Pages

Wednesday 2 March 2016

Al Risala | March 2016 (الرسالہ،مارچ)

4

-صحیح نقطۂ آغاز

5

- انٹلکچول ایمپاورمینٹ

6

- جذبۂ تعلم

7

- علم کی دوقسمیں

8

- صحیح طرزِ فکر

12

- بلندفکری

13

- پختگی کیا ہے

14

- کامل انسان

15

- مثبت فکر

16

- مثبت سوچ، منفی سوچ

18

- غصہ کا مثبت پہلو

19

- شخصیت کاارتقا

20

- شخصیت کی تعمیر

24

- جانچنے کا معیار

25

- علمی طرزِ استدلال

26

- منطقی طرزِ استدلال

27

- غلط جنرلائزیشن

28

- اختلاف کا مسئلہ

30

- اختلاف کے باوجود

31

- اختلاف ایک برکت

32

- اختلافِ رائے

33

- فکری تعدّد، فکری حریت

34

- ذہنی سانچہ

35

- تنقید کی دوقسمیں

36

- ہلاکت کیا ہے

37

- ذہنی کہر کا مسئلہ

38

- تخلیقی صلاحیت

39

- تخلیقی حل

40

- سکینہ کیا ہے

41

- حاضر دماغی

42

- شکایت بے جا

43

- دوآپشن کے درمیان

44

- تیسرا انتخاب

45

- ذہین انسان کا مسئلہ

46

- مسئلہ کا حل

47

- حقیقت پسندی، معیار پسندی

48

- اپنے آپ کو بچائیے


صحیح نقطۂ آغاز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے جب مکہ میں تھے تو وہاں کے سرداروں نے آپ کو حکومت کی پیش کش کی۔انھوں نے کہا:إنْ کنتَ ترید بہِ مُلکاً ملّکناک علینا (اگر تم حکومت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنے اوپر حاکم بنانے کے لیے تیار ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ما أطلب الملک علیکم (میں تمھارے اوپر حکومت نہیں چاہتا)۔البدایة والنہایة، 3/81۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب سے اسلامی تحریک کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اسلامی تحریک کا نقطۂ آغاز (starting point) حکومت یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اسلامی تحریک کا اصل نقطۂ آغاز فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا ہے، ایک ایک فرد کے ذہن کی تشکیل نو (re-engineering of the mind) کرنا ہے۔
اسلامی تحریک کا فارمولا دو نکات (points)پر مشتمل ہے— فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا، اور پولٹکل سسٹم کے معاملے میں حالتِ موجودہ کو تسلیم کر لینا:
Change in personality, statusquoism in political system
اسلامی تحریک کی یہی فطری ترتیب ہے۔ اگر اِس ترتیب کو بدل دیا جائے، یعنی اگر پولٹکل سسٹم کو بدلنے سے تحریک کا آغاز کیا جائے تو سوسال کی جدوجہد کے بعد بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ فرد کی تبدیلی سے آغاز کرکے نظام کی تبدیلی تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اگر نظام کی تبدیلی سے آغاز کیا جائے تو ایسی تحریک کسی انجام تک پہنچنے والی نہیں۔ ایسی تحریک صرف تباہی میںاضافہ کرے گی، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
فرد کے اندر ذہنی تبدیلی سے تحریک کاآغاز کرنے کی صورت میں فی الفور تحریک کو مثبت آغاز مل جاتا ہے۔ لیکن سسٹم سے آغاز کرنے کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آخر کار تحریک ایک بند گلی میں پہنچ کر رک جاتی ہے۔ اس کے پیچھے بھی اندھیرا ہوتا ہے اور اس کے آگے بھی اندھیرا۔
واپس اوپر جائیں

انٹلکچول ایمپاورمینٹ

آج کل ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے، وہ ایمپاور مینٹ(empowerment) کا لفظ ہے۔ایمپاورمینٹ کا مطلب وہی ہے جس کو عربی زبان میں تمکین کہتے ہیں، یعنی طاقت ور بنانا۔ این جی او (NGOs) سے وابستہ لوگ اکثر اِس لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً:
Women empowerment, rural empowerment, Muslim empowerment, etc.
اِس قسم کے ایمپاورمینٹ کی جزئی افادیت ہوسکتی ہے، لیکن زیادہ اہم ایمپاورمینٹ، انٹلکچول ایمپاورمینٹ (intellectual empowerment) ہے۔ یعنی لوگوں کو فکری طاقت دینا، اُن کے اندر معاملہ فہمی کی صلاحیت پیدا کرنا، ان کے اندر آرٹ آف تھنکنگ (art of thinking) پیدا کرنا، ان کو اِس قابل بنانا کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو سمجھیں، وہ درست منصوبہ بندی کے ساتھ اپنا کام کریں۔ لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا، فارمل ایجوکیشن کے معنوںمیں بھی، اور انفارمل ایجوکیشن کے معنوں میں بھی۔
لوگوں کے اندر سب سے زیادہ کمی یہی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ صحیح طرزِ فکر کیا ہے اور غلط طرزِ فکر کیا۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ عام طورپر لوگ شکایت کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ وہ اپنی غلط سوچ اور اپنے غلط عمل کی قیمت ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی سازش اور ظلم کی بنا پر ایسا ہورہا ہے۔
اِسی بنا پر لوگوں کا یہ حال ہے کہ جہاں چپ رہنا چاہیے، وہاں وہ بولتے ہیں۔ جہاں اقدام نہ کرنا چاہیے، وہاں وہ چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ جہاں ایڈجسٹ کرنا چاہیے، وہاں وہ لڑنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جن لوگوں سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہئے، اُن کو وہ اپنا دشمن سمجھ کر اُن سے دور ہوجاتے ہیں۔ وہ خود ساختہ طورپر دوسروں کو اپنا ’’غیر‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ اِس دنیا میں ہرشخص اپنا ہے، کوئی بھی کسی کے لیے غیر نہیں۔ اِسی بنا پر لوگ صبر وتحمل کی اہمیت کو نہیں سمجھتے، حالاں کہ اِس دنیا میں کامیابی کا سب سے زیادہ کار گر فارمولا وہی ہے جس کو صبر وتحمل کہا جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

جذبۂ تعلم

علم کى اہمىت کے بارے مىں اىک حدىثِ رسول اِن الفاظ مىں آئى ہے:من جاءہ الموت وہو یطلب العلم لیحیی بہ الإسلام فبینہ وبین النبیین درجة واحدة فى الجنة (سنن الدارمى، حدیث نمبر354 :) ىعنى جس شخص پر اِس حال مىں موت آئے کہ وہ علم اِس لىے سىکھ رہا ہو، تاکہ وہ اُس کے ذرىعے اسلام کا احىا کرے، تو جنت مىں اُس کے اور پىغمبروں کے درمىان صرف اىک درجے کا فرق ہوگا۔
اِس حدىث کا مطلب بوقتِ مرگ علم سىکھنا نہىں ہے، بلکہ تادمِ مرگ علم کى طلب مىں مشغول رہنا ہے۔ علم کے معاملے مىں اصل تفرىق علم دىن اور علم دنىا کى نہىں، بلکہ ىہ فرق نىت کے اعتبار سے ہے۔ دنىا کا علم بھى عىن علمِ دىن بن سکتا ہے۔
حقىقت ىہ ہے کہ اىک شخص نے اگر دىن کو اپنا مقصدِ حىات بنا لىا ہو، اُس نے پىغمبرانہ مشن کو اپنى زندگى کا نشانہ بنا رکھا ہو تو اس کا ہر علم پىغمبرانہ مشن کے لىے استعمال ہونے لگے گا۔ ہر علم اُس کے ىقىن مىں اضافہ کرے گا اور ہر علم اس کے لىے اس کے مشن کى تقوىت کا ذرىعہ بن جائے گا۔
علم کى طلب کوئى وقتى چىز نہىں ۔ اىک سچا مومن اپنى پورى عمر کے لىے علم کا طالب بن جاتا ہے۔ اگر آدمى کے اندر صحىح معنوں مىں علم کا ذوق ہو تو وہ اپنے ہر تجربے مىں علم کا رزق پاتا رہے گا۔ وہ کسى کتاب کا مطالعہ کرے گا تو اس کا ذوق کتاب کے ہر مضمون کو اس کے لىے حصولِ علم کا ذرىعہ بنا دے گا۔ وہ کسى سے گفتگو کرے گا تو وہ اپنے جذبۂ تعلُّم (spirit of learning) کى بنا پر اُس سے نئى نئى باتىں اخذ کرلے گا۔ وہ کسى چىز کا مشاہدہ کرے گا تو ہر مشاہدے مىں وہ اپنے لىے عبرت کا سامان پالے گا، حتى کہ اگر اس کے اندر علمى ذوق بھر پور طور پر زندہ ہو تو وہ اپنے مثبت ذہن کى بنا پر بے علموں سے بھى علم حاصل کرے گا اور بے ادبوں سے بھى وہ ادب کا کوئى پہلو سىکھ لے گا۔ حصولِ علم کے معاملے مىں اصل اہمىت ذوق کى ہے، نہ کہ محض واقفىت کى۔
واپس اوپر جائیں

علم کی دوقسمیں

علم کی دو قسمیں ہیں — ایک وہ علم جس کا تعلق انسانی فکر اور انسانی زندگی سے ہوتا ہے۔ ایسے علم کو اصطلاح میں علمِ انسانی (humanities) کہا جاتا ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جس کا تعلق مادی شعبہ سے ہے۔ ایسے علوم کو سائنسی علوم کہاجاتا ہے۔ دونوں قسم کے علم کے مطالعے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ ایک علم کے طریقے کو دوسرے علم کے معاملے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
مثلاً سائنسی علوم کی بنیاد ریاضیات (mathematics) پر ہے۔ ایسے علوم میں قطعی استدلال یا ناقابلِ انکار استدلال ممکن ہوتا ہے۔ ان کو دو اور دوچار کی طرح ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اِس لیے سائنسی علوم میں اختلاف نہیں پایا جاتا۔
سائنسی علوم میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر مختلف اہلِ علم کا اتفاقِ رائے حاصل کرلیا جائے۔ مگر علمِ انسانی (humanities) میں اِس قسم کا ریاضیاتی استدلال ممکن نہیں۔ اِس لیے علمِ انسانی کے معاملے میں لازمی اتفاقِ رائے بھی ممکن نہیں۔
دونوں قسم کے علوم میں اِس فرق سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ جو شخص علمِ انسانی یا مذہب کے معاملے میں یقین کا درجہ حاصل کرنا چاہے، اُس کو یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ یہاں سائنسی علوم کی مانند ریاضیاتی استدلال ممکن ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی علوم کا معاملہ ففٹی ففٹی کے اصول پر مبنی ہے۔ پچاس فی صد استدلال (reasoning) اور پچاس فی صد وجدان (intuition)۔
پہلے جزء کا تعلق معلومات (information) سے ہے، اور دوسرا جزء معرفت یا حقیقت شناسی (realization of the truth) سے تعلق رکھتا ہے۔ جو آدمی صرف معلومات کو جانتا ہو، مگر اس کے اندر حقیقت شناسی کی صلاحیت موجود نہ ہو، وہ ہمیشہ ذہنی انتشار (confusion) میں مبتلا رہے گا، وہ کبھی سچائی تک پہنچ نہ سکے گا۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے گفتگو کے دوران کنفیوژن کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ یہ ایک بے حد اہم مسئلہ ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ 99 فیصد سے زیادہ لوگ کنفیوزڈ تھنکِنگ (confused thinking) میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں جس کو رائٹ تھنکنگ (right thinking) کہا جاتا ہے۔ رائٹ تھنکنگ دراصل سدادِ فکر (sound thinking) کا دوسرا نام ہے۔ انسان کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ آرٹ آف تھنکنگ میں مہارت حاصل کرے۔ اس کے بغیر اس کی پوری زندگی بے معنی ہو کر رہ جائے گی، فکری اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔
کنفیوژن کا یہ مسئلہ صرف انسان کا مسئلہ ہے۔حیوانی دنیا (animal world) اس مسئلے سے آشنا نہیں۔ کوئی بھی حیوان اپنی زندگی کا کورس متعین کرنے کے لیے کبھی کنفیوژن کا شکار نہیں ہوتا۔ چیونٹی سے لے کر شیر تک اورمچھلی سے لے کر چڑیا تک ہر حیوان کارویہ ہمیشہ درست رویہ ہوتا ہے۔ ہر حیوان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا مالک ہے۔ حیوانات کے اس قابلِ رشک پہلو کو ٹی وی پر اینمل ورلڈ (Animal World) کے پروگرام میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حیوانات معیاری حد تک ٹھیک وہی کرتے ہیں جو کہ ازروئے واقعہ انھیں کرنا چاہیے۔
اس کے مقابلے میںانسان کو دیکھئے تو یہاں بالکل مختلف منظر دکھائی دے گا۔ انسان فکری بے راہ روی کا نمونہ نظر آتا ہے۔ اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس فرق کا بنیادی سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ تنظیمِ فکر(thought management) ہے۔ حیوانات میں تنظیم فکر کامل طورپر موجود ہے۔ جب کہ انسان میں تنظیم فکر کا فقدان ہے۔
یہاں دوبارہ یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حیوان اور انسان میں یہ فرق کیوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حیوان اپنی جبلت (instinct) سے کنٹرول ہوتا ہے، اس کی جبلت اس کے اندر تنظیم فکر کی یقینی ضمانت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میںانسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ انسان آزادانہ طورپر سوچتا ہے اور خود اپنی آزادی (free will) کے تحت رائے قائم کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو اپنی فکری تنظیم خودہی انجام دینا ہے۔ اس کو خود اپنے فیصلے کے تحت اپنے آپ کو فکری ڈسپلن کا پابند بنانا ہے۔
انسان کے اندر فکری تنظیم (thought management) کا عمل (process) کیوں درست طور پر جاری نہیں رہتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان معلومات کے جنگل کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کے اندر وہ فکری استعداد موجود ہو جس کے ذریعے وہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant)کے فرق کو جانے۔ وہ غیر متعلق باتوں کو چھوڑتے ہوئے متعلق باتوں پر اپنی نظر جمائے رہے۔ یہی وہ واحد آرٹ ہے جو انسان کے لیے صحت فکر کا ضامن ہے۔
چند مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ اکثر لوگ ڈارون ازم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ زندگی کا ظہور جب ارتقا (evolution) کے ذریعے ہوا تو اب خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔ مگر یہ صرف مغالطہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ ارتقا کا نظریہ اولاً تو ابھی تک کوئی ثابت شدہ واقعہ نہیں۔اور اگر بالفرض وہ واقعہ ہو تب بھی وہ خالق کے عقیدے کی تردید نہیں۔ نظریۂ ارتقا زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ خالق کا طریقہ خصوصی تخلیق(special creation) نہیں، بلکہ ارتقائی تخلیق (evolutionary creation) ہے۔ نظریۂ ارتقا کا تعلق تخلیق کے پراسس (process of creation) سے ہے، نہ کہ خود خالق سے۔
اسی طرح کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اسلام ابدی مذہب نہیںہوسکتا۔ کیوں کہ زندگی کے حالات بدلتے رہـتے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ لوگوں کو ازسرِ نو رہنمائی دی جائے۔ مگر یہ صرف فکری کنفیوژن کی بات ہے۔ کیوں کہ اسلام اپنے اصل کے اعتبار سے صرف اساسات (basics) کا مجموعہ ہے۔ اور اساسات میں کبھی تبدیلی نہیںہوتی۔ جن چیزوں میںتبدیلی ہوتی ہے وہ غیر اساسی چیزیں (non-basics) ہیں۔ اور غیر اساسی چیزوں میں تبدیلی کے اس مسئلے کے لیے اسلام میں اجتہادکا طریقہ رکھا گیا ہے جو یقینی طورپر اس مسئلے کا مکمل حل ہے۔
بہت سے لوگ مدر ٹریسا کو ماڈل سمجھتے ہیں۔ مگر یہ ادھوری سوچ کا نتیجہ ہے۔ مدر ٹریسا علامت ہے انسان کی جسمانی تکلیف کو دور کرنے کی۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کی جسمانی تکلیف دور کرنا ایک مفید کام ہونے کے باوجود وہ اصل کام نہیں۔ اس لیے کہ انسان ایک فکری حیوان (thinking animal) ہے۔ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہوتے ہی وہ دوسری شدید تر فکری بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مثلاً تکبر، حسد، انتقام، اقتدار پسندی، خود غرضی، عصبیت، بے اعترافی اور سرکشی، وغیرہ۔
تجربہ بتا تا ہے کہ انسان اگر مسائل کے درمیان ہو تو اس کے اندر تواضع (modesty) پرورش پاتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے نو پرابلم انسان بنا رہتا ہے۔ لوگوں کی جسمانی تکلیف کو دور کرنا صرف ایک جزئی کام ہے۔ زیادہ بڑا کام یہ ہے کہ انسان کے اندر صحیح طرزِ فکر (right thinking) کا مادہ پیدا کیا جائے، اس کو اس کے روحانی ارتقا (spiritual development) میں مدد دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ مدر ٹریسا اپنے مشن کے ابتدائی مرحلے میں حالت اطمینان میں ـتھیں، مگر وہ اپنے مشن کے آخری مرحلے میں مایوس ہو کر مریں۔ کیوں کہ جب مدر ٹریسا کے ادارے کو کافی شہرت اوردولت مل گئی تو ان کے ’’تندرست‘‘ ساتھیوں نے ان کو ایسی پریشانی میں مبتلا کردیا جس کا تجربہ ان کو اپنے ’’مریض‘ ‘ ساتھیوں سے نہیں ہوا تھا۔
1947 سے پہلے کے دور میں اقبال اور جناح جیسے لوگوں نے یہ سوچا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ کے مقابلے میں علیحدہ مسلم لینڈ مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ہے۔ مگر جب یہ علیحدہ مسلم لینڈ بن گیا تو معلوم ہوا کہ اس علیحدہ مسلم لینڈ میںاس سے بھی زیادہ مسائل ہیں جتنا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ میں ہیں، یا ہوسکتے تھے۔ اس اندوہ ناک انجام کا سبب یہ ہے کہ اقبال اور جناح جیسے لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے کہ پاکیزہ معاشرے کا تعلق پاکیزہ انسان سے ہے۔ پاکیزہ معاشرہ اس طرح نہیں بن سکتا کہ کسی لینڈ کو سیاسی اعتبار سے الگ کرکے اس کا نام پاکیزہ لینڈ رکھ دیا جائے۔
اس معاملے میںانسان کی ایک سنگین غلطی یہ ہے کہ وہ ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ سے جوڑ کر نہیں دیکھ پاتا۔ چناں چہ علاحدگی پسندی کی جو سیاست پاکستان کی صورت میں اندوہ ناک حد تک ناکام ہوچکی ہے، اب کشمیر کے مسلمان ٹھیک اسی سیاست کو دہرانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے انجام سے کوئی سبق نہیں لیا۔ حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر خواہ آزاد کشمیر بنے یا پاکستانی کشمیر، دونوں حالتوں میں اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ حالات کے اعتبار سے کشمیر کے لیے بہترین پالیسی یہ تھی کہ وہ تاریخ کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے ہندستان کے ساتھ مل کر رہے۔ ہندو- مسلم مشترک سماج کشمیر کی ترقی کے لیے زیادہ مفید ہے۔
سدادِ فکر کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی واقعات کو تقابلی انداز میں دیکھ سکے۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو شیکسپئر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
It is in comparison that we understand.
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے میں یہاںایک مثال دوں گا۔ ایمرجنسی کے بعد 1970 میں انڈیا کا جنرل الیکشن ہوا۔ اس وقت جے پرکاش نرائن نے نان کانگریس ازم کی تحریک چلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس راج ملک کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ انھوں نے نعرہ دیا کہ کانگریس کو ہٹاؤ، ملک میں ٹوٹل ریولیوشن لاؤ۔ ایمرجنسی کی وجہ سے عوام بہت برہم تھے۔ چناں چہ نان کانگریس ازم کا نعرہ کامیاب ہوا اور کانگریس، الیکشن میں بری طرح ہار گئی۔ اس کے بعد نئی دہلی میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ حکومتی تبدیلی جے پرکاش نرائن کے پروگرام کے عین مطابق تھی۔
مگر جہاں تک حقیقی سطح پر سماجی اور قومی حالات کا معاملہ ہے اس میں کچھ بھی تبدیلی نہیںآئی، بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوگیا۔ حتیٰ کہ خود جنتا پارٹی کی حکومت اپنا ٹرم پورا نہ کرسکی اور ڈھائی سال کے اندر ہی ختم ہوگئی۔
??™
حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کے بگاڑ کا تعلق سوچ سے ہے۔
اصلاح کا راز یہ ہے کہ انسانی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔
انسانی سوچ کو بدلے بغیر کوئی بھی اصلاح ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بلندفکری

موجودہ دنیا میں آدمی ہر وقت اپنے قریبی حالات میں گھرا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں صحیح سوچ کا مالک صرف وہ شخص بنے گا جو اپنے اندر بلند فکری (high thinking) کی صفت پیدا کرے، وہ اپنے قریبی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچے، وہ غیر متاثر ذہن کے تحت معاملات پر رائے قائم کرے۔ اِس طرزِ فکر کا فارمولا صرف ایک ہے— اپنی سطح سے اوپر اٹھ کر سوچنا:
To think beyond the limit
آدمی ہمیشہ کچھ لوگوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے اس کو بار بار ناخوش گوار قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن ناخوش گوار تجربات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر بطور ردّ عمل طرح طرح کے غیر حقیقی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً غصہ، حسد، نفرت، انتقام، احساسِ برتری، یا احساسِ کم تری، وغیرہ۔ ہر آدمی اِسی قسم کے منفی احساسات کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ یہ احساسات جو ہمیشہ رد عمل کی نفسیات کے تحت پیدا ہوتے ہیں، وہ انسان کو غیر حقیقت پسندانہ سوچ میں مبتلا کردیتے ہیں۔وہ فطرت کے مقرر راستے سے ہٹ کر غیر فطری راستے پر چلنے لگتا ہے۔
اِس دنیا میں کامیابی کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے، وہ متاثر ذہن کے تحت کوئی فیصلہ نہ کرے۔ وہ اپنے اندر وہ چیز پیدا کرے جس کو غیر متعصبانہ ذہن، یا تخلیقی فکر (creative thinking) کہاجاتاہے۔ ایسا ہی انسان اِس دنیا میں درست انداز میں سوچے گا اور اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی کرے گا اورآخر کار کامیابی کی منزل تک پہنچے گا۔
بلند فکری کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ بلند فکری میں جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ ڈسٹریکشن (distraction) ہے، یعنی ذہن کا مختلف سمتوں میں منتشر ہوجانا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کوہر قسم کے ذہنی انتشار سے بچائے، تاکہ وہ اپنے اندر صحتِ فکر کو قائم رکھ سکے۔ یہ دراصل صحتِ فکر ہی ہے جو انسان کو حیوان سے ممیز کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

پختگی کیا ہے

انسانوں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں— ناپختہ ذہن والے، اور پختہ ذہن والے۔ نا پختہ ذہن وہ ہے جو جذباتی طور پر سوچے، جو رومانی خیالات میں جیے، جو اپنی خواہشات کی پیروی کرے، نہ کہ حقائقِ حیات کی۔ اِس کے مقابلے میں پختہ ذہن والا انسان وہ ہے جو اپنے جذبات سے اوپر اٹھ کر حقیقتوں کو سمجھے، جو اپنے ذہنی خول سے باہر آکر چیزوں کو دیکھے اور حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی رائے قائم کرے۔ پختگی (maturity) اِس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی اُن چیزوں کے ساتھ نارمل طریقے سے رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا:
Maturity is the ability to live with things you cannot change.
ہر آدمی اپنی سوچ اور اپنے جذبات کے لحاظ سے ایک مستقل ہستی ہے، وہ اپنے آپ میں ایک کائنات ہے۔ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ وہ جیسے چاہتا ہے، ویسے دنیا میں رہے۔ وہ اپنے خوابوںکے مطابق ایک پسندیدہ دنیا کی تعمیر کرسکے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں رہنا پڑتا ہے جس کو اس نے خود نہیں بنایا ہے۔ وہ ایک ایسے ماحول میں جینے پر مجبور ہے جس کی تشکیل اس نے خود نہیں کی۔ ایسی حالت میں کسی عورت یا مرد کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے— یا تووہ دنیا سے عدم موافقت کی پالیسی اختیار کرکے خود کشی کرلے، ذہنی خود کشی یا جسمانی خود کشی۔ اس کے لیے دوسرا انتخاب یہ ہے کہ وہ بظاہر غیر مطلوب دنیا کے ساتھ موافقت کرنے کا آرٹ سیکھے، وہ ناممکن سے نہ ٹکرائے اور صرف ممکن کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی گزارے۔
موجودہ دنیا میں ایڈجسٹ مینٹ کی پالیسی ہی واحد قابلِ عمل پالیسی ہے۔ ایڈجسٹ مینٹ کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اپنی توانائی کو ضائع ہونے سے بچائے۔ وہ غیر ضروری ٹنشن (tension) سے محفوظ رہ کر اپنا مطلوب عمل انجام دے سکے۔ وہ درمیان میںرکے بغیر اپنے سفرکو جاری رکھے، یہاں تک کہ اپنی آخری منزل پر پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں

کامل انسان

کامل انسان کون ہے۔ کامل انسان وہ ہے جس کے اندر انسانی صفات کامل درجہ میں پائی جاتی ہوں۔ جس کی شخصیت میں اوصافِ آدمیت اپنی کامل صورت میں اکھٹا ہوجائیں۔ جو ان خصوصیات کا عملی نمونہ بن جائے جو امکانی طورپر ہر فرد کے اندر اس کے خالق نے رکھ دی ہیں۔
ایسا انسان متوازن شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ نفسیاتی پیچیدگی سے خالی ہوتا ہے۔ وہ نفس امّارہ (یوسف 53 :)پر نفس لوامہ (القیامة2 :)کو غالب کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ النفس المطمئنۃ (الفجر27 :)کا مصداق بن جاتا ہے۔یہ وہ انسان ہے جو دنیوی چیزوں سے گزر کر حقیقت اعلیٰ میں جینے لگے۔ جو ظاہری اہمیت کی چیزوں سے اوپر اٹھ کر معنوی اہمیت کی چیزوں میں گم ہوجائے، جو ارنا الأشیاء کما ھی کے درجہ میں پہنچ جائے اور چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے، نہ کہ ان کی اس شکل میں جیسا کہ وہ بظاہر دکھائی دیتی ہیں۔
یہ آدمی وہ ہے جو ایک دلیل کے آگے اس طرح جھک جائے جس طرح کوئی شخص طاقت کے آگے جھکتا ہے۔جو بات کو خود بات کے اعتبار سے دیکھے، نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ اس کے موافق ہے یا اس کے خلاف۔ جو اعلیٰ ترین صلاحیت رکھنے کے باوجود آخری حد تک متواضع بن جائے۔ جس کا دل ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو۔ جو اپنے اور غیر کا فرق کیے بغیر لوگوںسے معاملہ کرسکتا ہو۔ جو ذاتی مفاد اور شخصی محرکات سے آخری حد تک بلند ہو۔ جو اپنی ذات میں جینے کے بجائے برتر حقائق پر جیتاہو۔
ہر انسان کو خدا نے امکانی طورپر انسانِ کامل ہی بنایا ہے۔مگر اس امکانی کاملیت کو ایک واقعی شخصیت میں ظاہر کرنا، یہ ہر شخص کا اپنا کام ہے۔ ہر پیدا ہونے والے انسان کا کیس اسفل سافلین کا کیس بن جاتا ہے۔یہ اس کی اپنی ارادی کوشش ہے جو دوبارہ اس کو احسن تقویم کے درجے تک پہنچاتی ہے۔کامل انسان بننے کا راز کامل تقوی ہے۔ یہ دراصل اللہ کا خوف ہے جو کسی انسان کو کامل انسان بنا دیتا ہے۔ کامل انسان بننے کا کوئی اور طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مثبت فکر

دور اول کے مسلمانوں نے جو بے نظیر کامیابی حاصل کی اس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان میں کا ہر فرد مکمل معنوں میں مثبت سوچ (positive thinking) کا مالک تھا۔ وہ ،قرآن کے مطابق عسر میں یسر کا پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ وہ بظاہر شکست کے واقعہ میں فتح کا راز دریافت کر لیتا تھا۔ اس کے لئے پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مثبت خوراک کا دستر خوان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہی مزاج تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جب مسلم سلطنتیں اہل مغرب کے ہاتھوں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد جو مسلم رہنما اٹھے وہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے تھے۔انہوں نے دور جدید کی مسلم نسلوں کو احتجاجی ذہن میں مبتلا کر دیا۔ ساری دنیا کے مسلمان ، خواص اور عوام دونوں احساس محرومی (persecution complex) میں مبتلا ہوگئے۔ اس نازک تاریخی موقع پر مسلم رہنمائوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلاہو گئے جس کو انگریزی میں پیرا نوئیا(paranoia) کہاجاتاہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار کر لیںگے اور اگر وہ فلاح کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار نہ کریں گے (الاعراف146 :)
اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ منفی پکار کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، مگر مثبت پکار کی طرف وہ اس طرح نہیں دوڑتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ منفی کلام حال کی زبان میں ہوتا ہے اور مثبت کلام ہمیشہ مستقبل کی زبان میں ، اور تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ مستقبل کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور حال کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت زیادہ۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ناکامی کا راز منفی طرز فکر ہے اور ہر قسم کی کامیابی کا راز مثبت طرز فکر۔ منفی طرز فکر ہر قسم کی دینی اور اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ ہے اور مثبت طرز فکر اس کے مقابلے میں ہر قسم کے دینی اور دنیوی خیر کا سر چشمہ ۔
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ، منفی سوچ

قرآن کی سورہ الاحزاب میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے، جو سارے زمین وآسمان کو نہیں دی گئی، اور وہ امانت ہے، یہی امانت وہ چیز ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے۔ امانت سے مراد دراصل وہی چیز ہے جس کو فری تھنکنگ (free-thinking) کہاجاتا ہے، یعنی آزادانہ طورپر سوچنا اور آزادانہ طورپر اپنے عمل کی پلاننگ کرنا۔ اس امانت کی صحیح ادائیگی انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہے، اور اس امانت کی ادائیگی میں ناکام ہونا انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے (33:72-73)۔
اس موقع پر قرآن میں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، ظلوم اور جہول، یعنی غیر عادل اور نادان۔ انسان اپنی آزادی کو غلط استعمال کرنے کی بنا پر بہت جلد عدل (justice) سے ہٹ جاتا ہے، اور اسی طرح وہ آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر دانش مندی (wisdom) کے راستے سے ہٹ جاتاہے۔ یہی انحراف (deviation) اس کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی اصلاح کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنی فطرت (nature) سے نہ ہٹے۔ اگر آدمی اپنے آپ پر کنٹرول کرے اور فطرت کے راستے سے نہ ہٹے تو فطرت خود ہی اس کی راہ نما بن جائے گی۔ فطرت سے ہٹنا آدمی کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے، اور فطرت پر قائم رہنا آدمی کو کامیاب بناتا ہے۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی آزمائش اس بات میں ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح انتخاب (right choice) کو لے، وہ اپنے آپ کو غلط انتخاب سے بچائے۔ صحیح انتخاب اور غلط انتخاب کا یہ معاملہ فکر سے بھی تعلق رکھتا ہے، اور عمل سے بھی۔
فکرکے اعتبار سے صحیح انتخاب وہ ہے جس کا نمونہ آغازِحیات کے وقت فرشتوں نے اختیار کیا، اور غلط انتخاب وہ ہے جس کو ابلیس نے اپنا شیوہ بنایا۔ فرشتوں سے جب کہاگیا کہ انسان کے آگے جھک جاؤ تو وہ جھک گئے۔ اس کے برعکس، ابلیس اس پر راضی نہ ہوا۔ اس نے یہ اعتراض کیا کہ انسان کو خلیفة الارض کیوں بنایا گیا۔ یہ اعتراض سلیکٹیو تھنکنگ(selective thinking) کی ایک مثال تھی۔ ابلیس جنوں کا سردار تھا۔ جن کو خدا نے اس سے زیادہ چیز دی تھی، یعنی خلافت کائنات۔ لیکن ابلیس نے اس پہلو کو نظر انداز کیا اور صرف یہ سوچا کہ انسان کو زمین کی خلافت کیوں دی گئی۔
یہی برائی پوری تاریخ میں رائج ہے۔ انسانوں کی ننانوے فیصد سے زیادہ تعدادمنفی سوچ میں پڑی ہوئی ہے، یعنی انتخابی سوچ (selective thinking)۔ ملے ہوئے کو نظر انداز کرنا، اور نہ ملے ہوئے کو مسئلہ بنا کر اس کو اپنی سوچ کا محور بنانا۔
اس معاملے میں مسلمانوں کا استثنا نہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان ساری دنیا میں ہر قسم کے بہترین مواقع پائے ہوئے ہیں، جس طرح دوسرےلوگ ان کو پائے ہوئے ہیں۔ لیکن فطرت کے قانون کے تحت ایسا ہے کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو مسلمانوں کو نہیں ملی۔ مسلمان یہ کررہے ہیں کہ اسی نہ ملے ہوئے کو اپنی سوچ کا مرکز ومحور بنائے ہوئے ہیں اور ملے ہوئے کو نظر انداز کررکھا ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان ساری دنیا میں منفی سوچ کی دلدل میں پڑے ہوئے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ شکر سے محروم ہیں جو کسی انسان کی سب سے بڑی عبادت ہے۔
مسلمانوں کی اس منفی سوچ کا سبب کیا ہے، وہ ہے 99 فی صد کو نظر انداز کرنا، اور ایک فی صد کو لے کر اپنی رائے بنانا۔ یہ نہایت برا طریقہ ہے۔ یہ اللہ کی سنت کے خلاف ہے۔ جو لوگ اس میں مبتلا ہوں، ان کو اس کی سب سے بڑی قیمت یہ دینی پڑے گی کہ ان کے اندر مثبت شخصیت نہ بنے — مثبت شخصیت سے محرومی کا مطلب ہے اللہ کی رحمت سے محرومی۔
واپس اوپر جائیں

غصہ کا مثبت پہلو

غصہ (anger) کو عام طور پر ایک بری چیز سمجھا جاتاہے۔ لیکن خالق نے کوئی بری چیز پیدا نہیں کی۔ اور غصہ بھی ایک تخلیق ہے۔ اس لئے وہ شرّ محض نہیں ہوسکتا۔غصہ انسانی فطرت کے اندر جاری ہونے والا ایک عمل ہے۔ غصہ اپنے آپ نہیں آتا۔ غصہ آنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی آدمی آپ کو مشتعل کردے۔ غصہ برین اسٹارمنگ (brainstorming) کا ذریعہ ہے۔
جب کسی آدمی کو غصہ آتا ہے تو اس کے دماغ میں غیر معمولی تعداد میں انرجی خارج (release) ہوتی ہے۔ یہ کسی انسان کے لئے ایک بے حد اہم وقت ہوتا ہے۔ اس وقت آدمی کے لئے دو امکانات ہوتے ہیں۔ وہ اپنی خارج شدہ انرجی کو منفی رخ میں ڈائیورٹ (divert) کرے۔ یا وہ اس کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرے۔
آدمی اگر اپنی انرجی کو منفی رخ میں ڈائیورٹ کرے گا تو اس سے اس کے اندر ٹینشن، نفرت، انتقام حتی کہ تشدد کا مزاج پیداہوجائے گا۔یہ چیزیں بلا شبہہ انسان کی ہلاکت کا ذریعہ ہیں۔ اس کے برعکس اگر انسان اپنی انرجی کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرے تو اس سے اُس کے اندر ذہنی ارتقا، فکری تخلیقیت، تعمیری مزاج اور مثبت سوچ پیدا ہوگی۔ اور یہ تمام چیزیں انسان کی شخصیت کی اعلی تعمیر کے لئے نہایت ضروری ہیں۔
غصہ کے وقت پیدا ہونے والی انرجی کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرنے کے لیے کسی مزید کوشش کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل فطرت کے قانون کے تحت آدمی کے اندر اپنے آپ ظہور میں آتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ آدمی غصہ کے وقت چپ ہوجائے۔
اگر آدمی اس وقت اِس ذہنی انضباط (intellectual discipline) کا ثبوت دے تو اس کی فطرت خود عمل کرے گی اور غصہ کے وقت خارج ہونے والی انرجی کو اپنے آپ مثبت رخ پر موڑ دے گی۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کاارتقا

قرآن کی ایک اصطلاح تزکیہ ہے۔ انسانی فلاح کا ذریعہ قرآن میں تزکیہ ( 91:9-10) کو بتایا گیاہے۔ قرآن کے مطابق جنت کی اعلی دنیا میں صرف ان افراد کو داخلہ ملے گا جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ ( 20:76) کیا تھا۔
تزکیہ کا لفظی مطلب تطہیر (purification) ہے۔ جس طرح خام لوہا (ore) مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک با معنی مشین کی صورت اختیار کرتاہے، اسی طرح انسان کی شخصیت بھی مختلف قسم کے شدید مراحل سے گزر کر ایک مزکی شخصیت (purified soul) کی صورت اختیار کرتی ہے۔
یہ شدید مراحل کیا ہیں، یہ شدید مراحل وہ ہیں جب کہ انسان کو غیر مطلوب حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ یہ غیر مطلوب حالات وہ مواقع ہیں، جن سے گزرتے ہوئے انسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے۔
جب انسان کی ایگو پر ضرب لگے اور وہ عدل پر قائم رہے، جب انسان کو غصہ آئے اور وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرلے، جب انسان کو کوئی بڑائی ملے لیکن وہ متواضع (modest) بنا رہے، جب انسان کےاندر انتقام کی آگ بھڑکے اور وہ اپنے اندر ہی اندر اس آگ کو بجھا دے، جب انسان کے اندر کسی کے خلاف نفرت جاگ اٹھے اور وہ پھر بھی اس کے لیے اپنی خیر خواہی کو باقی رکھے، جب انسان پر کوئی دباؤ نہ ہو، اس کے باوجود وہ اعتراف (acknowledgement) کا ثبوت دے، وغیرہ۔ یہی وہ مواقع ہیں جو انسان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔
یہ مواقع معتدل حالات میں پیدا نہیں ہوسکتے، یہ صرف غیر معمولی حالات (abnormal situation) میں پیداہوتے ہیں۔ قرآن کے مطابق اس امتحان میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جس کے اندر صبر کی صفت پائی جائے ( فصلت 35 :)۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی تعمیر

