Pages

Wednesday 2 August 2017

Al Risala | September 2017 (الرسالہ،ستمبر)

4

-آدم کی سنت

5

- سائنس قرآن کی تفسیر

6

- اللہ کی رؤیت

7

- اسفل سافلین

9

- اجتماعی صبر

11

- قرآن کا مقصد ِنزول

12

- اللہ سے امید

13

- شخصیتِ انسانی

15

- اسلامی حکومت

19

- موت کا ظاہرہ

20

- جنت کا سماج

21

- انسانی تاریخ

24

- مشن کی اہمیت

25

- قبولیت میں تاخیر

26

- اللہ کی مدد

28

- مصیبت کا مثبت پہلو

29

- نا انصافی کا مسئلہ

30

- دعوت الی اللہ

32

- عمومی تائید کا دور

35

- پیغمبر اسلام کا مشن

39

- کے خلاف بغاوت

43

- قتل گاہ یا صحت گاہ

44

- انجام کو دیکھ کر

45

- ایکٹنگ، ان فولڈنگ

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


آدم کی سنت

آدم اور ابلیس کا قصہ قرآن میں بار بار بیان ہوا ہے۔ قرآن میں اللہ رب العالمین کی زبان سے کہا گیاہے کہ آدم کو جنت سے نکالنے والا ابلیس تھا (الاعراف 27:)۔ دوسری طرف قرآن کی کئی آیتوں میں آدم کا کردار بتایا گیا ہے۔ اس معلوم حقیقت کے باوجود کہ ابلیس نے آدم کو بہکا کر جنت سے نکالا۔ آدم نے کبھی ایک بار بھی یہ نہیں کیا کہ وہ ابلیس کو دشمن بتاکر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان برپا کرے، اس کے خلاف بددعا ئیںکرے۔ اس کے برعکس آدم نے جو کیا وہ صرف توبہ تھی۔ انھوں نے اللہ سے یہ دعا کی:رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ (7:23)۔یعنی اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
قرآن کے اس بیان سے ایک مسئلہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی ثابت شدہ دشمن موجود ہو، کسی نے سازش کرکے نقصان پہنچایا ہو، تب بھی انسان کو دوسرے کے خلاف شکایت یا احتجاج نہیں کرنا ہے، بلکہ یہ سوچنا ہے کہ میں اس کی سازش کا شکار کیوں بنا۔ ایسے موقع پر دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے، اپنی اس غلطی کو دریافت کرنا چاہیے کہ اس کے بھٹکنے کا سبب کیا تھا۔
اس طرح کے معاملے میں دوسرے کو برا بتانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے برعکس، اگر آدمی اپنی غلطی کو مانے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی کمزوری کو دریافت کرے گا، اور اس طرح اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی اصلاح کرکے آئندہ اپنے آپ کو نقصان سے بچائے۔دوسرے کے خلاف شکایت کرنا، باعتبار نتیجہ اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے، اس کے برعکس اگر آدمی اپنی غلطی کو مانے تو اس کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اپنی کمزوری کو شعوری طور پر جانے اور اس کی اصلاح کے ذریعہ اپنے کو درست کرلے۔ کسی کو دشمن بتاکر اس کے خلاف ہنگامہ کرنا کوئی کام ہی نہیں۔ کام صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کو مانے، اوراس کی اصلاح کرے۔
واپس اوپر جائیں

سائنس قرآن کی تفسیر

سائنس کسی کی شخصی تصنیف نہیں۔ بلکہ سائنس اسی نیچر (nature) کا مطالعہ ہے، جس کا ذکر قرآن میں بار بار آیات (signs) کے طور پر کیا گیا ہے۔ جس طرح ارض القرآن قرآن کی تاریخی تفسیر ہے، اسی طرح سائنس جزئی طور پرقرآن کی طبیعیاتی تفسیر ہے۔ قرآن اور سائنس کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ان میں سے ایک کتاب یہ ہے:
The Bible, the Quran, and Science by Dr. Maurice Bucaille (1976)
قرآن میں بہت سے ایسے حوالے آئے ہیں، جو قرآن اور سائنس اور دونوں کا مشترک موضوع ہیں۔ مثلاً کائنات کا آغاز کیسے ہوا۔ قرآن میں اس کا حوالہ مختصر طور پر ان الفاظ میں آیا ہے: أوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (21:30) ۔ سائنس میں اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اسی مطالعے کا ایک حصہ وہ ہے جس کو دی بگ بینگ تھیری (The Big Bang theory) کہاجاتا ہے۔
اسی طرح سائنس نے بہت ساری چیزیں دریافت کی ہیں، جو بالواسطہ طور پر قرآن کے لیے کار آمد ہیں۔ مثلاً پیغمبر موسیٰ کے ہم عصر فرعون (Merneptah) کی لاش مصر کے ایک اہرام میں دریافت ہوئی تو یہ سوال تھا کہ اس کی تاریخ کا تعین کیسے کیا جائے۔ یہاں یہ بات سائنس کے دریافت کردہ ایک طریقہ کار کاربن ڈیٹنگ (carbon dating) کے اپلیکیشن (application)کے ذریعہ معلوم ہوئی۔
علم سائنس کا یہ پہلو خود قرآن میں پیشگی طور پر بتا دیا گیا تھا۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ(41:53) ۔ مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی رؤیت

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت آئی ہے، جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ اس حدیث کا ایک جزء یہ ہے: أن تعبد اللہ کأنک تراہ، فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک (صحیح البخاری، حدیث نمبر50)۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔
اس حدیث میں عبادت کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ حدیث پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے اگرچہ براہ راست اللہ کی رؤیت ممکن نہیں ، لیکن انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ شِبہہ رؤیت کے درجے میں اللہ کو پاسکے۔ رویت اور شِبہہ رؤیت کے درمیان اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔
کسی آدمی کو اللہ کی شِبہہ رؤیت کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ ہے اللہ کی تخلیق میں غور وفکر کرنا۔ اللہ اپنی ذات کے اعتبار سے اگرچہ ہمارے سامنے ظاہر نہیں ہے۔ لیکن اپنی صفات کے اعتبار وہ اپنی تخلیقات میں پوری طرح نمایاں ہے۔ تخلیق گویا خالق کی معرفت کا آئینہ ہے۔ جس نے تخلیق کو دیکھا، اس نے گویا خالق کو دیکھ لیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی نے آرٹ کو دیکھا تواس نے گویا آرٹسٹ کو دیکھ لیا۔
موجودہ زمانے میں اہل سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe) ہے۔ یہ دریافت اپنے آپ میں بتاتی ہے کہ کائنات میں ذہن کی کارفرمائی ہے۔ایسا ہے تو یقینی طور پر یہاں کوئی صاحب ذہن موجود ہے۔ ذہن کی کارفرمائی سے ذہن کا وجود ثابت ہوتا ہے، اور ذہن کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں ایک صاحب ذہن ہستی موجود ہے۔ سائنس کی زبان میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکورہ دریافت کے بعد خالق کا وجود پرابیبیلیٹی (probability)کے درجے میں ثابت ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسفل سافلین

قرآن کی سورہ التین میں انسان کے بارے میں ایک عمومی اعلان ان الفاظ میں آیا ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ ، ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ (95:4-5)۔ یعنی ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا:
We have indeed created man in the best of mould, then We cast him down as the lowest of the low.
انسان کی ساخت بہترین ساخت ہے، یہ ایک معلوم بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کا تخلیقی نقشہ تمام دوسری مخلوقات سے بہتر صورت میں بنایا گیا ہے۔ خاص طور پر دماغ (mind)ایک ایسا عطیہ ہے جو انسان کے سوا کسی بھی مخلوق کو نہیں دیا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اسفل سافلین سے کیا مراد ہے۔ وہ کیا چیز ہے جس میں انسان دوسری تمام مخلوقات کے مقابلے میں کمتر درجہ میں ہے۔ انسان کی حیثیت ایک جاندار مخلوق کی ہے۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، جاندار اشیاء کی ایک ضرورت وہ ہے جس کو ہیبیٹاٹ (habitat)کہا جاتا ہے۔ہیبیٹاٹ سے مراد وہ فطری مسکن (natural home) ہے جہاں کوئی جاندار مخلوق اپنی زندگی کے تمام تقاضوں کے ساتھ رہ سکے:
(Habitat is) the natural home or environment of an animal, plant, or other organism.
سیارۂ ارض (planet earth)کے اوپر چھوٹی بڑی بہت سی زندہ اشیاء پائی جاتی ہیں۔ ان زندہ اشیاء کی تعداد سائنسی مطالعے کے مطابق، تقریباً ایک ٹریلین ہے:
In May 2016, scientists reported that 1 trillion species are estimated to be on Earth.
مطالعہ بتاتا ہے کہ زمین پر موجود زندہ اشیاء میں سے ہر ایک کا ہیبیٹاٹ یہاں موجود ہے۔ مثلاً مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، پانی مچھلی کا ہیبیٹاٹ ہے۔ چناں چہ خالق نے مچھلیکے ساتھ اس کا ہیبیٹاٹ دریا اور سمندر کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ مگر اس دنیا میں صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کا ہیبیٹاٹ یہاں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں کبھی فل فِلمینٹ (fulfilment)نہیں ملتا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کو احسن تقویم کے اعتبار سے ، احسن ہیبیٹاٹ درکار ہے۔ موجودہ دنیا کی محدودیتوں (limitations)کی وجہ سے یہاں احسن ہیبیٹاٹ نہیں بن سکتا۔ اس لیے خالق نے ایسا کیا کہ موجودہ دنیا میں انسان کو بقدر ضرورت مسکن عطا کیا،اور موت کے بعد کی ابدی زندگی میں اس کے لیے اس کی حقیقی طلب کے مطابق، احسن ہیبیٹاٹ کا انتظام کیا۔ اسی احسن ہیبیٹاٹ کا نام جنت (Paradise)ہے۔ یہی مطلب ہے احکم الحاکمین (the best of the judges)کا۔ یعنی اعلیٰ انصاف کا تقاضا تھا کہ انسان کو اس کی تخلیق کے مطابق ایک احسن ہیبیٹاٹ دیا جائے۔ اس لیے خالق نے انسان کے لیے جنت کو اس کا ہیبیٹاٹ بنایا۔
٭ ٭٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ایک نابینا شاعر کی نعتیہ نظم ہے۔ اس کا ایک شعر یہ ہے:
بصارت کھوگئی تو کیا بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
اس شعر میں عجیب درد اور عجیب گہرائی ہے۔ مگر ایسا شعر صرف ایک ایسا شخص ہی کہہ سکتا تھا، جس نے اپنی دونوں آنکھیں کھودی ہوں۔ جس شخص کی دونوں آنکھیں روشن ہوں اس کی زبان سے ایسا شعر نکل نہیں سکتا۔
اس دنیا کا عجیب نظام ہے۔ یہاں کھونے والا بھی پاتا ہے۔ بلکہ اکثر کھونے والا شخص اس سے زیادہ پالیتا ہے جتنا کوئی بظاہر پانے والا شخص پائے ہوئے ہو۔
(ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں

اجتماعی صبر

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:المؤمن الذی یخالط الناس، ویصبر على أذاہم، أعظم أجرا من المؤمن الذی لا یخالط الناس، ولا یصبر على أذاہم (ابن ماجہ، حدیث نمبر 4032) ۔ یعنی وہ مومن جو لوگوں کے درمیان رہتا ہے، اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے، وہ زیادہ اجر پاتا ہے اس مومن سے جو لوگوں کے درمیان نہیں رہتا، اور لوگوں کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔
اس حدیث میں انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کے فرق کو بتایا گیاہے۔ ایک مومن وہ ہے جو نماز و روزہ جیسے ذاتی اعمال کرتا ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں جب تک وہ لوگوں کے ساتھ شامل نہ ہو تو اس کو ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے جو اجتماعی زندگی میں کسی کو پیش آتے ہیں۔ مثلاً اس کی انا(ego)پر ضرب لگنا۔ اس کو کسی سے ایسی بات سننے کا تجربہ ہونا، جو اس کو افنڈ (offend) کرنے والا ہو۔ اس کو کبھی ایسا سابقہ پیش نہیں آئے گا، جب اس کو یہ محسوس ہو کہ اس کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس کو لوگوں کی طرف سے کسی اذیت کا تجربہ پیش نہیں آئے گا۔ وہ ایک معتدل زندگی گزارے گا۔ اس کو کبھی کسی سے شکایت نہ ہوگی۔ مگر اس قسم کی زندگی کا درجہ اللہ کے یہاں کم ہے۔
اس کے برعکس معاملہ اس مومن کا ہے جو لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ فطری طور پر ایسا ہوگا کہ کبھی اس کو محسوس ہوگا کہ مجھ کو نظر انداز کیا جارہا ہے، کبھی اس کو محسوس ہوگا کہ اس کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جارہا ہے، کبھی وہ کسی کی بات پر افنڈ (offend) ہوجائے گا، کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے گا جو اس کو اپنی عزت نفس کے اعتبار سے بظاہر ناقابل برداشت محسوس ہوگا، کبھی اس کو کسی سے انا کامسئلہ (ego clash) پیش آجائے گا، وغیرہ۔اس کے باوجود وہ اللہ کی خاطر اعلیٰ ایمانی روش پر قائم رہے گا۔ گویا کہ وہ اذیتوں کےباوجودایک بے شکایت (complaint-free) انسان بنارہے گا۔
ان دونوں قسم کے انسانوں میں سے دوسرے انسان کا درجہ اللہ کے یہاں بہت بڑا ہے۔ کیوںکہ وہ لوگوں کی طرف سے پیش آنے والی اذیت کے باوجود نارمل طریقے سے ایمان و اسلام پر قائم رہا۔دوسروں کی طرف سے اذیت پیش آنے کے باوجود اعتدال پر قائم رہنا، سادہ بات نہیں۔ ایسا انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایمان و اسلام کے اعتبار سے ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ وہ شعوری طور اس حقیقت کو جانتا ہو کہ اجتماعی زندگی میں لازماً خلافِ مزاج باتیں پیش آتی ہیں۔ مگر اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی مکمل طور پر بے شکایت انسان بن جائے۔
یہ اعلیٰ انسان وہ ہے جو آرٹ آف مینجمنٹ (art of management) کو جانتا ہے۔ جو یہ جانتا ہے کہ کس طرح غیر معتدل واقعہ کو مینج کرکے معتدل واقعہ بنایا جائے۔ جو یہ جانتا ہے کہ کس طرح منفی تجربہ کو مثبت تجربہ میں کنورٹ (convert) کیا جائے۔ جو اس راز سے واقف ہے کہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف اس لیے ہوتی ہیں کہ ان کے پیش آنے پر آدمی فوراً ہی ان کو بھلا دے، وہ ان سے کوئی اثر قبول نہ کرے۔
ایسا انسان وہ ہے جو یہ جانے کہ ایمانی زندگی میں یہ کرنا پڑتا ہے کہ جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اس کو اپنے اوپر نہ لیا جائے، بلکہ اسی وقت اس کو اللہ کے خانے میں ڈال دیا جائے۔ خلاف مزاج تجربہ پیش آنے کی صورت میں وہ یہ کہہ سکے — یہ اللہ کا معاملہ ہے، یہ میرا معاملہ نہیں۔ جب آپ کے ساتھ کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اس کو منفی معنی (negative sense) میں نہ لیجیے، بلکہ اس کو ایک موقع (opportunity) کے طور پر دیکھیے۔ یہ موقع کہ فرشتوں (کراماً کاتبین) نے آپ کے ریکارڈ میں لکھا کہ یہ وہ انسان تھا جو اللہ کی خاطر ہر حال میں صبر و رضا کے اصول پر قائم رہا۔ ایسے انسان کو اللہ کے یہاں النفس المطمئنۃ (الفجر 27:) کا درجہ دیا جائے گا۔ یعنی عقد نفسی سے پاک انسان(complex-free soul) کا درجہ۔ یہی وہ انسان ہے کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے لیے جنت کے دروازے اپنے آپ کھلتے چلےجائیں گے،حتی کہ کوئی دروازہ اس کے لیے بند نہ رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا مقصد ِنزول

ایک صاحب نے قرآن کا مقصدِ نزول ان الفاظ میں بیان کیا ہے:کہا جاتا ہے کہ قرآن کا مقصد ِنزول یہ ہے کہ سوسائٹی کے کسی بھی فرد پر ظلم نہ ہو، اور کوئی مظلوم دادرسی اور فریاد سے محروم نہ ہو۔ کوئی شخص بھوکا نہ سوئے، اور معاشی اعتبار سے مسلمانوں میں ایسا تفاوت نہ رہے کہ ایک کی حالت یہ ہو کہ اسے اپنے مال و زر کے انبار کے حساب کی فرصت نہ ہو اور دوسرا نانِ جوین کو ترسے۔ایک کے پاس کوٹھیوں اور بنگلوںکی بہتات ہو تو دوسرے کو سر چھپانے کے لیے جھونپڑی بھی میسر نہ ہو۔ قرآن کریم کے نزول کا مقصد مختصراً یہ ہے کہ انفرادی زندگی میں اس کی تعلیمات پر عمل ہو اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ اور جب تک اس پر عمل نہیں ، اس وقت تک ہمارا، قرآن کریم پر ایمان لانے اور اس کی تعظیم و تکریم کرنے کا دعوی بے جان ہے۔ (مدیکارمحمد بشیر، وانمباڑی)
قرآن کا مقصد نزول کیا ہے۔ اس سوال کا جواب خود قرآن میں ڈھونڈنا چاہیے۔ یہ ایک غیر علمی طریقہ ہے کہ آدمی خود اپنے ذہن میں ایک نقشہ بنائے اور اس کو قرآن کے اوپر چسپاں کردے۔اس پہلو سے قرآن کو دیکھا جائے تو قرآن میں اس کا جواب ان الفاظ میں ملتا ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔ اس آیت کےمطابق قرآن کے نزول کا مقصد انذار (warning) ہے۔ یعنی یہ کہ انسان اپنی زندگی کو صحیح نشانے پر لگائے۔ یہ صحیح نشانہ آخرت کی تعمیر ہے۔ یہ نشانہ حقیقت واقعہ کی بنیاد پر بنتا ہے۔ تخلیقی نقشہ کے مطابق، موجودہ دنیا میں انسان ایک محدود مدت تک رہتا ہے۔ اس کے بعد وہ آخرت کی دنیا میں چلا جاتا ہے، جو کہ اس کی ابدی قیام گاہ ہے۔ موجودہ دنیا میں جو مسائل ہیں، وہ مسائل نہیں ہیں، بلکہ وہ چیلنج ہیں۔ یہ چیلنج اس لیے ہیں کہ انسان کو متحرک کیا جائے۔ انسانی زندگی میں مسائل اس لیے پیش آتے ہیں کہ وہ اس کے لیےمحًرک (incentive) کا کام کریں۔ تخلیق کے مطابق ،موجودہ دنیا جدو جہد کے اصول پر قائم ہے۔ اگر جدوجہد نہ ہو تو دنیا میں ہر طرف جمود (stagnation) کا ما حول قائم ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اللہ سے امید

ایک عرب عالم ناصر عبد الغفور نے انٹرنیٹ پر اپنے ایک مضمو ن میں لکھا ہے کہ سلف کے نزدیک زیادہ امید والی آیت کے معاملے میں اختلاف ہے۔ امام سیوطی نے پندرہ یا سولہ قول ذکر کیا ہے: اختلف السلف فی أرجى آیة على أقوال کثیرة عد منہا الإمام السیوطی خمسة عشر أو ستة عشر قولا ( أرجى آیة فی القرآن الکریم [ملتقی اہل التفسیر]) ۔
اسی طرح احادیث کے ذخیرے میں بھی ایسی حدیثیں ہیں، جن کو حدیث رجاء کہا جاسکتا ہے۔ انھیں میں سے ایک حدیث قدسی ہے۔ المسند الموضوعی الجامع للکتب العشرة میں مولف کتاب نے باب سعة رحمة اللہ ومغفرتہ(1/107)کے تحت مختلف کتابوں سےاس حدیث کی 24 روایتوں کو نقل کیا ہے۔ ان میں سےصحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:لما قضى اللہ الخلق کتب فی کتابہ فہو عندہ فوق العرش إن رحمتی غلبت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194)۔اس حدیث میں غضب اور رحمت کے جو الفاظ آئے ہیں، اس کی شرح میں الحسین بن محمد عبداللہ الطیبی (وفات 743:ھ)نے کہا: وأنہا تنالہم من غیر استحقاق، وأن الغضب لاینالہم إلا باستحقاق (عمدة القاری شرح صحیح البخاری15/110)۔ یعنی اللہ کی رحمت انسان کو بغیر استحقاق کے ملتی ہے، اور غضب صرف ان کو ملتا ہے جو اس کا مستحق ہو۔
اس حدیث قدسی میں اہل ایمان کے لیے بہت بڑی امید کا سامان ہے۔ کیوں کہ جب اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے تو بندہ یہ امید کرسکتا ہے کہ اس کو اللہ کی مغفرت بلااستحقاق بھی مل سکتی ہے۔ یہ پہلو ایک مومن کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اس حدیث قدسی کے حوالے سے اللہ سے مغفرت کی ایسی دعا کرے، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہو۔ غضب کی حد ہوسکتی ہے، لیکن رحمت کی کوئی حد نہیں۔ کوئی شخص اللہ سے غضب نہیں مانگے گا، مگر رحمت ایک ایسی چیز ہے جس کو ہر آدمی اللہ سے مانگ سکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

شخصیتِ انسانی

قرآن کی ایک آیت وہ ہے جس کو آیتِ امانت کہا جاتا ہے۔ یہاں اس سلسلے کی دو آیتوں کا ترجمہ دیا جاتا ہے: ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے۔ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (الاحزاب72-73:)
اس آیت میں انسان کی خصوصی تخلیق کے معاملے کو بتایا گیا ہے۔ امانت کا لفظی مطلب ٹرسٹ(trust) ہے۔اس کائنات میں اللہ کامل معنوں میں اختیار رکھتا ہے، اختیار میں کوئی اللہ کا شریک نہیں۔ اس اختیار کا ایک بہت چھوٹا حصہ انسان کو خصوصی طور پر دیا گیا ہے۔ انسان کو یہ اختیار بطور حق نہیں دیا گیا ہے، بلکہ وہ انسان کو بطور ذمہ داری دیا گیا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اختیار کے باوجود اپنے آپ کو بے اختیار بنا لے، وہ خود عائد کردہ پابندی (self-imposed discipline) کا نمونہ بنے۔یہی اس دنیا میں انسان کا ٹیسٹ ہے، اور اسی ٹیسٹ میں پورا اترنے پر انسان کے لیے جنت مقدر کی گئی ہے۔
امانت کا یہ معاملہ ایک بے حد نازک معاملہ تھا۔ اسی لیے زمین و آسمان اس کا حامل بننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ انھوں نے زبان حال سے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کردیا۔ اس کےبعد یہ ذمہ داری خالق کی طرف سے انسان کو عطا ہوئی۔ تاہم یہ ایک بے حد نازک ذمہ داری تھی، کیوں کہ عملاً یہ بے حد مشکل تھا کہ انسان کامل معنوں میں اس ذمہ داری پر پورا اترے۔
خالق نے اس معاملے میں رعایت کا طریقہ اختیار کیا۔ اس نے یہ فیصلہ فرمایا کہ جو انسان توبہ کا ثبوت دے اس کے ساتھ خالق خصوصی رحمت کا معاملہ فرمائے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیث قدسی میں ان الفاظ میںبیان کی گئی ہے:إن رحمتی غلبت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194)
مذکورہ آیت بتاتی ہے کہ انسان اگر توبہ کا ثبوت دے تو خالق کے نزدیک وہ قابل معافی قرار پائے گا۔ توبہ کا لفظی مطلب ہے لوٹنا۔ یعنی غلطی کے بعد شدید ندامت کا احساس ہونا۔اپنی غلطی کا نہایت شدید انداز میں اعتراف کرنا۔ غلطی کرنے کے بعد شدید انداز میں اصلاح کا طالب بننا۔ اگر انسان کے اندر یہ شدید اعتراف پیدا ہوجائے تو وہ خالق کے سامنے بندے کی طرف سے ایک قابل قبول عذر بن جائے گا۔ خالق اپنی رحمت کے ساتھ بندے کی طرف دوبارہ لوٹ آئے گا۔ یہی مطلب ہے اس بات کا کہ — اللہ کے غضب کے اوپر اس کی رحمت غالب ہے۔
توبہ در اصل ندامت (repentance) کا دوسرا نام ہے۔ غلطی کرنے کے بعد جب انسان کے اندر شدید ندامت پیدا ہوتو وہ اس کی پوری شخصیت کے لیے ایک دھماکہ کے ہم معنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد آدمی کا پورا وجود ہل جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر اپنی اصلاح کا جذبہ ہمالیائی اسپرٹ کے ساتھ جاگ اٹھتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نیا عمل (process) جاری ہوتا ہے، جو اس کی پوری شخصیت کو ایک نئی شخصیت بنا دیتا ہے۔
اس قسم کی توبہ اپنے آپ میں ایک اعلیٰ درجے کا عمل ہے۔ ایسی توبہ انسان کو پہلے سے بھی زیادہ قابل قدر بنا دیتی ہے۔ اس کے بعد انسا ن کی سوچ، اس کا بولنا، اور اس کا کردار سب ایک نئے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرتی ہے۔ اس کے بعد انسان کے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب اس کا ذکر اعلیٰ ذکر بن جاتا ہے۔ اب اس کی دعاء اعلیٰ دعا ءبن جاتی ہے۔ اب اس کا شکر اعلیٰ شکر بن جاتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک تخلیقی شخصیت (creative personality) جاگتی ہے۔ اس قسم کی توبہ جب کسی انسان کو حاصل ہوجائے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ رب العالمین کے لیے قابل قبول انسان بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی حکومت

