Pages

Sunday 31 December 2017

Al Risala | January 2017 (الرسالہ،جنوری)


پیغمبرانہ حکمت

Prophetic Wisdom
قرآن میں پانچ مقامات پر آیا ہے کہ پیغمبر کا کام لوگوں کو حکمت کی تعلیم دینا ہے۔ حکمت کے لیے انگریزی زبان میں وزڈم (wisdom)کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ڈکشنری میں تلاش کیا جائے کہ وزڈم متعین طور پر کیا ہےتو ڈکشنری میں اس کی کوئی واضح تعریف (definition) نہیں ملے گی۔ مثلا ڈکشنری یہ بتائے گی کہ وزڈم کامطلب ہے اچھا فیصلہ لینے کی صلاحیت :
The quality of having good judgement
مگر خودکسی آدمی کے اندر اچھا فیصلہ لینے کی یہ صلاحیت کیسے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا کوئی واضح جواب ڈکشنری میں نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ بعض اسکالر نے یہ کہہ دیا کہ وزڈم ان صلاحیتوں میں سے ایک ہے جن کی علمی تعریف کرنا مشکل ہے:
Wisdom is one of those qualities difficult to define (www.psychologytoday.com/basics/wisdom)
حکمت اگرچہ پیغمبر اسلام کی صفت ہے، لیکن راقم الحروف نے حدیث میں حکمت کی قولی تعریف تلاش کی تو مجھے کامیابی نہیں ملی۔ پھر میں نے ایک اور طریقہ اختیارکیا۔میں نے سوچا کہ جب پیغمبر اسلام ایک با حکمت انسان تھے تو ان کے عمل (practice) میں ضرور اس کی مثال ملے گی۔ یہ طریقہ کامیاب رہا۔ مجھے پیغمبر کے عملی اسوہ (نمونہ) سےمتعین طور پر یہ دریافت ہوئی کہ وزڈم کی علمی تعریف کیا ہے۔ میری دریافت کے مطابق وہ علمی تعریف یہ ہے — وزڈم اِس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی غیر متعلق پہلووں کو الگ کرکے متعلق پہلو کو دریافت کرسکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
پیغمبر اسلام کی زندگی اس اعتبار سے وزڈم کا کامل نمونہ ہے۔ آپ نے اپنی 23سالہ پیغمبرانہ حیات میں اسی وزڈم کو استعمال کیا، اور یہی وزڈم آپ کی اعلیٰ کامیابی کا خاص سبب تھا۔
پیغمبر اسلام پیغمبرِ فضلیت نہ تھے، بلکہ پیغمبرِ وزڈم تھے۔ پیغمبرِ فضیلت دوسروں کے لیے قابل تقلید نہیںہوتا، لیکن پیغمبرِ وزڈم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ آپ کا نمونہ ہر انسان کے لیے قابل فخر بننے کے بجائےقابل تقلید بن گیا۔
مستقبل پر نظر
پیغمبر اسلام پر پہلی وحی 610 عیسوی میں آئی ہے۔ اس وقت آپ مکہ سے 2 میل کے فاصلے پر تنہاغار حراء میں تھے۔ اس وقت اللہ کی طرف سے فرشتہ جبریل آپ کے پاس آیا۔ فرشتہ نے پیغمبر اسلام سے کہا : اقرأ (اے محمد پڑھو)، آپ نے اس کے جواب میں کہا:ما أنا بقارئ (میں پڑھنا نہیں جانتا)،اس کے بعد جبریل نے آپ کو پکڑا ، اورزور سے اپنے سینے سے لگایا۔ جبریل نے دوبارہ پڑھنے کے لیے کہا ، پیغمبر اسلام نے دوبارہ وہی جواب دیا۔ یہ عمل تین بار ہوا۔اس کے بعدجبریل نے آپ کو سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں پڑھائیں، اور آپ نے جبریل کے بولےہوئے کلام کو دہرایا۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3)
اس واقعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ نبوت کے اس پہلے تجربے میں آپ کو ایک عظیم سبق دیا گیا۔ وہ یہ کہ اپنے سفر میں حال کو نہ دیکھو، بلکہ مستقبل کو دیکھو، اپنے بالفعل (actual) کو نہ دیکھوبلکہ اپنے بالقوۃ (potential) کو دیکھو،زندگی میں یہ نہ دیکھو کہ کیا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا ہوسکتا ہے، زندگی میں کبھی یہ نہ سمجھو کہ فل اسٹاپ(۔) آگیا بلکہ ہمیشہ یہ یقین رکھو کہ زندگی میں کبھی کاما(،) ختم نہیں ہوگا، زندگی میں کبھی مایوس نہ ہو بلکہ ہمیشہ اپنے آپ کو پر امید بنائے رہو— پیغمبر اسلا م کی زندگی کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو اقرأ کا یہ پہلا تجربہ آپ کی پوری زندگی میں کار فرما دکھائی دے گا۔
ہر مذہب کا احترام
پیغمبر اسلام جب چالیس سال کے ہوئے تو آپ پر پہلی وحی اتری۔ یہ تجربہ آپ کے لیے نہایت شدید تھا۔ اس سلسلے میں جو واقعات روایت کی کتابوں میں آئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدیجہ نے آپ سے کہا کہ چلیے میں آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے چلتی ہوں۔ دیکھیے وہ کیا کہتے ہیں۔ ورقہ بن نوفل مکہ کے باشندے تھے۔ ان کی عمر نوےسال ہوچکی تھی۔ وہ مکہ کے ان لوگوں میں سے تھے، جن کو حنفاء کہا جاتاتھا۔ انھوںنے عبرانی زبان سیکھی تھی، اور تورات و انجیل کا مطالعہ کیا تھا۔ چناں چہ وہ نصرانی ہوگئے تھے۔ ورقہ نے جب آپ کی بات سنی تو انھوں نے کہا:یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر نازل کیا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں ! جو چیز تم لے کر آئے ہو، اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3)۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے دین میں مذہبی منافرت (religious hatred) کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ آپ کے لایا ہوا دین ہر مذہب کے لوگوں کے لیے یکساں خیر خواہی پر مبنی تھا۔ مزید یہ کہ یہ واقعہ صرف اخلاقی واقعہ نہیں، وہ اعلیٰ درجے کی دانش مندی ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام کے مشن میں میوچول لرننگ (mutual learning)کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس ملاقات سے آپ کی پریشانی ختم ہوگئی، ورقہ بن نوفل کی باتوں سے آپ کو اپنے مشن کے بارے میں ایک نیا یقین حاصل ہوا۔ بعض سیرت نگاروں کے نزدیک ورقہ بن نوفل پہلے شخص تھے، جو آپ کے اوپر ایمان لے آئے۔
توحید کا مشن، بتوں سے اعراض
پیغمبر اسلام کا مشن توحید کا مشن تھا۔ اس معاملے میں مقدس کعبہ کی تطہیر اپنے آپ شامل تھی، جس کی عمارت میں اس زمانہ کے مشرک لوگوں نے تقریبا 360بت رکھ دیے تھے۔ مگر یہ بے حد اہم بات ہے کہ پیغمبر اسلام نے جب قدیم مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا تو آپ نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنا مشن چلایا۔
آپ نے یہ پالیسی اختیار کی کہ بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس جو زائرین (visitors) جمع ہوتے تھے، ان کو بطور آڈینس (audience) استعمال کریں۔ چناں چہ آپ نے یہی کیا کہ روزانہ آپ کعبہ کے مقام کو جاتے ، اور وہاں بتوں کے مسئلے سے اعراض کرتے ہوئےموجود حاضرین کو پرامن طور پر توحید کا پیغام سناتے، جو کہ روزانہ سارے عرب سے وہاں اپنے بتوں کی زیارت کے لیےآیا کرتے تھے۔ یہی طریقہ آپ کا مکہ کے قیام کے آخر زمانے تک جاری رہا۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل اس بات کا ایک نمونہ ہے کہ آپ نے اس معاملے میں وزڈم کے مذکورہ اصول کو استعمال کیا۔ آپ کا مشن دعوت کا مشن تھا۔ اس لحاظ سےکعبہ میں بتوں کی موجودگی عملی اعتبار سے ایک غیر متعلق ایشو تھا، اس کے مقابلے میں قبائل کے زائرین کا اجتماع ایک متعلق پہلو کی حیثیت رکھتا تھا۔ چناں چہ آپ نے غیر متعلق پہلو کو وقتی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اس کے متعلق پہلو کو پرامن طور پر استعمال کیا۔
اگلی نسل تک سے امید رکھنا
پیغمبر اسلام کی ایک گفتگو اپنی اہلیہ عائشہ کے ساتھ ان الفاظ میں آئی ہے: حضرت عائشہ سے روایت ہے،انہوں نے پیغمبر اسلام سے کہا کہ کیا یوم احد سے بھی سخت دن آپ پر آیا ہے، آپ نے کہا کہ میں نے تمہاری قوم کی جو جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ اٹھائی ہیں، اور سب سے زیادہ تکلیف جو میں نے اٹھائی وہ عقبہ کے دن (طائف کے سفر میں)تھی جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبدکلال کے سامنے پیش کیا تو اس نے میرے ساتھ وہ نہیں کیا جو میں نے چاہا، میں رنجیدہ ہو کر سیدھا چلا، ابھی میں ہوش میں نہ آیا تھا کہ قرن الثعالب میں پہنچ کر میں نے اپنا سر اٹھایا تو بادل کے ایک ٹکڑے کو اپنے اوپر سایہ فگن پایا، میں نے دیکھا کہ اس میں جبریل تھے ،انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کی قوم کی گفتگو اور ان کا جواب سن لیا ہے، اب پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ایسے منکروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا کہ اے محمد ، یہ سب کچھ آپ کی مرضی ہے، اگر آپ چاہیں تو میں اخشبین نامی دو پہاڑوں کو ان منکروں پر لا کر رکھ دوں تو پیغمبر اسلام نے فرمایا (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان منکروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کریں گے۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3231)
اس کا مطلب یہ تھا کہ پیغمبر اسلام کا مشن انسان کی خیرخواہی کا مشن تھا۔ انسان کے ساتھ آپ کی خیرخواہی اتنی زیادہ بڑھی ہوئی تھی کہ اگر پہلی نسل آپ کے پیغام کو نہ سنے تو آپ اس کے لیے تیار تھے کہ ان کی اگلی نسلیں ان سے مختلف ثابت ہوں گی، اور آپ کے پیغام کو قبول کریں گی، اور آپ کے مشن میں آپ کی ساتھی بن جائیں گی۔
حالات سے اوپر اٹھ کر سوچنا
مکی دور میں پیغمبر اسلام کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا تھا، جو سلوک دوسرے پیغمبروں کے ساتھ کیا گیا، یعنی استہزا (الحجر 11:)۔ مگر پیغمبر اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہمیشہ منفی واقعات کا جواب مثبت انداز میں دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک روایت حدیث کی کتابوں میں اس طرح آئی ہے، پیغمبر اسلام نے کہا :ألا تعجبون کیف یصرف اللہ عنی شتم قریش ولعنہم، یشتمون مذمما، ویلعنون مذمما وأنا محمد(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3533)۔ یعنی کیا تم کو یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ مجھ سے قریش کے سب وشتم اور لعنت کو کس طرح دور کررہا ہے ۔ مجھے وہ مذمم کہہ کر شتم کرتے ہیں، مذمم کہہ کر وہ مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں۔ حالانکہ میں تو محمد ہوں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے لوگ اپنی بڑھی ہوئی مخالفت کی بنا پر اس کو پسند نہیں کرتے کہ وہ میرا اصل نام بولیں ، اور میرے خلاف جو کہنا چاہتے ہیں، وہ میرانام لے کرکہیں۔ انھوں نے مخالفت کے جوش میں بطور خود میرا نام محمدکے بجائے مذمم رکھ دیا، اور وہ مذمم کا نام بول کر میرا سب و شتم کرتے ہیں۔ یعنی وہ سب و شتم تو کرتے ہیں، لیکن جس شخص کی وہ سب و شتم کرتے ہیں، اس کا نام انھوں نے بطور خود مذمم رکھ دیا ہے۔ اس طرح ان کے اپنے کہنے کے مطابق ان کی بات کسی ایسے شخص پر پڑتی ہے جس کا نام مذمم ہو، وہ شخص جس کا نام محمد ہے اس پر ان کی بات پڑتی ہی نہیں۔
یہ اعلیٰ سوچ کی ایک انوکھی مثال ہے۔ پیغمبر اسلام چوں کہ مکمل طور پر مثبت سوچ پر قائم تھے۔ اس لیے انھوں نے ایک لطیف اسلوب میں قریش کے سب و شتم کو بے حقیقت کردیا۔ انھوں نے کہا کہ جب وہ میرا اصل نام لے کر مجھے کچھ نہیں کہتے تو وہ خود ہی اپنے سب و شتم کو کسی اور کے اوپر ڈال رہےہیں۔ یعنی کسی مفروضہ مذمم پر، نہ کہ اس شخص پر جس کا نام اس کے ماں باپ نے محمد رکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسوۂ محمدی میں سب و شتم پر مشتعل ہونا نہیں ہے، اور نہ شاتم کو قتل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ بلکہ اس سے لطیف پیرائے میں اعراض کرنا ہے۔ یہ بلند اخلاقی کا معاملہ ہے، نہ کہ قانونی سزا کا معاملہ۔
مشن کی نئی پلاننگ
پیغمبر اسلام نے اپنا مشن قدیم مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت قدیم مکہ شرک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس لیے وہاں آپ کی شدید مخالفت ہوئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے آپ کو الٹی میٹم دے دیا کہ آپ مکہ کو چھوڑ دیں، ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ ان حالات میں آپ نے مکہ کو چھوڑدیا، اور خاموشی کے ساتھ مدینہ آکر وہاں رہائش اختیارکرلی۔ ہجرت سے کچھ پہلے آپ نےاپنے اصحاب سے کہا تھا: أمرت بقریة تأکل القرى، یقولون یثرب، وہی المدینة (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871) ۔عام رواج کے مطابق کوئی شخص آسانی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتا، بلکہ اس فیصلہ کو بدلوانے کی ہر کوشش شروع کردیتا ہے۔ مگر پیغمبر اسلام نےقدیم مکہ کے سرداروں کے اس فیصلہ کو قبول کرلیا، اور خاموشی سے مدینہ آکر آباد ہوگئے۔
اپنےنتیجے کے اعتبار سے دیکھیے تو یہ ایک نہایت حکیمانہ عمل تھا— یعنی اگر پہلا منصوبہ ورک نہ کرے تو لو پروفائل (low profile) کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ اپنے عمل کا دوسرا منصوبہ بنانا۔ آپ نے ایسا ہی کیا، اور آپ نے پر امن طور پر مدینہ آکر یہاں از سر نو اپنے مشن کا منصوبہ بنایا۔ آپ کا یہ طریقہ اتنا کامیاب ہوا کہ صرف دس سال کے اندر پہلے مکہ اور پھر سارا عرب آپ کے دائرے میں آگیا۔
ایسے حالات میں عام طور پر لوگ جوابی ذہن کے تحت سوچتے ہیں، اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پیغمبر اسلام نے ٹکراؤ کے بجائے ری پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا، اور تجربہ بتاتا ہے کہ آپ کا منصوبہ مکمل طور پر کامیاب رہا۔
ہر حال میں مثبت طرز فکر
پیغمبر اسلام نے قدیم مکہ میں اپنا مشن 610 عیسوی میں شروع کیا۔ اس وقت مکہ میں قبائلی کلچر (tribal culture) شدت کے ساتھ موجود تھا۔ وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ ہر قسم کا برا سلوک کیا۔ یہاں تک کہ تیرہ سال بعد آپ نے مجبور ہوکر اپنے وطن کو چھوڑ دیا، اور مکہ سے تقریبا 500 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود مدینہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مقیم ہوگئے۔
یہ شدید ترین معنوں میں جلاوطنی کا کیس تھا۔ عام رواج یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے نئے وطن میں جاکر صرف ایک کام کرتے ہیں، اور وہ اپنے سابق ہم وطنوں کی برائیاں بیان کرنا۔ لیکن پیغمبر اسلام نے اس سے الگ ایک انتہائی طور پر مختلف طریقہ اختیار کیا۔ وہ یہ کہ آپ مدینہ جاکر اس طرح رہنے لگے، جیسے کہ مکہ میں آپ کے ساتھ کچھ بھی نہ ہوا ہو۔
سیرت ابن ہشام میں ہجرت کے بعد کےواقعات کا ذکر ہے۔اس کے تحت پیغمبر اسلام کے پہلے خطبہ کا ذکر ہے۔ اس باب کا پہلا پیراگراف ان الفاظ میں آیا ہے :أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَہَا رَسُولُ اللَّہ ۔ یعنی پہلا خطبہ جو آپ نے مدینہ میں دیا۔
اس خطبہ کو جو پڑھے وہ حیرت انگیز طور پر پائے گا کہ اس خطبہ میں ان لوگوں کے خلاف کوئی شکایت کی بات نہیں ہے،جنھوں نے آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا تھا۔عام رواج یہ ہے کہ ایسے موقع پر جلاوطن افراد اپنے نئے وطنی لوگوں کو ابھارتے ہیں تاکہ وہ ان کےساتھ اپنے قدیم ہم وطنوں کے خلاف جوابی کارروائی کریں۔ مگر پیغمبر اسلام نے اس قسم کی کوئی بات اشارے کی زبان میں بھی نہیں کی۔ اس خطبہ کا خلاصہ یہ تھا: فمن استطاع أن یقی وجہہ من النار ولو بشق من تمرة فلیفعل، ومن لم یجد فبکلمة طیبة (سیرت ابن ہشام، 1/500-1) ۔
خطبہ کے مذکورہ الفاظ پر غور کیجیے۔ اس کا خلاصہ دوسرے لفظوں میں یہ ہے —— دوسرے لوگ آپ کو’’آگ‘‘ میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن آپ کا دل ان کی ہمدردی سے بھرا ہوا ہو۔ آپ ان کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچاؤ۔ یہ ہے پیغمبرانہ حکمت۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے دشمن بنیں، آپ ان کے خیر خواہ بن جائیں۔ جو لوگ آپ پر ظلم کریں، آپ اللہ سے ان کے لیے اچھے اجر کے طالب بن جائیں۔ جو لوگ آپ کو نہ دیں، آپ ان کے لیے دینے والے (giver) بن جائیں، اور ا ن کے لیے داعی بن کر ان کے ساتھ مدعو فرینڈلی روش اختیار کریں۔ پیغمبر اسلام کی یہ روش صرف ایک اخلاقی روش نہیں ہے، بلکہ وہ اعلیٰ درجے کی دانش مندی کا معاملہ ہے۔
ٹکراؤ سے کامل پرہیز
پیغمبر اسلام جب مدینہ آئے تو وہاں دوسرے قبائل کے ساتھ یہود کے قبائل بھی آباد تھے۔ اس وقت مدینہ کی آبادی میں یہود تقریباً نصف حصہ تھے۔ وہ مدینہ کی معاشیات میں غالب حیثیت رکھتے تھے۔ ایسی حالت میں یہود سے ٹکراؤ کا طریقہ آپ کے مشن کی راہ میں مستقل مسئلہ بن سکتا تھا۔
اس معاملے کے حل کے لیے آپ نے وہ اصول اختیار کیا جس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبہ60:) کہا گیا ہے۔ یعنی یہود کے ساتھ فرینڈلی بیہیویر(friendly behaviour) کا طریقہ۔ اس مقصد کے لیے آپ آخری حد تک گئے۔ جیسا کہ معلوم ہے یہود کے لیے عباد ت کا ایک قبلہ تھا، اور وہ قبلہ بیت المقدس تھا۔ پیغمبر اسلام جب مکہ میں تھے تو آپ کا قبلہ کعبہ تھا، مگر مدینہ پہنچے تو آپ نے بیت المقدس کو اپنے اور اپنے اصحاب کی عبادت کا قبلہ بنا لیا۔ ایسا آپ نے یہود کی تالیف قلب کے لیے کیا۔ جیسا کہ قرآن کی سورہ البقرۃ کی آیت 143 کے تحت مختلف مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ یہود کی تالیف قلب کے لیے تھا، مثلا تفسیر الرازی (4/89)، و تفسیر النسفی(1/138)، وغیرہ۔ تالیف قلب کا مطلب ہے دل کو نرم کرنا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مدینہ کے یہود سےقریبی تعلق جوڑتے ہوئے اپنا کام کرنا۔
یہ صرف یہود کا معاملہ نہیں۔ آپ نے اپنے مشن میں کبھی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ آپ نے ہمیشہ یہ کیا کہ اپنےپڑوسی سے معتدل تعلقات رکھتے ہوئے اپنے مشن کا کام کرنا۔ آپ کا یہ طریقہ صرف عرب کے مشرکین کے ساتھ نہیں تھا، بلکہ عرب کی سرحد سے باہر بھی جو لوگ آباد تھے، ان کے ساتھ بھی آپ نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ یعنی پڑوسی قبائل اور پڑوسی ملکوں کو وفود بھیجنا۔ وفود بھیجنا، آج کل کی اصطلاح میں گڈویل مشن (goodwill mission) کی حیثیت رکھتا ہے۔
پرامن تعلقات
پیغمبر اسلام جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے ۔ اس وقت مدینہ میں اسلام کافی پھیل چکا تھا۔ اس وقت آپ اپنے رفیق ابوبکر صدیق کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے تھے۔ چناں چہ مدینہ والوں نے آپ دونوں کا استقبال یہ کہہ کر کیا کہ آمنین مطاعین (مسند احمد، حدیث نمبر12234) ۔ یعنی آپ دونوں یہاں مامون ہیں، اور ہمارے سردار ہیں۔ مگر پیغمبر اسلام نے مدینہ میں اپنی حکومت نہیں قائم کی، بلکہ آپ نے ایک صحیفہ (Madinah Declaration) جاری کیا، جس میں یہ درج تھا کہ للیہود دینہم، و للمسلمین دینہم(سیرۃ ابن ہشام1/503)۔ یعنی یہود کے لیے یہود کا دین ہے، اور مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین۔ آج کل کی زبان میں اس کو پرامن بقائے باہم (peaceful co-existence) کہا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی پالیسی ہر صورت حال میں امن پسندی کی پالیسی ہوتی تھی۔ آپ نے کبھی اس کے خلاف عمل نہیں کیا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ پر امن بقائے باہم انسانی تعلقات میں سب سے بہتر اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اصول کو اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر فریق کو مساوی طور پر آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ ہر فریق کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ پر امن دائرے میں اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ غیر ضروری ٹکراؤ سے بچتے ہوئے ہر ایک اپنا سفر حیات طے کرے۔
مخالف پہلو کو موافق پہلو بنانا
پیغمبر اسلام کی نبوت کے تیرہ سال بعد ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔ یعنی پیغمبر اسلام نے اپنا وطن مکہ چھوڑ دیا، اور مکہ سے تقریبا 500 کلو میٹر دور مدینہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ آکر آباد ہوگئے۔ آپ کی ہجرت مزید ٹکراؤ کے لیے نہیں تھی۔ مگر قدیم مکہ کے قریش خاموش نہیںہوئے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ یک طرفہ طور پر آپ کے خلاف اقدام کرکے آپ کے مشن کا کلی طور پر خاتمہ کردیں ۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مکہ کے تمام قبائل کی مدد سے ایک بڑامنصوبہ بنایا، تاکہ وہ پیغمبر اسلام کے مشن کوجڑ سے ختم کرسکیں۔ پھر ایک ہزار مسلح افرادکے ساتھ مکہ سے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔
اس کے بعدراستہ میں بدر کے مقام پر 2ہجری میں دونوں فریقین کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی۔ اس وقت اہل ایمان کو کامیابی حاصل ہوئی، اور ان کے ہاتھ تقریباً 70 مشرکین قید ہوگئے۔ ان کی رہائی کایہ فدیہ مقرر کیا گیا کہ وہ مدینہ کے بچوں کو لکھنا سکھادیں (فداءہم أن یعلموا أولاد الأنصار الکتابة) مسند احمد، حدیث نمبر2216 ۔
بدرمیں قیدکیے ہوئے مکہ کے یہ لوگ جنگی اصطلاح میں جنگی قیدی (prisoners of war) تھے۔ اس زمانے کےعام رواج کے مطابق پیغمبر اسلام یہ کرسکتے تھے کہ ان کو قتل کروادیتے۔ لیکن آپ نے انتقام سے اوپر اٹھ کر سوچا۔ اس طرح آپ کے لیے ممکن ہوا کہ یہاں اپنے ایک مائنس (minus)کو پلس (plus)میں بدل دیں۔ جو لوگ بظاہر آپ کے دشمن تھے، ان کو اپنے معاون کے طور پر استعمال کیا۔ یعنی دشمن کو اپنے بچوں کے لیے ٹیچر کے طور پر استعمال کیا۔ آپ کی اس پالیسی کے تحت مدینہ میں پہلا اسکول قائم ہوا، جس کے ٹیچر سب کے سب آپ کے دشمن گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔
راستہ بدلنا
اسی طرح کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں کےساتھ سفر میں تھے۔ آپ کو یہ خبر ملی کہ راستے میں دوسری طرف سے مکہ کے خالد بن الولید آپ سے مقابلہ کرنے کے ارادے سے ایک مسلح دستہ لے کر آرہے ہیں۔ اس وقت آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میں سے کون ہےجو مجھے خالد کے راستے کے سوا کوئی اور راستے سے لے جائے(من رجل یخرج بنا على طریق غیر طریقہم التی ہم بہا)۔سیرت ابن ہشام، 2/309۔ ایک آدمی نے کہا کہ میں۔ چناں چہ آپ نے اس وقت اپنے سفر کا راستہ بدل دیا۔ اس کی وجہ سے آپ کے ساتھیوں اور خالد کے ساتھیوں میں مڈبھیڑ نہیں ہوئی۔
یہ اسی پیغمبرانہ حکمت کی ایک مثال ہے۔ عام طریقے کے مطابق آپ کو یہ کرنا چاہیے تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر اسی راستے پر آگے بڑھیں، اور خالد سے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کریں۔ مگر آپ نے اس معاملے میں ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا، اور اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ اس طریقہ کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم(practical wisdom) کہہ سکتے ہیں۔ آپ کی زندگی کے واقعات کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیشہ ایسا کیا کہ آپ نے آئڈیل وزڈم کو چھوڑا، اور پریکٹکل وزڈم کو اختیارکیا۔ آپ کو اپنے مشن میں جو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی، اس کا سبب یقینی طور پر یہی پریکٹکل وزڈم ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ آئڈیل وزڈم نتیجہ کی اعتبار سے بے فائدہ ٹکراؤ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، پریکٹکل وزڈم غیر ضروری نقصان سے بچا کر کامیابی کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔
پیغمبر اسلام کا طریقہ آپ کی پوری زندگی میں اسی وزڈم کے مطابق تھا۔ آپ ہمیشہ ہر معاملے میں پریکٹکل وزڈم پر چلے، اور یہی آپ کی اعلیٰ کامیابی کا راز تھا۔
انجام کو دیکھنا
پیغمبر اسلام کا یہی حکیمانہ طریقہ آپ کے پورے تیرہ سالہ مکی دور میں جاری رہا۔ اس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ آپ کی نبوت کے انیسویں سال طویل گفت و شنید کے بعد قدیم مکہ کے لیڈروں کے ساتھ یہ طے ہوا کہ دونوں فریقوں کے درمیان دس سال کے لیے امن کا معاہدہ (treaty of peace) ہوجائے۔ حدیبیہ کے مقام پر یہ گفت و شنید ہورہی تھی۔ جب معاہدہ لکھنے کا وقت آیا تو آپ نے اس معاہدہ کے آغاز میں لکھوایا:اے علی لکھو، بسم اللہ الرحمن الرحیم، تو مکہ کے نمائندہ لیڈر سہیل بن عمرو نے کہا، ہم اس کو نہیں جانتے، آپ لکھیں، باسمک اللہم، آپ نے ایسا ہی کیا۔پھر آپ نے کہا، لکھو یہ وہ (دفعات) ہیں، جن پر محمد رسول اللہ نے سہیل بن عمر و سےصلح کی ۔ تو سہیل بن عمرو نے دوبارہ کہا ، اگر میں مانتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو میں آپ سے جنگ نہیں کرتا ،یعنی آپ "رسول اللہ" کا لفظ مٹائیں، آپ نے ایساہی کیا، اور کہا لکھو، یہ وہ دفعات ہیں، جن پر محمد بن عبد اللہ نے سہیل بن عمرو سے صلح کی کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، اس میں لوگ امن سے رہیں گے (مسند احمد، حدیث نمبر 18910)۔
اس معاہدہ کے معاملے میں متعلق پہلو یہ تھا کہ کسی بھی طریقے سے دونوں فریق کے درمیان امن قائم ہوجائے۔ اس معاملے میں یہ غیر متعلق پہلو تھا کہ معاہدہ میں کس قسم کے الفاظ لکھے جائیں۔ چناں چہ رسول اللہ نے یہ حکیمانہ طریقہ اختیار کیا کہ متعلق پہلو کو لیا، اور غیر متعلق پہلو کو نظر انداز کردیا۔ اس طرح یہ معاہدۂ امن کسی مزید رکاوٹ کے بغیر معتدل طور پر عمل میں آگیا۔
وقار کا مسئلہ نہ بنانا
قرآن میں اہل حکمت انسانوں کی صفت بتائی گئی ہے کہ وہ کسی مسئلہ کو وقار کا مسئلہ نہیں بناتے ہیں ۔ قرآن کی وہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب کہ حدیبیہ کا معاہدہ طے ہورہا تھا۔ اس وقت اصحاب رسول کا حال کیا تھا، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: إِذْ جَعَلَ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی قُلُوبِہِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاہِلِیَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکِینَتَہُ عَلَى رَسُولِہِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَى وَکَانُوا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا (48:26)۔ یعنی جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی، جاہلیت کی حمیت، پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر، اور اللہ نے ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
