Pages

Monday 29 January 2018

Al Risala | February 2018 (الرسالہ،فروری)

4

-قرآن سے رہنمائی

5

- معرفت، نقطۂ آغاز

6

- معرفت کی اہمیت

7

- ابدی جنت

8

- و ٔ طا شدید

9

- حق کی دریافت

10

- اقشعرار کیا ہے

11

- اشمئزاز کیا ہے

12

- احسن العمل

13

- اللہ کی مدد

14

- مدرسہ کے طلبہ کے نام

15

- رب العالمین کا وجود

16

- گرہن، خالق کی ایک نشانی

18

- ایک انسانی کردار

19

- امت کی مسلسل اصلاح کا نظام

21

- جہاد کیا ہے

23

- دعوت ایک سنگین ذمہ داری

24

- اعلان کے بغیر معاہدہ

25

- ظن و تخمین

26

- قرآن میں تدبر

28

- وضوح کا مسئلہ

29

- یہ بھی جھوٹ ہے

30

- فطرت کا نظام

33

- اللہ اکبر کا غلط استعمال

34

- فساد فی الارض

35

- اجتماعی زندگی کا ایک اصول

36

- بڑا فتنہ

37

- فوکس کو سمیٹنا

38

- علمی انداز، صحافتی انداز

39

- اختلاف ایک رحمت

40

- عیب کا تحفہ

41

- مثبت فکر

42

- آج کی نوجوان نسلیں

43

- وقت کا استعمال

44

- غصہ کا مثبت پہلو

45

- ذہنی سکون

46

- خبرنامہ


قرآن سے رہنمائی

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔قرآن میں تدبر کا مطلب ہے، قرآن کی آیتوں پر غور کرنا۔ غور کرنے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ قرآن کی آیتوں سے نصیحت لینا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کی آیتوں کا تطبیقی مفہوم (applied meaning) دریافت کرنا۔ ایک جنرل حکم کو پرسنلائز کرکے سمجھنا۔ اسی کو انسانی زبان میں نصیحت کہاجاتا ہے۔ گویا کہ تدبر کا مطلب ہے ایک اصولی حکم کو عملی نصیحت کے انداز میں ڈھالنا۔
مثلاً موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر یہ شکایت کرتے ہیں کہ مغربی دنیا ان کی مخالف ہوگئی ہے۔ مخالفت کے اس کلچر کو وہ اسلاموفوبیا کا نام دیتے ہیں۔ اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے جب آپ قرآن پر نظر ڈالیں گے تو آپ کے سامنے یہ آیت آئے گی: وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمٍ (42:30)۔ یعنی اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں ہی سے پہنچتی ہے۔
اس آیت پر غور کیا جائے تو اس سے عبارت النص کے درجے میں یہ بات نکلتی ہے کہ ہر مصیبت جس کے لیےتم دوسروں کی شکایت کروگے، وہ تمھارے اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہوگی۔اس لیے مصیبت کا سبب اپنے آپ کو سمجھو، نہ کہ دوسروں کو ۔ آیت پر مزید غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس چیز کو مسلمان دوسروں کی طرف منسوب کرکےاسلاموفوبیا کہتے ہیں، وہ خود مسلمانوں کے اپنے عمل کا ردّعمل (reaction) ہوتا ہے۔ گویا کہ اسلاموفوبیا اپنی حقیقت کے اعتبار سے ویسٹوفوبیا (Westophobia) ہے۔ یعنی تدبر کا مطلب ہے آیت کا تطبیقی مفہوم دریافت کرنا،اور اس سے عملی نصیحت حاصل کرنا۔
واپس اوپر جائیں

معرفت، نقطۂ آغاز

دینی فکر کے بارے میں کچھ لوگ جوش و خروش کے ساتھ کہتے ہیں :التوحید اولاً ۔ یہ بات بظاہر درست ہے۔ لیکن یہ قرآن کے عین مطابق نہیں۔ قرآن کے مطابق، پہلے معرفت آتی ہے، اس کے بعد توحید آتی ہے۔ جیسا کہ حسب ذیل آیتِ قرآنی سے معلوم ہوتا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ (5:83)۔ یعنی اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔
معرفت سے مراد ہے ذہن کو تیار کرنا۔ جب ذہن تیار ہوجائے، اس کے بعد ہی آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ توحید کو گہرائی کے ساتھ سمجھ سکے۔اسی بات کو ایک صحابی رسول، جندب بن عبد اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:کنا مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم ونحن فتیان حزاورة، فتعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فازددنا بہ إیمانا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 61)۔ یعنی ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اور ہم نوجوان تھے ۔ ہم نے ایمان سیکھا، قرآن سیکھنے سے پہلے۔ پھر ہم نے قرآن سیکھا، پس ہم نے اس کے ذریعہ سے ایمان میں اضافہ کیا۔
اس روایت میں ایمان سے مراد معرفتِ ایمان ہے۔ معرفت در اصل اس بات کا نام ہے کہ آدمی پہلے اپنے ذہن کو تیار کرے۔ اس کے بعد وہ اس قابل بن جاتا ہے کہ ایمان و اسلام کو بے آمیز صورت میں سمجھ سکے۔ معرفت گویا ذہنی تربیت کی ایک صورت ہے۔ آج کل کی زبان میں اس معاملے کو سمجھنے کے لیے اس کو ڈی کنڈیشننگ کہا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے معرفت نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔ جو لوگ التوحید أولًا کی بات کرتے ہیں، ان کو زیادہ درست طور پر المعرفۃ أولا کہنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کی اہمیت

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:کل کلام، أو أمر ذی بال لا یفتح بذکر اللہ، فہو أبتر - أو قال: أقطع -(مسند احمد، حدیث نمبر 8712)۔ یعنی ہر کلام، یا اہم معاملہ، جو اللہ کے ذکر سے نہ شروع کیا جائے، وہ دم بریدہ (بے جڑ)، یا ادھورا ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العالمین اس کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ وہ ہر اعتبار سے اس کائنات کی اصل ہے۔ اس دنیا کی ہر بات اللہ سے شروع ہوتی ہے، اور اسی کی طرف لوٹتی ہے۔ یہی حقیقت قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (57:3)۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا کی ہر بات کا سرا (starting point) اللہ رب العالمین ہے۔ اللہ کی ذات کو لے کر مطالعہ کیا جائے تو ہر بات قابل فہم رہے گی، او ر اگر کسی اور بات کو لےکر مطالعہ کیا جائے تو کلام میں وضوح (clarity)ختم ہوجائے گا۔
انسانی علوم کی جتنی شاخیں ہیں، سب کا حاصل حقیقت تک پہنچنا ہے۔ اگر اللہ رب العالمین کی معرفت کو حاصل کرنے کے بعد حقیقتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہر بات قابل دریافت بن جائے گی، اور اگر اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل کیے بغیر حقیقت پر کلام کیا جائے تو ایسا طریقہ عملاً اندھیرے میں بھٹکنے کی مانند ہوگا۔ ایسے انسان کا کلام وضوح (clarity) سے خالی ہوگا۔ مذکورہ آیت میں وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیم کا مطلب یہ ہے کہ ہر علم کا سرچشمہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔اللہ کے بغیرہر علم بے علمی بن جاتا ہے۔ اردو شاعر، اکبر الہ آبادی نے جو بات فلسفی کی بارے میں کہی ہے، وہی ہر اس انسان پر صادق آتی ہے، جو اللہ کی معرفت حاصل کیے بغیر کلام کرنا شروع کردے:
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے، اور سرا ملتا نہیں
واپس اوپر جائیں

ابدی جنت

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت کا انعام غیر ممنون انعام (endless reward) ہوگا۔ اس سلسلے میں قرآن میں چار جگہ اجر غیر ممنون کے الفاظ آئے ہیں۔ایک جگہ یہ حقیقت مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان ہوئی ہے: وَأَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الْجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیہَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّکَ عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوذٍ (11:108)۔ یعنی اور جو لوگ خوش بخت ہیں۔ وہ جنت میں ہوں گے، وہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں، مگر جو تیرا رب چاہے، ایک عطیہ جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
جنت کا غیر منقطع ہونا واضح ہے۔ کیوں کہ جنت رب العالمین کا عطیہ ہے، اور خدائے لامحدود کا عطیہ کبھی محدود نہیں ہوسکتا۔ یہ رب العالمین کی شان کے خلاف ہے کہ وہ کسی کو محدود عطیہ دے۔ محدود عطیے کا تصور اللہ رب العالمین کے کمتر اندازہ (underestimation) کے ہم معنی ہے، اور ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ اب سوال انسان کا ہے ۔ کیا یہ لامحدودیت جو اللہ کی نسبت سے ہے، وہ انسان کی نسبت سے بھی باقی رہے گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں جب اہل جنت کو داخلہ مل جائے گا تو وہ کہیں گے: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (35:34)۔ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے رنج کو ختم کردیا۔
اہل جنت کی طرف سے اظہارحمد ، یہ وقتی کلمہ نہیں ہے۔ یہ ابدی احساس حمد کی بات ہے۔ اہل جنت کی طرف سے احساس حمد ، بلاشبہ ایک تخلیقی احساس (creative feeling) کی بات ہے۔ یہ کریٹیو احساس انھوں نے دنیا کی زندگی میں حاصل کیا ہوگا۔ یہ کریٹیو احساسِ حمد جو جنت کے پانے سے پہلے بذریعہ معرفت اہل جنت کے اندر پرورش پائے گا، وہ اتنا طاقت ور ہوگا کہ وہ جنت کا ابدی عطیہ پانے کے بعد بھی برابر ایک اضافہ پذیرتجربہ کی حیثیت سے جاری رہے گا۔ جنت جس طرح ابدی ہوگی، اسی طرح جنت کے پانے پر احساسِ حمد بھی یقینی طور پر ابدی ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

و ٔ طا شدید

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں لمبی نمازیں پڑھتے تھے۔ اس نماز کے لیے قرآن میں وطأشدید (المزمل6:)کا لفظ آیا ہے۔ وطأ شدید کا مطلب ہے شدت کے ساتھ روندنا، یعنی مشقت کی حد تک اللہ کی عبادت کرنا۔ یہ فعل روحانی ترقی (spiritual development) کا اہم ذریعہ ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک عام عمل ہے۔ عبادت کے حوالے سے اس کو قرآن میں وطأشدید کہا گیا ہے، اور عمومی حوالے سے اس کو حدیث میں بلاء شدید بتایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حدیث کے یہ الفاظ قابل غور ہیں:إن من أشد الناس بلاء الأنبیاء، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم(مسند احمد، حدیث نمبر 27079) ۔ یعنی بیشک لوگوں میں سب سےزیادہ بلاء پیغمبروں پر آتی ہے، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی فطرت کے اندر پیدائشی طور پر خالق کی معرفت رکھ دی گئی ہے۔ مگر یہ معرفت بالقوۃ (potential) انداز میں ہے۔ اس بالقوۃ کو بالفعل (actual) بنانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان پر دباؤ (pressure) کے تجربات گزریں۔ یہی دباؤ کا تجربہ ہے جو کسی آدمی کےلیے بالقوۃ معرفت کو بالفعل معرفت بنا دیتا ہے۔ یہ تجربہ عام انسان کے لیے عمومی سطح پر پیش آتا ہے، اور پیغمبر وںکے لیے خصوصی سطح پر۔
اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ معرفت کا علم آدمی کوکتابی مطالعے سے حاصل ہوجاتا ہے۔ لیکن دریافت (discovery) کے درجے میں معرفت کا حصول صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ آدمی بلاء شدید کے مرحلے سے گزرے۔ بلاء شدید آدمی کو حساس بنا تی ہے۔حساسیت(sensitivity) آدمی کے اندر قوت اخذ (grasp) کا مادہ پیدا کرتی ہے۔ اس کے بعد آدمی اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ ذاتی دریافت کے درجے میں معرفت کو حاصل کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

حق کی دریافت

اسلام کا آغاز ایک دھماکہ خیز دریافت سے ہوتا ہے۔ اس دریافت کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھے کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ امیدرکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔ (5:83-84)۔
یہ دھماکہ خیز تجربہ آدمی کو اپنے خالق کی دریافت تک پہنچاتا ہے۔ اس کے بعد فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ ایسا انسان ایک غور و فکر والا انسان بن جاتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے رب، تو نے جس کو آگ میں ڈالا، اس کو تو نے واقعی رسوا کردیا۔ اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ اے ہمارے رب، ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لائے۔ اے ہمارے رب، ہمارے گنا ہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر(3:190-193)۔
سچائی کو پانا آدمی کے لیے ایک دھماکہ خیز دریافت کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایسا شخص سنجیدہ غور و فکر کرنے والا بن جاتا ہے۔اس کے بعد اس کے اندر ربانی شخصیت بننا شروع ہوجاتی ہے، جس کا آخری درجہ یہ ہے کہ اس کو ابدی جنت میں داخلہ مل جائے۔
واپس اوپر جائیں

اقشعرار کیا ہے

قرآن کی ایک آیت میں مومن کی صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَابًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُدَى اللَّہِ یَہْدِی بِہِ مَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَاد(39:23)۔ یعنی اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے۔ ایک ایسی کتاب آپس میں ملتی جلتی، بار بار دہرائی ہوئی، اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے۔ اس سے وہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
اقشعرار کا مطلب ہے شدت تاثر کے تحت جسم پر کپکپی کا طاری ہوجانا۔ یہ کیفیت ایک عام کیفیت ہے۔ مومن کے لیے ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ اللہ کے خوف سے اس کے اندر شدید تاثر پیدا ہو۔ اس وقت عام فطری قانون کے تحت اس کے جسم پر کپکپی (shivering)کی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ اس سے دل کے اندر نرمی پیدا ہوجائے گی۔ آدمی زیادہ قبولیت کے جذبے کے تحت اللہ کی باتیں سننے لگے گا۔اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر اقشعرار کی یہ کیفیت نہ پیدا ہو، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں قساوت کی کمزوری پیدا ہوچکی ہے۔ وہ اللہ کی پکڑ کی باتیں سننے کے بعد بھی سخت دل بنا رہتا ہے۔
اس آیت کے آخری جزء کا ترجمہ یہ ہے: یہ اللہ کی ہدایت ہے۔اس سے اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ قصداً کسی کو ہدایت دیتا ہے، اور کسی کو نہیں دیتا ہے۔ بلکہ ایسا انسان کی اپنی طرف سے ہوتا ہے، جو انسان سوچے اور نصیحت کو پکڑے، وہ ضرور ہدایت پائے گا، اور جو آدمی سوچ اور نصیحت سے خالی ہو، وہ اس کیفیت سے بھی خالی رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

اشمئزاز کیا ہے

دل کی ایک کیفیت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَإِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَحْدَہُ اشْمَأزَّتْ قُلُوبُ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُکِرَ الَّذِینَ مِنْ دُونِہِ إِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ (39:45)۔یعنی جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑجاتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو اس وقت وہ خوش ہوجاتے ہیں۔
اشمئزازکا مطلب ہے دل کا تنگ ہونا (shrinking of the heart)۔ یہ ایک مخصوص نفسیاتی حالت کا نام ہے۔ جب کسی کا ذہن پیشگی طور پر متاثر ذہن بن جائے تواس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی بات اس کے موافق ہو تو وہ اس کو سن کر خوش ہوگا، اور اگر اس کو محسوس ہوکہ مذکورہ بات اس کے اپنے مفروضہ کے مطابق نہیں ہے، تو اس کو سن کر اس کا دل تنگ ہوجائے گا۔یہی بات امر حق کے بارے میں بھی ہے۔ جس آدمی کے اندر اعتراف حق کا مادہ نہ ہو، وہ چیزوں کو اپنے مفروضا ت سے جانچے گا۔ اگر بیان کردہ بات اس کے مفروضات کے مطابق ہے تو وہ خوش ہوکر ا س کو مان لے گا۔ لیکن اگر بیان کردہ بات اس کے اپنے مفروضات کے مطابق نہ ہو، تو اس کو قبول کرنے کے معاملے میں اس کا دل تنگ ہوجائے گا۔ وہ اپنی بے اعترافی کو چھپانے کے لیے ایسی غیر متعلق باتیں بولے گا، جو صرف کہنے کے لیے ہوں گی، نہ کہ حقیقت کی ترجمانی کے لیے۔
اشمئزاز دراصل کبر کا ایک ظاہرہ ہے۔ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ کسی وجہ سے آدمی حق کو ماننا نہ چاہے۔ ایسے آدمی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کو دکھائی دے کہ حق اس کے مفروضات کی تصدیق کررہا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر وہ محسوس کرے کہ جو بات امر حق کے طور پر سامنے آئی ہے، وہ اس کی رائے کی تصدیق نہیں کرتی تو اس کو قبول کرنے کے لیے اس کا دل تنگ ہوجاتا ہے۔ وہ حق کو نہ ماننے کے لیے ایسی غیر متعلق باتیں بولنے لگتا ہے، جس کی صداقت پر خود اس کا دل مطمئن نہیں ہوتا۔ اسی حالت کا نام اشمئزاز ہے۔
واپس اوپر جائیں

احسن العمل

انسان کے بارے میں تخلیقی منصوبہ کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)۔یعنی خالق نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سب سے اچھے عمل والا کون ہے ۔اس آیت کا مطلب یہ ہےکہ پیدا ہونےوالے انسانوں میں سے احسن العمل کا انتخاب کرنا۔
قرآن کی اس آیت کا مفہوم ایک اور آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے: مَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَہُ فِی حَرْثِہِ وَمَنْ کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ نَصِیبٍ (42:20)۔ یعنی جو شخص آخرت کی کھیتی چاہے ہم اس کو اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے۔ اور جو شخص دنیا کی کھیتی چاہے ہم اس کو اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے پودگاہ (nursery) کی مانند ہے۔پود گاہ میں یہ ہوتا ہے کہ پودے عمومی انداز میں پیدا کیے جاتے ہیں۔ پھر ان میں جو پودا تندرست ہوتا ہے، اس کو چھانٹ کر نکال لیا جاتا ہے تاکہ اس کو زیادہ اچھی زمین میں نصب کرکے زیادہ اچھے ماحول میں گرو (grow) کرنے کا موقع دیا جائے۔
یہی حیثیت انسان کی نسبت سے موجودہ دنیا کی ہے۔ موجودہ دنیا کی حیثیت انسان کے لیے نرسری (nursery) جیسی ہے۔ یہاں انسان کو پیدا کرکے بسایا جاتا ہے تاکہ ان میں سے جو انسان اپنے کو احسن العمل یعنی زیادہ صحت مند ثابت کرے، اس کو دنیا کی نرسری سے نکال کر آخرت کے ہیبیٹاٹ (habitat) میں نصب کردیا جائے، یعنی ابدی جنت میں۔ گویا کہ موجودہ دنیا کی زندگی نرسری کی زندگی ہے، اور آخرت کے ہیبیٹاٹ کی زندگی ابدی جنت کی زندگی ہے۔ یہ بلاشبہ حیات انسانی کے لیے بہترین اسکیم ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی مدد

قدیم مصر میں جب بنی اسرائیل پر فرعون کا ظلم بہت بڑھ گیا۔ اس وقت پیغمبر موسیٰ نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اِسْتَعِینُوا بِاللَّہِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّہِ یُورِثُہَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ (7:128)۔ یعنی اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو۔ زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی اللہ سے ڈرنے والوں ہی کے لئے ہے۔
اللہ سے مدد کی دعا کرنا، بندے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے۔ اس معاملے میں صبر کی تلقین کیوں کی گئی۔ صبر کا دعا سے کیا تعلق ہے۔ یہ ایک بے حد اہم بات ہے۔ اگر آدمی دعا کی اس حقیقت کو نہ جانے تو وہ دعا کے بعد مایوسی کا شکار ہوسکتا ہے۔ دعا کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ دعا کریں، اور اللہ فوراً آپ کی مطلوب چیز اٹھا کر آپ کو دے دے۔اگر آپ کی دعا واقعۃً ایک سچی دعا ہے، تب بھی اللہ مینج (manage) کرکے آپ کی دعا کو پورا کرتا ہے۔ دعا کو پورا کرنے کے لیے اللہ کو بہت سے انسانوں کی سرگرمیوں کو مینج کرنا ہوتا ہے۔ وہ اس کا منصوبہ بناتا ہے تاکہ قوانین فطرت کو باقی رکھتے ہوئے آپ کی طلب کو پورا کرے۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اجتماعی تقاضوں کے درمیان ایک شخص کی انفرادی سطح پر دادرسی کی جائے۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسانی تاریخ کے مجموعی سفر کو جاری رکھتے ہوئے استثنائی طور پر ایک فرد کی ضرورت کو پورا کیاجائے۔
دعا کرنے والا تو اپنے ذاتی ارادے کے اعتبار سے دعا کرتا ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین کو یہ کرنا ہے کہ وہ دوسروں کی سرگرمیوں کو منسوخ کیے بغیر فرد کی استثنائی حاجت پوری کرے۔ یہی وہ صورت حال ہے، جس کے لیے بندے کو دعا کے بعد صبر کرنا پڑتا ہے۔ دعا کے بعد صبر کرنا گویا اللہ رب العالمین کو ضروری وقت دینا ہے— صبر دعا کا لازمی حصہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

مدرسہ کے طلبہ کے نام

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک طویل روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس میں دیگر باتوں کے علاوہ مسلم عاقل کی صفات بھی بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ اس کو اپنے زمانہ سے باخبر ہونا چاہئے ( أن یکون بصیرا بزمانہ)۔صحیح ابن حبان ،حدیث نمبر 361۔یہ ایک بے حد اہم ہدایت ہے۔ آپ کو چاہئے کہ آپ صرف واقفِ دین نہ بنیں، بلکہ اسی کے ساتھ واقفِ زمانہ بھی بنیں۔ اس کے بعد ہی آپ موجودہ زمانہ میں دین کی صحیح خدمت کر سکتے ہیں۔
واقف زمانہ بننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی کمیونٹی کے خلاف ہونے والے ’’ظلم اور سازش‘‘ کو جاننے والے بن جائیں۔ یہ میرے نزدیک سطحیت ہے، نہ کہ علم۔ یعنی یہ ظواہر کو جاننا اور حقائق سے بے خبر رہنا ہے۔ علم بلا شبہ یہ ہے کہ آدمی اصل حقیقت کو جانے، نہ یہ کہ اس کی نگاہ ظاہری چیزوں پر اٹک کر رہ جائے۔اگریہ مان لیا جائے کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے خلاف سازش اور ظلم میںمصروف ہیں، تب بھی اصل جاننے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں جنہوں نے ان قوموں کو یہ حیثیت دے دی ہے کہ وہ ہمارے خلاف کامیاب سازشیں کرسکیں۔ وہ ہمارے خلاف اپنے منصوبوں کی کامیاب تعمیل کریں اور ہمارے تمام اعاظم و اکابر اس کو روکنے میں مکمل طورپر عاجز ثابت ہوں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی اصل کمی یہ ہے کہ وہ عصر حاضر سے ناواقف (unaware) ہیں۔ وہ ماضی کو جانتے ہیں، مگر حال کی انہیں مطلق خبر نہیں۔ ان میںسے کوئی شخص اگر کچھ جانتاہے تو وہ بھی کچھ ظاہری چیزوں کو جانتا ہے، نہ کہ گہرے معنوں میں حقیقی حالات کو۔ دینی مدرسوں کے طلبہ اگر صرف ’’حیوان کا سب‘‘ بن کر نہیں رہنا چاہتے، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو مفید طورپر لگائیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ عصر حاضر کو اس کی گہرائیوں کے ساتھ جانیں، وہ موجودہ زمانہ کی ان تبدیلیوں سے واقفیت حاصل کریں جنہوں نے ہمارے مروجہ طریقوں کو عملی اعتبار سے بالکل غیر موثر بنا دیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

رب العالمین کا وجود

سائنسی مطالعے (scientific studies)سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کائنات کی ہر چیز ناقابل فہم حد تک عجیب ہے۔ خواہ میکرو ورلڈ (macro world) کا معاملہ ہو یا مائکرو ورلڈ (micro world)کا معاملہ۔ ہر چیز انسان کے لیےمائنڈ باگلنگ (mind-boggling) حد تک عجیب ہے، اس لیےانسانی عقل کے لیے ناقابل فہم بھی۔ انسان پہلے پہاڑ جیسی بڑی بڑی چیزوں کو دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔موجودہ دور میں کوانٹم میکانکس (quantum mechanics) کے مطالعہ کے بعد اب سب ایٹمک پارٹکل (subatomic particle) کا معاملہ اس سے بھی عجیب حقیقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
اس سائنسی مطالعے سے معلوم ہوا کہ خدا کے وجود کو ماننا بظاہر جتنا عجیب ہے۔ اتنا ہی عجیب ہر چیز کو ماننا ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز حتی کہ سب ایٹمک پارٹکل بھی مائنڈ باگلنگ حد تک عجیب ہیں۔ خالص منطقی اعتبار سے اس پر غور کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا — اگر ہم خدا کے وجود کو مان لیں تو بقیہ تمام چیزیں قابل توجیہہ (explainable) بن جاتی ہیں، اور اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو اس دنیا کی ہر چیز ناقابل فہم رہتی ہے۔ حتی کہ سب ایٹمک پارٹکل جیسی چیز بھی جس کو ایک سائنس داں نے امکانی لہریں (waves of probability) کہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو ماننے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح ہم اس کو بھی ماننے پر مجبور ہیں کہ ہم اپنے سے باہر ایک کائنات کو تسلیم کریں۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے، جس کا انکار کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔ قدیم یونان کا ایک فلسفی ایک مرتبہ جاکر درخت کے اوپر بیٹھ گیا۔ کسی نے اس کو درخت کے اوپر دیکھ کر پوچھا کہ تم کون ہو۔ فلسفی نے جواب دیا کہ یہی تو نہیں معلوم کہ میں کون ہوں۔ اگر میں جانتا کہ میں کون ہوں تو میں درخت کے اوپر نہ چڑھتا۔ خدا کے وجود کو ماننا آدمی کو صاحب یقین بنا دیتا ہے، اور خدا کے وجود کا انکار انسان کوفلسفی کی طرح یقین کی کیفیت سے دور کردیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

گرہن، خالق کی ایک نشانی

7 اگست 2017کو چاند گرہن (lunar eclipse)پڑا۔ یہ ایک جزئی (partial) چاند گرہن تھا۔ اس کے بعد 21 اگست 2017کو سورج گرہن (solar eclipse) پڑا ، اور زمین کے بہت بڑے رقبے میں اس کا مشاہدہ کیا گیا۔
اس قسم کا واقعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں پیش آیا تھا۔ یہ سورج گرہن تھا، جو 10 ہجری میں پیش آیا تھا۔اسی تاریخ کو پیغمبر اسلام کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ قدیم زمانہ میں یہ مانا جاتا تھا کہ گرہن اس وقت پڑتا ہے، جب زمین پر کوئی سنگین واقعہ پیش آئے۔ چنانچہ مدینہ کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ چوں کہ آج پیغمبر کے بیٹے کی وفات ہوئی ہے، اس لیے یہ گرہن پڑا ہے۔ پیغمبر اسلام کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے اعلان کیا کہ لوگ مدینہ کی مسجد میں اکٹھا ہوجائیں۔
اس کے بعد آپ نے مدینہ کی مسجد میں خطبہ دیا:إن الشمس والقمر آیتان من آیات اللہ، لا یخسفان لموت أحد ولا لحیاتہ، فإذا رأیتم ذلک، فاذکروا اللہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1052)۔ یعنی سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان کو نہ کسی کی موت سے گرہن لگتا ہے، اور نہ کسی کی زندگی سے۔ جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔
پیغمبر اسلام نے اپنے اس خطاب میں گرہن کو خدا کی ایک نشانی (sign of God) بتایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گرہن کا واقعہ کسی زمینی حادثہ کی بنا پر پیش نہیں آتا۔ بلکہ وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے ابدی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی مطالعہ کے تحت متعین طو رپر یہ معلوم ہوچکا ہے کہ گرہن کا واقعہ کیوں پیش آتا ہے:
Eclipse is a well-calculated alignment of three moving bodies of different sizes in the vast space at a particular point in time.
چاند گرہن اور سورج گرہن کا واقعہ کیوں پیش آتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس حیرتناک فلکیاتی واقعہ کو دیکھے، اور مشاہداتی سطح پر خالق کے کمال قدرت کو جانے، اور خالق کو دریافت کرکے خالق کی عظمت میں جینے والا بن جائے۔
اس انوکھے فلکیاتی مشاہدہ میں انسان کے لیے کیا سبق ہے۔ خالق کی عظمت ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے۔ پہاڑ، سمندر، سولر سسٹم، کہکشانی نظام، اور اس طرح کے دوسرے مظاہرمسلسل طور پر انسان دیکھتا رہتا ہے۔ ان کو دیکھتے دیکھتے انسان یوزڈ ٹو (used to) ہوجاتا ہے۔ اس لیے خدا استثنائی طور پر کبھی کبھی سورج گرہن اور چاند گرہن کامنظر انسان کو دکھا تا ہے۔ تاکہ یکسانیت کی وجہ سے انسان کی سوچ میں جو ٹھہراؤ آگیا ہے،و ہ ٹوٹے، اور انسان دوبارہ تخلیقی انداز (creative mind) کے ساتھ خدا کی تخلیقات کا مشاہدہ کرسکے۔ انسان کا مزاج ہے کہ یوزڈ ٹو (used to) ہوتے ہوتے اس کے اندر جمود (stagnation) پیدا ہوجاتا ہے۔ خالق کی منشا ہے کہ یہ جمود ٹوٹے۔ انسان بیدار ذہن کے ساتھ دنیا میں جینے والا بن جائے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
میرا تجربہ ہے کہ لوگ دوسروں کے سامنے تجویزیں تو خوب پیش کرتے ہیں مگر یہ نہیںسوچتے کہ اس معاملے میں خود اُن کی اپنی ذمہ داری کیا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان میرے پاس آئے۔ انھوں نے کہا کہ آپ فلاں موضوع پر کتاب تیارکرکے اس کو چھاپئے۔ میں نے کہا کہ میںنے بہت سے دینی موضوعات پر کتابیں تیار کرکے چھاپی ہیں، ان کے سلسلے میں آپ نے کیا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا۔ میںنے کہا کہ آپ پہلے چھپی ہوئی کتابوں کو پھیلا کر اپنی ذمے داری ادا کیجئے۔ اس کے بعد نئی کتابوں کی تجویز پیش کیجئے۔ اس قسم کا ذہن کوئی صحت مند ذہن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک انسانی کردار