موجودہ زمانے میں اسلامی حکومت کا تصور قرآن و سنت کی تعلیم کی بنیاد پر نہیں پیدا ہوا۔ بلکہ وہ اسی چیز کاایک ظاہرہ ہے جس کو قرآن میں مضاہات (التوبہ 30:) کہا گیا ہے۔ یعنی خارجی ماحول کے اثر سے اسلام کی تشریح و تعبیر اس طرح کرنا کہ وہ خارجی معیار کے مطابق نظر آئے۔
قدیم زمانےمیں حکومت شخصی حکومت کے ہم معنی ہوا کرتی تھی۔ اس تصور حکومت کا اظہار خاندانی بادشاہت (dynasty)کی صورت میں ہوا۔ موجودہ زمانےمیں سوشلزم اور ڈیماکریسی کے اثر سے نظریاتی حکومت کا تصور پیدا ہوا۔ پہلے یہ تھا کہ ایک شخص بادشاہ کی نسل سے تعلق رکھنے کی بنا پر بادشاہت کا دعویدار ہوا کرتا تھا۔ اب یہ ہوا کہ اولوالعزم لوگوں نے پولیٹکل آئڈیالوجی (political ideology) کے ذریعے حکومت کے لیے لڑائی کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں مختلف قسم کی پولیٹکل آئڈیالوجی وجود میںآئی۔
نظریاتی حکومت کا یہ تصور موجودہ زمانے میں لوگوں کو زیادہ اہم معلوم ہونے لگا۔ اس کے اثر سے مسلم مفکرین نے بھی اسلام کو انھیں اصطلاحات کی شکل میں بیان کرنا شروع کیا۔ انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کو شش کی کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے۔ اور اسلام کا نظام حکومت سب سے بہتر نظام حکومت ہے۔ اس لیے اہل اسلام کو یہ حق ہے کہ وہ اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے اس دنیا میںاسلام کی حکومت قائم کریں۔ یہ نظریہ قرآن کے نام پر پیش کیا گیا۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مضاہات (imitation) تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا تصور ایک مبتدعانہ تصور (innovated concept) ہے۔ قرآن میں کوئی بھی آیت اس مضمون کی نہیں ہے کہ اقم دولۃ الاسلام (اسلامی حکومت قائم کرو)، یا نفذ الشریعۃ الاسلامیۃ (اسلامی شریعت نافذ کرو)۔ یہی حال احادیث کے پورے ذخیرے کا ہے۔ پورے ذخیرۂ حدیث میں کوئی بھی حدیث رسول اس مفہوم کی نہیں ہے کہ اے مسلمانو، تمھارا مشن یہ ہے کہ تم اسلام کی بنیاد پر سیاسی انقلاب لائو یاحکومت قائم کرو۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے معاملے میں اسلام کا نشانہ کوئی مخصوص نظامِ حکومت قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ سیاست کے معاملے میں اسلام کا اصل نشانہ صرف تمکین فی الارض (الحج41:)ہے۔ تمکین سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میںسیاسی استحکام (political stability) کہا جاتا ہے۔ سیاسی نظام فارم کے اعتبار سے جو بھی ہو ، اگر اس کے ذریعے سیاسی استحکام قائم ہوجائے تو اہل اسلام کے لیے وہ قابلِ قبول ہوگا۔ خواہ بظاہر اس کی عملی صورت جوبھی ہو۔
سیاست کے بارے میں اس تصور کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد جو نظامِ حکومت قائم ہوا،وہ فارم کے اعتبار سے کوئی واحد سیاسی فارم پر مبنی نظام نہ تھا۔ خلیفۂ اول کی تقرری ایک محدود شورائی اصول کے مطابق ہوئی۔ خلیفۂ ثانی کی تقرری نامزدگی (nomination)کے اصول پر ہوئی۔ خلیفۂ ثالث کی تقرری ایک بورڈ کے ذریعہ انجام پائی۔ خلیفۂ چہارم کی تقرری کسی متفق علیہ اصول کی بنیاد پر نہیں ہوئی، اسی لیے بہت جلد بغاوت کی صورت پیدا ہوگئی۔عمر بن عبد العزیز کو اگر خلیفۂ پنجم مانا جائے تو ان کی تقرری وقت کے سلطان (سلیمان بن عبد الملک)کی وصیت کے مطابق ہوئی، جو بوقت وفات ایک لفافے میں بند کردی گئی تھی۔
وہ دور جس کوخلافت راشدہ کہاجاتا ہے۔ وہ تقریباً تیس سال قائم رہا۔ اس کے بعد مسلم دنیا میں خاندانی حکومت (dynasty) قائم ہوگئی۔ جو اگلے ہزار سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔ خاندانی حکومت کا یہ نظام جو بلاشبہ شورائی ماڈل (الشوریٰ38:)کے مطابق نہ تھا۔لیکن اس دور کے تمام علماء نے اس خاندانی نظام کو عملاً تسلیم کرلیا۔ حتی کہ تمام علماء کے اتفاق رائے سے یہ مسئلہ بن گیا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔ خواہ وہ کسی کے نزدیک بظاہر’’حکومتِ فاسقہ‘‘ کیوں نہ ہو۔ صحیح مسلم کے شارح امام النووی نے اپنے زمانے کے علماء کے متفقہ موقف کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: وأما الخروج علیہم وقتالہم فحرام بإجماع المسلمین وإن کانوا فسقة ظالمین (شرح النووی علی صحیح مسلم،بیروت، 1392ھ، 12/229)۔ یعنی اور جہاں تک ان کے خلاف خروج یا ان سے قتال کا معاملہ ہے وہ مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے۔خواہ (بظاہر) وہ فاسق اور ظالم کیوں نہ ہوں۔
تسلیم کرنے والے اس گروہ میں صحابہ، تابعین، اور تبع تابعین بھی شامل تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خاندانی حکومت کانظام اگر چہ شورائی ماڈل کے مطابق نہ تھا۔ لیکن اس کے ذریعے مطلوب سیاسی استحکام حاصل ہورہا تھا۔ اس کے ذریعے امن کی حالت قائم ہوگئی اور یہ ممکن ہوگیا کہ اس کے تحت ہر قسم کی دینی سرگرمیاں جاری رکھی جاسکیں۔
ا س معاملے میں علماء کے اس متفق علیہ مسلک کا سبب کیا تھا۔ یہ سبب پرکٹیکل وزڈم کے اصول پر قائم تھا۔ یعنی زیادہ بڑی برائی (greater evil) سے بچنے کے لیے چھوٹی برائی (lesser evil) پر راضی ہوجانا۔ اسی حقیقت کو فقہاء اھون البلیتَین کی اصطلاح میں بیان کرتے ہیں۔یعنی بڑی مصیبت سے بچنےکے لیے چھوٹی مصیبت پر راضی ہوجانا۔
مگراسلامی حکومت کے مبتدعانہ تصور نے موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا کہ اتنا بڑا نقصان اسلام کی پوری تاریخ میں شاید کسی نظریہ نے نہیں پہنچایا۔
اسلامی حکومت کے اس خود ساختہ تصور کا یہ نتیجہ ہوا کہ مسلمانوں کا دینی نشانہ بدل گیا۔ قرآن و سنت کے مطابق، اہل اسلام کا دینی نشانہ اصلاً صرف ایک تھا، تزکیۂ ذات (self purification)۔ لیکن اس نام نہاد انقلابی نظریہ نے اس کے بجائے مسلمانوں کو یہ نشانہ دے دیا کہ وہ سیاسی حکمرانوں سے لڑ کر ان سے ’’اقتدارکی کنجیاں‘‘ چھین لیں۔ اور پھر اقتدار کے منصب پر قبضہ کرکے اپنے مفروضہ نظام کو عملاً قائم کریں۔ اس کا معکوس نتیجہ فطری طور پر یہ ہوا کہ اقتدار کی سیٹ پر قبضہ تو نہ ہو سکا، البتہ مختلف قسم کی برائیاں مسلم معاشرے میں پھیل گئیں۔ مثلا دینی نشانہ کا بدل جانا، مسلم امت کا دو متحارب گروہوں میں تقسیم ہوجانا، اسلام کی پرامن تصویر کے بجائے، پر تشدد تصویر (violent image) کا بن جانا، وغیرہ۔
مزید یہ کہ اس نام نہاد سیاسی تشریح کو قرآن سے ثابت کرنے کے لیے قرآن کے سنجیدہ مطالعہ کا مزاج ختم ہوگیا۔ اب مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر غلط ذہن عام ہوگیا ہے۔ وہ قرآن کی آزادانہ تفسیر کو درست تفسیر سمجھنے لگے۔ قرآن میں طاغوت شیطان کے معنی میں استعمال ہوا تھا، اس کو سیاسی لیڈر کے معنی میں لیا جانے لگا۔ قرآن میں حُکم کا لفظ فوق الطبیعی اقتدار (super-natural power) کے معنی میں استعمال ہوا تھا۔ اب اس کو سیاسی اقتدار (political power) کے معنی میں لے لیا گیا۔ قرآن میں دین کا لفظ مذہب کے معنی میں استعمال ہوا تھا، اس کو اسٹیٹ کے معنی میں لے لیا گیا، وغیرہ۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭
اخوان المسلمون کی تحریک کو مصر اور دوسرے عرب ملکوں میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ اخوانی تحریک کے مختلف شعبے تھے۔ ان میں سے ایک فوجی شعبہ تھا جس کو جناح عسکری کہا جاتا تھا۔ اخوان کے جناح عسکری کے سربراہ حسن دوح (Hasan Dawh) تھے۔
موجودہ زمانہ میں جو اسلامی تحریکیں اٹھیں، ان سب کا یہی حال رہا ہے۔ کسی میں جناح عسکری عملاً قائم تھا، اور کسی میں صرف ذہنی طور پر وہ پایا جاتا تھا۔تحریکوں کی اس عسکریت کا سبب یہ ہے کہ وہ ’’دشمنان اسلام‘‘ کے رد عمل میں اٹھیں۔ کوئی یہودیوں کی خلاف، کوئی انگریزوں کے خلاف، کوئی فرانسیسیوں کے خلاف۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب میں مشترک طور پر نفرت اور تشدد کا ذہن پایا جاتا ہے۔
موجودہ زمانہ کی ان تحریکوں میں سے کوئی تحریک ‘‘جناح دعوتی‘‘ نہ تھا۔اگر یہ تحریک حقیقی معنوں میں دعوتی محرک کے طور پر اٹھتیں تو نہ صرف ان کے یہاں جناح دعوتی موجود ہوتا بلکہ ان کے یہاں دعوت ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی۔ اور پھر ان کا مزاج نفرت اور تشدد کے بجائے محبت اور امن کا بنتا۔دعوت کا کام دلوں کو جیت کر اور ذہنوں کو مطمئن کرکے ہوتا ہے، اس لیے داعی کے اندر دوسروں سے محبت اور خیر خواہی کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ (ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں

موت کا ظاہرہ

موت کا ظاہرہ (phenomenon) ایک انتہائی انوکھا ظاہرہ ہے۔ ہر انسان جو اس زمین پر پیدا ہوتا ہے، وہ ضرور ایک دن مر جاتا ہے۔ خواہ بظاہر وہ کتنا ہی تندرست ہو، اس کے پاس کتنے ہی زیادہ اسباب کی کثرت ہو۔ تاریخ میں ایسے انسان پیدا ہوئے، جو اپنے آپ کو موت سے بچانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی کوشش مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ ساری کوشش کے باوجود وہ ایک دن اسی طرح مرگیے، جس طرح اس دنیا میں دوسرے انسان مررہے ہیں۔
یہ واقعہ قرآن کی صداقت کا ایک قطعی ثبوت ہے۔قرآن میں موت کے بارے میں تین بار یہ الفاظ آئے ہیں:کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185, 21:35, 29:57)۔ یعنی ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔اس آیت میں قرآن نے یہ اعلان کیا کہ اس زمین پر پیدا ہونے والے ہر مرد اور ہر عورت کو ضرور ایک دن مرنا ہے۔ اس میں کسی بھی فرد کا کوئی استثنا (exception) نہیں ۔ خواہ وہ بادشاہ ہو یا دولت مند یا کوئی بہت بڑا ڈاکٹر۔
یہ پوری انسانی تاریخ کے بارے میں ایک عمومی ریمارک ہے۔ وہ پوری تاریخ انسانی کا احاطہ کیےہوئے ہے۔ تاریخ کے بارے میں قرآن کا یہ ریمارک پوری تاریخ کا ایک عمومی واقعہ بن گیا۔ موت کے بارے میں اس قسم کا بیان کسی بھی کتاب میں موجود نہیں، نہ مذہبی کتاب میں اور نہ غیرمذہبی کتاب میں۔ جو بھی مرد یا عورت اس زمین پر پیدا ہوئے، وہ مقرر مدت کے اندر مر کر اس دنیا سے چلے گیے۔
ایسا ایک عمومی بیان جو عملاً پوری تاریخ کا ایک ثابت شدہ واقعہ بن جائے، یہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ اس قول کا قائل اللہ رب العالمین ہے، وہ ہستی جس کے ہاتھ میں انسان کی موت بھی ہے اور زندگی بھی۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی اپنے آپ ثابت ہوتی ہے کہ قرآن اللہ رب العالمین کی کتاب ہے۔ یہ واقعہ خدا کے وجود کا ثبوت بھی ہے، اور قرآن کی صداقت کا ثبوت بھی۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا سماج

قرآن میں جنت کو دارالسلام (یونس25:) کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی امن کا گھر (home of peace)۔اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت حسن رفاقت کا سماج (النساء69:) ہوگا۔ یعنی اچھے تعلق (good relationship) کا سماج۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخلے کی شرط کیا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں ، جو جنت کی معیاری دنیا میں داخل کیے جائیں گے۔
جنت میں داخلے کا فیصلہ قوم یا گروہ کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ افراد کی بنیاد پر ہوگا۔ پوری تاریخ سے ایسے افراد منتخب کیے جائیں گے، جن کے اندر جنت والے اخلاق پائےجائیں۔وہ افراد جن کا دل نفرت کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ افراد جو دوسروں کے ساتھ کامل امن کے ساتھ رہ سکیں۔ وہ افراد جن کے اندر دوسروں کے بارے میں خیرخواہی کا جذبہ پایا جاتا ہو۔ وہ افراد جو شکایت کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہوں۔ جو تمام انسانوں کو اپنا سمجھیں، کوئی انسان ان کو غیر دکھائی نہ دے۔ وہ افراد جو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کے حامل ہوں۔ ایسے افراد کے مجموعے سے جو معیاری دنیا بنے گی اسی کو جنت کہا گیا ہے۔
اسلامی تحریک کا نشانہ اسٹیٹ کو اسلامائز کرنا (Islamization of state) نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی تحریک کا نشانہ افراد کا اسلامائزیشن ہے۔ اسلامی تحریک کا نشانہ دنیا میں معیاری سماج بنانا نہیں ہے، بلکہ اسلامی تحریک کا نشانہ یہ ہے کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جن کےمجموعہ سے آخرت میں معیاری جنت کی تشکیل کی جاسکے۔ جنت اعلیٰ سرگرمیوں کی جگہ ہے۔جنت میں داخلہ صرف ان افراد کو ملے گا، جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کیا ہو کہ وہ جنت کی اعلیٰ سرگرمیوں میں حصہ لینے کے قابل ہیں۔جنت میں وہ تمام مثبت سرگرمیاں اپنی کامل صورت میں پائی جائیں گی، جو دنیا میں پائی جاتی تھیں۔ جنت میں داخلہ صرف ان افراد کو ملے گا، جنھوں نے دنیا کی سرگرمیوں کے دوران اپنے آپ کو ان اعلیٰ سرگرمیوں میں حصہ لینے کا اہل ثابت کیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

مادی کائنات، انسانی تاریخ

اللہ نے دو دنیائیں بنائی، ایک مادی دنیا اور دوسری انسانی دنیا۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں دنیاؤں کے ڈیولپمنٹ کے لیے اللہ نے پراسس (process) کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی تدریج کے تحت ڈیولپ کرتے ہوئے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچانا۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ انسان مطالعہ کرکے تاریخ کا علم حاصل کرسکے۔ اور اس طرح تخلیق کی معرفت سے آگاہ ہو۔
مادی کائنات کی تخلیق کا معاملہ حسب ذیل آیت کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے: ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ (41:11)۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔ اور وہ دھواں تھا۔ پھر اس نے آسمان اور زمین سے کہا کہ تم دونوں آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے۔ دونوں نے کہا کہ ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مادی دنیا کواس معاملے میں ذاتی اختیار حاصل نہ تھا۔ خالق نے جس طرح مادی دنیا کو ہدایت دی، ٹھیک اس کے مطابق مادی دنیا چلتی رہی۔ یہاں تک کہ اپنے کمال تک پہنچی۔ اس عمل کا آغاز بگ بینگ (الانبیاء30:) سے شروع ہوا۔ اور نظامِ شمسی کے وجود میں آنے پر مکمل ہوا۔
انسانی دنیا کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ انسان کو اللہ نے مکمل آزادی دی تھی۔ اس لیے یہاںاللہ نے انسان کی تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، تاریخ کو مینج کرنا، اور اس کو مطلوب نقطۂ کمال تک پہنچانا۔
اللہ کے منصوبہ کے مطابق، انسانی تاریخ مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ مثلاً طوفانِ نوح کے بعد انسانی آبادی کا منتشر ہوکر ساری دنیا میں آباد ہونا، حضرت ابراہیم کے ذریعے ایک نئی نسل کی تیاری، رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے مذہبی جبر کے دور کو ختم کرنا اور دنیا میں آزادی کا دور لانا، وغیرہ۔ انسانی تاریخ کے حوالے سے جو کام انجام پایا اس کی آخری مثال وہ ہے جس کو علامتی طور پر جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاسکتا ہے۔
جدید تہذیب کیا ہے۔ جدید تہذیب اصلاً یہ ہے کہ فطرت کے اندر چھپے ہوئے رازوں کو دریافت کرنا اور انسانی تاریخ کو روایتی دور سے نکال کر ٹکنالوجی کے دور تک پہنچانا۔تہذیب کا یہ دور بظاہر مادی ترقی کا دور ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ یہ ہے کہ خدا کے دین کو عالمی دعوت کے دور میں پہنچایا جائے۔ اس لحاظ سے جدید تہذیب موافقِ اسلام تہذیب ہے۔ جدید تہذیب اور اسلام میں کوئی حقیقی ٹکراؤ نہیں۔
اس دورِ تہذیب کا آغاز رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ شروع ہوا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ فطرت (nature) جو ہزاروں سال سے پرستش کا موضوع (object of worship) بنی ہوئی تھی، وہ پہلی بار تسخیر کا موضوع (object of investigation) بن گئی۔ یہ انسانی تاریخ میں ایک انقلابی تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اس عمل کا آغاز رسول اور اصحابِ رسول کےذریعہ عرب میں ہوا۔ اور پھر ترقی کرتے ہوئے وہ مغرب (West) میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔
فطرت کی پرستش کے بجائے فطرت کو تسخیر کرو— یہ اصول پہلی بار قرآن میں بتایا گیا۔ تسخیر کا مادہ قرآن میں 9 بار استعمال ہوا ہے۔ مگر دوسرے الفاظ میں قرآن میں بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ غور فکر کرکے حقائق فطرت کو دریافت کرو۔ اس طرح اسلام نے انسانی تاریخ میں پہلی بار سائنسی غور و فکر (scientific exploration)کا آغاز کیا۔ یہ عمل پہلے ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں شروع ہوا۔ اس کے بعد بتدریج مغربی دنیا تک پہنچا۔
اس سائنسی عمل (scientific process) کا آغاز مسلمانوں نے کیا۔ وہ مکہ سے شروع ہوا۔ پھر وہ مدینہ اور دمشق پہنچا۔ پھر بغداد اور اندلس اس کا سینٹر بنے۔ پندرھویں صدی میں اندلس کی مسلم حکومت ختم ہونے کے بعد مسلم دنیا میں یہ پراسس عملاً موقوف ہوگیا۔
اس خاتمہ کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان اس قربانی (sacrifice) کا ثبوت نہ دے سکے جو اس عمل کے مزید تسلسل کے لیے ضروری تھا۔ اس قربانی کا ثبوت مسیحی قوموں نے دیا۔ اس بنا پر اس عمل کے دودور بن گیے۔ پہلے دور میں مسلم قوموں نے اس میں اپنا رول ادا کیا۔ دوسرے دور میں مسیحی قوموں نے اس کام کو آگے بڑھایا، اور اس کو تکمیل کی حد تک پہنچایا۔ اس قربانی سے مراد جان کی قربانی نہیں تھی بلکہ ایک لفظ میں نئی منصوبہ بندی (replanning) کا راستہ ہے۔ یعنی جب ایک طریقہ کار موثر نہ ہورہا ہو تو پیچھے ہٹ کر دوسرا طریقہ اختیارکرنا۔
قدیم زمانے میں صلیبی جنگوں (Crusades) کا واقعہ پیش آیا۔ یہ مسلم قوموں اور مسیحی قوموں کے درمیان طویل جنگ کا ایک سلسلہ تھا۔ اس کا آغاز 11ویں صدی عیسوی میں ہوا، اور خاتمہ 16ویں صدی عیسوی میں ہوا۔مورخین کے بیان کے مطابق اس جنگ میں مسیحی قوموں کو ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) ہوئی۔
اس شکست کے بعد مسیحی قوموں نے ایک قابل تقلید کام کیا۔ انھوں نے اس کے بعد منفی رد عمل (negative reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا،بلکہ یہ کیا کہ شکست کو بھلا کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی (replanning) کی۔ اس نئی پلاننگ کو روحانی صلیبی جنگ (spiritual crusades) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک لمبا عمل تھا۔ جس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے تاریخ میں پہلی بار تہذیب (civilization) کا ایک نیا دور پیدا کیا۔
مغربی تہذیب کوئی انتقامی تہذیب نہ تھی۔ وہ کسی کے خلاف انتقامی جذبے کے تحت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ مغربی تہذیب کا وجود اس طرح ہوا کہ مغربی قوموں نے جنگ کے میدان کو چھوڑ کر فطر ت کے میدا ن میں اپنا مثبت عمل شروع کیا۔ انھوں نے نیچر میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کیا، جس کے نتیجے میں جدید سائنس وجود میں آئی۔ جدید ٹکنالوجی کی دریافت ہوئی۔ جدید صنعت ظہور میں آئی۔ دنیا کو جدید سامان حیات کا تحفہ ملا۔دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا، جب کہ تشدد کا طریقہ ایک بے نتیجہ طریقہ قرار پایا۔ اس کے بر عکس، امن کا طریقہ زیادہ موثر طریقہ کار کے طور پر ظہور میں آیا۔تاہم مسلمان اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے اس بنا پر وہ غیر دانش مندانہ طور پر مغربی تہذیب کو اپنانے کے بجائے اس کے خلاف ہوگیے۔
واپس اوپر جائیں

مشن کی اہمیت

مرد اور عورت دونوں کی ایک فطری ضرورت ہے کہ ان کا ایک قریبی ساتھی ہو۔ ایسا ساتھی جس سے وہ اپنی ہر بات کہہ سکے، اور جس پر پورا اعتماد رکھ سکے۔ مرد اور عورت دونوں اس اعتبار سے ایک دوسرے کے فطری ساتھی ہیں۔ نکاح کی صورت میں ایک مرد اور ایک عورت دونوں ایک دوسرے کے قریبی رفیق بن جاتے ہیں۔ مگر عملاً ایسا ہوتا ہے کہ شادی کے بعد کچھ مدت تک دونوں کے درمیان محبت کے تعلقات ہوتے ہیں، مگر دھیرے دھیرے یہ تعلق گھٹ کر ایک ورکنگ تعلق (working relationship) بن جاتا ہے۔
یہ صورت حال مرد اور عورت دونوں کے لیے یقینا ایک ناپسندیدہ صورت حال ہے۔ نکاح کے وقت مرد و عورت، دونوں ناپختگی کی عمر (age of immaturity) میں ہوتے ہیں۔ بعد کو دھیرے دھیرے وہ وقت آتا ہے جب کہ دونوں پختگی کی عمر (age of maturity) تک پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے دور کے مقابلے میں بعد کے دور میں دونوں زیادہ تجربہ کار ، زیادہ دانش مند، زیادہ سنجیدہ، زیادہ گہری سوچ والےبن جاتے ہیں۔ مگر عملاً یہ ہوتا ہے کہ پہلے دور میں دونوں کے درمیان زیادہ گہرے تعلقات ہوتے ہیں، اور بعد کے دور میں دونوں کے تعلقات گھٹ کر کمتر سطح پر قائم ہوجاتے ہیں۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ دونوں کا ایک مشن ہو، جو ان کی آخری عمر تک قائم رہے۔مثلا اگر دونوں اپنی دوسری مصروفیات کے ساتھ یہ طے کریں کہ ان کو یہ کوشش کرنا ہے کہ خدا کے منصوبہ کےمطابق قرآن ساری دنیا میں پہنچ جائے۔ ہر انسان اس کو اپنی قابل فہم زبان میں پڑھنے کے قابل ہوجائے۔ تو یہ ایک ایسا مشن ہوگا جو ہمیشہ جاری رہے گا، اور شوہر اور بیوی کے تعلقات کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ اس طرح یہ ہوگا کہ پہلے اگر دونوں صرف ہزبنڈ اور وائف تھے، تو اب دونوں ہزبنڈ پلس اور وائف پلس بن جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

قبولیت میں تاخیر

دعا کی قبولیت میں اگر تاخیر ہو تو انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس میں بڑی حکمت پوشیدہ ہوسکتی ہے۔ اس معاملے میں ایک حدیث قدسی ہے، جو ان الفاظ میں آئی ہے:انَّ العبد إذا دعا ربَّہ، وہو یحبہ قال:یا جبریل:لا تعجَل بقضاء حاجة عبدی، فإنی أحبُّ أن أسمع صوتہ(مسند الحارث)۔یعنی بندہ جب اپنے رب کو پکارے، اور وہ اس کو محبوب ہو، تو اللہ جبریل سے کہتا ہے، اے جبریل ،میرے بندے کی حاجت پورا کرنے میں جلدی نہ کر، کیوں کہ مجھے پسند ہے کہ میں اس کی آواز سنوں۔
اس سے مراد سادہ طور پر آواز سننا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت بندے میں جو روحانی عمل جاری ہوتا ہے، اللہ چاہتا ہے کہ وہ عمل بندے کے اندر دیر تک جاری رہے۔ اصل یہ ہے کہ تخلیق کے نقشہ (creation plan) کے مطابق، انسان کے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کا عمل معمول کے حالات میں جاری نہیں ہوتا۔ یہ عمل صرف اس وقت جاری ہوتا ہے جب کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آئے، جوانسان کے اندرذہنی طوفان (brainstorming) کی حالت پیدا کردے۔جب ایسا ہوتا ہے تو انسانی ذہن کے تمام بند دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کو ایسے تجربات پیش آئیں جو عام حالات میں پیش نہیں آتے۔
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے ذہن کا جمود (stagnation) ٹوٹے، اور اس کے اندر تخلیقیت (creativity) کا عمل بیدار ہوجائے۔ وہ منفی سوچ سے باہر آئے، اور چیزوں کو مثبت نظر سے دیکھنے لگے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کہ اس کے اندر چھپے ہوئے امکانات (potentials) ظاہر ہوجائیں۔ اس کے اندر وہ سوچ پیدا ہوجائےجس کو بلند سوچ (high thinking) کہا جاتا ہے۔ اب تک اگر وہ مین ( man)تھا تو اب وہ سوپر مین (superman) بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی مدد

قرآن میں ایک خدائی قانون کو ان الفاظ میںبیان کیا گیاہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ (22:40)۔ یعنی اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے۔ بیشک اللہ زبردست ہے، زور والا ہے۔ قرآن کی یہ آیت انسانی تاریخ کے بارے میں ایک خدائی قانون کو بتاتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو کامل آزادی دی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ انسانی تاریخ کو برابر مینج بھی کرتا ہے، تاکہ تاریخ کا سفر اپنے صحیح رخ پر جاری رہے۔ مذکورہ آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے اس منصوبے میں انسان کا رول کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان تاریخ کے بارے میں اللہ کے منشا کو دریافت کرے، اور اللہ کے منصوبے کے مطابق تاریخی عمل (historical process) میں اپنا حصہ ادا کرے۔ انسان اگر ایسا کرے تو وہ اللہ کی مدد کا یقینی مستحق بن جاتا ہے۔
اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو اسلام کے دور اول میں پیش آئی۔ وہ یہ کہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد اللہ تعالی نے ایسے حالات پید اکیے کہ اہل ایمان یک طرفہ شرطوں پر فریق ثانی سے صلح کرلے، اور اس طرح فریقین کے درمیان امن کا ماحول بنا کر دعوت کی پلاننگ کرے۔ اس زمانے کے اہل ایمان نے اس معاملے کو سمجھا ، اور یک طرفہ صلح کرکے فریقین کے درمیان امن کا ماحول قائم کیا۔ اس طرح گویا اہل ایمان نے اللہ کے جاری کردہ پراسس میں اپنا حصہ ادا کیا۔ اس کے بعد وہ اللہ کی یقینی نصرت کے مستحق بن گیے۔ چناں چہ اس کا نتیجہ فتح مبین کی صورت میں بر آمد ہوا۔
موجودہ زمانے میں دوبارہ اسی قسم کی صورتِ حال زیادہ بڑے پیمانے پر پیدا ہوئی ہے۔ پچھلے تقریباً چار سو سال کے عمل کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر موافقِ اسلام حالات پیدا ہوئے ہیں۔ ایک طرف عالمی سطح پر مذہبی آزادی کو انسان کا مطلق حق مان لیا گیا ہے، اور دوسری طرف اسلامی دعوت کو پھیلانے کے اتنے زیادہ مواقع پیدا ہوئےہیں، جس کو مواقع کا انفجار (opportunity explosion) کہا جاسکتا ہے۔
اب دوبارہ ضرورت ہے کہ اہل ایمان اللہ کی نصرت کریں۔ اس نصرت کی صورت یہ ہے کہ امت مسلمہ دوسری قوموں کے ساتھ اپنے تمام نزاعات کو یک طرفہ طور پر ختم کردے، اور اپنی ساری توجہ صرف ایک نکتے پر لگادے۔ یعنی پیدا شدہ مواقع کو پر امن طور پر دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کرنا۔ اس طرح اہل ایمان اللہ کے پیدا کردہ تاریخی پراسس میں اپنا حصہ ادا کریں گے۔ ایسا کرنا امت مسلمہ کو نصرت الٰہی کا یقینی مستحق بنا دے گا، اور پھر دوبارہ ان کو وہ کامیابی حاصل ہوگی جس کو قرآن میں فتح مبین (الفتح1:) کہا گیا ہے۔
فتح مبین کی اس الٰہی نصرت کو حاصل کرنے کی صرف ایک شرط ہے، اور وہ یہ کہ اہل اسلام اس پورے معاملے کو قومی نقطۂ نظر سے نہ دیکھیں ، بلکہ خالص دعوتی نقطۂ نظر سے دیکھیں۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ قومی تعلقات میں ہمیشہ ایسے حالات پیش آتے ہیں، جو بظاہر کسی قوم کے خلاف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ قوم ان حالات کو اپنے خلاف ظلم سمجھ لیتی ہے، اور پھر اس کے نتیجے میں اس قوم کے اندر منفی سوچ پیدا ہوجاتی ہے۔ منفی سوچ قوم کو اس کے لیے نااہل بنا دیتی ہے کہ وہ حالات کے مثبت پہلو کو دریافت کرے، اور ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے معاملے کی منصوبہ بندی مثبت انداز میں کرے۔ یہی منفی ذہن قوموں کے لیےتعمیر میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ہے۔ انھوں نے فطری حالات کو مفروضہ طور پر اپنے خلاف سمجھ لیا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے لگے۔ مظلومیت کے احساس کی مسلمانوں کوبہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ۔ وہ یہ ہے کہ اس احساسِ مظلومیت نے مسلمانوں کو اس بات کے لیے نااہل بنا دیا ہے کہ وہ تاریخ کے مثبت پہلو کو سمجھیں، اور اس میں اپنا حصہ ادا کرتے ہوئے اللہ کی نصرت کے مستحق بنیں۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت کا مثبت پہلو

