصیت پرستی کہاجاسکتا ہے۔
آپ کثرت سے ایسے مذہبی حلقے پائیں گے جہاں بظاہر ’’اللہ اللہ‘‘ کا ورد ہوتا ہے اور قرآن پڑھاپڑھایا جاتا ہے، لیکن اگر وہاں کی مجلسوں میں خدا کی باتوں کا چرچا کیجئے تو لوگوں کو کوئی خاص دل چسپی نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اپنی پسندیدہ شخصیتوں کے چرچے رات دن ہوتے رہتے ہیں اور اس سے ان کی دل چسپی کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اکثر حالات میں شرک خفی، شرک جلی سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ بظاہر برانہ دکھائی دینے کی وجہ سے اکثر لوگ اس میں مبتلا رہتے ہیں۔ حتی کہ وہ لوگ بھی جو شرک جلی کے خلاف لسانی اور قلمی جہاد ہی کو اپنا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں۔
قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ اہلِ ایمان سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں (البقرة: 165) ۔دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے کہ ہدایت یافتہ وہ ہے جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے (التوبة: 18)۔ اس سے معلوم ہوا کہ توحید یہ ہے کہ شدید محبت اور شدید خوف کا تعلق صرف ایک اللہ سے ہوجائے۔ اس کے مقابلہ میں شرک یہ ہے کہ آدمی اپنی شدید محبت اور اپنے شدید خوف کا مرکز اللہ کے سوا کسی اور کو بنا لے، خواہ وہ کوئی زندہ ہو یا مردہ۔اس معیار پر جانچئے تو معلوم ہوگا کہ بہت سے لوگ جو اپنے کو شرک سے محفوظ سمجھتے ہیں وہ دراصل کچھ علامات شرک سے محفوظ ہیں نہ کہ فی الواقع حقیقت شرک سے۔
شرک خفی کا ظاہرہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن صلّیٰ یُرائی فقد أشرک، ومن صام یرائی فقد أشرک، ومن تصدّق یُرائی فقد أشرک (مسند احمد،حدیث نمبر 17140) یعنی جس شخص نے نماز پڑھی دکھانے کے لیے، اس نے شرک کیا۔ جس نے روزہ رکھا دکھانے کے لیے، اس نے شرک کیا۔ جس نے صدقہ کیا دکھانے کے لیے، اس نے شرک کیا۔
نماز اور روزہ اور صدقہ، خدا کی عبادتیں ہیں، پھر وہ شرک کیسے بن جاتے ہیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ مسلمانوں کا ایک معاشرہ بن جائے۔ معاشرہ ایک دنیوی تنظیم ہے۔ ایسی تنظیم جب وجود میں آتی ہے، تو وہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی۔ اب تمام مادّی روابط اِس سماجی تنظیم کے ساتھ جُڑجاتے ہیں۔ قیادت، مادّی فائدے، انسانی تعلقات، تمام دنیوی نوعیت کی چیزیں سماج کے اندر وجود میں آجاتی ہیں، جس طرح وہ عام قسم کے سیکولر سماج میں موجود ہوتی ہیں۔یہی وہ وقت ہے، جب کہ مسلمانوں کے درمیان مذکورہ قسم کا ’’شرک‘‘ وجود میں آتا ہے۔ اِس کو سماجی شرک بھی کہہ سکتے ہیں۔ اِس سماج سے وابستہ ہر شخص کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے اندر اپنے سماجی اسٹیٹس کو برقرار (maintain) رکھے۔ اِس نفسیات کے تحت، یہ ہوتا ہے کہ لوگ دین کی اسپرٹ (spirit)کو الگ کرکے صرف اس کا ظاہری ڈھانچہ (form) لے لیتے ہیں، اور اِسی ظاہری ڈھانچہ کی دھوم مچاتے ہیں۔
اِس ماحول میں لوگ ظاہری دین داری کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اپنے آپ کودین دار ثابت کرنے کے بعد ہی وہ مسلمانوں کے اندر اپنی مطلوب جگہ بنا سکتے ہیں، وہ مسلمانوں کے اندر موجود تمام سماجی فائدے اپنے گرد اکھٹا کرسکتے ہیں، وہ مسلمانوں کے نمائندے بن کر اُن کے درمیان ہر قسم کے قیادتی مناصب پر قابض ہوسکتے ہیں۔ اِس قسم کی ظاہری عبادت میں رضائِ الٰہی کی اسپرٹ موجود نہیں ہوتی، اِس لیے حدیث میں اِس کو شرک کانام دیاگیا ۔
سائنس کے دور میں
اسی طرح جدید سائنس کے ظہور نے شرک کی دوسری بنیاد کوبھی ختم کردیا۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی دریافتوں کے ذریعہ یہ افسانہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا کہ فطرت کے مظاہر میں کوئی حقیقی تعدد ہے یا انھیں کوئی ذاتی عظمت حاصل ہے۔
جدید سائنس نے ایک طرف یہ کیا کہ اپنے تجزیہ اور تجربہ کے ذریعہ آخری طورپر یہ ثابت کردیا کہ تمام چیزیں، ظاہری تعدد کے باوجود، اپنے آخری تجزیہ میں صرف ایٹم کا مجموعہ ہیں۔ اور ایٹم برقیاتی لہروں کا مجموعہ ہے۔ اس دریافت کے بعد فطرت میں تعدد کا افسانہ ختم ہوگیا۔ تمام چیزیں ظاہری فرق کے باوجود، اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ثابت ہوگئیں۔ گویا علم کی اگلی ترقی نے مشرکانہ نظریہ کو رد کرکے توحید کے نظریہ کے لیے ایک ثابت شدہ بنیاد فراہم کردی۔