ایک انسانی کردار کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ (3:188)۔ یعنی جو لوگ اپنے ان کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں کئے اس پر ان کی تعریف ہو، ان کو عذاب سے بری نہ سمجھو۔ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔قرآن میں ایک اور جگہ ایسے لوگوں کے لیے یہ آیا ہے :یُخَادِعُونَ اللَّہَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ (2:9)۔
کچھ لوگوں کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے تو وہ بے مقصد انسان ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے ذاتی انٹرسٹ کے سوا کسی اور چیز سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ لیکن بڑے بڑے الفاظ بول کر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایک بامقصد انسان ہیں۔ وہ ایک مقصد کے لیے جینے والے، اور ایک مقصد کے لیے مرنے والے ہیں۔ لیکن تجربے میں معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اپنے ذاتی انٹرسٹ کے سوا کسی اور چیز سے کوئی مطلب نہیں۔ وہ بامقصد انسان نہیں ہیں، بلکہ وہ صرف مفاد پرست انسان (man of interest) ہیں۔ ان کا سول کنسرن عملاً صرف ذاتی انٹرسٹ ہے۔ لیکن الفاظ کی سطح پر وہ بے تکان یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بامقصد انسان ہیں، اور ان کا فیصلہ ہے کہ وہ مقصد کےلیے جئیں گے، اور مقصد کےلیے مریں گے۔
ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ا ن کو ایسے کام کاکریڈٹ دیا جائے، جس کو انھوں نے انجام ہی نہیں دیا ہے۔ ایسے لوگ انسان کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں، اور خدا کو بھی۔ لیکن ان کی یہ کوشش چلنے والی نہیں۔ قول کی سطح پر خواہ کچھ بھی وہ کہیں، لیکن عمل کی سطح پر وہ کہیں نہ کہیں ایکسپوز ہوجائیں گے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائےگا، جیسا کہ وہ حقیقۃً ہیں، نہ کہ جیسا کہ وہ اپنے آپ کو لفظوں کے ذریعہ ظاہر کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

امت کی مسلسل اصلاح کا نظام

امت مسلمہ کے داخلی نظام کے بارے میں قرآن میں جو ہدایات آئی ہیں۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے:وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَى الْخَیْرِوَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (3:104)۔ یعنی اور ضرور ہے کہ تم میں ایک گروہ ہو جو نیکی کی طرف بلائے، وہ بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔
اس آیت میں ایک، منکم کا لفظ ہے، اور دوسرے، امۃ کا لفظ ۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ منکم سے مراد پوری امت ہے، اور امۃ سے مراد امت کا ایک منتخب گروہ۔ بالفاظ دیگر منکم سے مراد امت کبیرہ ہے اور امۃ سے مراد امت صغیرہ ۔ یعنی مجموعی امت کی اصلاح کے لیے اس کے اندر ایک منتخب ٹیم ہونا چاہیے۔ اس ٹیم سے مراد وہی اصلاحی گروہ ہے جس کو یہود کی نسبت سے ربانی علماء (5:63) کہا گیا ہے۔ امتِ موسی کے درمیان ربانی علماءکا کام یہ تھا کہ وہ افرادِ امت کی ذہنی اصلاح کا کام کرتے رہیں۔ اسی طرح امتِ محمدی کے اندر ایک اصلاحی ٹیم موجود رہنا چاہیے جو امت کے افراد کو ہر حال میں درست فکر (right thinking) پر قائم رکھنے کا کام کرتی رہے۔
یہ ایک دوسطحی نظام ہے۔ پہلی سطح یہ ہے کہ امت کے اندر دین کی بنیاد پر ایک ڈھانچہ قائم رہے۔ اس ڈھانچے کے اجزاء مسجد ، مدرسہ، حج، اور دوسرے غیر سیاسی ادارے ہیں۔ یہ ادارے اس بات کی ضمانت ہیں کہ امت میںفارم کی سطح پر ایک ڈھانچہ ہمیشہ قائم رہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ امت کے اندر ربانی علماء کی ایک ٹیم موجود ہو، جو امت کے افراد کی مسلسل نگرانی کرے۔ اور افرادِ امت کی ذہنی بیداری کے اس کام کو ہر نسل میں زمانے کے مطابق جاری رکھے۔اس کام کو حدیث میں تجدیدِ امت (سنن ابوداود، حدیث نمبر4291) کہا گیاہے۔ امت کی ایک ضرورت یہ ہے کہ فارم کے اعتبار سے اس کا ڈھانچہ برابر قائم رہے۔ اور امت کی دوسری ضرورت یہ ہے کہ ہر نسل میں اس کے افراد کی مطابقِ حالات ذہنی تعمیر کی جاتی رہے۔
دو سطحی نظام کی ضرورت اس لیے ہے کہ فارم کی ایک مستقل صورت ہوتی ہے۔ مثلا پنج وقتہ نماز کا نظام یا سالانہ حج کا نظام ، وغیرہ ۔ یہ ہمیشہ ایک ہی ہیئت (form) پر قائم رہیں گے۔ دینی نظام کایہ پہلوعملی اعتبار سے ابدی ہے۔ اس ابدی پہلو کی طرف پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا تھا: صلوا کما رأیتمونی أصلی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 631)۔ اس حدیث کا مخاطب صرف صحابہ نہ تھے، بلکہ وسیع تر انداز میں اس کا خطاب پوری امتِ محمدی سے ہے۔
لیکن جہاں تک امت کے افراد کا معاملہ ہے، وہ ہمیشہ ایک حالت پر قائم نہیں رہتے۔ بلکہ نسل در نسل ان کے اندر تبدیلی آتی رہتی ہے۔دادا کے بعد باپ، باپ کے بعد بیٹا، بیٹے کے بعد پوتا، وغیرہ۔ بعد میں آنے والی نسلوں کو ہمیشہ مختلف حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ نیزطول امد (الحدید16:57) کی بنا پر اسپرٹ کے اعتبار سے ان کی بعد کی نسلوں میں زوال آجاتا ہے۔ ایسے حالات میںضرورت ہوتی ہے کہ اسپرٹ کے اعتبار سے ان کو دوبارہ تازہ دم بنایا جائے۔
افراد کی اس ذہنی تعمیر کے تقاضے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً انیسویں صدی عیسوی میں دنیا میں ایک نیا دور آیا جس سے امت کےافراد بھی شدت کے ساتھ متاثر ہوئے۔ وہ دور یہ تھا کہ مغرب کی قومیں نئی طاقت کے ساتھ ابھریں۔ وہ پوری مشرقی دنیا پر سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے چھاگئیں۔ اس زمانے کی دوسری قوموں کی طرح مسلم قومیں بھی اس کی زد میں آگئیں۔ اس انقلاب کے نتیجے میں امت کے افراد عمومی طور پر منفی ذہنیت (negative thinking)کا شکار ہوگیے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس دورِ تبدیلی میں امتِ مسلمہ کے اندر’’ربانی علماء‘‘ کا کوئی گروہ نہیں اٹھا ، نہ عرب دنیا میں اور نہ غیرِ عرب دنیا میں۔ اس دور میں کرنے کا کام یہ تھا کہ امت کے افراد کو نئے دور کا صحیح مطالعہ کرایا جائے۔ ان کی منفی سوچ کو ختم کرکے دوبارہ ان کو مثبت سوچ پر قائم کیا جائے۔ ان کو یہ بتایا جائے کہ مغربی قومیںتمھاری دشمن یا حریف نہیں ہیں، بلکہ وہ تمھارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تم کو چاہیے کہ تم مغربی قوموں کے بارے میں رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ ان کے مقابلے میں مثبت ذہن کے ساتھ دعوت کی پر امن منصوبہ بندی کرو۔
واپس اوپر جائیں

جہاد کیا ہے

جہاد کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان جہاد کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں، وہ جہاد نہیں ہے۔ یہ سب قومی جذبات کے تحت چھیڑی ہوئی لڑائیاں ہیں جن کو غلط طورپر جہاد کا نام دے دیا گیا ہے۔
جہاد اصلاً پُر امن جدوجہد کا نام ہے، وہ قتال کے ہم معنٰی نہیں۔ کبھی توسیعی استعمال کے طورپر جہاد کو قتال کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ مگر لغوی مفہوم کے اعتبار سے جہاد اور قتال دونوں ہم معنٰی الفاظ نہیں۔ یہاں اس سلسلہ میں قرآن و حدیث سے جہاد کے بعض استعمالات درج کئے جاتے ہیں:
1۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (29:69) ۔ یعنی جن لوگوں نے جہاد کیا ہماری خاطر تو ہم اُن کو اپنی راہیں دکھائیں گے۔اس آیت میںتلاشِ حق کو جہاد کہاگیا ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے کوشش کرنا، اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا، اللہ کی قربت ڈھونڈھنے کے لیے کوشش کرنا۔ ظاہر ہے کہ اس جہاد کا قتال یا ٹکراؤ سے کوئی تعلق نہیں۔
2۔ اسی طرح قرآن میںارشاد ہوا ہے:وَجَاہَدُوا بِأَمْوَالِہِمْ (49:15)۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے مال سے جہاد کیا۔ اس آیت کے مطابق، اپنے مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ایک جہادی عمل ہے۔
3۔ اسی طرح قرآن میںارشاد ہوا ہے:وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَادًا کَبِیرًا (25:52) یعنی غیرمومنین کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کرو۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے پُر امن جدوجہد کرو۔
4۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المجاہد من جاہد نفسہ فی طاعة اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر23958)۔ یعنی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نفس کی ترغیبات سے لڑکر اپنے آپ کو سچائی کے راستہ پر قائم رکھنا جہاد ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لڑائی داخلی طورپر نفسیات کے میدان میں ہوتی ہے، نہ کہ خارجی طورپر کسی جنگ کے میدان میں۔
5۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحج جہاد (ابن ماجہ، حدیث نمبر 2902)۔ یعنی حج جہاد ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج کا عمل ایک مجاہدانہ عمل ہے۔ حج کو مطلوب انداز میں انجام دینے کے لیے آدمی کو سخت جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔
6۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت کے بارے میں فرمایا: ففیہما فجاہد (البخاری، حدیث نمبر 3004) یعنی تم اپنے والدین میںجہاد کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی خدمت کرنا جہاد کا ایک عمل ہے۔
اس طرح کی مختلف آیتیں اور حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا عمل اصلاً ایک پُرامن عمل ہے۔ وہ کسی مطلوب خدائی کام میں پُر امن دائرہ کے اندر جدوجہد کرنا ہے۔ جہاد کے لفظ کا صحیح ترجمہ پُر امن جدو جہد (peaceful struggle) ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کی فطری بنیاد یہ ہے کہ دونوں یکساں طورپر انسان ہیں۔ دونوں کے درمیان انسانیت کا ابدی رشتہ قائم ہے۔ انسانیت کا تعلق دونوں کے درمیان وہ فطری تعلق ہے جو کبھی اور کسی حال میں ٹوٹنے والا نہیں۔ ہر سماج میں اور ہر ملک میں یہ انسانی رشتہ یکساں طورپر برقرار رہتا ہے۔ یہ رشتہ وہ ہے جو پیدائش کے ساتھ ہی دونوں گروہوں کے درمیان اپنے آپ قائم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا اٹل رشتہ ہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت ایک سنگین ذمہ داری

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پڑوسی کے بارے میںان الفاظ میں آئی ہے: کم من جار متعلق بجارہ یوم القیامة یقول یا رب ہذا أغلق بابہ دونی فمنع معروفہ(الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر111)۔ یعنی کتنے ہی پڑوسی ہیں، جو اپنے پڑوسی کو پکڑے ہوئے ہوں گے قیامت کے دن۔ وہ کہیں گے کہ اے میرے رب ، اس نے اپنا دروازہ میرے لیے بند رکھا، اور اپنی بھلائی کو مجھ سے روک دیا۔
یہاں معروف کا لفظ دینی ہدایت کے معنی میں آیا ہے۔یعنی ایک شخص قیامت کے دن رب العالمین سے اپنے پڑوسی کے بارے میں شکایت کرےگا کہ اس انسان کے پاس میری نجات کا راستہ تھا، مگر اس نے اپنے گھر کے دروازے کو میرے اوپر بند رکھا، اور اسلام کی دعوت مجھ کو نہیں دیا،جو آج میرے کام آتا، اور مجھ کو ابدی تباہی سے بچالیتا۔ اس حدیث میں ایک پڑوسی سے مراد وہ شخص ہے جو دنیا میں ایمان کا دعویٰ کرتا تھا، اور اس کے پاس اللہ کی ہدایت قرآن و سنت کی شکل میں موجود تھی۔ دوسرے پڑوسی سے مراد وہ انسان ہے جو اپنی بے خبری کی بنا پر صاحب ایمان نہ بن سکا۔ کیوں کہ اس کے مومن پڑوسی نے اس کی قابل فہم زبان میں اس کو اللہ کی ہدایت نہیں پہنچائی۔
یہ حدیث قیامت کے بارے میں ہے۔ قیامت میں کسی کو یہ محرومی نہیں ستائے گی کہ وہ دنیا میں مادی چیزوں کے پانے میں ناکام رہا ۔ کیوں کہ اب اس کا دور ختم ہوچکا ہوگا۔ قیامت میں کسی کوصرف یہ چیز تڑپائے گی کہ کاش میرے پڑوسی نے میری قابل فہم زبان میں مجھ کو ہدایت پہنچائی ہوتی تو میں اس پر ایمان لاتا، اور آج میں جنت میں داخلے سے محروم نہ رہتا۔ اس حدیث کو موجودہ زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں عام پڑوسی کے علاوہ الیکٹرانک پڑوسی (e-neighbour) بھی شامل ہوں گے۔کیوں کہ آج دُور کے پڑوسی کو ہدایت پہنچانا اتنا ہی آسان ہوگیا ہے، جتنا کہ قریبی پڑوسی کو پہنچانا۔
واپس اوپر جائیں

اعلان کے بغیر معاہدہ

قرآن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے : لا تنقَضِی عَجائِبُہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2906) ۔ یعنی قرآن کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے۔ یہی بات سنت رسول کے بارے میں صادق آتی ہے۔ رسول اللہ کی سنتوں میں ایسے حکمت کے پہلو ہیں، جو کبھی ختم نہ ہوں گے، اورآپ کےپیرو اُن کو دریافت کرکے اُن سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ میرے مطالعے کے مطابق، اِنھیں سنتوں میں سے ایک سنت وہ ہے، جس کو بلااعلان معاہدہ (undeclared agreement) کہا جاسکتا ہے۔
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کے زمانے میں مکہ میں کعبہ تین سو ساٹھ بتوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس بنا پر وہاں سارے عرب سے بتوں کے پرستار بتوں کی زیارت کے لیے آیا کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام نے یہ حکمت اختیار کی کہ آپ کعبہ میں بتوں کی موجودگی کے بارے میں بلااعلان غیر جانب دار بنے رہے۔ اس طرح آپ کے اور بت کے پرستاروں کے درمیان گویا بلااعلان ایک معاہدہ ہوگیا۔ وہ یہ کہ رسول اللہ روزانہ کعبہ کے علاقے میں جاتے، اور وہاں بتوں کے پرستاروں کو آڈینس (audience) کے طور پر استعمال کرتے رہے۔اس حکمت نے رسول اللہ کے مخالفین کو عملاً آپ کاموید (supporter)بنا دیا۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اس سنت سے بے خبر ہیں۔ اگر وہ اس حکیمانہ سنت کو جانیں، تو وہ آج بھی اس سنت کو زندہ کرسکتے ہیں، اور اس طرح یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آسکتا ہے کہ جن لوگوں کو مسلمان اپنا دشمن سمجھے ہوئے ہیں، وہ دوبارہ ان کے موید (supporter) بن جائیں گے۔
یہ بھی غالباً اس مذکورہ حکمت کا ایک پہلو ہے، جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔
واپس اوپر جائیں

ظن و تخمین

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:إیاکم والظن، فإن الظن أکذب الحدیث (صحیح البخاری، حدیث نمبر5143)۔ یعنی تم گمان سے بچو، کیوں کہ گمان بہت بڑا جھوٹ ہے۔قرآن میں بھی یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (49:12) ۔ یعنی اے ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیوں کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
ظن کا الٹا یقین ہے۔ ایک ہے ظن کی بنیاد پر بولنا، اور دوسرا ہے یقین کی بنیاد پر بولنا۔ ظن کی بنیاد پر بولنا یہ ہے کہ ایک بات جس کے بارے میں آدمی کے پاس صرف ناقص معلومات ہو، مگر وہ اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر قیاس کرکے ایک بات بیان کرے۔ اس قسم کا ظن (گمان) ایک قسم کا جھوٹ ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ گمان اور قیاس کی بنیاد پر کسی کے بارے میں ایک رائے دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی مکمل معلومات اور پوری تحقیق کے بعد اپنی رائے دے۔ اس قسم کا بولنا سچ بولنا ہے۔آدمی کا یہ حق ہے کہ اگر اس کے پاس کسی چیز کے بارے میں پوری معلومات ہوں تو وہ اس کے بارے میں ایک رائے دے، لیکن ناقص معلومات کی بنیاد پر بولنا،یہ ہرگز کسی کا حق نہیں۔
یہ بات کوئی سادہ بات نہیں۔ اگر آدمی کامزاج یہ ہے کہ وہ ناقص معلومات اور مکمل معلومات میں فرق نہ کرے۔ اس کے پاس ناقص معلومات ہوں ، اور وہ اس طرح بولے جیسے کہ وہ علم کی بنیاد پر بول رہا ہے۔ ایسے آدمی کے اندر کمزور شخصیت (weak personality) بنے گی۔ اس کا ذہنی ارتقا رک جائے گا۔ وہ روحانی ترقی کے منازل طے کرنے سے محروم رہے گا۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی کو جب کوئی بات پہنچے تو وہ غیر جانبدارانہ انداز میں اس کی تحقیق کرے۔ جو رائے قائم کرے، وہ حقیقی علم کی بنیاد پر ہو ، نہ کہ ظن و تخمین کی بنیاد پر۔ ایسے آدمی کے اندر انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا عمل جاری رہے گا۔ وہ روحانی بلندی کے منازل طے کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ شخصی ارتقا کے آخری درجے تک پہنچ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

قرآن میں تدبر

قرآن کا طریق مطالعہ کیا ہو، اس کے بارے میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔
قرآن انسانی زبان میں ہے۔ انسانی زبان کی صفت یہ ہے کہ اس میں کہی ہوئی کوئی بات اپنے آپ میں مکمل نہیں ہوتی۔ وہ پوری طرح اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ انسانی ذہن (reason) کو استعمال کرتے ہوئے اس پر غور کیا جائے۔ اسی لیے مذکورہ آیت میں آیات قرآنی سے نصیحت لینے کے لیے یہ شرط لگائی گئی کہ انسان، آیات کے ساتھ اپنی لُبّ (reason) کو استعمال کرتے ہوئے اس پر غور و فکر کرے۔ گویا کہ لُبّ کو استعمال کیے بغیر آیات سے تذکیر کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر قرآن کی پہلی آیت یہ ہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:1)۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے: سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ ایک شخص قرآن کو پڑھے تو اس کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ زندگی تو خود قرآن کے بیان کے مطابق، کبد (hardship) سے بھری ہوئی ہے۔ ہرانسان روزانہ کسی نہ کسی کبد کا تجربہ کر رہا ہوگا۔ ایسی حالت میں کوئی شخص دل کے سچے احساس کے ساتھ کیسے یہ کہہ سکتا ہے کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے۔ گویا کہ انسان کو یہ کرنا پڑتا ہےکہ مشقتوں میں زندگی گزارتے ہوئے اللہ کو سچے دل سے قابل تعریف مانے۔ یعنی انسان کو خود اللہ کی تخلیق کے مطابق، مسلسل طور پر ایک تضاد کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں گہرے معنوں میں حمد کی اسپرٹ انسان کے اندر کیسے پیدا ہو۔
اس سوال کا جواب خود آیت میں موجود نہیں ہے۔ آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ اللہ اعلیٰ ترین معنوں میں ایک قابل تعریف ہستی ہے۔ لیکن اس آیت میں جو سوال چھپا ہوا ہے، اس کا جواب خود آیت میں موجود نہیں۔ اسی پوشیدہ سوال کا جواب معلوم کرنے کا نام تدبر ہے، اور تدبر کا یہ عمل لُبّ کے استعمال سے کیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کے تدبر کے ساتھ جب آدمی قرآن کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے نتیجہ کے طور پر آدمی کو وہ چیز حاصل ہوتی ہے جس کو قرآن میں تذکیر یا نصیحت کہا گیا ہے۔
انسان جب اپنی لُبّ (reason) کو استعمال کرتے ہوئے قرآن کی اس آیت پر غور کرتا ہے تو اس پر یہ بات کھلتی ہے کہ انسان کی زندگی میں کبد (hardship) خود انسان کے خیر کے لیے ہے۔ وہ یہ کہ خالق نے انسان کو احسن تقویم (التین 4:) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ مگر یہ احسن تقویم بالقوۃ (potential) کے طور پر ہے، نہ کہ بالفعل (actual) کے طو رپر۔ انسان جب مسائل سے دوچار ہوتا ہے، تو اس کا ذہن ٹرگر(trigger)ہوتا ہے۔ اس کے ذہن کے بند دروازے کھلتے ہیں۔ اس کےاندر چھپی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اس پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی زندگی میں کبد (trouble) کا ہونا خود بھی حمد کا ایک پہلو ہے۔ وہ اللہ کی صفت رحمت کی تشریح ہے۔
کلام کے تقاضے کے تحت ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ہر کلام میں کچھ باتیں مذکور ہوتی ہیں، اور کچھ غیر مذکور۔ ایسا ہمیشہ ہوتاہے، اس میں کوئی استثنا نہیں۔ قرآن میں تدبر یہ ہے کہ قرآن کی آیت میں جس بات کا ذکر ہوا ہے ، اس پر غور کرکے غیر مذکور بات کو دریافت کرنا، اور مذکور و غیرمذکور دونوں کو ملا کر آیت کے گہرے معنی تک پہنچنا۔ اسی کا نام تدبر ہے۔ یہ تدبر کوئی پر اسرار چیز نہیں۔ ایسا کلام کی عام صفت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس تدبر کی ضرورت انسانی کلام میں بھی ہوتی ہے، اور خدائی کلام میں بھی۔ ا سی لیے قرآن میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی کتاب کو اسی زبان میں بھیجا جاتا ہے، جو مخاطب کے لیے قابل فہم (understandable) ہو۔ یہی بات ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ (14:4)۔ اسی طرح ایک آیت یہ ہے: قُرْآنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِی عِوَجٍ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ (39:28)۔
واپس اوپر جائیں

وضوح کا مسئلہ

وضوح (clarity) فکر یا تقریر و تحریر کا بے حد اہم پہلو ہے۔ یہ در اصل وضوحِ بیان ہے جو کسی کلام کو موثر (effective) بناتا ہے۔ جو کلام وضوح بیان سے خالی ہو، وہ عملاً ایک بے نتیجہ کلام بن جائے گا۔ وہ کہنے والے کے لیے ایک کلام ہوگا، لیکن سننے یا پڑھنے والے کے لیے وہ غیرواضح الفاظ کا ایک مجموعہ۔وضوح کی شرط صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ تقریر و تحریر سے پہلے آدمی خود اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔یہ حقیقت ہے کہ پیدا ہوتے ہی آدمی کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کل مولود یولد على الفطرة، فأبواہ یہودانہ، أو ینصرانہ، أو یمجسانہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔
ڈی کنڈیشننگ پہلے آدمی کی کنڈیشننگ کو ختم کرتی ہے۔ اس کے بعد انسان اس قابل بنتا ہے کہ وہ بے آمیز انداز میں سوچے۔ وہ آبجکٹیو انداز میں رائے قائم کرے۔ اس لیے جو لوگ اپنی ڈی کنڈیشننگ سے پہلے تقریر و تحریر کا عمل شروع کردیں، ان کا کیس کم و بیش putting the cart before the horse کا کیس بن جائے گا۔
اس معاملے کو استعارہ کی زبان میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی میں پہلے ’’غار حراء‘‘ کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں ’’اقرأ ‘‘کا دور شروع ہوتا ہے۔ یعنی پہلے سیلف تھنکنگ (self thinking)کے ذریعہ اپنے دماغ میں وضوح لانا، اور اس کے بعد لکھنے اور بولنے کا عمل شروع کرنا۔ اسی بات کو صحابی رسول جندب بن عبد اللہ نے کہا ہے : کنا مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم ونحن فتیان حزاورة، فتعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فازددنا بہ إیمانا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 61)۔ اس روایت میں غالباً اسی حقیقت کا ذکر ہے کہ ہم نے پہلے اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کی۔ پھر ہم نے اپنے کو اس قابل بنایا کہ ہم قرآن کو واضح انداز میں سمجھیں۔
واپس اوپر جائیں

یہ بھی جھوٹ ہے

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے، صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں:کفى بالمرء کذبا أن یحدّث بکل ما سمع (صحیح مسلم، مقدمہ)۔ یعنی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرنےلگے۔ حدیث کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ جو آدمی جھوٹی بات کو بیان کرے، وہ جھوٹا ہے۔ بلکہ یہ فرمایا کہ سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق بیان کرنے لگے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق بیان کرنا، گویا کہ جھوٹ بولنا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ کسی بات کو اس کی پوری شکل میں رپورٹ نہیں کرتے۔ بلکہ وہ یہ کرتے ہیں کہ معاملے کے کچھ پہلو کو بیان کرتے ہیں ، اور کچھ دوسرے پہلو کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ طریقہ سخت بے احتیاطی کا طریقہ ہے۔ کیوں کہ اس طرح کی رپورٹ سے سننے والے کے اندر خلاف واقعہ رائے بنتی ہے۔
مثلا کچھ لوگ مسجد میں اکٹھا ہوئے، وہاں انھوں نے پرجوش تقریریں سنیں۔ اس کے بعد وہ جلوس کی شکل میں سڑک پر نکلے۔ اب اگر بتانے والا یہ بتائے کہ پولیس نے جلوس پر فائرنگ کی تو سننے والے کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ پہلے اصل معاملے کی تحقیق کرے ،اس کے بعد وہ اصل معاملے کو بیان کرے۔ کیوں کہ عین ممکن ہے کہ پرجوش جلوس نے پہلے پولیس پر پتھر مارا ہو۔اس کے بعد جواب میں پولیس نے فائرنگ کی ہو۔ اگر ایسا ہو تو البادی اظلم کے اصول کے مطابق پتھر مارنے والا مجرم ہے، نہ کہ گولی چلانے والا۔
اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ (49:6)۔یعنی اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسانہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو ، پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کا نظام

