Pages

Saturday 2 April 2016

Al Risala | April 2016 (الرسالہ،اپریل)

4

-اسلامی تاریخ کا فکری مطالعہ

6

- تاریخ کا مطالعہ

47

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اسلامی تاریخ کا فکری مطالعہ

Interpretation of Islamic History
اسلام کانظام صرف تیس سال قائم رہا، اس کے بعد عملامسلمانوں کے درمیان ملوکیت کا نظام قائم ہوگیا— اسلام کے بارے میں تعلیم یافتہ لوگوں کا یہ عام تصور ہے۔ لیکن یہ تصور پوری طرح غلط فہمی پر مبنی ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام اپنی پوری چودہ سو سالہ تاریخ میں مسلسل طور پر اپنی اصل حالت پر قائم رہا ہے اور آج بھی قائم ہے۔تاریخ میں بظاہر جو تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں، وہ اسلام کے اضافی حصہ (relative part)میںہیں، نہ کہ اسلام کے اصل حصہ (real part) میں۔
اس بات کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کَتَبَ اللَّہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی إِنَّ اللَّہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ (58:21) ۔یعنی اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔ بے شک اللہ قوت والا، زبردست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ جس طرح انسانی تاریخ پراللہ کا غلبہ مسلسل طور پر قائم ہے، اسی طرح پیغمبروں کا مشن بھی انسانی تاریخ پر ہمیشہ اور ہر حال میں غالب رہے گا۔ یہ با ت ایک حدیث رسول حسب روایت ابن عباس اس طرح بیان ہوئی ہے: الإسلام یعلو ولا یعلىٰ علیہ (شرح معانی الآثار، حدیث نمبر5267) یعنی اسلام ہمیشہ غالب رہے گا، وہ کبھی مغلوب نہ ہوگا۔
قرآن اور حدیث کے ان بیانات کے مطابق ، اسلامی تاریخ کی وہی تعبیر صحیح ہے جس میں مساوی طور پر تسلسل پایا جائے۔ جو تعبیر اسلامی تاریخ کو خلافت اور ملوکیت کے دو غیر مساوی ادوار میں تقسیم کریں، وہ بداہۃً قابل رد ہیں۔
Prima facie it stands rejected.
انسانی تاریخ کا سفر اجرامِ سماوی (astronomical body) کے سفر کی مانند نہیں ہے۔ اجرامِ سماوی کا سفر ہمیشہ یکساں رفتار (uniform speed) کے ساتھ چلتا ہے۔ لیکن انسانی تاریخ کا سفر ہمیشہ غیر ہموار رفتار سے جاری ہوتا ہے۔ ایسا فطرت کے قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ کے بارے میں یہی درست ہے کہ وہ غیر ہموار انداز میں سفر کرے۔ اگر انسانی تاریخ اجرامِ سماوی کی مانند ہموار انداز میں سفر کرنے لگے تو انسانوں کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking)کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، یہ کوئی مطلوب حالت نہیں۔
تاریخ خواہ بظاہر غیرہموار انداز میں سفر کرے، لیکن خدا تاریخ کو مسلسل طور پر مینج (manage) کر رہاہے۔ اس خدائی انتظام کی بنا پر تاریخ میں ہمیشہ یہ صورتِ حال قائم رہتی ہے کہ متغیر حالات کے درمیان ہمیشہ ایک غیر متغیر حکمت مسلسل طور پر موجود رہتی ہے۔ متغیرحالات کے درمیان اس غیر متغیر حکمت کو دریافت کرنے کا ہی دوسرا نام اسلامی تاریخ کی توجیہہ (interpretation)ہے۔
زیر نظر کتاب کا مقصد یہی ہے۔ یعنی اسلام کی تاریخ کی حکیمانہ توجیہہ دریافت کرنا ۔ اس دریافت میں اہل ایمان کے لیے یقین کا سرمایہ ہے، اور اس میں عام اہل علم کے لیے اسلامی تاریخ کے مطالعے کی صحیح بنیاد ہے۔
وحیدالدین
نئی دہلی، 16 دسمبر 2015
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا مطالعہ

قرآن کے بیان (الانبیاء30) نیز سائنسی دریافت کے مطابق، کائنات کی تخلیق کا آغاز غالباً تیرہ بلین سال پہلے بگ بینگ سے ہوا۔اس کے بعد مختلف ادوار پیش آئے۔معلوم تاریخ کے مطابق سب سے پہلے مادی دنیا بنی، یعنی وہ دنیا جہاں ایک وسیع خلا کے اندر بے شمار عظیم کہکشائیں موجود ہیں۔ اس کے بعد وہ دور آیا جب کہ شمسی نظام (solar system) بنا، اور پھر ایک تدریجی عمل کے بعد زمین وجود میں آئی، جہاں انسان کے لئے وہ تمام موافق انسانی اسباب موجود ہیں، جن کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد وہ وقت آیا جب کہ انسان کی تخلیق ہوئی، اور اس کو زمین پرآباد کیا گیا۔اس کے بعد انسانی تاریخ بننےلگی۔پھر خدائی منصوبے کے مطابق پیغمبر آنا شروع ہوئے۔انھوں نے کوشش کی کہ انسانی تاریخ توحید کے رخ پر سفر کرے۔مگر عملا یہ ہوا کہ صرف کچھ مستثنیٰ افراد نے پیغمبروں کی دعوت کو مانا۔ انسانی نسلوں کا قافلہ بڑی تعداد میں آزادی کے غلط استعمال کے نتیجے میں، غیر موحّدانہ راستے پر چل پڑا۔اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ انسانی زندگی میںعملاً ملوکیت کا نظام قائم ہوگیا۔ملوکیت اور شرک، دونوں نے مل کرساری دنیا میں جبریت (religious persecution)کا نظام قائم کردیا۔اس طرح یہ ناممکن ہو گیا کہ توحید کے مشن کو پر امن طور پر چلایا جاسکے۔
اس کے بعد تقریباچار ہزار سال پہلےپیغمبر ابراہیم کے ذریعے ایک نیا منصوبہ زیرِ عمل لایا گیا۔ اس منصوبے کو ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy)کہا جاسکتا ہے۔اس عمل کے ذریعے عرب کے صحرائی ماحول میںدوہزار سال سے زیادہ مدت کے دوران ایک نئی نسل تیار کی گئی، جو آج کل کی زبان میںکنڈیشننگ سے محفوظ قوم تھی۔یہ وہی نسل ہے جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں پیغمبرِ اسلام کا ظہور ہوا۔ انھوں نے اس نسل کے منتخب افراد کے ذریعے ایک جاندار ٹیم تیار کی۔ اس ٹیم نے ایک انقلابی کام انجام دیا۔اس نے ایک عظیم جد و جہد کے ذریعے ایک ایسا انقلاب پیدا کیا، جس سے انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔اس دور میں ایک نیا تاریخی پراسس (process)جاری ہوا، جس کا نقطۂ انتہا (culmination) وہ دور تھا،جو بیسویں صدی میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔اس دور کو سائنسی تہذیب کا دور کہا جاتا ہے۔
یہ سائنسی تہذیب عملاً ایک مادی تہذیب بن گئی۔ مغربی قومیں اس تہذیب کی چمپین تھیں۔اس تہذیب کے دوران مادی کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ مغربی قومیں، غالب قومیں بن گئیں۔ سیکولر طرزِ فکر، علم کے تمام شعبوں پر چھا گیا۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے سائنسی تہذیب تھی، لیکن اپنی عمومی تصویر کے اعتبار سے وہ مغربی تہذیب کہی جانے لگی۔
اس طرح بیسویں صدی میں عالمی سطح پر ایک ایسا دور وجود میں آیا، جو گویا مادی افکار کا ایک جنگل تھا۔یہ جنگل بظاہر پوری طرح ایک مادی جنگل تھا۔اس جنگل میں، از اول تا آخر، سب کچھ مادیت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔بظاہر اس کاکوئی تعلق نہ توحید سے تھا اور نہ ربانیت سے۔
تاہم تہذیب کے اس مادی جنگل میں ایک عظیم ربانی عنصر موجود تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح درختوں کے جنگل میں شہدجیسی قیمتی چیز مخفی نکٹر (nectar) کی صورت میں موجود ہوتی ہے۔یعنی مادی تہذیب کے جنگل میں معرفت کا نکٹر۔ اب مطلوب ہے کہ مادی تہذیب کے جنگل سے معرفت کے اس نکٹر کو اکسٹریکٹ (extract) کیا جائے، اور پھر اس کی تدوین اور تنظیم کر کےخدا کے دین کا وہ فکری اظہار کیا جائے، جس کو قرآن میں اتمام نور (الصف: 8) کہا گیا ہے۔
دینِ خداوندی کے اعتبار سےاکیسویں صدی میں کرنے کا سب سےزیادہ مطلوب کام یہی ہے۔ یہ کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ اس کو حدیث میں تاریخ کی عظیم ترین شہادت (گواہی) کہا گیا ہے— ہذا أعظم الناس شہادةً عند رب العالمین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔
شہد کی مکھی جنگل کے اندر موجود نکٹر کنٹنٹ (nectar content) سے بے خبر ہو تو جنگل اس کو صرف جنگل کی صورت میں دکھائی دے گا۔ لیکن شہد کی مکھی جب جنگل میں موجود نکٹر کنٹنٹ کو جان لے تو جنگل اس کے لئے ایک نعمت کی دنیا بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ جدید مادی تہذیب کا ہے۔ آپ اگر تہذیب کے اس مادی جنگل میں موجود معرفت کے اس نکٹرکنٹنٹ سے بے خبر ہوں تو جدید تہذیب آپ کو صرف مادیات کاایک جنگل دکھائی دے گی۔ لیکن اگر آپ اس تہذیب کے اندر موجود معرفت کنٹنٹ سے باخبر ہوجائیں تو جدید تہذیب آپ کےلئے ربانی معرفت کاایک عظیم باغ بن جائے گی۔
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ جدید سائنس کی ترقی ، چرچ اور سائنسی تحقیق کی علاحدگی سے شروع ہوئی۔ اس بنا پر مغربی دنیا میں یہ تصور قائم ہوگیا کہ فریڈم، خیر مطلق (summum bonum) ہے۔یہ تسلیم کرلیا گیا کہ اختلافِ رائے (dissent) انسان کا ناقابلِ تنسیخ حق (right) ہے۔یہ ایک بے حد اہم فیصلہ تھا۔ اس کی بنا پر پہلی بار تاریخ میں ایسا ہوا کہ آزادیٔ رائے (freedom of expression) ایک مسلمہ انسانی حق قرار پایا۔
مذہب کے اعتبار سے یہ ایک بے حد اہم تبدیلی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار مذہبی آزادی (religious freedom) انسان کا ایک مسلمہ حق قرار پائی۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ مذہب کے معاملے میں ہر قسم کی رکاوٹ یا مذہبی جبر (religious persecution)کا خاتمہ ہوجائے۔ اس انقلاب نے پہلی بار انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ آزادانہ طور پر جس مذہب کو چاہے اختیار کرے، اور جس مذہب کی چاہے تبلیغ کرے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ جو کچھ کرے، پرامن (peaceful) انداز میں کرے۔
مگر دورِ جدید کی یہ نعمت ایک مخفی نِکٹر کی صورت میں پائی جاتی تھی، کیوں کہ آزادی جب انسانی حقوق (human rights) میں سے ایک حق قرار پایا تو یہ حق ہر ایک کے لئے تھا، وہ صرف اہل مذہب کے لئے نہیں تھا۔چناں چہ اس کے بعد یہ ہوا کہ ہر آدمی اپنی مرضی کے مطابق اپنی آزادی کا کھلااستعمال کرنے لگا۔ اس طرح عملاً یہ ہوا کہ آزادی کا ایک عظیم جنگل اُگ آیا، جس میں برہنگی (nudity) سے لے کرمذہب کی بے حرمتی (blasphemy) تک ہر منفی چیز موجود تھی۔ مگر اس جنگل کے اندر مذہبی آزادی کا نِکٹر بھی موجود ہے۔ اب ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر شہد کی مکھی والی حکمت موجود ہو،یعنی ناموافق جنگل کو نظر انداز کرتے ہوئےموافق نِکٹر دریافت کرکے اس کو استعمال کرنا۔
خلیفہ کا مطلب
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے جب آدم کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو کہا : إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً (2:30)۔ یعنی میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ خلیفہ کا مطلب ہے بعد کو آنے والا(successor)۔ قرآن میں کئی جگہ یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے،مثلا: ثُمَّ جَعَلْنَاکُمْ خَلَائِفَ فِی الْأَرْضِ (10:14) ۔
قرآن کی مذکورہ آیت (2:30) کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے پہلے جنوں کو پیدا کیا (الحجر27)۔ جنوں نے زمین میں فساد برپا کیا۔ اس کے بعد اللہ نے ایک اور مخلوق انسان کی صورت میں پیدا کی۔ اس وقت فرشتوں نے یہ شبہہ ظاہر کیا: أَتَجْعَلُ فِیہَا مَنْ یُفْسِدُ فِیہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ (2:30) ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے یہ بات جنوں کے تجربہ کی بنیاد پر کہی تھی۔ یعنی جنوں کو آزادی دی گئی ، اس کے بعد انھوں نے فساد پربا کیا۔ اب اگر انسان کو آزاد مخلوق کی حیثیت دی جائے تو وہ بھی آزادی کا غلط استعمال کریں گے اور فساد برپا کریں گے۔
قرآن میں یہ حوالہ گویا بطور انتباہ (warning)ہے۔ یعنی اس طرح انسان کو متنبہ کیا گیا کہ وہ جنوں کی مثال سے سبق لیں، اور آزادی کا غلط استعمال کرکے دوبارہ فساد اور سفک دماء کی غلطی نہ کریں۔ ورنہ ان کو بھی جنوں جیسا انجام بھگتنا پڑے گا۔
قرآن کی اس آیت میںخلیفہ کا لفظ کسی سیاسی معنی میں نہیں ہے۔ وہ صرف اس معنی میں ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، انسانوں کے اندر توالد و تناسل کا نظام قائم ہوگا، ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا ہوگی، ایک گروہ کے بعد دوسرا گروہ اس کی جگہ لےگا۔ اس آیت میں خلیفہ کا لفظ انسان کے مشن کو بتانے کے لیے نہیں آیا ہے بلکہ اس کی تخلیقی نوعیت کو بتانے کے لیے آیا ہے۔ جہاں تک انسان کے مشن کا معاملہ ہے، اس کو جاننے کے لیے ہر انسان کو خدا کی کتاب کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ خدا کی کتاب سے معلوم ہوگاکہ انسان کو اس زمین پر کس طرح زندگی گزارنا ہے۔
انبیاء کا نمونہ
قرآن میں انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے:إِنَّا أَخْلَصْنَاہُمْ بِخَالِصَةٍ ذِکْرَى الدَّارِ (38:46)۔ یعنی ہم نے ان پیغمبروں کو ایک خاص مشن، آخرت کی یاد دہانی کے لیے چن لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مشن کیا ہے۔ پیغمبر کی امت کو بھی ہر زمانے میں اسی مشن کی پیروی کرنا چاہیے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا مشن آخرت کا مشن تھا۔ مگر یہ مشن اتفاقاً نہیں بنتا۔ اس کے لیے پیغمبروں کو تیار کیا جاتا ہے۔ وہ اپنا مشن شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ انسان کے خالق نے ان کو کس منصوبہ کے تحت پیدا کیا ہے۔ غور و فکرکی اس زندگی کے بعد انھیں اللہ کی طرف سے ہدایت ملتی ہے۔ اور پھر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ انسان کی زندگی آخرت رخی (akhirat-oriented life)ہو، انسان کی سوچ کا مرکز و محور آخرت ہو، وہ اپنی زندگی اس سوچ کے تحت گزارے کہ دنیا میں اس کی جو شخصیت بنے ،وہ آخرت کے اعتبار سے ایک کامیاب شخصیت ہو۔
پیغمبر اس لیے نہیں آتا کہ وہ ملی ورک یا سوشل ورک جیسے کام کرےیا کوئی سیاسی پروگرام چلائے۔ پیغمبر کا مشن یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کرے، وہ لوگوں کو بتائے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ، ان کے لیے کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا ۔ وہ دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ موت کے بعد جب وہ آخرت کی دنیا میں پہنچیں تو وہ اللہ کے انعام کے مستحق قرار پائیں۔ اللہ کی طرف سے پیغمبروں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی جھکاؤ (tilt)کا ثبوت نہ دیں، وہ کسی سمجھوتے کے بغیر خدا کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ اس معاملے میں وہ کسی بھی عذر کو استعمال نہ کریں۔
خلافت، ملوکیت
ارسطو (Aristotle) اپنے زمانے کے یونانی بادشاہ (Alexander the Great) کا استاد (tutor) تھا۔ ارسطو کا نظریہ تھا یونان میں آئڈیل حکومت قائم کرنا۔ اس کے لیے اس نے نوجوان الیگزنڈر کی تربیت کرنے کی کوشش کی۔ مگر جب الیگزینڈر یونان کا بادشاہ بنا تو وہ بھی دوسرے حکمرانوں کی طرح صرف ایک اقتدار پسند بادشاہ بن گیا۔ ارسطو کا معیاری حکومت کا خواب واقعہ کی صورت اختیار نہ کر سکا۔
یہی تمام دنیا کے مفکرین اور مصلحین کا انجام ہوا ہے۔ انسانی تاریخ کے تمام سوچنے والے ذہن اسی آئڈیلزم (idealism)کےمسحور کن تخیل (obsession) میں پڑے رہے۔ ہر ایک کا نشانہ صرف ایک تھا۔ وہ ہے دنیا میں آئڈیل نظام قائم کرنا۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ پوری تاریخ میں کوئی بھی شخص اپنے آئڈیل نشانے کو پورا نہ کر سکا۔ ہر ایک کا وہی حال ہوا جو چوتھی صدی قبل مسیح میں ارسطو کا ہوا تھا۔
اس کا سبب کیا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پولیٹکل آئڈیلزم (political idealism) فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا کے لیے صحیح سیاسی نظریہ پولیٹکل آئڈیلزم نہیں ہے، بلکہ پولیٹکل پریگمٹزم (pragmatism)ہے۔ آئڈیل سیاست کا حصول اس دنیا میںسرے سے ممکن ہی نہیں۔
آئڈیل نظام کے لیے خالق نے جنت کی دنیا بنائی ہے۔ جنت کی دنیا ہر اعتبار سے آئڈیل اور پرفکٹ ہوگی۔ مگر خالق نے موجودہ دنیا کو آزمائش گاہ (testing ground) کے طور پر بنایا ہے۔ یہاں ہر عورت اور ہر مرد کو اس لیے پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے آزمائشی حالات میں رہ کر مثبت رسپانس (positive response) دے۔ تاکہ وہ جنت کے لیے مستحق امیدوار (deserving candidate) قرار پائے۔ اور پھر جنت کی ابدی دنیا میں داخلہ کے لیے اس کا انتخاب کیا جائے۔ اس تخلیقی نقشہ (creation plan) کی بنا پر ہمیشہ یہی ہوگا کہ اس دنیا میں قائم ہونے والا سیاسی نظام انسان کی آزادی کے تابع ہو۔ اور اس بنا پر یہاں کبھی معیاری نظام نہ بن سکے۔
یہی اصول خود مسلم معاشرہ پر بھی منطبق (apply) ہوتا ہے۔ مسلم معاشرے میں افراد تو معیاری ہوسکتے ہیں۔ مگر عملی نظام مجموعی معنی میں کبھی معیاری نہیں ہوگا۔ایک فرد خود اپنی ذاتی سوچ کے تابع ہوتاہے۔اس لیے وہ اپنی ذات کی حد تک اپنے آپ کو جیسا چاہے ،ویسا بنا سکتا ہے۔ لیکن مجموعی نظام ہمیشہ اجتماعی حالات کے تابع ہوتاہے۔ انسان اپنی آزادی کا کبھی درست استعمال کرتا ہے اور کبھی غلط استعمال۔ اس بنا پر اس دنیامیں مجموعی اعتبار سےجو نظام بنے گا ، وہ بیک وقت دونوں قسم کے اجزاء پر مشتمل ہوگا، کچھ درست اور کچھ نادرست۔یہ فرق کسی نقص کی بنا پر نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ عین مطلوب ہوگا۔ کیوں کہ وہ خالق کے نقشۂ تخلیق کے مطابق ہوگا۔
کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلام میں خلافت کا مطلب معیاری سیاسی نظام ہے۔ اس بنا پر وہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان معیاری سیاسی نظام بنانے کی تحریکیں چلاتے ہیں ۔ مگر اس قسم کی کوشش سے مطلوب نظام تو قائم نہیں ہوا، البتہ مسلمانوں کے اندر باہمی ٹکراؤ کی غیر مطلوب حالت قائم ہوگئی۔ ایسے مسلم قائدین نے صرف پولیٹکل اپوزیشن کی مثالیں قائم کی ہیں، ان کی کوششوں کا کبھی کوئی مثبت انجام بر آمد نہیں ہوا ۔ خلافت کی اصطلاح اسلام میں افرادِ انسانی کی آزادی کو بتاتی ہے، نہ کہ معیاری سیاسی نظام کو ۔ قرآن کے مطابق انسان کو خلیفہ بمعنی آزاد مخلوق بنایا گیا ہے ۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ انسان اپنی آزادی کا عملی استعمال کس طرح کرتا ہےلِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ (10:14)۔
قرآن میں اولوالعزم انبیاء (الاحقاف35)کا حوالہ دیا گیا ہے۔ لیکن کسی بھی نبی کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس نے اپنے زمانے میں معیاری خلافت کا نظام قائم کیا۔ پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں بھی قرآن کی کسی آیت میں یہ الفاظ نہیں آئے ہیں کہ تمھارا مشن یہ ہے کہ تم دنیا میں معیاری خلافت قائم کرو۔ پیغمبر اسلام کا مشن بھی دوسرے انبیاء (النساء165)کی طرح انذار و تبشیر (الفرقان56) تھا، نہ کہ معیاری معنوں میں کسی سیاسی نظام کا قیام۔پیغمبر اسلام کے بعد صحابہ کے زمانے میں جو سیاسی نظام قائم ہوا، اس میں بھی مسلم حاکم کو خلیفہ نہیں کہا گیا، بلکہ امیر المومنین کہا گیا۔
اس صورتِ حال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خلافت کا نظام ملوکیت کے نظام میں تبدیل ہوگیا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے حالات کے مطابق، جو سیاسی نظام قابلِ عمل (workable) تھا، وہ قائم ہوا اور وقت کے مسلمانوں نے اس کو قبول کیا۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر نظام میں اسلام کا مطلوب تعمیری سفر بدستور جاری رہا۔ حالات میں تغیر کے باوجود ، اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔
تھیسس، اینٹی تھیسس
فریڈرش ہیگل(وفات 1831)اٹھارویں صدی کا مشہور جرمن فلسفی ہے۔ اس نے ایک فلسفہ پیش کیا۔ جس کو تھیسس اور انٹی تھیسس (thesis and anti-thesis) کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ کو انسانی تاریخ پر منطبق کرتےہوئے، کارل مارکس نے اپنا مشہور نظریہ جدلیاتی مادیت (dialectical materialism) وضع کیا۔ ہیگل اور مارکس، دونوں نے ایک مشترک غلطی کی۔ تاہم ان کے نظریے میں ایک جزئی صداقت پائی جاتی ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نظریے کی اصل فطرت کے ایک قانون پر قائم ہے۔ یہ قانون وہی ہے جس کو قرآن میں قانون دفع (البقرۃ: 251، الحج: 40) کہا گیا ہے۔
قرآن میں دفع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دفع کا لفظی مطلب ہے، ہٹانا (to repel)۔ اس سے مراد تاریخ کے وہ انقلابات ہیںجو ایک قوم کو غلبہ کے مقام سے ہٹاتے ہیں او ر اس کے بعد دوسری قوم کو موقع ملتا ہے کہ وہ دنیا کا انتظام سنبھالے۔ اس قسم کے انقلابات تاریخ میں بار بار ہوئے ہیں۔ یہ انقلابات بظاہر انسان کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ خالق کا منیجمنٹ (management) ہوتا ہے۔ خالق انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینیج (manage) کر رہا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہےجس کو قرآن میں دفع کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
اسی تاریخی حقیقت کو ہیگل اور مارکس نے اس طرح بیان کیا کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک صورت حال یا مقدمہ (thesis) سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد خود تاریخی اسباب سے اس کا جوابی مقدمہ (anti-thesis) وجود میں آتا ہے۔اس کے بعد ایک امتزاج (synthesis) وجود میں آتا ہے جو سابق حالت کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس طرح تاریخ کا سفر برابر جاری رہتا ہے۔ یہ معاملہ سیکولر تاریخ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور مذہبی تاریخ کے ساتھ بھی۔
قانونِ فطرت کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ حالات کے تحت ایک ایکشن (action) سامنے آتا ہے۔ پھر اس کے جواب میں ایک ری ایکشن (reaction) پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد تیسری شکل سامنے آتی ہے، وہ اس صورتِ حال کا رسپانس (response)ہے۔ نیگیٹیو رسپانس (negative response) حالات کو مزید بگاڑتا ہے، اور پازیٹیو رسپانس (positive response) سماج کو ایک بہتر دور کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی پوری انسانی تاریخ میں ہوا ہے۔ اس حقیقت کو جاننا، اور ری ایکشن سے بچ کر صورتِ حال کا پازیٹیو رسپانس دینا یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔
اسلام اور سلطان
اسلام کی تاریخ 610عیسوی میں شروع ہوئی۔ 632 عیسوی میںپیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد اس دور کا آغاز شروع ہوا جس کو عام طور پر خلافت کا دور کہا جاتا ہے۔ اس خلافت کی مدت تقریباتیس ( 30)سال ہے۔ اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے۔ لیکن چاروں خلفاء کا تقرر چار مختلف طریقوں (methods)سے ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ یا سیاسی قائد (political leader)کے تقرر کا معاملہ اسلام میں مبنی بر نص (based on text)معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ مبنی بر اجتہاد معاملہ ہے۔اس بنا پر اس کے لیے کوئی واحد معیاری ماڈل نہیں ۔ اس کا فیصلہ حالات کی بنیاد پر بذریعہ اجتہاد کیا جاتا ہے۔
خلافت کے بعد امیر معاویہ (وفات41ھ)کا دور شروع ہوا۔ وہ ایک صحابی تھے۔ ان کے زمانے میں حکومت کے لیے خاندانی ماڈل (dynasty) کو اختیار کرلیا گیا۔ اس وقت صحابہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ صحابہ نے اس خاندانی ماڈل کو عملاً قبول کرلیا۔ اس کے بعد اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اسی ماڈل پر چلتی رہی۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء، علماء سب کے سب اس ماڈل پر راضی ہوگیے۔ اس کے بعد اسلام کی تاریخ میں مختلف مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ مثلا بنو امیہ کا دور، بنو عباس کا دور، عثمانی ایمپائر، مغل ایمپائر ، وغیرہ۔ یہ تمام اسی خاندانی ماڈل پر قائم ہوئے۔ اور دورِ اول کے وہ تمام لوگ جن کو اسلاف کہا جاتا ہے، ان سب نے اس ماڈل کو عملاًقبول کرلیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ ماڈل تاریخی عمل کے نتیجے میں ایک مقبول ماڈل (historically accepted model) بن چکا تھا۔ یہی خاندانی ماڈل موجودہ زمانے کی عرب ریاستوں میں قائم ہے۔
مسلم علماء کے درمیان منہج سلف کو معیاری منہج مانا جاتا ہے۔ متقدمین یا اسلاف کا یہ منہج جس دور میں بنا وہ پورا دور خاندانی ریاست (dynasty) کا دور تھا۔ اس دور کو تمام علمائے امت نے درست منہج کے طور پر قبول کرلیا ۔ کسی قابلِ ذکر عالم نے اس کے خلاف خروج (revolt) نہیں کیا۔ حتی کہ عباسی دور میں تمام علماء کے اجماع سے یہ مسئلہ بنا کہ مسلم حکمراں کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔ بطور حوالہ مشہور محدث امام نووی (وفات676: ھ) کا ایک قول یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اس معاملے میں منہج سلف کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھاہے : وأما الخروج علیہم وقتالہم فحرام بإجماع المسلمین وإن کانوا فسقة ظالمین۔ (شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الامارۃ،12/229) یعنی مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا اور ان سے قتال کرنا مسلمانوں کے اجماع کے تحت حرام ہے۔ خواہ وہ (کسی کے نزدیک) ظالم اور فاسق ہوں۔
اس زمانے میںیہ مسلم حکمراں کون تھے۔ یہ وہی تھے جو خاندانی حکومت (dynasty) کے اصول کے تحت حکمراں بنے تھے۔ موجودہ زمانے کی عرب ریاستیں اسی خاندانی نظام کا امتداد (continuation) ہیں۔ اس لیے علماءکا یہ متفقہ فتویٰ موجودہ عرب ریاستوں پر بھی عین اسی طرح اپلائی (apply) ہوگا جس طرح وہ اس سے پہلے کی مسلم ریاستوں پر اپلائی ہوتا ہے۔
علماء نے متفقہ طور پر خاندانی حکومت (dynasty) کو کیوں درست ماڈل کے طو رپر مان لیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کا اصل مقصد تمکین فی الارض (22:41) ہے ، نہ کہ کسی مخصوص ڈھانچہ کو قائم کرنا۔ تمکین سے مراد سیاسی استحکام (political stability)ہے۔سیاسی استحکام سے معتدل ماحول قائم ہوتا ہے۔ اور معتدل ماحول سے علمائے اسلام اور مصلحین امت کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر دین کے تمام غیر سیاسی شعبوں کو چلائیں۔
اس معاملے کی ایک حکمت یہ ہے کہ زندگی کا نظام قانون اور حکومت پر کم اور روایات (traditions) پر زیادہ چلتا ہے۔ اور روایات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لمبی مدت تک کے عمل کے بعد کسی سماج میں قائم ہوتی ہیں۔ درست طور پر کہا جاتا ہے کہ روایت ہمیشہ لمبی تاریخ کے بعد بنتی ہے:
It requires a lot of history to make a little tradition.
یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حکومت کی حیثیت اگر سیاسی سلطنت (political empire)کی ہے تو روایات کی حیثیت غیر سیاسی سلطنت (non-political empire)کی ہے۔ روایات پر مبنی سلطنت اگر چہ ایک ناقابلِ مشاہدہ سلطنت (unseen empire) ہوتی ہے۔ لیکن کسی سماج کا نظام سب سے زیادہ بلکہ تقریبا 99 پرسنٹ عملاً اسی غیر سیاسی سلطنت کے تحت چلتا ہے۔ یہ غیر سیاسی سلطنت ہمیشہ وہ لوگ بناتے ہیں جوحکومت کے دائرے سے باہر مسلسل طور پر اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
اسلام پر نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس لیے ضروری تھا کہ دین کا تسلسل قائم کرنے کے لیے مسلم سماج میں اسلام کا ایک روایاتی ڈھانچہ بنے۔ اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ رسالت کے زمانے میں مخالفت، بائیکاٹ، لڑائی اور ہجرت جیسے واقعات کی بنا پر حالات کا وہ تسلسل نہیں بنا جس میں روایات قائم ہوں۔ خلافت کے زمانے میں باہمی اختلافات بہت زیادہ ابھر آئے۔ یہاں تک کہ چار میں سے تین خلیفہ کو قتل کردیا گیا۔ اس لیے خلافت کے زمانے میں بھی دینی تسلسل کا مطلوب ماحول نہ بن سکا۔
اللہ اپنے منصوبہ کے مطابق،پورے عالم تخلیق کو مینج (manage) کر رہاہے۔مادی کائنات (physical world) اللہ کے مکمل کنٹرول کے تحت چل رہی ہے۔ انسان کو چوں کہ مقصد تخلیق کے تحت آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں اللہ کا طریقہ مختلف ہے۔ اور وہ ہے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انسانی تاریخ کو مطلوب انداز میں مینج کرنا۔ اس لیے اللہ کی مرضی ہوئی کہ ایسا سیاسی نظام بنے جو مسلسل طور پربلا انقطاع چلنے والا ہو۔ اس کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں پایا جاتا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ (15:9)۔ حفاظت کے وسیع تر معنی میں یہاں پورے دینِ اسلام کی حفاظت شامل ہے۔دورِ رسالت کےتقریباً 30 سال کے بعد امت کے اندر خاندانی حکومت (dynasty) کا جو نظام قائم ہوا، وہ اسی خدائی انتظام کے تحت وقوع میں آیا۔
اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ خاندانی حکومت کے قیام کے بعد امت کے اندر مطلوب ماحول عملاًقائم ہوگیا۔ اس نظام کو امت نے قبول کرلیا۔ ایسا پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے تحت ہوا۔ اس نظام کے تحت جوتسلسل قائم ہوا، اس کے زیر اثر دینی روایات بننا شروع ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر پورے عالم اسلام میںدین کا ایک روایتی ڈھانچہ عملاً قائم ہے۔ اس کی وجہ سے امت کے ہر فرد کے لیے یہ آسان ہوگیا ہے کہ وہ پیدا ہوتے ہی دین اسلام کو پہچان لے اور اس پر عمل کرنے لگے۔
اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے میں امیر معاویہ کے بعد جب خاندانی ریاست کا نظام قائم ہوا تو حالات میں استحکام پیدا ہوگیا۔ اور تمام دینی کام اسموتھ (smooth) طور پر انجام پانے لگے۔ مثلا قرآن کی حفاظت ، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کی تدوین، علومِ اسلامی کی تدوین ، مسجد و مدرسے کانظام قائم ہونا، حج و عمرہ کا نظام، دین کی تبلیغ و اشاعت ، وغیرہ۔ یہ تمام کام امن اور اعتدال کے ماحول میں انجام پانے لگے۔ علوم اسلامی کا کتب خانہ پورا کا پورا اسی دور میں تیار ہوا۔ یہ کام اس سے پہلے عدم استحکام کی بنا پرکم ہو رہاتھا۔ اور استحکام کے بعد سے یہ نظام عملاًآج تک تقریباً اسی طرح جاری ہے۔
امام مالک بن انس (وفات: 179ھ) اپنے استاد وھب ابن کیسان کے حوالے سے کہتے ہیں: إنہ لا یصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح أولہا۔(مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر 783) یعنی بلاشبہ اس امت کے دورِ آخر کی اصلاح بھی اسی طریقے کی پیروی سے ہوگی جس طریقہ کی پیروی سے امت کے دور اول کی اصلاح ہوئی۔ اولِ امت (earlier ummah) سے مراد وہی دور ہے جس کو متقدمین کا دور یا اسلاف کا دورکہا جاتا ہے۔ اور دورِ اسلاف پورا کا پورا وہی ہے جو خاندانی ریاست کے دور میں وجود میں آیا۔ اس سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ دورِ اول میں جس سیاسی ماڈل کو تمام علماء کے اتفاقِ رائے سے قبول کیا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں امت کے تمام کام درست طور پر انجام پائے ، وہی ماڈل امت کے بعد کے دور کے لیے بھی درست ہے۔ اسی طریقہ کے مطابق بعد کے زمانے میں بھی امت کی اصلاح ممکن ہے۔
صحابیٔ رسول عبد اللہ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  الإسلام والسلطان أخوان توأمان (کنز العمال، حدیث نمبر14613)۔ یعنی اسلام اور سلطان دو جڑواں بھائی ہیں۔ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: المُلک و الدین توأمان (کشف الخفاء، حدیث نمبر2329)۔یعنی مُلک اور دین دونوں جڑواں بھائی ہیں۔
ان روایتوں میں سلطان اور مُلک ، دونوں کے معنی ایک ہیں۔یعنی سیاسی اقتدار (political power)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کا رول اصلاً تائیدی رول (supporting role) ہے۔ سیاسی اقتدار کا کام یہ ہے کہ وہ اسلام کےلیے طاقت ور مددگار بنے، وہ اسلام کو شیلٹر (shelter)عطا کرے۔ تاکہ اس کے زیرِ سایہ تمام دینی کام اسموتھ (smooth) طور پر انجام پائیں۔
قرآن میں عدل یا قسط کے معاملے کو متعدی کے صیغے میں بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ لازم کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی عدل کی پیروی کرو(5:8)،قسط پر قائم رہو(4:135)۔ گویا سیاسی اقتدار کا کام عدل و قسط کی تنفیذ (enforcement) نہیں ہے۔ بلکہ وہ یہ ہے کہ وہ سماج میں معتدل حالات قائم کرے تاکہ لوگوں کو یہ موقع ملے کہ وہ کسی رکاوٹ کےبغیر اپنی زندگی میں عدل و قسط کے پیرو بن سکیں۔
سیاسی اقتدار کے اسی رول کی بنا پر اسلام میں سیاسی اقتدار کا کوئی ایک خارجی ماڈل نہیں ہے۔ سیاسی اقتدار کا کام یہ ہے کہ وہ اہل اسلام کو امن اور حفاظت عطا کرے۔ تاکہ دین کے تمام کام معتدل انداز میں انجام پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء نے متفقہ طور پر خاندانی حکومت (dynasty) کے ماڈل کو درست ماڈل کی حیثیت سے قبول کرلیا جو کہ واضح طور پرابتدائی خلافت کے ماڈل سے مختلف تھا۔ کیوں کہ انھوں نے دیکھا کہ اس ماڈل کے تحت اہل اسلام کو امن اور حفاظت کا مقصد بخوبی طور پر حاصل ہورہا ہے۔ اور تمام دینی کام بلا رکاوٹ انجام پارہے ہیںجو کہ اس سے پہلے عملاً پورے طور پرحاصل نہ تھے۔
اسلام کا تاریخی رول
انسان کو اللہ نے آزاد مخلوق کی حیثیت سے بنایا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو دریافت کرے ۔اور آزادانہ ارادے کے تحت اپنی زندگی کو اس کے مطابق بنائے۔ اس حقیقت کو بتانے کے لیے اللہ نے بار بار اپنے پیغمبر بھیجے۔ ہزاروں سال کے دوران بڑی تعداد میں ہر علاقے میں پیغمبر آئے۔ لیکن انسان پیغمبروں کے ساتھ استہزاء (یس30)کا معاملہ کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دینِ خداوندی کی کوئی تاریخ نہیں بنی۔
آخر میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ انسانی تاریخ میں مداخلت کرے۔اور پیغمبروں کا مشن جو دعوت کے مرحلے پر ختم ہوتا رہا، اس کو خصوصی تائید کے ذریعے انقلاب (revolution) کے مرحلے تک پہنچائے۔
پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کی بعثت اسی مقصد کے ساتھ ہوئی۔ آپ کے ذریعے دینِ خداوندی کودعوت سے شروع کیا گیا ، اور پھراس کو انقلاب کے مرحلے تک پہنچادیا گیا۔ اس کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت نہ تھی، اس لیے اعلان کردیا گیا کہ پیغمبر اسلام سلسلۂ نبوت کے آخری شخص (الاحزاب: 40) ہیں۔
پیغمبراسلام کے حوالے سے قرآن میں تین بار، لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ (التوبۃ33، الفتح28، الصف9) کے الفاظ آئے ہیں۔ ان آیتوں میں اظہارِ دین کا لفظ سیاسی حکومت کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ نظریاتی انقلاب کے معنی میں ہے۔ یہ ایک پرامن انقلاب ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس کو ایک نظریاتی غلبہ کا درجہ حاصل ہے۔ حالاں کہ سائنس یا سائنسدانوں کی کوئی سیاسی حکومت نہیں۔
اظہارِ دین سے مرادکوئی عملی نظام قائم کرنا نہیں۔ بلکہ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ دینِ خداوندی کے راستے کی تمام رکاوٹوں کوعملا ختم کردیا جائے۔ تاکہ جو انسان دینِ خداوندی کے راستے پر چلنا چاہے، وہ آزادانہ طور پر اس پر چل سکے اور خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اپنی شخصیت ڈیولپ کرنے میں اس کو کوئی خارجی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
دینِ حق کی یہ رکاوٹیں بنیادی طور پر دو تھیں، ایک شرک (polytheism) اور دوسرے بادشاہت (kingship)۔ قدیم زمانےمیں شرک اور بادشاہت کے نظام کو رفتہ رفتہ کامل غلبہ حاصل ہوگیا تھا۔ اس بنا پرعملا یہ ناممکن ہوگیا تھا کہ کوئی شخص دینِ خداوندی کے راستے پر کامل آزادی کے ساتھ چل سکے۔ اور اپنے آپ کو اللہ کا مطلوب انسان بنائے۔
اعتقادی اعتبار سے شرک اور عملی اعتبار سے بادشاہت، اس راستے میں مستقل رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اللہ نے پیغمبرِ اسلام اور آپ کے اصحاب کو خصوصی تائید عطا کی۔ تاکہ ان دونوں نظاموں کو وہ غلبہ کے مقام سے ہٹادیں اور ایسے حالات پیدا کردیں جن میں انسانی تاریخ اپنے مطلوب رخ پر سفر کرسکے۔
پہلے نشانے کو ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لا یجتمع دینان فی جزیرة العرب (موطا امام مالک، حدیث نمبر1862)۔ یعنی جزیرۂ عرب میں دو دین اکٹھا نہیں ہوں گے۔ ساتویں صدی میں جب آپ نے یہ فرمایا اس وقت یہ حال تھا کہ مکہ کےمقدس کعبہ کو شرک کا مرکز بنا دیا گیا تھا۔ کعبہ کی عمارت میں تقریبا تین سو ساٹھ بت رکھ دیے گیےتھے۔ یہ دراصل مختلف قبائل کےبت تھے۔ اس لیے مشرک قبائل کے لیے کعبہ نے مذہبِ شرک کے مرکز کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔
پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خصوصی تائید کے تحت ایک دور رس منصوبہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں بیس سال کے اندر کعبہ کی حیثیت بدل گئی۔ وہ شرک کے مرکز کے بجائے توحید کا مرکز بن گیا۔ ایسا اس طرح ہوا کہ عرب قبائل کے سردار بڑی تعدا میں اسلام میں داخل ہوئے۔ اس طرح پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ موقع ملا کہ وہ کعبہ کو بتوں سے پاک کردیں، اور ابراہیمی نقشہ کے مطابق اس کو توحید کے مرکز کی حیثیت دے دیں۔
پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کے مشن کا دوسرا نشانہ یہ تھا کہ بادشاہت کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ اس مشن کا ذکر ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں آیاہے: إذا ہلک کسرى فلا کسرى بعدہ، وإذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر3120) یعنی جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہوگا، اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی اور قیصر نہ ہوگا۔ کسریٰ سلطنت ایران (Sassanid Empire)کا حکمراں تھا۔ اور قیصر سلطنتِ روم (Byzantine Empire) کا حکمراں تھا۔ یہ دونوں قدیم بادشاہی نظام کی علامت بنے ہوئے تھے۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ یہ دونوں بادشاہتیں ختم ہوجائیں۔ اور پھر اس کے بعد کوئی بادشاہت کا نظام دوبارہ دنیا میں قائم نہ ہو۔
یہ ایک بے حد مشکل منصوبہ تھا۔ اس منصوبہ کو اس طرح آسان بنا دیا گیا کہ پہلے پیغمبرِا سلام کے زمانے میں ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر میں زبردست ٹکراؤ ہوا۔ اس کے نتیجے میں دونوں سلطنتیں کمزور ہوگئیں۔ اس کا اشارہ قرآن کی سورہ الروم کے ابتدا میں کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل عمر فاروق کے زمانے میں ہوئی، جبکہ اہل ایمان سے دونوں بادشاہتوں کا فوجی ٹکراؤ ہوا۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں سلطنتیں ٹوٹ کر عملا ختم ہوگئیں۔
اس طرح انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ دور ایک تاریخی عمل (historical process)کی صورت میں تھا۔ اس تاریخی عمل میں اہل اسلام اور سیکولر گروہوں نے مشترک طور پر کام کیا۔ یہ ایک عظیم تاریخی عمل تھا، جس کی تکمیل یوروپ کی نشا ۃ ثانیہ (Renaissance) کے زمانے میں انجام پائی۔
شرک کے دور کا خاتمہ، توہماتی دور (age of superstition) کا خاتمہ تھا۔ اسلام سے پہلے پوری تاریخ میں توہماتی فکر چھایا ہوا تھا۔ اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار یہ توہماتی دور ختم ہوا۔ اور انسان کے درمیان عقلی تفکیر (rational thinking) آئی۔ جس کے نتیجے میں جدید علوم پیدا ہوئے۔ فطرت کے رموز دریافت ہوئے۔ سائنس کا دور آیا، جس نے انسانی تاریخ کو ایک نئے تاریخی دور میں پہنچادیا۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہارِ دین کے منصوبے میں دو طرح کے اجزاء شامل تھے، ایک وہ جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں واقعہ بن گیا۔ شرک کے دور کا خاتمہ اسی پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ شرک کے دور کا خاتمہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے شروع ہوا، اور انھیں کے زمانے میں عملا تکمیل تک پہنچ گیا۔ شرک کا کلچر اگرچہ اب بھی بعض گوشوں میں بظاہر موجود ہے، لیکن اب وہ کہیں بھی غالب حیثیت میں نہیں۔
اظہارِ دین کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو قرآن و حدیث میں مستقبل کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلا آیات کے ظہور کے بعدحق کی کامل تبیین (فصلت53)، یا حدیث کا یہ ارشاد: لیبلغن ہذا الأمر ما بلغ اللیل والنہار، ولا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ ہذا الدین، بعز عزیز أو بذل ذلیل (مسند احمد، حدیث نمبر16957)، وغیرہ۔ اظہارِ دین کا یہ دوسرا پہلو، ایک ایسا پہلو تھا جو نسل در نسل گہری کوشش کے بعد مکمل ہونے والا تھا۔ اس لیے اللہ نے یہ مقدر کردیا کہ اس کام میں سیکولر لوگوں کی تائید بھی بھرپور طور پر حاصل ہو۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔
اظہارِ دین کا یہ انقلاب اکیسویں صدی میں اپنےآخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب اہل ایمان کا یہ کام ہے کہ وہ اس پیدا شدہ مواقع کو بھر پور طور پر دین خداوندی کی عالمی دعوت کے لیے استعمال کریں۔ تاکہ کوئی پیدا ہونے والا انسان اس سے بےخبر نہ رہے کہ اس کے خالق نے اس کو کیوں پیدا کیا ہے۔ اور خالق کا تخلیقی منصوبہ (creation plan)ان کے بارے میں کیا ہے۔
ربّانی انسائکلوپیڈیا
قرآن میںبعض باتیں خبر کی زبان میں ہیں۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک انشاء کا معاملہ ہے۔ قرآن میں اسی نوعیت کی دو آیتیں ہیں۔ ان دونوں کا ترجمہ یہ ہے:
کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لئے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا ئیں (18:109)۔ اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔ (31:27)
قرآن کی ان آیتوں میں ایک عظیم حقیقت کا بیان ہے۔ یہ بیان صرف بیان کے لیے نہیں بلکہ وہ ایک عظیم الٰہی منصوبہ کا اعلان ہے۔ یہ ایک مطلوب چیز ہے کہ عالمِ تخلیق میں کلمات اللہ یا آلاء اللہ کا مطالعہ کیا جائے۔ اور اس کو لکھ کر تیار کیا جائے۔ یہ کام موجودہ دنیا کے محدود حالات میں نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے زیادہ بڑی، ایک لامحدود دنیا درکار ہے۔ آخرت کی دنیا ، اسی قسم کی ایک لامحدود دنیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آخرت کی دنیا میں کرنے کا ایک کام یہ ہوگا کہ کلمات اللہ اور آلاء اللہ کو دریافت کیا جائے اور ان کی بنیاد پر ایک انسائکلوپیڈیائی لائبریری تیار کی جائے۔ یہ عظیم انسائکلوپیڈیا وہی ہوگی جس کو ہم نے ربانی انسائکلوپیڈیا کا نام دیا ہے۔
موجودہ محدود دنیا میں یہ ربانی انسائکلوپیڈیا لکھی نہیں جاسکتی۔ خالق نے اس دنیا کو اس لیے بنایا ہے کہ اس دنیا میں اس عظیم ربانی انسائکلوپیڈیا کے لکھنے والے (writers) تیار کیے جائیں۔ پھر آخرت کی دنیامیں ان افراد کو وہ تمام ضروری مواقع اعلی ترین سطح پر مہیا کیے جائیں، جن کو استعمال کرکے وہ اس ربانی انسائکلوپیڈیا کو تیار کریں۔ یہ کام کوئی مشقت کا کام نہ ہوگا، بلکہ وہ آخری حد تک ایک محظوظ کام (enjoyable task) ہوگا۔ اس واقعے کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں کیا گیا ہے: إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِی شُغُلٍ فَاکِہُونَ(36:55) ۔بے شک جنت کے لوگ آج اپنے مشغلوں میں خوش ہوں گے۔
ربانی انسائکلوپیڈیا کی تحریر میں اپنے آپ کو شامل کرنا، بلاشبہ ایک ایسا انقلابی تصور ہے جو آدمی کو آخری حد تک پر شوق بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے پورے وجود کی تعمیر اس طرح کرنے لگتا ہے کہ وہ اس عظیم اور مقدس ٹیم کا ایک ممبر بن جائے۔
ربانی انسائکلوپیڈیا کی تیاری کا نشانہ کسی صاحبِ ایمان کے لیے سب سے بڑا نشانہ ہے۔ جو صاحبِ ایمان اس نشانے کو دریافت کرلے، اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ وہ منفی سوچ (negative thinking) سے پوری طرح خالی ہوجائے گا۔ نفرت، تشدد اور جنگ جیسی چیزوں میں اپنے کو مشغول کرنے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوگا۔
قرآن کی مذکورہ آیتوں میں روشنائی اور قلم کا ذکر ہے۔ یہ دوسرے الفاظ میں تصنیفی منصوبہ کا حوالہ ہے۔ ان آیتوں میں روشنائی اور قلم کا لفظ تمثیل کی زبان میں ربانی انسائکلوپیڈیا کی تیاری کے عظیم کام کو بتاتا ہے۔ یہ علامتی طور پر اس پورے انفراسٹرکچر کو بتارہاہے جو ربانی انسائکلوپیڈیا کی تیاری کے لیے کائناتی سطح پر مطلوب ہوں گے۔
قرآن میں جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے ۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں اہل جنت کے لیے ہر قسم کی سہولتیں اعلی سطح پر حاصل ہوں گی۔ یہ نعمتیںاپنے آپ میں جنت کی واحد چیز نہیں۔ بلکہ قرآن کے بیان کے مطابق، وہ بطور نُزُل (فصلت32) ہوگی۔ یعنی رب العالمین کی طرف سے مہمانی (hospitality) کے طور پر۔
اسلام نے انسان کے لیے زندگی کا جو تصور(concept) دیا ہے، اس میں نفرت اور تشدد کے لیے کو ئی جگہ نہیں۔ یہ تصور انسان کے اندر اعلی سوچ (high thinking) پیدا کرتا ہے، اس میں ہر قسم کی منفی سوچ اس طرح ختم ہوجاتی ہے جیسے کہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ تصور انسان کو مکمل معنوں میں ایک مثبت شخصیت (positive personality) بنا دیتا ہے۔
زندگی کے اس تصور کے مطابق، جنت کا مطلب یہ نہیںہے کہ جنت میووں اور حوروں کی ایک دنیا ہے ، اور آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خودکش بمباری (suicide bombing) کی چھلانگ لگا کر اس دنیائے عیش میں پہنچ جائے۔ جنت کا یہ تصور ، جنت کا کمتر اندازہ (underestimation) ہے۔ جنت ایک اعلی نوعیت کی بامعنی سرگرمیوں (meaningful activities) کا مقام ہے۔ نہ کہ محدود معنوںمیں صرف ایک عیش خانہ۔
جنت میں داخلے کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جنتی دنیا کے لیے مستحق امیدوار (deserving candidate) بنائے۔ جنت میں داخلے کے لیے موجودہ دنیا میں تیاری کے عظیم جدو جہد کے کورس سے گزرنا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوگا کہ کوئی شخص جنت کی دنیا میں داخلے کا استحقاق رکھتا ہے یا نہیں۔
زندگی کا یہ تصور ایک شخص کی زندگی سے دنیا رخی (worldly-oriented)زندگی کا مکمل خاتمہ کردیتا ہے، وہ اس کو پورے معنوں میں آخرت رخی (akhirat-oriented) بنا دیتا ہے۔
توحید ایمپائر
پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا پیغمبرانہ مشن شروع کیا ۔ یہ مشن توحید کا مشن تھا۔ یعنی توحید کو نظریاتی اعتبار سے سب سے زیادہ برترنظریہ بنا دینا ۔ مکہ کے سرداروں نے ایک بار آپ کو بلایا، آپ سے پوچھا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے جواب دیا: کلمة واحدة تعطونیہا تملکون بہا العرب، وتدین لکم بہا العجم (سیرت ابن ہشام، جلد 1صفحہ 417 ) ۔ یعنی میں صرف ایک کلمہ چاہتاہوں ، تم وہ کلمہ مجھ کو دے دو، تم عرب کے مالک ہوجاؤ گے، اور عجم تمھارے آگے جھک جائیں گے۔ یہاں کلمہ کا مطلب ہے آئڈیالوجی۔
پیغمبر اسلام نے یہ بات سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں کہی تھی۔ بلکہ وہ نظریاتی غلبہ کے معنی میں تھی۔ اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ دنیا میں ایک ایسا انقلاب آئے جب کہ تمام دلائل توحید کے حق میں ہوجائیں۔ اور تمام مواقع توحید کے موافق ہوجائیں۔ یہی وہ بات ہے جو آپ سے پہلے حضرت مسیح نے ان الفاظ میں کہی تھی: تم اس طرح عبادت کرو:آسمان میں رہنے والے اے ہمارے باپ، تیرا نام مقدس ہے۔ تیری بادشاہی آئے، جس طرح کہ تیرا منشا آسمان میں پورا ہوتا ہے اسی طرح اس دنیا میں بھی پورا ہو:
So pray this way: Our Father in heaven, may Your name be honoured, ​​​​​​​may Your kingdom come, may Your will be done on earth as it is in heaven. (Matthew, 6:9-10)
اللہ کے دین میں جبر نہیں (البقرۃ256)۔ البتہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ دین کو آخری حد تک مدلل بنا دیا جائے۔ اس کےبعد یہ انسان کا اپنا معاملہ ہو کہ وہ اس کو مانتا ہے یا نہیں مانتا (الکہف29)۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ضرورت تھی کہ دین کے موافق ایک انقلاب آئے۔ اس انقلاب کے لیے موحد انسانوں کی ایک ٹیم درکار تھی۔ مگر کسی نبی کے زمانے میں ایسی ٹیم نہ بن سکی۔ اس لیے پچھلے انبیاء کے زمانے میں ان کا مشن انقلاب (revolution) تک نہیں پہنچا۔
پیغمبر ابراہیم کے ذریعے اللہ نے یہ منصوبہ بنایا کہ خصوصی اہتمام کے ذریعے ایسی مطلوب ٹیم تیار کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ساڑھے چار ہزار سال پہلے ابراہیم علیہ السلام نے یہ قربانی کی کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرامیں بسادیا۔ اس کے بعد دوہزار سال سے زیادہ مدت میں توالد و تناسل کے ذریعے صحرائی ماحول میں ایک نئی نسل تیار ہوئی۔ تاریخ میں اس نسل کو بنواسماعیل کہا جاتا ہے۔ محمد صلى اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اسی نسل کے منتخب افراد تھے۔
مطلوب انقلاب اچانک نہیں ظہور میں آسکتا تھا۔اس کے لیے ضرورت تھی کہ تاریخ میں ایک نیا عمل (process) شروع کیا جائے۔ جو انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، مختلف مراحل سے گزرے۔ اور پھر وہ اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچے۔ یہ عمل عرب میں شروع ہوا۔ اور مغرب میں جدید تہذیب (modern civilization)کی صورت میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔
اس انقلاب کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ تھا کہ علوم کی ترقی اس طرح ہو کہ تمام علمی اور سائنسی دلائل دینِ خداوندی کی تصدیق بن جائیں۔ یہ مستقبل میں پیش آنے والا واقعہ تھا ، جس کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی تھی: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ اس انقلاب کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ عملی اعتبار سے یہ اسباب دینِ خداوندی کے مویّد (supporter) بن جائیں۔ یہ انقلاب صرف اہل ایمان کے ذریعے نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے اللہ نے اس کے لیے دوسری قوموں کو بھی اس عمل کا موید بنا دیا۔ یہ پیشین گوئی ایک حدیثِ رسول میں اس طرح ملتی ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062 ) ۔
اکیسویں صدی میں یہ تائیدات اپنی آخری صورت میں حاصل ہوچکی ہیں۔ مثلا موجودہ زمانے میں قول و عمل کی آزادی کا انسان کے لیے ایک ناقابلِ تنسیخ حق قرار پانا، ٹکنالوجی کی ترقی کے ذریعے ہر قسم کے امکانات کا اعلی سطح پر کھل جانا، پرامن طریقۂ کا ر کے ذریعہ ہر مقصد کا حصول ممکن ہوجانا، ساری دنیا میں کھلا پن (openness) کا ماحول قائم ہوجانا، وغیرہ۔
ابتدائی دور میں، اس عمل کو مسلسل طور پر جاری رکھنے کے لیے ایک تائیدی شلٹر (supporting shelter)درکار تھا۔ اہل اسلام کو سیاسی طاقت دے کر اس شلٹر کا انتظام کیا گیا۔ انیسویں صدی کے آخر تک اہل اسلام کی یہ سیاسی طاقت اس عمل کو تائیدی شلٹر فراہم کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری منزل پر پہنچ گیا۔