ایک حدیث قدسی ان الفاظ میں آئی ہے: ما دعا اللہ َالمؤمنُ بدعوة إلا وُکِّل بحاجتہ جبریل فیقول:لا تعجل بإجابتہ فإنی أحب أن أسمع صوت عبدی المؤمن(حِلیۃ الاولیاء، 2/327-8)۔یعنی جب کوئی بندہ اللہ کو پکارتا ہے، تو جبریل فرشتہ کواس کی حاجت برآری کے لیے مقرر کردیا جاتا ہے، اوراللہ کہتا ہے کہ( اے جبریل) اس کی حاجت کو پورا کرنےمیںجلدی نہ کر، کیوں کہ مجھے یہ محبوب ہے کہ میں مومن بندے کی آواز کو سنوں۔
اللہ ایک مومن بندہ کی صوت (آواز) کو کیوں پسند کرتا ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اس کی صوت میں کوئی نغمہ (melody)ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی بندہ مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتا ہے تو اس سے اس کی روحانی ارتقا (spiritual development) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کو یہ روحانی ارتقا پسند ہے، نہ کہ صوت کا نغمہ۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے اوپر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کی حساسیت (sensitivity) کو بڑھاتی ہے۔ حساسیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی قوت اخذ (grasp) بڑھ جاتی ہے۔ اس بنا پر ایسا آدمی ،اگر وہ منفی سوچ میں مبتلا نہ ہو تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے تجربے سے زیادہ سے زیادہ سبق لے، وہ چیزوں میں چھپی ہوئی حکمت کو زیادہ سے زیادہ دریافت کرسکے۔
مصیبت حساسیت کو بڑھاتی ہے، اور حساسیت آدمی کی قوت اخذ میں اضافہ کرتی ہے، اور قوت اخذ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے آدمی کی معرفت کو بہت زیادہ بڑھادیتی ہے۔ مصیبت بجائے خود کوئی مطلوب چیز نہیں، مگر اس کا نتیجہ (result) اس کو مطلوب بنا دیتا ہے۔ معرفت جسمانی اعضاء کی طرح ایک تخلیقی عطیہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک خود دریافت کردہ چیز (self-discovered item) ہے، اور دریافت کا یہ عمل (process) ہمیشہ ناخوش گواری کے راستے سے گزرتا ہے۔ معرفت کے حصول کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نا انصافی کا مسئلہ

تمام مصلحین ہمیشہ ایک کام کرتے رہے ہیں۔ اور وہ ہے نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانا۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھیے تو ان کے احتجاج (protest) کا کبھی کوئی مثبت فائدہ نہیں نکلا۔ احتجاج کی کثرت کے باوجود نا انصافی کے واقعات میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ بلکہ مصر کے حالیہ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ نا انصافی کے خلاف پروٹسٹ کے طریقے نے صرف ناانصافی میں مزید اضافہ کیا ۔
اصل یہ ہے کہ ’’ناانصافی‘‘ فطرت کے نظام کا ایک حصہ ہے۔ ناانصافی ہمیشہ آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کوئی طاقت انسانی آزادی کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔ اس لیے نانصافی کا امکان بھی کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ اس معاملے میں دانش مندی کا طریقہ یہ ہے کہ خود اپنے اندر اتنی ذہنی بیداری (intellectual awakening) پیدا کی جائے کہ آپ ناانصافی کرنے والوں کی ناانصافی کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر قدیم مکہ کے سرداروں نے رسول اور اصحابِ رسول کو عمرہ کے لیے مکہ جانے سے روکا۔ یہ صریح طور پر ناانصافی کا ایک کیس تھا۔ لیکن پیغمبرِ اسلام نے اس ناانصافی پر احتجاج کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ حدیبیہ سے واپس آکر خاموش منصوبہ بندی کی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسال کے اندر تاریخ بدل گئی۔ اور حج اور عمرہ کا راستہ ابدی طور پر تمام امت کے لیے کھل گیا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ پروٹسٹ کا طریقہ ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹو (counter-productive) ثابت ہوتا ہے۔یعنی برعکس نتیجہ پیدا کرنے والا۔ وہ مسئلے کو صرف بڑھاتا ہے، جب کہ غیر احتجاجی طریقہ مسئلہ کو ختم کرنے والا ہے۔دانش مند آدمی وہ ہے، جو نتیجہ کو دیکھ کر اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔
واپس اوپر جائیں

قتال فی سبیل اللہ، دعوت الی اللہ

قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اللہ کی راہ میں قتال کریں(الصف4:)۔ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے کہیں یہ لفظ نہیں آیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتا ہے۔ قرآن میں ایسے لوگوں کے لیے جو لفظ آیا ہے وہ قول احسن (فصلت 33:) ہے۔خالص موضوعی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ فرق بہت قابل غور معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ دعوت الی اللہ کا کام ایک ایجابی کام ہے۔ اس کے مقابلے میں قتال فی سبیل اللہ کا کام بظاہر ایک سلبی کام ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک سلبی کام تو ایک محبوب کام ہو لیکن ایجابی کام محبوب کام نہ ہو۔اللہ کے نزدیک یہ محبوب ہو کہ انسانوں کو جنگ کرکے قتل کردیا جائے، اور یہ محبوب نہ ہو کہ انسان کے اندر اللہ رب العالمین کی معرفت پیدا کی جائے تاکہ وہ جنت میں داخلے کامستحق قرار پائے۔اس معاملے میں بداہۃً اصل حقیقت یہی ہے۔
مزید یہ کہ اگر اس نقطۂ نظر سے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو دعوت الی اللہ کا کام رسول اللہ کے عہد کے بعد بظاہر ایک مسنگ آئٹم (missing item) نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں قتل و قتال کا کام اتنا زیادہ عام ہے کہ اسلام کی پوری تاریخ میں پھیلا ہوا ہے، اور آج تک جاری ہے۔ یہ اسلام کی تاریخ کا بہت بڑا سوال ہے۔ اس سوال کا گہرا تعلق احیاء اسلام سے ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک دعوت الی اللہ کا کام بلاشبہ قتال فی سبیل اللہ کے کام سے زیادہ بڑا ہے۔ البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ قتال فی سبیل اللہ کے کام کی اہمیت نص کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دعوت الی اللہ کے کام کی اہمیت اجتہاد کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔اصل یہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں عملا ً سب سے بڑا کام یہ تھا کہ دنیا سے فتنہ (البقرۃ193:)کا خاتمہ کیا جائے، یعنی مذہبی جبر (religious persecution) کا خاتمہ۔
ہزاروں سال کےاندر یہ فتنہ اتنا زیادہ جڑ پکڑ چکا تھا کہ شدید قتال کے بغیر اس کا خاتمہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس وقت قتال تا ختم فتنہ پر بہت زیادہ زور دیا جائے تاکہ فوکس ہٹنے نہ پائے۔ لیکن اب جب کہ فتنہ کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ بذریعہ اجتہاد یہ معلوم کیا جائے کہ اللہ کا مطلوب ایجابی کام کیا ہے۔ جب سلبی کام کی ضرورت باقی نہ رہے۔ تو اس کے بعد اپنے آپ ایجابی کام نمبر ایک کام بن جاتا ہے۔ اب جب کہ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے تمام دروازے کھل چکے ہیں تو اب ہمیں بذریعہ اجتہاد یہ معلوم کرنا ہے کہ اب ساری اہمیت دعوت الی اللہ کی ہے۔ قدیم زمانے میں قتال برائے ختم فتنہ اور دعوت الی اللہ دونوں کام ساتھ ساتھ کرنا پڑتا تھا۔ اب قتال برائے ختم فتنہ کا حکم عملاً موقوف ہوچکا ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ پوری طاقت صرف ایک کام میں لگادی جائے۔ یعنی دعوت الی اللہ کے کام میں ۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن میں قتال پر محبت ماہیت کے اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ ضرورت کے اعتبار سے ہے۔ تاکہ لوگوں میں شوق پیدا ہو، اور فوکس ہٹنے نہ پائے۔
غزوۂ بدر کے موقع پر رسول اللہ نے یہ دعا کی تھی:اللہم إنک إن تہلک ہذہ العصابة من أہل الإسلام، فلا تعبد فی الأرض أبدا (مسند احمد، حدیث نمبر208)۔ یعنی اے اللہ اگر تو اہل اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کردے، تو زمین میں پھر کبھی تیری عبادت نہ ہو گی۔ پیغمبر کی اس دعا کو اس کے پس منظر کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مذہبی تشدد کا نظام حکومت کی تائید سے بے حد پختہ ہوچکا تھا۔ یہ نظام صرف بزور طاقت ختم ہوسکتا تھا۔ اس جابرانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے ایک جانباز گروہ درکار تھا۔ اصحاب رسول یہی جانباز گروہ تھے، جو لمبی مدت کے اندر تیار کیے گیے تھے۔ عملی اعتبار سے یہ ناؤ آر نیور (now or never) کا معاملہ بن گیا تھا۔ اگر اس گروہ کو استعمال کرکے جبر کے نظام کو ختم نہ کیاجاتا تو بظاہر وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں تھا۔ رسول اللہ کی دعا کا مطلب یہ تھا کہ اس تاریخی موقع کو ہر حال میں استعمال کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ موقع کھویا گیا تو بظاہر دوبارہ ایسا موقع ملنے والا نہیں۔ اس وقت شفٹ آف ایمفاسیس (shift of emphasis) کے طور پر جنگ پر زور دیا گیا، نہ کہ ابدی اصول کے طور پر۔
واپس اوپر جائیں

عمومی تائید کا دور

اسلام کی دعوت، توحید کی دعوت تھی۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک عالمی دعوت تھی۔ اس حقیقت کو قرآن میں عالمی انذار (الفرقان 1:) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مگر قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک دعوت ِ توحید کا مشن عمومی مخالفت کے ماحول میں کرنا پڑا۔اس بنا پر اس مشن کو مطلوب نشانے کے مطابق کرنا بے حد مشکل ہوگیا۔ آخر کار اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ اس منفی صورت حال کو ختم کیا جائے۔ تاکہ دعوتِ توحید کا مطلوب عمل کسی رکاوٹ کے بغیر انجام پاسکے۔
اس موافق صورت حال کو ظہور میں لانے کے لیے اللہ نے تاریخ میں ایک انقلابی عمل جاری کیا۔ یہ عمل ساتویں صدی میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ شروع ہوا، اور بیسویں صدی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب اہل ایمان کو صرف یہ کرنا ہے کہ ان پیدا شدہ مواقع (opportunities) کودعوت توحید کے لیے منصوبہ بند انداز میں پرامن طور پر استعمال کریں۔ اس عمل کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34) ۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کو انفرادی امکان کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی عداوت کوئی مستقل حالت نہیں۔ انفرادی سطح پر تم آج بھی اس کا تجربہ کرسکتے ہو کہ ایک شخص جو بظاہر تم کو اپنا مخالف نظر آتا ہو، اس سے یک طرفہ (unilateral) حسن سلوک کرو تو عین ممکن ہے کہ وہ تمھارا دوست بن جائے۔ اس قسم کا تجربہ اسلام کے دور اول میں بار بار پیش آیا۔یعنی دعوت یا حسن سلوک کے نتیجے میں کل کا دشمن آج کا دوست بن گیا۔ مثلاً عمر ابن الخطاب ، اور ہندہ زوجہ ابوسفیان، وغیرہ۔ لیکن اتنا ہی کافی نہ تھا۔ اسی کے ساتھ ضرورت تھی کہ اس کلچر کو دنیا میں عمومی سطح پر لایا جائے۔
اس واقعہ کا دوسرا پہلو حدیث میں پیشین گوئی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إن اللہ جل وعز لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد غیر اہل دین کے ذریعہ کرے گا۔
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، اس کا ایک منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ تھا کہ دنیا میں تائید کلچر کو وجود میں لانا۔ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں جس ڈائیکاٹومی (dichotomy) کا رواج تھا۔ وہ تھا، دوست اور دشمن کی ڈائیکاٹومی۔ اللہ نے انسانی تاریخ میں ایسے اسباب پیدا کیے کہ انسانوں کے درمیان ایک نئی ڈائیکاٹومی وجود میں آگئی۔ وہ تھی، دوست اور موید (supporter) کی ڈائیکاٹومی۔ یعنی جو لوگ دوست تھے، وہ تو دوست تھے۔ اور جو لوگ دوست نہ تھے، وہ عملاً موید (supporter) بن گیے۔
یہ تبدیلی اس طرح آئی کہ جمہوریت (democracy) اور ٹکنالوجی کے ذریعہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہر آدمی کا مفاد دوسرے آدمی کے ساتھ جڑ گیا۔ پولیٹکل لیڈر کا انٹرسٹ ووٹر سے، اور ووٹر کا انٹرسٹ پولیٹکل لیڈر سے۔ بزنس مین کا انٹرسٹ کسٹمر سے اور کسٹمر کا انٹرسٹ بزنس مین سے۔ ٹیچر کا انٹرسٹ اسٹودنٹس سے، اور اسٹوڈنٹس کا انٹرسٹ ٹیچر سے، وغیرہ۔
اس طرح دنیا میں ایک نیا باہمی انحصار کا کلچر (interdependent culture) وجود میں آیا۔ اب ایک نیا جبر (compulsion) پیدا ہوا۔ جس کے تحت لوگوں کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ دشمن کی اصطلاح میں سوچنا چھوڑ دیں۔ وہ تمام انسانوں کو یا تو دوست کے روپ میں دیکھیں یا موید کے روپ میں۔ اس کی ایک صورت وہ ہے جس کو موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔
اس کلچر کے نتیجے میں ایسا ہوا کہ ساری دنیا میں کھلے پن (openness) کا دور آگیا۔ اب اپنے اور غیر کا فرق ختم ہوگیا۔ مثلاً آپ اگر دعوت ِ توحید کا مشن چلا رہےہیں تو ضروری نہیں ہوگا کہ صرف اپنے وسائل کے دائرے میں اپنا مشن چلائیں، بلکہ ہر اسٹیج اور ہر پلیٹ فارم آپ کے لیے کھلا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ دوسرے لوگ انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کریں، تووہ آپ کو دعوت دیں گے کہ آپ وہاں آئیں، اور ان کے اسٹیج سے پرامن انداز میں اپنے مشن کا تعارف پیش کریں ۔
قدیم زمانے میں مسلم حکومتوں میں غیر مسلموںپرجزیہ (tribute) عائد کیا گیا تھا۔ یہ زمانی حالات کے مطابق تھا۔ کچھ غیر مسلم مصنفین نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ یہ ایک امتیازی ٹیکس (discriminatory tax)ہے۔مسلم مصنفین نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ امتیازی ٹیکس نہیں ہے، بلکہ وہ حفاظتی ٹیکس (protective tax) ہے۔ تاہم اس طرح کے جوابات کے باوجود دوسرے حضرات کا اعتراض ختم نہیں ہوا۔ موجودہ زمانے میںجزیہ کے نام پر علاحدہ ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب نئے حالات کے مطابق، یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ٹیکس تو سب کے لیے ایک ہی ہو۔ ٹیکس کے معاملے میں مسلم اور غیرمسلم کا کوئی فرق نہ ہو۔ البتہ ایک اور اصول کو اختیار کرتے ہوئے، اس مقصد کو زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ زمانے میں ایک نیا تصور بڑے پیمانے پر وجود میں آیا ہے۔ اس کو آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔ آؤٹ سورسنگ کا طریقہ اس معاملہ کا نعم البدل ہے۔ آؤٹ سورسنگ کا طریقہ 1981میں امریکا سے شروع ہوا۔ موجودہ حالات میں یہ طریقہ تجارتی امور میں استعمال کیا جاتا ہے:
Outsourcing is a practice in which an individual or company performs tasks, provides services or manufactures products for another company.
موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ کا طریقہ زیادہ تر اقتصادی معاملے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے۔ اہل اسلام اس طریقہ کو دعوت کے لیے اس طرح استعمال کرسکتے ہیں کہ وہ دوسرے اداروں اور دوسروں کے اجتماعات کو اپنے پیغام کی پرامن اشاعت کے لیے بطوردعوہ اَپر چونٹی اَویل (avail)کریں۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر اسلام کا مشن

قرآن اصلاً قانون کی کتاب نہیں ہے ، بلکہ وہ حکمت (wisdom)کی کتاب ہے۔ قرآن اگر قانون کی کتاب ہوتی تو قرآن کی آیتوں کا صرف ترجمہ، قرآ ن کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتا۔ لیکن قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے تدبر (ص29:) ضروری ہے۔ قرآن کی آیتوں میں جو حکمت ہے، وہ صرف غور وفکر کے ذریعے سمجھی جاسکتی ہے۔ غور و فکر کے بغیر قرآن کے گہرے مفہوم تک پہنچنا ممکن نہیں۔
قرآن کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جوباتیں بذریعہ وحی بتائی گئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دو تھیں— الھدیٰ اور الدین (التوبہ32:) ۔ یہ اسلوب قران کی تین آیتوں میں اختیار کیا گیا ہے۔ اس پر غور کرنےسے معلوم ہوتا ہے کہ الہدی سے مراد منہج (method) ہے۔ اور الدین سے مراد وہ دین جو تمام نبیوں (الشوریٰ13:)کو مشترک طور پر دیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اصلاً وہی تھا جو تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔ یعنی انسان کو اس دینِ اسلام سے باخبر کرنا جو انسان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا ضامن ہے۔ اس دینِ مشترک کی تعلیمات بنیادی طور پر تین ہیں— توحید، رسالت، آخرت۔توحید سے مراد اس دین کی وہ آئڈیالوجی ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے۔ رسالت سے مراد وہ مستند ذریعہ ہے جس کے ذریعے یہ دین انسانوں تک پہنچتا ہے۔ آخرت سے مراد انسان کا وہ ابدی انجام ہے، جو اس دین کو اختیار کرنے یا اختیار نہ کرنے کی بنا پر کسی انسان پر واجب ہوتا ہے۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہے۔ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں ایک ہی رہے گا۔ لیکن ہدیٰ (منہج یا طریقہ کار) کا تعلق حالات سے ہے۔ وہ حالات کےتحت بدلتا رہے گا۔
مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ وہ زمانہ قبائلی زمانہ (tribal age)تھا۔ قبائلی دور میں اختلاف کو طے کرنے کا ایک ہی ذریعہ تھا، اور وہ تلوار (sword) تھا۔ اس بنا پر اس زمانے میں اہل ایمان کو بطور دفاع قتال کے میدان میں فریق ثانی کا مقابلہ کرنا پڑا۔ لیکن اب دورِ سیف (age of sword)ختم ہوچکا ہے۔ اب ساری دنیا میں معاملات کو طے کرنے کی ایک ہی مسلّم بنیاد ہے، اور وہ پر امن طریقہ کار یا پرامن گفت و شنید (peaceful negotiation) کا طریقہ ہے۔ اس لیے اب اہل ایمان کو کسی سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ان کے لیے اعدادِ قوت (الانفال60:)کا انطباقی مفہوم (applied meaning) یہ ہے کہ وہ پر امن گفت و شنید اور دلیل کے اعتبار سے اپنے آپ کو تیار کریں۔ موجودہ زمانے میں تلوار کے اعتبار سے اپنے آپ کو تیار کرنا ، ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو دنیا کی تمام قوموں نے جان لیا ہے۔ مثلاً دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے زمانے میں برطانیہ، جرمنی، فرانس اور جاپان باقاعدہ طور پر جنگ میں شریک تھے۔ لیکن جنگ کے بعد انھوں نے یہ دریافت کیا کہ اب چیزیں پر امن طریقہ کار سے ملتی ہیں، نہ کہ پرتشدد طریقہ کار سے۔ چناں چہ انھوں نے جنگ کے اس معاملہ میں یو ٹرن (u-turn)لے لیا۔ انھوں نے اپنی پالیسی امن کی بنیاد پر بنائی، نہ کہ پہلے کی طرح جنگ کی بنیاد پر۔
واقعہ کا یہ پہلو بتاتا ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانےمیں جو غزوات پیش آئے، وہ زمانی سبب (age factor) کی بنیاد پر پیش آئے، وہ ابدی معنوں میں اسلام کی تعلیم کا حصہ نہ تھے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کے دورِ اول میں جو جنگیں پیش آئیں، وہ اسلام کی تاریخ کا حصہ ہیں، نہ کہ اسلام کی ابدی تعلیمات کا حصہ۔ اب جنگ کے طریقہ کو پہلے کی طرح جاری رکھنا صرف خلافِ زمانہ حرکت (anachronism) کے ہم معنی ہوگا، نہ کہ واقعی معنوں میں کوئی مطلوب کام۔
مسلم فقہاء جس چیز کو نصبِ امامت کہتے ہیں، اس کا تعلق بھی حالات سے ہے، نہ کہ عقیدہ کی طرح ابدی تعلیمات سے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں نصبِ امامت کا واقعہ بطور وقتی ضرورت پیش آیا۔ اب اگر اس کو اسلام کی مستقل تعلیم کا حصہ قرار دیا جائے تو یہ دین کو تاریخ سے اخذ کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ جب کہ تاریخ حالات کی پیداوار ہوتی ہے، نہ کہ اصولی تعلیمات کی پیداوار۔دین کا ماخذ ابدی طور پر قرآن و سنت ہے، نہ کہ وہ چیز جو حالات کی نسبت سے وجود میں آتی ہے۔
کچھ مفکرین نے پیغمبر اسلام کے طریق کار کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے — مرحلۂ دعوت، مرحلۂ ہجرت، مرحلۂ جہاد۔ مگر یہ پیغمبر کے مشن کو تاریخ سے اخذ کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کا مشن صرف ایک تھا، اور وہ دعوت توحیدہے۔ بقیہ چیزیں جو پیغمبر کے مشن میں دکھائی دیتی ہیں، وہ حالات کے تحت پیدا ہونے والی تاریخ کا حصہ ہیں، نہ کہ اصل دینی تعلیمات کا حصہ۔
قرآن میں پیغمبروں کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے، نیز بائبل سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے، اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبروں کا مشن ہمیشہ ایک تھا۔ لیکن ان کی تاریخ مختلف تھی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مشن کا تصور ابدی عقیدہ سے بنتا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، تاریخ ایک دو طرفہ عمل (bilateral process) کے تحت وجود میں آتی ہے۔ تاریخ ہمیشہ اس اعتبار سے بنتی ہے کہ مخاطب (audience) کا ردعمل دعوت کے مقابلے میں کیا تھا۔
اسلام میں سیاسی اقتدار کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے، بلکہ عملی ضرورت سے ہے۔ اس کا مقصدـ شریعت کا نفاذ نہیں ہے۔ بلکہ وہی چیز ہے جس کو تمکین فی الارض(الحج41:)کہا گیا ہے، یعنی سماجی استحکام کا حصول ۔ اسلام ایک پیس فل مشن ہے، اسلام کا مقصد یہ ہے کہ پرامن انداز میں خدائی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلایا جائے۔ یہ مقصد اس وقت حاصل ہوجاتا ہے، جب کہ سیاسی استحکام قائم ہو۔ خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے قائم ہوجائے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ہر حکومتی فارم کو یکساں طور پر قبول کیا گیا ہے۔ آپ قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں تو آپ کو حکومت کا کوئی واحد مطلق فارم نہیں ملے گا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ’’خلافت‘‘ کے چار مختلف فارم قائم ہوئے۔ اس کے بعد مسلم ملکوں میں خاندانی خلافت (dynasty) کا طریقہ رائج ہوگیا۔ اور اس کو تمام علماء نے تسلیم کرلیا۔ حتٰی کی آج بھی وہ رائج ہے۔ اس معاملے میں ایک اصول وہ ہےجو مکی دور کے اس واقعہ میں ملتا ہے، جب کہ صحابہ کی ایک جماعت نے پیغمبر اسلام کی اجازت سے حجاز سے حبش کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:لو خرجتم إلى أرض الحبشة؟ فإن بہا ملکا لا یظلم عندہ أحد، وہی - أرض صدق - حتى یجعل اللہ لکم فرجا مما أنتم فیہ(البدایۃ والنہایۃ، دارالفکر، 1986، 3/66)۔ تم لوگ حبش کے ملک میں چلے جاؤ۔ کیوں کہ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہےجس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ سچائی کی زمین ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تمھارے لیے گنجائش کی صورت پیدا کردے۔
رسول اللہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر غیر مسلم حکومت میں بھی اہل ایمان کو امن حاصل ہو تو وہ حکومت بھی ابل ایمان کے لیے قابلِ قبول حکومت ہوگی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کا ایک وعظ ہےجس کا خلاصہ یہ ہے:’’میرے نزدیک آج کل کے جھگڑے اور فساد کی بنیاد یہ ہے کہ ہر شخص سواسیر بننا چاہتا ہے، کوئی شخص سیر بن کر رہنا نہیں چاہتا۔ اگر خود کو سیر اور دوسروں کو سوا سیر سمجھے کا جذبہ پیداہوجائے تو آج ہی یہ سارے جھگڑے اور فساد ختم ہوجائیں۔‘‘ (صحبتے با اہل دل)
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جھگڑوں کی جڑ لوگوں کا یہی جذبہ ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں سوچتا کہ بس چند دن میں کی زندگی تک یہ سارے جھگڑے ہیں، اسکے بعد انسان ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ پھر نہ تو کوئی سیر ہوگا، اور نہ کوئی سواسیر۔
آہ، انسان آج سیر بن کر رہنے پر راضی نہیں۔ حالاں کہ اس پر وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ سیر بن کر رہے گا اور نہ سوا سیر۔ اگر لوگ جان لیں کہ بالآخر وہ کچھ بھی نہ رہیں گے تووہ خود ہی سیر بننے پر راضی ہوجائیں اور پھر تمام جھگڑے بھی اچانک ختم ہوجائیں۔ (ڈائری، 1983)
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭
واپس اوپر جائیں

قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت

امت مسلمہ کی سیاسی تاریخ کا یہ ایک معلوم واقعہ ہے کہ تقریباً تمام علماء نے اس پر اتفاق کر لیا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے تقریباً تیس سال بعد خاندانی حکومت (dynasty) قائم ہوگئی۔ یہ خاندانی حکومت بنو امیہ سے شروع ہوئی اور عثمانی ترکوں کی خلافت قائم رہی۔ لیکن علمائے امت نے کبھی اس کے خلاف خروج (بغاوت) نہیں کیا۔ اس سے اسلام کا یہ سیاسی اصول معلوم ہوتا ہے کہ اگر قائم شدہ حکومت بظاہر لوگوں کو غلط حکومت معلوم ہوتی ہو تو ان کے لیے اس کے خلاف بغاوت کا آپشن نہیں ہے، بلکہ صرف ایک آپشن ہے، اور وہ ہے نصیحت۔ یعنی حاکم کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنے کے بجائے، خیرخواہانہ نصیحت کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا۔
اس معاملے کی ایک جزئی مثال یہ ہے کہ بنو امیہ کا حکمراں سلیمان بن عبد الملک اپنے بیٹے کو اپنے بعد حکومت کے لیے نامزد کرنا چاہتا تھا، جو بظاہر اچھا انتخاب نہ تھا۔ اس کے زمانے کے ایک عالم رجاء ابن حیوہ نے سلیمان بن عبد الملک کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ خاموش نصیحت کے ذریعے اس کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کی۔ ان کی یہ کوشش کامیاب رہی۔ چناںچہ سلیمان بن عبدالملک نے ایک باقاعدہ تحریر کے ذریعے یہ وصیت کی کہ اس کے بعد اس کے بیٹے کے بجائے عمر بن عبد العزیز کو ان کی جگہ حاکم بنایا جائے، جو کہ مسلمہ طور پر سلیمان کے بیٹے سے زیادہ اہل تھے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ علماء نے ظالم حکمراں کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دیا تھا۔ لیکن بعد کو تجربے سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی بغاوت کا نتیجہ شدید تر برائی (greater evil) کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس عملی نتیجہ کو دیکھنے کے بعد علماء کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ کسی قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔ اس سلسلے میں یہاں ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے:  (الحسن بن صالح)کان یرى السیف یعنی کان یرى الخروج بالسیف على أئمة الجور وہذا مذہب للسلف قدیم لکن أستقر الأمر على ترک ذلک لما رأوہ قد أفضى إلى أشد منہ ففی وقعة الحرة ووقعة بن الأشعث وغیرہما عظة لمن تدبر۔ (تہذیب التہذیب لابن حجر العسقلانی، باب الحسن بن صالح(516)،دائرة المعارف النظامیة، الہند،الطبعة الأولى، 1326ھ، 2/285)۔یعنی حسن بن صالح ظالم حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کو درست سمجھتے تھے۔ یہ سلف کا قدیم مذہب ہے۔ لیکن بعد میں اس معاملے میں یہ رائے طے پائی کہ ایسا نہ کیا جائے۔ کیوں کہ علماء نے یہ دیکھا کہ مسلح بغاوت کا طریقہ پہلے سے زیادہ شدید حالات کا سبب بن گیا۔ چناں چہ حرہ اورابن الاشعث وغیرہ، کے واقعے میں غور کرنے والوں کے لیے نصیحت کا بڑا سامان ہے۔
قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کی ممانعت کے بارے میں بہت سی حدیثیں موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، عرب عالم عبدالرحمان بن معلا اللویحق کی کتاب الغلو فی الدین کا چیپٹر الخروج علی الحکام(بیروت، 1992)۔صریح ممانعت کے باوجود کیوں ایسا ہوا کہ کچھ علماء نے قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دے دیا۔ ان علماء میں امام ابوحنیفہ بھی شامل ہیں۔ ابوبکر الجصاص نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : وکان مذہبہ (یعنی أبا حنیفة) مشہورا فی قتال الظلمة وأئمة الجور(احکام القرآن للجصاص، بیروت، 1405ھ، سورۃ البقرۃ 124:)۔ یعنی ابوحنیفہ کا یہ مسلک مشہورہے کہ وہ ظالم حکمراں اور ائمۂ جور کے خلاف خروج کو جائز سمجھتے تھے۔
ابو حنیفہ اور دوسرے علماء کے اس مسلک کو کچھ لوگوں نےاجتہادی خطا قرار دیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں صریح طور پر ظلم پر صرف صبر کا حکم دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے دور میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے جسموں میں شیطان جیسا دل ہوگا۔ اس پر صحابی حذیفہ بن یمان نے سوال کیا، اے اللہ کے رسول، اس وقت میں کیا کروں۔ آپ نے فرمایا: تسمع وتطیع للأمیر، وإن ضرب ظہرک، وأخذ مالک، فاسمع وأطع(صحیح مسلم، حدیث نمبر1847)۔یعنی تم امیر کی بات سنو، اور ان کی اطاعت کرو، خواہ وہ تمھاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تم سے تمھارا مال چھین لے، تم ان کی بات سنو، اور ان کی اطاعت کرو۔
اس طرح کی صریح ہدایت کے باوجود کیوں متعدد علماء نے قائم شدہ حکوت کے خلاف بغاوت (خروج)کو شرعاًجائز قرار دے دیا۔ اس کا سبب ایک حدیث کی غلط تاویل تھی۔ وہ حدیث یہ ہے: صحابی عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ بایعنا على السمع والطاعة، فی منشطنا ومکرہنا، وعسرنا ویسرنا وأثرة علینا، وأن لا ننازع الأمر أہلہ، إلا أن تروا کفرا بواحا، عندکم من اللہ فیہ برہان(صحیح البخاری، حدیث نمبر7056۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1709)۔یعنی ہم نے اس بات پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے، اپنی پسند میں بھی اور اپنی پسند کے خلاف بھی، مشکل میں اور آسانی میں، اور اس پر کہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دی جائے، اور یہ کہ ہم اہل اقتدار سے نزاع نہیں کریں گے۔ الا یہ کہ تم کفر بواح (کھلا کھلاکفر) دیکھو، جس میں تمھارے پاس اللہ کی برہان (واضح دلیل)موجود ہو۔
اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں جو استثنا ہے وہ کفر بواح کا استثنا ہے، ظلم و جور کا استثنا نہیں ہے۔ ظلم و جور ایک عملی روش ہےاور کفر بواح ایک اعتقادی معاملہ ہے۔دیگر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ ظلم و جور پر ہر گز خروج جائز نہیں۔ حتی کہ ظالم کے خلاف پر امن مظاہرہ (peaceful demonstration) بھی جائز نہیں ہے۔ پر امن تدابیر کے ذریعے حکمراں کو اقتدار سے ہٹانا بھی یقینی طور پر ناجائز ہے۔ ظلم و جور کے معاملےمیں صرف لسانی نصیحت جائز ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
حدیث میں کفر بواح پر خروج کا جو ذکر ہے، وہ بھی حقیقۃ ًمستثنیٰ نہیں ۔ یہ در اصل وہی چیز ہے جس کو تعلیق بالمحال یا تعلیق الشرط بالامر علی المحال کہتے ہیں۔یعنی کسی معاملے کو ناممکن الوقوع امر پر منحصر کرنا۔ اس نوعیت کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: إِنَّ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوا عَنْہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِینَ (7:40)۔ یعنی بے شک جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا، ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں نہ گھس جائے۔ اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا محال ہے۔ اسی طرح ان مستکبرین کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔ قرآن کی اس آیت میں حقیقۃ عدم وقوع کا ذکر ہے نہ کہ وقوع کا۔
قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کو حرام قرار دینا ایک عظیم حکمت پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ جب بھی کسی قائم شدہ حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی جائے تو ارباب حکومت لازما ًایسی کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ وہ اس کے لیے ہر جوابی تدبیر اختیار کریں گے۔ اس کے نتیجے میں طرفین کے درمیان شدید ٹکراؤ شروع ہوجائے گا۔ یہ ٹکراؤ خونی ٹکراؤ تک پہنچ جائے گا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں ہر قسم کی تباہی پیش آئے گی۔ گویا ٹکراؤ کرنے والوں کا اعلان تو یہ ہوگا کہ ہم اصلاحِ حکومت کے لیے ٹکراؤ کررہے ہیں، لیکن باعتبار نتیجہ جو چیز سامنے آئے گی، وہ صرف فساد ہو گا، نہ کہ اصلاح۔
اسلام میں قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت (خروج )کو حرام قرار دینا صرف ایک منفی حکم نہیں ہے، بلکہ وہ مکمل طور پر ایک مثبت حکم ہے۔ اس کا مقصدیہ ہے کہ اس طرح کے موقعے پر ایسے آپشن کو لیا جائے جو مزید تباہی سے پاک ہو، اور وہ ہے پر امن نصیحت کا طریقہ اختیار کرنا۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭
اسلام ایک ایسے برتر خدا کا تصور دیتا ہے، جو سب سے بلند ہے۔ کسی سماج میں خدا کا تصور زندہ ہو تو یہ اس سماج کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے بعد ایک شخص کے لیے ممکن ہوجا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر کسی ظالم کو ظلم سے باز رکھے۔ (ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں

قتل گاہ یا صحت گاہ

بیسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں جدید طرز کی تعلیم کے ادارے قائم ہوئے۔ یہ برٹش رول کا زمانہ تھا۔ تاہم سیاسی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کا مذہبی طبقہ عمومی طور پر انگریزی تعلیم کا مخالف بن گیا۔ ایک عالم نے یونیورسٹی کے بارے میں لکھا کہ وہ مسلمانوں کے لیے قتل گاہ ہے۔ ایک اور عالم نے جدید طرز کی تعلیم گاہوں پر ایک کتاب لکھی، جس کا ٹائٹل تھا: ردۃ و لا ابابکر لہا (ایک ارتداد ہے، لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ابوبکر نہیں) ۔ ایک مشہور شاعر نے انگریزی تعلیم گاہوں کے بارے میں یہ شعر لکھا:
یوں قتل پہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اس قسم کی منفی بات صرف زمانے سے بے خبری کا نتیجہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی تعلیم گاہیں ہمارے نوجوانوں کے اندر سے توہم پرستی کا ذہن ختم کررہی تھیں، اور ان کو سادہ ذہن (clean slate)بنارہی تھیں۔ مگر ہمارے رہنماؤں نے اس راز کو نہیں سمجھا، اور غیر ضروری طور پر بےجا مخالفت شروع کردی۔
اس وقت کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ عصری اسلوب (modern idiom) میں اسلام پر کتابیں تیار کی جائیں، اور ان کتابوں کو مسلم نوجوانوں میں بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید تعلیم ایک موقع (opportunity) کی حیثیت رکھتی تھی، مگر ہمارے رہنما اس کو موقع کی حیثیت سے دیکھنے میں ناکام رہے۔ اس بنا پر وہ ان کو استعمال کرنے سے بھی محروم رہے۔
اس معاملے کا شدید تر نقصان یہ ہوا کہ ان علماء کو ماننے والوں کی بعد کی نسلیں ڈبل اسٹینڈرڈ بن گئیں۔ چناں چہ آج یہ حال ہے کہ یہ مسلمان اپنے علماء اور رہنماؤں کے مفروضہ کارناموں پر لفظی قصیدے پڑھتے ہیں، لیکن عملاً اپنے بچوں کو انھیں تعلیم گاہوں میں تعلیم دلاکر فخر محسوس کرتے ہیں۔ منافقت کلچر کا اتنا بڑا واقعہ شاید پوری مسلم تاریخ میں کبھی پیش نہیں آٰیا۔
واپس اوپر جائیں

انجام کو دیکھ کر

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آٗئی ہے:جاء رجل إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم فقال:بارک اللہ للمسلمین فیک، فخصنی منک بخاصة خیر، قال:مستوص أنت؟ أراہ قال:ثلاثا، قال:نعم، قال:اجلس، إذا أردت أمرا فتدبر عاقبتہ، فإن کان خیرا فأمضہ، وإن کان شرا فانتہ (الزھد والرقائق لابن المبارک، حدیث نمبر 41)۔ یعنی ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا: اللہ نے آپ سے مسلمانوں کو برکت دی ہے، تو آپ مجھ کو ایک خاص خیر کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے کہا: تم نصیحت پوچھ رہے ہو، یہ آپ نے تین مرتبہ کہا۔ اس آدمی نے کہا ،ہاں۔ آپ نے کہا، بیٹھ جاؤ، جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے انجام پر غور کرو، اگرانجام بہتر ہو تو اس کو کرو، اور اگر انجام برا ہو تو اس سے رک جاؤ۔
یہ عمل کے بارے میں بلاشبہ ایک جامع نصیحت ہے۔ ہر آدمی کسی عمل کا نقشہ بناتا ہے۔ ہر آدمی کوئی اقدام کرتا ہے۔ یہ ایک عام کلچر ہے۔ آپ نے اس معاملے میں ایک بنیادی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کام وہی کرو، جو ایک نتیجہ خیز کام ہو، جس سے کوئی مفید نتیجہ نکلنے والا ہو۔ اس کے برعکس، جس کام میں اقدام تو ہو لیکن ا س کا کوئی مثبت نتیجہ (positive result)نکلنے والا نہ ہو، اس سے اپنے آپ کو دور رکھو۔
انجام پر غور کرتے ہوئے کوئی کام کرنا، کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اپنے کام کو پلاننگ کے ساتھ انجام دیا جائے۔ کام کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ ذہن میں کچھ خیال آیا، اور آپ نے فوراً اس پر عمل شروع کردیا۔ کام کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو کام سامنے آئے اس پر مختلف لوگوں سے مشورہ کیا جائے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو حدیث میں تانی (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 4058) کہا گیا ہے۔ یعنی اپنے وسائل کا اندازہ کیا جائے۔پھر جو کام کیا جائے وہ نہ کمتر اندازہ (underestimation) کے ساتھ کیا جائے، اور نہ برتر اندازہ (overestimation) کے ساتھ کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

ایکٹنگ، اَن فولڈنگ

موجودہ زمانہ پروفیشنلزم کا زمانہ ہے۔ دنیا میں بہت سے مواقع کھلے ہوئے ہیں جہاں آدمی اپنے آپ کو اہل ثابت کرکے کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ چناں چہ ہر آدمی اپنی زندگی کے آغاز میں اپنے لیے کوئی پروفیشن طے کرتا ہے، اور اس کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔ اسی کے مطابق تعلیم، اوراسی کے مطابق تربیت، اسی کے مطابق وہ اپنے کیریکٹر کو بناتا ہے۔ تاکہ وہ جب اپنے مطلوب میدان میں داخل ہو تو وہاں اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت مل سکے۔
چناں چہ موجودہ زمانےمیں ہر چیز ایک پروفیشن بن چکی ہے۔ ہر ایک کا ایک میدانِ عمل (workplace) ہے، اب اسی کے مطابق ہر آدمی اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔ مثلا لیڈر کا ورک پلیس ووٹر کمیونٹی ہے۔ ایجوکیٹر کا ورک پلیس ایجوکیشنل ادارے ہیں۔ بزنس مین کا ورک پلیس اس کے کسٹمر ہیں، وغیرہ۔ ہر آدمی اپنے آپ کو اپنے منتخب ورک پلیس کے مطابق تیار کرتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مطمئن کرکے اپنے آپ کو کامیاب بناسکے۔
اس پروفیشنل کلچر نے ہر آدمی کو عملاً گویا ایکٹر بنادیا ہے۔ ہر آدمی اپنے آپ کو کسی دوسرے کے لیےتیار کررہا ہے۔ خود اپنی فطری شخصیت کی اَن فولڈنگ (unfolding)ہر ایک کا اصل کام تھا، مگر کوئی نہ اس کام کو جانتا ہے، اور نہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتا ہے۔ خالق نے ہر فرد کو فطری طور پر کچھ صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی کا پہلا کام یہ ہےکہ وہ اپنے اس فطری امکان (natural potential) کو دریافت کرے، اور اس فطری امکان کو واقعہ بنائے۔
اس اعتبار سے دنیا میں ہر عورت اور مرد کا اصل کام اپنی انفولڈنگ ہے۔ یعنی اپنی فطرت میں چھپے ہوئے امکانات کو واقعہ (actual) بنانا۔آدمی ایکٹر دوسروں کی نسبت سے بنتا ہے، جب کہ انفولڈنگ خود اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق ہوتی ہے۔ اسی لیے پروفیشنلزم کے ذریعہ آدمی دنیوی ترقی کرسکتا ہے، لیکن وہ یقین اور اعتماد کا سرمایہ حاصل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 253

■ کیرالا ساہتیہ اکیڈمی کےکتاب میلہ (ترشور)میں23 فروری 2017 کو کیرالا کے معروف گرو سوامی وشوا بدرانندا شکتی کو ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکزکے دعوتی لٹریچردیئے گئے جن کو انھوں نے بخوشی قبول کیا۔
■ فروری کے مہینہ میں مسٹر ابو الحکم محمد دانیال (صدر سینٹر فار پیس اینڈ آبجکٹیو اسٹڈیز، بہار و جھار کھنڈ) نے پونے کا سفر کیا۔ یہاں انھوں نے پونے ٹیم سے ملاقات کی اور دعوت کے تعلق سے تبادلۂ خیال کیا۔ اس ضمن میں 23 فروری 2017 کو سی پی ایس (پونے) ٹیم کے ممبر شیخ عبد الصمد اور شیخ ایاز اور حاجی ایوب، ابو الحکم محمد دانیال کے ساتھ ہوٹل ہل وے گئے۔ شیخ عبد الصمد اور محمد دانیال نے ہوٹل کے مالک سکندر سے دعوہ ورک اور سی پی ایس مشن پر گفتگو کی اور ان کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ ترجمۂ قرآن اور سی پی ایس کے دعوہ لٹریچر کو ہوٹل کے ریسپشن ڈیسک پر وزیٹرس کے لیے رکھیں۔ ہوٹل کے مالک اس بات کے لیے راضی ہوگیے ، اورشیخ عبد الصمد صاحب نے دعوہ لٹریچر کو مہیا کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔
■ سی پی ایس (دہلی) کے کچھ ممبران نے ڈاکٹر فریدہ خانم (چیر پرسن سی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی) کی سربراہی میں 25 فروری 2017 کو ممبئی کا سفر کیا۔اس دورہ کا مقصد انجمن اسلام ٹکنیکل کالج کے ایک پروگرام میں حصہ لینا تھا۔ اس تقریب میں کالج کے تقریبا 75 ٹیچنگ اسٹاف اور اسٹوڈنٹ شریک ہوئے۔ سی پی ایس ممبران نے اس مجمع کو خطاب کیا۔ اس کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوا۔ آخر میں فیکلٹی کے تمام ممبران کو انگریزی ترجمۂ قرآن اوردی ایج آف پیس (The Age of Peace) کے نسخے ہدیہ میں دیئے گیے۔ اس سفر میں جو لوگ دہلی سے گیے تھے، ان کے نام یہ ہیں، مس ماریہ خان، مس صوفیہ خان، مسٹر اجے دویدی۔ اس کے علاوہ پونے ٹیم سے جناب عبد الصمد صاحب بہار ٹیم سے حافظ اے بی دانیال صاحب بھی شریک ہوئے۔ سی پی ایس کی ممبئی ٹیم نے بطور میزبان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔
■ آل انڈیا ٹینس ایسوسی ایشن (AITA ) کے زیراہتمام جونئر ٹینس ٹورنامنٹ کی اختتامی تقریب کولکاتا ساؤتھ کلب میں منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب میں مختلف شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والی بہت سی ممتاز شخصیات شامل ہوئیں۔ اس موقع پر کولکاتا سی پی ایس ٹیم کی ممبر مز شبینہ علی نے تقریب میں حصہ لیا اور شرکاء کو قرآن، اسپرٹ آف اسلام اور ایج آف پیس دیا۔ مثلاً مِہر کے مترا (Mihir K. Mitra) بنگال ٹینس ایسوسی ایشن کے اعزازی سکریٹری ہیں۔ وہ قرآن پاکر بہت زیادہ خوش ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ کافی عرصے سےانھیں قرآن کی تلاش تھی ۔ انھوں نے سی پی ایس کے اس قدم کو بہت سراہا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ مسٹر نریش کمار(ارجن ایوارڈیافتہ سابق ٹینس کھلاڑی) سے صدر اسلامی مرکز اور ان کے مشن کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ قرآن دیکھ کروہ بہت خوش ہوئے ۔ تمام لوگوں نے شکریہ ادا کیا۔ یہ تقریب 25 فروری 2017 کومنعقد ہوئی تھی۔
■ ربائی ڈیوڈ روزن (Rabbi David Rosen) اور ان کے انڈین نمائندے ارجن ہرداس (Arjun Hardas) 2 مارچ 2017 کوصدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ ربائی ڈیوڈ روزن عالمی پیمانے پر انٹرفیتھ اور پرامن بقائے باہم کے مشن کے لیے کام کر رہے ہیں، اوراس سے پہلے صدر اسلامی مرکز سے مل چکے ہیں، اور الرسالہ مشن سے متاثر ہیں۔ یہ انٹرایکشن کافی اچھا رہا۔ آخر میں دونوں مہمانوں کو صدر اسلامی مرکز کی نئی کتابوں کا ایک ایک سیٹ بطور گفٹ دیا گیا۔
■ نیشنل ریڈ کراس سوسائٹی نے 4 مارچ 2017 کوجموں میں ایک میلہ منعقد کیا تھا۔ اس موقع پر ہمالیہ ایجوکیشن مشن، راجوری نے ایک اسٹال حاصل کیا، اور اس میلے میں آنے والے لوگوں کی کثیر تعداد کے درمیان ہندی، انگلش قرآن کے علاوہ صدر اسلامی مرکز کی دوسری اردو، ہندی اور انگریزی کتابیں دی گئیں۔
■ جمشید پور(جھارکھنڈ) کی سی پی ایس ٹیم کے ممبران نے جناب سنجر عالم صاحب کے مکان پر11 مارچ 2017 کی شام کوایک میٹنگ منعقد کی۔ اس میں جناب ایاز احمد صاحب نے صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’اسلام کا تعارف‘کے دو مضامین پڑھے اور جناب عبد الرب صاحب نے اس کی تشریح کی۔ اس کے بعد ٹیم نے اپنے گزشتہ ایجنڈے پر بات چیت کی اور آئندہ کے لیے ایجنڈا متعین کیا۔ پہلا ایجنڈا مقامی طور پر معروف ڈاکٹر پرساد کے ساتھ میٹنگ اور ان کو قرآن اور دعوہ لٹریچر گفٹ کرنا تھا۔ دوسرا، ثنا ءکامپلیکس کے سینئر طلباء کے درمیان لیف لیٹس تقسیم کرنا تھا۔
■ تامل ناڈواور کیرلا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک کانفرنس10-11 مارچ 2017 کوتامل ناڈوکے یارکاڈ (Yercaud) میں منعقد ہوئی ۔ اس میں فلمی، تعلیمی، سماجی اور ثقافتی میدانوں سے تعلق رکھنے والے 60 افراد نے شرکت کی۔ اس پروگرام کا انعقاد جسٹس بشیر احمد سعید سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز (یونیورسٹی آف مدراس) نے کیا تھا۔ اس موقع پر تامل ناڈو سی پی ایس ٹیم کے ممبر کلو ندیم احمد (آمبور)نے اس میں شرکت کی اور ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچرخاص طورپر’’دی ایج آف پیس‘‘ اور’’اسپرٹ آف اسلام‘‘لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔
■ سی پی ایس ٹیم نے 10 تا 12 مارچ 2017 کوحیدرآباد میں تین روزہ دعوہ میٹ کیا۔ سی پی ایس، حیدرآباد کے زیر اہتمام یہ پروگرام ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ(حیدر آباد) میںمنعقد ہوئے ، جو کہ جدید سہولیات سے آراستہ ایک کرسچن ادارہ ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پی سموئل صدر اسلامی مرکز کی کتابیں پڑھتے ہیں، اور سی پی ایس مشن کو پسند کرتے ہیں۔ اس موقع پر سی پی ایس کی 8 ٹیم، حیدرآباد، چنئی، بنگلور، رائچور، ادونی، ناگپور، ناندیڑ، ممبئی کے 36 افراد نے حصہ لیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کہ صدر اسلامی مرکز کے بغیر بڑے پیمانے پر اور اعلی درجے کی ڈسپلن ،سنجیدگی اورعزم کے ساتھ کوئی دعوۃمیٹ آرگنائز کی گئی ۔ اس موقع پر مختلف لوگوں نے اپنے تاثرات اور تجربات پیش کیے۔ ان میں سے ایک مولانا سید اقبال احمد عمری صاحب کا خطاب تھا۔ اس کا موضوع تھا ’کنویئنگ ناٹ کنورزن‘ (conveying, not conversion)۔ یہ خطاب کافی پر اثر رہا، جس سے لوگوں کو دعوت کے تعلق سے مزید سوچنے، سمجھنے کا موقع ملا۔
■ بھارتیہ ودیا بھون (چنئی) کے صد سالہ جشن کا انعقاد 22 مارچ 2017 عمل میں آیا۔ اس موقع پرآرگنائزر کی درخواست پر سی پی ایس چنئی کی جانب سے ترجمۂ قرآن کے نسخے اور پیس لٹریچراعلی تعلیم یافتہ افراد کو بطور گفٹ دیے گئے۔
■ نیشنل میڈیکل کالج میں سہارن پور کے ایم ایل اے سنجے گرگ کی صدارت میں جناب شفقت کمال ( ڈی ایم، سہارن پور)کے ذریعہ پیس آڈیٹوریم کی بنیاد 9 اکتوبر 2016 کو رکھی گئی تھی۔ اس کا افتتاح 26 مارچ 2017 کو ناندیڑ (مہاراشٹر) کے جناب کشن جیونت راؤ پاٹل اور چندی گڑھ کے مشہور صنعت کارجناب سنجے اگروال کے ذریعہ ہوا۔ پروگرام کی صدارت ڈاکٹر اسلم خان نے کی۔ پاٹل صاحب نے کہا کہ ہمیں قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا چاہئے تاکہ غلط فہمیاں ختم ہوں اور زندگی میں اس کی تعلیمات کو اپنا کر ہم اپنی ہمیشہ کی زندگی کو کامیاب بنا سکیں۔ محترم جیونت راؤ پاٹل صاحب مہاراشٹر و تلنگانہ کے ایک وفد کے ساتھ دعوہ میٹ کے لیے سہارن پور تشریف لائے تھے۔ سنجے اگروال صاحب نے کہا کہ زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے ہمیں اپنی سوچ کو مثبت بنانا پڑے گا تبھی ہم کامیابی کے راستے پر آگے بڑھ سکیں گے۔اس موقع پر کافی لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں این ایم سی کے ڈاکٹر جے احمد، ڈاکٹر صمد، پروفیسر طاہر، محترمہ الکا چودھری، ڈاکٹر جیوتی، اور کماری چھایا وغیرہ نے حصہ ادا کیا۔
■ مارچ میں عمان میں مسقط انٹرنیشنل بک فیئر2017 منعقد ہوا تھا۔ اس میں سی پی ایس کے چیرمین اور گڈورڈ بکس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ثانی اثنین خان صاحب نے شرکت کی ، اور مختلف لوگوں کے درمیان ترجمۂ قرآن و دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ دوران سفر جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں زہیر صاحب ہیں۔ یہ الرسالہ کے کافی پرانے قاری ہیں اور صدر اسلامی مرکز کی فکر سے متفق ہیں۔ زہیر صاحب کا وطن بھوپال ہے اور وہ مسقط میں رہتے ہیں۔ ان کی فیملی کے سارے افراد دعوہ ورک میں کافی سرگرم ہیں۔ ان کی اہلیہ مز شبینہ عمان کی ایک یونیورسٹی میں انگلش کی پروفیسر ہیں اور مسجد سلطان قابوس کی دعوتی ٹیم کی ایکٹیو ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ثانی اثنین خان نے عمان کی مشہور مسجد سلطان قابوس مسجد کا دورہ کیا۔ اس مسجد میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ جن میں بہت سارے لوگ اسلام کو سمجھنا چاہتے ہیں ، کچھ لوگ قرآن پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اس مسجد میں باقاعدہ طور پر دعوہ سینٹرہے۔ جس کا نام مرکز التعریف بالاسلام ہے۔ اس کے ذریعے یہاں آنے والوں کے درمیان دعوت کا کام کیا جاتا ہے۔ یہاں کے منتظمین سی پی ایس کی فکر کو پسند کرتے ہیں، اورگڈورڈبکس کے زیر اہتمام چھپے ہوئے ترجمۂ قرآن کو یہ لوگ زائرین کے درمیان تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے سربراہ مسٹر حفیظ الرواحی (Hafidh al Rawahi) ہیں، ان کو جب صدر اسلامی مرکز کی نئی انگریزی کتاب لیڈنگ اے اسپریچول لائف پڑھنے کے لیے دی گئی تو انھوں نے اپنا تاثر ان الفاظ میں دیا:
I started reading Maulana’s latest book, Leading A Spiritual Life. It's a masterpiece. The fact that it's not dogmatic can be quite useful even for non-Muslims to give them a feel of benevolence of Islam. I think you should promote it more aggressively at the international level. Also an audio version will be great. Also developing slides with graphics, as a teaching tool, to present the ideas in a more concise manner to an audience will be very effective.

