Pages

Friday 2 December 2016

Alrisala December 2016 (الرسالہ دسمبر)

4

-دین کی حقیقت

5

- فیصلہ کی بنیاد

6

- انسان کی تخلیق

8

- حق کی آواز کو دبانا

9

- عیب پوشی

10

- اصلاحِ امت

12

- اسلام کے نام پر غیر اسلام

13

- جنت، جہنم

14

- دعوتی منصوبہ

16

- بچوں کی تربیت

17

- فقہی زبان، نفسیاتی زبان

18

- استدراکات عائشہ

19

- پسند، ناپسند

20

- شادی شدہ زندگی

21

- شکایت نہیں

22

- زوجین کا تعلق

24

- ربانی پرسنالٹی

26

- علمی سفر

28

- جنت سے محرومی

29

- قومی مزاج، اسلامی مزاج

31

- بابری مسجد کا سبق

32

- ایک تقابلی مثال

33

- نصرتِ الہٰی کا قانون

35

- طلاق کا مسئلہ

37

- شباب کا زمانہ

38

- متوازن شخصیت

39

- انسان کی خصوصیت

40

- حقیقت کا اعتراف

42

- حساسیت

43

- سوال و جواب

45

- خبرنامہ اسلامی مرکز

49

- ضروری اعلان


دین کی حقیقت

قرآن کی سورہ نمبر107 کے الفاظ یہ ہیں:اَرَأَیْتَ الَّذِی یُکَذِّبُ بِالدِّینِ۔ فَذَلِکَ الَّذِی یَدُعُّ الْیَتِیمَ ۔ وَلَا یَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْکِینِ ۔ فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّینَ۔ الَّذِینَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُونَ ۔ الَّذِینَ ہُمْ یُرَاءُونَ ۔ وَیَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ (سورہ الماعون)۔یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا اس شخص کو جو جزاء کے دن کو جھٹلا تا ہے۔ ایسا ہی شخص یتیم کو دھکا دیتا ہے۔ اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں ابھارتا۔ پس تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ وہ جو دکھلاوا کرتے ہیں۔ اور معمولی ضرورت کی چیزیں بھی نہیں دیتے۔ قرآن کی اس سورہ میں ایک خصوصی اسلوب کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس سورہ میںسب سے پہلے نتیجہ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ان چیزوں کا ذکر ہے، جو کسی انسان کو اس نتیجہ تک پہنچانے والی ہیں۔اس سورہ میںپہلی بات تکذیبِ دین ہے۔ یعنی روز جزاء (Day of Judgement)کو نہ ماننا ۔ جو لوگ دنیا میں اس طرح زندگی گزاریں، جیسے حیوان زندگی گزارتا ہے تو وہ اپنے عمل سے اس بات کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ ان کے نزدیک دنیا ایک بے مقصد دنیا ہے۔ وہ کسی مقصد کے بغیر شروع ہوئی، اور کسی مقصد تک پہنچے بغیر ختم ہوجائے گی۔ ایسے لوگوں کے لیے آخری انجام ویل ہے۔ یعنی تباہ کن ناکامی۔ ایسے لوگوں کی ظاہری علامت کیا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو نیچا سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر پاتے جن کو وہ اپنے مقابلے میں بے زور سمجھتے ہوں۔ مثلا یتیم اور نادار لوگ۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں، اس کو صرف وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے لیے ان کی کمائی میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ وہ اگر بظاہر دین دار ہوں، تب بھی ان کی دین داری صرف کچھ ظواہر کے معنی میں ہوتی ہے۔ ان کی دین داری دین کی حقیقی اسپرٹ سے خالی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے معمولی درجہ میں بھی دینے والے نہیں بنتے۔
واپس اوپر جائیں

فیصلہ کی بنیاد

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاول 10 ھ کو مدینہ میں ہوئی۔ وفات سے چند مہینہ پہلے 9 ھ میں آپ نے مکہ جاکر حج ادا فرمایا۔ اس موقع پر آپ نے اپنی امت کو آخری ہدایت دیتے ہوئے فرمایا تھا:ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ , وسنة نبیہ (موطا الامام مالک، حدیث نمبر1874) ۔یعنی میں نے تمھارے درمیان دو امر چھوڑے ہیں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہوگے، اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت۔ ملا علی قاری نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں امر کا مطلب بتایا ہے حَکَم (بیروت، 2002،1/269 )۔ حکم کا مطلب ہے فیصلہ کرنے والا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ امر سے مراد معیار (criterion) ہے۔ بعد کے زمانے میں جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود موجود نہ ہوں گے، اس وقت امت کو یہ کرنا ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ قرآن اور سنت میں اس مسئلے کا جواب تلاش کرے، اور جو جواب قرآن و سنت میں ملے ، اس کو کسی عذر کے بغیر قبول کرلے۔ مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب کوئی گروہ ان کو اپنا دشمن نظر آئے تو فوراً اس کے خلاف لڑنا شروع کردیں۔ بلکہ انھیں اس کا جواب قرآن و سنت میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں قرآن میں اس کی واضح رہنمائی ملے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اس آیت کے مطابق، کوئی گروہ مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے۔ اس کے برعکس، پیدائشی طور پر ہر گروہ مسلمانوں کے لیے امکانی دوست کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں مسلمانوں کی منصوبہ بندی یہ ہونا چاہیے کہ وہ بالقوۃ (potential) دوست کو بالفعل (actual) دوست بنائے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

قرآن کی سورہ نمبر 95 میں انسان کے خالق کی طرف سے یہ الفاظ آئے ہیں:لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ ۔ ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ (التین 4-5 :)۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ انسان اپنے خالق کا بہترین آرٹ ہے۔ کوئی آرٹسٹ ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ ایک بہترین آرٹ کی تخلیق کرے، اور پھر اس کو کوڑا خانے میں ڈال دے۔ یہ اسلوب کی بات ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تخلیق کے اعتبار سے انسان کے لیے نہایت اعلی انجام مقدر ہے۔ مگر انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے خود سے اپنے آپ کو کوڑے کے ڈھیر میں ڈال دیا۔ انسان کے بارے میں یہ حقیقت قرآن کی ایک اور سورہ میں اس طرح آئی ہے۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: اور ان کو اس شخص کا حال سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں تو وہ ان سے نکل بھاگا۔ پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے مگر وہ تو زمین کا ہو رہا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگا۔ پس اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر بوجھ لادے تب بھی ہانپے اور اگر چھوڑ دے تب بھی ہانپے۔ یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا۔ پس تم یہ احوال ان کو سناؤ تاکہ وہ سوچیں۔ (الانعام 175-176 :)۔ دونوں آیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے تخلیق کے اعتبار سے بہترین ساخت (mould) کے ساتھ پیداکیا۔ لیکن اسی کے ساتھ انسان کو آزادی بھی عطا کردی۔ یہ انسان کے لیے ایک مزید عطیہ تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال کرکے اپنے آپ کو اس درجے تک پہنچائے جو اس کے لیے تخلیق کے اعتبار سے مقدر تھا۔ مگر انسان کی اکثریت نے تخلیق کی اس حکمت کو نہیں سمجھا، اور اپنے آپ کو خود سے تباہ کرلیا۔ تاہم آیتوں کا مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ خالق کی عنایت سے انسان کے لیےامکان ختم نہیں ہوا، وہ اس کےلیےبدستور باقی ہے۔ انسان کے لیے یہ امکان باقی ہے کہ اگر اس نے پہلا موقع (first chance) کھودیا ہے تو اپنی زندگی کی نئی منصوبہ بندی (re-planning) کرکے ، وہ دوسرا موقع (second chance) کو اویل (avail) کرسکتا ہے۔ یہ مزید موقع انسان کے لیے اس وقت تک باقی رہے گا جب تک وہ اس دنیا میں زندہ موجود ہو۔ نیا منصوبہ کیا ہے۔ نیا منصوبہ اپنی غلطی کے اعتراف سے شروع ہوتا ہے۔ انسان اگر اپنے ذہن کو بیدار کرے، وہ یہ دریافت کرے کہ اس سے کہاں غلطی ہوئی ہے، کس موڑ پر اس نے پہلے موقع کو کھودیا ہے۔ اس دریافت کے بعد یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ انسان حالات کا دوبارہ اندازہ کرے، وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو از سر نو دریافت کرے۔ اس کے بعد وہ پوری سنجیدگی کےساتھ اپنی زندگی کا نیا نقشہ بنائے گا۔ جو مرد یا عورت ایسا کریں، ان کے لیے فطرت کا قانون پوری طرح معاون بن جائے گا۔ ایسے عورت اور مرد دیکھیں گے کہ بہت جلد انھوں نے اپنی چھوٹی ہوئی بس (Missed Bus)کو پالیا ہے۔ جو دنیا پہلے بظاہر ان کی دشمن نظر آتی تھی، وہ اب پوری طرح ان کی دوست بن گئی ہے۔ زندگی میں نئی منصوبہ بندی (re-planning) ہمیشہ ممکن ہوتی ہے۔ یہاں ہمیشہ یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی کا نیا سفر شروع کرے، اور بہت جلد وہ اپنی مطلوب منزل تک پہنچ جائے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں پوری طرح سنجیدہ (sincere) ہو۔ وہ شکایت کی نفسیات سے پوری طرح پاک ہو،وہ اپنی ماضی کی غلطی کو دوبارہ نہ دہرائے، وہ تواضع (modesty) کا طریقہ اختیارکرے، نہ کہ کبر (arrogance) کا طریقہ۔ وہ اپنی غلطی کو ماننے کے لیے ہر وقت تیار رہے۔ جو عورت یا مرد اس کردا ر کا ثبو ت دیں ، ان کو کوئی چیز کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے روکنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حق کی آواز کو دبانا

جس شخص کا ذہن بگڑا ہوا ہو، اس کے سامنے سچائی آتی ہے تو وہ اس کے مقابلے میں دحض کا معاملہ کرتا ہے۔ یعنی حق کی آواز کو دبانا۔قرآن میں اس معاملہ کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِینَ إِلَّا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ وَیُجَادِلُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آیَاتِی وَمَا أُنْذِرُوا ہُزُوًا (18:56)۔ یعنی رسولوں کو ہم صرف خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجتے ہیں۔ اور منکر لوگ ناحق کی باتیں لے کر جھوٹا جھگڑا کرتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعہ سے حق کو باطل ثابت کردیں اور انھوں نے میری نشانیوں کو اور جو ڈر سنائے گئے ان کو مذاق بنا دیا۔ رسول کو مبشر اور منذر بنا کر بھیجنے کا مطلب ہے، دلیل کے ساتھ بھیجنا۔ اللہ کا رسول اپنی بات کو دلائل کی زبان میں پیش کرتا ہے۔ لیکن جو لوگ اپنی غیر سنجیدگی کی بنا پر رسول کی بات کو ماننا نہیں چاہتے، وہ اس کے مقابلے میں دحض کا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے استہزاء کے زبان میں اس کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک بے حد غلط کردار ہے۔ یہ غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ اصل یہ ہےکہ حق کی دعوت ہمیشہ انسانی فطرت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر آدمی سنجیدگی کے ساتھ سوچے تو وہ حق کو اپنی فطرت کے مطابق پاکر اس کو قبول کرلے گا۔ لیکن وہ ظلم اور علو کی بنا پر ایسا نہیں کرتا۔ یہی بات قرآن کی اس آیت میں کہی گئی ہے: وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا أَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا (27:14)۔ یعنی انھوں نے ان کا انکار کیا ظلم اور علوکی بنا پر۔حالاں کہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کرلیا تھا۔یہاں ظلم کا مطلب ہے کہ داعی کی دلیل کو استہزاء کے ذریعہ کم دکھانا، اور اپنی بات کو بڑھا چڑھا کر زیادہ اہم بتانا۔ یعنی اپنے غیر سنجیدہ جواب کے ذریعہ یہ ظاہر کرنا کہ داعی کی بات اس قابل ہی نہیں کہ اس کو کوئی وزن دیا جائے۔یہ دونوں طریقے باطل طریقے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

عیب پوشی

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: من ستر مسلما سترہ اللہ فی الدنیا والآخرة(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2544)۔ یعنی جس نے کسی مسلم کے عیب کو چھپایا تو اللہ اس کے عیب کو چھپائے گا، دنیا میںاور آخرت میں۔ اس حدیث میں اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ کسی عیب کو اس کی بدنامی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس کواس انسان کی امیج بگاڑنے کے لیے غیر متعلق لوگوں سےبیان کیا جائے۔مگر جہاں تک اصلاح کا تعلق ہے۔ وہ ہر مومن کا فریضہ ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے: المؤمن مرآة المؤمن (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4918)۔یعنی ایک مومن دوسرے مومن کے لیے آئینہ ہوتا ہے۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کے عیب کو چھپادیا جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عیب کو خود عیب والے شخص سے ہمدردی کے انداز میں بتایا جائے۔ آدمی کی امیج کو بگاڑنے کے لیے غیر متعلق لوگوں سے اس کو بیان کرنا ایک ناجائز فعل ہے۔ اگر آپ کو کسی شخص کا عیب معلوم ہو تو آپ کے لیے دو میں سے ایک کا اختیار ہے۔ یا تو اس کو اپنے دل میں رکھیں، کسی سے اس کو بیان نہ کریں، یا متعلق شخص سے ملیں اور ہمدردی اور اصلاح کے جذبے کے تحت اس کو بتائیں۔ یہ طریقہ سماج کے اندر تعمیری ماحول پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ یہ کریں کہ دوسرے آدمی کے عیب کو کرید کر معلوم کریں اور پھر اس کو اِدھر اُدھر بیان کریں تو یہ قرآن کے الفاظ میں اشاعت فاحشہ (النور: 19) ہے۔ اشاعت فاحشہ سے وہی چیز مراد ہے جس کو موجودہ زمانے میں کردار کشی (character assassination)کہا جاتا ہے۔ اگر آدمی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ دلیل کی زبان میں اس کا جواب دے سکتا ہے۔ لیکن شخصی عیب کو لے کر لوگوں میں اس کو بدنام کرنا ، اس کی سماجی تصویر کو بگاڑنا، منافقت کی پہچان ہے۔
واپس اوپر جائیں

اصلاحِ امت

اصلاح امت کا سوال ہمیشہ نبوت کے دور کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اصلاحِ امت کا مطلب ہے----- امت کی بعد کی نسلوں میں جب زوال آجائے تو زوال یافتہ لوگوں کو پیغمبر کے دور کی طرف لوٹانا۔ گویا اصلاح امت کا مقصد ہے: بعد کے دور پیدا ہونے والے امت کے افرادکو نبوت کے دور کی طرف واپس لے جانا۔ یہی بات امام مالک نے اپنے استاد ، وہب ابن کیسان کے حوالے سے ان الفاظ میں کہی ہے: إنہ لا یصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح أولہا، قلت لہ:یرید ماذا؟ قال یرید التقى (مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر 783) ۔ قرآن میں اصحابِ رسول کی صفت اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّار (48:29)بتائی گئی ہے۔یعنی وہ دین کے معاملے میں خارجی ماحول کا اثر قبول نہیں کرتے۔ اس کے برعکس، زوال یافتہ قوموں کے بارے میں کہا گیا ہے: یُضَاہِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ (9:30)۔ یعنی وہ دین کے معاملے میں خارجی ماحول کا اثر قبول کرلیتے ہیں۔ ان آیات میں کچھ امتوں کے حوالے سے فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔ جب ایک امت اپنے دورِ عروج میں ہو تو وہ اپنے اصولوں میں اتنی پختہ ہوتی ہے کہ وہ ماحول کا اثر قبول کیے بغیر اپنے دینی اصول پر قائم رہتی ہے۔ اس کے برعکس، جب کسی امت پر زوال کا دور آجائے تو اس کے اندر اصول پسندی کا مزاج باقی نہیں رہتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میںماحول کا اثر قبول کرنے لگتی ہے۔ امتوں کے اندر بگاڑ کا سبب یہی ہے۔ کسی امت پر جب زوال کا یہ دور آجائے تو اس کے مصلحین کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ امت کے احوال کا گہرا مطالعہ کرکے اس کی نوعیت کو سمجھیں۔ وہ بگاڑ کے اصل سبب (root cause) کو دریافت کرکے حقیقت پسندانہ انداز میں اس کے اصلاح کی منصوبہ بندی کریں۔ موجودہ زمانہ ایک ایسا زمانہ تھا جب کہ کمیونزم اور سوشلزم اور ڈیماکریسی کا بہت چرچا ہوا۔ اس کے علم بردار سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system)کے انداز میں زندگی کا مطالعہ کرنے لگے۔ اس کے اثر سے موجودہ زمانہ میں مضاہات (imitation)کی ایک نئی صورت وجود میں آئی۔ مسلم مفکرین اسلام کی تعبیر سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system) کی صورت میں کرنے لگے۔مثلا انھوں نے یہ کیا کہ قرآن میں جو احکام لازم کے صیغے میں دیے گیے تھے ،ان کو متعدی کے صیغے میں تبدیل کردیا۔ یعنی کتاب اللہ میں جو احکام انفرادی پیروی کے معنی میں دیے گیے تھے، ان کو وہ بذریعہ طاقت نفاذ (enforcement) کی اصطلاحوں میں بیان کرنے لگے، وغیرہ۔ فعل لازم کو فعل متعدی بنانے کی یہ غلطی باعتبارِ نتیجہ امت کے اندر مختلف قسم کی برائیوں کا سبب بن گئی۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ امت میں سیاسی انتہاپسندی (political extremism) کا مزاج پیدا ہوگیا۔ لوگ اتھاریٹی سے ٹکراؤ کرنے لگے۔ تاکہ وہ اپنے مطلوبہ نظام کو نافذ کرسکیں۔ اس کے نتیجے میں امت دوگروہوں میں بٹ گئی۔ اس کے بعد امت کےاندر وہ چیز پیدا ہوئی جس کو ریڈیکلائزیشن (radicalization)کہا جاتا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، یہ سیاسی انتہاپسندی (political extremism) مکمل طور پر بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد لوگوں کے اندر جو مایوسی پیدا ہوئی ، اس کا انجام ایک شدید تر برائی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور وہ خود کش بمباری (suicide bombing) ہے۔ خود کش بمباری کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر مفروضہ دشمن کو مغلوب نہ کرسکو تو اپنی جان دے کر اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرو۔ اصلاح امت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بے حد نازک کام ہے۔ اس کام میں ہر وقت یہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی افراط یا تفریط کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے، اور پھراس کا کام اصلاح کے بجائے بگاڑ کا سبب بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کے نام پر غیر اسلام

حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں ہیں جو امت مسلمہ کے دور زوال کے بارے میں بطور پیشین گوئی آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن أول ما یکفأ - یعنی فی الإسلام - کما یکفأ الإناء یعنی الخمر . فقیل:کیف یا رسول اللہ وقد بین اللہ فیہا ما بین؟ قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:یسمونہا بغیر اسمہا فیستحلونہا (سنن الدارمی، حدیث نمبر 2145)۔ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سب سے پہلے جس کام کو(اسلام میں) اوندھا کردیا جائے گا جیسے برتن اوندھا کردیا جاتا ہے، وہ شراب ہوگی۔ پوچھا گیا اے خدا کے رسول ، ایسا کیوں کر ہوگا جب کہ شراب کے متعلق اللہ احکام بیان کرچکا ہے جو سب پر ظاہر ہیں ؟ آپ نے کہا: لوگ اس کا نام بدل دیں گے پھر اس کو حلال قرار دے لیں گے۔ اس حدیث میں خمر کا لفظ علامت کے طور پر آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب امت مسلمہ پر زوال کا دور آئے گا تو وہ ہر معاملہ میں اسلام کو معنی ً(اسپرٹ کے اعتبار سے)چھوڑدیں گے، لیکن لفظاََ اس کو پوری طرح پکڑے رہیں گے۔ اس طرح وہ ایک ایسا کام کریں گے جس کو غیر اسلام کو اسلامائز کرنا(Islamisation of non-Islam)کہا جاسکتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ دورِ زوال میں امت ایسا نہیں کرے گی کہ وہ اسلام کو چھوڑدے۔ بلکہ یہ ہوگا کہ امت عملاً دوسری قوموں کی طرح ایک قوم بن جائے گی۔ لیکن امت کے لوگ اپنی قومی سرگرمیوں کے لیےایسے الفاظ بولیں گے، جو بظاہر اسلامی ڈکشنری کا حصہ معلوم ہوں لیکن حقیقت کے اعتبار سےوہ قومی ڈکشنری کا حصہ ہوں گے۔ مثلا ًوہ اپنی قوم کو امت کے لفظ سے موسوم کریں، وہ اپنی قومی لڑائی کو جہاد کا نام دیں گے، وہ قومی سرگرمیوں کو اسلامی سرگرمیوں کا نام دیں گے، وہ اپنی قومی سیاست کو اسلامی خلافت کہیں گے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

جنت، جہنم

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم أنہ قال: ما رأیت مثل النار نام ہاربہا، ولا رأیت مثل الجنة نام طالبہا(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر383)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے جہنم کے مثل کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس سے بھاگنے والا سو جائے اور نہ جنت کےمثل کوئی چیز دیکھی کہ اس کا طلب گار سو جائے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان جہنم جیسی غیر مطلوب چیز سے بھاگ نہیں پاتا۔ اور کیوں ایسا ہے کہ انسان جنت جیسی مطلب چیز کو اپنی منزل نہیں بنا پاتا۔ اس کا سبب غفلت (الروم: 7)ہے۔یہ غفلت ظاہر بینی کے مزاج کی بنا پر ہوتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی سوچ بیدار نہیں ہوتی۔ اس ذہنی عدم بیداری کی بنا پر آدمی ان حقائق سے بے خبر رہتا ہے، جن سے اس کو بہت سے زیادہ باخبر ہونا چاہیے۔ زندگی کی حقیقت کے اعتبار سے انسان کو سب سے زیادہ یہ سوچنا چاہیے کہ خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan)کے مطابق، زندگی کو کامیاب بنانے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ زندگی کو کامیاب کرنے کا نہیں۔ اس معاملے میں انسان کے لیے کوئی اختیار (option) موجود نہیں۔ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، کامیاب وہ ہے جو موجودہ دنیامیں اپنی زندگی کی مدت پوری کرنے کے بعد آخرت میں جنت کا مستحق قرار پائے۔ اس برعکس ناکامی یہ ہے کہ آدمی جب موجودہ دنیا میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد آخرت میں پہنچے تو وہاں یہ پائے کہ جہنم کے فرشتے اس کو گرفتار کرنے کے لیے موجود ہیں۔ یہی کسی انسان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کوئی مرد یا عورت اس مسئلہ سے بے خبری کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہی وہ حقیقت ہےجس کو مذکورہ حدیث میں مخصوص انداز میںبیان کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی منصوبہ

قرآن کی سورہ نمبر74 نبوت کے بالکل آغاز میں اتری۔ اس سورہ کی چندابتدائی آیتیں یہ ہیں: یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَأَنْذِر۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّر۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ۔ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ۔ وَلِرَبِّکَ فَاصْبرِ (المدثر 1-7 :) یعنی اے کپڑا اوڑھ کر لیٹنے والے۔ اٹھ اور لوگوں کو ڈرا۔ اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر۔ اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ۔ اور گندگی کو چھوڑ دے۔ اور ایسا نہ کرو کہ احسان کرو اور بہت بدلہ چاہو۔ اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔ قرآن کی اس سورہ میں المدثر سے مراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس سورہ میں پیغمبر کو یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا پیغمبرانہ مشن کیا ہے۔ اور یہ کہ مشن کے آداب کیا ہیں۔ اس کے مطابق، پیغمبر کا اصل مشن انذار ہے۔ انذار کا لفظی مطلب ہے، ڈرانا یا ہوشیار کرنا۔یعنی لوگوں کو خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan of the Creator) سے آگاہ کرنا۔ ہر نبی کا اصل مشن یہی ہوتا ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن بھی یہی تھا۔ آدابِ دعوت میں بنیادی چیز وہ ہے جس کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ یعنی اور گندگی کو چھوڑدے۔مفسرین نے لغت کا اعتبار کرتے ہوئے یہاں رُجز کوبت (اصنام) کےمعنی میں لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاںاصنام کو چھوڑنے سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد اصنام پرستی نہیں ہے ،بلکہ اصنام کی موجودگی ہے۔ اصنام کی یہ موجودگی کعبہ کے اندر تھی۔ اس زمانے میں مکہ کے اوپر مشرک لوگوں کا غلبہ تھا۔ انھوں نے اپنے ذوق کے مطابق، کعبہ کی عمارت میں بت رکھنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ان کی تعدادتقریباً 360 تک پہنچ گئی۔ یہ بت عرب میں پھیلے ہوئے مختلف قبائل کے بت تھے۔ ان بتوں کی وجہ سے عرب کے قبائل سال بھر وہاں آتے رہتے تھے۔ تاکہ وہ اپنے بتوں کی پوجا کریں۔ اس طرح کعبہ عرب میں اجتماع کا ایک مستقل مرکز بن گیا تھا۔ والرجزفاھجرمیں فاھجردراصل فاعرض کے معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اصنام پرستی کو چھوڑدے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ میں اصنا م کی موجودگی کو وقتی طور پر نظر انداز کرو۔ تاکہ دعوت کا مشن کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ یہ گویا دعوتی طریقہ کار کا ایک کامیاب فارمولا تھا۔ یعنی بتوں کی موجودگی کے مسئلے کو نظرانداز کرو، اور ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کےپاس جو مجمع اکٹھا ہوتا ہے، اس کو اپنے مشن کے لیےبطور آڈینس (audience) استعمال کرو۔ قرآن فہمی کے لیے سببِ نزول نہایت اہم ہے۔ ایک سببِ نزول وہ ہے جو لفظی طور پرکسی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا سببِ نزول وہ ہے جو تاریخی حالات کے مطالعے سے دریافت ہوتا ہے۔ تاریخی حالات کے اعتبار سے اس آیت کا سبب نزول متعین کیا جائے تو وہ پیغمبر ِ اسلام کے عمل سے مستنبط ہوگا۔ وہ یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک مکہ میں رہے۔ اس زمانے میں آپ یہ کرتے تھے کہ کعبہ کے پاس جمع ہونے والے لوگوں کے پاس جاتے اور کعبہ میں اصنام کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے،ان کو قرآن کی آیتیں سناکر ان کے سامنے اسلام پیش کرتے۔ سیرت کی کتابوں میں اس واقعے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:عرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن (سیرت ابن ہشام، 1/428)۔ پیغمبر اسلام کا یہ طریقہ ایک دعوتی اصول کی انتہائی مثال ہے۔ یعنی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مواقع کو بھرپور طور پر استعمال کرنا۔ دعوت کا موضوع ہمیشہ اور ہر زمانے میں ایک رہے گا۔ لیکن مسائل کی صورتیں بدلتی رہیں گی۔ قدیم زمانے میںاگر یہ مسئلہ تھا کہ کعبہ کی عمارت کےاندر بت رکھ دیے گیےتھے تو موجودہ زمانےمیں حالات کے اعتبار سے مسائل مختلف ہوسکتے ہیں۔ مثلا کسی دنیوی یا سیاسی مقصد کے لیے لوگوں کا ایک مقام پر اکٹھا ہونا۔ ایسے موقعہ پر اگر کوئی غیر دینی فعل کیا جارہا ہے تو داعی کو چاہیے کہ وہ اس کو نظر انداز کرے، اور وہاں پہنچ کر لوگوں کو حق کا پیغام دے۔خواہ زبانی طور پر یا لٹریچر کی تقسیم کے ذریعے۔ داعی کی توجہ ہمیشہ دعوت کے مواقع (opportunities) پر ہونی چاہیے، نہ کہ دعوت کے مسائل (problems)پر۔ یہ حکمتِ دعوت ہے۔اس حکمت کو اختیار کیے بغیر دعوت کا کام موثر طور پر نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کی تربیت

حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: ما نحل والد ولدہ نحلا أفضل من أدب حسن(مسند احمد، حدیث نمبر16710)۔ یعنی کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے سب سے اچھا تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کو اچھے ادب کا تحفہ دے۔ ادب کا مطلب عربی زبان میں حسن اخلاق (good conduct) ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے اندر پہلے اچھی سوچ آتی ہے، اس کے بعد اس کے اندر اچھا اخلاق آتا ہے۔ اچھی سوچ حسن اخلاق کی بنیاد ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کے اندر درست طرز فکر (right thinking)پیدا کرے۔ جس آدمی کے اندر درست طرز فکر ہو، اس کا ہر رویہ درست ہوجائے گا۔ ایسے آدمی کی سوچ درست سوچ ہوگی۔ ایسے آدمی کا سلوک، درست سلوک ہوگا۔ ایسے آدمی کا معاملہ (dealing)، درست معاملہ ہوگا۔ ایسےآدمی کی منصوبہ بندی، درست منصوبہ بندی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر مثبت سوچ (positive thinking)کا حامل ہوگا، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے مکمل طور پر خالی ہوگا۔ جس آدمی کے اندر یہ حسنِ ادب موجود ہو، وہ اپنے ہر معاملہ میں ایک بہتر انسان ہوگا۔ ایساآدمی خواہ اپنے گھر کے اندر ہو یا وہ گھر کے باہر ہو، وہ اپنوں سے معاملہ کرے یا غیروں سے معاملہ ۔ ہر حال میں وہ درست رویہ پر قائم رہے گا۔ اس کی درست سوچ ایک ایسا عامل (factor) بن جائے گی، جو اس کو ہر موقع پر بے راہ روی سے بچائے گی۔ ایسا آدمی ایک سنجیدہ انسان ہوگا۔ایسا آدمی ذمہ دارانہ اخلاق کا حامل ہوگا۔ ایسے آدمی کے اندر وہ کردار ہوگا، جس کو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ کسی انسان کے لیے اپنے سرپرستوں کی طرف سے یہ سب سے زیادہ قابل قدر عطیہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

فقہی زبان، نفسیاتی زبان

نصیحت کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے فقہی زبان میں نصیحت کرنا، اور دوسرا ہے، نفسیات کی زبان میں نصیحت کرنا۔ فقہی زبان اوامر اور نواہی (do’s and don’ts) کی زبان ہوتی ہے۔ اس میں صرف حکم کی زبان ہوتی ہے۔ یعنی یہ کرو اور وہ نہ کرو۔اس طرح کی زبان ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو پہلے سے عمل کے لیے تیار ہوں۔ لیکن جو آدمی پہلے سے عمل کے لیے تیار نہ ہو اس کی اصلاح کے لیے امر و نہی کی زبان کافی نہیں ہوسکتی۔ایسے آدمی کے لیے وہ زبان مفید ہے جس کو نفسیات کی زبان کہا جاتاہے۔ نفسیات کی زبان کیا ہے۔یہ وہی زبان ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔یعنی ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دل میں اتر جائے۔یہاں دل (نفس )سے مراد عقل ہے۔ یعنی بات کو ایسے اسلوب میں بیان کیا جائے جو مخاطب کی عقل کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ جس کو سن کر مخاطب قول کی اہمیت کو دریافت کرے، وہ اس کو غور و فکر کے قابل سمجھے ۔اس کو سن کر آدمی سوچ میں پڑجائے، جو اس کے ذہن کے لیے مہمیز کا کام کرے۔ امر و نہی کی زبان صرف ایسے شخص کے لیے کارآمد ہے جو پہلے سے آپ کی بات کو مانے ہوئے ہو۔ اس کے برعکس، دوسرے قسم کی زبان ہر ایک کے لیے مفید ہے۔ جو شخص اس بات کو پہلے سے مانتا ہواس کے اندر آپ کی بات کی صداقت پر مزید یقین پیدا ہوجائے۔ اور جو شخص آپ کی بات کو پہلے سے نہ مانتا ہو، وہ اس پر غور کرے گا۔ اور عین ممکن ہے کہ اس کو دل سے ماننے والا بن جائے۔ امر و نہی کی زبان فقہی کلام کے لیے درست ہے۔ لیکن دعوت و اصلاح کے میدان میں صرف وہی کلام مفید ہے جو نفسیاتی اسلوب میں کہا گیا ہو، جو آدمی کے عقل کو ایڈریس کرنے والا ہو، جس کو سن کر آدمی کا دل گواہی دے کہ وہ واقعۃ ایک بر حق کلام ہے۔
واپس اوپر جائیں

استدراکات عائشہ

استدراک کا لفظی مطلب ہے، غلطی کی اصلاح کرنا (to make right)۔ حضرت عائشہ کی بہت سی روایتیں ہیں جن کو استدراک کہا جاتاہے۔ ان روایتوں میں حضرت عائشہ نےکسی راوی کی روایت کی تصحیح کی ہے۔ راوی نے کوئی بات رسول اللہ سے منسوب کی تو عائشہ نے کہا کہ رسول اللہ نے یہ بات اس طرح نہیں کہی تھی، بلکہ اس طرح کہی تھی۔ حضرت عائشہ کے اس طرح کے اقوال کو استدراکات عائشہ کہا جاتا ہے۔ اس موضوع پرعلماء حدیث نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ ایک مشہور کتاب یہ ہے:عین الاصابہ فی استدراک عائشۃ علی الصحابہ للسیوطی(مکتبة العلم القاہرة 1409 ھـ)۔ مصنف نے اس کتاب میں حضرت عائشہ کے 52استدراکات کو جمع کیا ہے۔ حضرت عائشہ کے استدراکات میں سے ایک یہ ہے:بلغ عائشة، أن ابن عمر، یقول:إن موت الفجأة سخطة على المؤمنین، فقالت:یغفر اللہ لابن عمر، إنما قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:موت الفجأة تخفیف عن المؤمنین، وسخطة على الکافرین(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 3129)۔ یعنی عائشہ کو یہ بات پہنچی کہ ابن عمر ایسا کہتے ہیں کہ اچانک کی موت اللہ کی ناراضگی کی علامت ہے۔ تو عائشہ نے کہا کہ اللہ ابن عمر پر رحم فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اچانک کی موت مومن پر آسانی (softening)ہے اورکافر پر ناراضگی ہے۔ یہ صرف عائشہ اور ایک راوی کے درمیان مکالمےکا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس سے ایک اصول اخذ ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام میں عورت اور مردکے درمیان درجہ کے اعتبار سےکوئی فرق نہیں ہے۔ عورت اگر اپنے آپ کو علم و عقل کے اعتبار سےتیار کرے تو وہ معاملات میں مردوں کی رہنمائی کرسکتی ہے۔وہ زندگی میںقائدانہ رول ادا کرسکتی ہے۔ایسی عورت شادی شدہ زندگی میں اپنے رفیق حیات کے لیےایک سرمایہ (asset) ہے۔
واپس اوپر جائیں

پسند، ناپسند

زوجین کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: لا یفرک مؤمن مؤمنة، إن کرہ منہا خلقا رضی منہا آخر (صحیح مسلم ، حدیث نمبر1469 :)۔ یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ کرے، اگر اس کو اس کی ایک بات ناپسند ہو تو اس کے اندر دوسری بات ہوگی جو اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہ شوہر اور بیوی کے تعلقات کے بارے میں ایک دانش مندانہ نصیحت ہے۔ تخلیقی نقشہ کے مطابق، عورت اور مرد دونوں میں مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اگر کوئی مرد یا عورت یہ محسوس کرے کہ اس کا ساتھی اس کی پسند کے مطابق نہیں تو اس کی یہ رائے غلط مطالعے کی بنا پر ہوگی۔ کیوں کہ عورت اور مرد دونوں میں مختلف قسم کی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ دونوں کو چاہیے کہ وہ فورا فیصلہ نہ کرے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو دونوں دریافت کریں گے کہ اپنے ساتھی کے اندر اگر ایک بات ایسی تھی جو اس کی پسند کے مطابق نہ تھی، تو ٹھیک اسی وقت اس کے ساتھی کے اندر ایک اور صفت موجود تھی، جو اس کی پسند کے عین مطابق تھی۔ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہیں۔ اگر دونوں کاگ فوری طور پر ایک دوسرے میں فٹ نہ ہورہے ہوں تو دونوں کو چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سوچیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو جلد ہی وہ دریافت کریں گے کہ دونوں کی طرف سے یہ بے خبری کی بات تھی۔ باخبر ہوتے ہی دونوں کو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ ان کی اپنی غلطی تھی۔ ورنہ فطرت کے نظام کے مطابق دونوں ایک دوسرے کے لیے درست کاگ وھیل کی مانند بنائے گیے تھے۔ خالق نے کسی کو بے کار نہیں بنایا۔ ہر عورت اور مرد اس لیے پیدا کیے گیے ہیں کہ وہ دونوں مل کر زندگی میں ایک مفید رول ادا کریں۔ فطرت کے اس نقشے کو جاننے کی کوشش کیجیے اور پھر آپ کو کوئی شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

شادی شدہ زندگی

18 نومبر 2015 کو انڈیا کے باہر کے ایک ملک سے ایک مسلم نوجوان کا فون آیا۔ انھوںنے کہا کہ آج میری شادی ہونے والی ہے۔ آپ میرے لئے اور میری ہونے والی بیوی کے لئے دعا کریں۔ میںنے کہا کہ اس معاملے میں سب سے بہتر بات وہ ہے جو ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتی ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: النکاح من سنتی(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1846 ) ۔ نکاح میری سنت ہے۔ یعنی نکاح ایک سنت رسول ہے۔ لیکن گہرے معنی کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح اللہ کی ایک سنت ہے۔ یعنی نکاح کا طریقہ خدا کے نقشۂ تخلیق (creation plan of God) کے مطابق ہے۔ اس لئے نکاح کو اس کے وسیع تر معنی میں لینا چاہئے۔ نکاح کرنے والے کو یہ سمجھنا کہ وہ وسیع تر معنی میں خدا کے نقشۂ تخلیق کا ایک حصہ بن رہاہے۔ موجودہ حالت یہ ہے کہ نکاح کے دونوں پارٹنر نکاح کو اپنے اپنے مائنڈ سٹ (mindset) کے مطابق لیتےہیں۔ اگر وہ حقیقت پسند ہوں تو وہ نکاح کو خدا کے مائنڈ سٹ کے مطابق لیں گے اور پھر ان کی شادی شدہ زندگی درست لائن پر چلنے لگے گی۔ اور پھر ان کی زندگی کے تمام معاملات فطرت کے نقشے پر قائم ہوجائیں گے۔ اور زندگی کو فطرت کے نقشے پر چلانا یہی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ موجودہ زمانے میں عورت اور مرد کے معاملے میں سب سے بڑا نظریہ عورت اور مرد کے مساوات (gender equality)کو سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس معاملے کا کلیدی اصول صنفی مساوات نہیں ہے بلکہ صنفی رفاقت ہے۔ نکاح کے ذریعےایسا نہیں ہوتا کہ دو مساوی صنفیں یکجا ہوجائیں۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ دو مختلف صلاحیتیں رکھنے والی صنفیں یکجا ہوجاتی ہیں۔ یہ فطری تقسیم کا معاملہ ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ دو مختلف صلاحیتیں باہمی رفاقت سے زندگی کا نظام زیادہ بہتر طور پر چلا سکیں۔ یہ معاملہ گاڑی جیسا ہے۔ گاڑی ہمیشہ دو پہیوں پر چلتی ہے۔ اسی طرح فطرت کے قانون کے مطابق، زندگی کا نظام بھی دو افراد کی شرکت پر چلتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

شکایت نہیں

ایک نوجوان شوہر اور بیوی میرے پاس آئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کو نصیحت کیجیے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو صرف ایک نصیحت کروں گا۔ وہ یہ کہ آپ شکایت (complaint) کو اپنے لیے حرام سمجھیے۔ انھوں نے کہا کہ شکایت کو آپ اتنا زیادہ برا کیوں بتاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ شکایت کلچر (complaint culture) ایک شیطانی کلچر ہے۔ سب سے پہلا شخص جس نے شکایت کا طریقہ ایجاد کیا، وہ شیطان کا سردار ابلیس تھا۔ اس نے خالق سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میں انسان سے زیادہ افضل تھا، لیکن تو نے مجھ کو چھوڑ کر انسان کو خلیفہ بنا دیا۔ شیطان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دشمنی کا یہ کام وہ کس طرح کرتا ہے۔ اُس کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی انسان کے اندر شکایت پیدا ہوئی، تو وہ اس کے اندر شکایت کو اکٹیویٹ(activate) کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہ شکایت کی نفسیات کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ انسان شکایت سے مغلوب ہوجاتا ہے، شکایت اس کی شخصیت کا سب سے بڑا حصہ بن جاتی ہے۔ اگر آپ پتھر کا ایک ٹکرا اپنی جیب میں رکھ لیں تو وہ جیسا آج ہے، ویسا ہی سوسال تک رہے گا۔ لیکن شکایت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ شکایت ہمیشہ گرو (grow) کرتی ہے۔ وہ برابر بڑھتی رہتی ہے۔ شکایت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شکایت جب ایک بار آگئی تو وہ بڑھ کر نفرت بنے گی، وہ انتقام کی صورت اختیار کرلے گی۔ پھر بڑھتے بڑھتے وہ تشدد کا مزاج پیدا کرے گی۔ یہاں تک کہ آدمی جنگ کے لیے تیار ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف وہ خود کش بمباری (suicide bombing) کی آخری حد تک پہنچ جائے گا۔شکایت بظاہر صرف ایک برائی ہے، لیکن شکایت بڑھتے بڑھتے ہزار برائی بن جاتی ہے۔ شکایت انسان کی شخصیت کی تعمیر کے لیے ایک قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

زوجین کا تعلق

انسان کے خالق نے انسان کو زوجین (pair) کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کا نصف ثانی (counterpart) ہیں۔ دونوں شادی شدہ زندگی کی صورت میں مل کر تخلیقی منصوبہ کو پورا کریں۔ خالق کا منصوبہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا کاگ (cog) بن کر زندگی کاسفر کامیابی کے ساتھ طے کریں۔ دونوں ایک دوسرے کا تکمیلی حصہ (complement) بنیں۔ اس حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (30:21)۔ یعنی اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے لئے جوڑے پیدا کئے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بیشک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور کرتے ہیں۔ قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقی نقشہ کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون (peace of mind) کا ذریعہ ہیں۔ خالق نے دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے محبت رکھی ہے، تاکہ یہ مشترک سفر حسن رفاقت کے ساتھ انجام پائے۔ عورت اور مرد کو یہ سکون ابتدائی طور پر ایک دوسرے کا رفیق حیات (life partner) بننے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ اعلی صورت میں یہ سکون دونوں کو ذہنی سطح پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ سکون دونوں کو اس وقت ملتا ہے جب کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر (intellectual partner) بن جائیں۔دونوں مسلسل طور پر ایک دوسرے سے فکری تبادلۂ خیال کرتے رہیں۔ اگر آپ پتھر کے دو ٹکروں کو ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو اس کے بعد وہاں ایک چنگاری نکلے گی۔ یہ اسپارکنگ (sparking)فطرت کے ایک قانون کو بتاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دو چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو دونوں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز ایمرج (emerge) کرتی ہے۔یہ اصول جس طرح مادی دنیا کے لیےہے،اسی طرح وہ انسانی دنیا کے لیے ہے۔ عورت اور مرد کو نکاح کی صورت میں یکجا کرنےسے یہی مقصود ہے۔خالق کی منشا یہ ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد دونوں مسلسل طور پر ساتھ رہیں۔ دونوں زندگی کی حقیقتوں کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال (exchange) کرتے رہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وہ عمل کرتے رہیں جس کو میوچول لرننگ (mutual learning) کہا جاتا ہے۔ اس طرح نکاح کی زندگی دونوں کےلیے ایک سنہری موقع ہے کہ دونوں اپنے لیے ایک انٹلکچول پارٹنر پالیں۔ اور دونوں باہمی تعاون سے اپنے آپ کو فکری اعتبار سے زیادہ ارتقا یافتہ انسان بنائیں۔ یہ بلاشبہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے۔ لیکن اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا دونوں کے لیے اسی وقت ممکن ہے جب کہ دونوں اس امکان سے باخبر ہوں، اور دونوں اپنے آپ کو اس باہمی استفادے کے لیے تیار رکھیں۔ اس معاملہ کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ دونوں کے درمیان کھلا تبادلہ خیال (open exchange)ہو، اور تبادلۂ خیال کے لیےہمیشہ اعلی موضوعات کو اختیار کیا جائے۔ قرآن میں زوجین کے باہمی تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ (3:195)۔یعنی خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ Man or woman, you are members one of another. عورت اور مرد دونوں بلاشبہ ایک دوسرے کےلیے بہترین پارٹنر ہیں۔ لیکن یہ بات امکان کے اعتبار سے ہے۔ دونوں کے لیے پھر بھی یہ کام باقی رہتا ہے کہ وہ حسن تدبیر سے اس امکان کو واقعہ بنائیں۔ وہ عملا اپنے آپ کو اس پارٹنر شپ کا اہل ثابت کریں۔ بھوپال (مدھیہ پردیش) میں الرسالہ اور مطبوعاتِ الرسالہ کے لئے رابطہ قائم کریں: Shahid Mohd Khan (Yashika Books) Imami Gate Bus Stop, Imami Gate Bhopal-462 001, M.P. Mob: 9300908081
واپس اوپر جائیں

ربانی پرسنالٹی

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: والذی نفسی بیدہ لو أخطأتم حتى تملأ خطایاکم ما بین السماء والأرض، ثم استغفرتم اللہَ لغفر لکم، والذی نفسی بیدہ لو لم تخطئوا لجاء اللہ بقوم یخطئون، ثم یستغفرون اللہ، فیغفر لہم (حدیث نمبر13493)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تم اتنے گناہ کرو کہ تمہارے گناہوں سے زمین و آسمان کے درمیان کی فضا (space)بھر جائے، پھر تم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو تو وہ تم کو ضرور معاف کر دے گا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جو گناہ کرے ، پھر وہ اللہ سے معافی مانگےتواللہ اس کو معاف کر دے گا۔ اصل یہ ہے کہ کسی دینی عمل کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے اس کا کمیاتی پہلو (quantitative aspect)، دوسرا ہے اس کا کیفیاتی پہلو (qualitative aspect)۔ کسی عمل کا جو کمیاتی پہلو ہے، وہ اسی دنیا میں رہ جاتا ہے۔ انسان جب اس دنیا سے نکل کر آخرت کی دنیا میں جاتا ہے تو اس کے پاس اس کے عمل کا صرف کیفیاتی پہلو ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آخرت کی دنیا میں اللہ تعالی کسی آدمی کے عمل کے کیفیاتی پہلو کو دیکھے گا ، نہ کہ اس کے عمل کےکمیاتی پہلو کو۔ عمل کے اس کیفیاتی پہلو کو قرآن میں قلب سلیم (الشعراء 89 :) کہا گیا ہے۔ قلب سلیم کا لفظی مطلب سلامتی والا دل (sound heart) ہے۔ قلب سلیم سے مراد دوسرے الفاظ میں روحانی اعتبار سے ترقی یافتہ شخصیت (spiritually developed personality)ہے۔ آخرت میں خدا جنت کے اعتبار سے انسانوں کا انتخاب کرے گا۔ اس انتخاب کے لیے جو معیار ہوگا، وہ یہ ہوگا کہ انسان کی وہ داخلی پرسنالٹی کیسی ہے جس کو لے کر وہ آخرت میں پہنچا ہے۔اس حدیث کے مطابق، انسان کے لیے خوف کے مقابلے میں رجاء (hope)کا پہلو غالب ہے۔ یہ حدیث اور اس طرح کی دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک عمل کے ظاہری مقدار کے مقابلے میں استغفار کا پہلو زیادہ اہمیت والا پہلو ہے۔خطا کی مقدار خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، اگر آدمی استغفار کا ثبوت دیتا ہے تو اللہ کی طرف سے وعدہ ہے کہ وہ اس کو آخرت میں بخش دے گا۔خطا کے بعد استغفار کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کی حساسیت (sensitivity) اگر زندہ ہو تو غلطی کرنے کے بعد اس کے اندر شدید طور پر ندامت (repentance) کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ اس کو اپنے گناہ پر بہت زیادہ شرمندگی ہوتی ہے۔ وہ مزید اضافہ کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہوجاتا ہے۔ وہ زیادہ تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ اللہ سے مغفرت کا طالب بن جاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی خطاکار کے لیے اللہ کی رحمت کے نزول کا سبب بن جاتی ہے۔ آدمی اگر خطا نہ کرے تو اندیشہ ہے کہ اس کے اندر عُجب(pride)کا جذبہ پیدا ہوجائے۔لیکن جب اس سے کوئی خطا سرزد ہوتی ہے تو اس کے بعد اس کے اندر شرمندگی کی کیفیت جاگ اٹھتی ہے۔ احساس خطا کی بنا پر وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ سنجیدہ بن جاتا ہے۔ اس کی تواضع (modesty) میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ وہ زیادہ انکساری کے ساتھ اللہ سے معافی کا طالب بن جاتا ہے۔ اس طرح خطا کا احساس آدمی کے اندر ایک نئی شخصیت بیدار کردیتا ہے۔ خطا سے پہلے اگر وہ سادہ الفاظ میں دعا کرتا تھا، تو اب اس کی دعا آنسوؤں کی زبان میں ہونے لگتی ہے۔ خطا سے پہلے اگر اس کی نفسیات یہ ہوتی تھی کہ میں بھی کچھ ہوں تو اب اس کی نفسیات یہ بن جاتی ہے کہ میں کچھ بھی نہیں۔ خطا سے پہلے اگر اس کو اپنے عمل پر اعتماد ہوتا تھا تو اس کا احساس یہ بن جاتا ہے کہ میرا معاملہ تمام تر اللہ کے اوپر منحصر ہے۔ اللہ اگر مجھے معاف کردے تو مجھ کو جنت نصیب ہوسکتی ہے۔ اور اگر اللہ معاف نہ کرے تو مجھ کو جنت ملنے والی نہیں۔ اس طرح خطا کا احساس آدمی کے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر میں بہت زیادہ معاون بن جاتا ہے۔ خطا کا احساس آدمی کے اندر اس شخصیت کی تعمیر کرتا ہے جو اس کو جنت میں داخلے کا مستحق بنادے۔خطا کا احساس آدمی کو انسانِ اصلی (man cut to size) بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

علمی سفر

علمی سفر کا ایک اصول قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ (17:36)۔یعنی اور ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کی تم کو خبر نہیں۔ یہ علمی سفر کا ایک جامع اصول ہے۔ اس کے مختلف پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ علمی سفر کو ہمیشہ نتیجہ خیز (result oriented) ہونا چاہیے۔ جو علمی سفر عملا نتیجہ خیز نہ ہونے والا ہو، اس میں زیادہ مشغول ہونا، اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ اور وقت کو بچانا، بجائے خود زندگی کا ایک اہم ترین اصول ہے۔یہ بھی ایک ضروری بات ہے کہ آدمی کام کو شروع کرنے کے ساتھ اس کو ترک کرنا بھی جانے۔ علمی سفر عام طور پر اس طرح شروع ہوتا ہے کہ آدمی کے ذہن میں ایک نکتہ (point) آتا ہے۔ وہ چاہتا ہےکہ اس کی تفصیل معلوم کرے۔ اس ذہن کے تحت آدمی اس نکتہ کی علمی تحقیق شروع کردیتا ہے۔ مگر جلد ہی اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس تحقیق کےلیے ضروری ڈیٹا (data) اس کے پاس موجود نہیں۔بظاہر یہ امید نہیں کہ وہ اس معاملہ میں کسی قابل اعتماد رائے تک پہنچ سکتا ہے۔ تو ایسی صورت میں اس کے لیے زیادہ ضروری یہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کو بچائے، وہ اپنے وقت کو کسی اور علمی سفر کے لیے استعمال کرے، جس کے لیے اس کے پاس ضروری مواد موجود ہو۔ مثلا آپ اس حدیث کو پڑھیں، جس میں ایک صحابی،أبو زید الأنصاری روایت کرتے ہیں : صلى بنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم صلاة الصبح، ثم صعد المنبر فخطبنا حتى حضرت الظہر، ثم نزل فصلى الظہر، ثم صعد المنبر فخطبنا حتى حضرت العصر، ثم نزل فصلى العصر، فصعد المنبر فخطبنا حتى غابت الشمس، فحدثنا بما کان وما ہو کائن (صحیح مسلم، حدیث نمبر 5149۔مسند احمد، حدیث نمبر22888 )۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو صبح کی نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے، اور آپ نے خطبہ دیا، یہاں تک کہ ظہر کی نمازکا وقت آگیا، پھر آپ اترے، اور آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر کھڑے ہوگیے، پھر آپ نے خطبہ دیا یہاں تک عصر کی نماز کا وقت آگیا، آپ اترے اور آپ نے عصر کی نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے، آپ نے خطبہ دیا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، آپ نے بیان کیا وہ سب کچھ جو ہوا ہے، اور وہ سب کچھ جو ہونے والا ہے۔ اس حدیث رسول کو پڑھ کر اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں پوری انسانی تاریخ کا کلنڈر بیان کردیا۔ اس کے بعد آپ اس عالمی کلنڈر کو مرتب کرنے کی کوشش میں لگ جائیں ۔ لیکن جلد ہی آپ کو محسوس ہوگاکہ اس عالمی کلنڈر کو مرتب کرنے کے لیے آپ کے پاس ضروری مواد (material) موجود نہیں ہے، نہ احادیث میں اور نہ تاریخ کی کتابوں میں۔ ایسی صورت میں آپ کو چاہیے کہ اپنی کوشش کو موقوف کردیں۔ آپ ہرگز ایسا نہ کریں کہ ساری عمر اس عالمی کلنڈر کو مرتب کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ لیکن آخر میں آپ کو معلوم ہو کہ اس قسم کا کلنڈر مرتب کرنا عملاً ممکن ہی نہ تھا۔ زندگی کے حکیمانہ اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ آدمی کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کے عملی امکان کا جائزہ لے۔ اگر اس کو نظر آئے کہ اس کا منصوبہ عملی طور پر ایک ممکن منصوبہ ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کے لیے کوشش کرے۔ اور اگر ایسا نہ ہو ۔ یعنی آپ کو نظر آئے کہ ضروری معلومات یا ضروری وسائل کی عدم موجودگی کی بنا پر آپ کا منصوبہ واقعہ بننے والا نہیں۔ تو دانش مندی یہ ہے کہ ایسے منصوبے کو فورا چھوڑ دیا جائے۔ ایسے منصوبے کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھنا صرف وقت کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ اور وقت کو ضائع کرنا، بلاشبہ کوئی کرنے کا کام نہیں۔ اس اصول کا تعلق آدمی کی انفرادی زندگی سے بھی ہے اور قومی زندگی سے بھی۔اس کا تعلق علمی تحقیق سے بھی ہے اور دوسری نوعیت کے کاموں سے بھی۔ کام کا یہ پہلو اگر آغاز میں غیر واضح ہو، لیکن کام شروع کرنے کے بعد جلد ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کام قابل عمل ہے یا نہیں۔ وہ صرف ایک شخصی تخیل ہے یا عملی اعتبار سے قابل حصول نشانہ۔
واپس اوپر جائیں

