Pages

Sunday 10 June 2018

Al Risala | July 2018 (الرسالہ،جولائی)

4

- اسلام کا رول

5

- اخوانِ ابرہیم ، اخوانِ محمد

6

- ایک عمل جو انسان کو رب العالمین کا محبوب بنادیتا ہے

8

- عالمی تائید اسلام

11

- ایج آف ریزن

12

- دورِ شخصیت، دورِ استدلال

14

- پیغمبروں والا کام

15

- دینِ خداوندی کے دو دور

19

- دین، تائیدِ دین

20

- سبق کا پہلو

21

- فقہ الاقلّیات

23

- حکومت کا معاملہ

24

- جمہوریت کیا ہے

25

- منصوبۂ تخلیق

36

- معیار کی تبدیلی

37

- پرامن طریق کار

42

- آفاقی طرزِ فکر

44

- نتیجہ خیز آغاز

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


اسلام کا رول

قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ شرک کیا ہے۔ شرک دراصل فطرت کی پرستش (nature worship) کا دوسرا نام ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے: لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ (41:37) ۔ خالق نے فطرت (nature) کے اندر عظیم ٹکنالوجی رکھی تھی۔ یہ ٹکنالوجی گویا سویلائزیشن کا انفراسٹرکچر تھا۔ مگر انسان لمبی مدت تک اس نعمت سے بے خبر رہا۔
اسلام کے ذریعے جو مبنی بر توحید انقلاب آیا۔ اس نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ نیچر اور ورشب دونوںکو ایک دوسرے سے الگ (delink) کردیا۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری ہوا۔ اب نیچر تحقیق کا موضوع (object of investigation) بن گئی، جو کہ اسلام سے پہلے پرستش کا موضوع (object of worship) بنی ہوئی تھی۔ اسی پراسس کے آخری مرحلے میں وہ چیز ظہور میں آئی جس کوماڈرن تہذیب کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب سے پہلے اقتصادیات کا بنیادی ذریعہ زراعتی زمین (agricultural land) تھا۔ اسی زرعی زمین سے انسان کو سب کچھ ملتا تھا۔ قدیم زمانے میں جو لڑائیاں ہوتی رہیں، وہ اسی زرعی زمین پر قبضے کے لیے ہوا کرتی تھیں۔
جدید تہذیب کے نتیجے میں ایک نیا دور آیا۔ جس کو صنعتی دور (industrial age)کہا جاتا ہے۔ اب اقتصادیات کا سب سے بڑا ذریعہ صنعت (industry) بن گئی، اور صنعت کے لیے زمین پر سیاسی قبضے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس طرح جدید صنعتی دور نے عملی طور پر جنگ کو بے فائدہ بنا دیا، اور دنیا میں ایک نیا دور آیا، جس کو دورِ امن (age of peace) کہا جاتا ہے۔اس دورِ امن کو پیدا کرنے کا ذریعہ بظاہر صنعتی انقلاب تھا۔ مگر صنعتی انقلاب کو جس چیز نے پیدا کیا، وہ اسلام تھا۔ اسلام اس دورِ امن کا نظریاتی بانی ہے، اور جدید سویلائزیشن اس دور کو عملی طور پر وجود میں لانے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اخوانِ ابرہیم ، اخوانِ محمد

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 570 عیسوی میں مکے میں پیدا ہوئے، اور 632 عیسوی میں مدینے میں آپ کی وفات ہوئی۔آپ کا زمانہ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام سے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد کا زمانہ ہے۔ آپ پیغمبر ابراہیم کی دعا (سورۃ البقرۃ،2:129)کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔ قرآن میں آپ کے بارے میں ایک آیت آئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو جو یکسو تھا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا(16:123)۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں، یہ در اصل ایک تاریخی حقیقت کا اعلان ہے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب وہ لوگ تھے، جن پر ایک تاریخ منتہی (culminate) ہوئی تھی۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی غیر معمولی قربانی کے ذریعے مکے میں ایک تاریخی عمل (historical process) کا آغاز کیا تھا۔ یہ تاریخی عمل اپنے فطری مراحل سے گزرتے ہوئےچھٹی صدی عیسوی میں اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچا تھا۔ اس وقت عرب میں وہ مخصوص افراد پیدا ہوئے، جو اپنے رول کی بنا پر رسول اور اصحابِ رسول کہے جاتے ہیں۔
رسول اور اصحابِ رسول کی قربانیوں کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں ایک اور تاریخی عمل (historical process) شروع ہوا۔ اس تاریخی عمل کی تکمیل پر دوبارہ تقریباً ہزار سال کا زمانہ گزرا۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہ عمل اپنی تکمیل کو پہنچ گیا۔ اب دوبارہ ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے، جو اس بات کا مصداق ہو کہ بعد کو بننے والا تاریخی عمل اس پر منتہی ہوا ہو۔ اصحابِ رسول کے بعد یہ دوسرا گروہ ہوگا، جس کو حدیثِ رسول میں پیشگی طور پر اخوانِ رسول (صحیح مسلم، حدیث نمبر 249) کا نام دیا گیا ہے۔ گویا کہ پیغمبرِ اسلام اور آپ کے اصحاب اخوانِ ابراہیم تھے، اور بعد کو بننے والا گروہ اخوانِ محمد ہوگا۔ اخوانِ ابراہیم نے دعوتی مشن کو آگے بڑھایا تھا، اب اخوانِ محمد اسی دعوتی مشن کو اگلے مرحلے تک پہنچائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

ایک عمل جوانسان کو رب العالمین کا محبوب بنا دیتا ہے


اختلاف کے باوجود متحد ہو کر اللہ کے مشن کے لیے کام کرنا ایک ایسا عمل ہے، جو انسان کو معمولی انسان سے بڑھا کر غیر معمولی انسان بنا دیتا ہے۔ ایسا انسان رب العالمین کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ یہ حقیقت قرآن کی ایک آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر قتال کرتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں یقاتلون سے مراد یجاھدون ہے۔ یعنی اللہ کے مشن میں بھر پور طاقت کے ساتھ اپنی کوشش جاری رکھنا۔ اللہ کا مشن کیا ہے، اللہ کی مرضی کو اللہ کے بندوں تک پرامن طریقے سے پہنچانا۔ ایسا انسان اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ ایسے انسان کو اللہ خصوصی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے۔ ایسے انسان کے لیے فرشتے بہترین دعائیں کرتے ہیں، ایسے انسان کو آخرت میں وہ درجہ ملتا ہے، جو دوسرے انسانوں کو نہیں ملتا۔
دنیا کی زندگی میں جب بھی مل جل کر کوئی کام کیا جائے تو ضرور ایسا ہوتا ہے کہ آپس میں اختلافات (differences)پیدا ہوں ۔ایک کو دوسرے سے شکایت کا تجربہ پیش آئے۔ اجتماعی جدو جہد میں اس قسم کا تجربہ پیش آنا بالکل فطری ہے، جو انسان ایسا تجربہ پیش آنے کے بعد اس کو عذر (excuse)بنا لے، اور شکایت کو عذر بنا کر اجتماعیت سے الگ ہوجائے، وہ اللہ کا غیر محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو انسان شکایت کو نظر انداز کرے، اوراختلاف کے باوجود متحد ہوکر اپنا کام جاری رکھے، وہ اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔
اجتماعی جدو جہد میں اختلاف کا پیش آنا، کوئی برائی نہیں، بلکہ وہ ایک موقع (chance) ہے ۔ جب کوئی انسان اختلاف کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرے، اور بڑھے ہوئےجذبے کے ساتھ خدا کے مشن کو بدستور جاری رکھے۔ ایسا انسان اپنے آپ کو اس بات کا مستحق بنادیتا ہے کہ اللہ کے یہاں اس کا درجہ بہت بڑھ جائے۔
اس دنیا میں کوئی بڑا کام اجتماعی جدو جہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اور اجتماعی جدو جہد میں اختلافات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ایسی حالت میں کوئی بڑا کام کس طرح کیا جائے۔ اس کی صورت صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ اختلاف کو انا (ego) کا مسئلہ نہ بنا یا جائے، بلکہ ا س کو اللہ رب العالمین کے خانے میں ڈال دیا جائے۔
حدیث کی کتابوں میں عبادہ بن الصامت سے ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: بَایَعْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ، وَعَلَى أَثَرَةٍ عَلَیْنَا، وَعَلَى أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَہْلَہُ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ أَیْنَمَا کُنَّا، لَا نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَةَ لَائِم(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1709)۔یعنی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی، مشکل اور آسانی ، خوشی اور ناخوشی ہر حالتوں میں، اور یہ کہ ہمارے اوپر ترجیح دی جائے، اور یہ کہ ہم اولو الامر کے ساتھ اختلاف نہیں کریں گے، اور ہم جہاں بھی ہوں حق بات کہیں گے، اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے سے خوف نہیں کریں گے۔
یہ اجتماعی جدو جہد کا کلچر ہے۔ اس کلچر کا تعلق جنگ سے نہیںہے، بلکہ پر امن جدو جہد سے ہے۔ کسی مشن کے لیے پر امن جدو جہد کرنے میں یہ تمام امتحانات لازماً پیش آتے ہیں۔ ان امتحانات میں پورا اترنا ، وہ عمل ہے، جو انسان کو اللہ کا محبوب بندہ بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عالمی تائید اسلام

اللہ رب العالمین کا ایک منصوبہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:یُرِیدُونَ أَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَى اللَّہُ إِلَّا أَنْ یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ (9:32)۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنی روشنی کو پورا کیے بغیر ماننے والا نہیں، خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس آیت میں نور (روشنی)سے مراد دینِ توحید ہے۔ قدیم تاریخ بتاتی ہے کہ اہل شرک نے ہرممکن کوشش کی کہ دینِ توحید کو لوگوں کا دین نہ بننے دے۔ اہل شرک اپنے وقت کے اہل اقتدار سے مل کر تشدد کی حد تک دینِ توحید کے مخالف بن گئے۔ اللہ نے چوں کہ اس دنیا کو آزادی کے اصول پر بنایا ہے، اس لیے اللہ خود اپنے منصوبے کے مطابق، ایسا نہیں کرسکتا تھا کہ وہ لوگوں کا ہاتھ پکڑ لے۔
اللہ نے اس معاملے میں مینجمنٹ کا طریقہ اختیار کیا۔ اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینج کیا کہ وہ تدریج کے ساتھ معاونِ توحید تاریخ بن گئی۔ جب کہ اس سے پہلے وہ مخالفِ توحید تاریخ بنی ہوئی تھی۔ اس مقصد کے لیے اللہ رب العالمین نے انسان کی آزادی کو برقرار (maintain) رکھتے ہوئے تاریخ میں ایک عمل (process) جاری کیا ۔یہ پراسس اپنے آخری نتیجے کے طور پر یہ تھا کہ انسان کی آزادی مکمل طور پر باقی رہے، اسی کے ساتھ ایسے امکانات پیدا ہوجائیں، جن کو اویل (avail) کرکے اہلِ توحید آزادانہ طور پر دینِ توحید کو سارے عالم میں پھیلادیں۔اس آیت میں اتمامِ نور کا مطلب ہے— دنیا میں دورِ شرک کے بجائے، توحید کا دور لانا۔
یہ ایک عظیم خدائی منصوبہ تھا۔ اس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ہُمْ مِنْ أَہْلِہِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔یعنی اللہ اسلام کی تائید ایسے لوگوں سے کرے گا، جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں دورِ توحید کا پراسس اتنے ہمہ گیر انداز میں چلے گا کہ نہ صرف اہلِ ایمان ، بلکہ غیر اہلِ ایمان بھی اس تاریخی عمل (historical process) کا حصہ بن جائیں گے۔ مگر خدائی منصوبے کے مطابق، اس تاریخی انقلاب کو اس طرح نہیں لانا تھا کہ انسانی آزادی کو موقوف کردیا جائے۔ بلکہ یہ کام منصوبہ ٔالٰہی کے مطابق، اس طرح ہونا تھا کہ انسانی آزادی بدستور برقرار رہے، اور اسی کے ساتھ تاریخ میں ایک ایسا طاقتور پراسس جاری ہو، جو اس طرح منتہی(culminate) ہو کہ اس کی تکمیل پر دنیا میں وہ دور آئے جو اپنے ساتھ مذہبی آزادی، عالمی ذرائع ابلاغ وغیرہ لائے، جس کے نتیجے میں کسی بھی انسان کے لیے رائے کا اظہار، اور مذہب کی تبلیغ وغیرہ آسان ہوجائے۔ مگر تاریخ میں یہ انقلاب باعتبار مواقع (opportunities) آیا۔ یعنی اہلِ توحید کے لیے یہ موقع کھل گیا کہ اگر وہ چاہیں تو حکیمانہ منصوبے کے ذریعہ اس امکان کو پہچانیں، اور اویل (avail)کریں۔
غالباً یہی وہ حقیقت ہے، جس کی طرف ایک حدیث میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: کَانَ الرَّجُلُ فِیمَنْ قَبْلَکُمْ یُحْفَرُ لَہُ فِی الأَرْضِ، فَیُجْعَلُ فِیہِ، فَیُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَیُوضَعُ عَلَى رَأْسِہِ فَیُشَقُّ بِاثْنَتَیْنِ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ، وَیُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الحَدِیدِ مَا دُونَ لَحْمِہِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ، وَاللَّہِ لَیُتِمَّنَّ ہَذَا الأَمْرَ، حَتَّى یَسِیرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لاَ یَخَافُ إِلَّا اللَّہَ، أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِہِ، وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3612)۔ یعنی تم سے پہلی امتوں میں سے کسی کے لیے (توحید اختیار کرنے پر )گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں ڈال دیا جاتا ۔ پھر اس کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتا ۔ لوہے کے کنگھے اس کے گوشت میں دھنسا کر اس کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے پھر بھی وہ اپنا ایمان نہ چھوڑتا ۔ خدا کی قسم یہ امر بھی تکمیل کو پہنچے گا اوریہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا،اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہیں ہو گا ، یا بھیڑیے کا (خوف ہو گا) اپنی بکریوں پر، لیکن تم لوگ جلدی بازی کررہے ہو ۔
موجودہ زمانے میں یہ تاریخ اپنی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔ اب اہلِ توحید کو صرف ایک حکمت (wisdom) کو جاننا ہے۔ وہ یہ کہ وہ جو کچھ کریں، پوری طرح پرامن (peaceful) انداز میں کریں۔ وہ کسی حال میں تشدد (violence) کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ جب تک وہ پر امن رہیں، سارے مواقع ان کے لیے کھلے رہیں گے۔ وہ صرف اس وقت ان سے چھن سکتے ہیں، جب کہ وہ اس راز کو نہ سمجھیں، اور تشدد کا طریقہ اختیار کرلیں۔
حدیث میں تائیدِ دین کی بات کسی محدود معنی میں نہیں ہے۔بلکہ نہایت وسیع معنی میں ہے۔ مثال کے طور پر رسول اللہ کے زمانے میں کعبہ میں تمام قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے۔ اس بنا پر روزانہ وہاں لوگوںکا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہوتا تھا۔پیغمبرِ اسلام نے اس اجتماع کو آڈینس (audience) کے روپ میں دیکھا، اور مکہ میں تیرہ سال تک ان مواقع (opportunities) کو دعوتی مقصد کے لیے اویل کرتے رہے۔ جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس زمانے میں رسول اللہ کو وہ تمام افراد ملے، جن کو اجلّۂ صحابہ کہا جاتا ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ وہ ابدی معنوں میںایک سنتِ رسول ہے۔ ہر زمانے میں اس کو اپلائی (apply) کیا جاسکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی پوری طرح مثبت سوچ والا ہو، اور کسی بھی قسم کی منفی سوچ کے بغیر حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مثلاً موجودہ زمانے میں ایک کلچر رائج ہوا ہے، جس کو اجتماع کلچر (gathering culture) کہہ سکتے ہیں۔ کہیں کانفرنس کے نام پر، کہیں ٹورزم کے نام پر، کہیں میٹنگ کے نام پر، کہیں نمائش (exhibition) کے نام پر، کہیں جشن کے نام پر،کہیں فیسٹیول کے نام پر،کہیں بک فیر (book fair)کے نام پر، وغیرہ۔ یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ ہر جگہ اور دنیا کے ہر حصے میں تقریبا ًروزانہ وہ بڑے پیمانے پر ہوتے رہتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو مکہ میں پیغمبرِ اسلام کو "زیارتِ اصنام" کے نام پرجو موقع ملا تھا، اب وہ ہزاروں گنا زیادہ بڑے پیمانے پر ہر جگہ موجود ہے۔ اس طرح گویا داعی اور مدعو کی دوری ختم ہوچکی ہے۔ان اجتماعات کو دعوت کے لیے استعمال کرنے کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ لوگ تشدد سے دور رہیں، اور پرامن منصوبے کے ذریعے اس کو استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں

  ایج آف ریزن


حدیث رسول میں آیا ہے کہ ظہورِ دجال کے وقت ایک شخص دجال کے مقابلے میں حق کی گواہی دے گا(صحیح مسلم ، حدیث نمبر2938) ۔ یہ گواہی تاریخ کی ایک عظیم گواہی ہوگی۔ چنانچہ اس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے۔ شہادتِ اعظم سے کیا مراد ہے اس کا ایک کُلُو (clue) دجال سے متعلق ایک اور روایت (صحیح مسلم ، حدیث نمبر 2937)میں ملتاہے جس میں حجیج کا لفظ آیا ہے۔ یعنی دلیل و حجت کی سطح پر گواہی دینا۔ حدیث کے اس لفظ کو لے کر اس معاملے کی تشریح کی جائے تو بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جب دجال کا ظہور ہوگا تو تعقل کا دور (age of reason) آچکا ہوگا۔ دجال بظاہر عقلی اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے لوگوں کو فریب میں مبتلا کرے گا۔ اس کے بعد کوئی اللہ کا بندہ اعلیٰ عقلی استدلال کے ذریعے دجال کی پر فریب باتوں کو غلط ثابت کرے گا۔ وقت کے مطابق یہ کام حجت (reason) کی سطح پر ہوگا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دورِ سائنس میں پیش آئے گا۔ جب کہ مبنی بر تعقل دلائل کا دور آچکا ہوگا۔
سائنسی دور سے پہلے دینِ حق کی گواہی عقلِ عام (common sense) کی سطح پر دی جاتی رہی ہے۔ اس کے بعد دنیا میں سائنسی دور آیا۔ اس دور کو قرآن میں آفاق و انفس کے دلائل کے ظہور (فصلت،41:53) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دجال اسی دور میں ظاہر ہوگا۔ وہ جس ہتھیار سے لوگوں کو فریب میں ڈالے گا، وہ عقلی ہتھیار ہوگا۔ اللہ کی توفیق سے اس زمانے میں ایک بندہ عقل کا زیادہ برتر استعمال کرکے دجال کے فریب کو ختم کردے گا۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم (great witness) کہا گیا ہے۔
سائنسی دور عقلیاتی دور کے دلائل کے ظہور کا زمانہ ہوگا۔ اس زمانے میں دجال عقلی دلائل کو غلط طور پر اپنے حق میں استعمال کرے گا۔ اس وقت اللہ کی توفیق سے اللہ کا ایک باخبر بندہ اٹھے گا، وہ اس دجال کی دجالیت کا پردہ پھاڑ کر حق کی کامل تبیین کرے گا (فصلت،41:53)۔
واپس اوپر جائیں

دورِ شخصیت، دورِ استدلال

قدیم زمانہ شخصیت کی عظمت (personality cult) کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ عقلی استدلال کا زمانہ (age of reason) ہے۔ قدیم زمانے میں ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص جس کو کسی وجہ سے بڑا مان لیا جائے۔ لوگ اس کی باتوں کو اعتقادی طور پر درست سمجھتے تھے، اور عقل کے استعمال کے بغیر اس کی پیروی کرتے تھے۔ اب یہ دور ختم ہوگیا۔ موجودہ زمانے میں اس طرح کی شخصیتیں پیدا نہیں ہوتیں۔ شخصی صلاحیت کے اعتبار سے تو اب بھی لوگ پیدا ہورہے ہیں، لیکن زمانے کے زیرِاثر اب کسی شخص کو اکابر کا درجہ حاصل نہیںہوتا۔
سائنسی انقلاب کے بعد دنیا میں عقلیت کا دور (age of reason) آیا ہے۔ عقلیت کا مطلب عقل پرستی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہے عقلی استدلال کی بنیاد پر کسی بات کو ماننا ،اور کسی بات کو نہ ماننا۔ آج وہی تحریک کامیاب تحریک ہے جو آج کے فکری مستویٰ اور اور آج کے مسلمہ استدلال کی سطح پر اپنے نظریے کی تبلیغ کرے۔ اس کے برعکس جو تحریک اکابر اور شیوخ کے حوالے کی بنیاد پر شروع کی جائے، وہ تحریک آج کے معیار کے مطابق سرے سے تحریک ہی نہیں۔
قدیم زمانےمیں شخصیت پرستی کی بنا پر عقلی غور وفکر کا ارتقا (development)نہیں ہوا۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک یہ صورتِ حال باقی رہی۔ اسلام نے پہلی بار عقلی غورو فکر کا آغاز کیا۔ قرآن میں بار بار اس قسم کے الفاظ آئے ہیں- تدبر، تعقل ، تفکر، توسم، تذکر، وغیرہ۔ حتیٰ کہ خود قرآن کے بارے میں کہا گیا ہے :کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29) ۔
لیکن بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر عملاً عقلی غور و فکر کا خاتمہ ہوگیا۔ دین میں عقلی غور وفکر کو برا سمجھاجانے لگا۔ حدیث میں عمومی معنوں میں آیا تھا :طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ(ابن ماجہ،حدیث نمبر 224)۔ لیکن بعد کے زمانے میں طلبِ علم سے مراد صرف علم دین کی طلب قرار پایا۔
اس کا سبب بعد کے زمانے میں ہونے والا ماس کنورژن (mass conversion)تھا۔ یعنی بعد کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ لوگوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ اس طرح امتِ مسلمہ میں نو مسلموں کی تعداد اچانک بہت زیادہ بڑھ گئی۔ یہ لوگ اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) کو لے کر اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ کثرتِ تعداد کی بنا پر ان کی فکری تربیت ممکن نہ ہوسکی۔ یہی نوواردین ہیں ، جنھوں نے اپنے قدیم ذہن کی بنا پر عقلی غور و فکر کو اسلام کے خلاف قرار دیا۔یہ ذہن اتنا زیادہ پختہ ہوگیا کہ وہ آج تک جاری ہے۔ اس سے کسی حد تک مستثنیٰ صرف وہ مسلمان ہیں ، جنھوں نے موجودہ زمانے میں سیکولر اداروں میں تعلیم پائی ۔
عباسی دور میں ایک طبقے کے اندر عقلی غور و فکر کا آغاز ہوا، لیکن وہ یونانی فلسفے کے زیرِ اثر ہوا تھا، اس لیے اسلام کے اصول کے اعتبار سے صحیح منہج پر قائم نہ تھا۔ اس لیے اُس وقت کے علماء اس سے متوحش ہو کر اس کے خلاف ہوگئے۔ علماء نے ان لوگوں کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ کہا جانے لگا کہ من طلب العلم بالکلام تزندق (البدایۃ و النہایۃ،10/194) ۔ جس نے کلام کے ذریعے علم طلب کیا، وہ زندیق ہوگیا۔
اکیسویں صدی میں وہ وقت آگیا ہے، جب کہ اسلام میں عقلی غور و فکر کا آغاز کیا جائے۔ عقلی غور و فکر دین سے انحراف کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کو عقلی بنیاد (rational basis) پر پیش کیا جائے۔ اہلِ عقل کے فکری مستویٰ پر انھیں دین کو پہنچایا جائے تاکہ ان کا ذہن ایڈریس ہو، اور وہ اسلام پر زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرسکیں۔راقم الحروف کی کتاب مذہب اور جدید چیلنج اسی قسم کی ایک کوشش ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ مختلف زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ مثلاً عربی زبان میں الاسلام یتحدیٰ، اور انگریزی زبان میں گاڈ ارائزز، وغیرہ۔
کچھ مسلمانوں نے اس مقصد کے نام پر ایک تحریک شروع کی، جس کو وہ إسلامیَّة المعرفة (Islamization of knowledge) کہتے ہیں۔ مگر یہ تحریک صحیح خطوط پر نہیں۔ اس معاملے میں اصل کام اسلام کو جدید علم کی بنیاد پر پیش کرنا ہے، نہ کہ جدید علم کو اسلامائز کرنا۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبروں والا کام


دعوت الی اللہ کا کام پیغمبر کی غیر موجودگی میں پیغمبر والا کام انجام دینا ہے ۔قدیم زما نےمیں دعوت کا کام پیغمبر اور ان کے ساتھی انجام دیتے تھے۔ اب نبی کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس لیے اب نبی کی امت کو نبی کی نمائندگی میں یہ کام انجام دینا ہے۔یہ کام اسی نہج (method) پر انجام دینا ہے، جس نہج پر پہلے پیغمبر انجام دیتے تھے۔ یہ اصول قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں پیغمبر کی زبان سے کہا گیا ہے : وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ (6:19)۔ یعنی اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے سے تم کو انذار کروں اور وہ بھی جن کو یہ پہنچے۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی نے درست طور پر لکھا ہے - عام طور پر مفسرین نے وَمَنْ بَلَغَ کو ضمیرِ منصوب پر معطوف مانا ہے یعنی یہ قرآن اس لیے مجھ پر وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو اور ان سب کو بیدار و ہوشیار کروں جن تک یہ پہنچے۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ ضمیر متکلم پر معطوف ہے۔ یعنی میں اس کے ذریعے سے تم کو خبردار کروں اور جن کو یہ پہنچے وہ بھی اپنی اپنی جگہ پر دوسروں کو اس کے ذریعے سے خبردار کریں۔(تدبر قرآن، سورہ الانعام، آیت 19)۔
یہ امتِ محمدی کی لازمی ذمے داری اور یہ ختمِ نبوت کا لازمی تقاضا ہے۔ کیوں کہ ختمِ نبوت کے بعد نبی کی شخصیت کا دور ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن جہاں تک دعوت کا تعلق ہے، اس کو بدستور قیامت تک جاری رہنا ہے۔ یہ امتِ محمدی کی ایسی ذمے داری ہے، جو کسی حال میں موقوف نہیں ہوتی۔ اس ذمے داری کا ذکر قرآن میں مختلف الفاظ میں کیا گیا ہے۔ مثلاً امت وسط، شہادت علی الناس، انذار، ابلاغ، دعوت الی اللہ، تبلیغ ما انزل اللہ، وغیرہ۔ اس اصول کے مطابق، خاتم النبیین کی امت قیامت تک کے لیے داعی کی حیثیت رکھتی ہے، اور ختمِ نبو ت کے بعد پیدا ہونے والے تمام انسان اس کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دینِ خداوندی کے دو دور