■مکرمی مولانا صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ، آپ سے فون پر بات ہوئی اور میں نے ارادہ ظاہر کیا کہ میں اس سال اعتکاف کرنا چاہتا ہوں لہذا آپ اس عبادت کی حقیقت کے متعلق رہنمائی فرمائیں۔ آپ نے نصیحت کی کہ اعتکاف کا واحد مقصد ہے قرآن کا مطالعہ۔ تمام distractions سے الگ ہو کر اپنے آپ کو قرآن کے مطالعہ میں غرق کر دیں۔قرآن کے آئینہ میں اپنی زندگی کا مشاہدہ کریں اور خوب دعائیں کریں۔ تو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ان 9 دنوں میں قرآن کابھرپور مطالعہ کیا۔ اس میں بہت ساری نئی باتیں دریافت ہوئیں جنہیں میں نہیں جانتا تھا۔ اس دوران سورۃ الحجرات پڑھتے وقت مجھے احساس ہوا کہ رب تعالی مجھ پر رحم فرمائے ، میری زندگی بالکل اس کے خلاف چل رہی ہے۔ اس پورے اعتکاف کا میراسبق ( takeaway) یہ رہا کہ اب مجھے قرآن کی تلاوت کے ساتھ قرآن فہمی پر بہت محنت کی ضرورت ہے۔(ساجد احمد خان ، سی پی ایس ناگپور)
■ Dear Maulana Wahiduddin Khan, I have always benefitted from your literature, which is replete with spiritual inspiration, rational arguments and balanced analysis. It provides confidence to the reader and tells him how to overcome frustrations. It especially lays emphasis on engaging in self-introspection, which has been totally abandoned by the Muslim ummah. On 22nd Ramadan this year, I delivered a lecture in Brescia in Italy. My topic was ‘Ramadan and Dawah’. I spoke of all your major points on dawah, its real importance as the mission of the Prophet and about the neglegence of the ummah in this regard. I also mentioned the instances of serious historical negligence on the part of Muslims with respect to dawah. The lecture really made the audience take a relook at their whole present religious structure and helped them understand how to base it on the spirit of dawah. (Dr. M. Khalid, Birmingham)
Due to my fascination with Maulana’s writings, I have been distributing Maulana’s Urdu Al-Risala, English Spiritual Message and Spirit of Islam since the year 2000. I have now expanded my area of distribution from selected persons to general people – one and all. As part of dawah work, I have also started door-to-door distribution of Pavitra Quran right from my local area to schools, colleges and hospitals of my town. By the grace of God, people’s response has been enthusiastic.
Here, I should not forget to acknowledge and admire the contribution of Sister Fathima Sarah. She sent me a bulk stock of Spirit of Islam during October 2016 for distribution in Indore. May God accept this effort. (Shakeel Ahmed, Indore)
■ دعوتی دورہ:ممبئی ٹیم تسلسل کے ساتھ دعوتی سفر کرتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا آنے والا دعوتی سفر درج ذیل کا ہوگا:
1۔ سہارنپور، یوپی، 20-21اکتوبر 2017 (رابطہ نمبر، ڈاکٹر محمد اسلم خان، 9997153735)
2۔ اورنگ آباد و جالنہ، مہارشٹر 10-11 فروری 2017(رابطہ نمبر مسٹر محبوب ہنتگی 9619163993، ڈاکٹر محمد جنید 9967480701)۔
■ ترجمۂ قرآن حاصل کریں:سی پی ایس انٹرنیشنل کا ایک اہم مقصد قرآن کے پیغام کی اشاعت اور اس کو گھر گھر پہنچانا ہے۔ اس سلسلہ میں سی پی ایس انٹرنیشنل اور گڈ ورڈ بکس سےترجمۂ قرآن (free of cost) دیا جاتا ہے۔ خواہش مند حضرات درج ذیل کے لنک پر جاکر فارم پر کرسکتے ہیں۔ ان کو بذریعہ پوسٹ قرآن بھیج دیا جائے گا:
ww.goodwordbooks.com/webform/order-free-quran
www.cpsglobal.org/content/order-free-quran
■ صدر اسلامی مرکز کے انگریزی مضامین اور سوال و جواب کے لیے درج ذیل ویب کو دیکھا جاسکتا ہے:
www.cpsglobal.org
www.alquranmission.org
www.spiritofislam.co.in/spiritnew
www.facebook.com/cpsinternational
www.facebook.com/maulanawkhan
www.quora.com/profile/Maulana-Wahiduddin-Khan-1
واپس اوپر جائیں

Tuesday 1 August 2017

Al Risala | August 2017 (الرسالہ، اگست)

4

-معرفت قرآن

6

- قرآن کی سائنسی تفسیر

7

- دورِمعرفت

8

- ایمان بالغیب

9

- کائناتی عبادت

12

- سب سے بڑا المیہ

13

- نیچر ورشپ

14

- کائنات پر کنٹرول

15

- انسان کی بے اختیاری

17

- گاڈ پارٹکل

23

- خدا کی عظمت

25

- دوانتظامات

26

- گرہن ، خدائی معجزہ

31

- کی دریافت

33

- نیک وبد کی تمیز

35

- دورِ شرک، دورِ الحاد

41

- دورِ مواصلات

42

- پوشیدہ جنت

43

- زوج یا ہیبیٹاٹ

44

- کائنات کی معنویت

45

- زمین کی حفاظت

46

- کائنات کی وسعت

48

- تسخیرِکائنات


معرفت قرآن

قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں، جن میں فطرت کے مظاہر کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مثلا پہاڑ کا حوالہ، بارش کا حوالہ ، وغیرہ۔ ان حوالوں کو علمی زبان میں مظاہر فطرت (phenomena of nature) کہا جاتا ہے۔مگر یہ حوالے اشارے کی زبان میں ہیں۔ ان کی تفصیلی واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کو انسان کی دریافت کردہ معلومات کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اس حیثیت سے انسانی تحقیق کے ذریعہ ان فطری مظاہر پر جو دریافتیں ہوئی ہیں، وہ دریافتیں قرآن کی تفسیر کے لیے عملی ضرورت کے اعتبار سےاسی طرح اہم ہیں، جس طرح تفسیر قرآن کے دوسرے متفقہ مصادر ۔ مثلا شان نزول کی روایتیں، وغیرہ۔
اس سلسلے میں یہاں قرآن کی دو آیتیں قابل مطالعہ ہیں۔وہ آیتیں یہ ہیں: وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ فَمَنِ اہْتَدَى فَإِنَّمَا یَہْتَدِی لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِینَ ۔ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ سَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ فَتَعْرِفُونَہَا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (27:92-93)۔ یعنی اور یہ کہ میں قرآن کو سناؤں۔ پھر جو شخص راہ پر آئے گا تو وہ اپنے لئے راہ پر آئے گا اور جو گمراہ ہوا تو کہہ دو کہ میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ہوں۔ اور کہو کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے، وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے، اور تمہارا رب اس سےبے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔
قرآن کے اس بیان پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں قرآن کی معرفت کا ایک اصول بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں، جن میں فطرت کے مظاہر کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ذکر اشاراتی زبان میں ہے۔ ان مظاہر فطرت میں جو معرفت کی بات موجود ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان اشارات کی تفصیل معلوم کی جائے۔ یہ تفصیل خود قرآن میں مذکور نہیں، وہ فطرت کے خارجی علم کا سائنسی مطالعہ کرنےسے معلوم ہوتی ہے۔ گویا کہ فطرت کا علم ان آیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کی سائنسی تفسیرکی حیثیت رکھتا ہے۔
سیریکم آیاتہ فتعرفونھا میں ضمیر ھا کا مرجع آیا ت ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ تائیدی معلومات (supporting data) ہیں، جو مستقبل میں سائنسی مطالعے کے ذریعہ دریافت ہوں گی، اور قرآن کی آیت میں جو چیز اشارے کی زبان میں کہی گئی ہے، اس کو انسان تفصیل کی زبان میں جان لے گا۔ قرآن کی اس آیت میں سیریکم آیاتہ سے مراد قرآنی بیان کا وہ سپورٹنگ ڈیٹا (supporting data) ہے، جو بعد کو دریافت ہوگا، اور فتعرفونہا کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ نشانیوں سے معرفت کے درجے میں واقف ہوجانا۔
مثلاً اس سلسلۂ بیان میں اوپر کی آیت میں پہاڑ کے بارے میں یہ کہا گیاہے : اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتے ہو کہ وہ جمے ہوئے ہیں، مگر وہ چل رہے ہیں جیسے بادل چلتے ہیں۔ یہ اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو محکم کیا ہے۔ بیشک وہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو (27:88)۔ یہ آیت قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں پہاڑوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بظاہر وہ پہاڑ زمین پر ساکن نظر آتے ہیں، مگر حقیقت کے اعتبار سےوہ زمین کے ساتھ چل رہے ہیں، جس طرح تم بادلوں کو چلتے ہوئےدیکھتے ہو۔ یہ ایک فطرت (nature) کا واقعہ ہے۔ لیکن ساتویں صدی میں انسان اس کو نہیں جانتا تھا۔ بعد کو فلکیاتی مطالعے سے معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو زمین کی اپنے محور (axis)پر گردش کرنے سے پیش آتا ہے۔ گویا موجودہ زمانے کی یہ فلکیاتی دریافت قرآن کی آیت کو معرفت کے درجے میں قابل فہم بنا دیتی ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ایک سائنسداں نے کہا:میری زندگی کا حاصل بحیثیت سائنٹسٹ اور جغرافیہ داں یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خالق کا شکر گزار ہوگیا ہوں۔سائنس داں جب قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر قدرت کی عظمت کا بے پناہ احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اندرونی وجود اس ہستی کے آگے جھک جاتا ہے جس نے اتنی بامعنی کائنات بنائی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خدا کے انکار کا ذہن سائنس دانوں نے نہیں بنایا۔ یہ در اصل کچھ ملحد فلاسفہ تھے، جنھوں نے سائنسی دریافتوں کو غلط رخ دے کر اس سے خود ساختہ طور پر انکارِ خدا کا مطلب پیدا کیا۔ حالاں کہ یہ سائنسی دریافتیں زیادہ درست طور پر اقرارِ خدا کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔ (ڈائری،1985 )
واپس اوپر جائیں

قرآن کی سائنسی تفسیر

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں تمام سائنسی مضامین موجود ہیں اور اِن حوالوں کو لے کر قرآن کی سائنسی تفسیرکی جاسکتی ہے۔ اِس معاملے میں کچھ لوگ اِس حد تک گئے ہیں جس کو صرف غیرعلمی نقطۂ نظر کہاجاسکتا ہے۔ مثلاًاُن کا یہ کہنا کہ أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ (94:1)میں علم تشریح الابدان (anatomy)کا حوالہ ہے۔اور فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَاءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیدٌ (50:22)میں علم امراضِ چشم کا بیان ہے، وغیرہ۔
قرآن میں سائنسی مضامین کا یہ نظریہ بلاشبہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن ان معنوں میں ہرگز کوئی سائنسی کتاب نہیں۔ لیکن ایک اور اعتبار سے یہ بات بالکل درست ہے، وہ یہ کہ جدید سائنسی تحقیقات فہمِ قرآن میں مدد گار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے:وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ (21:30)۔ یعنی اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ یہ بات پچھلے دور کا قاریٔ قرآن بھی ابتدائی طور پر جانتا تھا، مگر موجودہ زمانے کا قاریٔ قرآن جب اِس آیت کو سائنس کی نئی دریافتوں کے ساتھ ملا کرپڑھتا ہے تو وہ اس کی مزید تفصیل جان لیتا ہے۔اِس بنا پر قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
اِسی طرح سورہ یٰس میں یہ آیت ہے: وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ(36:40)۔ یعنی اور سب ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں۔ اِس آیت میں اجرامِ سماوی کی گردش کے بارے میں جوبات کہی گئی ہے، اُسے قدیم زمانے کا قاریٔ قرآن بھی سمجھ سکتا تھا، لیکن آج کا ایک قاریٔ قرآن جب جدید سائنسی دریافتوں کو لے کر اِس آیت کو پڑھتا ہے تو وہ مزید اضافے کے ساتھ اِس آیت کو سمجھنے لگتاہے۔ اِس طرح قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
قرآن کی سائنسی تفسیر کا ایک تصور غلو پر مبنی ہے تو قرآن کی سائنسی تفسیر کا دوسرا تصور حقیقت پر مبنی ہے۔ پہلا تصور یقینی طورپر غلط ہے، اور دوسرا تصور یقینی طورپر درست۔
واپس اوپر جائیں

دورِمعرفت

حضرت ابوذرغفاری کہتے ہیں کہ کوئی چڑیابھی اگر فضا میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے(وما یقلب طائر جناحیہ فی السماء إلا ذکر لنا منہ علما ) الطبقات الکبرى لابن سعد 2/354۔
بلاشبہ چڑیا کا فضا میں اڑنا قدرت الہی کی ایک عظیم نشانی ہے۔ قدیم زمانہ میں قدرت الہی کی اس نشانی (sign) کو صرف پراسرار عقیدہ کے تحت سمجھا جاسکتا تھا، مگر آج اس کو ایک سائنسی حقیقت کے طورپرسمجھا جاسکتا ہے۔ اب سائنسی دور میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج جب ایک ہوائی جہازفضا میں اڑکر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے تو اس کے لئے ہوائی جہاز سے باہر ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔ ٹیک آف (take off) کے مقام پر بھی، اور لینڈنگ (landing)کے مقام پر بھی۔
اِس انفراسٹرکچر کے بغیر کوئی جہاز ایک مقام سے دوسرے مقام پر نہیں پہنچ سکتا۔ مگر چڑیا کو فضا میں اڑنے کے لئے کسی خارجی انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے آپ ایک جگہ سے اڑتی ہے اور فضا میں تیرتی ہوئی دوسری جگہ اتر جاتی ہے۔ یہ بلاشبہ رب العالمین کی ایک عظیم نشانی ہے۔
موجودہ زمانہ میں سائنسی ترقیوں نے ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔ اس نے چیزو ں کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک نیا فریم ورک دیا ہے۔ اِس سائنسی فریم ورک کی بنا پر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جو چیز پہلے صرف پراسرار طورپر مانی جاتی تھی، اس کو اب مسلّمہ عقلی بنیاد(rationally accepted base) پر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس زمانی تبدیلی نے معرفت اور یقین کے لئے ایک نیا لامتناہی میدان کھول دیا ہے۔
اس جدید سائنسی دور کی پیشین گوئی قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں ان الفاظ میں کی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (فصلت53:) یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفا ق میں بھی اور ان کے اپنے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایمان بالغیب

قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (2:3)۔ یعنی ہدایت یاب لوگ وہ ہیں جو غیب پرایمان رکھتے ہیں۔ غیب پر ایمان کا معاملہ سادہ طورپر صرف عقیدے کا معاملہ نہیں ہے، وہ براہِ راست طورپر ہدایت کے معاملے سے جڑا ہوا ہے۔ جس آدمی کے اندر ایمان بالغیب کی صفت ہو، اُسی کو ہدایت ملے گی۔ جو آدمی ایمان بالغیب کی صفت سے محروم ہو، اس کو کبھی ہدایت ملنے والی نہیں۔ جب تمام حقیقتیں غیب میں ہو ں تو اعلی حقیقت کی دریافت کا معاملہ اس سلسلے میں استثنا (exception) نہیں ہوسکتا۔
غیب کا لفظ عربی زبان میں صرف غیر مشہود (unseen)کے معنی میں نہیں ہے۔ غیب کا لفظ ایسی چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو اگرچہ غیر مشہود ہو، مگر وہ غیر موجود نہ ہو، یعنی جب ایک چیز موجود ہوتے ہوئے دکھائی نہ دے تو اس کے لیے غیب کا لفظ بولا جائے گا۔ اللہ کا معاملہ یہی ہے۔ اللہ اگر چہ بظاہر غیب میں ہے، مگر بہ اعتبار حقیقت ، وہ تمام موجود چیزوں سے زیادہ موجود ہے۔ اِس آیت میں ایمان بالغیب سے اصلاً ایمان باللہ مراد ہے، مگر تبعاً اِس میں وہ تمام متعلقاتِ ایمان شامل ہیں جن پر ایک مومن کے لیے ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلاً وحی، ملائکہ، جنت اور جہنم، وغیرہ۔
اصل یہ ہے کہ ہم چیزوں کو دو طریقوں سے جانتے ہیں — ایک، مشاہدہ (observation)، اور دوسرا استنباط (inference)۔ سائنسی اعتبار سے، یہ دونوں طریقے یکساں طورپر معتبر ہیں۔ اعتباریت (validity) کے لحاظ سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
موجودہ زمانے میں سائنس کو علمی مطالعے کا ایک معتبر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنس کے دو حصے ہیں — ایک ہے، نظری سائنس (theoretical science) ، اور دوسرا ہے، فنی سائنس (technical science)۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، فنی سائنس کا دائرہ بہت محدود ہے۔ فنی سائنس کے ذریعے چیزوں کے صرف ظواہر (appearance)کو دیکھا جاسکتا ہے، لیکن تمام چیزیں جو بظاہر دکھائی دیتی ہیں، وہ اپنے آخری تجزیے میں غیر مرئی (unseen) ہوجاتی ہیں۔ مثلاً آپ پھول کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن پھول کی خوشبو کو آپ نہیں دیکھ سکتے۔ پھول کی خوشبو کو کسی بھی خورد بین (microscope) یا دور بین (telescope) کے ذریعے دیکھنا ممکن نہیں۔ حالاں کہ جس طرح پھول کا وجود ہے، اِسی طرح پھول کی خوشبو کا بھی وجود ہے۔
سائنسی مطالعے کے مطابق، تمام چیزیں آخر کار ایٹم کا مجموعہ ہیں، اور ایٹم اپنے آخری تجزیے میں الیکٹران (electron) کا مجموعہ ہے۔ ایک سائنس داں نےاِس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پوری کائنات ناقابلِ مشاہدہ الیکٹران کا مجنونانہ رقص (mad dance of electrons) ہے۔ ایک اور سائنس داں نے کائنات کی ا ِسی غیر مرئی حیثیت کی بنا پر کائنات کو امکان کی لہروں (waves of probability) سے تعبیر کیا ہے۔
اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگاکہ صرف بظاہر غیر مشہود خالق (Creator) ہی غیب میں نہیں ہے، بلکہ بظاہر مشہود تخلیق (creature) بھی حالتِ غیب میں ہے۔ برٹش سائنس داں سرآرتھر ایڈنگٹن (وفات 1944:) نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، اس کتاب کا نام یہ ہے:
Science and the Unseen World by A. S. Eddington, Macmillan, 1929, pages 91
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہم جن چیزوں کو دیکھتے ہیں، ہم اُن کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں، چیزوں کی اصل حقیقت ہمارے لیے پھر بھی غیر مشہود رہتی ہے۔ یہی معاملہ خدا کا ہے۔ خدا اپنی ذات کے اعتبار سے، بظاہر غیر مشہود ہے، لیکن اپنی تخلیق کے اعتبار سے، خدا ہمارے لیے مشہود بن جاتا ہے۔ تخلیق کا موجود ہونااپنے آپ میں خالق کے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔ کائنات اتنی زیادہ بامعنی (meaningful) ہے کہ خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ سرے سے ممکن ہی نہیں۔
اللہ رب العالمین کا حالتِ غیب میں ہونا ایک اعتبار سے امتحان (test) کی مصلحت کی بنا پر ہے۔ اللہ اگر عیاناً دکھائی دے تو امتحان کی مصلحت ختم ہوجائے گی۔ اللہ غیب میں ہے، اِسی لیے اُس پر ایمان ہمارے لیے ایک امتحانی پرچہ (test paper) ہے۔ اللہ اگر شہود میںہوتا تو اس پر ایمان لانا انسان کے لیے اس کے امتحان کا پرچہ نہ بنتا۔ اللہ کا اور اس سے متعلق ایمانیات کا غیب میں ہونا انسان کے لیے ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے انسان کے ذہن میں غور وفکر کا عمل (process of thinking)جاری ہوتا ہے۔ اِسی کی بنا پر ایسا ہے کہ ہمارے لیے تدبر کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا میدان موجود ہے۔ اِسی بنا پر ایسا ممکن ہوتا ہے کہ ہم اللہ کو دریافت (discovery) کے درجے میں پائیں۔ اِسی بنا پر یہ ممکن ہے کہ خدا کی معرفت ہمارے لیے ایک خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) ہو، اور بلاشبہ یہ ایک واقعہ ہے کہ خود دریافت کردہ حقیقت سے زیادہ بڑی کوئی اور چیز اِس دنیا میں نہیں۔ اللہ کا اور اُس سے متعلق ایمانیات کا انسان کے لیے غیب میں ہونا، انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ایک لامتناہی ذریعہ (endless source) کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہدایت کے لیے ایمان بالغیب کی شرط کوئی تحکُّمی (arbitrary) شرط نہیں ہے، بلکہ وہ انسان جیسی مخلوق کے لیے ایک نہایت معقول شرط ہے۔ کسی بھی بڑی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ بیدار شعور (awakened mind) درکار ہوتا ہے۔ جس انسان کا شعور بیدار ہو، وہی اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑی حقیقت کو سمجھ سکے۔ خدا بلا شبہ سب سے بڑی حقیقت ہے، اِس لیے خدا پر ایمان یا خدا کی معرفت حقیقی طورپر صرف اُس انسان کو حاصل ہوگی جو مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعے اپنے شعور کو بیدار کرچکا ہو۔ جس انسان کا شعور بیدار نہ ہو، وہ گویا ذہنی اندھے پن (intellectual blindness)میں مبتلا ہے، اور بلا شبہ ذہنی اندھے پن کے ساتھ خداوند عالم کی معرفت کسی انسان کو نہیں مل سکتی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
دنیا میں کامیابی فطرت کے مطابق عمل کا دوسرانام ہے ۔ اس کے مقابلہ میں ناکامی یہ ہے کہ آدمی فطرت کے نظام سے مطابقت نہ کر سکے ۔
واپس اوپر جائیں

کائناتی عبادت

قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (45:13)۔ یعنی اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے ۔ بےشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں ۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ اس کائناتی تسخیر کا مقصد کیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے ، کائنات کی وسعت لامحدود حد تک زیادہ ہے۔ اتنی بڑی کائنات انسان کی رہائش گاہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ انسان اتنی بڑی کائنات کو اپنا رزق بنا ئے۔ پھر اس طرح کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
قرآن کی دوسری آیتوں، مثلاً سورہ آل عمران کی آخری رکوع کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ انسان اس پر غور کرے۔ یہ غور کرنا ، لُبّ (عقل ) کے ذریعے ہوتا ہے ، نہ کہ کسی جسمانی عمل کے ذریعے۔ قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نشانیاں (signs) اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی کوئی گنتی نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ لامحدود کائناتی نشانیاں ہیں جن پر عقل سے تدبر کرکے انسان اپنے رب کی کائناتی عبادت کرتا ہے۔
یہ صرف انسان ہے جو یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ کائناتی نشانیوں میں تدبر (contemplation) کرے۔ یہ تدبر پہلے روایتی فریم ورک میں کیا جاسکتا تھا۔ اب تدبر کا یہ عمل سائنسی فریم ورک میں کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح انسان اللہ کی بے پایاں عظمت کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اللہ سے حبّ شدید اور خوفِ شدید کا تعلق قائم کرتا ہے۔ وہ آخرت کی ابدی جنت کو اپنے تصور میں لاتا ہے۔یہی تدبر ہے، اور اسی تدبر کو کائناتی عبادت کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑا المیہ

انسانی تاریخ کا شاید سب سے بڑا المیہ (tragedy) یہ ہے کہ انسان معرفت اعلیٰ کے حصول سے محروم رہا۔ خدا کی معرفت کا ذریعہ، خدا کی تخلیقات میں غور و فکر کرناہے۔ جدید سائنسی دور سے پہلے انسان تخلیقاتِ الٰہی کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ چناں چہ قدیم زمانے میں معرفت اعلیٰ تک پہنچنے کے لئے فریم ورک ہی موجود نہ تھا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد انسان کو اعلیٰ فریم ورک حاصل ہوا۔ جس کی پیشگی خبر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ لیکن موجودہ زمانے میں جب یہ آفاقی یا سائنسی فریم ورک ظہور میں آیا تو عین اُسی وقت تمام دنیا کے مسلمان سیاسی رد عمل کے نتیجے میں منفی سوچ کا شکار ہوگئے۔ اس طرح وہ مثبت سوچ سے محروم رہے۔
قدیم زمانے کے انسان کے لیےسائنسی فریم ورک نہ ہو نے کی بنا پر معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنا مشکل تھا۔ موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کے ظہور کے باوجود انسان معرفتِ اعلیٰ تک نہیں پہنچا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا انسان مثبت سوچ سے محروم ہو گیا۔ یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اللہ کی معرفت اعلی کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ معرفت اعلی تک پہنچ سکے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے مکمل طور پر بچائے۔ وہ ہر حال میں مثبت سوچ میں جینے والا بنے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں وہ یقینا معرفت اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ بیشتر انسان کسی نہ کسی بات کو لے کر منفی سوچ کا شکار ہوگیے۔ وہ مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم نہ رہ سکے۔ اس بنا پر وہ معرفت کا وعایہ (container) نہیں بنے۔ معرفت اعلی سے محرومی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

نیچر ورشپ

توحید کیا ہے۔ اس کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ (41:37)۔یعنی اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔
قدیم زمانے میں نیچر ورشپ (nature worship) کا رواج چھایا ہوا تھا۔نیچر ورشپ کے کلچر میں قدیم انسان اتنا زیادہ مسحور ہوگیا تھا کہ وہ پیغمبروں کی لمبی کوشش کے باوجود اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔ اس منفی تجربے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق، پیغمبر ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ خصوصی تربیت کے ذریعہ ایک نئی قوم بنا ئی جائے۔ جو اپنی فطرت پر قائم ہو۔
وہ منصوبہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم عراق کو چھوڑ کر اس صحرائی مقام پر جائیں، جہاں اب مکہ آباد ہے، اور یہاں اپنےبیٹے اسماعیل اور اپنی بیوی ہاجرہ کو آباد کریں۔ یہ مقام اس زمانے میں نیچر ورشپ کے ماحول سے بہت دور تھا۔
اس حقیقت کا ذکر پیغمبر ابراہیم کی دعا میں ان الفاظ میں ملتا ہے: رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِی وَبَنِیَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ ۔ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیرًا مِنَ النَّاسِ (14:35-36)۔ یعنی اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا۔ اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ یہ نیچر ورشپ اس وقت پوری طرح ختم ہوگئی، جب کہ سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ نیچر عامل نہیں ہے، بلکہ وہ معمول ہے۔یعنی نیچر (فطرت) کسی بڑی طاقت کے کنٹرول میں ہے، اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔ اس تحقیق نے نیچر کو معبودیت کے مقام سے ابدی طور پر ہٹادیا۔
واپس اوپر جائیں

کائنات پر کنٹرول

قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ(1:2)۔یعنی ساری حمد اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ یہ دراصل وہ کلمہ ہے جو آدمی کی زبان سے اُس وقت بے اختیارانہ طورپر نکل پڑتا ہے، جب کہ وہ کائنات کا مشاہدہ کرے۔ دور بینی مشاہدہ بتاتا ہے کہ کائنات ناقابلِ قیاس حد تک وسیع اور عظیم ہے۔ دوسری طرف، خورد بینی مطالعہ بتاتاہے کہ ناقابلِ مشاہدہ کائنات بھی اتنا ہی زیادہ عظیم ہے جتنا کہ قابلِ مشاہدہ کائنات۔ ساری ترقیوں کے باوجود ابھی تک انسان نہ کائنات کی وسعتوں کا اندازہ کرسکا ہے اور نہ وہ کائنات کی عظمتوں کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔
یہ وسیع اور عظیم کائنات مسلسل طورپر متحرک ہے۔ اس کے اندر ہر لمحہ انتہائی با معنی قسم کی سرگرمیاں (meaningful activities)جاری ہیں۔ مطالعہ مزید بتاتاہے کہ یہ اتھاہ کائنات مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات (faultless universe) ہے۔ بے نقص حالت میں کائنات کا اِس طرح قائم رہنا صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اِس نظام میں کوئی ادنیٰ تغیّر (alteration) نہ آئے۔ کائنات کے اندر ایک ادنیٰ تغیر بھی اس کے پورے نظام کو درہم برہم کرسکتا ہے۔
جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات ناقابل قیاس حد تک وسیع ہونے کے باوجود آخری حد تک ایک ہم آہنگ (harmonious)کائنات ہے۔ وہ مکمل طورپر ایک واحد فورس سے کنٹرول ہورہی ہے۔ اس کے تمام اجزاء ایک دوسرے سے کامل طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
کائنات کی اِس عالمی ہم آہنگی پر تمام سائنس داں حیرت زدہ ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس غیر معمولی ہم آہنگی کی توجیہہ کس طرح کی جائے۔ کائنات کے اندر یہ بے پناہ نظم اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کائنات ایک قادرِ مطلق خدا کے زیرانتظام ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پوری کائنات ایک لمحے کے اندر منتشر ہو کر رہ جائے۔ کائنات کے اندر یہ کامل ہم آہنگی صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اُس کا ناظم اپنے اندر قدرتِ کاملہ کی صفت رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی بے اختیاری

