Pages

Tuesday 1 January 2019

Al Risala | January 2019 (الرسالہ،جنوری)

4

-شادابی لوٹ آ ئی

5

- بحران کا مسئلہ

6

- صاحب مطالعہ انسان

7

- تربیتِ افراد

9

- قرآن کی اشاعت

10

- معرفت یا معلومات

11

- انسان رخی سوچ

13

- الرسالہ کا ایک سبق

15

- مشن، انٹرایکشن

16

- اسوہ رسول

17

- الرسالہ مشن

18

- تعمیری مشن، غوغائی سیاست

19

- قاری الرسالہ کا تاثر

20

- اسپریچول کلاس

23

- سی پی ایس انٹرنیشنل

26

- روحانی ارتقا

28

- نقل اور عقل

29

- مین آف مشن

30

- آسان تدبیر

31

- چشمہ کا سبق 

32

- خدا کے حق کی قیمت پر

33

- لائن آف ایکشن کا مسئلہ

36

- الرسالہ مشن کے متعلق بعض سوالات

41

- ایک سوال

43

- ایک انٹرویو


شادابی لوٹ آ ئی

دہلی میںمیری رہائش گاہ کے پاس ایک درخت ہے۔ اس کو میں اسپریچول ٹری (spiritual tree) کہتا ہوں۔ اس کے نیچے میںدیر تک بیٹھتا ہوں۔ اس سے مجھے روحانی سکون ملتا ہے۔
برسات کے موسم سے پہلے یہ درخت بالکل سوکھ گیا تھا۔ بظاہر وہ ٹھنٹھ (stem) دکھائی دیتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ درخت کی عمر شاید ختم ہوگئی ہے، وہ دوبارہ شاداب ہونے والا نہیں، مگر برسات کا موسم آنے کے بعد وہ دوبارہ ہرا ہونے لگا۔ اس کی شاخوں پر ہری پتیاں نکلنے لگیں، یہاںتک کہ اگست کے آخر تک دوبارہ وہ پوری طرح ہرا بھرا ہوگیا۔اس کی شادابی مکمل طورپر لوٹ آئی۔
یہ تمثیل کے روپ میں انسان کے لیے ایک سبق ہے۔ انسان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ انسان کی روحانی زندگی کے لیے ضرورت ہے کہ اس کو ’’پانی‘‘ ملتا رہے۔ جو انسان اس پانی سے محروم ہو جائے، اس کی شخصیت سوکھے درخت جیسی ہو جائے گی۔انسانی زندگی کے لیے یہ حیات بخش پانی خدائی فیضان (divine inspiration)ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خدا وند ِذوالجلال سے مسلسل روحانی ربط قائم رکھے۔ اسی ربط سے اس کو شادابی ملے گی۔ یہ ربط کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو وہ سوکھے درخت کی مانند ہو کر رہ جائے گا۔
اللہ سے اِس ربط کا ذریعہ ذکر ہے۔خدا کو یاد کرنا کیا ہے۔ وہ کسی قسم کے اوراد کو زبان سے دہرادینے کانام نہیں ہے، وہ مختلف حالات میں خدا کو بار بار یاد کرنا ہے۔ مثلاً مذکورہ قسم کے درخت کو آپ نے دیکھا تو اُس کے اندر آپ کو خدا کا کرشمہ نظر آیا۔ آپ نے تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ کہا کہ خدایا، تو نے جس طرح اِس درخت کو شاداب کیا ہے، اُسی طرح تو مجھے بھی شاداب کردے۔ میں ایک سوکھا ہوا درخت ہوں، تو اپنے فیضانِ رحمت سے مجھ کو ایک شاداب درخت بنا دے —اِس تجربے کا تعلق کسی ایک چیز سے نہیں، اس کا تعلق تمام چیزوں سے ہے۔ اِس دنیا کی ہر چیز میں یہی ربانی غذا موجود ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے جو اِس ربانی غذا کو لیتے ہوئے اِس دنیا میں زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں

بحران کا مسئلہ

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ اکثر آرٹ آف کرائسس مینج منٹ (the art of crisis management) کی بات کرتے ہیں۔ یہ نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ ہر آدمی کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ ہر آدمی کبھی نہ کبھی کرائسس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر سوا ل یہ ہے کہ اِس کا کارگرفارمولا کیا ہے۔ میںنے کہا کہ اِس کا کارگر فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب زندگی میں کوئی کرائسس پیش آئے، تو اس کو خدا کے حوالے کردیا جائے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کی بابت، صحابیٔ رسول، حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا: الخیر فیما وقع،یعنی جو کچھ پیش آئے، اس کو آدمی خدا کی طرف سے سمجھے اور اس پر راضی ہوجائے۔ اِسی حقیقت کو ایک فارسی مقولے میںاِس طرح بیان کیاگیا ہے :
دشمن اگر قوی است، نگہباں قوی تر است
یعنی دشمن اگر قوی ہے، تو نگہبان اس سے بھی زیادہ قوی ہے:
If the enemy is strong, the saviour is stronger.
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں جو کچھ پیش آتا ہے، وہ براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔یعنی حالات کا اہتمام خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انسان کا حصہ اُس میں صرف یہ ہے کہ وہ مثبت رسپانس (positive response) دیتا ہے، یا منفی رسپانس (negative response)۔ وہ یا تو ایک قسم کا رسپانس دے کر کریڈٹ (credit) پاتا ہے، یا دوسرے قسم کا رسپانس دے کر اپنے آپ کو ڈس کریڈٹ (discredit) کرلیتا ہے۔
ایسی حالت میں انسان کے بارے میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے صبری سے بچائے اور بہتر انجام کے لیے خدا سے دعا کرتا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں صبر بھی ایک عمل ہے اور دعا بھی ایک عمل۔
واپس اوپر جائیں

صاحبِ مطالعہ انسان

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جدید معیار کے مطابق، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کہ ان کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ وہ زیادہ تر انگریزی ناولیں پڑھتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ سنجیدہ موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ اُن کا کمرہ انگریزی کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے سیکڑوں ناولیں اور کتابیں پڑھی ہیں۔ اِس مطالعے کے دوران آپ نے بہت سی بامعنی باتیں پڑھی ہوں گی۔ اِس قسم کی کوئی ایک مثال بتائیے۔ وہ بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ میں نے ایسی بہت سی باتیں پڑھی ہیں، مگر وہ کوئی ایک بامعنی بات نہ بتا سکے۔ میں نے کئی مثالیں دے کر بتایا کہ بامعنی بات سے میری مراد کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔
اِس قسم کا تجربہ مجھے بار بار ہوا ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملاہوں جو اپنے آپ کو صاحبِ مطالعہ سمجھتے ہیں۔ وہ سفراور حضر میں کتابیں، خاص طورپر ناولیں پڑھتے رہتے ہیں۔ وہ جوش کے ساتھ ان کتابوں کی تعریف کریں گے، لیکن جب یہ پوچھا جائے کہ کوئی ایک سبق کی بات، یا بامعنیٰ بات بتائیے جو آپ نے ان کتابوں کے مطالعے سے پائی ہو تو وہ ایسی کوئی بات نہیں بتا پاتے۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ کتابوں کو تفریح (entertainment) کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہ کتابوں کو اِس لیے نہیں پڑھتے کہ اس سے حکمت (wisdom) اور نصیحت کی چیزیں دریافت کریں اور مطالعے کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں۔ اور جب مطالعے کا مقصد تفریح ہو، تو وہ حکمت کے حصول کا ذریعہ کیسے بن جائے گا۔ اِن لوگوں سے جب یہ کہا جائے کہ آپ کواپنے مطالعے میں کوئی حکمت کی بات اِس لیے نہیں ملی کہ آپ نے صرف تفریح کے لیے مطالعہ کیا تھا، تو وہ ہر گز اِس کا اعتراف نہیں کریں گے۔ اِس بے اعترافی کا سبب کبرِ خفی ہے۔ یہی کبرِ خفی لوگوں کے ذہنی ارتقا میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