فطرت کا ایک قانون قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ ۔ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔ أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (2:155-57)۔ یعنی اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔
ان آیات پر غور کرنے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ خدا انسان کو پیدا کرکے اس سے غیر متعلق نہیں ہوگیا۔ چوں کہ یہ صرف خالق ہے، جس کو تمام حقیقتوں کا علم ہے، اس لیے یہ ضروری تھا کہ خالق اپنے علم کے مطابق، انسان کی رہنمائی بھی کرتا رہے۔ لیکن چوں کہ انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے، اس لیے یہ رہنمائی جزئی طور پر کتاب اللہ کی صورت میں دی گئی ہے، لیکن زیادہ وسیع پہلوؤں کے اعتبار سے وہ حالات کی زبان میں انسان کو فراہم کی جاتی ہے۔
اسی فطری رہنمائی کو یہاں مصیبت کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں جن حالات میں زندگی گزارنا ہے، اس میں بار بار اس کو وہ چیز پیش آتی ہے، جس کو یہاں مصیبت (suffering) کہا گیا ہے۔ یہ مصیبت انسان کے لیےکوئی برائی (evil) نہیں ہوتی۔ نفسیات کی زبان میں وہ حالات کا دباؤ (compulsion) کے ہم معنی ہوتی ہے۔ دباؤ کے یہ حالات انسان کوعمل کا رخ (direction)دیتے ہیں۔ وہ انسان کو اپنے عمل کی ری پلاننگ (replanning) کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ انسان کی سوچ کو نیا زاویہ عطا کرتے ہیں۔ اس طرح انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے عمل کا منصوبہ فطرت کے مطابق کرے۔ وہ فطرت کے نظام کو اختیار کرکے اپنے آپ کو کامیاب بنائے۔
حالات کے تحت جو دباؤ (pressure) پیش آتا ہے،وہ ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ البتہ دباؤ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے، کچل دینے والا دباؤ (crippling pressure)۔ یعنی وہ دباؤ جس کے بعد آدمی کام کرنے کے قابل نہ رہے۔ دوسرا دباؤ وہ ہے، جو اس سے کم ہو۔ یعنی نان کریپلینگ پریشر (non-crippling pressure)۔ ایسا دباؤ آدمی کی زندگی میں کچھ مسئلہ تو پیدا کرتا ہے، لیکن اس سے ایسا نہیں ہوتا ہے کہ اس کے بعد آدمی کام کرنے کے قابل نہ رہے۔ یہ دوسری قسم کا دباؤ ہمیشہ ایک مثبت دباؤ ہوتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مثبت دباؤ کو پہچانے، اور اس سے پیدا ہونے والے مواقع کو استعمال کرے۔ اس طرح وہ زیادہ کام کرنے کے قابل بن جائے گا۔
مذکورہ آیت میں حالات کو اللہ کی طرف منسوب کرنا، محض عقیدہ کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ خالق کے تخلیقی منصوبہ کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس سے بے تعلق نہیں ہوگیا ہے، بلکہ وہ حالات پیداکرکے انسان کو برابر رہنمائی دیتا رہتا ہے۔ یہ انسان کا کام ہے کہ وہ حالات کو پڑھے، اور خالق کی خاموش زبان کو سن کر تخلیق کے منصوبہ کو سمجھے۔
اس سیاق (context) میں صبر کا مطلب ہے ، خالق کے مقرر کردہ نقشے کو پوری رضامندی کے ساتھ قبول کرنا، اور صلوات اور رحمت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خالق کے اس منصوبہ پر راضی ہوں، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں، وہی وہ لوگ ہیں ، جو اس دنیا میں کامیابی حاصل کریں گے۔
اس معاملے کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ قدیم مدینہ (یثرب) میں دو بڑے قبیلے تھے، اوس اور خزرج۔ یہ دونوں قبیلے ، قبائلی کلچر کی بنا پر بار بار آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ اس باہمی لڑائی کے نتیجہ میں ان کی ترقی رکی ہوئی تھی۔ رسول اللہ کی ہجرت سے کچھ پہلے دونوں قبیلوں کے درمیان باہمی لڑائی ہوئی۔ اس لڑائی کو تاریخ میں یوم بعاث کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں : کان یوم بعاث، یوما قدمہ اللہ لرسولہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقدم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وقد افترق ملؤہم، وقتلت سرواتہم وجرحوا، فقدمہ اللہ لرسولہ صلى اللہ علیہ وسلم فی دخولہم فی الإسلا م (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3777)۔ یعنی بعاث کے واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے پیدا کیا تھا،چنانچہ جب آپ مدینہ میں آئے تو یہ قبائل آپسی اختلاف کا شکار تھے، اور ان کے سردار کچھ قتل کئے جا چکے تھے ، اورکچھ زخمی ہوگئےتھے ، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو آپ سے پہلے وقوع پذیر کیا تاکہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں ۔
اس روایت پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ جو صورت قدیم مدینہ (یثرب) میں پیش آئی ، وہ کیا تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ہجرت رسول سے پانچ سال پہلے مدینہ کے دو قبائل، اوس اور خزرج میں باہمی جنگ ہوئی، اس میں ان کے بہت سے لوگ مارے گئے۔ اس حادثہ کے بعد اہل یثرب کے درمیان یہ ذہن پیدا ہوا کہ ہمارا موجودہ قبائلی کلچر ہمارے لیے مصیبت بن گیا ہے ۔اس وقت ان کو نظر آیا کہ اسلام ان کے لیے بہتر انتخاب (better option) ہے۔ واضح ہو کہ ہجرت سے پہلے اسلام یثرب میں پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ جب رسول اللہ مدینہ میں داخل ہوئے تو بہت جلد آپ مدینہ والوں کے لیے قابل قبول (acceptable) بن گئے — یہ ایک مثال ہے کہ تاریخ میں کس طرح حالات کا دباؤ لوگوں کے لیے اس بات کا ذریعہ بن گیا کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں، اور جنگ کے بجائے امن کا طریقہ اختیار کریں۔
’’مصیبت‘‘ کا یہ فطری فارمولا افراد کے لیے بھی ہے، اور گروہوں کے لیے بھی۔ تاریخ میں بڑی تعداد میں ایسے افراد بھی ملیں گے، اور ایسے گروہ بھی جن پر مصیبت یا دباؤ کے یہ حالات پیش آئے۔ اس کے نتیجہ میں انھوں نے مسئلے پر دوبارہ غور کیا، اور نئے بہتر فیصلے تک پہنچے۔ حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دباؤ (pressure) کی صورت پیش نہ آتی تو افراد اور گروہ دونوں کے لیے کوئی نیا فیصلہ لینا ممکن نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

اللہ اکبر کا غلط استعمال

ایک نیو ز میڈیا میں آئی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا، نیو دہلی کے الفاظ میں وہ نیوز یہ ہے:
Venice Mayor: Shout Allahu Akbar and you will be shot
Venice’s controversial mayor has declared that anyone shouting “Allahu akbar” in the city’s famous St Mark’s Square will be shot “after three steps”. Luigi Brugnaro also said the Italian city was safer than Barcelona, where terrorists killed 13 people this month. .. According to The Times, Brugnaro said: “We keep our guard up... If anyone runs into St Mark’s Square shouting Allahu akbar we will take him down... A year ago, I said after four steps. Now, after three.” Defending his remarks at a conference, he added: “I have never been politically correct, I am incorrect. I would shoot, we would shoot.” Concrete barriers have been installed in some of Italy’s most famous sites in the wake of the Barcelona atrocity. Major tourist attractions in Milan, Rome, Bologna and Turin are all stepping up security in pedestrianised areas. Italy has not suffered any attacks on its territory , but IS has warned that the country is on its hit list. (TOI, 29 August 2017, p. 18)
اس خبر کو دیکھ کر شاید کچھ مسلمان یہ کہیں گے کہ یہ اسلام کے خلاف مغرب کی دشمنی کا ایک مزید ثبوت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اسلام تو مغرب میں بہت پہلے سے ہے۔ مگر کبھی کسی مغربی لیڈر نے اس قسم کی بات نہیں کہی۔ اصل یہ ہے کہ یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ مسلمانوں کے کچھ گروپ اسلام کے نام پر ملیٹینسی چلاتے ہیں۔ وہ اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کے اوپر بم مارتے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ ایک فطری بات ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ’’اللہ اکبر‘‘ اپنے ماننے والوں کو وائلنس سکھاتا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وائلنس کی بات کرنے والوں کے لیے آج کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس واقعہ پر ری ایکٹ نہ کریں، بلکہ یہ سوچیں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام کی امیج خراب ہوگئی ہے۔ آج مسلمانوں کا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ سوچیںکہ اب ہمیں دوبارہ یہ امیج بنانا ہے کہ اسلام ایک پیس فل مذہب ہے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

فساد فی الارض

قرآن کی سورۃ البقرۃ میں ایک کردار کو ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے:وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (2:11)۔ یعنی جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میںفساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔قرآن کی اس آیت میںجس کردار کا ذکر ہے اُس سے مراد وہ لوگ ہیں، جو بظاہر ایک اصلاحی مقصد کے لیے سرگرم ہوں، مگر اُن کا طریقہ درست نہ ہو۔ اُن کا طریقہ ایساہو جوعملاً فساد اور بگاڑ پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں فساد سے مراد یہ ہے کہ اُن کے طریقہ کے نتیجے میںلوگوں میںباہمی ٹکراؤ پیدا ہو۔ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ لوگوں کے اندر اخلاقی احساس کمزور ہوجائے۔ لوگوں کے اندر منفی نفسیات پیدا ہوں۔ اس قسم کی تمام چیزیں فساد فی الأرض کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیوں کہ اس سے سماجی امن ختم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ لڑائی اور ٹکراؤ کی نوبت آجاتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی عمل کے درست ہونے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ بظاہر وہ ایک اچھے مقصد کے لیے شروع کیا گیا ہو۔ اسی کے ساتھ لازمی طورپر یہ دیکھنا ہوگا کہ اصلاح کے نام پر کی جانے والی سرگرمیاں کس قسم کا نتیجہ پیدا کرتی ہیں۔ اگر وہ لوگوں کے درمیان نفرت اور تناؤ اورلڑائی جیسی چیزیں پیدا کریں تو بظاہر اصلاح کا نام لینے کے باوجود اُن کی سرگرمیاں مفسدانہ سرگرمیاں ہی کہی جائیں گی۔ ایسے لوگ انسانیت کے مجرم قرار پائیں گے ،نہ کہ انسانیت کے مصلح اور خادم۔
کوئی بھی اصلاحی کام صرف اُس وقت اصلاحی کام ہے، جب کہ وہ امن او ر انسانیت کے دائرہ میںکیا جائے۔ اصلاح کے نام پر کیا جانے والا ہر وہ کام غلط ہے، جو سماجی امن کو درہم برہم کرے۔ جس کے نتیجہ میں جان اورمال کی تباہی ظہورمیں آئے۔ اصلاح کو اپنے نتیجہ کے اعتبار سے بھی اصلاح ہونا چاہیے۔ جو اصلاح اپنے نتیجہ کے اعتبار سے فساد ہو، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی فساد ہے، خواہ اُس کو کتنا ہی زیادہ خوب صورت الفاظ میں بیان کیا گیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

اجتماعی زندگی کا ایک اصول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور میں صحابی ولید بن عقبہ اور بنو مصطلق کی نسبت سے ایک واقعہ پیش آیا (اس واقعہ کےلیے دیکھیں تفسیر ابن کثیر، تفسیر مظہری، وغیرہ) ۔اس واقعہ کے بعد قرآن میں مندرجہ ذیل آیت اتری جس میں اجتماعی زندگی کا ایک رہنما اصول بتایا گیا ہے۔ وہ آیت یہ ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ (49:6)۔
ا س آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف سنی ہوئی بات پر کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ کیوں کہ سنی ہوئی بات اکثر اصل واقعہ کا محرف بیان (distorted version) ہوتی ہے۔ اگر آپ صرف سن کر کسی بات کو مان لیں تو عین ممکن ہے کہ آپ کا رد عمل نادانی کا عمل ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ بات کو سننے کے بعد اس کی باقاعدہ تحقیق (scrutiny)کی جائے، اور پھر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جائے۔ ایسا کرنے کی صورت میں آپ اُس معاملہ میںصحیح رسپانس (response) دے پائیں گے۔
اجتماعی زندگی کےلیے یہ ایک اہم اصول ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ ہوگا کہ معاشرہ بگاڑ کا معاشرہ بن جائے گا— سن کر مان لینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پہلے غلط فہمی پیدا ہوگی۔ اس کے بعد شکایت اور نفرت کا سلسلہ جاری ہوجا ئے گا۔ عمل اور ردعمل(reaction) کے نتیجے میں یہ سلسلہ بڑھتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ بریک ڈاؤن (breakdown )تک پہنچ جائے گا۔
اس لیے ضروری ہے کہ سنی ہوئی بات کی بے لاگ انداز میں تحقیق کی جائے۔ تحقیق کے تقاضے کو پورا کیے بغیر کوئی رائے قائم نہ کی جائے۔ کسی بھی حال میں رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ اس طرح کے معاملے میں جو روش اختیار کی جائے، وہ جذبات پر مبنی نہ ہو،بلکہ وہ حقیقت واقعہ پر مبنی ہو۔
واپس اوپر جائیں

بڑا فتنہ

پیغمبر اسلام کی طرف منسوب کرکے ایک روایت اس طرح آئی ہے: الامام الجائر خیر من الفتنۃ (ادب الدنیا و الدین للماوردی، صفحہ 219)۔ یعنی ظالم حکمراں فتنہ سے بہتر ہے۔یہاں ظالم سے مراد حقیقی ظالم نہیں ہے، بلکہ وہ حاکم ہے جس کو کچھ لوگ ظالم سمجھ لیں، اور ان کے خلاف لڑائی چھیڑ دیں۔ حکمراں سے لڑائی کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ واقعہ اس وقت ہوتا ہے، جب کہ کچھ لوگ کسی حاکم کے خلاف شکایات کو لے کر اس کو ظالم بتائیں، اور ظالم کے ظلم کو ختم کرنے کے نام پر اس سے لڑائی چھیڑ دیں۔
ظاہر ہے کہ حاکم جب اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرے گا تو وہ اس کو مٹانے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دے گا۔ اس طرح یہ ہوگا کہ جو چیز پہلے صرف بظاہر ظلم تھی، وہ اب جنگ و قتل کی صورت اختیار کر لے گی۔ لوگ مارے جائیں گے، لوگ پکڑے جائیں گے، لوگوں کی آزادیاں چھینی جائیں گی، لوگوں کے اوپر نئی نئی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ مثلاً اگر وہ مسجد میں حاکم کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری کیےہوئے تھے، تو مسجد پر پابندی لگے گی،لوگ کتابوں میں حاکم کے خلاف باتیں چھاپ رہے تھے تو ایسی کتابیں ضبط کی جائیں گی۔ لوگ اگر جمعہ کے خطبے میں اس قسم کی باتیں کریں گے تو حکومت جمعہ کے خطبے کو اپنےچارج میں لے لے گی۔ اس طرح ظلم کے خلاف تحریک عملاً کاؤنٹر پروڈکٹو ثابت ہوگی۔ چھوٹے ظلم کے بعد بڑا ظلم پیدا ہوگا۔ لوگوں کی آزادیوں پر پابندی لگے گی۔ ظلم کے جواب میں تشدد پیدا ہوگا۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی کو نظر آئے کہ حاکم ظلم کر رہا ہے تو وہ اس کے مقابلے میں صبر کی پالیسی اختیار کرے۔ وہ یا تو اس معاملے میں بالکل خاموش رہے، یا اگر وہ کچھ کہنا چاہتا ہے تو وہ ہر گز جوابی تحریک نہ چلائے، بلکہ تنہائی میں حکمراں سے مل کو اس کو نصیحت کرے۔ اس سے زیادہ کچھ کرنا ظلم میں اضافہ کے ہم معنی ہے۔
واپس اوپر جائیں

فوکس کو سمیٹنا

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ یہ تحریکیں مثبت معنوں میں کوئی نتیجہ خیز کام نہیں کرسکیں۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ تقریباً ہر ایک نے اپنے فوکس کو پھیلایا۔ انھوں نے جامعیت کے غلط تصور کے تحت بہت سے کاموں کو اپنے دائرے میں لے لیا۔ یہ کام کا صحیح طریقہ نہیں۔ کام کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ فوکس کو سمیٹا جائے۔صرف فوکس کو سمیٹنے کی شکل میں کوئی بڑا کام ہوسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دور آخر کے لیے اہل ایمان کو یہ نشانہ دیا تھا، جب کہ آپ نےکہا تھا: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر، ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر 23814 ) ۔ یعنی روئے زمین پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر باقی نہیں بچے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کے کلمہ کو داخل کردے گا۔اس حدیث میں ادخال کلمہ سے مراد عملاً ادخال قرآن ہے۔ یعنی قرآن کو ہر گھر میں اور ہر انسان تک پہنچایا جائے۔ گھر سے مراد رہائش گاہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تعلیم گاہ، ہر لائبریری ، ہر ادارہ،ہر ہوٹل، وغیرہ میں اس کو پہنچادینا۔
یہ حدیث بظاہر دور آخر کےلیے ہے، جب کہ کمیونی کیشن کا زمانہ آجائے۔ قرآن کو ہر زبان میں ترجمہ کرکے اس کو ہر گروہ کی قابل فہم زبان (understandable language) میں پہنچانا ممکن ہوجائے، خواہ پرنٹ ایڈیشن کے ذریعہ ہو یا الیکٹرانک ایڈیشن کے ذریعہ۔ مسلمان لمبے عرصے سے پولیٹکل ایمپائر کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ فوکس کو سمیٹا جائے، اور صرف ایک کام کو اپنا فوکس بنایا جائے، اور وہ ہے قرآن کے اشاعتی ایمپائر کا قیام۔ جیسا کہ عیسائیوں نے ویٹیکن کو بائبل کا اشاعتی ایمپائر بنا دیا ہے۔ دعوت کے پہلو سے اسلام کا نشانہ کنورزن یا پولیٹکل غلبہ نہیں ہے۔ بلکہ صرف پرامن طور پر ابلاغ (پہنچادینا) ہے۔ داعی کا کام پہنچا دینا ہے۔ اس کے بعد یہ مدعو کا معاملہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرتا ہے یا نہیں۔قرآن میں یہ حکم 20 سے زائد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے:مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ (5:99)۔
واپس اوپر جائیں

علمی انداز، صحافتی انداز

قرآن میں ایک معاملے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ بیان کرے مثال مچھر کی یا اس سے بھی کسی چھوٹی چیز کی۔ پھر جو ایمان والے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ حق ہے ان کے رب کی جانب سے۔ اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال کو بیان کرکے اللہ نے کیا چاہا ہے۔ اللہ اس کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اس سے راہ دکھاتا ہے۔ اور وہ گمراہ کرتا ہے ان لوگوں کو جو نافرمانی کرنے والے ہیں (2:26)۔
قرآن میں کسی معاملے کو واضح کرنے کے لیے مچھر اور مکڑی کی مثال دی گئی۔ اس کو دیکھ کر منکرین نے اس کا مذاق اڑایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ کیسا قرآن ہے، جس میں مچھر اور مکڑی کی مثال دی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا گیا کہ یہ مت دیکھو کہ جو مثال دی گئی ہے، وہ کس چیز کی مثال ہے،بلکہ اس میں جو سبق ہے، اس سبق کو دیکھو۔
یہ واقعہ قدیم زمانے کے منکرین کا ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی اس واقعہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں الفاظ بدل گئے ہیں۔ ذہن وہی ہے، البتہ وہ مختلف الفاظ میں ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں آپ کسی سے ایک سچائی کی بات کہیں گے، تو وہ کہے گا کہ آپ کا اسلوب تو صحافتی اسلوب ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جو بات کہیں ، علمی اسلوب میں کہیں۔ تب آپ کی بات میں وزن ہوگا۔
کوئی بات خواہ وہ بظاہر مذہبی ہو یا سیکولر اس کو بیان کرنے کے لیے بیان کرنے والا ایک اسلوب اختیار کرتا ہے۔ اس اسلوب میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس میں کتنا وضوح (clarity) ہے، وہ کتنا زیادہ انسانی ذہن کو ایڈریس کرتا ہے، اس میں سبق کا پہلو کتنا ہے۔ کسی بات کے سلسلے میں اصل اہمیت سبق کی ہے، نہ کہ کسی دوسری چیز کی۔اسلوب ہمیشہ اضافی ہوتا ہے، اور معنویت ہمیشہ حقیقی۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف ایک رحمت

کائنات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے مختلف اجزاء میں بہت زیادہ تنوع (diversity) پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کائنات میںکامل توافق (harmony) موجود ہے۔ اس اعتبار سےکائنات ایک ماڈل ہے کہ کس طرح یہ ممکن ہے کہ کامل اختلاف کے باوجود آپس میں کامل اتحاد پایا جائے۔
انسانوں کے درمیان بھی اسی طرح اختلاف یا تنوع موجود ہے۔ مگر یہاں عملاً برعکس صورت حال پائی جاتی ہے۔ انسانوں کے درمیان اختلاف کی بنیاد پر ٹکراؤ ہے۔ اس کے نتیجہ میں انسانی سماج میں نفرت اور تشدد، یہاں تک کہ جنگ کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ کائنات کے دو حصوں میں یہ فرق کیوں۔ مادی حصۂ کائنات میں اختلاف کے باوجود اتحاد پایا جاتا ہے۔ جب کہ انسانی دنیا میں اختلاف لوگوں میں ٹکراؤ کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی خواہش پر چلتا ہے،کائنات کے ماڈل کو وہ نہیں اپناتا۔
کائنات کا ماڈل خالق کے تخلیقی منصوبہ پر مبنی ہے۔ خالق کی منشا کے مطابق مادی دنیا میں مختلف اجزاء کے متحد اور متوافق عمل سے اعلیٰ نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ماڈل گویا ایک مظاہرہ ہے، جو بتاتا ہے کہ انسان بھی اسی یونیورسل ماڈل کو اختیار کرے۔ فطرت کے ماڈل کو اختیار کرنے ہی میں انسان کی اعلیٰ ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔
خالق نے انسان کو تنوع کے اصول پر پیدا کیا ہے۔ ہر عورت اور ہر مرد کے اندر الگ الگ صفات (qualities) پائی جاتی ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس مبنی بر تنوع تخلیق (diversity-based creation)کو دریافت کریں۔ وہ اس تنوع سے ٹکرانے کے بجائے اویل (avail) کرنے کا آرٹ سیکھیں۔ اس طرح انسان کے تمام معاملات اسی طرح درست طور پر قائم ہوجائیں گے، جیسا کہ کائنات کے بقیہ حصہ کے معاملات قائم ہیں۔ (سور ۃ اللیل آیت4 کا سبق)
واپس اوپر جائیں

عیب کا تحفہ

حضرت عمر فاروق ایسے انسان کو بہت پسند کرتے تھے، جو ان کو ان کی غلطی سے آگاہ کرے۔ اس سلسلےمیں ان کا ایک قول ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: رحم اللّٰہ امرأً أہدى إلی عُیوبی (مرآة الزمان فی تواریخ الأعیان، 5/389)۔ یعنی اللہ اس انسان پر رحم کرے، جو مجھ کو میرے عیب کا تحفہ بھیجے۔
یہاں عیب سے مراد غلطی ہے۔ اگر کسی انسان سے کوئی غلطی ہوجائے، اور اس پروہ متنبہ نہ ہوسکے تو ووسرے انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ خیرخواہی کے جذبہ کے ساتھ اس کی غلطی کی نشاندہی کرے۔ بتانے والا خیرخواہی کے ساتھ بتائے، اور سننے والا شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کرے۔ جس سماج کے لوگوں میں یہ اسپرٹ ہو، وہ سماج ہمیشہ ترقی کرے گا۔ ایسے سماج کو کوئی چیز ترقی سے روکنے والی نہیں۔ غلطی کی نشاندہی ایک مثبت عمل ہے۔ یہ عمل فطری انداز میں ہونا چاہیے۔اس عمل کی صحیح اسپرٹ یہ ہے کہ نشاندہی کرنے والے کے اندر بڑائی کا جذبہ نہ ہو، اور جس انسان کو اس کی غلطی بتائی گئی ہے، وہ اس کو وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔اس اسپرٹ کے ساتھ جب یہ کام کیا جائے تو یقینا ًغلطی کی نشاندہی ایک تحفہ کا معاملہ بن جائے گا۔
غلطی کی نشاندہی تحفہ کیوں ہے۔ وہ آدمی کو اس کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا معاملہ ہے۔ غلطی کی نشاندہی کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اپنے بھائی سے یہ کہے کہ تمھاری فلا ں عادت تمھاری ترقی میں رکاوٹ ہے، تم اپنے آپ کو اس عادت سے بچاؤ۔ تاکہ تمھاری ترقی کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو اپنی غلطی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسی حالت میں جو انسان اس کی غلطی سے باخبر ہو، اس کو چاہیے کہ وہ خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ یہ بات اس کو بتائے۔ خیر خواہی کی علامت یہ ہے کہ آدمی اس معاملہ میں اتنا زیادہ سنجیدہ ہو کہ وہ اپنے ساتھی کی اصلاح کے لیے دعا کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

مثبت فکر

دور اول کے مسلمانوں نے جو بے نظیر کامیابی حاصل کی اس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان میں کا ہر فرد مکمل معنوں میں مثبت سوچ (positive thinking) کا مالک تھا۔ وہ ،قرآن کے مطابق عسر میں یسر کا پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ وہ بظاہر شکست کے واقعہ میں فتح کا راز دریافت کر لیتا تھا۔ اس کے لئے پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مثبت خوراک کا دستر خوان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہی مزاج تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جب مسلم سلطنتیں اہل مغرب کے ہاتھوں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد جو مسلم رہنما اٹھے وہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے تھے۔انہوں نے دور جدید کی مسلم نسلوں کو احتجاجی ذہن میں مبتلا کر دیا۔ ساری دنیا کے مسلمان ، خواص اور عوام دونوں احساس محرومی (persecution complex) میں مبتلا ہوگئے۔ اس نازک تاریخی موقع پر مسلم رہنمائوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوگئے جس کو انگریزی میں پیرا نوئیا(paranoia)کہاجاتاہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار کر لیںگے اور اگر وہ فلاح کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار نہ کریں گے (الاعراف 7:146)۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ منفی پکار کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، مگر مثبت پکار کی طرف وہ اس طرح نہیں دوڑتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ منفی کلام حال کی زبان میں ہوتا ہے اور مثبت کلام ہمیشہ مستقبل کی زبان میں ، اور تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ مستقبل کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور حال کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت زیادہ۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ناکامیوں کا راز منفی طرز فکر ہے اور ہر قسم کی کامیابی کا راز مثبت طرز فکر۔ منفی طرز فکر ہر قسم کی دینی اور اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ ہے اور مثبت طرز فکر اس کے مقابلے میں ہر قسم کے دینی اور دنیوی خیر کا سر چشمہ ۔
واپس اوپر جائیں

آج کی نوجوان نسلیں

موجودہ زمانے کے نوجوانوں کا مسئلہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ ان کے ذہن میں کچھ مثبت سوالات ہیں۔ مگر ہمارے رہنما ان سوالات کے جوابات منفی انداز میں پیش کررہے ہیں۔ یہ ایک تضاد کی صورت حال ہے، اور یہی تضاد آج کے نوجوانوں کا اصل مسئلہ ہے۔ آج کا نوجوان بھٹکا ہوا نوجوان نہیں ہے، بلکہ وہ متلاشی (seeker) نوجوان ہے۔
بے لاگ تجزیہ بتاتا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بزرگوں نے ان کو یہ بتایا کہ دور جدید ایک مخالفِ مذہب دور ہے۔ اس سوچ کے تحت ہمارے بزرگوں نے نوجوانوں کو یہ ٹارگٹ دیا کہ وہ دور جدید کو بدلیں۔ اس بنا پر ہماری کئی نسلیں خود ساختہ نظریہ کے تحت دور جدید سے لڑتی رہیں۔ لیکن عملاً ان کو ناکامی کے سوا کچھ اورنہیں ملا۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے بزرگ کھلے طور پر اعتراف کریں کہ ان کی نشاندہی غلط تھی۔ وہ اعلان کریں کہ دور جدید جو سائنس کی دریافتوں کے تحت بنا ہے، وہ ایک موافق مذہب دور تھا، لیکن ہمارے بزرگوں نے خلاف واقعہ طور پر اس کو مخالف مذہب دور کی حیثیت دے دی، اور ہماری جدید نسل نےبے فائدہ طور پر اس کے خلاف نظری یا عملی جنگ چھیڑ دی۔ اس کے نتیجہ میں مایوسی کے سوا ان کو کچھ اور نہیں ملا۔
اب کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ آج کے نوجوانوں کو یہ بتایا جائے کہ جدید دور ایک موافق مذہب دور ہے۔ جدید تہذیب ایک موافق مذہب تہذیب ہے۔ جدید دور نے ہمارے لیے نئے مواقع کھول دیے ہیں، جن کو اویل کرکے ہم تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ مثلا قدیم دور توہمات کا دور تھا، آج کا دور حقائق کا دور ہے۔ قدیم دور جبر کا دور تھا، آج کا دور آزادی کا دور ہے، وغیرہ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہم نوجوانوں کو ایک نیا امید سے بھرا آغاز دے سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