جب کسی اختلافی معاملہ میں دو گروہوں کے درمیان بات ہورہی ہو تو عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جو فریق قومی حمیت میں مبتلا ہو ، وہ چیزوں کو وقار کا مسئلہ (prestige issue) بنا لیتا ہے۔ اس بنا پر ایسے موقع پر پر امن معاہدہ عملا ً سخت مشکل بن جاتاہے۔ایسے موقع پر دانش مند گروہ وہ ہے جو چیزوں کو وقار کا مسئلہ نہ بنائے ۔ وہ اعلیٰ اخلاق کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے، یک طرفہ طور پر صلح اور امن کا طریقہ اختیار کرنے کے لیے راضی ہوجائے۔ یہ لوگ دانش مند لوگ ہیں، اور ایسے ہی لوگ زندگی میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
شکایت کے بجائے تدبیر
پیغمبر اسلام کی زندگی کا ایک واقعہ یہ ہے کہ8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اس کے بعد آپ مکہ سے طائف کے لیے روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ تقریباً بارہ ہزار افراد تھے۔ درمیان میں ایک راستہ آیا، جس کو تنگ ہونے کی وجہ سے الضیقہ کہا جاتا تھا۔ آپ نے کہا: ما اسم ہذا الطریق ؟ فقیل لہ الضیقة ، فقال:بل ہی الیسرى (سیرت ابن ہشام، 2/482)۔ یعنی اس راستے کا نام کیا ہے، لوگوں نے کہا : ضیقۃ (تنگ)۔ آپ نے کہا نہیں بلکہ یہ یسریٰ (آسان)ہے۔
اس کے بعد غالباً آپ نے ایساکہا کہ اس وقت تم لوگ افقی دائرہ(horizontal way) میں پھیلے ہوئے ہو، تم ایسا کرو کہ عمودی طریقہ (vertical way) میں ہوجاؤ۔ یعنی قطار بنا کر گزرو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، اور نہایت آسانی سے وہ راستہ پار ہوگئے۔
یہ آپ کی پیغمبرانہ حکمت کی مثال ہے۔ یعنی جب کوئی مشکل کا سامنا پیش آئے تو شکایت کا طریقہ اختیار مت کرو، بلکہ تدبیر کا طریقہ اختیار کرو۔ اگر تم ایسا کروگے تو بہت جلد تم کو ایک تدبیر دریافت ہوجائے گی، اور تم اس تدبیر کو اختیار کرکے آسانی کے ساتھ اپنا راستہ طے کرلوگے۔
عام طور پر لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ چیزوں کو ان کے فیس ویلو (face-value) پر لیتے ہیں۔ یہ طریقہ وزڈم کے خلاف ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے لے۔ اس طرح مسئلہ کوئی مزید دشواری کے بغیر بآسانی حل ہوجائے گا۔
چین ری ایکشن سے بچنا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے8 ہجری میں مکہ فتح کیا۔ اس وقت آپ نے اعلان کروایاکہ جو اپنے گھروں میں چلاجائے وہ امن میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے وہ مامون ہے۔ اس کے بعد قدیم مکہ کے لوگ کعبہ کےصحن میں اکٹھا ہوئے۔ اس وقت آپ نے ان سے پوچھا، تم لوگ کیا کہتے ہو، اور تمھارا کیا گمان ہے۔ انھوں نے جواب دیا، ہم آپ کو اپنا بھتیجا اوراپنے چچاکا شریف اور مہربان بیٹاسمجھتے ہیں، آپ نے کہا، میں وہی کہتاہوں جو یوسف نے کہا تھا: آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے(یوسف 92:)۔ تو وہ لوگ نکلے گویا کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں، اور پھر وہ اسلام میں داخل ہوگئے (فخرجوا کأنما نشروا من القبور فدخلوا فی الإسلام ) السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر 18275 ۔
یہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے پیغمبر اسلام کو اپنے وطن سے نکالا تھا، اور آپ کے خلاف بار بار لڑائیاں چھیڑیں تھیں۔ عام رواج کے مطابق، بلاشبہ وہ لوگ جنگی مجرم (prisoners of war) تھے۔ لیکن جب پیغمبر اسلام نےان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ بلکہ ان کو پورے طور پر آزاد کردیا۔ یہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ ایسا کرکے آپ نے قدیم مکہ کے ان لوگوں کو دوبارہ جوابی انتقام سے بچالیا۔ اگر آپ ایسا نہ کرتے تو قبائلی کلچر کے مطابق وہاں چین ری ایکشن (chain reaction)شروع ہوجاتا، جو پھر کبھی ختم نہ ہوتا۔ جیسا کہ قدیم زمانے میں عام طور پر ہوا کرتا تھا۔
حقوق طلبی کی سیاست نہیں
سن 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا، اور پیغمبر اسلام کے ساتھی دوبارہ اپنے قدیم وطن مکہ میں داخل ہوئے۔ ہجرت کے بعد مکہ میں ایسا ہوا تھا کہ کچھ اصحاب کے گھر اور جائداد کو اہل مکہ نے قبضہ کرلیا تھا۔ اب کچھ اصحاب رسول چاہتے تھے کہ وہ اپنے گھر اور جائداد کو لوگوں کے قبضے سے نکالیں، اور اس پر دوبار ہ اپنا قبضہ قائم کریں۔ مگر پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو اس کی اجازت نہ دی۔
اس سلسلہ میں ایک واقعہ یہ ہے کہ فتحِ مکہ کے موقع پر ابو احمد بن جحش آپ کے پاس آئے ، اور کہا کہ ان کے آبائی گھر پر ابوسفیان نے قبضہ کرکے اس کو فروخت کردیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے ان سے کہا :إن صبرت کان خیرا لک، وکانت لک بہا دار فی الجنة(اگر تم صبر کروگے تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ اور اس کے بدلے میں تمھارے لیے جنت کا ایک گھر ہے) ۔ ابو احمد نے کہا: میں صبر کروں گا(أنا أصبر )چناں چہ انھوں نے اس کا خیال چھوڑ دیا (أخبار مکة وما جاء فیہا من الأثار للازرقی، 2/245 )۔
اس طرح کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے طریقہ میں وہ طریقہ شامل نہیں جس کو حقوق طلبی کی سیاست کہا جاتا ہے۔ حقوق طلبی کی سیاست کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دو فریقوں کے درمیان ایسے جھگڑےکھڑے ہوجاتے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اس قسم کی سیاست سے لوگوں کو ملتا تو کچھ بھی نہیں، لیکن وہ اس امکان کو کھو دیتے ہیں کہ نئے مواقع کو استعمال کرکے اپنے لیے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کریں۔
پیغمبر اسلام اگر مکہ میں فتح حاصل ہونےکے بعد وہاں حقوق طلبی کی سیاست چلاتے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگوں کی ترجیحات (priorities) بدل جاتیں۔ فتح مکہ کے بعد اب اصل کام یہ تھا کہ مکہ کے لوگوں میں توحید کی اشاعت کی جائے۔ شرک کے دور کو ختم کرکے توحید کا دور لایا جائے۔ کعبہ کو اس کی ابراہیمی روایت پر قائم کیا جائے، جس کا عملا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اگر مکہ میں حقوق طلبی کی سیاست چلائی جاتی تو یہ سارے کام معطل ہوجاتے، اور وہ ٹارگٹ ہی بدل جاتا، جس کے لیے پیغمبر اسلام نے وہاںاپنا مشن جاری کیا تھا۔
رجز سے اعراض کرو
پیغمبر اسلام نے جب قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا تو قرآن میں آپ کو ایک نصیحت ان الفاظ میں کی گئی کہ اے پیغمبر لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤ، اور رجز کو چھوڑ دو(المدثر5:)۔ رُجز کا لفظی مطلب گندگی (dirt) ہے۔ یہ گندگی کون سی تھی، جسے آپ کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ اس کو یہاں لفظوں میں نہیں بتایا گیا ہے، اس لیے اس کا مطلب آپ کے عمل کو دیکھ کر متعین کرنا ہوگا۔ یعنی آپ نے اپنی عملی زندگی میں کس چیز کو چھوڑا۔ وہی وہ گندگی ہے جس سے آپ کو اعراض کرنے کا حکم دیا گیا۔
اب دیکھیے کہ آپ نے جب قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا تو آپ نے کس چیز سےاعراض کرتے ہوئے اپنا مشن جاری کیا۔ وہ چیزیں وہ تھیں جو اس وقت آپ کی حالت کے اعتبار سے نتیجہ خیز نہیں تھیں۔مثلاً قدیم مکہ میں بہت سی برائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ جیسے شراب، وغیرہ۔ اب اگر شروع میں لوگوں کو اس سے روکتے تو اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہ تھا۔ اسی طرح قدیم مکہ میں کعبہ میں بہت سے بت رکھے ہوئے تھے۔ اگر آپ ان بتوں کو کعبہ سے نکالنے کی مہم چلاتے تو یقینی تھا کہ آپ کی مہم کامیاب نہ ہوتی۔ اس لیے آپ نے نتیجہ خیز اقدام اور بے نتیجہ اقدام میں فرق کیا، اور وقتی اعتبار سے بے نتیجہ کام میں اپنے آپ کو الجھائے بغیر اس کام میں محنت کی ، جس میں محنت سے مفید نتیجہ نکلنے والا تھا۔
آپ کی یہ پالیسی حدیث میں اس طرح آئی ہے:إنما نزل أول ما نزل منہ سورة من المفصل، فیہا ذکر الجنة والنار، حتى إذا ثاب الناس إلى الإسلام نزل الحلال والحرام، ولو نزل أول شیء:لا تشربوا الخمر، لقالوا: لا ندع الخمر أبدا، ولو نزل:لاتزنوا، لقالوا:لا ندع الزنا أبدا (صحیح البخاری، حدیث نمبر4993)۔ یعنی پہلے جو چیز نازل ہوئی،وہ مفصل کی سورت تھی ، جس میں جنت و دوزخ کا ذکر ہے ۔ یہاں تک کہ جب لوگو ں کا دل اسلام کی طرف رجوع ہو گیا، تب حلال وحرام کے احکام اترے ، اگر شروع ہی میں یہ اترتاکہ شراب نہ پیو تو لوگ ضرورکہتے ہم تو کبھی شراب پینا نہیں چھوڑیں گے ۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتاکہ زنا نہ کرو تو لوگ ضرورکہتے کہ ہم تو زنا نہیں چھوڑیں گے۔
اس طریق عمل کو ایک لفظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکیمانہ ترتیب کے ساتھ کام کرنا۔ جو کام انجام کے اعتبار سے ممکن ہو، اس کو کرنا، اور جس کام میں بر وقت نتیجہ نکلنے والا نہ ہو، اس کو مستقبل پر چھوڑ دینا— یہی پیغمبر کا طریقہ ہے، اور یہی دانش مندی کا طریقہ۔
ہائی پروفائل کا طریقہ نہیں
پیغمبر اسلام نے جب مکہ میں اپنا مشن شروع کیا تو تین سال تک آپ نے اس کا عام اعلان نہیں کیا۔ بلکہ صرف کچھ افراد سے خصوصی ملاقاتوں میں اپنی بات کہتے تھے۔ یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد آپ نے اعلان عام کیا(سیرۃ ابن ہشام، 1/262)۔ اسی طرح غزوہ خیبر میں آپ اپنے اصحاب کے ساتھ جارہے تھے، تو لوگوں نے ایک جگہ نعرہ بلند کرنا شروع کردیا۔ تو آپ نے کہا: إنکم لا تدعون أصم ولا غائبا، إنکم تدعون سمیعا قریبا وہو معکم (صحیح البخاری، حدیث نمبر4205)۔ یعنی تم لوگ کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو، بلکہ اس کو پکاررہے ہو جو سننے والا،قریب اور تمھارے ساتھ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے مشن کے سلسلے میں پیغمبر اسلام کا طریقہ لو پروفائل میں کام کرنے کا طریقہ تھا، ہائی پروفائل میں کام کرنا پیغمبر اسلام کا طریقہ نہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہائی پروفائل میں کام کرنا، ہمیشہ مخالفین کے اندر اشتعال پیدا کرتا ہے۔ وہ ابتدائی دور ہی میں مشن کی مخالفت میں کھڑے ہوجاتےہیں، اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ مشن آگے نہ بڑھنے پائے۔ اس کے برعکس، لوپروفائل میں صاحب مشن کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ تمام ممکن مواقع کو استعمال کرکے اپنا کام کرتا رہے۔ یہاں تک کہ اس کے مخالفین صرف اس وقت اس کا نوٹس لیں، جب کہ مشن اتنا مستحکم ہوچکا ہو کہ کسی مخالف کی مخالفت اس کو روکنے والی ثابت نہ ہوسکے۔ پیغمبر اسلام نے اپنے مشن کے پورے دور میں خاموش عمل کا یہی طریقہ اختیار کیا۔
فتنہ کو نہ بھڑکانا
ایک حکمت کی بات حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے:الفتنة نائمة لعن اللہ من أیقظہا (التدوین فی أخبار قزوین، أبو القاسم الرافعی، 1/291)۔ فتنہ سویاہوا ہے، اللہ نے اس پر لعنت کیا ہے جو اس کو جگائے۔ یہ حدیث رسول بتاتی ہے کہ اجتماعی زندگی کو پر سکون بنانے کے لیے دانش مندانہ اصول کیا ہے۔ وہ ہے سوئے ہوئے فتنہ کو نہ جگانا۔
یہاں فتنہ سے مراد انسان کی انا (ego) ہے۔ ایگو ایک سویا ہوا فتنہ ہے۔ اس کو چھوڑدیا جائے تو وہ سویا رہے گا، اور اگر اس کو چھیڑ دیا جائے تو وہ ایک شدید مسئلہ بن جائے گا۔ ایگو ایک پوٹنشیل (potential)فتنہ ہے، وہ واقعہ اس وقت بنتا ہے جب کہ اس کو چھیڑ کر جگا دیا جائے۔
انسان کی انا (ego) میں نفرت اور غصہ بھرا ہوا ہے۔ لیکن عام حالت میں وہ صرف بطور امکان ہوتا ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانا، خود صاحب ایگو کی طرف سے نہیں ہوتا ، بلکہ وہ دوسرے کی طرف سے ہوتا ہے۔ دوسرا آدمی چاہے تو اس امکان کو سویا ہوا رہنے دے، یا اس کو جگا کر اپنےلیے مسئلہ بنالے۔ اسی لیے کہا گیا ہے :
When one’s ego is touched, it turns into super ego, and the result is breakdown.
اجتماعی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے کے لیے ناپسند بن جاتی ہے۔ یہی لمحہ ہے جب کہ آدمی کا ایگو بھڑک اٹھتا ہے۔ لیکن پہلا آدمی اگر خاموشی اختیار کرلے تو دوسرے آدمی کا ایگو بھڑک کر رہ جائے گا۔ وہ بڑھ کر خطرناک مسئلہ نہیں بنے گا۔کامیاب زندگی کی حکمت یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کے ایگو کو بھڑکنے نہ دے، وہ سوئے ہوئے ایگو کو سویا رہنے دے۔
کوئی دشمن نہیں
پیغمبر اسلام کو ایک دانش مندانہ طریقہ قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔یعنی اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، انسانوں میں جو تقسیم ہے، وہ دوست اور دشمن کی نہیں، بلکہ دوست اور بالقوۃ دوست (potential friend) کی ہے۔ یعنی دانش مند انسان وہ ہے جو دوست اور دشمن کی بنیاد پر اپنا منصوبہ نہ بنائے، بلکہ اس کا منصوبہ اس سوچ کے تحت ہونا چاہیے کہ کچھ لوگ اگر بظاہر دوست ہیں تو دوسرے لوگ بالقوۃ دوست(potential friend) ہیں۔ اس لیے دانش مند انسان کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مثبت منصوبہ بندی (positive planning) کے ذریعہ وہ بالقوۃ دوست کو بھی اپنا دوست بنا کر ان کو اپنے ساتھیوں میں شریک کرلے۔
اپنے زمانے کو جاننا
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:وعلى العاقل أن یکون بصیرا بزمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ یعنی عقل مند وہ ہے جو اپنے زمانے سے با خبر ہو۔ یہاں زمانے سے مراد خارجی حالات ہیں ۔ آدمی عام طور پر اپنے آپ میں جیتا ہے۔ اپنے سے باہر کے حالات کی اس کو خبر نہیں ہوتی ہے۔ ایسے آدمی کا منصوبہ حالات سے ٹکراجائے گا۔ وہ اپنے منصوبہ کو کامیابی تک پہنچانے والا نہ بن سکے گا۔
اس دنیا میں آدمی ہمیشہ کچھ حالات کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ حالات وہ خود نہیں بناتا، بلکہ خارج کا جو ماحول ہے، وہ ان حالات کی تشکیل کرتا ہے۔ یہ حالات اتنے طاقت ور ہوتے ہیں کہ آدمی ان کو بدلنے پر قادر نہیں ہوتا ہے۔ اگر آدمی اپنے حالات سے ٹکرا جائے تو وہ خود تو ٹوٹ جائے گا۔ لیکن حالات جیسے تھے، ویسے ہی رہیں گے۔ ایسی صورت حال میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی اپنے ساتھ دوسروں کو بھی جانے۔ وہ اپنی ذاتی خواہشوں کے ساتھ خارجی حالات کے تقاضوں سے باخبری حاصل کرے۔ ایسے آدمی کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ اپنا منصوبہ صحیح اصولوں کی بنیاد پر بنائے۔ وہ حالات زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے، اپنا سفر حیات کامیابی کے ساتھ طے کرے۔ اس قسم کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی (realistic planning) کامیابی کا واحد یقینی راز ہے۔
غصہ سے بچو
ایک آدمی پیغمبر اسلام کے پاس آیا۔ اس نے کہا: أخبرنی بکلمات أعیش بہن ولا تکثر علی فأنسى؟ قال:اجتنب الغضب، ثم أعاد علیہ فقال:اجتنب الغضب(مسند احمد، حدیث نمبر23468)۔ یعنی مجھے ایسی بات بتائیے، جس میں مَیں جیوں، اور بات مختصر ہو تا کہ میں اس کو بھول نہ جاؤں۔ آپ نے کہا: غصہ سے بچو، اس نے اپنی بات کو دہرائی، آپ نےدوبارہ کہا: غصہ سے بچو۔
اس حدیث پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ غصہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ غصہ کوئی آدمی دوسرے کے خلاف کرتا ہے۔ لیکن غصہ کا نقصان آدمی کو خود بھگتنا پڑتا ہے۔ غصہ آدمی کی سوچ کو غلط رخ پر موڑ دیتا ہے۔ عام حالت میں آدمی مثبت انداز میں سوچتا ہے۔ وہ معتدل انداز میں رائے قائم کرتا ہے۔ لیکن غصہ آتے ہی اس کی سوچ غیر معتدل ہوجاتی ہے۔ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنے کے قابل نہیں رہتا ۔ جو آدمی غصہ میں مبتلا ہوجائے، وہ جذبات کے تحت ایسے فیصلے کرتا ہے، جو جذبات سے خالی آدمی کبھی نہیں سوچے گا۔
غصہ کا سب سے زیادہ تباہ کن انجام یہ ہے کہ غصہ ہمیشہ دو طرفہ بن جاتا ہے۔ آپ غصہ ہو کر دوسرے شخص کو بھی غضبناک بنادیتے ہیں۔ غصہ دوسرے شخص کو جوابی غصہ میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس طرح غصہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے ردعمل (reaction) کا سبب بنتا ہے۔ آپ ایک ردعمل ظاہر کرتے ہیں، اس کے بعد دوسرا آدمی مشتعل ہوکر ردعمل کا طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ یہ عمل اور ردعمل باربار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ردعمل ایک چین ری ایکشن (chain reaction) بن جاتاہے۔ اور جب کوئی چیز چین ری ایکشن بن جائے تو پھر اس کا خاتمہ آخری ہلاکت سے پہلے نہیں ہوتا۔
اس لیے غصہ کے بعد آدمی کے لیے جو صحیح رویہ ہے، وہ صرف ایک ہے۔ وہ ہے غصہ کو یک طرفہ طورپر ختم کردینا۔ یہی بات قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے:وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37) ۔ یعنی جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ غصہ کے نقصان سے بچنے کے لیے یک طرفہ صبر کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔
آسان کا انتخاب
پیغمبر اسلام کی زندگی کے ایک معمول کو پیغمبر اسلام کی زوجہ عائشہ ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:ما خُیّر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فی أمرین إلا اختار أیسرہما (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4785)۔یعنی جب بھی پیغمبر اسلام کو دو صورتوں میں ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ آسان کا انتخاب کرتے۔ اس سے معلو م ہوتا ہے کہ معاملات میں پیغمبر اسلام کی عام پالیسی کیا تھی۔ وہ تھی مشکل کے مقابلے میں آسان کا انتخاب کرنا۔
ہر صورت حال میں آدمی کے سامنے دو قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک، مسائل (problem)اور دوسرا، مواقع (opportunities)۔ اس وقت آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ پیغمبر اسلا م کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ہمیشہ مواقع کو اویل (avail)کرنے کا انتخاب کرتے تھے، نہ کہ مسائل سے ٹکراؤ کرنا۔
یہاں آسان کا لفظ اور مشکل کا لفظ اپنے ظاہری معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات میں پیغمبر اسلام کی پالیسی یہ تھی کہ معاملات میں ایسے طریقہ کو اختیار کیا جائے جو قابل عمل (workable) ہو، جس پر کوئی نیا مسئلہ پیدا کیے بغیر عمل کرنا ممکن ہو۔ یہاں آسانی کا لفظ قابل عمل (workable) کے معنی میں ہے۔ یعنی ایسا طریقہ جس کو اختیار کرنے سے کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ ہو، کوئی نیا مسئلہ پیدا کیے بغیر اس پر عمل کیا جاسکے۔
اس کے مقابلے میں ایک طریقہ وہ ہے جس پر عمل کرنے سے مسئلے میں اضافہ ہوتا ہو۔ایسا طریقہ آپ کبھی اختیار نہیں کرتے تھے۔ مثلا اگر ایک معاملے میں پر امن طریقہ اختیار کرنا ممکن ہو تو آپ کبھی تشدد کا طریقہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ کیوں کہ پر امن طریقہ مسئلے میں اضافہ کیے بغیر قابل عمل ہوتا ہے، جب کہ تشدد کا طریقہ ہمیشہ مسئلہ میں اضافہ کرتا ہے۔ مثلاً پرتشدد طریقے میں تشدد پر نفرت کا اضافہ ہوتا ہے، وغیرہ۔
اگر آپ مسائل سے اپنا عمل شروع کریں تو فورا ہی آپ کا دوسروں سے ٹکراؤ ہوجائے گا۔ نامعلوم مدت تک آپ مسائل سے ٹکرانے میں لگے رہیں گے، اور یہ عمل مشتبہ رہے گا کہ آپ کے لیے مواقع کو اویل کرنے کا وقت آتا ہے یا نہیں۔ اس کے برعکس، اگر آپ مسائل سے اعراض کریں اور مواقع کو اویل کرنے سے اپنا عمل شروع کریں تو پہلے دن آپ کو اپنے عمل کا آغاز مل جائے گا۔ آپ پہلے دن سے مواقع کو اویل کرنا شروع کردیں گے۔ آپ کا ہر قدم آگے کی طرف جانے کے ہم معنی ہوگا۔ اسی کا نام منصوبہ بند عمل ہے۔ منصوبہ بند عمل ہمیشہ کامیاب ہوتاہے۔ اس کے برعکس، غیر منصوبہ بند عمل کے بارےمیں کچھ نہیں معلوم کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔
انسان رخی طرز فکر
پیغمبر اسلام کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آیا ہے:کان سہل بن حنیف، وقیس بن سعد قاعدین بالقادسیة، فمروا علیہما بجنازة، فقاما، فقیل لہما إنہا من أہل الأرض أی من أہل الذمة، فقالا:إن النبی صلى اللہ علیہ وسلم مرت بہ جنازة فقام، فقیل لہ:إنہا جنازة یہودی، فقال:ألیست نفسا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1312)۔یعنی سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں کھڑے ہو گئے ۔ لوگوں نے کہاکہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے ( جوغیر مسلم ہیں )۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا ۔ آپ اس کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا ۔ آپ نے فرمایا کیا وہ انسان نہیں ؟
اس حدیث سے ایک اہم بات معلوم ہوتی ہے، اور وہ سماجی دانش مندی(social wisdom) ہے۔ سماج یا انسانی اجتماع ہمیشہ مختلف قسم کے انسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ لوگوں میں اختلافات پیدا ہوجائیں۔ لوگ کسی کو اپنا دشمن سمجھیں، اور کسی کو دوست، لوگ کسی کو اپنا سمجھیں اور کسی کو غیر، کسی کے بارے میں وہ مثبت ہوں اور کسی کے بارے میں منفی۔ یہ کلچر پورے سماج کو ابدی طور پر غیر معتدل سماج بناد یتا ہے۔
اس لیے اس طرح کی صورت حال کا بہترین حل یہ ہے کہ ہر انسان کو انسان سمجھا جائے۔ ہر انسان کے بارے میں انسان رخی رویہ(human-friendly behaviour) اختیار کیا جائے۔ ہر انسان کو اپنے جیسا انسان سمجھا جائے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی عزت (mutual respect) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
پیغمبر اسلام نے خود اپنے عمل سے اس کا نمونہ قائم کیا۔ جیسا کہ معلوم ہے مدینہ ایک مختلف مذاہب کا معاشرہ تھا۔ پیغمبر اسلام نے اپنے عمل سے یہ ماڈل قائم کیا کہ ہر ایک انسان کے ساتھ یکساں طور پر عزت کا معاملہ کرنا۔ ہر انسان کو یکساں طور پر ایک ہی خالق کا پیدا کیا ہوا انسان سمجھنا۔
یکساں طور پر ہر ایک سے باعزت سلوک کا معاملہ صرف اخلاقی بات نہیں۔ اس کا تعلق براہِ راست طور پر انسان کی ترقی سے ہے۔ ایسے ماحول میں سماج کا ہر فرد ایک دوسرے کا خیرخواہ ہوگا۔ ہر انسان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا مالک ہوگا۔ ہر انسان کو یہ موقع ہوگا کہ وہ خود بھی ترقی کرے، اور دوسروں کو بھی ترقی کا موقع دے۔ اس کے برعکس، اگر لوگ اس احساس میں جئیں کہ فلاں شخص ان کا اپنا ہے، اور فلاں شخص ان کا غیر۔ تو ایسے سماج کا ہر فرد اپنی سوچ کے اعتبار سے غیر معتدل ہوجائے گا۔ وہ خود بھی سماج کا ایک پرابلم ممبر (problem member) بنا رہے گا، اور دوسروں کو بھی بلا اعلان یہ دعوت دے گا کہ تم بھی سماج کے پرابلم ممبر بن جاؤ۔
قناعت واحد حل ہے
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لو کان لابن آدم وادیان من مال لابتغى ثالثا، ولا یملأ جوف ابن آدم إلا التراب، ویتوب اللہ على من تاب (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6436)۔ یعنی اگر انسان کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تووہ تیسری کا خواہشمند ہو گا، اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی ،اور اللہ اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے ۔
انسان پیدائشی طور پر لامحدود کا طالب ہے۔ کوئی محدود چیز خواہ بظاہر کتنی ہی بڑی دکھائی دے، وہ کبھی انسان کو مطمئن کرنے والی نہیں۔انسان کو اس دنیا میں عملاً جو کچھ ملتا ہے، وہ ہمیشہ محدود ہوتا ہے۔ طلب اور مطلوب میں یہی تضاد ہے، جو ہمیشہ انسان کو غیر مطمئن رکھتا ہے۔
انسان کا یہ عدم اطمینان (discontentment) بے فائدہ نہیں۔ ا س کے پیچھے ایک اہم تخلیقی حکمت ہے۔ وہ حکمت یہ ہے کہ انسان اپنا مطلوب آخرت کو بنائے، نہ کہ دنیا کو۔ انسان کو پیدائشی طور پر معیار کا طالب (ideal seeking) بنا یا گیا ہے۔ جب کہ دنیا میں اس کے لیے جو قابل حصول چیزیں ہیں، وہ اس کی طلب سے بہت کم ہیں۔ آدمی بہت چاہتا ہے، مگر ہمیشہ اس کو کم ملتا ہے۔ آدمی ہمیشہ بہت زیادہ کا منصوبہ بنا تا ہے لیکن اپنے منصوبہ کی تکمیل سے پہلے انسان اس دنیا سے چلاجاتا ہے۔
طالب اور مطلوب میں یہ فرق اس لیے نہیں ہے کہ آدمی غیر مطئن بنا رہے۔ بلکہ وہ اس لیے ہے کہ انسان غور و فکر کے ذریعہ یہ دریافت کرے کہ اس کی طلب کا مطلوب کہاں ہے۔ جو آدمی اس طرح سوچے وہ دانشمندانہ سوچ کا حامل بنے گا۔ وہ اپنی زندگی کی صحیح منزل کو جان لے گا۔ وہ جان لے گا کہ اس کے مطلوب کا نہ ملنا ایک اہم حکمت کے سبب سے ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ اس کا ذہن ہمیشہ متحرک رہے، وہ کبھی جمود کا شکار نہ ہونے پائے۔
دنیا میں انسان کا یہ عدم اطمینان اس کو ابدی جنت کا طالب بناتا ہے۔ وہ اس پر غور و فکر کرکے اپنے مقصد اصلی کو جان لیتاہے۔ وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس کو کس طرح سچا طالب (true seeker) بننا چاہیے۔یہ چیز آدمی کو بھٹکنے سے بچا کر صحیح رخ پر سوچنے والا بنا دیتی ہے۔ جوآدمی اس طرح سوچے وہ کبھی منفی سوچ کا شکار نہ ہوگا، وہ ہمیشہ مثبت سوچ کا حامل بنا رہے گا، اور اس دنیا میں سب سے بڑی سوچ مثبت سوچ ہے۔
ہر ایک کے لیے خیر