برٹش سائنس داں سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پر اسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں انسان اور کائنات کے تعلق کے بارےمیں لکھا ہے— ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیںگئی تھی:
It appears that man has strayed in a world which was not made for him.
مگر زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جس کو اس نے خود نہیں بنایا، اور نہ وہ اس دنیا کو کنٹرول کرنے والا ہے۔
It appears that man has strayed in a world which was not made by him, and nor is he its controller.
اس دنیا میں انسان کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ انسان اپنے آپ کو اس دنیا میں ایک زندہ وجود کی حیثیت سے پاتا ہے۔ لیکن یہ وجود ایک عطیہ ہے، اس نے خود اپنے آپ کو وجود نہیں بخشا۔ انسان کو صحت مند جسم چاہئے۔ صحت مند جسم ہوتو وہ بھرپور زندگی گزارتا ہے، لیکن صحت مند جسم اس کے اپنے بس میں نہیں۔ انسان کو وہ تمام چیزیں چاہئیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ہوتو انسان کامیاب زندگی گزارےگا، لیکن اس سسٹم کو قائم کرنا اس کے اپنے بس میں نہیں۔
انسان کو موافق موسم درکار ہے۔ موافق موسم ہوتو انسان امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزارے گا، لیکن موافق موسم کو قائم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنی خواہش کے مطابق ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن ہر انسان جو پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، وہ ایک مقرر وقت پر مر جاتا ہے۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنے آپ پر موت کو وارد ہونے سے روک دے۔ انسان مکمل طور پر ایک ضرورت مند ہستی ہے، لیکن اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وہ مکمل طور پر ایک خارجی طاقت کا محتاج ہے۔
انسانی زندگی کا یہ پہلو بے حد قابلِ غور ہے۔ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے کامل معنوں میں ایک صاحبِ اختیار مخلوق ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت کو خود پورا کرنے پر قادر نہیں۔ انسان کی زندگی کے یہ دو متضاد پہلو (two contradictory aspects) انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے اس معاملے کی حقیقت کو دریافت کرے، اور اس دریافت کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کا نقشہ بنائے۔
انسان کا تجربہ اس کو بتاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ صرف ایک پانے والا (taker) ہے، اور دوسری طرف کوئی ہے جو صرف دینے والا (giver) ہے۔ یہ نسبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کے بارے میں سوچے، وہ اپنی زندگی کو حقیقت واقعہ کے مطابق بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اس مقام پر رکھے جہاں وہ حقیقتاً ہے، اور دوسری ہستی کے لیے اس مقام کا اعتراف کرے جس کا وہ حق دار ہے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہ انسان اگر سنجیدگی کے ساتھ اپنے ہر معاملے پر غور کرے گا تو وہ پائے گا کہ وہ خود اس دنیا میں عبد کے مقام پر ہے، اور دوسری ہستی معبود کے مقام پر۔ یہی دریافت انسان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔ جو انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہی انسان، انسان ہے۔ اس کے لیے تمام ابدی کامیابیاں مقدر ہیں۔ اس کے برعکس، جو شخص اس حقیقت کی دریافت میں ناکام رہے، وہ انسان کی صورت میں ایک حیوان ہے۔ اس کے لیے اس دنیا میں ابدی خسران (eternal loss) کے سوا اور کچھ نہیں۔
جو شخص اس حقیقت کو دریافت کرلے، فطری طور پر اس کا رسپانس (response) وہی ہوگا، جس کا ذکر قرآن کے ابتدا میں ان الفاظ میںا ٓیاہے: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:2)۔ یعنی اس بر تر ہستی کا شکر جو سارے عالم کا رب ہے، جو انسان کی تمام کمیوں کی تلافی کرنے والا ہے۔ یہ اعتراف انسان کے اندر وہ انقلاب پیدا کرے گاجب کہ اس کے اندر اپنے رب کے لیے حبّ شدید اور خشیت شدید پیدا ہوجائے۔ یہی وہ فرد ہے جس کو قرآن میںمومن کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

گاڈ پارٹکل

گاڈ پارٹکل (God Particle) کیا ہے۔ گاڈ پارٹکل کا مطلب خدائی ذرہ نہیں، گاڈ پارٹکل دراصل ایک سائنسی مسئلے کی سائنسی تشریح (scientific description) ہے۔ گاڈ پارٹکل کا تصور دراصل خدا کا مشینی بدل (mechanical substitute of God) ہے۔ گاڈ پارٹکل کی دریافت کا براہِ راست طورپر مذہبی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں۔
God Particle: The Standard Model of physics is used by scientists to explain the building blocks of the universe. According to this model the universe began with a big bang. The Big Bang theory is widely accepted within the scientific community. This theory states that 13.7 billion years ago the universe was in the shape of a very dense and compact cosmic ball. Then an explosion occurred in this compact ball, and all its constituents started flying apart with the speed of light. All the particles released from this cosmic ball were drifting apart from each other at the speed of light, which is the maximum speed of any object in the universe. Everything in the universe is made up of atoms. These atoms are in turn made up of electrons and protons. But, after the explosion of the Big Bang, electrons and protons were speeding away from each other. These particles could bind together to form atoms only if their speed was decreased. And their speed could be decreased only by being given mass. This is why the Higgs boson is so important. Higgs boson is a subatomic particle. Physicists say its job is to give mass to the particles that make up atoms. Atoms then combined to form molecules, then molecules combined to form compounds, and these compounds gave rise to all the constituents of the universe as it exists today. If the Higgs Boson were taken away, the particles which make up atoms, would have zipped through the cosmos at the speed of light, unable to join together to form the atoms that make up everything in the universe, from planets to people. Then all creation would be unthinkable.
4 جولائی 2012 کو سائنس دانوں نے ایک دریافت کا اعلان کیا۔ اس کو نیرڈسکوری (near discovery)کہاجاتاہے۔ یہ دراصل ایک سب ایٹمک پارٹکل (subatomic particle) کی دریافت ہے جس کے بارے میں پچھلے تقریباً 50 سال سے ریسرچ ہورہی تھی۔ اِسی درمیان 1993 میں ایک امریکی سائنس داں لیان لیڈرمین (Leon Lederman) نے ایک کتاب تیار کی۔ اس کا ٹائٹل اس نے گاڈ ڈیم پارٹکل (Goddamn Particle)تجویز کیا۔اُس وقت تک یہ پارٹکل ایک پراسرار پارٹکل بنا ہوا تھا۔لیان لیڈر مین اپنی کتاب میں اِس پارٹکل کا کوئی واضح تصور نہیں دے سکا تھا۔ اس نے جھنجھلاہٹ میں اپنی اِس کتاب کا نام ’گاڈڈیمن پارٹکل‘ رکھ دیا۔’گاڈڈیمن‘ ایک بگڑا ہوا نام ہے۔ اردو میں کہتے ہیں خدا کی لعنت۔ خراب موسم ہو تو کہا جائے گا،گاڈ ڈیمن ویدر (Goddamn weather)۔ پبلشر کو کتاب کا یہ نام پسند نہیں آیا۔ اس نے بطور خود ’ڈیمن‘ کا لفظ نکال دیا اور کتاب کو ’گاڈ پارٹکل‘ کے نام سے چھاپ دیا۔ اُس وقت سے عوامی طورپر اِس ذرے کو گاڈ پارٹکل کہاجانے لگا۔ تاہم سائنس دانوں کے نزدیک اِس ذرّے کا نام ہگس بوزان (Higgs Boson) ہے۔
بوزان کا لفظ دراصل ’بوس‘ کے نام سے لیا گیا ہے۔ ستیندرناتھ بوس (SN Bose) ایک انڈین سائنس داں تھے۔ ان کی وفات 1974میں ہوئی۔ انھوں نے 1924 میں ’سب ایٹمک پارٹکل‘(behaviour of subatomic particles) کے بارے میں ایک پیپر تیار کیا تھا۔ اس پیپرکو البرٹ آئن سٹائن (وفات 1955:) اور دوسرے سائنس دانوں نے بہت پسند کیا تھا۔ اُس وقت سے اِس پارٹکل کا نام بوزان (boson)پڑ گیا ہے۔ اِس مخصوص پارٹکل کو ’بوزان‘ کا نام سب سے پہلے برٹش سائنس داں پال ڈیراک (Paul Dirac) نے دیا تھا۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک سائنس داں پیٹر ہگس (Peter Higgs) نے 1964 میں اِس موضوع پر زیادہ واضح انداز میں ایک مفصل پیپر تیار کیا ، جس کا ٹائٹل یہ تھا:
Broken Symmetries and the Masses of Gauge Bosons
اس وقت سے زیر ِ تلاش پارٹکل کو ہگس بوزان کہاجانے لگا۔ سائنسی نقطہ نظر سے ہگس بوزان کی اہمیت بہت زیادہ تھی، اِس لیے وہ ساری دنیا کے سائنس دانوں کے لیے تلاش کا موضوع بن گیا۔ آخر کار 1998 میں اِس موضوع کی تحقیق کے لئے ایک خصوصی سرنگ بنائی گئی۔ اِس سرنگ کو ایک یورپین ادارہ نے تیار کیا تھا۔ اس کا نام یہ ہے:
European Oganization for Nuclear Research
اِس سرنگ کا نام یہ ہے — لارج ہیڈرون کولائڈر(Large Hadron Collider) ۔ اِس پروجیکٹ میں دنیا کے ایک سو ملک شریک ہوئے اور 10 ہزار سائنس دانوں اور انجینئروں نے اِس میں کام کیا۔ 4 جولائی 2012 کو اس پروجیکٹ کے نتیجہ (result) کا اعلان کیا گیا۔ سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ اِس تحقیق میں وہ ’نیر ڈسکوری‘ تک پہنچ گئے ہیں۔
’ہگس بوزان‘ دراصل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل کا ایک گم شدہ پارٹکل ہے جو اِس بات کی توجیہہ کرتا ہے کہ ابتدائی انفجار کے بعد کائنات کیسے وجود میں آئی۔ فزکس کے اسٹینڈر ماڈل کو سائنس داں کائنات کے بلڈنگ بلاک (building block) کی توجیہہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اِس ماڈل کے مطابق، کائنات کا آغاز بگ بینگ سے ہوا۔ بگ بینگ کا نظریہ سائنس دانوں کے نزدیک عمومی طورپر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ یہ نظریہ بتاتا ہے کہ 13 بلین سال پہلے کائنات ایک بہت بڑے کاسمک بال کی صورت میں تھی۔ کائنات کے تمام پارٹکل اس کے اندر شدت سے باہم پیوست تھے۔ پھر اِس کاسمک بال میں ایک انفجار ہوا اور اس کے تمام اجزا چاروں طرف روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے۔ روشنی کی رفتار معلوم طورپر سب سے زیادہ ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکنڈ ہوتی ہے۔ کاسمک بال سے جو پارٹکل خارج ہوئے، وہ نہایت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے تھے۔ہر چیز جو اِس کائنات میں ہے، وہ ایٹم سے بنی ہے۔ یہ تمام ایٹم الیکٹران اور پروٹان کے ملنے سے بنتے ہیں۔ ضرورت تھی کہ یہ تمام پارٹکل باہم ملیں، لیکن بگ بینگ کے انفجار کے بعد الیکٹران اور پروٹان بھاگ رہے تھے، کیوں کہ اُن میں کمیت (mass) نہیں تھی۔ یہ ذرات باہم مل کر ایٹم کو صرف اُس وقت بنا سکتے تھے جب کہ ان کی رفتار کم ہو، اور ان کی رفتار صرف اُس وقت کم ہوسکتی تھی جب کہ ان کے اندر کمیت پیدا ہوجائے۔
ہگس بوزان کی اہمیت یہ ہےکہ وہ اِس سائنسی مسئلے کا جواب فراہم کرتاہے۔ ہگس بوزان ایک سب ایٹمک پارٹکل کا نام ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق، ہگس بوزان کا کام یہ ہے کہ وہ ایٹم کے پارٹکل کو کمیت عطا کرے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایٹم مل کر مالی کیول (molecule) بنائیں اور پھر مالی کیول کے بننے سے کمپاؤنڈ بنے۔ پھر کمپاؤنڈ کے ملنے سے وہ تمام چیزیں بنتی ہیں جوکہ اِس وقت کائنات میں موجود ہیں۔اگر ہگس بوزان نہ ہوتے تو پارٹکل میں کمیت پیدا نہ ہوتی جو کہ باہم مل کر ایٹم بناتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ تمام پارٹکل روشنی کی رفتار سے خلا میں سفر کرنے لگتے، پھر یہ ناممکن ہوجاتا کہ وہ باہم مل کر ایٹم بنائیں اور اس کے بعد کائنات کی تمام چیزیں وجود میں آئیں، ستاروں سے لے کر سیاروں تک اور غیر ذی روح اشیا سے لے کر ذی روح اشیا تک۔
قرآن کی تصدیق
قرآن کی ایک آیت ہے:أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللَّہِ لَوَجَدُوا فِیہِ اخْتِلَافًا کَثِیرًا(4:82)۔ یعنی کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اُس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ یہ سائنس کی دریافتوں سے بہت پہلے کا زمانہ تھا۔ اِس قبل دریافت زمانے میں قرآن کی اِس آیت کا اترنا گویا یہ دعوی کرنا تھا کہ بعد کی دریافت شدہ حقیقتیں قرآن کے عین مطابق ہوں گی، قرآنی بیانات اور دریافتوں کے درمیان کبھی عدم مطابقت (inconsistency) نہ ہوگی۔ اِس طرح یہ واقعہ اِس بات کی تصدیق ہوگا کہ قرآن عالم الغیب کی کتاب ہے، کیوں کہ عالم الغیب کے سوا کوئی بھی پیشگی طورپر اِن حقیقتوں کو نہیں بتا سکتا تھا۔
اِس اعتبار سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بگ بینگ کا تصور اور ہگس بوزان کا تصور پیشگی طورپر قرآن میں موجود تھا۔ اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ الانبیاء کی درج ذیل آیت کا مطالعہ کیجئے: أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنےوالوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے اُن کو کھول دیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا۔ کیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
قرآن کی اِس آیت میں تخلیق کے تین مرحلوں کا ذکر ہے — پہلے مرحلے کو ’رتق‘ کہاگیا ہے۔ رتق کا مطلب ہےمنضم الأجزاء یعنی کائنات کے تمام پارٹکل کا باہم جڑاہوا ہونا۔ اِس میں کاسمک بال کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ دوسرے مرحلے کو قرآن میں ’فتق‘ سے تعبیر کیا گیاہے۔ فتق کا مطلب ہے: الفصل بین المتصلین، یعنی باہم ملی ہوئی چیزوں کا ایک دوسرے سے الگ ہوجانا۔ اس میں بگ بینگ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ اِس کے بعد تیسرے مرحلے میں پانی (الماء) کے بننے کا ذکر ہے۔ یہاں پانی کا ذکر علامتی طورپر ہے، یعنی پانی اور دوسری تمام چیزیں۔
پانی ایک جوہری مادہ(substance) ہے۔ اِس طرح کے بہت سے جوہری مادّے کائنات میں پائے جاتے ہیں۔ پانی ہائڈروجن کے دو ایٹم اور آکسیجن کے ایک ایٹم کے ملنے سے بنتا ہے۔ یہی معاملہ دوسری تمام مادّی چیزوں کا ہے۔ ہر چیز ایٹم کے ملنے سے بنی ہے، اور ایٹم اُس وقت بنا جب کہ اس کے پارٹکل میں کمیت (mass) پیدا ہوئی۔ اِس طرح، اِس آیت میں پانی کا ذکر کرکے اِس نوعیت کی دوسری تمام مادی چیزوں کی طرف اشارہ کردیاگیا ہے، یعنی ’فتق‘کے واقعے کے بعد تمام پارٹکل میں کمیت کا پیداہونا اور پھر پارٹکل کا مجتمع ہو کر تمام چیزوں کا وجود میں آنا۔
قرآن، سائنس کی کتاب نہیں ہے، البتہ قرآن میں مظاہر فطرت کے بہت سے حوالے دئے گئے ہیں جو کہ سائنس کا موضوع تحقیق ہیں۔ قرآن کا مقصد صرف یہ ہے کہ فطرت میں موجود آیات (signs) کا حوالہ دے کر قرآن کی آئڈیالوجی کو علمی طورپر ثابت کرنا۔ اِس طرح قرآن میں فطرت کے بہت سے مظاہر کے متفرق حوالے (fragmentary references)دئے گئے ہیں۔ اِن حوالوں کے بارے میں قدیم زمانے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ گویا کہ قرآن میں یہ حوالے مستقبل کی انسانی نسلوں کو شامل کرتے ہوئے دئے گئے تھے۔ اِس طرح انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ قرآن کے اِن حوالوں کا تقابل بعد کے حالات سے کرکے قرآن کی صداقت کی تصدیق حاصل کرے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
چودھویں صدی ہجری اسلام کی پو ری تاریخ میں پہلی صدی تھی جب کہ یہ امکان پیدا ہوا تھا کہ اسلام کی دعوت تو حید کی یُسر (آسانی) کے حالات میں انجام دیا جائے جب کہ اس سے پہلے صرف عُسر (سختی) کے حالات ہی میں اس کو انجام دینا ممکن ہو تا تھا۔ اسی طرح یہ واقعہ بھی پہلی بار ہوا کہ خود انسان کے اپنے مسلّمات کے مطابق اسلام کا دیگر ادیان کے مقابلہ میں واحد معتبر دین ہو نا ثابت کیا جائے اوراس کو اعلیٰ ترین علمی شواہد سے اس طرح مد لّل کردیا جائے کہ کسی کے لئے انکار کا عذر باقی نہ رہے۔ نیز اس صدی میں پہلی بارتیز رفتار سواریاں اور تبلیغ کے جدید ذرائع انسان کے قبضہ میں آئے جن سے کام لے کر اسلام کے پیغام کو بین الاقوامی سطح پر پھیلایا جا سکتا تھا۔ مگر جو قومیں ان خدائی برکتوں کو ہماری طرف لارہی تھیں وہ اتفاقی حالات کے نتیجہ میں ہماری سیاسی حریف بن گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری مسلم دنیا مغرب کے بارے میں مخالفانہ نفسیات کاشکار ہو گئی، مغرب کی طرف سے آنے والے انقلاب کا افادی پہلو اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ حالاں کہ خدا نے مسلمانوں کے لئے ایسا دروازہ کھولا تھا کہ خود مغرب کے پیدا کردہ حالات دعوتی مقاصد میں استعمال کر کے مغرب کو نظریاتی طور پر فتح کر سکتے تھے۔ اگر مسلمانوں نے بر وقت اس دانشمندی کا ثبوت دیا ہو تا تو چودھویں صدی ہجری میں وہ واقعہ دوبارہ نئے انداز سے پیش آتا جو آٹھویں صدی ہجر ی میں تاتاری فا تحین کے خادمان اسلام بن جا نے کی صورت میں پیش آچکاہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی عظمت

خدا کی معرفت ایمان اور اسلام کی اساس (basis) ہے۔ جتنی اعلیٰ معرفت، اتنا ہی اعلیٰ ایمان۔ اِس معرفت کی تکمیل اُس وقت ہوتی ہے، جب کہ آپ خدا کو اس کے کمالِ عظمت کے ساتھ دریافت کریں۔ ایک بندہ جب خدا کو اس کی عظمتوں کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اس کا وہی حال ہوتا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ (8:2) ۔ یعنی خدا کی یاد سے اُن کے دل دہل اٹھتے ہیں۔جدید فلکیاتی سائنس (modern astronomy) کا اِس معاملے میں ایک مثبت کنٹری بیوشن (contribution) یہ ہے کہ اس نے خالق کی ناقابلِ قیاس عظمت کا ادراک کرنے کے لیے ایک فریم ورک (framework) دے دیا ہے۔ اِس فریم ورک کی مدد سے انسان خدا وند ذوالجلال کی ناقابلِ بیان عظمت کا ایک تصور اپنے ذہن میں لاسکتا ہے۔
جدید سائنس کئی سوسال سے فلکیات کامطالعہ کررہی ہے۔ 1608ء میں دور بین (telescope) کی ایجاد ہوئی، اور 1609میں پہلی بار اٹلی کے سائنس داں گلیلیو (Galileo) نے خلا کا دوربینی مشاہدہ کیا۔ یہ فلکیاتی مشاہدہ برابر بڑھتا رہا۔ پچھلے زمانے میںدور بینی رصد گاہ کسی پہاڑ پر نصب کی جاتی تھی۔ اب خلائی سائنس کا زمانہ آگیا ہے۔ اب انسان نے خلائی رصد گاہ (space observatory) بنالی ہے۔ اِس کے ذریعے کائنات کا مشاہدہ اتنی زیادہ دور تک کرنا ممکن ہوگیاہے جس کی دوری کو صرف سالِ نور (light years) کی اصطلاح میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اِس طرح خدا کی عظمت کو تصور میں لانے کے لیے ایک نیا وسیع تر دائرہ انسان کے علم میں آگیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک تازہ ترین فلکیاتی دریافت (discovery) سامنے آئی ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ خلا میں نصب الکٹرانک دور بینوں کے ذریعے ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت ہوا ہے۔ یہ بلیک ہول پورے نظامِ شمسی (solar system) کو نگل سکتا ہے۔ نظام شمسی کا دائرہ کتنا زیادہ بڑا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے اِس نظام کا بعید ترین سیارہ پلوٹو (Pluto) ہے جو سورج کے گرد بیضوی دائرے میں چکر لگا رہاہے۔ یہ دائرہ ساڑھے سات بلین میل پر مشتمل ہے۔
مذکورہ بلیک ہول اب تک کے دریافت کردہ تمام بلیک ہول سے زیادہ بڑا ہے۔ اس کا حجم 6 بلین سورج سے بھی زیادہ ہے۔ اِس بلیک ہول کا نام M 87 رکھا گیاہے۔ یہ بلیک ہول ہماری کہکشاں(Milky Way) سے 50 ملین سال نور کی دوری پر واقع ہے:
This black hole can eat the solar system: Astronomers have discovered what they say is the biggest ever black hole which weighs the same as 6.8 billion suns and could swallow our entire solar system. According to the scientists, the black hole, identified as M87, is as large as the orbit of Neptune and is by far the largest and most distant galaxy in the nearby universe. As a point of comparison, the black hole at the centre of the Milky Way is 1,000 times smaller than this one which has been observed some 50 million light years away. (The Times of India, New Delhi, Tuesday, January 18, 2011 Page 19)
یہ واقعہ اور اِس طرح کے دوسرے واقعات معرفتِ الٰہی کے لیے عظیم خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ واقعات خدا کی قدرت کو ناقابلِ قیاس حد تک عظیم بنادیتے ہیں۔ جو آدمی اِن واقعات پر سوچے گا، اس کا دل خدا کی عظمت کے تصور سے دہل اٹھے گا، اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ یہ واقعات ایک انسان کو اپنے بارے میں انتہائی عجز اور خدا کے بارے میں انتہائی قدرت کی یاد دلاتے ہیں۔ اِن واقعات پر غور کرنا بلاشبہ اعلیٰ معرفت کے حصول کا کائناتی خزانہ ہے۔
معرفت یہ ہے کہ آدمی ایک طرف اپنی محدودیت (limitation) کو جانے اور دوسری طرف وہ خدا کی لامحدودیت کو دریافت کرے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں جو کیفیت آدمی کے اندر پیداہوتی ہے، اُسی کا نام معرفت ہے۔ یہ معرفت جس کو حاصل ہو جائے، اس کے لیے گویا دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کے دروازے کھل گئے۔ یہی وہ خوش قسمت انسان ہے جس کے بارے میں آخرت میں کہاجائے گا — تم جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہو، جنت میں داخل ہوجاؤ۔ آج کے بعد تمھارے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔
واپس اوپر جائیں

دوانتظامات

انسان کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی عنایات کے ساتھ پیدا کیا۔ یہ عنایتیں بنیادی طورپر دو قسم کی ہیں۔ اُن میں سے ایک کو قرآن میں احسنِ تقویم (التین4:) کہاگیا ہے۔ اور دوسری عنایت کے لیے قرآن کی اِس آیت میں اشارہ ہے: وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ (14:34) یعنی خدا نے تم کو وہ سب کچھ دیا جو تم نے اُس سے مانگا۔
احسنِ تقویم کو قرآن میںدوسری جگہ صورتِ احسن (الزمر64:) کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہایت موزوں جسم دیاگیا ہے۔ انسانی جسم بہت سے آرگن (organs) یا نظامات کا مجموعہ ہے۔ مثلاً دیکھنے کا نظام، سننے کا نظام، سانس لینے کا نظام، بولنے کا نظام، ہضم کا نظام، گردشِ خون کا نظام، حرکت کا نظام، وغیرہ۔ انسان کی عمر جب بڑھتی ہے تو ایک ایک نظام معطّل ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ سارے نظام معطل ہوجاتے ہیں اور انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
دوسرا انتظام وہ ہے جو انسانی وجود کے باہر خارجی دنیامیں کیا گیا ہے۔ مثلاً روشنی اور حرارت کا نظام، ہوا کانظام، آکسیجن کی سپلائی کا نظام، پانی اور بارش کا نظام، زراعت کا نظام، وغیرہ۔یہ خارجی نظامات انسانی زندگی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ یہ نظامات اگر جزئی یا کلی طورپر معطل ہوجائیں تو انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔
مذکورہ تقسیم میں دوسرے نظام کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح پہلے نظام کو آرگن سپورٹ سسٹم (organ support system)کہا جاسکتا ہے۔ اِنھیں دونوں انتظامات پر انسان کی زندگی قائم ہے۔ اِن دونوں انتظامات کو گہرائی کے ساتھ جاننا، آدمی کے لیے معرفت کا دروازہ کھولتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں شکر کے اعلیٰ جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اِس سے آدمی کے اندر تمام مثبت صفات پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً تواضع، سنجیدگی، اعترافِ حق، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

