Pages

Saturday 1 April 2017

Al Risala | Apr 2017 (الرسالہ، اپریل)

1

-توبہ کی نفسیات

2

- عافیت کی دعا

3

- رسول سے تعلق

4

- گفتگو کے اصول

5

- عدم اطمینان

6

- اختلاط کی اہمیت

7

- غضب، رحمت

8

- تزکیہ کیا ہے

9

- شرک کیا ہے

10

- عقل سے محرومی

11

- اصلاح اور محاسبہ

12

- دعا، قبولیتِ دعا

13

- فروغ وسائل انسانی

14

- کنڈیشننگ کا مسئلہ

15

- قابل عمل طریقِ کار

16

- عہد اسلام

17

- قتل کی سزا

18

- حضرت عائشہ کا نکاح

19

- دجالیت کیا ہے

20

- تاجر کا معاملہ

21

- دین میں غلو

22

- فقہ الاقلیات

23

- عورت کی تخلیق

24

- غلطی کا اعتراف

25

- تجربہ کی دنیا

26

- دیباچہ

27

- سوال و جواب

28

- خبرنامہ اسلامی مرکز


توبہ کی نفسیات

انسان کی نفسیات میں اس کے خالق نے ایک خصوصیت رکھی ہے، جس کو عام طور پر ندامت (repentance) کہا جاتا ہے۔ یہ خصوصیت ایک سچے مومن کے اندر مزید اضافہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت انسان کے لیے ایک عجیب رحمت ہے۔ اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ (25:70)۔یعنی اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا:
Allah will change their evil deeds into good deeds
یہ معاملہ جو اہل ایمان کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ صرف ’’برائی‘‘ کی بنا پر نہیں ہوتا، بلکہ اس شدید ندامت کی بنا پر ہوتا ہے، جو برائی کرنے کے بعد ان کے اندر پیدا ہوئی ہو۔ ندامت (repentance) کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ آدمی کے اندر اس بات کا شدید جذبہ پیدا کرتی ہے کہ آدمی اپنی اصلاح کرے، اور برائی کے بعد مزید شدت کے ساتھ بھلائی کا راستہ اختیار کرے۔ ندامت کے ذریعہ پیش آنے والایہی مثبت جذبہ ہے جو اللہ کے قانون کے مطابق برائی کو بھلائی میں تبدیل کردیتا ہے۔
برائی کی ایک صورت وہ ہے جب کہ کوئی آدمی جب برائی کرنے کے بعد اسی پر قائم ہوجائے ۔ ایسے آدمی کی برائی اس کو اور زیادہ برا بنا دیتی ہے۔ لیکن جس آدمی کا یہ حال ہو کہ برائی کرنے کے بعد اس کے اندر انٹراسپکشن (introspection) پیدا ہو ۔ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اب مجھے دوبارہ برائی نہیں کرنا ہے، بلکہ اس کے برعکس ،مجھے بھلائی کے راستے پر مزید اضافہ کے ساتھ چلنا ہے۔ تو ایسے آدمی کے لیے اس کی برائی برعکس طور پر بھلائی کا محرک بن جاتی ہے۔ وہ مزید اضافہ کے ساتھ بھلائی کے راستے پر چلنے لگتا ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو ایک سچے مومن کی برائی کو بھلائی میں بدل دیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

عافیت کی دعا

عافیت سے متعلق کئی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:من فُتِح لہ منکم باب الدعاء فُتِحت لہ أبواب الرحمة، وما سُئِل اللہُ شیئا یعنی أحب إلیہ من أن یسأل العافیة(سنن الترمذی، حدیث نمبر3548)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کےلیے دعا کے دروازے کھولے گئے اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے ۔
اس دنیا میں انسان کو اگرچہ اختیار دیا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاملات میں انسان کا دخل ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ رب العالمین کا دخل ننانوے فیصد سے بھی زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اللہ سے دعا کرنا بہت زیادہ اہم ہے۔ جس انسان کو یہ حقیقت دریافت ہوگئی، اور وہ اس پر قائم ہوگیا، وہ بلاشبہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجائے گا۔
اس دنیا میں انسان کے لیے پہلی رحمت کی چیز ایمان ہے۔ یعنی حقیقت حیات کی دریافت۔ اس کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ عافیت ہے۔ عافیت سے مراد وہی چیز ہے جس کو عام طور پر اچھی صحت (good health) کہا جاتا ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک کمزور مخلوق ہے۔ صحت و عافیت میں معمولی خلل انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ جس انسان کو صحت و عافیت حاصل نہ ہو وہ کوئی بھی کام صحیح شکل میں نہیں کرسکتا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ سے بہت زیادہ دعا کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو درست طور پر ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔مگر یاد کیے ہوئے عربی الفاظ کو دہرانے کا نام دعا نہیں ہے، سچی دعا وہ ہے جو معرفت کی دعا ہو۔ جو دل کی گہرائیوں سے نکلے، نہ کہ لفظی تکرار کے طور پر۔ایسی دعا بلاشبہ اللہ تک پہنچتی ہے، اور وہ اللہ کے یہاں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

رسول سے تعلق

ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ— اللہ سے حب شدید مطلوب ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو چیز مطلوب ہے، وہ صرف اتباع ہے، یا اتباع کے ساتھ emotional attachment بھی۔
اس کو جواب یہ ہے کہ رسول اللہ سے جو اتباع مطلوب ہے وہ سادہ اتباع نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ نے انسان کو ایک ایسی صراط مستقیم دکھائی، جو انسان کو جنت تک پہنچانے والی ہے۔ اس طرح کا عطیہ اپنے آپ میں صاحب عطیہ کے بارے میں ایموشنل اٹیچمنٹ پیدا کرتا ہے۔ یہ ایموشنل اٹیچمنٹ ذاتی فضیلت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ کےکنٹری بیوشن کی بنا پر ہے۔یعنی پیغمبر سے ہم کو جو ہدایت ملتی ہے، جب انسان کو اس ہدایت کا گہرا شعور حاصل ہوتاہے تو اپنے آپ اس کو رسول اللہ سے ایموشنل اٹیچمنٹ پیدا ہوجاتا ہے۔ذاتی فضیلت صرف اللہ کا حصہ ہے، جو کہ واجب الوجود ہے۔ بقیہ تمام انسان اللہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں، بشمول پیغمبر ۔ اس اعتبار سے ذاتی فضیلت صرف اللہ رب العالمین کو حاصل ہے۔ ذاتی فضیلت کے معنی میں اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ بقیہ انسانوں کا درجہ اس کے عمل سے متعین ہوتا ہے، نہ کہ ذاتی فضلیت کی بنا پر۔
اللہ سے محبت اس اعتبار سے مطلوب ہے کہ اللہ نے ہم کو پیدا کیا، اسی سے ہم کو تمام چیزیں ملی ہیں۔ اس کے مقابلے میں رسول سے ایموشنل اٹیچمنٹ اس اعتبار سے پیدا ہوتا ہے کہ رسول نے بے پناہ قربانی کے بعد اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا یا کہ اللہ ان پر اپنی وحی اتارے، اور ان کو یہ توفیق دے کہ وہ اسوۂ حسنہ بن کر تمام انسانوں کے لیے ایمانی زندگی کا ماڈل بن جائے۔ ایموشنل اٹیچمنٹ بہت اہم ہے۔ لیکن مطلق نوعیت کا ایموشنل اٹیچمنٹ ایک مومن کو صرف اللہ کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ مطلق نوعیت کے ایموشنل اٹیچمنٹ میں کوئی اللہ کا شریک نہیں۔ اسی حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إنما أنا قاسم واللہ یعطی (صحیح البخاری، حدیث نمبر71)۔
واپس اوپر جائیں

گفتگو کے اصول

مشہور صحابی عبد اللہ ابن مسعود کا ایک قول ان الفاظ میں آیا ہے: ما أنت بمحدث قوما حدیثا لا تبلغہ عقولُہم، إلا کان لبعضہم فتنة (صحیح مسلم، مقدمہ، 1/11)۔ یعنی اگر تم کسی جماعت کو ایسی بات بتاؤ جو ان کے عقلوں تک نہ پہنچے تو یہ ان میں سے کچھ لوگوں کے لیے فتنہ کا سبب بن جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کلام اور سامع کے معیار فہم میں مطابقت ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر آج کا زمانہ عقلی زمانہ (the age of reason)ہے۔ اگر آپ ایک درست بات قدیم روایتی انداز میں کہیں تو ایسی بات آج کے انسان کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ عدم فہم کی بنا پر، وہ اس کا منکر بن سکتا ہے۔ حالاں کہ اگر بات کو ایسے اسلوب میں کہا جائے جو مخاطب کے لیے قابل فہم (understandable) ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ اس کو قبول کرلے۔
مثال کے طور پر اگر آپ یہ کہیں کہ مستشرقین (orientalist) اسلام کےدشمن ہیں تو یہ بات آج کے ایک تعلیم یافتہ انسان کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ وہ آپ کی بات کو بے اصل سمجھ کر رد کردے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ یہ کہیں کہ مستشرقین کا نقطہ نظر موضوعی (objective)ہوتا ہے۔ اس لیے وہ صرف اس بات کو سمجھ پاتے ہیں جو موضوعی استدلال (objective reasoning) پر مبنی ہو۔ اس کے برعکس جو بات اعتقادی (subjective) انداز میں کہی جائے، وہ ان کے لیے قابل فہم نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کا ذہن ایسی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی بات کو اس انداز میں کہیں تو آج کا تعلیم یافتہ انسان اس کو قبول کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہ کرے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے اس اصول کے مطابق کلام کو ایسے اسلوب میں ہونا چاہیے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ گفتگو میں جتنی اہمیت صحت کلام کی ہے، اتنی ہی اہمیت اس میں اسلوب کلام کی بھی ہے۔
واپس اوپر جائیں

عدم اطمینان

ایک شخص نے ان بڑے بڑے اسکالرس پر ریسرچ کیا ہے، جو اپنی کسی بڑی دریافت کی بنا پر نوبل پرائز کے لیے منتخب ہوئے۔ اس نے لکھا ہے کہ میں نے یہ پایا کہ ان اسکالرس میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ تھی عدم قناعت (discontentment) ۔وہ علم کے بارے میں کسی حد پر نہیں رکتے تھے۔ اس لیے ان کی ترقی مسلسل جاری رہی۔
بڑے بڑے اہل علم کی جو عدم قناعت علم کے بارے میں ہوتی ہے، وہی عدم قناعت مومن کے اندرمعرفت کے بارے میں ہوتی ہے۔ مومن آخر دم تک معرفت خداوندی کے معاملے میں غیرقانع رہتا ہے، اس لیے اس کی معرفت برابر بڑھتی رہتی ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اہل ایمان کے بارے میں یہی وہ حقیقت ہے، جو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَنْ یَشْبَعَ الْمُؤْمِنُ مِنْ خَیْرٍ یَسْمَعُہُ حَتَّى یَکُونَ مُنْتَہَاہُ الجَنَّةُ(سنن الترمذی، حدیث نمبر2686)۔مسند شہاب القضاعی کی روایت (نمبر897) میں خیر اور مومن کے بجائے علم اورعالم کا لفظ آیا ہے۔ یعنی ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن(عالم)خیر (اور علم)کی باتیں سننے سے کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کی انتہاء جنت پر ہوتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی نسبت سے دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے معرفت کا پہلو، اور دوسرا ہے دینداری کا فارم ۔ فارم ہمیشہ معلوم ہوتا ہے۔ کچھ افعال انجام دینے کے بعد اس کی حد آجاتی ہے۔ اور جب کسی چیز کی حد آجائے تو ایسے انسان کے اندر عدم اطمینان کی کیفیت پائی نہیں جائے گی، وہ جو کچھ کررہا ہے، وہ اس پر قانع ہوجائے گا۔
مگر معرفت لامتناہی چیز ہے۔ آدمی کتنا ہی زیادہ معرفت حاصل کرلے،اس کے اندر مزید حصول کا جذبہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

اختلاط کی اہمیت

ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر على أذاہم، أعظم أجرا من الذی لا یخالط الناس ولا یصبر على أذاہم۔ (مسند احمد، حدیث نمبر23098) یعنی وہ مومن جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، اس کا اجر اس سے زیادہ ہے جو لوگوں سے میل جول نہیں رکھتا، اور ان کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔اس حدیث میں اختلاط کا مطلب میل جول (interaction) ہے۔ ایک شارح حدیث نے اس کی شرح کرتے ہوئے کہا کہ إن الخلطة أفضل من العزلة (تحفۃ الاحوذی7/177) یعنی تنہائی کی زندگی کے مقابلے میں میل جول کی زندگی زیادہ افضل ہے۔ اختلاط کی زندگی کا افضل ہونا صرف اخلاق کے معنی میں نہیں ہے۔ اس سے زیادہ وہ شخصیت کی تعمیر (personality development) کے معنی میں ہے۔
یہ فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان کے اندر سنجیدگی ہو۔ اس کے اندر سوچنے اور نصیحت لینے کا مزاج ہو۔تو ہر اختلاط اس کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔لوگوں سے انٹرایکشن کے درمیان اس کو طرح طرح کے تجربات پیش آتے ہیں۔وہ لوگوں سے نئی نئی باتیں سیکھتا ہے۔ اختلاط کے دوران اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری اصلاح کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی معلومات سے اپنے علم میں اضافہ کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری محدودیت کو عالمی فکر میں تبدیل کرسکے۔انٹرایکشن کا یہ فائدہ اس انسان کو ملتا ہے جس کے اندر سیکھنے کا مزاج (spirit of learning) ہو۔ جوباتوں کو غیر متعصبانہ انداز میں دیکھ سکے۔ وہ جو کچھ سنے اس کو آبجکٹیو (objective) انداز میں لے، نہ کہ سبجکٹیو (subjective) انداز میں ۔ اس کے اندر اعتراف کا مادہ ہو۔ وہ کسی رائے کو سچائی کے اعتبار سے دیکھے، نہ یہ کہ وہ کس شخص کی رائے ہے۔ وہ پورے معنوں میں نفسِ مطمئنہ (complex-free soul) کی حیثیت رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