اسی کے ساتھ جدید سائنس نے د وسری بات یہ ثابت کی کہ زمین میں یا وسیع خلا میں جتنی بھی چزیں ہیں وہ سب کی سب بے بس مخلوق ہیں۔ سب کی سب ایک محکم قانون فطرت میں بندھی ہوئی ہیں۔ انھیں کسی بھی درجہ میں کوئی ذاتی اختیار یا اقتدار حاصل نہیں۔
تاہم توہمات کا ابھی تک مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ ذاتی زندگی میں آج بھی ساری دنیا میںکروڑوں لوگ پراسرار قسم کے توہمات میں یقین رکھتے ہیں۔ اہلِ علم طبقہ کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو دیوی دیوتاؤں کو تونہیں مانتی مگر اب بھی وہ خدائے واحد تک نہیں پہنچی۔
فرق صرف یہ ہے کہ ان کی پچھلی نسلیں اگر دیوی دیوتاؤں میں اٹکی ہوئی تھیں تو اب قانون فطرت کے نام سے انھوں نے ایک اور معبود کو فرض کرلیا ہے اور اس کو اپنے ذہن میں اسی طرح بٹھائے ہوئے ہیں جس طرح قدیم انسان دیوی دیوتاؤں کو بٹھائے ہوئے تھا۔
قدیم زمانہ میں انسانی زندگی میںاورانسانی سماج میں بے شمار برائیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ ان کے نتیجہ میں انسان اپنی فطری عظمت سے محروم ہوگیا تھا۔ یہ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ اٹھائی ہوئی تحریک توحید تھی جس نے دنیا کو اس المناک دور سے نکالا اور انسانیت کو حقیقی معنی میں ترقی کے دورمیںداخل کیا۔
انسان پہلی بار ان سعادتوں سے ہمکنار ہوا جو خدا نے اس کے لئے مقدر کی تھیں مگر خود ساختہ توہمات کے نتیجہ میں اس نے اپنے آپ کو ان سے محروم کر رکھا تھا۔ انسانیت تاریکی کے طویل دور سے نکل کر روشنی کے نئے دور میں داخل ہوگئی۔ اب بظاہر مادی ترقیوں کے باوجود انسان دوبارہ مسائل کے اندھیروں میں گرفتار ہوگیا ہے۔ خوشنما تمدن کے اندر وہ حقیقی خوشی اور سکون سے محروم ہے۔ انسان کی فطری عظمت دوبارہ پستیوں کے نئے کھڈ میں جاگری ہے۔
اب ضرورت ہے کہ توحید کی دعوت کو ازسرنو نئی طاقت کے ساتھ زندہ کیا جائے۔ ایک طرف اس کو نئے دلائل اور نئے اسلوب کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنایا جائے اور دوسری طرف جدید ذرائع اشاعت کو استعمال کرکے اس کو ساری دنیا میں پھیلادیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آجائے جس کو پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک تاریخی پیش گوئی میں اس طرح فرمایا تھا — ایک وقت آئےگا جب کہ خدا کے دین کا پیغام ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔ کوئی گھر یا کوئی خیمہ ایسا نہ بچے گا جس کے اندر توحید کا کلمہ پہنچ نہ گیا ہو۔ (یہ مضمون کتابچہ کی صورت میں دستیاب ہے)
واپس اوپر جائیں

مخالفین مذہب کا استدلال

’’جس طرح ایٹم کے ٹوٹنے سے مادّہ کے بارے میں انسان کے پچھلے تمام تصورات ختم ہوگئے اسی طرح پچھلی صدیوں میں علم کی جوترقی ہوئی ہے وہ بھی ایک قسم کا علمی دھماکہ (knowledge explosion)ہے جس کے بعد خدا اور مذہب کے متعلق تمام پرانے خیالات بھک سے اُڑ گئے ہیں۔ ( ہندستان ٹائمس، سنڈے میگزین، 23 ستمبر 1961) یہ جولین ہکسلے کے الفاظ ہیں۔ جدید بے خدا مفکرین کے نزدیک مذہب کوئی حقیقی چیز نہیںہے۔ وہ انسان کی صرف اس خصوصیت کا نتیجہ ہے کہ وہ کائنات کی توجیہہ کرنا چاہتا ہے۔ توجیہہ تلاش کرنے کا انسانی جذبہ بذاتِ خود غلط نہیں ہے ۔ مگر کم تر معلومات نے ہمارے پرانے اجداد کو ان غلط جوابات تک پہنچا دیا جس کو خدا یا مذہب کہاجاتا ہے، اب جس طرح بہت سے دوسرے معاملات میں انسان نے اپنی علمی ترقی سے ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کی ہے، اسی طرح توجیہہ کے معاملے میں بھی وہ آج اس پوزیشن میں ہے کہ اپنی انتہائی غلطیوں کی اصلاح کرسکے۔
اس طریق فکر کے مطابق مذہب، حقیقی واقعات کی غیر حقیقی توجیہہ ہے، پہلے زمانے میں انسان کا علم چونکہ بہت محدود تھا اس لیے واقعات کی صحیح توجیہہ میں اسے کامیابی نہیں ہوئی اور اس نے مذہب کے نام سے عجیب عجیب مفروضے قائم کرلیے مگر ارتقاء کے عالم گیر قانون نے آدمی کو اس اندھیرے سے نکال دیا ہے اور جدید معلومات کی روشنی میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ اٹکل پچو عقائد پر ایمان رکھنے کے بجائے خالص تجرباتی اور مشاہداتی ذرائع سے اشیاء کی حقیقت معلوم کی جائے، چنانچہ وہ تمام چیزیں جن کو پہلے مافوق الطبیعی اسباب کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا۔ اب بالکل فطری اسباب کے تحت ان کی تشریح معلوم کرلی گئی ہے۔ جدید طریق مطالعہ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ خدا کا وجود فرض کرنا انسان کی کوئی واقعی دریافت نہیں تھی بلکہ یہ محض دور لاعلمی کے قیاسات تھے جو علم کی روشنی پھیلنے کے بعد خود بخود ختم ہوگئے ہیں۔ جولین ہکسلے کہتا ہے:
’’نیوٹن نے دکھا دیا ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے جو سیاروں کی گردش پر حکومت کرتا ہو۔ لاپلاس نے اپنے مشہور نظریے سےاس بات کی تصدیق کردی ہے کہ فلکی نظام کو خدائی مفروضہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ڈارون اور پاسچر نے یہی کام حیاتیات کے میدان میں کیا ہے اور موجودہ صدی میں علم النفس کی ترقی اور تاریخی معلومات کے اضافے نے خدا کو اس مفروضہ مقام سے ہٹا دیا ہے کہ وہ انسانی زندگی اور تاریخ کو کنٹرول کرنے والا ہے‘‘۔
(Religion without Revelation, N. Y. 1958. p. 58)
طبیعاتی دنیا میں اس انقلاب کا ہیرو نیو ٹن ہے جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات کچھ ناقابل تغیر اصولوں میں بندھی ہوئی ہے۔ کچھ قوانین ہیں جن کے تحت تمام اجرام سماوی حرکت کررہے ہیں۔ بعد کو دوسرے بے شمار لوگوں نے اس تحقیق کو آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ زمین سے لے کر آسمان تک سارے واقعات ایک اٹل نظام کے تحت ظاہر ہوتےہوئے نظر آئے جس کو قانون فطرت (law of nature) کا نام دیاگیا۔ اس دریافت کے بعد قدرتی طورپر یہ تصور ختم ہوجاتا ہے کہ کائنات کے پیچھے کوئی فعال اور قادر خدا ہے جو اس کو چلا رہا ہے۔زیادہ سے زیادہ گنجائش اگر ہوسکتی ہے تو ایسے خدا کی جس نے ابتداء ً کائنات کو حرکت دی ہو۔ چنانچہ شروع میں لوگ محرک اول کے طورپر خدا کو مانتے رہے۔ والٹیر نے کہا کہ خدا نے اس کائنات کو بالکل اسی طرح بنایا ہے جس طرح ایک گھڑی ساز گھڑی کے پرزے جمع کرکے انھیں ایک خاص شکل میں ترتیب دے دیتا ہے اور اس کے بعد گھڑی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد ہیوم نے اس ’’بے جان اور بے کار خدا‘‘ کو بھی یہ کہہ کر ختم کردیا کہ ہم نے گھڑیاں بنتے ہوئے دیکھی ہیں۔ لیکن دنیائیں بنتی ہوئی نہیں دیکھیں۔ اس لیے کیوں کر ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم خدا کو مانیں۔
سائنس کی ترقی اور علم کے پھیلاؤ نے اب انسان کو وہ کچھ دکھا دیا ہے جس کو پہلے اس نے دیکھا نہیں تھا۔ واقعات کی جن کڑیوں کو نہ جاننے کی وجہ سے ہم سمجھ نہیں سکتے تھے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا۔وہ اب واقعات کی تمام کڑیوں کے سامنے آجانے کی وجہ سے ایک جانی بوجھی چیز بن گیا ہے۔ مثلاً پہلے آدمی یہ نہیں جانتا تھا کہ سورج کیسے نکلتا اور کیسے ڈوبتا ہے۔اس لیے اس نے سمجھ لیا کہ کوئی خدا ہے جو سورج کو نکالتا ہےاور اس کو غروب کرتاہے۔ اس طرح ایک مافوق الفطری طاقت کا خیال پیدا ہوا۔ اور جس چیز کو آدمی نہیں جانتا تھا، اس کے متعلق کہہ دیا کہ یہ اسی طاقت کا کرشمہ ہے۔ مگر اب جب کہ ہم جانتے ہیں کہ سورج کا نکلنا اور ڈوبنا اس کے گرد زمین کے گھومنے کی وجہ سے ہوتا ہے تو سورج کو نکالنے اور غروب کرنے کے لیے خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔اسی طرح وہ تمام چیزیں جن کے متعلق پہلے سمجھا جاتا تھا کہ ان کے پیچھے کوئی ان دیکھی طاقت کام کررہی ہے وہ سب جدید مطالعہ کے بعد ہماری جانی پہچانی فطری طاقتوں کے عمل اور رد عمل کا نتیجہ نظر آیا۔ گویا واقعہ کے فطری اسباب معلوم ہونے کے بعد وہ ضرورت آپ سے آپ ختم ہوگئی جس کے لیے پہلے لوگوں نے ایک خدا یا فوق الفطری طاقت کا وجود فرض کرلیا تھا۔ ’’اگر قوس قزح گرتی ہوئی بارش پر سورج کی شعاعوں کے انعطاف (refraction) سے پیدا ہوتی ہے تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وہ آسمان کے اوپر خدا کا نشان ہے‘‘ — ہکسلے اس قسم کے واقعات پیش کرتا ہوا کس قدر یقین کے ساتھ کہتا ہے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یعنی واقعات اگر فطری اسباب کے تحت صادر ہوتے ہیں تو وہ مافوق الفطری اسباب کے تحت پیدا کئے ہوئے نہیں ہوسکتے۔
اب اس دلیل کو لیجئے جو طبیعاتی تحقیق کے حوالے سے پیش کی گئی ہے۔ یعنی کائنات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں جو واقعات ہورہے ہیں وہ ایک متعین قانون فطرت کے مطابق ہورہے ہیں۔ اس لیے ان کی توجیہہ کرنے کے لیے کسی نامعلوم خدا کا وجود فرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ معلوم قوانین خود اسکی توجیہہ کے لیے موجود ہیں۔ اس استدلال کا بہترین جواب وہ ہے جو ایک عیسائی عالم نے دیا۔ اس نے کہا:
Nature is a fact, not an explanation.
یعنی فطرت کا قانون کائنات کا ایک واقعہ ہے، وہ کائنات کی توجیہہ نہیں ہے۔ تمھارا یہ کہنا صحیح ہے کہ ہم نے فطرت کے قوانین معلوم کرلیےہیں مگر تم نے جو چیز معلوم کی ہے وہ اس مسئلے کا جواب نہیں ہےجس کے جواب کے طور پر مذہب وجود میں آیا ہے۔ مذہب یہ بتاتا ہے کہ وہ اصل اسباب ومحرکات کیا ہیں جو کائنات کے پیچھے کام کررہے ہیں۔ جب کہ تمھاری دریافت صرف اس مسئلہ سے متعلق ہے کہ کائنات جو ہمارے سامنے کھڑی نظر آتی ہے اس کا ظاہری ڈھانچہ کیا ہے۔
جدید علم جو کچھ ہمیں بتاتا ہے وہ صرف واقعات کی مزید تفصیل ہے نہ کہ اصل واقعہ کی توجیہہ۔ سائنس کا سارا علم اس سے متعلق ہے کہ ’’جو کچھ ہے وہ کیاہے‘‘۔ یہ بات اس کی دسترس سے باہر ہے کہ ’’جو کچھ ہے وہ کیوں ہے‘‘ جب کہ توجیہہ کا تعلق اسی دوسرے پہلو سے ہے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھئے ۔ مرغی کا بچہ انڈے کے مضبوط خول کےاندر پرورش پاتا ہے۔ اور اس کے ٹوٹنے سے باہر آتا ہے۔ یہ واقعہ کیوں کر ہوتا ہے کہ خول ٹوٹے اور بچہ جو گوشت کے لوتھڑے سے زیادہ نہیں ہوتا، وہ باہر نکل آئے۔ پہلے کا انسان اس کا جواب یہ دیتا تھا کہ ’’خدا ایسا کرتا ہے‘‘۔ مگر اب خردبینی مشاہدہ کے بعد معلوم ہوا کہ جب 21 روز کی مدت پوری ہونے والی ہوتی ہے، اس وقت ننھے بچے کی چونچ پر ایک نہایت چھوٹی سی سخت سنگ ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی مدد سے وہ اپنے خول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے۔ سینگ اپنا کام پورا کرکے بچہ کی پیدائش کے چند دن بعد خود بخود جھڑ جاتی ہے۔
مخالفین مذہب کے نظریے کے مطابق یہ مشاہدہ اس پرانے خیال کو غلط ثابت کردیتا ہےکہ بچہ کو باہر نکالنے والا خدا ہے۔ کیونکہ خوردبین کی آنکھ ہم کو صاف طور پر دکھا رہی ہے کہ ایک 21 روزہ قانون ہے جس کے تحت وہ صورتیں پیدا ہوتی ہیں جو بچہ کو خول کے باہر لاتی ہیں۔ مگر یہ مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ جدید مشاہدہ نے جو کچھ ہمیں بتایا ہے وہ صرف واقعہ کی چند مزید کڑیاں ہیں، اس نے واقعہ کا اصل سبب نہیں بتایا۔ اس مشاہدہ کے بعد صورت حال میں جو فرق ہوا ہے وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ پہلے جو سوال خول کے ٹوٹنے کے بارےمیں تھا، وہ ’’سینگ‘‘ کے اوپر جاکر ٹھہر گیا۔ بچہ کا اپنی سینگ سے خول کو توڑنا، واقعہ کی صرف ایک درمیانی کڑی ہے، وہ واقعہ کا سبب نہیں ہے۔ واقعہ کا سبب تو اس وقت معلوم ہوگا جب ہم جان لیں کہ بچہ کی چونچ پر سینگ کیسے ظاہر ہوئی۔ دوسرے لفظوں میں اس آخری سبب کا پتہ لگالیں جو بچہ کی اس ضرورت سے واقف تھا کہ اس کو خول سے باہر نکلنے کے لیے کسی سخت مددگار کی ضرورت ہے اور اس نے مادہ کو مجبور کیا کہ عین وقت پر ٹھیک 21 روز بعد وہ بچہ کی چونچ پر ایک ایسی سینگ کی شکل میں نمودار ہو جو اپنا کام پورا کرنے کے بعد جھڑ جائے۔ گویا پہلے یہ سوال تھاکہ ’’خول کیسے ٹوٹتا ہے‘‘۔ اور اب سوال یہ ہوگیا کہ ’’سینگ کیسے بنتی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ دونوں حالتوں میں کوئی نوعی فرق نہیں۔ اس کو زیادہ سے زیادہ حقیقت کا وسیع تر مشاہدہ کہہ سکتے ہیں۔ حقیقت کی توجیہہ کا نام نہیں دے سکتے۔
یہاں میں ایک امریکی عالم حیاتیات Cecil Boyce Hamann کے الفاظ نقل کروں گا:
’’غذا ہضم ہونے اور اس کے جزو بدن بننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منسوب کیاجاتا تھا۔ اب جدید مشاہدہ میں وہ کیمیائی رد عمل کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ مگر کیا اس کی وجہ سے خدا کے وجود کی نفی ہوگئی۔ آخر وہ کون طاقت ہے جس نے کیمیائی اجزا، کو پابند کیا کہ وہ اس قسم کا مفید ردّ عمل ظاہر کریں۔ غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب وغریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے، اس کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ یہ حیرت انگیز انتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدہ کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعہ عمل کرتا ہے جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے۔‘‘
(The Evidence of God in an Expanding Universe, p. 221)
یعنی فطرت کائنات کی توجیہہ نہیں کرتی، وہ خود اپنے لیے ایک توجیہہ کی طالب ہے۔
اگر آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ خون سرخ کیوں ہوتا ہے، تو وہ جواب دے گا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون میں نہایت چھوٹے سرخ اجزا ہوتے ہیں (ایک انچ کے سات ہزارویں حصے کے برابر) یہی سرخ ذرات خون کو سرخ کرنے کا سبب ہیں۔
’’درست، مگر یہ ذرات سرخ کیوں ہوتے ہیں‘‘۔
’’ان ذرات میں ایک خاص مادہ ہوتا ہے جس کا نام ہیمو گلوبن (Haemoglobin) ہے۔ یہ مادہ جب پھیپھڑے میں آکسیجن جذب کرتاہے تو گہرا سرخ ہوجاتا ہے‘‘۔
’’ٹھیک ہے، مگر ہیموگلوبن کے حامل سرخ ذرات کہاں سے آئے‘‘۔
’’وہ آپ کی تلی میں بن کر تیار ہوتے ہیں‘‘۔
’’ڈاکٹر صاحب! جو کچھ آپ نے فرمایا وہ بہت عجیب ہے۔ مگر مجھے بتائیے کہ ایسا کیوں ہے کہ خون، سرخ ذرات، تلی اور دوسری ہزاروں چیزیں اس طرح ایک کل کے اندر باہم مربوط ہیں اور اس قدر صحت کے ساتھ اپنا اپنا عمل کررہی ہیں‘‘۔
’’یہ قدرت کا قانون ہے‘‘۔
’’وہ کیا چیز ہے جس کو آپ قانونِ قدرت کہتے ہیں‘‘۔
’’اس سے مراد ہے — Blind interplay of physical and chemical forces. (طبیعی اور کیمیائی طاقتوں کا اندھا عمل)۔
’’مگر کیا وجہ ہے کہ یہ اندھی طاقتیں ہمیشہ ایسی سمت میںعمل کرتی ہیں جو انھیں ایک متعین انجام کی طرف لے جائے۔ کیسے وہ اپنی سرگرمیوں کو اس طرح منظم کرتی ہیں کہ ایک چڑیا اڑنے کے قابل ہوسکے۔ ایک مچھلی تیر سکے، ایک انسان اپنی مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ وجود میں آئے‘‘۔
’’میرے دوست، مجھ سے یہ نہ پوچھو، سائنس داں صرف یہ بتا سکتا ہے کہ جو کچھ ہو رہاہے وہ کیاہے، اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہےکہ جوکچھ ہورہا ہے وہ کیوں ہورہا ہے‘‘۔
یہ سوال وجواب واضح کررہا ہے کہ سائنسی دریافتوں کی حقیقت کیا ہے۔ بلا شبہہ سائنس نے ہم کو بہت سی نئی نئی باتیں بتائی ہیں۔ مگر مذہب جس سوال کا جواب ہے، اس کا ان دریافتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی دریافتیں اگر موجودہ مقدار کے مقابلے میںاربوں، کھربوں گنا بڑھ جائیں ، جب بھی مذہب کی ضرورت باقی رہے گی۔ کیونکہ یہ دریافتیں صرف ہونے والے واقعات کو بتاتی ہیں، یہ واقعات کیوں ہورہے ہیں اور ان کا آخری سبب کیا ہے۔ اس کا جواب ان دریافتوں کے اندر نہیں ہے۔ یہ تمام کی تمام دریافتیں صرف درمیانی تشریح ہیں جب کہ مذہب کی جگہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آخری اور کلی تشریح دریافت کرے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کسی مشین کےاوپر ڈھکن لگا ہوا ہو تو ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ چل رہی ہے۔ اگر ڈھکن اتار دیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ باہرکا چکر کس طرح ایک اور چکر سے چل رہا ہے۔ اور وہ چکر کس طرح دوسرے بہت سے پرزوں سے مل کر حرکت کرتاہے۔ یہاں تک کہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس کے سارے پرزوں اور اس کی پوری حرکت کو دیکھ لیں۔ مگر کیا اس علم کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے مشین کےخالق اور اس کے سبب حرکت کار از بھی معلوم کرلیا۔ کیا کسی مشین کی کارکردگی کو جان لینے سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ خود بخودبن گئی ہےاور اپنے آپ چلی جارہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کائنات کی کارکردگی کی بعض جھلکیاں دیکھنے سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ یہ سارا کارخانہ اپنے آپ قائم ہو اہے اور اپنے آپ چلا جارہا ہے۔ ہیریز (A. Harris) نے یہی بات کہی تھی جب اس نے ڈارونزم پر تنقید کرتےہوئے کہا:
Natural selection may explain the survival of the fittest, but cannot explain the arrival of the fittest.
(The Revolt against Reason by A. Lunn, p. 133)
یعنی انتخاب طبیعی کے قانون کا حوالہ صرف زندگی کے بہتر مظاہر باقی رہنے کی توجیہہ کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں بتاتا کہ یہ بہتر زندگیاں خود کیسے وجود میں آئیں۔
واپس اوپر جائیں

شادی کا مسئلہ

ایک صاحب نے اپنی پسند کی ایک خاتون سے شادی کی۔ شادی کے کچھ دنوں بعد ان سے میری ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ شادی سے پہلے مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرا ہوائی جہاز فضا میں اڑ رہا ہے۔ مگر شادی کے بعد ایسا معلوم ہواجیسےکہ میرا جہاز کریش (crash) ہوگیا، اور میں جہاز کے ساتھ زمین پر گرپڑا ۔
یہ ایک شخص کی بات نہیں۔ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے معاملے میں اکثر لوگوں کا احساس کم و بیش یہی ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ شادی سے پہلے عورت اور مرد دونوں کی دلچسپیاں اپنے خونی رشتوں سے ہوتی ہیں۔ شادی کے بعد ان کو غیر خونی رشتہ داروں سے تعلق بنانا پڑتا ہے۔ بچپن سے شادی کی عمر تک دونوںاپنے خونی رشتوں کے درمیان رہتے ہیں۔ اس بنا پر دونوںکو اپنے خونی رشتوں سے خصوصی لگاؤ ہوجاتا ہے۔ جب کہ شادی کے بعد دونوں کو اپنے غیر خونی رشتہ داروں کے ساتھ نباہ کرنا پڑتا ہے۔دونوں، شعوری یا غیر شعوری طور پر، اپنے آپ کو اس فرق کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کرپاتے۔ اس بنا پرطرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اور شادی عملا، پرابلم میرج (problem marriage) بن جاتی ہے۔اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ خونی رشتوں اور غیر خونی رشتوں کا فرق ختم ہو۔ یہ ایک فطری فرق ہے جو ہمیشہ باقی رہے گا۔ اس مسئلے کا عملی حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ دونوںشعوری طور پر یہ جان لیں کہ وہ ایک فطری مسئلہ سے دوچار ہیں۔ جس کووہ ختم نہیں کرسکتے۔ دونوںاگر شعوری طور پر اس بات کو جان لیں تو ان کے اندر ایڈجسمنٹ (adjustment)کا مزاج پیدا ہوگا۔ ان کے اندر یہ سوچ بیدا رہوجائے گی — جس مسئلے کو ہم بدل نہیں سکتے اس کو ہمیںنبھانا چاہیے، اس کے ساتھ ہمیںایڈجسٹ کرکے رہنا چاہیے۔اس فرق کا ایک مثبت پہلو ہے۔ یہ فرق آدمی کو ذہنی جمود (intellectual stagnation)سے بچاتا ہے۔ اس بنا پر آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رکے بغیر جاری رہتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میں ایک طالب علم ہوں اور جدید تعلیم حاصل کررہا ہوں لیکن اسی کے ساتھ دینی معلومات بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ڈیڑھ سال سے پہلےمیں نے آپ کا نام سناتھا لیکن جن کے ذریعہ آپ کا تعارف ہوانھوں نے آپ کا کوئی مثبت ذکر نہیںکیا بلکہ دلخراش واقعات سنائے جو کہ میرے لئے باعث تشویش رہے کہ کیا دین اسلام کا داعی اس قسم کی باتیں کہہ سکتا ہے، کیا ایسا ممکن ہے؟ آپ کے حقیقی تعارف کے بغیر میں ہر وقت شش وپنج میں رہتا تھا ۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اِن باتوں کی حقیقت کو جاننے کےلیے از خودآپ کی کتابوں کا مطالعہ کروں۔آخر کار اپنے ایک عزیز کی وساطت سے میں نے آپ کی ایک کتاب ’’کاروانِ ملّت‘‘ خریدی۔کتاب مذکور میں ان سب سوالوں کا جواب تھا جس کی وجہ سے میں پریشان ہوچکا تھا۔ وہ منفی تاثرات جو آپ سے متعلق مجھے بتائے گئے تھے ، وہ سب گمراہ کن لگے۔ بعد میں آپ کی کتابوں کا مطالعہ میرے روز مرہ کے شیڈول ایک جزءبن گیا۔ جن کتابوں کا مطالعہ کیا ان میں یہ کتابیں قابلِ ذکر ہیں: کتاب معرفت، عظمت اسلام، تعمیر انسانیت، دعوت اسلام، The Quran for all Humanity, Creation Plan of God ، وغیرہ۔
اب میں اس خدا کا شکر کرتا ہوں جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ میرے خدا کی طرف سے یہ سب ممکن ہوا کہ میں روحِ دین کو سمجھنے کی کوشش کروں۔اِس ’’عُسر‘‘ کے دور میں ’’یُسر‘‘ کا ایک موقع مجھے ضرور ملا جس کو میں نے استعمال کیا۔ آپ کی کچھ باتیں جن کی وجہ سے میری زندگی میں بدلاؤ آیا، وہ مفہوم میں کچھ اس طرحہیں:
غیر مسلم ہمارے دشمن یا حریف نہیں بلکہ وہ ہمارے لیےمدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں ان سے داعی اور مدعو کا رشتہ قائم کرنا ہوگا۔
یک طرفہ طور پر دکھ درد کو برداشت کرکے ہی ہم اسلام کا پیغام امن ان تک پہنچا سکتے ہیں۔
دین سلامتی کو دین قتل نہ بنائیں۔دین امن کو دینِ جنگ وجدال نہ بنائیں۔
گمراہ کن نعروں سے مسلمانانِ دنیا کے جان، مال اور آبرو کو مباح نہ بنائیں۔
دعوت کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہنا، وغیرہ وغیرہ۔
ان جیسی اہم باتوں نے مجھے آپ کی فکر کو اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔اِس دوران میرے ذہن میں بہت سے اشکالات رہے جن کے جوابات جاننا میرے لئے ضروری ہوگیا- امید ہے کہ آپ اپنی حد درجہ مشغولیت کے باوجودذیل کی باتوں میں میری رہنمائی فرمائیں گے:
1- اسلامی حکومت کے قیام کے لئے کیا لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔
2۔ قرونِ اول میں جو فتوحات ہوئیں، مثلاً مصر، روم، ایران وغیرہ، ان کو دفاعی جنگ (defensive war) کہناکیسے ممکن ہے۔
3- ’’نہی عن المنکر‘‘ غیر اسلامی حکومت کے اندر کیسے کیاجائے۔
4۔ دفاعی طریقہ کار سے کیا آج کے دور میں ہم کسی ملک کو زیر کرسکتے ہیں۔( احمد وانی، کشمیر)
جواب
کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا، ایک بے حد سنگین بات ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ متعلق شخص کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرے، اور پھر معلومات کے مطابق وہ اپنی رائےبنائے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرے پاس اتنا وقت نہیں تو اس کو یہ جواب دیا جائے گا کہ پھر آپ کے اوپر فرض ہے کہ آپ ایسے شخص کے بارے میں کوئی رائے نہ بنائیں، بلکہ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں۔ آدمی کے اوپر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ ہر شخص کے بارے میں ضرور کوئی رائے بنائے، لیکن اگر اس کو کسی شخص کے بارے میں اپنے رائے کا اظہار کرنا ہے تو اس پر فرض ہوجاتا ہے کہ پہلے وہ براہ راست طور پر پوری معلومات حاصل کرے، اور اس کے بعد متعلق شخص کے بارے میں اپنی رائے قائم کرے۔
جہاں تک مذکورہ سوالات کا تعلق ہے۔ یہ سوالات ہماری کتابوں میں زیرِ بحث آچکے ہیں۔ آپ نے مطالعے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کو جاری رکھیے، ان شاء اللہ آپ کو تشفی حاصل ہوجائے گی۔
سوال
بے ضمیر انسان اور امن پسند انسان میں کیا فرق ہے۔ (مدثر مقبول، کشمیر)
جواب
دونوں قسم کے انسان کے درمیان بظاہر مشابہت ہوسکتی ہے۔ مگر داخلی کیفیت (spirit) کے اعتبار سے دونوں کا کیس مکمل طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ بے ضمیر انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے کرتا ہے۔ اس کا کنسرن اپنی ذات ہوتی ہے نہ کہ وسیع تر معنوں میں انسانیت۔ اس کے برعکس،امن پسند انسان کا کنسرن انسانیت عامہ ہوتی ہے۔امن پسند انسان ایک با اصول انسان (man of principle) ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے، اصول کی بنا پر کرتا ہے نہ کہ ذاتی انٹرسٹ کی بنا پر ۔
دونوں قسم کے انسانوں کی پہچان یہ ہے کہ مفاد پرست انسان کے اندر تضاد پایا جائے گا جبکہ با اصول انسان کی زندگی تضاد سے خالی ہوگی۔ مثلا مفاد پرست انسان قومی معاملے میں ٹکراؤ کی بات کرے گا۔ وہ کہے گا کہ بے انصافی کو ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جس میں اس کی اپنی ذات زد میں آتی ہو، جس میں اس کو اپنے لوگوں کا نقصان نظر آتا ہو تو وہ ٹکراؤ کی بات چھوڑ دے گا اورجوش و خروش کے ساتھ امن کے فضائل بیان کرے گا۔
اس کے برعکس، با اصول انسان ہر حال میں امن پسندی کی بات کرے گا۔ خواہ زیر بحث مسئلہ ایک قومی مسئلہ ہو یا ایک ایسا مسئلہ جس میں اس کے اپنے لوگ زد میں آتے ہوں ۔ با اصول انسان ایک قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، مفاد پرست انسان کا کردار قابل پیشین گوئی نہیں ہوتا۔ وہ ایک قسم کے معاملے میں ایک رویہ اختیار کرتا ہے، اور اسی قسم کے دوسرے معاملے میں بالکل دوسرا رویہ۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — \239

1- صدر اسلامی مرکز کی دو نئی انگریزی کتابیں، دی ایج آف پیس (The Age of Peace) اور قرآنک وزڈم (Quranic Wisdom) طبع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ خواہش مند حضرات انھیں گڈورڈ بکس سے حاصل کرسکتے ہیں۔
2- 12 جولائی 2015 صدر بازار پولیس اسٹیشن رائچور میں عید الفطر کی مناسبت سے پیس میٹنگ کا انعقاد کیاگیا تھا جس میں سنٹر فار پیس اینڈ کمیونل ہارمنی رائچور کی جانب سے جناب ابو الحسن اور پروفیسر ظہیر الدین نے شرکت کی اور رائچور ضلع کے ایس پی، ایڈیشنل ایس پی، ڈی ایس پی، سرکل انسپکٹر ودیگر پولیس حکام کے درمیان قرآن، پرافٹ آف پیس اور دیگر لٹریچر تقسیم کیا ۔ انھوں نے اس تحفہ کو بہ خوشی قبول کیا ۔ان کے علاوہ دیگر تمام شرکا کے درمیان بھی دعوتی لٹریچرتقسیم کئے گئے۔
3- 26 جولائی2015کو ارریہ (صوبہ بہار ) کے ٹاؤن ہال میں ’اسلام اور امن کا پیغام‘ کے موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں سبھی مذاہب کے افراد نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں حافظ ابوالحکم دانیال نے شرکت کی، اور ایک تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ اسلام امن کا پیغام دیتاہے اورسی پی ایس انٹر نیشنل کا مقصد سماج میں امن اور بھائی چارہ ، آپسی میل جول قائم رکھنا ہے۔ پروگرام میں شریک سبھی لوگوں کو ہندی قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر دیے گیے۔
4- 22اگست 2015 کو امیا یونیورسٹی ، سو ئیڈن کے پروفیسر تھامسن لنگ ڈرن نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ پرو فیسر موصوف اس سے پہلے بھی صدر اسلامی مرکز کا ان کی زندگی اور مشن کے تعلق سے انٹرویو لے چکے ہیں۔ آخر میں انھوں نے خود اپنی فرمائش سے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ حاصل کیا۔ نیز انگریزی کتاب ’دی ایج آف پیس ‘ کے کئی نسخے حاصل کیے ، تاکہ وہ اس کو لوگوںکے درمیان تقسیم کرسکیں۔
5- 29 اگست 2015ناگپور کی سی پی ایس ٹیم نے آئی ٹی ایم انجینئرنگ کالج، کامپٹی کا دعوتی دورہ کیا ۔اور وہاں کے اساتذہ اور طلبہ سے انٹریکشن کیا۔ نیز وہاں کے پرنسپل ، ڈین، پروفیسرس اور طلبہ کے درمیان ترجمۂ قرآن و دعوتی لٹریچر(انگلش اور مراٹھی ) تقسیم کیا ۔ تمام لوگوں نے اس کو بہت خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
6- درگا پوجا مغربی بنگال کے ہندوؤںکا بہت اہم تیوہارہے۔ یہ اکتوبر کے مہینہ میں منایا جاتا ہے، مگر اس کے لیے شاپنگ کی ابتدا پہلے سے ہوتی ہےجس کے لیے جگہ جگہ میلے لگتے ہیں۔ اس مرتبہ کولکاتا کی سی پی ایس ٹیم نے اس طرح کے ایک میلےمیں اپنا ایک دعوتی اسٹال لگایا۔لوگوں کی طرف سے بہت ہی اچھا رسپانس ملا،میلے میں آنے والے وزیٹرس اور اسٹال مالکان نے دعوہ لٹریچر خاص طور پر انگلش قرآن اور اسپرٹ آف اسلام میں اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔اس دعوتی اسٹال کو مس شبینہ علی ، سی پی ایس ٹیم کولکاتا نے آرگنائز کیا تھا۔ اوریہ میلہ کولکاتا کے ایک پاش ایریاروجر ہاٹ میں 5-7ستمبر 2015 کو لگاتھا۔
7- 26 اگست تا 9ستمبر 2015 صدر اسلامی مرکز نے امریکا کا پندرہ روزہ دورہ کیا۔ اس سفر کا خاص مقصد امریکا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا‘ (ISNA)کی جانب سےصدر اسلامی مرکز کو لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ کے لئے منتخب کیا جاناتھا- ان کو یہ ایوارڈ 6ستمبر 2015 کو شکاگو میں منعقدہ ISNA کے 52ویں سالانہ کنونشن کی ایک تقریب میں پیش کیاگیا۔ یہ ایوارڈ ISNA کے صدر ازہر عزیز نے پیش کیا۔ایوارڈ پیش کرتے ہوئے اسنا کے صدر موصوف نے کہا: ’’فروغ امن اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو قریب لانے کی مولانا کی تاحیات کوششوں اور خدمات کے اعتراف میں ان کو اس ایوارڈ سےنوازا جارہا ہے۔ ‘‘اس موقع پر ISNA کےانٹرفیتھ اور کمیونٹی الائنس آفس کے نیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر سید سعید نے مولانا کی نئی کتاب دی ایج آف پیس (The Age of Peace) کا اجراء کیا اور کہا کہ مولانا کی اس اہم ترین کتاب کا ہر شخص کومطالعہ کرنا اور اس پر آپس میں تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔اس پندرہ روزہ سفر کے دوران مولانا نے نیویارک، پنسلوانیا، واشنگٹن اور شکاگو کا دورہ کیا اور یہاں پر مختلف پروگرام میں اپنے خطاب میں امریکی مسلمانوں کی توجہ دعوت کی طرف مبذول کرائی۔ذیل میں ایک ادارے کی طرف سے شکریے کا ایک خط نقل کیا جارہا ہے جہاں صدر اسلامی مرکز اپنی ٹیم کے ساتھ گئے اور امن کے موضوع پر خطاب اور انٹریکشن کیا:
Dear Khaja Kaleem, Many thanks to you and everyone who made your visit with Maulana Khan and the delegation possible. We were truly honored by Maulana’s visit and his inspiring remarks. Please convey our deepest gratitude to him! Thank you for leaving the incredible library of Maulana’s publications with us to share with our colleagues and friends! Warmest regards (Melissa Nozell , Program Specialist, United States Institute of Peace, Washington, D.C.)
8- ابھی حال ہی میں حکومت دبئی نے ایک اہم فیصلہ لیا ہے۔ جس کے تحت دبئی کے تمام ہوٹلوں کے کمروں میں قرآن کا انگلش ترجمہ رکھنا ضروری ہے تاکہ وہاں ٹھہرنے والے مہمان اس کو پڑھ سکیں۔ اس حکومتی فیصلے پر عمل کرتے ہوئےروٹاناگروپ ہوٹل (Rotana Group Hotel) نے صدر اسلامی مرکز کے انگلش قرآن کو اپنے گروپ کے تحت چل رہے تمام ہوٹلوں میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے علاوہ پہلے سے عرب امارات کے مختلف ہوٹلوں اور سیاحتی مقامات جیسے میوزیمس، اورتاریخی مساجد وغیرہ کے ذریعےوہاں آنے والے سیاحوں کے درمیان صدر اسلامی مرکز کے انگریزی ترجمۂ قرآن کی تقسیم کا کام ہو رہا ہے۔
9- ذیل میں ایک قاری الرسالہ کا تاثر نقل کیا جارہا ہے:
میں الرسالہ اور آپ کی تحریروں کا پرانا قاری ہوں۔ آپ کی تحریروں کی وجہ سے میں فکری کنفیوزن کے جنگل سے نکل سکا ہوں۔ یہ اللہ کا بہت بڑا کرم اور آپ کا احسان ہے۔(محمد منصور سردار، کلیان، مہاراشٹر)
واپس اوپر جائیں