وقت کا استعمال

ایک حدیث رسول ہے۔اس کا ترجمہ یہ ہے: اگر تم دیکھو کہ قیامت آگئی، اور تمھارے ہاتھ میں ایک پودا ہے، تو اس کو فوراً زمین میں گاڑ دو ( فلیغرسہا )۔مسند البزار، حدیث نمبر7408۔ اس حدیث رسول میں، ایک مثال کی صورت میں وقت کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت اتنا زیادہ قیمتی ہے کہ اگر تمھارے پاس وقت (time) کا ایک لمحہ (moment) ہو تب بھی ضرور اس کو استعمال (avail) کرو، تمھارا کوئی وقت غیر استعمال شدہ (unavail)نہ رہ جائے۔ تمھاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وقت کا ہرلمحہ تمھارے لیے ایک کار آمد لمحہ بن جائے۔
مولانا شبلی نعمانی(1857-1914) نے 1892 میں ایک بحری سفر کیا تھا۔ اس سفر میں انڈیا سے نہر سوئز تک پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ (1864-1930) ان کے ساتھ تھے۔ مولانا شبلی نے اپنی کتاب سفرنامہ روم و مصر و شام میں لکھا ہے کہ سفر کے دوران ایک بار سمندر میں سخت طوفان آگیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جہاز ڈوب جائے گا۔ اس وقت مولانا شبلی پروفیسر آرنلڈ کے کیبن میں گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ پروفیسر آرنلڈ خاموشی کے ساتھ ایک کتاب پڑھ رہے ہیں۔ مولانا شبلی نے کہا کہ جہاز ڈوبنے والا ہے ، اور آپ کتاب پڑھ رہے ہیں۔ پروفیسر آرنلڈ نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ زندگی کا جو لمحہ باقی ہے، اس کو میں استعمال کرلوں۔
وقت سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ مگروقت ہر لمحہ بھاگ رہا ہے۔ زمین کے سفر کی رفتار ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے۔ اس کے مقابلے میں روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ ہے۔ وقت کی رفتار اس سے بھی زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ جو وقت چلا گیا، وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں۔ جس آدمی کو اس حقیقت کا احساس ہو، وہ وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ وہ دوڑتے ہوئے وقت کو پکڑے۔ وقت کو استعمال کیے بغیر اس کو ہرگز آگے نہ بڑھنے دے۔ ایسے ہی لوگ اپنی زندگی کو کارآمد بناتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ کوئی بڑا کام کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

غصہ کا مثبت پہلو

غصہ کو عام طور پر ایک منفی ظاہرہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن غصہ کا ایک مثبت پہلو ہے۔ آدمی اگر غصہ کے وقت بے صبر ہوجائے تو غصہ اس کے لیے نقصان کی چیز بن جاتا ہے۔ لیکن آدمی اگر غصہ کے وقت خود کوکنٹرول کرے تو غصہ اس کے لیے ایک مثبت عمل بن جائے گا۔ غصہ اجتماعی زندگی کا ایک ظاہرہ ہے۔ آدمی اگر تنہائی کی زندگی گزاررہا ہو تو اس کو غصہ نہیں آئے گا۔ غصہ اس وقت آتا ہے جب کہ آدمی دوسروں کے درمیان ہو، اور دوسروں کی کوئی بات اس کو پسند نہ آئے ۔ اس وقت اس کے اندر غصہ بھڑکتا ہے۔ لیکن غصہ اپنی ذات میں کوئی برائی نہیں۔ غصہ اس وقت بری چیز بن جاتا ہے، جب کہ آدمی غصہ کے وقت ردعمل کا شکار ہوجائے۔ وہ غصہ کو مینج کرنے میں ناکام رہے۔
غصہ ایک فطری ظاہرہ ہے۔غصہ کسی آدمی کے لیے ایک شاکنگ تجربہ ہوتا ہے۔ جب کسی آدمی کو غصہ آتا ہے تو فطری طور پر اس کے اندر سے بڑی مقدار میں اینگر انرجی (anger energy) خارج ہوتی ہے۔ غلط یہ ہے کہ آدمی اپنی اینگر انرجی کو مینج نہ کرسکے۔ لیکن اگر آدمی اپنے اینگر انرجی کو مینج کرسکے تووہ اس کی فکری طاقت میں اضافہ کا ذریعہ بن جائے گی۔
جب کسی بات پر آدمی کو غصہ آتا ہے تو اس کے اندر سوچنے کا عمل (thinking process) بہت تیز ہوجاتا ہے۔ یہ ظاہرہ اس کی فکری طاقت کو بہت بڑھا دیتا ہے۔ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے۔اس کی قوت فیصلہ بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس کی کارکردگی کی طاقت میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر چھپی ہوئی توانائی شدت کے ساتھ جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے دماغ کی بند کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے۔جب غصہ آئے تو صرف یہ کیجیے کہ چپ ہوکر سوچنا شروع کردیجیے، او ر اس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوگا کہ غصہ کے وقت ریلیز ہونے والی اینگر انرجی مثبت انرجی بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی سکون

زندگی میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ انسان کے لئے سپریم چیز کیا ہے۔ میں اپنے تجربے کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ کسی انسان کے لئے سپریم چیز پیس آف مائنڈ ہے۔ کسی انسان کے لئے سپریم چیز نہ تو مَنی (money)ہے، نہ فیم (fame) ہے، نہ پاور (power)ہے، اور نہ شہرت (popularity) ۔ کسی انسان کے لئے سپریم یافت وہی چیز ہوسکتی ہے جو اس کو فل فل مینٹ (fulfillment)دے۔ اور تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ پیس آف مائنڈ کے سوا کوئی اور چیز انسان کو فل فل مینٹ نہیں دیتی۔
پیس آف مائنڈ (peace of mind)کی یہ اہمیت کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پیس آف مائنڈ انسان کی نیچر کے مطابق ہے۔ انسان اپنی فطرت (nature) کے مطابق یہ چاہتا ہے کہ وہ آخری حد تک اپنے آپ کو مطمئن بنا سکے۔ مگر کسی انسان کو اطمینان صرف داخلی اچیومینٹ (achievement)پر ہوسکتا ہے، خارجی اچیومینٹ پر نہیں۔ اسی داخلی یافت کا دوسرا نام انٹلکچول ڈیولپمنٹ یا اسپریچول ڈیولپمنٹ ہے۔
امریکی دولت مند بل گیٹس (Bill Gates)نے ڈالر کے بارے میں اپنے تجربے کو ان الفاظ میں بیان کیا:
Once you get beyond a million dollars, it’s the same hamburger!
بل گیٹس نےجو بات ڈالر کے بارےمیں کہی ہے، وہی بات ہر خارجی اچیومینٹ کے لئے درست ہے۔ یہ خارجی اچیومینٹ خواہ دولت ہو، یا بزنس ہو، یا شہرت (fame)ہو، یا پولٹیکل پاور ہو، یا اور کوئی مادی چیز ہو۔ایسی حالت میں انسان کو چاہئے کہ وہ پیس آف مائنڈ کا فارمولا دریافت کرے۔ اور یہ مقصد صرف انٹلکچول ڈیولپمنٹ کے ذریعہ حاصل ہوسکتاہے— یعنی مطالعہ اورتفکر (contemplation) کے ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 257

قرآن کی عالمی اشاعت: سی پی ایس انٹرنیشنل کی یہ کوشش ہے کہ قرآن کے ترجمے اور دعوہ لٹریچر ہر زبان میں شائع کیے جائیں۔ تاکہ ہر انسان تک خدا کی بات اس کی قابل فہم زبان میں پہنچ سکے۔ اس کوشش کے نتیجہ میں ہندستان کی علاقائی زبانوں اور بین الاقوامی زبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع ہو رہے ہیں۔ جن نیشنل زبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں وہ یہ ہیں: ہندی (اردو داں طبقہ کے لیے)، ہندی (ہندی داں طبقہ کے لیے)، کنڑ، گجراتی، پنجابی، تیلگو، ملیالم، تامل، اردو، اور بنگلہ (طباعت کے مرحلہ میں)۔ نیز جن بین الاقوامی زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: انگلش، فرنچ، جرمن، ڈچ، اٹالین، اسپینش، رشین، پرتگیز، چائنیز، پولش اور نابینا لوگوں کے لیے بریل ترجمہ۔ خواہش مند، حضرات، جو قرآن کے عالمی اشاعت کا حصہ بننا چاہتے ہیں ، وہ گڈ ورڈبکس، یا سی پی ایس انٹر نیشنل (ای میل info@cpsglobal.org:) سے رابطہ قائم کریں۔
ایک خط: السلام علیکم، میرا نام زبیر ہے، میں افغانستان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے بڑے بھائی، مولاناعبدالغفور پیروز کو دہشت گردوں نے مار ڈالا۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی تفسیر تذکیر القرآن کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ تفسیر ابھی تک طبع نہیں ہوئی ہے۔ مرحوم مولانا نے اللہ اکبر کا بھی ترجمہ کیاتھا، اور وہ مطبوع ہے۔ تفسیر بہت ضخیم ہے۔ آپ اسے چھاپیں اور ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہمارے ایک ساتھی جلال الرحمن شرر کچھ عرصہ پہلے مولانا صاحب سے مل چکے ہیں۔ صدر اسلامی مرکز کی پشتو زبان میں ترجمہ شدہ کچھ کتابیں بھی انھوں نے آپ لوگوں کو دی تھیں، جن میں ایک امن عالم کا پشتو ترجمہ بھی ہے۔ میں کابل میں رہتا ہوں۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ اسلام کے صحیح پیغام کو افغانستان میں پھیلانے کی توفیق دے۔ آمین
ایک تجربہ: میرے گھر کے ایک فرد کو کینسر کی بیماری کے آخری درجہ میں ناگپور کے Snehanchal Palliative Care Centre میں داخل کیا گیا۔ میں نے وہاں یہ دیکھا کہ کس طرح اس دواخانہ میں مریضوں کی خدمت آخری حد تک کی جاتی ہے۔ انھیں ہمت دی جاتی ہے۔ وہ انہیں ہر طرح سے مثبت طریقے سے سوچنے کے قابل بناتے ہیں، اور دن میں دو بار سارے مریضوں کے لئے اجتماعی Prayer کی جاتی ہے جس میں خدائے واحد سے سب کے لئے خیر کی دعائیں کی جاتی ہیں۔میں نے سوچا انہیں CPS کا لٹریچر دینا چاہیے۔ جسےان لوگوں نے بہت خوشی سے قبول کیا۔ ادارہ کے ڈائرکٹر مسٹر نوین دیشپانڈے صاحب سے تفصیلی بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ یہ بہت اچھا کام کر رہےہیں۔ لیکن یہ کبھی نہیں سوچنا کہ یہ کام آپ لوگ کر رہے ہو۔ہم بھی اپنے کام کے بارے میں ایسا نہیں سوچتے۔بلکہ یہ سارے خیر کے کام ہمارا خدا کر رہا ہے۔اپنی خصوصی مدد کے ساتھ وہ ہمیں اس کام کے لئے استعمال کر رہا ہے۔یہی ہماری خوش نصیبی ہے۔ ایک اور خاص بات انھوںنے مولانا صاحب کی کتاب، ’موت کی یاد‘کا مراٹھی ترجمہ دیکھ کر کہا کہ اس کتاب کو یہاں کے ہر مریض کو دے دیا جائے، یہ سب کے کام کی کتاب ہے۔ اس پورےواقعے سے مجھے یہ سبق ملا کہ ہمارا رب اپنے پیغام کو ہر خاص وعام تک پہنچا کر رہے گا، اور ہر داعی کے ساتھ اس کی خصوصی مدد شامل حال ہے۔(ساجد احمد خان CPS ناگپور،[Mob. 8237006029] (
قرآن کا ایک تجربہ: 15 نومبر 2017کو میں سورت سے ممبئی کے لئے روانہ ہوا۔ ٹرین میں میرے پاس دوغیر مسلم بھائی بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں کی عمریں 25 سے 30 کے درمیان رہی ہوگی۔ دونوںپڑھے لکھے تھے ۔میں جب بھی سفر پر جاتا ہوں انگلش قرآن کی کاپی ساتھ رکھتا ہوں، لیکن بہت کم ہی دینے کی ہمت کر پاتا ہوں ۔ اس دن بھی میں نے چاہا کے میں انھیں قرآن دوں۔ لیکن ہمت نہ کر پایا کہ اچانک ٹرین میں ایک حادثہ پیش آیا، اور ٹرین رک گئی۔ لوگ اترکر مرنے والے کی فوٹو لینے لگے۔ لیکن ان میں کا ایک شخص وہیں بیٹھا رہا، اور افسوس کرنے لگا۔ جب اس کا ساتھی آکر اسے فوٹو دکھانے لگا تو اس نے منع کردیا کہ میرے اندر اس کو دیکھنےکی ہمت نہیں ہے۔ میں نے سمجھ لیا کہ یہ بھی میری طرح رقیق القلب ہے ۔تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنی بیگ سے قرآن نکالا، اور پڑھنا شروع کیا۔ کچھ دیر پڑھنے کے بعد میں نے اسے ہاتھ ہی میں رہنے دیا، اور اللہ سے دعا کرنے لگا کہ اے اللہ، مجھ میں تو ہمت نہیں ہے تو کچھ ایسا کر کہ وہ خود مجھ سے قرآن مانگے ،اور ایسا ہی ہوا۔ اس نے مجھ سے قرآن لیا، اور بہت دیر تک قرآن پڑھتا رہا۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تو بہت ہی آسانی سے سمجھ میں آ رہا ہے، اور پھر وہ قرآن کی فوٹو لینے لگا کہ میں اسے آرڈر سے منگوا لوں گا۔ میں نے اسے کہا کہ آپ اسے رکھ لیں، میرے پاس دوسری کاپی موجود ہے۔ اس نے وہ کاپی شکریہ کے ساتھ رکھ لی، اور مجھ سے پوچھا کہ اسے پڑھنے سے پہلے مجھے کیا کرنا پڑے گا، یعنی کس طرح رسپیکٹ دینی ہوگی ۔جب اس نے یہ کہا تو میرے پاس ایک ہی جواب تھا : یہ آپ کے ایشور کی کتاب ہے، یہی سمجھ کر پڑھیں۔اس طرح سےہم دونوں جدا ہو کر اپنی اپنی منزل پر چلے گئے۔ دوسرے دن جب میں نے اپنا موبائل دیکھا تو اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس نے ذیل کا میسج بھیجا تھا:
Good morning, heartily thanks for the Quran …Prashant Somani
مولانا، اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ رحمت والے دین سے متعارف آپ نے کرایا اللہ کے بندوں سے محبت کرنا یہ ہمارے دین کی تعلیم ہے لیکن اس تعلیم کا حقیقی مفہوم ہم نے آپ سے سیکھا ۔اللہ اس دعوت کی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ہمیں توفیق دے ۔آمین (محمد انس ندوی، سورت ،گجرات [Mob. 9898217134])
درس قرآن : صدر اسلامی مرکز ہر اتوار کو درس قرآن دیا کرتے ہیں۔ ان تقاریر کو سی پی ایس انٹرنیشنل کی ویب سائٹ (www.cpsglobal.org)سے ڈاؤن لوڈ کرکے سنا جاسکتا ہے۔ اس درس قرآن کو سننے کے بعد کچھ لوگوں نے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں، وہ ذیل میں دیے جارہے ہیں:
■ آپ کے آج (5 نومبر 2017) کے درس قرآن (سورہ البقرۃ آیات 3-1) سے یہ واضح ہوا کہ اجتماعی معاملات میں پریکٹکل وزڈم کو مد نظر رکھا جائے، نہ کہ آئڈیل کو۔اس کے لئے ضروری ہے کہ آدمی رجل واق بن کر رہے، ورنہ وہ حصائد لسان کا شکار ہو کر رہ جائے گا ۔ دوسری بات یہ کہ ھدی للمتقین کو جس طرح آپ نے بالکل نئے انداز میں بتایا ہے، ایک عالم دین کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا اس سے پہلے میں نے نہیں سنا، نہ کسی اور لٹریچر یہ بات پڑھی ہے ۔آپ نے جب یہ کہا کہ رسول اللہ نے 13 سال تک کعبہ میں بتوں کی موجودگی پر کچھ نہیں کہا— اس جملہ سے مجھے رسول اللہ کا اصل مشن کیا تھا واضح ہوا۔ وہ یہ کہ رسول اللہ دراصل انسان کو خدا سے جوڑنے کے لیے آئے تھے۔ آپ کا اصل فوکس انسان کا داخلی شعور تھا۔ انسان کو خدا سے جوڑنے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ تیرہ سال تک مکہ میں رہے، مگرآپ نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ بلکہ انسان کو شعور کی سطح پر خدا کی عظمت میں جینے والا بنانے میں لگے رہے۔ جب یہ بات مجھے سمجھ میں آئی تو اس کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ بالکل یہی اسلوب، یہی مقصد الرسالہ مشن کا بھی ہے۔ میں نے مولانا، آپ کو رسول اللہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پایا ہے۔ جب سے الرسالہ مشن سے جڑا ہوں، اور آپ کی باتوں کو سن رہا ہوں اور پڑھ رہا ہوں تو یہی مجھے لگا ہے۔
رہی درس قرآن سے متعلق بات تو مولانا، آپ نے جو درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس بارے میں مَیںیہ کہنا چاہوں گا کہ میں خود ایک مدرسہ کا فارغ ہوں۔ لیکن آپ جس طرح سے قرآن کی آیات کو واضح کر تے ہیں اور اسے ہماری روحانی غذا بناتے ہیں، ایسا میں نے نہیں دیکھا۔دیگر علماء کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ سلف نے جس طرح سے آیات کی تفسیر کی ہے، وہ امانت داری کے ساتھ ہم تک پہونچائیں، بس۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ لیکن آپ ان آیات کو دور جدید پر منطبق کرتے ہیں، اور اسے ہمارے لیے روحانی غذا بنادیتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام ہمارے لیے ہمارے اسلاف کی وراثت نہیں لگتا، بلکہ وہ ہماری ڈسکوری بن جاتا ہے۔ گویا اسلام میری اپنی دریافت ہے، نہ کہ کسی دوسرے کی طرف سے ملا ہوا ایک ورثہ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی باتیں سن کر پڑھ کر اسلام مزید نکھر کر آتا ہے، وہ ہمارے لیے مزید دلچسپی اور شوق کا دین بن جاتا ہے۔ ہمیں اس دن بہت خوشی ہوتی ہے جب کہ اسلام کی کوئی بات ڈسکور ہوجائے، اسلام کی کوئی بات ہماری روحانی غذا بن جائے۔ اللہ مجھے الرسالہ مشن پر ثابت قدم رکھے۔ اور زیادہ سے زیادہ اعلی معرفت حاصل کرنے کی توفیق دے تاکہ جنت میں اعلی درجہ مل سکے، آمین۔ (مولانا عبد الباسط عمری، قطر)
■ اتوار (12 نومبر 2017)کے درس قران میں مولانا نے سورۃ البقرۃ کی آیت :انی جاعل فی الارض خلیفۃ(2:30)میں خلیفہ کی جو تشریح کی وہ میرے لیے بالکل نئی ہے، اوراس آیت کو ایک نئے اندازسے سمجھنے پر ابھارتی ہے۔ اس سے پہلے یہ آیت میرے لئے بہت زیادہ غیر واضح تھی۔خلیفہ کا مفہوم بہت ہی معنی خیز ہے ۔اس سے پہلے میرے نزدیک سیاسی خلافت کا ہی تصور تھا۔ علمی و فکری خلافت کا تسلسل اور آخر میں دین رب کا مستند ہونا پھر اس کی حفاظت کی خلافت اور س کی اشاعت کے مطلوب مواقع اور وسائل کی خلافت،وغیرہ۔ الغرض سیاسی خلافت کے علاوہ دینی اور دعوتی خلافت کا جو تصور آپ نے بیان کیا، یہ میرے لیے واضح ہوا۔ اگر میں اس وضاحت سے محروم رہتا تو مطلوب الٰہی کے بارے میں مشتبہ رہ کر ہلاک ہوجاتا۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بھی سیاسی خلافت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، وہ دین رحمت کو دین زحمت بنا رہے ہیں۔ دین کی سیاسی تعبیر کرنے والے مقصد تخلیق کو اسی آیت سے واضح کرتے ہیں ۔ مگر مفسرین کی ایک بڑی تعداد نے قوم در قوم اور نسل در نسل کی خلافت کو مانا ہے ۔اس سےیہ واضح ہوا کہ قران کی اس آیت سے علمی اور دعوتی خلافت کا استدلال ممکن ہے ،نہ کہ سیاسی اقتدار والی خلافت۔ اس کے بعد ایک اورچیز میرے لیے غیر واضح تھی۔ وہ یہ کہ خدا کےاس تخلیقی منصوبہ میں کسی قوم کا یا نسل کا یکے بعد دیگرے آنا، کیا ہے۔ اس میں کوئی بڑا معنوی مفہوم اور مقصود سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔جب آپ نے یہ کہا کہ انسان کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ ہی علمی ارتقاء کا انقطاع ہوجاتا تھا ۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ علم و فکر کی تسلسل کے لئے خلافت کا پروسس جاری کیا جائے۔ یہاں تک کے خدا کادین محفوظ اور مستند ہوگیا، اور اس کی حفاظت اور اشاعت کے لئے حالات اور وسائل میسر ہوگئے۔ ماضی کی اسلامی خلافتوں نے نسل درنسل پیغام رب کو محفوظ کرلیا، اور اہل یورپ کی ایجادات نے مستند دین کی حفاظت اور اشاعت کا سامان کردیا۔گویا علمی خلافت کا مطلوب رول ادا کرنے کے لیے سارے وسائل ملے ہوئے ہیں۔ ایسے میں خلافت کو عالمی اقتدار کے معنی میں لینا خدا کے منصوبہ کو جیوپرڈائز (jeopardize)کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ مفہوم مجھے پہلی مرتبہ واضح ہوا۔اگر یہ نہیں جانتا تو خدا کا مطلوب جانے بغیر ہلاک ہوجاتا۔کیونکہ اختیار کی اس دنیا میں اقتدار کی جنگ چھیڑنا یہی سیاسی خلافت کی تبلیغ ہے، مگر اس کو اقامت دین کا خوبصورت نام دے دیا گیا ہے۔اس لیے جو بھی اس آیت کی بنیاد پر سیاسی خلافت کی تحریک چلاتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔یہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے دعوت دین کے لیےملے ہوئےمواقع کو موانع میں تبدیل کرنا ہے۔اس کے برعکس، آپ نے جو تصور خلافت دیا ، یعنی علمی اور فکری طور پر ایک دوسرے کا خلیفہ ہونا۔ اس سے تخلیق انسانی کی مثبت توجیہ مل جاتی ہے، اور مذہبی و سیکولر دونوں طبقۂ انسان کا اعتراف ہوجاتا ہے۔ نیز دور جدید کی معنویت سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس سےپر امن ایکشن اور اقدام کا راستہ مل جاتا ہے۔ یعنی خدا کے دین کو ہر ایک کے لیے پر امن طریقہ سے اویلبل(available) کرانا، اور ادخال کلمہ فی کل البیوت کا فرض ادا کرنا ہے۔جزاک اللہ خیرا (مولاناسیداقبال احمدعمری، عمرآباد، تامل ناڈو[Mob. 9994436917])
■ مفسرین کا وہ اقلیتی گروپ جس نے خلیفہ اورخلافت کا سیاسی تصور ڈیولپ کیا تھا، انھوں نے لوگوں کے ذہنوں کو واقعی غوغائیت اور شورش پسندی سے بھردیاہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں مفسرین کی وہ اکثریت جنھوں نے اس آیت کی تشریح یخلف بعضھم بعضا جیسے الفاظ سےکی تھی، انھوں نے بھی خلیفہ اورخلافت کےمفہوم کو غیرواضح اور نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ ان دونوں کے برعکس، اتوار (12 نومبر 2017)کے درس قران میں آپ نے جو تشریح اور آیت کی واقعاتی توجیہ کی ، اس سے مجھے پہلی مرتبہ خلیفہ اورخلافت کےمفہوم کی صحت مند اور واضح توجیہ ملی، اور میرا دل مذہبی اور سیکولر لوگوں کے کنٹری بیوشن کو لے کر شکر کے جذبات سے معمور ہوا، اور دعوت و ربانیت کے عملی تسلسل کو ایک مثبت جہت ملی ۔(مولانا فیاض الدین عمری، گلبرگہ، کرناٹک [Mob. 9448651644])
■ Thank you for the Quran! I work for a charity named Prisoners Abroad which supports British citizens in prison around the world. A number of the people we help are British Muslims. As they are in prison in a foreign country, even if they have the funds to purchase the Quran, they are often unable to find one in English. This last Quran you had sent me, I was able to send on to a person we are helping in prison in Italy. He was ever so grateful, as in Italy they are only available in Arabic and Italian, and I am told that other English speakers in the prison also study it. I would like to request for a larger supply of Qurans for sending out to our Muslim clients who request for them. We get approximately one request a month, so a parcel of 12 would probably last us a year and provide those of Muslim faith much needed support while they serve their sentences. Many thanks and kind regards. (Lee Hunnisett Prisoner & Family Support Co-ordinator Prisoners, London)
■ I have immensely benefitted from your splendid literature. I have read almost 70% of your literature as a student. I usually go through Al-Risala, studying deeply every topic. It is replete with spiritual motivation, rational arguments and balanced analysis. l have gone through Tazkeerul Quran almost four times. It has a constructive approach, conceptual clarity and spiritual inspiration. It possesses a unique blend of knowledge and wisdom. Tazkeerul Quran is a unique commentary on the Quran that lays emphasis on dawah work and its prerequisites. Your literature emphasizes self-introspection and can help a person come out of frustration and negative thinking. It advocates universal peace and brotherhood. It creates a positive and constructive mindset. I am a teacher of Physics in a senior secondary CBSE-affiliated school. In search of truth, I tried to associate with other movements as well, but remained dissatisfied due to a lack of healthy and positive environment. It is only after going through your literature I came to know the fact that faith and belief are never traditional or ancestral, rather they are products of an intellectual discovery of God. I also distribute Al-Risala, Spirit of Islam, copies of the Quran and other suitable books from your literature. (Imteyaz Ahmad, Gaya, Bihar)
واپس اوپر جائیں

Monday 1 January 2018

Al Risala | January 2018 (الرسالہ،جنوری)