تربیتِ افراد

ایک صاحب سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ انھوں نے ایک صاحب کا قصہ بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ الرسالہ پڑھنے والے کچھ افراد کو میں نے دیکھا ہے، وہ بہت مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ حالاں کہ میری آمدنی ان سے زیادہ ہے، مگر مجھے اطمینان والی زندگی حاصل نہیں۔
میں نے ان سے کہا کہ یہ الرسالہ کا کرشمہ نہیں ، بلکہ وہ اسلام کا کرشمہ ہے۔ قرآن کے مطابق، اسلام آدمی کو نفس مطمئن (الفجر، 89:27)بناتا ہے۔ اسی نفس مطمئن کا وہ نتیجہ ہے ، جس کا آپ نے ذکر کیا۔ جب بھی کسی انسان کو حقیقی معنوں میں اسلام حاصل ہوجائے، تو اس کے بعد یہی ہوگا کہ اس کو اتھاہ اطمینان والی زندگی حاصل ہوجائے گی۔ اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی آگاہ رہو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں اسلام کے نام پر بہت سی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر شاید ان میں سے کوئی بھی سرگرمی نہیں جو لوگوں کو حقیقی اسلام کا تحفہ دے رہی ہو۔ کوئی تحریک مسلمانوں کو پراسرار کہانیاں سنارہی ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کےاندر خوش عقیدگی کا ذہن بنتا ہے۔ کوئی تحریک حکومت واقتدارکو نشانہ بنائے ہوئے ہے جس کے نتیجہ میں سیاسی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ کوئی تحریک غیر مسلموں کے خلاف جہاد کا نعرہ لگا رہی ہے جس سے صرف نفرت کا ذہن بنتا ہے۔ کوئی تحریک ملّی مسائل کا اشو اٹھائےہوئے ہے،جس سے صرف قومی ذہن بنتا ہے۔ کوئی تحریک فقہی مسلک پر زور دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں صرف کٹر پن اور تفرق کا ذہن بنتا ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی ذہن حقیقی معنوں میں اسلامی ذہن نہیں۔
موجودہ مسلم تحریکوں میں مشترک طورپر یہ بات ہے کہ وہ اسلام کو اس طرح پیش کرتی ہیں جیسے کہ اس کا تعلق انسان کی حقیقی زندگی سے نہ ہو۔ ان کے مطابق، اسلام یا تو فخر کی چیز ہے یا برکت کی چیز یا شہادت کے نام پر لڑ کر مرجانے کی چیز۔ انسان کو روز مرہ کی زندگی میں جو عملی مسائل پیش آتے ہیں، گویا کہ ان کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں، ان کے لیے اسلام میں کوئی رہنمائی نہیں۔
الرسالہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسلام کی اصل اسپرٹ کو زندہ کرنا چاہتا ہے، اور جن لوگوں کے اندر یہ اسپرٹ زندہ ہوجائے، ان کے لیے اسلام زندگی کا گائڈ بن جاتاہے،ایک ایسا گائڈ جو زندگی کے ہر چھوٹے اور بڑے معاملہ میں اس کا قابلِ عمل رہنما ہو۔
اسلام اپنے ماننے والے انسان کے اندر اطمینانِ قلب کا جو مزاج پیدا کرتا ہے، اس کے دو خاص سبب ہیں جن کا میں یہاں ذکر کروں گا۔ یہی دونوں صفتیں اہل ایمان کے اندر وہ مزاج پیدا کردیتی ہیں جن کا مذکورہ صاحب نے ذکر کیا۔ ایک یہ کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک اعلی مشن دیتاہے، دعوت کا مشن۔ یہ مشن ہر قسم کی مادی چیزوں سے بلند ہے۔ جو لوگ اسلام کو اپنی زندگی میں بطور مقصدشامل کرلیں ان کو اسلام ایک اعلی مشن کا حامل بنا دیتاہے۔
صاحب مشن ہونے کا یہ احساس آدمی کو اتنا زیادہ اونچا اٹھا دیتا ہے کہ ہر دوسری چیز اس کے لیے حقیر بن جاتی ہے۔ عام لوگ دولت، عزت، شہرت اور عہدہ، وغیرہ کو بڑی چیز سمجھتےہیں، مگر اسلامی مشن کے حامل ایک شخص کا احساس یہ ہوجاتاہے کہ اس کو ان تمام چیزوں سے زیادہ بڑی چیز حاصل ہے۔ ان چیزوں کا ملنا یا نہ ملنا دونوں اس کی نظر میں برابر ہوجاتےہیں۔ دوسرے لوگوں کے برعکس، صاحب مشن ایسی چیز میں جیتا ہے ،جس میں نہ کھونے کا اندیشہ ہے اور نہ کم ہونے کا خوف۔ یہ احساس اس کو ابدی طورپر مطمئن بنا دیتاہے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کو بطورِ مشن لے کر اٹھنے والے شخص کی زندگی فطری طور پر سادہ اور غیرتکلفانہ ہوجاتی ہے۔ ان کے اندر دنیا کے بارےمیں قناعت کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے۔ حرص اورحسد کا جذبہ ان کے سینہ سے نکل جاتا ہے جو تمام بے چینیوں کا اصل سبب ہے۔ صاحب اسلام کا مسلک یہ بن جاتاہے — اتنے کم پر راضی رہو کہ جو کچھ تم کو مل جائے وہی تم کو کافی معلوم ہو۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی اشاعت