جنت سے محرومی

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ جنت کو اتنی گہرائی کے ساتھ دریافت کریں کہ اسی دنیا میں ان کو جنت کا تعارف حاصل ہوجائے(محمد 6:)۔ قرآن کے مطابق، جنت کی دنیا موجودہ دنیا کے متشابہ (similar) ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ موجودہ دنیا کو دیکھ کر اس کے ذریعے جنت کی پہچان حاصل کریں۔ ان کے لیے جنت اسی دنیا میں ایک دریافت کردہ جنت بن جائے۔جب کوئی شخص جنت کو اس طرح دریافت کرے گا تو فطری طور پر وہ آخری حد تک جنت کا مشتاق بن جائے گا۔اس حقیقت کو سامنے رکھ کر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ تمام دنیا کے مسلمان نفرت اور شکایت کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ یہ نفسیات اتنا زیادہ عام ہے کہ مسلمانو ںکے ہر طبقہ، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں کے درمیان یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ مسلمانوںکا یہ منفی ذہن (negative mind) بظاہر دوسروں کے خلاف ہے۔ مگر عملی نتیجہ کے اعتبار سے خود اپنے خلاف ہے۔ وہ مسلمانوں کے اندرسے اس مثبت نفسیات (الفجر: 27)کو ختم کرتا ہے، جو جنت کی یاد میں جینے کے لیے ضروری ہے۔ انسان کی تخلیق اس انداز میں ہوئی ہے کہ وہ دشمنی اور دوستی دونوں کو بیک وقت اپنے اندر جمع نہیں کرسکتا (الاحزاب 4:)۔ جو آدمی شکایت کی نفسیات میں جیتا ہو، وہ شکر کی نفسیات سے خالی ہوگا۔ جو محرومی کی نفسیات میں جیتاہو، وہ عین اسی وقت یافت کی نفسیات میں سوچنے والا نہیں بن سکتا۔ مسلمانوں کی موجودہ نفسیات ، اللہ رب العالمین کے منصوبۂ تخلیق کے خلاف ہے۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ مسلمان موجودہ دنیا میں جنت کی جھلک(glimps) دیکھے۔ تاکہ وہ حقیقی جنت کو یاد کرے، اور اس کا طالب بن جائے۔ مگر مسلمانوں کا موجودہ مزاج ایسی شخصیت کی تخلیق میں رکاوٹ ہے۔ ایسا انسان نفرت اور جھنجھلاہٹ میں جیے گا۔ اور نفر ت و جھنجھلاہٹ والا ذہن جنت جیسی نعمت کی یاد میں جینے والا نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں

قومی مزاج، اسلامی مزاج

ایک مشہور اردو ماہنامہ میں ایک شائع شدہ مقالہ نظر سے گزرا۔ اس کا عنوان یہ تھا: عصر حاضر اور جہاد۔اس مقالہ کے شروع کی سطریں یہ ہیں: مسلمانوں کی ذلت و مظلومیت سے بھرپور تڑپادینے کی حد تک تکلیف دہ تاریخ کے پس منظر سے جہادی تنظیمیں بر آمد ہوئی ہیں۔ بڑی حد تک یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آزاد تنظیموں کے ذریعہ (ان کے نزدیک) جہاد کا یہ سلسلہ گزشتہ صدی میں افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف مزاحمت سے شروع ہوا اور اب اس کا نقطۂ عروج داعش وغیرہ کی شکل میں موجود ہے۔ (ستمبر 2016) یہ انداز فکر کسی ایک مسلم رائٹر کا نہیں ہے، بلکہ یہی انداز فکر موجودہ زمانے کے تقریباًتمام مسلم مقررین و محررین کا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمان جو متشددانہ کارروائیاں کررہے ہیں، ان کو یہ تمام لوگ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مفروضہ مظالم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مگر سوچنےکی بات یہ ہے کہ اس قسم کے شدائد رسول اور اصحاب رسول کے ساتھ زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آئے۔ ان شدائد میںسے کا ایک حوالہ قرآن میں ان الفاظ میں دیا گیا ہے: إِذْ جَاءُوکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْکُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّہِ الظُّنُونَا ۔ ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِیدًا (33:10-11) ۔ یعنی جب کہ وہ تم پر چڑھ آئے، تمہارے اوپر کی طرف سے اور تمہارے نیچے کی طرف سے۔ اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے اور تم اللہ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس وقت ایمان والے امتحان میں ڈالے گئے اور وہ سخت ہلا مارے گیے۔ اس طرح کے شدید حالات کے باوجود رسول اور اصحاب رسول نے کبھی ردعمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ یک طرفہ طور پر صبر (patience) کی روش پر قائم رہے ،اورکامل مثبت بنیادوں پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی (planning) کی۔ اس کا نتیجہ اسلام کے دورِ اول میں عظیم کامیابی کی صورت میں نکلا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اس سنت رسول کو چھوڑ دیا۔ انھوںنے مثبت منصوبہ بندی کے بجائے ردعمل کے تحت منفی سرگرمیوں کا طریقہ اختیار کر لیا۔ آج تمام دنیا کے مسلمان اسی قسم کی سرگرمیوںمیںمشغول ہیں ۔ مسلمانوں کے تقریباً تمام مقرر ین و محررین موجودہ زمانے میں یہی ایک کام کررہے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک مہلک بدعت ہے۔ مسلمان جب تک اس مہلک بدعت کو نہ چھوڑیں ، انھیں ہر گز کوئی کامیابی ملنے والی نہیں۔ خواہ ان کی مفروضہ قربانیوں کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوجائے۔ رد عمل کے مزاج کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کی سوچ، منفی سوچ (negative thinking) بن جاتی ہے۔ انسان نفرت اور شکایت میں جینے لگتا ہے۔ اس قسم کی سوچ کا ہلاکت خیز نتیجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر فکری ارتقا (intellectual development) کا عمل رک جاتا ہے۔ اس کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ درست بنیادوں پر سوچے، اور درست بنیادوں پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ مسلم امۃ اگریہ چاہتی ہے کہ اس کی موجودہ صورت حال میں تبدیلی آئے تو وہ صرف ایک تدبیر سے آسکتی ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان اپنی تمام موجودہ منفی سرگرمیوں کو یک طرفہ طور پر ختم کردیں، اور انسان کے نصح (خیرخواہی) کے جذبے کے تحت مثبت بنیادوں پر دعوت الی اللہ کاپرامن کام کریں۔اس کے سوا کوئی اور چیز مسلمانوں کے لیے فلاح اور نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ اس دنیا میں کوئی بھی کامیابی صرف دانش مندانہ منصوبہ بندی (wise planning) کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔ مفروضہ مظالم کے خلاف فریاد کا کوئی نتیجہ اس دنیا میں نکلنے والا نہیں۔ یہ دنیا فطرت کے محکم قوانین پر چل رہی ہے۔ فطرت کے اس قانون کو جاننا اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنانا ہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ قرآن کی زبان میں مسلمانوں کے لیے یہ توبۂ جمیع (النور: 31) کا وقت ہے، یعنی یوٹرن (U-turn) لینے کا وقت۔
واپس اوپر جائیں

بابری مسجد کا سبق

6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت سے اب تک مختلف زبانوں میں بے شمار مضامین اس موضوع پر لکھے گیے ہیں۔ لیکن ہر مضمون قاری کو صرف منفی سبق (negative lesson) دیتا ہے۔ میرے علم کے مطابق اس موضوع پر اب تک کسی مسلمان نےکوئی ایسا مضمون نہیں لکھا جو کسی مسلمان کو مثبت سبق دے۔ دوسرے لفظوں میں اس معاملے میں غیر متعلق کا خوب چرچا ہے، لیکن متعلق کا کوئی چرچا نہیں۔ اس معاملے میں مثبت طور پر متعلق بات کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ تمام لوگ بابری مسجد کے انہدام کو آغاز (beginning) سمجھتے تھے۔ لیکن عملا یہ ہوا کہ بابری مسجد کا انہدام اس معاملے میں فل اسٹاپ (full stop) بن گیا۔ ایسا کیوں ہوا۔ اس معاملے میں وزڈم کی بات یہ ہے کہ اس سوال کا جواب معلوم کیا جائے۔ اصل یہ ہے کہ انسانی زندگی میں جب بھی کوئی زیادہ بڑے قسم کا بھیانک واقعہ پیش آتا ہے تو وہ ہمیشہ انسانی ضمیر کو شدت کے ساتھ جگا دیتا ہے۔ انسان چیزوں کو نتیجہ کی روشنی میں دیکھنے لگتا ہے۔ اس بنا پر ہمیشہ ایساہوتا ہے کہ بھیانک واقعہ کے بعد ایک مانع عمل (deterrent factor) وجود میں آجاتا ہے۔ یہ مانع عمل ایک ایسا ماحول بناتا ہے، جو خاموش زبان میں یہ پیغام دیتا ہے — اس طرح کے منفی عمل پر اب فل اسٹاپ لگاؤ، اس معاملہ میں ہم مزید کاما لگانے کا تحمل نہیں کرسکتے۔ اس طرح کی مثالیں تاریخ میں بہت سی ملتی ہیں۔ اسی لیے زیادہ بھیانک واقعہ تاریخ میں دوبارہ دہرایا نہیں جاتا۔ مثلاًصلیبی جنگ (Crusades) دوبارہ نہیں ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دوبارہ کوئی عالمی جنگ نہیں ہوئی۔ایک بار ایٹم بم گرانے کے بعد دوبارہ ایٹم بم نہیں گرایا گیا، وغیرہ۔ بابری مسجد کا انہدام بھی اسی قسم کا ایک بھیانک واقعہ تھا۔ اس کے بعد انسانی ضمیر حرکت میں آگیا۔ اور بابری مسجد جیسے واقعہ کے اعادہ کو ہمیشہ کے لیے ناممکن بنادیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

ایک تقابلی مثال

دوسری عالمی جنگ 1945 میں ختم ہوئی۔ اس کے بعد امریکا نے جاپان کے جزیرہ اوکی ناوا (Okinawa) کو اپنا آرمی بیس بنالیا۔ 2013 کی رپورٹ کے مطابق، اوکی ناوا میں امریکا کے آرمی اسٹاف کی تعداد حسب ذیل ہے: There are approximately 50,000 U.S. military personnel stationed in Japan, along with approximately 40,000 dependents of military personnel and another 5,500 American civilians employed there by the United States Department of Defense. جاپان نے امریکا کی فوجوں کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی۔ جاپان نے امریکی فوج کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے، ایجوکیشن اور انڈسٹری ، وغیرہ کے میدان میں اپنے ڈیولپمنٹ کا کام شروع کردیا۔ آج امریکا کی فوجیں بدستور جاپان میں موجود ہیں ، لیکن اس کے باوجود جاپان کو اپنی پالیسی کا یہ نتیجہ ملا کہ وہ اس وقت دنیا کی عظیم اقتصادی طاقت (economic superpower) بنا ہوا ہے۔ دوسری تقابلی مثال ریاست جموںوکشمیر کی ہے۔ انڈیا 1947 میں آزاد ہوا۔ اس کے بعد وہاں جو حالات پیدا ہوئے، اس کے تحت اُس وقت کے مہاراجہ کشمیرکی طلب پر انڈیا کی آرمی کشمیر میں داخل ہوگئی۔ ایک اندازہ کے مطابق اِس وقت کشمیر میں انڈیا کی تقریباً چھ لاکھ آرمی موجود ہے۔ کشمیریوں نے اپنے لیڈروں کی رہنمائی میں انڈیا کی آرمی کے خلاف پرتشدد تحریک شروع کردی۔ وہ چاہتے تھے کہ انڈیا کی آرمی کشمیر سے واپس جائے۔ آرمی تو واپس نہیں ہوئی، لیکن اس مدت میں کشمیر یوںکو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا: ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری ہلاک ہوگیے،کشمیر کی اقتصادی ترقی رک گئی، کشمیرکا تعلیمی نظام تباہ ہوگیا، کشمیر کے ترقیاتی امکانات غیر استعمال شدہ رہ گیے، مثلاً فروٹس(fruits) کی تجارت، سیاحت (tourism industry) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، وغیرہ۔ مزید یہ کہ پوری کشمیری قوم منفی قوم بن گئی۔ جب کہ ترقی ہمیشہ مثبت بنیادوں پر ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

نصرت الٰہی کا قانون

اللہ رب العالمین کے قوانین میں سے ایک قانون وہ ہے جو اپنے بندے کی مدد کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ (22:40)۔یعنی بے شک اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے۔قرآن کی یہ آیت اللہ رب العالمین کے ایک اہم قانون کو بتارہی ہے۔ اس معاملے کو میں اپنے ایک ذاتی واقعہ سے بیان کروں گا۔ میری پیدا ئش یوپی کے ایک گاؤں میں ہوئی۔ میرے گھر میں بڑا آنگن تھا۔ اس میں کچھ درخت اُگے ہوئے تھے۔ میں نے چاہا کہ میں اپنے آنگن میں آم کا ایک درخت لگاؤں ۔ یہ میری نوجوانی کی عمر کا زمانہ تھا۔ میں نے اپنی ناپختہ سوچ کے تحت یہ چاہا کہ میرے گھر میں اچانک ایک بڑا درخت نظر آنے لگے۔ گھر کے باہر ہمارا ایک آم کا باغ تھا۔ اس میں ایک درخت تھا، جو چند سال میں بڑھ کر قد آدم کے برابر ہوچکا تھا۔ میں نے چاہا کہ اس درخت کو میں اپنے گھر کے آنگن میں نصب کروں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دس سال کی فطری مدت حذف کرکے ایک دن میں بڑا درخت میرے آنگن میں دکھائی دینے لگے۔ میں نے چند مزدور لگادیے، وہ باغ میں دن بھر کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ شام میں وہ درخت کو ایک چارپائی پر اٹھا کر لائے، اور میرے گھر کے آنگن میں اس کو نصب کردیا۔ میں بہت خوش تھا کہ میں نے دس سال کی فطری مدت کو ایک دن میں حاصل کرلیا ہے۔ مگر صبح کو جب میں اٹھا تو درخت کے پتے مرجھا چکے تھے۔ چند دن کے بعد درخت پوری طرح سوکھ گیا۔ اپنے آنگن کے بارے میں میرا خواب واقعہ نہ بن سکا۔ آنگن میں دوسرے درخت بدستور ہرے بھرے کھڑے تھے، لیکن میرا لگایا ہوا آم کا درخت سوکھ کر چند دن کے اندر ختم ہوگیا۔ اس واقعہ سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ اس دنیا کے لیے فطرت کا قانون یہ ہے کہ یہاں کوئی کام دو طاقتوں کے اشتراک سے کامیاب ہو۔ یعنی انسان کا عمل اور قانون فطرت کی معاونت۔ اس دنیا میں انسان کا کوئی منصوبہ کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہے۔ دندانہ دار پہیہ ہمیشہ دوپہیوں کے مشترک عمل سے چلتا ہے۔ اگر ایک پہیہ عمل نہ کرے تو دوسرے پہیے کے چلنے سے کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوگا۔ مثلا آپ کو زرعی پیداوار حاصل کرنا ہے تو آپ کو اپنا دانہ زرخیر زمین (soil)میں ڈالنا ہوگا، اس کے بعد زمین کے تعاون سے آپ کو سر سبز فصل حاصل ہوگی۔ یہی قانون زندگی کے دوسرے معاملات کا ہے۔ مثلا آپ اسلامی مشن کو اپنا مشن بناتے ہیں، اور افراد کی ایک ٹیم اس کی پشت پر جمع کرتے ہیں تو ٹیم کے ہر فرد کو شعوری طور یہ جاننا ہوگا کہ اس کی اپنی کوشش اسی وقت باآور ہوسکتی ہے، جب کہ اس کے دوسرے ممبر پوری طرح اس کا ساتھ دیں۔ مثلا اجتماعی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے کسی بات پر شکایت ہوجاتی ہے۔ ایک شخص کو کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کو نظر انداز کیا گیا، یا اس کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ ایک شخص کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی اور کو اس کے اوپر ترجیح دے دی گئی، وغیرہ۔ ایسے ہر موقعے پر ٹیم کے افراد کو یہ جاننا چاہیے کہ جس واقعے کو لے کر وہ منفی (negative) ہورہے ہیں، وہ در اصل اجتماعی کلچر کی بنا پر ہورہا ہے، نہ کہ ان کو بالقصد نظر انداز کرنے کی بنا پر۔ اور یہ اجتماعی کلچر دراصل فطرت کا قانون ہے جو خود خالق نے بنایا ہے۔ جس گروہ کے افراد اس سوچ کے تحت کام کریں، ان کو اللہ کی مدد حاصل ہوگی۔ انھوں نے فطرت کے قانون کو تسلیم کرتے ہوئے گویا کہ اللہ کی مدد کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ بھی ان کی مدد پر آجائے گا اور ان کی کامیابی اتنی ہی یقینی ہوجائے گی، جتنا کہ رات کے بعد سورج کا نکلنا۔ کوئی انسان یا کوئی گروہ جب ایک سچے مشن کے لیے کام کرتا ہے تو خالق کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ،فطرت کا قانون ا س کی مدد پر آجاتا ہے۔ اسی واقعہ کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے — اگر تم اللہ کی نصرت کروگے تو اللہ بھی ضرور تمھاری نصرت کرے گا، اور تمھاری کامیابی کو یقینی بنادے گا۔
واپس اوپر جائیں

طلاق کا مسئلہ

اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان نکاح کو ایک مقدس حیثیت حاصل ہے۔ اس کو ہر حال میں باقی رکھنا چاہیے۔ تاہم چوں کہ یہ تعلق دو غیر خونی رشتوں کے درمیان ہوتا ہے،اس لیے بعض اوقات طرفین کے درمیان اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان اختلافات کی حیثیت حتمی نہیں ہوتی ، وہ یقینی طور پر قابل حل ہوتے ہیں۔ اس لیے طرفین کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچیں، اور برتر شرعی مصالح کو ملحوظ رکھتے ہوئے، آپس میں نباہ (adjustment) کے طریقے پر عمل کریں۔ لیکن کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ طلاق کا طریقہ عملا ًناگزیر ہوجائے۔ اس معاملے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال: أبغض الحلال إلى اللہ تعالى الطلاق (سنن ابو داوود، حدیث نمبر2178) ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق اگرچہ اسلام میں جائز ہے، لیکن اللہ کے نزدیک طلاق کی حیثیت ایک مبغوض فعل کی ہے۔ نکاح خالق کے تخلیقی منصوبہ کا ایک حصہ ہے۔ اس لیے طرفین کو چاہیے کہ وہ جب نکاح کرلیں تو ہر حال میں اس کو نباہنے کی کوشش کریں۔ طلاق کا ارادہ صرف اس وقت کریں، جب کہ غیر معمولی حالات پیدا ہوچکے ہوں۔ قرآن میں طلاق کا طریقہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ(2:229)۔ یعنی طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو قاعدہ کے مطابق رکھ لینا ہے یا خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کردینا۔ اس حکم کا مطلب یہ ہےکہ الگ الگ دو طہروں (دو مہینوں)میں دو مرتبہ میں طلاق دی جائےاور پھر تیسرے طہر (مہینہ)میں یا تو بیوی سے رجوع کرلیا جائے یا حسن و خوبی کے ساتھ اس کو رخصت کردیا جائے ۔ ابتدائی دور میں نکاح و طلاق کا یہی طریقہ اہل اسلام میں رائج تھا۔اوراگر اتفاقی طور پر کسی شخص نے تین طلاق کا لفظ بول دیا تو اس کو غصہ پر محمول کرکے رجوع کا موقعہ دیا جاتا تھا۔ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں ایسا ہوا کہ اس قسم کے واقعات زیادہ ہونے لگے۔ لوگ اپنی بیوی کے خلاف اظہار غضب کے طور پر کہنے لگےکہ تم کو طلاق، تم کو طلاق، تم کوطلاق۔ یعنی ایک مجلس میں تین طلاق دینے کی تعداد بڑھ گئی۔ حضرت عمر نے یہ حالت دیکھ کر ایک نیا فیصلہ فرمایا۔ انھوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین طلاق قرار دے کر فریقین کے درمیان علاحدگی کرادی۔ یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: عن ابن عباس، قال:کان الطلاق على عہد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، وأبی بکر، وسنتین من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا فی أمر قد کانت لہم فیہ أناة، فلو أمضیناہ علیہم، فأمضاہ علیہم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر1472)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور دور خلافت عمر کے ابتدائی دو سال تک تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھی ۔ عمر بن خطاب نے کہا کہ لوگوں کو جس امر میں مہلت دی گئی تھی اس میں انھوں نےجلدی شروع کردی ہے پس اگر ہم تین ہی نافذ کردیں تو مناسب ہوگا ۔چناں چہ انہوں نے تین طلاق ہی واقع ہوجانے کا حکم دے دیا۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ ایسا کرنے والے مردوں کو کوڑے مارکر سخت سزا دیا کرتے تھے(إذا أتی برجل طلق امرأتہ ثلاثا أوجع ظہرہ [سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر1074])۔ حضرت عمر کا یہ فیصلہ شریعت میں تبدیلی کے ہم معنی نہ تھا۔ بلکہ اس کی حیثیت ایک انتظامی حکم (executive order) کی تھی۔ اس قسم کا انتظامی حکم عمومی حکم نہیں ہوتا، وہ صرف وقتی حالات میں استثنائی طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ اب جہاں تک طلاق کے معاملے میں شرعی حکم کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ کے لیے وہی رہے گا، جو قرآن میں مذکور ہے۔ البتہ اگر کوئی حاکم وقتی حالات کی بنا پر دوبارہ حضرت عمر کے طریقے کو اختیار کرنا چاہے تو وہ عارضی طور پر اس کو اختیارکرسکتا ہے۔ مگر غیر حاکم کو اس معاملے میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

شباب کا زمانہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن انسان کے قدم نہیں ہٹیں گے جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا جائے۔ ان میں سے ایک یہ ہے: وعن شبابہ فیما أبلاہ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1648)یعنی جوانی کے بارے میں کہ اس کو کس کام میں بِتایا۔شباب کا زمانہ (youth age)وہ ہوتا ہے جب کہ آدمی کی طاقت پوری طرح زندہ ہوتی ہے۔ وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ جس کام کو چاہے کر ڈالے۔شباب کا زمانہ دو کمزوریوں کے درمیان ہوتا ہے۔ پہلے بچپن اور اس کے بعد بڑھاپا۔ کسی آدمی کے لیےجوانی کا زمانہ ہی حقیقی معنوں میں عمل کا زمانہ ہوتا ہے۔ شباب کے زمانے کے پہلے بھی کمزوری ہے، اور بعد کو بھی کمزوری ہے۔ جس آدمی نے شباب کے زمانے کو ضائع کیا، اس نے گویا اپنی عمر کو ضائع کردیا۔ کسی آدمی کے لیے شباب کا زمانہ سب سے بڑی نعمت کا زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شباب کے زمانے کے بارے میں قیامت میں زیادہ سخت پوچھ ہوگی۔ شباب کا زمانہ کسی آدمی کی عمر کا سب سے بہتر حصہ ہوتا ہے۔ شباب کے زمانے میں آدمی جو کچھ کرسکتا ہے، اس کا کرنا آدمی کے لیے نہ شباب سے پہلے ممکن ہوتا ہے اور نہ شباب کے بعد۔ لیکن شباب کے زمانے کا ایک مائنس پہلو ہے۔ وہ یہ کہ شباب کا زمانہ آدمی کے لیے پختگی (maturity) سے پہلے کا زمانہ ہے۔ شباب کے زمانے میں آدمی انرجی کے اعتبار سے بھر پور ہوتا ہے، لیکن تجربہ اور ذہنی ارتقا کے اعتبار سے وہ ابھی اپنے غیر ارتقا یافتہ دور میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ سب سے زیادہ غلطی اپنے اس دور میں کرتے ہیں جس کو شباب کا دور کہا جاتا ہے۔ اس پہلو کا تقاضا ہے کہ آدمی اپنے شباب کے زمانے میں بہت زیادہ محتاط (cautious) ہو۔ وہ جو رائے قائم کرے بہت زیادہ سوچ سمجھ کر رائے قائم کرے، اور جو کام کرے اس کا منصوبہ بہت زیادہ غور و فکر کے بعد بنائے۔
واپس اوپر جائیں

متوازن شخصیت

انسان کی نسبت سے قرآن کا نشانہ یہ ہے کہ وہ تربیت کے ذریعہ انسان کو متوازن شخصیت (balanced personality) بنائے۔ اس مقصد کے لیے قرآن نے انسان کو ایک تربیتی اصول ان الفاظ میں دیا ہے:لِکَیْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ ٍ (57:23) یعنی تاکہ تم غم نہ کرو اس پر جو تم سے کھویا گیا۔ اور نہ اس چیز پر فخر کرو جو اس نے تم کو دیا۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق، یہی انسان کی مطلوب شخصیت ہے۔ یہ شخصیت صرف تجربات کے درمیان بنتی ہے۔مطالعہ سے آدمی کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن تجربہ آدمی کی شخصیت میں تموّج پیدا کرتا ہے۔ تجربات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہ تجربات آدمی کے ذہن کو جگاتے ہیں۔ یہ تجربات آدمی کی شخصیت کے غیر متحرک گوشوں کو متحرک بناتے ہیں۔ تجربات آدمی کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف تجربہ کے ذریعہ انسان، کامل انسان بنتا ہے۔ نظری علم (theoretical knowledge) آدمی کو معلومات دے سکتی ہے لیکن کامیاب زندگی گزارنے کے لیے صرف نظری علم کافی نہیں۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ حقائق کی بنیاد پر سوچے اور اپنے عمل کی دانش مندانہ منصوبہ بندی (wise planning) کرسکے۔ یہ صفت کسی انسان کے اندر تجربات کے بغیر پیدا نہیں ہوتی۔ متوازن شخصیت کسی کو پیدائشی طور پر نہیں ملتی۔ متوازن شخصیت مطالعہ اور تجربہ کے ذریعہ تیار ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حقیقت کی بنیاد پر سوچے ۔ وہ حقیقت کی بنیاد پر اپنی عقلی تربیت کرے۔وہ موضوعی سوچ (objective thinking) کے ذریعے اپنے آپ کو ایک پختہ شخصیت (mature personality) بنائے۔ یہ خود تعمیری (self preparation)کا ایک کورس ہے۔ اسی خود تعمیری عمل کے کورس سے گزرکر وہ انسان بنتا ہے جواعلیٰ کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی خصوصیت