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: المؤمن القوی، خیر وأحب إلى اللہ من المؤمن الضعیف، وفی کل خیر احرص على ما ینفعک، واستعن باللہ ولا تعجز، وإن أصابک شیء، فلا تقل لو أنی فعلت کان کذا وکذا، ولکن قل قدر اللہ وما شاء فعل، فإن لو تفتح عمل الشیطان(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2664)۔ یعنی ضعیف مومن کے مقابلے میں قوی مومن کے لیے خیر ہے، اور وہ اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے، لیکن ہر ایک میں خیر ہے۔ حرص کرو اس کی جو تم کو فائدہ پہنچائے۔ اللہ سے مدد مانگو، کمزوری نہ دکھاؤ۔اگر تم کو نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا۔ لیکن کہو اللہ نے مقدر کیا تھا، اور اس نے جو چاہا، وہی ہوا۔ کیوں کہ’’اگر‘‘ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے۔
اس حدیث سے تخلیق کی ایک حکمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ بظاہر کوئی شخص کمزور دکھائی دے تو یہ کمزوری ایک اعتبار سے ہوگی، ہر اعتبار سے نہیں۔ یہ تخلیق کا اصول ہے کہ اگر آدمی ایک اعتبار سے کمتر ہوتا ہے تو کسی دوسرے اعتبار سے اسے برتر صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص جسمانی اعتبار سے ضعیف ہو تو وہ دماغ کے اعتبار سے قوی ہوگا۔ کوئی شخص یاد (memory) کے اعتبار سےکم ہو تو وہ تجزیہ (analysis) کے اعتبار سے زیادہ ہوگا۔ کوئی شخص بزنس کے اعتبار سے کم ہو تو وہ علم کے اعتبار سے زیادہ ہوگا، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں یہ بات ریسرچ سے ثابت ہوگئی ہےکہ کوئی شخص مطلق معنوں میں قوی یا ضعیف نہیں ہوتا۔ چناں چہ پہلے معذور کے لیے ڈس ایبلڈ (disabled) کا لفظ بولا جاتا تھا۔ مگر اب یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔ اب ایسے افراد کو ڈفرینٹلی ایبلڈ (differently abled) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک اعتبار سے معذور اور دوسرے اعتبار سے طاقت ور۔
تخلیق کے اس نظام کا تقاضا ہے کہ آدمی کو کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے ظاہر پر رائے قائم نہ کرے، بلکہ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ اپنے معاملے پر سوچے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت (discover) کرے۔ وہ اپنے اندر چھپے ہوئے انسان کو جانے،اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔
باشعور انسان کا معاملہ
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عجبا لأمر المؤمن، إن أمرہ کلہ خیر، ولیس ذاک لأحد إلا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر، فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء، صبر فکان خیرا لہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2999)۔ اس حدیث میں مومن سے مراد معروف معنوں میں صاحب عقیدہ انسان نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد باشعور انسان ہے۔ اس سے مراد وہ انسان ہے جو صاحب معرفت انسان ہو، جو تدبر اور تفکر کی صفت کا حامل ہو۔ جس نے مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا یا ہو۔
ایسا انسان ہر چیز میں اس کے اندر چھپی ہوئی تخلیقی حکمت کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہے ، اس کے اندر یقینا کوئی گہری حکمت موجود ہے۔ وہ چیزوں کو ذاتی نگا ہ سے نہیں دیکھتا، بلکہ تخلیق کی حکمت کے اعتبار سے دیکھتا ہے ۔ اس ربانی طرز فکر کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ منفی میں مثبت کو دیکھنے والا بن جاتاہے۔ وہ اپنے مائنس پوائنٹ میں اپنے پلس پوائنٹ کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ بظاہر ناامیدی میں امید کے پہلو کوجان لیتا ہے۔ وہ موت میں زندگی کا سرمایہ دریافت کرلیتا ہے۔وہ اپنی شعوری بلندی کی بنا پر شکست میں فتح کا راز دریافت کرلیتا ہے۔
چیزوں کو بے آمیز صورت میں دیکھنا
پیغمبر اسلام کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی:اللہم، أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلا ووفقنا لاجتنابہ، ولا تجعلہ ملتبسا علینا فنضل، واجعلنا للمتقین إماما (تفسیر ابن کثیر، 1/571)۔ یعنی اے اللہ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے او پر ملتبس نہ کر کہ ہم گمراہ ہوجائیں، اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔ایک اور دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم أرنا الأشیاء کما ہی (تفسیر الرازی، 1/119)۔ یعنی اے اللہ، ہمیں چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔
ان دونوں دعاؤں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ صفت پیدا ہو کہ وہ بے آمیز انداز میں سوچے۔ بے آمیز کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذہنی اعتبار سے اتنا زیادہ ترقی یافتہ ہو کہ وہ حق کو حق کی صورت میں دیکھ سکے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دیکھے۔ وہ چیزوں کو ویساہی دیکھے، جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔
یہ وہی سوچ ہے جس کو موضوعی سوچ (objective thinking) کہاجاتا ہے۔ یعنی اَیز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking)۔آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کسی ماحول میں رہتا ہے۔ ماحول کے اثر سے اس کے اندر مختلف قسم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے متاثر ذہن کے تحت چیزوں کے بارے میں رائے قائم کرنے لگتا ہے۔ یہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اسی سے آدمی کے اندریہ کمزوری آجاتی ہے کہ وہ چیزوں کو ان کی حقیقت کے اعتبار سے نہیں دیکھ پاتا، بلکہ اپنے متاثر ذہن کے مطابق ایک خود ساختہ رائے بناتا ہے۔
جس انسان کے اندر ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking)کی صفت ہو، وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ مبنی بر حقیقت سوچے، مبنی بر حقیقت رائے قائم کرے، مبنی بر حقیقت منصوبہ بنائے۔یہ صفت کسی آدمی کو حکیم (man of wisdom) بناتی ہے، اور جو آدمی اس معنی میں حکیم (wise) ہو، وہی وہ انسان ہے جس کو سوپر مین (superman) کہا جاتا ہے۔
نزاع کا طریقہ نہیں
پیغمبر اسلام کو قرآن میں اپنے مشن کے سلسلے میں جو طریقہ بتایا گیا وہ یہ تھا کہ کسی بھی حال میں نزاع کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ یک طرفہ دانش مندی کے ذریعہ غیر نزاعی طریقہ اختیار کرو۔ اس سلسلے میں قرآن کی ہدایت ان لفظوں میں دی گئی ہے:لِکُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا ہُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّکَ إِنَّکَ لَعَلَى ہُدًى مُسْتَقِیمٍ (22:67)۔ یعنی اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک طریقہ مقرر کیا کہ وہ اس کی پیروی کرتے تھے۔ پس وہ اس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف بلاؤ۔ یقیناً تم سیدھے راستہ پر ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی کنڈیشننگ (conditioning) کی بنا پر الگ الگ طریقہ اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ تم ان کی کنڈیشننگ کو توڑو۔ اس طرح لوگ اپنی حالت فطری پر قائم ہوجائیں گے، اور یہ ممکن ہوجائے گا کہ اختلاف کے بجائے اتفاق کی بنیاد پر ان سے معاملہ کیا جائے۔
انجام دیکھ کر عمل کرنا
پیغمبر اسلام کا ایک واقعہ حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے: جاء رجل إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم فقال:بارک اللہ للمسلمین فیک، فخصنی منک بخاصة خیر، قال: مستوص أنت؟ أراہ قال:ثلاثا، قال:نعم، قال:اجلس، إذا أردت أمرا فتدبر عاقبتہ، فإن کان خیرا فأمضہ، وإن کان شرا فانتہ(الزھد والرقائق لابن المبارک، حدیث نمبر41)۔ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے کہا: آپ کے ذریعہ اللہ مسلمانوں کو برکت دے۔ آپ مجھ کو اپنی طرف سےکسی خاص خیر کی نصیحت کیجیے۔ آپ نے کہا: کیاتم نصیحت چاہتے ہو، آپ نے یہ بات غالباًتین بار کہی، آدمی نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: بیٹھ جاؤ، جب تم کوئی کام کرناچاہو، تو تم اس کے نتیجہ پر غور کرو، اگر اس میں خیر ہو تو اس کوکرو، اور اگروہ برا ہے تو اس سے رک جاؤ۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تم جو کام کرو،خوب سوچ سمجھ کرکر و۔ پہلے اس کے ہر پہلو پر غور کرو۔ بے لاگ انداز میں غور کرکے یہ سمجھو کہ وہ کام تمھارے لیے باعتبار انجام اچھا ہے یا برا۔ صرف جذبات کے تحت کوئی کام شروع نہ کرو، بلکہ اپنے اقدام کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد اس کی طرف آگے بڑھو۔ تمھارا ہر کام گہری سوچ کا نتیجہ ہو، نہ کہ محض جذبات کا نتیجہ۔
کام کرنے کے اس طریقے کو منصوبہ بند کام کہا جاتا ہے۔ منصوبہ بند کام کا اصول یہ ہے کہ پہلے سوچنا، اور پھر کرنا۔ جو آدمی کرنے کے بعد سوچے، وہ ایک غیر دانش مند آدمی ہے۔ اور جو آدمی کرنے سے پہلے سوچے، وہ ایک دانش مند آدمی۔
یہی درست اقدام کا دانش مندانہ اصول ہے۔ آدمی اگر ذاتی زندگی گزار رہا ہو تو اس کو زیادہ مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ لیکن جب آدمی کوئی عملی اقدام کرے تو اس کو بہت سے خارجی مسائل پیش آتے ہیں۔ ان خارجی مسائل کا پیشگی اندازہ کرنا، بہت ضروری ہے۔ جو آدمی خارجی مسائل کا پیشگی اندازہ کیے بغیر عملی اقدام کرے، وہ اپنے اقدام سے کچھ پائے گا نہیں۔ بلکہ اپنے نقصان میں صرف اضافہ کرنے کا سبب بنے گا۔
ابتدائی منصوبہ پر نظر ثانی
موجودہ دنیا میں کوئی آدمی پیشگی طور پر بالکل درست منصوبہ نہیں بنا سکتا۔ جب آدمی کسی عمل کو شروع کرتا ہے تو بعد کو ایسے حالات پیش آتے ہیں، جو تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کےلیے اپنے عمل کی ری پلاننگ کی جائے۔ پیغمبر اسلام کے حکیمانہ طریقے کا ایک جز ء یہ بھی تھا۔ آپ ہمیشہ اس کے لیے تیار رہتے تھے کہ اگر ابتدائی منصوبہ میں کوئی کمی نظر آئے تو دوبارہ زیادہ قابل عمل انداز میں نیا منصوبہ بنایا جائے۔
اس کی ایک مثال یہ ہےکہ پیغمبر اسلام نے مکہ میں 610 عیسوی میں اپنا مشن شروع کیا۔ اس وقت کے مکہ میں آپ کے مشن کے لیے موافق ماحول موجود نہ تھا۔ چناں چہ وہاں کے لوگوں کی اکثریت آپ کے خلاف ہوگئی۔آپ کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالنے لگے۔ اس وقت آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو مدینہ بھیجا۔ تاکہ وہ اندازہ کریں کہ کیا مدینہ کے حالات مکہ کے مقابلے میں آپ کے لیے زیادہ موافق ہیں۔ یہ دونوں صاحبان مدینہ جاکر لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے۔ اس لیے ان کو مقری کہا جاتا تھا۔ مدینہ کے لوگ برعکس طور پر کسی رکاوٹ کے بغیر اسلام قبول کرنے لگے۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ اسی زمانے میں پیش آیا۔
مدینہ کے بارے میں اس مثبت تجربے کے بعدنبوت کے تیرھویں سال آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں، اور از سر نو اپنے مشن کا آغاز کریں۔ اسی کا نام ری پلاننگ (replanning) ہے، اور ری پلاننگ پیغمبر اسلام کے طریقۂ کار کا ایک اہم جزء ہے۔
پیغمبر اسلام کا یہ طریقہ نہ تھا کہ اپنے عمل کا کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے بدستور اپنے عمل کو جاری رکھیں، اور جو لوگ بے نتیجہ کام میں مارے جائیں، ان کو شہید کا لقب دے کر اس بے نتیجہ کام کو گلوریفائی(glorify) کریں۔ پیغمبر اسلام کی ایک سنت ری پلاننگ ہے۔ پہلا منصوبہ اگر بے نتیجہ ثابت ہو تو اس کے بعد بھی اس منصوبے کو بدستور جاری رکھنا، وہ مکمل طور پر پیغمبر اسلام کی پالیسی کے خلاف تھا۔
تجربہ سے سبق لینا
رسول اللہ کی مکی زندگی کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں اس طرح آتا ہے:عن طلحة بن عبید اللہ، قال:مررت مع رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فی نخل، فرأى قوما یلقحون النخل، فقال:ما یصنع ہؤلاء؟ قالوا:یأخذون من الذکر فیجعلونہ فی الأنثى، قال:ما أظن ذلک یغنی شیئا، فبلغہم، فترکوہ، فنزلوا عنہا، فبلغ النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فقال:إنما ہو الظن، إن کان یغنی شیئا فاصنعوہ، فإنما أنا بشر مثلکم، وإن الظن یخطئ ویصیب، ولکن ما قلت لکم:قال اللہ، فلن أکذب على اللہ (ابن ماجہ، حدیث نمبر 2470) ۔ یعنی طلحہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک باغ میں سے گزرا۔ وہاں آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجور کو پیوند لگا رہے ہیں، آپ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا نر کا گا با لے کر مادہ میں ملاتے ہیں ، آپ نے کہا: میرے خیال سے اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لوگوں کو آپ کی یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے پیوند کاری (pollination) ترک کردی۔لیکن اس بار پھل کم ہوا ،آپ کو جب اس کا علم ہوا تو فرمایا وہ تو میرا خیال تھا ، اگر اس میں کچھ فائدہ ہے تو کرلیا کرو، میں بھی تمہاری مانند انسان ہوں۔اور خیال کبھی غلط ہوتا ہے کبھی صحیح ۔لیکن اگر میں تمہیں کہوں کہ اللہ نے فرمایا ، تو میں ہرگز اللہ پر جھوٹ نہ بولوں گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تجربہ سے سبق سیکھنا بھی دانش مندی کے حصول کا ایک درست ذریعہ ہے۔ تجربہ کوئی غیر متعلق چیز نہیں۔ تجربہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے فطرت کے ایک قانون کی دریافت ہے۔ جب انسان کو کوئی نیا مفید طریقہ دریافت ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اسے فطرت کے قانون کا ایک حصہ سمجھے، اور اس کو فوراً اپنے منصوبہ میں شامل کرلے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الکلمة الحکمة ضالة المؤمن، فحیث وجدہا فہو أحق بہا(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2687)۔یعنی حکمت کی بات مومن کا گم شدہ مال ہے، وہ اس کو جہاں پائے، تو وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔ تجربہ کے معاملے میں آدمی کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے لوگوں کا تجربہ ہےیا ا غیار کا تجربہ۔ ہر تجربہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ تجربہ کے معاملے میں اپنے اور غیر کی کوئی تقسیم نہیں۔
حقیقت پسندانہ مزاج
پیغمبر اسلام نے اپنی امت کو ایک حکمت کی بات ان الفاظ میں بتائی:لا تطرونی، کما أطرت النصارى ابن مریم، فإنما أنا عبدہ، فقولوا عبد اللہ، ورسولہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3445)۔ یعنی میرابیان بڑھا چڑھا کر نہ کرو، جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کابیان کیا ۔ میں تو صرف اس کا بندہ ہوں ، اس لئے یہی کہا کروکہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔
کسی کا ذکر بڑھا چڑھا کر کرنا، یہ ایک ہلاکت خیز کلچر ہے۔ یہ کلچر پہلے پیغمبر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک عام اسلوب بن جاتا ہے۔ اس سے قوموں میں حقیقت پسندانہ سوچ کا مزاج ختم ہوجاتا ہے۔ لوگوں کی سوچ، لوگوں کی منصوبہ بندی ، ہر چیز غیر حقیقت پسندانہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس لیے پیغمبر اسلام نے اس کلچر سے اپنی امت کو شدت کے ساتھ روکا۔
یہ کلچر اس طرح آتا ہے کہ لوگ پہلے اپنے پیغمبر کو شہنشاہ کونین، اور سرور دوعالم جیسے مبالغہ آمیز انداز میں ذکر کرتے ہیں۔پھر یہ کلچر عام ہوکر دوسرے مفروضہ بڑوں کے لیے بولاجانے لگتا ہے۔ مثلاً امام، اکابر، شیخ العالم اور قائم الزماں، سید الملت، وغیرہ۔ یہ سب قصیدہ خوانی کی زبان ہے۔ اور قصیدہ خوانی کی زبان ہمیشہ لوگوں کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) کا عمل روک دیتی ہے۔ لوگ اجتہاد کے بجائے تقلید کا طریقہ اختیارکرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے اندر ماضی پر فخر اور حال پر قناعت کا مزاج چھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ دوبارہ کوئی بڑا کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ان کا مزاج وہی بن جاتا ہے جس کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا— کیا قدیم شعراء نے پیوند کے برابر کوئی جگہ چھوڑی ہے(ہل غادر الشعراء من متردم)۔
نتیجہ خیز طریقہ
قدیم مکہ میں آپ کے مخالفین کا ظلم بہت زیادہ بڑھ گیا تھا تو آپ کے اصحاب میںاس کے خلاف جوابی عمل کا ذہن پیدا ہوا۔ لیکن اس کے جواب میں پیغمبر نے جو طریقہ اختیار کیا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے:قال عمر:یا رسول اللہ علام نخفی دیننا ونحن على الحق، ویظہر دینہم وہم على الباطل؟ قال:یا عمر إنا قلیل قد رأیت ما لقینا (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، 1/441)۔ یعنی عمر فاروق نے کہا، اے اللہ کے رسول ہم کیوں اپنے دین کو چھپائیں، حالاں کہ ہم حق پر ہیں، اور وہ اپنے دین کو ظاہر کریں حالاں کہ وہ باطل پر ہیں۔ آپ نے کہا: اے عمر ہم تھوڑے ہیں، اور تم نے دیکھا ہےجو ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔
اس معاملےکی اصل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام قدیم مکہ میں اپنا مشن اس انداز میں چلارہے تھے، جس کو لوپروفائل میں کام کرناکہا جاتا ہے۔ قدیم مزاج کے تحت عرب کے لوگ اس طریقے سے مانوس نہ تھے۔ وہ اس کو دب کر کام کرنا سمجھتے تھے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ ہم جب حق پر ہیں تو ہم لوگوں سے کیوں دب کر کام کریں۔
اس کے جواب میں پیغمبر اسلام نے کہا کہ ہم تھوڑے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کام کرنے کا نتیجہ خیز طریقہ وہ ہے جب کہ اپنی طاقت کے مطابق کام کیا جائے۔ جو ش وخروش کے تحت بڑے بڑے اقدام کرنا، دانش مند آدمی کا طریقہ نہیں۔
ایک دانش مندانہ اصول
پیغمبر اسلام کی وفات 632 عیسوی میں ہوئی۔ آپ کے بعد اسلام کی تاریخ میں خلافت کا دور آیا۔ یہ دور تقریباً 33 سال چلا۔ آخر زمانے میں مسلمانوں میں باہمی قتال شروع ہوگیا۔ اس میں لوگ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اس کے بعد امیر معاویہ کا دور شروع ہوا، جو خلافت پر مبنی نہ تھا،بلکہ خاندانی حکومت (dynasty) کے طریقے پر مبنی تھا۔
خلافت کا طریقہ قرآن کی آیت وَأَمْرُہُمْ شُورَى بَیْنَہُمْ (42:38) کے اصول پر قائم تھا۔ یعنی لوگوں کے مشورے پر صاحب امر کا انتخاب۔ یہ عملا وہی طریقہ تھا جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہا جاتا ہے۔ امیر معاویہ خود بھی ایک صحابی رسول تھے، اس کے علاوہ اس زمانے میں بڑی تعداد میں اصحاب رسول موجود تھے۔ لیکن تمام صحابہ اس تبدیلی پر راضی ہوگئے۔ صحابہ اور تابعین کے پورے دور میں اس کے خلاف بغاوت (revolt) نہیں ہوئی۔
حکومت کے نظام میں یہ تبدیلی اس وقت ہوئی جب کہ پیغمبر اسلام کے تربیت یافتہ اصحاب اور اصحاب کے تربیت یافتہ تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ نظام حکومت میں اس تبدیلی پر کوئی مخالفت نہیں ہوئی۔ مزید یہ کہ دور صحابہ کے بعد جو ادوار آئے، مثلاً محدثین کا دور، فقہاء کا دور، علماء کا دور، ان سب نے اس تبدیلی کو عملا قبول کرلیا۔
یہ تبدیلی پیغمبر اسلام کی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ نہ تھی۔ بلکہ وہ پیغمبر کی تعلیمات کے عین مطابق تھی۔ پیغمبر کی سیرت کے مطالعے سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ تھا کہ— جب نظری حکمت (theoretical wisdom) قابل عمل نہ ہو تو اس وقت عملی حکمت (practical wisdom) کو اختیار کرلیا جائے۔ کیوں کہ اس طرح کے معاملے میں اصل مطلوب چیز استحکام (stability) ہے ۔ پیغمبر اسلام کے بعد جب لوگوں نے دیکھا کہ خلافت کے تحت سیاسی استحکام (political stability) حاصل نہیں ہوا، جب کہ خاندانی حکومت کے تحت سیاسی استحکام حالات کے اعتبار سے قابل عمل (workable) طریقہ ہے، تو انھوں نے یہ کیا کہ اس معاملے میں پہلے آپشن(first option) کے بجائے دوسرےآپشن (second option) کو اختیار کرلیا۔ اسی دانش مندی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام کی تاریخ اس کے بعد مستحکم انداز میں بدستور تقریبا ہزار سال تک چلتی رہی۔
جیسا کہ معلوم ہے، بعد کے زمانے میں امت کے علماء نے اس اصول پر اتفاق کرلیا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔ جیسا کہ امام النووی (وفات676:ھ) کے الفاظ ہیں:وأما الخروج علیہم وقتالہم فحرام بإجماع المسلمین وإن کانوا فسقة ظالمین(شرح صحیح مسلم للنوی،12/229)۔ اس مسئلہ میں علمائے امت کا یہ اجماع بلاشبہ نظری حکمت کی بنیاد پر نہ تھا، بلکہ وہ عملی حکمت(practical wisdom) کی بنیاد پر تھا۔
ایک اجتماعی حکمت
حدیث کی کتابوں میں رسول اللہ کے زمانے کا ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:أن أعرابیا بال فی المسجد، فثار إلیہ الناس لیقعوا بہ، فقال لہم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:دعوہ، وأہریقوا على بولہ ذنوبا من ماء، أو سجلا من ماء، فإنما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6128)۔ یعنی ایک دیہاتی نے مدینہ کی مسجد میں پیشاب کر دیا ، لوگ اس کی طرف غصہ ہو کراس کوپکڑنے کے لیے بڑھے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اسے چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے اس جگہ پر پانی بھرا ہوا ایک ڈول بہادو ، کیونکہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو ، تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ۔
اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی معاملہ میں پیغمبر اسلام کا اصول کیا تھا۔ وہ اصول رعایت پر مبنی تھا۔ یعنی لوگوں کے ساتھ سخت گیری کا معاملہ نہ کرنا۔ بلکہ نرمی اور رعایت کا معاملہ کرنا۔ مزید اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اگر کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے تواس کو وہیں کا وہیں ختم کردیا جائے، اس کو مزید بڑھنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس طرح کے واقعے میں ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی غلطی ہمیشہ ایک چھوٹی غلطی ہوتی ہے، لیکن اگر اس واقعے پر شدید رد عمل ظاہر کیا جائے تو ایک چھوٹا واقعہ بڑھ کر ایک بڑا واقعہ بن جائے گا۔ حتی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چھوٹا واقعہ بڑھتے بڑھتے بڑے فساد کی صورت اختیار کرلے۔ اجتماعی معاملات میں اسلام کا طریقہ تیسیر کا طریقہ ہے، نہ کہ تعسیر کا طریقہ۔
پیغمبر اسلام، پیغمبر حکمت
قرآن میں پیغمبر اسلام کے بارے میں متعدد آیتوں میں یہ بات کہی گئی ہے کہ آپ کا ایک کام یہ تھا کہ آپ انسان کو خدا کی کتاب پہنچائیں۔ آپ کا دوسرا کام یہ تھا کہ آپ لوگوں کو حکمت کی تعلیم دیں۔ یہ دونوں کام ایک دوسرے سے الگ بھی تھے، اور ایک دوسرے سے متعلق بھی۔
حکمت کا لفظی مطلب ہے وزڈم (wisdom)۔ زندگی کے معاملات کو درست طور پر انجام دینے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت جس چیز کی ہے، وہ وزڈم ہے۔ وزڈم ہو تو آدمی اس قابل ہوتا ہےکہ وہ درست منصوبہ بنائے، اور وزڈم نہ ہو تو وہ غلط منصوبہ بنائے گا، جو مسئلہ کو بڑھانے والا ہوگا، نہ کہ مسئلہ کو حل کرنے والا۔
انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اکثر حالات کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ متاثر ذہن سے سوچنے کی بنا پر صحیح فیصلہ نہیں لے پاتا۔ جہاں انتظار کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے، وہاں وہ جلد بازی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ جہاں پر امن تدبیر کے ذریعہ مسئلہ حل کرنا چاہیے، وہاں وہ تشدد کا طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ جہاں رد عمل (reaction) سے بچ کر اپنا منصوبہ بنانا چاہیے، وہاں وہ ردعمل (reaction) کا شکار ہوکر ایسا منصوبہ بناتا ہے جو مسائل میں صرف اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔
اس طرح کے مواقع پر ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے پاس دانش مندی کا اصول ہو۔ اس کے پاس ایک ایسا رہنما اصول ہو، جو اس کو ہر موقع پر درست راستے کی طرف رہنمائی کرتا رہے۔ اسی کا نام حکمت (wisdom) ہے، اور اسی حکمت کے اصول کو بتانا ، پیغمبر کا سب سے زیادہ اہم کام ہے۔
فرشتے کی حمایت
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:بینما رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جالس ومعہ أصحابہ وقع رجل بأبی بکر، فآذاہ، فصمت عنہ أبو بکر ثم آذاہ الثانیة، فصمت عنہ أبو بکر، ثم آذاہ الثالثة، فانتصر منہ أبو بکر، فقام رسول اللہ حین انتصر أبو بکر، فقال أبو بکر:أوجدت علی یا رسول اللہ؟ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:نزل ملک من السماء یکذبہ بما قال لک، فلما انتصرت وقع الشیطان، فلم أکن لأجلس إذ وقع الشیطان (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4896)۔یعنی رسول اللہ ایک باراپنےاصحاب کےساتھ تھے کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق کو برا بھلا کہا اور ان کو تکلیف پہنچائی، ابوبکر صدیق خاموش رہے، اس نے پھر دوسری بار ابوبکر صدیق کو اسی طرح تکلیف دی ، ابو بکر صدیق پھربھی ان کے با رے میں خاموش رہے ،اس نے تیسری بار بھی تکلیف پہنچائی تو ابوبکر صدیق نے اسے جواب میں کچھ کہہ دیا۔ ابوبکر صدیق نے جواب دیا تو رسول اللہ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ یہ دیکھ کر ابوبکر صدیق نے کہا یا رسول اللہ ، کیا آپ مجھ پر ناراض ہیں ؟ رسول اللہ نے کہا کہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا وہ اس تکلیف پہنچانے والی کی تکذیب کرتا رہا، لیکن جب تم نے اسے جواب دے دیا تو شیطان آگیا ، اور جب شیطان آجائے تو میں بیٹھنے والا نہیں ۔