ہمارے ادارے کے ذریعے اللہ کے فضل سے قرآن کے ڈسٹری بیوشن کا کام برابر کیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام میجر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے، اوردنیا کے مختلف حصوںمیں برابراس کے ڈسٹری بیوشن کا کام کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے، جس کو ہم امت کا نمبر ایک کام سمجھتے ہیں۔ امت کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا کی تمام زبانوں میں قابلِ فہم ترجمہ (understandable translation) تیار کرے، اور اس کو اچھی طباعت کے ساتھ لوگوں تک پہنچائے۔ پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک بڑے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا: کیا میں نے تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ لوگوں نے بلند آواز سے کہا کہ ہاں ہم گواہ ہیں کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ اس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا :اے اللہ تو گواہ رہ کہ میں نے لوگوں کو پہنچادیا ( أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:اللہُمَّ اشْہَد)صحیح مسلم، حدیث نمبر 1679۔
امت مسلمہ کے تعلق سے دعوتی ذمےداری کا جو بیان قرآن میں آیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: مجھ پر یہ قرآن اترا ہے، تاکہ میں تم کو اس سےآگاہ کروں، اور وہ بھی (آگاہ کریں)جن کو یہ قرآن پہنچے (6:19)۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی طرح امت کی ذمے داری بھی لوگوں کو خدا کے پیغام سے آگاہ کرنا ہے، ان کی ذمے داری لوگوں کو کلمہ پڑھوانا نہیں ہے۔ پہنچانے کے بعد ذمے داری ان لوگوں کی ہوجاتی ہے، جن کو اللہ کا پیغام پہنچا ہے۔ البتہ امت کی مزید ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے اور مدعو کے درمیان سننے اور سنانے کی نارمل فضا کو برقرار رکھیں۔ اس معاملے میں امت کو شدت سے یہ اہتمام کرنا چاہیے کہ اس کے اور دوسروں کے درمیان مدعو فرینڈلی ماحول برقرار رہے۔یعنی پہنچانے کے بعد امت کی ذمے داری نارمل حالات کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ اس کو لوگوں کے دلوں میں اتارنا۔ مدعو فرینڈلی بیہیویر (madu-friendly behaviour)کو قائم رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ پیغام کو پہنچانا۔ دعوت کے کام کو مطلوب درجے میں کرنے کے لیے یہ دونوں باتیں ضروری ہیں۔
واپس اوپر جائیں