غضب، رحمت

اللہ کی صفت غضب بھی ہے اور رحمت بھی۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اللہ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اس کو اپنے غضب کا تجربہ کرائے تو یہ بلاشبہ اللہ رب العالمین کا ایک کمتر اندازہ (underestimation) ہوگا۔زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ اللہ رب العالمین اس کو اپنی رحمت کا تجربہ کرائے۔ یہی تصور اللہ رب العالمین کی شان کے مطابق ہے۔
اسی حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن رحمتی سبقت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر7422)۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن رحمتی غلبت غضبی (مسند اسحاق ابن راہویہ، حدیث نمبر459)۔ یعنی میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے۔
باپ کے اندر اپنے بیٹے کے لیے ایک اعلیٰ شریفانہ جذبہ ہوتا ہے جس کو پدرانہ شفقت (fatherliness)کہا جاتا ہے۔ یہ جذبہ باپ کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی غلطی کو سنبھالے، وہ اپنے بیٹے کو اس کی غلطی کا انجام بھگتنے نہ دے۔ یہ صفت بلاشبہ خالق کے اندر بے شمار گنا زیادہ ہے۔ اس صفت کی بنا پر جس طرح خالق کے غضب پر اس کی رحمت غالب آجاتی ہے۔ اسی طرح بندے کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے مہربان خالق کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی رجاء (hope)اس کے خوف پر غالب آجاتی ہے۔ وہ یہ امید کرتا ہے کہ اس کا مہربان خالق اس کی غلطیوں کو سنبھالے گا، وہ اس کو اس کی غلطیوں کے انجام سے بچالے گا۔
زندگی کا یہ تصور اگر آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ ایک طرف وہ ہمیشہ آخرت کے مواخذہ سے ڈرتا رہے تو دوسری طرف یہ مزاج اس کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے خالق کے بارے میں پر امید (hopeful) بنا رہے۔ اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَیَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَہَبًا (21:90)۔
واپس اوپر جائیں

تزکیہ کیا ہے

قرآن کے مطابق، جنت میں داخلہ ان افراد کو ملے گا، جنھوں نے دنیا میں اپنا تزکیہ کیا ہوگا۔ مثلا قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا (91:9)۔ یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔ اور دوسری جگہ ہے:جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَذَلِکَ جَزَاءُ مَنْ تَزَکَّى (20:76) ۔ یعنی ان کے لئے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔
تزکیہ کیا ہے۔ یہ ایک حدیث رسول کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے۔ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان الفطرۃ پر پیدا کیا گیا ہے۔ مگر ماحول کے اثر سے وہ غیر فطری زندگی اختیار کرلیتا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طور پر مزکیّٰ شخصیت (فطرت صحیحہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ماحول کی کنڈیشننگ (conditioning) کی وجہ سے وہ ایک مصنوعی شخصیت بن جاتاہے۔ ایسی حالت میں تزکیہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اس مسئلہ کو جانے اور اپنی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرکے دوبارہ اپنے آپ کو فطری شخصیت بنائے۔ یہی وہ فطری شخصیت ہے جو مزکّی شخصیت ہوگی۔
ڈی کنڈیشننگ دوسرے الفاظ میں سیلف کرِکشن (self-correction) کے عمل کا نام ہے۔ سیلف کرکشن یا ڈی کنڈیشننگ کا یہ کام کوئی دوسراشخص نہیں کرسکتا۔ یہ کام ہر آدمی کو خود کرنا پڑتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا پہلا فرض ہے کہ وہ اپنا محاسبہ (introspection) کرے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے اندر سے ہر ایسے آئٹم کو نکالے جو باعتبار پیدائش بظاہر اس کے اندر موجود نہ تھے۔ لیکن بعد کو وہ ماحول کی کنڈیشننگ کی بنا پر اس کی شخصیت کا حصہ بن گیے۔ جب کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے گا تو اس کے بعد اپنے آپ ایسا ہوگا کہ آدمی کی فطری شخصیت پاک ہوکر سامنے آجائے۔ اسی پاکیزہ شخصیت کا نام مزکّی شخصیت ہے۔
واپس اوپر جائیں

شرک کیا ہے

شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ دوسرے گناہوں کو معاف کردے گا، لیکن وہ شرک کو معاف نہیں کرے گا ( النساء 48:، 116)۔ شرک اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ انسان کسی کو اللہ کا برابر (equal) سمجھے، اور اس کے ساتھ اللہ جیسا معاملہ کرے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ان دو آیتوں کا مطالعہ کیجیے: الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (2:22)۔یعنی وہ ذات جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنایا اور آسمان کو چھت بنایا، اور اتارا آسمان سے پانی اور اس نے پیدا کئے پھل تمہاری غذا کے لئے۔ پس تم کسی کو اللہ کے برابر نہ ٹھہراؤ، حالاں کہ تم جانتے ہو۔دوسری آیت یہ ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (2:165)۔ یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے۔ اور جو اہل ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔
توحید یہ ہے کہ انسان اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرے۔ اور شرک یہ ہے کہ انسان حُبً شدید کے معاملے میں اللہ کے سوا کسی اور کو شریک کرلے۔ توحید اور شرک دونوں اصلاً اعتقادی صفات ہیں۔ بقیہ چیزیں مظاہر شرک ہیں، نہ کہ حقیقت شرک۔خدا کی دریافت ایک ایسی ہستی کی دریافت ہے جو انسان کا خالق ہے۔ ان تمام چیزوں کو دینے والا ہے جو انسان کو اپنی زندگی کے لیے درکار ہیں۔ خدا کی اس حیثیت کا گہرا ادراک جب کسی آدمی کو ہوتا ہے تو وہ اللہ کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کے اندر اپنے رب کے لیے بے پناہ محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں اللہ کے سوا کسی اور کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔ اللہ کی دریافت کا لازمی نتیجہ اللہ سے محبت ہے، اور اللہ سے محبت کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ دوسری تمام محبتیں اس کے دل سے نکل جائیں۔
واپس اوپر جائیں

عقل سے محرومی

ایک طویل حدیث میں امت مسلمہ کے دورِ زوال کی پیشین گوئی کی گئی ہے، اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: قیامت کے قریب ہرج ہوگا۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ہرج سے کیا مراد ہے ؟ آپ نےکہا: قتل۔ کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ہم تو اب بھی ایک سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد مشرکوں کا قتل نہیں ہے، بلکہ تم میں سے بعض اپنے بعض کو قتل کرے گا، حتی کہ ایک آدمی اپنے پڑوسی کو، اپنے چچازاد بھائی کو،اور اپنے قرابت دار کو قتل کرے گا۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا، اے اللہ کے رسول اس دور میں ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ نہیں۔ اس زمانہ میں اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی، اور گر د وغبار کی مانند لوگ باقی رہیں گے۔ ان کے پاس عقلیںنہیں ہوں گی۔ (سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر 3959)
یہاں عقل چھننےسے مراد عقل کے درست استعمال کے لیے نااہل ہوجانا ہے۔ اس بنا پر ایسا ہوگا کہ لوگ ناحق طور پر ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والے اس واقعہ کا ذکر ہے جب کہ امت اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے گی۔ اس کے اندر تقلیدی فکر بہت زیادہ عام ہوچکی ہوگی۔ لوگ اپنے روایتی اکابر کی سوچ سے باہر نکل کر سوچنے کے قابل نہ رہیں گے۔اس بنا پروہ اس صلاحیت سے محروم ہوجائیں گے کہ وہ اپنے زمانے کے بدلے ہوئے حالات کو سمجھیں، اورحالات کے مطابق اسلام کی تعلیمات کی تطبیق نو (reapplication) دریافت کرسکیں۔مثلا زمانے کی تبدیلی کے نتیجے میں جنگ کا دور ختم ہوجائے گا۔ نئے حالات میں ممکن ہوجائے گا کہ پرامن طریقہ کار کے ذریعہ وہ سب کچھ حاصل کیا جاسکے، جس کو پچھلے دور میں’’سیف‘‘ کے ذریعہ ممکن سمجھا جاتا تھا۔ مگر اجتہادی بصیرت کے فقدان کی بنا پر وہ اس تبدیلی کو سمجھنے سے محروم رہیں گے، اور اپنے عمل کی پر امن منصوبہ بندی نہ کرسکیں گے۔
واپس اوپر جائیں

اصلاح اور محاسبہ

ابو الدراء ایک انصاری صحابی ہیں۔ مدینہ میں پیدا ہوئے، اور 72 سال کی عمر میں اسکندریہ کے اندر 32 ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کا ایک قول اس طرح نقل کیا گیا ہے:لا یفقہ الرجل کل الفقہ حتى یمقت الناس فی جنب اللہ ثم یرجع إلى نفسہ فیکون لہا أشد مقتا (کنزالعمال، حدیث نمبر 29528)۔ یعنی کوئی آدمی اپنی سمجھ میں کامل نہیں ہوسکتا، حتی کہ اس کا یہ حال ہوجائے کہ وہ اللہ کے لیے دوسروں پرسخت ہو، پھر جب اپنی طرف توجہ کرے تو وہ اپنے لیے اس سے بھی زیادہ سخت ہو۔ دوسروں کا محاسبہ کرنا صرف اس کے لیے جائز ہے، جو خود اپنا محاسبہ اس سے بھی زیاد ہ سخت انداز میںکرتا ہو۔ جو شخص مومن ہوتا ہے، وہ مصلح بھی ہوتا ہے۔ یعنی اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کا طالب ہونا۔ جب وہ دوسروں کے اندر کوئی کمی کی بات دیکھتا ہے، تو اپنے احساس کے تقاضے کے تحت وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ نہایت واضح انداز میں اس کی نکیر کرے۔
اس طرح کی نکیر بلاشبہ ایک ثواب کا کام ہے۔ لیکن جو آدمی سچے جذبے کے ساتھ دوسروں کے بارے میں حساس ہو، وہ یقینا اپنے بارے میں شدید حساس ہوتا ہے۔ اس کی یہ حساسیت ایک طرف دوسروں کے بارے میں اس کو ناقد بناتی ہے۔ دوسری طرف یہی حساسیت اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ اگر میں نے تنقید کرنے میں کوئی غلطی کی ہے تو اللہ یقینا میری سخت پکڑ کرے گا۔ مومن کی حساسیت اس کے اندر دو طرفہ صفت پیدا کرتی ہے۔ ایک طرف دوسروں کو نصیحت کرنااور دوسری طرف شدید انداز میں اپنا محاسبہ (introspection) کرنا۔ اس طرح مومن کی یہ دو طرفہ حساسیت اس کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ہوتی ہے۔ ایک طرف یہ حساسیت اس کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ درست انداز میں اصلاح کا کام کرے، اور دوسری طرف یہ حساسیت اس کو اس سے بچاتی ہے کہ وہ اس عمل میں کسی زیادتی سے اپنے آپ کو بچائے۔وہ دوسرے کی غلطی کو بتانے والا بھی بن جاتا ہے، اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے والا بھی۔
واپس اوپر جائیں

دعا، قبولیتِ دعا

قرآن میں دعا کی بابت ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ (40:60)۔ یعنی اور تمہارے رب نے فرما دیا ہے کہ مجھ کو پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں، وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
آیت کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر دعا کو قبول کرتا ہے۔ لیکن دوسرے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعا کی یہ قبولیت صرف پاک کلمہ (فاطر 10:) کے لیے ہے۔ یعنی وہ پکار جو اللہ کے قانون کے مطابق ایک درست پکار ہو۔ مثلا اگر کوئی شخص یہ دعا کرے کہ شیطان ہمیشہ کے لیے نابود ہوجائے تو ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ کیوں کہ اللہ کے فیصلے کے مطابق شیطان کو قیامت تک باقی رہنا ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص کسی گروہ کو اپنا دشمن فرض کرلے، اور یہ دعا کرے کہ میرے یہ تمام دشمن ہلاک ہوجائیں تو ایسی دعا بھی ہرگزقبول نہ ہوگی۔ کیوں کہ کسی گروہ کی ہلاکت کے لیے اللہ کا اپنا قانون ہے، اس کا تعلق کسی کی دعا سے نہیں۔
اسی طرح اگر کچھ لوگ کسی گروہ سے قومی لڑائی لڑیں اور یہ دعا کریں کہ خدایا تو اپنے وعدے کےمطابق ہمیں ان کے مقابلے میں اپنی نصرت عطا فرما۔ تو ایسی دعا بھی قبول ہونے والی نہیں۔ کیوں کہ اللہ کی نصرت اپنے قانون کے مطابق آتی ہے۔ ہمارے اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف نہیں۔سچی دعا وہ ہے جو سچے انسان کے دل سے نکلے۔ اسی طرح دعا کی قبولیت اس وقت ہوتی ہے، جب کہ دعا اللہ کے راستے میں کامیابی کے لیے کی گئی ہو، نہ کہ خود ساختہ راستے میں کامیابی کےلیے۔ آدمی کو چاہیے کہ پہلے وہ اپنے آپ کو مزکیّٰ شخصیت بنائے۔ پھر وہ اللہ کے منصوبہ کو سمجھے، اور اللہ کے منصوبہ کے مطابق اپنے آپ کو اُس پر لگائے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں، ان کی دعا ضرور قبول ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