گرہن ، خدائی معجزہ

گرہن (eclipse)ایک فلکیاتی ظاہرہ ہے۔ اکلپس (eclipse) کا لفظ قدیم یونانی زبان کے لفظ (ékleipsis) سے ماخوذ ہے۔ خلا میں گرہن کے مختلف واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن معروف طورپر دو قسم کے گرہن کو گرہن کہا جاتا ہے۔ ایک سورج گرہن (Solar eclipse) اور دوسرا چاند گرہن (Lunar eclipse) ۔ عام طورپر سورج گرہن سال میں دوبار یا تین بار ہوتاہے اور چاندگرہن سال میں دو بار واقع ہوتا ہے۔ چاند گرہن چند گھنٹوں تک رہتا ہے، جب کہ کامل سورج گرہن کچھ منٹ تک رہتا ہے:
A lunar eclipse lasts for a few hours, whereas a total solar eclipse lasts for only a few minutes at any given place.
گرہن کا یہ واقعہ محکم فلکیاتی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت پہلے ان کی قطعی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طورپر 2010 میں 15جنوری کو سورج گرہن ہوا۔ علماءِ فلکیات (astronomer) کی پیشگی خبر کے مطابق، پہلے سے لوگوں کو اِس گرہن کا علم تھا۔
گرہن کیا ہے۔ گرہن دراصل سایہ پڑ جانے کا دوسرا نام ہے۔ گردش کے دوران جب چاند، زمین اور سورج کے درمیان آجائے تو سورج اس آڑ کی بنا پر جزئی یا کلّی طورپر دکھائی نہیں دے گا۔ اِسی کا نام سورج گرہن ہے۔ اور جب زمین، چاند اور سورج کے درمیان آجائے تو چاند پر جزئی یا کلی طورپر زمین کا سایہ پڑجائے گا۔ اِسی کا نام چاند گرہن ہے:
Eclipse: In astronomy, partial or complete obscuring of one celestial body by another as viewed from a fixed point. Solar eclipses occur when shadow of Moon falls on Earth, which happens two or three times per year. Lunar eclipses occur when shadow of Earth falls on Moon; at most two seen per year.
قدیم زمانے میں گرہن کے بارے میں عجیب قسم کے توہماتی عقائد قائم تھے۔ مثلاً کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ آسمان میں ایک بہت بڑا اژدہا ہے، وہ کبھی غصہ ہو کر چاند کو نگل لیتاہے، اس وقت چاندگرہن پڑتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ زمین پر جب کسی بادشاہ یا کسی بڑے آدمی کی موت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سورج پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی کا نام سورج گرہن ہے، وغیرہ۔
اِس قسم کے توہماتی تصورات ہزاروں سال تک قوموں میں رائج تھے، یہاں تک کہ دور بین (telescope) ایجاد ہوئی۔ گلیلیو نے پہلی بار 1609 عیسوی میں دور بین کے ذریعہ سیاراتی نظام (planetary system) کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد دور بین کو ترقی ہوئی اور مزید مشاہدات کیے گئے۔ یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کا تعلق مذکورہ قسم کے توہماتی تصورات سے نہیں ہے، یہ تمام تر ایک فلکیاتی مظہر ہے۔وہ صرف اس لئے واقع ہوتا ہے کہ گردش کے دوران دو خلائی اجسام (celestial bodies) کے درمیان تیسرا جسم آجاتا ہے۔ اس کی بنا پر وہاں ایک آڑ قائم ہوجاتی ہے۔ اسی آڑ کی بنا پر پیش آنے والے واقعہ کا نام گرہن ہے۔
قدیم زمانے میں گرہن صرف ایک توہماتی (superstitious)واقعہ بنا ہوا تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی مشاہدہ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہ سادہ نوعیت کا ایک خلائی واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں کوئی پُراسراریت شامل نہیں۔ گرہن کے موضوع پر موجودہ زمانے میں کثیر تعداد میں کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
Eclipses of the Sun and Moon (1937) by Sir F.W. Dyson
Eclipse Phenomena in Astronomy (1969) by F. Link
Eclipses in the Second Millennium BC (1954) by G. Van Bergh
انسانی تاریخ میں گرہن کے تعلق سے تین دور ہیں۔ گرہن کی تاریخ کا پہلا دور وہ ہے جب کہ اس معاملے میں توہماتی عقائد کا رواج تھا۔ گرہن کا دوسرا دور اسلام کے ذریعہ انسان کے علم میں آیا۔ گرہن کی تاریخ کا تیسرا دور وہ ہے جوموجودہ زمانے میں دور بین کی ایجاد (1608ء) کے بعد شروع ہوا۔
اسلام نے گرہن کے تعلق سے جو بات بتائی، اس کے مطابق، گرہن کا تعلق نہ توہمات سے ہے اور نہ وہ صرف ایک مادی نوعیت کا فلکیاتی واقعہ ہے، بلکہ وہ خالقِ کائنات کے باشعور تخلیقی نظام کا ایک حصہ ہے۔ وہ خدا کی قدرتِ کاملہ کا ایک مظہر ہے، وہ انسان کے لیے خداوند ِ عالم کا ایک تعارف ہے، گرہن خاموش زبان میں خدا کی حکیمانہ تخلیق کا اعلان کررہا ہے۔
ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہ ابراہیم مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں شوال 10 ہجری 632)ء ( میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اتفاق سے اسی دن سور ج گرہن پڑا۔ قدیم توہماتی رواج کے مطابق، مدینہ کے کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ سورج گرہن پیغمبر کے بیٹے کی موت کی وجہ سے ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناپسند ہوئی۔ آپ نے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کی۔ آپ نے فرمایا:إن الشمس والقمر لا یخسفان لموت أحد ولا لحیاتہ، ولکنہما آیتان من آیات اللہ، فإذا رأیتموہا فصلوا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1042)۔یعنی سورج اورچاند میں کسی انسان کی موت سے گرہن نہیں لگتا، نہ ہی کسی کی زندگی سے۔ وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہے۔ جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو۔
’’چاند گرہن اور سورج گرہن خدا کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں‘‘— یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ دراصل اس معاملے کے اصل معنوی پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند گرہن اور سورج گرہن جس طرح ہوتا ہے، اس پر غور کیا جائے تو وہ آدمی کے لئے خدا کی دریافت کا ذریعہ بن جائے گا۔ وہ سادہ طورپر فلکیاتی نشانی کے بجائے، زیادہ گہرے معنوں میں خدائی نشانی ثابت ہوگا۔
چاند گرہن یا سورج گرہن ایک انوکھا تخلیقی معجزہ ہے، اس کے پیچھے خالقِ کائنات کی معجزانہ صنّاعی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیاگیا، گرہن اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ تین خلائی اجسام، زمین، چاند، سورج،گردش کرتے ہوئے ایک سیدھ میں آجائیں۔ تینوں کے سائز میں بہت زیادہ فرق ہے۔ چاند کو اگر سرسوں کے دانے کے برابر سمجھا جائے تو اس کے مقابلے میں زمین فٹ بال کے برابر ہوگی اور سورج ہمالیہ پہاڑ سے بھی زیادہ بڑا ہوگا۔
یہ تین مختلف سائز کے اجسام حرکت کرتے ہوئے ایسے تناسب سے ایک سیدھ میں آجاتے ہیں کہ زمین سے دیکھنے والا ان کو یکساں سائز میں دیکھنے لگے۔ جب تینوں کے درمیان چاند ہو تو سورج گرہن واقع ہوگا۔ اور جب ان کے درمیان زمین ہو تو چاند گرہن واقع ہوگا۔ یہ وسیع خلا میں ایک انتہائی انوکھی پوزیشننگ کا معاملہ ہے:
It is a uniquely well-calculated positioning of three moving bodies, highly unequal in size, in the vast space.
گرہن (eclipse)اُس وقت واقع ہوتا ہے جب کہ وسیع خلا کے تین اَجرام، زمین، چاند، سورج، انتہائی متناسب دوری کے ساتھ بالکل ایک سیدھ میں آجائیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت ناک ظاہرہ ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا بریٹانکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے — ایک انتہائی غیر معمولی توافق کی بنا پر سورج اور چاند کا سائز اور دوری ایسے ہو جاتے ہیں کہ زمین سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے گویا کہ دونوں بالکل برابر ہوں:
By a remarkable coincidence, the sizes and distances of the Sun and Moon are such that they appear as very nearly the same angular size as the earth. (EPB 6/189)
گرہن کے اِس عجیب واقعے کو مقالہ نگار نے محض اتفاق (coincidence) قرار دیا ہے۔ مگر یہ بالکل غیر منطقی بات ہے۔ اِس قسم کا نادر اتفاق اولاً تو ممکن نہیںاور بالفرض اگر ایسا ہوجائے تو وہ بمشکل ایک بار ہوسکتا ہے، لیکن فلکیاتی تاریخ بتاتی ہے کہ گرہن کا یہ واقعہ لاکھوں برس سے اِسی طرح پابندی (regularity)کے ساتھ ہر سال پیش آرہا ہے۔ اِس قسم کی کامل باضابطگی ہر گز اتفاقاً نہیں ہوسکتی۔ یقینی طورپر وہ ایک قادرِ مطلق ہستی کی مسلسل کار فرمائی کے باعث ہی ممکن ہے۔ اتفاق کا لفظ اِس حیرت ناک فلکیاتی ظاہرے کی توجیہہ کے لیے آخری حد تک ناکافی ہے۔
گرہن، خلا میں پیش آنے والے اُن بے شمار معجزاتی واقعات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ (36:38)۔ یعنی یہ عزیز اور علیم خدا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے:
That is the disposition of the Almighty, the All Knowing.
وسیع خلا میں بے شمار اجزا ہیں۔ یہ تمام اجزا مکمل طورپر خداوند ِ عالم کے کنٹرول میں ہیں۔ سیاروں اور ستاروں کی گردش انتہائی حد تک خدا کے مقرر ضابطہ کی پابندی میں ہوتی ہے۔ شمسی نظام اِسی کا ایک نمونہ ہے جس کے اندر ہماری زمین واقع ہے۔ یہ نظام اپنی خاموش زبان میں اعلان کررہا ہے کہ اِس کائنات کا ایک قادرِ مطلق خدا ہے جو وسیع خلا میں اُن پر کامل کنٹرول کیے ہوئے ہے۔
اِنھیں معجزاتی واقعات میں سے ایک گرہن کا واقعہ ہے۔ سورج گرہن اور چاند گرہن ہمارے قریبی مشاہدے کی چیزیں ہیں۔ لوگ اُس کو عجوبہ کے طورپر یا زیادہ سے زیادہ ایک فلکیاتی کورس کے طورپر دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے الفاظ میں، وہ خدا کی ایک عظیم نشانی ہے۔ اِسی لیے اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب گرہن واقع ہو تو لوگ خدا کی عبادت کریں۔ اِس عبادت کو صلاۃِ کُسوف اور صلاۃِ خُسوف کہاجاتا ہے۔ گرہن کے وقت خدا کی عبادت کرنا اِس بات کا اعتراف ہے کہ گرہن ایک خدائی ظاہرہ ہے، نہ کہ محض ایک فلکیاتی ظاہرہ۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سائنس، سادہ طور پر ، عالم حقائق کے مطالعہ کا نام ہے۔ قرآن میں یہی صفت اہل ایمان کی بتائی گئی ہے۔ کہ وہ زمین و آسمان کی بناوٹ پر غور کرتے ہیں (آل عمران191:)۔ اس اعتبار سے ایک سائنس داں وہی کام کرتا ہے جو ایک مومن کرتا ہے۔ تا ہم دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ سائنس داں کا عمل صرف تحقیق کے لئے ہوتا ہے اور مومن کا عمل عبرت کے لئے۔ سائنس داں کے پیش نظر علم برا ئے علم ہو تا ہے اور مومن کے پیش نظر علم برا ئے مقصد ۔ سائنس داں اضافۂ علم پر مطمئن ہو تا ہے اور مومن اضافۂ ایمان پر۔ (اسلام پندرھویں صدی میں)
واپس اوپر جائیں

کشتی ٔ نوح کی دریافت

حضرت نوح ابتدائی دور کے پیغمبر ہیں۔ وہ عراق کے علاقہ میسو پوٹامیہ (Mesopotamia) میں مبعوث ہوئے تھے۔ لمبی مدت تک دعوت و تبلیغ کے باوجود بہت کم لوگ اُن پر ایمان لائے، یہاں تک کہ ایک عظیم طوفان کے ذریعے پوری قوم کو تباہ کردیاگیا۔ اُس وقت اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی۔ حضرت نوح نے اِس کشتی میں اُس وقت کے تمام اہلِ ایمان کو بٹھایا۔ طوفان میں بہتی ہوئی یہ کشتی آخر کار مشرقی ترکی کے پہاڑ ارارات (Ararat) پر ٹھہر گئی۔ اس کے بعد اس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ کشتی سے نکل کر مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔
یہ واقعہ پانچ ہزار سال پہلے کا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا تھا کہ یہ کشتی محفوظ رہے گی اور بعد کے زمانے میں دریافت ہو کر لوگوں کے لیے نشانی (sign) بن جائے گی۔ سورہ القمر میں حضرت نوح کے تذکرہ کے بعد یہ آیت آئی ہے:وَلَقَدْ تَرَکْنَاہَا آیَةً فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ(54:15)۔ یعنی ہم نے اس ( کشتی ) کو نشانی کے لیے چھوڑ دیا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔ یہی بات سورہ العنکبوت میں اِن الفاظ میں آئی ہے:وَجَعَلْنَاہَا آیَةً لِلْعَالَمِینَ (29:15) ۔یعنی پھر ہم نے اس (کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔
انیسویں صدی کے آخر میں جب ہوائی پرواز کا زمانہ آیا تو کچھ لوگوں نے ارارات پہاڑ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے برف کے ذخائر (glacier)کے اندر چھپی ہوئی ایک کشتی کے آثار دیکھے۔ لیکن بار بار کوشش کے باوجود اِس معاملے میں کچھ زیادہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ اکیسویں صدی میں جب گلوبل وارمنگ کے نتیجے میںبرف کے ذخائر (glacier) پگھلنے لگے تو ہوائی پرواز کے دوران معلوم ہوا کہ کوہِ ارارات پر ایک پوری کشتی موجود ہے۔ اِس کے بعد وہاں چین اور ترکی کے مسیحیوں کا ایک گروپ پہنچا۔ انھوں نے جدید آلات کی مدد سے کاربن ڈیٹنگ (carbon dating) کے ذریعے مذکورہ کشتی کی عمر معلوم کی۔ اب معلوم ہوا کہ یہ کشتی عین اُسی زمانے کی ہے، جب کہ یہاں طوفانِ نوح آیا۔ اِس دریافت کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (28 اپریل2010)میں اِس کی تفصیل حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوئی ہے:
HONG KONG: A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah's Ark — four thousand metres up a mountain in Turkey. The team say they recovered wooden specimens from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the ark is said to have been afloat. “It’s not 100% that it is Noah’s Ark but we think it is 99.9% that this is it,” Yeung Wing-cheung, a Hong Kong documentary filmmaker and member of the 15-strong team from Noah’s Ark Ministries International said. The structure had several compartments, some with wooden beams, which were believed to house animals, he said. The group of archaeologists ruled out an established human settlement on the grounds that one had never been found above 3,500 metres in the vicinity.
قربِ قیامت کی نشانیوں میں غالباً یہ سب سے زیادہ واضح نشانی ہے۔ انسان ہزاروں سال سے لکڑی کی کشتی بنا رہا ہے۔ قدیم زمانے کی کشتیوں میں سے اب کوئی بھی کشتی دنیا میں محفوظ نہیں، کیوں کہ لکڑی کچھ دنوں کے بعد فطری طورپر بوسیدہ ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ کشتیوں کی تاریخ میں حضرت نوح کی کشتی ایک exception ہے۔ اِس استثنا کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو تھا۔ صرف اللہ کو معلوم تھا کہ یہ کشتی طوفان میں بہتی ہوئی پہاڑ کے اوپر پہنچ جائے گی، پھر فطری عمل کے تحت وہ گلیشیر کے نیچے دب جائے گی اور اِس طرح وہ محفوظ رہے گی۔ یہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ بیسویں صدی کے آخر میں گلوبل وارمنگ کا معاملہ پیش آئے گا اور پہاڑ کے اوپر برف پگھلنا شروع ہوجائے گی، یہاں تک کہ کشتیٔ نوح صاف دکھائی دینے لگے گی۔ اکیسویں صدی میں کشتیٔ نوح کا سامنے آجانا اِس بات کی علامت ہے کہ جس طرح پانچ ہزار سال پہلے ایک بڑے طوفان کے ذریعے اُس وقت کی آبادی ختم ہوگئی تھی، اسی طرح اب ایک اور زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے جس میں تمام انسان ختم ہوجائیں گے، اور صرف وہ لوگ بچیں گے جن کو اللہ اپنی جنت میںآباد کرنے کے لیے منتخب کرے۔
واپس اوپر جائیں

نیک وبد کی تمیز

امریکا میں ایک انٹرنیشنل سائنسی ادارہ قائم ہے۔ اِس ادارے کا مقصد بچوں کے معاملات کی سائنسی تحقیق کرنا ہے۔ اس ادارے کا نام یہ ہے:
Infant Cognition Center, Yale University, Connecticut.
اِس ادارے کے تحت حال میں ایک ریسرچ ہوئی ہے۔ یہ ریسرچ نفسیات کے پروفیسر پال بلوم (Paul Bloom) کی رہنمائی میں ہوئی ہے۔ اِس ریسرچ کے نتائج اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ اِس کی تفصیل انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اگلے صفحہ پر اِس ریسرچ کا وہ خلاصہ شائع کیا جارہا ہے جو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (11 مئی 2010 ) میں چھپا ہے۔
قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آرہا تھا کہ انسان کی فطرت میں نیک اور بدکی تمیز موجود ہے۔یہ بات قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان ہوئی ہے:فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا(91:8)۔ موجودہ زمانے میں مغرب میں کچھ مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے اِس کے برعکس نظریہ پیش کیا۔ مثال کے طورپر سگمنڈ فرائڈ (وفات1939 )، وغیرہ۔ اِن لوگوں نے اپنے خود ساختہ نفسیاتی مطالعہ کے حوالے سے بتایا کہ انسان کی فطرت پیدائشی طورپر ایک سادہ پلیٹ کی مانند ہوتی ہے۔ اس کے اندر کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو برا سمجھنے کا کوئی شعور موجود نہیں ہوتا۔ اِس قسم کاشعور تمام تر سماج کے اثر (social conditioning) سے پیدا ہوتا ہے۔ بیسویں صدی میں یہی نظریہ تعلیم یافتہ طبقے پر چھایا رہا۔
مگر اکیسویں صدی میں جو نفسیاتی تحقیقات ہوئی ہیں،انھوں نے اِس نظریہ کو بے بنیاد ثابت کردیا ہے۔ اِس تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ کیوںکہ جب وہ کوئی خلافِ عدل کام کرتا ہے تو وہ اپنے شعورِ فطرت سے انحراف کرکے ایسا کرتا ہے۔ انسان کا اخلاقی احساس اس کی داخلی فطرت پر مبنی ہے، وہ محض خارجی اثرات کا نتیجہ نہیں— اِس طرح اِس معاملے میں مذہبی نقطۂ نظر دوبارہ تاریخ میں واپس آگیا ہے۔
Infants Can Make Value Judgments, Finds American Research: Contrary to the Freudian theory that humans start their lives with a moral “blank slate”, children may be born with the ability to tell good from bad, according to a new study. Newly born babies apparently start making moral judgments by the time they are six months old, claims a team of psychologists at the infant cognition centre at Yale University in Connecticut. The scientists used the ability to tell helpful from unhelpful behaviour as an indication of moral judgment. Infants can even act as judge and jury in the nursery. Researchers who asked one-year-old babies to take away treats from a “naughty” puppet found they were sometimes also leaning over and smacking the figure on the head. As part of the study, they conducted multiple tests on infants, less than a year old. Firstly, an animated film of simple geometric shapes was screened for the kids to watch. It showed a red ball, with eyes, trying to climb a hill. A yellow square helped, pushing it up, while a green triangle forced it back down. Later, the children were asked to “choose” between the “good guy” square, and the “bad guy” triangle. In 80% of cases the infants chose the square over the triangle. In a second study, the children were shown a toy dog trying to open a box. One teddy bear helped him, while another sat on it to stop him getting inside. The observers found that most babies opted for the friendly teddy bear. To further confirm that the babies were responding to niceness and naughtiness the scientists devised another test. A toy cat played with a ball while a cuddly rabbit puppet stood on either side. When the cat lost the ball, the rabbit on the right side returned it to him, while the rabbit on the left side picked it up and ran away with it. The children were asked to handle anyone one puppet. Most picked the naughty rabbit and smacked it on the head. Paul Bloom, professor of psychology who led the study, said the research counters theories of psychologists such as Sigmund Freud who believed humans began life as “amoral animals” and William James who described a baby’s mental life as “one great, blooming, buzzing confusion”. “There is a growing body of scientific evidence that supports the idea that perhaps some sense of good and evil is bred in the bone,” the Times quoted Bloom as saying. Kiley Hamlin, author of the team’s Infant Morality report, said: “We spend a lot of time worrying about teaching the difference between good guys and bad guys in the world but this might be something that infants come to the world with.” Peter Willatts, a lecturer in psychology at Dundee University, said: “You cannot get inside the mind of the baby. You cannot ask them. You have to go on what most attracts their attention.” “We now know that in the first six months babies learn things much quicker than we thought possible. What they are born with and what they learn is difficult to divide,” he added. (The Times of India, New Delhi, Page 17, May 11, 2010)
واپس اوپر جائیں

دورِ شرک، دورِ الحاد

مذہبی نقطہ نظر سے تاریخ کے دو دور ہیں — دورِ شرک، دورِ الحاد۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ہزاروں سال تک دنیا میں شرک (polytheism) کا غلبہ تھا۔ موجودہ زمانہ عمومی تقسیم کے اعتبار سے، الحاد (atheism) کا زمانہ ہے۔ تاہم الحاد انکارِ مذہب کا نظریہ ہے، جب کہ سیکولرزم مذہب کے بارے میں عملاً ناطرف داری کا نظریہ۔
دورِ شرک اوردورِ الحاد کے درمیان ایک چیز مشترک ہے اور وہی چیز ہے جس کو قرآن کی درج ذیل آیت میں ’خَرص‘ کہاگیا ہے : وَقَالُوْا لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ ۭ مَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ۤ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ (43:20) یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم اُن کی عبادت نہ کرتے۔ اُن کو اِس کا کوئی علم نہیں، وہ محض اٹکل سے بات کررہے ہیں۔
’خرص‘ کا لفظی مطلب ہے اٹکل سے بات کرنا۔ اِس سے مراد دراصل چیزوں کی قیاسی تعبیر (speculative interpretation) ہے۔ قدیم زمانے میں مشرکین نے یہی غلطی کی تھی۔ انھوں نے یہ کیا کہ فطرت کا جو ظاہرہ اُن کو بڑا (great) نظر آیا، اس کو انھوں نے الٰہ (god) کادرجہ دے دیا۔ یہی چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: ہٰذَا رَبِّیْ ہٰذَآ اَکْبَرُ(6:78)۔یعنی یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔
موجودہ زمانے میں سائنس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے اِس قدیم متھ (myth) کو توڑ دیا۔ سائنس نے اپنے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ جن چیزوں کو انسان نے خدا سمجھ لیا تھا، اُن کے اندر کوئی خدائیت (divinity)نہیں ہے۔ تمام چیزیں صرف فطرت (nature) کے اجزا ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، کائنات کی تمام چیزیں صرف مخلوق ہیں، وہ کسی بھی درجے میں خالق نہیں۔ مشرکانہ کلچر کے نظریاتی خاتمے کا آخری دن 20 جولائی 1969 تھا، جب کہ امریکی ایسٹروناٹ نیل آرم اسٹرانگ (Neil Armstrong)چار روزہ خلائی سفر طے کرکے چاند تک پہنچا، اور چاند کی سطح پر اس نے اپنا قدم رکھ دیا۔
الحادکا دور
شرک کا مطلب ہے— کسی غیر خدا کو خدا کا شریک (partner) قرار دے کر اس کی تعظیم یا عبادت کرنا۔ موجودہ زمانے میں جب شرک کا دور ختم ہوا تو اس کے بعد یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا میں توحید کا دور آجائے، لیکن اُس وقت اہلِ مغرب دنیا کے فکری قائد بنے ہوئے تھے اور جیسا کہ معلوم ہے، قرونِ وسطی (middle ages) کے زمانے میں مغرب کے اہلِ علم اور چرچ کے درمیان شدید ٹکراؤ ہوا۔ اِس ٹکراؤ کی تفصیل جان ولیم ڈریپر (J. W. Draper)کی درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
History of the Conflict Between Religion and Science (1874)
قرون وسطی کے بعد یورپ میں انیسویں صدی میں جدید الحادی فکر کادور آیا۔ یہ دور کسی علمی تحقیق کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ تمام تر رد عمل (reaction) کے نتیجے میں پیش آیا۔ اِس زمانے میں علمی تحقیق کا معیار یہ قرار پایا کہ وہ تمام تر سیکولرانداز میں ہو، یعنی خدا کو حذف کرکے واقعات کی توجیہہ کرنا۔ اِس طرزِ فکر کے نتیجے میں وہ غیر مذہبی فلسفہ پیدا ہوا جس کو الحاد (atheism) کہاجاتا ہے۔
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation-seeking animal) ہے۔ قدیم مشرکانہ دور میں یہ توجیہہ قیاسی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ موجودہ ملحدانہ دور میں یہ توجیہہ علمی تحقیق کے نام پر کی جانے لگی۔ اِس نئے دور میں مغربی دنیا میں بہت سے مفکر پیدا ہوئے جو خدا کو حذف کرکے حیات اور کائنات کی توجیہہ کرتے تھے۔
اِس طریقِ تحقیق کے نتیجے میں ایک نیا دور پیدا ہوا۔ مزید یہ کہ اِسی دور میں پرنٹنگ پریس بھی وجود میں آیا۔ پہلے کتابیں محدود طورپر ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں، اب وہ چھپ کر عمومی طورپر پھیلنے لگیں۔ اِس طرح یہ ہوا کہ جدید الحاد مطبوعہ کتابوں میں منتقل ہو کر تمام دنیا کے فکر پر چھا گیا۔جدید ملحدانہ دور میں جو مفکرین پیدا ہوئے، اور ان کے ذریعے جو غیر مذہبی طرز فکر وجود میں آیا، اس کے پیچھے بہت سے ذہن کارفرما تھے۔ تاہم علامتی طورپر چار افراد کو اِس معاملے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اِن چار افراد نے انسانی تاریخ کو ایک نیا رخ یا الحادی رخ دیا۔ اُن کے نام یہ ہیں— آئزاک نیوٹن، چارلس ڈارون، سگمنڈ فرائڈ،کارل مارکس:
1. Isaac Newton: from divine interpretation to mechanical interpretation
2. Charles Darwin: from Special Creation to Natural Selection.
3. Sigmund Freud: from harnessing desires to following desires.
4. Karl Marx: from duty-conscious society to right-conscious society.
1- بر ٹش سائنس داں آئزاک نیوٹن (وفات1727) اصلاً صرف ایک سائنس داں تھا۔ اس کا موضوع تھا مادی دنیا میں حرکت (motion) کی توجیہہ کرنا۔ اس نے دریافت کیا کہ مادی دنیا میں حرکت کا نظام میکانکل قوانین (mechanical laws) کے تحت ہوتا ہے۔ مثلاً شمسی نظام میں سیاروں کی گردش کا قانون۔نیوٹن کی دریافت کا کوئی تعلق مذہبی عقائد سے نہ تھا، لیکن ملحد مفکرین نے اِس دریافت کو الحاد کے حق میں استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر واقعات فطری اسباب کے تحت پیش آتے ہیں تو وہ فوق الفطری سبب کے تحت نہیں ہوسکتے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہ استدلال بلا شبہ ایک غیر منطقی استدلال تھا، کیوں کہ نیوٹن کی تشریح جس چیز کو بتارہی تھی، وہ صرف ظاہری سبب تھا۔ اِس کے بعد بھی یہ سوال تھاکہ اسباب کے پیچھے مسبِّب (cause of the causes) کون ہے۔ اِس معاملے میں ملحدین کا استدلال تمام تر ایک مغالطے پر مبنی تھا، وہ کوئی سائنسی استدلال نہ تھا۔ لیکن ملحد مفکرین کی یہ توجیہہ وقت کے ذوق کے مطابق تھی، اِس لیے وہ عمومی طورپر پھیل گئی۔
2- چارلس ڈارون (وفات 1882) کا ارتقائی نظریہ بنیادی طورپر انتخابِ طبیعی (natural selection) کے اصول پر مبنی ہے۔ ڈارون نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ ارتقا (evolution) کا یہ نظریہ ایک سائنسی نظریہ ہے۔ مگر علمی تعریف (definition) کے مطابق، ارتقا کا نظریہ ہرگز سائنسی نظریہ (scientific theory) نہ تھا، وہ صرف ایک قیاسی نظریہ (speculative theory)کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر وقت کے عمومی ذوق کی بنا پر حیاتیاتی ارتقا کے اِس نظریے کو عام مقبولیت حاصل ہوگئی۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ کے لیے اب خالق کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، خالق کے وجود کو مانے بغیر تمام حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ ممکن ہے۔
مگر یہ صرف ایک مغالطہ تھا۔ سائنس کی مزید دریافتوں نے یہ ثابت کردیا کہ ارتقا کا یہ نظریہ علمی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہے۔ سائنس کی جدید دریافت بتاتی ہے کہ فطرت میں کامل درجے کی ذہین ڈزائن (intelligent design) ہے۔ اِس دریافت نے علمی طورپر نظریہ ارتقا کا خاتمہ کردیا ہے۔ کیوںکہ ذہین ڈزائن ایک ذہین ڈزائنر (intelligent designer) کی موجودگی کو ثابت کرتی ہے، وہ بے شعور قسم کے انتخابِ طبیعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔
3- سگمنڈ فرائڈ (وفات1939) کا نظریہ یہ تھا کہ انسان کی ذہنی ترقی اِس طرح ممکن ہے کہ اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی خواہشوں کو بے روک ٹوک پورا کرسکے۔ فرائڈ کے اِس نظریے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی تصور کے مطابق، حرام وحلال کی پابندیاں ختم ہوگئیں۔ انسان آزاد ہوگیا کہ وہ خود اپنی خواہش کے تحت جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے۔
لیکن بعد کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ فرائڈ کا یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ چناںچہ وہ انسان کی ذہنی ترقی میں مانع ہے، نہ کہ مدد گار۔نفسیات کا جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی ذہنی ترقی چیلنج کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ بے قید آزادی کے ذریعے۔ مذہب کی عائد کردہ اخلاقی پابندیاں ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِس چیلنج کے ذریعے انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا ہوتی ہے۔ اِس طرح انسان اپنی توانائی کے ضیاع سے بچتے ہوئے ذہنی ترقی کے راستے پر سفر کرتا رہتا ہے۔
4- کارل مارکس (وفات1883) نے زندگی کا جو فلسفہ دیا، وہ اپنی عملی تدبیر کے اعتبار سے یہ تھا کہ اقتصادی ذرائع کو انفرادی کنٹرول سے نکال کر سماجی کنٹرول میں دے دیا جائے۔ مارکس کے نزدیک انسانی حقوق کے تحفظ کا یہی واحد راستہ تھا۔ مگر عملی تجربے کے لحاظ سے اِس فلسفے کا مطلب یہ تھا کہ تمام اقتصادی ذرائع کو اسٹیٹ کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔ اِس نظریے کا مقصد بظاہر ایک غیرطبقاتی سماج (classless society)پیدا کرنا تھا، مگر عملاً اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو شدید قسم کے متحارب طبقے پیدا ہوگئے۔
اِس نظریے سے دو بڑی برائیاں پیدا ہوئیں— ایک، یہ کہ مسابقت (competition) کا ختم ہوجانا، جو کہ تمام ترقیوں کے لیے فطری محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری برائی جو اشتراکی نظریے کےتحت پیدا ہوئی، وہ یہ کہ لوگ عمومی طورپر رائٹ کانشس (right-conscious) بن گئے، جب کہ کسی سوسائٹی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس کے افراد ڈیوٹی کانشس (duty-conscious) ہوں۔ یہاں پہنچ کر طبقاتی کشمکش نے ایک ایسی صورت اختیار کرلی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ کیوں کہ زندگی میں ڈیوٹی کا تعین ہوسکتا ہے، لیکن رائٹ کا کوئی تعین نہیں۔
خلاصہ کلام
قدیم دورِ شرک کا بگاڑ یہ تھا کہ وہ خدا اور بندے کے درمیان تعلق کو صحیح بنیاد پر قائم کرنے میں مانع بن گیا۔ انسان کو یہ کرنا تھا کہ وہ اپنی سوچ کو اور محبت اور خوف کے جذبات کو مکمل طورپر خدا سے وابستہ کرے۔ اِسی کا نام توحید ہے اور اِسی توحید سے انسان کے اندر تمام اعلی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن مشرکانہ کلچر نے خدا کے شرکا (partners) قرار دے کر انسان کو اس کے مرکزِ اصلی سے ہٹا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اپنے مطلوب ارتقا سے محروم ہو کر رہ گیا۔
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک مرکز ِ وابستگی چاہتا ہے۔ انسان کی اِس فطری طلب کا مرجع صرف ایک ہے، اور وہ اس کا خالق ہے۔ بندے کا خالق سے تعلق قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے بجلی کے بلب کا پاور ہاؤس سے تعلق قائم ہونا۔ شرک کی برائی یہ تھی کہ اس نے انسان کی اِس طلب کے لیے اس کو ایک غیر واقعی بدل (false substitute) دے دیا۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ انسان کو اس کی فطری طلب کا مرکز نہیں ملا اور نتیجةً انسان اپنی شخصیت کے اُس ارتقا سے محروم ہوگیاجو اس کے لیے پیدائشی طور پر مقدر تھا۔
جدید الحاد کے دور میں دوبارہ انسان ایک اور اعتبار سے اِسی محرومی کا شکار ہوگیا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو علمِ قلیل دیاگیا ہے (الاسراء85:)۔ انسان کے لیے آزادی بہت اچھی چیز ہے، لیکن انسان اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے کامل آزادی کا تحمل نہیں کرسکتا۔ انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ وہ اپنی اِس محدودیت (limitation) کو جانے اور مقیّد آزادی (guided freedom) پر راضی ہوجائے۔ جدید الحاد نے آزادی کو خیر مطلق (summum bonum)قرار دے کر انسان کو اس کی فطرت کے راستے سے ہٹا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر ہر قسم کی ترقیوں کے باوجود انسان اُس اہم ترین چیز سے محروم ہوگیا جس کو ذہنی سکون (peace of mind) کہاجاتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سائنس کے میدان میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کی وجہ اگر مختصر طورپر بتانی ہو تو وہ صرف ایک ہوگی: مسلمانوں میں سائنسی شعور نہ ہونا۔ہندستان کا زمین دار طبقہ جدید تجارت میں پیچھے کیوں ہوگیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر تجارتی شعور موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ سائنس کے سلسلہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ ایک یا ایک سے زیادہ اسباب کی بنا پر مسلمانوں کے اندر جدید دور میں سائنسی شعور پیدا نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے سائنس کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دی اور اگر توجہ دی بھی تو ادھوری شکل میں۔
واپس اوپر جائیں

دورِ مواصلات

قرآن کی سورہ بنی اسرائیل میں ایک آیت آئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (17:70)۔ یعنی ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی، اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا ۔اس دنیا میں موجود تمام حیوان اپنے پیروں کے ذریعہ سفر کرتے ہیں، چڑیا کا سفر اپنے پرکے ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ انسان کی ایک امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ خارجی سواری کے ذریعہ اپنا سفر کرسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں جدید مواصلات (modern communication) کی ایجاد نے سواری (transportation) کے تصور کو بہت بڑھادیا ہے۔ آج کے انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ جسمانی حمل ونقل (physical transportation)سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرے اور اِسی کے ساتھ افکار کے حمل ونقل (transportation of ideas)کو بھی نہایت سرعتِ رفتار سے انجام دے سکے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں براہِ راست طورپر صرف حیوانی مواصلات کا ذکر ہے، مگر بالواسطہ طورپر اس میں ہر قسم کے مواصلات بشمول مواصلات بذریعہ ٹکنالوجی کا اشارہ موجود ہے۔ آدمی اگر اس آیت کو اس کے توسیعی مفہوم (extended meaning) کے ساتھ پڑھے تو یہ آیت اس کے لیے کائناتی معرفت کا ذریعہ بن جائے گی۔ اِس آیت میں وہ اللہ کی کائناتی نعمت کو دریافت کرے گا۔ یہ ایک آیت اس کے لیے بلین ٹریلین سے بھی زیادہ معانی کا خزانہ بن جائے گی۔
قرآن معروف معنوں میں کوئی معلوماتی کتاب نہیں۔ لیکن قرآن کے اندر وہ تمام معلومات موجود ہیں، جن کا تعلق معرفت سے ہے۔ یہ معلومات زیادہ تر اشارات کی صورت میں ہیں۔ ان آیتوں پر غور کرکے ان کے اندر چھپے ہوئے معانی کو دریافت کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ تدبر اور تفکر ہے جس سے معرفت میں اضافہ ہوتاہے۔ یہی وہ چیزہے جو آدمی کے ایمان کو یقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تدبر کو نصیحت (ص29:)کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

پوشیدہ جنت

قرآن میں ہے کہ جو لوگ ایمان والی زندگی گزاریں، ان کے لیے آخرت میں جنت کا انعام ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ(32:17)۔ تو کسی کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔ اس آیت میںاُخفی لہم کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہےان کے لیے چھپا کر رکھنا (kept hidden for them)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت مستقبل میں بنائی جانے والی دنیا نہیں ہے، بلکہ آج ہی بنائی ہوئی موجود ہے۔ جس طرح ہماری زمین ایک بالفعل موجود دنیا ہے، اسی طرح جنت ایک ایسی دنیا ہے جو بالفعل موجود ہے۔
سیارۂ ارض کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ شمسی نظام (solar system) کا ایک سیارہ ہے، جو ہمارے لیے بذریعہ دوربین (telescope) قابلِ مشاہدہ ہے۔ لیکن جنت اس طرح ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں۔ کسی بھی دوربین کے ذریعہ ہم جنت کو دیکھ نہیں سکتے۔ البتہ سائنسی دریافت نے ہمارے لیے ایک قیاس کا موقع فراہم کیا ہے۔ سائنسی دریافت یہ کہتی ہے کہ اسپیس کا بڑا حصہ ڈارک میٹر (dark matter) کی صورت میں ہے۔ یعنی وہ اسپیس میں موجود ہے، لیکن ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اب جنت پر یقین کرنے کے لیے یہ قیاس قائم کیا جاسکتا ہے کہ جنت کی دنیا غالباً ڈارک میٹر کے درمیان اسپیس میں کسی مقام پر چھپی ہوئی موجود ہو۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز جوڑے کی شکل میں پیدا کی گئی ہے (الذاریات 49:)۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہماری زمین کا بھی ایک جوڑا (pair) ہے۔ اسی سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ دوسری دنیا موجودہ زمین کی تکمیل ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی انسان کی آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں۔ یہاں کسی بھی انسان کو اس کی خواہش کے اعتبار سے fufilment نہیں ملتا۔ یہ صورتِ حال اس بات کا قرینہ ہے کہ یہی دوسری دنیا شاید وہ دنیا ہے جس کو ابدی جنت کا نام دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

زوج یا ہیبیٹاٹ

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آٗئی ہے: وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (51:49)۔یعنی اور ہم نے ہر چیز سے جوڑے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو :
We have created everything in pairs so that perhaps you may take heed.
قرآن کی اس آیت کا خطاب ان لوگوں سے ہے، جو تذکُّر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی غور وفکر کرنا اور نصیحت لینا۔ اس سے واضح ہے کہ اس آیت کا خطاب انسان سے ہے۔ وہ انسان سے کہہ رہی ہے کہ تم تخلیق پر غور کرو، اور اس سے نصیحت حاصل کرو۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں زوج سے مراد وہی چیز ہے جس کو ہیبیٹاٹ (habitat) کہا جاتا ہے۔ اس دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، سب کے لیے یہاں ان کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔ مثلاً گردش کرتے ہوئے ستاروں کے لیے وسیع خلا (vast space)، نباتات کے لیے موافق زمین (soil)، حیوانات کے لیے جنگل ، مچھلی کے لیے پانی، وغیرہ۔ اس طرح کائنات میںموجود ہر مخلوق کے لیے اس کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔
مگر یہاں صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو ، اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ انسان کو ایسی دنیا ملی ہے، جہاں وہ زندہ رہ سکے، لیکن انسان کو ایسی دنیا حاصل نہیں جہاں اس کے لیے ہر اعتبار سے فل فِل مینٹ (fulfillment) کا سامان موجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اس طرح رہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپتا رہتا ہے۔ اس کو کبھی اپنے وجود کا زوج (habitat) حاصل نہیں ہوتا۔ انسان اس فرق پر غور کرے تو وہ جنت کو دریافت کرے گا، اور اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اس طرح کرے گا جو اس کو جنت کی منزل تک پہنچانے والا ہو۔ جنت کی دریافت تخلیق کی حکمت کی دریافت ہے۔یہی مطلب ہے فَفِرُّوا إِلَى اللَّہِ کا(یعنی پس دوڑو اللہ کی طرف)۔الذاریات 50:
واپس اوپر جائیں

کائنات کی معنویت

سائنس فطرت (nature) کے مطالعے کا نام ہے۔ فطرت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کو ہم کائنات کہتے ہیں۔ سائنسی مطالعے کا آغاز کچھ ابتدائی باتوں سے ہوا، لیکن یہ مطالعہ جتنا زیادہ بڑھتا گیا، اتنا ہی یہ ظاہر ہوتا گیا کہ کائنات ایک بے حد بامعنی کائنات ہے۔ کائنات کی کوئی بھی ایسی تشریح جو کائنات کی معنویت کے اعتراف پر قائم نہ ہو، وہ سائنسی تحقیقات سے مطابقت نہیں رکھتی۔مثلاً سائنسی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ کائنات کے اندر ایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے۔ اب اگر یہ نہ مانا جائے کہ کائنات کا ایک ذہین ڈیزائنر (intelligent designer)ہے تو کائنات کا نادر ظاہرہ ناقابلِ توجیہ بن جاتاہے۔
اِسی طرح سائنس کے مطالعے نے بتایا کہ ہماری کائنات ایک کسٹم میڈ (custom-made) کائنات ہے، یعنی وہ انسان کی ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔ اب اگر ایک ایسے خالق کو نہ مانا جائے جس نے دو الگ الگ چیزوں کے درمیان اِس مطابقت کو قائم کیا، تو اِس ظاہرے کی کوئی قابلِ فہم توجیہہ ممکن نہیں۔ اِسی طرح مختلف شعبوں میں سائنس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے مختلف اجزاء آپس میں بے حد مربوط ہیں ،اور ان کے درمیان ایک انتہائی فائن ٹیوننگ (fine-tuning) پائی جاتی ہے تو اِس مائنڈ باگلنگ (mind-boggling) ظاہرے کی ضرورکوئی توجیہہ ہونی چاہیے۔
سائنس کوئی مذہبی سبجیکٹ نہیں، سائنس کا موضوع خالق کی دریافت نہیں۔ سائنس کا موضوع تخلیق (creation)کی دریافت ہے، لیکن خالق (Creator) تخلیق سے جدا نہ تھا، اِس لیے تخلیق کا مطالعہ عملاً خالق کا مطالعہ بن گیا۔ سائنس نے اپنے مطالعے کے ذریعے جو چیزیں دریافت کیں، وہ سب خدائی نشانیوں کا اظہار بن گئیں جن کو قرآن میں ’آیات اللہ‘  (signs of God) کہاگیا ہے۔ اِس اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگا کہ تخلیق کی معنویت کی دریافت خالق کی معنویت کی دریافت کے ہم معنی ہے۔
واپس اوپر جائیں

زمین کی حفاظت

موجودہ زمانے میں جو آلات دریافت ہوئےہیں، ان کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ خلائی واقعات کا نہایت صحت کے ساتھ مشاہدہ کیا جاسکے۔ اُنھیں میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ 23 جولائی 2012 کو سورج کی سطح پر ایک مقناطیسی طوفان آیا تھا۔ یہ طوفان زمین کے اوپر بہت بڑی تباہی (havoc)برپا کرسکتا تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ کیوں کہ یہ طوفان سورج کی ایک سمت میں آیا تھا، جب کہ زمین اپنی گردش کے اعتبار سے اُس وقت سورج کے دوسری سمت میں تھی۔اس طرح کے واقعات ہماری دنیا میں روزانہ پیش آرہے ہیں۔ یہ واقعات قرآن کی اُس آیت کی تفسیر ہیں جس میں کہاگیا ہے: قُلْ مَنْ یَّـکْلَـؤُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ ۭ بَلْ ہُمْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہِمْ مُّعْرِضُوْنَ(21:42)۔
کائنات میں انسان کی حفاظت کا یہ انتظام بتاتا ہے کہ اللہ کتنے زیادہ بڑے پیمانے پر انسان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کررہاہے۔ انسان اپنی غفلت کی بنا پر اِس حقیقت سے بے خبر رہتا ہے۔ اگر انسان اِس حقیقت کو جانے تو بلا شبہ اس کی زندگی میں ایک ربانی انقلاب آجائے۔
Massive solar storm almost hit Earth in 2012
London: A massive magnetic storm with a speed of 3,000 km per second enough to circle Earth five times in one minute and the likes of which has not been seen in the past 150 years almost hit the world in 2012. But as it tore through Earth’s orbit, releasing energy equivalent to that of about a billion hydrogen bombs, good fortune prevailed on the Blue Planet, which was placed on the other side of the sun at the time. Had the eruption come nine days earlier, it would have hit Earth, potentially destroying our electrical grid, disabling satellites and GPS and disrupting our increasingly electronic lives, wreaking havoc and causing fireworks. Experts confirmed on Wednesday that a fierce solar eruption known as coronal mass ejections blasted away from the sun and sent a pulse of magnetized plasma barrelling into space and through Earth’s orbit. (The Times of India, New Delhi, March 20, 2014, p. 19)
واپس اوپر جائیں

کائنات کی وسعت

جب سے خلا کے دور بینی مشاہدے کا دور آیا ہے، نئی کہکشاؤں اور نئے ستاروں کا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔ کچھ دنوں پہلےاِس قسم کا ایک خلائی انکشاف سامنے آیا ہے۔ مغربی سائنس دانوں کی ایک ٹیم فرانس کی رصد گاہ (Cote d’Azur Observatory) کے تحت خلائی مشاہدہ کررہی تھی۔ اُس ٹیم نے ایک ایسا نیا ستارہ دریافت کیا ہے، جو ہمارے سورج سے تیرہ سو گنا بڑا ہے اور زمین سے بارہ ہزار سال نور کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ سورج سے تقریباً ایک میلین گنا زیادہ روشن ہے۔
خورد بین اور دوربین جیسے آلات کی دریافت سے پہلے انسان کو دنیا کے عجائبات کے بارے میں بہت کم معلوم تھا۔ بیسویں صدی کا زمانہ معلوماتی انفجار (knowledge explosion) کا زمانہ ہے۔ اِس دور میں کائنات کے بارے میں بے شمار انوکھی باتیں دریافت ہوئیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ انسان خالق کی معرفت کو زیادہ بڑے پیمانے پر دریافت کرے۔ وہ خالق کی عظمتوں کا نیا برتر ادراک حاصل کرے۔ وہ آیات اللہ (signs of God)، آلاء اللہ (wonders of God) کے نئے پہلوؤں کو دریافت کرے۔ وہ عظمتِ خداوندی کے نئے احساس کے تحت کہہ اٹھے— الحمد للہ رب العالمین۔
ایک حدیث میں قرآن کے بارے میں آیا ہے: لا تنقضی عجائبہ (قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے)سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906۔ یہ عجائب کتاب کے عجائب نہیں، بلکہ وہ صاحب کتاب کے عجائب ہیں۔ بعد کے زمانے کی تمام کائناتی دریافتیں اِسی پیشین گوئی کی تفصیل ہیں، وہ خالق کی لا محدود عظمت کا بیان ہیں۔
اِس خلائی دریافت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ نیا دریافت شدہ ستارہ اور سورج دونوں ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیا دریافت شدہ ستارہ جس طرح ایک ستارہ ہے، اُسی طرح سورج بھی ایک ستارہ ہے۔ البتہ نیا دریافت شدہ ستارہ سورج کے مقابلے میں تیرہ سو گنا زیادہ بڑاہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ نیا دریافت شدہ ستارہ سورج کی جگہ پر ہوتا اور سورج نئے ستارے کی جگہ پر، تو زمین پر اتنی زیادہ گرمی ہوتی کہ زندگی کی کوئی بھی قسم یہاں موجود نہ ہوتی، نہ پانی، نہ نباتات، نہ حیوانات، نہ انسان۔
ستاروں کی یہ پوزیشن نہایت بامعنی ہے۔ قرآن میں اِس خلائی حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ۔ وَإِنَّہُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِیمٌ (56:75-76)۔ یعنی پس نہیں، میں قسم کھاتاہوں ستاروں کے مواقع کی۔ اور اگر تم جانو یہ بہت بڑی قسم ہے۔
اِس آیت میں قسم کا مطلب گواہی ہے۔ اور مواقع کا مطلب وقوع (placement) ہے، یعنی وسیع خلا میں ستاروں کو نہایت درست مقام پر رکھنا ایک عظیم شہادت ہے جو خالق کی بے پناہ قدرت اور بے پناہ حکمت کو بتاتی ہے۔ وسیع خلا میں ستاروں کا وقوع اتفاقاً نہیں ہوسکتا۔ یہ بامعنی وقوع(meaningful placement) گواہی دے رہا ہے کہ اِس کائنات کا خالق ایک عظیم ہستی ہے اور اس نے عظیم قدرت کے ذریعے یہ نظام قائم کیا ہے۔ اِس عظیم کائناتی واقعے کی اِس کے سوا کوئی اور توجیہہ ممکن نہیں۔
Found: A yellow star that is 1,300 times bigger than Sun
The largest ever yellow star, measuring 1,300 times the size of our Sun, has been discovered nearly 12,000 light-years from Earth. The star, dubbed HR 5171 A, located in the constellation Centaurus is the largest known member of the family of yellow stars to which our Sun belongs. It is also one of the 10 largest stars found so far — 50% laGrger than the famous red supergiant Betelgeuse — and about one million times brighter than the Sun. The team led by Oliver Chesneau of the Cote d’Azur Observatory in Nice, France, found that the yellow hypergiant star is much bigger, measuring 1,300 times the diameter of the Sun.
(The Times of India, New Delhi, March 14, 2014, p. 19)
واپس اوپر جائیں

تسخیرِکائنات

انسان کے لیے اللہ کی ایک نعمت وہ ہے جس کو تسخیر کہا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتیں یہ ہیں: اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ، وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (45:12-13) یعنی اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔ اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔ بے شک اِس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔
تسخیر کا مطلب ہے کسی چیز کو بزور قابلِ استعمال یا قابلِ انتفاع بنانا۔ اللہ جو پوری کائنات کا خالق ہے، اس نے کائنات کے ہر جزء کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کا پابند بنا رکھا ہے۔ اِس بنا پر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان مخلوقات کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے۔ خدائی قوانین کے ذریعے کائنات اگر اِس طرح مسخر نہ ہوتی تو انسان کے لیے اس کو استعمال کرنا ناممکن ہوجاتا۔
اِس کی ایک مثال سمندر کی ہے۔ سمندروں کی شکل میں پانی کے جو قدرتی ذخائر ہیں، وہ زمین کے تقریباً تہائی حصہ (71 %) پر پھیلے ہوئے ہیں۔ زمین ایک گول کرہ ہے جو مسلسل طور پر گردش کررہا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک زبردست قانون فطرت پانی کے ان ذخائر کو زمین پر قائم کیے ہوئے ہے۔
ایک طرف زمین کی غیر معمولی کشش زمین کے ذخائر کو اپنی طرف کھینچے ہوئے ہے، اور دوسری طرف سمندر کے اوپر ہوا کا تقریباً پانچ میل موٹا غلاف ہے جو سمندر کے اوپر دباؤ بنائے ہوئے ہے۔ اِن دوطرفہ اسباب کی بنا پر ایسا ہےکہ سمندروں کی گہرائی میں پانی مسلسل طور پر موجود ہے، ورنہ پورا ذخیرۂ آب اڑ کر فضا میں تحلیل ہوجاتا۔
یہی معاملہ سمندر میں چلنے والی کشتیوں کا ہے۔ یہاں بھی خدا کا مقرر کیا ہوا ایک قانونِ فطرت کام کررہا ہے۔ یہ ایک آبی قانون ہے جس کو آج کل کی زبان میں ہائڈرواسٹیٹکس (hydrostatics) کہاجاتا ہے جس کا ایک شعبہ بائنسی (buoyancy) ہے۔
بائنسی (buoyancy) سے مراد پانی کا یہ انوکھا قانون ہے کہ جب کوئی چیز پانی میں ڈالی جاتی ہے تو وہ پانی کے اندر جتنی جگہ گھیرتی ہے، اُسی کے بقدر وہاں اَپ ورڈ پریشر پیدا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کشتی پانی کی سطح پر تیرنے لگتی ہے:
Buoyancy: The upward pressure by any fluid on a body partly or wholly immersed therein: it is equal to the weight of the fluid displaced.
تسخیر کا دوسرا واقعہ وہ ہے جس کا تعلق بالائی خلا سے ہے۔ زمین کے اوپر جو وسیع خلا ہے، وہ بہت بڑے بڑے نہایت گرم ستاروں سے بھرا ہوا ہے، اِس لیے اس کو ستاروں کی دنیا (starry universe) کہاجاتا ہے۔ یہ تمام ستارے ہماری زمین سے ایک مقرر دوری پر واقع ہیں۔ یہ مقرر دوری اگر قائم نہ رہے تو ہماری پوری زمین جل کر راکھ ہوجائے۔
زمین کی سطح سے رات کے وقت جب کھلے آسمان کو دیکھا جائے تو اوپر کی فضا میں بہت سے چھوٹے چھوٹے ستارے نظر آتے ہیں۔ یہ ستارے بہت بڑے بڑے ستارے ہیں، لیکن دوری کی وجہ سے وہ چھوٹے نظر آتے ہیں۔ آنکھ سے دیکھنے میں تقریباً دس ہزار ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ستارے وہ ہیں جو ہماری قریبی کہکشاں (Milky Way) سے تعلق رکھتے ہیں۔
اِس کے علاوہ، وسیع خلا میں بے شمار بڑے بڑے ستارے ہیں جو مسلسل حرکت کررہے ہیں۔ ایک سو بلین سے زیادہ کہکشائیں (galaxies) ہیں اور ہر کہکشاں میں تقریباً ایک سو بلین ستارے پائے جاتے ہیں۔
اِس وسیع عالمِ نجوم کو انسان اپنی فطری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اللہ تعالی نے ہماری دنیا میں ایسے مادی اسباب رکھ دئے جن کو انسان دریافت کرے اور ان کو ترقی دے کر طاقت ور دوربین (telescope) بنائے۔ چناں چہ موجودہ زمانے میں خلائی دور بین کو استعمال کرکے انسان بے شمار ستاروں اور کہکشاؤں کو دیکھتا ہے۔
سمندروں (اور حیوانات) کے معاملے میں تسخیر کا مطلب یہ تھا کہ انسان قانونِ فطرت کو جانے اور اس کی مدد سے اِن چیزوں کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرے۔ عالمِ نجوم کے معاملے میں تسخیر کا مطلب اُن کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وسیع عالمِ نجوم کو انسان آلات کی مدد سے دیکھے، وہ ان پر غور وفکر کرے۔ وہ غور وفکر کے ذریعے عالمِ نجوم کو اعلی معرفت کے حصول کا ذریعہ بنائے۔
سمندروں اور حیوانات کی تسخیر انسان کی خدمت کے لیے ہے۔ اور عالمِ نجوم کی تسخیر اِس لیے ہے کہ ان کے ذریعے سے آدمی خالق کی عظمت کو دریافت کرے۔وہ اُن میں غوروفکر کرکے اپنے لیے معرفتِ اعلی کا رزق حاصل کرے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
قرآن میںکائناتی واقعات کو قرآنی پیغام کے حق میں بطور استدلال پیش کیا گیا ہے۔ گویا قرآن میں جو بات نظری طور پر کہی گئی ہے، کائنات اس کے حق میں واقعاتی دلیل ہے۔ اس اعتبار سے پوری سائنس قرآن کا علم کلام ہے۔ کیو نکہ سا ئنس کسی سا ئنس داں کے خود سا ختہ علم کا نام نہیں بلکہ وہ خدا کی کا ئنات میں کام کر نے والے قوانین کی تلاش کا نام ہے۔ ان قوانین کا جو حصہ بھی سا ئنس دریافت کر تی ہے وہ خدا کی کار فرمائیوں کی ایک جھلک ہو تی ہے، وہ خدا کی آیتوں میں سے ایک آیت ( نشانی) کا انسانی علم میں آنا ہو تا ہے۔ سا ئنس داں کے لئے سائنس کا علم برائے علم ہے یا زیادہ سے زیادہ علم برا ئے تعمیر دنیا۔ مگر مومن کے لئے سا ئنس ایک علمی ہتھیار ہے جس سے وہ دعوت حق کی جدو جہد میں کام لیتا ہے، جس سے وہ اپنی بات کو مدلل کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ (اسلام پندرھویں صدی میں)
واپس اوپر جائیں