معرفت یا معلومات

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پابندی کے ساتھ، ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں۔ میںنے پوچھا کہ الرسالہ سے آپ نے کیا حاصل کیا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ بہت معلوماتی پرچہ ہے۔ کسی اور پرچے میں ہم کو ایسی معلومات نہیں ملتیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ الرسالہ کا ایک شمارہ کتنی بار پڑھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار۔ میںنے کہا کہ جس شخص نے الرسالہ کو ایک بار پڑھا، اس نے الرسالہ کو نہیں پڑھا۔ چوں کہ آپ ماہ نامہ الرسالہ کو صرف ایک بار پڑھتے ہیں، اِس لیے آپ ابھی تک اس کو سمجھ نہیں سکے۔ آپ نے صرف الرسالہ کے سطور (lines) کو پایا ہے، آپ نے ابھی تک اس کے بین السطور(between the lines) کو نہیں پایا ۔
پھر میںنے کہا کہ ماہ نامہ الرسالہ کوئی معلوماتی پرچہ نہیں ہے، بلکہ وہ معرفت کا پرچہ ہے۔ الرسالہ میں جو معلومات ہوتی ہیں، وہ بہ ذاتِ خود مقصود نہیں ہوتیں، اُن کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ مقصد توسّم (الحجر،15:75) ہے، یعنی معلومات کے حوالے سے معرفت اور معنویت کا سبق دینا۔ اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہم کو دو قسم کی خوراک کی ضرورت ہے۔ ایک، مٹیریل خوراک (dose) جو ہمارے جسم کی صحت کا ذریعہ ہے۔ دوسرے، معرفت کی خوراک (spiritual dose) جو ایمان باللہ کوطاقت بخشنے کا ذریعہ ہے۔ اِس کو قرآن میںاضافۂ ایمان، یا اِزدیادِ ایمان (الفتح،48:4) کہاگیا ہے۔ ماہ نامہ الرسالہ کا مقصد اِسی اِزدیادِ ایمان کی تربیت ہے۔
ماہ نامہ الرسالہ ازدیادِ ایمان کا دسترخوان ہے۔ الرسالہ کا مقصد یہ ہے کہ وہ آپ کو معرفت کی خوراک دے۔ وہ آپ کے دل میں خدا اور آخرت کااحساس جگائے۔ جس شخص نے الرسالہ سے معرفت کی یہ خوراک لی، اُسی نے الرسالہ کو پڑھا۔ اور جس کو الرسالہ سے یہ خوراک نہیں ملی، اس نے الرسالہ کو پڑھا ہی نہیں۔ الرسالہ کو معلومات کے لیے پڑھنا،الرسالہ کے ساتھ ظلم کرنا ہے۔ ایسا آدمی نہ الرسالہ کے ساتھ انصاف کرنے والا ہے، اورنہ خود اپنے ساتھ انصاف کرنے والا۔
واپس اوپر جائیں