اس حدیث میں بظاہر ایک فرد کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک عام واقعہ ہے۔ اس کا تعلق انفرادی معاملات سے بھی ہے، اور اجتماعی معاملات سے بھی۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے کہ جب کوئی شخص مظلوم ہو، اور اپنی طرف سے کوئی کارروائی نہ کرے تو فرشتہ اس کی طرف سے کارروائی کرنے کے لیے آجاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس، جب انسان اپنے معاملے کو خود اپنا معاملہ بنا کر جوابی کارروائی کرنا شرو ع کردے تو وہ اکیلا ہوجاتا ہے۔ جس آدمی کاساتھی فرشتہ ہو، وہ بلاشبہ سب سے زیادہ طاقت ور انسان ہے، اور جو آدمی اپنے معاملے کو خود اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس وقت وہ ایک عام انسان بن جاتا ہے۔ اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ وہ جیتے گا، یا فریق ثانی کے مقابلے میں ہار جائے گا۔ ایسی حالت میں وزڈم کیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ آدمی خود کو طاقتور بنائے، کمزور نہ بنائے۔
سب سے زیادہ کامیاب طریقہ
پیغمبر اسلام کو قرآن میں جو حکمت کی باتیں بتائی گئی ہیں، ان میں سے ایک حکمت وہ ہے جو پیغمبر یوسف کے حوالے سے قرآن میں آئی ہے۔ پیغمبر یوسف کنعان میں پیدا ہوئے، جو اب الخلیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا زمانہ بقول اغلب 1910 تا 1800 ق م کا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ خاندانی اسباب پیدا ہوئے، اور وہ فلسطین سے نکل کر مصر پہنچ گئے۔اس زمانے کا مصر کا بادشاہ ان سے متاثر ہوا، اور اس نے آپ کو اپنی سلطنت میں پورے ملک کی زراعت کا انچارج بنا دیا۔
پیغمبر یوسف ایک گاؤں سے نکل کر مصر پہنچے تھے۔ ان کو یہ غیر معمولی کامیابی کیسے حاصل ہوئی۔ اس کا راز یہ تھا کہ انھوں نے اس وقت کے بادشاہ مصر سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا ، جس کو پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کہا جاسکتا ہے۔ وہ پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ یہ تھا کہ پیغمبر یوسف اِس پر راضی ہوگئے کہ حکومت کے تخت پر بادشاہ بدستور قائم رہے، لیکن ملک کے خزائن (زرعی نظام) پیغمبر یوسف کے ہاتھ میں ہو۔
یہ قصہ قرآن اور بائبل ، دونوں میں آیا ہے۔ بائبل (پیدائش، 41:40)میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہے: سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا:
Only as regards the throne will I be greater than you. (Genesis 41:40)
پیغمبر یوسف کے قصے کو قرآن میں احسن القصص یعنی بہترین طریق کار(best method) قرار دیا گیا ہے۔ یہ بہترین طریق کار کیا تھا، جس نے پیغمبر یوسف کو قدیم مصر میں اعلیٰ مواقع عطا کردیے۔ وہ طریق کار ایک لفظ میں یہ تھا— سیاسی اقتدار کے ساتھ پولیٹکل اپوزیشن کے بجائے پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کرنا۔ یہ طریقہ جو پیغمبر یوسف نے اختیار کیا، وہ قدیم زمانے میں بھی سب سے زیادہ کامیاب طریقہ تھا، اور موجودہ زمانے میں بھی وہ سب سے زیادہ کامیاب طریقہ ہے۔
دانش مندانہ پالیسی
پیغمبر اسلام نے ایک حکیمانہ نصیحت ان الفاظ میں کی ہے:لا ینبغی للمؤمن أن یذل نفسہ، قالوا:وکیف یذل نفسہ؟ قال:یتعرض من البلاء لما لا یطیق(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2254)۔ یعنی کسی مومن کے لئے یہ جائز نہیں کہ و ہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔صحابہ نے پوچھا: کوئی شخص اپنے آپ کو کس طرح ذلیل کرتا ہے۔ آپ نے کہا:ایسے امرِ مشکل کا وہ سامنا کرے جس سے نمٹنے کی اس میں طاقت نہ ہو۔
زندگی میں ایسے مواقع پیش آتے ہیں، جب کہ آدمی کا سامنا ایسی صورت حال کے ساتھ ہوتا، جس کے بارے میں پیشگی طور پر یہ معلوم رہتا ہے کہ اگر اس کا سامنا کیا گیا تو اس کا نتیجہ یک طرفہ طور پر آدمی کی اپنی تباہی کی صورت میں ہوگا۔ اس طرح کا ٹکراؤ جو یک طرفہ طور پر آدمی کی ناکامی کا سبب بنے، وہ پیغمبر اسلام کے طریق کا ر کے عین خلاف ہے۔ پیغمبر اسلام کا طریق کا ر یہ ہے کہ آدمی غیرنزاعی انداز (non-confrontational method) اختیار کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ نزاعی طریقہ (confrontational method) کو اختیار کرنا پیغمبر اسلام کی سنت کے سراسر خلاف ہے۔ غیر نزاعی طریق کار آدمی کے لیے ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، نزاعی طریق کار ہمیشہ آدمی کے لیے برعکس نتیجہ (counter productive) ثابت ہوتا ہے۔
معاملات کو خدا کی روشنی میں دیکھنا
پیغمبر اسلام کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: اتقوا فراسة المؤمن فإنہ ینظر بنور اللہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3127)۔ یعنی مومن کی فراست سے بچو، وہ اللہ کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ مومن وہ انسان ہے ، جس کی اعلیٰ دریافت اس کو کٹ ٹو سائز (cut to size) بنا دے۔ ایسا آدمی ایک متواضع انسان (modest person) ہوتا ہے۔ اس کا طریق فکر اس کو آخری حد تک حقیقت پسند انسان بنا دیتا ہے۔ ایسا انسان چیزوں کو ایز اٹ از (as it is) دیکھنے لگتا ہے۔ وہ حالات میں گھر کر نہیں سوچتا ہے، بلکہ وہ حالات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے۔ وہ منفی سوچ (negative thinking) سے پوری طرح پاک ہوتا ہے۔ وہ احساس برتری کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کی یہ صفات اس کو اس قابل بنادیتی ہیں کہ وہ اعلیٰ حکمت کے تحت سوچے اور اعلیٰ حکمت کے تحت فیصلہ کرے۔ مومن کی یہ صفات اس کو ناقابل تسخیر بنا دیتی ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو کرنا چاہیے، اور اس بات سے بچتا ہے، جس سے اسےبچنا چاہیے۔ اس بنا پر اس کا منصوبہ ہمیشہ حقیقت پسندانہ منصوبہ ہوتا ہے۔ مومن کی یہ صفات اس کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ اس کا منصوبہ ہمیشہ کامیاب رہے۔ وہ کبھی خود پیدا کردہ ذلت کا شکار نہ ہو۔
چپ رہنا بھی کام ہے
پیغمبر اسلام نے اپنی امت کو ایک حکیمانہ نصیحت ان الفاظ میں بتائی ہے:إذا قلت لصاحبک یوم الجمعة:أنصت، والإمام یخطب، فقد لغوت (صحیح البخاری، حدیث نمبر 934)۔ یعنی جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو: چپ رہ، تو تم نے ایک لغو کام کیا ۔
اگر مسجد کا امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہے، اور اس وقت کوئی شخص بول پڑے تو سننے والے کو اشارے سے اس کو چپ کرانا چاہیے۔ اگر وہ خود بھی بول کر اس کو چپ کرائے تو یہ ایک لغو (nonsense)کام ہوگا۔ کیوں کہ پہلے صرف ایک آدمی بولنے والا تھا، اب بولنے والے دو ہوگئے۔ گویا مسئلہ میں اضافہ ہوگیا۔ اس قسم کا طریقہ بلاشبہ ایک لغو طریقہ ہے۔
اس حکمت کا تعلق صرف مسجد کی نماز سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں دخل دینا، معاملےکواور زیادہ بگاڑنے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پر دانش مندی یہ ہے کہ آدمی خاموشی کا طریقہ اختیار کرے، وہ ہر گز دخل اندازی کرکے معاملےکو زیادہ پیچیدہ نہ بنائے۔یہ ایک دانش مندی کی بات ہے کہ آدمی یہ جانے کہ کب اسے عمل کرنا ہے ، اور کب عمل نہیں کرنا ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ کسی معاملے میں انجام کو سوچے۔ وہ جانے کہ کب بولنا ہے، اور کب چپ رہنا ہے۔ کب آگے بڑھنا ہے، اور کب پیچھے ہٹ جانا ہے۔ کب اقدام کرنا ہے، اور کب اقدام سے آخری حد تک اپنے آپ کو بچانا ہے۔ کب جیتنےکی کوشش کرنا ہے، اور کب اپنی ہار مان لینا ہے۔ جو لوگ اس دانش مندی کے حامل ہوں، وہی اس دنیا میں کامیابی حاصل کرتے ہیں، اور جو لوگ اس دانش مندی سے بے خبر ہوں، ان کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ سوچے سمجھے بغیر کسی معاملے میں کود پڑیں، اور اس کے بعد جب فطری قانون کے تحت وہ بربادی سے دوچار ہوں تو دوسروں کے ظلم کے خلاف کبھی ختم نہ ہونے والی شکایت کا دفتر کھول دیں۔
انتظار کی حکمت
زندگی کی ایک حکمت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بتائی ہے:أفضل العبادة انتظار الفرج (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3571)۔ یعنی کشادگی کا انتظار کرنا، ایک افضل عبادت ہے۔ انسان جب کوئی کام کرتا ہے، تو اس میں ایک فیصد حصہ اس کی اپنی کوشش کا ہوتا ہے، اور ننانوے فیصد حصہ فطرت کے قانون (law of nature) کا۔ فطرت کا قانون خالق کا مقرر کردہ ہے، وہ اپنی رفتار سے چلتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر انسان جلدی نہ کرے، اور انتظار کی پالیسی اختیار کرے تو گویا کہ وہ فطرت کے عمل (process) کی تکمیل کا انتظار کر رہا ہے۔ اس بنا پر اس کا انتظار ایک عبادت بن جاتا ہے۔ اس قسم کی عبادت ایک اعلیٰ درجے کی حکمت (wisdom)ہے۔
ایک مسیحی پادری اپنے گھر کے سامنے ایک ہرا بھرا درخت دیکھنا چاہتا تھا۔ انھوں نے یہ منصوبہ بنا یا کہ وہ ایک ہرا بھرا درخت لائیں ، اور اپنےگھر کے سامنے اس کو لگادیں۔ انھوں نے کچھ مزدوروں کی مدد سے ایسا ہی کیا۔ لیکن اگلی صبح کو جب وہ اٹھے تو درخت کے پتے مرجھا چکے تھے۔ چند دن کے بعد درخت پوری طرح سوکھ گیا۔ اس وقت ان کے ایک دوست ان سے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کا پادری دوست بہت زیادہ غمگین ہے۔ دوست نے اس کا سبب پوچھا۔ پادری نے کہا، میں جلدی میں ہوں، مگر خدا جلدی نہیں چاہتا:
I am in hurry, but God isn't
اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کے قانون کے مطابق، اپنے گھر کے سامنے ایک ہرا بھرا درخت دیکھنے کے لیے مجھے دس سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر میں چاہوں کہ ایک دن کے اندر میرے گھر کے سامنے ہرا بھرا درخت کھڑا ہوجائے تو ایسا ہونا فطرت کے قانون کے مطابق ممکن نہیں ۔
آدمی کو چاہیے کہ جب وہ کوئی منصوبہ بنائے تو اپنی خواہش کی بنیاد پر منصوبہ نہ بنائے، بلکہ غور کرکے یہ سمجھے کہ فطرت کے قانون کے مطابق منصوبے کی تکمیل کے لیے کتنی مدت درکار ہے، اور اس مدت کو اپنے پروگرام کا جزء قرار دے۔ یہی اس دنیا میں دانش مندی کا اصول ہے۔
ٹکراؤ کے بغیر کامیابی
پیغمبر اسلام نے زندگی کی ایک حکمت کو ان الفاظ میں بتایا ہے: نصرت بالرعب على العدو (صحیح مسلم، حدیث نمبر 523)۔ یعنی مجھے رعب کے ذریعہ دشمن پر مدد دی گئی ہے۔ یہ پیغمبر کی فضیلت کی بات نہیں ہے، بلکہ فطرت کے قانون کے مطابق یہ اعلیٰ تدبیر کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رد عمل (reaction) کے بجائے مثبت انداز میں اپنے عمل کا منصوبہ بناؤ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر تمھیں کسی کی طرف سے عداوت کا سامنا ہو تو عداوت کے مقابلے میں جوابی عداوت کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ عداوت کے جواب میں پر امن تدبیر کا طریقہ اختیار کرو۔ پر امن تدبیر تم کو اس قابل بنائے گی کہ تم کسی ٹکراؤ کے بغیر صرف پر امن تدبیر سے کامیابی حاصل کرلو۔
یہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ یہ حسن تدبیر کی اثر انگیزی کا معاملہ ہے، نہ کہ کسی پر اسرار فضلیت کا معاملہ۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی برابر نہیں، تم دور کرو اس سے جو بہتر ہو، تو تم دیکھو گے کہ تمھارے اور جن کے درمیان دشمنی ہے وہ گویا قریبی دوست بن گیا۔
چھوٹی برائی پر راضی ہونا
پیغمبر اسلام کے معاصر اہل ایمان کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔یہ اصحاب رسول مسلسل طور پر پیغمبر اسلام کے زیر تربیت تھے۔اصحاب رسول نے کچھ باتوں کو پیغمبر اسلام کی طرف منسوب کرکے ان کو قول رسول کے طور پر بیان کیا ہے، ان کو حدیث کہا جاتا ہے۔ اس کے سوا بہت سی باتیں ایسی ہیں، جن کو اصحاب رسول نے رسول کا حوالہ دیے بغیر اپنے طور پر بیان کی ہیں۔ اس قسم کی باتوں کو اَثر کہا جاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ باتیں بھی پیغمبر اسلام کی تعلیم کردہ باتیں ہیں۔ اگر چہ کتابوں میں وہ اَثارِ صحابہ کے طور پر نقل ہوئی ہیں۔
انھیں میں سے ایک وزڈم کی بات وہ ہے جو صحابی رسول حبیب بن خماشة کے حوالے سے حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس اثر کے الفاظ یہ ہیں: من لا یرضى بالقلیل مما یأتی بہ السفیہ یرضى بالکثیر (المعجم الاوسط للطبرانی، اثر نمبر2258)۔ یعنی جو شخص نادان کے چھوٹے شر پر راضی نہ ہوگا، اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا۔
یہ ایک دانشمندانہ اصول ہے۔زندگی میں کامیابی کے لیے یہ بے حد ضروری اصول ہے۔ اصل یہ ہے کہ خالق نے ہر انسان کو مکمل آزادی دی ہے۔ یہ آزادی براہ راست طور پر خالق کا ایک عطیہ ہے۔ کوئی بھی شخص اس آزادی کو انسان سے چھین نہیں سکتا۔ یہ آزادی برائے امتحان ہے۔ اللہ رب العالمین کو دیکھنا ہے کہ کون شخص اپنی ملی ہوئی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے ، اور کون شخص اپنی آزادی کاغلط استعمال کرتا ہے۔اسی صحیح استعمال یا غلط استعمال پر انسان کے ابدی انجام کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ یہ آزادی خالق کے تخلیقی منصوبہ کا ایک حصہ ہے، اور جو چیز تخلیقی منصوبہ کا حصہ ہو اس کو ختم کرنا کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف دو میں سےایک کا انتخاب (option) ہے۔ یا تو وہ دوسرے انسانوں کی آزادی کو روکنے کے لیے ہمیشہ ان سے لڑتا رہے ، اور کبھی کامیاب نہ ہوسکے ۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ آدمی اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے آرٹ آف مینجمنٹ (art of management) کو سیکھے۔ وہ دوسروں کی ناپسندیدہ روش کو مینج کرتے ہوئے اپنا راستہ بنائے۔ یعنی وہی طریقہ جس کوشارع عام (public road) پر چلتے ہوئے ہر آدمی اختیار کرتا ہے، اورکامیابی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔
اس اصول کواستعمال کرنے کی صورت میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ ایک آدمی کو دوسرے آدمی کی آزادی سے کچھ نقصان پہنچے گا۔ دانش مند آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے نقصان کو نظر انداز کرے۔اگر وہ ایسا کرے کہ اس قسم کے نقصان کو برداشت کرنے کے بجائے، اس پر لڑائی شروع کردے تو ایسا ٹکراؤ صرف اس کے نقصان میں اضافہ کرے گا۔ اس لیے دانش مندی کا اصول یہ ہے کہ کم نقصان پر راضی ہوجاؤ، تاکہ اپنے آپ کو بڑے نقصان سے بچا سکو۔
یہ اصول ایک عام اصول ہے۔ خاندانی زندگی میں بھی، سماجی زندگی میں بھی، اور قومی زندگی میں بھی۔ عقل مند آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے نقصان کو تجربہ (experience) کے خانے میں ڈال دے۔ وہ ایسے نقصان سے سبق سیکھے۔ وہ ایسے نقصان سے اپنے لیے بہتر منصوبہ بندی (planning)کا راز دریافت کرے۔
عقل مند کی پہچان
عمرو بن العاص پیغمبر اسلام کے ایک صحابی تھے۔ ان کا ایک قول کتابوں میں اس طرح نقل کیا گیا ہے:لیس العاقل الذی یعرف الخیر من الشر، ولکن العاقل الذی یعرف خیر الشرین (المجالسۃ و جواہر العلم، اثر نمبر670)۔ یعنی دانش مند آدمی وہ نہیں ہے، جو خیر اور شر کو جانے۔ لیکن دانش مند آدمی وہ ہے جو یہ جانے کہ دو شر میں سے بہتر کون سا ہے۔
صحابی رسول کا یہ قول زندگی کی ایک اہم حقیقت کو بتا تاہے۔ وہ یہ کہ زندگی میں انتخاب (option) خیر اور شر کے درمیان نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ کسی صورتِ حال میں اس کے لیے کمتر درجہ کی برائی (lesser evil) کیا ہے۔ مثلا سڑک پر آپ کی کسی سے ٹکر ہوگئی تو یہ کمتر درجہ کا مسئلہ ہے۔ لیکن ایسا ہونے پر اگر آپ کو غصہ آجائے، اور آپ لڑ نا شروع کردیں تو اس کے بعد دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہوجائے گی۔ اور اس کا انجام یہ ہوگا کہ اس کے بعد آپ یا تو اسپتال میں ہوں گے یا قبرستان میں ۔ پہلے اگر آپ کا کپڑا پھٹ گیا تھا تو اب آپ کو ٹوٹے ہوئے ہاتھ پاؤںکا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلے اگر سڑک پر مسئلہ ختم ہو گیا ہوتاتو اب مسئلہ کورٹ میں جائےگا، اور سالوں تک کے لیے آپ کا سکون برہم ہوجائے گا۔
ایسا اس لیے ہے کہ دنیا میں ہر شخص اپنے قول و فعل کے لیے آزاد ہے۔ آپ کسی کے قول و فعل پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ آپ اعراض کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے دوسروں کی منفی کارروائی کے انجام سے خود کو بچاسکتے ہیں۔ اور اگر آپ اعراض کے اصول کو اختیار نہ کریں تو آپ کو ایسے انجام کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی کوئی حد نہ ہوگی۔ اس دنیا میں عافیت کا اصول صبر ہے۔ صبر کے سوا جو طریقہ اختیارکیا جائے ،وہ مسئلہ کو صرف بڑھائے گا، وہ مسئلہ کو ختم کرنے والا نہیں۔
٭ ٭٭٭ ٭
موجودہ دنیا میں آدمی کے پاس بہت تھوڑا وقت ہے، اور اسی طرح بہت تھوڑے وسائل۔ ایسی حالت میں یہ ہر شخص کی لازمی ضرورت ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنے وسائل کو منظم انداز میں استعمال کرنا جانے۔ جو آدمی ایسا نہیں کرے گا اس کو آخر میں حسرت کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔
مستقبل کی پلاننگ
مستقبل کی پلاننگ کے لیے پیشگی گائڈ لائن
پیغمبر اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ہوا۔ آپ خاتم النبیین (Final Prophet) ہیں، آپ کی نبوت کی عمر 23سال تھی۔ لیکن اللہ کی توفیق سےآپ نے امت محمدی کو پیشگی طور پر ایسی گائڈ لائن بتادی جو انسانی تاریخ کے آخری دور تک کو کور (cover) کرنے والی تھیں۔
پیغمبر اسلام نے امت محمدی کو جو گائڈ لائن دی، اس کا ایک حصہ ایسا تھا جو ہر زمانے کےلیے قابل تطبیق (applicable) تھا۔ یہ حصہ فقہ کی صورت میں مدون ہوگیا۔ مگر اسی کے ساتھ دوسرا حصہ وہ تھا جو مستقبل کے اعتبار سے تھا۔ اس حصہ میں پیغمبر اسلام نے معاصر زبان میں مستقبل کی باتیں کہیں۔ دوسرے لفظوں میں روایتی دور میں وہ باتیں کہیں جو بعد کو سائنٹفک ایج میں رہنما بننے والی تھیں۔ اس دوسرے حصہ کو سمجھنے کے لیے صرف قرآن و حدیث کا روایتی علم کافی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو دور مابعد، دوسرے الفاظ میں سائنٹفک ایج (scientific age) کا گہرا فہم (deep understanding) حاصل ہو، دین کی صرف روایتی معرفت اس کے لیے کافی نہیں۔اس حیثیت سے یہاں موضوع کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
اس پہلو سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنت میں پہلی نوعیت کی باتیں حکم کی زبان میں ہیں۔ جب کہ دوسری نوعیت کی باتیں خبر کی زبان میں آئی ہیں۔ یہ فرق گویا ایک سراغ (clue) ہے جو زیر نظر پہلو کا مطالعہ کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
1 - مثلاً قرآن کی آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔
یہاں خبر کے اسلوب میں یہ کہا گیا ہے کہ قرآن عالمین (تمام اقوام عالم) کے لیے نذیر (warning) ہے۔ یہاں غور طلب ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں وہ اسباب موجود ہی نہ تھے، جن کو استعمال کرکے تمام اقوام عالم تک قرآن پہنچایا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت کا متضمن مفہوم(implied meaning) یہ ہے کہ مستقبل میں ایک ایسازمانہ آئے گا، جب کہ مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمے تیارکرکے ان کو تمام قوموں تک ان کی قابل فہم زبانوں میں پہنچانا ممکن ہو جائے گا۔ اس وقت امت محمدی کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اس کا منصوبہ بنائے، اور اس کو اس کے تمام تقاضوں کے تحت انجام دے۔ ان الفاظ میں واضح طور پر اس دور کی طرف اشارہ ہے جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس، اور کمیونی کیشن آچکا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ دور آجائے تب امت محمدی پر اس دور کا استعمال برائے دعوت اسی طرح فرض ہوجائے گا جس طرح نماز اور روزہ ابدی طور پر فرض ہے۔
2 - قرآن میں اس نوعیت کی ایک اور آیت ان الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ یہاں آفاق سے مراد مادی دنیا(material world) اور انفس سے مراد انسانی دنیا (human world) ہے۔
قرآن کی اس آیت میں آنے والے سائنسی دور کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں امت محمدی کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ جب وہ سائنسی دور دنیا میں آجائے تو تم فور اًاس کو پہچان لینا، اور از سر نو سائنس کی دریافت کردہ حقائق کی روشنی میں اپنے دعوتی مشن کی منصوبہ بندی کرنا۔ تاکہ لوگوں کو ان کی اپنی مسلمہ عقلی بنیاد (rational ground) پر حقائق اسلام کا اظہار ہوجائے۔
3 - اسی طرح احادیث میں اس نوعیت کی مختلف پیشین گوئیاں آئی ہیں۔ مثلا ایک روایت کے مطابق قدیم مکہ کے قریش کے مطالبے پر آپ نے بتایا تھا : کلمة واحدة تعطونیہا تملکون بہا العرب، وتدین لکم بہا العجم (سیرت ابن ہشام،1/417)
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس آنے والے دور کی طرف اشارہ ہے، جب کہ دنیا میں مکمل طور پر امن (peace) کا زمانہ آجائے گا۔ جب کہ یہ ممکن ہوجائے گا کہ کسی رکاوٹ کے بغیر توحید کی آئڈیا لوجی پر نان پولیٹکل ایمپائر قائم کیا جاسکے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب وہ دور آجائے تو امت محمدی کو چاہیے کہ وہ نفرت اور تشدد اور جنگ کی تمام صورتوں کو یک طرفہ طور پر ختم کردے، اور پیدا شدہ مواقع کوپرامن طور پر استعمال کرتے ہوئےتو حید کی بنیاد پر ایک نان پولیٹکل ایمپائر (non-political empire)قائم کردے۔
4 - اسی طرح پیغمبر اسلام کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر 23865)۔ یعنی روئے زمین پر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گھر نہ بچےگا، مگر اس میں اللہ اسلام کا کلمہ داخل کردےگا۔
اس حدیث میں مستقبل کی امت محمدی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جب یہ دور آجائے تو تم اس دور کو پہچانو۔ اس وقت تم ان تمام سرگرمیوں کو بند کردو، جس سے اس دور کے مواقع کو استعمال کرنا تمھارے لیے ناممکن ہوجائے۔ اس وقت تم یک طرفہ منصوبہ بندی کے ذریعہ آنے والے مواقع کو پر امن طور پر استعمال کرو، اور دین اسلام کو ہر گھر میں پہنچادو۔ یہ دور جب آئے گا تو وہ اپنے آپ سب کچھ نہیں کر ڈالے گا، بلکہ امت محمدی کو اس وقت کی ضرورت کے مطابق، دانش مندانہ منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔
5 - دور دجال کی روایتوں میں سے ایک روایت وہ ہے جس میں دجا ل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دجال جب بولے گا، اس کی آواز مشرق و مغرب میں سنائی دے گی۔ چوتھے خلیفہ علی بن ابی طالب، پیغمبر اسلام کا نام لیے بغیر دجال کے بارے میں کہتے ہیں:ینادی بصوت لہ یسمع بہ ما بین الخافقین (کنزالعمال، حدیث نمبر 39709) ۔ یعنی وہ ایسی آواز میں پکارے گا، جو مشرق و مغرب کے درمیان سنائی دے گی۔
محدثین کی تقسیم کے مطابق یہ ایک موقوف روایت ہے۔ لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھیے تو یہ ایک ثابت شدہ روایت ہے۔ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے زمانے میں ایسے ذرائع وجود میں آئے، مثلاً انٹرنیٹ ۔ اب ایک انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ ایک جگہ سے بولے، اور اس کی آواز زمین کے کسی بھی حصہ میں سنائی دے۔ اس لحاظ سے اس روایت میں مستقبل کے ایک امکان کا ذکر ہے۔ یعنی اس دور کا ذکرہے جب کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ ممکن ہوجائے کہ وہ زمین کے کسی بھی حصہ میں ایک دعوتی سینٹر بنائے، اور اس کے ذریعہ وہ دین حق کی باتوں کو اس طرح نشر کرے، کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں کے لیے اس کا دیکھنا اور سننا پوری طرح ممکن ہوجائے۔
اس معاملے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اکیسویں صدی میں وہ دور پوری طرح آچکا ہے۔ اب کھلے طور پر یہ ممکن ہو گیا ہے کہ امت محمدی کے لوگ اٹھیں ، اور موجودہ زمانے کے مواقع (opportunities) کو استعمال کرتے ہوئے اس پیشین گوئی کو عالمی سطح پر واقعہ بنادیں، جو ان الفاظ میں آئی ہے:لیبلغن ہذا الأمر ما بلغ اللیل والنہار (مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔ یعنی یہ امر ضرور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں۔
ایک حدیث کے مطابق، دور آخر میں سب سے بڑا دعوتی واقعہ ظہور میں آئے گا۔ اس واقعہ کے لیے حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔ یعنی اللہ رب العالمین کے نزدیک یہ سب سے بڑی گواہی ہوگی۔ یہاں شہادت سے مراد دعوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے آخری زمانے میں ایک ایسا عظیم دعوتی واقعہ پیش آئے گا، جو شہادت اعظم (greatest witness) کے ہم معنی ہوگا۔
شہادت اعظم کوئی پر اسرار واقعہ یا معجزاتی واقعہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ قوانین فطرت کے مطابق انجام پائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں مسلسل طور پر تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ تبدیلیوں کے اس عمل کے بعد اس کے نقطۂ انتہا (culmination) کے طور انتہائی عظیم وسائل انسان کی دسترس میں آجائیں گے۔اس وقت فطری طور پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ دعوت الی اللہ کے کام کو اس کی عظیم ترین صورت میں انجام دیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں

Saturday 2 December 2017

Al Risala | December 2017 (الرسالہ،دسمبر)

4

-زوج یا ہیبیٹاٹ

5

- امید کا سرچشمہ

7

- ایک حدیث

8

- عالیشان مسجدیں

9

- ہر حال میں خیر

10

- ایمانی کیفیات

11

- مثل قرآن

13

- نیچر ورشپ

14

- ایک سنتِّ رسول

16

- جامع تعبیرِِ تاریخ

19

- منسوخ، موقوف

20

- رسول، صحابی، کافر

21

- رسول اللہ کا کارنامہ

22

- رے آف ہوپ

23

- صبر کی عظمت

24

- اجتہاد کا فقدان

26

- رسول اور اصحابِ رسول

28

- معاونِ اسلام تہذیب

30

- تردیدی لٹریچر

31

- دنیا کی تخلیق

32

- تاریخ کا سفر

36

- تعارفی ماڈل

38

- تصور دین

40

- نظریاتی صحبت

41

- سب سے بڑی قربانی

42

- ردّعمل نہیں

43

- کامیابی کا اصول

44

- ذہن کامتحرک ہونا

45

- ذہنی ارتقا کا معیار

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


زوج یا ہیبیٹاٹ

زوج یا ہیبیٹاٹ
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (51:49)۔یعنی اور ہم نے ہر چیز سے جوڑے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو :
We have created everything in pairs so that perhaps you may take heed.
قرآن کی اس آیت کا خطاب ان لوگوں سے ہے، جوتذکُّر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی غور وفکر کرنا اور نصیحت لینا۔ اس سے واضح ہے کہ اس آیت کا خطاب انسان سے ہے۔ وہ انسان سے کہہ رہی ہے کہ تم تخلیق پر غور کرو، اور اس سے نصیحت حاصل کرو۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں زوج سے مراد وہی چیز ہے جس کو ہیبیٹاٹ (habitat) کہا جاتا ہے۔ اس دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، سب کے لیے یہاں ان کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔ مثلاً گردش کرتے ہوئے ستاروں کے لیے وسیع خلا (vast space)، نباتات کے لیے موافق زمین (soil)، حیوانات کے لیے جنگل ، مچھلیکے لیے پانی، وغیرہ۔ اس طرح کائنات میںموجود ہر مخلوق کے لیے اس کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔
مگر یہاں صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو ، اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ انسان کو ایسی دنیا ملی ہے، جہاں وہ زندہ رہ سکے، لیکن انسان کو ایسی دنیا حاصل نہیں جہاں اس کے لیے ہر اعتبار سے فل فِل مینٹ (fulfilment) کا سامان موجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اس طرح رہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ماہیٔ بے آب (fish without water)کی طرح تڑپتا رہتا ہے۔ اس کو کبھی اپنے وجود کا زوج (habitat) حاصل نہیں ہوتا۔ انسان اس فرق پر غور کرے تو وہ جنت کو دریافت کرے گا، اور اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اس طرح کرے گا جو اس کو جنت کی منزل تک پہنچانے والا ہو۔ جنت کی دریافت تخلیق کی حکمت کی دریافت ہے۔یہی مطلب ہےقرآن کی اس آیت کا کہ فَفِرُّوا إِلَى اللَّہِ (51:50)۔ یعنی دوڑو اللہ کی طرف۔
واپس اوپر جائیں

امید کا سر چشمہ

قرآن و حدیث میں کئی ایسی آیتیں اور حدیثیں ہیں جو بندوں کے لیے امید کا سر چشمہ ہیں۔ ان میں سےچند حوالے یہ ہیں۔ اس قسم کی ایک آیت قرآن میں یہ ہے :قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
اس آیت کے بارے میں علی ابن ابی طالب کہتے ہیں: ما فی القرآن آیة أوسع من ہذہ الآیة۔ یعنی قرآن میں اس سےزیادہ گنجائش والی کوئی اور آیت نہیں ۔عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں: ہذہ أرجى آیة فی القرآن ۔یعنی یہ قرآن کی سب سے زیادہ امید والی آیت ہے۔ عبد اللہ ابن عباس ایک اور آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ قرآن میں سب سے زیادہ امید والی آیت (أرجى آیة فی القرآن) ہے۔ وہ آیت یہ ہے: وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِہِمْ(13:6) یعنی تمہارا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود ان کو معاف کرنے والا ہے۔دیکھیے تفسیر القرطبی،القاھرۃ، 1969ء، 15/269۔
اس مضمون کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: لما قضى اللہ الخلق کتب فی کتابہ فہو عندہ فوق العرش إن رحمتی غلبت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر3194)۔ یعنی حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے جب مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نےاپنی کتاب میں لکھا۔ یہ کتاب اللہ کے پاس عرش کے اوپر ہے۔(اس میں اللہ نے یہ لکھا ہے) :میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
اس طرح کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں، جن سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت رحم و درگزر کا معاملہ کرنے والا ہے۔ یہ بات اللہ رب العالمین کی شان کے مطابق ہے۔ اللہ رب العالمین نے انسان کو آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ اس لیے اللہ کی شان رحمت کا تقاضا تھا کہ انسان کے ساتھ وہ زیادہ سے زیادہ عفو ودرگزر کا معاملہ کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک جو چیز سب سے زیادہ ناقابل معافی ہے، وہ سرکشی ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جو حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے: لا یدخل الجنة من کان فی قلبہ مثقال ذرة من کبر (صحیح مسلم، حدیث نمبر147)۔ وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا، جس کے اندر رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو۔ اس کے مقابلے میں جو آدمی عجز کا ثبوت دے، جو اپنے آپ کو انانیت (ego) سے خالی انسان بنائے۔ اس کے بارے میں اللہ سے قوی امید ہے کہ اللہ رب العالمین اس کے ساتھ رحمت اور مغفرت کا معاملہ کرے گا۔
اصل یہ ہے کہ جب ایک شخص کے اندر تواضع (modesty) پائی جائےتو غلطی کرنے کے بعد وہ تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ عجز سے بھری ہوئی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ اس کے قول اور عمل میں انکساری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ برتری کے جذبے سے مکمل طور پر خالی ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ ایک نئی شخصیت اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ پورے معنوں میں ایک مزکّی انسان بن جاتا ہے۔ یہ تبدیلی جو اس کی شخصیت کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ یہی در اصل وہ چیز ہے، جو اس کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ اس سے عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے، اس کو جنت میں داخلہ دیا جائے۔
جنت اس کے لیے ہے جو جنتی کردار والی شخصیت لے کر آخرت میں پہنچے۔ جنت سے محرومی اور جنت کا ملنا ، دونوں کا تعلق کردار (character)سے ہے۔یہی وہ اصل چیز ہے جو کسی انسان کےلیے آخرت میں کامیابی یا ناکامی کا سبب ہے۔ جنت سے محرومی بھی معلوم اسباب کی بنا پر ہوگی، اور جنت کا پانا بھی معلوم اسباب کی بنا پر ہے ۔
واپس اوپر جائیں

ایک حدیث

ایک روایت سنن ابی داؤد (کتاب الجہاد) اور مسند امام احمد میںآئی ہے۔ البخاری کے الفاظ یہ ہیں:عجِب اللہ من قوم یدخلون الجنة فی السلاسل(صحیح البخاری، حدیث نمبر3010) ۔یعنی اللہ ان پر متعجب ہوتا ہے جو جنت میں زنجیروں میں (بندھے ہوئے) داخل ہوں گے۔ بعض دوسری روایتوں میں یقادوناور یساقون کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی وہ کھینچتے ہوئے اور ہانکتے ہوئے لے جائے جائیں گے۔
اس حدیث میں کچھ اہل ایمان کے ساتھ جس معاملہ کا ذکر ہے وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں پیش آنے والا معاملہ ہے۔ یہاں زنجیر کا لفظ دراصل مجبور کن حالات (compulsive situation) کی تعبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ایسے مجبورانہ حالات پیش آئیں گے کہ اُن کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہے گا کہ وہ خدا پرستی اور آخرت پسندی کی زندگی اختیار کریں اور اس طرح گویا بندھے بندھے جنت میں پہنچ جائیں۔
یہ خوش قسمتی اُن افراد کے حصہ میں آئے گی جن کے دل میں اخلاص اور حسن نیت کی چنگاری موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے دل میں اس قسم کی استعداد دیکھے گا اُن کی قدر افزائی اس طرح کرے گا کہ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کردے گا جو اُنہیں طوعاً و کرہاً خدا پرستانہ اعمال کی طرف لے جانے والے ہوں۔مصیبت کا جنتی زنجیر بن جانا اُس شخص کے حصہ میںآتا ہے جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرے۔ مصیبت جس کے دل کو اس طرح نرم کرے کہ وہ اللہ کی یاد کرنے والا بن جائے— مصیبت اگر لوگوں کے اندر فریاد اورشکایت کا ذہن بنائے تو مصیبت صرف تباہی ہے،اور اگر مصیبت لوگوں کے اندر محاسبۂ خویش کاذہن پیدا کرے تو وہ اُن کے لیے رحمت کا سبب بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

عالی شان مسجدیں

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ایک ان الفاظ میںآئی ہے: ما أمرت بتشیید المساجد۔ قال ابن عباس: لتزخرفنہا کما زخرفت الیہود والنصارى (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 448)۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے بلند و بالا مسجدیں بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ (اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد) عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ تم لوگ ضرور مسجدوں کو مزین کروگے جس طرح یہود اور نصاریٰ نے اپنی عبادت گاہوں کو مزین کیا۔ایک اور روایت میںہے کہ رسول اللہ نے کہا کہ جب بھی کسی قوم کا عمل بگڑ جائے، تو وہ اپنی مسجدوں کو مزین کرنا شروع کردیتی ہے۔ (ما ساء عمل قوم قط، إلا زخرفوا مساجدہم)۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 741
یہ پیشین گوئی موجودہ زمانہ میں ایک واقعہ بن چکی ہے، اورہر ملک میںاس کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جہاں بھی کچھ مسلمان آبادہیں وہاں عالی شان مسجدیں بنائی جارہی ہیں۔ کہیں قصر نما، کہیں قلعہ نما، اور کہیں تاج محل نما۔ شاندار مساجد تعمیر کرنے کا یہ کام امریکہ اور یورپ میں مزید اضافہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں وہاں زیادہ بہتر ٹکنیکی سہولتیں حاصل ہیں۔ یہاں یہ سوال ہے کہ عالیشان مسجدیں بنانے کو اسلام میںکیوں ناپسند کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسجدوں کی عالیشان تعمیرات امت کے روحانی زوال کی علامت ہیں۔ کیوں کہ جب روح (اسپرٹ) ختم ہوتی ہے تو اس کی تلافی کے لیے مظاہر میںاضافہ ہوجاتاہے۔
عالیشان مسجدوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ نمود ونمائش والی دینداری کی علامت ہیں۔ شاندار عمارتوں میںنمود ونمائش کے جذبہ کو بے حد تسکین ملتی ہے وہ شکست خوردہ نفسیات کے لئے عظمت و فخر کی تسکین کا سامان ہیں۔موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی عام نفسیات یہ ہے کہ انہوں نے پولٹیکل گلوری کو کھو دیا ہے۔ ایسی حالت میں درودیوار کی عظمت انہیں یہ فرضی تسکین دیتی ہے کہ اب بھی انہوں نے زمین پر اپنی عظمت کا نشان قائم کررکھا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہر حال میں خیر

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجبا لأمر المؤمن، إن أمرہ کلہ خیر، ولیس ذاک لأحد إلا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر، فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء، صبر فکان خیرا لہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2999) ۔یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے، وہ شکر کرتا ہے تووہ اُس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ، وہ صبر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔
مومنانہ روش یہ ہے کہ آدمی کو خوشی ملے تو اُس کا سینہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے، اور اگر اُس کو تکلیف کا تجربہ ہو تو وہ اُس کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر اُ س پر راضی رہے۔اس کے برعکس، غیر مومنانہ روش یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو خوشی ملے تو وہ اُس پر فخر کرے، اور اگر اُس کو تکلیف پہنچے تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے۔ یہ مطلوب روش نہیں ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اس طرح تنبیہ کی گئی ہے: پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس کا رب اُس کو آزماتا ہے اور اُس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ اُس کو آزماتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتاہے تو وہ کہتاہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا۔ (الفجر15-16:)
موجودہ دنیا میں اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ آدمی نے بظاہر کس حال میں زندگی گزاری، اچھے حال میں یا بُرے حال میں۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی جس حال میں بھی ہو اُس سے وہ تعلق باللہ کی غذا لے سکے۔ زندگی کا ہر تجربہ اُس کو اللہ سے قریب کرنے والا ثابت ہو۔ اُس کی روح ہر صورتِ حال سے ربّانی غذا لیتی رہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھ سکے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلائے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا رہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلائے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کردے۔
واپس اوپر جائیں

ایمانی کیفیات

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عرض علی ربی لیجعل لی بطحاء مکة ذہبا. فقلت: لا، یا رب ولکن أشبع یوما وأجوع یوما، أو نحو ذلک، فإذا جعت تضرعت إلیک وذکرتک، وإذا شبعت حمدتک وشکرتک(مسند احمد، حدیث نمبر 22190)۔ یعنی اللہ نے مجھے یہ پیشکش کی کہ تمہارے لیے مکہ کی وادی کو سونابنا دیا جائے۔ میںنے کہا کہ اے میرے رب، نہیں۔ بلکہ میں چاہتاہوں کہ میں ایک دن سیر ہوکر کھاؤں اورایک دن بھوکا رہوں۔ پھرجب مجھے بھوک لگے تو میں تجھ سے تضرع کروں اورتجھ کو یاد کروں اور جب مجھے سیری حاصل ہو تو میں تیری حمد کروں اور تیرا شکر کروں۔
ایمانی کیفیات کاتعلق براہ راست طورپر حالات سے ہے۔ زندگی میں جب بھی کوئی صورت حال پیش آتی ہے تو اس کے لحاظ سے مومن کے لیے ایمانی کیفیات کا سرمایہ موجود رہتا ہے۔ جس طرح احوال کی بہت سی قسمیں ہیں اسی طرح ایمانی کیفیات کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، اور ہر قسم میںاُس کے مطابق، آدمی کے اندر ایمانی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔موجودہ دنیا میں آدمی کو امتحان کے لیے رکھا گیا ہے۔ اسی لیے یہاں ہر عورت اور مرد کے ساتھ طرح طرح کے احوال پیش آتے ہیں۔ ایسا اسی لیے ہوتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون اپنی جانچ پرپورا اُترا اور کون اس میںناکام ہوگیا۔
آرام کی حالت ہو یا تکلیف کی حالت ہو، دونوں حالتیں اضافی ہیں۔ دونوں حالتوں میںاصل اہمیت یہ ہے کہ اُس وقت کسی عورت یا مرد سے جومطلوب رویہ درکار تھا، اس کا ثبوت اُس نے دیا یا نہیں دیا۔ اصل اہمیت حالات کے مقابلہ میںردعمل کی ہے، نہ کہ خود حالات کی۔یہ حقیقت جس عورت اور مرد پر واضح ہوجائے، اُس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اُس کی نظر آرام اور تکلیف پر نہ ہوگی بلکہ اس بات پر ہوگی کہ ملے ہوئے حالات میں اس نے کس قسم کے رد عمل کا ثبوت دیا۔ شکر کا یا ناشکری کا، صبر کا یا بے صبری کا۔ ایسے لوگ ہر حال میں اپنا احتساب کریںگے، نہ کہ خارجی حالات کا شکوہ کرتے رہیں۔
واپس اوپر جائیں

مثل قرآن

ایک لمبی روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے، اس کا ایک حصہ یہ ہے: ألا إنی أوتیت الکتاب ومثلہ معہ، ألا إنی أوتیت القرآن ومثلہ معہ ، ألا یوشک رجل ینثنی شبعانا على أریکتہ یقول:علیکم بالقرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ، وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ(مسند احمد، حدیث نمبر17174)۔یعنی سن لو، بیشک مجھے کتاب دی گئی ہے اور اسی کے ساتھ اس کے مثل۔ بیشک مجھے قرآن دیا گیاہے اور اسی کے ساتھ اس کے مثل۔سن لو ، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھا، کہے گا کہ تمہارے لیے قرآن کافی ہے، پس تم اس میں جو حلال پاؤ تو اسے حلال سمجھو اور جو اس میں تم حرام پاؤ تو اسے حرام سمجھو ۔
اس حدیث میں مثل سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں حکمت (البقرۃ129:) کہا گیا ہے،یعنی قرآن اور حکمت قرآن ۔حکمت سے مراد وزڈم (wisdom) ہے۔ قرآن کا ابتدائی مفہوم اس کے متن (text) کو پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے، اور جہاں تک حکمت کا تعلق ہے، وہ تدبر (ص29:)کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے: کان متواصل الأحزان، دائم الفکرة، لیست لہ راحة، طویل السکت، لا یتکلم فی غیر حاجة (شرح السنۃ للبغوی، حدیث نمبر3705)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل حُزن میں رہتے تھے، وہ برابر سوچ میں رہتے، آپ کے لیے کوئی راحت نہیں ہوتی تھی، آپ دیر تک چپ رہتے ، ضرورت کے سوا کسی اور چیز کے لیے آپ نہ بولتے ۔
مذکورہ روایت میں پانچ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ پانچوں الفاظ ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ مسلسل طور پر تدبر اور تفکر میں رہتے تھے۔ حُزن سے مراد غم نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد کامل سنجیدگی (total seriousness) ہے۔ یعنی ہر وقت انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سوچتےرہنا۔
مثلا ًقرآن کی 29 سورتوں کے آغاز میں وہ حروف آئے ہیں، جن کو حروفِ مقطعات کہا جاتا ہے۔ یہ حروف الگ الگ پڑھے جاتے ہیں، اسی لیے ان کو حروف مقطعات (disjointed letters or disconnected letters)کہا جاتا ہے۔ حروف مقطعات عربی زبان کے حروف تہجی (alphabets) پر مشتمل ہیں۔ اس سے مراد غالباً یہ ہے کہ قرآن اگر چہ بظاہر انسانی زبان میں اترا ہے، اس اعتبار سے اس کا ایک مطلب وہ ہےجو سطور میں ہے، لیکن اس کا دوسرا مطلب وہ ہے جو تدبر کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں آیا ہے :کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر عربی زبان سے بخوبی واقف ہو، اور وہ قرآن کو پڑھے تو قرآن کے متن کے سطور (lines)میں جو بات ہے، اس کو وہ جان لے گا۔ لیکن قرآن کے جو عمیق معانی ہیں، وہ متن کے بین السطور (between the lines) ہیں۔ ان عمیق معانی کو جاننے کا ذریعہ صرف تدبر ہے۔ اگر آدمی حقیقی معنوں میںسنجیدہ اور ہدایت کا طالب ہوتے ہوئے قرآن میں غور و فکر کرے تو وہ قرآن کے گہرے معانی کو دریافت کرلے گا۔ وہ متن قرآن کے اندر چھپی ہوئی حکمت کی دریافت تک پہنچ جائے گا۔
مثلا ً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ کو مشن کے معاملے میں صراط مستقیم کی ہدایت (الفتح2:) ملی۔قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو مذکورہ ہدایت کہیں الفاظ (وحی متلو)کی صورت میں نہیں ملے گی۔ پھر رسول اللہ کو اس ہدایت کی معرفت کیسے ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معرفت آپ کو تدبر کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہدایت یہ تھی — وکٹمائزڈ کمیونٹی (victimized community) کے جذبات (sentiments) کو لے کر اپنی پلاننگ نہ کرنا، بلکہ وسیع تر دنیا میں جو مواقع (opportunities) ہیں، ا ن کو لے کر اپنے عمل کا پلان بنانا۔
واپس اوپر جائیں

نیچر ورشپ

توحید کیا ہے۔ اس کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ (41:37)۔یعنی اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔
قدیم زمانے میں نیچر ورشپ (nature worship) کا رواج چھایا ہوا تھا۔نیچر ورشپ کے کلچر میں قدیم انسان اتنا زیادہ مسحور ہوگیا تھا کہ وہ پیغمبروں کی لمبی کوشش کے باوجود اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔ اس منفی تجربے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق، پیغمبر ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ خصوصی تربیت کے ذریعہ ایک نئی قوم بنا ئی جائے۔ جو اپنی فطرت پر قائم ہو۔
وہ منصوبہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم عراق کو چھوڑ کر اس صحرائی مقام پر جائیں، جہاں اب مکہ آباد ہے، اور یہاں اپنےبیٹے اسماعیل اور اپنی بیوی ہاجرہ کو آباد کریں۔ یہ مقام اس زمانے میں نیچر ورشپ کے ماحول سے بہت دور تھا۔ اس حقیقت کا ذکر پیغمبر ابراہیم کی دعا میں ان الفاظ میں ملتا ہے: رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِی وَبَنِیَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ ۔ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیرًا مِنَ النَّاسِ (14:35-36)۔یعنی اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا۔ اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔
یہ نیچر ورشپ اس وقت پوری طرح ختم ہوگئی، جب کہ سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ نیچر عامل نہیں ہے، بلکہ وہ معمول ہے۔یعنی نیچر (فطرت) کسی بڑی طاقت کے کنٹرول میں ہے، اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔ اس تحقیق نے نیچر کو معبودیت کے مقام سے ابدی طور پر ہٹادیا۔
واپس اوپر جائیں

ایک سنتِّ رسول

سن چھ ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم فریق مخالف سے امن کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ طویل گفت و شنید کے بعد جب معاہدے کی دفعات طے ہوگئیں، اور ان کو کاغذ پرلکھا جانےلگا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کو لکھاتے ہوئے کہا: اکتب یا علی، ہذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ ۔ فریق ثانی کے لیڈر نے فوراً اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے۔ آپ محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبد اللہ لکھیے، جو کہ ہمارے اور آپ کے درمیان مشترک ہے۔آپ نے بلابحث کہا: امح یا علی، اللہم إنک تعلم أنی رسولک،امح یا علی واکتب، ہذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللہ(مسند احمد، حدیث نمبر3187)۔یعنی اے علی، اس کو مٹادو۔ اے اللہ ، تو جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں۔ اے علی، مٹادو اور لکھو، یہ وہ (دفعات) ہیں جن پر محمد بن عبد اللہ نے صلح کیا۔ اس کے بعد صلح کا معاہدہ طے پاگیا، اور آپ اپنے اصحاب کے ہمراہ مدینہ واپس آگئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ بلاشبہ اللہ کی رہنمائی کے مطابق تھا۔ اللہ کی رہنمائی کے بغیر آپ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ سورہ الفتح میں اس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا (48:2)۔ آپ کا یہ عمل بلاشبہ صراطِ مستقیم کا ایک جزء تھا۔ اس لحاظ سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ابدی اصول ہے۔ جس طرح دور اول میں اصول کو اختیار کرنے کے نتیجے میں فتح مبین (48:1) حاصل ہوئی۔ بعد کے دور میں بھی فتح مبین کو حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ مسلمانوں کو فتح مبین تک پہنچانے والا نہیں۔
منصوبہ بندی کایہ طریقہ ہمیشہ دنیا میں باقی رہتا ہے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں اہل ایمان یہ چاہتے ہیں کہ ان کو یہ آزادی ہو کہ وہ قرآن کا پیغام ساری دنیا میں کھلے طور پر پہنچائیں۔ لیکن بار بار ایک رکاوٹ پیش آتی ہے۔ وہ یہ کہ آج کا انسان ، اظہار رائے کی آزادی (freedom of expression) کو انسان کا ایک مطلق حق (absolute right)سمجھتا ہے، اور اس کو وہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ حق کے اس استعمال کا دائرہ کبھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام کے بارے میں آزادانہ اظہارِ خیال کرتا ہے، اور اس کو اپنا ناقابلِ تنسیخ حق سمجھتا ہے۔ مسلمان اس طرح کے واقعات پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ وہ اس کو شتمِ رسول (blasphemy) قرار دے کر چاہتے ہیں کہ شاتم کو قتل کردیں۔ آج کے لوگوں کے لیے مسلمانوں کی یہ روش قابل قبول نہیں۔ چناں چہ اس پر سخت نزاع شروع ہوجاتی ہے۔ اور دعوتِ اسلام کا کام جیو پرڈائز (jeopardize) ہوجاتا ہے۔
شتم رسول (blasphemy) پر ہنگامہ کرنا یا شاتم کو قتل کرنے کی کوشش کرنا، اصولاً اسلام کےخلاف ہے۔ قرآن کی کسی آیت یا رسول کے کسی قول میں یہ حکم موجود نہیں۔ تاہم بالفرض اگر کسی کا اصرار ہو کہ یہ اسلام کا ایک حکم ہے تب بھی ضروری ہے کہ مسلمان اس طرح کے واقعے پر مشتعل ہونا مکمل طور پر چھوڑدیں۔ تاکہ دعوتِ اسلام کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
رسول کا رسول ہونا بلاشبہ اسلام کا ایک مسلمہ عقیدہ ہے۔ پھر بھی رسول اور اصحابِ رسول نے رسول اللہ کے لفظ کو کا غذ سے مٹادیا۔ اسی سنت پر مسلمانوں کو بھی عمل کرنا ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنی روش کو بدل دیں تاکہ اسلام کا پر امن مشن کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔ اسی روش کا نام حکمت (wisdom) ہے۔ حکمت، اسلام کا ایک لازمی اصول ہے۔ حکمت کے بغیر اسلام کا مشن کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتا۔
٭ ٭ ٭٭٭٭ ٭ ٭ ٭٭
میرا عام تجربہ ہے کہ اسکالر لوگوں میںفکری ارتقاء مسلسل جاری رہتا ہے، جب کہ مذہبی لوگوں میںاس طرح فکری ارتقاء نہیں ہوتا۔ مذہبی طبقہ کے لوگ عام طورپر ذہنی ٹھہراؤ کا شکار رہتے ہیں۔ میںاکثر سوچتا رہا ہوں کہ ا س کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیکولر لوگوں میںمسلسل فری ڈائلاگ جاری رہتاہے جب کہ مذہبی لوگوں میں فری ڈائلاگ کاعمل جاری نہیںہوتا۔
واپس اوپر جائیں