پیغمبرانہ حکمت

Prophetic Wisdom
قرآن میں پانچ مقامات پر آیا ہے کہ پیغمبر کا کام لوگوں کو حکمت کی تعلیم دینا ہے۔ حکمت کے لیے انگریزی زبان میں وزڈم (wisdom)کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ڈکشنری میں تلاش کیا جائے کہ وزڈم متعین طور پر کیا ہےتو ڈکشنری میں اس کی کوئی واضح تعریف (definition) نہیں ملے گی۔ مثلا ڈکشنری یہ بتائے گی کہ وزڈم کامطلب ہے اچھا فیصلہ لینے کی صلاحیت :
The quality of having good judgement
مگر خودکسی آدمی کے اندر اچھا فیصلہ لینے کی یہ صلاحیت کیسے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا کوئی واضح جواب ڈکشنری میں نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ بعض اسکالر نے یہ کہہ دیا کہ وزڈم ان صلاحیتوں میں سے ایک ہے جن کی علمی تعریف کرنا مشکل ہے:
Wisdom is one of those qualities difficult to define (www.psychologytoday.com/basics/wisdom)
حکمت اگرچہ پیغمبر اسلام کی صفت ہے، لیکن راقم الحروف نے حدیث میں حکمت کی قولی تعریف تلاش کی تو مجھے کامیابی نہیں ملی۔ پھر میں نے ایک اور طریقہ اختیارکیا۔میں نے سوچا کہ جب پیغمبر اسلام ایک با حکمت انسان تھے تو ان کے عمل (practice) میں ضرور اس کی مثال ملے گی۔ یہ طریقہ کامیاب رہا۔ مجھے پیغمبر کے عملی اسوہ (نمونہ) سےمتعین طور پر یہ دریافت ہوئی کہ وزڈم کی علمی تعریف کیا ہے۔ میری دریافت کے مطابق وہ علمی تعریف یہ ہے — وزڈم اِس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی غیر متعلق پہلووں کو الگ کرکے متعلق پہلو کو دریافت کرسکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
پیغمبر اسلام کی زندگی اس اعتبار سے وزڈم کا کامل نمونہ ہے۔ آپ نے اپنی 23سالہ پیغمبرانہ حیات میں اسی وزڈم کو استعمال کیا، اور یہی وزڈم آپ کی اعلیٰ کامیابی کا خاص سبب تھا۔
پیغمبر اسلام پیغمبرِ فضلیت نہ تھے، بلکہ پیغمبرِ وزڈم تھے۔ پیغمبرِ فضیلت دوسروں کے لیے قابل تقلید نہیںہوتا، لیکن پیغمبرِ وزڈم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ آپ کا نمونہ ہر انسان کے لیے قابل فخر بننے کے بجائےقابل تقلید بن گیا۔
مستقبل پر نظر
پیغمبر اسلام پر پہلی وحی 610 عیسوی میں آئی ہے۔ اس وقت آپ مکہ سے 2 میل کے فاصلے پر تنہاغار حراء میں تھے۔ اس وقت اللہ کی طرف سے فرشتہ جبریل آپ کے پاس آیا۔ فرشتہ نے پیغمبر اسلام سے کہا : اقرأ (اے محمد پڑھو)، آپ نے اس کے جواب میں کہا:ما أنا بقارئ (میں پڑھنا نہیں جانتا)،اس کے بعد جبریل نے آپ کو پکڑا ، اورزور سے اپنے سینے سے لگایا۔ جبریل نے دوبارہ پڑھنے کے لیے کہا ، پیغمبر اسلام نے دوبارہ وہی جواب دیا۔ یہ عمل تین بار ہوا۔اس کے بعدجبریل نے آپ کو سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں پڑھائیں، اور آپ نے جبریل کے بولےہوئے کلام کو دہرایا۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3)
اس واقعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ نبوت کے اس پہلے تجربے میں آپ کو ایک عظیم سبق دیا گیا۔ وہ یہ کہ اپنے سفر میں حال کو نہ دیکھو، بلکہ مستقبل کو دیکھو، اپنے بالفعل (actual) کو نہ دیکھوبلکہ اپنے بالقوۃ (potential) کو دیکھو،زندگی میں یہ نہ دیکھو کہ کیا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا ہوسکتا ہے، زندگی میں کبھی یہ نہ سمجھو کہ فل اسٹاپ(۔) آگیا بلکہ ہمیشہ یہ یقین رکھو کہ زندگی میں کبھی کاما(،) ختم نہیں ہوگا، زندگی میں کبھی مایوس نہ ہو بلکہ ہمیشہ اپنے آپ کو پر امید بنائے رہو— پیغمبر اسلا م کی زندگی کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو اقرأ کا یہ پہلا تجربہ آپ کی پوری زندگی میں کار فرما دکھائی دے گا۔
ہر مذہب کا احترام
پیغمبر اسلام جب چالیس سال کے ہوئے تو آپ پر پہلی وحی اتری۔ یہ تجربہ آپ کے لیے نہایت شدید تھا۔ اس سلسلے میں جو واقعات روایت کی کتابوں میں آئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدیجہ نے آپ سے کہا کہ چلیے میں آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے چلتی ہوں۔ دیکھیے وہ کیا کہتے ہیں۔ ورقہ بن نوفل مکہ کے باشندے تھے۔ ان کی عمر نوےسال ہوچکی تھی۔ وہ مکہ کے ان لوگوں میں سے تھے، جن کو حنفاء کہا جاتاتھا۔ انھوںنے عبرانی زبان سیکھی تھی، اور تورات و انجیل کا مطالعہ کیا تھا۔ چناں چہ وہ نصرانی ہوگئے تھے۔ ورقہ نے جب آپ کی بات سنی تو انھوں نے کہا:یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر نازل کیا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں ! جو چیز تم لے کر آئے ہو، اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3)۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے دین میں مذہبی منافرت (religious hatred) کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ آپ کے لایا ہوا دین ہر مذہب کے لوگوں کے لیے یکساں خیر خواہی پر مبنی تھا۔ مزید یہ کہ یہ واقعہ صرف اخلاقی واقعہ نہیں، وہ اعلیٰ درجے کی دانش مندی ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام کے مشن میں میوچول لرننگ (mutual learning)کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس ملاقات سے آپ کی پریشانی ختم ہوگئی، ورقہ بن نوفل کی باتوں سے آپ کو اپنے مشن کے بارے میں ایک نیا یقین حاصل ہوا۔ بعض سیرت نگاروں کے نزدیک ورقہ بن نوفل پہلے شخص تھے، جو آپ کے اوپر ایمان لے آئے۔
توحید کا مشن، بتوں سے اعراض
پیغمبر اسلام کا مشن توحید کا مشن تھا۔ اس معاملے میں مقدس کعبہ کی تطہیر اپنے آپ شامل تھی، جس کی عمارت میں اس زمانہ کے مشرک لوگوں نے تقریبا 360بت رکھ دیے تھے۔ مگر یہ بے حد اہم بات ہے کہ پیغمبر اسلام نے جب قدیم مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا تو آپ نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنا مشن چلایا۔
آپ نے یہ پالیسی اختیار کی کہ بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس جو زائرین (visitors) جمع ہوتے تھے، ان کو بطور آڈینس (audience) استعمال کریں۔ چناں چہ آپ نے یہی کیا کہ روزانہ آپ کعبہ کے مقام کو جاتے ، اور وہاں بتوں کے مسئلے سے اعراض کرتے ہوئےموجود حاضرین کو پرامن طور پر توحید کا پیغام سناتے، جو کہ روزانہ سارے عرب سے وہاں اپنے بتوں کی زیارت کے لیےآیا کرتے تھے۔ یہی طریقہ آپ کا مکہ کے قیام کے آخر زمانے تک جاری رہا۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل اس بات کا ایک نمونہ ہے کہ آپ نے اس معاملے میں وزڈم کے مذکورہ اصول کو استعمال کیا۔ آپ کا مشن دعوت کا مشن تھا۔ اس لحاظ سےکعبہ میں بتوں کی موجودگی عملی اعتبار سے ایک غیر متعلق ایشو تھا، اس کے مقابلے میں قبائل کے زائرین کا اجتماع ایک متعلق پہلو کی حیثیت رکھتا تھا۔ چناں چہ آپ نے غیر متعلق پہلو کو وقتی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اس کے متعلق پہلو کو پرامن طور پر استعمال کیا۔
اگلی نسل تک سے امید رکھنا
پیغمبر اسلام کی ایک گفتگو اپنی اہلیہ عائشہ کے ساتھ ان الفاظ میں آئی ہے: حضرت عائشہ سے روایت ہے،انہوں نے پیغمبر اسلام سے کہا کہ کیا یوم احد سے بھی سخت دن آپ پر آیا ہے، آپ نے کہا کہ میں نے تمہاری قوم کی جو جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ اٹھائی ہیں، اور سب سے زیادہ تکلیف جو میں نے اٹھائی وہ عقبہ کے دن (طائف کے سفر میں)تھی جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبدکلال کے سامنے پیش کیا تو اس نے میرے ساتھ وہ نہیں کیا جو میں نے چاہا، میں رنجیدہ ہو کر سیدھا چلا، ابھی میں ہوش میں نہ آیا تھا کہ قرن الثعالب میں پہنچ کر میں نے اپنا سر اٹھایا تو بادل کے ایک ٹکڑے کو اپنے اوپر سایہ فگن پایا، میں نے دیکھا کہ اس میں جبریل تھے ،انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کی قوم کی گفتگو اور ان کا جواب سن لیا ہے، اب پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ایسے منکروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا کہ اے محمد ، یہ سب کچھ آپ کی مرضی ہے، اگر آپ چاہیں تو میں اخشبین نامی دو پہاڑوں کو ان منکروں پر لا کر رکھ دوں تو پیغمبر اسلام نے فرمایا (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان منکروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کریں گے۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3231)
اس کا مطلب یہ تھا کہ پیغمبر اسلام کا مشن انسان کی خیرخواہی کا مشن تھا۔ انسان کے ساتھ آپ کی خیرخواہی اتنی زیادہ بڑھی ہوئی تھی کہ اگر پہلی نسل آپ کے پیغام کو نہ سنے تو آپ اس کے لیے تیار تھے کہ ان کی اگلی نسلیں ان سے مختلف ثابت ہوں گی، اور آپ کے پیغام کو قبول کریں گی، اور آپ کے مشن میں آپ کی ساتھی بن جائیں گی۔
حالات سے اوپر اٹھ کر سوچنا
مکی دور میں پیغمبر اسلام کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا تھا، جو سلوک دوسرے پیغمبروں کے ساتھ کیا گیا، یعنی استہزا (الحجر 11:)۔ مگر پیغمبر اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہمیشہ منفی واقعات کا جواب مثبت انداز میں دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک روایت حدیث کی کتابوں میں اس طرح آئی ہے، پیغمبر اسلام نے کہا :ألا تعجبون کیف یصرف اللہ عنی شتم قریش ولعنہم، یشتمون مذمما، ویلعنون مذمما وأنا محمد(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3533)۔ یعنی کیا تم کو یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ مجھ سے قریش کے سب وشتم اور لعنت کو کس طرح دور کررہا ہے ۔ مجھے وہ مذمم کہہ کر شتم کرتے ہیں، مذمم کہہ کر وہ مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں۔ حالانکہ میں تو محمد ہوں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے لوگ اپنی بڑھی ہوئی مخالفت کی بنا پر اس کو پسند نہیں کرتے کہ وہ میرا اصل نام بولیں ، اور میرے خلاف جو کہنا چاہتے ہیں، وہ میرانام لے کرکہیں۔ انھوں نے مخالفت کے جوش میں بطور خود میرا نام محمدکے بجائے مذمم رکھ دیا، اور وہ مذمم کا نام بول کر میرا سب و شتم کرتے ہیں۔ یعنی وہ سب و شتم تو کرتے ہیں، لیکن جس شخص کی وہ سب و شتم کرتے ہیں، اس کا نام انھوں نے بطور خود مذمم رکھ دیا ہے۔ اس طرح ان کے اپنے کہنے کے مطابق ان کی بات کسی ایسے شخص پر پڑتی ہے جس کا نام مذمم ہو، وہ شخص جس کا نام محمد ہے اس پر ان کی بات پڑتی ہی نہیں۔
یہ اعلیٰ سوچ کی ایک انوکھی مثال ہے۔ پیغمبر اسلام چوں کہ مکمل طور پر مثبت سوچ پر قائم تھے۔ اس لیے انھوں نے ایک لطیف اسلوب میں قریش کے سب و شتم کو بے حقیقت کردیا۔ انھوں نے کہا کہ جب وہ میرا اصل نام لے کر مجھے کچھ نہیں کہتے تو وہ خود ہی اپنے سب و شتم کو کسی اور کے اوپر ڈال رہےہیں۔ یعنی کسی مفروضہ مذمم پر، نہ کہ اس شخص پر جس کا نام اس کے ماں باپ نے محمد رکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسوۂ محمدی میں سب و شتم پر مشتعل ہونا نہیں ہے، اور نہ شاتم کو قتل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ بلکہ اس سے لطیف پیرائے میں اعراض کرنا ہے۔ یہ بلند اخلاقی کا معاملہ ہے، نہ کہ قانونی سزا کا معاملہ۔
مشن کی نئی پلاننگ
پیغمبر اسلام نے اپنا مشن قدیم مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت قدیم مکہ شرک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس لیے وہاں آپ کی شدید مخالفت ہوئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے آپ کو الٹی میٹم دے دیا کہ آپ مکہ کو چھوڑ دیں، ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ ان حالات میں آپ نے مکہ کو چھوڑدیا، اور خاموشی کے ساتھ مدینہ آکر وہاں رہائش اختیارکرلی۔ ہجرت سے کچھ پہلے آپ نےاپنے اصحاب سے کہا تھا: أمرت بقریة تأکل القرى، یقولون یثرب، وہی المدینة (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871) ۔عام رواج کے مطابق کوئی شخص آسانی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتا، بلکہ اس فیصلہ کو بدلوانے کی ہر کوشش شروع کردیتا ہے۔ مگر پیغمبر اسلام نےقدیم مکہ کے سرداروں کے اس فیصلہ کو قبول کرلیا، اور خاموشی سے مدینہ آکر آباد ہوگئے۔
اپنےنتیجے کے اعتبار سے دیکھیے تو یہ ایک نہایت حکیمانہ عمل تھا— یعنی اگر پہلا منصوبہ ورک نہ کرے تو لو پروفائل (low profile) کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ اپنے عمل کا دوسرا منصوبہ بنانا۔ آپ نے ایسا ہی کیا، اور آپ نے پر امن طور پر مدینہ آکر یہاں از سر نو اپنے مشن کا منصوبہ بنایا۔ آپ کا یہ طریقہ اتنا کامیاب ہوا کہ صرف دس سال کے اندر پہلے مکہ اور پھر سارا عرب آپ کے دائرے میں آگیا۔
ایسے حالات میں عام طور پر لوگ جوابی ذہن کے تحت سوچتے ہیں، اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پیغمبر اسلام نے ٹکراؤ کے بجائے ری پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا، اور تجربہ بتاتا ہے کہ آپ کا منصوبہ مکمل طور پر کامیاب رہا۔
ہر حال میں مثبت طرز فکر
پیغمبر اسلام نے قدیم مکہ میں اپنا مشن 610 عیسوی میں شروع کیا۔ اس وقت مکہ میں قبائلی کلچر (tribal culture) شدت کے ساتھ موجود تھا۔ وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ ہر قسم کا برا سلوک کیا۔ یہاں تک کہ تیرہ سال بعد آپ نے مجبور ہوکر اپنے وطن کو چھوڑ دیا، اور مکہ سے تقریبا 500 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود مدینہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مقیم ہوگئے۔
یہ شدید ترین معنوں میں جلاوطنی کا کیس تھا۔ عام رواج یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے نئے وطن میں جاکر صرف ایک کام کرتے ہیں، اور وہ اپنے سابق ہم وطنوں کی برائیاں بیان کرنا۔ لیکن پیغمبر اسلام نے اس سے الگ ایک انتہائی طور پر مختلف طریقہ اختیار کیا۔ وہ یہ کہ آپ مدینہ جاکر اس طرح رہنے لگے، جیسے کہ مکہ میں آپ کے ساتھ کچھ بھی نہ ہوا ہو۔
سیرت ابن ہشام میں ہجرت کے بعد کےواقعات کا ذکر ہے۔اس کے تحت پیغمبر اسلام کے پہلے خطبہ کا ذکر ہے۔ اس باب کا پہلا پیراگراف ان الفاظ میں آیا ہے :أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَہَا رَسُولُ اللَّہ ۔ یعنی پہلا خطبہ جو آپ نے مدینہ میں دیا۔
اس خطبہ کو جو پڑھے وہ حیرت انگیز طور پر پائے گا کہ اس خطبہ میں ان لوگوں کے خلاف کوئی شکایت کی بات نہیں ہے،جنھوں نے آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا تھا۔عام رواج یہ ہے کہ ایسے موقع پر جلاوطن افراد اپنے نئے وطنی لوگوں کو ابھارتے ہیں تاکہ وہ ان کےساتھ اپنے قدیم ہم وطنوں کے خلاف جوابی کارروائی کریں۔ مگر پیغمبر اسلام نے اس قسم کی کوئی بات اشارے کی زبان میں بھی نہیں کی۔ اس خطبہ کا خلاصہ یہ تھا: فمن استطاع أن یقی وجہہ من النار ولو بشق من تمرة فلیفعل، ومن لم یجد فبکلمة طیبة (سیرت ابن ہشام، 1/500-1) ۔
خطبہ کے مذکورہ الفاظ پر غور کیجیے۔ اس کا خلاصہ دوسرے لفظوں میں یہ ہے —— دوسرے لوگ آپ کو’’آگ‘‘ میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن آپ کا دل ان کی ہمدردی سے بھرا ہوا ہو۔ آپ ان کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچاؤ۔ یہ ہے پیغمبرانہ حکمت۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے دشمن بنیں، آپ ان کے خیر خواہ بن جائیں۔ جو لوگ آپ پر ظلم کریں، آپ اللہ سے ان کے لیے اچھے اجر کے طالب بن جائیں۔ جو لوگ آپ کو نہ دیں، آپ ان کے لیے دینے والے (giver) بن جائیں، اور ا ن کے لیے داعی بن کر ان کے ساتھ مدعو فرینڈلی روش اختیار کریں۔ پیغمبر اسلام کی یہ روش صرف ایک اخلاقی روش نہیں ہے، بلکہ وہ اعلیٰ درجے کی دانش مندی کا معاملہ ہے۔
ٹکراؤ سے کامل پرہیز
پیغمبر اسلام جب مدینہ آئے تو وہاں دوسرے قبائل کے ساتھ یہود کے قبائل بھی آباد تھے۔ اس وقت مدینہ کی آبادی میں یہود تقریباً نصف حصہ تھے۔ وہ مدینہ کی معاشیات میں غالب حیثیت رکھتے تھے۔ ایسی حالت میں یہود سے ٹکراؤ کا طریقہ آپ کے مشن کی راہ میں مستقل مسئلہ بن سکتا تھا۔
اس معاملے کے حل کے لیے آپ نے وہ اصول اختیار کیا جس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبہ60:) کہا گیا ہے۔ یعنی یہود کے ساتھ فرینڈلی بیہیویر(friendly behaviour) کا طریقہ۔ اس مقصد کے لیے آپ آخری حد تک گئے۔ جیسا کہ معلوم ہے یہود کے لیے عباد ت کا ایک قبلہ تھا، اور وہ قبلہ بیت المقدس تھا۔ پیغمبر اسلام جب مکہ میں تھے تو آپ کا قبلہ کعبہ تھا، مگر مدینہ پہنچے تو آپ نے بیت المقدس کو اپنے اور اپنے اصحاب کی عبادت کا قبلہ بنا لیا۔ ایسا آپ نے یہود کی تالیف قلب کے لیے کیا۔ جیسا کہ قرآن کی سورہ البقرۃ کی آیت 143 کے تحت مختلف مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ یہود کی تالیف قلب کے لیے تھا، مثلا تفسیر الرازی (4/89)، و تفسیر النسفی(1/138)، وغیرہ۔ تالیف قلب کا مطلب ہے دل کو نرم کرنا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مدینہ کے یہود سےقریبی تعلق جوڑتے ہوئے اپنا کام کرنا۔
یہ صرف یہود کا معاملہ نہیں۔ آپ نے اپنے مشن میں کبھی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ آپ نے ہمیشہ یہ کیا کہ اپنےپڑوسی سے معتدل تعلقات رکھتے ہوئے اپنے مشن کا کام کرنا۔ آپ کا یہ طریقہ صرف عرب کے مشرکین کے ساتھ نہیں تھا، بلکہ عرب کی سرحد سے باہر بھی جو لوگ آباد تھے، ان کے ساتھ بھی آپ نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ یعنی پڑوسی قبائل اور پڑوسی ملکوں کو وفود بھیجنا۔ وفود بھیجنا، آج کل کی اصطلاح میں گڈویل مشن (goodwill mission) کی حیثیت رکھتا ہے۔
پرامن تعلقات
پیغمبر اسلام جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے ۔ اس وقت مدینہ میں اسلام کافی پھیل چکا تھا۔ اس وقت آپ اپنے رفیق ابوبکر صدیق کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے تھے۔ چناں چہ مدینہ والوں نے آپ دونوں کا استقبال یہ کہہ کر کیا کہ آمنین مطاعین (مسند احمد، حدیث نمبر12234) ۔ یعنی آپ دونوں یہاں مامون ہیں، اور ہمارے سردار ہیں۔ مگر پیغمبر اسلام نے مدینہ میں اپنی حکومت نہیں قائم کی، بلکہ آپ نے ایک صحیفہ (Madinah Declaration) جاری کیا، جس میں یہ درج تھا کہ للیہود دینہم، و للمسلمین دینہم(سیرۃ ابن ہشام1/503)۔ یعنی یہود کے لیے یہود کا دین ہے، اور مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین۔ آج کل کی زبان میں اس کو پرامن بقائے باہم (peaceful co-existence) کہا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی پالیسی ہر صورت حال میں امن پسندی کی پالیسی ہوتی تھی۔ آپ نے کبھی اس کے خلاف عمل نہیں کیا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ پر امن بقائے باہم انسانی تعلقات میں سب سے بہتر اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اصول کو اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر فریق کو مساوی طور پر آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ ہر فریق کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ پر امن دائرے میں اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ غیر ضروری ٹکراؤ سے بچتے ہوئے ہر ایک اپنا سفر حیات طے کرے۔
مخالف پہلو کو موافق پہلو بنانا
پیغمبر اسلام کی نبوت کے تیرہ سال بعد ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔ یعنی پیغمبر اسلام نے اپنا وطن مکہ چھوڑ دیا، اور مکہ سے تقریبا 500 کلو میٹر دور مدینہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ آکر آباد ہوگئے۔ آپ کی ہجرت مزید ٹکراؤ کے لیے نہیں تھی۔ مگر قدیم مکہ کے قریش خاموش نہیںہوئے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ یک طرفہ طور پر آپ کے خلاف اقدام کرکے آپ کے مشن کا کلی طور پر خاتمہ کردیں ۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مکہ کے تمام قبائل کی مدد سے ایک بڑامنصوبہ بنایا، تاکہ وہ پیغمبر اسلام کے مشن کوجڑ سے ختم کرسکیں۔ پھر ایک ہزار مسلح افرادکے ساتھ مکہ سے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔
اس کے بعدراستہ میں بدر کے مقام پر 2ہجری میں دونوں فریقین کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی۔ اس وقت اہل ایمان کو کامیابی حاصل ہوئی، اور ان کے ہاتھ تقریباً 70 مشرکین قید ہوگئے۔ ان کی رہائی کایہ فدیہ مقرر کیا گیا کہ وہ مدینہ کے بچوں کو لکھنا سکھادیں (فداءہم أن یعلموا أولاد الأنصار الکتابة) مسند احمد، حدیث نمبر2216 ۔
بدرمیں قیدکیے ہوئے مکہ کے یہ لوگ جنگی اصطلاح میں جنگی قیدی (prisoners of war) تھے۔ اس زمانے کےعام رواج کے مطابق پیغمبر اسلام یہ کرسکتے تھے کہ ان کو قتل کروادیتے۔ لیکن آپ نے انتقام سے اوپر اٹھ کر سوچا۔ اس طرح آپ کے لیے ممکن ہوا کہ یہاں اپنے ایک مائنس (minus)کو پلس (plus)میں بدل دیں۔ جو لوگ بظاہر آپ کے دشمن تھے، ان کو اپنے معاون کے طور پر استعمال کیا۔ یعنی دشمن کو اپنے بچوں کے لیے ٹیچر کے طور پر استعمال کیا۔ آپ کی اس پالیسی کے تحت مدینہ میں پہلا اسکول قائم ہوا، جس کے ٹیچر سب کے سب آپ کے دشمن گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔
راستہ بدلنا
اسی طرح کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں کےساتھ سفر میں تھے۔ آپ کو یہ خبر ملی کہ راستے میں دوسری طرف سے مکہ کے خالد بن الولید آپ سے مقابلہ کرنے کے ارادے سے ایک مسلح دستہ لے کر آرہے ہیں۔ اس وقت آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میں سے کون ہےجو مجھے خالد کے راستے کے سوا کوئی اور راستے سے لے جائے(من رجل یخرج بنا على طریق غیر طریقہم التی ہم بہا)۔سیرت ابن ہشام، 2/309۔ ایک آدمی نے کہا کہ میں۔ چناں چہ آپ نے اس وقت اپنے سفر کا راستہ بدل دیا۔ اس کی وجہ سے آپ کے ساتھیوں اور خالد کے ساتھیوں میں مڈبھیڑ نہیں ہوئی۔
یہ اسی پیغمبرانہ حکمت کی ایک مثال ہے۔ عام طریقے کے مطابق آپ کو یہ کرنا چاہیے تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر اسی راستے پر آگے بڑھیں، اور خالد سے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کریں۔ مگر آپ نے اس معاملے میں ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا، اور اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ اس طریقہ کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم(practical wisdom) کہہ سکتے ہیں۔ آپ کی زندگی کے واقعات کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیشہ ایسا کیا کہ آپ نے آئڈیل وزڈم کو چھوڑا، اور پریکٹکل وزڈم کو اختیارکیا۔ آپ کو اپنے مشن میں جو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی، اس کا سبب یقینی طور پر یہی پریکٹکل وزڈم ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ آئڈیل وزڈم نتیجہ کی اعتبار سے بے فائدہ ٹکراؤ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، پریکٹکل وزڈم غیر ضروری نقصان سے بچا کر کامیابی کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔
پیغمبر اسلام کا طریقہ آپ کی پوری زندگی میں اسی وزڈم کے مطابق تھا۔ آپ ہمیشہ ہر معاملے میں پریکٹکل وزڈم پر چلے، اور یہی آپ کی اعلیٰ کامیابی کا راز تھا۔
انجام کو دیکھنا
پیغمبر اسلام کا یہی حکیمانہ طریقہ آپ کے پورے تیرہ سالہ مکی دور میں جاری رہا۔ اس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ آپ کی نبوت کے انیسویں سال طویل گفت و شنید کے بعد قدیم مکہ کے لیڈروں کے ساتھ یہ طے ہوا کہ دونوں فریقوں کے درمیان دس سال کے لیے امن کا معاہدہ (treaty of peace) ہوجائے۔ حدیبیہ کے مقام پر یہ گفت و شنید ہورہی تھی۔ جب معاہدہ لکھنے کا وقت آیا تو آپ نے اس معاہدہ کے آغاز میں لکھوایا:اے علی لکھو، بسم اللہ الرحمن الرحیم، تو مکہ کے نمائندہ لیڈر سہیل بن عمرو نے کہا، ہم اس کو نہیں جانتے، آپ لکھیں، باسمک اللہم، آپ نے ایسا ہی کیا۔پھر آپ نے کہا، لکھو یہ وہ (دفعات) ہیں، جن پر محمد رسول اللہ نے سہیل بن عمر و سےصلح کی ۔ تو سہیل بن عمرو نے دوبارہ کہا ، اگر میں مانتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو میں آپ سے جنگ نہیں کرتا ،یعنی آپ "رسول اللہ" کا لفظ مٹائیں، آپ نے ایساہی کیا، اور کہا لکھو، یہ وہ دفعات ہیں، جن پر محمد بن عبد اللہ نے سہیل بن عمرو سے صلح کی کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، اس میں لوگ امن سے رہیں گے (مسند احمد، حدیث نمبر 18910)۔
اس معاہدہ کے معاملے میں متعلق پہلو یہ تھا کہ کسی بھی طریقے سے دونوں فریق کے درمیان امن قائم ہوجائے۔ اس معاملے میں یہ غیر متعلق پہلو تھا کہ معاہدہ میں کس قسم کے الفاظ لکھے جائیں۔ چناں چہ رسول اللہ نے یہ حکیمانہ طریقہ اختیار کیا کہ متعلق پہلو کو لیا، اور غیر متعلق پہلو کو نظر انداز کردیا۔ اس طرح یہ معاہدۂ امن کسی مزید رکاوٹ کے بغیر معتدل طور پر عمل میں آگیا۔
وقار کا مسئلہ نہ بنانا
قرآن میں اہل حکمت انسانوں کی صفت بتائی گئی ہے کہ وہ کسی مسئلہ کو وقار کا مسئلہ نہیں بناتے ہیں ۔ قرآن کی وہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب کہ حدیبیہ کا معاہدہ طے ہورہا تھا۔ اس وقت اصحاب رسول کا حال کیا تھا، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: إِذْ جَعَلَ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی قُلُوبِہِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاہِلِیَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکِینَتَہُ عَلَى رَسُولِہِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَى وَکَانُوا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا (48:26)۔ یعنی جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی، جاہلیت کی حمیت، پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر، اور اللہ نے ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