قرآن کی سورہ نمبر83 میں اہل تکذیب کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ(التطفیف 14 :) یعنی ان کے دلوں پر اُن کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ اس آیت میں ایک نفسیاتی معاملہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جو ضد اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس معاملہ کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
ان المؤمن اذا أذنب کانت نکتۃ سوداء فی قلبہ فان تاب ونزع واستغفر صقل قلبہ وإن زاد زادت حتی یعلو قلبہ (ابن ماجہ، حدیث نمبر7952۔ مسند احمد ،حدیث نمبر 4244)۔ یعنی مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا دھبہ پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے اور اُس سے باز آجائےاور استغفار کرے تو اس کا د ل دھبہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور اگر گناہ میں مزید اضافہ ہو تودھبہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔
یہ تمثیل کی زبان میں ایک نفسیاتی معاملہ کو بتایا گیا ہے۔ جب کوئی انسان برائی کرے اور پھر وہ جلد ہی متنبہ ہوجائے۔ وہ برائی کرنے کی خواہش کو اپنے دل سے نکال دے تواس کا دل پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ آدمی ایک کے بعد ایک برائی کرتا رہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنے دل سے اس کے اثرکو زائل نہ کرے تو دھیرے دھیرے اس کا پورا دل بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب وہ برائیوں ہی میں جینے لگتا ہے اور سچائی کی بات اس کو متاثر نہیں کرتی۔
جدید نفسیاتی مطالعہ نے اس معاملہ کو مزید واضح کیا ہے۔ اب یہ بات ایک پر اسرار عقیدہ نہیں رہی، بلکہ وہ ایک معلوم حقیقت بن گئی ہے۔ اب وہ خالص علمی اعتبار سے انسان کے لیے قابل فہم ہے۔
جدید نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے دماغ کے تین بڑے حصے ہیں۔ یہ تینوں حصے ہر عورت اور ہر مرد کے دماغ میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پیدائشی طورپر ہر انسانی دماغ کا حصہ ہیں۔ وہ تین حصے یہ ہیں:
1۔ شعوری ذہن (conscious mind)
2۔ تحت شعور (sub-conscious mind)
3۔ لاشعور (unconscious mind)
تجربہ و تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی خیال جب وہ ایک بار دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسانی دماغ کا حصہ بن جاتا ہے، اور جیسا کہ معلوم ہے، انسانی دماغ ہی در اصل انسانی شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی خیال انسان کے دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ اس کو اپنی شخصیت سے الگ کرنا چاہے تو وہ اس کو الگ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
جب کوئی بات انسان کے دماغ میں آتی ہے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت تو وہ سب سے پہلے دماغ کے شعوری حصہ میں آتی ہے۔اس کو زندہ حافظہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو فطری عمل کے تحت اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات شعوری ذہن سے چل کر ذہن کے تحت الشعور حصہ میںپہنچ جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے خیال کے اوپر آدمی کا شعوری کنٹرول صرف پچاس فیصد رہ جاتا ہے۔ پچاس فیصد وہ اس کے شعوری کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اگلی رات کو سوتا ہے تویہ خیال مزید سفر کرکے ذہن کے لاشعور حصہ میں پہنچ جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد یہ خیال اس کے شعوری کنٹرول سے پوری طرح باہر ہو جاتا ہے۔
انسانی ذہن کے یہ تینوں حصے شعور کے اعتبار سے ذہن کی تین حالتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر جہاں تک انسانی شخصیت کا تعلق ہے، وہ ہر حال میں یکساں طورپر اُس کا معمول بنی رہتی ہے۔ کوئی خیال جب تک زندہ حافظہ میں ہو تو وہ انسانی شخصیت کا معلوم حصہ ہوتا ہے۔ مگر جب وہ تحت شعور میں پہنچ جائے تو اگر چہ اب بھی وہ مکمل طورپر انسانی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے مگر عام حالات میں وہ انسان کے علم میں تازہ نہیں ہوتا۔
یہی روز مرہ کے افکار جو انسان کے ذہن میں آتے ہیں وہی اس کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ جیسے افکار ویسی شخصیت۔ مثبت افکار سے مثبت شخصیت بنے گی۔ لیکن اگر یہ افکار منفی افکار ہوں تو انسان کی شخصیت بھی منفی بنتی چلی جائے گی۔
آج کل یہ حال ہے کہ آپ جس عورت یا مرد سے ملئے ہر ایک کو آپ منفی سوچ میں مبتلا پائیں گے۔ اگر کوئی شخص بظاہر مثبت باتیں کرتا ہوا نظر آئے تب بھی اس کی یہ بات صرف اوپری طور پر ہوگی۔ اگر آپ مزید گفتگو کرکے اس کی اندرونی شخصیت کو جاننے کی کوشش کریں تو آپ پائیں گے کہ اس کی اندرونی شخصیت بھی اُتنی ہی منفی تھی جتنی کہ دوسروں کی شخصیت۔ اس طرح موجودہ زمانہ کا ہر آدمی اپنے آپ کو منفی قبرستان میں دفن کیے ہوئے ہے، اگر چہ اس کو خود بھی اس ہلاکت خیز واقعہ کی خبر نہیں۔ اس میں غالباً مذہبی انسان اور سیکولر انسان میں کوئی فرق نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سب سے بُری شخصیت منفی شخصیت ہے اور سب سے زیادہ اچھی شخصیت وہ ہے جو مثبت شخصیت ہو۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ مثبت شخصیت کی تعمیر کس طرح کی جائے۔ مذکورہ اسلامی تعلیم اور مذکورہ نفسیاتی تحقیق دونوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو اس کی ایک واضح عملی صورت بنتی ہے۔ اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے ۔
اس عمل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی منفی خیال آدمی کے ذہن میں آجائے تو وہ اس کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردے۔ خصوصی تدبیر کے ذریعہ اُس کے منفی پہلو کو مثبت پہلو میں تبدیل کرلے۔ مثلاً وہ غصہ کو فوراً معاف کردے تاکہ اس کا غصہ انتقام کی صورت اختیار نہ کرنے پائے۔ کسی کی ترقی اُس کو پسند نہ آئے تو اُسی وقت وہ اس کو نظر انداز کردے تاکہ وہ اس کی شخصیت میں حسد بن کر شامل نہ ہوسکے، وغیرہ۔
ہر بُرے خیال کے ساتھ فوراً ہی تبدیلی کا یہ عمل کرنا چاہیے۔ اگر اس میں دیر ہوئی تو جلد ہی ایسا ہوگا کہ وہ آدمی کے تحت شعور میں چلا جائے گا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ اس کے لاشعور میں داخل ہوجائے گا۔ اور جب ایسا ہوگا تو وہ آدمی کی شخصیت کا اس طرح لازمی حصہ بن جائے گا کہ آدمی چاہے بھی تو وہ اس کو اپنے سے جُدا نہ کرسکے۔
لوگ عام طورپر ایسا نہیں کرتے اور اس کی یہ بھیانک قیمت ادا کر رہے ہیں کہ ہر ایک خوبصورت کپڑوں کے پیچھے ایک منفی شخصیت کی لاش لیے ہوتا ہے۔ منفی شخصیت دراصل جہنمی شخصیت ہے۔ جو عورت یا مرد اس ہلاکت خیز انجام سے بچنا چاہتے ہوں ان کو چاہیے کہ وہ مذکورہ عمل کی تصحیح کو اپنی روزانہ کی زندگی میں شامل کرلیں۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی اور حل موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جانچنے کا معیار

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کا موضوع مصر کی سیاسی صورتِ حال تھی۔ مصر میں الیکشن ہوا اس کے بعد وہاں الاخوان المسلمون کے لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے منتخب صدر بن گئے۔ مگر ایک سال کے بعد مصرکی فوج نے ڈاکٹر مرسی کو قیادت سے ہٹادیا۔ اس کے بعد سے مصری فوج اور الاخوان المسلمون کے درمیان متشددانہ ٹکراؤ جاری ہے۔ اِس ٹکراؤ میں صرف جان ومال کا نقصان ہورہا ہے۔ اس کا کوئی مثبت نتیجہ اب تک سامنے نہ آسکا۔ اِس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مذکورہ مسلمان نے کہا کہ الاخوان المسلمون دہشت گرد تنظیم نہیں ہے:
Muslim Brotherhood is not a terrorist organization
میں نے کہا کہ آپ کا یہ تبصرہ درست نہیں۔ آپ کے بیان کے مطابق، الاخوان المسلمون کا کیس اسلام کا کیس ہے۔ وہ مصر میں اسلام لانا چاہتے ہیںاور دشمن طاقتیں ان کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ میں نے کہا کہ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ اللہ ہمیشہ اہلِ ایمان کے ساتھ ہوتاہے۔ پھر اگر الاخوان المسلمون کا کیس اسلام کا کیس ہے تو اللہ کی مدد ان کے لیے کیوں نہیں آتی۔ ایسی حالت میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ اللہ نے الاخوان المسلمون کے دشمن کے مقابلے میں ان کی حمایت نہیں کی:
God is not on the side of Muslim Brotherhood.
اللہ نے اِس دنیا کو پیدا کیا ہے، وہی اِس دنیا کو چلا رہا ہے۔ اِس دنیا کا چلانے والا کوئی انسان نہیں ہے، بلکہ اللہ رب العالمین براہِ راست طورپر اِس دنیا کی تنظیم کررہا ہے، اِس لیے دنیا میں پیش آنے والے واقعات کی توجیہہ کے لیے آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کے بارے میں قانونِ خداوندی کو دریافت کرے اور اس کی روشنی میں دنیا میں ہونے والے واقعات کی توجیہہ کرے۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ انسان کو درست رائے تک نہیں پہنچا سکتا۔ دوسرا طریقہ اندھیرے میں بھٹکنے کا راستہ ہے، نہ کہ روشنی میں سفر کرنے کا راستہ۔
واپس اوپر جائیں

علمی طرزِ استدلال

استدلال کی دو قسمیں ہیں — قیاسی استدلال اور علمی استدلال۔ قیاسی استدلال وہ ہے جس میں ایک مفروضہ کو بنیاد بنا کر اپنی بات ثابت کی گئی ہو۔ مثال کے طور پر ایک شخص یہ کہے کہ مسلمان کا منصب یہ ہے کہ وہ عالمی قیادت حاصل کرے۔ یہ کہہ کر وہ عالمی قیادت کے حصول کی تحریک چلا دے۔ اِس قسم کا استدلال ایک قیاسی استدلال ہے اور اِس بنا پر وہ بے بنیاد استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ سارے قرآن میں کہیں بھی یہ لکھا ہوا نہیں ہے کہ مسلمان کا منصب عالمی قیادت ہے۔ اِس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عالمی قیادت کے حصول کی کوشش کریں۔ اِس قسم کا استدلال بھی بے بنیاد ہے اور اِس قسم کے استدلال کو لے کر جو تحریک کھڑی کی جائے، وہ بھی بے بنیاد ۔
علمی استدلال وہ ہے جو کسی ثابت شدہ حقیقت پر قائم ہو۔ مثلاً اگر آپ یہ کہیں کہ مسلمان کا فرضِ منصبی شہادت علی الناس ہے اور اِس بنا پر مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اہلِ عالم کے سامنے دینِ خداوندی کے گواہ بن کر کھڑے ہوں۔ یہ استدلال ایک علمی استدلال کہاجائے گا اور یہ تسلیم کیا جائے گا کہ وہ ایک حقیقی بنیاد پر قائم ہے۔ کیوں کہ اِس استدلال کے حق میں واضح قرآنی آیات (البقرة143، یوسف108) موجود ہیں۔ یہ آیات غیر مشتبہ طور پر ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان کا یا امتِ مسلمہ کا منصب یہی ہے۔
دعوی کبھی مبنی بر عقل ہوتا ہے اور کبھی مبنی بر نقل۔ اگر دعوے کا تعلق ایسے معاملے سے ہو جو عقل (reason) سے تعلق رکھتا ہو تو ایسی بات کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اُس کے حق میں کوئی ایسا عقلی ثبوت (rational proof) دیا جائے جو عقلی تجزیہ کے اصول پر ایک ثابت شدہ حقیقت کی حیثیت رکھتا ہو۔ اِس طرح اگر دعوی نقل سے تعلق رکھتا ہو تو ضروری ہوگا کہ نقل کے مستند ذرائع، یعنی قرآن وسنت کے حوالوں سے وہ غیر مشتبہ طورپر ثابت ہورہا ہو۔ نقل سے متعلق جس دعوے کے حق میں قرآن وسنت کا واضح حوالہ موجود نہ ہو، وہ ایک غیر علمی استدلال مانا جائے گا اور اس کو رد کردیا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

منطقی طرزِ استدلال

ایک عالم سے گفتگو ہوئی۔ میںنے کہا کہ حدیث میں آیا ہے: استفتِ قلبک (مسند احمد، حدیث نمبر 18006:) یعنی اپنے دل سے پوچھ لو۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دین کے تقاضے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ قرآن اور حدیث کے علاوہ ہے، اور وہ کامن سنس (common sense)ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اِس لیے جو چیز فطری تقاضے کے مطابق ہو، وہ بھی اسلام میں داخل سمجھی جائے گی۔ مثال کے طورپر ہر شخص اپنے ماںباپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ اس کو دین کے مطابق سمجھتا ہے۔ حالاں کہ قرآن اورحدیث میں کہیں بھی لفظی طور پر یہ لکھا ہوا موجود نہیں ہے کہ— اپنے ماں باپ سے محبت کرو۔انھوں نے میری بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ماں باپ سے محبت کرنے کا حکم قرآن میں موجود ہے، پھر انھوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: وَقَضَى رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا(الإسراء23:)۔ میں نے کہا کہ اِس آیت سے آپ کا مدعا ثابت نہیںہوتا۔ اِس آیت میں جس چیز کا حکم دیاگیا ہے، وہ ماں باپ کی محبت نہیں ہے، بلکہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک ہے، یعنی ماں باپ کے ساتھ تمام انسانی اور اخلاقی تقاضے پورے کرنا۔ یہ ایک غیرمنطقی استدلال ہے کہ جس آیت میںاخلاقی سلوک کا ذکر ہو، اُس سے قلبی محبت کا حکم نکالا جائے۔
منطقی استدلال کیا ہے۔ منطقی استدلال (logical argument) دراصل درست ریزننگ (correct reasoning) کا نام ہے۔ یعنی وہ استدلال جو حقائق پر مبنی ہو۔ جس میں متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant) کے فرق کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے بات کہی جائے۔ ایسا استدلال جو مخاطب کے مسلّمہ پر مبنی ہو، نہ کہ کسی یک طرفہ مفروضے پر، جس کی بنیاد قطعی امور پر ہو، نہ کہ ظنی امور پر، جو جذباتی طرزِ فکر سے بالکل پاک ہو، جس میں کامل موضوعی فکر (objective thinking) پائی جائے۔ ایسے ہی استدلال کا نام منطقی استدلال ہے۔ اور منطقی استدلال ہی دراصل درست استدلال (correct reasoning)کا درجہ رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

غلط جنرلائزیشن

10 مئی 2007 کی صبح کو میں دہلی سے بمبئی گیا اور 12مئی 2007 کی شام کو واپس آیا۔ ہوائی جہاز میںتمام ضروری سہولتیں موجود تھیں۔ سروس بھی بہتر تھی، لیکن مجھے ذاتی طورپر ایک ’’شکایت‘‘ کا تجربہ ہوا۔ جہاز کی طرف سے جوکھانا دیاگیا اُس میں خِلال(toothpick) موجود نہ تھا۔ میںنے عملے کے دو آدمیوں سے کہا کہ مجھے خلال چاہیے، لیکن وہ شاید بھول گیے اور اُس کو نہ دے سکے۔
اِس واقعہ کو لے کر ایک لمحے کے لیے میرے دل میں خیال آیا کہ یہ ہوائی کمپنی بالکل ناقص ہے۔ اُس میں مسافر کے لیے خلال بھی موجود نہیں۔ لیکن فوراً ہی میں نے محسوس کیا کہ ایسا سوچنا انصاف کے خلاف ہوگا۔ جہاز کے اندر ننّانوے چیزیں بالکل ٹھیک حالت میںتھیں۔ صرف ایک چیز میرے ذوق کے مطابق نہ تھی۔ ایسی حالت میں یہ بالکل غلط ہوگا کہ کوئی شخص ایک جُزئی کمی کو لے کر جہاز کی پوری سروس کو بُرا بتائے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو غلط جنرلائزیشن کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اِس کے لیے ’تطفیف‘ ( المطففین1 :)کا لفظ آیا ہے۔
عام طور پر لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ دوسروں پر تبصرہ کرنے کے معاملے میں سخت ناانصافی کرتے ہیں۔ وہ ایک جزئی شکایت کو لے کر اُسے کُلّی بنا دیتے ہیں۔ اُن کا حال یہ ہے کہ وہ جس سے خوش ہوں گے، اُس کی ایک اچھی بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے بُری بات کو چھوڑ دیں گے۔ اور جس سے ناخوش ہوں گے، اس کی ایک بُری بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے اچھی باتوں کو نظرانداز کردیں گے۔ یہ مزاج غیر انسانی بھی ہے اور غیر اسلامی بھی۔ ایسے لوگ اخلاق کی عدالت میں بھی مجرم ہیں اور خدا کی عدالت میں بھی۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب کسی بات کو بیان کرے تو وہ اس کو عین اُسی طرح بیان کرے جیساکہ وہ ہے۔ غلط طورپر کسی بات کو بڑھانا یا غلط طورپر کسی بات کو گھٹانا، دونوں عادتیں سخت مذموم ہیں۔ اِس قسم کی عادت آدمی کے اندر صالح شخصیت کی تعمیر میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کا مسئلہ

مسلمانوں کے اندر بڑے پیمانے پر مذہبی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلاف بڑھ کر کبھی تشدد کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ عام طورپر سمجھا جاتاہے کہ اِن اختلافات کا سبب مدارس کا نصاب ہے۔ ان کے خیال کے مطابق، اگر مدارس کے نصاب میں اصلاح کردی جائے تو اختلاف کا خاتمہ ہوجائے گا اور لوگوں کے اندر اتحاد واتفاق کی حالت قائم ہوجائے گی۔
مگر یہ اصل صورتِ حال کا کم تر اندازہ (underestimation) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کا سبب فطرتِ انسانی میں ہے، نہ کہ مدارس کے نصاب میں۔ پیدائش کے اعتبار سے، ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ(Mr. Different) ہوتا ہے اور ہر عورت مس ڈفرنٹ۔
یہی فطری فرق اختلاف کا اصل سبب ہے۔ اگر تمام مدارس کا نصاب ایک کردیا جائے تب بھی اختلاف باقی رہے گا، کیوں کہ خواہ نصاب کی سطح پر اختلاف نہ ہو تب بھی فطرت کی سطح پر اختلاف موجود رہے گا، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں ایک ہی مدرسہ، مدرسۂ نبوت، کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ ابو الحسن اشعری اور واصل بن عطاء دونوں ایک ہی مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔
موجودہ زمانے میں سرسید احمد خاں اور مولانا قاسم نانوتوی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا حسین احمد مدنی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا سیدسلیمان ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔
اصل یہ ہے کہ خواہ دو آدمیوں نے ایک ہی مدرسہ اور ایک ہی نصاب کے تحت تعلیم پائی ہو، لیکن طرز فکر (way of thinking) کی سطح پر ہمیشہ ایک آدمی اور دوسرے آدمی کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ یہی فرق ہے جو اختلاف کا سبب بن جاتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑھ کر نفرت اور تشدد تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ اختلاف یا فرق چوں کہ فطرتِ انسانی کا حصہ ہے، اِس لیے وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ ایسی حالت میں اختلاف کے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ ناکام طورپر اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کو اُس اصول کی تعلیم دی جائے جس کو ’’اختلاف کے باوجود اتحاد‘‘ کہاجاتا ہے۔ یعنی رائے (opinion) کی سطح پر اختلاف، سماجی تعلق (social relationship) کی سطح پر اتفاق۔
انسانوں کے طرز فکر میں اختلاف کوئی غیر مطلوب چیز نہیں، بلکہ وہ عین مطلوب ہے۔ کیوں کہ اِس اختلاف کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان ڈسکشن اور ڈائیلاگ ہوتا ہے، اور ڈسکشن اور ڈائیلاگ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ جہاں ڈسکشن اور ڈائیلاگ نہ ہو، وہاں یقینی طورپر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا ہوجائے گا، اور ذہنی جمود سے زیادہ تباہ کن اور کوئی چیز انسان کے لئے نہیں۔
مثبت سوچ
ایک ہندستانی کو پہلی بار جاپان جانے کا موقع ملا۔ ایک روز انھوں نے اپنے جاپانی میزبان سے ازراہِ ہمدردی کہا:’’آپ لوگوں کے ساتھ امریکا نے بڑا ظلم کیا۔ اس نے تاریخ کے پہلے ایٹم بم آپ کے ملک پر گرائے اور آپ کے دو شہروں کو کھنڈر بنادیا۔‘‘
’’نہیں کوئی ظلم نہیں‘‘ جاپانی نے کہا۔ ’’یہ بم تو ہمارے لئے رحمت ثابت ہوئے۔ ہمارے یہ شہر قدیم طرز پر آباد تھے۔ تنگ اور خم دار سڑکیں، فرسودہ مکانات، گندے محلّے، ان کا نام تھا ہیرو شیما اور ناگاساکی۔ معمولی حالات میں ہم نئے طرز پر ان کی تعمیر نہیں کرسکتے تھے۔ مگر جب جنگ نے اچانک ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا تو ہم کو موقع مل گیا اور ہم نے قدیم ملبہ پر انتہائی جدید قسم کے منصوبہ بند شہر آباد کردئیے‘‘۔
مثبت سوچ اسی طرح کام کرتی ہے۔ وہ ہر بربادی میں اپنے لئے نئی تعمیر کے امکانات ڈھونڈھ لیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کے باوجود

علماءِ سلف کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے درمیان دینی مسائل میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا تھا۔ اِس کے باوجود ہر عالم دوسرے عالم کا احترام کرتا تھا۔اِس سلسلے میں یہاں دو واقعات نقل کیے جاتے ہیں: ’’ابن عبد البر نے نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل اور علی بن المدینی کے درمیان ایک مسئلے پر بحث ہوئی اور بحث ایسی ہوئی کہ دونوں طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ آپس میں بد مزگی پیدا ہوجائے گی، لیکن علی بن المدینی واپس جانے لگے تو امام احمد بن حنبل نے ان کے ساتھ اِس درجہ احترام کا معاملہ کیا کہ آگے بڑھ کر ان کی رکاب تھام لی (جامع بیان العلم 2/107)۔
اِسی طرح یونس صدقی امام شافعی کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں۔ ایک دن ایک مسئلے میں استاذ سے خوب بحث ہوئی، پھر جب اگلی ملاقات ہوئی تو امام شافعی نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ کیا یہ بات بہتر نہ ہوگی کہ ہم بھائی بھائی بن کررہیں، خواہ کسی مسئلے میں بھی ہمارے درمیان اتفاق پیدا نہ ہوسکے: ألا یستقیم أن نکون إخواناً وإن لم نتفق فی مسألة‘‘۔ (سیر أعلام النبلاء10/16 ، بحوالہ ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، جون 2014، صفحہ 41)
اِس طرح کے واقعات کا مطلب صرف باہمی احترام (mutual respect) نہیں ہے، بلکہ اِن واقعات میں ایک اور زیادہ بڑا پہلو ہے اور وہ ہے اختلافِ رائے (difference of opinion) کا احترام۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اختلاف ِ رائے کو علمی پہلو سے دیکھنا، نہ کہ شخصی پہلو سے۔
اختلافِ رائے کا احترام کوئی سادہ بات نہیں، اس کا براہِ راست تعلق ذہنی ارتقا سے ہے۔ جس ماحول میں اختلافِ رائے کو برا نہ سمجھا جائے، وہاں لازماً ڈسکشن کا ماحول ہوگا۔ لوگ علمی دلائل کے ذریعے اپنا اپنا نقطہ نظربیان کریں گے۔ جہاں اختلافِ رائے کو برا سمجھنے کے بجائے اختلافِ رائے کا احترام پایا جاتا ہو، وہاں ذہنی جمود نہ ہوگا، بلکہ ایسے ماحول میں ذہنی ارتقا کا عمل جاری رہے گا اور ذہنی ارتقا بلاشبہہ کسی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف ایک برکت

عمر بن عبدلعزیز (وفات101 ھ)کو اسلام کی تاریخ میں پانچویں خلیفۂ راشد کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان کا ایک قول ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: ما سرنی لو أن أصحاب محمد صلى اللہ علیہ لم یختلفوا، لأنہم لو لم یختلفوا لم تکن رخصة (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر39)۔ یعنی میرے لیے یہ چیز باعث مسرت نہیں کہ اصحاب محمد میں اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ اگر وہ اختلاف نہ کرتے تو ہم کو رخصت کا فائدہ نہ ملتا۔
عبادتی امور میں صحابہ کا اختلاف بعد کے زمانے میں مختلف فقہی اسکول کا ذریعہ بن گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے علماء نے اختلاف کے معاملے میں ترجیح کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی مختلف مسالک میں کسی ایک طریقہ کو راجح اور کسی کو مرجوح قرار دینا۔ اس سے فقہ میں مختلف مدرسے بن گیے۔ اور بالآخر امت کے اندر فقہی تشدد پیدا ہوگیا۔
عمر بن عبدالعزیز کا یہ قول ایک حدیث پر مبنی ہے۔ پیغمبراسلام ﷺ نے فرمایا: أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم (جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1760)۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو، تم ہدایت پر رہوگے۔
صحابہ کا اختلاف اساسی امور (basics)میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ جزئی امور(non-basics) میں ہے۔ اس طرح کے جزئی امور میں ہمیشہ تنوع (diversity)مطلوب ہوتی ہے۔ اس طرح کے جزئی امور میں توحد (یکسانیت) تلاش کرنا، غیر فطری ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے جزئی اختلاف کو تنوع پر محمول کیا جائے، ان کو توحد کا موضوع نہ بنایا جائے۔ اس اصول کو اختیار کرنے کی صورت میں امت کے اندر اتحاد باقی رہے گا۔ اس کی خلاف ورزی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امت کے اندر اختلاف و انتشار پیدا ہوجائے گا۔ ایک امت کئی فرقوں میں بٹ جائے گی۔ یہ اختلاف بڑھ کر غلو اور تشدد کی صورت اختیار کرلے گا۔ اسلام کی بعد کے زمانے کی تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلافِ رائے

ایک بار میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ اہلِ مغرب کی ترقی کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا — اختلافِ رائے (dissent) کو انسان کا مقدس حق قرار دینا۔ یہ بلاشبہہ ایک درست بات ہے۔
لیکن وہ مغربی فکر کی بات نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ اِس قانون کو ایک حدیث ِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اختلاف أمتی رحمة۔(المقاصد الحسنة، حدیث نمبر39 :)
اختلافِ رائے کا اظہار ہمیشہ تنقید (criticism)کی صورت میں ہوتا ہے۔ مگر تنقید خواہ وہ کسی شخص کے حوالے سے کی گئی ہو، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے مطالعے کی ایک صورت ہوتی ہے۔ تنقید کا اصل مقصد کسی موضوع پر کھلے تبادلہ خیال (open discussion) کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ تنقید کا مقصد یہ ہے کہ مختلف ذہن (mind)دیانت دارانہ طورپر (honestly)اپنے نتیجۂ تحقیق کو بتائیں اور پھر دوسرے لوگ دیانت داری کے ساتھ اُس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ اِس طرح کا آزادانہ تبادلہ خیال ذہنی ارتقا (intellectual development) کا لازمی تقاضا ہے۔
علم اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک لامحدود موضوع ہے۔ یہ بات مذہبی موضوع پر بھی اُسی طرح صادق آتی ہے جس طرح سیکولر موضوع پر۔ اختلافِ رائے بلاشبہہ ایک رحمت ہے۔ اختلافِ رائے ہر حال میں مفید ہے۔ اِس معاملے میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اختلاف کرنے والا مسلّمہ دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرے، وہ الزام تراشی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔
اختلافِ رائے کے فائدے بے شمار ہیں۔ اِس سے مسئلہ زیر بحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ اِس سے تخلیقی فکر (creative thinking) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اِس کے ذریعے لوگوں کو موقع ملتاہے کہ وہ دوسرے کے نتیجہ فکر سے فائدہ اٹھائیں۔ اِس سے مسئلہ زیر بحث کے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

فکری تعدّد، فکری حریت

اسلام میں فکری آزادی کامل درجے میں پائی جاتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) پورا نہیں ہوسکتا۔ انسان کو موجودہ دنیا میں ابتلا (test) کے لیے رکھا گیا ہے اور یہ مقصد صرف اُسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب کہ انسان کو اپنے قول وعمل کی پوری آزادی حاصل ہو۔
اسلام فکری آزادی (intellectual freedom) کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے، لیکن فکری تعدد (intellectual diversity) کا تصور اسلام میں نہیں۔ اسلام کے مطابق، ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ جس رائے کو چاہے، اختیار کرے، لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر رائے بہ اعتبار حقیقت بھی درست ہے۔ اِس معاملے میں اسلامی تصور یہ ہے کہ بہ اعتبارِ حقیقت تو صرف ایک ہی رائے درست ہے، لیکن بہ اعتبارِ آزادی ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے لیے اِس دنیا میں جس رائے کو چاہے، اختیار کرے۔
ابتلا کے سوا اِس اصول کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ فکری آزادی کے ماحول میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان آزادانہ ڈسکشن ہو اور آزادانہ ڈسکشن سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سماج کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل (process) جاری رہے۔
فکری آزادی کا تصور انسان کی ذہنی ترقی کے لیے بے حد اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکری آزادی کے بغیر ذہنی ترقی ممکن نہیں۔ کسی سماج میں فکری آزادی کو ممنوع (taboo) قرار دینا صرف اِس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ سماج فکری جمود(intellectual stagnation) کا شکار ہوجائے۔ لیکن فکری تعدد کے نظریے کو اگر اصولاً درست مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں جو چیز پیدا ہوگی، وہ فکری انتشار (intellectual anarchy) ہے، اور فکری انتشار ایک غیر صحت مند (unhealthy) حالت ہے، فکری انتشار کسی آدمی کو کنفیوژن(confusion)کے سوا کہیں اور نہیں پہنچاتا۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی سانچہ

ہر آدمی کے اندر مختلف حالات کے تحت اس کا ایک مائنڈ سیٹ (mindset)یا ایک ذہنی سانچہ (intellectual mould) بن جاتا ہے۔ آدمی اسی کے مطابق سوچتا ہے، آدمی اسی کے مطابق رائے بناتا ہے۔ حقیقتِ واقعہ خواہ بظاہر کچھ اور ہو، لیکن آدمی کے ذہن میں چیزوں کے بارے میں وہی تصویر بنتی ہے، جو اس کے اپنے ذہنی سانچے کے مطابق ہو۔
انسان کے بارے میںیہ حقیقت قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلَى شَاکِلَتِہِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدَى سَبِیلًا (الاسراء84 :)یعنی علم الٰہی میں کسی چیز کی نوعیت خواہ کچھ ہو لیکن انسان اپنے خود ساختہ شاکلہ (mindset)کے مطابق چیزوں کے بارے میں رائے قائم کر لیتا ہے۔ اس کمزوری سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ ارتقا یافتہ بنائے کہ وہ چیزوں کو اللہ کی نظر سے دیکھ سکے۔
انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ دنیا میں ہر آدمی ایک سماجی ماحول کے اندر پیدا ہوتا ہے۔اس ماحول میں ہر وقت روزانہ مختلف قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ انسان خواہ چاہے یا نہ چاہے، وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر انسان کا کیس ایک متاثر ذہن کا کیس بن جاتا ہے۔ یہ متاثر ذہن دھیرے دھیرے اتنا پختہ ہوجاتا ہے کہ آدمی اسی کو درست سمجھنے لگتا ہے۔
ایسےحالات میں ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ مسلسل طور پر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔ وہ دریافت کرتا رہے کہ کیا چیز فطری ہے۔ اوروہ کیا چیز ہے جس کو اس کے ذہن نےماحول کےاثر سے قبول کر لیا ہے۔ اسی ذہنی کوشش کا نام محاسبہ (introspection) ہے۔ یہی محاسبہ کا عمل وہ چیز ہے جو کسی انسان کو اس سے بچاتا ہے کہ آدمی کے اندر غلط قسم کا ذہنی سانچہ بن جائے، اور وہ اس غلط سانچہ کے زیرِ اثر زندگی گزارنے لگے۔اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ آدمی اپنا محاسب آپ بن جائے، وہ اپنی نگرانی خود کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

تنقید کی دوقسمیں

تنقید (criticism) کا ایک طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اس کو اچھی طرح سمجھا جائے اور پھر اس کے اصل نقطۂ نظر کو لے کر اس پر تنقید کی جائے۔ یہ تنقید کا صحیح اور علمی طریقہ ہے۔تنقید کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زیر تنقید شخص نے جو بات کہی ہے، اُس سے خود ساختہ طور پر ایک مفہوم نکالا جائے اور اِسی خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقید شخص کی طرف منسوب کرکے اُس پر تنقید کی جائے۔ یہ دوسرا طریقہ تنقید کا غلط اور غیر علمی طریقہ ہے۔
موجودہ زمانے میں، تنقید کا یہ دوسرا طریقہ بہت زیادہ عام ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تنقید کو حقوقِ انسانی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تنقید کرنا، اُن کا ذاتی حق ہے۔ یہ ایک مغالطہ آمیز بات ہے۔ تنقید بلا شبہہ ہر انسان کا حق ہے، لیکن یہ کسی بھی شخص کا حق نہیں کہ وہ زیر تنقید شخص کے کلام سے ایک خود ساختہ مفہوم نکالے اور اِس خود ساختہ مفہوم کو زیر تنقیدشخص کی طرف منسوب کرکے اس پر پُرشور تنقید شروع کردے۔
تنقید دراصل علمی تجزیہ (scientific analysis) کا دوسرا نام ہے۔ تنقید حقیقتاً وہی ہے جو علمی تجزیہ کے اسلوب میں کی جائے۔ جو تنقید علمی تجزیہ سے خالی ہو، وہ بلا شبہہ عیب جوئی اور الزام تراشی کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس قسم کی تنقید علمی اعتبار سے بے بنیاد ہے، اور شرعی اعتبار سے بلاشبہہ ایسی تنقید ایک سنگین گناہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
علمی تجزیہ طرفین کے لیے مفید ہے، ناقد کے لیے بھی اور زیر تنقید شخص کے لیے بھی۔ علمی تنقید کے ذریعے ناقد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ زیرِ بحث موضوع کا ازسرِ نو مطالعہ کرے۔ اِسی طرح زیر تنقید شخص کو اُس سے یہ موقع ملتاہے کہ وہ اپنی رائے کا از سرِ نو جائزہ لے۔ اِس کے برعکس، غیر علمی تنقید اِس طرح کے کسی مثبت فائدے سے مکمل طورپر خالی ہوتی ہے —علمی تنقید ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے، جب کہ غیرعلمی تنقید صرف آدمی کے ذہنی انحطاط کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

ہلاکت کیا ہے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا سمعت الرجل یقول ہلک الناس فہو أہلکہم (موطا امام مالک، حدیث نمبر1802)۔یعنی جب تم کسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ لوگ ہلاک ہوگئے تو سب سے زیادہ ہلاکت میں وہی شخص ہے۔
اِس حدیثِ رسول میں ’ہلک الناس‘اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ ثابت ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے خود بھی یہ زبان استعمال کی۔ مثلاً حضرت علی بن ابی طالب نے ایک قاضی سےکہا :ہلکتَ وأہلکتَ (السنن الکبرى للبیہقی، اثرنمبر 20857) یعنیتم خود بھی ہلاک ہوئے اور تم نے دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔
اِس حدیث رسول میں جس روش کی مذمت کی گئی ہے، وہ دراصل تنقید برائے تنقید (criticism for the sake of criticism) ہے، یعنی لوگوں کو برا بتانا، لیکن یہ نہ بتانا کہ ان کے لیے صحیح بات کیاہے۔ دوسروں کے خلاف منفی ریمارک دینا، لیکن مثبت نصیحت کا طریقہ اختیار نہ کرنا۔ بے دلیل تنقید کرنا، لیکن مدلل تجزیہ کے ذریعے یہ نہ بتانا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ نفرت کی زبان میں لوگوں کی مذمت کرنا، لیکن خیر خواہی کے انداز میں ان کو نصیحت نہ کرنا۔
بلا دلیل تنقید کا فائدہ تو کچھ نہیں، مگر اس کا نقصان بہت زیادہ ہے۔ بادلیل تنقید سے لوگوں کے اندر محاسبہ (introspection) کا مزاج بنتا ہے۔ اِس کے برعکس، بے دلیل تنقید سے لوگوں کے اندر نفرت اور بے اعترافی کا مزاج بنتا ہے۔ بادلیل تنقید، اصلاح کا ذریعہ ہے۔ اور بے دلیل تنقید صرف فساد کا ذریعہ۔ صالح تنقید وہ ہے جس میں خیر خواہی کا جذبہ پایا جائے۔ جس کا مقصد فریق ثانی کی اصلاح ہو۔ اس کے برعکس غیر صالح تنقید کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کو بے عزت کرنا اور اس کی برائی بیان کرنا۔ صالح تنقید اسلام میں عین مطلوب ہے۔ اِس کے برعکس، غیر صالح تنقید کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی کہر کا مسئلہ

ہندستان کے شمالی حصہ میں سردی کے موسم میں کہر (fog) کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اِس مسئلے کی بنا پر اِس ایریا کی ٹرینیں یا تو اسٹیشنوں پر رک جاتی ہیں یا وہ نہایت دھیمی رفتار سے چلتی ہیں۔ انڈین ریلوے نے اِس مسئلے کے حل کے لیے ایک آلہ (device) تیار کیا ہے۔ اِس آلے کا نام ہے — فاگ سیف ڈیوائس (fog-safe device)۔ اِس آلے کی تیاری کے بعد ٹرین کے ڈرائیور کے لیے یہ ممکن ہوگیاہے کہ وہ گہرے کہر کے اندر بھی ٹرین کو 60 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلا سکے۔
یہ مادّی کہر (material fog) کا معاملہ ہے۔ اِسی طرح ذہنی کہر (intellectual fog) بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر بولنے اور لکھنے والا آدمی ماحول میں اپنی باتوں کو بکھیر رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کی بناپر یہ مسئلہ بے شمار گُنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ غالباً اِسی ذہنی کہر کو ایک حدیثِ رسول میں ’’فتنةُ الدُّہَیماء‘‘ (سنن أبی داؤد، حدیث نمبر4242 :)کہاگیا ہے، یعنی سخت قسم کا تاریک فتنہ۔
ہر آدمی عملاً اِسی ذہنی کہر کے اندر جی رہا ہے، وہ اُسی کے مطابق سوچتا ہے اور اسی کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بناتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک شخص کس طرح اپنے آپ کو اِس مسئلے سے بچائے۔ افکار کے اندھیرے میں کس طرح وہ اپنے آپ کو صحتِ فکر (right thinking)پر قائم رکھے۔
’فاگ سیف ڈیوائس‘ گویا مادّی مثال کی صورت میں اِس حل کی ایک نشان دہی ہے۔ ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو داخلی طورپر اِس طرح تیار کریں کہ ہم خارجی فاگ سے غیر متاثر رہ کر سوچنے کے قابل ہوجائیں۔ ریلوے کی مادی تدبیر کی طرح ہم میں سے ہر شخص کو ایک نظریاتی تدبیر کرنا ہے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، خارجی فاگ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ جو کچھ ممکن ہے، وہ صرف یہ کہ ذاتی تدبیر کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو اُس کے بُرے اثرات سے محفوظ کرلے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی صلاحیت

موجودہ زمانے میں ایک رسرچ اقلیت (minority) اور اکثریت (majority)کے موضوع پر ہوئی ہے۔ اِس تحقیق سے کئی ایسی حقیقتیں سامنے آئی ہیں جو اِس سے پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھیں۔ اُن میں سے ایک حقیقت وہ ہے جس کو تخلیقیت (creativity) کہاجاتا ہے، یعنی حالات کے زیر اثر آدمی کے اندر نئی فکری یا عملی خصوصیات کا پیدا ہونا:
Creativity: The ability to produce something new
اصل یہ ہے کہ جب کسی سماج میں دو گروپ ہوں— اقلیتی گروپ، اور اکثریتی گروپ، تو فطری قانون کے مطابق، وہاں چیلنج کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ اِس چیلنج کے نتیجے میں وہاں ایک خاموش عمل (process) جاری ہوتا ہے۔ وہ عمل ہے— اقلیتی گروہ کی تخلیقی صلاحیت کو بڑھانا، اقلیتی گروہ کے اندر طاقت ور داعیہ (incentive) پیدا کرکے اس کو مسلسل ترقی کی طرف لے جانا۔
یہ عمل ہر اُس ملک میں دیکھا جاسکتا ہے، جہاں اقلیت اور اکثریت دونوں قسم کے گروہ موجود ہوں۔ ایسے ماحول میں، اقلیتی گروہ کے اندر تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کا عمل ہر حال میں جاری ہوتا ہے، خواہ اُس کے لیے کوئی براہِ راست کوشش کی گئی ہو، یا نہ کی گئی ہو۔فطرت کے عمل (process) کو اگر روکا نہ جائے تو وہ اپنے آپ جاری ہوتا ہے، اور اپنے آخری انجام تک پہنچتا ہے۔
تخلیقیت (creativity) کے اِس عمل کو روکنے والی چیز صرف ایک ہے، اور وہ ہے اقلیتی گروہ کے اندر متشددانہ مزاج کا پیدا ہونا۔ اقلیتی گروہ کے اندر اگر ایسے ناعاقبت اندیش رہ نما پیدا ہوجائیں جو اپنی جذباتی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے لوگوں کے اندر منفی ذہن (negative thinking) پیدا کرکے اُن کو نفرت اور تشدد کے راستے پر ڈال دیں تو یقینا یہ عمل رک جائے گا۔ بہ صورتِ دیگر، یہ عمل کسی حالت میں رکنے والا نہیں۔ یہ فطرت کا فیصلہ ہے۔ اور فطرت کے فیصلے کو خود کُشی (suicide) کے سوا کوئی اور چیز روکنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی حل

موجودہ زمانے میں کمپیوٹرکلچر اور انڈسٹری کے حلقوں میں ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے، اور وہ ہے — تخلیقی حل (creative solution)یعنی جب کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو اس کے بارے میں ازسرِ نو غور کرنا، نئے انداز سے مسئلے کا حل تلاش کرنا۔ اس طرح جو حل دریافت ہوتا ہے، اس کو تخلیقی حل کہاجاتا ہے۔ تخلیقی طرزِ فکر ایک نیا ذہن دیتاہے، جس کی روشنی میں مسئلے کا زیادہ موثر حل دریافت کیا جاسکے:
A creative solution gives a fresh perspective to a challenging problem.
تخلیقی حل کا اصول صرف کمپیوٹر کا اصول نہیں ہے، بلکہ یہ فطرت کا ایک عام اصول ہے۔ کمپیوٹر کی دنیا میں اِس اصول کا سیکولر استعمال کیا گیاہے۔ یہی اصول خود اسلام میں بھی پوری طرح مطلوب ہے۔ اسلام میں جس چیز کو اجتہاد کہاگیا ہے، اُس سے مراد یہی اصول ہے۔ خواہ مذہب کا دائرہ ہو یا سیکولر دائرہ، ہر دائرے میں بار بار اِس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ لوگ کھلے ذہن کے ساتھ از سرِ نو غور کریں۔ وہ تعصب جیسی چیزوں سے بلند ہو کر مسئلے کا نیا اور کارگر حل تلاش کریں۔
تخلیقی ذہن (creative mind)کا مالک کون ہے، یہ وہ انسان ہے جو تعصبات (prejudices) سے خالی ہو، جو چیزوں کے بارے میں بے آمیز انداز میں سوچ سکے، جو آخری حد تک کھلا ذہن (open mind) رکھتا ہو، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں رائے قائم کرسکتا ہو۔ یہی وہ انسان ہے جو کسی معاملے میں تخلیقی حل (creative solution) تک پہنچنے میں کامیاب ہوتاہے۔
تعصب کا مزاج تخلیقی ذہن کا پردہ ہے اور بے تعصبی کا مزاج تخلیقی ذہن کو کھول دینے والا ہے۔ اپنے آپ کو کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے والا بنائیے، اپنی فطرت کو ہر حال میں زندہ رکھیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے ذہن نے مشکل ترین حالات میں بھی مسئلے کا ایک قابلِ عمل حل دریافت کرلیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سکینہ کیا ہے

قرآن میں حدیبیہ معاہدے کے تحت جو آیتیں آئی ہیں، اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ ۭ وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْماً (48:4) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اہلِ ایمان کے دلوں میں سکینہ نازل کیا تاکہ اور بڑھ جائے اُن کا ایمان اپنے ایمان کے ساتھ۔ اور اللہ ہی کے ہیں سب لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ ہے خبر دار، حکمت والا۔
سکینہ کا لفظی مطلب اطمینان (tranquillity) ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں سکینہ کا مطلب یہ ہے کہ حدیبیہ معاہدے کی شرطیں اگرچہ اصحاب رسول کی مرضی کے خلاف تھیں، لیکن اللہ کے حکم کی بنا پر وہ اُس پر راضی ہوگئے۔ اِس رضامندی کے باعث، اللہ نے اُن پر یہ خصوصی فضل کیا کہ اُن پر اپنی وہ خاص رحمت نازل فرمائی جو اُنھیں قلبی اعتبار سے اُس پر مطمئن کردے اور جس فیصلے پر وہ بظاہر ناگواری کے ساتھ راضی ہوئے تھے، اُس کو اُن کے لیے ایک خوش گوار تجربہ بنادے۔
زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے ساتھ کوئی ناپسندیدہ صورت پیش آتی ہے۔ مثلاً کسی عزیز کی موت، کوئی مالی نقصان، کسی کی طرف سے بے عزتی کا معاملہ، وغیرہ۔ اِس طرح کامعاملہ آدمی کے لیے ہمیشہ صدمہ (shock) کا سبب بنتا ہے۔ لیکن اگر آدمی اللہ کے حکم (البقرة 155:) کی بنا پر صبر کرلے اور رد عمل کا اظہار نہ کرے تو اپنے اِس عمل کی بنا پر وہ اللہ کی خصوصی نصرت کا مستحق بن جاتا ہے، وہ یہ کہ جس چیز کو اُس نے ابتداء ً اپنی طبیعت پر جبر کرکے اختیار کیا تھا، اس کو اس کے لیے ایک خوش گوار واقعہ بنا دیا جائے۔
یہی مطلب ہے ’’ایمان پر ایمان کے اضافہ‘‘ کا، یعنی صبر کے معاملہ کو اطمینان کا معاملہ بنادینا۔ مومن کے دل میں پیدا ہونے والی اِسی کیفیت کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’ازدیادِ ایمان‘ کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حاضر دماغی

ایم کے گاندھی (وفات1948)انڈیا کے مشہور پولیٹکل لیڈر تھے۔ ان کا ایک واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار وہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ اسٹیشن پر جب وہ ٹرین میں سوار ہوئے تو چلتی ہوئی گاڑی میں ان کا ایک جوتا پاؤں سے نکل کر نیچے گرگیا۔ جوتا چلتی ہوئی ٹرین کے نیچے چلا گیا۔گاندھی نے اس وقت یہ کیا کہ اپنا دوسرا جوتا بھی پاؤں سے نکال کر نیچے گرادیا۔ کسی نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ گاندھی نے جواب دیا کہ اب وہ جوتا میرے کام کا نہیں تھا، میں نے اس لیے گرادیا کہ جو شخص اس کو پائے ، اس کو دونوں جوتا مل جائے۔ اس طرح وہ جوتے کو اپنے لیے قابلِ استعمال بنا لے گا۔
جوتا جوڑے کی شکل میں کار آمدہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ ایک جوتا گاندھی کے پاس رہتا ، اور دوسرا جوتا کسی پانے والے کے پاس تو وہ جوتا دونوں ہی کے لیے ناقابلِ استعمال ہوجاتا۔ اب جوتا کم از کم ایک شخص کے کام آجائے گا۔ اگر گاندھی دوسرے جوتے کو پاؤں سے نکال کر نہ گراتے تو وہ جوتا نہ گاندھی کے کام کا ہوتا ،نہ کسی دوسرے کے کام کا۔
اس طرح کا موقع ایک بحران (crises) کا موقع ہوتا ہے۔ اکثر لوگ ایسے موقع پر پریشان ہوجاتے ہیں۔اس طرح ان کی محرومی صرف محرومی بن کر رہ جاتی ہے۔ ہر محرومی کے بعد ایک امکان باقی رہتا ہے۔ اگر آدمی حاضر دماغی سے کام لے تو وہ اس آخری موقع کو استعمال کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
حاضر دماغی (presence of mind) کا تعلق ہر معاملے سے ہے۔ چھوٹے معاملے سے بھی اور بڑے معاملے سے بھی، گھر کے معاملے سے بھی اور گھر کے باہر کے معاملے سے بھی، انفرادی معاملے سے بھی اوراجتماعی معاملے سے بھی۔ آدمی اگر حاضر دماغی سے کام لے تو وہ ہر نقصان میں فائدہ کا ایک پہلو دریافت کرلے گا، وہ ہر کھونے کو اپنے لیے ایک پانا بنا لےگا۔
واپس اوپر جائیں

شکایت بے جا

برطانیہ کے ایک ممبر پارلیمنٹ اِناک پاویل (Enoch Powell) نے ان سیاسی لیڈروں پر تبصرہ کیا ہے جومیڈیا کی شکایت کرتے ہیں۔اُن کے نزدیک یہ شکایت بے جا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کسی سیاسی لیڈر کی میڈیا سے شکایت ایسی ہی ہے جیسے پانی کے جہاز کا ایک کیپٹن سمندر کی موجوں کی شکایت کرنے لگے:
A politician who complains about the media is like a ship’s captain complaining about the sea.
یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔ مگر یہ صرف سیاسی لیڈر اور میڈیاکی بات نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کے لیے عام ہے۔ کوئی بھی عورت یا مرد جب کسی کی شکایت کرتے ہیں تو حقیقت کے اعتبار سے اُن کی شکایت ایک بے جا شکایت ہوتی ہے وہ ایک ایسے معاملے کو شکایت کا معاملہ بنالیتے ہیں جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے شکایت کا معاملہ ہی نہیں۔اِس دنیا کا نظام فطرت کے اصول پر قائم ہے۔ فطرت کے اصول کے مطابق کسی انسان کو جس دنیا میں رہنا پڑتا ہے، وہ گویا ایک سمندر ہے۔ اجتماعی زندگی ہمیشہ موجوں سے بھرے ہوئے سمندر جیسی ہوتی ہے۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ ایک انسان کو موجوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ ان موجوں کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھے۔ وہ موجوں کی شکایت کرنے کے بجائے یہ آرٹ سیکھے کہ وہ کس طرح کامیابی کے ساتھ اِن موجوں سے گزر سکتا ہے۔
زندگی میں موج یا چیلنج کا وجود کوئی برائی نہیں۔ وہ انسان کی بہتری کے لیے ہے، وہ اس لیے ہے کہ انسان کی تربیت کرے، وہ اِس لیے ہے کہ انسان کی عقل میں اضافہ کرے، وہ اِس لیے ہے کہ انسان کو اور زیادہ طاقتور بنائے۔ زندگی میں مشکلات کی حیثیت تجربہ کی ہے، اور تجربہ کے بغیر کبھی کوئی انسان مکمل نہیں ہوسکتا۔آدمی کو چاہئے کہ وہ تجربات سے سیکھے، وہ شکایات کی نفسیات سے آخری حد تک اپنے آپ کو بچائے۔
واپس اوپر جائیں

دوآپشن کے درمیان

مولانا ابو الکلام آزاد (وفات1958:) نے اپنے بارے میں لکھا ہے:
’’زمانے نے میری صلاحیتوں کی قدر نہ کی.....‘‘
مولانا آزاد کے اِس جملے کا مطلب یہ تھا کہ پیدائشی فطرت کے اعتبار سے، وہ اعلی صلاحیت کے مالک تھے، لیکن دوسرے لوگوں نے اُن کو نہیں پہچانا، اِس لیے ان کی صلاحیت پوری طرح استعمال نہ ہوسکی۔مولانا ابو الکلام آزاد کا یہ احساس صرف ایک آدمی کا احساس نہیںہے۔تاریخ میں بہت سے ایسے انسان ہیں جو اپنے احساس کے اعتبار سے غیر استعمال شدہ شخصیت کی حیثیت سے جیے اور اسی احساس کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے گیے۔ ایسے افراد کو بظاہر دوسرے لوگوں سے شکایت تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد اپنے اِس احساس کے لیے تمام تر خود ذمہ دار تھے، نہ کہ کوئی دوسرا شخص۔
خالق نے موجودہ دنیا کو جس قانون کے تحت بنایا ہے، اس کے مطابق، کسی انسان کے لیے یہاں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) ہے۔ ایک یہ کہ وہ کسی دوسرے کے بنائے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے آگے سرینڈر کرے، یا وہ اپنے لیے ایک خود تعمیر کردہ دنیا (self-created world) کو تخلیق کرے اور اس کے اندر اپنی مرضی کے مطابق رہے۔ اِن دو کے سواکوئی اور انتخاب کسی شخص کے لیے ممکن نہیں۔
موجودہ دنیا مسابقت (competition) کے اصول پر مبنی ہے۔ اس دنیا میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کی قدر وقیمت کو پہچانے، اور وہ آپ کے ساتھ وہ سلوک کرے، جو بطور خود آپ اُس سے چاہتے ہیں۔ ایسا کبھی کسی انسان کے لئے نہیں ہوا۔ صلاحیتوں کو دینے والا اللہ رب العالمین ہے اور صلاحیتوں کا استعمال وہی شخص کرتا ہے جس کو صلاحیت دی گئی ہے۔ دوسرے آدمی سے زیادہ سے زیادہ جو امید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ آپ کے کیے ہوئے کام کا اعتراف کرے۔اِس دنیا میں کوئی بھی شخص آپ کے حصے کا کام نہیں کرسکتا۔ موجودہ دنیا کے لئے یہ مقولہ بالکل درست ہے— کرو یا مرو Do or die :
واپس اوپر جائیں

تیسرا انتخاب

۱۸۔ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ کو میں نے دہلی اور جے پور کے درمیان سفر کیا۔ سفر کے لیے میرے سامنے دو ممکن صورتیں تھیں، ٹرین یا ہوائی جہاز۔ غیر شعو ری طورپر میرا ذہن یہ بن گیا کہ یا تو ٹرین سے سفر کرنا ہے یا ہوائی جہاز سے۔ ٹرین (شتابدی ایکسپریس) دہلی سے صبح کے وقت جے پور جاتی تھی اور شام کے وقت جے پور سے دہلی آتی تھی۔ ٹرین کا انتخاب کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں ۱۸ دسمبر کی صبح کو جے پور گیا اور ۱۹ دسمبر کی شام کو دہلی واپس آیا۔ اس بنا پر ایسا ہوا کہ ۱۹ دسمبر کا دن میں نے کھو دیا۔ ۱۹ دسمبر کو دہلی میں ایک بہت ضروری پروگرام تھا مگر میںاس میں شرکت نہ کر سکا۔
یہ واقعہ ثنائی طرز فکر (dichotomous thinking)کی بنا پر پیش آیا۔ یعنی صرف دو انتخاب (options) کے درمیان سوچنا۔ بعد کو مجھے احساس ہوا کہ میرے لیے یہاں تیسرا انتخاب بھی تھا۔ وہ یہ کہ میں ۱۸ دسمبر کی صبح کو ٹرین کے ذریعہ جے پور جاؤں ، اور ۱۹ دسمبر کی صبح کو سواری بدل کر ہوائی جہازکے ذریعہ دہلی واپس آؤں۔ ایسی صورت میں میں ۱۹دسمبر کے پروگرام میں بخوبی شریک ہوسکتا تھا۔یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان اکثر ثنائی طرز فکر کا شکار رہتا ہے۔ وہ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے لیے صرف د و صورتوں میں سے ایک صورت کا انتخاب ہے۔ حالاں کہ وہاں ایک تیسری صورت بھی موجود رہتی ہے جو زیادہ مفید ہوتی ہے۔
تاریخ کی بہت سی ناکامیاں اسی ثنائی طرزِ فکر کا نتیجہ تھیں۔ مثلاً بہت سے لوگوں نے اپنے حالات کے ناقص اندازہ کی بنا پر یہ سمجھ لیا کہ ان کے لیے صرف دو ممکن صورتیں ہیں، یا جنگ یاذلت کی زندگی۔ حالاں کہ وہاں تیسری صورت بھی موجود تھی، اور وہ یہ کہ جنگ کو اوائڈ کرکے امن قائم کرنا اور مواقع کو استعمال کرکے اپنے کو مستحکم بنانا۔ اس حکمت کو نہ جاننے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غیر ضروری طورپر اپنے کو تباہ کرلیا، حالاں کہ اگر وہ تیسرے انتخاب کو لیتے تو وہ اس کو استعمال کرکے بہت بڑی کامیابی حاصل کرسکتے تھے۔
واپس اوپر جائیں

ذہین انسان کا مسئلہ

لارڈ کرزن (Lord Curzon) 1899سے 1905تک انڈیا میں برٹش وائسرائے تھے۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا برابر (equal)نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ اکثر ان کا لوگوں سے جھگڑا (quarrel) ہوجاتا تھا۔اپنی آخری عمر میں لارڈ کرزن شدید قسم کی بیماریوں کا شکار ہوئے۔وہ مایوسی کی حالت میں لندن میں 20مارچ 1925کو وفات پاگیے۔بوقت وفات ان کی عمر66 سال تھی ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جو شخص زیادہ ذہین ہو، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھ لیتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کو اپنا ہم سر دکھائی نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں سے نصیحت لینے اور دوسروں سے سیکھنے کا مزاج اس کے اندر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے آپ میں جینے لگتا ہے۔ چناں چہ ذہانت کے باوجود وہ کوئی بڑا کام نہیں کرپاتا۔
ذہانت فطرت کا ایک قیمتی تحفہ ہے، مگر ذہین آدمی اسی وقت کوئی بڑا کام کرپاتا ہے کہ جب کہ ذہانت کے ساتھ اس کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پائی جائے۔ جس انسان کے اندر ذہانت ہو، مگر اس کے اندر تواضع نہ ہو، وہ اپنے آپ کو درست طور پر استعمال (utilise) نہیں کرپائے گا۔ اس کو دوسروں سے صرف شکایت ہوگی۔ وہ ہر ایک سے نفرت کرنے لگے گا۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر ذہانت کے ساتھ تواضع کی صفت پائی جائے، وہ اس قابل ہوگا کہ اپنی ذہانت کو بھرپور طور پر استعمال کرے۔ وہ دوسروں کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی مفید کام انجام دے۔تواضع وہ ہے جو کہ حقیقی تواضع ہو، نہ کہ ظاہری تواضع۔
ذہانت خالق کی ایک عظیم نعمت ہے، جو کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ مگر صرف ذہانت کافی نہیں۔ ذہانت کسی آدمی کو خالق کی طرف سے ملتی ہے، لیکن دوسری ضروری صفات آدمی کو خود اپنی کوشش سے اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً تواضع کی صفت، دوسروں سے سیکھنے کا جذبہ، دوسروں کے لیے خیرخواہ ہونا،دوسروں سے معتدل انداز میں ملنا، ہر ایک کوقابلِ عزت سمجھنا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ کا حل

اکثر لوگ منفی نفسیات میں جیتے ہیں۔ وہ مسائل کے حوالہ سے شکایت کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسا نسخہ دریافت کرلیں جو مسائل کو ختم کرنے والا ہو تاکہ انہیں سکون کی زندگی حاصل ہوسکے۔ یہ ذہن فطرت کے قانون کے خلاف ہے، اور جو چیز فطرت کے خلاف ہو وہ کبھی حاصل ہونے والی نہیں۔
مسائل زندگی کا حصہ ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مسئلہ کا حل مسئلہ کے ساتھ جینا ہے، نہ کہ مسئلہ کو ختم کرکے بے مسئلہ زندگی حاصل کرنا۔ کوئی چیز اُسی وقت تک مسئلہ نظر آتی ہے جب کہ اس کو مسئلہ سمجھا جائے۔ اگر مسئلہ کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھ لیا جائے تو اس کے بعد مسئلہ معمول کی چیز بن جائے گا، وہ پریشان کن مسئلہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں بے مسئلہ زندگی اوربا مسئلہ زندگی کے درمیان انتخاب نہیں ہے بلکہ یہاں انسان کے لیے صرف ایک ہی انتخاب ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ بامسئلہ زندگی کو معمول کی چیز سمجھ کر اس پر راضی ہو جائے۔ مسئلہ کے بارے میں وہ اپنی منفی سوچ کو ختم کردے۔
مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ در اصل اجتماعی زندگی کی قیمت ہے۔ انسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ اجتماعی زندگی گذارے اور جب بھی وہ اجتماعی زندگی میں رہے گا تو اس کے ساتھ مسائل بھی ضرور پیش آئیں گے۔ انفرادی زندگی بے مسئلہ زندگی ہوسکتی ہے۔ مگر انفرادی زندگی گذارنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ انسانی تقاضے صرف اجتماعی زندگی میں پورے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کو اجتماعی زندگی کے لازمی جزء کی حیثیت سے قبول کرے۔
مسئلہ زندگی کی سرگرمیوں سے جڑا ہوا ہے۔جہاں سرگرمیاں ہوں گی وہاں مسائل بھی لازمی طورپر پائے جائیں گے۔ مسئلہ کو مسئلہ نہ سمجھنا ہی مسئلہ کا واحد یقینی حل ہے۔مسئلہ کا حل ہمیشہ آدمی کے ذہن میں ہوتا ہے نہ کہ اس کے باہر۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندی، معیار پسندی

ایک دانش مند نے داخلی حکمت اور خارجی حکمت کو بتاتے ہوئے کہاہے— دوسروں کے بارے میں جاننا، دانش مندی ہے۔ اور اپنے بارے میں جاننا، ذہنی بیداری:
Knowing others is wisdom; knowing the self is enlightenment.
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کے لیے دو قسم کی تیاری درکار ہوتی ہے، اپنے اعتبار سے اور دوسروں کے اعتبار سے۔ یہ دونوں ہی تیاری یکساں طورپر ضروری ہے۔ کسی ایک میں تیار ہونا اور دوسرے میں تیار نہ ہونا، آدمی کے لیے کافی نہیں۔
دوسروں کے بارے میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی دوسروں سے وہی امید کرے جو باعتبار حقیقت ممکن ہے۔اِس معاملے میں ضرورت سے زیادہ امید (over-expectation) ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ دوسروں کے بارے میں امید قائم کرتے ہوئے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے جذبات کو پوری طرح الگ رکھے اور صرف امرِ واقعہ کی بنیاد پر امید قائم کرے۔
جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے، اِس معاملے میں آدمی کو چاہیے کہ وہ آخری امکان تک جائے۔ وہ آخری حد تک اپنے آپ کو دریافت کرے، وہ آخری حد تک اپنے آپ کو استعمال کرنے کی کوشش کرے، دوسروں کے معاملے میں حقیقت پسندی (realism)مطلوب ہے، اور اپنے معاملے میں معیار پسندی(idealism) ۔
ایک صاحب کو مشورہ دیتے ہوئے میں نے کہا— اپنے گھر کے اندر آپ آیڈیلسٹ (idealist) بنئے، اور گھر سے باہر نکلتے ہی پریکٹکل (practical) بن جائیے۔
اِن دو طرفہ تقاضوں کو نبھانا، ایک مشکل کام ہے۔ اِس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اِن دو طرفہ تقاضوں کو نبھائیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے معاملے میں حقیقت پسند (realist) ہو اور اپنے معاملے میں معیار پسند(idealist)۔ جس آدمی کے اندر اِس کے برعکس مزاج ہو، وہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

اپنے آپ کو بچائیے

مدر ٹریسا، مقدونیہ (یورپ) میں 1910 میں پیدا ہوئیں اور 1997کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی سماجی خدمات پر ان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کو 1979 میں نوبل پرائز دیاگیا۔ لیکن مدر ٹریسا کے بارے میں ان کے سوانح نگار نے لکھا ہے کہ — وہ ذہنی کرب کی حالت میں مریں:
She died in agony.
یہی تقریباً تمام مصلحین (reformers) کا حال ہوا ہے۔ انھوںنے اپنے اصلاحی کام کا آغاز امیدوں کے ساتھ کیا، لیکن جب ان کا آخری وقت آیا تو ہر ایک صرف ناامیدی کی موت مرا۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر مصلح خارجی لوگوں کی اصلاح کو اپنا نشانہ بناتا ہے، اور جب خارجی لوگوں کی اصلاح نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطلوب اصلاح کے لیے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ ایسی حالت میں یقینی طورپر ہر شخص کامیاب ہوگا، کوئی بھی شخص مایوسی میں مبتلا نہ ہوگا۔
خارجی اصلاح کو نشانہ بنانا، اپنے آپ میں درست ہے، لیکن آئڈیل معنوں میں خارج کی اصلاح کبھی نہیں ہوتی۔ اِس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خود اپنی ذات کو نشانہ بنائے۔ دوسرے لوگ کسی انسان کے قبضے میں نہیں ہوتے، لیکن آدمی کی اپنی ذات یقینی طور پر اس کے قبضے میں ہے۔ ہر آدمی کو اپنی ذات پر کامل اختیار حاصل ہے۔ ایسی حالت میں اصلاح کے لیے اپنی ذات کو نشانہ بنانا، قابلِ حصول کو نشانہ بناناہے، اور قابلِ حصول نشانے کو اپنا نشانہ بنانے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
اگر آپ دوسروں کو نہ بچا سکیں تو اپنے آپ کو بچائیے، اپنے آپ کو منفی نفسیات سے مکمل طورپر محفوظ رکھیے، اپنے اندر مثبت شخصیت کی تشکیل کیجئے۔ اگر آپ اپنی ذات کے اوپر کامیاب ہوگئے تو آپ دوسروں کے اوپر بھی ضرور کامیابی حاصل کرلیں گے۔
واپس اوپر جائیں