فروغ وسائل انسانی

امریکی عالم اقتصادیات جان آر کامنس (John R. Commons) نے 1893 میں ایک کتاب شائع کی، دی ڈسٹری بیوشن آف ویلتھ (The Distribution of Wealth) ۔ اس کتاب میں اس نے پہلی بار ہیومن ریسورس (human resource)کی اصطلاح استعمال کی۔ ابتدائی طور پر اس اصطلاح کو انڈسٹریل کلچر کی ایک ضرورت کے طور پر لیا گیا تھا۔ لیکن بعد کو توسیعی طور پر یہ اصطلاح انسانی وسائل کے ڈیولپمنٹ (human resource development) کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگی۔
یہ اصطلاحی توسیع آغاز ہی سے اپنے اندر غلط فہمی کا ایک پہلو رکھتی تھی۔ وہ یہ کہ جس طرح مادی دنیا میں مادہ کو خارجی ڈیولپمنٹ کے ذریعہ ترقی کے مرحلے تک پہنچایا جاسکتا ہے، اسی طرح انسا ن کو بھی خارجی تربیت کے ذریعہ اعلی تربیت تک پہنچانا ممکن ہے۔ مثلاً اُور (ore) کو ڈیولپ کرکے جس طرح اسٹیل (steel) کے درجے تک پہنچانا ممکن ہوتا ہے، اسی طرح غیر اعلی انسان کو بھی خارجی تربیت کے ذریعہ اعلی انسان کے درجے تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ مگر اس تصور میں ایک چیز حذف ہوگئی۔ وہ یہ کہ انسان اگر چہ جسمانی اعتبار سے بظاہر ایک مادی وجود ہے، لیکن اپنے دماغ کے اعتبار سے وہ مکمل طور پر ایک غیر مادی ظاہرہ (non-material phenomenon) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فرق کا مطلب یہ ہے کہ انسان بنایا نہیں جاتا، بلکہ وہ اپنے آپ کو خود اپنی سوچ کے تحت تیار کرتا ہے۔ انسان ایک سیلف میڈ (self-made) مخلوق ہے۔
ایک حدیث رسول
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: کل مولود یولد على الفطرة، فأبواہ یہودانہ، أو ینصرانہ، أو یمجسانہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔
یہاں والدین کا لفظ علامتی معنی میں ہے، یعنی ماحول (environment) ۔ آدمی جس طرح کے ماحول میں زندگی گزارتا ہے، اسی کے مطابق اس کی کنڈیشننگ ہوتی رہتی ہے۔ چناں چہ ہر انسان ایک کنڈیشنڈ انسان ہوتا ہے۔ مگر یہ کنڈیشننگ اوپری نوعیت کی ہوتی ہے۔اس کنڈیشننگ کے باوجود انسان کی اصل فطرت بدستور اپنی جگہ باقی رہتی ہے۔اس اعتبار سے ہر انسان کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرے۔ وہ اپنے آپ کو شعوری عمل (intellectual process) کے ذریعے ایک نیا انسان بنائے۔ اس سے پہلے اگر وہ کنڈیشننگ کا ایک کیس تھا تو وہ دوبارہ اپنے آپ کو فطرت کا ایک کیس بنائے۔
اس عمل کے دوران انسان مزید یہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرتا ہے۔ اس عمل (process) کے دوران وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ خالق نے اس کے اندر کون سی انفرادی صفت رکھی ہے۔ تخلیق کے اعتبار سے ہر مرد مسٹر ڈیفرنٹ ہے اور ہر عورت مس ڈیفرنٹ ۔ اس منفرد شخصیت کو دریافت کرنے کے بعد ہی انسان کی اصل تعمیر کا کام شروع ہوتا ہے۔ انڈسٹری کے کلچر میں آدمی کو معدنیات جیسا ایک مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ انڈسٹری کا کلچر آدمی کو خود اپنی ضرورت کے مطابق تربیت دے کر اس قابل بناتاہے کہ وہ اس کی مشین کا ایک پرزہ بننے کے قابل ہوسکے۔
لیکن انسان اس انڈسٹریل تصور سے بہت زیادہ ہے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرے۔ اور اس خود دریافت کردہ تخلیق کے مطابق اپنے آپ کو اعلی مقصد کے لیے ڈیولپ کرے۔ یہ ایک سیلف ڈیولپمنٹ کا عمل (process) ہے۔ یہی سیلف ڈیولپمنٹ کا عمل انسان کو مین (man)سے بڑھا کر سوپر مین بناتا ہے۔ اسی سیلف ڈیولپمنٹ کے بعد آدمی اس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اعلی کامیابی (super-achievement) تک لے جائے۔ اس لحاظ سے فروغ وسائل انسانی کا سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ازسر نو دریافت (rediscover) کرے۔ وہ پھر سے اپنی معرفت حاصل کرے۔ اسی خود دریافت کردہ معرفت میں اعلی انسانی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کنڈیشننگ کا مسئلہ

پیغمبر اسلام کی پیدائش 570 ء میں مکہ میں ہوئی۔ آپ نے نبوت کا مشن 610ء میں شروع کیا۔ 632ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ وفات سے کچھ ماہ پہلے، آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس وقت کے اہل اسلام کو عمومی خطاب کیا، جو بالواسطہ طور پر پوری امت مسلمہ سے خطاب کے ہم معنی تھا۔اس خطاب کے بارے میںایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے :أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم خطب الناس یوم النحر فقال:یا أیہا الناس أی یوم ہذا؟، قالوا:یوم حرام، قال:فأی بلد ہذا؟، قالوا:بلد حرام، قال:فأی شہر ہذا؟، قالوا:شہر حرام ، قال:فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم ہذا، فی بلدکم ہذا، فی شہرکم ہذا، فأعادہا مرارا، ثم رفع رأسہ فقال:اللہم ہل بلغت، اللہم ہل بلغت - قال ابن عباس :فوالذی نفسی بیدہ، إنہا لوصیتہ إلى أمتہ، فلیبلغ الشاہد الغائب، لا ترجعوا بعدی کفارا، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری، حدیث نمبر1739)۔
عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کے دن خطبہ دیا۔ آپ نے پوچھاکہ اے لوگو ، یہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ یوم حرام ہے، آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ شہر حرام ہے، آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ حرام کا مہینہ ہے۔ آپ نے فرمایا تمہارا خون اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر حرام ہے، جس طرح یہ دن تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینہ میں حرام ہے۔ آپ نے یہ کلمات چند بار دہرائے۔ پھر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ، کیا میں نے پہنچا دیا۔ اے اللہ، کیا میں نے پہنچا دیا۔ عبد اللہ ابن عباس نے کہا، قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، آپ نے اپنی امت کو یہی وصیت فرمائی تھی کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، میرے بعد تم لوگ کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض ، بعض کی گردن مارنے لگے۔
اس حدیث میں کفر کا لفظ شدت اظہار کی بنا پر ہے۔ باعتبار حقیقت اس سے مراد یہ ہے کہ دور جاہلیت کی طرف لوٹ نہ جانا۔ اسلام سے پہلے عرب میں جو دور تھا، اس کو جاہلیت کا دور کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں عرب میں قبائلی دور (tribal age) قائم تھا۔ قبائلی دور کا کلچر قتل و قتال کا کلچر تھا۔ ابوتمام حبیب بن أوس الطائی نے اپنے انتخابی مجموعہ دیوان الحماسہ میںایک جاہلی شاعر کا ایک شعر اس طرح نقل کیا گیا ہے:
وأحیاناً على بکرٍ أخینا إذا ما لم نجد إلا أخانا
یعنی اور کبھی ہم اپنے بھائی بکر سے لڑ جاتے ہیں۔جب کہ ہمیں لڑنےکے لیے اپنےبھائی کے سوا کوئی اور نہیں ملتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ نصیحت کا پس منظر یہ ہے کہ یہ لوگ جن کی پرورش عرب کے قبائلی ماحول میں ہوئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی سابقہ کنڈیشننگ کو ڈی کنڈیشن نہ کر پائیں اور دوبارہ ان کے اندر جنگ و جدال کا کلچر شروع ہوجائے۔ ابتدائی دور کے اہل ایمان کے لیے اس کنڈیشنگ کا مطلب عرب کے قدیم ماحول کی کنڈیشننگ ہے۔ اس کنڈیشننگ کی بنا پر ان کے اندر بعد کے زمانے میں لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان جودوبارہ جنگ و تشدد کے کلچر میں مشغول ہیں، وہ بھی اسی کنڈیشننگ کی بنا پر ہیں۔ فرق یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی کنڈیشننگ تاریخی کنڈیشننگ (historical conditioning) ہے۔
عباسی دور میں جو کتابیں تیار ہوئیں، وہ اس تاریخی کنڈیشننگ کا ذریعہ بن گئیں۔ اس زمانے میں یہ ہوا کہ سیرت رسول کی کتابیں مغازی کے پیٹرن پر لکھی گئیں۔ مسلم تاریخ پوری کی پوری فتوح الشام اور فتوح البلدان کی زبان میں تیار ہوئی۔ بعدکا پورا لٹریچر عملاًاسی اسلوب میں ڈھل گیا۔ اس کی ایک مثال ایک مسلم شاعر کا یہ شعر ہے:
ابھی بھولے نہیں ہم خالد و طارق کے افسانے فتوحات صلاح الدیں ابھی زندہ ہیں دنیا میں
بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریبا سب کی سب اسی پیٹرن پر لکھی گئیں، خواہ وہ منظوم کتابیں ہوں یا منثورکتابیں۔ بعد کےمسلمان پیدا ہوتے ہی اسی قسم کی کتابیں پڑھنے لگے۔ اس طرح وہ دوبارہ بذریعہ لٹریچر اسی قسم کی کنڈیشننگ میں مبتلا ہوگیے جس کو تاریخی کنڈیشننگ کہاجاسکتا ہے— موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو نفرت اور تشدد کی سوچ ہے، وہ اسی تاریخی کنڈیشننگ کا نتیجہ ہے۔
ڈی کنڈیشننگ کیا ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کا عمل آدمی خود اپنے آپ پر کرتا ہے۔ ڈی کنڈیشننگ کو روایتی اصطلاح میں محاسبہ نفس کہا جاسکتا ہے۔ اس محاسبہ خویش (self-deconditioning) کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی خود اپنا بے لاگ مطالعہ کرے، اور اپنے آپ کو ان اثرات سے پاک کرے جو تاریخی طور پر اس کی سوچ کا حصہ بن گیے ہیں۔
مثلا مذکورہ معاملہ میں آدمی یہ سوچے کہ قتال کی نوعیت اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں کیا ہے۔ پھر وہ پائے گا کہ قتال کوئی ابدی عمل نہیں۔ اس کا ایک اختتام (end) ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ (الانفال 39:) اور جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا (محمد: 4)۔
قرآن اور حدیث میں اس طرح کے متعدد حوالے موجود ہیں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ قتال حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ حسن لغیرہ ہے۔ یعنی اسلام میں قتال برائے قتال (qital for the sake of qital) نہیں ہے، بلکہ قتال کسی متعین سبب کے لیے ہے۔ جب یہ سبب ختم ہوجائے تو قتال بھی ختم ہوجائے گا۔ اس طرح سوچنے کے عمل کو اپنا محاسبہ کہا جاتاہے۔
موجودہ زمانے میں جو مسلمان یہ کررہے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کو اپنا دشمن قرار دے کر ان کے خلاف متشددانہ کارروائی یا خودکش بمباری (suicide bombing)کررہے ہیں، وہ اگر اس طرح غور کریں تو یقیناً ان کا موجودہ سوچنے کا طریقہ بدل جائے گا۔ اسی کو ڈی کنڈیشننگ کہا جاتا ہے۔ اگر موجودہ زمانے کے مسلمان اس طرح بے لاگ انداز میں غور کریں تویقینا وہ ایک اور حدیث تک پہنچیں گے جو براہ راست طور پر اسی معاملے سے متعلق ہے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک وقت آنے والا ہے، جب کہ ساری دنیا مویددین بن جائے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ مسند احمد میں یہ روایت اس طرح آئی ہے:إن اللہ سیؤید ہذا الدین بأقوام لا خلاق لہم (حدیث نمبر20454)۔ صحیح البخاری میں یہ روایت ان الفاظ میں ہے:إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر(حدیث نمبر3062)۔
یہ حدیث مستقبل کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک پیشگی خبر ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسول اور اصحاب رسول کی کوششوں سے ساتویں صدی عیسوی میں جو انقلاب آیا، اس کے بعد دنیا میں ایک تاریخی عمل (historical process) بڑے پیمانے پر جاری ہوگیا۔ اس تاریخی عمل میں نہ صرف مسلمان بلکہ دوسری سیکولر قومیں بالخصوص اہل مغرب بڑے پیمانے پر شریک ہوئیں۔ بیسویں صدی اس عمل کا نقطہ انتہا (culmination) تھا۔ اس عمل (process) نے انسانی تاریخ میں ایک نیا دور پیدا کردیا۔ اسی نئے دور کو حدیث میں دین کے حق میں تائید کا دور کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بارش کا آنا خدا کے منصوبے کا خاموش اعلان ہے۔ کسان اس خدائی اشارہ کو فوراً سمجھ لیتا ہے، اور اپنے آپ کو اس خدائی منصوبہ میں پوری طرح شامل کردیتا ہے۔ اس کا نتیجہ اس کو ایک لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں واپس ملتا ہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں، ہزار سالہ عمل کے نتیجے میں، اللہ تعالی نے اپنے دین کے حق میں نئے مواقع کھولے ہیں۔ یہ مواقع کہ اقتدار کا حریف بنے بغیر توحید اور آخرت کی دعوت کو عام کیا جائے۔ (اسلام پندرھویں صدی میں)