جب کسی اختلافی معاملہ میں دو گروہوں کے درمیان بات ہورہی ہو تو عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جو فریق قومی حمیت میں مبتلا ہو ، وہ چیزوں کو وقار کا مسئلہ (prestige issue) بنا لیتا ہے۔ اس بنا پر ایسے موقع پر پر امن معاہدہ عملا ً سخت مشکل بن جاتاہے۔ایسے موقع پر دانش مند گروہ وہ ہے جو چیزوں کو وقار کا مسئلہ نہ بنائے ۔ وہ اعلیٰ اخلاق کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے، یک طرفہ طور پر صلح اور امن کا طریقہ اختیار کرنے کے لیے راضی ہوجائے۔ یہ لوگ دانش مند لوگ ہیں، اور ایسے ہی لوگ زندگی میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
شکایت کے بجائے تدبیر
پیغمبر اسلام کی زندگی کا ایک واقعہ یہ ہے کہ8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اس کے بعد آپ مکہ سے طائف کے لیے روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ تقریباً بارہ ہزار افراد تھے۔ درمیان میں ایک راستہ آیا، جس کو تنگ ہونے کی وجہ سے الضیقہ کہا جاتا تھا۔ آپ نے کہا: ما اسم ہذا الطریق ؟ فقیل لہ الضیقة ، فقال:بل ہی الیسرى (سیرت ابن ہشام، 2/482)۔ یعنی اس راستے کا نام کیا ہے، لوگوں نے کہا : ضیقۃ (تنگ)۔ آپ نے کہا نہیں بلکہ یہ یسریٰ (آسان)ہے۔
اس کے بعد غالباً آپ نے ایساکہا کہ اس وقت تم لوگ افقی دائرہ(horizontal way) میں پھیلے ہوئے ہو، تم ایسا کرو کہ عمودی طریقہ (vertical way) میں ہوجاؤ۔ یعنی قطار بنا کر گزرو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، اور نہایت آسانی سے وہ راستہ پار ہوگئے۔
یہ آپ کی پیغمبرانہ حکمت کی مثال ہے۔ یعنی جب کوئی مشکل کا سامنا پیش آئے تو شکایت کا طریقہ اختیار مت کرو، بلکہ تدبیر کا طریقہ اختیار کرو۔ اگر تم ایسا کروگے تو بہت جلد تم کو ایک تدبیر دریافت ہوجائے گی، اور تم اس تدبیر کو اختیار کرکے آسانی کے ساتھ اپنا راستہ طے کرلوگے۔
عام طور پر لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ چیزوں کو ان کے فیس ویلو (face-value) پر لیتے ہیں۔ یہ طریقہ وزڈم کے خلاف ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے لے۔ اس طرح مسئلہ کوئی مزید دشواری کے بغیر بآسانی حل ہوجائے گا۔
چین ری ایکشن سے بچنا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے8 ہجری میں مکہ فتح کیا۔ اس وقت آپ نے اعلان کروایاکہ جو اپنے گھروں میں چلاجائے وہ امن میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے وہ مامون ہے۔ اس کے بعد قدیم مکہ کے لوگ کعبہ کےصحن میں اکٹھا ہوئے۔ اس وقت آپ نے ان سے پوچھا، تم لوگ کیا کہتے ہو، اور تمھارا کیا گمان ہے۔ انھوں نے جواب دیا، ہم آپ کو اپنا بھتیجا اوراپنے چچاکا شریف اور مہربان بیٹاسمجھتے ہیں، آپ نے کہا، میں وہی کہتاہوں جو یوسف نے کہا تھا: آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے(یوسف 92:)۔ تو وہ لوگ نکلے گویا کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں، اور پھر وہ اسلام میں داخل ہوگئے (فخرجوا کأنما نشروا من القبور فدخلوا فی الإسلام ) السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر 18275 ۔
یہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے پیغمبر اسلام کو اپنے وطن سے نکالا تھا، اور آپ کے خلاف بار بار لڑائیاں چھیڑیں تھیں۔ عام رواج کے مطابق، بلاشبہ وہ لوگ جنگی مجرم (prisoners of war) تھے۔ لیکن جب پیغمبر اسلام نےان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ بلکہ ان کو پورے طور پر آزاد کردیا۔ یہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ ایسا کرکے آپ نے قدیم مکہ کے ان لوگوں کو دوبارہ جوابی انتقام سے بچالیا۔ اگر آپ ایسا نہ کرتے تو قبائلی کلچر کے مطابق وہاں چین ری ایکشن (chain reaction)شروع ہوجاتا، جو پھر کبھی ختم نہ ہوتا۔ جیسا کہ قدیم زمانے میں عام طور پر ہوا کرتا تھا۔
حقوق طلبی کی سیاست نہیں
سن 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا، اور پیغمبر اسلام کے ساتھی دوبارہ اپنے قدیم وطن مکہ میں داخل ہوئے۔ ہجرت کے بعد مکہ میں ایسا ہوا تھا کہ کچھ اصحاب کے گھر اور جائداد کو اہل مکہ نے قبضہ کرلیا تھا۔ اب کچھ اصحاب رسول چاہتے تھے کہ وہ اپنے گھر اور جائداد کو لوگوں کے قبضے سے نکالیں، اور اس پر دوبار ہ اپنا قبضہ قائم کریں۔ مگر پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو اس کی اجازت نہ دی۔
اس سلسلہ میں ایک واقعہ یہ ہے کہ فتحِ مکہ کے موقع پر ابو احمد بن جحش آپ کے پاس آئے ، اور کہا کہ ان کے آبائی گھر پر ابوسفیان نے قبضہ کرکے اس کو فروخت کردیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے ان سے کہا :إن صبرت کان خیرا لک، وکانت لک بہا دار فی الجنة(اگر تم صبر کروگے تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ اور اس کے بدلے میں تمھارے لیے جنت کا ایک گھر ہے) ۔ ابو احمد نے کہا: میں صبر کروں گا(أنا أصبر )چناں چہ انھوں نے اس کا خیال چھوڑ دیا (أخبار مکة وما جاء فیہا من الأثار للازرقی، 2/245 )۔
اس طرح کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے طریقہ میں وہ طریقہ شامل نہیں جس کو حقوق طلبی کی سیاست کہا جاتا ہے۔ حقوق طلبی کی سیاست کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دو فریقوں کے درمیان ایسے جھگڑےکھڑے ہوجاتے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اس قسم کی سیاست سے لوگوں کو ملتا تو کچھ بھی نہیں، لیکن وہ اس امکان کو کھو دیتے ہیں کہ نئے مواقع کو استعمال کرکے اپنے لیے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کریں۔
پیغمبر اسلام اگر مکہ میں فتح حاصل ہونےکے بعد وہاں حقوق طلبی کی سیاست چلاتے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگوں کی ترجیحات (priorities) بدل جاتیں۔ فتح مکہ کے بعد اب اصل کام یہ تھا کہ مکہ کے لوگوں میں توحید کی اشاعت کی جائے۔ شرک کے دور کو ختم کرکے توحید کا دور لایا جائے۔ کعبہ کو اس کی ابراہیمی روایت پر قائم کیا جائے، جس کا عملا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اگر مکہ میں حقوق طلبی کی سیاست چلائی جاتی تو یہ سارے کام معطل ہوجاتے، اور وہ ٹارگٹ ہی بدل جاتا، جس کے لیے پیغمبر اسلام نے وہاںاپنا مشن جاری کیا تھا۔
رجز سے اعراض کرو
پیغمبر اسلام نے جب قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا تو قرآن میں آپ کو ایک نصیحت ان الفاظ میں کی گئی کہ اے پیغمبر لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤ، اور رجز کو چھوڑ دو(المدثر5:)۔ رُجز کا لفظی مطلب گندگی (dirt) ہے۔ یہ گندگی کون سی تھی، جسے آپ کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ اس کو یہاں لفظوں میں نہیں بتایا گیا ہے، اس لیے اس کا مطلب آپ کے عمل کو دیکھ کر متعین کرنا ہوگا۔ یعنی آپ نے اپنی عملی زندگی میں کس چیز کو چھوڑا۔ وہی وہ گندگی ہے جس سے آپ کو اعراض کرنے کا حکم دیا گیا۔
اب دیکھیے کہ آپ نے جب قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا تو آپ نے کس چیز سےاعراض کرتے ہوئے اپنا مشن جاری کیا۔ وہ چیزیں وہ تھیں جو اس وقت آپ کی حالت کے اعتبار سے نتیجہ خیز نہیں تھیں۔مثلاً قدیم مکہ میں بہت سی برائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ جیسے شراب، وغیرہ۔ اب اگر شروع میں لوگوں کو اس سے روکتے تو اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہ تھا۔ اسی طرح قدیم مکہ میں کعبہ میں بہت سے بت رکھے ہوئے تھے۔ اگر آپ ان بتوں کو کعبہ سے نکالنے کی مہم چلاتے تو یقینی تھا کہ آپ کی مہم کامیاب نہ ہوتی۔ اس لیے آپ نے نتیجہ خیز اقدام اور بے نتیجہ اقدام میں فرق کیا، اور وقتی اعتبار سے بے نتیجہ کام میں اپنے آپ کو الجھائے بغیر اس کام میں محنت کی ، جس میں محنت سے مفید نتیجہ نکلنے والا تھا۔
آپ کی یہ پالیسی حدیث میں اس طرح آئی ہے:إنما نزل أول ما نزل منہ سورة من المفصل، فیہا ذکر الجنة والنار، حتى إذا ثاب الناس إلى الإسلام نزل الحلال والحرام، ولو نزل أول شیء:لا تشربوا الخمر، لقالوا: لا ندع الخمر أبدا، ولو نزل:لاتزنوا، لقالوا:لا ندع الزنا أبدا (صحیح البخاری، حدیث نمبر4993)۔ یعنی پہلے جو چیز نازل ہوئی،وہ مفصل کی سورت تھی ، جس میں جنت و دوزخ کا ذکر ہے ۔ یہاں تک کہ جب لوگو ں کا دل اسلام کی طرف رجوع ہو گیا، تب حلال وحرام کے احکام اترے ، اگر شروع ہی میں یہ اترتاکہ شراب نہ پیو تو لوگ ضرورکہتے ہم تو کبھی شراب پینا نہیں چھوڑیں گے ۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتاکہ زنا نہ کرو تو لوگ ضرورکہتے کہ ہم تو زنا نہیں چھوڑیں گے۔
اس طریق عمل کو ایک لفظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکیمانہ ترتیب کے ساتھ کام کرنا۔ جو کام انجام کے اعتبار سے ممکن ہو، اس کو کرنا، اور جس کام میں بر وقت نتیجہ نکلنے والا نہ ہو، اس کو مستقبل پر چھوڑ دینا— یہی پیغمبر کا طریقہ ہے، اور یہی دانش مندی کا طریقہ۔
ہائی پروفائل کا طریقہ نہیں
پیغمبر اسلام نے جب مکہ میں اپنا مشن شروع کیا تو تین سال تک آپ نے اس کا عام اعلان نہیں کیا۔ بلکہ صرف کچھ افراد سے خصوصی ملاقاتوں میں اپنی بات کہتے تھے۔ یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد آپ نے اعلان عام کیا(سیرۃ ابن ہشام، 1/262)۔ اسی طرح غزوہ خیبر میں آپ اپنے اصحاب کے ساتھ جارہے تھے، تو لوگوں نے ایک جگہ نعرہ بلند کرنا شروع کردیا۔ تو آپ نے کہا: إنکم لا تدعون أصم ولا غائبا، إنکم تدعون سمیعا قریبا وہو معکم (صحیح البخاری، حدیث نمبر4205)۔ یعنی تم لوگ کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو، بلکہ اس کو پکاررہے ہو جو سننے والا،قریب اور تمھارے ساتھ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے مشن کے سلسلے میں پیغمبر اسلام کا طریقہ لو پروفائل میں کام کرنے کا طریقہ تھا، ہائی پروفائل میں کام کرنا پیغمبر اسلام کا طریقہ نہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہائی پروفائل میں کام کرنا، ہمیشہ مخالفین کے اندر اشتعال پیدا کرتا ہے۔ وہ ابتدائی دور ہی میں مشن کی مخالفت میں کھڑے ہوجاتےہیں، اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ مشن آگے نہ بڑھنے پائے۔ اس کے برعکس، لوپروفائل میں صاحب مشن کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ تمام ممکن مواقع کو استعمال کرکے اپنا کام کرتا رہے۔ یہاں تک کہ اس کے مخالفین صرف اس وقت اس کا نوٹس لیں، جب کہ مشن اتنا مستحکم ہوچکا ہو کہ کسی مخالف کی مخالفت اس کو روکنے والی ثابت نہ ہوسکے۔ پیغمبر اسلام نے اپنے مشن کے پورے دور میں خاموش عمل کا یہی طریقہ اختیار کیا۔
فتنہ کو نہ بھڑکانا
ایک حکمت کی بات حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے:الفتنة نائمة لعن اللہ من أیقظہا (التدوین فی أخبار قزوین، أبو القاسم الرافعی، 1/291)۔ فتنہ سویاہوا ہے، اللہ نے اس پر لعنت کیا ہے جو اس کو جگائے۔ یہ حدیث رسول بتاتی ہے کہ اجتماعی زندگی کو پر سکون بنانے کے لیے دانش مندانہ اصول کیا ہے۔ وہ ہے سوئے ہوئے فتنہ کو نہ جگانا۔
یہاں فتنہ سے مراد انسان کی انا (ego) ہے۔ ایگو ایک سویا ہوا فتنہ ہے۔ اس کو چھوڑدیا جائے تو وہ سویا رہے گا، اور اگر اس کو چھیڑ دیا جائے تو وہ ایک شدید مسئلہ بن جائے گا۔ ایگو ایک پوٹنشیل (potential)فتنہ ہے، وہ واقعہ اس وقت بنتا ہے جب کہ اس کو چھیڑ کر جگا دیا جائے۔
انسان کی انا (ego) میں نفرت اور غصہ بھرا ہوا ہے۔ لیکن عام حالت میں وہ صرف بطور امکان ہوتا ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانا، خود صاحب ایگو کی طرف سے نہیں ہوتا ، بلکہ وہ دوسرے کی طرف سے ہوتا ہے۔ دوسرا آدمی چاہے تو اس امکان کو سویا ہوا رہنے دے، یا اس کو جگا کر اپنےلیے مسئلہ بنالے۔ اسی لیے کہا گیا ہے :
When one’s ego is touched, it turns into super ego, and the result is breakdown.
اجتماعی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے کے لیے ناپسند بن جاتی ہے۔ یہی لمحہ ہے جب کہ آدمی کا ایگو بھڑک اٹھتا ہے۔ لیکن پہلا آدمی اگر خاموشی اختیار کرلے تو دوسرے آدمی کا ایگو بھڑک کر رہ جائے گا۔ وہ بڑھ کر خطرناک مسئلہ نہیں بنے گا۔کامیاب زندگی کی حکمت یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کے ایگو کو بھڑکنے نہ دے، وہ سوئے ہوئے ایگو کو سویا رہنے دے۔
کوئی دشمن نہیں
پیغمبر اسلام کو ایک دانش مندانہ طریقہ قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔یعنی اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، انسانوں میں جو تقسیم ہے، وہ دوست اور دشمن کی نہیں، بلکہ دوست اور بالقوۃ دوست (potential friend) کی ہے۔ یعنی دانش مند انسان وہ ہے جو دوست اور دشمن کی بنیاد پر اپنا منصوبہ نہ بنائے، بلکہ اس کا منصوبہ اس سوچ کے تحت ہونا چاہیے کہ کچھ لوگ اگر بظاہر دوست ہیں تو دوسرے لوگ بالقوۃ دوست(potential friend) ہیں۔ اس لیے دانش مند انسان کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مثبت منصوبہ بندی (positive planning) کے ذریعہ وہ بالقوۃ دوست کو بھی اپنا دوست بنا کر ان کو اپنے ساتھیوں میں شریک کرلے۔
اپنے زمانے کو جاننا
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:وعلى العاقل أن یکون بصیرا بزمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ یعنی عقل مند وہ ہے جو اپنے زمانے سے با خبر ہو۔ یہاں زمانے سے مراد خارجی حالات ہیں ۔ آدمی عام طور پر اپنے آپ میں جیتا ہے۔ اپنے سے باہر کے حالات کی اس کو خبر نہیں ہوتی ہے۔ ایسے آدمی کا منصوبہ حالات سے ٹکراجائے گا۔ وہ اپنے منصوبہ کو کامیابی تک پہنچانے والا نہ بن سکے گا۔
اس دنیا میں آدمی ہمیشہ کچھ حالات کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ حالات وہ خود نہیں بناتا، بلکہ خارج کا جو ماحول ہے، وہ ان حالات کی تشکیل کرتا ہے۔ یہ حالات اتنے طاقت ور ہوتے ہیں کہ آدمی ان کو بدلنے پر قادر نہیں ہوتا ہے۔ اگر آدمی اپنے حالات سے ٹکرا جائے تو وہ خود تو ٹوٹ جائے گا۔ لیکن حالات جیسے تھے، ویسے ہی رہیں گے۔ ایسی صورت حال میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی اپنے ساتھ دوسروں کو بھی جانے۔ وہ اپنی ذاتی خواہشوں کے ساتھ خارجی حالات کے تقاضوں سے باخبری حاصل کرے۔ ایسے آدمی کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ اپنا منصوبہ صحیح اصولوں کی بنیاد پر بنائے۔ وہ حالات زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے، اپنا سفر حیات کامیابی کے ساتھ طے کرے۔ اس قسم کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی (realistic planning) کامیابی کا واحد یقینی راز ہے۔
غصہ سے بچو
ایک آدمی پیغمبر اسلام کے پاس آیا۔ اس نے کہا: أخبرنی بکلمات أعیش بہن ولا تکثر علی فأنسى؟ قال:اجتنب الغضب، ثم أعاد علیہ فقال:اجتنب الغضب(مسند احمد، حدیث نمبر23468)۔ یعنی مجھے ایسی بات بتائیے، جس میں مَیں جیوں، اور بات مختصر ہو تا کہ میں اس کو بھول نہ جاؤں۔ آپ نے کہا: غصہ سے بچو، اس نے اپنی بات کو دہرائی، آپ نےدوبارہ کہا: غصہ سے بچو۔
اس حدیث پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ غصہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ غصہ کوئی آدمی دوسرے کے خلاف کرتا ہے۔ لیکن غصہ کا نقصان آدمی کو خود بھگتنا پڑتا ہے۔ غصہ آدمی کی سوچ کو غلط رخ پر موڑ دیتا ہے۔ عام حالت میں آدمی مثبت انداز میں سوچتا ہے۔ وہ معتدل انداز میں رائے قائم کرتا ہے۔ لیکن غصہ آتے ہی اس کی سوچ غیر معتدل ہوجاتی ہے۔ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنے کے قابل نہیں رہتا ۔ جو آدمی غصہ میں مبتلا ہوجائے، وہ جذبات کے تحت ایسے فیصلے کرتا ہے، جو جذبات سے خالی آدمی کبھی نہیں سوچے گا۔
غصہ کا سب سے زیادہ تباہ کن انجام یہ ہے کہ غصہ ہمیشہ دو طرفہ بن جاتا ہے۔ آپ غصہ ہو کر دوسرے شخص کو بھی غضبناک بنادیتے ہیں۔ غصہ دوسرے شخص کو جوابی غصہ میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس طرح غصہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے ردعمل (reaction) کا سبب بنتا ہے۔ آپ ایک ردعمل ظاہر کرتے ہیں، اس کے بعد دوسرا آدمی مشتعل ہوکر ردعمل کا طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ یہ عمل اور ردعمل باربار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ردعمل ایک چین ری ایکشن (chain reaction) بن جاتاہے۔ اور جب کوئی چیز چین ری ایکشن بن جائے تو پھر اس کا خاتمہ آخری ہلاکت سے پہلے نہیں ہوتا۔
اس لیے غصہ کے بعد آدمی کے لیے جو صحیح رویہ ہے، وہ صرف ایک ہے۔ وہ ہے غصہ کو یک طرفہ طورپر ختم کردینا۔ یہی بات قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے:وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37) ۔ یعنی جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ غصہ کے نقصان سے بچنے کے لیے یک طرفہ صبر کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔
آسان کا انتخاب
پیغمبر اسلام کی زندگی کے ایک معمول کو پیغمبر اسلام کی زوجہ عائشہ ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:ما خُیّر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فی أمرین إلا اختار أیسرہما (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4785)۔یعنی جب بھی پیغمبر اسلام کو دو صورتوں میں ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ آسان کا انتخاب کرتے۔ اس سے معلو م ہوتا ہے کہ معاملات میں پیغمبر اسلام کی عام پالیسی کیا تھی۔ وہ تھی مشکل کے مقابلے میں آسان کا انتخاب کرنا۔
ہر صورت حال میں آدمی کے سامنے دو قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک، مسائل (problem)اور دوسرا، مواقع (opportunities)۔ اس وقت آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ پیغمبر اسلا م کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ہمیشہ مواقع کو اویل (avail)کرنے کا انتخاب کرتے تھے، نہ کہ مسائل سے ٹکراؤ کرنا۔
یہاں آسان کا لفظ اور مشکل کا لفظ اپنے ظاہری معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات میں پیغمبر اسلام کی پالیسی یہ تھی کہ معاملات میں ایسے طریقہ کو اختیار کیا جائے جو قابل عمل (workable) ہو، جس پر کوئی نیا مسئلہ پیدا کیے بغیر عمل کرنا ممکن ہو۔ یہاں آسانی کا لفظ قابل عمل (workable) کے معنی میں ہے۔ یعنی ایسا طریقہ جس کو اختیار کرنے سے کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ ہو، کوئی نیا مسئلہ پیدا کیے بغیر اس پر عمل کیا جاسکے۔
اس کے مقابلے میں ایک طریقہ وہ ہے جس پر عمل کرنے سے مسئلے میں اضافہ ہوتا ہو۔ایسا طریقہ آپ کبھی اختیار نہیں کرتے تھے۔ مثلا اگر ایک معاملے میں پر امن طریقہ اختیار کرنا ممکن ہو تو آپ کبھی تشدد کا طریقہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ کیوں کہ پر امن طریقہ مسئلے میں اضافہ کیے بغیر قابل عمل ہوتا ہے، جب کہ تشدد کا طریقہ ہمیشہ مسئلہ میں اضافہ کرتا ہے۔ مثلاً پرتشدد طریقے میں تشدد پر نفرت کا اضافہ ہوتا ہے، وغیرہ۔
اگر آپ مسائل سے اپنا عمل شروع کریں تو فورا ہی آپ کا دوسروں سے ٹکراؤ ہوجائے گا۔ نامعلوم مدت تک آپ مسائل سے ٹکرانے میں لگے رہیں گے، اور یہ عمل مشتبہ رہے گا کہ آپ کے لیے مواقع کو اویل کرنے کا وقت آتا ہے یا نہیں۔ اس کے برعکس، اگر آپ مسائل سے اعراض کریں اور مواقع کو اویل کرنے سے اپنا عمل شروع کریں تو پہلے دن آپ کو اپنے عمل کا آغاز مل جائے گا۔ آپ پہلے دن سے مواقع کو اویل کرنا شروع کردیں گے۔ آپ کا ہر قدم آگے کی طرف جانے کے ہم معنی ہوگا۔ اسی کا نام منصوبہ بند عمل ہے۔ منصوبہ بند عمل ہمیشہ کامیاب ہوتاہے۔ اس کے برعکس، غیر منصوبہ بند عمل کے بارےمیں کچھ نہیں معلوم کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔
انسان رخی طرز فکر
پیغمبر اسلام کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آیا ہے:کان سہل بن حنیف، وقیس بن سعد قاعدین بالقادسیة، فمروا علیہما بجنازة، فقاما، فقیل لہما إنہا من أہل الأرض أی من أہل الذمة، فقالا:إن النبی صلى اللہ علیہ وسلم مرت بہ جنازة فقام، فقیل لہ:إنہا جنازة یہودی، فقال:ألیست نفسا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1312)۔یعنی سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں کھڑے ہو گئے ۔ لوگوں نے کہاکہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے ( جوغیر مسلم ہیں )۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا ۔ آپ اس کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا ۔ آپ نے فرمایا کیا وہ انسان نہیں ؟
اس حدیث سے ایک اہم بات معلوم ہوتی ہے، اور وہ سماجی دانش مندی(social wisdom) ہے۔ سماج یا انسانی اجتماع ہمیشہ مختلف قسم کے انسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ لوگوں میں اختلافات پیدا ہوجائیں۔ لوگ کسی کو اپنا دشمن سمجھیں، اور کسی کو دوست، لوگ کسی کو اپنا سمجھیں اور کسی کو غیر، کسی کے بارے میں وہ مثبت ہوں اور کسی کے بارے میں منفی۔ یہ کلچر پورے سماج کو ابدی طور پر غیر معتدل سماج بناد یتا ہے۔
اس لیے اس طرح کی صورت حال کا بہترین حل یہ ہے کہ ہر انسان کو انسان سمجھا جائے۔ ہر انسان کے بارے میں انسان رخی رویہ(human-friendly behaviour) اختیار کیا جائے۔ ہر انسان کو اپنے جیسا انسان سمجھا جائے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی عزت (mutual respect) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
پیغمبر اسلام نے خود اپنے عمل سے اس کا نمونہ قائم کیا۔ جیسا کہ معلوم ہے مدینہ ایک مختلف مذاہب کا معاشرہ تھا۔ پیغمبر اسلام نے اپنے عمل سے یہ ماڈل قائم کیا کہ ہر ایک انسان کے ساتھ یکساں طور پر عزت کا معاملہ کرنا۔ ہر انسان کو یکساں طور پر ایک ہی خالق کا پیدا کیا ہوا انسان سمجھنا۔
یکساں طور پر ہر ایک سے باعزت سلوک کا معاملہ صرف اخلاقی بات نہیں۔ اس کا تعلق براہِ راست طور پر انسان کی ترقی سے ہے۔ ایسے ماحول میں سماج کا ہر فرد ایک دوسرے کا خیرخواہ ہوگا۔ ہر انسان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا مالک ہوگا۔ ہر انسان کو یہ موقع ہوگا کہ وہ خود بھی ترقی کرے، اور دوسروں کو بھی ترقی کا موقع دے۔ اس کے برعکس، اگر لوگ اس احساس میں جئیں کہ فلاں شخص ان کا اپنا ہے، اور فلاں شخص ان کا غیر۔ تو ایسے سماج کا ہر فرد اپنی سوچ کے اعتبار سے غیر معتدل ہوجائے گا۔ وہ خود بھی سماج کا ایک پرابلم ممبر (problem member) بنا رہے گا، اور دوسروں کو بھی بلا اعلان یہ دعوت دے گا کہ تم بھی سماج کے پرابلم ممبر بن جاؤ۔
قناعت واحد حل ہے
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لو کان لابن آدم وادیان من مال لابتغى ثالثا، ولا یملأ جوف ابن آدم إلا التراب، ویتوب اللہ على من تاب (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6436)۔ یعنی اگر انسان کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تووہ تیسری کا خواہشمند ہو گا، اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی ،اور اللہ اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے ۔
انسان پیدائشی طور پر لامحدود کا طالب ہے۔ کوئی محدود چیز خواہ بظاہر کتنی ہی بڑی دکھائی دے، وہ کبھی انسان کو مطمئن کرنے والی نہیں۔انسان کو اس دنیا میں عملاً جو کچھ ملتا ہے، وہ ہمیشہ محدود ہوتا ہے۔ طلب اور مطلوب میں یہی تضاد ہے، جو ہمیشہ انسان کو غیر مطمئن رکھتا ہے۔
انسان کا یہ عدم اطمینان (discontentment) بے فائدہ نہیں۔ ا س کے پیچھے ایک اہم تخلیقی حکمت ہے۔ وہ حکمت یہ ہے کہ انسان اپنا مطلوب آخرت کو بنائے، نہ کہ دنیا کو۔ انسان کو پیدائشی طور پر معیار کا طالب (ideal seeking) بنا یا گیا ہے۔ جب کہ دنیا میں اس کے لیے جو قابل حصول چیزیں ہیں، وہ اس کی طلب سے بہت کم ہیں۔ آدمی بہت چاہتا ہے، مگر ہمیشہ اس کو کم ملتا ہے۔ آدمی ہمیشہ بہت زیادہ کا منصوبہ بنا تا ہے لیکن اپنے منصوبہ کی تکمیل سے پہلے انسان اس دنیا سے چلاجاتا ہے۔
طالب اور مطلوب میں یہ فرق اس لیے نہیں ہے کہ آدمی غیر مطئن بنا رہے۔ بلکہ وہ اس لیے ہے کہ انسان غور و فکر کے ذریعہ یہ دریافت کرے کہ اس کی طلب کا مطلوب کہاں ہے۔ جو آدمی اس طرح سوچے وہ دانشمندانہ سوچ کا حامل بنے گا۔ وہ اپنی زندگی کی صحیح منزل کو جان لے گا۔ وہ جان لے گا کہ اس کے مطلوب کا نہ ملنا ایک اہم حکمت کے سبب سے ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ اس کا ذہن ہمیشہ متحرک رہے، وہ کبھی جمود کا شکار نہ ہونے پائے۔
دنیا میں انسان کا یہ عدم اطمینان اس کو ابدی جنت کا طالب بناتا ہے۔ وہ اس پر غور و فکر کرکے اپنے مقصد اصلی کو جان لیتاہے۔ وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس کو کس طرح سچا طالب (true seeker) بننا چاہیے۔یہ چیز آدمی کو بھٹکنے سے بچا کر صحیح رخ پر سوچنے والا بنا دیتی ہے۔ جوآدمی اس طرح سوچے وہ کبھی منفی سوچ کا شکار نہ ہوگا، وہ ہمیشہ مثبت سوچ کا حامل بنا رہے گا، اور اس دنیا میں سب سے بڑی سوچ مثبت سوچ ہے۔
ہر ایک کے لیے خیر