انسان رخی سوچ

ایک صاحب لکھتے ہیں: اس وقت ملکی حالات کافی کشیدہ ہیں۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ملک میں دستور سازی کا الیکشن ہونے والا ہے۔ مسلمانوں کی شمولیت اچھی ہو اور مسلمانوں کے حق میں بھی ضابطے بنیں، ابھی تک تو مسلمان دستور کے اعتبار سے ملک میں برائے نام ہیں۔ بس دعا اور رہ نمائی کی درخواست ہے (ایک قاری الرسالہ، نیپال)۔
ماہ نامہ الرسالہ میںمسلسل طورپر جو ذہن دیا جاتا ہے، وہ اِس سے مختلف ہے۔ ہم کسی ملک کو اِس لحاظ سے نہیں دیکھتے کہ مسلمان وہاں اکثریت میںہیں یا اقلیت میں۔سیاسی اعتبار سے وہاں کے ماحول میں کشیدگی ہے، یا کشیدگی نہیں ہے، یا یہ کہ دستور اور قانون میں مسلمانوں کو کیا حقوق دیے گئے ہیں، اور کیا حقوق نہیں دیے گئے ہیں۔ یہ سب باتیں ہمارے نزدیک اضافی (relative)ہیں۔
اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ ہر ملک انسانوں کا ملک ہے۔ ہر ملک میںفطری طورپر مسائل ہوتے ہیں، خواہ وہ نام نہاد مسلم ملک ہو، یا غیر مسلم ملک۔ اِسی طرح ہم یہ بھی نہیں مانتے کہ کسی کو اس کے حقوق، دستور اور قانون کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ کسی کو اُس کا حق خود اپنی ذاتی استعداد کی بنیاد پر ملتا ہے، نہ کہ کسی کے عطیہ کی بنیاد پر۔
کسی نقطۂ نظر کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ آدمی کے اندر نہ احساسِ برتری (superiority complex)پیدا کرے، اور نہ وہ احساسِ کم تری (inferiority complex) پیدا کرنے کا سبب بنے۔ اور مذکورہ نقطۂ نظر اِس معیار کے اوپر کامل طورپر پورا اترتا ہے۔ احساسِ برتری اور احساسِ کم تری دونوں یکساں طور پر مہلک ہیں۔ مذکورہ نقطۂ نظر،انسان کو اِن دونوں برائیوں سے بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ہمارا ماننا ہے کہ آدمی کو خدا کے اعتماد پر جینا چاہیے، نہ کہ سیاسی اور سماجی حالات کے اعتبار پر۔ سیاسی اور سماجی حالات خواہ کچھ ہوں، لیکن جس آدمی کو خدا پر حقیقی اعتماد ہو، وہ ہر حال میںیکساں طورپر مثبت نفسیات کا مالک بنا رہے گا۔ اس کی شخصیت کی تشکیل، اس کی اپنی داخلی سوچ کی بنیاد پر ہوتی ہے، نہ کہ خارج میں پائی جانے والی کسی موافق یا غیر موافق صورتِ حال کی بنیاد پر۔
سیاسی یا غیر سیاسی مسائل چوں کہ بظاہر کچھ انسانوں کی طرف سے پیش آتے ہیں، اِس لیے لوگ ان کو انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ لیتے ہیں اور اس کے خلاف نفرت اور تشدد کا ہنگامہ شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بلا شبہہ ایک مہلک قسم کی غلط فہمی ہے۔ یاد رکھیے، ہر مسئلہ، خواہ وہ سیاسی ہو، یا غیر سیاسی، وہ ہمیشہ نظامِ فطرت کا ایک حصہ ہوتا ہے، نہ کہ محض کسی انسان کا ظلم، یا اس کی سازش۔
موجودہ زمانے کے مسلمان، اُن کے بڑے اور چھوٹے، سب زندگی کے اِس راز سے بے خبر ہیں۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو نفرت اور شکایت کی نفسیات سے خالی ہو۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اِس منفی نفسیات سے اپنے کو پاک کریں۔ جب تک ایسا نہ ہو، مسلمانوں کے اوپر سعادت کے دروازے بند رہیں گے، جیسا کہ اِس وقت وہ ان کے اوپر بند ہیں۔ یہ بظاہر ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن اِس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے ہی میں مسلمانوں کے لیے تمام بھلائیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔
اِس معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شکایت، شکر کی قاتل ہے۔ جو آدمی شکایت کی نفسیات میںمبتلا ہو، وہ کبھی حقیقی شکر کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کی نصرتیں صرف شکر کرنے والے بندوں کے لیے مقدر ہیں۔ شکر نہیں تو نصرت بھی نہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
نزاع کا ماحول ایک قاتل ماحول ہے۔ نزاع کے ماحول میں یہ ہوتا ہے کہ طرفین ایک دوسرے کے لیے منفی (negative) بن جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی مثبت صلاحیتوں کو دریافت نہیں کرپاتے۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ کا ایک سبق