ایک تاریخی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اورانفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔
یہ سورہ ایک مکی سورہ ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں کسی وقتی صورت حال کا ذکر نہیں ، بلکہ اس میں دینِ خدواندی کی پوری تاریخ کا ایک اجمالی بیان ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کی دینی جدو جہد کسی وقتی نشانی کے لیے نہیں تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا عمل (process) جاری کیا جائے، جو اللہ کے دین کے کامل اظہار کے ہم معنی بن جائے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کا دین تمام دوسرے دینوں پر غالب ہوجائے(التوبۃ، 9:33)۔ تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اللہ کا لایا ہوا دین ساتویں صدی عیسوی میں شرک کے دین پر غالب آگیا۔ رسول اوراصحابِ رسول کی جدو جہد سے شرک کے دین کا دبدبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ اب اگر کہیں شرک کا دین باقی ہے تو وہ کچھ لوگوں کے اندر محض ذاتی عقیدے کی سطح پرباقی ہے۔ اجتماعی غلبے کی شکل میں کہیں بھی شرک کا دین باقی نہیں۔
لیکن بعد کے زمانے میں دینِ الحاد (atheism)وجود میں آیا۔ موجودہ زمانے میں یہی دینِ الحاد نظریاتی اعتبار سے ایک غالب دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی واقعہ ہے جس کی بنا پر قرآن کی مذکورہ آیت (فصلت، 41:53)میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی دینِ شرک کا خاتمہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں ہوا، اور دینِ الحاد کا خاتمہ بعد کے زمانے میں ہوگا۔
قرآن میں اظہارِ دین (التوبۃ، 9:33)کو پیغمبر اسلام کا نشانہ بتایا گیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نشانے کی تکمیل کے دو دور ہیں۔ پہلا دور روایتی دور (traditional age) تھا،جس کا اتمام سائنسی انقلاب سے پہلے وقوع میں آیا۔ اس دور میں رسول اور اصحابِ رسول کی جدوجہد سے ایسے حالات پیدا ہوئے، جس کے نتیجے میں تاریخ میں ایک نیا پراسس شروع ہوا، جو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب تک پہنچا۔ دوسرا دور آفاق و انفس کی نشانیوں کی دریافت (فصلت، 41:53) کے بعد کا دور ہے، جو پچھلے چار سوسال کے اندر سائنسی انقلاب کے ذریعے پیش آیا۔
اسی سائنسی انقلاب کو قرآن میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے ظہور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی لیے اس دوسرے دور کو قرآن (فصلت، 41:53) میں مستقبل کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ گویا تبیینِ حق کے دودور ہیں۔ ایک ہے روایتی دور میں تبیینِ حق، اور دوسرا ہے سائنسی دور میں تبیینِ حق۔ اس دوسرے دور میں وہ علمی فریم ورک (scientific framework)وجود میں آیا، جس کو استعمال کرکے اعلیٰ معرفت حاصل کی جائے، اور دینِ الحاد کا نظری طور پر خاتمہ کردیا جائے۔
تبیینِ حق کے یہ وسائل اکیسویں صدی میں آخری طور پر حاصل ہوچکے ہیں۔ اب یہ پوری طرح ممکن ہوگیا ہے کہ ان نئے امکانات کو استعمال کرکے دینِ الحاد کا نظری خاتمہ کردیا جائے۔ یہی وہ دور ہےجس کی خبر حدیث میں شہادتِ اعظم کے الفاظ میں دی گئی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ہَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَہَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِین (صحیح مسلم، حدیث نمبر2938)۔
حدیث میں بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والے ایک عظیم فتنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے حدیث میں فتنۂ دہیماء (ابو داؤد، حدیث نمبر4242)کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔فتنۂ دہیماء کا مطلب ہے، سیاہ فتنہ(black days)۔ یعنی ایسا زمانہ جب کہ کچھ دکھائی نہ دے۔ حق اور ناحق کو الگ کرکے دیکھناناممکن ہوجائے۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں زمانے ایک ساتھ آئیں گے۔ یعنی ایک طرف سائنسی دریافتوں سے وہ مواقع کھلیں گے، جب کہ دینِ الحاد کو مغلوب کرکے اسلام کے دوسرے دور (تبیین ثانی ) کو مکمل کیا جائے۔ لیکن عین اسی زمانے میں اہلِ باطل ایسے حالات پیدا کردیں گے جو روشن دور کو عملاً تاریک دور بنادیں گے۔ لوگوں کے لیے صحیح اورغلط میں تمیز کرنا ممکن نہ رہے گا۔اس بنا پر لوگوں کے لیے یہ موقع نہ ہوگا کہ وہ پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرکے حق کی تبیین ثانی کے عمل کو مکمل کریں۔
اکیسویں صدی میں یہ فتنۂ دہیماء (تاریک فتنہ) آخری طور پر ظاہر ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر بظاہر بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے یہ سرگرمیاں اندھیرے میں چھلانگ کے ہم معنی ہیں۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں، میں امت مسلمہ کا ایک فرد ہوں، لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کہ وہ جس زمانے میں ہیں، وہ زمانہ کیا ہے۔
موجودہ زمانہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تبیینِ حق کا زمانہ ہے۔ یعنی وہ زمانہ جس میں امکانی طور پر سچائی کو پوری طرح کھول دیا گیا ہے۔ یہ معلوم کرنا آخری حد تک ممکن ہوگیا ہے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس طرح بے خبری کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں ، جیسے کہ وہ اندھیرے میں بھٹک رہے ہوں۔
غالباً یہی وہ زمانہ ہے جس کی حدیث میں ان الفاظ میں خبر دی گئی ہے کہ اس زمانے میں الْأَئِمَّةُ الْمُضِلُّونَ (مسند احمد ، حدیث نمبر27485)ظاہر ہوں۔ یعنی گمراہ کرنے والے رہنما۔یہ گمراہ کرنے والے لوگ کون ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو امت کو غلط نشانے کی طرف دوڑا دیں گے۔ اس دور میں اصل کرنے کا کام تو یہ ہوگا کہ نئے امکانات کو دریافت کرکے لوگوں کو اعلیٰ معرفت پر کھڑا کیا جائے۔ مگر وہ یہ کریں گے کہ امت کو یہ بتائیں گے کہ ساری دنیا تمھاری دشمن ہے، ان سے لڑو۔ اس طرح وہ امت کو منفی سوچ کا کارخانہ بنا دیں گے۔
کچھ لوگ امت کو فرضی فخر (false pride) پر کھڑا کریں گے۔ قدیم یہود کے اندر بگاڑ کے دور میں ایک کلچر پیدا ہوا، جس کو جوئش سپرامیسزم (Jewish supremacism) کہا جاتا ہے۔ یعنی یہودی برتری کا تصور۔ یہ لوگ امت کے افراد میں مسلم برتری (Muslim supremacism) کا کلچر جاری کر دیں گے۔وہ مسلمانوں کو فرضی فخر کی غذا دیں گے، جس سے لوگ وقتی طور پر خوش ہو جائیں ۔ لیکن انھیں دینِ خداوندی کے احیا کا کوئی مثبت نشانہ نہیں ملے گا۔
کچھ لوگ مسلمانوں کو یہ سبق دیں گے کہ تمھارا کام یہ ہے کہ تم ساری دنیا میں اسلام کی عظمت کا جھنڈا لہراؤ ۔اس طرح وہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسا ذہن پیدا کردیں گے جو اپنے اعلان کے اعتبار سے تو اسلامی ذہن ہوگا، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے صرف تخریبی ذہن۔
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِیبًا، وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَأَ غَرِیبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاء (صحیح مسلم، حدیث نمبر145)۔یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا، اور دوبارہ وہ اجنبی ہوجائے گا، تو مبارک ہیں ایسے اجنبی لوگ۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد کے زمانے میں کوئی دور ایسا آئے گا، جب کہ اسلام کا وجود باقی نہ رہے۔ اسلام کے اجنبی ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے اصل ماڈل کا لوگوں کے لیے اجنبی ہوجانا۔ یعنی اس دور میں اسلام بظاہر پوری طرح موجود ہوگا، لیکن اسلام کی اصل اسپرٹ باقی نہ رہے گی۔ اس زمانے میں اسلام اپنی اسپرٹ کے اعتبار سے مفقود ہوگا، نہ کہ اپنی شکل کے اعتبار سے۔
غالباً اس حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ بعد کے دور میں لوگ دین کے خود ساختہ ماڈل کو لے کر سرگرم ہوجائیں گے۔ اس لیے ایسی حالت میں جب ان کے سامنے دین کا اصل ماڈل پیش کیا جائے گا تو وہ ان کو اجنبی معلوم ہوگا۔ اس وقت جو لوگ اجنبیت کے پرد ےکو پھاڑ کر اسلام کے اصل ماڈل کو پہچانیں، اور پوری طرح اس کا ساتھ دیں ، وہ اللہ کے نزدیک قابل مبارک باد لوگ ہوں گے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
موجودہ مسلمانوں کو اگر مجھے ایک مشورہ دینا ہو تو میں کہوں گا — جذباتی کارروائیوں سے بچئے اور سوچے سمجھے عمل کا طریقہ اختیار کیجئے، اور پھر کامیابی آپ کے لیے اتنا ہی یقینی بن جائے گی جتنا کہ آج کی شام کے بعد کل کی صبح کو سورج کا نکلنا۔
واپس اوپر جائیں

دین، تائیدِ دین

دین کا کام کرنے کی دو سطحیں ہیں۔ ایک ہے ، براہ راست اور عمداً دین کا کام کرنا۔ اور دوسرا یہ ہے کہ آدمی کا ارادہ کچھ اور ہو، لیکن وہ ایسا کام کرے، جو بالواسطہ طور پر دین کے لیے تائید (support)فراہم کرنے والا ہو۔ اس سلسلے میں ایک حدیث رسول آئی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔
اس حدیث رسول میں فاجر کا لفظ آیا ہے۔ فاجر کا مطلب بدعمل (wicked) آدمی ہے۔ یعنی شریعت کی زبان میں گناہ گار آدمی۔ یہاں یہ سوال ہے کہ کوئی شخص جو ذاتی اعتبار سے ایک گناہ گار آدمی ہو، وہ کیسے دین کے لیے موید (supporter) بن سکتا ہے۔ یہ واقعہ بالواسطہ انداز میں ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال اسٹیفن ہاکنگ (1942-2018) ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نہ مسلم تھا، اور نہ شریعت کا پیرو۔ اس کو ایک سیکولر آدمی کہا جاسکتا ہے۔ البتہ اس نے ایک ایسا کام کیا، جو دینِ اسلام کے عقیدۂ توحید کے لیے ایک مددگار بنیاد (supporting base) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ سے پہلے نیوٹن (1643-1727) نے یہ بتایا تھا کہ کائنات کو چار طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں:(1)قوتِ کشش (gravitational force) (2)برقی مقناطیسی قوت (electromagnetic force) (3)طاقت ور نیوکلیر قوت (strong nuclear force) (4) کم زورنیو کلیر قوت (weak nuclear force)۔
اس نظریے پر کام ہوتا رہا، یہاں تک کہ اسٹیفن ہاکنگ نے ریاضیاتی طور پر یہ بتایا کہ یہ طاقتیں چار نہیں ہیں، صرف ایک ہے۔ اس کو اس نے سنگل اسٹرنگ تھیری (single string theory)کا نام دیا۔ اس تحقیق پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سائنسی نظریہ اسلام کے تصورِ توحید کے لیے ایک نظریاتی تائید (ideological support) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی تحقیق کا یہ پہلو بلاشبہ حدیث کی زبان میں بالواسطہ دین کی ایک سائنسی تائید کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سبق کا پہلو

راقم الحروف کا ایک آرٹکل نئی دہلی کے انگریزی اخباردی ٹائمس آف انڈیا، 16 مارچ 2018 میں شائع ہوا ۔ اس کا عنوان ہے:
The Hawking Effect: Triumph of Human Spirit
یہ آرٹکل برٹش سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کے بارے میں ہے، جس کی وفات 14 مارچ 2018 کو 76 سال کی عمر میں ہوگئی۔ اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک عرب عالم نے کہا : ھل یناسب ھذا الکلام عن احد اکبر دعاۃ الالحاد و محاربۃ اللہ فی ھذا العصر ۔ یعنی کیا اس طرح کا کلام اس آدمی کے بارے میں مناسب ہے جو موجودہ زمانے میں الحاد کا ایک بڑا داعی اور خدا کے وجود کا مخالف ہے۔
میرے آرٹکل کے بارے میں یہ تبصرہ ایک غیر واقعی تبصرہ ہے۔ راقم الحروف کا یہ مضمون انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ کوئی بھی شخص مذکورہ عنوان کے تحت اس آرٹیکل کو پڑھ سکتا ہے۔ اس آرٹکل کا کوئی تعلق اسٹیفن ہاکنگ کے مدح یا ذم سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی دو پہلوؤں کو سادہ طور پر بیان کیا گیاہے، جن سے سبق(lesson) ملتا ہے۔ان میں سے ایک یہ ہےکہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ معذور شخص بھی ایک بڑا کام کرے، اور دوسر ایہ ہےکہ کائنات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اس لیے یہاں واحد کنٹرول کا نظام ہونا چاہیے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اس پر کام کیا ہے، اور اس کو علمی دنیا میں سنگل اسٹرنگ تھیوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سنگل اسٹرنگ تھیوری باعتبار حقیقت توحید کی سائنسی تصدیق کے ہم معنی ہے۔
قرآن (البقرۃ،2:26)سے معلوم ہوتا ہے کہ سبق کے لیے کسی بھی چیز کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ جہاں سبق کا پہلو ہو، وہاں بات کو مطلوب سبق کے اعتبار سے دیکھا جائے گا، بات کا کوئی اور پہلو وہاں حذف ہوجائے گا۔ اس اصول کو قرآن کی مذکورہ آیت کے مطالعے سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فقہ الاقلّیات

موجودہ زمانے میں مسلم رہنماؤں نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے، جس کو فقہ الاقلیات کہا جاتا ہے۔ فقہ الاقلیات کی تعریف یہ کی جاتی ہے: الأحکـام الفقہیـة المتعلقـة بالمسـلم الذی یعیش خارج بلاد الإسلام ۔ یعنی وہ فقہی احکام جو اس مسلمان سے متعلق ہیں، جو اسلامی ممالک سے باہر رہتاہے۔فقہ الاقلیات کی اصطلاح ایک مبتدعانہ اصطلاح ہے۔ قرآن و حدیث میں اس قسم کی کوئی اصطلاح موجود نہیں۔’’فقہ الاقلیات‘‘ کا تصور مسلمانوں کے لیے غیر ضروری طور پر دوسری قوموں کے ساتھ نارمل طریقے پر رہنے میں مانع بن جاتا ہے۔ مسلمان دہری شخصیت کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے وہی چیز ہے جس کو منافقت کہا جاتاہے۔ مسلمان جدید دنیا میں ایک مس فٹ کمیونٹی (misfit community) بن کر رہ جاتے ہیں۔
صحیح بات یہ ہے کہ غیر مسلم ریاست اور مسلم ریاست کی تقسیم بذات خود بے بنیاد ہے۔ مسلمانوں کو ساری دنیا میں ایک ہی ذہن کے ساتھ رہنا ہے۔ وہ یہ کہ سارے لوگ انسان ہیں، اورساری دنیا دار الانسان ہے۔ مسلمانوں کو دنیا میں اس طرح رہنا ہے، جیسے کہ وہ اپنے بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔یہی حقیقت ایک حدیث رسول سےواضح ہوتی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے(سنن الترمذی، حدیث نمبر3955)۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے مسلمانوں کے لیے جو طرزِ زندگی ثابت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر ماحول میں یہ دیکھنا ہے کہ وہ کون سی روش ہے، جس کو وہ غیر نزاعی طور پراختیار کرسکتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ ہر ماحول میں زندگی کا غیر نزاعی ماڈل دریافت کریں، اور جس ماڈل کو اختیار کرنے میں نزاع پیدا ہوتی ہو، اس کو چھوڑ دیں، خواہ مستقل طور پر یا عارضی طور پر۔ مسلمان کے لیے اصل معیار یہ ہے کہ جہاں بھی ہوں، ٹکراؤ یا نزاع کو اوائڈ کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔
بلاشبہ مسلمانوں کے لیے ایک مسنون ماڈل ہے، جو اسوۂ رسول پر قائم ہے۔ لیکن اس مسنون ماڈل میں اصل چیز دعوت الی اللہ ہے، کوئی دوسری چیز اس مسنون ماڈل کا ابدی حصہ نہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے عمل کی پلاننگ اس طرح کریں کہ وہ جہاں بھی ہوں،دعوت الی اللہ کا پیس فل کام مسلسل طور پر جاری رہے۔ جو روش دعوت الی اللہ کے کا م کو موقوف کردے، یا دعوت الی اللہ کے کام میں رکاوٹ ڈالنے والی ہو، وہ مسلمانوں کو مکمل طور پر چھوڑ دینا ہے۔ یہی مطلب ہے قرآن کی آیت کا کہ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔یعنی ڈرٹی پریکٹس (dirty practice) کو چھوڑ دو۔ رسول اللہ نے جو طریقہ مکی اور مدنی دور میں یکساں طور پر اختیار کیا، اس کو دیکھ کر اس کو سمجھا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ رجز سے مراد نزاعی طریقہ ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نزاعی طریقہ کو چھوڑدو تاکہ دعوت الی اللہ کاکام پر امن اور معتدل انداز میں جاری رہے۔
اس اصول کے تحت پیغمبر اسلام نے مکے میں بھی اور مدینے میں بھی یکساں طور پر عمل کیا۔ آپ کا اصل گول دعوت الی اللہ تھا۔ جو کام آپ کے دعوتی مشن میں رکاوٹ ڈالے، وہ آپ کے لیے رُجز کی حیثیت رکھتا تھا۔ مثلاً اس وقت مکہ کو بت پرستی کا مرکز بنا دیا گیا تھا۔ کعبہ میں تقریباً 360 بت رکھ دیے گئے تھے۔ لیکن آپ نے ان بتوں کے خلاف براہ راست کوئی تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ عملاً ان کو نظر انداز کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کا کام جاری رکھا۔ اس اصول کے معاملے میں آپ اس آخری حد تک پہنچے کہ جب آپ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو آپ نے تقریباً سولہ مہینے تک یہود کے قبلے کو اپنا قبلہ بنا لیا۔ تاکہ دعوت الی اللہ کے کام کا تسلسل اسمود (smooth) طور پر جاری رہے۔
اہلِ اسلام کے لیے نہ کوئی اقلیتی فقہ ہے، اور نہ کوئی اکثریتی فقہ۔ اہلِ اسلام کو ہر جگہ یہ کرنا ہے کہ وہ سیاسی اور غیر سیاسی نزاع سے پر ہیز کریں۔ وہ امن (peace) کو اصل اجتماعی اصول قرار دے کر معتدل انداز میں زندگی گزاریں۔ وہ عقیدہ اور عبادت،اور اخلاق کے آزاد دائرے میں اپنے آپ کو اسلام کی روش پر قائم کریں، اور وقت کے نظام سے ٹکراؤ کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہوئے زندگی گزاریں، وہ أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052) کے فارمولے پر عمل کریں۔
واپس اوپر جائیں

حکومت کا معاملہ

قرآن و سنت اور صحابہ کے عمل پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کا کوئی واحد آئڈیل ڈھانچہ نہیں ہے۔ حکومت کا معاملہ سماجی صورتِ حال کے تابع ہے، نہ کہ پیشگی طور پر کسی مقرر کردہ معیار کے تابع۔حکومت کا معاملہ نماز اور روزے کی طرح مقدس معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ عملی صورت حال کے تابع ہے۔ جیسی عملی صورتِ حال، ویسا ہی حکومت کا ڈھانچہ۔ یہی بات فطرت کے تقاضے کے مطابق ہے۔
اگر حکومت کا پیشگی طور پر کوئی معیاری نظام مقرر کردیا جائے تو موجودہ دنیا میں ایسا معیاری نظام تو کبھی قائم نہیں ہوگا، البتہ معیاری نظام قائم کرنے کے نام پر لوگ ابدی طور پر لڑتے جھگڑتے رہیں گے۔صحیح یہ ہے کہ اسلام میں دعوت اور تعلیم کا عمل ابدی طور پر یکساں حالت میں مطلو ب ہے،اور جہاں تک حکومت کا معاملہ ہے۔ تو اس کا اصول یہ ہے کہ جیسے سماجی حالات، ویسا ہی حکومت اور سیاست کا معاملہ ۔
اسی لیے قرآن میں حکومت کے فارم کے بارے میں مختلف صورتوں کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً حضرت سلیمان کی حکومت، ملکۂ سبا کی حکومت، حضرت یوسف کی حکومت، وغیرہ۔ ان میں سے حکومت کا ہرڈھانچہ کسی تنقید کے بغیر قرآن میں مذکور ہے۔ لیکن ان میں سے کسی حکومت کے ڈھانچہ کو نہ تو رد کیا گیا ہے، اور نہ کسی ڈھانچہ کی مدح کی گئی ہے۔
حکومت کے ڈھانچے کو اضافی حیثیت دینا، اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ حکومت کا ڈھانچہ خواہ کوئی بھی ہو، اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے رہو۔ کسی کے ساتھ ٹکراؤ نہ کرو۔حکومت سے اگر ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجائے تو اس کو مینج کرکے یہ کوشش کرنا ہے کہ ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے۔ حکومت کے معاملے میں اسلام کا رویہ غیر نزاعی رویہ (non-confrontational approach) ہے۔ اس اصول کی بنا پر یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ سماج میں ہمیشہ امن قائم رہے۔
واپس اوپر جائیں

جمہوریت کیا ہے

جمہوریت (democracy) کوئی مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ جمہوریت در اصل سیاست کے پرا من مینجمنٹ (peaceful management) کا دوسرا نام ہے۔ جمہوریت کو مجاریٹی رول کہا جاتا ہے۔ اس کا خلاصہ بھی یہی ہے۔ مجاریٹی رول سوشل مینجمنٹ کا ایک پرامن طریقہ ہے، جو پیس فل سیٹلمنٹ (peaceful settlement) پر مبنی ایک نظام ہے۔ قدیم زمانے میں حکومت کی تبدیلی کے لیے جنگ کی ضرورت ہوتی تھی، موجودہ جمہوریت نے یہ ممکن بنادیا ہے کہ ہر ایک پر امن طور پر اپنی مرضی کا سیاسی نظام بنائے۔ جمہوریت کا اپنا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ عوام کی اکثریت جس بات پر راضی ہوجائے، وہی نظام کی بنیاد بن جاتا ہے۔
جمہوریت الیکشن پر مبنی ایک نظام ہے۔ محدود مدت ،مثلاً پانچ سال کے لیے آزاد اور منصفانہ (free and fair) الیکشن کرایا جاتا ہے۔ اس الیکشن میں اکثریت جس رائےپر اتفاق کرلے، وہی محدود مدت کے لیے نظام کی بنیاد قرار پائے گی۔ اس جمہوریت کے نظام میں ہر گروپ کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرے۔ جمہوریت کا اصول یہ ہے کہ کسی الیکشن کے بعد اکثریت جس رائے کے حق میں ووٹ دے دے، اس کو سب لوگ ایک عملی ضرورت کے طور پر مان لیں۔ جن لوگوں کو اس رائے سے اتفاق نہ ہو، انھیں بھی الیکشن کے نتیجے کو مان لینا چاہیے۔ ان کو یہ موقع ہے کہ وہ عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کریں، اور اگلے الیکشن تک انتظار کریں۔ جب اگلے الیکشن کا موقع ہو تو وہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کریں۔ اگر اکثریت کی رائے، ان کے موافق ہوجائے تو ان کو موقع مل جائے گاکہ وہ اگلا نظام اپنی رائے کے مطابق بنائیں۔
جمہوریت کا یہ نظام اس لیے ہے کہ سماج میں امن قائم رہے، اور ہر گروپ کو یہ موقع ملے کہ وہ پر امن طریقے پر اپنی رائے کو لوگوں کے درمیان پھیلائے، اور جب لوگ اس کی رائے پر راضی ہوجائیں، تو وہ دوبارہ الیکشن کے ذریعہ اپنی رائے کے مطابق اگلا نظام بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

منصوبۂ تخلیق

خد اکے منصوبۂ تخلیق (creation plan)کا اصل ماخذ قرآن ہے۔ قرآن گویا اس منصوبۂ تخلیق کا مستند متن (authentic text) ہے۔ سائنس تخلیق کے مطالعے کا علم ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ سائنس اس قرآنی متن کی کمنٹری (commentary)ہے۔ یہ کمنٹری وہی چیز ہے، جس کو حدیثِ رسول میں تائیدِ دین بذریعہ غیر اہلِ دین کا نام دیا گیا ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)
فلکیاتی سائنس (astronomy)کی تحقیق کے مطابق کائنات کا آغاز تقریباً 13 بلین سال پہلے بگ بینگ (Big Bang)سے ہوا۔ خلا (space) میں اچانک ایک کاسمک بال (cosmic ball) ظاہر ہوا۔ اس کاسمک بال کے اندر بہت تیز دھماکا ہوا۔ سائنس داں اس کو بگ بینگ کا نام دیتے ہیں۔ اس کاسمک بال کے اندر وہ تمام پارٹیکل موجود تھے، جن سے موجودہ کائنات بنی ہے۔ اس دھماکےکے بعد کاسمک بال کے تمام پارٹیکل روشنی کی اسپیڈ سے بھی زیادہ تیز رفتار کے ساتھ خلا میں بکھر گئے۔یہ پارٹیکل اگر اسی طرح سفر کرتے رہتے اور خلا کی وسعتوں میں بکھر جاتے تو کائنات وجود میں نہ آتی۔ مگر ایک سکنڈ کے اندر پارٹیکل کی رفتار کم ہوگئی۔اس طرح پارٹیکل جمع ہونا شروع ہوئے، اور پھر تمام ستارے اور سیارے اور کہکشائیں وجود میں آئیں۔سائنسی معلومات کے مطابق، پارٹیکل کے اجتماع سے بننے والی اس دنیا کو چھ دوروں (periods)میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1) بگ بینگ (Big Bang) (2) سولر بینگ (Solar Bang)
(3) واٹر بینگ (Water Bang) (4) پلانٹ بینگ (Plant Bang)
(5) اینمل بینگ (Animal Bang) (6) ہیومن بینگ (Human Bang)
تخلیقِ کائنات کے آخری مرحلہ میں زمین پر وہ حالات پیدا ہوئے جن کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ ایک سائنسداں نے درست طور پر کہا ہے کہ پوری کائنات انسان کے لیے کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) ہے۔ اس کے بعد سیارۂ ارض (planet earth) پر خدا نے آدم (انسان ) کو پیدا کیا، اور آدم کے جوڑے حوا (Eve) کو۔ اس کے بعد مختلف احوال سے گزرتے ہوئےزمین پر انسان کی تاریخ بننا شروع ہوئی۔ خدا نے انسان کو کامل آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ انسانی تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا کام خدا نے اپنے کنٹرول میں رکھا۔تاریخ کو مینج کرنے کا کام اس طرح ہوا کہ تاریخ مطلوب رخ پر سفر کرے، وہ مطلوب رخ سے بھٹک کر ڈی ریل (derail) نہ ہونےپائے۔ یہ خدائی منصوبہ اس طرح زیرِ عمل لایا گیا کہ تاریخ کا سفر مطلوب رخ پر جاری رہے، اوراسی کے ساتھ انسانی آزادی بھی پوری طرح برقرار رہے۔
God decided to manage history while maintaining human freedom.
انسانی تاریخ کو مینج کرنے کا یہ کام طویل مدت کے اندر مختلف صورتوں میں انجام پایا، جس کےبنیادی اجزاء غالباً وہی ہیں جن کو آنے والی سطروں میں بیان کیا گیا ہے۔ واضح ہوکہ مینجمنٹ کا مقصد تاریخ کو کنٹرول کرنا نہیں تھا، بلکہ ہر موڑ پر تاریخ کو ری ڈائریکشن (redirection) دینا تھا، تاکہ تاریخ کو ٹوٹل ڈی ریلمنٹ (total derailment) سے بچایا جاسکے۔ تاریخ کو مینج کرنے کا یہ کام نارمل کورس میں نہیں ہوا، بلکہ اس کو جس میتھڈ (method) کے ذریعے کیا گیا، اس کو شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment)کہا جاسکتا ہے۔
انسانی تاریخ کی ابتدا
قرآ ن اور بائبل کے مطابق آدم اور حوا کو پیدائش کے بعد سیارۂ ارض پر بسایا گیا۔ ان کی نسل دھیرے دھیرے دجلہ اور فرات کے درمیان اس مقام پر مرتکز ہوگئی، جس کو میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں سفر کی سہولتیں موجود نہ تھیں۔ اس لیے لمبے عرصے تک آدم کی نسل اسی علاقے میں آباد رہی۔ لیکن آبادی کا یہ اجتماع خالق کے نقشے کےمطابق نہ تھا۔ خالق کو مطلوب تھا کہ آدم کی نسل محدود رقبے سے نکلے، اورپورے کرۂ ارض پر پھیل جائے۔ اس مدت میں آدم کی نسل میں جمود آچکا تھا۔ ان کی نسلوں کے درمیان متفرق قسم کی برائیاں پیدا ہوچکی تھیں۔ اس وقت خدا نے ان کے درمیان پیغمبر نوح کو بھیجا تاکہ وہ ان کو صحیح رہنمائی دیں۔ مگر اپنے جمود میں وہ اتنے زیادہ کنڈیشنڈ ہوچکے تھے کہ کچھ افراد کے سوا ان کی اکثریت نے پیغمبر نوح کی بات کو اختیار نہیں کیا۔
اس لیے خدا نے یہ کیا کہ اس علاقہ میں ایک بڑا طوفان (great flood) آیا۔ اس مدت میں ان کے پیغمبر نوح نے ایک بڑی کشتی تیار کی۔ پیغمبر نوح نے اس ابتدائی انسانی نسل کے منتخب افراد کو اس کشتی پر سوار کیا۔ اس کے بعد یہ کشتی طوفان کے بہاؤ کے تحت چلتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ جودی پہاڑ پر پہنچ کر رک گئی(ھود، 11:44)۔ یہ پہاڑ موجودہ ترکی کے ساحلی علاقے پر واقع ہے۔ آدم کی نسل جودی پہاڑ کے علاقے میں اتری اور پھر دھیرے دھیرے 3 بر اعظموں میں پھیل گئی، یعنی ایشیا، یورپ اور افریقہ ۔
ڈیزرٹ تھراپی
آدم کی یہ نسل توالد و تناسل کے ذریعے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ دوبارہ ان کے اندر جمود (stagnation) آیا۔ ان کے اندر فطرت کی پرستش (nature worship) کا کلچر پھیل گیا۔ خاص طور پر سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش۔ اس وقت پیغمبر ابراہیم ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے۔ انھوں نے لمبی مدت تک تبلیغ کی کوششیں جاری رکھی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں قوم کے کچھ افراد نے اصلاح قبول کی۔ مگر قوم کی اکثریت بگاڑ کے راستے پر قائم رہی۔
اس وقت خدا کی ہدایت کے تحت پیغمبر ابراہیم نے اپنے کام کی نئی پلاننگ کی۔ انھو ں نے چند افراد کے ایک چھوٹے گروپ کو لے کر عراق سے ہجرت کی۔ یہ قافلہ 3 افراد پر مشتمل تھا، پیغمبر ابراہیم، ان کی بیوی ہاجرہ، اور ان کے بیٹے اسماعیل۔ یہ لوگ عراق سے ہجرت کرکے عرب کے اس مقام پر آئے، جہاں اب مکہ واقع ہے۔ اُس وقت یہ پورا علاقہ ایک صحرائی علاقہ تھا، یعنی ایک غیر متمدن علاقہ ۔ اس وقت خالق کا یہ منصوبہ ہوا کہ تمد ن سے دور اس علاقہ میں ایسی قوم تیار کی جائے جو فطرت کے ماحول میں پرورش پائے، اور اس وقت کے تمدنی بگاڑ سے محفوظ رہے۔ یہ ایک صحرائی منصوبہ تھا۔ اس کو اس اعتبار سے ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy) کہا جاسکتا ہے۔ صحرا کے اس سادہ ماحول میں اس قوم کے اندر فطری طور پر توالد و تناسل کا عمل شروع ہوا، جس کے ذریعے اس قوم میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ تقریباً ڈھائی ہزار سال میں ایک نسل بن کر تیار ہوگئی، جس کو بنواسماعیل کہا جاتا ہے۔یہ نسل ایک نہایت جان دار نسل تھی، جس کو ایک مغربی مفکر نے نیشن آف ہیروز (a nation of heroes) کا نام دیا ہے۔
بنو اسماعیل کا رول
وہ لوگ جن کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے، وہ انھیں بنی اسماعیل کی نسل سے تھے۔ ان کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں ہر جگہ دنیا میں جبری بادشاہت کا نظام تھا۔ اس وقت عرب کی سرحد پر دو بڑی سلطنتیںتھیں- ایرانی سلطنت (Sasanid Empire)، رومی سلطنت (Byzantine Empire) ۔ یہ سلطنتیں جابر سلطنتیں تھیں۔ ان کی وجہ سے اس وقت کی دنیا میں آزادانہ سوچ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس لیے ترقی کا عمل رکا ہوا تھا۔ اس زمانے کی ان سلطنتوں نے خود آغاز کرکے ٹکراؤ کی صورت پیدا کی۔ اس کے نتیجے میں اصحابِ رسول سے ان کا ٹکراؤ ہوا، اور آخر کار مختلف احوال سے گزرتے ہوئےدونوں سلطنتوں کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد دنیا میں آزادیٔ فکر کا دور شروع ہوا۔اس واقعہ کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : اس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں، ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے، قدیم ٹیلے جھک گئے:
He stood, and measured the earth: he beheld, and drove asunder the nations, and the everlasting mountains were scattered, the perpetual hills did bow (Habakkuk, 3:6)
سیاسی جبر کے اس نظام کا خاتمہ ایک بے حد مشکل کام تھا۔ لیکن خدا کی توفیق سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ دونوں سلطنتوں میں باری باری ٹکراؤ ہوا۔ پہلے ایرانیوں نے رومیوں کو بری طرح شکست دی۔ اس کے بعد رومیوں نے جوابی اقدام کرکے ایرانی سلطنت کو توڑ ڈالا۔ یہ دونوں واقعہ دس سال کی مدت میں ہوا۔ جس کا ذکر قرآن میں سورہ الروم کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ اس طرح بنو اسماعیل کو یہ موقع ملا کہ وہ آسانی کے ساتھ دونوں جابرانہ سلطنتوں کا خاتمہ کر دے، اور دنیا میں آزادی کے دور کا آغاز ہو۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں پہلی بار آزادانہ سوچ (free thinking) اور ترقی کا دروازہ کھلا، اور آخر کار دنیا توہماتی دور سے نکل کر سائنٹفک دور میں داخل ہوگئی۔
اس انقلاب کے بعد ایشیا ، افریقہ اور یورپ میں مسلم دور کا آغاز ہوا۔ اس کا ایک حصہ یہ تھا کہ شام اور فلسطین کے وہ علاقے مسلم اقتدار کے تحت آگئے، جن کو مسیحی لوگ مقدس مانتے تھے۔ اس کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ وہ شام و فلسطین کے مقدس علاقوں کو مسلمانوں (بنواسماعیل) کے قبضہ سے واپس لیں۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر جنگ کا ایک سلسلہ چھڑگیا۔ یہ جنگی سلسلہ جس کو صلیبی جنگ (crusades) کہا جاتا ہے، وہ تقریباً دو سو سال تک جاری رہا۔ لیکن مسلمان اس زمانے میں اتنا زیادہ طاقت ور ہوچکے تھے کہ دو سو سال کی متحدہ جنگ کے باوجود یورپ کی مسیحی قوموں کو کامل شکست ہوئی، جس کو مؤرّخ گبن نے ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) کہا ہے۔ یہ شکست مسیحی قوموں کے لیے ایک دھماکے کے مانند تھی۔ اس دھماکے نے مسیحی قوموں کے اندر نئی سوچ کا آغاز کیا۔ اس کے بعد ابتداء ًنشاۃ ِثانیہ (Renaissance) اور پھر مغربی تہذیب (western civilization) کا دور آیا، اور دنیا کی تصویر یکسر بدل گئی۔
جدید تہذیب کا آغاز
صلیبی جنگوں میں شدید شکست کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ اس سوچ کو ایک مبصر نے اسپریچول کروسیڈس (spiritual crusades) کا نام دیا ہے۔ صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں میں نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کا دور آیا۔ اس سے مسیحی قوموں کا ذہن ٹرگر (trigger)ہوا۔ اس سے ان کے اندر نئی سوچ پیداہوئی۔ یہ سوچ پیدا ہوئی کہ ہم جنگ کے میدان میں مسلمانوں سے نہیں جیت سکتے۔ اس لیے اب ہمیں اس معاملے میں نئی پلاننگ کرنا چاہیے۔ اس طرح دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ مسیحی قوموں کے اندر جنگ کے میدان کے بجائے بڑے پیمانے پر فطرت (nature)کا میدان مطالعے کا موضوع بن گیا۔وہ دھیرے دھیرے مکمل طور پر فطرت کے رموز کو دریافت کرنے میں مشغول ہوگئے۔ ان دریافتوں کے بعد دھیرے دھیرے دنیا میں وہ دور آیا، جس کو ٹکنالوجی کا دور (age of technology) کہا جاتا ہے۔ اس پراسس کا آخر ی نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی قومیں دنیا کی غالب قومیں بن گئیں۔ یہ واقعہ کسی سازش کے تحت نہیں ہوا، بلکہ ایک فطری عمل (natural process)کے تحت پیش آیا۔
ٹکنالوجی کی اسی دریافت کا یہ نتیجہ تھا کہ جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی۔ صنعتی انقلاب (industrial revolution) کا دور دنیا میں آیا۔ ٹکنالوجی کی صورت میں ایک عظیم خزانہ نیچر میں چھپاہوا تھا، وہ سب دریافت ہوا، اور آخر کار یہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی، جس کو سائنسی تہذیب کا دور کہا جاتا ہے۔
دو عالمی جنگیں
ترقیات کے نتیجے میں فطری طورپر قوموں میں رقابت (rivalry) شروع ہوگئی۔ اس رقابت نے بڑھتے بڑھتے عالمی جنگ کی صورت اختیار کرلی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں دو بڑی جنگیں پیش آئیں، جن کو پہلی عالمی جنگ (1914-1918)اور دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کہا جاتا ہے۔ تاریخ کے دوسرے بڑے واقعات کی طرح ان جنگوں میں بھی فطرت کے اسباب اپنا کام کر رہے تھے، اور اسی کے نتیجے میں دونوں عالمی جنگیں پیش آئیں۔ لیکن تاریخ کے دوسرے منفی واقعات کی طرح ان جنگوںکا بھی براہِ راست طور پر کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں فطری طور پر ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ وہ یہ کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ اس تجرباتی سوچ کے تحت انسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ اس دور کو دورِ جنگ کے بجائے دورِ امن کا نام دیا جاسکتا ہے۔
دونوں عالمی جنگوں کا نتیجہ بتاتا ہے کہ ان جنگوں میں کسی بھی قوم کو کوئی بھی حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان جنگوں میں اگر کسی کو جیت ہوئی تو اس کی جیت بھی پرک وکٹری (pyrrhic victory) کے ہم معنی تھی۔ مثلاً برطانیہ بظاہر اس جنگ میں کامیاب ہوا، لیکن جنگ کے نتیجے میں وہ اتنا زیادہ کمزور ہوگیا کہ اس کو اپنے ایشیائی مقبوضات سے دستبردار ہونا پڑا، وغیرہ۔
عالمی جنگوں کے بعد فطری اسباب کے تحت قوموں کے اندر نئی سوچ جاگی۔ انھوں نے جنگ کے طریقے کے بجائےامن کے طریقے میں کامیابی کے راستے کو تلاش کیا، اور آخر کار اس تلاش میں وہ کامیاب ہوئے۔ عالمی جنگوں کا نتیجہ یہ تھا کہ دنیا میں پہلی بار اقوامِ متحدہ کی صورت میں مبنی برامن عالمی اتحاد کا دور شروع ہوا۔ دنیا کی تمام قوموں کے اتفاق سے یہ مان لیا گیا کہ کسی مقصد کے حصول کے لیے اب جنگ کا طریقہ ایک متروک طریقہ ہوگا۔ تمام قوموں نے انسان کی فکری آزادی کو عالمی اصول (universal norm) کے طور پر تسلیم کرلیا۔
دورِ امن کا مظاہرہ (demonstration)
دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ مختلف قوموں نے عالمی دباؤ کے تحت اپنی تعمیرِ نو کا پر امن منصوبہ شروع کیا، اور واضح طور پر اس میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح عملی طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ جنگ کے نتیجے میں جو چیز ملتی ہے، وہ صرف بربادی ہے۔ اس کے برعکس، مبنی برامن منصوبہ یقینی طور پر کامیابی تک پہنچاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کی جو تنظیم ِنو ہوئی ،یہ اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کو مجبور کن حالات میں اپنے زیر قبضہ علاقوں کو چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد برطانیہ نے پرامن بنیادوں پر اپنی تعمیرِ نو کا منصوبہ بنایا۔ اس نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے نئے نئے میدان دریافت کیے۔ مثلاً ایجوکیشن اور ٹورزم ،وغیرہ۔ اس پر امن منصوبہ بندی کے ذریعے برطانیہ نے دوبارہ وہ سب کچھ حاصل کرلیا، جس کے لیے پہلے بے فائدہ طور پر جنگ اور فتوحات کا طریقہ اختیارکیا جاتا تھا۔
یہی معاملہ یورپ کے دوسرے ملک فرانس کا ہوا۔ فرانس میں جنرل ڈیگال کے اقتدار کا دور آیا۔ اس نے محسوس کیا کہ نو آبادیاتی نظام فرانس کے لیے صرف کمزوری کا سبب بنا ہے۔ ان کالونیوں میں فرانس کو مسلسل طور پر متشددانہ مزاحمت کا سامنا کر نا پڑتا تھا۔ اس متشددانہ مزاحمت کا نتیجہ آخر کار یہ ہوا کہ فرانس نیوکلیر سائنس اور ترقیاتی دوڑ میں دوسری قوموں سے پیچھے ہوگیا ۔ چنانچہ جنرل چارلس ڈیگال کی قیادت میں فرانس نے اپنے تمام افریقی مقبوضات کو یک طرفہ طور پر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد فرانس کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی اقتصادیات کو پرامن منصوبے کے تحت از سرِ نو منظم کرے۔ نتیجہ بتاتا ہے کہ فرانس اس نئی منصوبہ بندی کے معاملے میں پوری طرح کامیاب رہا۔ مثلاً آج ہوابازی (aviation) کے معاملے میں فرانس امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ جب کہ اس سے پہلے فرانس اس معاملے میں بہت پیچھے تھا۔
یہی معاملہ جرمنی کا ہوا۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اس عزم کے ساتھ شامل ہوا تھا کہ وہ پورے یورپ کا قائد بنے گا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ جرمنی یورپ کا سب سے کمزور ملک بن گیا۔ ان جنگوں کے نتیجے میں جرمنی نے اپنے جغرافی رقبے کا تقریباً ایک تہائی حصہ کھودیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمنی نے اپنی نئی منصوبہ بندی شروع کی۔ یہ منصوبہ بندی اپنی نوعیت میں بڑی عجیب تھی، یعنی باقی ماندہ جرمنی (remaining part of Germany) کی بنیاد پر اپنی تعمیرِ نو کرنا۔ یہ شاید تاریخ میں ایک انوکھی منصوبہ بندی تھی۔ یہ منصوبہ بندی کامیاب رہی، او ر آج جرمنی یورپ کی نمبر ایک طاقت بنا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ اس نے اپنے کھوئے ہوئے جغرافی رقبے کو دوبارہ کامیابی کے ساتھ حاصل کرلیا۔
اسی قسم کی انقلابی مثال جاپان میں پائی جاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان بظاہر دنیا کا سب سے زیادہ برباد ملک بن چکا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جاپان کو نیوکلیر بمباری کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر جاپان کی بربادی نے جاپان کے مدبرین کے اندر نئی سوچ پیدا کی۔ اس ناقابلِ برداشت حادثے کو انھوں یکسر بھلا دیا۔جاپان کےمدبرین نے اس منصوبہ پر اپنی قوم کو یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ اگر امریکا نے 1945میں ہمارے ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا تھا تو اس سے پہلے 1941میں ہم امریکا کے پرل ہاربر کو تباہ کرچکے تھے۔ اس طرح معاملہ برابر ہوگیا۔ ماضی کو بھلاؤ، او ر مستقبل کی تعمیر کرو۔ اس طرح جاپان کے ذریعے یہ مثال قائم ہوئی کہ کس طرح بربادی کے بعد نئی پلاننگ کے ذریعے دوبارہ ایک بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ گویا حالات کی زبان تھی، اور تاریخ میں خالق کا مینجمنٹ اسی طرح حالات کے دباؤ کے تحت اپنا کام کرتا ہے۔
تائیدِ عام
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ الطبرانی نے یہ روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے: إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ہُمْ مِنْ أَہْلِہِ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640) ۔ یعنی ضرور اللہ تعالی اسلام کی مدد ان لوگوں کے ذریعے کرے گا جو دین میں سے نہ ہوں گے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِر (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی ضرور اللہ تعالی اس دین کی مدد فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔ یہ در اصل اسلام کے حق میں ایک پیشین گوئی (prediction) ہے۔ یہ پیشین گوئی الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث کی اکثرمشہور کتابوں میں آئی ہے۔
اس حدیث پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عالمی حالات میں ایک نیا تاریخی عمل (historical process) شروع ہوگا، جو اس حد تک پہنچے گا کہ اللہ کے دین کو عمومی اعتراف (general acceptance) کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ یہ وقت وہ ہوگا جب کہ اپنے اور غیر (we and they)کا فرق مٹ جائے گا۔ کچھ لوگ اگر مومنین ہوں گے تو بقیہ لوگ مؤیدین (supporters) بن جائیں گے۔ اس طرح اہلِ ایمان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ کسی بھی قسم کی حقیقی رکاوٹ کے بغیر اللہ کے دین کو سارے عالم میں پہنچائیں۔ اللہ کی کتاب کو ہر گھر میں داخل کردیں ۔
حالات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دور عملاً دنیا میں آچکا ہے۔ اب اشاعت اسلام کے لیے دوسری قوموں کی طرف سے کوئی حقیقی رکاوٹ نہیں۔ اب اگر رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے تو صرف اس وقت جب کہ مسلمان خود اپنی کسی غلطی کی بنا پر لوگوں کو غیر ضروری طور پر اپنا مخالف بنالیں۔وہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی پالیسی اختیار کرکے دوسروں کے اندر ایسا ردعمل (reaction) پیدا کریں کہ جو ان کے لیے عملاً موافق اقوام بنے ہوئے ہیں، وہ غیر ضروری طور پران کے مخالف بن جائیں۔
تاریخ کے فائنل رول کا زمانہ
اللہ رب العالمین کائنات کا خالق ہے۔ اس نے ایک منصوبے کے تحت انسان کو پیدا کیا۔ اس منصوبے کے تحت رب العالمین نے انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ کامل آزادی کے ساتھ زمین (planet earth) پر آباد ہو، اور کامل آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری کرے۔ لیکن اسی کے ساتھ خالق انسانی تاریخ کو مینج کرتا رہا۔ مینجمنٹ کے اسی واقعے کو قرآن میں تدبیر امر (السجدۃ، 32:5) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
انسانی تاریخ کے بارے میں اللہ رب العالمین کا نقشہ یہ تھا کہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو اس طرح مینج کیا جائے کہ فطرت کے تمام امکانات دریافت ہو کر سامنے آجائیں۔ خالق نے یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا کہ انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) باقی رہے، اور ترقی کا عمل بھی پوری طرح جاری رہے، اور اس پراسس کے نتیجے میں فطرت میں چھپی ہوئی ٹکنالوجی دریافت ہو،جو آخر کار ایک مکمل تہذیب (civilization) کی صورت اختیار کرلے۔ پھر انسانی تاریخ مختلف حالات سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے کہ دنیا میں کمیونی کیشن کا دور آئے، امن کا دور آئے، صنعتی تہذیب کا دور آئے، بڑے پیمانے پر انسان کی نقل و حرکت (mobility) کا دور آئے، علوم کی ترقی کا دور آئے، عالمی انٹرایکشن کا دور آئے، کامل آزادیِ خیال کا دور آئے، کھلے پن (openness) کا دور آئے، وہ تمام حالات پیدا ہوجائیں جب کہ وہ دعوتی پلاننگ کی جاسکے، جس کے ذریعے انسان پر کامل معنوں میں اتمام حجت کا واقعہ انجام پائے۔ غالباً یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیثِ رسول میں شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کہا گیاہے۔
اب انسانی تاریخ اکیسویں صدی کے دور میں پہنچ چکی ہے۔ اس دور میں عالمی شہادت کے تمام موافق حالات مکمل طور پر وقوع میں آچکے ہیں۔ اب پوری طرح ممکن ہوگیا ہےکہ اس دعوتی نشانے کو عملاً ظہور میں لایا جائے، جس کی پیشین گوئی حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں کی گئی ہے: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ(مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔ یعنی روئے زمین پر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں باقی رہے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کے کلمے کو داخل کردے گا۔
عالمی شہادت کا یہ تکمیلی واقعہ امتِ محمدی کے ذریعے انجام پانا ہے۔اس کے مطابق امتِ محمدی کا آخری رول شہادتِ اعظم کی انجام دہی ہے۔ اس واقعے کی عملی صورت یہ ہے - خدا کے کلام (قرآن) کا معیاری ترجمہ ہر زبان میں تیار کرکے اس کو پورے کرۂ ارض پر پھیلانا تاکہ قوموں کی اپنی قابلِ فہم زبان (understandable language) میں اللہ کی ہدایت ہر ایک کے پاس پہنچ جائے، اور اقامتِ حجت کاواقعہ پیش آجائے، تاکہ وہ معاملہ سامنے نہ آئے،جس کا بیان قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ (7:172)۔ یعنی قیامت کے دن انسان عذر کریں کہ ہم کو اس کی خبر نہ تھی۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن بہت بڑی نعمت ہے، مگر اس نعمت کا اصل استعمال یہ ہے کہ اس کو اسلامی دعوت کے لیے استعمال کیا جائے۔ بدقسمتی سے جدید کمیونی کیشن کو اب تک اسی اصل کام کے لیے استعمال نہ کیا جاسکا۔ اسلامی دعوت یہ ہے کہ اسلام کے مثبت پیغام کو قومی اور سیاسی آلائشوں سے پاک کرکے خالص ربّانی انداز میں پھیلایا جائے۔ جدید کمیونی کیشن نے پہلی بار اس کو ممکن بنایا ہے کہ دعوت کا کام عالمی سطح پر انجام دیا جاسکے۔ جدید کمیونی کیشن کا اصل استعمال یہی ہے۔ جدید کمیونی کیشن کے دعوتی استعمال کے بعد، اس کے دوسرے استعمالات بھی جائز ہوسکتے ہیں۔ مگر دعوتی استعمال کے بغیر اس کے دوسرے استعمالات کا کوئی جواز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

معیار کی تبدیلی

موجودہ زمانے میں مسلمان عام طور پر منفی (negative) ہوگئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم محاصرے کی حالت میں ہیں:
We are under siege
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں اسلام دورِ مظلومیت میں ہے۔ اس مزاج کی وجہ سے مسلمانوں میں تشدد کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ اس منفی ذہنیت کی ذمہ داری تمام تر موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں پر ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے معیار (criterion) کو بدل دیا۔ ان کے نزدیک اسلام کا بہتر حالت میں ہونا یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہو۔ عثمانی خلافت کی طرح دنیا میں مسلم استعمار قائم ہو۔ مگر یہ معیار غلط ہے۔اس معاملے میں صحیح معیار یہ ہے کہ مسلمانوں کو عمل کی آزادی حاصل ہو، اسلامی دعوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ پائی جائے۔
موجودہ زمانے میں اسلام کے لیے مطلوب حالت پوری طرح قائم ہے۔ آج فتنہ (religious persecution)ختم ہوگیا ہے۔ جدید ذرائع پوری طرح اسلام کے لیے سازگار ہیں۔لیکن لوگ اپنے غلط معیار کی بنا پر منفی سوچ میں مبتلا ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کا دور اسلام کے لیے تائید کا دور ہے۔ مگر اپنی غلط سوچ کی بنا پر یہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ آج کا دور اسلاموفوبیا کا دور ہے۔یہ تمام باتیں بالکل بے اصل ہیں۔ اگر مسلمان اپنے خود ساختہ میعار کو بدل لیں تو اچانک دیکھیں گے کہ دورِ جدید دورِ اسلام ہے۔ وہ اسلام کی تائید (support) کا دور ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر احساسِ شکست کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کا سبب شکست کا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کا شکست خوردہ نفسیات میں مبتلا ہونا ہے۔ اگر مسلمانوں کی سوچ بدل جائے اور وہ شکست اور فتح کی نفسیات میں سوچنے کے بجائے دعوتی مواقع کی اصطلاح میں سوچنے لگیں، تو اچانک صورت حال بالکل بدل جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

پرامن طریق کار

پرامن اسلامی طریقِ کار کیا ہے، اس کی ایک کامیاب مثال کشمیر کی تاریخ میں پائی جاتی ہے۔ کشمیر کو عام طور پر لوگ اس کے قدرتی حسن کی وجہ سے جانتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں اس سے بھی زیادہ بڑی چیز موجود ہے۔ یہ اسلامی طریقِ کار کا وہ نمونہ ہے جو میر سید علی ہمدانی (1314-1384 ء) کی زندگی میں ملتا ہے۔ موصوف نے، جن کو کشمیری عام طورپر ’’امیر کبیر‘‘ کہتے ہیں، اپنے عمل سے ایک عظیم قابل تقلید نمونہ قائم کیا ہے، جس کی مثال حالیہ صدیوں میں کم ملے گی۔ کشمیر اپنے قدرتی مناظر کی وجہ سے اگر جنت نظیرہے تو اپنے تاریخی نمونے کے ذریعہ وہ ہم کو اسلام کے طریقِ دعوت کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال (1877-1938 ء) نے امیر کبیرکی بابت کہا تھا:
دستِ او معمارِ تقدیر امم
امیر کبیرکی بابت یہ الفاظ صد فی صد درست ہیں۔ موجودہ مسلم کشمیر زیادہ تر امیر کبیرہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ مگر امیر کبیرنے یہ کام ’’شمشیر وسناں‘‘ کے ذریعہ نہیں کیا، انھوں نے یہ کامیابی ’’شمشیر وسناں‘‘ کو ترک کرکے حاصل کی۔ امیر کبیر کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ —اسلام کو زندہ کرنا چاہتے ہو تو ٹکراؤ کے ذہن کو ہمیشہ کے لیے ختم کردو، مذہبی اور سیاسی جھگڑے کھڑے کرنے سے مکمل پرہیز کرو۔ اس کے بعد تم کو خدا کی نصرتیں ملیں گی اور اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی حاصل ہوگی۔
میر سید علی ہمدانی ایران کے رہنے والے اور تیمور لنگ (1335-1405ء) کے ہم عصر تھے۔ شاہ تیمور ان سے کسی بات پر ناراض ہوگیا اور ان کو ایران سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اب امیر کبیرکے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ تیمور لنگ کے خلاف جہاد کا نعرہ لگائیں اور ایران میں حکومتِ صالحہ قائم کرنے کی جدوجہد کریں، خواہ اس کے نتیجہ میں ان کو شہید ہوجانا پڑے۔ مگر امیر کبیر نے اِس قسم کے سیاسی تصادم سے پرہیز کیا۔ وہ اپنے چالیس ساتھیوں کو لے کر اپنے وطن ہمدان سے نکل پڑے۔ افغانستان ہوتے ہوئے یہ قافلہ 781 ھ میں کشمیر پہنچا۔امیر کبیراس سے پہلے 762ھ میں اپنی سیاحت کے دوران کشمیر کو دیکھ چکے تھے۔
کشمیر پہنچ کر دوبارہ موقع تھا کہ یہاں سے شاہ تیمور کے خلاف سیاسی تحریک چلائی جائے۔ تیمور کے معاصرین میں ایسے لوگ تھے جو بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر تیمورسے بغض رکھتے ـتھے۔ امیر کبیر ان کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر تیموری اقتدار کو ختم کرنے کی مہم جاری رکھ سکتے تھے، مگر امیر کبیرنے اس قسم کی کسی بھی کارروائی سے مکمل پرہیز کیا۔ اسی طرح قیادت کا ایک اور راستہ امیر کبیرکے لیے پوری طرح کھلا ہوا تھا۔ یہ اس وقت کے کشمیری مسلمانوں کی اقلیت کے معاشی اور سماجی حقوق کا مسئلہ تھا۔ اس وقت کشمیر میں اگر چہ ایک مسلم خاندان کی حکومت تھی، مگر کشمیری مسلمان، ریاست میں ایک کمزور اور غریب اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے، حتی کہ کہا جاتا ہے کہ ان سے جبراً بت خانوں کے نذرانے وصول کیے جاتے تھے۔ امیر کبیران کی طرف سے حقوق طلبی کی مہم چلا کر فی الفور مسلمانوں کے قائد بن سکتے تھے، مگر امیر کبیرنے اس قسم کی ’’ملی سیاست‘‘ سے بھی کوئی سروکار نہ رکھا۔
اسی طرح امیر کبیرکے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ ’’انسانیت‘‘ کے پیامبر بن کر اٹھیں، اور ریاست کے مختلف فرقوں کو امن کے ساتھ رہنے کا وعظ سنائیں۔ ایسا کرکے وہ بہت جلد دونوں فرقوں کے درمیان ہر دل عزیزی اور مقبولیت حاصل کرسکتے تھے۔ کیوں کہ ہر وہ تحریک لوگوں کو بہت پسند آتی ہے جس میں حق وباطل کا مسئلہ چھیڑے بغیر رواداری (tolerance)اور میل جول کا اپدیش دیاگیا ہو، جس میں کوئی زد اپنے اوپرپڑتی ہوئی محسوس نہ کرے۔ مگر اس قسم کی تحریک جلسوں اور تقریروں کی سطح پر خواہ کتنی ہی کامیاب نظر آئے، عملی نتیجہ کے اعتبار سے وہ ہمیشہ بے فائدہ ثابت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کام کا اسلامی دعوت سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کا کام، اپنی ظاہری خوش نمائی کے باوجود، صرف مسائلِ دنیا کی طرف متوجہ کرنے کا کام ہے، جب کہ اسلامی دعوت کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو مسائلِ آخرت کی طرف متوجہ کیا جائے۔
امیر کبیرکا پروگرام نہ شاہ تیمور کے خلاف رد عمل کے طورپر بنا، اور نہ کشمیری مسلمانوں کے وقتی حالات سے متاثر ہو کر۔ اس وقت کشمیر میں ایک مسلم راجہ سلطان قطب الدین کی حکومت تھی۔ اس کے اندر بہت سی اعتقادی اور عملی خرابیاں موجود تھیں۔ آپ نے سلطان کو ناصحانہ انداز کے خطوط بھیج کر اس کو اصلاحِ حال کی طرف متوجہ کیا۔ تاہم آپ نے اس کو اقتدار سے ہٹانے اور اس کی جگہ صالح حکمراں لانے کی کوئی مہم نہیں چلائی۔ امیر کبیر نے ان تمام عوامل سے اوپر اٹھ کر سوچا اور خود اپنے مثبت فکر کے تحت اپنا پروگرام بنایا۔ پھر یہ پروگرام بھی کوئی کنونشن یا کانفرنس کا انعقاد نہ تھا۔ یہ تمام تر ایک خاموش عملی پروگرام تھا۔ وہ اور ان کے رفقا ریاست کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور پُر امن طور پریہاں کے باشندوں میں اسلام کی تبلیغ کرنے لگے۔ انھوں نے کشمیریوں کی زبان سیکھی، یہاں کے حالات سے اپنے کو ہم آہنگ کیا۔ اجنبی دیس میں اپنے لیے جگہ بنانے کی مصیبتیں اٹھائیں۔ اس طرح صبر وبرداشت کی ایک زندگی گزارتے ہوئے اپنے خاموش دعوتی مشن کو جاری رکھا۔
کشمیر میں اسلام
کشمیر میں اسلام کا ابتدائی داخلہ اگرچہ محمد بن قاسم (66-96ھ) کے زمانہ میں ہوا۔ تاہم ریاست میں اسلام کی نمایاں اشاعت غالباً سید بلبل شاہ قلندر ترکستانی کے وقت سے شروع ہوئی۔ سات سو سال پہلے کشمیر میں ایک بودھ راجہ رینچن شاہ کی حکومت (1320-23 ء) تھی۔ یہ راجہ سید بلبل شاہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا۔ اس زمانہ میں لوگ اپنے سرداروں کے دین پر ہوتے تھے۔ راجہ کو دیکھ کر کشمیریوں کی ایک تعداد مسلمان ہوگئی۔ سیدبلبل شاہ فقہی مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ چنانچہ اس وقت جو لوگ مسلمان ہوئے، وہ ان کے اثر سے حنفی مسلک کے مطابق عبادت کرنے لگے۔ میرسید علی ہمدانی کی تبلیغ سے جب کشمیری باشندے مسلمان ہونے لگے تو ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، وہ یہ کہ یہ نومسلم کس فقہی مسلک پر عبادت کریں۔ امیر کبیرخود شافعی المسلک تھے، اور اس وقت کشمیر میں جو مسلمان تھے، وہ حنفی المسلک تھے۔ امیر کبیر اگر ان نومسلموں کو اپنے فقہی مسلک کی تلقین کرتے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں میں دو گروہ بن جاتے۔ ایک امیر کبیرکے ہاتھ پر اسلام لائے ہوئے لوگوں کا، دوسرا بقیہ کشمیری مسلمانوں کا۔ حنفی اور شافعی کا یہ جھگڑا نہ صرف دونوں کے مدرسوں اور مسجدوں کو الگ کردیتا، بلکہ اپنے اپنے فقہی مسلک کی صحت و برتری ثابت کرنے کی کوشش میں اصل تبلیغی کام پس پشت پڑجاتا۔کشمیری مسلمان دو جتھوں کی صورت اختیار کرکے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کردیتے۔ جو قوت دینِ حق کی اشاعت میں صرف ہوتی، وہ آپس کے جھگڑوں میں بر باد ہوجاتی۔ نسلیں گزر جاتیں مگر یہ اختلاف کبھی ختم نہ ہوتا۔
میر سید علی ہمدانی نے صرف اساساتِ دین کی تبلیغ کی۔ انھوں نے فقہی مسالک کی کوئی بحث نہیں چھیڑی۔ انھوںنے یہاں تک احتیاطسے کام لیا کہ اپنا شافعی المسلک ہونا اپنے پیروؤں سے پوشیدہ رکھا۔ عام مسلمانوں کے ساتھ آپ خودبھی حنفی طریقہ پر نماز پڑھتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اسی کے مطابق عبادت کرنے کی تلقین کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر میں ان کو کام کرنے کے مکمل مواقع ملے۔ ان کو ہر طبقہ کا تعاون حاصل رہا۔ غیر متعلق مسائل کے الجھاؤ سے وہ بالکل محفوظ رہے۔ اپنی دعوتی جدوجہد میں ان کو اتنی زیادہ کامیابی ہوئی کہ کشمیر دائمی طورپر مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا۔ امیر کبیر اگر یہاں حنفی مسلک اور شافعی مسلک کی بحثیں چھیڑتے تو ان کو یہ کامیابی نہیں ہوسکتی تھی، اور بالفرض اگر کوئی کامیابی ہوتی تو وہ بھی اِس قیمت پر کہ ان کی آمد کشمیری مسلمانوں کو باہم لڑنے والے دو گروہوں میں بانٹ دینے کا سبب بن جاتی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو لوگ اس راہ پر چلیں ان کا کسی سے اختلاف نہیں ہوگا۔ با مقصد آدمی کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ خود امیر کبیر کے حالات بتاتے ہیں کہ 73 سال کی عمر میں موضع پکھلی (کشمیر) کے کچھ شر پسندلوگوں نے آپ کو زہر دے دیا، اور اسی میں آپ کا انتقال ہوا۔ تاہم اس قسم کا اختلاف محض ذاتی وجوہ سے ہوتا ہے اور وہ داعی کو صرف ذاتی نقصان پہنچاتا ہے، جب کہ ایک غیر دینی مسئلے کو دینی مسئلہ بنانا دین میں فرقہ بندی کو جنم دیتا ہے، جو اتنا بڑا جرم ہے کہ کسی گروہ سے وہ تمام نعمتیں چھن جاتی ہیں جو کتاب ِالٰہی کا حامل ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے مقدر کی گئی تھیں۔
امیر کبیرسید علی ہمدانی کی زندگی اسلامی طریقِ کار کی نہایت کامیاب عملی مثال ہے۔ اپنی پُرامن دعوتی جدوجہد میں انھوں نے جس چیز کو مرکز توجہ بنایا، وہ توحید اور آخرت کا مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ سیاسی مسئلے، معاشی مسئلے، فقہی مسئلے، انھوں نے بالکل نہیںچھیڑا۔ وہ اصل دین پر یکسو رہے، نہ کہ متفرقاتِ دین پر۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عبادت کی ادائیگی میں آداب اور مناسک کے لحاظ کو غیر ضروری سمجھتے تھے۔ وہ ہر ایک کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، اورہر چیز کو انھوں نے بالفعل اختیار کیا۔ تاہم انھوںنے جس چیز کو دعوت کا عنوان بنایا، وہ متفق علیہ دین تھا، نہ کہ سُبُلِ متفرقہ۔
امیر کبیر فقہ کی تمام شرائط کے مطابق مکمل نماز پڑھتے تھے، مگر فقہی اختلافات کے پیچھے پڑنا، ایک مسلک کو غلط ثابت کرکے اس کی جگہ دوسرے مسلک کی ترجیح قائم کرنا، انھوں نے اپنا مشن نہیں بنایا۔ اسی طرح معاشیات کے سلسلے میں انھوں نے ایک راستہ اختیار کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو وہ اوران کے ساتھی زندہ کیسے رہ سکتے تھے۔ مگر معاشی مسائل کو حل کرنے یا اس کو پوری ملت کا مشترک مسئلہ بنا کر اس کی بنیاد پر تحریک چلانے کا طریقہ انھوں نے اختیار نہیں کیا۔ اسی طرح سیاست کا نعرہ نہ لگانے کے باوجود ان کی ایک سیاست تھی، بلکہ نہایت گہری سیاست تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کشمیر کو یہ مقام نہ ملتا کہ یہاں صرف مسلم وزارت بنتی ہے،دوسری وزارت بننے کا یہاں کوئی سوال نہیں۔ کشمیر کو یہ سیاسی عطیہ تمام تر امیر کبیر کی دین ہے۔ اگر چہ معروف معنوں میں انھوں نے کوئی سیاسی پروگرام اپنی زندگی میں نہیں چلایا اور نہ کوئی ان کو ’’سیاسی لیڈر‘‘ کی حیثیت سے جانتا ہے — امیر کبیر ہر چیز کے پیچھے نہیں دوڑے۔ انھوں نے صرف یہ کیا کہ حقیقت کا سِراا پکڑ لیا۔ اس کے بعد تمام چیزیں خود بخود ان کی طرف آتی چلی گئیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
خواجہ نظام الدین اولیا ءنے اپنی ایک مجلس میں فرمایا کہ عام لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھے کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھے کے ساتھ ٹیڑھا۔ لیکن ہمارے بزرگوں کا یہ کہنا ہے کہ سیدھوں کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھوں کے ساتھ بھی سیدھا۔ اگرکوئی شخص ہمارے سامنے کانٹا ڈالے اور ہم بھی کانٹا ڈالیں تو کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے۔ اگر کسی نے کانٹا ڈالا ہے تو تم اس کے سامنے پھول ڈالو۔ پھر پھول ہی پھول ہوجائیں گے۔(الرسالہ، اپریل، 2006)
واپس اوپر جائیں

آفاقی طرزِ فکر

قرآن کی آئڈیا لوجی آفاقی آئڈیالوجی ہے۔یہ نقطۂ نظرمختلف انداز سے سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے ، وہ زمین میں بڑے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا، اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے، پھر اس کو موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے یہاں مقرر ہوچکا (4:100)۔ قرآن کی یہ آیت زیادہ معنی خیز انداز میں میری سمجھ میں اس وقت آئی، جب کہ میں نے 1971 میں احمد آباد کا سفر کیا۔ یہاں میری ملاقات ایک مسلم نوجوان سے ہوئی۔ وہ انجینئر تھے۔ حال میں انھوں نے ایک فیکٹری بنائی تھی۔ وہ مجھ کو اپنی فیکٹری میں لے گئے۔ ان کی فیکٹری میں ابھی تک کوئی پروفیشنل مینیجر نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی فیکٹری کے مختلف حصوں کو دکھاتے ہوئے پروفیشنل مینیجر کے نہ ہونے کا ذکر کیا، اور کہا : اپنی تو لیمیٹیشنس (limitations) آجاتی ہیں، مینجمنٹ سائڈ پر۔
فیکٹری کے مالک کا یہ جملہ سن کر میرا مائنڈ ٹریگر (trigger)ہوگیا۔ میں نے ایک نئے لائن پر سوچنا شروع کردیا۔ میں نے سوچا کہ ہمارے رہنماؤں نے پوری بیسویں صدی اسی سوچ میں گزار دی۔ ایک لفظی فرق کے ساتھ ان کی مشترک سوچ یہ تھی: اپنی تو لیمیٹیشنس آجاتی ہیں، پولیٹکل سائڈ پر۔ پولٹکس کوئی آفاقی نقطہ نظر نہیں ہے۔ پولٹکس کی محدود سرحدیں ہوتی ہیں۔ اس بنا پر ہمارے تمام رہنما گویا زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اپنی تو لیمیٹیشنس آجاتی ہیں، پولٹکل سائڈ پر۔ اس فکری محدودیت کی بنا پر ہمارے رہنما امت کو آفاقی نقطہ نظر نہ دے سکے۔ ہررہنما کی سوچ کسی نہ کسی پولٹکل سرحد پر رک گئی۔ ہر رہنما فکر ی محدودیت کا شکار ہوا، اور امت کو بھی فکری محدودیت میں مبتلا کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پولٹکل سرگرمی اور دعوتی عمل دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔سیاسی نقطۂ نظر محدود نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دعوت کا نقطۂ نظر آفاقی نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ آفاقی نقطۂ نظر کی کوئی جغرافی سرحد نہیں ہوتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آج امتِ مسلمہ پولٹکل سرگرمیوں سے ہجرت کرلے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے سے مدینے کو ہجرت کی تھی۔اس کے بعد ہی وہ دعوتی مشن کو آفاقی طور پر آگے لے جاسکتے ہیں۔
پیغمبرِ اسلام بعثت کے بعد تیرہ سال مکہ میں رہے۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ جب آپ نےہجرت کا ارادہ کیا تو اس وقت آپ نے اپنے اصحاب کو پیشین گوئی کی زبان میں خبر دیا تھا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے مشن کے لیے اگرچہ ایک طرف، مکہ میں، رکاوٹ ہے، اس کے باوجود دوسری طرف، مدینہ میں ، اس کا راستہ کھلا ہوا ہے،اس راستے سے یہ ساری دنیا میں پھیلے گا۔
چودہ سو سال کی مدت گزرنے کے بعداب امت حدیث میں مذکور پیشین گوئی کے بعد کے دور میں ہے۔ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، اس پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخی ارتقا کے نتیجے میں بعد کو کمیونی کیشن (communication) کا زمانہ آئے گا۔ نئے مواقع کے استعمال سے امت کے افراد اپنے دینی مشن کو ساری دنیا میں پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ دینی مشن ساری سرحدوں سے گزرکر تمام ملکوں میں پھیل جائے گا۔ یہ واقعہ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: یہ امر ضرور اس حد تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں، اور اللہ نہیں چھوڑے گا کسی چھوٹے اور بڑے گھر کو مگر اللہ ضرور اس کے اندر اس دین کو داخل کرے گا(مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج آفاقی دعوت کے تمام مواقع کھل گئے ہیں۔دعوتی سفر میں آج کوئی دیوار یا کوئی سرحد رکاوٹ نہیں۔ پولٹکل تحریک کے لیے ہر طرف سرحدوں کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں۔ لیکن پرامن دعوتی مشن کے لیے کہیں کوئی دیوار حائل نہیں۔ ہر انسان اس کا مخاطب ہے، اور ہر جغرافی حصہ اس کی مملکت میں شامل ہے۔
واپس اوپر جائیں

نتیجہ خیز آغاز

ایک صاحب لکھتے ہیں:میں آپ کی کئی تقریروں کو سننے کے بعد آپ کی اوریجنل اور گہری فکر سے مَیں کافی متاثر ہوا ہوں۔ لیکن آپ کی باتوں کو سننے کے بعد آپ کے اسٹیٹس کو (status quo)کے نظریے کے بارے میں میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ اگر اسٹیٹس کو کو قبول کرنا، اتنا ونڈر فل معاملہ ہے تو ہندستان برٹش حکومت کے ماتحت ہی رہتا۔ دوسرے ممالک، جیسے ترکی، ملیشیا، انڈونیشیا، سوڈان، اور نائیجیریا وغیرہ تو اپنے غیر ملکی رولر (rulers)کے تحت ہی باقی رہتے۔ آپ مجھے ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دیجیے۔ (جاوید اظہر خان، پاکستان)
جواب: اسٹیٹس کو کامطلب ہے حالت موجودہ، بطور خاص سماجی اور سیاسی معاملات میں:
the existing state of affairs, particularly with regard to social or political issues.
میں اسٹیٹس کو ازم کو جس معنی میں استعمال کرتا ہوں، اس کا مطلب حالت موجودہ کو باقی رکھنے پر ہمیشہ کے لیے راضی رہنا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق طریقِ کار سے ہے۔یہ ایک لفظ میں نتیجہ رخی طریقہ کو اختیار کرناہے۔یعنی حالت موجودہ سے براہ راست ٹکراؤ کرنے کے بجائے مواقع کو دریافت کرنا، اور حالت موجودہ کو برقرار رکھتے ہوئے جو ابتدا ممکن ہو، اس سے اپنے عمل کا آغاز کرنا، اور غیر نزاعی (non-confrontational) انداز میں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی پرامن تعمیر کا طریقہ اختیار کرنا۔ اس ماڈل کی ایک کامیاب مثال ساؤتھ افریقہ ہے۔ ساؤتھ افریقہ میںہندستان کی طرح برٹش راج قائم تھا۔ وہاں حالات کے زیر اثر ایسا ہوا کہ براہ راست سیاسی لڑائی کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ ایک مختلف انداز میں کام شروع ہوا۔ یعنی ساؤتھ افریقہ میں کام کا آغاز پولٹکل ایکٹیوزم سے نہیں ہوا، بلکہ ایجوکیشنل اکٹیوزم کے طو رپر ہوا۔
یہ ایک صحیح آغاز (right beginning)کا معاملہ تھا۔یعنی پہلے قوم کو تیار کرنا، اور اس کے بعد سیاسی اقتدار کا ملنا۔انڈیا میں اس سے مختلف ماڈل اختیار کیا گیا۔ ساؤتھ افریقہ میں جو ماڈل اختیار کیا گیا، وہ مختصر طور پر یہ تھا کہ پہلے ایجوکیشن اور اس کے بعد سیاسی اقتدار۔ اس کے برعکس، انڈیا میں جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ پہلے سیاسی اقتدار اس کے بعد تعلیم۔ ترتیبِ کار میں اسی فرق کی بنا پر یہ ہوا کہ انڈیا 1947 میں آزاد ہوگیا، جب کہ ساؤتھ افریقہ بہت بعدمیں1994 میں آزاد ہوا۔ مگر نتیجہ بتاتا ہے کہ ساؤتھ افریقہ کو آزادی کے ساتھ ہی ترقی یافتہ ملک (developed nation) کی حیثیت حاصل ہوگئی، جب کہ انڈیا آزادی کے باوجود ابھی تک صحیح معنوں میں ترقی یافتہ نیشن کے درجے تک نہیں پہنچا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں کے نوجوان آزاد ہندوستان کو چھوڑ کر انھیں ملکوں کی طرف چلے جارہے ہیں، جن سے ان کے لیڈروں نے آزادی حاصل کی تھی۔
یہ ماڈل اسلام کی اسپرٹ کے مطابق ہے۔ میرے مطالعے کے مطابق، اسلام میں بھی اسی ماڈل کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس ماڈل کو’’حطیم ماڈل‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ نے مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا تو کعبہ کی عمارت اپنے ابراہیمی ماڈل پر نہ تھی، بلکہ کعبہ کی عمارت اُس تعمیری بنیاد پر موجود تھی، جس کو رسول اللہ کے زمانے کے مشرکین نے بنایا تھا۔ یعنی کعبہ کی عمارت دو تہائی رقبے پر قائم تھی، اور ایک تہائی رقبہ حطیم کی صورت میں خالی پڑا ہوا تھا۔ پیغمبر اسلام نے حطیم کے معاملے میں اسٹیٹس کو کا طریقہ اختیارکیا، اور کعبے کی موجود عمارت کو عملاً قبول کرتے ہوئے اپنے مشن کا آغاز کردیا۔
قرآن میں حج کے تذکرے کے تحت یہ بیان آیا ہے:لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ (22:28)۔ یعنی تاکہ وہ ان فائدوں کو دیکھیں جو ان کے لئے ہیں۔اس آیت میں منافع (benefit) کا غالباً ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ حطیم کے تاریخی ماڈل کو دیکھیں، اوراس سے سبق لیتے ہوئے، غیر نزاعی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ وہ اپنے کام کو وہاں سے شروع کریں، جہاں ہر قدم تعمیرکے ہم معنی ہو۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، آپ کو صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کے نام سے بظاہرایک ملک بن گیا ہے۔ بلکہ یہ دیکھنا چاہیےکہ پاکستان کا جو نشانہ تھا، وہ ابھی تک پورا نہیںہوا، اور اس کا سبب یہی ہے کہ پاکستان کو بنانے میں ’’حطیم ماڈل‘‘ کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 261

■ سماج میں امن و بھائی چارہ پھیلانے کے لیے حکومت یوپی نے نیشنل میڈیکل کالج سہارن پور اور سی پی ایس، سہارن پور کے اشتراک سے ایک پروگرام، پیغامِ محبت کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں حکومت یوپی کے کئی وزراء شامل ہوئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد اسلم خان (پرنسپل نیشنل میڈیکل کالج اور سی پی ایس کے ایکٹیو ممبر)نے پروگرام میں امن و بھائی چارہ کے موضو ع پر ایک تقریر کی، اور پروگرام میں موجود تمام مہمانان و سامعین کے درمیان ہندی ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ یہ پروگرام 4 اکتوبر 2018 کو منعقد ہوا۔
■ راشٹرسنت تکڑو جی مہاراج ناگپور یونیورسٹی کے ہال میں 7 اکتوبر 2017 کو مفسر قرآن و داعی عبد الکریم پاریکھ کی یاد میں ایک جلسہ کیا گیا تھا۔ اس یادگاری جلسہ کے خصوصی مقرر سابق الیکشن کمشنر آف انڈیا، مسٹر ایس وائی قریشی تھے۔ اس موقع پر ناگپور سی پی ایس ٹیم نے سامعین کے درمیان مراٹھی ترجمۂ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کیا، اور سی پی ایس مشن کا تعارف کروایا۔
■ مسٹر حمید اللہ حمید، مسٹر اے ایم باندے اور مسٹر منظور تانترے، مسٹرجاویدبیگ، اورمسٹر سجاد ڈینڈا صاحبان (سی پی ایس، کشمیر چیپٹر) نے9 اکتوبر 2017 کو سری نگر میں دو پروگراموں میں شرکت کی۔ یہ دونوں پروگرام بالترتیب سری نگر کے ہوٹل للت پیلیس اور SKICCمیں منعقد ہوئے تھے۔ ان پروگراموں میں مز محبوبہ مفتی (سی ایم جموں اینڈ کشمیر)، نوبل انعام یافتہ مسٹر کیلاش ستیارتھی پرکاش ، مسٹر سی کے پرساد (صدر پریس کاؤنسل آف انڈیا )، ڈاکٹر سبھاش چندرا (ہیڈ زی میڈیا لیمٹیڈ)،وغیرہ، موجود تھے۔ ان تمام لوگوں کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔ اس کے بعد10اکتوبر 2017 کو مسٹر پرکاش دوبے (سکریٹری، پریس کاؤنسل آف انڈیا) نے ایک وفد کے ساتھ اپنا گھر ، بیروہ کا دورہ کیا ۔اس وقت انھیں سی پی ایس مشن اوراپنا گھر سے متعارف کروایا گیا۔انھوں نے اس پیس فل مشن کو کافی سراہا۔ آخر میں انھیں ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا گیا۔واضح ہو کہ اپنا گھر سی پی ایس کے بہت ہی ایکٹیو ممبر مسٹر حمید اللہ حمید کی نگرانی میں چلنے والا یتیم خانہ اور پیس فل سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ سی پی ایس کشمیر کے ایک ممبر، جناب فاروق خان صاحب نے کشمیر میں حکومت ہند کے انٹر لوکیٹر (Interlocutor)مسٹر دنیشور شرماکو ہندی ترجمۂ قرآن دیا۔ یاد رہے کہ مسٹر فاروق خان صاحب پہلے مسلح تنظیم جے کے ایل ایف کے کمانڈر تھے۔ اسی طرح کشمیر میں الرسالہ مشن سے متاثر ہو کر مسلح جدو جہد کا راستہ ترک کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔

■ودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی، نئی دہلی میں سی پی ایس دہلی کے ممبران، مسٹر رجت ملہوترا، مز ماریہ خان، مز صوفیہ خان، مز نغمہ صدیقی، اور مولانا فرہاد احمد نے 17 اکتوبر 2017 کو کرسچن تھیالوجی کے اسٹوڈنٹس کے سامنے قرآن، پیغمبر اسلام، اور مسلمانوں کے متعلق لکچر دیا۔ لکچر کے بعد سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ آخر میں تمام سامعین کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر دیا گیا۔
■ 20-21 اکتوبر 2017 کو سہارن پور میں دو روزہ دعوہ میٹ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس دعوہ میٹ میں سی پی ایس کی جن ٹیموں نے حصہ لیا، وہ یہ ہیں: سہارنپور، مہاراشٹر، حیدرآباد، چنئی، اور بہار۔ ان لوگوں نے اس میٹ میں مختلف دعوتی مسائل و مواقع پر اپنے تجربات شیر کیے، اور آئندہ کے لیے ایک نئے عزم کے ساتھ دعوتی کام کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ نیز دوسرے دن دیوالی ملن کا پروگرام تھا۔ اس موقع پر برادرانِ وطن کے لیے ایک پروگرام کیا گیا، جس میں آنے والے مہمانوں کے درمیان ہندی ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ یہ دونوں پروگرام نیشنل میڈیکل کالج، سہارن پور میں منعقد ہوئے۔ اس پروگرام کو ڈاکٹر محمد اسلم خان نے سی پی ایس سہارن پور، اور کالج اسٹاف کے ذریعہ کامیاب بنایا۔
■ سی پی ایس (پونے) کے جناب عبد الصمد صاحب نے پونے کے گُردوارا کمیٹی کے سابق ممبر مسٹر گرومکھ سنگھ راجپال کی اہلیہ اور بیٹے، مسٹر منجیت سنگھ راجپال کو قرآن کا پنجابی ترجمہ قرآن بطور تحفہ دیا۔ ان لوگوں نے انتہائی خوشی اور شکریے کے ساتھ اسے قبول کیا۔ یہ ملاقات غالباً 27 اکتوبر 2017 کو ہوئی۔
■ ممبئی کے کینسر سرجن ڈاکٹر کامران خان صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے 30 اکتوبر 2017 کو صدر اسلامی مرکز کی آفس میں تشریف لائے۔ دوران ملاقات ان سے مختلف موضوعات پرعلمی و میڈیکل سائنس کی گفتگو ہوئی۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا۔
■ کشمیر کے پونچھ ضلع میں 14 نومبر 2017 کو ایک انٹر فیتھ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ یہ اس علاقے میں اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی۔ اس میں جن لوگوں نے حصہ لیا، ان میں سے چند یہ ہیں: اچاریہ پرمود سوامی جی، مولانا سید کلب صادق، جناب کمال فاروقی، سکھ گرو مہنت نانگلی اور جناب فاروق مضطر صاحبان, وغیرہ۔ سی پی ایس راجوڑی اس پروگرام میں بحیثیت ایک منتظم شریک تھی، اور انھوںنے لوگوں کے درمیان سی پی ایس کا دعوتی لٹریچر بھی تقسیم کیا۔اچاریہ پرمود سوامی جی نے جب صدر اسلامی مرکز کا نام سنا تو بہت خوش ہوئے ، جب انھیں جموں و کشمیر میں سی پی ایس انٹرنیشنل کی سرپرستی میںہورہی امن کی کو ششوں کے بارے میں بتایا گیا تو انھوں نے سی پی ایس کے کاموں کو بہت سراہا، اور اپنے جموں اور پونچھ مٹھ میں سی پی ایس ممبر ان کو آنے کی دعوت دی۔
■ مسٹر شکیل الرحمن دہلی سی پی ایس کے ایک ایکٹیو داعی ہیں۔ 16 نومبر 2018 کو انھوں نے نئی دہلی کے فورٹِس اسکارٹ ہارٹ ہاسپٹل میں ڈاکٹر پروتی ایر (Parvathi Iyer)کو صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتابوں کا ایک سٹ ، ترجمۂ قرآن، قرانک وزڈم، اور لیڈنگ اے اسپریچول لائف بطور تحفہ دیا۔
■ عید میلاد النبی کے موقع پر ساؤتھ گوا کے Curchorem میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر مدرسہ کے 47 طلبہ اور 3 کالج کے ممتاز اسٹوڈنٹس کو اعزاز سے نوازا گیا۔ جو انعامات دیے گئے، ان میں ترجمہ قرآن بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ سامعین کے درمیان 200 سے زیادہ ہندی اور انگریزی ترجمۂ قرآن تقسیم کیے گئے۔ یہ پروگرام سی پی ایس گوا کے مسٹر ایس سراج صاحب کی صدارت میں 2-4دسمبر 2017 کو منعقد کیا گیا تھا۔
■ بروز اتوار 4 فروری 2018 کو صدر اسلامی مرکز نے خاندانی زندگی (English version: The Secret of Successful Family Life)کا مراٹھی ترجمہ ریلیز کیا۔ یہ ترجمہ سی پی ایس (پونے) نے جناب عبدالصمد صاحب کی نگرانی میں کیا ہے۔ یہ کتاب خاندانی معاملات کے لیے ایک بہترین رہنما کتاب ہے۔
■ گریس پوائنٹ چرچ، نیو ٹاؤن، پنسلوانیا،امریکا میں 25 فروری 2018 کو ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس کا عنوان تھا، اپنے پڑوسی سے محبت کیجیے جیسا خود سے کرتے ہیں (Love Thy Neighbor As Thyself)۔ اس پروگرام میں تینوں آسمانی مذاہب، یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے نمائندے شریک ہوئے۔ اسلام کی نمائندگی خواجہ کلیم الدین صاحب (سی پی ایس، امریکا) نے کی۔ وہاں انھوں اسلام کی پر امن باتیں لوگوں کو بتائیں، اور سامعین کے درمیان ترجمۂ قرآن، قرانک وزڈم، اور دیگر کتابچے تقسیم کیا۔ کچھ لوگوں نے یہ کہتے ہوئے کتابیں لیں کہ ہم نے اسلام کے بارے میں منفی باتیں سنی تھیں، آپ نے اسلام کا مثبت رخ دکھا یا ہے، شکریہ۔ اس پروگرام میں فادر ڈیو وولف (Dave Wolf)، اور ربائی آرن گیبر (Aaron Gaber) بھی شریک تھے۔
■ ۲۶ فروری 2018 کو ایک نان مسلم، مسٹر نکل (Mr Nakul) میرے پاس اپنے ایک مسلم دوست کے ساتھ آئے۔ ان کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ایک ہندی ترجمۂ قرآن چاہتے تھے۔ ان کو میں نے ہندی ترجمۂ قرآن، جیون کا ادیش، اور اسلام ایک سوبھاوک دھرم نامی کتابیں دی۔ انھوں نے یہ تمام چیزیں بہت ہی خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا (عیاض احمد، جمشید پور)۔
■ جناب عبد السمیع صاحب (اورنگ آباد )کے مطابق، مسٹر سنتوش نامی ایک نان مسلم بہت دنوں سے قرآن پڑھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس کاذکر اپنے ایک مسلم دوست سے کیا، مگر ان کو قرآن نہیں ملا۔ بعد میں جب ان کو مسٹر عبد السمیع صاحب صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ترجمۂ قرآن دیتے ہیں تو انھوں نے فون کرکے ترجمہ قرآن حاصل کیا۔
■ عکہ شمالی اسرائیل کا ایک پورٹ شہر (port city)جسے انگریزی میں Acre جبکہ عبرانی میں Akko کہا جاتا ہے۔یہ ایک تاریخی شہر ہے۔ یہاں کئی قابل دید مقامات ہیں۔ بہائی مذہب کا قبلہ اور بہا اللہ کا مقبرہ بھی یہیں واقع ہے۔اس شہر کا قدیم حصہ یونیسکوکے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے گئے علاقوں میں شامل ہے۔ اس لیے پوری دنیا کےسیاح بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ یہاں ایک بہت مشہور مسجد ہے، جسے مسجد الجزار کہا جاتا ہے۔ اس مسجد میں سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ چنانچہ اسرائیل میں دعوتی کام کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے مسجد الجزار میں تقسیمِ قرآن اسٹینڈ لگایا ہے، جہاں سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں آنے والے سیاحوں کے درمیان مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمے تقسیم کیے جاتے ہیں۔
■ سی پی ایس (امریکا)نے اسٹڈی سرکل کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔ اس کے تحت امریکا کے مختلف اسٹیٹ میں موجود سی پی ایس ممبران کانفرنس کال کے ذریعے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، اور اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ انھوں نے اگست 2016 میں شروع کیا تھا۔ اس عرصہ میں انھوں نے ’’اظہارِ دین‘‘ کتاب ختم کرلی، اور اب وہ’’ الاسلام‘‘ کا مطالعہ کررہے ہیں۔ مطالعے کا یہ طریقہ پروگرام میں شرکت کرنے والوں کے بقول کافی فائدہ مند ہے۔
■ مسٹر نسیم علی خان صاحب (ممبئی ٹیم) کی کوششوں سے یہ ہوا ہے کہ مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادیمی نے صوبہ کے 36 ضلعوں کی 350 تسلیم شدہ لائبریری کے لیے ماہنامہ الرسالہ سبسکرائب کیا ہے۔ اس کے علاوہ نسیم خان صاحب نے ممبئی سے نکلنے والے مختلف اردو اخبارات میں صدر اسلامی مرکز کے مضامین شائع کرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مثلا ممبئی کے مشہور روزنامہ اردو ٹائمز، ممبئی اردو نیوز، دونوں میں جمعہ کے دن ادارتی صفحہ پر ایک مضمون آتا ہے۔ روزنامہ ہندوستان میں روزانہ ایک مضمون آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اردو نیوز ایجنسی یو این این، نئی دہلی میں واقع ہے۔ یہ ایجنسی ہندوستان اور ہندوستان کے باہر کے تقریباً 240 اردو اخبارات کو خبریں فراہم کرتی ہے۔ خبروں کے ساتھ یہ ایجنسی صدر اسلامی مرکز کے مضامین بھی اپنے اخباروں کو بھیجتی ہے۔ یہ بھی مسٹر نسیم خان صاحب کی کوششوں سے شروع ہوا ہے۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں جہاں اردو اخبار نکلتے ہیں، وہاں پر موجود سی پی ایس مشن کے لوگ اس طرح مشن کی اشاعت کا کام کرسکتے ہیں۔
■ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، مولانا صاحب! فروری 2017 میں دہلی کا سفر کئی باتوں میں میرے لئے یادگار سفر رہے گا۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ کی تحریروں کو پڑھنے سے جو فائدہ مجھے ملا، وہ یہ ہےکہ میرے ذہن کی تشکیل نو (re-engineering (ہوتی رہی۔ لیکن آپ سے براہِ راست ملنے پر مشن کوبہتر طریقہ سے سمجھنے کا موقع ملا، اور خیالات میں زیادہ وضوح(clarity) حاصل ہوئی۔ خاص طور سے جب سورۂ البقرہ کی آیت نمبر 47 کی تفسیر میں آپ نے بتایا کہ عرب کی سر زمین میں تیل کے ذخائر کا ملنا رب تعالی کے تخلیقی منصوبہ کا ایک حصہ ہے۔وہ یہ کہ اس دولت کو جسے سیال سونا ( Liquid Gold) کہا جاتا ہے، اس کا استعمال اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لئے کیاجائے۔گویا کہ ربِ کائنات یہ اعلان کررہاہے کہ دعوت کا کام تم کرو،اور اس کا بل( bill) ہم ادا کریں گے۔یہ بالکل نئی بات تھی جو میں نے اس سفر میں پائی ہے۔اس سے مجھے اپنے لئے یہ سبق ملا کہ آج بطور ٹیچر مجھے جو آسانیاں حاصل ہیں، اور سماج میں جو قدردانی ملی ہوئی ہے،ان تمام مواقع کوصرف دعوت کے لئے استعمال کرنا ہے،نہ کہ اپنے ذاتی فائدے کے لیے، اور ہرایک داعی کو یہی کرنا چاہیے۔ دوسری اہم بات جو آپ نے ہمیں نصیحت کی، وہ یہ تھی کہ ہر داعی میں دو چیزوں کا موجود ہونا لازمی طور پر ضروری ہے۔ ایک یہ کہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا، اور دوسرا یہ کہ اللہ کے بندوں سے محبت کرتے رہنا، چاہے ان کی طرف سے کسی بھی طرح کا برتاؤ ملے۔جزاک اللہ مولانا صاحب۔ (ساجد احمد خان ،سی پی ایس، ناگپور)
■ Maulana’s talk is about developing a prepared mind. He had an experience yesterday on how technology has helped him tremendously while writing, by making corrections when needed or in adding or inserting lines. He was able to connect that blessing to the bounties he is receiving from our Creator. He stated in his talk that only those who have a prepared mind (that is, one that uses its capacity to think, ponder and reflect) are able to derive lessons from their everyday experiences, and in consequence bow before the Creator. A prepared mind is a thinking mind. (Kouser Izhar, New Jersey, CPS USA)
■ A message on Quora: I am here to say thank you. You have been a part of the change I have had in my life. I read your Quran translation in English on Amazon kindle book. It helped me in deep understanding of my religion, Islam. Earlier I used to recite the Quran, but now I focus more on its meaning and try to bring it into practice. I am becoming a better person day by day. I have read your answers on Quora and I cannot thank you enough for the knowledge I have taken from such a wise person as you. I respect and adore you a lot. I pray for your health and well-being. (Saba Anjum)
■ I went on a business trip to Austria, which is a German speaking country. I had several opportunities to give the Quran and What is Islam (both in German translations) to many persons. Also had the opportunity to meet people across the world for example, from Bulgaria, a country for which we do not yet have Quran translations available. On the one hand, I felt very fortunate to have the German Quran translation and prayed for Dr. Saniyasnain Sb’s great efforts in making it available, while on the other hand I also felt the need for speeding up translations going on in other international languages. (Sajid Anwar, CPS Mumbai)
■ I really enjoy your intellectual company! I appreceiate your efforts in conveying to people the truth about Islam. (Muhammad Faisal, Lucknow)
واپس اوپر جائیں