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: المؤمن القوی، خیر وأحب إلى اللہ من المؤمن الضعیف، وفی کل خیر احرص على ما ینفعک، واستعن باللہ ولا تعجز، وإن أصابک شیء، فلا تقل لو أنی فعلت کان کذا وکذا، ولکن قل قدر اللہ وما شاء فعل، فإن لو تفتح عمل الشیطان(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2664)۔ یعنی ضعیف مومن کے مقابلے میں قوی مومن کے لیے خیر ہے، اور وہ اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے، لیکن ہر ایک میں خیر ہے۔ حرص کرو اس کی جو تم کو فائدہ پہنچائے۔ اللہ سے مدد مانگو، کمزوری نہ دکھاؤ۔اگر تم کو نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا۔ لیکن کہو اللہ نے مقدر کیا تھا، اور اس نے جو چاہا، وہی ہوا۔ کیوں کہ’’اگر‘‘ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے۔
اس حدیث سے تخلیق کی ایک حکمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ بظاہر کوئی شخص کمزور دکھائی دے تو یہ کمزوری ایک اعتبار سے ہوگی، ہر اعتبار سے نہیں۔ یہ تخلیق کا اصول ہے کہ اگر آدمی ایک اعتبار سے کمتر ہوتا ہے تو کسی دوسرے اعتبار سے اسے برتر صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص جسمانی اعتبار سے ضعیف ہو تو وہ دماغ کے اعتبار سے قوی ہوگا۔ کوئی شخص یاد (memory) کے اعتبار سےکم ہو تو وہ تجزیہ (analysis) کے اعتبار سے زیادہ ہوگا۔ کوئی شخص بزنس کے اعتبار سے کم ہو تو وہ علم کے اعتبار سے زیادہ ہوگا، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں یہ بات ریسرچ سے ثابت ہوگئی ہےکہ کوئی شخص مطلق معنوں میں قوی یا ضعیف نہیں ہوتا۔ چناں چہ پہلے معذور کے لیے ڈس ایبلڈ (disabled) کا لفظ بولا جاتا تھا۔ مگر اب یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔ اب ایسے افراد کو ڈفرینٹلی ایبلڈ (differently abled) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک اعتبار سے معذور اور دوسرے اعتبار سے طاقت ور۔
تخلیق کے اس نظام کا تقاضا ہے کہ آدمی کو کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے ظاہر پر رائے قائم نہ کرے، بلکہ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ اپنے معاملے پر سوچے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت (discover) کرے۔ وہ اپنے اندر چھپے ہوئے انسان کو جانے،اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔
باشعور انسان کا معاملہ
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عجبا لأمر المؤمن، إن أمرہ کلہ خیر، ولیس ذاک لأحد إلا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر، فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء، صبر فکان خیرا لہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2999)۔ اس حدیث میں مومن سے مراد معروف معنوں میں صاحب عقیدہ انسان نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد باشعور انسان ہے۔ اس سے مراد وہ انسان ہے جو صاحب معرفت انسان ہو، جو تدبر اور تفکر کی صفت کا حامل ہو۔ جس نے مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا یا ہو۔
ایسا انسان ہر چیز میں اس کے اندر چھپی ہوئی تخلیقی حکمت کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہے ، اس کے اندر یقینا کوئی گہری حکمت موجود ہے۔ وہ چیزوں کو ذاتی نگا ہ سے نہیں دیکھتا، بلکہ تخلیق کی حکمت کے اعتبار سے دیکھتا ہے ۔ اس ربانی طرز فکر کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ منفی میں مثبت کو دیکھنے والا بن جاتاہے۔ وہ اپنے مائنس پوائنٹ میں اپنے پلس پوائنٹ کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ بظاہر ناامیدی میں امید کے پہلو کوجان لیتا ہے۔ وہ موت میں زندگی کا سرمایہ دریافت کرلیتا ہے۔وہ اپنی شعوری بلندی کی بنا پر شکست میں فتح کا راز دریافت کرلیتا ہے۔
چیزوں کو بے آمیز صورت میں دیکھنا
پیغمبر اسلام کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی:اللہم، أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلا ووفقنا لاجتنابہ، ولا تجعلہ ملتبسا علینا فنضل، واجعلنا للمتقین إماما (تفسیر ابن کثیر، 1/571)۔ یعنی اے اللہ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے او پر ملتبس نہ کر کہ ہم گمراہ ہوجائیں، اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔ایک اور دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم أرنا الأشیاء کما ہی (تفسیر الرازی، 1/119)۔ یعنی اے اللہ، ہمیں چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔
ان دونوں دعاؤں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ صفت پیدا ہو کہ وہ بے آمیز انداز میں سوچے۔ بے آمیز کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذہنی اعتبار سے اتنا زیادہ ترقی یافتہ ہو کہ وہ حق کو حق کی صورت میں دیکھ سکے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دیکھے۔ وہ چیزوں کو ویساہی دیکھے، جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔
یہ وہی سوچ ہے جس کو موضوعی سوچ (objective thinking) کہاجاتا ہے۔ یعنی اَیز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking)۔آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کسی ماحول میں رہتا ہے۔ ماحول کے اثر سے اس کے اندر مختلف قسم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے متاثر ذہن کے تحت چیزوں کے بارے میں رائے قائم کرنے لگتا ہے۔ یہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اسی سے آدمی کے اندریہ کمزوری آجاتی ہے کہ وہ چیزوں کو ان کی حقیقت کے اعتبار سے نہیں دیکھ پاتا، بلکہ اپنے متاثر ذہن کے مطابق ایک خود ساختہ رائے بناتا ہے۔
جس انسان کے اندر ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking)کی صفت ہو، وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ مبنی بر حقیقت سوچے، مبنی بر حقیقت رائے قائم کرے، مبنی بر حقیقت منصوبہ بنائے۔یہ صفت کسی آدمی کو حکیم (man of wisdom) بناتی ہے، اور جو آدمی اس معنی میں حکیم (wise) ہو، وہی وہ انسان ہے جس کو سوپر مین (superman) کہا جاتا ہے۔
نزاع کا طریقہ نہیں
پیغمبر اسلام کو قرآن میں اپنے مشن کے سلسلے میں جو طریقہ بتایا گیا وہ یہ تھا کہ کسی بھی حال میں نزاع کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ یک طرفہ دانش مندی کے ذریعہ غیر نزاعی طریقہ اختیار کرو۔ اس سلسلے میں قرآن کی ہدایت ان لفظوں میں دی گئی ہے:لِکُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا ہُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّکَ إِنَّکَ لَعَلَى ہُدًى مُسْتَقِیمٍ (22:67)۔ یعنی اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک طریقہ مقرر کیا کہ وہ اس کی پیروی کرتے تھے۔ پس وہ اس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف بلاؤ۔ یقیناً تم سیدھے راستہ پر ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی کنڈیشننگ (conditioning) کی بنا پر الگ الگ طریقہ اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ تم ان کی کنڈیشننگ کو توڑو۔ اس طرح لوگ اپنی حالت فطری پر قائم ہوجائیں گے، اور یہ ممکن ہوجائے گا کہ اختلاف کے بجائے اتفاق کی بنیاد پر ان سے معاملہ کیا جائے۔
انجام دیکھ کر عمل کرنا
پیغمبر اسلام کا ایک واقعہ حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے: جاء رجل إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم فقال:بارک اللہ للمسلمین فیک، فخصنی منک بخاصة خیر، قال: مستوص أنت؟ أراہ قال:ثلاثا، قال:نعم، قال:اجلس، إذا أردت أمرا فتدبر عاقبتہ، فإن کان خیرا فأمضہ، وإن کان شرا فانتہ(الزھد والرقائق لابن المبارک، حدیث نمبر41)۔ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے کہا: آپ کے ذریعہ اللہ مسلمانوں کو برکت دے۔ آپ مجھ کو اپنی طرف سےکسی خاص خیر کی نصیحت کیجیے۔ آپ نے کہا: کیاتم نصیحت چاہتے ہو، آپ نے یہ بات غالباًتین بار کہی، آدمی نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: بیٹھ جاؤ، جب تم کوئی کام کرناچاہو، تو تم اس کے نتیجہ پر غور کرو، اگر اس میں خیر ہو تو اس کوکرو، اور اگروہ برا ہے تو اس سے رک جاؤ۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تم جو کام کرو،خوب سوچ سمجھ کرکر و۔ پہلے اس کے ہر پہلو پر غور کرو۔ بے لاگ انداز میں غور کرکے یہ سمجھو کہ وہ کام تمھارے لیے باعتبار انجام اچھا ہے یا برا۔ صرف جذبات کے تحت کوئی کام شروع نہ کرو، بلکہ اپنے اقدام کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد اس کی طرف آگے بڑھو۔ تمھارا ہر کام گہری سوچ کا نتیجہ ہو، نہ کہ محض جذبات کا نتیجہ۔
کام کرنے کے اس طریقے کو منصوبہ بند کام کہا جاتا ہے۔ منصوبہ بند کام کا اصول یہ ہے کہ پہلے سوچنا، اور پھر کرنا۔ جو آدمی کرنے کے بعد سوچے، وہ ایک غیر دانش مند آدمی ہے۔ اور جو آدمی کرنے سے پہلے سوچے، وہ ایک دانش مند آدمی۔
یہی درست اقدام کا دانش مندانہ اصول ہے۔ آدمی اگر ذاتی زندگی گزار رہا ہو تو اس کو زیادہ مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ لیکن جب آدمی کوئی عملی اقدام کرے تو اس کو بہت سے خارجی مسائل پیش آتے ہیں۔ ان خارجی مسائل کا پیشگی اندازہ کرنا، بہت ضروری ہے۔ جو آدمی خارجی مسائل کا پیشگی اندازہ کیے بغیر عملی اقدام کرے، وہ اپنے اقدام سے کچھ پائے گا نہیں۔ بلکہ اپنے نقصان میں صرف اضافہ کرنے کا سبب بنے گا۔
ابتدائی منصوبہ پر نظر ثانی
موجودہ دنیا میں کوئی آدمی پیشگی طور پر بالکل درست منصوبہ نہیں بنا سکتا۔ جب آدمی کسی عمل کو شروع کرتا ہے تو بعد کو ایسے حالات پیش آتے ہیں، جو تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کےلیے اپنے عمل کی ری پلاننگ کی جائے۔ پیغمبر اسلام کے حکیمانہ طریقے کا ایک جز ء یہ بھی تھا۔ آپ ہمیشہ اس کے لیے تیار رہتے تھے کہ اگر ابتدائی منصوبہ میں کوئی کمی نظر آئے تو دوبارہ زیادہ قابل عمل انداز میں نیا منصوبہ بنایا جائے۔
اس کی ایک مثال یہ ہےکہ پیغمبر اسلام نے مکہ میں 610 عیسوی میں اپنا مشن شروع کیا۔ اس وقت کے مکہ میں آپ کے مشن کے لیے موافق ماحول موجود نہ تھا۔ چناں چہ وہاں کے لوگوں کی اکثریت آپ کے خلاف ہوگئی۔آپ کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالنے لگے۔ اس وقت آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو مدینہ بھیجا۔ تاکہ وہ اندازہ کریں کہ کیا مدینہ کے حالات مکہ کے مقابلے میں آپ کے لیے زیادہ موافق ہیں۔ یہ دونوں صاحبان مدینہ جاکر لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے۔ اس لیے ان کو مقری کہا جاتا تھا۔ مدینہ کے لوگ برعکس طور پر کسی رکاوٹ کے بغیر اسلام قبول کرنے لگے۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ اسی زمانے میں پیش آیا۔
مدینہ کے بارے میں اس مثبت تجربے کے بعدنبوت کے تیرھویں سال آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں، اور از سر نو اپنے مشن کا آغاز کریں۔ اسی کا نام ری پلاننگ (replanning) ہے، اور ری پلاننگ پیغمبر اسلام کے طریقۂ کار کا ایک اہم جزء ہے۔
پیغمبر اسلام کا یہ طریقہ نہ تھا کہ اپنے عمل کا کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے بدستور اپنے عمل کو جاری رکھیں، اور جو لوگ بے نتیجہ کام میں مارے جائیں، ان کو شہید کا لقب دے کر اس بے نتیجہ کام کو گلوریفائی(glorify) کریں۔ پیغمبر اسلام کی ایک سنت ری پلاننگ ہے۔ پہلا منصوبہ اگر بے نتیجہ ثابت ہو تو اس کے بعد بھی اس منصوبے کو بدستور جاری رکھنا، وہ مکمل طور پر پیغمبر اسلام کی پالیسی کے خلاف تھا۔
تجربہ سے سبق لینا
رسول اللہ کی مکی زندگی کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں اس طرح آتا ہے:عن طلحة بن عبید اللہ، قال:مررت مع رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فی نخل، فرأى قوما یلقحون النخل، فقال:ما یصنع ہؤلاء؟ قالوا:یأخذون من الذکر فیجعلونہ فی الأنثى، قال:ما أظن ذلک یغنی شیئا، فبلغہم، فترکوہ، فنزلوا عنہا، فبلغ النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فقال:إنما ہو الظن، إن کان یغنی شیئا فاصنعوہ، فإنما أنا بشر مثلکم، وإن الظن یخطئ ویصیب، ولکن ما قلت لکم:قال اللہ، فلن أکذب على اللہ (ابن ماجہ، حدیث نمبر 2470) ۔ یعنی طلحہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک باغ میں سے گزرا۔ وہاں آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجور کو پیوند لگا رہے ہیں، آپ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا نر کا گا با لے کر مادہ میں ملاتے ہیں ، آپ نے کہا: میرے خیال سے اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لوگوں کو آپ کی یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے پیوند کاری (pollination) ترک کردی۔لیکن اس بار پھل کم ہوا ،آپ کو جب اس کا علم ہوا تو فرمایا وہ تو میرا خیال تھا ، اگر اس میں کچھ فائدہ ہے تو کرلیا کرو، میں بھی تمہاری مانند انسان ہوں۔اور خیال کبھی غلط ہوتا ہے کبھی صحیح ۔لیکن اگر میں تمہیں کہوں کہ اللہ نے فرمایا ، تو میں ہرگز اللہ پر جھوٹ نہ بولوں گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تجربہ سے سبق سیکھنا بھی دانش مندی کے حصول کا ایک درست ذریعہ ہے۔ تجربہ کوئی غیر متعلق چیز نہیں۔ تجربہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے فطرت کے ایک قانون کی دریافت ہے۔ جب انسان کو کوئی نیا مفید طریقہ دریافت ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اسے فطرت کے قانون کا ایک حصہ سمجھے، اور اس کو فوراً اپنے منصوبہ میں شامل کرلے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الکلمة الحکمة ضالة المؤمن، فحیث وجدہا فہو أحق بہا(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2687)۔یعنی حکمت کی بات مومن کا گم شدہ مال ہے، وہ اس کو جہاں پائے، تو وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔ تجربہ کے معاملے میں آدمی کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے لوگوں کا تجربہ ہےیا ا غیار کا تجربہ۔ ہر تجربہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ تجربہ کے معاملے میں اپنے اور غیر کی کوئی تقسیم نہیں۔
حقیقت پسندانہ مزاج
پیغمبر اسلام نے اپنی امت کو ایک حکمت کی بات ان الفاظ میں بتائی:لا تطرونی، کما أطرت النصارى ابن مریم، فإنما أنا عبدہ، فقولوا عبد اللہ، ورسولہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3445)۔ یعنی میرابیان بڑھا چڑھا کر نہ کرو، جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کابیان کیا ۔ میں تو صرف اس کا بندہ ہوں ، اس لئے یہی کہا کروکہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔
کسی کا ذکر بڑھا چڑھا کر کرنا، یہ ایک ہلاکت خیز کلچر ہے۔ یہ کلچر پہلے پیغمبر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک عام اسلوب بن جاتا ہے۔ اس سے قوموں میں حقیقت پسندانہ سوچ کا مزاج ختم ہوجاتا ہے۔ لوگوں کی سوچ، لوگوں کی منصوبہ بندی ، ہر چیز غیر حقیقت پسندانہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس لیے پیغمبر اسلام نے اس کلچر سے اپنی امت کو شدت کے ساتھ روکا۔
یہ کلچر اس طرح آتا ہے کہ لوگ پہلے اپنے پیغمبر کو شہنشاہ کونین، اور سرور دوعالم جیسے مبالغہ آمیز انداز میں ذکر کرتے ہیں۔پھر یہ کلچر عام ہوکر دوسرے مفروضہ بڑوں کے لیے بولاجانے لگتا ہے۔ مثلاً امام، اکابر، شیخ العالم اور قائم الزماں، سید الملت، وغیرہ۔ یہ سب قصیدہ خوانی کی زبان ہے۔ اور قصیدہ خوانی کی زبان ہمیشہ لوگوں کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) کا عمل روک دیتی ہے۔ لوگ اجتہاد کے بجائے تقلید کا طریقہ اختیارکرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے اندر ماضی پر فخر اور حال پر قناعت کا مزاج چھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ دوبارہ کوئی بڑا کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ان کا مزاج وہی بن جاتا ہے جس کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا— کیا قدیم شعراء نے پیوند کے برابر کوئی جگہ چھوڑی ہے(ہل غادر الشعراء من متردم)۔
نتیجہ خیز طریقہ
قدیم مکہ میں آپ کے مخالفین کا ظلم بہت زیادہ بڑھ گیا تھا تو آپ کے اصحاب میںاس کے خلاف جوابی عمل کا ذہن پیدا ہوا۔ لیکن اس کے جواب میں پیغمبر نے جو طریقہ اختیار کیا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے:قال عمر:یا رسول اللہ علام نخفی دیننا ونحن على الحق، ویظہر دینہم وہم على الباطل؟ قال:یا عمر إنا قلیل قد رأیت ما لقینا (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، 1/441)۔ یعنی عمر فاروق نے کہا، اے اللہ کے رسول ہم کیوں اپنے دین کو چھپائیں، حالاں کہ ہم حق پر ہیں، اور وہ اپنے دین کو ظاہر کریں حالاں کہ وہ باطل پر ہیں۔ آپ نے کہا: اے عمر ہم تھوڑے ہیں، اور تم نے دیکھا ہےجو ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔
اس معاملےکی اصل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام قدیم مکہ میں اپنا مشن اس انداز میں چلارہے تھے، جس کو لوپروفائل میں کام کرناکہا جاتا ہے۔ قدیم مزاج کے تحت عرب کے لوگ اس طریقے سے مانوس نہ تھے۔ وہ اس کو دب کر کام کرنا سمجھتے تھے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ ہم جب حق پر ہیں تو ہم لوگوں سے کیوں دب کر کام کریں۔
اس کے جواب میں پیغمبر اسلام نے کہا کہ ہم تھوڑے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کام کرنے کا نتیجہ خیز طریقہ وہ ہے جب کہ اپنی طاقت کے مطابق کام کیا جائے۔ جو ش وخروش کے تحت بڑے بڑے اقدام کرنا، دانش مند آدمی کا طریقہ نہیں۔
ایک دانش مندانہ اصول
پیغمبر اسلام کی وفات 632 عیسوی میں ہوئی۔ آپ کے بعد اسلام کی تاریخ میں خلافت کا دور آیا۔ یہ دور تقریباً 33 سال چلا۔ آخر زمانے میں مسلمانوں میں باہمی قتال شروع ہوگیا۔ اس میں لوگ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اس کے بعد امیر معاویہ کا دور شروع ہوا، جو خلافت پر مبنی نہ تھا،بلکہ خاندانی حکومت (dynasty) کے طریقے پر مبنی تھا۔
خلافت کا طریقہ قرآن کی آیت وَأَمْرُہُمْ شُورَى بَیْنَہُمْ (42:38) کے اصول پر قائم تھا۔ یعنی لوگوں کے مشورے پر صاحب امر کا انتخاب۔ یہ عملا وہی طریقہ تھا جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہا جاتا ہے۔ امیر معاویہ خود بھی ایک صحابی رسول تھے، اس کے علاوہ اس زمانے میں بڑی تعداد میں اصحاب رسول موجود تھے۔ لیکن تمام صحابہ اس تبدیلی پر راضی ہوگئے۔ صحابہ اور تابعین کے پورے دور میں اس کے خلاف بغاوت (revolt) نہیں ہوئی۔
حکومت کے نظام میں یہ تبدیلی اس وقت ہوئی جب کہ پیغمبر اسلام کے تربیت یافتہ اصحاب اور اصحاب کے تربیت یافتہ تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ نظام حکومت میں اس تبدیلی پر کوئی مخالفت نہیں ہوئی۔ مزید یہ کہ دور صحابہ کے بعد جو ادوار آئے، مثلاً محدثین کا دور، فقہاء کا دور، علماء کا دور، ان سب نے اس تبدیلی کو عملا قبول کرلیا۔
یہ تبدیلی پیغمبر اسلام کی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ نہ تھی۔ بلکہ وہ پیغمبر کی تعلیمات کے عین مطابق تھی۔ پیغمبر کی سیرت کے مطالعے سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ تھا کہ— جب نظری حکمت (theoretical wisdom) قابل عمل نہ ہو تو اس وقت عملی حکمت (practical wisdom) کو اختیار کرلیا جائے۔ کیوں کہ اس طرح کے معاملے میں اصل مطلوب چیز استحکام (stability) ہے ۔ پیغمبر اسلام کے بعد جب لوگوں نے دیکھا کہ خلافت کے تحت سیاسی استحکام (political stability) حاصل نہیں ہوا، جب کہ خاندانی حکومت کے تحت سیاسی استحکام حالات کے اعتبار سے قابل عمل (workable) طریقہ ہے، تو انھوں نے یہ کیا کہ اس معاملے میں پہلے آپشن(first option) کے بجائے دوسرےآپشن (second option) کو اختیار کرلیا۔ اسی دانش مندی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام کی تاریخ اس کے بعد مستحکم انداز میں بدستور تقریبا ہزار سال تک چلتی رہی۔
جیسا کہ معلوم ہے، بعد کے زمانے میں امت کے علماء نے اس اصول پر اتفاق کرلیا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔ جیسا کہ امام النووی (وفات676:ھ) کے الفاظ ہیں:وأما الخروج علیہم وقتالہم فحرام بإجماع المسلمین وإن کانوا فسقة ظالمین(شرح صحیح مسلم للنوی،12/229)۔ اس مسئلہ میں علمائے امت کا یہ اجماع بلاشبہ نظری حکمت کی بنیاد پر نہ تھا، بلکہ وہ عملی حکمت(practical wisdom) کی بنیاد پر تھا۔
ایک اجتماعی حکمت
حدیث کی کتابوں میں رسول اللہ کے زمانے کا ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:أن أعرابیا بال فی المسجد، فثار إلیہ الناس لیقعوا بہ، فقال لہم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:دعوہ، وأہریقوا على بولہ ذنوبا من ماء، أو سجلا من ماء، فإنما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6128)۔ یعنی ایک دیہاتی نے مدینہ کی مسجد میں پیشاب کر دیا ، لوگ اس کی طرف غصہ ہو کراس کوپکڑنے کے لیے بڑھے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اسے چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے اس جگہ پر پانی بھرا ہوا ایک ڈول بہادو ، کیونکہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو ، تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ۔
اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی معاملہ میں پیغمبر اسلام کا اصول کیا تھا۔ وہ اصول رعایت پر مبنی تھا۔ یعنی لوگوں کے ساتھ سخت گیری کا معاملہ نہ کرنا۔ بلکہ نرمی اور رعایت کا معاملہ کرنا۔ مزید اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اگر کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے تواس کو وہیں کا وہیں ختم کردیا جائے، اس کو مزید بڑھنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس طرح کے واقعے میں ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی غلطی ہمیشہ ایک چھوٹی غلطی ہوتی ہے، لیکن اگر اس واقعے پر شدید رد عمل ظاہر کیا جائے تو ایک چھوٹا واقعہ بڑھ کر ایک بڑا واقعہ بن جائے گا۔ حتی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چھوٹا واقعہ بڑھتے بڑھتے بڑے فساد کی صورت اختیار کرلے۔ اجتماعی معاملات میں اسلام کا طریقہ تیسیر کا طریقہ ہے، نہ کہ تعسیر کا طریقہ۔
پیغمبر اسلام، پیغمبر حکمت
قرآن میں پیغمبر اسلام کے بارے میں متعدد آیتوں میں یہ بات کہی گئی ہے کہ آپ کا ایک کام یہ تھا کہ آپ انسان کو خدا کی کتاب پہنچائیں۔ آپ کا دوسرا کام یہ تھا کہ آپ لوگوں کو حکمت کی تعلیم دیں۔ یہ دونوں کام ایک دوسرے سے الگ بھی تھے، اور ایک دوسرے سے متعلق بھی۔
حکمت کا لفظی مطلب ہے وزڈم (wisdom)۔ زندگی کے معاملات کو درست طور پر انجام دینے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت جس چیز کی ہے، وہ وزڈم ہے۔ وزڈم ہو تو آدمی اس قابل ہوتا ہےکہ وہ درست منصوبہ بنائے، اور وزڈم نہ ہو تو وہ غلط منصوبہ بنائے گا، جو مسئلہ کو بڑھانے والا ہوگا، نہ کہ مسئلہ کو حل کرنے والا۔
انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اکثر حالات کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ متاثر ذہن سے سوچنے کی بنا پر صحیح فیصلہ نہیں لے پاتا۔ جہاں انتظار کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے، وہاں وہ جلد بازی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ جہاں پر امن تدبیر کے ذریعہ مسئلہ حل کرنا چاہیے، وہاں وہ تشدد کا طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ جہاں رد عمل (reaction) سے بچ کر اپنا منصوبہ بنانا چاہیے، وہاں وہ ردعمل (reaction) کا شکار ہوکر ایسا منصوبہ بناتا ہے جو مسائل میں صرف اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔
اس طرح کے مواقع پر ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے پاس دانش مندی کا اصول ہو۔ اس کے پاس ایک ایسا رہنما اصول ہو، جو اس کو ہر موقع پر درست راستے کی طرف رہنمائی کرتا رہے۔ اسی کا نام حکمت (wisdom) ہے، اور اسی حکمت کے اصول کو بتانا ، پیغمبر کا سب سے زیادہ اہم کام ہے۔
فرشتے کی حمایت
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:بینما رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جالس ومعہ أصحابہ وقع رجل بأبی بکر، فآذاہ، فصمت عنہ أبو بکر ثم آذاہ الثانیة، فصمت عنہ أبو بکر، ثم آذاہ الثالثة، فانتصر منہ أبو بکر، فقام رسول اللہ حین انتصر أبو بکر، فقال أبو بکر:أوجدت علی یا رسول اللہ؟ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:نزل ملک من السماء یکذبہ بما قال لک، فلما انتصرت وقع الشیطان، فلم أکن لأجلس إذ وقع الشیطان (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4896)۔یعنی رسول اللہ ایک باراپنےاصحاب کےساتھ تھے کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق کو برا بھلا کہا اور ان کو تکلیف پہنچائی، ابوبکر صدیق خاموش رہے، اس نے پھر دوسری بار ابوبکر صدیق کو اسی طرح تکلیف دی ، ابو بکر صدیق پھربھی ان کے با رے میں خاموش رہے ،اس نے تیسری بار بھی تکلیف پہنچائی تو ابوبکر صدیق نے اسے جواب میں کچھ کہہ دیا۔ ابوبکر صدیق نے جواب دیا تو رسول اللہ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ یہ دیکھ کر ابوبکر صدیق نے کہا یا رسول اللہ ، کیا آپ مجھ پر ناراض ہیں ؟ رسول اللہ نے کہا کہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا وہ اس تکلیف پہنچانے والی کی تکذیب کرتا رہا، لیکن جب تم نے اسے جواب دے دیا تو شیطان آگیا ، اور جب شیطان آجائے تو میں بیٹھنے والا نہیں ۔