جامع تعبیرِِ تاریخ

برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (Arnold J. Toynbee)نے بارہ جلدوں میں ایک کتاب تیار کی ہے، جو دنیا کی انیس تہذیبوں ( 19 world civilizations) کا مطالعہ ہے۔ اس کی آخری جلد 1961 ء میں چھپی۔تاہم یہ کتاب انسانی تاریخ کا جزئی مطالعہ ہے۔ ایک ایسی کتاب کی ضرورت باقی ہے ، جو انسانی تاریخ کی جامع تعبیر (comprehensive interpretation of history) پیش کرے۔
میں نے اس موضوع کا مطالعہ کیا ہے۔ میرےمطالعہ کے مطابق، یہ موضوع ایک مشکل موضوع ہے۔ کیوں کہ ٹائن بی جیسے مؤرخین کو صرف یہ کرنا تھا کہ وہ تاریخ کے معلوم ریکارڈ کی بنیاد پر تاریخ کی ایک موضوعی تصویر پیش کرے۔ لیکن تعبیر (interpretation) کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کیوں کہ یہ موضوع تجزیاتی مطالعہ (analytical study) کا موضوع ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ مصنف تاریخی معلومات کو سارٹ آؤٹ (sort out) کرکے اس کی بامعنی تعبیر پیش کرے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، معلوم تاریخ چھ ادوار (periods) میں تقسیم ہوتی ہے:
1۔ مادی دنیا (material world) ، بگ بینگ (big bang) سے لے کر اب تک۔
2۔ شمسی نظام (solar system) ، جس کے اندر آخر کار انسانی دنیا بنی۔
3۔ انسانی تاریخ (human history)
4 ۔ پیغمبرانہ مشن(prophetic mission)
5 ۔ تہذیبی تائید (civilizational support)
6۔ آخری اعلان (final call)، یعنی انسان کے ایک دورِ حیات کا خاتمہ اور اس کے دوسرے دورِ حیات کا آغاز۔
رب العالمین نے تقریباً تیرہ بلین سال پہلے موجودہ کائنات کی تخلیق کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے اس نے پارٹیکلس (particles) یعنی اجزاءِ کائنات کی تخلیق کی۔ پارٹیکلس کا یہ مجموعہ ابتداءمیں ایک عظیم کاسمک بال (cosmic ball) کی صورت میں خلا میں ظاہر ہوا۔ پھر اس کاسمک بال میں انفجار (explosion )ہوا۔ اس کے بعد تمام ستارے اور کہکشائیں (galaxies) وجود میں آئیں۔
دوسرے مرحلہ میں شمسی نظام بنا۔ پھر شمسی نظام کا ایک سیارہ زمین (planet earth)اپنی موجودہ شکل میں وجود میں آیا۔ اس سیارۂ زمین پر پانی، نباتات ، اور حیوانات وجود میں آئے۔ انسان اس زمین پر آباد ہوا۔ پھر انسانوں کے درمیان ایسے ربّانی افراد پیدا ہوئےجنھوں نے خدا کی خصوصی رہنمائی میں دنیا میں پیغمبرانہ مشن جاری کیا۔
ختم نبوت کے بعد تاریخ کا اگلا دورآیا۔ اس دور میں صلیبی جنگوں (1096-1487)کا سلسلہ چلا۔ اس درمیان ایسے حالات پیدا ہوئے جس کے تحت سائنسی ترقیاں شروع ہوئیں۔ یہاں تک کہ جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی۔ اس تہذیب نے انسان کے اوپر ترقی کے وہ دروازے کھولے جواگرچہ بالقوہ طور پر ہمیشہ سے موجود تھے، لیکن بالفعل طور پروہ بند پڑے ہوئےتھے۔یہ تہذیب بظاہر ایک سیکولر تہذیب تھی، لیکن عملاً وہ پیغمبرانہ مشن کے موافق (pro-prophetic mission) تہذیب کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس تہذیب نے فطرت کے جو راز دریافت کیے، ان کو قرآن میں آفاق و انفس کا اظہار (فصلت53:) کہا گیا ہے۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے پیغمبر کے مشن کے لیے ایک مدد گار تہذیب تھی۔ یہی وہ تاریخی واقعہ ہے جس کو حدیث میں تائیدِ دین (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
جس خدا نے کائنات کی تخلیق کی۔ اسی خدا نے اپنی کتاب ،قرآن کو انسان کے پاس بھیجا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تخلیق کے بارے میں خالق کا منصوبہ کیا ہے۔ اس منصوبہ کے مطابق، موجودہ دنیا اس لیے بنائی گئی ہے کہ یہاں انسان آزادانہ طور پر اپنا عمل کرے۔ انسان اپنے آپ کو ربانی شخصیت (Rabbani Personality) کی صورت میں ڈیولپ کرے۔
انسانی تاریخ کی بامعنی تعبیر (meaningful interpretation)میں صرف ایک چیز لوگوں کے لیے رکاوٹ بنتی ہے۔ وہ یہ کہ اکثر لوگ اپنے خود ساختہ معیار (self-styled criterion) سے انسانی تاریخ کو جانچتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ انسانی تاریخ کو خالق کے مقرر کردہ معیار کی روشنی میں دیکھا جائے۔ ایسا کرنے کی صورت میں پوری تاریخ ایک بامعنی تاریخ بن جائے گی۔
اصل یہ ہے کہ انسانی دنیا اور مادی دنیا میں ایک بنیادی فرق ہے۔ مادی دنیا فطرت کے لازمی قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ اس لیے فطرت کو سمجھنے کا ایک معلوم حتمی معیار موجود ہے۔ اس معیار کو برطانی سائنسداں نیوٹن نے فطرت کے مطالعہ پر کامیابی کے ساتھ منطبق کیا، اس کا انطباق (application) درست ثابت ہوا۔ لیکن انھیں قوانین کو کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے انسانی تاریخ پر منطبق کرنا چاہا تو وہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔خالق نے انسان کو استثنائی طور پر سوچنے اور عمل کرنے کی آزادی عطا کی ہے۔ اس بنا پر انسانی تاریخ کا واحد غیر متغیر نقشہ نہیں بن سکتا۔ انسانی تاریخ کے مطالعے میں یہ کرنا ہوگا کہ اس کے متعلق حصہ (relevant part)کو غیر متعلق حصہ (irrelevant part) سے الگ کیا جائے۔ یعنی تاریخ کے مختلف اجزاء کو سارٹ آؤٹ (sort out)کرکے دیکھا جائے، غیر متعلق اجزاء کو الگ کرکے متعلق اجزاء کی روشنی میں انسانی تاریخ کی تصویر بنائی جائے۔ اس عمل کے بغیر تاریخ کی بامعنی تعبیر نہیں کی جاسکتی۔
قرآن کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ دنیا اس لیے بنائی گئی تاکہ انسان فطرت کے قوانین کا مطالعہ کرے، اور ایک تہذیب وجود میں لائے۔ یہ کام اکیسویں صدی میں اپنی تکمیل تک پہنچ چکا۔ اب دوسرا کام یہ ہے کہ آلاءاللہ (الرحمٰن13:)پر مبنی ایک برتر ربانی تہذیب کی تشکیل دی جائے۔ اس برتر تہذیب کو وہ لوگ وجود میں لاسکتے ہیں، جنھوں نے موجودہ دنیا میں اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا ہو۔ آخرت کی دنیا میں پوری تاریخ سے ایسے تیار شدہ اشخاص (prepared personalities) کو منتخب کرکےجنت کی عظیم دنیا میں جمع کردیا جائے گا۔ تاکہ وہ اگلی برتر تہذیب میں زندگی گزاریں۔
واپس اوپر جائیں

منسوخ، موقوف

دین کے احکام ممکن طور پر دو قسم کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جو قابل تنسیخ ہوں، اور دوسرا وہ جن کو منسوخ تو نہ کیا جاسکتا ہو، لیکن ان کو وقتی طور پر موقوف کرنا درست ہو۔ کسی شرعی حکم کو منسوخ (abrogate) کرنا ایک ا صولی معاملہ ہے۔ اور اصولی معاملہ میں تغیر کا حق صرف شارع کو ہے۔ اور جہاں تک موقوف (suspend) کرنے کا معاملہ ہے، وہ ایک اجتہادی معاملہ ہے، اور امت کے علماء دلائل شرعیہ کے ذریعہ بطور اجتہاد ایسا کرسکتے ہیں۔
ہجرت کے بعد وقتی طور پر قبلۂ یہود کو قبلۂ مسلمین قرار دے دیا گیا، لیکن بعد کو یہ حکم متروک ہوگیا (البقرۃ: 143-144)، اور کعبہ ابدی طور پر اہل اسلام کا قبلہ قرار پایا۔ اب کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس حکم میں تغیر کرے۔کسی حکم کو موقوف قرار دینے کا معاملہ ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ مثلاً اعداد قوت کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اس سےمراد تیر اندازی ہے۔ رسول اللہ نے قرآن کی آیت پڑھی: وأعدوا لہم ما استطعتم من قوة[8:60] ، اورتین مرتبہ کہا:ألا إن القوة الرمی (صحیح مسلم، حدیث نمبر167) ۔موجودہ زمانے میں اس حکم کی حیثیت ایک موقوف حکم کی ہے، لیکن اگر کسی وقت حالات کا تقاضا ہو کہ رمی (تیراندازنی)کے طریقے کو دوبارہ اختیار کیا جائے، تو اس طریقے کو اختیارکیا جاسکتا ہے۔ گویا کہ کسی حکم کا موقوف ہونا،ہمیشہ مشروط معنی میں ہوتا ہے۔
کسی حکم کو منسوخ قرار دینے کا اختیار صرف شارع کو ہے، یعنی اللہ اور اللہ کے رسول کو ۔ اس کےبرعکس، جہاں تک موقوف قرار دینے کا معاملہ ہے، یہ ایک اجتہادی فعل ہے۔ امت کے علماء کو یہ حق ہے کہ وہ قانونِ ضرورت (law of necessity)کے تحت کسی حکم کو وقتی طور پر موقوف قرار دے دیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اصحاب رسول کے زمانے میں اہل فتنہ سے قتال کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ حکم چوں کہ شریعت کے متن میں موجود ہے، اس لیے کوئی شخص اس کو منسوخ نہیں قرار دے سکتا، البتہ ضرورت شرعیہ کے تحت بطور اجتہاد اس حکم کو موقوف قرار دیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

رسول، صحابی، کافر

کسی لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتا ہے، اور ایک اس کا اصطلاحی مفہوم۔ جب ایک لفظ ایک مخصوص اصطلاح (term) کے معنی میں بولا جانے لگے تو اس لفظ کو اس کے مخصوص اصطلاحی مفہوم ہی میں استعمال کیا جائے گا۔ کسی اور معنی میں اس کو استعمال کرنا درست نہ ہوگا۔ یہ اصول مذہب کے شعبوں میں بھی ہے اور سیکولر شعبوں میں بھی۔
اسلام میں رسول اور صحابی اور کافرکے الفاظ، اصطلاحی الفاظ کی حیثیت رکھتےہیں۔ اب ان کو ان الفاظ کے اصطلاحی معنی ہی میں استعمال کیا جائے گا، کسی اور معنی میں ان کا استعمال درست نہ ہوگا۔ اسلام میں رسول ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ اصطلاح کے اعتبار سے اس کا مفہوم ہے فرستادۂ خدا (messenger of God)۔ صحابی سے مراد رسول اللہ کا وہ معاصر انسان ہے جس نے براہ راست آپ سے دین کو پایا ہو، اور اس کو اخلاص کے ساتھ اپنا لیا ۔
اسی طرح اسلام میں کافر بھی ایک اصطلاحی لفظ ہے۔کافر کا لغوی مفہوم ہے انکار کرنے والا۔ مگر اصطلاحی اعتبار سے اس کا مطلب ہے منکر رسول۔ یعنی رسول اللہ کا وہ معاصر انسان جس نے براہ راست رسول سے دین کو پایا لیکن اس نے اس کا اعتراف نہیں کیا، بلکہ وہ اس کا منکر بن گیا۔ اس اعتبار سے اسلام میں کافر کا مطلب ہے، معاصر منکر رسول ۔
کافر کوئی قومی لقب نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو مسلمان نہ ہو وہ کافر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلاً ہر آدمی ایک انسان ہے۔ دنیاوی تعلقات کے اعتبار سے ایک انسان اور دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں۔ فرق کا تعلق اللہ رب العالمین سے ہے۔ قیامت میں اللہ رب العالمین کسی انسان کو جو درجہ دے، وہی اس کا درجہ ہے۔ دنیا کی زندگی میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود کسی کو غیر قوم یا کافر قوم کہے۔ کافر کے لفظ کا رواجی استعمال، ہم اور غیر (we and they) کا تصور پیدا کرتا ہے۔ حالاں کہ اسلام کے مطابق، صحیح تعلق وہ ہے جو ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر قائم ہو۔
واپس اوپر جائیں

رسول اللہ کا کارنامہ

جدید تعلیم یافتہ طبقہ اکثر یہ سوال کرتا ہے کہ انسانی تاریخ کی لیے پیغمبر اسلام کی دین (contribution)کیا ہے۔ میں کہوں گا کہ آپ کی دین خاص طور پر دو چیزیں ہیں— موحدانہ تصور خدا(monotheistic concept of God)، عملی آئڈیلزم (practical idealism)۔ یہ دونوں چیزیں انسانی ترقی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مگر تاریخ میں یہ دونوں چیزیں مفقود رہیں۔ انسان ہمیشہ سے خدا کو مانتا تھا، لیکن وہ خدا کے ساتھ مشرکانہ تصورات کو ملائے ہوئے تھا، وہ خالص توحید پر قائم نہ تھا۔ پیغمبر اسلام نے انسان کوبے آمیز توحید پر قائم کیا۔ یہ بلاشبہ انسان کے لیے پیغمبر اسلام کا سب بڑا نظریاتی تحفہ تھا۔ کیوں کہ یہ صرف خالص توحید ہے جس کے ذریعہ خدا کا تصور صحیح بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
دوسری چیز عملی آئڈیلزم (practical idealism) ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ آئڈیلزم کو چاہنے والا بنا رہا۔ لیکن آئڈیلزم عملی طور پر کبھی انسان کو حاصل نہ ہوسکی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان نے اس راز کو نہیں جانا کہ اگر چہ وہ پیدائشی طور پر معیار پسند ہے۔ لیکن مختلف اسباب سے اس دنیا میں عملاً آئڈیلزم کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ انسان خوداپنے آپ کو معیار پسند (idealist) بنا سکتاہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں اس قسم کے معیار کا حصول ممکن نہیں۔ اس لیے اجتماعی زندگی میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی عملی آئڈیلزم پر راضی ہوجائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول کو نہ صرف بتایا بلکہ اپنی عملی زندگی میں اس کا کامل نمونہ بھی قائم کردیا۔ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی اس اصول کا عملی نمونہ ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگرچہ آپ کو کامل یقین تھا کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ لیکن معاہدۂ حدیبیہ کے وقت جب فریق مخالف نے اصرار کیا کہ معاہدہ کے متن سے محمد رسول اللہ کا لفظ نکال دیا جائے، اور اس کی جگہ محمد بن عبد اللہ لکھا جائے تو آپ فوراً اس پر راضی ہوگئے۔ آپ کی یہ رضامندی عملی آئڈیلزم کی بنیاد پر تھی، نہ کہ خالص آئڈیلزم کی بنیاد پر۔
واپس اوپر جائیں

رے آف ہوپ

تخلیق کے قانون کے مطابق، موت ہر عورت اور ہر مرد پر آتی ہے۔ موت کیا ہے۔ موت یہ ہے کہ آدمی موجودہ دنیا سے مکمل طور پر جدا ہوجائے، اور اس دنیا میں پہنچ جائے جس کو آخرت کہا جاتا ہے۔یہ آخرت کی دنیا کیا ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی دنیا ہے۔ وہاں وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّہِ (الانفطار16:) کا اصول رائج ہے۔ موجودہ دنیا بھی اللہ کے حکم کے تحت ہے۔ لیکن یہاں سب کچھ غیب میں ہو رہا ہے۔ آخرت وہ جگہ ہے، جہاں اللہ کی ہستی ایک مشہود ہستی بن جائے گی۔ جہاں بندہ براہ راست طور پر اپنے رب کے سامنے اپنے آپ کو پائے گا۔
اللہ کا تصور یہ ہے کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ وہ تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ انسان پر جب موت آتی ہے تو اس کے لیے یہ ایک ایسے سفر کی طرف جانا ہوتا ہے، جہاں اس کی ملاقات اللہ رب العالمین سے ہونے والی ہے، جہاں بندہ اپنے آپ کو معبود کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا۔ جب معبود رحمان و رحیم ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اور رب کی یہ ملاقات یقیناً ایک پُرامید ملاقات ہوگی۔ یہاں بندہ اپنے رب کی طرف سے وہ چیز پائے گا، جس کی امید وہ ایک مہربان رب سے کیے ہوئے تھا۔
ایک حدیث قدسی میں آیا ہے:أنا عند ظن عبدی بی (مسند احمد، حدیث نمبر 9076)۔ یعنی میںبندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ رب العالمین ایک رحیم و کریم رب ہے، اس کی مہربانیاں ہر مخلوق کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ایسا انسان ضرور یہ بھی مانے گا کہ جب اس کی ملاقات اللہ سے ہوگی تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسے رب کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا، جو تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔بندے کا یہ احساس اس کو ضرور یہ یقین دے گا کہ میرا رب ایک مہربان رب ہے، وہ ضرور میرے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرے گا۔ یہ یقین کسی بندے کے لیے اس کی موت کو ایک مثبت موت بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صبر کی عظمت

ایک حدیث رسول صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ:إن ناسا من الأنصار سألوا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فأعطاہم، ثم سألوہ، فأعطاہم، ثم سألوہ، فأعطاہم حتى نفد ما عندہ، فقال: ما یکون عندی من خیر فلن أدخرہ عنکم، ومن یستعفف یعفہ اللہ، ومن یستغن یغنہ اللہ ومن یتصبر یصبرہ اللہ، وما أعطی أحد عطاء خیرا وأوسع من الصبر (صحیح البخاری، حدیث نمبر1469)۔ یعنی انصار کے کچھ لوگوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا۔ آپ نے ان کو دے دیا، انھوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دے دیا، انھوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دے دیا۔ یہاں تک کہ جو کچھ تھا آپ کے پاس وہ ختم ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا میرے پاس جو کچھ بھی مال ہوگا، میں تم سے بچا نہیں رکھوں گا اور جو شخص سوال سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے جو شخص غنا کا طریقہ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے غنا میں اضافہ کرے گا اور جو شخص صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا کرے گا اور کسی شخص کو صبر سے بہتر اور کشادہ نعمت نہیں ملی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے سے مانگ کر حاصل کرلے۔ لیکن اس سے زیادہ اعلی طریقہ یہ ہے کہ آدمی محنت کرے، اور خود اپنی محنت کے ذریعہ حاصل کرے۔اس دنیا میں محنت کے ذریعہ پانے کے مواقع ہر ایک کے لیےکھلے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے، اس کو وہ اپنی محنت کے ذریعہ حاصل کرے۔
محنت کے ذریعہ حاصل کرنا، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ بہت سے مزید فوائد کا ذریعہ ہے۔ آدمی جب ذاتی محنت سے حاصل کرنا چاہتا ہے، تو وہ اپنی سوچ میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ منصوبہ بندی کا طریقہ دریافت کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو زیادہ سنجیدہ بناتا ہے۔ وہ اپنے شکر کے جذبات میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ اپنے اندر ذہنی ارتقا کے عمل کو جاری کرتا ہے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

اجتہاد کا فقدان

امت کےدور زوال کے بارے میں ایک پیشین گوئی حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔الفاظ یہ ہیں:تنزع عقول أکثر ذلک الزمان، ویخلف لہ ہباء من الناس لا عقول لہم(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔ یعنی اُس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی اور ذروں کی طرح لوگ باقی رہ جائیں گے، جن کے پاس عقلیں نہ ہوں گی۔
عقل (reason)تو فطرت کا ایک عطیہ ہے۔ عقل کے معاملے میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ ابتدائی نسلوں میں عقل رہے، اور بعد کی نسلوں میں وہ چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کا چھننا، عضویاتی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ سمجھ (understanding) کے معنی میں ہے۔ یعنی عقل تو موجود ہوگی، لیکن سمجھداری موجود نہ ہو گی۔ مزید غور وفکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی نسلوں میں اجتہادی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ اس لیے وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ حالات کے مطابق شریعت کی تطبیق نو (reapplication) کرکے اپنے حالات کے اعتبار سے اس کی پیروی کریں۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صلاحیت اجتہاد کا خاتمہ کلی طور پر نہ ہوگا۔ وہ اس معنی میں ہوگا کہ جہاں مجبوری (compulsion) کی صورت حال ہو، وہاں تو وہ اجتہاد پر عمل کریں گے۔ لیکن جہان مجبوری کی صورت حال نہ ہوگی ، وہاں وہ اپنے روایتی ذہن پر قائم رہیں گے، اور اجتہاد نہ کرسکیں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں حج کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَى کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ (22:27)۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر دور دراز راستوں سے آئیں گے۔
اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاجیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقامات سے اونٹ پر سفر کرکے مکہ پہنچیں۔ قدیم زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں جب مشینی سواری کا دور آیا تو اب کوئی حاجی ایسا نہیں کرتا کہ وہ اب بھی سواری کے لیے اونٹ کا استعمال کرے، اور اس طرح مقامات حج تک پہنچے۔ بلکہ اب تمام حاجی یہی کرتے ہیں کہ دور کے مقامات سے وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں، اور قریب کے مقامات سے کاروں اور بسوں پر۔ حالاں کہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ علما نے جمع ہو کر یہ فتوی دیا ہو کہ اب زمانہ بدل گیا۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حیوانی سواری کے بجائے، مشینی سواری پر سفر کرکے مقام حج تک پہنچیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ زمانے کے حالات میں اور بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ تاہم امت کے عوام یا علماء اس معاملے میں ایسا نہ کرسکے کہ وہ اجتہاد کریں اور قدیم طریقے کو چھوڑ کر نئے طریقے پر عمل کریں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جدو جہد کا طریقہ بدل گیا ہے۔ قدیم زمانے میں کسی مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ جدو جہد (violent struggle) کا طریقہ رائج تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ اب متشددانہ جدو جہد کا طریقہ غیر مؤثر بن گیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ پر امن جدو جہد (peaceful struggle) کے ذریعہ ہر قسم کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ ایسی حالت میں اجتہاد کا تقاضا تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان تشدد کے طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور امن کے طریقے کو پوری طرح اختیار کر لیں۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
حالاں کہ اس معاملے میں حدیث رسول میں پیشگی طور پر رہنمائی موجود تھی۔ حضرت عائشہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتاتی ہیں : ما خیر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بین أمرین، أحدہما أیسر من الآخر، إلا اختار أیسرہما (صحیح مسلم، حدیث نمبر2327)۔ یعنی آپ کو جب بھی دو کاموں میں ایک اختیار کرنا ہوتا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا، تو آپ ان دونوں میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ یہ ظاہر ہے کہ متشددانہ طریقۂ کار کے مقابلے میں پر امن طریقۂ کار آسان ہے۔ ایسی حالت میں حدیث رسول کے مطابق مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ متشددانہ طریقۂ کار کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے صرف پر امن طریقۂ کار پر عمل کریں۔ مگر اجتہاد کے فقدان کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

رسول اور اصحابِ رسول

تمام پیغمبروں کےآخر میں اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا۔ حضرت علی، رسول اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو بھی آپ کو پہلی بار دیکھتا مرعوب ہوجاتا۔ جو ساتھ بیٹھتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3638)
ایک حدیث (جامع الاصول، حدیث نمبر9317)میں ہے رسول اللہ فرماتے ہیں کہ میرے رب نے مجھے 9 باتوں کا حکم دیا ہے:
1۔ کھلے اورچھپے ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہوں۔
2۔ غصہ میں ہوں یا خوشی میں ہمیشہ انصاف کی بات کہوں۔
3۔ محتاجی اور امیری میں دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہوں۔
4۔ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں۔
5۔ جو مجھے محروم کرے میں اس کو دوں۔
6۔ جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کردوں۔
7۔ اور میری خاموشی غور وفکر کی خاموشی ہو۔
8۔ میرا بولنا یادِ الٰہی کا بولنا ہو۔
9۔ میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقل مند شخص کے لئے لازم ہے کہ اس پر کچھ گھڑیاں گزریں۔ ایسی گھڑی جب کہ وہ اپنے رب سے باتیں کرے۔ ایسی گھڑی جب کہ وہ اپنی ذات کا محاسبہ کرے۔ ایسی گھڑی جب کہ وہ خدا کی تخلیق میں غور کررہا ہو اور ایسی گھڑی جب کہ وہ کھانےپینے کی ضرورتوں کے لئے وقت نکالے۔ (ابن حبان، حدیث نمبر 361)
حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ان کے گھر میں تھے، آپ نے خادمہ کو بلایا، اس نے آنے میں دیر کردی۔ آپ کے چہرے پر غصہ ظاہر ہوگیا۔ اُم سلمہ نے پردے کے پیچھے جاکر دیکھا تو خادمہ کو کھیلتے ہوئے پایا۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ آپ نے خادمہ کو مخاطب کرتےہوئے فرمایا: اگر قیامت کے دن مجھے بدلہ کا ڈر نہ ہوتا تو میں تجھ کو اس مسواک سے مارتا (لولا خشیة القود یوم القیامة، لأوجعتک بہذا السواک)۔الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر 184
بدر کی جنگ 2 ہجری میں ہوئی ۔ جو لوگ قیدی بن کر آئے وہ رسول اللہ کے بدترین دشمن تھے مگر آپ نے ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ اِن قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو تھا۔ وہ اپنی شاعری سے رسول اللہ کے بارے میں گستاخانہ تقریر کرتا تھا۔ حضرت عمر نے مشورہ دیا کہ اس کے سامنے والے دانت توڑ دیے جائیںتاکہ آئندہ یہ تقریر نہ کرسکے۔ لیکن آپ نے فرمایا: اگر میں ایسا کروں تو خدا میرا چہرہ بگاڑ دے گا اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں ( لا أمثل بہ فیمثل اللہ بی وإن کنت نبیا)۔سیرۃ ابن ہشام، 1/649
حسن بصری تابعی نے ایک بار اپنے زمانہ کے لوگوں سے کہا: میں نے 70 بدری صحابیوں کو دیکھا ہے۔ ان کا لباس زیادہ تر صوف کا ہوتا تھا۔ اگر تم ان کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ مجنون ہیں (مجانین)۔اور اگر وہ تم کو دیکھتے تو کہتے کہ ان کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے (ما لہؤلاء من خلاق)۔اور اگر وہ تمھارے بروں کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ لوگ حساب کے دن پر یقین نہیں رکھتے (ما یؤمن ہؤلاء بیوم الحساب)۔حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 2/134
عبد اللہ بن مسعود کہتےہیں کہ اصحابِ رسول اس امت کے بہترین لوگ تھے وہ بہت اچھے دل والے، بہت گہرے علم والے اور تکلفات سے دور تھے(کانوا خیر ہذہ الأمة، أبرہا قلوبا، وأعمقہا علما، وأقلہا تکلفا)۔حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 1/305۔ رسول اور اصحاب رسول کی یہ زندگی اختیاری زندگی تھی، وہ کسی مجبوری کی بنا پر نہ تھی۔ یہی طریقہ بعد کے لوگوں کے لیے بھی نمونہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

معاونِ اسلام تہذیب

تہذیب (civilization) کیا ہے۔ تہذیب ایک جدید اصطلاح ہے۔ اس سے مراد سوشل ترقی کا وہ اسٹیج ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کو سمیٹے ہوئے ہو۔
Civilization is an advanced stage of human society, where people live with a reasonable degree of organization and comfort and can think about things like art and education.
کلچر ایک قومی ظاہرہ ہے۔ اس کے مقابلے میں تہذیب ایک عمومی انسانی ظاہرہ ۔ تاریخ میں بہت سی تہذیبیں شمار کی جاتی ہیں۔ لیکن مبنی بر فطرت ظاہرہ کے اعتبار سے ایک ہی واقعہ ہے جس کو تہذیب کہا جاسکتا ہے، اور وہ مغربی تہذیب (western civilization) ہے۔ دوسری تہذیبیں اپنی حقیقت کے اعتبار سے قومی کلچر تھیں، نہ کہ کامل معنوں میں تہذیب۔اس سلسلے میں ایک امریکی مصنف کی کتاب بہت مشہور ہوئی:
Samuel P. Huntington: The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order (1996)
اس کتاب کا ٹائٹل میرے نزدیک کنفیوزن پیدا کرتا ہے۔ مصنف نے کتاب کا ٹائٹل تہذیبوں کا تصادم بنایا ہے۔ مگر کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کا موضوع اپنی حقیقت کے اعتبار سے قومی انٹرسٹ ہے، نہ کہ تہذیبوں کا تصادم۔
مغربی تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے مغربی تہذیب نہیں ہے، بلکہ وہ ایک مبنی بر فطرت تہذیب ہے۔ اس اعتبار سے وہ پوری انسانیت کا مشترک سرمایہ ہے۔ کچھ مقامی اثرات کی بنا پر اس کو مغربی تہذیب کہا جاتا ہے۔ لیکن مقامی اثرات کو حذف کرکے دیکھا جائے تو وہ بلاشبہ ایک انسانی تہذیب ہے۔ ہر گروہ اس میں برابر کا حصہ دار ہے۔ حتیٰ کہ مسلم گروہ بھی۔ اضافی پہلوؤں کو نظر انداز کردیا جائے تو مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کہنا بجا طور پر درست ہوگا۔دوسری تہذیبیں پولیٹکل اقتدار کے تحت بنیں۔ اس کے برعکس، مغربی تہذیب بنیادی طور پراس وقت بنی جب کہ غیرپولیٹکل سائنسدانوں نے کائنات کے فطری قوانین (laws of nature)کو دریافت کیا۔
قرآن کی ایک متعلق آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہ ُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُون (45:13)۔ اور اس نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔
تسخیر کا مطلب ہے تابع بنا نا (to subject)۔ تابع کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں کو جس طرح چاہے اپنی خدمت کے لیے استعمال کرے۔ مثلا گھوڑا اور بیل میں پیدائشی طور پر یہ صفت ہے کہ انسان جب ان کو اپنا تابع بنا کر کوئی خدمت لینا چاہے تو وہ بآسانی انسان کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔ یہی حال تمام ان چیزوں کا ہے جو ہمارے آس پاس اس دنیا میں پائی جاتی ہیں۔
اس کی دوسری مثال ٹکنالوجی ہے۔ ٹکنالوجی گھوڑے کی طرح خارجی دنیا میں پیشگی طور پر موجود نہ تھی۔ وہ انسان کے لیے ایک ایسی چیز تھی، جس کو وہ دریافت کرے۔ اس کے بعد ہی وہ انسان کے لیے قابل استعمال بنتی ہے۔ انسان نے اپنی عقل کو استعمال کرکے یہ دوسرا کام کیا ۔ اس نے ٹکنالوجی کی مختلف صورتوں کو دریافت کیا، اور پھر تجربہ کے ذریعہ ان کو اپنے لیے قابل استعمال بنایا۔
اس اعتبار سے پوری کائنات انسان کے لیے ایک مسخر کائنات ہے۔ کچھ چیزیں براہ راست طور پر انسان کے قبضہ قدرت میں ہیں، مثلا گھوڑا۔ اور کچھ چیزیں بالواسطہ طور پر انسان کے لیے قابل استعمال ہیں، مثلا موٹر کار اور ہوائی جہاز، وغیرہ۔ اس اعتبار سے پوری دنیا کو معاون انسان دنیا کہا جاسکتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
کامل آرام یا کامل خوشی کسی کو اس دنیا میں نہیں مل سکتی ،
کامل مسرت صرف آخرت ہی میں ممکن ہے۔
واپس اوپر جائیں

تردیدی لٹریچر

قرآن کی ایک تعلیم یہ ہے کہ دعوت حق کا کام مثبت انداز میں کیا جائے، منفی انداز میں نہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کا مطالعہ کیجیے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (6:108)۔ یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو گالی نہ دو، ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالی دینے لگیں گے۔
قرآن کی یہ آیت جب اتری تو اولاً اس کا خطاب اصحاب رسول سے تھا۔ حدیث و سیرت کے ذخیرے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ اس زمانے کے غیر مسلموں سے سبّ و شتم کی زبان بولتے تھے۔ سبّ و شتم کا لفظ یہاں شناعت کے اعتبار سے آیا ہے، نہ کہ واقعہ کے اعتبار سے۔ اصل میں جو واقعہ ہوا تھا ، وہ یہ کہ بعض صحابی نے غیر احسن مجادلہ کی زبان میں بعض یہود سے گفتگو کی۔ مثلا ایک یہودی نے کہا کہ موسی تمام عالم سے افضل ہیں۔اس کو سن کر ایک صحابی نے کہا کہ محمد تمام اہل عالم سے افضل ہیں۔ یہ بات بڑھی، یہاں تک کہ صحابی نے یہودی کو ماردیا۔
مذکورہ آیت میں اہل ایمان کو اسی قسم کے غیر احسن مجادلہ سے روکا گیا ہے۔ کیوں کہ جب بھی غیر احسن انداز میں مجادلہ کیا جائے گا تو اس کا رد عمل (reaction) ہوگا۔ اس اصول کی روشنی میں تردیدی انداز دعوت ، یقینی طور پر غیر اسلامی انداز دعوت ہے۔ کیوں کہ اگر آپ ردّ عیسائیت اور ردّیہودیت کے اسلوب میں کتابیں لکھیں گے، تو دوسرا فریق بھی ردّ اسلام کے انداز میں کتابیں لکھے گا۔ تردیدی اسلوب کا ردّعمل ہمیشہ تردیدی اسلوب کی صورت میںظاہر ہوتا ہے۔
تردیدی اسلوب کی کوئی حد نہیں۔ تردیدی اسلوب جس طرح دوسرےمذاہب کے خلاف ممکن ہے، ٹھیک اسی طرح وہ اسلام کے خلاف بھی ممکن ہے۔ یہ اسلوب کی بات ہے، نہ کہ حق و ناحق کی بات۔ موجودہ زمانہ میں مناظرہ (debate) کا طریقہ نتیجہ کے اعتبار سے اسی سبّ و شتم کا طریقہ ہے۔ دعوت کا موثر اسلوب صرف مثبت اسلوب ہے، تردیدی اسلوب ہرگز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دنیا کی تخلیق

سائنسی دریافت کے مطابق، تقریباً تیرہ بلین سال پہلے خلا (space)میں ایک دھماکہ ہوا۔ اس کو بگ بینگ کہا جاتا ہے۔اس دھماکے کے بعد ہماری دنیا کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ایک منصوبہ بند پراسس (well-calculated planning) کے تحت پوری کائنات وجود میں آئی۔ کہکشائیں (galaxy) وجود میں آئیں، شمسی نظام (solar system) بنا، سیارۂ ارض کی تخلیق ہوئی، پانی ، ہوا، سبزہ اور حیوانات وجود میں آئے۔آخر میں انسان کی آبادی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ موجودہ آباد دنیا وجود میں آئی۔
دنیا میں پیش آنے والے ان واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا کی تخلیق ایک منصوبہ بند انداز میں ہوئی۔ دنیا کے آغاز سے لے کر اب تک جو باتیں پیش آرہی ہیں، وہ سب اس منصوبہ بند تخلیق کی تائید کرتی ہیں۔ اس کے سوا اس ظاہرے کی کوئی اور توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ مستقبل کے اعتبار سے دنیا کا انجام کیا ہے۔ قرآن اس واقعہ کو جاننے کا مستند ذریعہ ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو ابتلا (الملک 2:)کے لیے پیدا کیا۔ یعنی ایک تربیتی کورس سے گزار کر ایسے لوگوں کو جاننا جوقابل انتخاب ہوں۔ آخر میں اللہ رب العالمین ایسے لوگوں کے ریکارڈ کی بنیاد پر ان کو منتخب کرے گا، اور ان کو آخرت کی ابدی جنت میں داخل کرے گا۔ جنت میں داخلہ کسی اور بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ صرف اس بنیاد پر ہوگا کہ آدمی نےاپنی آزادی کا غلط استعمال کیا یا صحیح استعمال کیا۔ اس نے اپنے قول و عمل سے اپنے اندر جو شخصیت تعمیر کی، وہ جنت میں رہنے کے قابل ہے، یا اس میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ اپنے پڑوسیوں کے لیے پرابلم پرسن بنے، یا وہ لوگوں کے درمیان پر امن طور پر رہے۔ اسی حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یدخل الجنة أقوام، أفئدتہم مثل أفئدة الطیر(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2840) ۔ یعنی جنت میں وہ لوگ داخل ہوں گے، جن کے دل چڑیوں کے دل کی مانند ہوں ۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کاسفر

اللہ کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ رب العالمین ہے۔ربً یربًُ کا مطلب عربی زبان میں ہوتا ہے:إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام (المفردات فی غریب القرآ ن للراغب الأصفہانى، رب)۔ یعنی کسی چیز کو درجہ بدرجہ ترقی دے کر اس کوکمال تک پہنچانا۔ رب العالمین کی اس صفت کا اظہار مادی کائنات میں بھی ہوا ہے، اور انسانی تاریخ میں بھی۔
قرآن میں سات بار یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں (ستۃ ایام) میں پیدا کیا ۔ چھ دنوں سے مراد چھ ادوار (six periods) ہیں۔ قرآن سے یا سائنس سے واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ چھ ادوار سے مراد کیا ہے ۔ لیکن قیاسی طور پر اس کا ایک نقشہ بیان کیا جاسکتا ہے۔
1 - مادی کائنات کا غالبا پہلا دور وہ ہے جس کو قرآن میں اشارۃ رتق اور فتق (الانبیاء30:) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں دریافت ہونے والےاس عظیم کائناتی واقعہ کو فریڈ ہائل ( Fred Hoyle) نےبگ بینگ کا نام دیا ہے۔ اس کے مطابق کائنات اپنے آغاز میں ایک بہت بڑے ایٹم (super atom) کی شکل میں خلا میں پیدا ہوا۔ پھر اس گولے میں ایک دھماکہ ہوا ۔ جس کے بعد اس گولہ کے تمام پارٹیکل وسیع خلا میں پھیل گئے اور دھیرے دھیرے موجودہ کائنات بنی۔
2 - دوسرا دور غالبا وہ ہے جس کو امریکی سائنسداں اَلَن بوس ( Alan Boss) نے لٹل بینگ کا نام دیا ہے۔یہ دور وہ ہے جو شمسی نظام (Solar System) سے شروع ہوا۔ یہ شمسی نظام ہماری قریبی کہکشاں (Milky Way) کے ایک کنارے پر واقع ہے۔ اس سے مراد وہ پوری دنیا ہے جس کو شمسی نظام کہا جاتا ہے۔اسی نظام کے اندر ہماری زمین (planet earth) واقع ہے۔
3 - مادی دنیا میں غالباًپیش آنے والا تیسرا بڑا واقعہ وہ ہے جس کو واٹر بینگ کہا جاسکتا ہے۔ زمین کی فضا میں پائی جانے والی دو گیسوں کی ترکیب سے سیال پانی وجود میں آیا۔ جو زندگی کے تمام اقسام کی اصل ہے۔
4 - مادی کائنات کا چوتھا واقعہ وہ ہے جس کو پلانٹ بینگ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد زمین کی سطح پر ہرقسم کی ہریالی وجود میں آئی۔ اور زمین کا خشک کرہ ہر قسم کی ہریالی کے وجود میں آنے سے سر سبز و شاداب ہوگیا۔
5 - اس کے بعد زمین پر وہ واقعہ وجود میں آیا جس کو انیمل بینگ (animal bang) کہا جاسکتا ہے۔اس کے بعد زمین پر ہر قسم کے حیوانات وجود میں آئے، مثلاً مچھلی ، چڑیا، ہر قسم کے چوپائے، اور کیڑے مکوڑے، وغیرہ۔ایک اندازہ کے مطابق زمین پر زندہ انواع کی تقریبا 8.7 ملین قسمیں ہیں۔
6 - اس سلسلے میں وہ آخری واقعہ پیش آیا جس کو ہیومن بینگ (human bang) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی انسان کا پیدا ہونا، اور انسانی نسلوں کا زمین کے اوپر آباد ہونا۔ انسانی دور زمین کا آخری دور ہے ۔اس کے بعد جو دور آئے گا، وہ آخرت کا ابدی دور ہوگا۔
انسانی تاریخ
یہی معاملہ انسان کے ساتھ پیش آیا۔ اللہ رب العالمین جس طرح عالم مادی کی ربوبیت کررہا ہے، اسی طرح وہ انسانی تاریخ کو بھی مینج (manage) کر رہا ہے۔ تاکہ وہ درست سمت میں سفر کرتے ہوئے اپنی آخری مطلوب منزل تک پہنچ جائے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی تاریخ کے سفر کے بنیادی طور پر چھ مراحل ہیں۔ یہ تاریخ انسانِ اول آدم سے شروع ہوئی، اور اب اکیسویں صدی میں وہ غالباً اپنے سفر کے آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ یہ مراحل ممکن طور پر حسب ذیل ہیں — انبیاء کا دور، ابراہیمی منصوبے کا دور، خاتم النبیین کا دور، امت مسلمہ کا دور، مغربی اقوام کا دور،فائنل دور۔
اللہ رب العالمین نے انسان کو پیدا کرکے اس کو سیارۂ ارض (planet earth) پر آباد کیا۔ اس طرح انسان کی تاریخ بننا شروع ہوئی۔ تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق،انسان کی آخری منزل جنت (Paradise) ہے۔ جنت گویا انسان کا ابدی ہیبیٹاٹ (eternal habitat) ہے۔ جنت وہ آفاقی جگہ ہے جہاں وہ لوگ ابدی طور پرر ہیں گے، جو موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو جنت کے لیے اہل (competent) ثابت کریں۔
تخلیقی منصوبہ کے مطابق، انسان کی زندگی دوادوار میں تقسیم ہے۔ موت سے پہلی کی دنیا اور موت کے بعد کی دنیا۔ موت سے پہلے کی دنیاگویا ایک تربیت گاہ (nursery) کی حیثیت رکھتی ہے، اور موت کے بعد کی دنیا اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ (habitat)ہے۔ جہاں اس کو کامل فل فِلمینٹ (fulfilment) کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔دوسرے الفاظ میں یہ کہ موجودہ دنیا انتخاب کی دنیا (selection ground) ہے، اور بعد کی دنیا وہ ہے جہاں منتخب افراد اپنے آئڈیل کے مطابق ابدی طور پر زندگی گزاریں گے۔
رہنمائی کا انتظام
اس تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کے لیے ایک رہنمائی (guidance) کی ضرورت تھی۔ تاکہ یہاں پیدا ہونے والے عورت اور مرد صحیح راہ (right path) پر چلیں، اور غلط راہوں میں بھٹکنے سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اس کے لیے خالق نے ہر نوعیت کا انتظام فرمایا۔ جولوگ اس انتظام سے رہنمائی لیتے ہوئے زندگی گزاریں، وہ یقینی طور پر غلط سمتوں میں بھٹکنے سے بچیں گے، اور اپنی زندگی کو فلاح کی زندگی بنانے میں کامیاب رہیں گے۔
رہنمائی کے معاملے میں خالق نے مختلف سطحوں پر اعلیٰ انتظام کیا ہے۔پہلی سطح فطرت کی سطح ہے۔ فطرت کی سطح پر انسان کو پیدائشی طور پر نیک اور بد کی تمیز(الشمس8:) عطا فرمائی ہے۔ انسان اگر اپنے شعور کو زندہ رکھے تو یقینا فطرت کی رہنمائی اس کے لیے کافی ہوجائے گی۔
دوسرا مرحلہ ارد گرد کی کائنات ہے۔ہمارے گرد و پیش جو مادی کائنات ہے، اس میں خالق نے ہر اچھی بات کے مادی نمونے (material illustrations) رکھ دیے ہیں۔ آدمی کا شعور اگر بیدار ہو تووہ اپنے گرد و پیش کی دنیا میں ہر دن اپنے لیے خاموش رہنمائی پاسکتا ہے۔
رہنمائی کی تیسری سطح یہ ہے کہ خالق نے ہر زمانے میں اور ہر مقام پر اپنے پیغمبر بھیجے، جو لوگوں کو ان کی اپنی قابل فہم زبان میںفلاح کا راستہ بتاتے رہے۔ ساتویں صدی میں خالق نے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور ان کے ذریعہ سے رہنمائی کی مستند کتاب (authentic book) بھیج دی۔ پیغمبر آخر الزمان کے بعد یہ رہنمائی اس طرح جاری ہے کہ ایک طرف قرآن اور پیغمبر کا اسوہ لفظی رہنمائی کی صورت میں موجود ہے۔ اور دوسری طرف اللہ کی توفیق سے زندہ رہنما برابر اٹھ رہے ہیں۔
اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إن اللہ یبعث لہذہ الأمة على رأس کل مائة سنة من یجدد لہا دینہا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4292)۔ یعنی بے شک اللہ اس امت کے لیےہر سو سال کے سرے پر ایسے افراد بھیجے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید (revival) کرتے رہیں گے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر کی آمد کا سلسلہ شخصی معنوں میں ختم ہوجائے گا، مگراس وقت بھی پیغمبرانہ رہنمائی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ امت میں ایسے اہل علم افراد پیدا ہوتے رہیں گے جو اللہ کی توفیق سے امت اور عام انسانوں کو خدائی سچائی سے باخبر کرتے رہیں ۔ ان مجددین اور ان کے ساتھیوں کی درست کارکردگی کی یہ ضمانت ہوگی کہ لوگوں کو ہمیشہ یہ موقع حاصل رہے کہ ایسے ہر فرد کے کام کو قرآن و سنت کی روشنی میں جانچیں ، اور صرف اس رہنمائی کو قبول کریں جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہو۔ جو رہنمائی قرآن و سنت کے معیار (criterion) پر نہ اترے اس کو رد کردیا جائے۔
اس تشریح کے مطابق ، انسانی تاریخ کا یہ سفر اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کرکے وہ عمل کریں جو آخرت میں ان کے کام آنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تعارفی ماڈل

ہر عورت اور مرد جو اس دنیا میں آتے ہیں، وہ فطری طور پر بہت سی خواہشات (desires) لے کر آتے ہیں۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ ان خواہشوں کی تکمیل کرے، لیکن ہر انسان آخر میں محسوس کرتا ہے کہ ساری کوششوں کے باوجود وہ فل فلمنٹ (fulfilment) سے محروم رہا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ انسان کو اس کا اپناہیبٹاٹ (habitat) نہیں ملا۔
انسان دیکھتا ہے کہ اس دنیا میں چڑیوں کو ان کا ہیبٹاٹ ملا ہوا ہے، مچھلیوں کو ان کاہیبٹاٹ ملا ہوا ہے۔ لیکن انسان اپنے ہیبٹاٹ سے محروم ہے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ ایک مکمل کائنات ہے۔اس دنیا میں ہر طرف کامل ڈیزائن (design) ہے، اس دنیا میں ہر طرف اعلی منصوبہ ہے، اس دنیا میں ہر طرف ذہانت کے نمونے ہیں۔ مگر انسان کا ہیبٹاٹ وسیع دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ اس معاملے کو دیکھ کر ایک سائنسداں نے کہا تھاکہ بظاہر انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے، جو اس کے لیے بنائی نہیں گئی:
It appears that the world was not made for him
انسان کا ہیبٹاٹ بظاہر اس دنیا میں ایک گم شدہ آئٹم (missing item) ہے۔ اب اگر آپ اس نظر سے قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ دریافت کریں گے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو اس گم شدہ آئٹم کی نشاندہی کررہی ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو قرآن کے علمی مطالعہ سے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے۔ (ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب عظمت قرآن، صفحات 151)۔قرآن کے مطابق یہ گم شدہ آئٹم وہی ہے جس کو جنت کہا جاتا ہے۔ اس لیے جنت کے بارے میں قرآن انسان کو خطاب کرتے ہوئے بتاتا ہے : اور تمہارے لیے وہاں ہر وہ چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے(41:31)۔
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ سیارۂ ارض (planet earth) میں وہ تمام آئٹم موجود ہیں، جن کی خواہش انسان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ مگر یہ تمام خواہشیں غیر کامل حالت میں ہیں، کوئی بھی خواہش یہاں کامل حالت میں موجود نہیں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے، اور وہاں کی تمام اعلیٰ چیزوں کا تجربہ کریں گے، تو وہ کہیں گےکہ یہ تو وہی ہے جو ہم کو دنیا میں ملا تھا، اور جنت دنیا کی متشابہ (similar) ہوگی(البقرۃ: 25)۔
اس پورے معاملے پر غور کیجیے تو آپ یہ دریافت کریں گے — خالق نے انسا ن کو ایک مکمل وجود کی حیثیت سے پیدا کیا اور اس کو موجودہ زمین پر بسایا۔ مگر انسان اور اس زمین کے اندر ایک عدم مطابقت تھی۔ وہ یہ کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے فل فلمنٹ چاہتا تھا۔ لیکن اس دنیا میں انسان کو کوئی بھی چیز کامل فل فلمنٹ کے درجے میں حاصل نہیں ہے۔ اس دنیا میں جو چیزیں انسان کو ملتی ہیں، وہ صرف بقدر ضرورت ملتی ہیں۔ وہ انسان کو بقدر فل فلمنٹ نہیں حاصل ہوتیں۔ اس محرومی کی بنا پر انسان اس دنیا میں ماہی ٔ بے آب (fish without water) کی طرح تڑپتا ہے، اور اسی حال میں مرکر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
مطالعے کے مطابق، موجودہ کائنات ایک مکمل کائنات ہے، اس میں کوئی نقص موجود نہیں۔ قرآن (الملک3:)بھی دعویٰ کی زبان میں کہتا ہے کہ اگر تم اس کائنات کا مطالعہ کرو تو تم پاؤگے کہ یہ ایک بے نقص کائنات (flawless universe) ہے۔ آپ کا مطالعہ ایک طرف یہ بتائے گا کہ موجودہ دنیا میں بظاہر انسانی تقاضے کے تمام آئٹم موجود ہیں، مگر یہ تمام آئٹم یہاںنامکمل حالت میں ہیں۔ ان کو حاصل کرنے کے باوجود انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کو اپنے فطری تقاضوں کاکامل فل فلمنٹ نہیں ملا۔ قرآن کی روشنی میں آپ کا مطالعہ بتائے گاکہ انسان کا اصل ھیبٹاٹ تو موت کے بعد دوسری زندگی میں ہے، جو ابدی بھی ہے اور کامل بھی۔ موجودہ دنیا میں خالق نے بطور رحمت خاص ایساکیا ہے کہ انسان کے اصل ہیبٹاٹ کا ایک تعارفی ماڈل (introductory model) رکھ دیا ہے۔ تاکہ انسان موت سے پہلے کے دورِ حیات میں موت کے بعد آنے والے دورِ حیات کا ابتدائی تعارف حاصل کرسکے، اور پھر اس کے مطابق اپنی ابدی زندگی کی تعمیر کرے۔
واپس اوپر جائیں

تصور دین

اسلام کی تاریخ ، اپنے آغاز کے بعد تقریباً ہزار سال تک smoothly چلتی رہی۔ اٹھارویں صدی عیسوی سے اس میں خلل واقع ہوا۔ اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حدیث کے الفاظ میں مسلمانوں کے اندر سیف (sword) داخل ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں سارا معاملہ جیوپرڈائز (jeopardize)ہوگیا۔ یہ سلسلہ اکیسویں صدی کے فرسٹ کوارٹر تک جاری ہے۔
امام مالک نے اپنے استاد صالح بن کیسان کے حوالے سے کہا تھا کہ اس امت کا آخری حصہ بھی اسی طریقہ کو follow کرنے سے درست ہوگا جس طریقے کو follow کرنے سے اس کا ابتدائی حصہ درست ہوا تھا (مسند الموطا للجوہری، اثر نمبر783)۔ اس طریقے کو ایک لفظ میں منہج السلف کہا جاسکتا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اسی منہج السلف کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔
یہ منہج السلف کیا تھا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عہد رسالت کے بعد اسلامی تاریخ میں عہد خلافت آیا۔ یہ دور اسلام میں گولڈن پیریڈ تھا۔ یہ دور تقریباً چالیس سال تک جاری رہا۔ یہ دور شوریٰ (الشوریٰ38:) کے اصول پر قائم تھا۔ لیکن چالیس سال کے بعد مسلم دور خاندانی حکومت (dynasty) پر قائم ہوگیا۔ اس کے بعد مسلسل طور پر یہی دور جاری رہا۔ تمام علماء سلف جن کو ہم اکابر کہتے ہیں۔ انھوں نے اس نظام کو قبول کرلیا۔ یہاں تک کہ ان کا اجماع ہوگیا کہ اس سیاسی نظام کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔
ایک اعتبار سے یہی منہج السلف تھا۔ سلف نے ایسا کیوں کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ خاندانی حکومت کے تحت ایک چیز قائم ہوگئی جو عملاً حکومت کا اصل مقصد ہے۔ اس مقصد کو قرآن میں تمکین فی الارض(الحج41:) کہا گیا ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو سیاسی استحکام (political stability) کہا جاسکتا ہے۔
خاندانی نظام حکومت کے تحت جب سیاسی استحکام قائم ہوا تو پیس(peace) اور نارملسی (normalcy) قائم ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں تمام دینی کام کسی رکاوٹ کے بغیر ہونے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ قرآن محفوظ ہوا، حدیث کی جمع و تدوین ہوئی، فقہ سے متعلق سارے کام انجام پائے، اسلامی علوم کی تمام بنیادی کتابیں لکھی گئیں۔ مسجد اور مدرسہ اور حج کا نظام قائم ہوا۔ اسلام کی دعوت و اشاعت مسلسل طور پر جاری رہی، وغیرہ۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے بعد اسلام میںملوکیت آگئی، ان کا کہنا بلاشبہ غلط ہے۔ اس لیے کہ مسئلہ ظاہری ڈھانچے کا نہیں ہے، بلکہ معنوی پہلو کا ہے۔ حکومت سے اصل مقصود کسی ظاہری ڈھانچے کو قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ استحکام (stability) قائم کرنا ہے۔ کیوں کہ جب استحکام کی حالت قائم ہوجائے تو ہر قسم کا تعمیری کام کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کو قائم ہونے والا وہ دور جس کو خاندانی دور حکومت کہا جاتا ہے، تمام علمائے سلف نے قبول کرلیا، بلکہ اسی زمانے میں یہ مسئلہ بنا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔
اسلام میں اصل اہمیت مقصد کی ہے، نہ کہ ڈھانچے کی۔ ڈھانچہ خواہ کوئی بھی ہو، اگر شریعت کا مقصد حاصل ہورہا ہے تو اس ڈھانچے کو درست کہا جائے گا۔مقاصد شریعت کی فہرست میں خودساختہ اضافہ کرکے اگر کوئی شخص کہے کہ شریعت کا فلاں مقصد حاصل نہیں ہورہا ہے تو یہ نظام ملوکیت کا نظام ہے، نہ کہ اسلام کا مطلوب نظام ۔ تو اس کا ایسا کہنا قابل قبول نہ ہوگا۔ کیوں کہ مقاصد شریعت میں استنباطی اضافہ کرنا، بذات خود ناقابل قبول ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ناریل کا درخت پورا کا پورا ایک عجیب قسم کا قدرتی کارخانہ ہے۔ اس کی ہر چیز مفید اور کار آمد ہے۔ ناریل کے درخت کی صفات اگر بیان کی جائیں تو پورا سفرنامہ اسی سے بھر جائے۔ ناریل کے جس خول کے اندر اس کا پانی رہتا ہے اس کی پیکنگ حیرت انگیز حد تک بامعنٰی ہوتی ہے۔ کئی تہہ کے اندر یہ پانی ہوتا ہے۔ اس کے اوپر کا خول نہایت سخت ہوتا ہے۔ وہ بہت مشکل سے ٹوٹتا ہے۔ مگر اس نہایت سخت خول کے سرے پر حیرت انگیز طورپر ایک نرم سوراخ ہوتا ہے جو نہایت آسانی سے کھل جاتا ہے اور اس کے ذریعہ پانی نکال کر پیا جاسکتاہے۔ یہ سوراخ اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک عاقل اور باشعور ہستی ہے۔ اس سوراخ میںجو حکمت ہے وہ باشعور خالق کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

نظریاتی صحبت

جو اہل ایمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر تھے، جن کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام سے ملاقات کریں، اور براہ راست طور پر آپ سے دین کی تعلیم حاصل کریں، ان کو صحابہ یا اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ اصحاب رسول کا یہ گروہ زیادہ تر قدیم عرب سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کی تعداد عورت اور مرد کو ملا کرتقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ معلوم طور پر ابو الطفیل عامر بن واثلہ کنانی آخری صحابی رسول تھے ۔ ان کی وفات غالباً 100 ھـ میں مکہ میںہوئی۔
تاہم پیغمبر اسلام کی ایک توسیعی صحبت (extended companionship)وہ ہے، جس کو نظریاتی صحبت کہا جاسکتا ہے۔ صحبت کی یہ نسبت بعد کےز مانے میں بھی بدستور جاری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو محمد بن عبد اللہ کو رسول کی حیثیت سے دوبارہ دریافت کریں۔ جو آپ کی سنت کو اور آپ کے مشن کو اپنی زندگی میں کامل طور پر اپنائیں۔ یہ معاملہ ان کے لیے اتنا بڑا کنسرن (concern)بن جائے کہ وہ ہمیشہ اس سوچ میں رہیں کہ رسول اللہ کا طریقہ حقیقۃً کیا تھا، آپ نے اپنا مشن کس طرح چلایا۔ جو لوگ پیغمبر اسلام کو اس طرح اپنا کنسرن بنائیں، اور اپنی سوچ میں پیغمبر اسلام کو شامل کریں، وہ گویا کہ فکری اور نظری اعتبار سے رسول اللہ کی صحبت میں جی رہے ہیں۔ وہ آج بھی رسول اللہ کے فیض سے اپنا حصہ پارہے ہیں۔ وہ گویا کہ پیغمبر کو نہ دیکھتے ہوئے بھی اس کو دیکھ رہے ہیں، وہ گویا کہ پیغمبر کی صحبت میں نہ ہوتے ہوئے بھی پیغمبر کی صحبت کا فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ نظریاتی معنوں میں اصحاب رسول کے گروہ میں شامل ہوئے۔
عملی معنوں میں صحبت رسول کی نسبت صرف ان لوگوں کو ملی جو آپ کے ہم زمانہ تھے۔ لیکن نظریاتی معنوں میں صحبت رسول کی نسبت ان شاء اللہ ان لوگوں کو بھی ملے گی، جو پیغمبر اسلام کو اپنا کنسرن بنائیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعے پیغمبر کو دوبارہ دریافت کریں گے، اور نظریاتی معنوں میں وہ صحابیٔ رسول قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی قربانی