واپس اوپر جائیں

قابل عمل طریقِ کار

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی غیر معمولی کامیابی کا اعتراف عام طور پر مورخین نے کیا ہے۔ امریکی مصنف ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ میں پیغمبر اسلام کو پوری انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ کامیاب انسان بتایا ہے ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
Michael H. Hart, The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History (New York: Simon &Schuster Ltd., 1993), 3.
اسی طرح انڈین مصنف ایم این رائے (وفات1954:)نے اپنی کتاب دی ہسٹاریکل رول آف اسلام میں پیغمبر اسلام کے انقلاب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (M.N. Roy, The Historical Role of Islam [Bombay: Vora and Co. Publishers Ltd, 1938], 5.)
اس سلسلے میں اصل سوال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو اپنے مشن میں یہ غیر معمولی کامیابی کس طرح حاصل ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس خصوصی طریق کا ر کے ذریعے، جس کو قرآن میں صراطِ مستقیم (الفتح2:) کے نام سے بیان کیا ہے۔ مطالعے سے معلوم ہوتا ہےکہ اس طریقہ کی استثنائی صفت یہ تھی کہ وہ ایک کامل معنوں میں قابل عمل طریقہ (workable method) تھا۔
تاریخ میں بہت سی مثالیں ہیں، جب کہ لوگ ایک مقصد کے لیے اٹھے، انھوں نے غیر معمولی قربانیاں دیں، لیکن وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پیغمبر اسلام کی استثنائی صفت ہے کہ آپ جس مقصد کے لیے اٹھے تھے، اس مقصد کو حاصل کرنے میں آپ پوری طرح کامیاب ہوگیے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ کا طریق کار ایک ایسا طریق کا ر تھا، جو ورک کرنے والا (workable) طریق کار تھا۔ جب کہ دوسرے لوگوں کا معاملہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک ایسا طریق کار اختیار کیا جو قانون فطرت کے مطابق، ورک کرنے والا (workable) ہی نہ تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کا ر اس لیے ورک کرنے والا طریق کار بن گیا کہ وہ مکمل طور پر حقیقت پسندی پر مبنی تھا۔ پیغمبر اسلام کے ذہن میں بلاشبہ اپنا ایک سوچا سمجھا آئڈیل تھا، لیکن اپنی حقیقت پسندی کی بنا پر انھوں نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنی جدو جہد کے دوران اس طریقے کو اختیار کیا جو حالات کے لحاظ سے عملاً قابل عمل طریق کار تھا۔ آپ کی پالیسی کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Ideologically, he was perfectly an idealist, but practically, he always adopted practical wisdom. Theoretically, he was an idealist, but practically, he was a pragmatic.
آؤٹ سورسنگ (outsourcing)
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں مکہ میں توحید کا مشن شروع کیا۔ مکہ میں مقدس کعبہ تھا، جس کواب سے تقریبا چار ہزار سال پہلے پیغمبر ابراہیم نے ایک خدا کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں مکہ میں دھیرے دھیرے شرک کے اثرات پھیل گیے۔ یہاں تک کہ بعد کے زمانے میں مکہ کےسرداروں نے کعبہ میں بتوں کو رکھنا شروع کردیا، جن کی تعداد بڑھتے بڑھتے تقریباً تین سو ساٹھ ہوگئی۔ پیغمبر اسلام کے لیے یہ منظر بے حد تکلیف دہ تھا۔ لیکن آپ نے اس معاملے میں مثبت (positive)طریقہ اختیار کیا۔
آپ نے دیکھا کہ ان بتوں کی وجہ سے وہاں روزانہ ایک مجمع ہوتا ہے۔ سارے عرب سے ان بتوں کے پرستار کعبہ کے پاس اکٹھا ہوتے ہیں۔ آپ نے ان پرستاروں سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ آپ نے اس موقعہ پر اس طریقے کو اختیار کیا ، جس کوآج کل کی زبان میں آؤ ٹ سورسنگ کہا جاتا ہے۔ یہ مجمع تمام تر غیر خدا پرستوں کا مجمع ہوتا تھا۔ آپ نے ان لوگوں کو مدعو کا درجہ دیا۔ اور ان کو اپنا آڈینس (audience) بنا لیا۔ آپ روزانہ وہاں جاتے اور ان کو قرآن پڑھ کر سناتے۔ چناں چہ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے :وعرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن(سیرۃ ابن ہشام، 1/428)۔
ری پلاننگ (re-planning)
قدیم مکہ میں آپ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ مکہ کے سرداروں نے آپ کو یہ الٹی میٹم دے دیا کہ یا تو آپ مکہ کو چھوڑ دیں، یا ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ اس وقت آپ نے دوبارہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ آپ نے ری پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی آپ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو اپنے مشن کا مرکز بنا لیا۔ اور مکہ کے بجائے مدینہ سے اپنے مشن کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ نیا منصوبہ کامیاب رہا، اور بہت جلد اسلام کی تحریک ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ پہلے اگر آپ کا مشن ایک مقامی مشن تھا، تو اب وہ دھیرے دھیرے ایک انٹرنیشنل مشن بن گیا۔
پیس ایٹ اینی کاسٹ (peace at any cost)
تاہم آپ کی ہجرت کو قدیم مکہ کے سرداروں نے دل سے قبول نہیں کیا۔ انھوں نے آپ کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردی۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول دعوت الی اللہ کے لیے قاتل ہے۔ دعوت کا کام ٹکراؤ کے ماحول میں انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اس موقع پر آپ نے فیصلہ کیا کہ کوئی ایسی تدبیر کرنا چاہیے ، جس سے دونوں فریقوں کے درمیان امن کا ماحول قائم ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے فریق مخالف سے گفت و شنید (negotiation) شروع کردیا۔لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ فریق ثانی اس کے لیے راضی نہیں ہے کہ وہ دو طرفہ شرطوں پر امن کا معاہدہ کرے۔ آپ نے یہ طے کیا کہ فریق ثانی کی تمام شرطوں کو مان کر، ان سے یک طرفہ بنیاد ( unilateral basis) پر صلح کا معاہدہ کرلیا جائے۔اس طرح ہجرت کے چھٹے سال دونوں فریقوں کے درمیان وہ معاہدۂ امن طے پایا، جس کو صلح حدیبیہ (Hudaybiyah Agreement)کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کو اس وقت کے اکثر لوگوں نے ذلت آمیز معاہدہ (humiliating agreement) قرار دیا۔ لیکن قرآن نے کہا کہ یہ فتح مبین (clear victory) ہے۔ اور چند سال کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ یہ معاہدہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے یقیناً فتح مبین تھا۔
یہ چند مثالیں ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کا طریقہ کیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتقوا فراسة المؤمن فإنہ ینظر بنور اللہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر3127)۔ یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن ذاتی جذبہ کے تحت کام نہیں کرتا، بلکہ وہ فطرت کے بارے میں خدا کے نقشۂ تخلیق کو دریافت کرتا ہے۔ اور اس کے مطابق اپنا منصوبہ بناتا ہے، اور جو لوگ اپنے کام کی پلاننگ اس طرح کریں ، وہ ضرور کامیابی کا درجہ پالیں گے۔
واپس اوپر جائیں

انگریزی کاایک مثل ہے:

Hitting the nail on the head
یعنی کیل کے عین سر پر مارنا۔ یہ مثل بہت بامعنی ہے۔ اس میں ایک مادی مثال کے ذریعہ انسانی کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ کیل جب کسی چیز پر ٹھونکی جاتی ہے تو اس کے ٹھیک سر پر ہتھوڑی ماری جاتی ہے۔ اگر ہتھوڑی کی مار ادھر ادھر پڑے تو وہ صحیح طور پر اندر نہیں داخل ہوگی، بلکہ ٹیڑھی ترچھی ہو کر رہ جائے گی۔اسی طرح زندگی کے معاملات میں یہ جاننا پڑتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک وہ کون سا مقام ہے جہاں ضرب لگانی چاہیے۔ صحیح ضرب کے نتیجہ ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔ (ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں

عہد اسلام

قرآن و حدیث میں اسلام کے مستقبل کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں (predictions) موجود ہیں، جو بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو زمانہ آنے والا ہے، وہ اسلام کا زمانہ ہوگا۔ مثلا ایک روایت ہے۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ سے شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو تکیہ بنائے ہوئے لیٹےتھے۔ ہم نے کہا کہ کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد نہیں مانگتے، کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا، تم سے پہلے جو لوگ تھے، ان کا یہ حال تھا کہ آدمی کو پکڑا جاتا، اس کے لیے زمین میں گڈھا کھودا جاتا، پھر اس کو اس میں ڈال دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا تھا اور اس کے سر پر چلایا جاتا تھا، اور اس کو دو ٹکرے کردیا جاتا تھا، اور(کبھی ایسا ہوتا کہ کسی آدمی کے جسم پر)لوہے کی کنگھی کی جاتی ، یہاں تک کہ وہ اس کے گوشت سے بڑ ھ کر اس کی ہڈی تک پہنچ جاتی تھی۔ مگر یہ چیز اس کو اس کےدین سے روکنے والی نہیں بنتی تھی۔
پھر آپ نے فرمایا:واللہ لیتمن ہذا الأمر، حتى یسیر الراکب من صنعاء إلى حضرموت، لا یخاف إلا اللہ، والذئب على غنمہ، ولکنکم تستعجلون۔یعنی خدا کی قسم یہ امر تکمیل تک پہنچے گا، یہاں ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہیں ہوگا، اور بھیڑیے کا اپنی بکریوں پر،مگر تم لوگ جلدی کررہے ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6943)۔
یہ قول رسول ایک پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کی تاریخ میں جو اہل دین پر ظلم کیا جاتا تھا ، وہ اسلام کے بعد کی تاریخ میں اللہ کی مدد سے ختم ہوجائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قبل از اسلام کا دور، اگر مخالف اسلام دور تھا تو بعد از اسلام کا دور، موافق اسلام کا دور ہوگا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں یہ دور آیا۔ اب اس پیشین گوئی پر تقریبا ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یقینی ہے کہ یہ دور تاریخ میں آچکا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اہل اسلام اس دور کی آمد سے بے خبر ہیں۔
اس عظیم بے خبری کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب،حدیث کے مطابق یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے اکثر لوگوں سے ان کی عقلیں چھن جائیں گی (تنزع عقول أکثر ذلک الزمان)سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959۔اس بنا پر وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ کسی واقعہ کا صحیح تجزیہ کرکے اس کی حقیقت کو دریافت کریں۔ عقل کیا ہے۔ عقل اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو جان سکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ مصرکے سید قطب مزید تعلیم کے لیے امریکا گیے۔ وہاں وہ تین سال رہے۔ انھوں نے امریکا کے بارے بیس صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی۔ کتاب کا عربی نام یہ ہے، امریکا التی رایت:
The America I have Seen
یہ کتاب امریکہ کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آدمی وہی رائے قائم کرے گاجو عام طور پر امریکا کے بارے میں عربوں کی رائے ہے۔ عرب عام طور پر امریکاکے بارے میں اپنی رائے، اس الفاظ میں بیان کرتے ہیں: امریکا عدو الاسلام رقم واحد (امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے)۔ اس منفی رائے کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ امریکا کو ایک غیرمتعلق پہلو سے دیکھتے ہیں۔ جو لوگ امریکا کو اسرائیل کے زاویہ سے دیکھتے ہیں، وہ امریکا کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ اور جو لوگ امریکا اس کو اس کے کلچر کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، وہ لوگ امریکاکو اباحیت (permissiveness )کا ملک سمجھتے ہیں۔ مگر یہ دونوں پہلو امریکا کے غیر متعلق پہلو ہیں۔ اس کا متعلق پہلو یہ ہے کہ امریکا میں سائنسی تحقیق (scientific research) کاسب سے زیادہ کام ہوا ہے۔ غیر متعلق پہلو سے دیکھنے میں امریکا ایک برا ملک نظر آتا ہے، لیکن اگر متعلق پہلو سے دیکھا جائے تو امریکا انسانیت کا محسن ملک نظر آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