انسان ایک ذی حیات مخلوق ہے۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، موجودہ دنیا میں تقریبا ایک ٹریلین (one trillion) کی تعداد میں ذی حیات اشیاء پائی جاتی ہیں۔ان تمام ذی حیات چیزوں میں انسان ایک خصوصی حیثیت رکھتا ہے۔ بقیہ تمام اشیاء کامل طور پر قانون فطرت (law of nature) کی پابند ہیں۔ پوری دنیا میں انسان ایک واحد مخلوق ہے، جس کو کامل آزادی ملی ہوئی ہے۔ وہ خود اپنے اختیار سے اپنے عمل کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی امتیازی صفت کو قرآن میں خلافت (البقرۃ: 30) اور امانت (الاحزاب 72:)کہا گیاہے۔ اسی صفت خاص کی بنا پر انسان کے لیے اگلے دورِ حیات میں ابدی جنت کا انعام ہے۔ دوسری ذی حیات اشیاء کے برعکس، انسان کو اپنی زندگی میں ایک امتیازی عمل کا نمونہ پیش کرنا ہے۔ اس کو خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہوناہے، اس کو خود اپنے فیصلہ کے تحت صحیح راستہ (right path) پر چلنا ہے، اس کو خود اپنے ارادے کے تحت سیلف کنٹرول (self control) کی زندگی گزارنا ہے، اس کو خود اپنے فیصلہ کے تحت اطاعت (submission) کی زندگی اختیار کرنا ہے۔یہی انسان کا امتیاز ہے۔ مگر ہر عطیہ کے ساتھ ہمیشہ ایک ذمہ داری شامل رہتی ہے۔ چناں چہ انسان کے امتیاز کے ساتھ ایک ذمہ داری بھی شامل ہے۔ اور وہ وہی ہے جس کو امتحان (test) کہا جاتا ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکادے۔ آزادی کے باوجود وہ اللہ کا فرمانبردار بن جائے۔ آزادی کے باوجود وہ اپنے آپ کو سرکشی اور بے راہ روی سے بچائے۔ وہ خود دریافت کردہ سچائی پر کھڑا ہو، اور خود عائد کردہ پابندی (self-imposed discipline) کا طریقہ اختیار کرے۔ اسی خود انضباطی کے روش کو قرآن میں اور حدیث میں لوجہہ اللہ اور لاجل اللہ کہا گیا ہے۔ یہ عمل جو انسان سے مقصود ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر خالق نے سب سے بڑا انعام مقدر کیا ہے۔ ایک ایسا انعام جو کسی بھی دوسری مخلوق کو ملنےوالا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت کا اعتراف

پختگی یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر قابو پالے اور اختلافات کو تشدد اور تخریب کے بغیر دور کرسکے۔ پختگی تحمل اور برداشت کا نام ہے اور اس صلاحیت کا کہ وقتی خوشی کو دیر طلب مقاصد کے لیے قربان کردیا جائے۔ پختگی اس استعداد کا نام ہے کہ کسی تلخی کے بغیر، ناخوش گوار اور مایوس کن حالات کا مقابلہ کیاجائے۔ پختگی انکساری کا نام ہے۔ ایک پختہ شخص یہ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ ’’میں غلطی پر تھا‘‘۔ پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی ان چیزوں کے ساتھ پُر امن طورپر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔ Maturity is the ability to control anger and settle differences without violence or destruction. Maturity is patience, the willingness to give up immediate pleasure in favour of the long-term gain. Maturity is the capacity to face unpleasantness and disappointment without becoming bitter. Maturity is humility. A mature person is able to say, “I was wrong”. Maturity is the ability to live in peace with things we cannot change. پختگی در اصل حقیقت واقعہ کے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ وہ ساری صفتیں جن کو پختگی کہا جاتا ہے وہ سب حقیقت واقعہ کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت واقعہ کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کو جانے کہ کہاں اس کی حد ختم ہوتی ہے اور کہاں سے دوسری طاقتوں کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اُس کے لیے ممکن ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں۔حقیقتِ واقعہ کا اعتراف آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اقدام سے پہلے اُس کے انجام کو سوچے، وہ اپنے عمل کی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کرے۔ حقیقت واقعہ کا اعتراف آدمی کے اندر یہ بصیرت پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرے۔ وہ یہ جانے کہ کیا چیز اُس کے لیے قابلِ حصول ہے اور کیا چیز اُس کے لیے قابل حصول نہیں۔ پختہ انسان ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور بالفرض اگر وہ کسی معاملہ میںکامیاب نہ ہو تو وہ اپنی ناکامی سے سبق لے کر اپنے آپ کو زیادہ صاحب بصیرت بنا لیتاہے، اور اسی کے ساتھ زیادہ طاقتوربھی۔ پختگی کسی انسان کی نہایت اعلیٰ صفت ہے۔ پختہ (mature)کی تعریف ڈکشنری میںاس طرح کی گئی ہے—کہ ایک وجود جس کا نشو ونما پوری طرح ہوا ہو، وہ اپنی ترقی کے کمال تک پہنچا ہو: A being full-grown, or fully developed ایک درخت کی پختگی یہ ہے کہ وہ ابتدائی درجہ سے شروع ہو کر پھول اور پھل کے آخری درجہ تک پہنچ جائے، وہ ہر اعتبار سے ایک مکمل درخت بن جائے۔ اسی طرح انسان کی پختگی یہ ہے کہ وہ اپنی عقلی صلاحیت کے اعتبار سے آخری درجۂ کمال تک پہنچ جائے۔ تاہم انسان کی پختگی کا تعلق صرف حیاتیات یا نفسیات سے نہیں ہے بلکہ اُس کا گہرا تعلق علم سے ہے۔ جو آدمی اپنے علم کو بڑھائے، جوتجربات سے سبق سیکھے، جو دنیا سے معرفت کا رزق لے کر اپنے ذہنی وجودکو مکمل کرے، وہ گویا پختگی کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچا۔ پختہ انسان صاحبِ بصیرت انسان ہوتا ہے۔ پختہ انسان اس حیثیت میں ہوتا ہے کہ وہ معاملات میں صحیح رائے قائم کرے۔ غیر پختہ انسان خوش فہمیوں میں جیتا ہے اور پختہ انسان حقائق میں۔ غیر پختہ انسان جذباتی فیصلہ کرتا ہے اور پختہ انسان جذبات سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے بناتا ہے۔ غیر پختہ انسان کا اقدام جلد بازی کا اقدام ہوتا ہے اور پختہ انسان کا اقدام سوچا سمجھا ہوا اقدام۔ غیرپختہ انسان کا طریقہ لڑائی بھڑائی کا طریقہ ہوتا ہے اور پختہ انسان کا طریقہ صبر اور تحمل کا طریقہ۔ غیرپختہ انسان متشددانہ طریقِ کار میںیقین رکھتا ہے اور پختہ انسان پُر امن طریقِ کار میں۔ غیر پختہ انسان اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ وہ اپنی غلطی سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اس کے برعکس پختہ انسان جب کوئی غلطی کرتا ہے تو فوراً ہی وہ کھلے دل سے اس کا اعتراف کرلیتا ہے۔ غلطی کا یہ اعتراف اُس کے لیے اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ وہ ہر تجربہ سے سبق سیکھے۔ وہ اپنی شخصیت کو بہتر سے بہتر بناتا رہے۔ اُس کا ذہنی ارتقاء کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
واپس اوپر جائیں

حساسیت

حساسیت (sensitivity)ایک انسانی صفت ہے۔ حساسیت انسان کے لیے خالق کا ایک تحفہ ہے۔ حساسیت کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی بات کو زیادہ شدت کے ساتھ پکڑتا ہے۔ جو آدمی زیادہ حساس ہو، وہ کسی پوائنٹ کو زیادہ شدت کے ساتھ اخذ کرتا ہے: A highly sensitive person can grasp a point with greater intensity. حساسیت کسی انسان کے لیے بلاشبہ ایک مفید صفت ہے۔ مگر حساسیت کو مفید بنانا، صرف اس انسان کے لیے ممکن ہے جو حساسیت کو کنٹرول میں رکھنے کا آرٹ جانتا ہو۔جو آدمی اپنی حساسیت پر کنٹرول کرنا نہ جانے، اس کی حساسیت اس کے لیے ایک منفی حساسیت بن جائےگی۔ اس کے برعکس جو آدمی اپنی حساسیت کو کنٹرول میں رکھے، اس کی حساسیت اس کے لیے ایک نعمت بن جائے گی۔ انسان کی زندگی میں بہت سے ناپسندیدہ واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ ناپسندیدہ واقعات آدمی کی حساسیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو جانے کہ خالق نے آدمی کے اندر حساسیت کی صفت کیوں رکھی ہے۔ حساسیت کی صفت آدمی کے اندر اس لیے ہوتی ہے کہ وہ آدمی کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہونے سے بچائے،وہ اس کی قوت تمییز (power of differentiation) کو مردہ نہ ہونے دے۔ جس آدمی کے اندر حساسیت نہ ہو، وہ چیزوں کے صرف سطحی پہلو (superficial aspect) کو جانے گا۔ وہ چیزوں کے زیادہ گہرے پہلو سے بے خبر رہے گا۔ حساسیت فطری طور پر ہر عورت اور ہر مرد کے اندر ہوتی ہے۔ لیکن حساسیت کے بے جااستعمال سے آدمی اپنی حساسیت کو غیر موثر (ineffective) بنا لیتا ہے۔ وہ انسان کی صورت میں حیوان بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال نومبر 2015 کے الرسالہ کے صفحہ 44 پر جو سوالات آپ سے پوچھے گیے ، ان کے جوابات نہیں دیے گیے۔ کہا گیا کہ آپ کی مختلف کتابوں سے ان کے جوابات اخذ کیے جائیں۔ مشورہ نیک ہے اگر یہ صرف سائل کو دیا جاتا۔ سوالات اہم ہیں۔ چوں کہ آپ ماشاء اللہ عالم ہیں ۔ اس لیے تفصیلی جوابات الرسالہ کے ذریعے مطلوب ہیں۔ ہر قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان سوالات کےتفصیلی جوابات دیے جائیں تو الرسالہ کے پورے صفحات کافی نہ ہوں۔ پھر بھی الرسالہ عام طور پر ہر کس ناکس پڑھتا ہے جب کہ کتابیں بہت کم لوگوں کی نظر سے گزرتی ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ کیے گیے سوالات کے تفصیلی جوابات الرسالہ کے ذریعے دیے جائیں۔ (ایک قاری الرسالہ، ناگپور) جواب اسلام میں سوال کے بجائے تدبراور تفکر پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت خضر کے ساتھ حضرت موسی جب سفر پر روانہ ہوئے تو حضرت خضر نے حضرت موسی سے کہا : فَلَا تَسْأَلْنِی عَنْ شَیْء (18:70)۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سوال نہ کرو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہن میں کوئی سوال آئے تو پہلےغور وفکر کرو۔ غور وفکر کرکے آدمی پہلے اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے تیار کرتا ہے۔ سوال کا جواب وہی شخص درست طور پر سمجھتا ہے، جو پہلے سے اپنے آپ کو ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا چکا ہو۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سوال سے منع کرتے تھے (مسند احمد، حدیث نمبر18232)۔ سوال کی کثرت سے منع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی سوال نہ کرے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی پہلے سوال کے تقاضے کو پورا کرے۔ اس کے بعد وہ سوال کرے۔ اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ سوال کرنے سے پہلے آدمی خود غور وفکر کرے۔ اس طرح اس کو ذہنی ارتقا (intellectual development) کا فائدہ حاصل ہوگا۔ اللہ تعالی نے انسان کے ذہن میں غیر معمولی صلاحیت پیدا کی ہے۔ یہ صلاحیت غور وفکر سے بڑھتی ہے۔ اپنے ذہن کو ترقی دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطالعہ اور غور وفکر سے اپنے ذہن کو تیار کرتا رہے۔ وہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ اخذ (grasp)کی صلاحیت پیدا کرے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ کوئی شخص اس کے سوال کا جواب دے تو وہ اپنی طرف سے اس میں کچھ اضافہ کرسکے۔ حقیقی سائل وہ ہے جو جواب کو سن کر اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرسکتا ہو۔ مذکورہ حدیث کا مطلب اگر لفظ بدل کربیا ن کیا جائے تو وہ یہ ہوگا— سوال کیوں کرتے ہو۔ اگر تمھارے ذہن میں کوئی سوال آیا ہے تو پہلے خود اپنے ذہن کو استعمال کرکے اس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ سوال کو صرف سوال نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنی ذہنی ارتقا کا ذریعہ بناؤ۔ بات کو سن کر فورا سوال کرنا، عجلت پسند ی کی علامت ہے۔ بات کو سن کر پہلے غور وفکر کرنا چاہیے۔ اگر غور وفکر سے وہ بات تک نہ پہنچے تو سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنے ذہن کو تیار کرنے میں کمی کی ہے۔ اس کی توجہ اس پر دینا چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کو مزید تیار کرنے کی کوشش کرے۔ یانگون (برما)میں ماہ نامہ الرسالہ اور مطبوعات الرسالہ (اردو، انگلش )کے لیے رابطہ قائم فرمائیں: U SOE WIN (Advocate) No.64/1st Floor, Room 24, 29th Street, Pabedan, Yangon, Myanmar, +95- 5169518 جمشید پور (جھارکھنڈ)میں ماہ نامہ الرسالہ اور مطبوعات الرسالہ کے لیے رابطہ قائم فرمائیں: Ayaz Ahmad Holding- Sae'ban, Gulzar Bagh Colony, Near Amar Jyoti School, Chapal Pul, Pardeeh, Jamshedpur, Jharkhand Pin: 831022, Mob. No. 9199248371, 903196239
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— — 247

دور جدید ، موید اسلام 14 : اگست 2016 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے نہرو گیسٹ ہاؤس میں ’اسلام اور دور جدید‘ کے موضوع پر ایک پروگرام ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کا لکچر ہوا۔ صدر اسلامی مرکز نے تقریباً ایک گھنٹہ اس موضوع پر اپنے خیالات پیش کیے اور حاضرین کو بتایا کہ دور جدید کس طرح اسلام کا مؤید ہے۔لکچر کے بعد سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی۔ اس پروگرام میں دوسرے اسکالرس نے بھی حصہ لیا۔مثلا الطاف احمد اعظمی۔ تمام شرکاء، طلبہ اور اساتذہ نے صدر اسلامی مرکز کے لکچر کو کافی پسند کیا۔ آخر میں شرکاء کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ پروگرام کے بعد ای ٹی وی اردو کے نمائندہ نے صدر اسلامی مرکز کا دور جدید میں مسلم مسائل کے موضوع پر ایک انٹرویو لیا۔ سیلف پروگرامر 12 : تا 14 اگست 2016 کو تمل ناڈو، حیدرآباد، ممبئی، کیرالا اور بہار ٹیم کی سی پی ایس میٹ کیرالا میںہوئی۔اس میٹ کے درمیان مختلف پروگرام ہوئے۔ ان میں کچھ آپس کے پروگرام بھی تھے، اور کچھ دوسرے مسلم اور نان مسلم سینٹرس کا دورہ بھی تھا۔مثلاً ایم ای ایس ایجوکیشنل ٹرسٹ ،جے ڈی ٹی اسلام ، کے این ایم مرکز الدعوۃ ، میڈیا ون نیوز چینل،اورسوامی چتانندہ پوری(آدویتا آشرم) ،وغیرہ۔نیز عین المعارف دعوۃ کالج (کنور) کا دورہ ہوا،اس مدرسہ کےمہتمم مولانا انس مولوی نے کافی خوشی اور چاہت کا اظہار کیا ۔ جن اہم شخصیات سے ملاقات ہوئی، ان میں ایک قابل ذکر نام جناب ای ٹی بشیر محمد،ممبر آف پارلیمنٹ، ہے۔ اس کے علاوہ ایک عوامی پروگرام کنور میں منعقد کیا گیا۔ اس کا موضوع تھا دورِ کمیونی کیشن دورِدعوت ہے (Age of Communication is age of Dawah)ہے۔ مدعو آپ کے دروازے پر:وشنو موہن آشرم (چنئی)کےسرپرست شری ہری پرشاد اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لئے آئے۔ ان کی ملاقات کا مقصد تھا صدر اسلامی مرکز کو اپنے یہاں پیس پر ہونے والے پروگرام کے لیے دعوت دینا۔ دوران ملاقات مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ اور تمام لوگوں کو انگریزی ترجمہ قرآن اور دیگر امن پر مبنی کتابیں دی گئیں۔ یہ ملاقات 16 اگست 2016 کو ہوئی۔ ث 31 اگست 2016 کو انڈونیشین کرشچن پروفیسرس کی ایک ٹیم صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لئے آئی۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز سے پیس اور اسپریچولٹی پر گفتگو کی۔ آخر میں ان کو قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیئے گئے۔ عالمی دَورِ دعوت:صدر اسلامی مرکز کی انگلش کتاب ’وہاٹ از اسلام‘ اور عربی کتاب ’المنہج الربانی فی الدعوة إلى اللہ‘ کا ترجمہ پرتگیزی زبان میں ہوچکا ہے۔ ان کے علاوہ بڑی تعداد میں مولانا کے انگلش اور عربی مضامین کا بھی ترجمہ پرتگیز زبان میں ہوا ہے۔اس کے علاوہ پشتو زبان میں بھی کچھ کتابوں اور لیف لیٹ کا ترجمہ ہوچکا ہے، جیسے مذہب اور سائنس، پیغمبر انقلاب، اللہ اکبر، سفر آخرت۔ اور امن عالم،اپنی تعمیر آپ، بااصول زندگی، مسلمان کی اصل حیثیت۔ ملیالم زبان میں کچھ کتابوں کا ترجمہ ہوچکا ہے، جیسے وہاٹ از اسلام، یکساں سول کوڈ، امن کلچر (منتخب مضامین) وغیرہ۔ نیز صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن اور انگلش کتاب ’واٹ از اسلام‘ چائنیز زبان میں پاکستان سے شائع ہوچکا ہے۔ یہ خاص طورپر پاکستان میں مقیم چینی لوگوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ ث 27اگست تا 8ستمبر 2016 گڈورڈ بکس (دہلی) نے لبنان ، الجیریا ،مراکش میں منعقد ہونے والے بک فیئرس میں حصہ لیا۔ اس دوران کافی تعداد میں ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر مسلم و غیر مسلم کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ دورِ تائید : سی پی ایس سہارن پور کی ٹیم کو رادھا ہری مندر میں منعقد ہونے والی ایک میٹنگ میں مدعو کیاگیا تھا۔ ڈاکٹر محمد اسلم خاں نے اس میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی ۔ اس موقع پر ان سے دیگر سوالات کے علاوہ سی پی ایس مشن کے بارے میں بھی سوالات کیے گیے۔ انھوں نے کہا کہ ہم (انسان) زمین پر دو مقصد سے بھیجے گئے ہیں۔ ایک، تو خدا کی عبادت اور دوسرے، حق کی دریافت جو کہ کائنات میں چھپی ہوئی ہے اور اس کو لوگوں تک پہنچانا۔ مسجد، مندر گرودوارے اور چرچ اس کام کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے۔ اس لیے سی پی ایس نے یہ کام اپنے ذمے لیا ہے اور اس کو پیس ہال (سہارن پور) میں انفرادی ذہن سازی کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ یہ پروگرام 15جولائی 2016 کومنعقد کیا گیا تھا۔ ث سی پی ایس کے ممبر اور روشنی آئی بینک کے چیئر مین ڈاکٹر اشوک جین کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ وہ سی پی ایس کا لٹریچر پڑھتے ہیں اور دوسروں میں تقسیم بھی کرتےہیں۔ ان کو ایم این سی کی جانب سے نیتر رتنا ایوارڈ سے سرفراز بھی کیا جاچکا ہے۔ انھوں نے اپنی ماں کی آنکھ بطور عطیہ آئی بینک میں جمع کردیں۔12اگست2016 کو سہارن پور کی انتہائی قدیم بھوتیشور مندر میں ان کی تیرھویں کی رسم ادا کی گئی تھیں۔ سی پی ایس سہارن پور کی ایک ٹیم نے اس میں شرکت کی اور قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر لوگوں کے درمیان تقسیم کیا ۔ ث 27 ستمبر 2016 کو انڈین چیمبر آف کامرس (ICC) نے فائیو اسٹار ہوٹل اوبرائے میں ’’جاگروتی‘‘ کے نام سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کا موضوع ’امپاورمنٹ آف وومن‘‘ تھا۔ اس میں مشہور اسپیکرس مثلاً مس شائنا ای سی (بی جے پی کی ترجمان اور نامور فیشن ڈیزائنر)، مس ساتھیا سرن (فیمینا میگزین کی سابق ایڈیٹر و کتابوں کی مصنف)، مسٹر پی کے مکھرجی(ڈائریکٹر آف أئی سی سی) اور مس جینا مترا بانک ، وغیرہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر کولکاتا ٹیم کی متحرک ممبر مس شبینہ علی نے پروگرام میں شرکت کی۔ انھوں نےان تمام حضرات سے انٹرایکشن کیا اور سی پی ایس مشن سے ان کو باخبر کیا۔ساتھ ہی ان کو دعوہ لٹریچر جیسے انگلش قرآن، اسپرٹ آف اسلام اور ایج آف پیس وغیرہپیش کیا،جسے تمام لوگوں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ مس ساتھیا سرن کو جب قرآن دیا گیا تو انھوں نے خوشی سے کہامیں قرآن پڑھنا پسند کروں گی (I love to read the Quran)۔ دعوت بذریعہ سیاحت:\ 4 اگست 2016 سے 2 ستمبر 2016 تک روزانہ الرسالہ مشن گیا (بہار) کے ممبر ان نے حاجیوں کی روانگی کے موقع پر گیا ائرپورٹ پر اعلى تعلیم یافتہ مسلم اور غیر مسلم، اسٹاف اور نان اسٹاف کے درمیان بڑی تعداد میں انگلش، ہندی اور اردو ترجمہ قرآن کے علاوہ اسپرٹ آف اسلام، دی ایج آف پیس، وہاٹ از اسلام وغیرہ تقسیم کیا۔ اس کار خیر کو جنا ب عظیم الدین ضیفی اور مجاہد حسین اوراکرام الدین صاحبان وغیرہ نےانجام دیا ۔ اس کے علاوہ بودھ گیا(Bodh Gaya)میںایک معروف بک شاپ کو دعوہ ورک کے لیے سنٹر بنایاگیا ہے۔یہ دکان محمد شہاب الدین صاحب کی ہے۔یہاں روزانہ بڑی تعداد میں غیر ملکی سیاح کتابوں کے لیے آتے رہتے ہیں۔چناں چہ اس شاپ کے ذریعہ غیرملکی سیاحوں میں بڑی تعداد میں انگلش دعوہ لٹریچر جیسے قرآن، دی ایج آف پیس، اسپرٹ آف اسلام، وہاٹ از اسلام، وغیرہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن کے سلسلہ میںغیر مسلموں کی دلچسپی کو دیکھ مالک دکان محمد شہاب الدین صاحب نے بھی دعوہ ورک کرنے کا عزم کیا ہے۔ نیز مستقبل قریب میں بودھ گیا میں ایک بڑا میلہ لگنے والا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح شرکت کریں گے۔ یہاں اسٹال لگایا جائے گا۔ تزکیہ و تربیت : علماء کی ایک ٹیم مولانا سید اقبال احمد عمری اور مولانا سید فیاض الدین عمری کی قیادت میں سی پی ایس مشن سے جڑی ہوئی ہے۔ 1-5 اکتوبر 2016 کے درمیان ان لوگوں نےدہلی کا دورہ کیا، اورصدر اسلامی مرکز کی صحبت میں رہ کر دور جدید ،اسلام،دعوت اسلام وغیرہ کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز سے استفادہ کیا۔اس کے علاوہ سی پی ایس دہلی کی ٹیم کے ساتھ مختلف امور پر میٹنگیں ہوئیں۔ اس درمیان یہ طے پایا کہ صدر اسلامی مرکز کی کتابوں سے اردو میں ایک نصاب تیار کیا جائے گا۔ یہ نصاب اِن لوگوں کی نگرانی میں انجام پائے گا۔ ث مہاراشٹرا کی سی پی ایس ٹیم نے دہلی کا دورہ کیا۔ یہاں ان کا قیام 8۔9 اکتوبر 2016 کو رہا۔ اس درمیان انھوں نے صدر اسلامی مرکز سے استفادہ کیا اور دہلی سی پی ایس ممبران سے اپنے دعوہ تجربات شیئر کیے، اور ایک نئے دعوتی عزم کے ساتھ وہ لوگ واپس لوٹے۔ آپ کا مشن، آپ میں تبدیلی: ث I would like to express my views on Al-Risala magazine. First of all, my close friend Mr. M.A. Naeem, M.A., B.Ed., introduced Al-Risala to me in 1976. The magazine impressed me very much and since then I have been its regular reader. The magazine made me a different man compared to what I was earlier. It has made me Akhirat-oriented. I have now started bothering very much about my Akhirat. I explain to my children the different topics published in the magazine. I am deeply impressed regarding your explanation of Akhirat and as well as this world, for Muslims in particular and entire humanity in general. Apart from Al-Risala I have read number of your books to quench my thirst for knowledge of Akhirah. When I was in service, I purchased your books Muhammed: A Prophet for all Humanity and Islam the Creator of Modern Age, and distributed it in my office among my seniors and subordinates to make them aware of Islam and the Prophet. I am doing it now also. I am very much influenced by your writings as they are based on the Quran and Sunnah with concrete proof. I have heard your lectures in Hyderabad thrice. Your lectures are full of knowledge of both science and religion, which impressed me a lot. You are presenting religion in a scientific way which cannot be found among other Islamic scholars. Your writings are unique. What I have written is not an exaggeration, rather it has come from my heart. (Abdul Wahab, Hyderabad, India) ث Al-Risala issue of Oct 2016 is totally different from the regular ones . It is extremely eyeopening for every reader. I cried out when I finished reading this issue. I found that Maulana has tried his utmost in every article to inculcate its indepth meaning, th]e importance of contemplation, the secrets of result-oriented work, the concept of freedom, the difference between real and relative aspects of things, understanding Islamization of individual and socio-political system, practical wisdom of respective aspect, and most importantly the difference between debate and dawah. Maulana has been able to understand and present the true and qualitative picture of religion. He has correctly explained the Creation Plan of God. May God accept his exhaustive work and bless us to spread His message to all mankind. I am thrilled to freely distribute this issue of Al-Risala in my town. Thanks a lot and I pray for Maulana’s good health and long life. (Shakeel Ahmed, Indore, MP)

Tuesday 1 November 2016

Alrisala November 2016 (الرسالہ نومبر)

4

-آغاز کلام

5

- سوچئے، سوچئے، سوچئے

7

- انسان کی کہانی

12

- زندگی کی حقیقت

13

- جنت کا تعارف

14

- انسانی شخصیت

15

- عمر اور صحت

16

- بڑھاپے کی عمر

17

- بڑھاپے سے سبق لینا

18

- ہر شخص موت کا مسافر

19

- موت

20

- موت کا شعور

21

- موت کے دروازے پر

22

- وقت ختم ہوگیا

23

- موت کی خبر

24

- موت کا تصور

25

- موت کی حقیقت

26

- موت کے قریب

27

- موت کا تجربہ

28

- کوئی شخص موت کو جیت نہیں سکتا

32

- پروموشن کی خبر

33

- خود کُشی: سب سے بڑی دیوانگی

34

- ابدی صحرا

35

- مرنے والوں کا تذکرہ

36

- خوش نما فریب

37

- موت کا مسئلہ

38

- موت کا المیہ

39

- موت کا پیغام

40

- موت کا واقعہ

41

- موت کا تصور

42

- ھادم لذات

43

- موت کا سبق

45

- اپنی نمازِ جنازہ

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


آغاز کلام

زیر نظر کتاب موت و حیات کے موضوع پر ہے۔یعنی اس موضوع پر کہ انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ اور موت کے بعد جب وہ زندگی کے اگلے مرحلہ میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ یہ موضوع قرآن کا ایک اہم باب ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان کے خالق نے قرآن اس لیے اتارا تاکہ انسان زندگی کے مقصد کو جانے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کا درست منصوبہ بنائے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ معاملہ ہے کہ وہ ایک دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہو کر دنیا میں داخل ہوتا ہے، اور پھر سوسال سے کم مدت تک زندگی گزار کر اگلے مرحلۂ حیات کی طرف چلا جاتا ہے۔ قرآن میں اس سوال کا نہایت واضح جواب ملتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ پہلا کام ہے کہ وہ اس سوال کا مستند جواب معلوم کرے۔ تاکہ وہ اس کے مطابق زندگی گزار کر اپنے ابدی دورِ حیات میں کامیابی کا درجہ حاصل کرے۔ زیر نظر کتاب){ FR 1561 } ( دعوتی لٹریچر میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ تزکیہ کے موضوع پر بھی ایک اہم کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک اعتبار سے یہ کتاب ایک دعوتی کتاب بھی ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ محاسبہ خویش (self-introspection)کا ذریعہ بھی ۔ وحید الدین، نئی دہلی 20 اگست 2016
واپس اوپر جائیں