اس حدیث میں بظاہر ایک فرد کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک عام واقعہ ہے۔ اس کا تعلق انفرادی معاملات سے بھی ہے، اور اجتماعی معاملات سے بھی۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے کہ جب کوئی شخص مظلوم ہو، اور اپنی طرف سے کوئی کارروائی نہ کرے تو فرشتہ اس کی طرف سے کارروائی کرنے کے لیے آجاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس، جب انسان اپنے معاملے کو خود اپنا معاملہ بنا کر جوابی کارروائی کرنا شرو ع کردے تو وہ اکیلا ہوجاتا ہے۔ جس آدمی کاساتھی فرشتہ ہو، وہ بلاشبہ سب سے زیادہ طاقت ور انسان ہے، اور جو آدمی اپنے معاملے کو خود اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس وقت وہ ایک عام انسان بن جاتا ہے۔ اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ وہ جیتے گا، یا فریق ثانی کے مقابلے میں ہار جائے گا۔ ایسی حالت میں وزڈم کیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ آدمی خود کو طاقتور بنائے، کمزور نہ بنائے۔
سب سے زیادہ کامیاب طریقہ
پیغمبر اسلام کو قرآن میں جو حکمت کی باتیں بتائی گئی ہیں، ان میں سے ایک حکمت وہ ہے جو پیغمبر یوسف کے حوالے سے قرآن میں آئی ہے۔ پیغمبر یوسف کنعان میں پیدا ہوئے، جو اب الخلیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا زمانہ بقول اغلب 1910 تا 1800 ق م کا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ خاندانی اسباب پیدا ہوئے، اور وہ فلسطین سے نکل کر مصر پہنچ گئے۔اس زمانے کا مصر کا بادشاہ ان سے متاثر ہوا، اور اس نے آپ کو اپنی سلطنت میں پورے ملک کی زراعت کا انچارج بنا دیا۔
پیغمبر یوسف ایک گاؤں سے نکل کر مصر پہنچے تھے۔ ان کو یہ غیر معمولی کامیابی کیسے حاصل ہوئی۔ اس کا راز یہ تھا کہ انھوں نے اس وقت کے بادشاہ مصر سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا ، جس کو پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کہا جاسکتا ہے۔ وہ پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ یہ تھا کہ پیغمبر یوسف اِس پر راضی ہوگئے کہ حکومت کے تخت پر بادشاہ بدستور قائم رہے، لیکن ملک کے خزائن (زرعی نظام) پیغمبر یوسف کے ہاتھ میں ہو۔
یہ قصہ قرآن اور بائبل ، دونوں میں آیا ہے۔ بائبل (پیدائش، 41:40)میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہے: سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا:
Only as regards the throne will I be greater than you. (Genesis 41:40)
پیغمبر یوسف کے قصے کو قرآن میں احسن القصص یعنی بہترین طریق کار(best method) قرار دیا گیا ہے۔ یہ بہترین طریق کار کیا تھا، جس نے پیغمبر یوسف کو قدیم مصر میں اعلیٰ مواقع عطا کردیے۔ وہ طریق کار ایک لفظ میں یہ تھا— سیاسی اقتدار کے ساتھ پولیٹکل اپوزیشن کے بجائے پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کرنا۔ یہ طریقہ جو پیغمبر یوسف نے اختیار کیا، وہ قدیم زمانے میں بھی سب سے زیادہ کامیاب طریقہ تھا، اور موجودہ زمانے میں بھی وہ سب سے زیادہ کامیاب طریقہ ہے۔
دانش مندانہ پالیسی
پیغمبر اسلام نے ایک حکیمانہ نصیحت ان الفاظ میں کی ہے:لا ینبغی للمؤمن أن یذل نفسہ، قالوا:وکیف یذل نفسہ؟ قال:یتعرض من البلاء لما لا یطیق(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2254)۔ یعنی کسی مومن کے لئے یہ جائز نہیں کہ و ہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔صحابہ نے پوچھا: کوئی شخص اپنے آپ کو کس طرح ذلیل کرتا ہے۔ آپ نے کہا:ایسے امرِ مشکل کا وہ سامنا کرے جس سے نمٹنے کی اس میں طاقت نہ ہو۔
زندگی میں ایسے مواقع پیش آتے ہیں، جب کہ آدمی کا سامنا ایسی صورت حال کے ساتھ ہوتا، جس کے بارے میں پیشگی طور پر یہ معلوم رہتا ہے کہ اگر اس کا سامنا کیا گیا تو اس کا نتیجہ یک طرفہ طور پر آدمی کی اپنی تباہی کی صورت میں ہوگا۔ اس طرح کا ٹکراؤ جو یک طرفہ طور پر آدمی کی ناکامی کا سبب بنے، وہ پیغمبر اسلام کے طریق کا ر کے عین خلاف ہے۔ پیغمبر اسلام کا طریق کا ر یہ ہے کہ آدمی غیرنزاعی انداز (non-confrontational method) اختیار کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ نزاعی طریقہ (confrontational method) کو اختیار کرنا پیغمبر اسلام کی سنت کے سراسر خلاف ہے۔ غیر نزاعی طریق کار آدمی کے لیے ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، نزاعی طریق کار ہمیشہ آدمی کے لیے برعکس نتیجہ (counter productive) ثابت ہوتا ہے۔
معاملات کو خدا کی روشنی میں دیکھنا
پیغمبر اسلام کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: اتقوا فراسة المؤمن فإنہ ینظر بنور اللہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3127)۔ یعنی مومن کی فراست سے بچو، وہ اللہ کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ مومن وہ انسان ہے ، جس کی اعلیٰ دریافت اس کو کٹ ٹو سائز (cut to size) بنا دے۔ ایسا آدمی ایک متواضع انسان (modest person) ہوتا ہے۔ اس کا طریق فکر اس کو آخری حد تک حقیقت پسند انسان بنا دیتا ہے۔ ایسا انسان چیزوں کو ایز اٹ از (as it is) دیکھنے لگتا ہے۔ وہ حالات میں گھر کر نہیں سوچتا ہے، بلکہ وہ حالات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے۔ وہ منفی سوچ (negative thinking) سے پوری طرح پاک ہوتا ہے۔ وہ احساس برتری کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کی یہ صفات اس کو اس قابل بنادیتی ہیں کہ وہ اعلیٰ حکمت کے تحت سوچے اور اعلیٰ حکمت کے تحت فیصلہ کرے۔ مومن کی یہ صفات اس کو ناقابل تسخیر بنا دیتی ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو کرنا چاہیے، اور اس بات سے بچتا ہے، جس سے اسےبچنا چاہیے۔ اس بنا پر اس کا منصوبہ ہمیشہ حقیقت پسندانہ منصوبہ ہوتا ہے۔ مومن کی یہ صفات اس کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ اس کا منصوبہ ہمیشہ کامیاب رہے۔ وہ کبھی خود پیدا کردہ ذلت کا شکار نہ ہو۔
چپ رہنا بھی کام ہے
پیغمبر اسلام نے اپنی امت کو ایک حکیمانہ نصیحت ان الفاظ میں بتائی ہے:إذا قلت لصاحبک یوم الجمعة:أنصت، والإمام یخطب، فقد لغوت (صحیح البخاری، حدیث نمبر 934)۔ یعنی جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو: چپ رہ، تو تم نے ایک لغو کام کیا ۔
اگر مسجد کا امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہے، اور اس وقت کوئی شخص بول پڑے تو سننے والے کو اشارے سے اس کو چپ کرانا چاہیے۔ اگر وہ خود بھی بول کر اس کو چپ کرائے تو یہ ایک لغو (nonsense)کام ہوگا۔ کیوں کہ پہلے صرف ایک آدمی بولنے والا تھا، اب بولنے والے دو ہوگئے۔ گویا مسئلہ میں اضافہ ہوگیا۔ اس قسم کا طریقہ بلاشبہ ایک لغو طریقہ ہے۔
اس حکمت کا تعلق صرف مسجد کی نماز سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں دخل دینا، معاملےکواور زیادہ بگاڑنے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پر دانش مندی یہ ہے کہ آدمی خاموشی کا طریقہ اختیار کرے، وہ ہر گز دخل اندازی کرکے معاملےکو زیادہ پیچیدہ نہ بنائے۔یہ ایک دانش مندی کی بات ہے کہ آدمی یہ جانے کہ کب اسے عمل کرنا ہے ، اور کب عمل نہیں کرنا ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ کسی معاملے میں انجام کو سوچے۔ وہ جانے کہ کب بولنا ہے، اور کب چپ رہنا ہے۔ کب آگے بڑھنا ہے، اور کب پیچھے ہٹ جانا ہے۔ کب اقدام کرنا ہے، اور کب اقدام سے آخری حد تک اپنے آپ کو بچانا ہے۔ کب جیتنےکی کوشش کرنا ہے، اور کب اپنی ہار مان لینا ہے۔ جو لوگ اس دانش مندی کے حامل ہوں، وہی اس دنیا میں کامیابی حاصل کرتے ہیں، اور جو لوگ اس دانش مندی سے بے خبر ہوں، ان کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ سوچے سمجھے بغیر کسی معاملے میں کود پڑیں، اور اس کے بعد جب فطری قانون کے تحت وہ بربادی سے دوچار ہوں تو دوسروں کے ظلم کے خلاف کبھی ختم نہ ہونے والی شکایت کا دفتر کھول دیں۔
انتظار کی حکمت
زندگی کی ایک حکمت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بتائی ہے:أفضل العبادة انتظار الفرج (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3571)۔ یعنی کشادگی کا انتظار کرنا، ایک افضل عبادت ہے۔ انسان جب کوئی کام کرتا ہے، تو اس میں ایک فیصد حصہ اس کی اپنی کوشش کا ہوتا ہے، اور ننانوے فیصد حصہ فطرت کے قانون (law of nature) کا۔ فطرت کا قانون خالق کا مقرر کردہ ہے، وہ اپنی رفتار سے چلتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر انسان جلدی نہ کرے، اور انتظار کی پالیسی اختیار کرے تو گویا کہ وہ فطرت کے عمل (process) کی تکمیل کا انتظار کر رہا ہے۔ اس بنا پر اس کا انتظار ایک عبادت بن جاتا ہے۔ اس قسم کی عبادت ایک اعلیٰ درجے کی حکمت (wisdom)ہے۔
ایک مسیحی پادری اپنے گھر کے سامنے ایک ہرا بھرا درخت دیکھنا چاہتا تھا۔ انھوں نے یہ منصوبہ بنا یا کہ وہ ایک ہرا بھرا درخت لائیں ، اور اپنےگھر کے سامنے اس کو لگادیں۔ انھوں نے کچھ مزدوروں کی مدد سے ایسا ہی کیا۔ لیکن اگلی صبح کو جب وہ اٹھے تو درخت کے پتے مرجھا چکے تھے۔ چند دن کے بعد درخت پوری طرح سوکھ گیا۔ اس وقت ان کے ایک دوست ان سے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کا پادری دوست بہت زیادہ غمگین ہے۔ دوست نے اس کا سبب پوچھا۔ پادری نے کہا، میں جلدی میں ہوں، مگر خدا جلدی نہیں چاہتا:
I am in hurry, but God isn't
اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کے قانون کے مطابق، اپنے گھر کے سامنے ایک ہرا بھرا درخت دیکھنے کے لیے مجھے دس سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر میں چاہوں کہ ایک دن کے اندر میرے گھر کے سامنے ہرا بھرا درخت کھڑا ہوجائے تو ایسا ہونا فطرت کے قانون کے مطابق ممکن نہیں ۔
آدمی کو چاہیے کہ جب وہ کوئی منصوبہ بنائے تو اپنی خواہش کی بنیاد پر منصوبہ نہ بنائے، بلکہ غور کرکے یہ سمجھے کہ فطرت کے قانون کے مطابق منصوبے کی تکمیل کے لیے کتنی مدت درکار ہے، اور اس مدت کو اپنے پروگرام کا جزء قرار دے۔ یہی اس دنیا میں دانش مندی کا اصول ہے۔
ٹکراؤ کے بغیر کامیابی
پیغمبر اسلام نے زندگی کی ایک حکمت کو ان الفاظ میں بتایا ہے: نصرت بالرعب على العدو (صحیح مسلم، حدیث نمبر 523)۔ یعنی مجھے رعب کے ذریعہ دشمن پر مدد دی گئی ہے۔ یہ پیغمبر کی فضیلت کی بات نہیں ہے، بلکہ فطرت کے قانون کے مطابق یہ اعلیٰ تدبیر کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رد عمل (reaction) کے بجائے مثبت انداز میں اپنے عمل کا منصوبہ بناؤ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر تمھیں کسی کی طرف سے عداوت کا سامنا ہو تو عداوت کے مقابلے میں جوابی عداوت کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ عداوت کے جواب میں پر امن تدبیر کا طریقہ اختیار کرو۔ پر امن تدبیر تم کو اس قابل بنائے گی کہ تم کسی ٹکراؤ کے بغیر صرف پر امن تدبیر سے کامیابی حاصل کرلو۔
یہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ یہ حسن تدبیر کی اثر انگیزی کا معاملہ ہے، نہ کہ کسی پر اسرار فضلیت کا معاملہ۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی برابر نہیں، تم دور کرو اس سے جو بہتر ہو، تو تم دیکھو گے کہ تمھارے اور جن کے درمیان دشمنی ہے وہ گویا قریبی دوست بن گیا۔
چھوٹی برائی پر راضی ہونا
پیغمبر اسلام کے معاصر اہل ایمان کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔یہ اصحاب رسول مسلسل طور پر پیغمبر اسلام کے زیر تربیت تھے۔اصحاب رسول نے کچھ باتوں کو پیغمبر اسلام کی طرف منسوب کرکے ان کو قول رسول کے طور پر بیان کیا ہے، ان کو حدیث کہا جاتا ہے۔ اس کے سوا بہت سی باتیں ایسی ہیں، جن کو اصحاب رسول نے رسول کا حوالہ دیے بغیر اپنے طور پر بیان کی ہیں۔ اس قسم کی باتوں کو اَثر کہا جاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ باتیں بھی پیغمبر اسلام کی تعلیم کردہ باتیں ہیں۔ اگر چہ کتابوں میں وہ اَثارِ صحابہ کے طور پر نقل ہوئی ہیں۔
انھیں میں سے ایک وزڈم کی بات وہ ہے جو صحابی رسول حبیب بن خماشة کے حوالے سے حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس اثر کے الفاظ یہ ہیں: من لا یرضى بالقلیل مما یأتی بہ السفیہ یرضى بالکثیر (المعجم الاوسط للطبرانی، اثر نمبر2258)۔ یعنی جو شخص نادان کے چھوٹے شر پر راضی نہ ہوگا، اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا۔
یہ ایک دانشمندانہ اصول ہے۔زندگی میں کامیابی کے لیے یہ بے حد ضروری اصول ہے۔ اصل یہ ہے کہ خالق نے ہر انسان کو مکمل آزادی دی ہے۔ یہ آزادی براہ راست طور پر خالق کا ایک عطیہ ہے۔ کوئی بھی شخص اس آزادی کو انسان سے چھین نہیں سکتا۔ یہ آزادی برائے امتحان ہے۔ اللہ رب العالمین کو دیکھنا ہے کہ کون شخص اپنی ملی ہوئی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے ، اور کون شخص اپنی آزادی کاغلط استعمال کرتا ہے۔اسی صحیح استعمال یا غلط استعمال پر انسان کے ابدی انجام کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ یہ آزادی خالق کے تخلیقی منصوبہ کا ایک حصہ ہے، اور جو چیز تخلیقی منصوبہ کا حصہ ہو اس کو ختم کرنا کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف دو میں سےایک کا انتخاب (option) ہے۔ یا تو وہ دوسرے انسانوں کی آزادی کو روکنے کے لیے ہمیشہ ان سے لڑتا رہے ، اور کبھی کامیاب نہ ہوسکے ۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ آدمی اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے آرٹ آف مینجمنٹ (art of management) کو سیکھے۔ وہ دوسروں کی ناپسندیدہ روش کو مینج کرتے ہوئے اپنا راستہ بنائے۔ یعنی وہی طریقہ جس کوشارع عام (public road) پر چلتے ہوئے ہر آدمی اختیار کرتا ہے، اورکامیابی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔
اس اصول کواستعمال کرنے کی صورت میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ ایک آدمی کو دوسرے آدمی کی آزادی سے کچھ نقصان پہنچے گا۔ دانش مند آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے نقصان کو نظر انداز کرے۔اگر وہ ایسا کرے کہ اس قسم کے نقصان کو برداشت کرنے کے بجائے، اس پر لڑائی شروع کردے تو ایسا ٹکراؤ صرف اس کے نقصان میں اضافہ کرے گا۔ اس لیے دانش مندی کا اصول یہ ہے کہ کم نقصان پر راضی ہوجاؤ، تاکہ اپنے آپ کو بڑے نقصان سے بچا سکو۔
یہ اصول ایک عام اصول ہے۔ خاندانی زندگی میں بھی، سماجی زندگی میں بھی، اور قومی زندگی میں بھی۔ عقل مند آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے نقصان کو تجربہ (experience) کے خانے میں ڈال دے۔ وہ ایسے نقصان سے سبق سیکھے۔ وہ ایسے نقصان سے اپنے لیے بہتر منصوبہ بندی (planning)کا راز دریافت کرے۔
عقل مند کی پہچان
عمرو بن العاص پیغمبر اسلام کے ایک صحابی تھے۔ ان کا ایک قول کتابوں میں اس طرح نقل کیا گیا ہے:لیس العاقل الذی یعرف الخیر من الشر، ولکن العاقل الذی یعرف خیر الشرین (المجالسۃ و جواہر العلم، اثر نمبر670)۔ یعنی دانش مند آدمی وہ نہیں ہے، جو خیر اور شر کو جانے۔ لیکن دانش مند آدمی وہ ہے جو یہ جانے کہ دو شر میں سے بہتر کون سا ہے۔
صحابی رسول کا یہ قول زندگی کی ایک اہم حقیقت کو بتا تاہے۔ وہ یہ کہ زندگی میں انتخاب (option) خیر اور شر کے درمیان نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ کسی صورتِ حال میں اس کے لیے کمتر درجہ کی برائی (lesser evil) کیا ہے۔ مثلا سڑک پر آپ کی کسی سے ٹکر ہوگئی تو یہ کمتر درجہ کا مسئلہ ہے۔ لیکن ایسا ہونے پر اگر آپ کو غصہ آجائے، اور آپ لڑ نا شروع کردیں تو اس کے بعد دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہوجائے گی۔ اور اس کا انجام یہ ہوگا کہ اس کے بعد آپ یا تو اسپتال میں ہوں گے یا قبرستان میں ۔ پہلے اگر آپ کا کپڑا پھٹ گیا تھا تو اب آپ کو ٹوٹے ہوئے ہاتھ پاؤںکا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلے اگر سڑک پر مسئلہ ختم ہو گیا ہوتاتو اب مسئلہ کورٹ میں جائےگا، اور سالوں تک کے لیے آپ کا سکون برہم ہوجائے گا۔
ایسا اس لیے ہے کہ دنیا میں ہر شخص اپنے قول و فعل کے لیے آزاد ہے۔ آپ کسی کے قول و فعل پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ آپ اعراض کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے دوسروں کی منفی کارروائی کے انجام سے خود کو بچاسکتے ہیں۔ اور اگر آپ اعراض کے اصول کو اختیار نہ کریں تو آپ کو ایسے انجام کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی کوئی حد نہ ہوگی۔ اس دنیا میں عافیت کا اصول صبر ہے۔ صبر کے سوا جو طریقہ اختیارکیا جائے ،وہ مسئلہ کو صرف بڑھائے گا، وہ مسئلہ کو ختم کرنے والا نہیں۔
٭ ٭٭٭ ٭
موجودہ دنیا میں آدمی کے پاس بہت تھوڑا وقت ہے، اور اسی طرح بہت تھوڑے وسائل۔ ایسی حالت میں یہ ہر شخص کی لازمی ضرورت ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنے وسائل کو منظم انداز میں استعمال کرنا جانے۔ جو آدمی ایسا نہیں کرے گا اس کو آخر میں حسرت کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔
مستقبل کی پلاننگ
مستقبل کی پلاننگ کے لیے پیشگی گائڈ لائن
پیغمبر اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ہوا۔ آپ خاتم النبیین (Final Prophet) ہیں، آپ کی نبوت کی عمر 23سال تھی۔ لیکن اللہ کی توفیق سےآپ نے امت محمدی کو پیشگی طور پر ایسی گائڈ لائن بتادی جو انسانی تاریخ کے آخری دور تک کو کور (cover) کرنے والی تھیں۔
پیغمبر اسلام نے امت محمدی کو جو گائڈ لائن دی، اس کا ایک حصہ ایسا تھا جو ہر زمانے کےلیے قابل تطبیق (applicable) تھا۔ یہ حصہ فقہ کی صورت میں مدون ہوگیا۔ مگر اسی کے ساتھ دوسرا حصہ وہ تھا جو مستقبل کے اعتبار سے تھا۔ اس حصہ میں پیغمبر اسلام نے معاصر زبان میں مستقبل کی باتیں کہیں۔ دوسرے لفظوں میں روایتی دور میں وہ باتیں کہیں جو بعد کو سائنٹفک ایج میں رہنما بننے والی تھیں۔ اس دوسرے حصہ کو سمجھنے کے لیے صرف قرآن و حدیث کا روایتی علم کافی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو دور مابعد، دوسرے الفاظ میں سائنٹفک ایج (scientific age) کا گہرا فہم (deep understanding) حاصل ہو، دین کی صرف روایتی معرفت اس کے لیے کافی نہیں۔اس حیثیت سے یہاں موضوع کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
اس پہلو سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنت میں پہلی نوعیت کی باتیں حکم کی زبان میں ہیں۔ جب کہ دوسری نوعیت کی باتیں خبر کی زبان میں آئی ہیں۔ یہ فرق گویا ایک سراغ (clue) ہے جو زیر نظر پہلو کا مطالعہ کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
1 - مثلاً قرآن کی آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔
یہاں خبر کے اسلوب میں یہ کہا گیا ہے کہ قرآن عالمین (تمام اقوام عالم) کے لیے نذیر (warning) ہے۔ یہاں غور طلب ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں وہ اسباب موجود ہی نہ تھے، جن کو استعمال کرکے تمام اقوام عالم تک قرآن پہنچایا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت کا متضمن مفہوم(implied meaning) یہ ہے کہ مستقبل میں ایک ایسازمانہ آئے گا، جب کہ مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمے تیارکرکے ان کو تمام قوموں تک ان کی قابل فہم زبانوں میں پہنچانا ممکن ہو جائے گا۔ اس وقت امت محمدی کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اس کا منصوبہ بنائے، اور اس کو اس کے تمام تقاضوں کے تحت انجام دے۔ ان الفاظ میں واضح طور پر اس دور کی طرف اشارہ ہے جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس، اور کمیونی کیشن آچکا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ دور آجائے تب امت محمدی پر اس دور کا استعمال برائے دعوت اسی طرح فرض ہوجائے گا جس طرح نماز اور روزہ ابدی طور پر فرض ہے۔
2 - قرآن میں اس نوعیت کی ایک اور آیت ان الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ یہاں آفاق سے مراد مادی دنیا(material world) اور انفس سے مراد انسانی دنیا (human world) ہے۔
قرآن کی اس آیت میں آنے والے سائنسی دور کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں امت محمدی کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ جب وہ سائنسی دور دنیا میں آجائے تو تم فور اًاس کو پہچان لینا، اور از سر نو سائنس کی دریافت کردہ حقائق کی روشنی میں اپنے دعوتی مشن کی منصوبہ بندی کرنا۔ تاکہ لوگوں کو ان کی اپنی مسلمہ عقلی بنیاد (rational ground) پر حقائق اسلام کا اظہار ہوجائے۔
3 - اسی طرح احادیث میں اس نوعیت کی مختلف پیشین گوئیاں آئی ہیں۔ مثلا ایک روایت کے مطابق قدیم مکہ کے قریش کے مطالبے پر آپ نے بتایا تھا : کلمة واحدة تعطونیہا تملکون بہا العرب، وتدین لکم بہا العجم (سیرت ابن ہشام،1/417)
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس آنے والے دور کی طرف اشارہ ہے، جب کہ دنیا میں مکمل طور پر امن (peace) کا زمانہ آجائے گا۔ جب کہ یہ ممکن ہوجائے گا کہ کسی رکاوٹ کے بغیر توحید کی آئڈیا لوجی پر نان پولیٹکل ایمپائر قائم کیا جاسکے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب وہ دور آجائے تو امت محمدی کو چاہیے کہ وہ نفرت اور تشدد اور جنگ کی تمام صورتوں کو یک طرفہ طور پر ختم کردے، اور پیدا شدہ مواقع کوپرامن طور پر استعمال کرتے ہوئےتو حید کی بنیاد پر ایک نان پولیٹکل ایمپائر (non-political empire)قائم کردے۔
4 - اسی طرح پیغمبر اسلام کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر 23865)۔ یعنی روئے زمین پر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گھر نہ بچےگا، مگر اس میں اللہ اسلام کا کلمہ داخل کردےگا۔
اس حدیث میں مستقبل کی امت محمدی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جب یہ دور آجائے تو تم اس دور کو پہچانو۔ اس وقت تم ان تمام سرگرمیوں کو بند کردو، جس سے اس دور کے مواقع کو استعمال کرنا تمھارے لیے ناممکن ہوجائے۔ اس وقت تم یک طرفہ منصوبہ بندی کے ذریعہ آنے والے مواقع کو پر امن طور پر استعمال کرو، اور دین اسلام کو ہر گھر میں پہنچادو۔ یہ دور جب آئے گا تو وہ اپنے آپ سب کچھ نہیں کر ڈالے گا، بلکہ امت محمدی کو اس وقت کی ضرورت کے مطابق، دانش مندانہ منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔
5 - دور دجال کی روایتوں میں سے ایک روایت وہ ہے جس میں دجا ل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دجال جب بولے گا، اس کی آواز مشرق و مغرب میں سنائی دے گی۔ چوتھے خلیفہ علی بن ابی طالب، پیغمبر اسلام کا نام لیے بغیر دجال کے بارے میں کہتے ہیں:ینادی بصوت لہ یسمع بہ ما بین الخافقین (کنزالعمال، حدیث نمبر 39709) ۔ یعنی وہ ایسی آواز میں پکارے گا، جو مشرق و مغرب کے درمیان سنائی دے گی۔
محدثین کی تقسیم کے مطابق یہ ایک موقوف روایت ہے۔ لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھیے تو یہ ایک ثابت شدہ روایت ہے۔ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے زمانے میں ایسے ذرائع وجود میں آئے، مثلاً انٹرنیٹ ۔ اب ایک انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ ایک جگہ سے بولے، اور اس کی آواز زمین کے کسی بھی حصہ میں سنائی دے۔ اس لحاظ سے اس روایت میں مستقبل کے ایک امکان کا ذکر ہے۔ یعنی اس دور کا ذکرہے جب کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ ممکن ہوجائے کہ وہ زمین کے کسی بھی حصہ میں ایک دعوتی سینٹر بنائے، اور اس کے ذریعہ وہ دین حق کی باتوں کو اس طرح نشر کرے، کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں کے لیے اس کا دیکھنا اور سننا پوری طرح ممکن ہوجائے۔
اس معاملے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اکیسویں صدی میں وہ دور پوری طرح آچکا ہے۔ اب کھلے طور پر یہ ممکن ہو گیا ہے کہ امت محمدی کے لوگ اٹھیں ، اور موجودہ زمانے کے مواقع (opportunities) کو استعمال کرتے ہوئے اس پیشین گوئی کو عالمی سطح پر واقعہ بنادیں، جو ان الفاظ میں آئی ہے:لیبلغن ہذا الأمر ما بلغ اللیل والنہار (مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔ یعنی یہ امر ضرور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں۔
ایک حدیث کے مطابق، دور آخر میں سب سے بڑا دعوتی واقعہ ظہور میں آئے گا۔ اس واقعہ کے لیے حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔ یعنی اللہ رب العالمین کے نزدیک یہ سب سے بڑی گواہی ہوگی۔ یہاں شہادت سے مراد دعوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے آخری زمانے میں ایک ایسا عظیم دعوتی واقعہ پیش آئے گا، جو شہادت اعظم (greatest witness) کے ہم معنی ہوگا۔
شہادت اعظم کوئی پر اسرار واقعہ یا معجزاتی واقعہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ قوانین فطرت کے مطابق انجام پائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں مسلسل طور پر تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ تبدیلیوں کے اس عمل کے بعد اس کے نقطۂ انتہا (culmination) کے طور انتہائی عظیم وسائل انسان کی دسترس میں آجائیں گے۔اس وقت فطری طور پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ دعوت الی اللہ کے کام کو اس کی عظیم ترین صورت میں انجام دیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں