Pages

Thursday 2 June 2016

Al Risala | June 2016 (الرسالہ،جون)

4

-خدا کا تجربہ

5

- جنّتی شخصیت

6

- سب سے زیادہ خطرناک

7

- بیمار ی سے تطہیر

8

- مصیبت بھی رحمت ہے

9

- نصیحت پذیری

10

- ہر حال میں خیر

11

- تواضع ایک عظیم عبادت

12

- اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

16

- تشدد کا سبب عدم قناعت

17

- اعتدال کا طریقہ

18

- ارتقا کے تین درجے

22

- سب سے بڑی خوشی

23

- مومن کی صفت

24

- عمل کا مدار نیت پر ہے

25

- ہر چیز پرچۂ امتحان

26

- گھرایک تربیت گاہ

28

- سب سے بڑی نعمت

29

- ایک حدیث

30

- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

32

- دوطرفہ معاملہ

33

- بولنے پر کنٹرول

34

- اکرام یا تکلف

35

- دوسرے کے لیے دعاء

36

- اعلیٰ عبادت

38

- دنیا کی حقیقت

39

- تحفہ کلچر

40

- سجدۂ قربت

41

- انسان ایک استثنائی مخلوق

42

- بعد کے زمانے کا فتنہ

43

- ضرورت، یا خواہش پرستی

44

- دولت پرستی کا فتنہ

45

- عجلت پسندی

46

- اولاد پرستی کا فتنہ

47

- رعایت ایک سنتِ رسول

48

- سنّت کیا ہے


خدا کا تجربہ

صحیح مسلم میںایک حدیث نقل ہوئی ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے:
ان اللہ عزو جلّ یقول یوم القیٰمۃ یابن آدم مرضت فلم تعدنی قال یا رب کیف اعودک وانت ربُّ العٰلمین قال ماعلمت انّ عبدی فلانا مرض فلم تعدہ اَما علمتَ انّک لو عدتہ لوجدتنی عندہ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب فضل عیادۃ المریض 16/126)یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا اے ابن آدم، میں بیمار ہوا مگر تم نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب ،میںکس طرح تیری عیادت کرتا جب کہ تو سارے عالم کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا، کیا تم نے نہیں جانا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا مگر تم نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تم نے نہیں جانا کہ تم اگر اس کی عیادت کرتے تو یقینا تم مجھ کو اس کے پاس پاتے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی خالص رضائے الٰہی کے لئے ایک کام کرتا ہے تو کام کے درمیان اس پر ایسی کیفیات گزرتی ہیں جب کہ وہ لقاء رب کا تجربہ کرتا ہے۔ اس وقت اس کا یہ حال ہوتا ہے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔
مریض کی ایک عیادت وہ ہے جس میں رضاء الٰہی کا جذبہ شامل نہ ہو۔ جس کو آدمی نمائش کے لئے یا کسی فائدہ کے لئے کرے۔ ایسی عیادت صرف دنیوی مقصد کے لیے ہوتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر ربّانی کیفیات پیدا نہیں کرتی۔دوسری عیادت وہ ہے جب کہ خدا کا ایک بندہ کسی انسان کی بیماری کو سن کر تڑپ اٹھتا ہے۔ اس کو خدا کا یہ حکم یاد آتا ہے کہ تم دوسرے انسانوں پر رحم کرو میں قیامت کے دن تمہارے اوپر رحم کروں گا۔ وہ خالص رضاء الٰہی کے جذبہ کے تحت مریض کی طرف روانہ ہوتاہے اور مریض کے حق میں دعائیں کرتا ہوا اس کے پاس پہنچتا ہے۔
بندۂ مومن خدا کا تجربہ دنیا میں بھی کرتا ہے اور آخرت میں بھی۔ فرق یہ ہے کہ دنیا میں یہ تجربہ بالواسطہ انداز میں ہوتا ہے اور آخرت میں وہ زیادہ مکمل صورت میں براہ راست انداز میںہوگا۔
واپس اوپر جائیں

جنّتی شخصیت

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یدخل الجنّۃ أقوامٌ أفئدتہم مثل أفئدۃِ الطّیر(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ؛ مسند احمد، جلد2، صفحہ331) یعنی جنت میںایسے لوگ جائیں گے جن کے دل چڑیوں کے دل کی مانند ہوں۔
چڑیا ایک حیوان ہے، مگر چڑیا کے اندر ایک ایسی استثنائی صفت ہوتی ہے جو کسی دوسرے حیوان میں نہیں، وہ یہ کہ چڑیا نفرت اور انتقام (revenge)کے جذبات سے خالی ہوتی ہے۔ تمام دوسرے جانور دفاعی طورپر حملہ کرنے کا مزاج رکھتے ہیں، لیکن چڑیا اِس مزاج سے مکمل طورپر خالی ہوتی ہے۔ آپ چڑیا کو دیکھئے تو وہ اپنی شکل ہی سے معصومیت کا پیکر دکھائی دے گی۔ اِس لیے کبوتر (pigeon) کو امن کی علامت (symbol of peace) قرار دیا گیا ہے۔
حدیث کے مطابق، یہی جنّتی صفت اُس انسان سے مطلوب ہے جو جنت کا طالب ہو۔ جنتی انسان وہ ہے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے مکمل طورپر خالی ہو، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ چڑیا کے اندر یہ مثبت صفت جبلّت (instinct) کے طورپر ہوتی ہے اور جنتی انسان کے اندر یہ مثبت صفت آزادانہ شعور کے تحت۔
جنّتی انسان وہ ہے جو اپنی تربیت کرکے اپنے آپ کو ایسا بنائے کہ اس کا دل نفرت اور انتقام جیسی چیزوں سے مکمل طورپر خالی ہوجائے، جو غصے کو پی جانے والا ہو، جو منفی ردّ عمل کا مزاج نہ رکھتا ہو، جو نفرت کے باوجود محبت کرنے والا انسان ہو، جو کسی امید کے بغیر لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، جو لوگوں کے درمیان اِس طرح رہے، جیسے کہ سب لوگ اُس کے بھائی اور بہن ہیں، جو شیطان سے بھاگے اور فرشتوں کو اپنا ہم نشین بنائے، جو شکایتوں کو صبر کے خانے میں ڈال دے، جو دوسروں کا حق ادا کرے اور اپنا حق خدا سے مانگے— یہی وہ اعلیٰ صفات ہیں جو کسی انسان کو جنت میں داخلے کا مستحق بنائیں گی۔
واپس اوپر جائیں

سب سے زیادہ خطرناک

حدیث میں آیا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یدخُل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر (صحیح مسلم، حدیث نمبر147 ) یعنی وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کبر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت سے محرومی کا اندیشہ سب سے زیادہ اس انسان کے لیے ہے جو کبریا ذاتی بڑائی کے احساس میں مبتلا ہو۔ جس کے اندر وہ برائی ہو جس کو انانیت (arrogance) کہا جاتاہے۔
اس معاملہ کا سب سے زیادہ نازک پہلو یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر کبر ہو تو اس کو خود یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ میں کبر کی برائی میں مبتلا ہوں۔ ایک شخص نماز اور روزہ کو ترک کردے یا وہ زکوٰۃ نہ دے اور حج نہ کرے تو اس کو پوری طرح معلوم رہتا ہے کہ میں فلاں عبادت ادا نہیں کر رہا ہوں۔ کوئی شخص شراب پئے یا خنزیر کا گوشت کھائے تب بھی وہ اپنے اس گناہ سے باخبر رہتا ہے۔ حتی کہ اگر کوئی شخص شرک و بت پرستی میں مبتلا ہو تب بھی وہ جانتا ہے کہ میں کون سا گناہ کررہا ہوں۔ لیکن کبر ایک ایسا گناہ ہے جس کا احساس آدمی کو خود نہیں ہوتا ۔
پھر کوئی شخص کبر کے گناہ سے کس طرح بچے۔ اس کا سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے لگے۔ کبر کی برائی سے آدمی اگر چہ خود تو بے خبر ہوتا ہے مگر دوسرے لوگ اس کو اچھی طرح جان لیتے ہیں۔ دوسرے لوگ پہلے ہی تجربہ میں سمجھ لیـتے ہیں کہ فلاں شخص کبر کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ اس لئے جو آدمی جنت سے محرومی کا رِسک نہ لینا چاہتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی اس برائی کو جاننے کے لئے دوسروں کو ذریعہ بنائے۔ جب کوئی دوسرا شخص اس کو بتائے کہ تمہارے اندر کبر کی برائی ہے تو وہ اس کو سنجیدگی کے ساتھ سنے اور غیر جانب دارانہ انداز سے اپنے اوپر نظر ثانی کرے۔ وہ دوسرے آدمی کی بات کو ٹھیک اسی طرح لے جس طرح وہ اپنے چہرہ پر لگے ہوئے دھبہ کے بارے میں آئینہ کی اطلاع کو کسی ناگواری کے بغیر قبول کرلیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بیمار ی سے تطہیر

حدیث میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک شخص بیمار ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی عیادت کے لیے اُس کے گھر گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے کہا کہ: لا بأس، طہور إن شاء اللہ (صحیح البخاری، کتاب المرضٰی، باب ما یقال للمریض) یعنی کوئی حرج نہیں، انشاء اللہ یہ پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو پُر اسرار طورپر اس کے گناہ دھل جاتے ہیں، وہ خود بخود ایک پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ در اصل ایک معلوم شعوری واقعہ ہے جو ایک سچے مومن کے ساتھ پیش آتا ہے۔کوئی آدمی اگر بیمار نہ ہو، اُس کا جسم مکمل طورپر ایک صحت مند جسم ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر فخر و ناز کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اُس کے سینہ میں دردمندانہ احساسات کی پرورش نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔
لیکن جب ایک مومن بیماری میںمبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر دردمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے بندہ ہونے کی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے۔
اس طرح بیماری اُس کو دوسری چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اُس کے دل سے دعائیں اور التجائیں نکلنے لگتی ہیں۔ بیماری اُس کے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
بیماری بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر صحیح اسلامی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔اس دنیا میںاصل اہمیت ذہنی بیداری کی ہے۔ بیدارذہن ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ اور ذہن کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز اس دنیا میںصرف ایک ہے، اور وہ مشکل حالات ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت بھی رحمت ہے

ایک روایت صحیح البخاری (کتاب الجہاد) سنن ابی داؤد (کتاب الجہاد) اور مسند امام احمد میںآئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عجب اللہ من قوم یدخلون الجنۃ فی السلاسل (حدیث نمبر3010 )یعنی اللہ ان پر متعجب ہوتا ہے جو جنت میں زنجیروں میں (بندھے ہوئے) داخل ہوں گے۔ بعض دیگر روایتوں میں یقادون اور یساقون کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی وہ کھینچتے ہوئے اور ہانکتے ہوئے لے جائے جائیں گے۔
اس حدیث میں کچھ اہل ایمان کے ساتھ جس معاملہ کا ذکر ہے وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں پیش آنے والا معاملہ ہے۔ یہاں زنجیر کا لفظ دراصل مجبور کن حالات (compulsive situation) کی تعبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ایسے مجبورانہ حالات پیش آئیں گے کہ اُن کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہے گا کہ وہ خدا پرستی اور آخرت پسندی کی زندگی اختیار کریں اور اس طرح گویا بندھے بندھے جنت میں پہنچ جائیں۔
یہ خوش قسمتی اُن افراد کے حصہ میں آئے گی جن کے دل میں اخلاص اور حسن نیت کی چنگاری موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے دل میں اس قسم کی استعداد دیکھے گا اُن کی قدر افزائی اس طرح کرے گا کہ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کردے گا جو اُنہیں طوعاً و کرہاً خدا پرستانہ اعمال کی طرف لے جانے والے ہوں۔مصیبت کا جنتی زنجیر بن جانا اُس شخص کے حصہ میںآتا ہے جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرے۔ مصیبت جس کے دل کو اس طرح نرم کرے کہ وہ اللہ کی یاد کرنے والا بن جائے۔
مصیبت اگر لوگوں کے اندر فریاد اورشکایت کا ذہن بنائے تو مصیبت صرف تباہی ہے۔اور اگر مصیبت لوگوں کے اندر محاسبۂ خویش کاذہن پیدا کرے تو وہ اُن کے لیے رحمت کا سبب بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

نصیحت پذیری

کسی انسان کو جب حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی سوچ ایمانی سوچ بن جاتی ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی سنجیدگی کا ایک پہلو وہ ہے جس کو نصیحت پذیری کہا جاسکتا ہے۔ قرآن میں اس کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً تذکّر (الزمر ۹) اعتبار (المؤمنون ۲۱) توسم (الحجر ۷۵) ، وغیرہ۔اسی طرح حدیث میں بھی اسی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ مثلاً وصمتی فکرا ونظری عبرۃً (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر1159 ) یعنی میری خاموشی سوچ کی خاموشی ہواور میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
ایمان یا حق کی معرفت بھی بذات خود اسی نوعیت کی ایک چیز ہے۔ ایمانی معرفت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مخلوقات پر غور کرکے خالق کو دریافت کرے۔ وہ دیکھنے والی دنیا کے اندر غیب کی دنیا کو پالے۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ آیات(خارجی نشانیوں) کے ذریعہ داخلی حقیقتوں کو جان لے۔وہ بصارت کے ساتھ بصیرت کی استعداد حاصل کرلے۔
تدبر و تفکر مومن کا عام مزاج ہوتا ہے۔ اُس کا یہ مزاج ہمیشہ اور ہر جگہ قائم رہتا ہے۔ یہ مزاج اُس کو دائمی طورپر اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیتا ہے۔ وہ ہر دن ایسی باتیں دریافت کرتا رہتا ہے جو اُس کے ایمان ویقین میںاضافہ کرنے والی ہوں۔ دوسرے لوگ ظواہر میںصرف ظواہر کو دیکھتے ہیں، مگر مومن اپنے اس مزاج کی بنا پر ظواہر میں حقائق کو دریافت کرلیتا ہے۔ تدبر اور تفکر کے اس عمل کے لیے کسی تنہائی یا مخصوص مقام کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل مومن کے دماغ میں ہر لمحہ جاری رہتا ہے ، حتیٰ کہ دنیا کے بھرے ہوئے ہنگاموں میں بھی وہ اُس سے منقطع نہیں ہوتا۔
نصیحت پذیری مومن کی روحانی خوراک ہے۔ مومن کے لیے مادی غذا اگر جسمانی تقویت کا ذریعہ ہے تو عبرت و نصیحت اُس کے لیے روحانی غذا کی حیثیت رکھتی ہے۔مادی غذا کے بغیر جسم صحت مند نہیں رہ سکتا،اسی طرح فکری غذا کے بغیر روحانیت کا ارتقاء ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر حال میں خیر

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجباً لامر المؤمن! إنّ امرہ کلہ لہ خیر، ولیس ذلک لأحد الا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ، (صحیح مسلم، کتاب الزہد) یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے پھر وہ خوشی اُس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے پھر وہ تکلیف اس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے۔
غیر مومنانہ روش یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو خوشی ملے تو وہ اُس پر فخر کرے۔ اور اگر اُس کو تکلیف پہنچے تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے۔ یہ دونوں حالتیں یکساں طور پر بُرائی کی حالتیں ہیں۔ اس کے برعکس مومنانہ روش یہ ہے کہ آدمی کو خوشی ملے تو اُس کا سینہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے۔ اور اگر اُس کو تکلیف کا تجربہ ہو تو وہ اُس کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر اُ س پر راضی رہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اس طرح تنبیہ کی گئی ہے: پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس کا رب اُس کو آزماتا ہے اور اُس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ اُس کو آزماتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتاہے تو وہ کہتاہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا۔ (الفجر15-16 )
موجودہ دنیا میں اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ آدمی نے بظاہر کس حال میں زندگی گزاری، اچھے حال میں یا بُرے حال میں۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی جس حال میں بھی ہو اُس سے وہ تعلق باللہ کی غذا لے سکے۔ زندگی کا ہر تجربہ اُس کو اللہ سے قریب کرنے والا ثابت ہو۔ اُس کی روح ہر صورتِ حال سے ربّانی غذا لیتی رہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھ سکے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلائے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا رہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلائے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کردے۔
واپس اوپر جائیں

تواضع ایک عظیم عبادت

حدیث میں آیا ہے کہ:کلّ بن آدم خطّاء، وخیر الخطّائین التّوابون (الترمذی، کتاب القیامۃ)۔ یعنی ہرانسان خطاکار ہے، اور سب سے اچھا خطاکار وہ ہے جو خطا کے بعد توبہ کرے۔ اعترافِ خطا، ایک عظیم عبادتی عمل ہے۔ یہ اعترافِ خطا، خدا کے مقابلے میں بھی ہوتا ہے اور انسان کے مقابلے میں بھی۔ جب خدا کے مقابلے میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے تو اُس کو توبہ کہا جاتا ہے، ا ور یہی عمل جب انسان کے مقابلے میں کیا جائے تو اُس کا نام اعترافِ خطا ہے۔
اصحابِ رسول کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ توبہ کرنے والے اور اعتراف کرنے والے تھے، حتیٰ کہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جب کہ ایک صحابی نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی، مجھ کو معاف کرو۔ حالاں کہ خالص قانونی اعتبار سے اُس کو دیکھا جائے تو وہاں صحابی نے ایسی کوئی غلطی نہیںکی تھی۔
ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ کہنا کہ میں غلطی پر تھا، دراصل اپنی تواضع کو ایسٹیبلش (establish)کرناہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، ہر انسان کے پاس ہر وقت خدا کے فرشتے موجود رہتے ہیں، جو اُس کے ہر قول و عمل کا ریکارڈ تیار کرتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات ہے کہ ایک سچا مومن اِس بات کا حریص ہو کہ فرشتے اپنے ریکارڈ میں اُس کو ایک متواضع انسان کی حیثیت سے درج کریں، نہ کہ ایک سرکش انسان کی حیثیت سے۔
یہ جذبہ ایک فطری جذبہ ہے۔ ہر مومن کے اندر وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر موجود رہتا ہے۔ اِس بنا پر مومن طبعاً اِس کو پسند نہیں کرتا کہ وہ فرشتوں کی نظر میں ایک سرکش انسان دکھائی دے۔ کسی معاملے میں خواہ بظاہر اُس کی غلطی نہ ہو، تب بھی اُس کا متواضعانہ مزاج اُس کی زبان سے اِس طرح ظاہر ہوتا رہتا ہے کہ وہ بار بار یہ کہہ دیتا ہے کہ میں غلطی پر تھا۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنے سے سرکشی کے جذبات کو تسکین ملتی ہے۔ اس کے برعکس، غلطی کا اعتراف مومن کی متواضعانہ نفسیات کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ بے اعترافی اگرسرکش انسان کی غذا ہے تو اعتراف اُس مومن کی غذا ہے جو اپنے آپ کو ہمہ تن خدا کے آگے جھکائے ہوئے ہو۔
واپس اوپر جائیں

اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے۔ یہ روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، الترمذی، المؤطا اور مسند احمد میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے۔ اِس روایت میں حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی بیان کی ہے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت تین ابواب کے تحت نقل ہوئی ہے (کتاب المناقب:باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم؛ کتاب الأدب:باب مالا یُستحیا من الحقّ للتفقّہ فی الدّین؛ کتاب الحدود:باب إقامۃ الحدود، والإنتقام لحرمات اللہ) اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ماخُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختار أیسرہما۔ یعنی جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرناہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے۔
یہ حدیث بے حد اہم ہے۔ اِس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جنرل پالیسی کو بیان کیاگیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ محدثین نے اِس کی زیادہ تشریح نہیں کی۔ ابنِ حجر کی فتح الباری کو حدیث کا انسائکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے۔ ابنِ حجر نے اِس حدیث کو تین ابواب کے تحت نقل کیا ہے، لیکن انھوں نے اِس حدیث کی کوئی واضح تشریح نہیں کی۔ انھوں نے صرف یہ لکھا ہے کہ اِس ’تخییر‘ کا تعلق، اُمورِ دنیا سے ہے، مگر انھوں نے امورِدنیا کی کوئی متعین عملی مثال نہیں دی(فتح الباری، جلد 12، صفحہ 88 )۔
یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر اصول کا ایک عملی انطباق ہوتا ہے۔ مثلاً اسپریچویلٹی کے عملی انطباق کو اپلائڈ اسپریچویلٹی (applied spirituality) کہاجاتاہے۔ اِسی طرح سائنس کے عملی انطباق کو اپلائڈ سائنس (applied science) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح حضرت عائشہ کے بیان کردہ پرنسپل کا ایک اپلائڈ پرنسپل (applied principle) ہے، لیکن اِس اپلائڈ پرنسپل کی مثالیں کسی بھی شارحِ حدیث کے یہاں نہیں ملتیں۔ میرے علم کے مطابق، اسلام کی پوری تاریخ میں کسی بھی عالم اور مصنف نے حضرت عائشہ کے اِس بیان کردہ اصول کے عملی انطباق کو وضاحت اور تعین کے ساتھ بیان نہیں کیا۔
اسلامی لٹریچرکا یہ خلا، بلا شبہہ ایک عظیم حادثے سے کم نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں نماز کے بارے میں یہ حکم دیاگیا ہے کہ : أقیموا الصلوٰۃ ( البقرۃ43) یعنی نماز قائم کرو۔ یہ نماز کے بارے میں اصولی حکم ہے۔ اِس کے بعد یہ سوال تھا کہ اِس اصول کا عملی انطباق کیا ہے۔ علما نے احادیث کا مطالعہ کرکے نماز کی عملی صورت، یا اپلائڈ صلوٰۃ (applied Salah) کے بارے میں بڑی تعداد میںکتابیں لکھیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت کو غیر مشتبہ طورپر یہ معلوم ہوگیا کہ نماز کا عملی فارم کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو لوگ حکمِ نماز کو توجانتے، لیکن اُس کی عملی صورت سے بے خبر ہونے کی بناپروہ نماز کی باقاعدہ ادائیگی سے محروم رہ جاتے۔حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت کے بارے میں بھی یہی چیز درکار تھی۔یہاں بھی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے اُس کے عملی انطباق کو بھی بتایا جاتا، یعنی یہ بتایا جاتا کہ رسول اللہ نے اپنی تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کس طرح اِس اصول کو عملی طورپر اختیار فرمایا۔ بد قسمتی سے اِس دوسرے معاملے میں یہ کام نہ ہوسکا۔ چنانچہ اب یہ صورتِ حال ہے کہ حضرت عائشہ کی یہ قیمتی روایت، حدیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن امت اُس کے عملی انطباق سے بالکل بے خبر ہے۔ خاص طورپر جدید دور میں امت کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب سنتِ رسول سے لوگوں کی یہی بے خبری ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، ابدی طورپر خدا کے دین کا عملی نمونہ ہیں۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح، جہاد بھی وہی جہاد ہے جس کا نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ملے۔ جہاد کاجو نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں موجود نہ ہو، وہ یقینی طورپر جہاد نہیںہے بلکہ وہ کوئی اور چیز ہے، خواہ اُس کو اسلامی جہاد کا نام دے دیا جائے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، واسئلوا اللہ العافیۃ (صحیح البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنّا نہ کرو، بلکہ خدا سے عافیت مانگو:
Don't wish for confrontation with your enemy, instead ask for peace from God.
جیسا کہ عرض کیا گیا،حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ما خُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختارَ أیسرہما، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier of the two.
اس قسم کی احادیث کے ساتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کو دیکھا جائے اور پھر اِس معاملے کی تشریح کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ اسلام میں مسلّح جہاد، یا قتال صرف ایک غیر مطلوب انتخاب (undesirable option) ہے، وہ ہر گز کوئی مطلوب انتخاب (desirable option) نہیں۔ پیغمبراسلام کی زندگی کے واقعات واضح طورپر اِس نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ شرک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چنانچہ وہاں کے مشرک سردار آپ کے دشمن بن گیے، پھر بھی آپ کا مشن پھیلتا رہا اور لوگ آپ کے ساتھی بنتے رہے۔ اِس طرح تیرہ سال گزر گیے۔ اب مکہ کے مخالفین نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آپ کو مارڈالیں۔
یہ 622 عیسوی کا واقعہ ہے۔ اُس وقت آپ کو دو میں سے ایک کے انتخاب کا موقع تھا۔ ایک یہ کہ مکہ کے سرداروں کے حربی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے، اُن سے مسلّح مقابلہ کریں۔ اُس وقت تک مکہ اور اطرافِ مکہ میں کئی سو افراد آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھی بن چکے تھے، اِس لحاظ سے آپ کے لیے یہ انتخاب بظاہر ایک ممکن انتخاب تھا۔
آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ مسلح ٹکراؤ سے اعراض کریں، خواہ اِس مقصد کے لیے آپ کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑے، یعنی آپ پُر امن طورپر مکہ کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں، آپ نے یہی دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ آپ نے مسلح ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور پُرامن ہجرت کا طریقہ اختیار کرکے آپ مدینہ چلے گیے۔ اگر چہ ظاہر پسندوں کی نظر میں یہ کوئی باعزت طریقہ نہ تھا۔ چنانچہ سیکولر مؤرخین نے اِس واقعے کو ہجرت کے بجائے فرار (flight) کا نام دیا ہے۔
اِسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلحِ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ چھوڑ کر مدینہ آگیے تو آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ دعوتِ توحید کا کام زیادہ بڑے پیمانے پر انجام دے سکیں۔ یہ بات مکہ کے سرداروں کو پسند نہیں آئی۔ انھوںنے آپ کے خلاف باقاعدہ حملہ شروع کردیا۔ اُس وقت آپ نے مکہ کے سرداروں سے گفت و شنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس گفت و شنید کا مقصد یہ تھا کہ آپ اور مکہ والوں کے درمیان امن کا سمجھوتہ ہوجائے۔ یہ گفتگو، حدیبیہ کے مقام پر دو ہفتے تک جاری رہی۔
اِس گفت وشنید کے دوران یہ واضح ہوا کہ فریقِ ثانی اپنی یک طرفہ شرطوں پر اصرار کررہا ہے۔ وہ لوگ اِس معاملے میں کسی بھی طرح جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ آخر کار، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مان لیا، تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان امن قائم ہوسکے۔ اِس طرح صلحِ حدیبیہ کا واقعہ انجام پایا، جو گویا آپ کے اور فریقِ ثانی کے درمیان دس سال کا ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اِس واقعے کے ذریعے پیغمبر اسلام نے امت کو یہ نمونہ دیا کہ مسلح ٹکراؤ کا انتخاب کسی بھی حال میں نہیں لینا ہے، کوئی بھی قیمت دے کر ہر حال میں امن کو قائم رکھنا ہے— اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف استثنا ء کی۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں— مطالعۂ سیرت، اور امنِ عالم، وغیرہ)
***************************************
کانٹے سے بچنے کی تدبیر یہ ہےکہ آدمی کانٹے سے نہ الجھے ۔وہ کانٹے کے مقام سے کترا کر آگے بڑھ جائے
واپس اوپر جائیں

تشدد کا سبب عدم قناعت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: قد افلح من أسلم ورزق کفافاً وقنعہ اللہ بما آتاہ (صحیح مسلم،حدیث نمبر1054؛ سنن الترمذی، حدیث نمبر2348 ) یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جواسلام لایا اور جس کو بقدر ضرورت رزق ملا اور وہ اُس پر قانع ہوگیا جواللہ نے اُس کو دیا۔
اس حدیث میں قناعت کا ذکر ہے۔ قناعت کی نفسیات اگر کسی کے اندرپوری طرح پیدا ہوجائے تو وہ اُس کو مکمل طورپر امن پسند بنادے گی۔ اس کے برعکس جن لوگوں کے اندر قناعت کی نفسیات نہ ہو وہ اپنی حالت پر غیر مطمئن رہیں گے اور آخر کار جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو کرمتشددانہ کارروائی شروع کردیں گے تاکہ جس چیزکو وہ پُر امن طورپر حاصل نہ کرسکے اُس کو وہ تشدد کی طاقت سے حاصل کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قناعت سے امن کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور عدم قناعت سے تشدد کامزاج۔
قناعت کا جذبہ آدمی کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک پایا ہوا انسان ہے۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو پایا ہواانسان سمجھے وہ کبھی جھنجھلاہٹ اور تشدد کا شکار نہیں ہوسکتا۔
اس کے برعکس معاملہ اس انسان کا ہے جو عدم قناعت کی نفسیات میںمبتلا ہو۔وہ ہمیشہ احساس محرومی کا شکار رہے گا۔ اُس کا یہ احساس اُس کو مسلسل اُکسائے گا کہ جو کچھ اُس نے نہیں پایا اُس کو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر اُس نے دیکھا کہ وہ اپنی نہ پائی ہوئی چیز کو پر امن طریقہ سے حاصل نہیںکرسکتا تو وہ تشدد کے طریقوں کو استعمال کرکے اُس کو حاصل کرنا چاہے گا۔
وہ اُن تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا جن کووہ اپنے خیال کے مطابق، اپنی خواہش کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ اُن لوگوں سے نفرت کرے گا۔ وہ اُن لوگوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار جمع کرے گا۔ حالانکہ یہ سب نتیجہ ہوگا اس بات کا کہ وہ خدا کے دیے ہوئے پر راضی نہ ہوسکا، وہ قناعت کے بجائے عدم قناعت کا شکار ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

اعتدال کا طریقہ

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو چاہئے کہ تم توسط و اعتدال کا طریقہ اختیار کرو (قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:علیکم القصد) مسند احمد 4/406۔
قصد یا توسط و اعتدال کا تعلق کسی ایک معاملے سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ مثلاً جب آدمی چلے تو وہ اعتدال کے ساتھ چلے۔ بولے تو وہ اعتدال کے انداز میں بولے۔ عبادات میںوہ اعتدال کا طریقہ اختیار کرے۔ انفاق اوراعانت میںبھی وہ معتدل رویہ اختیار کرے، وغیرہ۔ اسی طرح جب کسی سے اختلاف ہوجائے تو اختلاف میں بھی فریقین کو چاہئے کہ اعتدال پر قائم رہیں۔ وہ اختلاف کے وقت اعتدال کی حد سے باہر نہ چلے جائیں۔
مثلاً جب دو آدمیوں میں کسی معاملہ میںاختلاف ہوتو اولاً ان کو ایسا کرنا چاہئے کہ وہ سنجیدہ گفت وشنید کے ذریعہ اپنے اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس طرح اختلاف ختم ہوجائے تو بہت اچھا ہے اور اگر اختلاف ختم نہ ہو تو انہیں اختلاف کے باوجود اتحاد کے اصول پر عمل کرنا چاہئے۔ ان کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے یہ کہہ دیںکہ آؤ ہم اس پر اتفاق کرلیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے:
Let's agree to disagree.
قصد واعتدال متانت اور وقار کی روش کا دوسرا نام ہے۔ یہ کسی آدمی کے سنجیدہ مزاج ہونے کی ایک علامت ہے۔ جو آدمی اپنے قول و فعل میںاعتدال پر قائم ہو وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جذباتیت سے پاک ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو سوچ کر بولتا ہے اور جب کرتا ہے تو وہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے، وہ سطحیت پسندی سے پاک ہے۔ اس کا کردار اس کی عقل کے تابع ہے نہ کہ اس کے جذبات کے تابع۔
واپس اوپر جائیں

ارتقا کے تین درجے

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند امام احمد کے الفاظ یہ ہیں— حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: النّاس مَعادِن، کمعادن الفِضّۃ والذّہب، خِیارُہم فی الجاہلیۃ خیارُہم فی الاسلام إذا فقہوا (مسند احمد، جلد 2 ،صفحہ539) یعنی انسان دھات کی مانند ہیں، جیسے سونے اور چاندی کی دھات۔ جاہلیت میںجو بہتر ہیں، وہی اسلام میں بھی بہتر ہیں، جب کہ وہ اپنے اندر سمجھ پیدا کریں۔
اِس حدیث میں انسان کے فکری ارتقا کے مراحل کو بتایا گیا ہے۔ ایک درجۂ فکری وہ ہے جس پر انسان پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا درجۂ فکری وہ ہے جو انسان خود اپنی کوششوں سے بناتا ہے۔ تیسرا درجہ معرفت کا درجہ ہے۔ معرفت کے درجے میں پہنچ کر انسان اپنے ارتقا کی آخری منزل کو پالیتا ہے، یعنی وہ درجہ جس کا دوسرا نام اسلام ہے۔
اِس اعتبار سے انسان کی مثال دھات (metal) جیسی ہے۔ لوہا زمین سے نکلتا ہے۔ ابتدائی حالت میں وہ خام لوہا (ore) ہوتا ہے۔ اِس کے بعد اُس کو پگھلا کر صاف کیا جاتا ہے۔ اب وہ ترقی پاکر اسٹیل بن جاتاہے۔ اِس کے بعد وہ مزید صنعتی مراحل سے گزرتا ہے، یہاں تک کہ وہ باقاعدہ مشین کی صورت اختیار کرلیتا ہے— یعنی پہلے مرحلے میں خام لوہا، دوسرے مرحلے میںاسٹیل، اور تیسرے اور آخری مرحلے میں مشین۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ فطرت کی کان (mine) سے نکل کر باہر کی دنیا میںآتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑا ہوتا ہے اور اپنی سوچ کو عمل میں لاتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اِس طرح پختگی کی عمر میں پہنچ کر وہ ایک باقاعدہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ انسانی وجود کا درمیانی مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد اگر وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر استعمال کرے تو وہ معرفتِ حق کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جب کہ کوئی پیدا ہونے والا، کمالِ انسانیت کے مرحلے میں پہنچ کر عارف باللہ کا مقام حاصل کرلیتاہے۔ اِن تین ارتقائی مراحل کو حسب ذیل صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1۔ پیدائشی شخصیت (born personality)
2۔ تیار شدہ شخصیت (developed personality)
3۔ عارفانہ شخصیت (realized personality)
پیدائشی شخصیت، خدا کی دی ہوئی شخصیت ہوتی ہے۔ پیدائشی شخصیت کے اعتبار سے ہر آدمی یکساں ہوتاہے۔ صلاحیت کے اعتبار سے اگر چہ ایک انسان اور دوسرے انسان میںہمیشہ فرق ہوتا ہے، لیکن اِس فطری فرق کے باوجود تمام انسان اِمکانی استعداد (potential capacity) کے اعتبار سے یکساں حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔
اِسی بات کو ایک حدیث میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: المؤمن القوّی خیرٌ و أحبُّ إلی اللہ من المؤمن الضّعیف، وفی کلٍّ خیر۔ احرِص علیٰ ما ینفعک واستعن باللہ ولا تعجز۔ وإن أصابک شیٔ فلا تقُل:لَوأنّی فعلتُ کان کذا وکذا، ولٰکن قُل:قدّر اللہ وماشاء فعل۔ فإنّ ’’لَو‘‘ تفتح عملَ الشیطان (صحیح مسلم، کتاب القدر؛ ابنِ ماجہ، مقدّمہ؛ مسنداحمد، جلد 2، صفحہ 370 )۔یعنی قوی مومن، اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے، اور ہر ایک میں خیر ہے۔ جوچیز تمھارے لیے نافع ہو، اس کے تم حریص بنو اور اللہ سے مدد چاہو اور عاجز نہ ہو۔ اور اگر تمھارے خلاف کوئی بات پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ کاش، میں نے ایسااور ایسا کیاہوتا۔ بلکہ یہ کہو کہ یہ خدا کا تقدیری منصوبہ تھا، اسی نے جوچاہا کیا۔ کیوں کہ ’’اگر‘‘ کہنا شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔
اِس حدیث میں مومن سے مراد انسان ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اگر اپنے اندر ایک اعتبار سے کمی محسوس کرے تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ دوسرے اعتبار سے اُس کے اندر کوئی اور صفت زیادہ ہوگی۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو دریافت کرے اور حوصلہ مندانہ انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ جدوجہد ِ حیات کے دوران اگر اس کو کوئی نقصان پہنچے تو اُس کو یقین کرنا چاہیے کہ اِس منفی تجربے میں بھی کوئی مثبت فائدہ شامل ہوگا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر منفی تجربے سے مثبت سبق لے، وہ کسی بھی حال میں پست ہمتی کا شکار نہ ہو۔
اس طرح آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنی کنڈیشننگ کو دور کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے اندر ایسی شخصیت کی پرورش کرتا رہتا ہے جس کے اندر قبولِ حق کی صلاحیت موجود ہو، جس کے اندر وہ صلاحیت ہو جس کو پیغمبر کی ایک دعا میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: اللّہم أرنا الحقَّ حقّا، وارْزُقنَا اتِّباعہ، وأرِنا الباطل باطلاً، وفقنا لاجتِنابَہ، وأرِنا الأشیاءَ کما ہِیَ(دیکھئے تفسیر ابن کثیر1/571،تفسیر الرازی1/119) یعنی اے اللہ، تو مجھے حق کو حق کے روپ میں دکھا، اور اس کی پیروی کی توفیق دے۔ اور اے اللہ، تو مجھے باطل کو باطل کے روپ میں دکھا، اور تو مجھے اُس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اور اے اللہ، تو مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔
یہی وہ انسان ہے جس کو ہم نے اوپر کی تقسیم میں تیار شدہ شخصیت (developed personality) کا نام دیا ہے۔ وہی آدمی دانش مند آدمی ہے جو اپنے اندر اِس قسم کی شخصیت کی تعمیر کرے۔ جہاں تک فطری وجود کی بات ہے، ہر انسان کو فطری وجود کا عطیہ خالق کی طرف سے یکساں طورپر ملتا ہے، لیکن اُس کے بعد اپنے آپ کو ایک تیار شدہ شخصیت بنانا، یہ ہر انسان کا خود اپنا عمل ہے۔ ٹھیک اُسی طرح جیسے خام لوہا فطرت کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے، لیکن اِس خام لوہے کو اسٹیل اور مشین میں تبدیل کرنے کا عمل انسانی کارخانے میںانجام پاتا ہے۔
اِسی خود تیاری (self-preparation)کے عمل پر اگلے ارتقائی مرحلے کا انحصار ہے۔ جولوگ خود شناس بنیں، جو لوگ اپنا بے لاگ محاسبہ کرتے رہیں، جو لوگ اپنی کمیوں کو ڈھونڈ کر اپنی ڈی کنڈیشننگ کریں، جو لوگ ہر قیمت کو ادا کرتے ہوئے اپنے ’’خام لوہے‘‘ کو ’’اسٹیل‘‘ بنانے کا کام کریں، جن لوگوں کا یہ حال ہو کہ وہ انانیت اور کبر اور لالچ اور حسد اور غصہ اور انتقام جیسے منفی جذبات کا کبھی شکار نہ بنیں، جو کہ شخصیت کی تعمیر میں ایک مہلک رکاوٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جو لوگ مسلسل طورپر اپنے اوپر تزکیہ کا عمل جاری کیے ہوئے ہوں، وہی لوگ ہیں جو خدا کی توفیق سے حق کو دریافت کرتے ہیں اور اس کو پوری آمادگی کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں۔
تزکیہ کے لفظی معنٰی ہیں، پاک کرنا(purification) ۔ یہ ہر آدمی کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ ہر آدمی کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے، جس کو کنڈیشننگ (conditioning) کہاجاتا ہے۔ اپنے جذبات اور خواہشات کے تحت، اس کی کچھ عادتیں بن جاتی ہیں۔ اپنے مفادات اور مصالح کے زیر اثر، شعوری یا غیر شعوری طورپر، اس کا اپنا ایک مزاج بن جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں آدمی کی روحانی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔اِن رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے آدمی کو خود اپنا نگراں (guard) بننا پڑتا ہے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی غلطیوں کو نکالتا ہے۔ وہ ایک بے رحمانہ اصلاح (merciless deconditioning) کا عمل اپنے اوپر جاری کرتا ہے۔ یہ تزکیہ کی لازمی شرط ہے۔ اِس کے بغیر کسی کا حقیقی تزکیہ نہیں ہوسکتا— بے رحمانہ ذاتی اصلاح کے بغیر تزکیہ نہیں، اور تزکیہ کے بغیر جنت نہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو مذکورہ مراحل سے گزاریں اور اپنی تیاری کے نتیجے میں سچائی کو پالیں، اُنھیں کو قرآن میں النفس المطمٔنۃ (الفجر27 ) کہاگیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوئے، جنھوں نے اپنے آپ کو اِس نقشے پر ڈھال کر اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خداکی رضا مندی پائیں گے اور خدا کے فضل سے جنت کے ابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی خوشی

ایک روایت صحیحین میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: عن أبی سعید قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم إن اللہ تعالیٰ یقول لأہل الجنۃ:یا أہل الجنّۃ، فیقولون:لبّیک ربّنا وسعدیک، والخیر فی یدیک۔ فیقول:ہل رضیتم۔ فیقولون:وما لنا لا نرضی یار بّ، وقد أعطیتنا ما لم تعط أحداً من خلقک۔ فیقول:ألا أعطیکم أفضل من ذلک۔ فیقولون:یا ربّ، وأیّ شییٔ أفضل من ذلک۔ فیقول:أحلُّ علیکم رضوانی فلا أسخط علیکم بعدہ أبداً (حدیث نمبر7518 )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے کہے گا کہ اے اہلِ جنت، وہ کہیں گے اے ہمارے رب، لبیک وسعدیک والخیر فی یدیک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا تم راضی ہو۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، حالاں کہ تو نے ہم کو وہ چیز عطا فرمائی جو مخلوقات میں سے کسی دوسرے کو نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا میں تم کو اس سے بھی زیادہ افضل چیز نہ دوں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، وہ کیا چیز ہے جو اس سے افضل ہے۔ اللہ فرمائے گا، میں تمھارے لیے اپنی رضا کو واجب کرتاہوں، اِس کے بعد اب میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔
جنت بلا شبہہ تمام نعمتوں کا مجموعہ ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں اور تمنائیں کامل درجے میں پوری ہوںگی۔ جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے، وہ یہ محسوس کریں گے کہ اُنھیں تمام مسرتیں اپنی حقیقی صورت میں حاصل ہوگئیں ہیں۔ لیکن امکانی طورپر ایک اندیشہ اُن کے لیے پھر بھی موجود رہے گا، وہ یہ کہ جنت ان کو اللہ کے عطیہ کے طور پر ملی ہے، وہ خود اُس کے خالق نہیں ہیں۔ اللہ اگر چاہے تو جنت کو اُن سے چھین بھی سکتا ہے۔ مذکورہ حدیث اِسی اندیشے کا جواب ہے۔جب خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ابدی رضا کا اعلان کردیا جائے گا تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ جنت اب ہمیشہ کے لیے ان کی قیام گاہ بن چکی ہے، وہ ان سے کبھی چھینی جانے والی نہیں۔ یہ بلاشبہہ سب سے بڑی خوشی ہوگی جو اہلِ جنت کو حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

مومن کی صفت

مومن کی مثال ایسے نرم پودے کی سی ہے جس کے پتے سایہ دار ہوتے ہیں۔ جس سمت سے بھی ہوا چلتی ہے وہ اس کو جھکا دیتی ہے۔ جب ہوا رکتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے جو مسلسل آزمائشوں کے بار سے دبا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال سخت درخت (ٹھنٹھ) کی طرح ہے جو بے حس و حرکت ایک حالت میں کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے جب چاہتا ہے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر7466 )
اس حدیث میں پودے کی مثال کے ذریعہ مومن کی اس صفت کو بتایا گیاہے جس کو تواضع کہا جاتا ہے۔ تواضع مومن کی ایک صفت ہے۔ جس انسان کے اندر ایمانی کیفیت ہوگی اس کے اندر تواضع بھی ضرور ہوگی۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیںہوسکتیں۔مومن کے اندر سوکھی لکڑی کی طرح اکڑ نہیں ہوتی بلکہ نرم پودے کی طرح لچک ہوتی ہے۔ اس سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو فوراً ہی وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کسی سے معاملہ پڑے تو وہ ہمیشہ اس کے ساتھ نرم روی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ کسی سے نزاع پیش آجائے تو وہ یکطرفہ طورپر مصالحت کے لیے تیار رہتا ہے۔ حقوق کے جھگڑے میں وہ اپنا حق بھی دوسرے کو دینے پر راضی ہوجاتا ہے تاکہ معاملہ شدت کے مرحلہ تک نہ پہنچے۔
ایک انسان جب دوسرے انسان کے ساتھ شدت کا معاملہ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو اپنے جیسے ایک انسان کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہی نفسیات آدمی کو شدید بناتی ہے۔ مگر مومن اس کے برعکس ہر معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہ نفسیات اس کے اندر شدت کا خاتمہ کردیتی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلہ میں بڑا ہوسکتا ہے مگر خدا کے مقابلہ میں کوئی بھی انسان نہ بڑا ہے اور نہ طاقتور۔ اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان اور انسان کا معاملہ ہو تو ان میں سے کوئی چھوٹا نظر آتا ہے اور کوئی بڑا۔ مگر جب انسان اور خدا کا معاملہ ہو تو تمام انسان یکساں حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اب بڑا صرف ایک خدا ہوتاہے اور بقیہ تمام انسان اس کے مقابلہ میں چھوٹے۔
واپس اوپر جائیں

عمل کا مدار نیت پر ہے

صحیح البخاری کی پہلی روایت ان الفاظ میں آئی ہے: عن عمر بن الخطاب قال:سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول:إنما الأعمال بالنیات، وإنما لکل امرئٍ ما نویٰ:فمن کانت ہجرتہ إلی دنیایصیبہا أو امرأۃٍ ینکحہا فہجرتہ إلی ما ہاجر إلیہ۔یعنی حضرت عمر فاروق نے کہا کہ میںنے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمل کا مدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے، پس جس کی ہجرت دنیا کو پانے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو اُس کی ہجرت اُسی کے لیے ہے جس کی طرف اُس نے ہجرت کی۔
نیت کے معنی قصد اور ارادہ (intention) کے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خدا کسی کے ظاہری عمل کو نہیںدیکھتا بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ آدمی نے جو عمل کیا ہے اُس کو اُس نے کس ارادے کے تحت کیا ہے۔ کسی کے عمل کی قیمت خدا کے یہاں اس کے داخلی ارادے کے اعتبار سے ہوگی، نہ کہ اُس کے ظاہرکے اعتبار سے۔
اصل یہ ہے کہ ہر عمل کی ایک داخلی اسپرٹ ہوتی ہے، اور ایک اُس کی ظاہری صورت۔ اسلام میں اصل اعتبار داخلی اسپرٹ کا ہے، نہ کہ ظاہری فارم کا۔ داخلی اسپرٹ کے بغیر ظاہری فارم بے قیمت ہے، خواہ بظاہر وہ کتنا ہی مکمل دکھائی دیتا ہو۔ خدا کے یہاں وہی عمل قبول کیا جائے گا جس کے اندر اسلام کی مطلوب اسپرٹ موجود ہو، خواہ دیکھنے والوں کو بظاہر وہ عظیم نہ دکھائی دیتا ہو۔
داخلی اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی کا عمل قلبی جذبے کے تحت صادر ہوا ہو۔ کوئی آدمی اُس کے عمل کو دیکھنے والا نہ ہو تب بھی وہ اس عمل میںمشغول ہو۔ کسی قسم کا مادی فائدہ نہ ملنے والا ہو تب بھی وہ اپنا عمل کرتا رہے۔ یہ وہ عمل ہے جو آدمی کی داخلی شخصیت کا خارجی اظہار ہو۔ جس میںاُس کی اندرونی شخصیت بے تابانہ طورپر ظاہر ہوگئی ہو۔ جس کا محرّک صرف خدا کا خوف اور محبت ہو، کوئی بھی دوسرا محرک اُس کے عمل میں نہ پایا جاتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

ہر چیز پرچۂ امتحان

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: أنّ ماأصابک لم یکن لیُخطئک، وأنّ ما أخطأک لم یکن لیصیبک(مسند احمد، حدیث نمبر21589 ) یعنی جو تم کو ملا، وہ تم سے کھویا جانے والا نہ تھا۔ اور جو کچھ تم سے کھویا گیا،وہ تم کو ملنے والا ہی نہ تھا۔
اِس حدیثِ رسول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو کچھ ملتا ہے، وہ نہ اتفاقاً ملتا ہے اور نہ بطور انعام۔ موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو کچھ ملتا ہے، وہ صرف پرچۂ امتحان کے طورپر ملتا ہے۔ خدا کے فیصلے کے تحت، ہر عورت اور مرد کو کچھ چیزیں دی جاتی ہیں، تاکہ اُن چیزوں میںآزما کر دیکھا جائے کہ آدمی کا رویّہ کیسا تھا۔ خدا کبھی کوئی چیز دے کر امتحان لیتا ہے کہ آدمی نے اُس پرشکر کیا، یا اُس کو پاکر وہ گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا۔ اِسی طرح کوئی چیز چھین کر خدا آدمی کا امتحان لیتا ہے کہ اُس سے محروم ہو کر اُس نے صبر کیا، یا وہ شکایت کی نفسیات میں مبتلا ہوگیا۔
یہ خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan) ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کی نظر اِس پر نہیںہونی چاہیے کہ اُس نے کیا پایا اور اُس سے کیا چھینا گیا۔ اِس کے بجائے اُس کو اپنا سارا دھیان اِس پر لگانا چاہیے کہ اُس کو جن حالات میں رکھ کر خدا نے اُس کا امتحان لینا چاہا تھا، اُس میں اُس نے مطلوب رسپانس (response) دیا، یا وہ مطلوب رسپانس دینے میں ناکام ہوگیا۔
یہ زندگی کا مثبت تصور ہے۔ یہ زندگی کا مثبت فارمولا ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا ہوجائے، وہ کبھی ٹنشن میں مبتلا نہیں ہوگا۔ وہ کسی بھی حال میں مایوسی یا تلخی کا شکار نہیں ہوگا۔ کوئی تجربہ اُس کو زندگی کی تعمیری شاہ راہ سے ہٹانے والا ثابت نہ ہوگا۔ وہ کبھی فکری انتشار کا شکار نہ ہوگا۔ اُس کی زندگی میں کبھی یہ حادثہ پیش نہیں آئے گا کہ اُس کی زندگی حالات کے بھنور میں پھنس کر رہ جائے اور وہ آخری منزل تک نہ پہنچے۔
واپس اوپر جائیں

گھرایک تربیت گاہ

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیرکم خیرکم لأہلہ و أنا خیرکم لأہلی(ابن ماجہ کتاب النکاح، الدارمی کتاب النکاح) یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔
گھر کسی سماج کا ایک ابتدائی یونٹ ہے۔جوکچھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پورے سماج میں پیش آتا ہے وہی گھر کے اندر چھوٹے پیمانہ پر پیش آتا ہے۔ آدمی کے اچھے یا برے ہونے کافیصلہ باہمی تعلقات کے درمیان ہوتاہے۔ ہر گھر گویا انہی تجربات کا ایک چھوٹا ادارہ ہے اور ہر سماج انہی تجربات کا ایک بڑا ادارہ ۔
ہر عورت یا مرد جب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ، کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات، کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے، کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں، کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے شعور ایمان کو زندہ رکھیں، وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے زندگی گذاریں، اُن کو ہمیشہ آخرت کی پکڑ کا احساس لگا ہوا ہو۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی مذکورہ بالا قسم کا کوئی موقع اُن کے سامنے آئے گا تو وہ متنبہ ہوجائیں گے اور صحیح اسلامی روش کو اختیار کریں گے۔
جو عورت اور مرد اپنے گھر کے اندر اس قسم کی ہوش مندانہ زندگی گذاریں، اُن کے لیے اُن کا گھر ایک تربیت گاہ بن جائے گا۔ اُن کے گھر کا ماحول اُنہیں ہر صبح و شام تیار کرتا رہے گا۔ اُن کی یہ زندگی اُن کے لیے اس بات کی ضمانت بن جائے گی کہ جب وہ گھر کے باہر سماجی زندگی میںآئیں تو وہ سماج کے اندر بھی اُسی طرح ایک حق پرست انسان ثابت ہوں جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر حق پرست انسان ثابت ہوئے تھے۔
ایک آدمی جواپنے گھر کے اندر لڑتا جھگڑتا ہو وہ اسی طرزِ زندگی کا عادی بن جائے گا۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آئے گا تو یہاں بھی وہ لوگوں سے لڑنے جھگڑنے لگے گا۔ اپنے آفس میں، اپنے کاروبار میں ، روز مرہ کی زندگی میںوہ دوسروں کے ساتھ بھی اُسی طرح غیر معتدل انداز میں رہے گا جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر غیر معتدل انداز میں رہ رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس کے گھر کے معاملات بھی بگڑ جائیں گے اور اُس کے باہر کے معاملات بھی۔
اسی طرح کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھر کے اندر تو غیر مہذب انداز میں رہتے ہیں لیکن جب وہ باہر آتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اُن کا رویّہ تہذیب اور شائستگی کا رویّہ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ مگر یہ ایک منافقت ہے، اور اللہ کو منافقت پسند نہیں۔
کسی مسلمان پر جو دینی ذمہ داری ہے وہ صرف اس طرح ادا نہیں ہوجاتی کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے اور مکہ جاکر حج کرلے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا اخلاق اچھا ہو۔ انسانوں کے ساتھ سلوک میںوہ خدائی احکام کی پابندی کرتاہو، لوگوں کے درمیان وہ اس احساس کے ساتھ رہے کہ اُس کو اپنے ہر قول اور ہر فعل کاجواب خدا کو دینا ہے۔
موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی نعمت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر متاع الدنیا، المرأۃ الصّالحۃ (صحیح مسلم، کتاب الرضاع؛ نسائی، کتاب النکاح ) یعنی دنیا کی چیزوں میں سے سب سے اچھی چیز صالح عورت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت جو پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے فطری امکان (potential) کے اعتبار سے کسی مرد کے لیے سب سے اچھی متاعِ حیات ہے۔ لیکن اِس امکان کو واقعہ (actual) بنانا مرد کا کام ہے۔ جس طرح خام لوہا (ore) فطرت کا عطیہ ہوتا ہے، لیکن خام لوہے کو اسٹیل بنا نا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔
مرد کی پہلی ذمے داری یہ ہے کہ وہ عورت کا قدر داں بنے۔ وہ عورت کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو پہچانے۔ وہ عورت کے حسنِ باطن کو دریافت کرے۔ عورت کی شکل میں ہر مرد کو ایک اعلیٰ فطری امکان ملتا ہے۔ اب یہ خود مرد کے اوپر ہے کہ وہ اِس واقعے کو امکان بنائے، یا وہ اس کو ضائع کردے۔
اِس عمل کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ جو عورت کسی آدمی کو بیوی کے طورپر ملی ہے، وہ اس کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا عطیہ سمجھے۔ جب وہ اپنی بیوی کو خدا کا براہِ راست عطیہ سمجھے گا تو فطری طورپر وہ اس کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے گا اور یہ یقین کرے گا کہ خدا کا انتخاب غلط نہیں ہوسکتا۔ خدا کا انتخاب جس طرح دوسرے تمام عالمی معاملات میں درست ہوتاہے، اسی طرح یہاں بھی وہ درست ہے۔ مرد کے اندر جب یہ ذہن بنے گا تو اس کے بعد وہ عمل اپنے آپ شروع ہوجائے گا جو عورت کے امکان کو واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اپنی بیوی کو خدا کا عطیہ سمجھنے کے بعد اس کے ساتھ معاملہ کرنے کو وہ اپنے لیے عبادت سمجھے گا۔ وہ ہرممکن قیمت ادا کرتے ہوئے یہ کوشش کرے گا کہ اس کی بیوی حقیقی معنوںمیں اس کے لیے دنیا کی سب سے اچھی متاعِ حیات بن جائے۔
ہر آدمی چاہتاہے کہ اس کو اچھی بیوی ملے۔لیکن اچھی بیوی کسی کو ریڈی میڈ سامان کی طرح نہیں ملتی۔ شوہر کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے۔ اِس عمل کی کامیابی کے لیے مرد کے اندر دو صفات کا ہونا ضروری ہے— سچی ہمدردی اور صبر و تحمل۔
واپس اوپر جائیں

ایک حدیث

اِزدواجی رشتے کے بارے میں ایک جامع نصیحت حدیثِ رسول میںآئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یفرکُ مؤمنٌ مومنۃً، إن کرِہ منہا خُلقاً، رضی منہا اٰخر (صحیح مسلم، کتاب الرّضاع، باب الوصیۃ بالنساء) یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر عورت کی ایک خصلت اُس کو ناپسند ہو تو اُس کے اندر کوئی دوسری خصلت موجود ہوگی جو اس کو پسندآئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی عورت یا مرد کے اندر ساری اچھی صفات پائی نہیں جاتیں۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ کسی کے اندر ایک صفت موجود ہوتی ہے تو اس کے اندر دوسری صفت موجود نہیں ہوتی۔ مثلاً عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ ایک عورت یا مرد اگر ظاہری دل کَشی کے اعتبار سے زیادہ ہوں تو وہ داخلی خصوصیات کے اعتبار سے کم ہوں گے۔ اور اگر کسی میں داخلی خصوصیات زیادہ ہوں تو اس کے اندر خارجی صفات کم پائی جائیں گی۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی کے منفی پہلو کو زیادہ دیکھتا ہے، اُس کے مثبت پہلو اکثر اس کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک تباہ کُن مزاج ہے۔ اِسی مزاج کی وجہ سے رشتوں میں بگاڑ پیداہوتا ہے۔ اِس کے بجائے اگر ایسا کیا جائے کہ مثبت پہلو پر دھیان دیاجائے اور منفی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو تعلقات خود بخود خوش گوار ہوجائیں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہر مرد کو اُس کی بیوی بہترین رفیقِ حیات دکھائی دے گی اور ہر عورت کو اُس کا شوہر بہترین رفیقِ زندگی نظر آئے گا۔
خدا نے کسی عورت یا مرد کو کم تر پیدا نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنے آپ میں باعتبار تخلیق کامل ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے فہم کا قصور ہے کہ ہم کسی کو کم اور کسی کو زیادہ سمجھ لیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اِس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی شکر کی زندگی بن جائے، شکایت یا محرومی کا احساس ان کے اندر باقی نہ رہے اور پھر وہ زیادہ بہتر طورپر زندگی کی تعمیر کے قابل ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

آج کل مسلمان مختلف مقامات پر متشددانہ کارروائی میں مبتلا ہیں۔ جب اُن کو اِس سے روکا جائے، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کررہے ہیں جس کا حکم ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ اِس سلسلے میں وہ اُس حدیثِ رسول کو پیش کرتے ہیں جس میںاہلِ ایمان کو تغییر ِ منکَر کا حکم دیاگیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں مَن رأی منکم منکراً فلْیغیّرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان (صحیح مسلم، کتاب الإیمان) یعنی تم میں سے جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، اور اگر وہ اِس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان سے، اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنے دل سے، اور یہ سب سے زیادہ کمزور ایمان ہے۔دوسری روایت میں اِس حدیث کا پہلا ٹکڑا اِن الفاظ میں آیا ہے:مَن رأی منکراً فاستطاع أن یغیّرہ بیدہ فلیغیّرہ بیدہ (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم) یعنی جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو اگر وہ استطاعت رکھتا ہو تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ روایت کے بقیہ الفاظ مشترک ہیں۔
اِس حدیث کو عام طورپر تشدد کے جواز میں پیش کیا جاتاہے، حالاں کہ حدیث میں اِس کا ذکر نہیں ہے۔ اِس حدیث میں منکر کو عملاً بدل دینے، یا عملاً بدل دینے کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں اس کے خلاف بولنے کا ذکر کیاگیا ہے، نہ کہ منکر کو دیکھ کر لوگوں کے اوپر تشدد کرنے کا، یا خود کُش بم باری (suicide bombing) کا۔ اِس حدیث سے متشددانہ کارروائیوں کا جواز ہر گز نہیں نکلتا۔
اِس روایت میں منکر کی تغییر کا لفظ آیا ہے۔ تغییر کے معنی عربی زبان میں بدل دینے (replacement) کے ہیں، یعنی منکَر کی حالت کو بدل کر غیر منکر کی حالت قائم کرنا۔ اِس حدیث میںاصلاحِ حال کا حکم ہے، نہ کہ تخریب اور فساد کا۔
عربی زبان کے مشہور لغت ’لسان العرب‘ میں تغییر کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے— غیّرہ:حوّلہ وبدّلہ کأنہ جعلہ غیر ما کان (5/40) اس کی تغییر کی، یعنی اس کو بدل دیا۔ گویا کہ اس کو ایسا بنا دیا جیسا کہ وہ پہلے نہ تھا۔ امام راغب الاصفہانی (وفات1108)نے اپنی کتاب ’المفردات فی غریب القرآن‘ میں اِس لفظ کی تشریح اِس طرح کی ہے:یقال غیّرتُ داری إذا بنیتہا بناءً غیر الّذی کان۔ کہاجاتا ہے کہ میں نے اپنے گھر کی تغییر کی، یعنی جب تم اس کی تعمیر کو بدل کر دوسری طرح اس کی تعمیر کرو (صفحہ 368 )۔
موجودہ زمانے میں جگہ جگہ جہاد کے نام پر تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔یہ ’’مقدس تشدد‘‘ مسلم رہنماؤں کی قیادت میں انجام پارہا ہے۔ اِس فعل میںتقریباً تمام امت شریک ہے۔ اِس لیے کہ جو لوگ براہِ راست اس میں شریک نہیں ہیں، وہ اس کے بارے میں خاموش ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، اُن کی یہ خاموشی بالواسطہ شرکت کا درجہ رکھتی ہے۔ اِس لیے اسلامی اصول کے مطابق، پوری امت کو اِس عمل میں شریک مانا جائے گا، کچھ لوگوں کو براہِ راست طورپر، اور بقیہ لوگوں کو بالواسطہ طورپر۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اِس متشددانہ عمل کا کوئی بھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ اِس عمل کا ہر جگہ صرف ایک ہی نتیجہ نکل رہا ہے، اور وہ تخریب ہے، نہ کہ تعمیر۔ ایسی حالت میں بلا شبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ متشددانہ کارروائیاں اور جو کچھ ہوں، لیکن وہ تغییر ِ منکر کا عمل ہر گز نہیں۔ تغییر ِ منکر یہ ہے کہ آدمی ناپسندیدہ صورت ِ حال کو بدل کر اس کی جگہ پسندیدہ صورتِ حال قائم کرے۔ اِس کے برعکس، ایک ایسی کوشش جو کاؤنٹر پروڈکٹیو (counterproductive) ثابت ہو، وہ یقینی طورپر تخریب اور فساد ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی عمل۔
کسی غیر مطلوب صورتِ حال کو دیکھ کر اس کے خلاف منفی رد عمل ظاہر کرنا، صرف فساد کا ایک عمل ہے، وہ تغییر منکر نہیں۔ تغییر منکر مکمل طورپر ایک مثبت عمل ہے۔ وہ حالات کی اصلاح کے لیے کیا جاتا ہے، نہ کہ حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے۔ اصلاحِ حال کا طریقہ یہ ہے کہ غیر متاثر ذہن کے ساتھ حالات کا مطالعہ کیا جائے اور پھر تعمیری منصوبہ بندی کے ذریعے صورتِ حال کو درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اِس کے خلاف کریں، وہ بلاشبہہ مفسد ہیں، نہ کہ مصلح۔
واپس اوپر جائیں

دوطرفہ معاملہ

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایرمی رجلٌ رجلاً بالفسق ولا یرمیہ بالکفر إلاّ ارتدّت علیہ، إن لم یکن صاحبہ کذٰلک (مسند احمد، جلد 5 ، صفحہ 181) یعنی جب بھی ایک آدمی دوسرے آدمی پر کافر یا فاسق ہونے کا الزام لگاتا ہے، تو ضرور یہ الزام خود قائل کی طرف لوٹ آتا ہے، اگر دوسرا آدمی ویسا نہ ہو۔یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے جس کو خدا نے اِس دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اِس قانون کو موجودہ زمانے میں بوم رَینگ (boomerang) کا قانون کہاجاتا ہے۔یعنی کسی چیز کو آپ جس قوت سے دوسرے کی طرف پھینکیں، اُسی قوت سے وہ آپ کی طرف لوٹ کر آئے گی:
It is the law of the boomerang — the harder and faster you throw it, the faster and more violently it comes back.
جب کوئی آدمی کسی کو بُرا کہتا ہے، یا اس کو فاسق یا کافر بتا تا ہے تو وہ اس کو اپنے داخلی احساس کے تحت صرف ایک یک طرفہ معاملہ سمجھتا ہے، یعنی ایک ایسی بات جس کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے نہیں ہے، بلکہ صرف دوسرے شخص کی ذات سے ہے۔ مگر یہ ایک خطرناک بھول ہے۔ کیوںکہ اگر دوسرا آدمی ویسا نہیں ہے جیسا آپ نے اس کو بتایا ہے، تو آپ کا کہا ہوا خود آپ کی طرف لوٹ آئے گا۔ جو الزام آپ دوسرے شخص کو دے رہے تھے، آپ خود اس کے مجرم بن جائیں گے۔
اب اگر یہ دیکھا جائے کہ فسق یا کفر کا تعلق انسان کے دل سے ہے، اور دل کا حال صرف خدا جانتا ہے تو ہر وہ شخص جو خدا سے ڈرتا ہو، اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اِس قسم کی زبان استعمال کرنے سے وہ آخری حد تک بچے گا۔ وہ اگر کسی شخص کے اندر کوئی برائی دیکھ رہا ہے تو وہ خیر خواہانہ انداز میں اس کو نصیحت کرے گا۔ وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ اس کے بارے میں فاسق اور کافر جیسی زبان بولنے لگے۔ وہ کسی شخص کے فسق اور کفر کو خدا کے اوپر چھوڑ دے گا، اوراپنی ذمے داری صرف یہ سمجھے گا کہ وہ نصیحت اور تلقین کے ذریعے دوسرے انسان کی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

بولنے پر کنٹرول

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِسراء کے سفر میں جزاوسزا کے معاملے کو تمثیل کے روپ میں دکھایا گیا۔ اُن میں سے ایک تمثیلی واقعہ یہ تھا: مرّ بثور عظیم یخرج من ثقب صغیر یرید أن یرجع فلا یستطیع۔ قال:ہذا الرجل یتکلم بالکلمۃ فیندم فیرید أن یردہا فلا یستطیع۔ (رواہ الطبرانی والبزّار، بحوالہ فتح الباری، جلد 7، صفحہ 63، باب حدیث الإسراء) یعنی معراج کے دوران رسول اللہ ایک عظیم الجثہ بیل کے پاس سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ایک چھوٹے سوراخ سے نکلتا ہے، پھروہ چاہتا ہے کہ وہ واپس جائے، مگر وہ واپس نہیں جاسکتا۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ اُس انسان کی مثال ہے جو ایک بات کہتا ہے، پھر اس پر شرمندہ ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واپس لے لے، مگر وہ اس کو واپس لینے پر قادر نہیںہوتا۔
یہ اُس انسان کی مثال ہے جو غیر ذمے دارانہ طورپر کسی کے خلاف ایک منفی بات کہہ دیتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ اس کی منفی بات سے ایک بڑا فتنہ پیدا ہوگیا ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واپس لے، مگر وہ اس پر قادر نہیں ہوتا۔ اس کی منفی بات ایک فتنے کو جگا دیتی ہے۔ وہ ایک ایسے فتنے کا باعث بن جاتی ہے جس کو کہنے والے نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
اِس حدیث کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کو بولنے کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ اگر آدمی کوئی مثبت بات بولے تو اس میں کسی فتنے کا اندیشہ نہیں ہے۔
لیکن منفی بات کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ منفی بات ہمیشہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور پھیلنے کے وقت اس میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ابتدا میں وہ بظاہر ایک چھوٹی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن لوگوں کے درمیان پھیلنے کے بعد وہ نہایت سنگین صورتِ حال اختیار کر لیتی ہے، یہاں تک کہ آخر کار اس کے نتیجے میں نفرت اور تشدد کا جنگل اگ آتا ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کے اوپر فرض ہے کہ وہ نتیجہ (result)سے پہلے سوچے، وہ بولنے سے پہلے اس کے نتیجے پر غور کرے۔
واپس اوپر جائیں

اکرام یا تکلف

موجودہ زمانے میں یہ عام رواج ہے کہ لوگ اپنے مہمان کے کھانے پینے کے لیے غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں اور اُس پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر اُن سے کہا جائے کہ یہ اسراف ہے اور وہ اپنے وقت اور مال کا ضیاع ہے، تووہ کہیں گے کہ یہ تو شریعت کی تعلیم ہے۔ شریعت میں ’اکرامِ ضیف‘ کا حکم دیا گیا ہے، اِس لیے ہم ایسا کرتے ہیں۔
مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات ہے۔ شریعت میں جس اکرامِ ضیف کا حکم ہے، وہ صرف بقدرِ ضرورت ہے، نہ کہ بقدرِ تکلف۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث میںاکرامِ ضیف کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے (مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخرفلْیکرم ضیفہ)صحیح البخاری، حدیث نمبر6018 ۔ مگر اکرام کا مطلب ہر گز تکلف نہیں۔ اکرام سادہ معنوں میں ایک انسانی اور اخلاقی نوعیت کی چیز ہے، نہ کہ کوئی نمائش اور تکلف کی چیز۔
مہمان کے لیے اکرام کے نام پر تکلف کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ چناں چہ حضرت سلمان کہتے ہیں کہ : نہیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن نتکلف للضّیف (الجامع الصغیر ، جلد 2 ، صفحہ 1159 ) یعنی رسول اللہ نے ہم کو اِس بات سے منع فرمایا کہ ہم مہمان کے لیے تکلف کریں۔ اِسی طرح، ایک اورروایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أناوأتقیاءُ أمّتی بُرآء من التکلف ( کشف الخفاء، جلد 1، صفحہ 236) یعنی میں اور میری امت کے متقی لوگ تکلف سے بہت زیادہ دور رہنے والے ہیں۔
نفسیاتی اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مہمان کی آمد کے موقع پر جوتکلف کیا جاتا ہے، وہ حقیقۃً لوگوں کے نزدیک، خود اپنے اکرام کی ایک صورت ہوتی ہے، نہ کہ مہمان کے اکرام کی صورت۔ حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت موجود ہو، وہ کبھی تکلف جیسی نمائشی چیز کا تحمل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

دوسرے کے لیے دعاء

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: دعوۃ المرء المسلم لأخیہ بظہر الغیب مستجابۃ، عند رأسہ ملک موکَّل، کلّما دعا لأخیہ بخیر، قال الملک الموکّل بہ آمین ولک بمثل (کتاب الذکر والدعاء، باب فضل الدعاء للمسلمین بظہر الغیب) یعنی آدمی جب اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اُس کے لیے دعاء کرتا ہے تو ایسی دعاء قبول ہوتی ہے۔ اس کے پاس ایک فرشتہ موجود رہتا ہے۔ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے خیر کی دعاء کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تمھاری دعاء قبول ہو اور اسی کے مثل تمھارے لیے بھی۔
دوسرے کی غیر موجودگی میں اس کی بھلائی کے لیے دعا کرنا ، ہمیشہ انسانی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتا ہے۔ انسان کے لیے سچی خیر خواہی ایک عظیم عبادت ہے۔
جب بھی کسی آدمی کے اندر دوسرے انسان کے لیے سچی خیر خواہی کاجذبہ ابھرے اور وہ اُس انسان کی غیر موجودگی میں اس کے لیے اللہ سے دعاء کرے، تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ ایسی دعا کبھی ضائع نہیں جاتی۔
لیکن کوئی بھی دعاء سنت اللہ کو منسوخ کرنے والی نہیں بن سکتی۔ دعاء کی قبولیت ہمیشہ سنت اللہ کے مطابق ہوتی ہے۔ جہاں تک دعاء کرنے والے کی ذات کا تعلق ہے، اس کو اپنے جذبۂ خیر خواہی کی بنا پر ضرور ثواب ملے گا۔لیکن جس شخص کے لیے دعاء کی گئی ہے، اُس کے لیے دعاء کی قبولیت اِس پر منحصر ہے کہ وہ شخص واقعۃً خود اپنے اندر اِس کا کتنا زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔
اللہ کی سنت کے مطابق ایسا نہیں ہوسکتا کہ دوسرا شخص خود اپنی ذات میں قبولیت کا استحقاق نہ رکھتا ہو، اِس کے باوجود اس کو دعاء کا فائدہ حاصل ہوجائے۔ کسی کے لیے دعاء کرنا بلاشبہہ ایک عبادت ہے۔ لیکن کسی کے حق میں دعاء کا قبول ہونا خالص ایک خدائی معاملہ ہے۔ یہ صرف اللہ کو معلوم ہے کہ ذاتی استحقاق کے اعتبار سے کون اِس کا اہل ہے اور کون اِس کا اہل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ عبادت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم أعظم اجراً من الذی لا یخالطہم ولا یصبر علی أذاہم (ابن ماجہ کتاب الفتن، الترمذی کتاب القیامۃ، مسند احمد 2؍43) یعنی وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ اختلاط کرتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے اس کا اجراس مومن سے زیادہ بڑا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا۔
اس حدیث میں اِختلاط(interaction) سے مراد سادہ طورپر صرف اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ اختلاط ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کی طرف سے ایذاء کا تجربہ پیش آئے۔ اختلاط اپنے آپ میں ایذاء کا سبب نہیں ہے۔ اگر آپ لوگوں سے اس طرح ملیں کہ لوگوں سے میٹھے انداز میں بولیں، لوگوں کے ساتھ سمجھوتے کا طریقہ اختیار کریں، آپ لوگوں سے تفریحی باتیں کریں، آپ اپنے کلام میں وہ باتیں بولیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کی نظر میں ہر دِل عزیز بن جائیں گے۔ پھر آپ کو لوگوں کی طرف سے صرف اچھے سلوک کا تجربہ پیش آئے گا۔
مثلاً اگر آپ دو قوموں کے جھگڑے میںاپنی قوم کی ہر حال میں وکالت کریں اور دوسری قوم کو ہر حال میںبُرا بتائیں تو یقینی طورپر آپ کی قوم آپ کو اپنا ہیرو بنا لے گی۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی باتیں بتائیں جس میں ان کو اپنے فخر پسند مزاج کی غذا ملتی ہو تو کوئی آپ کو کیوں ستائے گا۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی کہانیاں سُنائیں جن میں انہیں سَستی قیمت پر جنت مل رہی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپ کو ستانے کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ لوگوں کے اقتصادی مطالبات، ان کی قومی شکایتیں، ان کے سیاسی موقف کو درست مان کر اگر آپ وہ بولی بولیں جس میں انہیں اپنا موقف درست نظر آتا ہو تو کوئی شخص بھی آپ کو ستانے والا نہیں ملے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں اختلاط سے مراد مُجرَّد اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اِس سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ وہ باتیں کہیں جو لوگوں کے مزاج کے خلاف ہو۔ جس میں ان کے موقف کو غلط ٹھہرایا گیا ہو۔ جس میں انہیں ان کی غلطیوں پر سرزنش کی گئی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں اختلاط سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ لوگوں کے غلط رویّے کی نشاندہی کرکے ان پَر تنقید کریں، جس میں آپ لوگوں سے ان کی روش میں تبدیلی کا مطالبہ کریں، آپ لوگوں سے ایسی باتیں کہیں جس میں لوگوں کو اپنا وجود غلط نظر آنے لگے۔
اِس دوسری صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی طرف سے آپ کو ایذا رسانی کا تجربہ ہوتا ہے۔ لوگ آپ کی تنقیدی باتوں پر بھڑک کر آپ کے مخالف بن جاتے ہیں۔ لوگ اپنے آپ کو جائز ٹھہرانے کے لیے آپ کی کردار کُشی کرنے لگتے ہیں۔ ایسا شخص لوگوں کے لیے ان کو برہنہ (expose) کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
لوگوں کی طرف سے ایذا رسانی کا یہ تجربہ خاص طور پر اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ آپ شریعت کے اُس حکم پر عمل کریں جس کو ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر‘‘کہاگیا ہے، یعنی لوگوںکو معروف کا حکم کرنا اور اُن کو منکر سے روکنا۔ اس عمل میں لازماً ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو لوگوں کا احتساب کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے اوپر تنقید کرنے کی صورتیں پیش آتی ہیں۔ لوگ جن برائیوں میں مبتلا ہیں اُن پر اُنہیں ٹوکنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر لوگ جہاد کے نام پر تشدد کررہے ہوں تو ان کی مذمت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اکابر کے نام پر اُنہوں نے غلط کو صحیح بنا رکھا ہو تو اُس کا تجزیہ کرکے بتانا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اگر وہ اپنے قومی مفاد کے لیے دین کا استحصال کررہے ہوں تو اُس کے خلاف کھل کر بولنا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اختلاط کی یہی وہ صورتیں ہیں جو اختلاط کو ایذا رسانی کے ہم معنٰی بنادیتی ہیں۔مزید یہ کہ داعی جب مَدعو قوم کے ساتھ دعوتی اختلاط کرتا ہے تو اُس وقت داعی کو مَدعو قوم کی بہت سی نارَوا چیزوں اور رسومات کو گوارا کرنا پڑتا ہے، جو اُس کے لیے اجنبی اور نادرست ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں داعی کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ مگر دعوتی کام کی یہ لازمی قیمت ہے۔ اِس کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دنیا کی حقیقت

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدنیا ملعونۃٌ، ملعونٌ ما فیہا إلاّ ذکر اللہ، وما والاہ، وعالماً ومتعلما (ابن ماجہ، کتاب الزّہد؛ الترمذی، کتاب الزہد) یعنی دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا کے اندر ہے، وہ سب ملعون ہے، سواذکراللہ کے اور وہ چیز جو اُس کے قریب ہو، اور عالم اور طالبِ علم۔
دنیا اور ذکر اللہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ یادِ الٰہی کے لیے دنیا کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا لینا، یہی وہ چیز ہے جس کو اِس حدیث میں ذکر اللہ کہاگیا ہے۔ اگر یہ یاد اللہ کے نام کے ساتھ ہو تووہ براہِ راست ذکر ہے۔ اور اگر نام کے بغیر اللہ کو یاد کیا جائے تو وہ بالواسطہ ذکر۔ اِسی طرح، وہ عالم اور وہ طالبِ علم خدا کے نزدیک مطلوب عالم اور طالبِ علم ہیں جو اپنے علم کو ذکر ِ الٰہی کا ذریعہ بنائیں۔
دنیا یا دنیا کی چیزوں کا خالق بھی اللہ ہے۔ اِس لیے دنیا فی نفسہ ملعون نہیں ہوسکتی۔ یہ دراصل دنیا کا استعمال ہے جو اس کو ملعون یا غیر ملعون بناتا ہے۔ جو شخص دنیا کو پاکر خدا کو بھول جائے، اس کے لیے دنیا ملعون کا درجہ رکھتی ہے۔ اور جس شخص کے لیے دنیا کو پانا یادِ الٰہی کا ذریعہ بن جائے، اُس کے لیے دنیا رحمت اور سعادت کی چیز ثابت ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا آزمائش (test) کے لیے بنائی گئی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں آزمائشی پرچے (test papers) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ پرچے اِس لیے ہیں، تاکہ ناکام ہونے والوں اور کامیاب ہونے والوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔
جس شخص نے دنیا کی چیزوں سے یادِ خداوندی کی غذا لی وہ اِس آزمائش میں کامیاب ہوا۔ اِس کے برعکس، جس آدمی کے لیے دنیا کی چیزیں خالق سے دوری اور فراموشی کا سبب بن گئیں، وہی وہ انسان ہے جو آزمائش میں ناکام ہوگیا۔ اِس طرح، دنیا بہ اعتبارِ استعمال، کسی کے لیے ذریعۂ لعنت ہے اور کسی کے لیے ذریعۂ رحمت۔
واپس اوپر جائیں

تحفہ کلچر

ایک بیرونی سفر میں میری ملاقات کویت کے ایک عرب پروفیسر سے ہوئی۔ ان کے ہوٹل کے کمرہ میں ہم دونوں نے نماز پڑھی۔ اس وقت وہ ایک رسٹ واچ پہنے ہوئے تھے۔ انھوںنے بیزاری کے ساتھ گھڑی کو اتارا اور اس کو میز پر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ گھڑی ٹھیک کام نہیں کرتی، وہ چلتے چلتے رک جاتی ہے۔ میںنے پوچھا تو انھوںنے بتایا کہ یہ تحفہ کی گھڑی ہے۔ میںنے مزید پوچھا تو انھوںنے کہا کہ ابھی حال میں کسی نے ان کویہ گھڑی تحفہ میں دی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کویت میں بھی تحفہ دینے والوں کا یہی مزاج ہے۔ انھوںنے کہا کہ تحفہ کے معاملے میں ہر جگہ کے لوگوں کا مزاج ایک ہی ہے، یعنی ایسی چیز دینا جو کار آمد ہونے سے زیادہ نمائشی ہو۔
تحفہ کے بارے میں یہ شکایت میں نے بہت سے لوگوں سے سنی ہے۔ میں ذاتی طورپر اس قسم کے تحفہ کو ایک گناہ کا فعل سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ ایسا تحفہ تبذیر (فضول خرچی) کے ہم معنی ہے۔ اور تبذیر کو قرآن میں ایک شیطانی عمل کہاگیا ہے (الاسراء27 )۔ اس قسم کے نمائشی تحفہ میں صرف مال ضائع ہوتا ہے، ایسا تحفہ کسی حقیقی ضرورت کو پورا نہیں کرتا۔
حدیث میں آیا ہے کہتہادوا تحابّوا (الأدب المفرد للبخاری، حدیث نمبر594 ) یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دو، اس سے آپس میں محبت بڑھے گی۔ اِس حدیث کے مطابق، صحیح ہدیہ وہ ہے جو آپس میں سچی محبت بڑھائے۔ جو ہدیہ محبت پیدا کرنے کے بجائے آپس میں کدورت پیدا کرے، جس سے ایک دوسرے کے بارے میں رائے خراب ہوجائے، ایسا ہدیہ بلاشبہہ ہدیہ کی ضد ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی ہدیہ۔
تحفہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک، نمائشی تحفہ اور دوسرے، حقیقی ضرورت کا تحفہ۔ عام طورپر لوگ نمائشی تحفہ دیتے ہیں۔ ایسے تحفہ میں پیسہ تو خرچ ہوجاتا ہے، لیکن وہ تحفہ کسی آدمی کے لیے کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی یا تو حقیقی تحفہ دے، یا وہ سرے سے کوئی تحفہ نہ دے۔ نمائشی تحفہ دینا ہر گز سنتِ رسول کی پیروی نہیں ہے۔ نمائشی تحفہ دینا صرف ایک جرم ہے، نہ کہ کوئی اچھا کام۔
واپس اوپر جائیں

سجدۂ قربت

قرآن کی سورہ نمبر 96 میں ارشاد ہوا ہے: واسجد واقترب(العلق19 ) یعنی سجدہ کرو اور قریب ہو جاؤ۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أقرب ما یکون العبد من ربّہ وہو ساجد، فأکثروا الدعاء(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ) یعنی بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ وہ سجدے میں ہوتا ہے، اِس لیے تم سجدے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو۔ قربتِ خداوندی کا یہ معاملہ صرف شکلِ سجدہ پر نہیں ہے، بلکہ روحِ سجدہ پر ہے۔ ایک واقعہ اِس معاملے کی وضاحت کرتا ہے۔
بنگلور کا واقعہ ہے۔ ایک ہندو نوجوان کی بعض عادتوں سے اُس کا باپ سخت ناراض ہوگیا۔ اُس نے اپنے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ ایک عرصے تک وہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ آخر کار، اس کی ملاقات ڈاکٹراحمد سلطان (وفات1999 ) سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا باپ تم کو دوبارہ قبول کرلے تو اس کی صرف ایک صورت ہے۔ تم خاموشی سے اپنے گھر جاؤ، اوروہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ جب دروازہ کھلے اور تمھارا باپ تمھارے سامنے آئے تو تم فوراً ہی باپ کے پیروں پر گر پڑو، اور کہو کہ باپ، مجھ سے غلطی ہوئی، مجھ کو معاف کردے۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا۔ جب لڑکا روتے ہوئے اپنے باپ کے پیروں پر گر پڑا تو باپ بھی رونے لگا۔ اس نے اپنے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگالیا اور اس کو معاف کرکے دوبارہ اپنے گھر میں داخل کرلیا۔
سجدہ بلاتشبیہہ اِسی قسم کی ایک حالت ہے۔ سجدہ کوئی رسمی فعل نہیں ۔ حقیقی سجدہ یہ ہے کہ ایک بندہ شدتِ احساس سے بے چین ہوجائے اور بے تابانہ طور پر وہ اپنا سر زمین پر رکھ دے۔ ایسا سجدہ گویا کہ اپنے رب کے قدموں میں سررکھنے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ ایسا سجدہ تسلیم ورضا کی آخری صورت ہے۔ جب کوئی بندہ اِس طرح اپنے آپ کو آخری حد تک خدا کے آگے سرینڈر(surrender) کردے تو خدا کی رحمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس کو معاف فرما کر اُسے اپنی رحمتوں کے سایے میں لے لے۔
واپس اوپر جائیں

انسان ایک استثنائی مخلوق

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ اِس کے مطابق، آپ نے فرمایا: خلق اللہ آدم علیٰ صورتہ (صحیح البخاری، کتاب الإستئذان؛ صحیح مسلم، کتاب البر، کتاب الجنۃ؛مسند احمد، جلد 2 ،صفحہ 244) یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسمانی شکل وصورت کے اعتبار سے، انسان خدا کے مانند ہے۔ یہاں ’’صورت‘‘ سے مراد صفات (attributes) ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو محدود طورپر وہ صفات عطا فرمائی ہیں جو اللہ کی ذات میں اپنے کمال درجے میںموجود ہیں۔
انسان پوری کائنات میں ایک استثنائی مخلوق ہے۔ انسان ایک زندہ وجود ہے۔ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کو ایک جامع شخصیت (personality) عطا ہوئی ہے۔ انسان سوچتا ہے، انسان دیکھتا ہے، انسان سنتا ہے، انسان منصوبہ بند عمل کرتا ہے، انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعہ چیزوں سے انجوائے کرسکتاہے۔ اِس قسم کی استثنائی خصوصیات ہیں جو پوری کائنات میں صرف انسان کا حصہ ہیں۔
انسان کو یہ استثنائی عطیات اِس لیے دیے گئے ہیں کہ وہ استثنائی عمل کا ثبوت دے۔ یہ استثنائی عمل خالق کی شعوری معرفت ہے۔ اِس طرح خداوند ِ ذوالجلال نے انسان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ معرفت کے درجے میں خدا کو دریافت کرے۔ وہ غیب کی حالت میں خدا کو دیکھے۔ وہ اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو خدا کے آگے بے اختیار کرلے۔ مجبوری کے بغیر وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے سرینڈر کردے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنا ذہنی ارتقا کرے، وہ ذاتی دریافت کے درجے میں سچائی کو پائے۔ وہ سجدۂ معرفت کی سطح پر خدا کے آگے جھک جائے۔ وہ پورے عالمِ فطرت کو اپنی روحانی غذا بنالے۔ وہ اپنی شخصیت کا ارتقا اِس طرح کرے کہ وہ خداوند ِ ذو الجلال کے پڑوس میں جگہ پانے کا مستحق بن جائے— جوآدمی اپنے اندر اِس قسم کی شخصیت (personality) نہ بناسکے، وہ صرف انسان نما حیوان ہے، اس کی کوئی قیمت خدا کے یہاں نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بعد کے زمانے کا فتنہ

حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیخرج قومٌ فی آخر الزّمان ، أحداث الأسنان، سُفہاء الأحلام، یقولون من خیر قول البَریَّۃ۔ یقرؤن القرآن، لایجاوز إیمانہم حناجرہم، یمرقون من الدین کما یمرق السہم من الرّمیۃ (صحیح البخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب قتل الخوارج)یعنی آخری زمانے میں کچھ لوگ نکلیں گے، کم عمر والے، کم عقل والے۔ بظاہر وہ اچھی باتیں کریں گے۔وہ قرآن کو پڑھیںگے، مگرایمان اُن کے حلق سے تجاوز نہ کرے گا۔ وہ دین سے اِس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جس طرح تیر شکار کے اوپر سے نکل جاتا ہے۔اِس حدیث میںایک چیز مابین السطور (between the lines) ہے۔ اس کو شامل کرنے کے بعد ہی یہ حدیث پوری طرح سمجھی جاسکتی ہے، وہ مابین السطور یہ ہے کہ آئندہ ایسے حالات پیدا ہوں گے جو لوگوں کو یہ موقع دیں گے وہ علم اور تجربہ کی کمی کے باوجود نمایاں ہوجائیںگے، وہ لوگوں کے درمیان بڑے بڑے درجے حاصل کرلیں گے۔
موجودہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی۔موجودہ زمانے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بعد کو پیدا ہونے والے حالات سے کیا مراد ہے۔ وہ ہے میڈیا، اسٹیج، آزادی، جمہوریت، دولت کی فراوانی، مظاہرہ کی سیاست ، مسلمانوں کی عظیم اکثریت، وغیرہ۔آج صاف نظر آتا ہے کہ اِن نئی چیزوں نے کس طرح لوگوں کو یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ بے صلاحیت ہونے کے باوجود خوش نما الفاظ بول کر لوگوں کے درمیان اونچا مقام پالیں ، جو داخلی اعتبار سے سطحی ہونے کے باوجود ظاہری نمائش کے ذریعے عوامی مقبولیت حاصل کرلیں، جو قرآن کی روح سے خالی ہونے کے باوجود محض اپنی خوش الحانی کے ذریعے شہرت حاصل کرلیں، جو خدا کے خوف اور آخرت سے غافل ہونے کے باوجود عوامی تقریریں کرکے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیں۔ یہ سب صنعتی دور میں پیدا ہونے والے نئے مواقع کی بناپر پیش آئے گا۔ افراد ہمیشہ حالات سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ حالات کے بغیر۔
واپس اوپر جائیں

ضرورت، یا خواہش پرستی

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ من السَّرَف أن تأکل کلَّ ما اشتہیت (ابن ماجۃ، کتاب الأطعمۃ) یعنی یہ اسراف ہے کہ تم ہر وہ چیز کھاؤ جس کے کھانے کو تمھارا دل چاہے۔ یہی بات حضرت عمر فاروق نے اِن الفاظ میں کہی: کفیٰ بالْمرء سرفاً أن یأکل کلَّ ما اشتہاہ(کنزل العمال، حدیث نمبر35919)۔ یعنی آدمی کے مُسرف ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر وہ چیز کھائے جس کے کھانے کو اس کا دل چاہے۔
سرف اور اسراف کے لفظی معنیٰ — فضول خرچی (waste) کے ہیں، یعنی اپنے مال کو ایسی چیزمیں خرچ کرنا جو آدمی کے لیے ضروری نہ ہو، وہ اس کی صرف ایک خواہش (desire) ہو، نہ کہ اس کی حقیقی ضرورت (need)۔
ہر آدمی دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے— ضرورت ، اور خواہش۔اپنے مال کو ضرورت کے بقدر خرچ کرنا، بلاشبہہ ایک جائز فعل ہے۔ لیکن خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنا، ایک ایسا فعل ہے جس کے لیے انسان کو آخرت کی عدالت میں جواب دینا پڑے گا۔
اِس معاملے میں مومنانہ طریقہ یہ ہے کہ جب بھی آدمی کے سامنے ایساکوئی تقاضا پیش آئے جس میں مال کو خرچ کرنا ہو، تو وہ سنجیدگی کے ساتھ سوچے کہ یہ تقاضا اس کی حقیقی ضرورت کے لیے ہے، یا صرف اس کی خواہش کی بنا پر۔ اگر وہ تقاضا اس کی حقیقی ضرورت کی بنا پر ہو، تو وہ اس میں اپنا مال خرچ کرے۔ لیکن اگر اس کو محسوس ہو کہ یہ اس کی ضرورت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اس کی خواہش کا معاملہ ہے، تو وہ فوراً اُس سے رک جائے اور ایسی کسی مد میں اپنا مال خرچ نہ کرے۔ اِس معاملے میں آدمی کو ہر دن اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ایک دن کے لیے بھی اُس نے اس جائزے میں کوتاہی کی، تو اس کے بعد وہ اسراف کے ڈھلوان (slope) پر جا پڑے گا اور پھر اس پر پھسلتا ہی چلا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس کی آخری حد پر پہنچ جائے۔ اس کے بعد درمیان میں رکنا، یا واپس لوٹنا ، اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

دولت پرستی کا فتنہ

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکلّ أمّۃ فتنۃ، وفتنۃ أمّتی المال (مسند احمد، جلد 4 ، صفحہ 160 ) یعنی ہر امت کا ایک فتنہ تھا، اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ مال تو ہر زمانے میں انسان کے لیے فتنہ بنا رہا ہے، پھر اس کو خاص طورپر امتِ محمدی کا فتنہ کیوں کہاگیا۔ یہ خصوصیت شدت کی بنا پر ہے۔ مال کی حیثیت بلاشبہہ ہر زمانے میں فتنے کی رہی ہے، لیکن پیغمبر اسلام کی امت کا زمانہ صنعتی دور (industrial age) تک وسیع تھا۔ اِسی مستقبل کے اعتبار سے آپ نے یہ انتباہ (warning) فرمایا۔
مال کی اہمیت خرید و فروخت کے سامان کے اعتبار سے ہے۔ جدید صنعتی دور سے پہلے خرید و فروخت کے آئٹم بہت کم ہوتے تھے، اِس لیے اُس زمانے میں مال کی اہمیت بھی نسبتاً کم تھی۔ لیکن جدید صنعتی دور کے بعد خرید وفروخت کے سامانوں (consumer goods)کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اِسی کے ساتھ سامانوں کی چمک دمک میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔ اِس صورتِ حال نے مال کو جدید صنعتی دور میں سب سے بڑا فتنہ بنادیا ۔
قدیم زمانے میں سادہ طورپر مال کی محبت کا مسئلہ تھا، لیکن موجودہ زمانے میں مال نے پرستش کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ اب انسان کی ساری زندگی دولت رُخی (money-oriented) بن گئی ہے۔ اب مال کی کشش نے لوگوں کا یہ حال کیا ہے کہ مال ہر ایک کے لیے اس کا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern) بناہوا ہے۔
ہر آدمی اپنے تمام وقت اور اپنی ساری توانائی کو زیادہ سے زیادہ مال کے حصول میں لگائے ہوئے ہے۔ اب مال نے عملاً ہر ایک کے لیے معبود کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مال کی محبت کے فتنے سے بچا سکے۔ وہ مال کو ثانوی درجے میں رکھے، اور دین کے تقاضوں کو اپنی زندگی میںاوّلین حیثیت دے۔
واپس اوپر جائیں

عجلت پسندی

قرآن کی سورہ نمبر 21 میں ارشاد ہوا ہے: خُلق الإنسان من عجل(الأنبیاء37 ) یعنی انسان پیدائشی طورپر عجلت پسند ہے۔ ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ: التأنّی من اللہ، والعجلۃ من الشیطان(التّرمذی، کتاب البرّوالصلۃ) یعنی بُردباری اللہ کی طرف سے ہے اور عجلت شیطان کی طرف سے۔انسانی فکر اور انسانی عمل دونوں کے لیے دو طریقے ہوتے ہیں— ایک ہے عجلت کا انداز، اور دوسرا ہے بردباری کا انداز:
To proceed hurriedly; to proceed unhurriedly
اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک صفت وہ رکھی گئی ہے جس کو حساسیت (sensitivity) کہاجاتا ہے۔ یہ حساسیت ایک استثنائی نوعیت کی قیمتی صفت ہے۔ لیکن ہر دوسری صفت کی طرح، اِس صفت کا بھی پلس پوائنٹ (plus point) اور مائنس پوائنٹ(minus point) ہے۔ اِس صفت کا پلس پوائنٹ مثال کے طورپر حیا ہے۔ اِسی طرح، عجلت اِس صفت کا ایک مائنس پوائنٹ ہے۔ یہ دراصل حساسیت ہے جس کی وجہ سے آدمی عجلت پسند بن جاتا ہے۔
حساسیت، خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر حساسیت نہ ہو تو آدمی حیوان کے مانند ہوجائے گا۔ بُرائی کو برائی سمجھنے کا مزاج اس کے اندر سے ختم ہوجائے گا۔ عجلت کا مزاج اِسی حساسیت کا ایک منفی نتیجہ ہے۔ آدمی کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے اور فوری طورپر ایک رائے بنا لیتا ہے، یا فوری طورپر وہ کوئی اقدام کردیتا ہے۔ فکر یا عمل میںاِس قسم کا عاجلانہ انداز اِسی حساسیت کا ایک غیر مطلوب اظہار ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے عجلت پسندی کے مزاج کو عقل کے تابع بنائے۔ وہ ایسا کرے کہ بولنے اور کرنے سے پہلے سوچے۔ وہ سوچنے کے بعد کوئی بات کہے اور سوچنے کے بعد کوئی عمل کرے۔ عجلت پسندی کو قابو میں رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے— عجلت پسندی کا مزاج تو ختم نہیں ہوسکتا، البتہ عقل کے تابع رکھ کر اس کو مفید بنایا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اولاد پرستی کا فتنہ

ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھودے (أذہب آخرتہ بدنیا غیرہ، ابن ماجہ، کتاب الفتن)۔ یہ حدیث موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ اُن لوگوں پر چسپاں (apply) ہوتی ہے جو صاحبِ اولاد ہیں۔ موجودہ زمانے میں صاحبِ اولاد لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کی اولاد اُس کا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern) بنی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں مصروف ہے، اور خود اپنی آخرت کی خاطر کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں۔
موجودہ زمانے میں ہر آدمی اِس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ اس کی اولاد اُس کے لیے صرف امتحان کا پرچہ (الأنفال28 ) ہے۔ اولاد اس کو اِس لیے نہیں ملی ہے کہ وہ بس اپنی اولاد کو خوش کرتا رہے، وہ اپنی اولاد کی دنیوی کامیابی کے لیے اپنی ساری توانائی لگادے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو بظاہر مذہبی وضع قطع بنائے رہتے ہیں اور رسمی معنوں میں صوم و صلاۃ کی پابندی بھی کرتے ہیں، لیکن عملاً وہ اپنا سارا وقت اور اپنی بہترین صلاحیت صرف دنیا کمانے میں لگائے رہتے ہیں، صرف اِس لیے کہ جب وہ مریں تو اپنی اولاد کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ سامانِ دنیا چھوڑ کر جائیں۔
مگر ایسے لوگ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ خدا کو دینے کے لیے اُن کے پاس صرف کچھ ظاہری رسوم ہیں اور جہاں تک حقیقی زندگی کا تعلق ہے، اس کو انھوں نے صرف اپنی اولاد کے لیے وقف کررکھا ہے۔ یہ خدا پرستی نہیں ہے، بلکہ وہ حدیث کے الفاظ میں اولاد پرستی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد پرستی کا طریقہ کسی کو خدا پرستی کا کریڈٹ نہیں دے سکتا۔ خدا پرستی، زندگی کا ضمیمہ (appendix) نہیں، حقیقی خدا پرستی وہ ہے جو انسان کی پوری زندگی کا اِحاطہ کیے ہوئے ہو۔
واپس اوپر جائیں

رعایت ایک سنتِ رسول

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یَسِّروا ولا تعسِّرُوا، وبشِّروا ولاتُنَفِّرُوا (صحیح البخاری، کتاب العلم) یعنی تم لوگوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرو،تم لوگوں کے ساتھ سختی کا معاملہ نہ کرو۔ تم لوگوں کو خوش خبری دو، تم لوگوں کو متنفر نہ کرو۔
اِس حدیثِ رسول میں دراصل انسانی رعایت کی تعلیم دی گئی ہے۔ حدیثوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ انسان کے ساتھ آخری حد تک رعایت کا معاملہ کیا جائے۔قول یا عمل ، کسی میں بھی شدت کا انداز اختیار نہ کیا جائے۔اِس رعایت کا مطلب لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاح کے عمل کے لیے صحیح نقطۂ آغاز (starting point)اختیار کیا جائے۔ اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اعمال کے ظاہری پہلوؤں کے بارے میں رعایت کا معاملہ کیا جائے اور زیادہ زور اور تاکید اعمال کے داخلی پہلوؤں پر دیا جائے۔ کیوںکہ ظواہر کی اصلاح سے داخلی اصلاح نہیںہوتی، بلکہ اِس کے برعکس، داخلی اصلاح سے ظواہر کی اصلاح ہوتی ہے۔
رعایت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو دین پر عمل کرنا، زیادہ مشکل نہیںمعلوم ہوتا ۔ وہ متوحش ہوئے بغیر دینی اعمال کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے آدمی کے داخل کی اصلاح ہوتی ہے، پھر دھیرے دھیرے اس کے ظواہر بھی دین کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ رعایت دراصل حکیمانہ طریقِ کار کا دوسرا نام ہے، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ حقیقی اصلاح ہمیشہ حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ غیر حکیمانہ طریقِ کار کے ذریعے۔مُصلح کا طریقہ ہمیشہ رعایت کا ہونا چاہیے۔ مصلح کا سارا زور اِس پر ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے اندر جذبۂ عمل پیدا کرے۔ عمل کا جذبہ پیدا ہوتے ہی آدمی وہ کام خود کرنے لگتا ہے جس کو شدت پسند مصلح ناکام طورپر انجام دینا چاہتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سنّت کیا ہے

حضرت انس بن مالک کی ایک روایت الدارمی میں اِن الفاظ میں آئی ہے: إذا وُضع الطّعام فاخلعوا نِعالکم، فإنہ أروح لأقدامکم (سُنن الدَّارمی، کتاب الأطعمۃ؛ مشکاۃ المصابیح، حدیث نمبر4240 )۔ یعنی جب کھانا رکھا جائے تو تم اپنے جوتے اتار دو، کیوں کہ ایسا کرنے میں تمھارے پاؤں کے لیے راحت ہے۔
اِس حدیث میں کھانے کے وقت جوتا اتارنے کی مصلحت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ تمھارے لیے زیادہ پُر راحت طریقہ ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کھانے کے وقت جوتا اتارنا، کوئی مطلق نوعیت کی سنت نہیں، اس کا مقصد صرف راحت ہے۔ یہی معاملہ اُن تمام ’’سنتوں‘‘ کا ہے جن میں آدابِ حیات کو بتایا گیا ہے۔ آدابِ حیات کے بارے میں کوئی طریقہ مطلق طورپر اچھا، یا بُرا نہیں ہوتا، بلکہ اُس کا تعلق تمام تر راحت سے ہوتا ہے۔ جس وقت جس طریقے میں انسان کے لیے راحت ہو، وہی طریقہ سنت کا طریقہ قرار پائے گا۔مثال کے طورپر آپ کو کار میں بیٹھنا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، کار میں دائیں اور بائیں دونوں طرف دروازے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کار میں اُس کے دائیں طرف کے دروازے سے بیٹھ رہے ہوں، تو سہولت یہ ہوگی کہ آپ پہلے اپنا بایاں پاؤں کار میں داخل کریں۔ اِسی طرح اگر آپ کار کے بائیں دروازے سے اس میں بیٹھ رہے ہوں، تو آپ کے لیے سہولت یہ ہوگی کہ آپ پہلے اپنا دایاں پاؤں کار میں داخل کریں۔ اس کے برعکس طریقہ اختیار کرنا، آپ کے لیے غیر ضروری مشقت کا باعث ہوگا۔ ٹھیک یہی معاملہ کار سے اترنے کا بھی ہے۔
ایسی حالت میں اگر کوئی شخص کار میں بیٹھنے کی سنت یہ بتائے کہ اُس میں داخل ہوتے ہوئے ہرحال میں اپنا دایاں پاؤں کارکے اندر داخل کرو، اور اترتـے ہوئے ہر حال میں اپنا بایاں پاؤں اس کے اندر سے نکالو، تو ایسا کرنا راحت کے بجائے زحمت کا باعث بن جائے گا۔ جب کہ آدابِ زندگی کے بارے میں سنت ہمیشہ راحت پر مبنی ہوتی ہے، نہ کہ غیرضروری مشقت پر۔
واپس اوپر جائیں