سوچئے، سوچئے، سوچئے

اگر پہاڑ کی کھوہ(cave) سے کسی دن ایک زندہ انسان نکل آئے، تو سارے دیکھنے اور جاننے والے لوگ اس کو حیرت ناک واقعہ سمجھیں گے۔ تمام لوگ یہ سوچنے لگیں گے کہ ایسا کیوں کر ہوا۔ ماں کے پیٹ سے ایک انسان کا پیدا ہونا بھی اسی قسم کا ایک واقعہ ہے جو دہشت ناک حد تک عجیب ہے۔ لوگ ماں کے پیٹ سے زندہ انسان کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، لیکن وہ اس کے متعلق کچھ نہیں سوچتے۔ یہ فر ق کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا روزانہ کا ایک واقعہ ہے۔ بار بار دیکھنے کی وجہ سے لوگ اس واقعے کے عادی (used to) ہوگئے ہیں، اِس لیے وہ اس کو فار گرانٹیڈ(for granted) طورپر لیے رہتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔لوگ اگر اِس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ سوچیں تو وہ انسان کی پیدائش کے واقعے میں خالق کے وجود کو دریافت کرلیں۔ جب وہ دیکھیں کہ ایک زندہ اور باشعور انسان پیدا ہو کر زمین پرچل پھر رہا ہے، وہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے اور بولتا ہے، تو ان کو محسوس ہوکہ ہر انسان خالق کے وجود کا ایک چلتا پھرتا نشان (sign) ہے۔ ہر انسان لوگوں کو اپنے خالق کا ایک زندہ تعارف معلوم ہونے لگے۔ اِسی طرح انسان جب پیدا ہو کر موجودہ زمین (planet earth) پر آتا ہے، تو وہ پاتا ہے کہ یہاں اس کے لیے ایک پورا لائف سپورٹ سسٹم موجود ہے۔ یہ لائف سپورٹ سسٹم اتنا مکمل ہے کہ کوئی قیمت دیے بغیر وہ انسان کی ہر چھوٹی اور بڑی ضرورت کو نہایت اعلیٰ صورت میں پورا کررہا ہے۔ زمین سے لے کر سورج تک پوری دنیا استثنائی طورپر انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ اس کے بعد وہ دن آتا ہے جب کہ انسان اچانک مرجاتا ہے۔ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن سو سال کے اندر ہی یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ ہر عورت اور مرد اپنی مرضی کے خلاف اِس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ زمین پر پیدا ہونے والا ہر انسان دو چیزوں کا تجربہ کرتاہے۔ پہلے زندگی کا تجربہ، اور اس کے بعد موت کا تجربہ۔ اگر انسان سنجیدگی کے ساتھ ان واقعات پر سوچے تو وہ یقینی طورپر ایک بہت بڑی حقیقت کو دریافت کرے گا، وہ یہ کہ انسان کو پیدا کرکے اِس زمین پر آباد کرنا بطور انعام نہیں ہے، بلکہ وہ بطور امتحان ہے۔موجودہ دنیا میں انسان اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے۔ یہ آزادی اِس لیے ہے تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ کون شخص بااصول زندگی گزارتا ہے اور کون شخص بے اصول زندگی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ اِس حقیقت کو پالے گا کہ موت دراصل خالق کے سامنے حاضری کادن ہے۔ انسان اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ابدی مخلوق ہے، لیکن اس کی مدتِ حیات (lifespan) کو دو حصوں میں بانٹ دیاگیا ہے— موت سے قبل کی مدتِ حیات (pre-death period)، اور موت کے بعد کی مدتِ حیات(post-death period) ۔ موت سے پہلے کی مدتِ حیات امتحان (test) کے لیے ہے، اور موت کے بعد کی مدتِ حیات اُس کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق، انعام یا سزا پانے کے لیے۔ انسان آج اپنے آپ کو اِس دنیا میں ایک زندہ اور باشعور وجود کی صورت میں پاتاہے۔ یہ زندہ اور باشعور وجود ایک مستقل وجود ہے۔ موت وہ دن ہے جب کہ یہ زندہ اور باشعور وجود اپنی اِسی موجودہ صورت میں عارضی دنیا سے نکالا جاتا ہے اوراس کو اِسی زندہ اور باشعور وجود کی حالت میں اگلی مستقل دنیا کی طرف منتقل (transfer) کردیاجاتا ہے۔ یہ لمحہ ہر عورت اور مرد پر لازماً آنے والا ہے۔ وہ ناقابلِ قیاس حد تک سنگین لمحہ ہوگا۔ موت کے بعد آنے والے اِس دورِ حیات میں یہی موجودہ انسان ہوگا، لیکن اس کے تمام اسباب اس سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ چکے ہوں گے۔ اس کے پیچھے وہ دنیا ہوگی جو اس سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئی، اور اس کے آگے وہ دنیا ہوگی جہاں اس کو کامل بے سروسامانی کے ساتھ ابدی طورپر رہنا ہے— دانش مند وہ ہے جو اِس آنے والے دن کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی کہانی

حیوانات کے لیے زندگی صرف ایک بار ہے مگر انسان کے لیے استثنائی طورپر زندگی دوبار ہوتی ہے۔ ہر انسان اصلاً ابدی حیات کا مالک ہے۔ اِس ابدی زندگی کا بہت مختصر حصہ قبل ازموت دورِ حیات میں ہے۔ اور اس کا بقیہ تمام حصہ بعد از موت دورِ حیات میں۔ کائنات کی دوسری چیزیں قانون فطرت کے ماتحت ہیں۔ یہاں کی ہر چیز جبری طورپر وہی کرتی ہے جو اس کے لیے قانونِ فطرت کے تحت مقدر کردیا گیا ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان استثنائی طورپر ایک آزاد مخلوق ہے۔ وہ اپنا مستقبل خود اپنے آزاد ارادے کے تحت بناتا ہے۔ وہ اپنی آزادی کا یا تو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط استعمال۔ وہ اپنے مواقع کو یا تو پاتا ہے یا اس کو نادانی کے ساتھ کھو دیتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 95میں خدا نے یہ اعلان کیا ہے :ہم نے انسان کو بہترین بناوٹ کے ساتھ پیدا کیا ۔ پھر اس کو سب سے نیچے درجے میں پھینک دیا (التین : 4-5) We created man in the best mould, then we cast him down to the lowest of the low. یہ گویا انسان کے لیے ایک وارننگ ہے جو اس کو اس کے حال اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اعلیٰ امکانات کے ساتھ پیدا کیا، مگر انسان اپنے امکانات کا کم تر استعمال کرکے اپنے آپ کو بدترین ناکامی میں ڈال دیتا ہے: God created man with great potential, but by under-utilizing his potential, he makes himself a worst case of failure. انسان کی شخصیت ایک دوہری شخصیت ہے— جسم اور روح (یا ذہن)۔سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں تک انسان کے جسم کا تعلق ہے ،وہ غیر ابدی ہے۔ جب کہ انسان کی روح ایک ابدی وجود کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کی روح ایک غیر مادّی حقیقت ہے۔ وہ مادّی قوانین سے بالا تر ہے۔ جب کہ انسان کا جسم مادی قوانین کے ماتحت ہے اور مسلسل طورپر فنا پذیر ہے۔ حیاتیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کا جسم بہت چھوٹے چھوٹے خلیوں (cells) سے بنا ہے۔ یہخلیات ہر لمحہ ہزاروں کی تعداد میں ٹوٹتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔ انسان کا نظامِ ہضم گویا ایک خلیہ ساز فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹری مسلسل طورپر خلیّات کی سپلائی کرتی رہتی ہے۔ اِس طرح جسم اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ یہ عمل اِس طرح ہوتا ہے کہ ہر چند سال کے بعد آدمی کا جسم بالکل ایک نیا جسم بن جاتا ہے۔ لیکن اس کا روحانی وجود کسی تبدیلی کے بغیر اسی طرح باقی رہتا ہے۔ چنانچہ کہاگیا ہے کہ انسان کی شخصیت تغیر کے درمیان عدم تغیر کا نام ہے: Personality is changelessness in change. انسان کی ناکامی کا پہلا مظہر یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے غیر متغیر حصے کو نظر انداز کرتا ہے، اور اپنی شخصیت کے تغیر پذیر حصے کو اچھا بنانے میں لگا رہتا ہے۔ وہ اپنی ساری توجہ فانی انسان کی بہتری میں لگا دیتا ہے، اور ابدی انسان کی بہتری کے لیے وہ نہ کچھ سوچتا ہے اور نہ کچھ کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک محدود مدت گذار کر جب وہ مرتا ہے تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا فانی وجود اپنی تمام ظاہری ترقیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے اور اس کا ابدی وجود ترقیات سے محروم حالت میں زندگی بعد موت کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو قرآن میں انسان کی ناکامی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ بلاشبہہ بدترین ناکامی ہے کہ انسان انتہائی اعلیٰ امکانات (potentials) کے ساتھ پیدا کیا جائے مگر وہ اپنے امکانات کو صرف ناقص طورپر استعمال کرے اور اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے اپنے اِس عدم استعمال کی قیمت دینے کے لیے اپنے ابدی دورِ حیات میں داخل ہوجائے۔ اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان استثنائی طورپر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تصوّراتی فکر (conceptual thought) انسان کی ایک ایسی صفت ہے جو وسیع کائنات کی کسی بھی چیزمیں نہیں پائی جاتی۔ حتی کہ حیوانات میں بھی نہیں۔ اِسی لیے کہا گیا ہے کہ انسان ایک سوچنے والا حیوان ہے: Man is a thinking animal. اِس اعتبار سے دیکھیے تو انسان کی شخصیت دو چیزوں پر مشتمل ہے— غیر تفکیری جسم، اور تفکیری روح۔ جو لوگ اپنے امکانات کو محدود طورپر صرف مادّی دائرے میں استعمال کریں وہ گویا اپنے وجود کے غیر تفکیری حصے کی تو خوب تزئین کررہے ہیں لیکن اپنے وجود کے تفکیری حصے کی ترقی کے لیے وہ کچھ نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ موت سے پہلے کی اپنی تمام عمر جسمانی ترقی (physical development) میں صرف کردیتے ہیں،اور جہاں تک ذہنی ترقی (intellectual development) کی بات ہے وہ اس کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں پر جب موت آتی ہے تو اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اُسی طرح مرجاتے ہیں جس طرح کوئی حیوان مرتا ہے، یعنی اپنے جسم کو خوب فربہ بنانا، اور اگلے دورِ حیات میں اِس طرح داخل ہونا کہ ان کا ذہن تمام ترقیوں سے محروم ہو اور اگلے دورِ حیات میں طویل حسرت کے سوا کچھ اور ان کے حصے میں نہ آئے۔ اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طور پر کل(tomorrow) کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کائنات کی تمام چیزیں، بشمول حیوانات، صرف اپنے آج (today) میں جیتے ہیں۔ یہ صرف انسان ہے جو کل کا شعور رکھتا ہے، اور کل کو نشانہ بنا کر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ گویا کہ بقیہ چیزیں صرف حال (present) میںجیتی ہیں اور انسان استثنائی طورپر مستقبل (future) میں۔ قرآن کے بیان کے مطابق، وہ لوگ بدترین محرومی کا شکار ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو صرف آج کی چیزوں کے حصول میں لگا دیں اور اپنے کل کی تعمیر کے لیے وہ کچھ نہ کریں۔ ایسے لوگ موت سے پہلے کی زندگی میں بظاہر خوش نما دکھائی دے سکتے ہیں لیکن موت کے بعد کی زندگی میں وہ محرومی کی بدترین مثال بن جائیں گے۔ کیوں کہ موت کے بعد کی زندگی میں جو چیز کام آنے والی ہے، وہ ذہنی اور روحانی ترقی ہے نہ کہ دنیوی مفہوم میں مادّی ترقی۔ اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان اپنے اندر لامحدود خواہشیں رکھتا ہے۔ اِسی کے ساتھ ہر انسان کے اندر لامحدود صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جن کو استعمال کرکے وہ لامحدود حد تک اپنی خواہشوں کی تکمیل کرے، مگر ہر انسان کا یہ انجام ہوتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا صرف اتنا استعمال کرپاتا ہے جو اس کو موت سے پہلے کی محدود دنیا میں کچھ وقتی راحت دے سکے۔ مگر آخر کار ہر انسان کا یہ انجام ہوتا ہے کہ وہ اپنی اِن تمام صلاحیتوں کو لیے ہوئے موت کے بعد والی ابدی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے جہاں وہ ابدی طور پر بے راحت زندگی گذارے، کیوں کہ اُس نے اِس دوسرے دورِ حیات کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال ہی نہیں کیا تھا۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے حقیقت پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اِس طرح کرے کہ اس کی فطری صلاحیتیں بھر پور طورپر اس کے ابدی مستقبل کی تعمیر میں استعمال ہوں۔ وہ اپنے امکانات (potentials) کو سمجھے اور اُن کو اِس طرح استعمال کرے کہ وہ اپنے ابدی دورِ حیات میں ان کا مفید نتیجہ پاسکے۔ وہ اپنے آپ کو اِس بُرے انجام سے بچائے کہ آخر میں اس کے پاس صرف یہ کہنے کے لیے باقی رہے کہ میں اپنے امکانات کو استعمال کرنے سے محروم رہا: I was a case of missed opportunities. انسان کے لیے حقیقت پر مبنی منصوبہ بندی یہ ہے کہ وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں مادی چیزوں کے معاملے میں صرف ضرورت(need) پر قناعت کرے، اور اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کا بیش تر حصہ اِس پر خرچ کرے کہ وہ موت کے بعد کی زندگی میں ایک مُطہَّر شخصیت (purified personality) کے ساتھ داخل ہو۔ تاکہ اس کو ابدی دورِ حیات کی معیاری دنیا (perfect world) میں عزت اور راحت کی مطلوب زندگی مل سکے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ موت سے پہلے کے دورِ حیات اور موت کے بعد کے دورِ حیات دونوں میں کامیابی کا اصول صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے آپ کو تیّار شخصیت(prepared personality) بنانا۔ مادّی معنوں میں تیار شخصیت موت سے پہلے کے دورِ حیات میں ترقی کا ذریعہ بنتی ہے، اور روحانی معنوں میں تیار شخصیت اُس دورِ حیات میں کام آئے گی جہاں موت کے بعد آدمی کو رہنا ہے۔ مادی معنوں میں تیار شخصیت یہ ہے کہ آدمی پروفیشنل ایجوکیشن حاصل کرے۔ آدمی کے اندر تجارتی صلاحیت ہو۔ آدمی کے اندر وہ صفات ہوں جن کے ذریعے کوئی شخص لوگوں کے درمیان مقبول ہوتا ہے۔ آدمی قریبی مفاد(immediate gain) کو آخری حد تک اہمیت دیتا ہو، وغیرہ۔ موت کے بعد کے دورِ حیات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو تیار شخصیت درکار ہے وہ ایسی شخصیت ہے جس نے موجودہ دنیا کے مواقع کو روحانی ارتقاء (spiritual development) اور فکری ارتقاء (intellectual development) کے لیے استعمال کیا۔ ایسی ہی شخصیت موت کے بعد کے دورِ حیات میں باقیمت ٹھہرے گی۔ یہ شخصیت وہ ہے جس نے اپنی عقل کو استعمال کرکے سچائی کو دریافت کیا۔ جو شبہات کے جنگل میں یقین پر کھڑا ہوا۔ جس نے خدا کو اپنی زندگی کا واحد کنسرن بنایا۔ جس نے خود پسندی کے جذبات کو کچل کرخدا پرستی کے طریقے کو اختیار کیا۔ جو منفی حالات میں مثبت سوچ پر قائم رہا۔ جس نے نفسانی انسان بننے کے بجائے ربّانی انسان ہونے کا ثبوت دیا۔جس نے مفاد پرستی کے بجائے اصول پسندی کا طریقہ اختیار کیا۔ جس نے اپنے آپ کو نفرت سے بچایا اور اپنے اندر انسانی خیر خواہی کے جذبات کی پرورش کی۔ جس نے آزادی کے باوجود اطاعت(submission) کا طریقہ اختیار کیا۔ نگاہ عبرت رومن ایمپائر کے عروج کے زمانے میں اس کے اندر بیشتر یوروپ، شرق اوسط اور افریقہ کے شمالی ساحلی ممالک شامل تھے۔ رومیوں نے جو سڑکیں، عمارتیں اور پل بنائے، وہ اتنے شاندار تھے کہ ان کے بنائے ہوئے بعض پل اسپین میں دوہزار سال بعد بھی آج تک باقی ہیں۔ رومن لا ،آج بھی یورپ، امریکا کے قانون کی بنیاد ہے، وغیرہ۔مگر رومن ایمپائر اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ختم ہوگئی۔ اب اس کا نشان یا تو پرانے کھنڈروں میں ہے یا ان کتابوں میں جو لائبریریوں کی زینت بننے کے لیے رکھی جاتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے انسان اگر نصیحت لے تو وہ کبھی گھمنڈ میں مبتلا نہ ہو۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آنکھ والا وہ ہے جو اپنے عروج میں زوال کا منظر دیکھے، جو اپنی بلند عمارتوں کو پیشگی طور پر کھنڈر ہوتا دیکھ لے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کی حقیقت

مطالعہ بتاتا ہے کہ ہماری دنیا جوڑے(pairs)کے اصول پر بنی ہے۔ یہاں ہر چیز جوڑے جوڑے کی صورت میں ہے— الکٹران اور پروٹان، میل پلانٹ اور فیمیل پلانٹ (male plant, female plant)، میل اینمل اور فیمیل اینمل (male animal, female animal) عورت اور مرد، اسی طرح خود دنیا (world) جوڑے کی صورت میں ہے، نیگٹیو ورلڈاور پازیٹیو ورلڈ۔ دنیا کا ایک جوڑا وہ ہے جو آئیڈیل اور پرفیکٹ ہے۔ وہ ہر قسم کی محدودیت (limitations)سے پاک ہے۔ وہاں انسان کی تمام تمنائیں اپنی کامل صورت میں پوری ہوں گی۔ یہ کامل دنیا صرف منتخب لوگوں کو استحقاق (merit) کی بنیاد پر ملے گی۔ استحقاق کے بغیر کوئی اس دنیا میں داخلہ پانے والا نہیں۔ موجودہ دنیا اسی منصوبہ کا ابتدائی اور عارضی حصہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت، موجودہ دنیا انتخابی میدان (selective ground) کے طورپر بنائی گئی ہے۔ یہاں جو لوگ پیداکئے جاتے ہیں، وہ اس لیے پیدا کئے جاتے ہیں، تاکہ یہاں کے حالات میں رکھ کر دیکھا جائے کہ ان میں سے کون اگلی کامل دینا میں بسائے جانے کا اہل ہے اور کون اس کا اہل نہیں۔ اہل افراد کو منتخب کرکے اگلی کامل دنیا میں ہمیشہ کے لیے آباد کردیا جائے گا اور بقیہ لوگ جو اس جانچ میں پورے نہیں اتریں گے وہ قابلِ رد (rejected lot) قرار پائیں گے۔ لوگوں کا یہ انتخاب (selection) کس بنیاد پر ہوگا۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق، اس کی بنیاد صرف ایک ہے، وہ یہ کہ کس نے آزادی کا غلط استعمال کیا اور کس نے اس کا صحیح استعمال کیا۔ ملی ہوئی آزادی کا صحیح استعمال یا غلط استعمال ہی وہ واحد معیار ہے جس کے مطابق لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق، صحیح انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو ماحول کی کنڈیشننگ سے بچائے۔ جو خالق کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق زندگی گزارے، جو موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں، موت کے بعد کے مرحلۂ حیات کے مطابق، اپنے آپ کو تیار کرے۔ موجودہ دنیا میں ہر عورت اور مرد اسی جانچ (test) پر ہیں۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق ہرعورت اور مرد کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے۔ جب تاریخ کے خاتمہ پر انسان کا اگلا دور شروع ہوگا، اس وقت انسانوں کا خالق ظاہر ہو کر سامنے آجائے گا۔ یہ فیصلہ کا دن ہوگا۔ اس وقت تمام پیدا ہونے والے عورت اورمرد خالق کے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ اس وقت خالق اپنے تیار کئے ہوئے ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ یہ فیصلہ تمام تر انصاف کی بنیاد پر ہوگا۔ اور پھر کسی کو ابدی جنت میں آباد کیا جائے گا اور کسی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ حالات بتاتے ہیں کہ یہ آنے والا دن بہت قریب آچکا ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان جاگے اور آنے والے ابدی دورِ حیات کی تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا تعارف

لارڈ میو نے اپنا ایک واقعہ لکھا ہے۔ وہ ایک بار ایک جزیرے میں تھے۔ وہاں انھیں غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ منظر اتنا حسین تھا کہ میں نے چاہا کہ میں اس کو ہمیشہ دیکھتا رہوں: I wish I could see this sunset forever فطرت(nature) بے حد حسین ہے۔ اس کو دیکھنے سے کبھی آدمی کا جی نہیں بھرتا۔ آدمی چاہتا ہے کہ نیچر کو مستقل طور پر دیکھتا رہے۔ مگر زندگی کے تقاضے اس کو مجبور کرتے ہیں ، اور اس سےسیر ہوئے بغیر وہ اس کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔نیچر موجودہ دنیا میں جنت کی نمائندہ ہے۔ وہ آخرت کی جنت کی ایک جھلک ہے، جنت میں جو لطافت، جو حسن، جو بے پناہ کشش ہوگی، اس کا ایک دُور کا مشاہدہ موجودہ دنیا میں نیچر کی صورت میں ہوتا ہے۔ نیچر ہم کو جنت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ ہم کو بتاتی ہےکہ دنیا میں جنت والے عمل کرو تاکہ آخرت میں جنت کو پاسکو۔دنیا میں آدمی جنت کی جھلک سے بھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ مگر آخرت کی کامل دنیا میں ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ وہ جنت سے آخری حد تک لطف اندوز ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

انسانی شخصیت

کیمسٹری کا پہلا سبق جو ایک طالب علم سیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی چیز فنا نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنی صورت بدل لیتی ہے: Nothing dies, it only changes its form. اس عالمی کلیہ سے انسان کے مستثنیٰ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جس طرح مادہ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ جلنے یا پھٹنے یا کسی اور حادثہ سے وہ فنا نہیں ہوتا بلکہ شکل بدل کر دنیا کے اندر اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ اسی طرح ہم مجبور ہیں کہ انسان کو بھی ناقابل فنا مخلوق سمجھیں اور موت کو اس کے خاتمہ کے ہم معنیٰ قرار نہ دیں۔ یہ محض بالواسطہ قیاس نہیں بلکہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو براہ راست تجربہ سے ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرعلم الْخَلِیَّہ (cytology) بتاتا ہے کہ انسان کا جسم جن چھوٹے چھوٹے خلیوں (cells) سے مل کر بنا ہے وہ مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ایک متوسط قد کے انسان میں ان کی تعداد تقریباً ۲۶ ٹریلین ہوتی ہے۔ یہ کسی عمارت کی اینٹوں کی طرح نہیں ہیں جو ہمیشہ وہی کے وہی باقی رہتے ہوں۔ بلکہ وہ ہر روز بے شمار تعداد میں ٹوٹتے ہیں اور غذا ان کی جگہ دوسرے تازہ خلیات فراہم کرتی رہتی ہے۔ یہ ٹوٹ پھوٹ ظاہر کرتی ہے کہ اوسطاً ہر دس سال میں ایک جسم بدل کر بالکل نیا جسم ہو جاتا ہے۔ گویا دس برس پہلے میں نے اپنے جس ہاتھ سے کسی معاہدہ پر دستخط کئے تھے وہ ہاتھ اب میرے جسم پر باقی نہیں رہا۔ پھر بھی ’’پچھلے ہاتھ‘‘ سے دستخط کیا ہوا معاہدہ میرا ہی معاہدہ رہتا ہے۔ جسم کی تبدیلی کے باوجود اندر کا انسان پہلے کی طرح اپنی اصل حالت میں موجود رہتا ہے۔ اس کا علم، اس کا حافظہ، اس کی تمنا ئیں، اس کی عادتیں، اس کے خیالات بدستور اس کی ہستی میں شامل رہتے ہیں۔ اسی لئے ایک حیاتیاتی عالم نے کہا ہے کہ انسانی شخصیت تغیر کے اندر عدم تغیر کا نام ہے: Personality is changelessness in change.
واپس اوپر جائیں

عمر اور صحت

ایک صاحب میرٹھ (یوپی) کے رہنے والے تھے۔ تقریباً 45 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ پہلی بار جب میں اُن سے ملا تھا تو بظاہر وہ بالکل تندرست اور صحت مند نظر آتے تھے۔ بعد کو اُنھیں کینسر کی بیماری ہوگئی۔ علاج کے باوجود مرض بڑھتا گیا، یہاں تک کہ وہ صاحب فراش ہوگئے۔ آخری زمانے میں اُن کا حال یہ تھا کہ وہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بن چکے تھے۔ ان کا نظامِ ہضم اتنا زیادہ بگڑ چکا تھا کہ سادہ غذا بھی وہ نہیں لے سکتے تھے، حتی کہ پانی پینا بھی اُن کے لیے سخت مشکل ہوگیا تھا۔اُس زمانے میں کوئی شخص ان کی عیادت کے لیے آتا تو وہ اُس سے کہتے کہ تم میرے بارے میں نہ سوچو، بلکہ خود اپنے بارے میں سوچو۔ تم شکر کرو کہ تم کو صحت مند جسم حاصل ہے۔ تم کھانا کھاتے ہو اور پانی پیتے ہو اور زمین پر چلتے ہو۔ یہ سب چیزیں خدا کا عطیہ ہیں۔ وہ جب چاہے، اِس عطیہ کو چھین لے اور پھر تمھارے پاس کچھ بھی باقی نہ رہے۔ انسان کو ایک صحت مند جسم ملا ہوا ہے۔ انسان کو پیدا ہونے کے بعد یہ صحت مند جسم بظاہر اپنے آپ مل جاتا ہے، اِس لیے وہ اُس کو فار گرانٹیڈ(for granted) طور پر لے لیتا ہے۔ وہ کبھی سوچتا نہیں کہ یہ صحت مند جسم سرتاسر خدا کا عطیہ ہے۔ اِس عطیہ کا اعتراف کرتے ہوئے مجھے خدا کے آگے جھک جانا چاہیے۔ یہی معاملہ عمر کا ہے۔ آدمی جب تک زندہ ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ زندگی ہمیشہ باقی رہے گی۔ وہ کبھی اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ یہ بلاشبہہ سب سے بڑی بھول ہے۔ یہی ہر عورت اور ہر مرد کا امتحان (test)ہے۔ کامیاب شخص وہ ہے جو زندگی سے زیادہ موت کے بارے میں سوچے، جو ہر ملی ہوئی چیز کو خداوند ِ عالم کا عطیہ سمجھے۔ یہی وہ انسان ہے جو امتحان میںکامیاب ہوا۔ اِس کے برعکس، جو انسان خدا کا اعتراف نہ کرے اور موت کو بھلائے ہوئے ہو، وہی وہ شخص ہے جو ا متحان میں ناکام ہوگیا۔ پہلے انسان کے لیے ابدی جنت ہے اور دوسرے انسان کے لیے ابدی جہنم ۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کی عمر