بیسویں صدی میں وہ دور آگیا جب کہ یہ عمل اتنا طاقت ور ہوچکا تھا کہ وہ خود اپنی طاقت سے جاری رہ سکے۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کمزور ہوگئی۔ لیکن مطلوب عمل خود اپنی طاقت سے مسلسل طور پر جاری رہا۔ جدید دور میں ماڈرن تہذیب کا فروغ، اور 1945 میں اقوامِ متحدہ (UNO) کا قیام وغیرہ ، وہ واقعات ہیں، جب کہ یہ عمل امکانی طور پر اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب تمام دلائل اور تمام مواقع توحید کی آیڈیالوجی کے لیے پوری طرح موافق ہوچکے ہیں۔ اب اہل اسلام کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس انقلاب کو شعوری طور پر سمجھیں۔ اور دانش مندانہ منصوبہ بندی کے تحت توحید کی آیڈیالوجی کو اسی طرح ایک معلوم حقیقت بنادیں، جس طرح موجودہ زمانےمیں سائنس کا علم لوگوں کے لیے ایک معلوم حقیقت بن چکا ہے۔
قرآن میں پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ تمام دین پر اس کوغالب کردے(التوبۃ : 33)۔ اس غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ نہیں ہے، بلکہ نظریاتی غلبہ ہے۔مزید یہ کہ اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ غلبہ کا یہ واقعہ پیغمبر اسلام کے اپنے زمانے میں مکمل طور پر ظاہر ہوجائے گا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ انسانی میںایک انقلابی عمل (revolutionary process)جاری ہوگا، جو آخرکار دینِ حق کے کامل نظریاتی غلبہ کے ہم معنی بن جائے گا۔
قرآن و حدیث میں کچھ بیانات حال (present) کی زبان میں ہیں، اور کچھ بیانات مستقبل (future) کی زبان میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کچھ تعلیمات وہ ہیں جو پیغمبر اسلام کے اپنے زمانے میں پوری ہونے والی تھیں۔ اور کچھ تعلیمات وہ ہیں جو رسول اور اصحابِ رسول کے بعد کے زمانےمیں اپنی تکمیل تک پہنچنے والی تھیں۔
پہلی قسم کی تعلیم کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے : الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ (5:3)۔ یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو پورا کردیا۔ قرآن کی اس آیت میں تکمیل سے مراد قرآن کے نزول کی تکمیل ہے۔ قرآن (کتاب اللہ) کا نزول اپنی آخری صورت میں ہوچکا۔ اب قیامت تک کوئی نیا قرآن جزئی یا کلی طور پر اترنے والا نہیں۔
قرآن کی اس آیت میں اکمالِ دین کا لفظ ہے۔ اکمالِ دین میںباعتبارِ تفصیل یہ بات بھی شامل ہے کہ اسلام کے دورِ اول میں قرآن مدون ہوا، پیغمبر کا اسوہ (example) ہر پہلو سے مستند طور پر قائم ہوگیا، کعبہ کو بتوں سے پاک کرکے توحید کا مرکز بنادیا گیا،امت مسلمہ عملا وجود میں آگئی، وغیرہ۔
دوسری قسم کی تعلیم کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہےیُرِیدُونَ أَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَى اللَّہُ إِلَّا أَنْ یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ (9:32)۔یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منھ سے بجھا دیں حالانکہ اللہ کو اس کے علاوہ کوئی بات منظور نہیں کہ وہ اپنے نور کو پورا کرے، خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منھ سے بجھا دیں— اس آیت کا تعلق پوری انسانی تاریخ سے ہے۔ تاریخ میں مسلسل طور پر اہل انکار یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہدایت کے بارےمیں اللہ کا منصوبہ مکمل نہ ہونے پائے۔ مگر قرآن کے نزول کے بعد اللہ نے یہ مقدر کردیا کہ اس معاملے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے۔ اور ہدایت کے بارے میں اللہ کا منصوبہ لازمی طور پر مکمل ہوکر رہے۔
اس طرح کی آیتوں یا حدیثوں میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ مقصد خود زمانۂ رسول میں پورا نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اس طرح پورا ہوگا کہ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary proccss)جاری ہوگا۔ اس عمل کے نقطۂ انتہا (culmination) پر ایسا ہوگا کہ اتمام نور کے بارے میں اللہ کا منصوبہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ جائے گا۔
اللہ کےمنصوبے کے مطابق ، یہ عمل پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس عمل میں مسلم لوگوں کے علاوہ سیکولر لوگوں نے بھی حصہ لیا۔یہ عمل انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے جاری رہا۔ گویا بظاہر انسان کی آزادی قائم تھی، اور زیریں لہر (undercurrent) کے طور پر خدا کا منصوبہ بھی مسلسل طور پر جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔
اسلام کی مدون تاریخ میں یہ واقعہ ایک گمشدہ کڑی (missing link) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان تاریخ کے ایک حصے کو جانتے ہیں، اور وہ تاریخ کے دوسرے حصے سے بے خبر ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ عالمی تاریخ میں مسلمانوں نے کس طرح اپنا رول اداکیا۔ لیکن وہ اس سے بے خبر ہیں کہ عین اسی وقت سیکولر عناصر بھی مسلسل طور پر اپنا تائیدی رول اداکرتے رہے۔
اسلام کا ایک جزء اس کی آئڈیا لوجی ہے۔ یہ آئڈیا لوجی تمام تر قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ اسلام کا دوسرا جزء اس کے تائیدی اسباب ہیں۔ اس دوسرے جزء میں دنیا کی تمام قوموں نے حصہ لیا ہے۔ مثلا قدیم زمانہ مذہبی جبر (religious persecution) کا زمانہ تھا، آج انسان کو پورے معنوں میں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ قدیم زمانے میں کھلاپن (openness) نہیں ہوتا تھا، آج پوری دنیا کھلے پن کے دور میں پہنچ گئی ہے۔ قدیم زمانے میں کمیونی کیشن (communication) صرف محدود طور پرہوسکتا تھا، آج ماڈرن ٹکنالوجی نے کمیونی کیشن کو لامحدود حد تک بڑھا دیا ہے۔قدیم زمانے میں بین الاقوامی مسلمات (international norms) قائم نہیں ہوئے تھے، موجودہ زمانے میں بین الاقوامی مسلمات بڑے پیمانے پر قائم ہوگئے ہیں۔ قدیم زمانے میں امن اور جنگ کا کوئی مسلمہ اصول نہیں تھا، آج اقوامِ متحدہ (UNO) کے ذریعے امن اور جنگ کا مسلمہ اصول وضع ہوگیا ہے، وغیرہ۔ یہ تمام مسلمات کیسے قائم ہوئے۔ اس کو وجود میں لانے میں بڑا رول سیکولر افراد نے انجام دیا ہے۔
مسلمان اگر اس حقیقت کو جان لیں تو ان کو پوری انسانی تاریخ عملاً اسلام کی تاریخ نظر آئے گی۔ جب کہ اس وقت وہ صرف مسلم تاریخ کو اسلام کی تاریخ سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کی نفسیات ہم اور وہ (we and they) کے تصور پر بنی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو جاننے کے بعد مسلمانوں کی نفسیات ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر قائم ہوجائے گی۔ یہ طرز فکر پورے معنوں میں مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) پیدا کردے گی۔ جو بلاشبہ ان کے لیے سب سے بڑی طاقت بن جائے گا۔
دین کا ضروری ڈھانچہ
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إن الدین لیأرِزُ إلى الحجاز کما تأرِز الحیة إلى جحرہا (سنن الترمذی، حدیث نمبر2630)۔ یعنی دین حجاز میں سمٹ آئے گا، جس طرح سانپ اپنے بل میں سمٹ آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتنہ کے دور میں بھی دین حجاز میں زندہ رہےگا۔
حجاز وہ جغرافی علاقہ ہے جہاں پیغمبرِ اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، جہاں حر م مکہ اور حرمِ مدینہ واقع ہیں، جہاں اسلام کی تاریخ بنی، جہاں ابراہیم اور اسماعیل اور اس کے بعد رسول اور اصحابِ رسول کی روایات قائم ہوئیں، جو اسلام کی عالمی عبادت ، حج کا مرکز ہے۔حرم وہ مقام ہے جہاں جان کو مارنا کلی طور پر حرام ہے۔
چنانچہ ارض حجاز (عرب) کو مسلمانوں کے درمیان خصوصی احترام کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی زبان میں فرمایا کہ جب دنیا میں فتنہ پھیل جائے گا تب بھی ارضِ حجاز (عرب) نسبتاً محفوظ رہے گا۔ تشدد کے دور میں بھی مسلمان یہاں احتراماً تشدد سے پرہیز کریں گے۔ اس لیے دین کا وہ ڈھانچہ جس کو قائم رکھنا ہر حال میں ضروری ہے، کسی نہ کسی صورت میں یہاں قائم رہے گا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈھانچہ کیا ہے۔ وہ ڈھانچہ یہ ہے کہ امت سیاسی ٹکراؤ سے مکمل طور پر پر ہیز کرے۔ اور غیر سیاسی دائرے میں پر امن تعمیر کو ہمیشہ جاری رکھے۔ اس مطلوب کو ایک جملے میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Political status quoism and dawah activism
پر تشدد نزاعات ہمیشہ سیاسی ایشو پر پیدا ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اسلام میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ سیاست کے معاملے میں موجود صورتِ حال (status quo) پر عملاً راضی رہو تاکہ پر امن تعمیر کا ماحول ہمیشہ موجود رہے۔ اس طرح اسلام کا ربانی مشن مسلسل طور پر بلا انقطاع جاری رہے گا۔اس اعتبار سے گویا ارضِ حجاز کو عملاً ایک ماڈل کی حیثیت حاصل ہے۔
سیاست اور تعمیر کے درمیان مذکورہ بندوبست (settlement) ہر مسلم علاقے کے لیے مطلوب ہے۔ حدیث میں ارضِ حجاز کا ذکر استثنائی طور پر اس لیے کیا گیا کہ اس علاقے کی مخصوص حیثیت کی بنا پر یہاں ایک نفسیاتی قسم کا جبر (compulsion) قائم ہوگیا ہے۔ فتنہ کے دور میں بھی عملا ایسا ہوگا کہ مسلمان اس علاقے میں متشددانہ سرگرمیوں سے احتراز کریں گے۔ اس بنا پر یہ علاقہ دورِ فتنہ میں بھی لوگوں کے لیے بلااعلان ایک ماڈل بنا رہے گا۔
مذکورہ حدیث میں حجاز کا لفظ جغرافی مقام کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ اپنے ماڈل کے اعتبار سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حجاز کے لیے مسلمانوں کے اندر خصوصی احترام کی جو نفسیات پیدا ہوگی، اس کی وجہ سے یہ علاقہ عملاً سیاسی تشدد سے بچا رہے گا۔ اور اس بنا پر وہ لوگوں کے لیے ایک ماڈل کا کام کرے گا۔ یہ علاقہ اپنی صورتِ حال کے اعتبار سے مسلمانوں کو یہ بتاتا رہے گاکہ ہر جگہ تم اسی سیاسی ماڈل کو اختیار کرو تاکہ اسلام کا اصل مشن کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔
نئے دور کا آغاز
پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور میں چھ ہجری میں وہ واقعہ پیش آیا جو اسلامی تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ صلح حدیبیہ اصلاً ایک پر امن معاہدے کا نام تھا۔ اس صلح سے پہلے اہل توحید اور اہل شرک کےدرمیان ٹکراؤ کا سلسلہ جاری تھا۔ جس نے کئی بار جنگ کی صورت اختیار کرلی تھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد یہ صورتِ حال ختم ہوگئی۔ اس کے بعد عرب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب کہ اہل ایمان کو یہ آزادی مل گئی کہ وہ ملک میں پر امن طور پر اپنا مشن جاری رکھیں۔ فریقِ ثانی کی طرف سے ان کے لیے متشددانہ مزاحمت پیش نہیں آئے گی۔
یہ معاہدہ جب فریقین کے درمیان طے پاگیا تو اس کے بعد قرآن کی سورہ نمبر 48نازل ہوئی۔ اس سورہ میں اللہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا : إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا ™ لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا ™ (الفتح2-1)۔ بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی۔ تاکہ اﷲ تمھاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے۔ اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے۔ اور تم کوسیدھا راستہ دکھائے۔
قرآن کی اس آیت میں صراطِ مستقیم (straight path) سے کیا مراد ہے۔ معاہدہ حدیبیہ کے وقت اور اس کے بعد جو واقعہ پیش آیا، وہ اس معاملےمیں شانِ نزول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پس منظر کو لے کر اس آیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں سیدھا راستہ سے مراد مقصد کے حصول کا پر امن طریقہ (peaceful method) ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے پیس فل میتھڈ کے ذریعے اپنے مشن کو زیادہ موثر طور پر جاری رکھا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند سالوں میں پورا عرب اسلام کا علاقہ بن گیا۔ اس سے پہلے عرب میں شرک کا غلبہ تھا۔ اب پورے عرب میں توحید کا غلبہ قائم ہوگیا۔
یہ پر امن طریقہ کار (peaceful method)کا کرشمہ تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کی پرامن منصوبہ بندی کی اور اس کا نتیجہ فتح مبین (clear victory) کی شکل میں ظاہر ہوا۔ یہاں فتح مبین سے مراد سیاسی فتح نہیں ہے، بلکہ نظریاتی فتح (ideological victory) ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کا نشانہ نظریاتی فتح ہے نہ کہ سیاسی فتح۔ یہاں صلح حدیبیہ کا مقصد صرف عرب میں"فتح مبین" نہیں تھا۔ بلکہ یہ دنیا کے لیے ایک انقلاب کا آغاز تھا۔صلح حدیبیہ کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا ہوا تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ جب کہ اقوامِ متحدہ (UNO) کے عالمی پلیٹ فارم پر دنیا کی تمام قوموں نے متحدہ طور پر یہ طے کیا کہ اب دنیا میں بطور اصول ایک ہی طریقِ کار تسلیم شدہ طریقِ کار ہوگا۔ اور وہ پرامن طریق کار ہے۔ اب اصولی طور پر کسی بھی قوم کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ طریقہ کار (violent method) کو اختیار کرے۔
تاریخ کو اس مقام تک پہنچانے میں مختلف واقعات کا حصہ ہے۔ ان میں سے دو اہم واقعات وہ ہیں، جن کو پہلی عالمی جنگ(1914-1918)اور دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کہا جاتا ہے۔ ان دونوں جنگوں میں دنیا کی تمام بڑی طاقتیں براہ راست طور پر یا بالواسطہ طور پر شریک تھیں۔اس کے باوجود اس جنگ کا کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔ جنگ کے ہر فریق کو غیرمعمولی نقصان اٹھانا پڑا۔
یہ دونوں جنگیں تاریخ کی عظیم جنگیں (great wars) کہی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ ان جنگوں میں ایسے خطرناک ہتھیار استعمال ہوئے جو اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئے تھے۔ اس کے باوجود کوئی فریق اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ جان و مال کی بے پناہ قربانی کے باوجود ہر فریق کے حصے میں تباہی کے سوا کچھ اور نہیں آیا۔
ان عظیم جنگوں کے بعد تاریخ میں پہلی بار اس سلسلے میں ایک جبر (compulsion) کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ تمام قوموں نے اصولی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمارا آپشن (option)صرف پر امن طریق کار ہوگا، جنگ اور تشدد کا طریقہ نہیں۔ چنانچہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ پر اقوامِ متحدہ وجود میں آئی جو گویا عالمی صلح حدیبیہ کے ہم معنی تھی۔
اس سے پہلے انسانی تاریخ میں اعلان کے ساتھ یا بلااعلان یہ سمجھا جاتا تھا کہ مقصد کے حصول کا واحد ذریعہ جنگ ہے۔ یہ تصور عملا پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس تصور کا باقاعدہ خاتمہ صرف بیسویں صدی کے وسط میں ہوا جب کہ اقوامِ متحدہ کا عالمی ادارہ تمام قوموں کے اتفاق رائے سے قائم ہوگیا۔
امن (peace)اس دنیا کا کائناتی کلچر ہے۔ انسان کے سوا پوری کائنات ہمیشہ سے اسی امن کلچر پر قائم ہے۔ انسان کو خالق نے آزادی عطا کی ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں یہ کلچرعملا قائم نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انسان اپنی آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر بار بار تشدد کا طریقہ اختیار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ خالق نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، تاریخ کو اس طرح مینج (manage) کیا کہ تاریخ میں عملاً ایک جبر (compulsion) کی صورت پیدا ہوگئی۔ انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ انسان جبر اور تشدد کو اصولی طور پرقابلِ ترک قرار دے دے۔ اب اگر دنیا میں کہیں جنگ کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی حیثیت ایک استثنا (exception)کی ہوتی ہے۔ جب کہ ماضی کی تاریخ میں جنگ کو عموم کی حیثیت حاصل تھی۔
اب دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک سیکولر دنیا اور دوسرے مسلم دنیا۔ سیکولر دنیا کا مسلمہ معیار (accepted criterion) صرف ایک ہے، اور وہ نتیجہ (result) ہے۔ سیکولر دنیا کا اصول یہ ہے کہ جو عمل بےنتیجہ ہو، اس کو اختیار نہیں کیا جائے گا، صرف وہ عمل اختیار کیا جائے گا جو مطلوب نتیجہ پیدا کرنے والا ہو۔ سیکولر دنیا عقل کے اصول پر چلتی ہے۔ اور عقل کا اصول یہ ہے کہ نتیجہ خیز کام کرو، اور بےنتیجہ کام کو چھوڑ دو۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے بعد دنیا میں نوآبادیات کا دور آیا۔ نو آبادیاتی نظام اصلاً صنعتی نظام تھا۔ ابتدائی دور میں قدیم تصور کے تحت نوآبادی طاقتوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں اپنی صنعت کو فروغ دینے کے لیے پولیٹکل پاور کی بھی ضرورت ہے۔ چناں چہ انھوں نے اپنی صنعتی سرگرمیوں کے ساتھ ہر جگہ پولیٹکل اقتدار قائم کرنے کی کوشش کی، تاکہ وہ اپنی صنعتی سرگرمیوں کو سیاسی شیلٹر (political shelter) عطا کرسکیں۔
لیکن نوآبادی طاقتوں کو تجربے کے بعد محسوس ہوا کہ جدید دور قوم پرستی (nationalism) کا دور ہے۔ اس دور میں سیاسی شیلٹر کا تصور ایک ناقابلِ عمل تصور بن چکا ہے۔ چناں چہ انھوں نے سیاسی شیلٹر کا ایک بدل دریافت کرلیا۔ اور وہ تنظیم (organization) تھا ۔ انھوں نے کامیاب طور پر یہ منصوبہ بنایا کہ سیاسی شیلٹر کے مقصد کو بہتر تنظیم کے ذریعے حاصل کریں۔
اب انھوں نے اپنی صنعتی سرگرمیوں کے لیے صرف دو چیزوں پر ساری توجہ صرف کردی۔ اور وہ تھا— کوالٹی اور آرگنائزیشن۔ انھوں نے بہتر کوالیٹی اور بہتر تنظیم کے ذریعہ زیادہ بڑے پیمانے پر اپنے اس مقصد کو حاصل کرلیا ، جس کو ناکام طور پر نو آبادیات کے تصور کے تحت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جدیددور میں نو آبادی طاقتوں نے جو طریقے استعمال کیے ہیں، ان میں سے دو طریقے وہ ہیں جن کوانوسٹمنٹ (investment) اور آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔ یہ نئے طریقے مکمل طور پر پرامن اور غیر سیاسی طریقے ہیں ، لیکن ان طریقوں کے ذریعے موجودہ زمانے کی ترقی یافتہ قوموں نے اکیسویں صدی میں بہت بڑے پیمانے پر اپنا صنعتی ایمپائر (industrial empire) قائم کرلیا۔ بغیر اس کے کہ اس کو کسی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا پیش آئے۔
یہ حقیقت موجودہ زمانے کی تمام قوموںنے دریافت کرلی۔ اس میں صرف ایک قوم کا استثنا ہے، اور وہ مسلمان ہے۔ آج کی دنیا میں جو تشدد (militancy) جاری ہے، وہ عملا مسلم تشدد (militancy) ہے۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو آج کی دنیا میں متشددانہ طریق کار (violent method) کا طریقہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مسلم تشدد کی مثالیں تقریباً ہر روز میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ نائن الیون 2011اور پیرس اٹیک 2015 اس کی چند مثالیں ہیں۔
اس عموم میں مسلمانوں کے استثنا کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان بعد کی تاریخ میں جو علمی لٹریچر بنا ، وہ امن کے اصول کے بجائے جہاد (بمعنی قتال ) کے اصول پر بنا۔ یہ رسول اور اصحابِ رسول کے دین سے ایک انحراف کے ہم معنی تھا۔ لیکن وہ مسلم اہل علم کے درمیان اتنا زیادہ رائج ہوا کہ آخرکار اس نے عقیدہ کی صورت اختیار کرلیا۔ مسلمانوں کا تشدد مبنی بر عقیدہ تشدد ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے نام پر لڑ کر مرجاؤ ، اور اس کے بعد سیدھے جنت میں پہنچ جاؤ۔ یہ عقیدہ اتنا زیادہ بڑھا کہ موجودہ زمانے میں ایسے علما پیدا ہوئے جنھوں نے خود کش بمباری (suicide bombing) کو یہ کہہ کر مقدس درجہ دے دیا کہ وہ خود کشی نہیں ہے، بلکہ استشہاد (طلب شہادت) ہے۔ یہ نظریہ بلاشبہ ایک بے اصل نظریہ ہے۔ اس کی تائید میں کوئی بھی آیت یا حدیث موجود نہیں۔ لیکن اب وہ اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ کوئی قابلِ ذکر عالم اس کے خلاف بولنے والا نہیں۔ پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی زبان میں یہ کہا تھا : إذا وضع السیف فی أمتی، فلن یرفع عنہم إلى یوم القیامة (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3952) ۔
اسلام کی تاریخ
پیغمبرِ اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔آپ کا مشن دعوتِ توحید کا مشن تھا۔ لوگوں کے لئے اِس پیغمبرانہ مشن کے مآخذ ابتدائی دور میں صرف دو تھے، قرآن اور حدیث۔ قدیم زمانے میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا،اس لئے لوگ حافظہ اور مخطوطات کے ذریعےاسلام کو سمجھتے رہے۔ ابتدائی دور میںاسلام کو سمجھنے کے لئے قرآن و حدیث کوواحد ماخذ (source)کی حیثیت حاصل تھی۔لوگ قرآن اور حدیث کو پڑھتے اور اس سے اسلام کی تعلیمات اخذ کرتے۔بعد کے زمانہ میں جو تبدیلی پیدا ہوئی،اس نےاس معاملےمیںامت مسلمہ کے لئےاسلام کا ماخذ بدل دیا۔ اب قرآن و حدیث کے بجائے عملاًتاریخ ان کی ذہن سازی کا ذریعہ بن گئی۔
اس عمل کا آغاز دوسری صدی ہجری میں سیرت نگاری سے ہوا۔اِس ابتدائی دور میں سیرت پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ سب غزواتی پیٹرن پر لکھی گئیں۔ مثلا مغازی الواقدی، مغازی موسیٰ بن عقبہ، مغازی ابن اسحاق، وغیرہ۔ پیغمبرِ اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کا مشن اصلاً پرامن دعوت کا مشن تھا۔ لیکن ابتدائی دور کی ان کتابوں نے قارئین کو یہ تاثر دیا کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا مشن، ایک ایسا مشن تھا جو جنگ وقتال پر مبنی تھا، نہ کہ اللہ کی طرف پرامن دعوت پر۔
عباسی خلافت 123ھ میں قائم ہوئی۔ اس کے بعد اسلامی موضوعات پر تحریری کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔ اب وسیع تر معنوں میں اسلام کی تاریخ لکھی جانے لگی۔ لیکن اب بھی بنیادی پیٹرن وہی باقی رہا۔ چناںچہ اس دور میںبھی اسلامی تاریخ کے موضوع پرجوکتابیں لکھی گئیں، وہ عملاً فتوحاتی پیٹرن پر لکھی گئیں۔ مثلا فتوح الشام للواقدی، فتوح البلدان للبلاذری، وغیرہ۔
ایساکیوں ہوا کہ پیغمبرِ اسلام کی سیرت لکھنے کے لئے غزواتی پیٹرن اختیار کیا گیا۔ اسی طرح اسلام کی تاریخ لکھنے کے لئے کیوںفتوحاتی پیٹرن ایک مقبول پیٹرن بن گیا۔جواب یہ ہے کہ ایسا زمانی عنصر (age factor) کی بنا پر ہوا۔ پہلے زمانے میں تاریخ نگاری کا یہی پیٹرن تمام دنیا میں رائج تھا۔بادشاہوں کے قصے، سلطنت کے واقعات، اور حکمرانوں کی لڑائیاں، قدیم زمانے میںاسی قسم کی چیزیں تاریخ کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔ اس لئے جب مسلمانوںمیں تاریخ نگاری کا کام شروع ہوا تو انھوں نے زمانی تاثر کے تحت اسلام میں بھی تاریخ نگاری کے اسی رواجی پیٹرن کو اختیار کر لیا۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہات (9:30) کہا گیا ہے۔
عبد الرحمٰن ابن خلدون (وفات808 ھ) پہلا شخص ہے، جس نے تاریخ نگاری کے اس پیٹرن پر تنقید کی۔ اس نے کہا کہ تاریخ کو پوری انسانی سرگرمی کا بیان ہونا چاہئے، نہ کہ صرف بادشاہت اور سلطنت کا بیان۔ابن خلدون نے اپنے اِس نقطۂ نظر کو اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ، جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ابن خلدون نےخودبھی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کاٹائٹل یہ تھا: دیوان المبتدا والخبر فی تاریخ العرب والبربر ومن عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر۔ مگر ابن خلدون کی اپنی لکھی کتاب بھی تاریخ نویسی کے بارے میںاس کے بتائے ہوئے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ابن خلدون کی تاریخ کی یہ کتاب بھی عملاً اس دورکی دوسری تاریخ کی کتابوں جیسی ایک کتاب بن گئی۔
ظہورِ اسلام کے بعد ہزار سال تک اسلام کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریباً سب کی سب اسی پیٹرن پر لکھی گئیں، جس کو سیاسی پیٹرن کہنا صحیح ہوگا۔تاریخ کی یہ کتابیں اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر پیش کرتی رہیں، جو عملاً سیاسی نوعیت کے واقعات کا ایک مجموعہ تھا۔
تاریخ نگاری کے اس سیاسی پیٹرن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسلام کی تاریخ سے وہی چیز حذف ہوگئی، جو اس کا اہم ترین جز تھی، اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کے دور میں اسلام کی تاریخ کے نام سے جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں دعوت کا پہلو سرے سے موجود ہی نہیں۔ مثلاً مورخ ابن اثیر کی کتاب کا نام الکامل فی التاریخ ہے۔لیکن وہ اسلامی تاریخ کا کامل بیان نہیں۔ کیوں کہ اس کتاب میں سیاسی نوعیت کے واقعات کا ذکر تو کیا گیا ہے، لیکن اس میں اسلام کے دعوتی پہلو کی تاریخ موجود نہیں۔ اسی طرح ابن کثیرنے تاریخ کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی ، جس کا نام البدایۃ والنہایۃ ہے، یعنی از اول تا آخر۔ مگر اس کتاب کا حا ل بھی یہ ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کے دوسرے واقعات تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، لیکن اسلام کی دعوتی تاریخ اس کے اندر موجود نہیں۔
سیاسی پیٹرن کا تعلق صرف تاریخ کی کتابوں تک محدود نہ رہا۔ یہ پیٹرن ہر شعبہ علم میں چھاگیا۔ مثلا جب حدیث کی تدوین ہوئی تو حدیث کی کتابوں میں کتاب المغازی اور کتاب الجہاد کے ابواب تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، لیکن کتاب الدعوۃ والتبلیغ ان میںموجود نہیں۔ اسی طرح عباسی دور میں فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں بھی کتاب المغازی اور کتاب الجہاد کے تفصیلی ابواب موجود ہیں، لیکن فقہ کی کسی کتاب میں کتاب الدعوۃ والتبلیغ موجود نہیں، وغیرہ۔ یہی وہ کتابیں تھیں جن کو پڑھ کر بعد کی مسلم نسلوں کا ذہن بنایا۔ اس کے نتیجے میں بعد کے مسلمانوں میں سوچنے کا دعوتی پیٹرن رائج نہ ہوسکا، بلکہ سوچنے کا سیاسی پیٹرن رائج ہوگیا۔ مثلاًشاہ ولی اللہ دہلوی کی ایک کتاب حجۃ اللہ البالغہ ہے،جس کا موضوع اپنے نام کے لحاظ سے حجۃ اللہ ہے، لیکن اس میں دعوت کا باب سرے سے موجود نہیں۔ حالاں کہ قرآن کے مطابق اللہ کی حجت لوگوں کے اوپر دعوت کے ذریعے قائم ہوتی ہے(النساء : 165)۔
عجیب بات ہے کہ اسلامی تاریخ کے دعوتی پہلو پر باقاعدہ کتاب لکھنے کا کام سب سے پہلے ایک مسیحی مستشرق نے کیا۔جس کا ریفرنس یہ ہے:
T. W. Arnold, The Preaching of Islam, first published in 1896
سیاسی پیٹرن پر لکھی ہوئی تاریخ کی کتابوں کے پڑھنے سے جو ذہن بنا، وہ وہی تھا جس کو سیاسی اور قومی ذہن کہا جاسکتا ہے۔تاریخ نگاری کا یہ پیٹرن جاری تھا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ آیا۔بیسویں صدی میں مسلمان نئے حالات سے دو چار ہوئے۔ان کا ایمپائر ،مثلا مغل ایمپائر اور عثمانی ایمپائر ٹوٹ گیا۔مسلمانوں کے اوپر ہر اعتبار سے مغربی قوموں کا غلبہ قائم ہوگیا۔ مغربی قومیں نئی طاقت کے ساتھ ابھریں، اور عملاً سارے عالم پر چھاگئیں، جن میں مسلم قومیں بھی شامل تھیں۔
یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لئےایک سیاسی چیلنج بنی ہوئی تھی۔اس کے نتیجے میںمسلمانوں کے اندر سیاسی رد عمل کا ذہن پیدا ہوا۔ اسی زمانے میں کارل مارکس کا نظریۂ تاریخ بڑے پیمانے پر پھیلا۔ کارل مارکس نے جو نظریۂ تاریخ پیش کیا، اس کا خاص پہلو یہ تھا کہ اس نے تاریخ کی ایک مادی تعبیر پیش کی، جس کو مادی تعبیرِ تاریخ (material interpretation of history) کہا جا تا ہے۔ 1917 میں جب کارل مارکس کے پیروؤں (کمیونسٹ پارٹی)کو روس میںحکومت قائم کرنے کا موقع ملا تو اس کے بعد مارکسی فلسفہ ساری دنیا میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
ان حالات کے زیرِ اثر مسلم دنیا میںایک ظاہرہ پیدا ہوا۔ یہ ظاہرہ زیادہ تر زمانی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ کچھ مسلم مفکرین نے اسلام کو وقت کے معیار کے مطابق ثابت کرنے کے لئے، اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation of Islam) پیش کرنا شروع کیا۔ ان مسلم مفکرین میں دونام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں،عرب دنیا میں سید قطب مصری (وفات1966)، اور برصغیر ہند میں سید ابولاعلی مودودی (وفات1979)۔
اسلام کی یہ سیاسی تعبیروقت کی مسلم نسلوں کے مزاج کے مطابق تھی۔ چناں چہ وہ عرب اور غیر عرب دنیا میں تیزی سے پھیل گئی۔ اس سیاسی نظریے کے تحت ہر زبان میں لٹریچر تیارکیا گیا۔ جماعتیں اور ادارے بنائے گئے۔ اس سیاسی نظریے کے تحت مسلمانوں میں سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کے اس نظریے کے تحت مسلمانوں کے درمیان جو سرگرمیاں شروع ہوئیں، ان کا نشانہ حکومت پر قبضہ کرنا تھا۔ تاکہ ان کے مفروضہ ذہن کے تحت ہر جگہ اسلام کا نظام قائم کیا جاسکے۔مگر ہر قسم کی قربانیوں کے باوجود ان عناصر کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جو ہوا وہ صرف یہ تھا کہ مسلمان ہر جگہ عملاً دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک اقتدار پر قابض گروہ اوردوسرا اقتدار سے محروم گروہ۔ ان دونوں طبقوں کے درمیان لامتناہی طور پر حریفانہ تعلق قائم ہوگیا۔
یہ طبقہ جو اپنے آپ کو اسلام پسند (Islamist) کہتا ہے، اس نے جب دیکھا کہ ان کو مسلم ملکوں میں کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے تو انھوں نے خود اپنے آپ پر نظر ثانی نہیں کی بلکہ انھوں نے اس کا الزام مغربی قوموں پر ڈال دیا۔ انھوں نے کہا کہ مغربی قوموں نے سازش کر کے مسلم حکمرانوں کو اپنے موافق بنا لیا ہے۔اب ان کی سیاسی مہم کا نشانہ بیک وقت دو ہوگیا۔ ایک طرف مسلم حکمراں، اور دوسری طرف مغرب کی قومیں۔انھوں نے دونوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی سرگرمیاں جاری کردیں۔
مگرآخرکار ان اسلام پسندوں کو نظر آٰیا کہ ساری کوششوں کے باوجود وہ اپنے سیاسی مقصد میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ اب ان کے اندر ایک خطرناک رجحان ابھرا، اور وہ خودکش بمباری (suicide bombing)کا رجحان تھا۔ انھوں نے غلط پروپیگنڈے کے ذریعےوقت کے مسلمانوں کو آخری حد تک انتہاپسندی میں مبتلا کردیا۔چناں چہ ان کو مسلمانوں میں ایسے افراد کثرت سے ملنے لگے جو اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف خود کش بمباری کے لئے تیار تھے۔اکیسویں صدی میںیہ رجحان پوری شدت کے ساتھ کام کررہا ہے۔یہ رجحان یقینی طور پر کوئی صحت مند رجحان نہیں۔ اس کا مطلب عملاً یہ ہے— اگر تم دشمن کو ہلاک نہیں کرسکتے تو ایساکرو کہ خوداپنے آپ کو ہلاک کرکے کم ازکم دشمن کےاستحکام کو ڈی اسٹیبلائز (destabilize)کرو۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں کوئی نیا آغاز لانا صرف اس طرح ممکن ہے کہ ان کے کیس کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے، اور اجتہادی انداز میں اس معاملے کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ کسی جذباتی اقدام یا ردعمل کے تحت کوئی کارروائی اس معاملے کا حل نہیں بن سکتی۔ یہ احیائے امت کا معاملہ ہے، اور احیائے امت کا معاملہ ہمیشہ اجتہاد پر مبنی ہوتا ہے۔
راقم الحروف کے نزدیک اس معاملےکا آغاز یہ ہے کہ وہ تمام کتابیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیاسی پیٹرن پر لکھی گئیں، ان سب کو کلاسیکل لٹریچر (classical literature) کا درجہ دے دیا جائے۔ یعنی ان کی اہمیت صرف اس اعتبار سے ہو کہ وہ امتِ مسلمہ کی ماضی کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہیں، لیکن جہاں تک موجودہ زمانے میں ملت کے احیاء اور اس کے مستقبل کی تعمیر کا سوال ہے، اب بلاشبہ ہم کو نئے لٹریچر کی ضرورت ہے۔ایسا لٹریچر جس میں قرآن و سنت کی روشنی میں نئے حالات کو سمجھا جائے، اور اجتہادی انداز میں عمل کا نقشہ بنایا جائے۔
بعد کے زمانے میں جو ڈیولپمنٹ ہوا، اس کے نتیجے میں امت کے اندر انسان رخی ذہن کے بجائے مسلم رخی ذہن (Muslim-oriented mind)بن گیا۔ مسلمان عام طور پر ہم اور وہ (we and they) کے انداز میں سوچنے لگے۔ مگر یہ ذہن مکمل طور پرایک غیر دعوتی ذہن ہے۔ صحیح ذہن وہ ہے جو ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر مبنی ہو۔ اس لحاظ سے موجودہ زمانے میں جو اسلامی لٹریچر تیار ہو اس کو تمام تر انسان رخی سوچ (man-oriented thinking) پر مبنی ہونا چاہئے۔ دعوت الی اللہ کے لئےضروری ہے کہ مسلمانوں کے اندر دوسرے انسانوں کے لئے نصح (خیرخواہی) کا ذہن موجود ہو۔ مسلمانوں کا موجودہ لٹریچر اس اسپرٹ سے خالی ہے۔ آج جس نئے لٹریچر کی ضرورت ہے، اس کو اس کمی سے مکمل طور پرپاک ہونا چاہئے، ورنہ وہ عملاً مطلوب مقصد کے لئے مؤثر نہ ہوگا۔
عہد شباب
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ البخاری کے مطابق، اس کا ابتدائی جزء یہ ہے:یأتی فی آخر الزمان قوم، حدثاء الأسنان، سفہاء الأحلام، یقولون من خیر قول البریة، یمرقون من الإسلام کما یمرق السہم من الرمیة(صحیح البخاری، حدیث نمبر3611)۔
اس حدیث میں ایک ظاہرے کی طرف اشارہ ہے، جس کی ایک انتہائی صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ مگراس سے قطع نظر اس حدیث سے فطرت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔وہ یہ کہ کوئی آدمی جب اپنے عہد شباب (youth age) میں ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنی عقل و فہم کے اعتبار سے غیر پختہ (immature) ہوتا ہے۔ اس لیے کسی آدمی کی اس رائے کو زیادہ قابلِ اعتبار سمجھنا چاہیے جس کو اس نے پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ظاہر کی ہو۔
قرآن سے بھی فطرت کا یہ اصول معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسی جب جوانی کی عمر میں تھے۔ اس وقت انھوں نے مصر کے ایک قبطی کو گھونسا ماردیا، اس کے بعد وہ مرگیا (القصص15 )۔ لیکن حضرت موسیٰ کو عہد شباب میں نبوت نہیں دی گئی۔ بلکہ اس وقت دی گئی جب کہ وہ پختگی کی عمر (age of maturity) تک پہنچ چکے تھے۔ کیوں کہ بحیثیت پیغمبر ان کو قول لیِّن (طہ44 ) کی زبان میں کلام کرنا تھا ۔
مذکورہ حدیث میں مسلم تاریخ کے ایک اہم پہلو کی توجیہہ ملتی ہے۔ مسلم تاریخ اپنے بعد کے زمانے میں نظریاتی انتہاپسندی (ideological extremism) کی طرف چلنے لگی۔ اس کو حدیث میں انتباہ کی زبان میں غلو (ابن ماجہ، حدیث نمبر3029)کہا گیا ہے۔ حدیث کے مطالعے سے مذکورہ تاریخی ظاہرہ کی نفسیاتی توجیہہ معلوم ہوتی ہے۔وہ یہ کہ بعد کے زمانے میں جن حضرات کو مسلمانوں کے اندر مفکر (thinker)کا درجہ ملا، ان کا فکر ان کے عہدِ شباب میں بنا تھا، جب کہ وہ ابھی پختگی کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ مثلا ابن تیمیہ، عبدالوہاب نجدی، ابوالاعلیٰ مودودی، وغیرہ۔
بعد کی تاریخ میں جن لوگوں کو مسلمانوں کے اندر مفکر کا درجہ ملا، وہ وہی تھے جن کا فکر عہدِ شبا ب میں بنا۔ عہد شباب میں انسان کے اندر جوش کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کے افکار میں اکثر انتہاپسندی کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اعتدال کی زبان بولنے کے بجائے، انتہاپسندی کی زبان بولنے لگتا ہے۔ بعد کو اس کا یہ فکر مقدس بن کر لوگوں میں اتنا پھیل جاتا ہے کہ لوگ اس کو نظرثانی کے بغیردرست فکر سمجھ لیتے ہیں۔ یہی واقعہ بعد کے زمانے کے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔
مثلا ابن تیمیہ کے زمانے میں ایک عیسائی نے پیغمبر اسلام کے بارے کوئی بات کہی۔ اس کو اس وقت کے مسلمانوں نے شتم رسول کا کیس قرار دیا۔ یہ واقعہ ملک شام میں اس وقت پیش آیا جب کہ ابن تیمیہ اپنی جوانی کے عمر میں تھے۔اس وقت انھوں نے عربی میںایک ضخیم کتاب لکھی جس کا ٹائٹل تھا : الصارم المسلول علی شاتم الرسول۔ اس کتاب میں انھوں نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ جو آدمی شتم رسول کا مرتکب ہو، اس کی سزا قتل ہے۔ ابن تیمیہ اس وقت اگر پختگی کے عمر میں ہوتے تو یقینا ان کا ردعمل مختلف ہوتا۔ وہ مذکورہ عیسائی سے مل کر اس کو ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے۔ وہ ایک ایسی کتاب لکھتے جس میں وہ بتاتے کہ شتم رسول جیسا غیر فطری معاملہ ہمیشہ غلط فہمی کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے آدمی کے اوپر تبلیغ کرنا چاہیے، اور پر امن دعوتی عمل کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے۔
سید ابوالاعلی مودودی کے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا، اس کے بعد انھوں نے اپنی اردو کتاب الجہاد فی الاسلام لکھی۔ اس وقت وہ اپنی جوانی کی عمر میں تھے۔ چنانچہ انھوں نے جوش و خروش کے انداز میں ایک ایسی کتاب لکھی جس میں جہاد بمعنی قتال کی زبردست وکالت کی گئی تھی۔ حالاں کہ اگر وہ اس وقت پختگی کی عمر میں ہوتے تو شاید وہ ایک اور کتاب لکھتے جس کا عنوان یہ ہوتا، الدعوۃ الی اللہ۔ اس کتاب میں وہ پر امن دعوت کی اہمیت بتاتے اور مسلمانوں کو راغب کرتے کہ وہ پرامن دعوت کے اصول پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ یہی معاملہ دوسرے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے براہ راست طور پر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے ،نہ کہ بعد کے زمانے میں لکھی ہوئی کتابوں کا۔
امن ایک اقدام
اسلام میں جنگ، دفاع کا اشو (issue of defence) ہے۔ اور امن، اقدام کا اشو (issue of advancement) ہے۔ اسلام میں اہل ایمان کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی طرف سے جنگ چھیڑیں ۔ البتہ جہاں تک امن کا تعلق ہے ، اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے پرامن اقدام کا منصوبہ بنائیں۔ اسلام کا یہ اصول فطرت کے قانون پر مبنی ہے۔
فطرت کے قانون کے مطابق، جنگ کے ذریعہ کسی مثبت نتیجہ کا حصول ممکن نہیں۔ کیوں کہ جنگ سے کسی بات کا فیصلہ نہیں ہوتا، نہ ہارنے کی صورت میںاور نہ جیتنے کی صورت میں۔ جنگ میں اگر فتح حاصل ہو، تب بھی ہارنے والے فریق کے دل میں انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ اس لیے جنگ میں فتح بھی ایک نئی جنگ کا آغاز بن جاتی ہے۔
پر امن منصوبہ بندی ہمیشہ اپنا کام کرتی ہے، پرامن منصوبہ بندی کوئی نیا مسئلہ پیدا نہیں کرتی۔ وہ صرف مسئلہ کے حل کی طرف لے جاتی ہے۔ پر امن منصوبہ بندی کے تحت اقدام کرنا، ایک ایسے انجام کی طرف لے جاتا ہے جہاں جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور لوگوں کو پر امن سرگرمیوں کے لیے مواقع (opportunities) حاصل ہوجائیں۔
اسلام کے دورِ اول کی تاریخ اس اصول کی تصدیق کرتی ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل ایمان اور ان کے مخالفین کے درمیان کچھ لڑائیاں ہوئیں۔ مثلاً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ حنین، وغیرہ۔ مگر ان لڑائیوں سےٹکراؤ ختم نہیں ہوا۔ گویا باعتبارِ نتیجہ عمل کی کوئی حد نہیں آئی۔ قرآن میں فتح کی آیت صرف صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ فتح کا مطلب ہے ٹکراؤ کا خاتمہ اور پرامن سرگرمیوںکے لیے موافق ماحول پیدا ہوجانا۔کسی اور غزوہ کے بعد فتح کی آیت نہیں اتری۔
حدیبیہ کا واقعہ 6 ھجری میں پیش آیا۔ اس موقع پر فریق ثانی کی کوشش صرف یہ تھی کہ رسول اور اصحابِ رسول مکہ میں داخل نہ ہوں اور عمرہ کیے بغیر واپس مدینہ چلے جائیں۔ مگر پیغمبرِ اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف سے امن (peace) کی بات چیت (negotiation) شروع کی۔ اس معاملہ میں آپ اس آخری حد تک گیے کہ فریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر منظور کر لیا۔ صرف اس مقصد کے لیے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہوجائے اور معتدل حالات قائم ہوجائیں۔ تاکہ کھلے طور پر اسلام کے دعوتی مشن کو جاری کیا جاسکے۔
پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے جب اس طرح فریقِ ثانی سے یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلی تو اس کے بعد قرآن کی سورہ نمبر 48 نازل ہوئی۔ اس میں پیشگی طور پر یہ اعلان کردیا گیا کہ یہ پرامن مصالحت باعتبارِ نتیجہ ایک فتح مبین (clear victory) ہے۔ قرآن کی یہ پیشگی خبر صرف چند سالوں میں واقعہ بن گئی، پر امن اقدام باعتبارِ نتیجہ فتح ثابت ہوا۔
اسلام میں جنگ مجبوری کے تحت وقتی دفاع کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، پر امن منصوبہ اس لیے ہوتا ہے کہ سماج کے اندر مستقل طور پر اعتدال کی حالت قائم ہوجائے۔ ہر فرد کے لیے تعمیری سرگرمیوں کے مواقع حاصل ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز242—

l سی پی ایس (کولکاتہ) ٹیم کی ممبر مس شبینہ علی نے آئس اسکیٹنگ رنک اکزبیشن کے شرکاء اور زائرین سے انٹرایکشن کیا اور ان کو قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر فراہم کیا۔ اکزبیشن میں شریک ہونے والی ایک ٹیچر مس رِچا نرولا نے قرآن کی دو کاپیاں حاصل کیں، ایک اپنے لیے اور دوسری اپنے شاگردوں کے لیے تاکہ وہ قرآن کی تعلیم ان کے اندر عام کرسکیں۔یہ نمائش 1-3 دسمبر 2016 کے درمیان کولکاتامیں منعقد ہوئی تھی۔
l 21-23 ستمبر2015 کو بنگلورکے سی ای او سینٹر میں ایک پروگرام منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں محترمہ فاطمہ سارہ (سنٹر فار پیس، بنگلور) نےڈاکٹر فریدہ خانم کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک پیپر پڑھا۔ اس کا عنوان تھا :
'Religious Freedom and Conversion in India Today—The Islamic Perspective'
اس کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوا۔ پروگرام کے بعد تمام حاضرین کو انگلش ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر کا ایک ایک سیٹ دیا گیا۔ SAIACS Consultation کے تحت اس قسم کا یہ چوتھا پروگرام تھا۔ انگلش میگزین اسپرٹ آف اسلام فروری 2016 میں مذکورہ پیپر اور سوال و جواب کے خلاصہ کو پڑھا جاسکتا ہے۔
l 4 دسمبر سے 15 دسمبر 2015 تک پٹنہ کے گاندھی میدان میں پٹنہ بک فیئر منعقد ہوا۔اس بک فیئر میں گڈورڈ بکس نے شرکت کی۔ اسٹال کا انتظام سنٹر فار پیس اینڈ آبجکٹیو اسٹڈیز، بہار وجھارکھنڈ کے ممبران نے کیا تھا۔ان حضرات نے بک فیئر میں آنے والے لوگوں سے انٹرایکشن کیا اوران کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔ گڈورڈ بکس کی جانب سے مولانا محمد یعقوب عمری نے اس بک فیر میںشرکت کی ۔
l 11 دسمبر 2015 کو فرانس کے نوجوانوں پر مشتمل ایک انٹرفیتھ ٹور گروپ نے صدر اسلامی مرکز کی ملاقات کی اور انٹرفیتھ اور بقائے باہم (coexistence) کے موضوع پرصدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔انٹرویو کے بعد تمام لوگوں کوانگلش ترجمہ قرآن اور وہاٹ از اسلام ( فرنچ) اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیئے گئے۔ تمام لوگوں نے اس کو خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
l 13 دسمبر 2015 کو جناب ایس ایف صدیقی نے اورنگ آباد کے ایک ہاسپٹل میں صدر اسلامی مرکز کا قرآن ترجمہ (مراٹھی) لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔ ہاسپٹل کے ایک ڈاکٹر نے اپنے دلی تاثر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں قرآن کے ایک اچھے ترجمے کی تلاش میں تھا۔ میں نے مولانا کے بارے میں سنا تھا لیکن ان کو کبھی پڑھا نہیں۔ میں قرآن کو اپنے خاندان کے ممبروں کے ساتھ پڑھوںگا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔
l یوپی کے گورنر جناب رام نائک صاحب نے صدر اسلامی مرکز کی نئی انگریزی کتاب قرآنک وزڈم کا راج بھون میں اجراء کیا۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے زیر سرپرستی امن و شانتی اور روحانیت کے لیے ہورہی کوششوں پر اپنائیت اور خوشی کا اظہار کیا ۔سی پی ایس ، لکھنؤ اور سہارن پور کے ممبران جیسے پنڈت ڈاکٹر ہرش وردھن شرما، جج مس الپنا تلوار،مسٹر انیس خان، مسٹر دانش خان اور حافظ محمد سلمان نوری ، وغیرہ راج بھون (لکھنؤ) میں ہونے والے اس پروگرام میں شریک ہوئے تھے۔پروگرام کے بعد گورنر موصوف کو تذکیر القرآن (انگلش) کے ساتھ دوسرے دعوتی لٹریچر کا ایک سیٹ بطور تحفہ دیا گیا۔اس کے علاوہ راج بھون کے تمام اسٹاف کو ہندی قرآن پیش کیاگیا، جسے تمام لوگوں نے خوشی کے ساتھ قبول کیا۔ڈاکٹر محمد اسلم خان نے گورنر موصوف کو سی پی ایس سہارن پور کےزیر اہتمام ہونے والے اسپریچول پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ (ڈاکٹر محمد اسلم خان ، سہارن پور)
l 22دسمبر 2015 کو مز سونیا سرکار (اسسٹنٹ اڈیٹر، دی ٹیلی گراف) نے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا، انتہا پسندی ;کو روکنے میں سوشل میڈیا کا استعمال ۔ انٹرویو کے بعد اڈیٹر موصوفہ نے سی پی ایس ممبروں سے قرآن سے متعلق مختلف جانکاری حاصل کی، جس میں سب سے اہم جہاد اور پیس تھا۔ انٹرویو کے بعد انٹرویور کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔
l نئے سال 2016کے موقع پر ہندستان ٹائمس نے پنجاب ہوٹل میں ایک انعامی مقابلہ کا انعقاد کیا تھا۔اس میں سہارن پورکے ڈی ایم مسٹر پون کمار ، کمشنر سٹی مسٹر نیرج کمار اور این ایم سی پرنسپل ڈاکٹر اسلم خان نے مہمان خصوصی کے طورپر شرکت کی۔ اس پروگرام میں سی پی ایس ٹیم کے ممبران نے شرکت کی اور تمام شرکاء کو سالِ نو کے تحفے کے طور پر انگلش ترجمہ قرآن اور اسپرٹ آف اسلام میگزین دیا۔ ہندستان ٹائمس کے صدر مسٹر گردیال نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔
l 16 دسمبر 2015کو اسپیکنگ ٹری (ٹائمس آف انڈیا کے آن لائن و آف لائن اسپریچول اخبار ) کی ایڈیٹوریل ٹیم نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد تھا ، کرسمس کی مناسبت سے شائع ہونے والے اخبار کے اسپیشل نمبر میں صدر اسلامی مرکز سےگیسٹ اداریہ تحریر کروانا۔ چناں چہ20 دسمبر 2015کے شمارہ میں یہ اداریہ شائع ہوا، اور کافی پسند کیا گیا۔اس کا ٹائٹل تھا'Love is the best formula': ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر فریدہ خانم، اور ڈاکٹر ثانی اثنین خان کے مضامین بھی اس شمارہ میں شائع ہوئے۔ ان تمام مضامین کو اسپیکنگ ٹری کے ویب سائٹ کے علاوہ سی پی ایس انٹر نیشنل کی ویب سائٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
l جمشید پور سے جناب عیاض احمد صاحب لکھتے ہیں کہ آج گائتری پریوار (جمشید پور)کے ٹرسٹی جناب تاراچند اگروال صاحب سے ملاقات ہوئی انھوں نے ہمارے مشن کے بارے میں جاننا چاہا ۔ان کی خواہش پر دعوتی لٹریچر ان کو دیا گیا۔ قرآن کا ہندی ترجمہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ مجھے اس کی بہت دنوں سے ضرورت تھی ۔
l 8 جنوری 2016 کو صدر اسلامی مرکز نے جرمنی کے ایک وفد سے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر، نئی دہلی میں خطاب کیا۔ یہ پروگرام سی پی ایس انٹرنیشنل نے جرمن وفد کے لیے منعقد کیا تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے ’’اسلام میں امن کا تصور‘‘ کے موضوع پرخطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا سیشن تھا۔ اس کے علاوہ سی پی ایس کے دوسرے ممبران مس ماریہ خان اور مس صوفیہ خان نے’’آئی ایس آئی ایس کی حقیقت‘‘ اور’’جہاد، اسلام میں‘‘کے موضوع پر بالترتیب خطاب کیا۔ خطاب کے بعد وفد کے تمام شرکاء کو دوسرے دعوتی لٹریچر کے ساتھ جرمن قرآن پیش کیا گیا۔ تمام لوگوں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ اسے قبول کیا۔
l ذیل میں ان تبدیلیوں کا ذکر کیا جارہا ہے ،جو الرسالہ مشن کے ذریعے لوگوں میں آئی ہیں:
السلام علیکم، شکریہ مولاناصاحب! میں پچھلے بارہ تیرہ برس سے الرسالہ اور دوسری کتابوں سے استفادہ کر رہا ہوں. آپ کی تحریریں اور آپ کی آراء نےمتعددمواقع پر اورمختلف مسائل میں میری رہنما\ئی کی ہے.جزاک اللہ احسن الجزاء.(محمد نوشادعالم قاسمی)
1. I read the book Quranic Wisdom by Maulana Wahiduddin Khan. In the book, there is an article called Focused Thinking. This article has had a great impact on me and now I am a changed person.(Rustam Ali)
2. If I were asked what was the greatest achievement in my life, I would certainly say you and your literature, for it is you who have helped me realize God. (Imteyaz Ahmad)
3. Maulana's new book The Age of Peace was reviewed by Somali Chakrabarti in www.newageislam.com, 26 December 2015. Here are some excerpts from the review: 'The Age of Peace not only upholds the need for peace, it also provides the rationale for establishing peace, and outlines the general principles based on which it is possible to establish peace in the society. Backed by innumerable examples from different parts of the world, from the past centuries to the modern age, the author advocates the use of non-confrontational method, peaceful activism, and spreading the message of peace through education and awareness. I had received a copy of this book from a blogger friend and after going through it, I found that it is a very relevant book for all particularly the youth in the turbulent times that we are living in.
واپس اوپر جائیں