قتل کی سزا

امام ابن تیمیہ الحرانی ( 661-728 ھ)شام میں پیدا ہوئے۔ یہ مسلمانوں میں عام طور پر اہم ترین عالم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کو شیخ الاسلام کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کی کتابیں کتب مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہماری آفس میں موجود مشہور عربی ڈیجیٹل لائبریری المکتبۃ الشاملۃ میں ان کی 154 عربی کتابیں ہیں۔
ایک عرب عالم محمد حبش کا ایک مقالہ انٹرنیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس مقالہ کا ٹائٹل یہ ہے: ابن تیمیة و428 فتوى بعنوان:(یستتاب وإلا قتل)۔انھوں نے ابن تیمیہ کی عربی کتابوں کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا ، اور اس مقالے میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ابن تیمیہ نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق کن عمل کو مستوجب قتل جرائم قرار دیا ہے۔ یعنی کون سے ایسے جرائم ہیں جو ابن تیمیہ کے نزدیک مستوجب قتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔محمد حبش اپنے مقالہ میں ابن تیمیہ کے الفاظ اس طرح نقل کرتے ہیں :’’یستتاب وإلا قتل‘‘، أو’’وإلا فإنہ یقتل‘‘(یعنی ایسے شخص سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر اس نے توبہ نہیں کیا تو اس کو قتل کردیا جائے گا) ۔ ان کے مطابق، ابن تیمیہ کے مجموع فتاویٰ میں یہ جملہ دو سو مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ اور اگر دوسری کتابوں کو شامل کرلیا جائے تو ایسے جرائم کی تعداد 428 ہوجاتی ہے۔ انٹرنیٹ پرملاحظہ ہو مذکورہ مضمون: ابن تیمیة و428فتوى بعنوان: (یستتاب وإلا قتل)۔
یہ کون سے جرائم ہیں۔ یہ سب کے سب اعتقادی جرائم (thought crime)ہیں۔ محمد حبش نے مثال کے طور پر ابن تیمیہ کے کچھ ایسے فتاویٰ نقل کیے ہیں:مثلاً جو شخص یہ نہ کہے کہ اللہ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پرہے تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کو قتل کیا جائے گا۔ جو شخص کسی سے کہے کہ میں نے تمھارے اوپر توکل کیا، یا مجھے تمھارے اوپر اعتماد ہے— تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جس شخص کا یہ عقیدہ ہوکہ اولیاء میں سے کوئی ولی محمد کے ساتھ ہوگا جیسا کہ خضر موسیٰ کے ساتھ تھے، تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اگر اس نے توبہ نہیں کیا تو اس کی گردن ماردی جائے گی۔ ایک بالغ انسان نے پانچ نمازوں میں سے کوئی ایک نماز نہیں ادا کی یا بعض متفق علیہ فرائض کو ترک کردیا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہیں کیا تو اس کو قتل کیا جائے گا۔ جس نے یہ نہ کہا کہ اللہ سات آسمانوںکے اوپر ہےتو وہ اپنے اس قول کی بنا پر کافر قرار پائے گا، اس کا خون مباح ہوگا، اس کی توبہ طلب کی جائے گی ، اگر توبہ نہیں کیا تو اس کی گردن ماردی جائے گا، اور اس کو کوڑا خانہ میں ڈال دیا جائے گا۔جو یہ کہے کہ قرآن (قدیم نہیں)حادث ہے تو وہ میرے نزدیک جہمیہ ہے، اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اگر نہ کرے تو اس کی گردن ماردی جائے گی۔ جو یہ کہے کہ کسی صحابی یا تابعی، یا تبع تابعین نے کفار کے ساتھ مل کرجنگ کی تو وہ گمراہ بلکہ کافر ہے، واجب ہے کہ اس سے اس بات کی توبہ طلب کی جائے، اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔جو مذکورہ باتوں کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے، تو بلاشبہ وہ کافر ہے، واجب ہے کہ اس سے توبہ طلب کی جائے، اگر وہ توبہ نہ کرے تو وہ قتل کیا جائے گا۔ جو آدمی کچھ ظاہر و متواتر مباح چیزوں کے حلال ہونے کا انکار کرے ، جیسے روٹی، گوشت، اور نکاح وغیرہ تو وہ کافرمرتد ہے، اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اگر توبہ نہ کرے تو قتل کردیا جائے گا۔ اور اگر اس کو دل میں چھپائے (یعنی گوشت ، روٹی، اور نکاح کا حرام ہونا) تو وہ زندیق و منافق ہے، اکثر علماء کے نزدیک اس سے توبہ قبول نہیں کی جائے گی، بلکہ اُس سے اگراِس کا اظہار ہوتو بلاتوبہ اسے قتل کیا جائے گا۔ جس شخص نے اس شریعت کو لا زم نہیں پکڑا، یا اس میں طعن کیا، یا اس سے کسی کے خروج کو صحیح کہا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جس نے یہ دعوی کیا کہ اللہ تک پہنچانے کے لیے اس کے پاس شریعت محمد ی کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہے،جس سے و ہ اللہ کی رضا کو پاسکتا ہے تو وہ بھی کافر ہے، اس سے توبہ طلب کیا جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن ماردی جائے گی۔ سانپ اور بچھو کا کھانا مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے، تو جس نے ان کو حلال سمجھ کر کھایا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جو یہ کہے کہ قرآن مخلوق ہے تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جو یہ کہے کہ اللہ نے موسیٰ سے کلا م نہیں کیا تو اس سے توبہ طلب کی جائی گی اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ (تکبیر قرآن میں لکھا ہوا نہیں ہے،اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے)تو جس شخص نے یہ خیال کیا کہ تکبیر (اللہ اکبر)قرآن سے ہے تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ جس نے نماز کو کسی کام سے یا شکار کی وجہ سے یا استاد کی خدمت ، وغیرہ کی وجہ سے موخّر کیا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو اس کو سزا دینا واجب ہے، بلکہ جمہور علماء کے نزدیک توبہ کے بعد اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ جس شخص نے یہ کہا کہ مسافر پر رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہے تو وہ دونوں گمراہ اور مسلمانوں کے اجماع کے مخالف ہیں، اس کے کہنے والے سے توبہ طلب کی جائے گی اور اگر نہ کرے تو قتل کردیا جائے گا۔
ابن تیمیہ کے یہ فتاویٰ ان کی ذاتی رائے پر مبنی نہیں ہے۔ بلکہ یہی عام طور پر بعد کے زمانے کے علماء اور فقہاء کا مسلک ہے۔ اسی بنا پر ایساہے کہ سات سو سال گزرنے کے بعد بھی کسی قابلِ ذکر عالم نے اس کے خلاف کوئی کتاب نہیں لکھی۔ بلکہ اس قسم کے دعوی کے باوجود ابن تیمیہ آج بھی اکابر علماء میںعظیم درجہ پائے ہوئے ہیں۔
ابن تیمیہ نے جن چیزوں پر قتل کا فتویٰ دیا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک’’جرم‘‘ بھی قرآن و حدیث میں مذکور نہیں۔ پھر ابن تیمیہ اور دوسرے علماء نے کیوں ایسا کیا کہ جس جرم کے لیے قرآن و حدیث میں سزا مذکور نہیں، اس کے لیے انھوں نے شرعی اعتبار سے سزا مقرر کی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان علماء نے سماجی جرم (social crime) اور اعتقادی جرم (thought crime) میں فرق نہیں کیا۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق، سماجی جرم پر سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ لیکن اعتقادی جرم اسلام کے نزدیک کوئی قابلِ سزا جرم ہی نہیں۔
اعتقادی جرم اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ کی عطاکردہ آزادی کا غلط استعمال ہے۔ اس قسم کا غلط استعمال اگر وہ کسی کے خلاف جارح (harmful) نہ ہو تو وہ اس کے لیے قابلِ سزا فعل نہ ہوگا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُر (18:29)۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں دعوت کا تصور حذف ہوگیا۔ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ جو شخص کوئی غلطی کرے، خواہ وہ غلطی قول کی ہو یا فعل کی، اس کو سخت سزا دی جائے گی۔؃ مگر یہ تصور سر تا سر قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق، سماجی جرائم پر سزا ہے لیکن قولی انحراف پر ناصحانہ دعوت ہے، نہ کہ سزا۔
سخت سزا کا یہ تصور اسلام کے بعد کے زمانے میں پیدا ہوا ، جب کہ مسلمانوں کی اپنی سلطنت (political empire) قائم ہوچکی تھی۔ اسلام کے ابتدائی زمانے میں اس طرح کی صورتِ حال میں پرامن دعوتی جواب کا تصور تھا۔ بعد کے زمانے میں یہ تصور بن گیا کہ اب ہم کو طاقت حاصل ہے ، اس لیے ہم کو اقتدار کی سطح پر اس کا پرتشدد جواب دینا چاہیے۔ یہ تصور قرآن کے خلاف تھا۔ قرآن تمام تر پر امن دعوت کے تصور پر قائم ہے، نہ کہ پرتشدد سزا کے اصول پر۔ اس معاملے میں قرآن کی یہ آیت ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے: فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّر، لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِر (88:21-22)۔ پس تم یاد دہانی کردو، تم بس یاد دہانی کرنے والے ہو۔ تم ان پر داروغہ نہیں۔
قرآن کی اس آیت میں مصیطر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مصیطر کا مطلب داروغہ ہے، یعنی جبری نفاذ کرنے والا۔ قرآن کی اس آیت میں مطلق طور پر یہ حکم دیا ہے کہ تمھاری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ تم پر امن انداز میں لوگوں کو نصیحت کرتے رہو۔ تمھاری ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ تم اپنی بات کو لوگوں کے اوپر جبری طور پر نافذ کرو۔یہ آیت ابدی طور پر اہل ایمان کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ اعتقاد کے معاملے میں ان کو ہرگز کسی شخص پر تشدد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ خیر خواہی کے جذبے کے تحت لوگوں کو نصیحت کریں۔ جو شخص نصیحت کو مان کر اپنی اصلاح کرے گا، وہ اللہ کے یہاں اس کا بدلہ پائے گا۔ اور جو شخص نصیحت کو نہ مانے اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔
واپس اوپر جائیں

حضرت عائشہ کا نکاح

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوا۔ خدیجہ مکہ کی ایک بااثر خاتون تھیں۔ اس بنا پر اس نکا ح سے پیغمبر اسلام کو مکہ میں ایک مضبوط سماجی بنیاد (social base) حاصل ہوگئی۔ مکہ میں یہ سماجی بنیاد آپ کو تقریبا 25 سال حاصل رہی۔ آپ ایک صاحب مشن تھے، اوراپنے مشن کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ضروری ہے کہ صاحب مشن کو مضبوط سماجی بنیاد حاصل ہو۔
حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد پیغمبر اسلام کا دوسرا نکاح حضرت عائشہ سے ہوا۔ یہ نکاح مکی دور کے آخری زمانے میں ہوا، اور ہجرت کے بعد مدینہ میں ان کی رخصتی ہوئی۔ اس وقت عائشہ کی عمر نو سال تھی، اور پیغمبر اسلام کی عمر 53سال۔ عمر کے اس فرق کو لے کر لوگوں کے درمیان بہت بحثیں جاری ہیں۔ لوگ طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف نکاح کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد بطور واقعہ یہ ایک نئی سوشل بنیاد حاصل کرنے کا معاملہ تھا۔ حضرت عائشہ سے نکاح کے بعد ، پیغمبر اسلام کو ان کے باپ کی صورت میں ایک نئی مضبوط تر بنیاد حاصل ہوگئی۔ جیسا کہ تاریخی طور پر معلوم ہے، حضرت ابوبکر صدیق آپ کی زندگی میں بھی آپ کے مضبوط ساتھی بنے رہے، اور آپ کی وفات کے بعد بھی انھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام کے استحکام (stability) کے لیے نہایت اہم رول ادا کیا۔
فطرت کے نظام کے تحت ہر انسان کو کامیاب زندگی کے لیے سماجی بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کے مطابق یہ سماجی بنیاد دو طریقوں سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک خونی رشتہ، اور دوسرا، نکاح کا رشتہ(الفرقان54:)۔ فطرت کے نظام کے تحت یہی دو چیزیں مضبوط سماجی بنیاد کا ذریعہ ہیں۔ہر انسان انھیں دو رشتوں کی مدد سے سماج میں مضبوط بنیاد حاصل کرتا ہے۔ اس سماجی بنیاد کی ضرورت ہر انسان کو ہوتی ہے، حتی کہ پیغمبر کو بھی۔یہ فطرت کا نظام ہے، اور فطرت کے نظام میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔
قرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا (25:54)۔ یعنی اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر اس کو خاندان والا اور صہر والا بنایا۔ اور تمہارا رب بڑی قدرت والا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں خالق نے انسان کے اوپر اپنی ایک نعمت کو بتایا ہے۔ انسان کے درمیان دو طریقوں سے تعلقات قائم ہوتے ہیں، ایک خونی رشتہ (blood relationship ) اور دوسرا صہر یعنی نکاح کا رشتہ (marriage relationship)۔ انھیں فطری بنیادوں پر انسانی سماج (human society) قائم ہے۔ اگر یہ دو فطری عوامل نہ ہوں تو انسان کی زندگی حیوان کی مانند جنگل کی زندگی بن جائے۔ یہ فطری تعلقات دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے سماجی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس پہلو کی طرف اشارہ قرآن کی ایک آیت میںرھط (family)کے لفظ سے کیا گیا ہے۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے:قَالُوا یَاشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاکَ فِینَا ضَعِیفًا وَلَوْلَا رَہْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَا أَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیزٍ (11:91)۔یعنی انھوں نے کہا کہ اے شعیب، جو تم کہتے ہو، اس کا بہت سا حصہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ اور ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو ہم میں کمزور ہے۔ اور اگر تمھارا خاندان نہ ہوتا تو ہم تم کو سنگسار کردیتے۔ اور ہم تمھیں صاحب حیثیت نہیں سمجھتے۔
قرآن کے اس حوالے سے مذکورہ توجیہہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی تائیدات برابر ملتی رہیں۔ پہلے بنو ہاشم، اس کے بعد خدیجہ کا خاندان ، اس کے بعد حضرت ابوبکر کا خاندان۔ یہ رسول اللہ کے لیے ایک فطری تائید تھی، جو نسبی اور صہری تعلقات کی بنیاد پر آپ کو حاصل ہوئی۔ حضرت عائشہ کے ساتھ آپ کے نکاح کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو وہ نہایت بامعنی نظر آئے گا۔ خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق کا معاملہ بہت زیادہ اہم ہے۔ وہ رسول اللہ کی زندگی میں آپ کے ایک اہم ساتھی بنے، اور رسول اللہ کی زندگی کے بعد بھی انھوں نےخلیفہ کی صورت میں اسلام کے استحکام کے لیے نہایت اہم رول ادا کیا۔
واپس اوپر جائیں

دجالیت کیا ہے

دجالیت کوئی بھیانک یا پر اسرار لفظ نہیں۔ دجالیت ایک معلوم حقیقت کا نام ہے۔ دجالیت عین وہی چیز ہے، جس کو قرآن میں تزئین اعمال (الانعام43:) کہا گیا ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بات کو ایسے ڈیسپٹو (deceptive) انداز میں بیان کرنا کہ ایک غلط بات، سننے والے کو درست نظر آنے لگے۔یہی تزئین ہے، اور اس آرٹ کو زیادہ ہنرمندی کے ساتھ کہنے کا نام دجالیت ہے۔
مثلا موجودہ زمانے میں کچھ مسلمان خودکش بمباری (suicide bombing)کرتے ہیں۔ اس طریقے کو جائز بتانے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ جب قوم شدید خطرے کی حالت میں ہو تو قوم کو بچانے کے لیے خودکش بمباری جائز ہے۔ اس کی مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے موقع پر جاپانیوں نے امریکا کے خلاف خود کش بمباری کا طریقہ اختیار کیاتھا۔ مگر یہ استدلال ایک مغالطہ پر قائم ہے۔ اس لیے کہ جاپانیوں کی خودکش بمباری (hara-kiri) سے جاپانی قوم اپنے دشمن کے مقابلے میں بچ نہ سکی ، بلکہ وہ اس جنگ میں بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ اس کے بعد خود جاپانیوں نے اس طریقے کو چھوڑدیا۔ اور اس کے بجائےپرامن انداز میں اپنی قومی ترقی کے لیے عمل کیا اور نہایت کامیاب رہے۔
اسی طرح موجودہ زمانے کے کچھ مسلمان اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف تشدد کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، چناں چہ ان کو دہشت گرد (terrorist) کہا جاتا ہے۔ اب اگر آپ کہیں کہ یہ دہشت گردی نہیں ہے، بلکہ وہ ظالم لوگوں کو ٹرارائز (terrorize) کرنا ہے۔ یہی بات پولیس کرتی ہے۔ وہ مجرموں (criminals) کا حوصلہ توڑنے کے لیے ان کو ٹرارائز کرتی ہے۔ جس طرح پولیس کے لیے یہ طریقہ ایک درست طریقہ سمجھا جاتا تھا، اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی یہ طریقہ ایک درست طریقہ ہے۔اسی طرح آپ مزید یہ کہیں کہ جو لوگ مسلمانوں کے تشدد پر ان کو دہشت گرد کہتے ہیں، وہ دہرا معیار کا شکار ہیں۔ کیوں کہ انڈیا کے بھگت سنگھ نے 1929میں نئی دہلی میں انگریزوں کی اسمبلی پر بم مارا۔مگر بھگت سنگھ کو دہشت گرد نہیں کہاجاتا، فریڈم فائٹر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی دہشت گرد نہ کہیے، بلکہ ان کو انصاف کی لڑائی لڑ نے والا کہیے۔
اسی طرح آپ مسلمانوں کی خودکش بمباری کی وکالت کریں ، اور یہ کہیں کہ مسلمان جس اسپرٹ کے تحت یہ کام کررہے ہیں، وہ شہادت کی اسپرٹ ہے۔ اس لیے ان کی خودکش بمباری کا زیادہ درست نام استشہاد (طلب شہادت) ہے ۔مگر یہ بات ایک شدید مغالطہ پر مبنی ہے۔ کیوں کہ شہادت ایک اسلامی لفظ ہے۔ اور قرآن یا حدیث میں کہیں بھی ، یہ تعلیم نہیں ہے کہ اہل ایمان اپنےآپ کو مارکر شہید بنیں۔ اسلام میں شہید ہوجانا ہے، نہ کہ شہید کروانا۔
دجل بمعنی تزئین ہمیشہ دنیا میں جاری رہا ہے۔ حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک دجال (بڑا دجال)پیدا ہوگا۔ یہ بڑا دجال (the great deceiver) اپنی ذات کے اعتبار سے بڑا دجال نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ زمانے کے اعتبار سے بڑا دجال ہوگا۔ یعنی اس کو ایک ایسا ترقی یافتہ زمانہ ملے گا، جب کہ وہ نئے وسائل کی مدد سے زیادہ بڑے درجے کی دجالی کرسکے گا۔
مثال کے طور پر دجال کے بارے میں حدیث رسول میں آیا ہے : ینادی بصوت لہ یسمع بہ ما بین الخافقین(کنزالعمال، حدیث نمبر39709) ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دجال کوئی ہمالیائی شخصیت ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دجال ایک ایسے زمانے میں ظاہر ہوگا، جب کہ عالمی مواصلات (global communication) کا دور آچکا ہوگا، اور وہ اپنے وقت کے وسائل کو استعمال کرکے عالمی سطح پر اپنی آواز پہنچاسکے گا۔
حدیث میں آتا ہے : مکتوب بین عینیہ ک ف ر (صحیح مسلم، حدیث نمبر2933)۔ یعنی دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر (کفر)لکھا ہوا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دجال اگرچہ اپنی غلط باتوں کو نہایت مزین کرکے پیش کرے گا، لیکن صاحب معرفت لوگ اس کی غلطی کو پہچان لیں گے، اس طرح وہ اس کی گمراہی سے بچ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

تاجر کا معاملہ

تاجر کے بارے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:عن عبد اللہ بن أبی نہیک قال: لقینی سعد بن أبی وقاص فی السوق فقال:اتجار کسبة اتجار کسبة سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول:لیس منا من لم یتغن بالقرآن(مسند الحمیدی، حدیث نمبر77)۔ یعنی عبداللہ ابن ابی نہیک کہتے ہیں کہ سعد ابن ابی وقاص بازار میں ان سے ملے۔انھوں نے کہا: تم لوگ بہت کمائی کرنے والے تاجر بن گیے ہو، تم لوگ بہت کمائی کرنے والے تاجر بن گیے ہو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جس کو قرآن غنی نہ بنادے۔
اس حدیث کا یہ مطلب یہ نہیں کہ قرآن کے بعد مومن کو تجارت ترک کردینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت سے صحابہ تجارت کرتے تھے۔ مثلا عثمان ابن عفان اور عبد الرحمن ابن عوف ، وغیرہ۔ امام الغزالی نے لکھا ہے: وکان أصحاب رسول اللہ یتجرون فی البر والبحر (احیاء علوم الدین، 2/63)۔ یعنی رسول اللہ کےاصحاب خشکی اور تری میں تجارت کرتے تھے۔
یہ حدیث نفس ِتجارت کی نسبت سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ ان تاجروں کی نسبت سے ہے، جو تجارت کے کام میں اتنا زیادہ مشغول ہوجائیں کہ وہی ان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بن جائے۔ تجارت ہی ان کی دلچسپیوں کا واحد مرکز ہو۔ جو اپنی صلاحیتوں کو تمام تر تجارت میں لگا دے۔
تجارت یا کوئی اور معاشی ذریعہ برائے ضرورت ہوتا ہے، نہ کہ برائے مقصد۔ جو شخص تجارت کو ایک ذریعہ کے طور پر اپنائے، اسی کے ساتھ وہ دین کی ذمہ داریوں کو بھی ادا کرے تو وہ بلاشبہ ایک صحیح تاجر ہے۔ اس حدیث میں اس انسان کا ذکر ہےجو تجارت میں اتنا زیادہ مشغول ہو جائےکہ دینی کام میں اس کی رغبت باقی نہ رہے۔یعنی یہ حدیث نفی تجارت کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ طریق تجارت کےبارے میں ہے۔مومن کو چاہیے کہ وہ دلچسپی کے درجے میں قرآن کو لے، اور ضرورت کے درجے میں معاشی سرگرمی کو۔
واپس اوپر جائیں

دین میں غلو

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:دین میں غلو سےبچو ( إیاکم والغلو)کیونکہ تم سے پہلے جو لوگ تھے، وہ دین میں غلو کیوجہ سے ہلاک ہوگئے(مسند احمد، حدیث نمبر 3248)۔ غلو کا لفظی مطلب انتہاپسندی (extremism)ہے۔ انتہا پسندی ہمیشہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ دین کے دو حصے ہیں۔ ایک ہے بنیادی حصہ (basics)، اور دوسرا ہے جزئی حصہ (non-basics)۔ دین کے بنیادی حصے پر اگر زور دیا جائے تو اس سے دین میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوگی۔ لیکن جب دین کے غیر بنیادی حصہ پر زیادہ زور دیا جانے لگے تو اسی سے غلو پید ا ہوتا ہے،اور تباہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔مثلاً دین میں اصل اہمیت روح (spirit) کی ہے، اور اس کا جو فارم (form)ہے، وہ اصل کے مقابلے میں جزئی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً نماز میں خشوع کی حیثیت بنیادی ہے، اور نماز کا جو فارم ہے، وہ اس کے مقابلے میں غیر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر نماز کے فارم پر بہت زیادہ زور دیا جانے لگے، اور اسی پر نماز کے ہونے یا نہ ہونے کا انحصار قرار پائے تو یہ غلو ہوگا۔ اس غلو کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ نماز کے فارم پر تو بہت زیادہ دھیان دیں گے، لیکن نماز کی روح ان کے یہاں عملاً غیر اہم بن جائے گی۔ اسی شدت پسندی کو حدیث میں ہلاکت کہا گیا ہے۔
دین کی رو ح ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ البتہ دین کے فارم میں فرق ہوتا ہے۔ دین کی روح پر اگر زور دیا جائے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس کے فارم پر زیادہ زور دیا جانے لگے تو فرقے پیدا ہوجائیں گے۔ کیوں کہ روح میں یکسانیت ممکن ہے، لیکن فارم کے معاملے میں یکسانیت ممکن نہیں۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ فارم کے معاملے میں تعدد (diversity) کے اصول کو مان لیا جائے۔ یعنی یہ بھی درست اور وہ بھی درست۔ مثلاً نماز میں آمین بالسر بھی درست اور آمین بالجہر بھی درست۔ مصافحہ میں، ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا بھی درست اور دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا بھی درست، وغیرہ۔ اگر فارم میں تعدد کے اصول کو مان لیا جائے تو دین میں کبھی فرقہ بندی نہیں ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

فقہ الاقلیات

موجودہ زمانے میں تحریر و تقریر کے مختلف موضوعات پیدا ہوئے ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو فقہ الاقلیات کہا جاتا ہے۔ یعنی جو مسلمان کسی ملک میں اقلیتی گروہ (minority community) کی حیثیت سے رہتے ہیں، ان کے مسائل اور ان کا اسلامی حل۔ اس موضوع پر کثیر تعداد میں مضامین لکھے گیے ہیں، اور مستقل کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ مثلا ڈاکٹریوسف القرضاوی کی کتاب فی فقہ الأقلیات المسلمة (دارالشروق، مصر2001، صفحات 200) – ۔
مسلم اقلیت کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان دوسروں کے مقابلے میں کم ہیں۔ یہ ذہن مزید اضافہ کے ساتھ مسلمانوں کے اندر دوسروں کے خلاف شکایتی ذہن پیدا کرتاہے۔ اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے دعوتی ذہن کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ دعوتی ذہن اور شکایتی ذہن، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔دعوتی ذہن کا مطلب ہے دوسروں کے ساتھ برابر کی خیرخواہی۔ جب کہ اقلیتی ذہن عملاً اس قسم کی نفسیات کا خاتمہ کردیتا ہے۔
اقلیتی ذہن ہمیشہ حقوق طلبی کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دینے کا مزاج (giving spirit) کو ختم کرنا ہے، اور لینے کا مزاج (taking spirit) کو بڑھاوا دیناہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقلیتی کمیونٹی اور اکثریتی کمیونٹی کی تفریق غیر فطری ہے۔ آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو اس میں باربار انسان کا لفظ آتا ہے۔ قرآن میں انسان کا لفظ 64بار آیا ہے۔ گویا کہ قرآن کے مطابق ، پوری دنیا دار الانسان ہے، وہ اقلیت کی دنیا اور اکثریت کی دنیا نہیں۔
موجودہ زمانہ انٹرنیشنلزم کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے کی اسپرٹ اس قسم کی تفریق کے خلاف ہے۔ ایسی حالت میں یہ ایک غیر فطری بات ہے کہ مسلمانوں کے اندر کمتری کا احساس جگایا جائے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمان دوسروں کی مانند اپنے آپ کو انسان سمجھیں، اور سب کے ساتھ برابری کا تعلق قائم کریں۔
واپس اوپر جائیں

عورت کی تخلیق

عورت کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إنما مثل المرأة کالضِلَع، إن أردت إقامتہا کُسِرَت، وإن تستمتع بہا تستمتع بہا وفیہا عوج، فاستمتع بہا على ما کان منہا من عوج (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر4180)۔ یعنی بے شک عورت کی مثال پسلی جیسی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو تو وہ ٹوٹ جائے گی، اور اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھاؤ گے، اور اس کے اندر ایک ٹیڑھ ہے۔ پس تم اس سےفائدہ اٹھاؤ، اس کے باوجود کے اس کے اندر ٹیڑھ ہے۔
اس روایت میں استمتاع کا لفظ آیا ہے۔ استمتاع کا لفظی مطلب ہے فائدہ اٹھانا۔ یہاں استمتاع سے مرادوہی ہے جس کو دوسرے الفاظ میں بذریعہ ایڈجسٹمنٹ فائدہ اٹھانا کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر تم عورت کے ساتھ ری ایکشن (reaction) کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرتے ہوئے زندگی گزارو تو تم کامیاب رہو گے۔
اس حدیث میں ضلع (ٹیڑھ) کا لفظ تمثیل کے معنی میں آیا ہے۔ اس سے مراد ہے عورت کا فطری طور پر جذباتی (emotional) ہونا۔ حدیث میں شادی شدہ زندگی کا ایک کامیاب اصول بتایا گیا ہے۔ خالق نے عورت کو مرد کے ساتھی (partner) کے طور پر پیدا کیا ہے۔ لیکن مصلحت کا تقاضا تھا کہ عورت کے اندر sentimental مزاج رکھا جائے، اس مزاج کی بنا پر عورت کے اندر برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے۔ وہ خلاف مزاج بات پر جلد جذباتی ہوجاتی ہے۔ مر د کو چاہیے کہ جب وہ دیکھے کہ عورت کسی معاملے میں جذباتی ہوگئی ہے۔ تو مرد اس کو عورت کی فطرت کے خانے میں ڈال دے، مرد ایسا نہ کرے کہ وہ اس کے جواب میں خود بھی جذباتی انداز اختیار کرے۔ اسی کو ایڈجسٹمنٹ کہا جاتا ہے۔ اور اس معاملے کا عملی حل صرف ایک ہے، اور وہ ایڈجسٹمنٹ ہے۔مرد کو چاہیے کہ وہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اس معاملے میں یک طرفہ طور پر ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کرے۔
واپس اوپر جائیں

غلطی کا اعتراف

غلطی انسان کی صفت ہے (to err is human)۔ عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ وہ اپنی غلطی کا کھلے انداز میں اعتراف نہیں کرتے۔ طرح طرح کے الفاظ بول کر وہ اس کی صفائی پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ عادت بہت زیادہ عام ہے۔ مگر یہ ایک مہلک عادت ہے۔ غلطی کا اعتراف اتنا زیادہ مفید ہے کہ اگر لوگ اس کو جانیں تو وہ اس کو اپنی ذہنی ارتقا کے لیے ایک سنہری موقع (golden chance) سمجھیں۔ اور ایک لمحےکی تاخیر کے بغیر فورا کہہ اٹھیں کہ میں غلطی پر تھا:
I was wrong
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں غلطی پر تھا تو آپ اپنے ذہن کو ایک سگنل (signal) دیتے ہیں۔ یہ سگنل کہ علم کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جہاں تک ابھی تمھاری پہنچ نہیں ہوئی۔ یہ سگنل آپ کے ذہن کو مثبت سمت میں متحرک کردیتا ہے۔ اس طرح آپ کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بار جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں غلطی پر تھا تو ہر بار آپ اپنے ذہنی ارتقا کے لیے ایک تخلیقی دروازہ (creative door)کھول دیتے ہیں۔ آپ اپنے اندر ایک ایسا فکری عمل (intellectual process) جاری کردیتے ہیں، جو کسی اور طریقے سے جاری نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے غلطی کا اعتراف کرنا ایک موقع (opportunity) کو استعمال کرنا ہے۔ اور غلطی کا اعتراف نہ کرنا ، ایک موقع کو کھودینا ہے، جو دوبارہ کبھی آنے والا نہیں۔غلطی کا کھلا اعتراف کرنا، اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے اندر تواضع (modesty) کا مزاج ہے۔ اور تواضع اپنے آپ میں ذہنی اور روحانی ارتقا کا ایک عظیم خزانہ ہے۔ جو آدمی تواضع سے محروم ہے، وہ معرفت سے بھی محروم رہے گا۔ تواضع سے محرومی آدمی کے اندر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا کردیتی ہے۔ اور تواضع کا مزاج آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کے دروازے کھول دیتا ہے، حتی کہ کوئی دروازہ اس کے لیے بند نہیں رہتا۔
واپس اوپر جائیں

تجربہ کی دنیا

ایک صاحب کو میں جانتا ہوں۔ ا ن کی پاس بزنس کی کوئی ڈگری نہیں، لیکن وہ ایک بزنس مین ہیں اور اپنے بزنس میں نہایت کامیاب ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے پاس ایم بی اے (Master of Business Administration) کی ڈگری نہیں۔ لیکن آپ کامیابی کے ساتھ بزنس کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کا راز ہے، تجربہ (experience)۔ میرے پاس کالج کی ڈگری نہیں، لیکن میرے پاس تجربہ کی ڈگری ہے۔ میں نے اپنے تجربے سے وہ سب کچھ سیکھا جو دوسرے لوگ ڈگری کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بات ہر شعبے کے لیے درست ہے۔ ہماری دنیا ایک وسیع درس گاہ ہے۔ اس درس گاہ میں ہر قسم کے تجربات پھیلے ہوئے ہیں۔ انسان کے اندر اگر سیکھنے کا جذبہ (learning spirit) ہو تو وہ دنیا کے تجربات سے وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے، جس کے لیے لوگ یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں، اور بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔
خاندانی زندگی کا معاملہ ہویا بزنس کا معاملہ، سماجی زندگی ہو یا قومی زندگی۔ ہر جگہ، ہر دن مختلف قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ اگر آدمی کھلے ذہن کے ساتھ زندگی گزارے، اور تجربات سےسبق سیکھے تو وہ ہر شعبے میں کامیاب زندگی گزار سکتاہے۔ آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ موجود ہو تو وہ نہ صرف یہ کرے گا کہ اپنے تجربات سے سبق لے، بلکہ وہ دوسروں کے تجربات سے بھی بھر پور سبق لیتا رہے گا۔
تجربہ گویا عملی مطالعہ (practical study) ہے۔ ہر تجربہ عمل کی زبان میں کتاب زندگی کاایک صفحہ ہوتا ہے۔ ہر تجربہ عمل کی زبان میں کلاس روم کا ایک سبق ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے پوری دنیا تجربات اور مشاہدات کی ایک عظیم لائبریری ہے۔ آپ اپنے ذہن کو کھلا رکھیے، آپ اپنے اندر سیکھنے کا مزاج (learning spirit) پیدا کیجیے، پھر آپ دیکھیں گے کہ پوری دنیا آپ کے لیے ایک عظیم تعلیمی درس گاہ بن گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

دیباچہ

زیر نظر کتاب راقم الحروف کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے، جو ماہنامہ الرسالہ میں سوال و جواب کے کالم کے تحت چھپتے رہے ہیں۔ اس مجموعہ کو برادرم اصطفاء علی صاحب نے کولکاتا ٹیم کے تعاون سے تیار کیا ہے، اور کولکاتا ٹیم اس کو اپنے اہتمام کے ساتھ اس کو شائع کررہی ہے۔ ان لوگوں کی یہ کوشش بلاشبہ ایک مستحسن کوشش ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان تمام لوگوں کو اس کام کے لیے جزائے خیر عطا فرمائے، اور اس کے پڑھنے والوں کے لیے یہ مجموعہ ان کی زندگی کے لیے مفید ثابت ہو۔ آمین
سوال و جواب کا طریقہ بہت قدیم طریقہ ہے۔ یہ طریقہ اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتا ہے۔ سوال کرنے والے کے لیے بھی ، اور جواب دینے والے کے لیے بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوال و جواب ایک باہمی تعلم (mutual learning) کا طریقہ ہے۔ اس طریقے میں سائل اور مجیب دونوں کے لیے یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ مزید مطالعہ کے ذریعہ اپنے علم میں اضافہ کریں۔ وہ زیر بحث مسئلے کے نئے گوشوں کو دریافت کریں۔ اس طرح یہ طریقہ طرفَین کے لیے فکری ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔
اسلام میں سوال کے بجائے تدبراور تفکر پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت خضر کے ساتھ حضرت موسی جب سفر پر روانہ ہوئے تو حضرت خضر نے حضرت موسی سے کہا :فَلَا تَسْأَلْنِی عَنْ شَیْء (18:70)۔ یعنی تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کرنا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سوال نہ کرو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہن میں کوئی سوال آئے تو پہلےغور وفکر کرو۔ غور وفکر کرکے آدمی پہلے اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے تیار کرتا ہے۔ سوال کا جواب وہی شخص درست طور پر سمجھتا ہے، جو پہلے سے اپنے آپ کو ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا چکا ہو۔
اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایک صحابی کہتے ہیں : و عن کثرۃ السوال (مسند احمد، حدیث نمبر18232)۔ یعنی رسول اللہ نے زیادہ سوال سے منع کیا تھا۔سوال کی کثرت سے منع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی سوال نہ کرے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی پہلے خود سوال کے تقاضے کو پورا کرے، اس کے بعد وہ سوال کرے۔
اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ سوال کرنے سے پہلے آدمی خود غور وفکر کرے۔ اس طرح اس کو ذہنی ارتقا (intellectual development) کا فائدہ حاصل ہوگا۔ اللہ تعالی نے انسان کے ذہن میں غیر معمولی صلاحیت پیدا کی ہے۔ یہ صلاحیت غور وفکر سے بڑھتی ہے۔ اپنے ذہن کو ترقی دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعہ اپنے ذہن کو تیار کرتا رہے۔ وہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ اخذ (grasp)کی صلاحیت پیدا کرے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ کوئی شخص اس کے سوال کا جواب دے تو وہ اپنی طرف سے اس میں کچھ اضافہ کرسکے۔ حقیقی سائل وہ ہے جو جواب کو سن کر اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرسکتا ہو۔
مذکورہ حدیث کا مطلب اگر لفظ بدل کربیا ن کیا جائے تو وہ یہ ہوگا— سوال کیوں کرتے ہو۔ اگر تمھارے ذہن میں کوئی سوال آیا ہے تو پہلے خود اپنے ذہن کو استعمال کرکے اس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ سوال کو صرف سوال نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بناؤ۔ بات کو سن کر فوراً سوال کرنا، عجلت پسند ی کی علامت ہے۔ بات کو سن کر پہلے غور وفکر کرنا چاہیے۔ اگر غور وفکر سے وہ بات تک نہ پہنچے تو سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنے ذہن کو تیار کرنے میں کمی کی ہے۔ اس کی توجہ اس پر دینا چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کو مزید تیار کرنے کی کوشش کرے۔
وحید الدین
نئی دہلی، 4 جنوری 2017
واپس اوپر جائیں

تعمیر کے لیے سب سے زیادہ جس کی ضرورت ہے، وہ ہے ایک سوچا سمجھا نقشۂ عمل، جس کے مطابق ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں سرگرم عمل ہو۔


واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
قرآن کے مطابق، حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑا، مگرسیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کیا۔جیسا کہ آپ نے بھی لکھا۔ قرآن کے مطابق تمام پیغمبر ہمارے لیے اسوہ ہیں۔ اس اعتبار سے یہ فرق سمجھ میں نہیں آیا۔ وضاحت فرمائیں۔ (عبد العزیز ایڈوکیٹ، کپواڑہ، کشمیر)
جواب
حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا واقعہ دور دعوت کا نہیں ہے ، بلکہ وہ اتمام حجت کے بعد کا ہے۔ اتمام حجت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب قوم میں کوئی ایمان لانے والا نہیں۔ جب کسی قوم کے بارے میں یہ نوبت آجائے تو وہاں حالات کے اعتبار سے مختلف صورتیں اختیار کی جاتی ہیں۔ انتہائی صورت حال میں کبھی اللہ ان کے خلاف سرزنش کے طور پر کوئی کارروائی کرسکتاہے، یا پیغمبر کوئی صورت بطور آخری حجت کے اختیار کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑنے کی صورت میں کیا۔
کسی قوم میں جب دعوت کے امکانات موجود ہوں تو وہاں بت شکنی جیسی انتہائی تدبیر کے بارے میں سوچنا بھی شریعت دعوت میں امر ممنوع ہے۔ آپ جس زمانے میں ہیں، ہر جگہ دعوت کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ آپ کے اپنے علاقے میں بھی اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی۔ ایسی حالت میں آپ کے لیے جائز نہیں کہ آپ بت شکنی اور قتال کی اصطلاح میں سوچیں۔ آپ کو صرف پرامن دعوت کی اصطلاح میں سوچنا چاہیے۔
دعوت کی آئڈیالوجی ہمیشہ ایک رہتی ہے، لیکن طریقہ کار (method) کا تعین حالات کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ دعوت کا اصول یہ ہے کہ آخری حد تک مدعو کو اللہ کی طرف بلایا جائے۔ دورِ دعوت میں کوئی دوسری بات سوچنا بذات خود ایک مجرمانہ سوچ ہے۔ اس قسم کی سوچ کے لیے اسلام میں کوئی جواز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 250

1۔ ترجمہ قرآن کا اٹالین ایڈیشن گڈورڈ بکس (نئی دہلی) سے شائع ہوچکا ہے۔ یکم جنوری 2017 کو صدر اسلامی مرکز نے اس کا اجراء کیا۔
2۔ 17 جنوری 2017 کوصدر اسلامی مرکز نے قرآن کے پرتگیز ترجمہ کا اجرا کیا۔ یہ ترجمہ گڈورڈ بکس نے طبع کروایا ہے، اور اسے یہاں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
3۔ کولکاتا سی پی ایس ٹیم نے جناب اصطفاء علی صاحب کی نگرانی میں الرسالہ میں شائع شدہ صدر اسلامی مرکز کے سوال و جواب کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے، صدر اسلامی مرکز نے اس پر ایک دیباچہ تحریر کیا ہے، وہ اس شمارے میں شامل ہے۔
4۔ ایک نئے ویب پورٹل پر صدر اسلامی مرکز کے مضامین آنے شروع ہو گیے ہیں، اس کا ایڈریس یہ ہے:
http://soulveda.com/viewauthor.php?uid=64
5۔ سیواگرام آشرم، واردھا، مہاراشٹر، اور مہاتما گاندھی کے مشن سے تعلق رکھنے والےدیگر مختلف ادارے (Sewagram Ashram Pratishthan, Sabarmati Ashram, Kasturaba Trust, Harijan Sewak Sangh, Akhil Bharatiya Nai Talim Samiti, Navjivan Prakashan, Gujarat Vidyapith and Sarva Seva Sangh) 2016تا 19 کے درمیان مہاتما گاندھی کے ڈیڑھ سو سالہ تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اس کا نام ان لوگوں نے گاندھی 150 (Gandhi 150) ابھیان رکھا ہے۔ اس کا افتتاحی پروگرام22-21 فروری 2017 کو واردھا میں ہوا۔ اس موقعہ پران لوگوں صدر اسلامی مرکز کو بطور چیف گیسٹ مدعو کیا تھا۔ کسی وجہ سے صدر اسلامی مرکز اس پروگرام میں شریک نہیں ہو سکے، البتہ ایک پیغام لکھ کر بھیج دیا گیا، جو پروگرام میں موجود لوگوں کو سنایا گیا۔ الرسالہ کے آئندہ شمارہ میں اس پیغام کو شائع کیا جائے گا۔
6۔ فروری 2017 میں صحافت اور سیاست کے میدان سے تعلق رکھنے والی مختلف ہستیوں کو صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن اور انگریزی کتابیں، دی پرافٹ آف پیس، قرانک وزڈم، اور لیڈنگ این اسپریچول لائف، بھیجی گئی تھیں۔ وہ لوگ یہ ہیں، مسٹر ایم جے اکبر، مرکزی وزیر، اور مشہور انگریزی صحافی، مس جیوتیہ باسو، مسٹر ارمان نیازی، مس شالینی کے شرما، اور مسٹر چراغ پاسوان (ایم پی، بہار)۔
7۔ فروری کے مہینہ میں ہی سی پی ایس دہلی و لکھنؤ کی ممبر مس سعدیہ خان نےسوشل میڈیا پلیٹ فارم، فیس بک اور انسٹا گرام پر ایک مقابلے کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں یہ تھا کہ جو الرسالہ مشن کےبارے میں اچھا تاثر لکھے گا، اس کو صدر اسلامی مرکز کی دستخط کی ہوئی کتاب انعام کے طور پر دی جائے گی۔ اس مقابلے میں ملک و بیرون ملک سے مختلف لوگوں نے حصہ لیا، جن میں سے چار لوگوں کو منتخب کرکے بطور انعام دستخط شدہ پرافٹ آف پیس اور دوسری کتابیں روانہ کر دی گئیں ہیں۔
8۔ 25 دسمبر 2016 کوپونے ٹیم کی ماہانہ دعوہ میٹ عبد الصمد صاحب کے گھر پر ہوئی۔ آج کی دعوہ میٹ میں نوجوانوں کی دعوتی عمل کے لئے حوصلہ افزائی کے ٹاپک پر گفتگو ہوئی۔ اسی کے ساتھ الرسالہ سے ایک مضمون پڑھ کر سنایا گیا اور صدر اسلامی مرکز کی اردو کتاب یکساں سول کوڈ کے مراٹھی میں ہوئے ترجمہ پر گفتگو ہوئی جو کہ طبع ہو کر آچکی ہے۔ اس میٹ میں عبد الصمد، اختر امین، یونس میمن، رفیق مجاہد اور شریف خان صاحبان، وغیرہ نے شرکت کی۔
9۔ 30دسمبر کو ایم ایم ربانی ہای اسکول وجونیرکالج، ناگپور میںامریکا کی Goal for Girlsنامی این جی او دورہ پر آئی، اور اسکول کے بچوں سے تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر CPSناگپور کامٹی ٹیم کے ساجد احمد خان نے ان کے سامنے اسلام کامختصر تعارف پیش کیااورانھیں قران کا انگلش ترجمہ اور What is Islam پیش کیا۔ انھوں نے اس کوبہت خوشی سے قبول کیا۔
10۔ یکم جنوری 2017 کو ناگپور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب ہری بھاؤ کے ساتھ ساجد احمد خان صاحب (ناگپور ٹیم ) نے مذہب،امن اور باہمی ہم آہنگی پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس کے بعد ان کو صدر اسلامی مرکز کے مراٹھی ترجمہ قرآن، ایج آف پیس، لائف آف پرافٹ محمد اور دوسرے دعوہ لٹریچر پیش کیے گیے۔ اس کے علاوہ ناگپور ٹیم کی ماہانہ میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جنوری میں یہ میٹنگ بابو بھائی ورک شاپ (ناگپور) میں ہوئی، اور ورکشاپ میں آنے والوں کے لیے وہاں ترجمہ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچررکھے گیے۔
1 1۔ یکم جنوری 2017 کو صدر اسلامی مرکزسے ملنے کے لیے پروفیسر راہل رام گنڈم آئے۔ موصوف دلت اور مائنارٹی ڈپارٹمنٹ (جامعہ ملیہ اسلامی، دہلی)میں پروفیسر ہیں۔ اس موقع پراسلام کے موضوعات پر ڈسکشن ہوا۔ آخر میں جناب موصوف کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ بطور تحفہ دیا گیا۔ علاوہ ازیں جامعہ ملیہ کے مذکورہ ڈپارٹمنٹ کی لائبریری کے لیے صدراسلامی مرکز کی کتابوں کا سیٹ بطور تحفہ دیا گیا۔
12۔ کولکاتا سی پی ایس ٹیم نے آرٹ آف لیونگ کولکاتا یونٹ کے ممبران اور سماجی میدان میں کام کرنے والی دیگر تنظیموںکے ساتھ ایک انٹرایکٹو میٹنگ کا انعقاد کیاتھا۔ یہ میٹنگ ویسٹ بنگال اردو اکیڈمی کے سیمینار ہال میں 6 جنوری 2017 کو ہوئی۔ سی پی ایس ٹیم نے تمام لوگوں کے سامنے سی پی ایس کے مشن کوواضح کیا۔ اسے سن کر بیٹر انڈیا(Better India) کے رضاکاروں نے بتایا کہ جب بھی وہ کوئی پروگرام کریں گے تو ان کی تربیت کے لیے وہ صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو ضرور چلائیں گے ۔ آخر میں یہ طے پایا کہ امن کے پیغام کے لیے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے ہم ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے تاکہ مستحکم تعلقات کی تعمیر ہو۔ اختتام پر تمام لوگوں کو ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا گیا۔
13۔ 6 جنوری 2017 کو مارکوئٹ یونیورسٹی (Marquette University) امریکاکے دس طلبہ پروفیسر عرفان عمر کی رہنمائی میں اسلامی مرکز آئے۔ صدر اسلامی مرکز نے ان کو اسلام اور پیغمبر اسلام کی پرامن تعلیمات سے آگاہ کیا اور ان کے ساتھ انٹر ایکشن کیا۔ آخر میں ان کو دعوہ لٹریچر جیسے انگلش ترجمہ قرآن، لیڈنگ اے اسپریچول لائف، واٹ از اسلام، اسپرٹ آف اسلام میگزین، دی ایج آف پیس، قرآنک وزڈم وغیرہ پیش کیا گیا، جس کو انھوں نے بے حد خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
14۔ 6 تا 19 جنوری 2017 چنئی میں سالانہ بک فیئر کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں گڈ ورڈ بکس چنئی نے اپنا اسٹال لگا یا۔ اسٹال پر بڑی تعدا میں ہندوستان اور سری لنکا کے زائرین آئے، اور انھوںنےانگریزی اورتمل ترجمہ قرآن و دیگر لٹریچر حاصل کیا۔ نیز نیشنل پبلشرز، چنئی نے صدر اسلامی مرکز کی اردو کتاب، یکساں سول کوڈ کا تمل میں ترجمہ کروا کر اس میلہ میں اجرا کیا۔ یہ ترجمہ سید فیض قادری (کوئمبتور) نے کیا ہے۔
15۔ ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارنپور) الرسالہ مشن کے بہت ہی متحرک ممبر ہیں۔صدر اسلامی مرکز سے ان کو کیا فائدہ حاصل ہوا، اس کو انھوں نے ان الفاظ میں تحریر فرمایا ہے:اگر میں مولانا کی کتابیں نہ پڑھتا تو میرے لیے یہ سمجھنا بے حد مشکل ہوتا کہ مجھے خدا نے کس لیے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ میرے خیال میں مولانا دور جدید میں وہی کام کررہے ہیں جو کہ قدیم زمانے میں مجددِدین کیا کرتے تھے۔ ذیل میں ڈاکٹر محمد اسلم خان کے ذریعہ کیے ہوئے کچھ حالیہ دعوتی کاموں کاذکر کیا جارہا ہے:
■ 11 دسمبر 2016 کو سہارن پور میں سینٹ مرینا اکیڈمی کا افتتاح ہوا۔ اس میں سی پی ایس ٹیم نے سہارن پور رینج کے ڈی آئی جی کو قرآن پیش کیا۔ اسی کے ساتھ دوسرے مہمانوں کو دعوہ لٹریچر دیا گیا۔ مزید کتابیں اسکول کی ہیڈ مس ٹریس کو دی گئیں تاکہ وہ ان کتابوںکو دوسروں تک پہنچا دیں۔
■ 25 دسمبر 2016 کو کرسمس کی مناسبت سے سہارن پور میں موجود چرچ جیسے ڈینیل مسیح، سینٹ تھامس اور سنٹرل میتھوڈسٹ چرچ، وغیرہ کا سی پی ایس ٹیم نے دورہ کیا، اور شام کے وقت ان چرچوں کے وفود نے پیس ہال سہارنپور کا دورہ کیا اور وعدہ کیا کہ وہ سی پی ایس مشن میں اپنا پورا تعاون کریں گے۔ فادر دارا سنگھ قرآن کی تفسیر چاہتے تھے۔ فادر ڈینئل نے 10 قرآن کے نسخے لیے تاکہ وہ ان کو چرچ میں لوگوں کو دے سکیں۔ سی پی ایس ٹیم نے آئے ہوئے مہمانوں کوترجمہ قرآن، تذکیر القرآن اور دوسرے پیس لٹریچر کے علاوہ کرسمس کے موقعے پر تحفے دیے۔
■ 31 دسمبر 2016 کونئے سال کی مناسبت سے ضلع پریشد کی چیرمین محترمہ تسنیمہ بانوکی صدارت میں قومی ہم آہنگی کے موضوع پر پیس ہال (سہارن پور) میں ایک میٹنگ کا انعقاد ہوا۔ اس میں شہر کی ذی وقار ہستیوں نے شرکت کی اور مختلف مذاہب میں موجودہ باہمی بھائی چارہ اور آپسی محبت باتوں پر چرچا ہوئی۔ آخر میں صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر لوگوں کے درمیان تقسیم کیے گیے۔
16. Aamir bin Yusuf, a CPS member from Karachi, called me while returning from an interfaith program at a Hindu temple. This was the first ever such interfaith program to be held in a Hindu temple in Pakistan since 1947. Aamir had interaction with various religious, political and community leaders. He introduced CPS to all. A lot of them are aware of the Maulana and his mission, some have read his literature and others have heard or watched Maulana's short audio/video clips that I post on their interfaith WhatsApp group. The leader of this group, Syed Yaqoob Ali Shah, is an avid reader of Maulana's literature. Aamir bin Yusuf had a very gratifying experience there and learnt few lessons through their interaction, such as not wasting food and maintaining neatness and so on. May God open up these kind of plenty opportunities for us to do dawah, delivering the message of tawhid. Ameen (Khaja Kaleemuddin, USA)
17. I am in receipt of a copy of The Quran. I wish to thank the Maulana for his hard work to produce a beautiful translation of the Quran in modern language, which is easy to understand for a common person. Also thanks to Dr. Farida Khanam for her contribution. I am sure all will benefit from this translation and will gain a proper understanding of Islam. Thank you again. (S. Awale, UK)
18. I have received the Holy Quran. I have been reading it everyday. I have finished about 35 books you sent me. The Quran is beautiful, and its message is to make mankind aware of God’s Creation plan, His purpose for mankind, and the importance for mankind to discover God’s Truth on a spiritual and intellectual plane. The Quran is directly from God, sent down to mankind, to direct us on the right path to perfection, to guide us through life successfully and into the afterlife! The Quran is a peaceful, and spiritual book that's filled with God's love and wisdom! Thank you so much for this wonderful free gift! The Quran has strengthened my faith, spirit and mentality! It has filled me with peace within and wisdom! I am also interested in obtaining more literature by the wonderful scholar Maulana Wahiduddin Khan. (Yvette Francine Gray, USA)
واپس اوپر جائیں