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: أولم نعمّرکم ما یتذکر فیہ من تذکر(35:37)۔ یعنی کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی کہ جو شخص یاد دہانی حاصل کرنا چاہے، وہ اس میں یاددہانی حاصل کرسکے۔ اِس مفہوم کی متعدد روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ملاحظہ ہو، ابن حجر کی فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس آدمی کو لمبی عمر یا بڑھاپے کی عمر ملے، اس کے پاس اللہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ آدمی کے اوپر پہلے بچپن کا دور آتاہے، اس کے بعد جوانی کا دور آتاہے، اس کے بعد بڑھاپے کا دور آتا ہے۔ بڑھاپے کا دور موجودہ دنیا میں کسی انسان کے لیے آخری دور ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد جو مرحلہ آتاہے، وہ موت کا مرحلہ ہے، نہ کہ کوئی اور مرحلہ۔ اِس اعتبار سے بڑھاپا گویا کہ موت کی پیشگی اطلاع (prior notice) کی حیثیت رکھتا ہے۔ بڑھاپے میں جسم کے تمام اعضا (organs) کمزور ہوجاتے ہیں، حتی کہ بعض اعضا اپنا کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ موت کا وقت قریب آگیا۔ وہ گویا کہ موت کی جبری یاددہانی (compulsory reminder) ہیں۔ بڑھاپا آدمی کو قبر کے کنارے کھڑا کردیتاہے۔ اگر آدمی کا ذہن بیدار ہو تو بڑھاپے کی عمرکو پہنچ کر وہ سوچنے لگے گاکہ اب بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ میری موت واقع ہو اور میں اللہ کے سامنے حساب کتاب کے لیے حاضر کردیا جاؤں۔ اِس طرح بڑھاپے کے تجربات آدمی کو جھنجھوڑتے ہیں، وہ اس کو آخرت کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ بڑھاپا آدمی کو بتاتا ہے کہ موجودہ دنیامیں تمھارا سفر اب ختم ہوچکا۔ اب تمھیں لازماً اگلے دورِحیات میں داخل ہونا ہے اور حشر کی خدائی عدالت کا سامنا کرنا ہے — بلا شبہ وہ انسان سب سے زیادہ بد بخت انسان ہے جس کوبڑھاپے کا زمانہ ملا، لیکن وہ اس سے یاددہانی حاصل نہ کرسکا، وہ بدستور غفلت میں رہا، یہاں تک کہ وہ اِسی حال میں مرگیا۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے سے سبق لینا

انسانی زندگی کا ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو بڑھاپا کہاجاتاہے۔ بڑھاپا کوئی غیر مطلوب چیز نہیں۔ بڑھاپے کی عمر میں انسان کے لئے ایک موقع موجود ہوتا ہے، یعنی نصیحت لینا۔ قرآن کی سورہ الفاطر میں یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے: اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ (35:37) یعنی کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا۔ انسان اس دنیا میں محدود عمر کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ چناں چہ پیدا ہوتے ہی انسان کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے۔ تقریباً 35 سال تک اس کا گراف اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ نیچے جانا شروع ہوتا ہے۔ ادھیڑ عمر، بڑھاپا، آخر میں موت ۔ اس درمیان میں اس کو مختلف قسم کے نقصان پیش آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، طرح طرح کے مسائل، وغیرہ۔ اس طرح آدمی سے ایک ایک چیز چھنتی رہتی ہے۔ پہلے جوانی، پھر صحت، پھر سکون، وغیرہ۔ یہاں تک کہ موت کا وقت آتا ہے۔ اور آدمی کی ہر وہ چیز، جس کو وہ اپنا سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اس کا اپنا جسمانی وجود بھی اس سے چھن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو چیز باقی رہتی ہے وہ صرف انا (ego)ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ موت کا تجربہ کسی انسان کے لئے سب سے زیادہ سنگین تجربہ ہے۔ اس تجربہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنے قبل ازموت مرحلۂ حیات میں جو کمایا تھا وہ اس سے ابدی طورپر چھن گیا۔ اِس کے آگےبعد ازموت مرحلۂ حیات کا معاملہ ہے۔ اس دوسرے مرحلہ میں آدمی کو صرف وہ چیز کام آئے گی جو اس نے عمل صالح کی صورت میں اپنے آگے کے لئے بھیجی۔ اس حقیقت کو قرآن کی سورہ الحشر میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (59:18) یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا۔بڑھاپا برائے سبق ہے، بڑھاپا برائے شکایت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر شخص موت کا مسافر

ایک خبر میڈیا میں آئی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا میں یہ خبر حسب ذیل الفاظ میں چھپی ہے: British reality TV star Jade Goody, who has been diagnosed with cancer, says she has started planning for her funeral, adding she wants “people to cry over me”. “Most people plan their weddings. But I am planning my funeral”, Goody told OK Magazine. Goody was diagnosed with cervical cancer in August 2008 just as she prepared to appear in the Indian version of the British reality TV show celebrity Big Brother. (New Delhi, Octobr 9, 2008, p. 21) برطانی ٹی وی اسٹار جیڈ گوڈی اپنے پروفیشن کے اعتبار سے چوٹی (peak) پر تھیں۔ اچانک اگست 2008 کے طبی معائنے میں اُن کو بتایا گیا کہ اُن کو کینسر کی بیماری ہوچکی ہے، یعنی لاعلاج بیماری۔ انھوں نے اپنے مستقبل کے پروفیشنل منصوبوں کو منسوخ کردیا۔ انھوں نے کہا کہ اب مجھے موت کی تیاری کرنی ہے۔ لوگ شادی کا منصوبہ بناتے ہیں، مجھ کو اپنی موت کا منصوبہ بنانا ہے: Most people plan their weddings. But I am planning my funeral. یہی ہر عوت اور ہر مرد کی کہانی ہے۔ لوگ زندگی کا جشن منانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں، حالاںکہ ہر ایک کا آخری انجام یہ ہے کہ جشن کی تکمیل سے پہلے اُس پر موت آئے اور وہ موجودہ دنیا سے نکل کر اگلی دنیا میں پہنچ جائے۔ ایسی حالت میں ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ قبل از موت مرحلۂ حیات کو صرف ایک وقتی سفر سمجھے اور اپنی ساری توجہ بعد از موت مرحلۂ حیات کی تیاری میں لگادے۔ لوگ اپنا برتھ ڈے مناتےہیں۔ حالاں کہ ہر سالگرہ صرف اِس بات کا اعلان ہے کہ آدمی کی عمر کا ایک سال اور کم ہوگیا۔ ایسی حالت میں، ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ ہر سال کی تکمیل پر آنے والی موت کو یاد کرے۔ کیوں کہ اگلی سالگرہ کا آنا یقینی نہیں، لیکن موت کا آنا یقینی ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اِس سب سے بڑی حقیقت کو یاد رکھے جس کا دوسرا نام موت ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت

موت کیا ہے، موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ ہے۔ موت’’اپنی دنیا‘‘ سے نکل کر’’دوسرے کی دنیا‘‘ میں جانا ہے۔ کیسا چونکادینے والا ہے یہ واقعہ۔ مگر انسان کی یہ غفلت کیسی عجیب ہے کہ وہ اپنے چاروں طرف لوگوں کو مرتےہوئے دیکھتا ہے، پھر بھی وہ نہیں چونکتا۔ حالاں کہ ہر مرنے والا زبان حال سے دوسروں کو بتارہا ہے کہ جو کچھ مجھ پر گزرا یہی تمھارے اوپر بھی گزرنے والا ہے۔ وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ کامل بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو فرشتوں کے حوالہ کردے۔ موت ہر آدمی کو اسی آنے والے دن کی یاد دلاتا ہے۔موت کا حملہ سراسر یک طرفہ حملہ ہے۔ یہ طاقت اور بے طاقتی کا مقابلہ ہے۔ اس میںانسان کے بس میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ کامل عجز کے ساتھ فریقِ ثانی کے فیصلہ پر راضی ہوجائے۔ وہ یک طرفہ طورپر شکست کو قبول کرلے۔ موت انسانی زندگی کے دو مرحلوں کے درمیان حدّ فاصل ہے۔ موت آدمی کو موجودہ دنیا سے اگلی دنیا کی طرف لےجاتی ہے۔ یہ اختیار سے بے اختیاری کی طرف سفر ہے۔ یہ امتحان کے بعد اس کا انجام پانے کے دور میں داخل ہونا ہے۔موت سے پہلے کی زندگی میں آدمی صداقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ معقولیت کے آگے جھکنے پر راضی نہیں ہوتا۔ موت اس لیے آتی ہے کہ اس کو بے یارومددگار کرکے حق کے آگے جھکنے پر مجبور کردے۔ جس صداقت کو اس نے باعزت طورپر قبول نہیں کیا تھا اس کو وہ بےعزّت ہوکر قبول کرے۔ جس حق کے آگے، وہ اپنے ارادہ سے نہیں جھکا تھا۔ اس حق کے آگے مجبورانہ طورپر جھکے اور اس کی تردید کے لیے کچھ نہ کرسکے۔انسان آج حق کی تائید میں چند الفاظ بولنا گوارا نہیں کرتا، جب موت آئے گی تو وہ چاہے گا کہ ڈکشنری کے سارے الفاظ حق کی موافقت میں استعمال کر ڈالے، مگر اس وقت کوئی نہ ہوگا جواس کے الفاظ کو سنے۔ انسان آج ڈھٹائی کرتا ہے، موت جب اس کو پچھاڑ ے گی تو وہ سراپا عجزونیاز بن جائے گا۔ مگر اس وقت کوئی نہ ہوگا جو اس کے عجز ونیاز کی قدر دانی کرے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا شعور

لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا محدود مدت کے بعد مرجاتاہے۔ اِس کے باوجود یہ نہایت عجیب بات ہے کہ کوئی شخص خود اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، مگر خود اپنی موت کے بارے میں وہ غفلت میں پڑا رہتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ڈی این اے (DNA) کی دریافت اِس سوال کا جواب ہے۔ یہ ایک نئی سائنس ہے۔ اِس پر دنیا کے بڑے بڑے دماغوں نے کام کیا ہے۔ اِس میں انڈیا کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر ہرگوبند کھورانا (وفات2011) کانام بھی شامل ہے۔ اِس جدید تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر انسان کے جسم میں تقریباً ایک سو ٹریلین سیل (living cells) ہوتے ہیں۔ ہر سیل کے نیوکلیس میں ایک ناقابلِ مشاہدہ ڈی این اے موجود رہتا ہے۔ ڈی این اے کے اندر انسانی شخصیت کے بارے میں تمام چھوٹی بڑی معلومات کوڈ کی صورت میں موجود رہتی ہیں۔ یہ معلومات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اگر اُن کو ڈی کوڈ (decode) کیا جائے، تو وہ برٹانکا جیسی ضخیم انسائکلو پیڈیا کے ایک ملین سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہوں گی: One human DNA molecule contains enough information to fill a million-page encyclopaedia. ڈی این اے کے اندر انسانی شخصیت کے بارے میں تمام معلومات درج ہوتی ہیں، مگراِس فہرست میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ موت ہے۔ ڈی این اے کی طویل فہرست موت کے تصور سے خالی ہے۔ موت کا تصور انسانی شخصیت (human consciousness) میں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، لیکن وہ خود اپنی موت کے بارے میں سوچ نہیں پاتا۔ یہی انسان کا امتحان ہے۔ موت کسی شخص کے اوپر ڈی این اے کی پروگریمنگ کے تحت نہیں آتی، بلکہ وہ براہِ راست خدائی فیصلے کے تحت آتی ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنے اندر اینٹی پروگریمنگ سوچ پیدا کرے۔ وہ خدائی فیصلے کی نسبت سے موت کے معاملے کو دریافت کرلے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں

موت کے دروازے پر

آدمی سمجھتا ہے کہ وہ زندگی میں جی رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد موت کے دروازے پر کھڑا ہوا ہے۔ جب موت کا کوئی وقت مقرر نہیں تو ہر لمحہ موت کا لمحہ ہے۔ انسان کا ہر اگلا قدم موت کی طرف جانے والاقدم ہے۔ زندگی ہر انسان کے لیے صرف آج کا تجربہ ہے، کل کا تجربہ نہیں۔ ہر آدمی کے لیے آج کا دن زندگی کا دن ہے اور کل کا دن موت کا دن۔ موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف سفر کا نام ہے۔ آدمی روزانہ سفر کرتا ہے۔ کبھی چھوٹا سفر اور کبھی بڑا سفر، کبھی ملک کے اندرسفر اور کبھی ملک کے باہرسفر۔ یہ تمام اسفار ایک معلوم مقام سے چل کر دوسرے معلوم مقام تک جانے کے ہم معنی ہوتے ہیں۔اس قسم کے سفروں سے آدمی اتنا زیادہ مانوس ہوچکا ہے کہ وہ اس کو کوئی سنگین چیز نہیں سمجھتا۔ لیکن موت کے سفر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ موت کے سفر میں ایسا ہوتاہے کہ آدمی ایک معلوم دنیا سے نکل کر دوسری نامعلوم دنیا کی طرف جاتا ہے۔ یہ بلاشبہ ہر آدمی کے لیے ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ مگر آدمی اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کرتا۔ وہ دنیا میں جن اسفار کا تجربہ کرتا ہے، ان سے وہ اتنا مانوس ہوجاتا ہے کہ وہ گہرے شعور کے تحت، موت کے سفر جیسے سفر کا ادراک نہیں کر پاتا ۔ اسی بنا پر ہر آدمی کے لیے موت ایک دور کی خبر بنی ہوئی ہے، وہ اس کے لیے قریب کا کوئی واقعہ نہیں۔ آدمی اپنے مزاج کی بنا پر ہمیشہ کنڈیشننگ کے تحت سوچتا ہے۔ یہی انسان کی بے حسی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ موت کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، وہ اپنے مانوس ذہن سے باہر آکر موت کے بارے میں سوچے، وہ اپنے شعور کو کامل طورپر بیدار کرے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ آدمی موت کی حقیقت کو سمجھے، جو بلاشبہ ہر انسان کا سب سے زیادہ سنگین معاملہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

وقت ختم ہوگیا

اسکول میں طالب علموں کا امتحان ہورہا تھا۔ طلبہ میز پر جھکے ہوئے اپنا اپنا سوال حل کررہے تھے، یہاںتک کہ امتحان کا مقرر وقت پورا ہوگیا۔ فوراً ہی امتحان حال میں موجودذمّے داروں کی طرف سے اعلان کیا گیا — لکھنا بند کرو، وقت ختم ہوگیا: Stop writing, time is over. یہ معاملہ جو امتحان ہال میں پیش آیا، وہی وسیع تر زندگی کا معاملہ بھی ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد ایک بڑے امتحان ہال میں ہے۔ یہاں ہر ایک اپنا اپنا امتحان دے رہا ہے۔ہر ایک کی ایک مدت مقرر ہے۔ یہ مدت پوری ہوتے ہی خدا کا فرشتہ آتا ہے اور خاموش زبان میں اعلان کرتا ہے کہ تمھارے عمل کا وقت ختم ہوگیا۔ اب تم کو مرنا ہے اور مرنے کے بعد اپنے خالق ومالک کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے۔ تعلیمی امتحان کا معاملہ جو ہر طالب علم کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ ایک مثال ہے جس سے ہر عورت اور ہر مرد وسیع تر معنوں میں زندگی کے امتحان کے معاملے کو سمجھ سکتے ہیں۔ زندگی حالتِ امتحان کا نام ہے، اورموت اِس کا نام ہے کہ آدمی کو اپنے عمل کا انجام پانے کے لیے اگلی دنیا میں بھیج دیا جائے۔ موت سے قبل کی زندگی دراصل امتحان کا دور ہے اور موت کے بعد کی زندگی امتحان کا رزلٹ نکلنے کا دور۔ جو شخص امتحانی دورِ حیات میں ہوش مندی کے ساتھ زندگی گزارے گا، وہی اگلے دورِ حیات میں بہتر انجام کو پائے گا۔ جو لوگ اِس معاملے میں غافل ثابت ہوں، اُن کو بعدکے دورِ حیات میں حسرت اورمایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔ امتحان ہال کے اندر ایک طالب علم جس نفسیات کے ساتھ رہتا ہے، اُسی نفسیات کے ساتھ ہم کو اپنی پوری زندگی میں رہنا ہے۔ ہر ایک کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے دیے ہوئے پرچے کو درست طور پر حل کرے، تاکہ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد جب اُس کا رزلٹ سامنے آئے تو وہ اُس کے لیے کامیابی کی خوش خبری ہو، نہ کہ ناکامی کا اعلان۔
واپس اوپر جائیں

موت کی خبر

ایک شخص کی عمر 75 سال ہوگئی۔ ابتدائی عمر میں اس کی صحت اچھی تھی۔ اب اُس کو بیماریاں لگ گئیں۔ یہ بیماری اس کے لیے موت کی خبر تھی۔ لیکن اس نے بیماری کو صرف علاج کا معاملہ سمجھا۔ اس نے مختلف ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے رجوع کرنا شروع کردیا۔ جب اس کا ذاتی سرمایہ ختم ہوگیا تو اس نے قرض لے کر اپنا مہنگا علاج شروع کردیا۔ لیکن اس کو دوبارہ صحت حاصل نہ ہوسکی۔ چند سال بیمار رہ کر وہ مرگیا— یہ ایک انسان کی کہانی نہیں ہے، بلکہ یہی تقریباً تمام عورت اورمرد کی کہانی ہے۔ بڑھاپا ہر آدمی کے لیے اِس بات کی خبر ہوتا ہے کہ موت قریب آگئی۔ اِس کے بعد جب اس کو بیماریاں لگتی ہیںتو وہ آدمی کو مزید جھنجھوڑنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اِس لیے ہوتی ہیں کہ آدمی اگر سورہا ہے تو وہ جاگ جائے۔ اور اگر وہ جاگ گیا ہے تو وہ اٹھ جائے۔ اور اگر وہ اٹھ گیا ہے تو وہ چلنے لگے۔ بڑھاپا اور بڑھاپے کے بعد آنے والی کم زوری اور بیماری ہمیشہ اِس لیے آتی ہے کہ آدمی چونک اُٹھے۔ وہ موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگے۔ وہ موت کے بعدآنے والے حالات پر سوچے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی آخری منصوبہ بندی کرے۔ لیکن انسان واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ بڑھاپا اور بیماری اُس کو موت کی خبر دیتے ہیں، لیکن وہ موت کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف علاج کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے پیچھے دوڑتا ہے، یہاںتک کہ وہ ناامیدی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ دوبارہ جو چیز اُس کو ملتی ہے، وہ تندرستی نہیں ہے، بلکہ موت ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر آدمی روزانہ اپنے آس پاس کے ماحول میں دیکھتاہے، لیکن کوئی آدمی اُس سے سبق نہیں لیتا۔ اِس معاملے میں ہر آدمی اندھا بنا ہوا ہے۔ وہ صرف اِس انتظار میں ہے کہ موت اس کی آنکھ کھولے۔ لیکن موت کے بعد آنکھ کاکھلنا، کسی عورت یا مرد کے کچھ کام آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

موت کا تصور

موت (death) کے لفظ کو اگر آپ ڈکشنری میں دیکھیں تو اس میں موت کا مطلب یہ لکھا ہوا ہوگا کہ — زندگی کا ابدی خاتمہ: Permanent cessation of life موت کی یہ لغوی تعریف، موت کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ آدمی مکمل انسان کی حیثیت سے پیدا ہو، لیکن تھوڑی مدت تک زندہ رہ کر ہمیشہ کے لیے اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کی تمام آرزوئیں(desires) اور اس کی تمام صلاحتیں اِس طرح مٹ جائیں کہ دوبارہ اُن کا وجود میں آنا ممکن نہ رہے۔ اسلام اِس کے مقابلے میں، زندگی کا مثبت تصور پیش کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق، موت زندگی کا خاتمہ نہیں، موت کا مطلب انسان کے لیے اس کے دوسرے دورِ حیات کا آغاز ہے: Death is not the end of life. Death marks the beginning of the second phase of human life. اسلام کے مطابق، انسان کو ابدی مخلوق (eternal being)کے طور پر پیدا کیا گیا، پھر اس کے عرصۂ حیات (lifespan) کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا— قبل از موت دور، اور بعد از موت دور۔ قبل از موت عرصۂ حیات تیاری کی جگہ ہے اور بعد از موت عرصۂ حیات تیاری کے مطابق، اپنا مستقل انجام پانے کی جگہ۔ اِس تخلیقی پلان کے مطابق، آدمی کو چاہیے کہ وہ موت سے پہلے کی زندگی کو تیاری کا دور (preparatory period) سمجھے اور اس کو کامل طورپر تیاری میں گزار ے۔ کیوں کہ موت کے بعد زندگی کا جو دور آدمی کے سامنے آئے گا، اُس میں عمل کرنا نہ ہوگا، بلکہ صرف اپنے عمل کا انجام پانا ہوگا۔ موت کا واقعہ دراصل، زندگی کا پیغام ہے، اور وہ یہ ہے —جو کرنا ہے، اُس کو آج کے دن کرلو۔ کیوں کہ کل کے دن کرنے کا وقت باقی نہیں رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

موت کی حقیقت

قرآن کی سورہ آل عمران میں آیا ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ(3:185)۔یعنی ہر انسان موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ انسان دنیا کے ذائقوں میں جیتا ہے، مگر آخر کار جو ذائقہ انسان کے لیے مقدر ہے، وہ موت کا ذائقہ ہے۔ موت کا ذائقہ اتنا زیادہ تلخ ہے کہ وہ دوسرے تمام ذائقوں کو منہدم کردینے والا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات، الموت (سنن الترمذی، کتاب الزہد)۔یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔ ذائقہ یا لذت کا لفظ یہاں کسی محدود معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ وسیع تر معنوں میں ہے۔ آدمی ایک لذت پسند مخلوق (pleasure-seeking animal) ہے۔ ہر چیز میں اس کو لذت محسوس ہوتی ہے۔ کھانے پینے میں، اچھا کپڑا پہننے میں، اچھا گھر بنانے میں، اچھی سواریوں پر سفر کرنے میں، تفریح کی مجلسوں میں شریک ہونے میں، شہرت اور اقتدار کی سیٹ پر بیٹھنے میں، وغیرہ۔ اِس قسم کی تمام چیزوں میں آدمی کو بے پناہ لذت ملتی ہے۔ وہ اِن لذتوں میں گم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ حقیقۃً یہ سوچے کہ موت کے آتے ہی اچانک یہ تمام لذتیں اس سے چھن جائیں گی، تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔ مثلاً جب کوئی شخص دوسرے انسان کی عیب زنی کرتا ہے تو غیر شعوری طورپر اس کو یہ خوشی حاصل ہوتی ہے کہ میں ایک بے عیب انسان ہوں۔ جب کوئی انسان کسی کو ذلیل کرتاہے تو یہ اس کے لیے اس کی انا (ego)کی تسکین کا باعث ہوتاہے۔ کوئی شخص ناحق طورپر کسی کے مال وجائداد پر قبضہ کرتاہے تو وہ اس کو اپنی ہوشیاری سمجھ کر اطمینان حاصل کرتاہے۔ اِس قسم کی مختلف صورتیں ہیں جن پر عمل کرکے انسان کو خوشی اور فخر(pride)کا احساس ہوتاہے۔ وہ اپنے آپ کو کامیاب انسان سمجھ لیتاہے۔ لیکن اگر اس کو یقین ہو کہ موت کا فرشتہ کسی بھی وقت آئے گا، اور اچانک اس کی زندگی کا خاتمہ کردے گا، اِس حقیقت کا احساس اگر کسی کو حقیقی طورپر ہوجائے تو وہ محسوس کرے گا کہ موت سے پہلے ہی اس کی موت واقع ہوچکی ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کے قریب

2فروری2003 کو تمام دنیا کے اخباروں کی پہلی خبر صرف ایک تھی۔ وہ یہ کہ امریکا کا خلائی شٹل کولمبیا دھماکے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے (disintegrate)ہوگیا۔ یہ کولمبیا کا 28واں خلائی سفر تھا۔ یہ امریکی شٹل (US space shuttle Columbia) اپنے 16 دن کے سفر کے بعد زمین پر اترنے والا تھا۔ وہ تقریباً دو لاکھ فٹ کی بلندی پر 19 ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک زمینی کنٹرول سے اس کا رابطہ ٹوٹ گیا اور وہ دھماکے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت اس میں ۷ مسافر تھے جو سب کے سب مر گئے۔ اس خبر کا عنوان نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا نے ان الفاظ میں قائم کیا ہے —گھر سے صرف 16 منٹ دور: ـJust 16 minutes from home.... میں نے اس خبر کو پڑھا تو میںنے سوچا کہ یہی اس دنیا میں ہر انسان کا آخری انجام ہے۔ ہر انسان اپنا ایک خوابوں کا گھر (dream home) بناتا ہے جس میں وہ پُر مسرت زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ لیکن ابھی وہ اس گھر سے صرف 16 منٹ دور ہوتا ہے کہ اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ وہ اپنے بنائے ہوئے دنیوی گھر میں داخلہ کے بجائے آخرت کی عدالت میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس خلائی شٹل میں ایک ہندستانی نژاد خاتون کلپنا چاؤلہ (41 سال) بھی تھیں جو کرنال میںپیدا ہوئیں۔ سارا ہندستان ان کی واپسی کا انتظار کررہا تھا ۔ ان کے دوست اور رشتہ دار سفر کرکے امریکہ پہنچ چکے تھے تاکہ اسپیس شٹل کے اترنے کے بعد وہ کلپنا چاؤلا کو براہ راست مبارکباد دے سکیں۔ کلپنا چاؤلہ اگر حفاظت کے ساتھ واپس آگئی ہوتیں تو ان کا ہیروانہ استقبال ہوتا۔ مگر موت نے درمیان میں حائل ہوکر ایک طربیہ (comedy)کو ایک المیہ (tragedy) میں تبدیل کردیا۔یہ واقعہ کلپنا چاؤلہ کے لئے ایک ذاتی تجربہ تھا اور دوسروں کے لئے وہ ایک سبق ۔ اس واقعہ کو جاننے والا وہی ہے جو اس کے اندر خود اپنی تصویر دیکھ لے، جو اس کے اندر اپنی ذات کے لئے سبق حاصل کرلے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا تجربہ

مشہور ٹینس کھلاڑی مارٹینا (Martina Navratilova) طبی مشورے کے لئے ایک ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ تمھارے پھیپھڑے میں کینسر ہوچکا ہے اور وہ اگلے اسٹیج میں ہے۔ ڈاکٹر کی تشخیص (diagnosis)کو بتاتے ہوئے مذکورہ خاتون نے کہا کہ یہ خبر میرے لیے نائن الیون کے برابر ہے: It was such a shock for me. It was my 9/11. خاتون نے یہ بات اِس لیے کہی کہ موت اُس کو بالکل قر یب دکھائی دینے لگی۔ لیکن موت کے بعد کا جو مرحلہ ہے، وہ اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ موت، قرآن کے الفاظ میں، اسباب کے کامل تقطّع(البقرۃ 166:) کا نام ہے۔ موت کے بعد اچانک آدمی ایک اور دنیا میں پہنچ جاتاہے جو موجودہ دنیا کے مقابلے میں ہر اعتبار سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ موت کے بعد اچانک انسان پر دو سنگین حقیقتیں کھل جاتی ہیں— ایک یہ کہ اب موت سے پہلے والے دو رمیں واپسی ممکن نہیں، جہاں اس نے اپنی ایک دنیا بنائی تھی۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد والے دور میں وہ اپنے لیے ایک اور دنیا نہیں بناسکتا۔ یہ احساس آدمی کو ابدی مایوسی اور ابدی حسرت میں مبتلا کردے گا، اور بلاشبہہ ابدی مایوسی اور ابدی حسرت سے زیادہ اذیت ناک تجربہ اور کوئی نہیں۔ موجودہ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں اگر ایک چانس کھویا جائے تو اس کے بعد اس کو دوسرا چانس (second chance) مل جاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ جیت میں تبدیل کرسکے۔ لیکن آخرت میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ آخرت میںایسا نہیں ہوسکتا کہ آدمی اپنے لیے دوسرا چانس پالے۔ آخرت میں کسی انسان کے لیے دوبارہ کوئی چانس نہیں۔ پہلے چانس یا دوسرے چانس یا تیسرے چانس کا معاملہ صرف موجودہ دنیا میں پیش آتا ہے۔ آخرت کی دنیا مکمل طورپر اِس سے مختلف ہے۔ آخرت میں صرف انجام ہے، وہاں کسی کو دوبارہ نیا آغاز ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کوئی شخص موت کو جیت نہیں سکتا

اس کا حکم تھا کہ موت کا لفظ اس کے سامنے بولا نہ جائے، مگر ساٹھویں برس پہنچ کر اس کو معلوم ہوا کہ کوئی شخص موت کو جیت نہیں سکا۔ اسپین کے ڈکٹیٹر فرینکو، کئی دن بیماری سے جنگ کرنے کے بعد آخر کار اس دنیا سے چل بسے۔ فرینکو کا عرصۂ حیات لمبا کرنے کی غرض سے اسپین میں ڈاکٹروں نے جو رات دن کوشش کی اُس سے میڈیکل حلقوں میں بڑی زبردست بحث چھڑ گئی تھی کہ کیا اُس وقت جب کہ قدرت کے تمام قوانین کے مطابق اُن کےحواس جواب دے چکےتھے۔ اُنہیں کچھ ہفتہ پیشتر ہی مرنے دیناچاہیے تھا؟ یا کیا ڈاکٹر اس بات میں حق بجانب تھے کہ ہر قسم کی میڈیکل امداد اُنھیں مہیا کرکے کچھ دیر تک اور جسمانی طورپر زندہ رکھنے کے لئے اُن کے درجہ حرارت کو جزوی طور پر منجمد کردیتے۔ علاوہ بریں کیا یہ بات اخلاقی اصول کے مطابق ہے کہ قوم کے کسی لیڈر کی زندگی مصنوعی طورپر لمبی کرنا چاہیے یا کہ اُسے لمبا کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ میڈیسن کی دنیا میںایک زبردست بحث چھڑنے کا سبب ہوسکتی ہے۔ بہت سے اسکالروں نے اِس موضوع پر بحث کی ہے۔ یہ امر غیر معمولی طورپر اتفاقیہ ہے کہ اِس معاملہ پر ایک کتاب ابھی حال ہی میں شائع ہوئی ہے جس کی تصنیف پر13 سال لگ گئے تھے۔ مشہور مورخ پال مرے کنیڈال نے یہ کتاب فرانس کے 11 ویں بادشاہ لوئی کے بارے میں لکھی ہے جسے مرے 500 برس ہوچکے ہیں۔ لوئی ایک ایسا بادشاہ تھا جو مرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے اُس نے بہت کوشش کی کہ اُس کی زندگی کو طوالت دی جائے۔ فرینکو کی مانند بادشاہ لوئی ایک ایسی قوم بنانے کا ذمہ دار تھا، جس کی مرکزی سرکار بہت مضبوط تھی،مگر قوم اُن کے آنکھ بند کرنے کے بعد انتشار یا خانہ جنگی کا شکارہوسکتی تھی۔ اُسے اس بات کا بخوبی علم تھا، جیسا کہ ہمارے جدید زمانہ کے لیڈروں کو علم ہے۔لوئی کی عمر 58 سال کی تھی جب اُس پر فالج کا حملہ ہوا تھا۔ اُسے تب اِس امر کا علمہوگیا کہ وہ بہت دیر تک زندہ نہ رہ سکے گا۔ کیوں کہ اُس کے پریوار میں کوئی بادشاہ اپنا 60واں جنم دن نہ منا سکا تھا۔ لوئی کسی محفوظ قلعے میں امن وشانتی سے رہنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اُس نےایک محل میں رہنا شروع کیا جہاں بہت کم لوگوں کو داخلہ کی اجازت تھی۔ اس محل کی طرف جانےوالی سڑکوں پر جنگلے لگا دیئے گئے تھے۔ اور محل کے چاروں طرف خندق کھوددی گئی تھی۔چالیس تیر انداز پتھروں کی دیواروں پر بیٹھے ڈیوٹی دیتے رہتے تھے۔ انھیں حکم تھا کہ اگر کوئی اجازت کے بغیر محل کے نزیک آنے کی جرأت کرے تو اُسے قتل کردیا جائے۔ علاوہ بریں 400 گھوڑسوار دن رات علاقہ میں گشت کرتے رہتے تھے۔ محل کے اندر لوئی بڑی عیش پرستانہ زندگی گزار رہا تھا۔ اُس کے کمرہ میں خوبصورت تصاویر آویزاں تھیں۔ ماہر راگی اپنا راگ سنا کر اُسے خوش رکھتے۔ بڑے بڑے پنجروں میں بند کتّے اور پرندے جو وہاں رکھے ہوئے تھے اُسے بہت پسند تھے۔ زیادہ تر وقت وہ اپنے جسم کو سکوڑے ہوئے قابل رحم حالت میں آرام کرسی پر ہی گزارتا۔ اس کے سامنے ایک خوبصورت باغ تھا جسے وہ اپنے محل کی دوسری منزل سے دیکھتا رہتا۔ اگر چہ وہ جسمانی طورپر کمزور ہوچکا تھا۔ اپنی قوم کی زندگی اور موت اُس کے اختیار میںتھی۔ اس پر بھی وہ فکر مند تھا کہ اپنی رعایا پر یہ امر کیسے واضح کرے کہ وہ سب سے بڑا حکمراں ہے۔ اُس کو سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ اختیارات کا خواہش مند کوئی امیر، منصب دار اسے ہٹا کر خود اقتدار نہ سنبھال لے اور اُسے اپنے آخری ایام ایک دیوانہ بوڑھے کی مانند گزارنے نہ پڑیں۔ اپنے بڑھاپے میں لوئی ہر ایک پر شبہ کرنے لگا تھا۔ اُسے اپنے پرانے ملازموں پر شک تھا۔ چنانچہ انھیں ہٹا کر اُن کی جگہ اُس نے غیر ملکی بھرتی کرلئے تھے۔ اور پھر ان کواور اُن افسروں کو بھی جو اُس کی حفاظت کے لئے مامور تھے، وہ متواتر تبدیل کرتا رہتا تھا۔ وہ اُن سے یہی کہا کرتا کہ ـ’’قدرت کو تبدیلی بہت پسندہے‘‘۔ سرکار کے کام کاج میں حصہ لینے کے لیے وہ کافی بوڑھا ہوچکا تھا۔ اُسے یہ فکر دامن گیر تھی کہ شاید رعایا اس بات کو بھی بھول جائے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے۔ اُس کے ہم عصر ایک مورخ نے اُس کی نسبت تحریر کیاہے: ’’اُس نےیہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ ابھی تک حکمراں ہے ہر قسم کی چال چلی۔ وہ افسروں کو ڈسمس کردیتا اور ان کی جگہ نئے افسر مقرر کردیئے جاتے۔ کسی کی وہ تنخواہ کم کردیتا تو کسی کی تنخواہ میں اضافہ کردیتا۔ اُس نے اپنا وقت افسروں کو مقرر کرنے اور اُن کا بھٹہ بٹھانے میں صرف کیا تھاـ‘‘۔ لیکن یہ سب کچھ کافی نہ تھا۔ 11 واں لوئی ایک عظیم شکاری تھا۔ جانوروں سے وہ بہت انس کرتا تھا۔ اُس نے گھوڑے اور کتّے منگانے کے لیے یورپ بھر میں اپنے نمائندے بھیجے۔ اور مارکیٹ کی قیمت سے بھی زیادہ دے کر اُنھیں خریدا۔ چنانچہ اٹلی، سویڈن اورجرمنی سے گھوڑے اورکتّے آنے شروع ہوگئے۔ وہ اُس کے محل میں پہنچ جاتے،لیکن صحت کیکمزوری کے سبب اس کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ انھیں دیکھ بھی سکے، یا جو لوگ اُن کو خرید کر لائے ہیں اُن سے بات تک بھی کرسکے۔ لیکن اُسے علم تھا کہ سارے یورپ میں اُس کی اس خریداری پر چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ وہ ابھی تک زندہ تھا،اوراپنی صحت بحال کرنے کا وہ اتنا آرزو مند تھا کہ اُس نے اس امر کا حکم دے رکھا تھا کہ موت کا لفظ اُس کے سامنے بولا ہی نہ جائے۔ اُس کا ذاتی معالج اُس کے ایک نوکر کی مانند کام کرتا تھا۔اور بادشاہ کا وہ پسندیدہ بن گیاتھا۔ اُسے 10,000سنہری کراؤن ماہوار دیئے جانے لگے تھے۔ اُس وقت پورے یورپ کے کسی میدان جنگ میں 40 برس کام کرکے بھی ایک فوجی افسر اتنی رقم کما نہ سکتا تھا۔ اگرکوئی شخص اُس کی زندگی میں ایک دن کا بھی اضافہ کرسکے تو وہ اپنا سارا خزانہ لٹانے کو تیارتھا۔ 23 جولائی 1483 ء کو جب اُس کا 60 واں جنم دن نزدیک آنے والا تھا وہ اور بھی فکر مند ہوگیا۔ اُس وقت وہ اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ وہ مشکل سے لقمہ اُٹھا کر اپنے منہ میں ڈال سکتا تھا۔ اُس کے دل میں ایک خیال آیا۔ اُس نے ہزاروں سونے کے سکے جرمنی، روم اور نیپلز کے گرجا گھروں اور مذہبی رہنماؤں میں تقسیم کرنا شروع کردیئے۔ اُس نے تین بحری جہاز دےکر اپنے بہترین کپتان ایک جزیرہ میں بھیجا، تاکہ وہاں سے بڑے بڑے کچھوے لائے جائیں۔ اس کو بتایا گیا تھا کہ یہ بحری کچھوے زندگی بخش خواص کے مالک ہیں۔ اسے یاد تھا کہ فرانس کے بادشاہوں کو ان کی تاجپوشی کے وقت ایک خاص قسم کی کریم (cream)کا تلک لگایا جاتا ہے۔ یہ ایک کہاوت ہے کہ یہ کریم 496ء میں قدیم زمانہ کے ایک بادشاہ کو ایک فاختہ نے مہیا کی تھی۔ اور وہ اس کی موت سے چند ہی دن پہلے ایک سنہری رتھ میں پہنچی تھی۔ لوئی نے تمام مذہبی ذرائع کو جو ممکن تھے، اِس امید کے ساتھ اکٹھا کیا کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ رہ سکے۔ آخر میں نیپلز کی ایک گپھا سے ایک جوگی اس امید کے ساتھ اُس کے محل میں لایا گیا کہ اس کی پرارتھنا سپھل ہوگی۔ لیکن وہ بے اثر ثابت ہوئی۔ تاہم لوئی اُسے اپنے نزدیک رکھنے کا اتنا خواہش مند تھا کہ اُس نے اپنے وزیر خزانہ کو حکم دے دیا تھا کہ اُس جوگی کے لیے خواہ سارا خزانہ کیوں نہ صرف کرنا پڑے ،ضرور صرفکیا جائے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود بادشاہ لوئی پر فالج کا حملہ ہوا، اور 30 اگست کو وہ اس دنیا سے چل بسا۔ اُس کے منہ سے آخری لفظ یہی نکلے:’’میں اتنا بیمار تو نہیںہوں جتنا آپ لوگ خیال کرتےہیں‘‘۔ فرانس کی عوام کو یہ بات بخوبی یاد ہے کہ اپریل 1974 کو صدر جارجز پوپیڈو نے اپنے آخری بیان میں کہا تھا جب وہ کینسر کی وجہ سے مررہےتھے :’’میں اتنا بیمار تو نہیںہوں جتنا آپ لوگ خیال کرتےہیں‘‘۔ اور چند روز بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔آخر کار 11 ویں لوئی کو معلوم ہوگیا کہ کوئی شخص موت سے جیت نہیں سکتا۔ (ماخوذ)
واپس اوپر جائیں

پروموشن کی خبر

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا کہ میرا پروموشن (promotion) ہوگیا ہے، اب مجھے زیادہ تنخواہ ملے گی، زیادہ بڑا گھر رہنے کو ملے گا، اب مجھے زیادہ بڑی گاڑی استعمال کے لیے دی جائے گی۔ پہلے مجھے سفر کے لیے ریلوے کا پاس (pass) ملتا تھا، اب مجھے سفر کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ ملے گا، وغیرہ۔اس کو سن کر میںنے سوچا کہ یہی آخرت کا معاملہ بھی ہے۔ جنت کے معاملے کو دنیا کی اصطلاح میں اسی طرح بیان کیا جاسکتا ہے، جنت کا معاملہ بھی گویا پروموشن کا معاملہ ہے، جن لوگوںکا ریکارڈ موجودہ غیر کامل دنیا میں اچھا ہوگا، ان کو پروموٹ کرکے آخرت کی کامل دنیا (جنت) میں داخل کردیا جائے گا۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ آدمی دنیا میں بہت زیادہ ہوش مندی کے ساتھ رہے، وہ اپنے ہر معاملے کو اِسی نظر سے جانچے کہ وہ جنّت میں داخلے کے لیے رکاوٹ ہے یا مدد گار۔ اِس اعتبار سے جس آدمی کا ذہن بیدار ہو، وہ گویا کہ خود اپنا چوکی دار بن جائے گا، وہ اپنی سوچ، اپنی گفتگو، اپنا سلوک، غرض اپنے قول وعمل کی مسلسل طورپر نگرانی کرتا رہے گا، وہ حضرت عمر کے اِس قول کا مصداق بن جائے گا کہ: وزنوا أنفسکم قبل أن توزنوا (کنزل العمال44203:)۔یعنی اپنے آپ کو دنیا میں تولو اِس سے پہلے کہ تم کو آخرت میں تولا جائے۔ پروموشن کی خبر کی طرح دعوت بھی ایک خبر ہے۔ اگر کسی شخص پر سچائی منکشف ہوجائے تو اس کےلیے یہ واقعہ جاب میں پروموشن کی خبر سے بلین گنا زیادہ بڑا واقعہ ہوگا۔ ایسا آدمی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی دریافت کو اپنے ذہن میں لیے رہے اور اس کا اعلان نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کی دریافت اپنے آپ کسی آدمی کو داعی بنا دیتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے سچائی کو پالیا ہے، اس کے باوجود وہ دعوت الی اللہ کا کام نہ کرے تو یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس نے سچائی کو پایا ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خود کُشی: سب سے بڑی دیوانگی

خود کشی سب سے بڑی دیوانگی ہے۔ کیوں کہ خود کشی آدمی اُس وقت کرتا ہے، جب کہ وہ زیادہ کامیاب انداز میں کوئی عمل کرنے کی پوزیشن میں ہوجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خود کشی کسی انسان کے لیے سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ کوئی بھی آدمی نارمل حالت میں اِس کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آپ کو خود ہی مارڈالے۔ پھر کوئی شخص خود کشی جیسا انتہائی اقدام کیوں کرتا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کو جب کوئی سخت جھٹکا لگتا ہے تو اُس وقت یہ ہوتا ہے کہ فطری نظام کے تحت اُس کا دماغ محفوظ انرجی کور یلیز (release)کردیتا ہے۔ اِس بنا پر اُس وقت آدمی کی طاقت بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ اضافہ شدہ طاقت اِس لیے ہوتی ہے کہ آدمی پیش آمدہ مسئلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ مقابلہ کرسکے، مگر وہ اِس بڑھی ہوئی طاقت کا منفی استعمال کرکے خود کشی کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جولوگ خود کشی کا اقدام کریں اور کسی بنا پر مرنے سے بچ جائیں، تو وہ اپنی بعد کی زندگی میں زیادہ بڑا کام کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اقدامِ خود کشی کا واقعہ اُن کو شعوری یا غیرشعوری طورپر اپنی برتر طاقت سے متعارف کردیتاہے۔ چناں چہ موت سے بچنے کی صورت میں وہ اس کو بھر پور طورپر استعمال کرتے ہیں اور زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ فطرت کے اِس قانون کو شیخ سعدی نے سادہ طورپر اِس طرح بیان کیا ہے: نہ بینی کہ چوں گُربہ عاجز شود بَرآرد بہ چَنگال، چشمِ پلنگ انسان کی اکثر غلطیاں فطرت کے قانون کو نہ جاننے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ فطرت کے قانون کے مطابق، انسان کے دماغ میں ہمیشہ محفوظ انرجی موجود رہتی ہے۔ جب کوئی سخت مسئلہ پیش آئے تو دماغ آٹومیٹک طورپر اِس محفوظ انرجی کو ریلیز کردیتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دریا میں پانی کی قلّت کے وقت بَیراج کو کھول کر مزید پانی جاری کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر فطرت کے قوانین کو سمجھے تو وہ بہت سی نادانیوں سے بچ جائے، بہت سی ناکامیوں سے وہ کبھی دوچار نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

ابدی صحرا

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (9 فروری 2008)میں ایک سبق آموز واقعہ نظر سے گزرا۔ بمبئی کے ایک ایکٹر آنند سوریا ونشی نے اپنی بڑی موٹر کار گورے گاؤں (بمبئی) میں پے اینڈ پارک ایریا (pay-and park area) میں کھڑی کی۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو ان کی کار وہاں موجود نہ تھی، وہ چوری ہوچکی تھی۔ انھوں نے اخبار کے رپورٹر آلیورا (Roshni Olivera) کو بتایا کہ اِس کار میں میری تمام ذاتی چیزیں موجود تھیں۔ مثلاً لیپ ٹاپ، قیمتی اسٹون رِنگ، 40/30 ڈی وی ڈیز(DVDs)، تقریباً 50 سی ڈیز(CDs)، شوٹنگ کے کپڑے، موبائل فون، اور پرسنل ڈائری، وغیرہ۔ مسٹر آنند نے کہا کہ میں اِن چیزوں سے جذباتی طورپر وابستہ تھا: I was emotionally attached to them. اِس قسم کی تفصیلات کو بتاتے ہوئے انھوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ— اِس حادثے کے بعد مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کہ میں اچانک کسی ویران جزیرے میں آکر پھنس گیا ہوں: I feel like I am stranded on some island (p. 4) یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر آخرت میں پیش آئے گا۔ موت کے پہلے کی زندگی میں آدمی ہر قسم کے ساز وسامان میں جیتا ہے۔ مکان، گاڑی، اولاد، بزنس، شہرت، بینک بیلنس، وغیرہ۔ موت کے بعد کی زندگی میں آدمی اچانک اپنے آپ کو ایک نئی دنیا میں پائے گا۔ یہاں وہ پوری طرح اکیلا ہوگا۔ اس کے تمام مادّی سامان اُس سے چھوٹ چکے ہوں گے۔ اُس کے پیچھے وہ دنیا ہوگی جس کو وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا۔ اُس کے آگے وہ دنیا ہوگی جہاں اُس کے لیے ابدی صحرا کے سوا اور کچھ نہیں۔ موت سے پہلے آدمی اِس آنے والے دن کے بارے میں سوچ نہیں پاتا۔ موت کے بعد اچانک یہ دن آجائے گا۔ اُس وقت انسان سوچے گا، لیکن اس کا سوچنا اس کے کام نہ آئے گا۔سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی اِس آنے والے ہول ناک دن کی تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

مرنے والوں کا تذکرہ

یہ ایک عام رواج ہے کہ جب کوئی شخص مرتا ہے تو اس کے بارے میں رسائل و جرائد میں مضامین شائع کیے جاتے ہیں، اس کی یاد میں تعریفی مضامین چھپتے ہیں، اس کی یاد میں شان دارجلسے کئے جاتے ہیں۔ اِن سب میں یہ ہوتا ہے کہ مرنے والے کے کارنامے اور اس کی عظمتیں بیان کی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ سخت مغالطہ انگیزی (misleading) کا ذریعہ ہے۔ کسی کی موت پر جواصل واقعہ پیش آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مرنے والا اپنی عظمت کے تمام نشانات کو اچانک چھوڑ دیتا ہے۔ موت اس کو ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتی ہے جہاں وہ بالکل تنہا اور بے سروسامان ہوتا ہے۔ حال (present) کے لحاظ سے مرنے والے کا اصل پہلو یہی ہوتاہے۔ لیکن تمام لکھنے اور بولنے والے، مرنے والے کے حال کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے، وہ صرف اس کے ماضی (past)کو لے کر اس کی دنیوی بڑائیاں بیان کرتے ہیں، حالاں کہ مرنے والا عملاً اپنے اِس ماضی سے مکمل طورپر منقطع ہوچکا ہوتا ہے۔ موت کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ کسی انسان کے لیے انقطاعِ کلّی (total detachment) کے ہم معنی ہوتی ہے۔ موت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے پہلے موقع (first chance) کو کھودیا، اور جہاں تک دوسرے موقع (second chance)کا سوال ہے، وہ کبھی کسی کو ملنے والا نہیں۔ ہر مرنے والا دراصل زندگی کے اِس سنگین پہلو کو یاددلاتا ہے۔ لیکن یہی وہ پہلو ہے جس کا تذکرہ نہ تحریروں میں کیا جاتا ہے اور نہ تقریروں میں۔ مرنے والے کے فضائل وکمال کو پڑھ کر یا سن کر بظاہر یہ تاثر قائم ہوتاہے کہ وہ آج بھی اِنھیں فضائل کا حامل ہے، حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں۔ مقررین اور محررین جس انسان کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ ایک تاریخ ساز انسان تھا، عین ممکن ہے کہ اس وقت خود مرنے والے کا حال یہ ہو کہ وہ ایک بے تاریخ انسان بن کر حسرت وبے بسی کے عالم میں پڑا ہو۔
واپس اوپر جائیں

خوش نما فریب

ہر زبان میں مثلیں (sayings)اور کہاوتیں ہوتی ہیں۔ یہ کہاوتیں انسانی زندگی کا تجربہ ہوتی ہیں۔ ہر مثل لمبے انسانی تجربے کے بعد بنتی ہے۔ اِسی قسم کی ایک انگریزی مثل یہ ہے— یہ اتنا زیادہ اچھا ہے کہ وہ سچ نہیں ہوسکتا: It is too good to be true. یہ ایک حقیقت ہے کہ سچ کے مقابلے میں، جھوٹ ہمیشہ خوش نما ہوتا ہے۔ حقیقی نفع کے مقابلے میں، فرضی نفع ہمیشہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ مخلصانہ بات کے مقابلے میں ، منافقانہ بات ہمیشہ خوب صورت ہوتی ہے۔ نصیحت کے مقابلے میں، خوش کرنے والی بات سننے میں زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ حقیقی تاریخ کے مقابلے میں، فرضی قصہ کہانیاں زیادہ دل چسپ ہوتی ہیں۔ حقیقت پسندانہ کلام کے مقابلے میں، رومانوی کلام ہمیشہ زیادہ دل کش نظر آتا ہے۔ کار آمد بات کے مقابلے میں، بے فائدہ بات آدمی کو زیادہ پرکشش معلوم ہوتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ ایسی حالت میں آدمی ہر وقت امتحان کی حالت میں ہے۔ ہر وقت اس کو چوکنا بن کر رہنا ہے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ جھوٹ کے فریب میں پھنس کر، سچائی سے دور ہوجائے۔ وہ ہوائی باتوں سے مسحور ہو کر، حقیقت پسندی کے راستے سے ہٹ جائے۔ وہ منافقانہ باتوں کے فریب میںآکر، مخلصانہ بات کو قبول نہ کرسکے۔ اِس دنیا میں ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ آدمی سونے کے ملمّع کو سونا سمجھ کر لے لے اور پھر وہ سخت نقصان میں پھنس جائے۔ وہ جھوٹے الفاظ کے فریب میںآکر ایسی چھلانگ لگا دے، جو اس کوایسے گڑھے میںگرادے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت اس کے لیے نہ ہو۔ اِس دنیا میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خوش نما باتوں سے متاثر نہ ہو، وہ ٹھوس حقائق کی روشنی میں اپنی رائے بنائے۔ دانش مند صرف وہ شخص ہے جو اِس معیار پر پورا اترے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا مسئلہ

19 نومبر 1994 کو دہلی کے تمام اخباروں کے صفحہ اول کی نمایاں خبر یہ تھی کہ جنرل بپن چندرا جوشی کا دہلی میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر ابھی صرف 59 سال تھی۔ بوقت وفات وہ آرمی چیف کے عہدہ پر تھے۔لمبی سروس کے بعد اب وہ اپنی آخری ترقی کے دور میں پہنچے تھے اور اس وقت سینئر موسٹ سروس چیف کی حیثیت رکھتے تھے۔ 18 نومبر کوگولف کھیلنے کے بعد انھوں نے سینہ میں دردبتایا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بے ہوش ہوگئے۔ فوری طورپر بہترین میڈیکل امداد بہم پہنچائی گئی۔ مگر وہ دوبارہ ہوش میں نہ آسکے۔ بے ہوشی کی حالت ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔ جنرل جوشی کے حالات کے ذیل میں بتایا گیا ہے کہ انھیں ایکس سروس مین کا بہت خیال رہتا تھا۔ ہندستان میں ایک سولجر 35 سال کی عمر میں ریٹائر ہوتا ہے اور افسر 48 سال کی عمر میں۔ اس طرح ہر سال فوج سے ستر ہزار آدمی ریٹائر ہوتے ہیں۔ ان کو ان ریٹائر ہونے والوں کی بہبود کی بہت فکر رہتی تھی۔ ان کا قول تھا کہ آج کا سپاہی کل کا ایکس سروس مین ہے: Today’s soldier is tomorrow’s ex-serviceman. جنرل جوشی اگر اور دور تک دیکھ سکتے تو کہتے کہ آج کا سولجر اور ایکس سروس مین دونوں ہی کل کے اعتبار سے آخرت کے باسی ہیں۔ دونوں ہی کو موت کے بعد آخرت کے ٹسٹ پر پورا اترنا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوگا کہ کون کیسا تھا اورکون کیسا۔ کون خوش بخت تھا اور کون بدبخت۔ کون کامیاب تھا اور کون ناکام۔لوگ موت سے پہلے کی زندگی میں الجھے رہتے ہیں، حالاں کہ دانش مندی یہ ہے کہ آدمی موت کے بعد کی زندگی کے مسائل کی سب سے زیادہ فکر کرے۔ لوگ انسانوں کی طرف سے پیش آنے والی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں، حالاں کہ حقیقت کا تقاضا ہے کہ خدا کی باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ لوگ دنیا کے قانون کی پکڑ سے بچنے کی تدبیریں کرتےہیں حالاں کہ اس سے زیادہ انھیں اس بات کی تدبیر کرنی چاہئے کہ کہیں وہ خدا کی پکڑ میں نہ آجائیں۔
واپس اوپر جائیں