عبداللہ بن وابصہ العبسی اپنے باپ سے اپنے دادا کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موسم میں ہماری قیام گاہ پر منیٰ میںآئے۔ ہم جمرۂ اولیٰ پر مسجد الخیف کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ اپنے اونٹ پر تھے اور اپنے پیچھے زید بن حارثہ کو بٹھائے ہوئے تھے۔ آپ نے ہم کو توحید کی طرف دعوت دی۔ خدا کی قسم، ہم نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا اور ہم نے اچھا نہیں کیا۔ہم آپ کے بارے میں سن چکے تھے اور یہ بھی سن چکے تھے کہ آپ حج کے موسم میں لوگوں کو اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ ہمارے پاس کھڑے ہوکر ہمیں دعوت دیتے رہے اور ہم چپ چاپ سنتے رہے۔اس وقت ہمارے ساتھ میسرہ بن مسروق العبسی بھی تھے۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگرہم اس آدمی کی تصدیق کریں اور اس کو لے جاکر اپنے قافلہ کے بیچ ٹھہرائیں تو یہ بڑا اہم فیصلہ ہوگا۔ خدا کی قسم، اس کا دین غالب ہوکر رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ ہر جگہ پہنچ جائے گا۔ قبیلہ کے لوگوں نے کہا کہ اس کو چھوڑو، تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو ہم میں سے کوئی ماننے والا نہیں۔
یہ بات سن کر رسول اللہ میسرہ کے بارے میں پُر امید ہوگئے۔ آپ نے ان سے مزید گفتگو کی۔ میسرہ نے جواب دیا کہ آپ کا کلام کتنا اچھا اور کتنا روشن کلام ہے۔ لیکن اگرمیں اس کو مان لوں تو میری قوم میری مخالف ہوجائے گی۔ اور آدمی ہمیشہ اپنی قوم کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں کہ قوم اگر مدد نہ کرے تو دشمنوں سے مدد کی کیا امید کی جاسکتی ہے ۔( السیرۃ النبویۃ لابن کثیر،2/170)
سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم کی روش کے خلاف ایک روش اختیار کرے۔ وہ اپنی قوم کے عام مزاج کے خلاف کام کرے۔ وہ ایسی بات کہے جو قوم کے وقار سے ٹکراتی ہو۔ وہ ایسی پالیسی کی تبلیغ کرے جو قومی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ایساآدمی اپنی قوم سے کٹ جاتاہے۔ وہ خود اپنوں کے درمیان اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ردّ عمل نہیں

جب کوئی بات آدمی کی پسند کے خلاف پیش آتی ہے تو ایسے موقع پر لوگ فوراً ردّ عمل (reaction) کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ یہ طریقہ غلطی پر غلطی کا اضافہ ہے۔ جب آپ ناپسندیدہ بات پر ردّعمل (reaction) کا اظہار کریں تو اس کے بعد ہمیشہ جوابی ردّعمل پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح ردّ عمل کا سلسلہ قائم ہوجاتا ہے۔ یعنی چین ری ایکشن (chain reaction) ۔ اجتماعی زندگی میں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ آپ ہر قیمت پر چین ری ایکشن سے اپنے آپ کو بچائیں، اور پھر آپ کی زندگی پرسکون زندگی بن جائے گی۔
یہ ایک حکمت کی بات ہے۔ اس حکمت کا تعلق فرد کی زندگی سے بھی ہے، اور اجتماع کی زندگی سے بھی۔ خاندانی زندگی سے بھی ہے اور سماجی زندگی سے بھی۔ ہر جگہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو پہلی غلطی سے نہیں بچاتے، اور جب آپ پہلی غلطی کردیں تو اس کے بعد لازماً دوسری غلطی وجود میں آئے گی، اور پھر ایسا ہوگا کہ چین ری ایکشن کا سلسلہ قائم ہوجائے گا۔ جو صرف تباہی کی حد پر جاکر ختم ہوگا۔
مسلم قومیں تقریباً دو سو سال سے نفرت اور تشدد کا شکار ہیں۔ اس کا سبب کوئی خارجی دشمن نہیں ہے، بلکہ خود مسلم قوموں میں اعلیٰ حکمت (high wisdom) کی کمی ہے۔ ہر جگہ یہی ہورہا ہے کہ لوگ پہلی غلطی کرکے چین ری ایکشن (chain reaction) کی صورت پیدا کردیتے ہیں، اور جب چین ری ایکشن ایک بار وجود میں آجائے تو اس کے بعد وہ نان اسٹاپ جاری رہتا ہے۔ چین ری ایکشن کو پہلے مرحلے میں روک دیجیے، تو اس کے بعد سب کچھ اپنے آپ ٹھیک ہوجائے گا، لیکن اگر آپ ایسا نہ کریں تو اس کے بعد لازماً یہی ہوگا کہ چین ری ایکشن شروع ہوجائے گا، جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ حتی کہ اگر لوگ عملی طور پر اس کے قابل نہ رہیں تو وہ سوچ کی سطح پر اس برائی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ آخری تباہی سے پہلے کبھی یہ برائی ختم نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا اصول

ایک مصنف نے لکھا ہے— وقت اور سمجھ دونوں اکثر ایک ساتھ نہیں آتے۔ جب وقت آتا ہے تو سمجھ نہیں ہوتی ہے، اور جب سمجھ آتی ہے تو وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے اندر سمجھ پیدا کریں تاکہ وقت آئے تو آپ اس وقت کو استعمال کرنا جانیں۔یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے، لیکن عملی اعتبار سے وہ قابل عمل نہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان پیشگی طور پر باتوں کو سمجھ نہیں سکتا، وہ تجربہ کے ذریعہ سیکھتا ہے۔ یعنی نقصان پہلے آتا ہے، اور عقل اس کے بعد آتی ہے۔ پہلے آدمی کچھ کھوتا ہے، اس کے بعد وہ دریافت کرتا ہے کہ اس کو پانے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ انسان پہلے اپنے اندازہ(assessment) کی غلطی کا تجربہ کرتا ہے، اور اس کے بعد وہ اس فن کو جانتا ہے کہ صحیح اندازہ کا اصول کیا ہے۔
اس لیے موجودہ دنیا میں کامیابی کاراز یہ نہیں ہے کہ آدمی غلطی نہ کرے۔ بلکہ کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی سے سبق حاصل کرے۔اس اعتبار سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی نے اگر پہلے موقع کو کھویا ہے تو وہ اپنا نیا منصوبہ زیادہ بہتر انداز پر بنائے تاکہ وہ دوسرے موقع کو نہ کھوئے۔ اسی اصول کا نام پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان پہلے موقع کو ضرور کھوتا ہے۔ دانش مند آدمی وہ ہے جو پہلے کھونے سے تجربہ حاصل کرے اور پھرزیادہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ وہ دوسرے موقع کو حاصل (avail)کرسکے۔
وزڈم کی دو صورتیں ہیں۔ آئڈیل وزڈم (ideal wisdom) اور پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)۔ آئڈیل وزڈم اپنی ذات کے لیے درست ہے، لیکن اجتماعی زندگی میں آئڈیل وزڈم قابل حصول نہیں۔ اس لیے زندگی کے لیے صحیح اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات کے معاملے میں آئڈیل وزڈم کو اپنائے، لیکن جب معاملہ اجتماعی زندگی کا ہو تو وہ پریکٹکل وزڈم پر راضی ہوجائے— صبر دراصل اسی پریکٹکل وزڈم کا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذہن کا متحرک ہونا

ٹرگر (trigger)گن کا ایک پرزہ ہے، جس کو دبانے سے گن (gun)کا نظام نہایت تیزی کے ساتھ متحرک ہوجاتا ہے۔ اسی سے اس کا استعمال ذہن کے لیے ہونے لگا۔یعنی فلاں واقعہ نے آدمی کے مائنڈ کو ٹرگر کردیا۔ انسا ن کے اندر بڑی سوچ یا انقلابی سوچ ہمیشہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ اس کا ذہن (mind) کسی واقعہ سے ٹرگر ہوجائے۔
مائنڈ ہر آدمی کے پاس ہوتا ہے، لیکن ہر آدمی کا مائنڈ ٹرگر نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مائنڈ کے ٹرگر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کا ذہن تیارذہن (prepared mind) ہو۔ جس آدمی کے اندر تیار مائنڈ ہو، اسی کے ساتھ یہ واقعہ ہو گا کہ کسی تجربہ کے پیش آنے پر اس کا مائنڈ ٹرگر ہوجائے، اور اس کے اثر سے وہ کوئی بڑا کام کرڈالے۔
مثال کے طور پر مہاتما گاندھی 1893 میں بحری سفر کرکے بمبئی سے ساؤتھ افریقہ پہنچے۔ اس وقت ساؤتھ افریقہ میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ سخت سردی کے موسم میںرات کےوقت ان کو پیٹرمارتسبرگ( Pietermaritzburg) اسٹیشن پر زبردستی اتاردیا گیا۔ اِس واقعہ سے مہاتما گاندھی کا مائنڈ ٹرگر ہوگیا۔ انھوں نے خود لکھا ہے کہ اس واقعہ نے میری زندگی کا اگلا کورس متعین کردیا۔ چناں چہ وہ انڈیا واپس آئے، اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں انقلابی رول ادا کیا۔
آدمی کوئی بڑا کام اس وقت کر پاتا ہے جب کہ اس کا مائنڈ ٹرگر ہوجائے۔ لیکن مائنڈ کا ٹرگر ہونا، ایک ایسا واقعہ ہے جو صرف ایک تیار ذہن کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جس آدمی کا ذہن تیار ذہن نہ ہو ، اس کو تجربات پیش آئیں گے لیکن اس کا مائنڈ ٹرگر نہ ہوگا۔ اس بنا پر وہ کوئی بڑا کام بھی نہ کرسکے گا۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اس معاملے میں کسی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو زندگی میں چیلنج کا پیش آنا ایک رحمت معلوم ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی ارتقا کا معیار

ذہنی ارتقا (intellectual development) ہر آدمی کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ذہنی ارتقا کے بغیر آدمی عملاً حیوانیت کی سطح پر رہتا ہے۔ وہ انسانیت کے اعلی درجے تک نہیں پہنچتا۔ ذہنی ارتقا کا معیار کیا ہے۔ ذہنی ارتقا کا معیار یہ ہے کہ آدمی کے اندر علمی مزاج (scientific temper) پیدا ہوجائے۔ وہ چیزوں کی صحت کو اپنے ذوق سے پہچان سکے۔
اصل یہ ہے کہ فزیکل سائنس میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ ریاضی کے اصول پر کسی چیزکی صحت کو معلوم کیا جاسکے۔ لیکن علوم انسانی (humanities) میں چیزوں کو جانچنے کے لیے اس قسم کا کوئی حتمی معیار ممکن نہیں ہوتا۔ یہاں کسی اہل علم کے لیے جو چیز فیصلہ کن بنتی ہے وہ آخری طور پر اس کا اپنا سائنٹفک ٹمپر ہوتا ہے:
There are no established methods for determining the truth or falsity of a non-factual claim.
آدمی اگر سچے معنوں میں طالب حق ہو ، اور وہ غیر متعصبانہ انداز میں باقاعدہ طور پر زیر بحث موضوع کا مطالعہ کرے تو اس کے اندر وہ ذوق پیدا ہوجائے گا جس کو فرقان (criterion) کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے اعلی ذوق کی بنا پر یہ پہچان لے گا کہ حقیقی (factual) کیا ہے، اور غیر حقیقی (non-factual) کیا ہے۔ اسی پہچان کو سائنٹفک ٹمپر کہا جاتا ہے۔
ایسا آدمی ہمیشہ متعلقہ موضوع کا مطالعہ کرے گا، لیکن اکثر حالات میں اس کامطالعہ صرف اس بات کی تصدیق کرے گا کہ اپنے اعلیٰ ذوق کی بنا پر اس نے جو رائے درست سمجھی تھی، وہ باعتبار حقیقت بھی درست ہے۔ کوئی علمی کام کرنے کے لیے آدمی کے اندر اس قسم کا سائنٹفک ٹمپر ضروری ہے۔ یہ علمی ذوق آدمی کے لیے اس کے مطالعے میں اس کا رہنما بن جاتا ہے۔ وہ اپنے اس داخلی ذوق کی بنا پر فکری بھٹکاؤ سے بچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 256

■ بہار اردو اکادمی، پٹنہ کے کانفرنس ہال میں20 مئی 2017 کو ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ اس کا عنوان تھا: قومی اتحاد، اور ہماری ذمہ داری۔ اس موضوع پر مسٹر ابو الحکم دانیال صاحب (صدر سینٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹو اسٹڈیز، بہار و جھار کھنڈ، رابطہ نمبر 9852208744) نے خطاب کیا، اور سوال و جواب بھی ہوا۔ پروگرام کے بعد تمام شرکاء کو ترجمۂ قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ بہار و جھارکھنڈ میں الرسالہ مشن سے وابستہ ہونے کے لے مذکورہ نمبر پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
■ دور درشن چینل کےنمائندہ مسٹر مالک اشترنے صدر اسلامی مرکز کا 27 مئی 2017 کو ویڈیو انٹر ویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق روزہ سے تھا۔ دوران انٹرویو جو بات کہی گئی، ان میں سے ایک اہم بات یہ تھی کہ روزہ کا ایک مقصد لوگوں کو سچائی اور بھائی چارہ کی طرف لانا ہے۔ اسی تربیت کے لیے ایک مہینہ، رمضان منتخب کیا گیا ہے۔ تاکہ لوگ اس مہینہ میں تربیت پاکر سال بھر سچائی کو مانیں اور بھائی چارے کے ساتھ رہیں۔ آخر میں تمام کرو(crew) ممبرس کو ترجمۂ قرآن اور دیگر کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
■ جمشید پور کی سی پی ایس ٹیم نے 30 مئی 2017 کو جے آر ڈی ٹا ٹا اسٹیڈیم کا دورہ کیا، اور وہاں پر موجود کوچ، کھلاڑی اور دیگر لوگوں کو ترجمۂ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر دیے گئے۔ تمام لوگوں نے شکریہ ادا کیا۔
■ 31 مئی 2017 کو سی پی ایس انٹر نیشنل، دہلی نےاپنے آفس نظام الدین ویسٹ میں ایک پروگرام منعقد کیا۔ اس پروگرام کی وجہ یہ تھی کہ سی پی ایس انٹر نیشنل کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم کو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ریٹائرمنٹ ملا تھا، اور سی پی ایس کی دو ممبروں، مز سعدیہ خان، اور مز نغمہ صدیقی کو جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی تھی۔ صدر اسلامی مرکز نے اس موقع پر ایک خطاب کیا، اور تینوں خواتین ممبران کو مومنٹو پیش کیا گیا۔
■ کوڈلور (تامل ناڈو) کےایک مقام منگلم پٹائی میں مسلم ہائی اسکول ہے۔ اس کےپرنسپل مسٹر اوتھیراپتی (Uthirapathi) ایک ہندو ہیں۔ انھوں نے2 جون 2017 کو اپنے طلبہ کو ساتھ لے کر قصبہ کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد گڈورڈ بکس سے چھپا ہوا تامل ترجمۂ قرآن اور دیگر تامل لیف لیٹس نمازیوں کے درمیان تقسیم کیا۔
■ خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا) کی کوششوں سے 7 جون 2017 کو مشرقی امریکا کے شہر لاس ویگاس میں 2500 اسپینش ترجمۂ قرآن اور 3000 انگلش ترجمۂ قرآن کی کاپیاںپہنچائی گئیں۔یہ شہر گیمبلنگ کے لیے مشہور ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب نےایک مقامی مسجد الحراء کے امام ڈاکٹر روح الامین صاحب اور مسٹر جمی وہائٹ ہیڈ (عہدہ میئر کے مسلم امیدوار) سے ملاقات کرکے ان کو اس پر راضی کیا کہ وہ وہاں قرآن کی تقسیم کو یقینی بنائیں۔
■ 20 تا 23 جون 2017کو سی پی ایس کی کولکاتا ٹیم(رابطہ نمبر 9831345685) دہلی آئی۔ ان کی آمد کا مقصد صدر اسلامی مرکز سے استفادہ اور سی پی ایس (دہلی ٹیم) کے ساتھ دعوتی امکانات اور لائحہ عمل پرتبادلۂ خیال کرنا تھا۔ اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتاب، دی ایج آف پیس کا بنگلہ ترجمہ، نیز اردو کتاب، سوال وجواب (الرسالہ کے سوال وجواب کا مجموعہ)، اور چند انگریزی لیف لیٹس کے بنگلہ تراجم کا اجرا بھی کیا گیا۔یہ تمام کام کولکاتا ٹیم کی کاوش ہے۔ اس سفر میں دی ایج آف پیس کی بنگلہ ترجمہ نگار پروفیسر تنویر نسرین بھی اپنے شوہرکے ساتھ موجود رہیں۔ انھوں نے بھی صدر اسلامی مرکز اور سی پی ایس ٹیم کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا۔
■ 2 جولائی 2017 کو انڈین ینگ مسلم سوشل گروپ (اسماعیل پورہ، کامٹی)نے میمن ہال میں عید ملن کا انعقاد کیا تھا۔ اس تقریب میں مسٹر چندر شیکھر کرشنا راؤباونکولے (انرجی و ایکسائزوزیر، حکومت مہاراشٹر) کو مہمان خصوصی کے طور پرمدعو کیا گیا تھا۔ جناب ایم اے وحید (سی پی ایس ممبرناگپور و کامٹی ) نے ان کومراٹھی قرآن اور مراٹھی زبان میں دوسرے دعوتی لٹریچر پیش کئے۔ انھوں نے ان کو بہت ہی خوشی کے ساتھ قبول کیا، اور کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب مجھے اتنا قیمتی تحفہ ملا ہے۔ میں انھیں پہلی فرصت میں فلائٹ کے اندر پڑھوں گا۔
■ 8 اور 9 جولائی 2017 کو سی پی ایس ( ممبئی) نےسی پی ایس علماء ٹیم کے ساتھ امراوتی اور وروڈ کا دعوتی دورہ کیا۔ اس درمیان مختلف لوگوں سے دعوتی ملاقاتیں ہوئیں، اور ایک اسکول میں ٹیچروں کے ساتھ ایک پروگرام ہوا۔
■ 10 جولائی 2017 کی ڈاکٹر حسین مڈور (کیرلا) صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ وہ صدر اسلامی مرکز کی تحریرں کو پڑھتے ہیں اور کافی متاثر ہیں۔ موصوف اس سے پہلے صدر اسلامی مرکزکو کیرالا بلاکر اپنے پروگرام میں ان کی میزبانی کرچکے ہیں۔
■ 11 جولائی 2017 کو سی پی ایس ناگپور کے ممبر جناب ساجد احمد خان (موبائل نمبر 8237006029) ایس کے پورول کالج میں بطور ممتحن گئے۔ وہاں انھوں نے کالج کے اساتذہ کو مراٹھی زبان میں ترجمہ شدہ قرآن، واٹ از اسلام، موت کی یاد اور کچھ دوسرے دعوہ لٹریچر دئے۔ اسی کے ساتھ سی پی ایس کے پیس مشن کے متعلق ان سے گفتگو کی۔ انھوں نے خوشی خوشی نہ صرف اپنے لیا، بلکہ اپنے دوستوں کے لئے بھی کچھ سٹ حاصل کیے۔
■ 13 جولائی 2017 کو صومالی سفارت خانہ کے ڈپٹی ہیڈ مسٹر احمد محمود کی سرکردگی میں صومالیہ کا ایک ڈیلیگیشن صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آیا۔ ان حضرات سے صدر اسلامی مرکز نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ آخر میں ان کوصدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ بطور ہدیہ دیا گیا۔
■ 14 جولائی 2017 کو افغانستان ایمبسی (انڈیا) کے ڈپٹی چیف محمد میر واعظ بلخی صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ صدر اسلامی مرکز نے ان سے کافی دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ دوران گفتگو انھوں نے صدر اسلامی مرکز سے افغانستان میں مذہبی تشدد کو ختم کرنے اور مسلمانوں کودرست رہنمائی دینے میں تعاون کرنے کی درخواست کی۔انھوں نے بتایا کہ ان کے یہاںصدر اسلامی کی کتاب ’وومن بٹوین اسلام اینڈ ویسٹرن سوسائٹی‘ کا فارسی میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے، اور اب تذکیر القرآن کے فارسی ترجمہ کا کام چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی دیگر کتابوں کو فارسی زبان میں منتقل کرانے میں بھی دلچسپی ظاہرکی تاکہ تشدد پسندی کے خلاف وہ ان کتابوں سے مدد لے سکیں۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا۔
■ افغان ایمبسی نے اپنے ماہانہ نیوز لیٹر میں درج بالا خبر کو شائع کیا تو نیشنل ہیرالڈ کے رپورٹر مسٹر دھیریا مہیشوری نے ذیل کا ای میل لکھا اور صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹر ویو لیا:
I am trying to do a feature story on Maulana Sb's efforts in helping tackle radicalisation in Afghanistan. I have been informed that the Afghanistan government wants Maulana Sb to be involved with the youth of the country and guide them in the right direction. I was hoping to meet him sometime early next week and be able to get a bit of background on the development. I believe he has extensive experience in helping the youth of Kashmir. But Afghanistan, with its various tribal factions, may present a different challenge altogether. I would like to explore how he plans on going about this new venture of his. It would be much appreciated if I could be connected to him. Looking forward to hearing from you. (Dhairya Maheshwari, National Herald, New Delhi)
■ 16 جولائی 2017 کو نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور) کی جانب سے کانوڑیوں کے لیے میڈیکل کیمپ کا افتتاح کیا گیا۔ دیوبند کے ایم ایل اے منوج چودھری، اور مسٹر مکیش مشراآئی پی ایس، وغیرہ اس افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے۔ پروگرام کے بعد تمام لوگوں کو ترجمہ قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر دیا گیا، اورآنے والے کانوڑیوںکے درمیان علاج کے ساتھ ہندی ترجمۂ قرآن و ہندی بک لیٹس کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔
■ کشمیر میں ناسازگار حالات کے باوجود حمید اللہ حمید اور ڈاکٹر مسعود صاحبان کی سرکردگی میں دعوتی کوششیں جاری ہیں۔ 16 جولائی 2017 کو بیروہ کے اپنا گھر میں ایک دعوہ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔اس کے علاوہ رام بان مندر میں آنے والے زائرین کے درمیان 500 ترجمۂ قرآن تقسیم کیے گئے۔
■ 16 جولائی 2017 کو ڈبلن یونیورسٹی (آئرلینڈ) کے طلباء اور اساتذہ کے ایک گروپ نے صدر اسلامی مرکز کے سنڈے کلاس میں شرکت کی۔ صدر اسلامی مرکز نے پیس اینڈ انٹرفیتھ ہارمنی کے موضوع پر انگلش میں خطاب کیا۔ آخر میں سوال وجواب کا سیشن ہوا اور تمام شرکاء کو انگلش ترجمۂ قرآن اور تعارف اسلام پر مشتمل لٹریچر دیا گیا۔
■ 22 جولائی 2017 کو فلپائن کی پروفیسر بلنڈا اور ان کے شوہرمسٹر ہینری اسپریٹو نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ صدر اسلامی مرکز نے ان سے کافی دیر تک گفتگو کی اور سی پی ایس ممبران سے بھی ان کا انٹرایکشن ہوا۔وہ صدر اسلامی مرکز کی فکر سے کافی متاثر ہیں، اور فلپین میں صدر اسلامی مرکز کی فکر کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے فلپین کے اسکولوں میں قرآن کورسس متعارف کرانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
■ مز فرح ایمان، صوفیہ یونیورسٹی (Sophia University) اٹلی، سے اسلام اور عیسائیت میں انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔ اپنی پی ایچ ڈی کے لئے وہ جن اسکالرس کا مطالعہ کررہی ہیں، ان میں صدراسلامی مرکز بھی ہیں۔ 26 جولائی 2017 کو انھوں نے اس سلسلے میں صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی، اور تبادلۂ کیا۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا۔
■ 5 اگست 2017 کو ٹائمس آف انڈیا نے کوکیلابین دھیروبھائی امبانی ہاسپٹل (ممبئی)کے اشتراک سے ہاسپٹل میںآرگن ڈونیشن کے موضوع پر ایک سمینار کا انعقاد کیا۔ اس میں سی پی ایس دہلی کی ممبر مس ماریہ خان نے اسلام کی نمائندگی کی ، اوراسلام میں آرگن ڈونیشن کی اہمیت پر ایک لکچر دیا۔ یہ پروگرام لائیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ اس پروگرام میں ممبئی سی پی ایس ٹیم بھی شریک ہوئی، اور شرکاء کے درمیان ترجمہ قرآن و دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
■ مس ڈیزی خان (امریکا) نے مسلمانوں میں شدت پسندی کو ختم کرنے کی غرض سے ایک کتاب:وائزاپ (Wiseup) کے نام سے ترتیب دی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے 60 علماء کے مضامین شامل کئے ہیں۔ ان میں صدر اسلامی مرکز کا مضمون ‘ہو از پرافٹ محمد؟’ بھی شامل ہے۔ اس سلسلے میں وہ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے 6 اگست 2017 کو نظام الدین ویسٹ آئی تھیں۔ یہاں انھوں نے مسلمانوں کے اندر موجود تشدد پسندی کو ختم کرنے پر گفتگو کی۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا۔
■ سی پی ایس سہارنپور (رابطہ نمبر 9997153735)نے 6 اگست 2017 کوعلی گڑھ ہندو مہا سبھا آفس کا دورہ کیا، اور اس کے ذمہ داران بشمول چیئر پرسن مس پوجا سے ملاقات کرکے ان کو ترجمۂ قرآن، اسپرٹ آف اسلام، ریالٹی آف لائف اور دوسری کتابیں تحفہ میں دیں۔ ان لوگوں نے بہت خوشی سے یہ تحفہ قبول کیا ۔
■ 8 تا 10 اگست 2017 کو ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ (حیدرآباد) نے سہ روزہ بین المذاہب مکالمے کا انعقاد کیا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے مدعو تھے۔ سی پی ایس حیدرآباد نے اس میں اسلام کی نمائندگی کی۔ تقریر کے بعد ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیے گیے۔ شرکاء میں موجود فادر فرانسس (چٹاگانگ، بنگلہ دیش) صدر اسلامی مرکز کی تحریر سے کافی متاثر ہیں۔ انھوں نے امن اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے والی کتابوں کی فرمائش کی تاکہ ان کا مقامی زبان میں ترجمہ کرکے ان کو برما اور بنگلہ دیش کے تشدد زدہ علاقوں میں پھیلایا جائے۔
■ 14 اگست 2017 کو فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسرمسٹر ہرش نارائن نے صدر اسلامی مرکز کا امن کے موضوع پر ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ایک ڈاکومینٹری فلم کے لیے تھا، جس کو مختلف فلم فیسٹول میں دکھایا جائے گا۔ آخر میں تمام کرو (crew) ممبرس کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
■ 17تا 22 اگست 2017 کوسی پی ایس کی علماء ٹیم، ممبئی ٹیم اور بنگلور ٹیم دہلی آئی۔ انھوں کے صدر اسلامی مرکز سے دعوتی امور میں استفادہ کیا، اور ایک نئے عزم کے ساتھ واپس گیے۔
■ مسٹر آر بی گپتا، چارج مین، آرڈیننس فیکٹری، ناگپور، کو اتفاقاً قرآن کا ایک میسج ، جس میں اخلاق کی تعلیم کا حکم تھا۔ اس کو پڑھنے کے بعد انھوں نے ناگپور ٹیم کے مسٹر سہیل انجم سے یہ درخواست کی کہ ان کو ہندی ترجمۂ قرآن دیا جائے تاکہ وہ ان کو پڑھیں۔ ان کو ترجمہ قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر بطور تحفہ دیا گیا، جس کا انھوں نے تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔(مسٹر عرفان رشیدی، ناگپور)
■ برما سے ملنے والی خبروں کے مطابق، حافظ شوکت صاحب برما کے اندر دعوتی مہم میں کافی سرگرم ہیں ،انہوں نے اپنے ذاتی خرچ ،دولاکھ کیات (برمی کرنسی)کی لاگت سے گاڈ ارائزز کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا ہے ، اور اب یہ کتاب پریس میںجانے والی ہے۔ پازیٹو تھنکر فورم، بنگلورو سے ہرماہ ان کواسپرٹ آف اسلام کی 40کاپیاں اور الرسالہ کی 30 کاپیاں جارہی ہیں ۔جنا ب عبدالعزیز (وکیل صاحب) کےنگرانی میں یہ سارا کام چل رہا ہے۔(محمد عبد اللہ برمی، پازیٹو تھنکر فورم، بنگلورو)
■ My husband is currently incarcerated and the institution he is in is in need of Quran. They have a population of about 40-50 individuals practicing Islam. We would greatly appreciate if you can make available to them as many Quran copies as possible. You can send them to the Chaplain at: Institution Chaplain Lin, ASP Fort Grant Unit, 896 S Cook Rd, Safford, AZ 85546
■ Recently I met a gentleman on a flight to Mumbai. He was seated next to me on the plane. During the flight, I offered the Quran and a pamphlet titled The Purpose of Life to him. He graciously accepted them and when he saw Maulana Wahiduddin Khan’s name on the pamphlet, he said he reads his writings in the Speaking Tree column of The Times of India. He said the Maulana was very different from other religious scholars. His writings, he said, were rational, liberal and had a holistic perspective. I told him about the Maulana’s foundation, the Center for Peace and Spirituality, and about our activities at the foundation. He wished us his best wishes for our good endeavour! (Sufia Khan, New Delhi)
■ Maulana Sahib, Jazakallah for a great lecture on the topic Realization of God. I learned from you that we need to be honest, sincere and serious to be able to find God. This is self-discovered truth. God is the Designer of this great universe and we should be able to perceive God from His creations (sun, galaxy, and earth and the precise structure of objects and the interconnecting processes). When we realize all this mind-boggling reality through deep contemplation, then God becomes our sole concern and then we can say,“God, please grant me a home near you!” (Kouser Izhar, New Jersey, US)
واپس اوپر جائیں