موت کا المیہ

موت ہر عورت اور مرد پر لازماً آتی ہے۔ موت کا سب سے زیادہ المناک پہلو یہ ہے کہ موت کے بعد دوبارہ موجودہ دنیا میں واپسی ممکن نہیں۔ موت کےبعد انسان کو ابدی طور پر ایک نئی دنیا میں رہنا ہے۔ موت کے بعد صرف بھگتنا ہے، عمل کرنا نہیں ہے۔ انسان ایک بے حد حساس (sensitive) مخلوق ہے۔ انسان کسی سختی کو برداشت نہیں کرپاتا، خواہ وہ کتنی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ ہر عورت اور ہر مرد کو سب سے زیادہ یہ سوچنا چاہیے کہ موت کے بعد اگر اس کو سخت حالات میں رہنا پڑا تو وہ کیسے ان کو برداشت کرے گا۔ اگر انسان یہ سوچے تو اس کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوجائے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو وہ کہیں گے:الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (35:34)۔ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم کو دور کیا۔ تکلیف (pain) کی زندگی انسان کے لیے سب سے زیادہ ناقابلِ برداشت زندگی ہے۔ اور تکلیف سے پاک زندگی انسان کا سب سے بڑا مطلوب ہے۔ انسان اگر اس پہلو کو سوچے تو موت اس کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے ۔ وہ موت کے بارے میں اس سے زیادہ سوچے گا ، جتنا وہ زندگی کے بارے میں سوچتا ہے۔ موت کا تصور آدمی کے لیے ماسٹر اسٹروک (masterstroke) کی مانند ہے۔ ماسٹراسٹروک کیرم بورڈکی تمام گوٹوںکو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔ اسی طرح اگر آدمی کے اندر موت کا تصور زندہ ہو تو اس کے دماغ کے تمام گوشے ہل جائیں۔ اس کا سوچنا اور اس کا چاہنا، یک سر بدل جائے ۔ اس کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب آئے گاجو اس کو ایک نیا انسان بنادے گا۔موت سے غفلت آدمی کو ایک بے خبر انسان بناتی ہے۔ اس کے برعکس، موت کی یاد آدمی کو آخری حد تک ایک باخبر اور باہوش انسان بنادیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا پیغام

انڈیا کے سابق پریسیڈنٹ ڈاکٹر عبدالکلام 27 جولائی 2015کو انتقال کرگیے۔ بوقت وفات ان کی عمر 83 سال تھی۔ وہ نئی دہلی سے پرواز کرکے شیلانگ گیے ،تاکہ وہاں وہ ایک سائنسی موضوع پر لکچر دے سکیں۔ وہاں وہ اپنا لکچر دے رہے تھے کہ ان پر ہارٹ اٹیک ہوا۔ وہ اسٹیج پر گر پڑے۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا۔ وہاں ڈاکٹر نے اعلان کیا کہ ڈاکٹر کلام کا انتقال ہوچکا ہے۔ Former President Abdul Kalam died on July 27, while delivering a lecture at IIM Shillong. He was in Shillong to attend a course on Livable Planet Earth at Indian Institute of Management. The former President suddenly collapsed during the lecture. He was rushed to Bethany Hospital in Shillong only to be declared by doctors that he was no more. موت ایک ایسا واقعہ ہے جو ہر انسان کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہر انسان پر یہ لمحہ آتا ہے کہ موت کا فرشتہ اچانک اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے انسان تم کو اس دنیا میں صرف ’’83‘‘سال جینا تھا۔ یہ مدت پوری ہوچکی۔ اب تم کو ایک اور دنیا میں زندگی گزارنا ہے، جہاں تم ہمیشہ رہوگے۔’’83‘‘سال پر تمہاری زندگی کا ایک دور ختم ہوچکا، اور اب تمہاری زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ ہر انسان کو یہ معلوم ہے کہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں اس کو اپنی کامیابی کے لیے کیا کرنا ہے۔ مگر یہ بات کوئی شخص نہیں جانتا کہ موت کے بعد کے دورِ حیات کے لیے اس کو کیا تیاری کرنا چاہیے جو وہاں کی ابدی زندگی میں اس کےکام آئے۔ یہی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی وہ مسئلہ ہے جس سے ہر انسان بے خبر ہے۔ وہ دنیا کی ناکامی سے بچنے کے لیے تو سب کچھ کرتا ہے، لیکن آخرت کی ناکامی سے بچنے کے لیے وہ کچھ نہیں کرتا۔ کبھی بے خبری کے ساتھ، اور کبھی با خبر ہونے کے باوجود۔
واپس اوپر جائیں

موت کا واقعہ

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اکثروا ذکر ہادم اللـذات. یعنی الموت (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4258:)۔یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے۔اس کی شرح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ موت دنیا کی لذتوں سے آدمی کوپوری طرح منقطع کردیتی ہے ( فإنہ یقطع لذات الدنیا قطعا)۔ اس حدیث میں لذات سے مراد دنیوی تمنائیں (worldly aspirations) ہیں۔ یہاں جس چیز کو ھادم اللذات کہا گیا ہے، اس کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کے اندر اگر موت کا زندہ شعور ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کی دنیوی وابستگی (worldly attachment)باقی نہ رہے گا۔ وہ موت سے پہلے کی زندگی کے مقابلے میں موت کے بعد کی زندگی کو زیادہ اہم سمجھے گا۔ اس کے بعد اس کی سوچ مکمل طور پر آخرت رخی سوچ (akhirat-oriented thinking) بن جائے گی۔اس سوچ کا اثر یہ ہوگا کہ آدمی کی امنگیں، آدمی کی دوڑ بھاگ، آدمی کی منصوبہ بندی، سب آخرت رخی ہوجائے گی۔ جو آدمی موت سے غافل ہو ، وہ موجودہ دنیا کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے، اس کے ذہن پر موجودہ دنیا کا نقصان اور فائدہ چھایا رہتا ہے۔ وہ ایک دنیا پرست انسان بن جاتا ہے۔ لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا زندہ شعور آدمی کو حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ اب وہ سب سے زیادہ اس دن کے بارے میں سوچے گا، جب کہ لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے(المطففین 6:) ۔اب اس کو سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہوجائے گی کہ وہ آخرت میں اللہ کی پکڑ سے کس طرح بچ جائے۔وہ سب سے زیادہ جہنم سے ڈرےگا، اور سب سے زیادہ جنت کا مشتاق بن جائے گا۔ اس کے لذت اور غم کے تصورات بدل جائیں گے۔ اس کے سوچنے کا طریقہ اور اس کا عملی سلوک ،ہر چیز میں آخرت کا اثر دکھائی دینے لگے گا۔
واپس اوپر جائیں

موت کا تصور

ایک حدیث رسول میں موت کو ھادم اللذات (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258) کہا گیا ہے۔ یعنی کوئی انسان اگر اپنی موت کو یاد کرے تو یہ یاد اس کے لیے لذتوں کو ڈھادینے والی بن جائے گی۔ اس کے لیے پھر کوئی لذت ، لذت نہیں رہے گی۔جن مادی چیزوں کو لے کر لوگ خوش ہوتے ہیں، وہ چیزیں اس کو خوشی نہ دے سکیں گی۔ موت کا تصور آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ تمھارے اوپر ایک ایسا دن آنے والا ہے جو اچانک تمھارا سب کچھ بدل دے گا۔ تم اپنے بنائے ہوئے گھر میں ہوگے، تم اپنے بچوں کے درمیان خوش ہوگے، تم اپنے دوستوں کے درمیان یا اپنی معاشی زندگی کے درمیان ہوگے، یا اور کسی حال میں ہوگے، اس وقت اچانک موت کا فرشتہ آئے گا۔ وہ تمھارے جسم کو چھلکے کی طرح پھینک دے گا، اور تمھارے اصل وجود کو لے کر ایک اور دنیا میں چلا جائے گا۔ تمھارے جاننے والے کچھ نہ جانیں گے کہ تم کہاں چلے گیے۔ موت کا یہ تصور آدمی کو بے حد سنجیدہ بنادیتا ہے۔ آدمی کی سب سے بڑی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ میں کیا ہوں اور میرا مستقبل کیا ہے، میری زندگی کیا ہے اور میری موت کیا ہے۔ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں مجھے کیا کرناہے، موت کے بعد کے دورِ حیات میں میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ موت کی یاد آدمی کواس قابل بنادیتی ہے کہ وہ زندگی کے معاملے میں بے حد سنجیدہ ہوجائے، وہ ہر لمحہ اپنی زندگی کا محاسبہ کرنے لگے۔ موت حتمی انداز میں انسان کو بتاتی ہے کہ بظاہر اگرچہ تمھارا حال (present) تمھارے قبضے میں ہے، لیکن تمھارا مستقبل (future)ہر گز تمھارے قبضے میں نہیں۔ موت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے حال سے زیادہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوجائے۔وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات کی تعمیرکے بجائے موت کے بعد کے دورِ حیات میں مشغول ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

ھادم لذات

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: قال رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ علیہ وسلم:أکثروا ذکر ہادم اللذات، یعنی الموت (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر موت کی حقیقت کو پوری سنجیدگی کے ساتھ یاد کرے تو اس کی زندگی کا فوکس بدل جائے گا۔ اس کی زندگی دنیا رخی زندگی نہیں رہے گی، بلکہ آخرت رخی بن جائے گی۔ جب ایک شخص دنیا پرستی کا طریقہ اختیارکرتا ہے، وہ ہر وقت دنیا کمانے میں لگا رہتا ہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوتا ہےکہ اس کو اپنی مصروفیت میں ایک لذت ملتی ہے۔ وہ اس مصروفیت میں اپنے لیے ایک شاندار دنیوی مستقبل کا امکان دیکھتا ہے۔ لیکن اگر اس کو معلوم ہو کہ اس پر ایک ایسا دن آنے والا ہے، جب کہ وہ اپنی ساری کمائی چھوڑ کر اس دنیا سے چلاجائے گا، تو اس کے لیے اپنی مصروفیت میں کوئی دلچسپی باقی نہ رہے گی۔ اس کے اندر ایک نئی سوچ بیدار کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ وہ سوچے گا کہ اگر میری کمائی موت کے بعدمیرے ساتھ جانے والی نہیں ہے تو مجھے اپنی سرگرمیوں کا رخ بدلنا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی سے غصہ ہوجائے، اور وہ اس کے خلاف انتقامی کارروائی کا منصوبہ بنائے تو موت کی یاد اس کی زندگی کا رخ بدل دے گا۔ وہ سوچے گا کہ جب میرا انتقام ابدی معنوں میں کسی کا کچھ بگاڑنے والا نہیں تو میں کیوں انتقامی کارروائی میں اپنا وقت ضائع کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کی یاد آدمی کے لیے یاد دہانی (reminder) کا ذریعہ ہے۔ موت کی یاد اس کے عمل کی تصحیح کرنے والی ہے۔ موت کی یاد آدمی کومنفی (negative) کارروائی سے ہٹا کر مثبت کارروائی میں مصروف کردیتی ہے۔ موت کی یاد آدمی کو سنجیدہ اور حقیقت پسند بناتی ہے۔ موت آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ لازمی طور پر وہ ایک دن انسان کی دنیا سے نکل کر خدا کی دنیا میں جانے والا ہے، یہ سوچ آدمی کے لیے اپنی تصحیح آپ (self-correction) کا ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا سبق

میں ایک جنازہ میں شریک ہوا۔ موت کے بعد مرنے والے شخص کو نہلایا گیا۔ اس کو نئے کپڑے کا کفن پہنایا گیا۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھی اور پھر وہ میت کو اپنے کاندھوں پر لے کر چلے، یہاںتک کہ قبر میں احترام کے ساتھ لٹا کر اس کو ڈھک دیاگیا۔ میںنے سوچا کہ ایک مردہ جسم کے ساتھ اتنے زیادہ اہتمام کا حکم اسلام نے کیوں دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم مٹی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، مگر اس کو عام مٹی کی طرح اِدھر اُدھر پھینک نہیں دیا جاتا، بلکہ اس کے ساتھ باقاعدہ انسان کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ ’’مٹی‘‘ کے ساتھ ’’انسان‘‘ جیسا معاملہ کرنے کا حکم مرنے والے کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ زندہ رہنے والے کے اعتبار سے ہے۔ مردہ انسان کے ذریعہ زندہ انسانوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ بالآخر ان کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ زندہ لوگ مرنے والے کے روپ میں خود اپنے آپ کو دیکھیں۔ وہ موت سے پہلے موت کا تجربہ کریں۔ یہ تجربہ اس طرح بھی ممکن تھا کہ ایک مقرر دن میں کاغذ کا ایک انسانی پتلا بنایا جائے اور اس کے ساتھ تمام رسوم ادا کرکے اس کو مٹی کے گڑھے میں ڈال دیا جائے۔ اسلام نے اس تجربہ کو حقیقی بنانے کے لیے حقیقی انسان کے مردہ جسم کو استعمال کیا۔ ایک انسان ہماری طرح ایک زندہ انسان تھا۔ چلتے چلتے اس کے قدم جواب دے گئے۔ بولتے بولتے اس کی زبان بند ہوگئی۔ دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں بے نور ہوگئیں۔ لوگوں کے نزدیک اس کی جو قیمت تھی، وہ سب اچانک ختم ہوگئی۔ اب خدا اِس واقعہ کو استعمال کرتا ہے، تاکہ اپنے جیسے ایک انسان کے ذریعہ وہ لوگوں کو زندگی کا سبق یاد دلائے۔ لوگ اس کو اہتمام کے ساتھ تیار کرتے ہیں اور پھر لے کر چلتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخری مرحلہ میں پہنچ کر جب اس کو قبر کے گڑھے میںلٹا دیا جاتا ہے تو ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ تین بار اپنے ہاتھ میںمٹی لے کر قبر میں ڈالتا ہے۔ پہلی بار مٹی ڈالتے ہوئے وہ کہتا ہے :منہا خلقناکم (اسی سے ہم نے تم کو پیداکیاتھا)، جب وہ دوسری بار مٹی ڈالتا ہے تو کہتا ہے: وفیہا نعیدکم (اسی میںہم تم کو دوبارہ ڈال رہے ہیں) اور پھر تیسری بار مٹی ڈالتے ہوئے وہ کہتا ہے : ومنھا نخرجکم تارۃً أخریٰ (اور اسی سے ہم تم کو دوبارہ نکالیں گے)۔(دیکھیے، سورہ طٰہ 55 :)یہ تین بار مٹی ڈالنا، اس پورے معاملہ کا کلائمکس ہے۔ اس طرح ایک زندہ واقعہ کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ انسان کیا ہے اور اس کا آخری انجام کیا۔ ممتاز ترین ارب پتی ہوورڈ روبارڈ ہیوز (Howard Robard Hughes)امریکاکا ایک ممتاز ترین ارب پتی تھا۔ اپریل 1976 میں ایک ہوائی سفر کے دوران اس پر دل کا حملہ ہوا۔ اس کے ہوائی جہاز کو فوراً ہاؤسٹن میں اتارا گیا۔ مگراسپتال پہنچنے سے پہلے وہ ختم ہوچکا تھا۔ اپنے قانون داں باپ سے اس کو ایک ملین ڈالر بطور وراثت ملے تھے۔ مگر اس نے اپنی غیرمعمولی تجارتی صلاحیت سے اپنے سرمایہ کو 20,000 کروڑ ڈالر سے بھی زیادہ بڑھا لیا۔ اس کے ہوائی جہاز کا عملہ جو اس کے ساتھ شریک سفر تھا اس نے اس کے آخری لمحات کے بارے میں جو چشم دید تاثرات بیان کئے اس کی بنیاد پر مشہور امریکی آرٹسٹ شرل سالومن نے اس کا خاکہ تیار کیا ہے۔ اس خاکہ میں اس کے سفر حیات کے آخری لمحات کو مصوّر کیاگیا ہے — امریکا کا کامیاب ترین تاجر اُس خاکہ میں وحشت، مایوسی، بے چارگی ، ناکامی اور بے یقینی کا مجسمہ نظر آتا ہے۔ امریکی تاجر کی یہ وحشت ناک تصویر اس کیفیت کو مجسم کررہی ہے جو ایک آدمی کی اس وقت ہوتی ہےجب وہ موت کے دروازے پر پہنچ چکا ہو، اس کے پیچھے وہ زندگی ہو جس کو وہ چھوڑ چکا اور آگے وہ زندگی ہو جس میں اب وہ ہمیشہ کے لئے داخل ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اپنی نمازِ جنازہ

دہلی میں ایک مسلمان کی موت ہوئی۔ نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعدان کو ایک مقامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ میرےایک ساتھی نے بتایا کہ وہ اس نماز میں شریک تھے۔ نماز شروع ہونے والی تھی تو ان کے پاس کھڑے ہوئے ایک مسلمان نے پوچھا— فرض کی نیت کروں یا سنت کی نیت کروں۔ انھوں نے کہا کہ خود اپنی نمازِ جنازہ کی نیت کرو۔ اُس آدمی کو حیرانی ہوئی۔ بعد کو انھوں نے اس آدمی سے کہا کہ کسی کے مرنے پر جنازہ کی نماز پڑھنا محض ایک رسم نہیں، وہ ایک سنگین حقیقت کی یاد دہانی ہے،یہ حقیقت ہےکہ مرنے والے کی جس طرح موت ہوئی ہے، اُسی طرح میری موت بھی ہونے والی ہے۔ با جماعت نمازِ جنازہ دراصل اِسی حقیقت کی یاد دہانی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سچی نماز جنازہ اُسی انسان کی ہے جو دوسرے کی موت میں اپنی موت کو یاد کرے۔ وہ سوچے کہ آج جو کچھ مرنے والے کے ساتھ پیش آیا ہے، وہی خود میرے ساتھ پیش آنے والا ہے۔ موت کو دیکھ کر جو آدمی اس طرح سوچے، وہ جب جنازہ کی نماز کے لئے کھڑا ہوگا تو اس کا احساس یہ ہوگا کہ میںخود اپنے جنازہ کی نماز پڑھ رہا ہوں۔ جو کچھ دوسرے کے ساتھ آج پیش آیا ہے، وہی میرے ساتھ کل پیش آنے والا ہے۔ موت کسی ایک انسان کا معاملہ نہیں، موت کا واقعہ ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ لازمی طورپر پیش آنے والا ہے۔ مزید یہ کہ موت کسی سے پوچھ کر نہیں آتی، موت اچانک آجاتی ہے۔ اور موت جب آجاتی ہے تو کوئی بھی انسان اس کو واپس کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے، ایک انسان کے لئے بھی اور دوسرے انسان کے لیے بھی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنی موت کو یاد کرے، جو شخص اتنا زیادہ غافل ہو کہ دوسرے کی موت کو دیکھ کر بھی اس کو اپنی موت یاد نہ آئے، وہ گویا کہ بے حس پتھر ہے۔ وہ بظاہر انسان ہے، لیکن وہ انسانی صفات سے اُسی طرح خالی ہے جس طرح پتھر کا کوئی مجسمہ انسانی صفات سے خالی ہوتا ہے۔ موت کو یاد کرنا حساس (sensitive)انسان کی صفت ہے، اور موت کو یاد نہ کرنا بے حس (insensitive)انسان کی صفت ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 246

1۔ صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن (انگلش) امریکا میں بہت بڑے پیمانے پر لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ یہ کام جناب کلیم الدین صاحب کی نگرانی میں انجام پارہا ہے، اور لوگوں کی جانب سے اس کا بہت اچھا رزلٹ مل رہا ہے۔ کلیم صاحب لکھتے ہیں کہ لوگوں کی جانب سے ہمیں دو طرح کے رسپانس ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ قرآن پڑھتے ہیں اور جو سوالات ان کے ذہن میں پیدا ہوتے وہ ہم سے پوچھتے ہیں، اور مثبت تبصرہ بھی کرتے ہیں۔دوسرا یہ کہ کچھ لوگ باقاعدہ قرآن کے ڈسٹریبیوٹر بن جاتے ہیں۔اللہ تعالی اس کام کو اور آگے بڑھائے۔ (آمین)
2 ۔ قارئین الرسالہ حلقہ ناگپور و کامٹی کی ماہانہ میٹنگ بروز اتوار، مورخہ 7 اگست 2016، ساجد احمد خان صاحب (کامٹی)کے مکان پر ہوئی ۔ میٹنگ میں یہ امور طے پائے کہ اطراف \کے قارئین الرسالہ سے رابطہ قائم کرکے ان کو دعوتی کام کی ترغیب دی جائے۔ تعلیم یافتہ حضرات سے ملاقات کرکے ان کو الرسالہ (اردو اور انگریزی) کا قاری بنانے کی کوشش کی جائے۔ نیز صدر اسلامی مرکز سے براہ راست تربیت کے لیے دہلی کا ایک سفر ہونا چاہیے۔
3 ۔ ڈی ایم سہارن پور مسٹر پون کمار (آئی اے ایس) کا ٹرانسفر لکھنؤ ہوگیا ہے۔ وہ ہندستان کے پہلے ایسے ڈی ایم ہیں جنھوں نے صدر اسلامی مرکز کی تمام ہندی انگلش کتابوں کو پڑھا ہے۔ وہ خود بھی ایک رائٹر ہیں۔ وہ مولانا کو امبیسڈر آف پیس مانتے ہیں۔ ان کے لئے منعقد الوداعیہ تقریب میں سی پی ایس ٹیم نے ان کو صدر اسلامی مرکز کی ایک انگلش کتاب ’انڈین مسلمس‘ پیش کی۔ہم امید کرتے ہیں کہ مسٹر پون کمار لکھنؤ میں بھی دعوہ ورک کرتے رہیں گے۔ نیز ان کی بیوی مس انجو سنگھ (پی سی ایس) جو کہ پیس مشن سے جڑی ہوئی ہیں، وہ بھی لکھنؤ میں دعوہ ورک کرتی رہیں گی۔ ایک دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر آر آر اگروال جو کہ قرآن اور گاڈ ارائزز بڑی تعداد میں مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی (رامپور) میں تقسیم کر تے رہے ہیں، گلوبل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، انبالہ کے ڈائریکٹر بن گئے ہیں۔ وہ وہاں بھی مسلسل قرآن اور دوسری تقسیم کررہے ہیں ،نہ صرف طلبہ کے درمیان بلکہ مہمانوں اور اسٹاف کے درمیان بھی۔ (ڈاکٹر محمد اسلم خان)
4 - Last week a 22 year old boy passed away in an accident. On his funeral many white families came to the mosque. I made 25 sets containing a copy of the English translation of the Quran, The Reality of Life, Islam in Brief and Muhammad the Ideal Character. I gave the gifts to the guests, saying that this was a gift for them. Alhamdulillah, everyone took it happily.(Gulzeba Ahmad, Maryland, US(
5۔ بعد سلام عرض ہے کہ الرسالہ کافی پسند آرہا ہے۔ میں رمضان شریف میں روزانہ افطار سے قبل آپ کے لیے خوب دعائیں کرتا ہوں۔ اللہ پاک آپ کا سایہ اس امت پر قائم رکھے۔ آپ کے اصلاحی کاموں کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ اللہ پاک آپ کو ہر طرح کی رحمتوں سے نوازے۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ (محمد نثار اختر انصاری، ناگپور)
6۔ صدر اسلامی مرکزکےمنتخب اردو مضامین کو ڈاکٹر یوگندر سکند (بنگلور)نے انگریزی میں Jihad, Peace and Inter-Community Relations in Islamکے نام سے ترجمہ و ترتیب دیا ہے۔ تقریباً 140 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو روپا اینڈ کمپنی نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کو پبلشر کے علاوہ گڈورڈ بکس سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔حال ہی میں اس کتاب پر یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر فائر اسٹون(Reuven Firestone)نے تبصرہ لکھا ہے۔ ذیل میں ان کا تبصرہ نقل کیا جاتا ہے:

Yoginder Sikand writes in his preface, “New Delhi-based Maulana Wahiddudin Khan is one of the few ulama or traditionally-trained Islamic scholars throughout the world to have made a deep and incisive study of the politics and ideology of extreme self-styled ‘Islamic’ groups and to have critiqued them from within an Islamic framework”. Khan is indeed a remarkable thinker and this is a remarkable book for its frank, self-critical approach.

The Maulana (an honorific meaning, literally, “our master”) had a thoroughly traditional pious village upbringing and then formal religious training in what is today the Indian state of Uttar Pradesh. When he returned to his village after his studies he experienced a personal crisis in the tension between tradition and modernity, a tension which he eventually resolved through a journey in which he engaged independently and directly with the Qur’an and Tradition. In the process he taught himself English, through which he encountered Western writers and philosophers. By engaging in both traditional and modern discourses he was able to resolve many of the conflicts that plagued him, resulting in an authentic vision of Islam that is also consonant with the moral-ethical language and concerns of a universal perspective.

Four interrelated themes pervade the volume: 1) a critique of the politics and ideology of radical, self-styled Islamists who claim to be engaged in Islamic jihad, 2) discussions about how jihad is conceived in the Qur’an and the Hadith (traditions attributed to Muhammad that treat his words and deeds) and how many modern jihadists have deviated from them, 3) authentic Islamic teachings supporting inter-religious and cross-community dialogue and friendship and how self-styled jihadists have failed to understand them, and 4) the need for Muslims to abandon slavish devotion to medieval precedent and to engage in ijtihad or critical, contextual analysis of the teachings of Qur’an and Hadith on issues of contemporary concern, including those related to war, peace, and inter-religious and inter-community relations.

Having written more than 150 books, Khan is perhaps the most prolific contemporary Muslim religious scholar in the second largest Muslim population in the world. Most of his works, however, are available only in Urdu. Yoginder Sikand’s careful editing and translation of Khan’s work is an important contribution to the growing literature on “holy war” ideology in world religions, and an incisive response to the complex problems behind the current growth of Islamist radicalism among some Muslims. The book is a must-read for all who are engaged in inter-religious dialogue.

■ I am a great fan of Maulana’s articles and very much impressed with his impressive way of writing. Al-Azhar University will hold an international peace conference in association of Muslim council of elders and the Vatican. We would like to invite Maulana for the Peace Conference. (Dr. Reham Abdullah, Al-Azhar University, Cairo)
■ These days, I am reading Maulana's book Quranic Wisdom. Please tell Maulana that people are learning from his writings and trying their best to understand Islam. So keep writing for seekers. (Kapila Gureja, New Delhi)
■ Spirit of Islam is a really a good magazine to help you think about the values in the Quran in a simpler way. It also helps break everything down into different chapters and sections, so it is easy to follow along. (Rabia Ahmed, New York)


واپس اوپر جائیں