عام طورپر الرسالہ میںآیت کا ترجمہ دیا جاتا ہے، مگر کبھی کبھی ترجمہ موجود نہیںہوتا۔ ایسا بالقصد کیا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ الرسالہ کے قاری براہِ راست طور پر قرآن سے مربوط ہوں۔آپ جانتے ہیں کہ اِس زمانے میں چھپا ہوا با ترجمہ قرآن ہر گھر میں موجود رہتا ہے۔اور اگر بالفرض کسی کے گھر میں با ترجمہ قرآن موجود نہ ہو تو اس کو پہلی فرصت میں با ترجمہ قرآن حاصل کرکے اپنے گھر میں رکھنا چاہیے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جب بھی الرسالہ کا قاری ایسی کسی آیت کو الرسالہ میں پڑھے تو وہ قرآن کھول کر حوالہ کے ذریعے مذکورہ آیت نکالے اور اس کو پڑھ کر اس آیت کا ترجمہ معلوم کرے۔ اس طرح اُس کے مطالعہ کا تاثر بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
قرآن کی حیثیت زندگی کے معاملات میںایک ریفرنس بک (reference book)کی ہے۔ پرنٹنگ پریس سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ اکثر مسلمان قرآن کے حافظ ہوتے تھے۔ جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا، تو وہ اپنے حافظے کی مدد سے قرآن کی اس آیت تک پہنچ جاتے اور اُس سے اپنے لیے رہنمائی حاصل کرتے۔ اب پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے اور با ترجمہ قرآن کے نسخے چھپے ہوئےتقریباً ہر گھر میں موجود ہیں، اور بالفرض اگر کسی کے گھر میں باترجمہ قرآن موجود نہ ہو تو بہت آسانی کے ساتھ وہ اس کو قریبی مارکیٹ سے حاصل کرسکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ الرسالہ کا ہر قاری قرآن کو اپنے لیے ایک ریفرنس بک بنالے۔ جب بھی قرآن کی کوئی آیت اس کے سامنے آئے تو خواہ وہاں اس کا ترجمہ موجود ہو یا موجود نہ ہو، ہر حال میں وہ اس آیت کواپنے باترجمہ قرآن میں براہِ راست دیکھے۔اِس طرح اس کا تعلق قرآن سے بڑھے گا اور اس کے یقین میںاضافہ ہوگا۔
الرسالہ محض ایک ماہ نامہ پرچہ نہیں، وہ ایک دینی تحریک ہے۔ الرسالہ کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی خطوط پر لوگوں کی ذہنی تربیت کی جائے۔ یہ مقصد اس وقت پورا ہوتا ہے جب کہ الرسالہ کے قارئین الرسالہ کو قرآن سے ملا کر پڑھیں۔ میرا مشورہ ہے کہ قارئینِ الرسالہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی تفسیر تذکیر القرآن کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھیں۔ آپ تذکیر القرآن کامطالعہ الگ سے بھی کریں اور الرسالہ کو پڑھتے ہوئے بھی جہاں کوئی آیت آئے تو اس کو بھی تذکیر القرآن سے ملا کر دیکھیں۔ اس طرح آپ کے مطالعہ کی دینی افادیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔
الرسالہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ وقت گزاری کے طورپر اس کو پڑھ لیا جائے۔ الرسالہ ایک تحریک ہے۔ الرسالہ کی اِس تحریکی نوعیت کا تقاضا ہے کہ اس کو باقاعدہ اور منظّم مطالعے کے انداز میں پڑھا جائے۔ الرسالہ کے مطالعے کو مکمل ذہنی سرگرمی کا ذریعہ بنا دیا جائے۔
مجھے کئی بار یہ تجربہ ہوا ہے کہ ایک شخص مجھ سے ملے گا۔ وہ چند گھنٹے میرے ساتھ گزارے گا، پھر جاتے ہوئے وہ کہے گا کہ میں برسوں سے ماہ نامہ الرسالہ اورآپ کی کتابیں پڑھ رہا تھا اور اس سے متاثر تھا، لیکن چند گھنٹہ آپ کی صحبت میں بیٹھنے سے جو فائدہ ہوا، وہ برسوں تک الرسالہ اور کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوا تھا۔ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اکثر لوگ ماہ نامہ الرسالہ کو صرف انٹرسٹ ریڈنگ (interest reading) کے لیے پڑھتے ہیں۔ اِس کا اندازہ اِس طرح ہوتا ہے کہ جب اُن سے پوچھا جائے کہ آپ الرسالہ کیوں پڑھتے ہیں، تو وہ کہیں گے کہ اُس میں نئی نئی معلومات ہوتی ہیں۔ اس کا اسلوب منفرد ہے۔ اِس میں چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے نتائج نکالے جاتے ہیں، وغیرہ۔ جولوگ اِس قسم کی بات کہتے ہیں، وہ ابھی تک صحیح معنوں میں الرسالہ کے قاری نہیں بنے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو صحبت سے جو چیز ملتی ہے، وہ ان کو الرسالہ کے مطالعے سے نہیں ملتی۔
الرسالہ کے مطالعے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو کئی بار پڑھا جائے۔ اگر ممکن ہو تو اس کے حوالوں کو دوبارہ اصل کتاب میںدیکھا جائے۔ الرسالہ کے مضامین پر علمی انداز میں باہم مذاکرہ کیاجائے۔ مزید غور وفکر کے ذریعے سطورکے درمیان اس کے بین السطورکو جاننے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اِس طرح الرسالہ کا مطالعہ کریں، ان کے لیے الرسالہ کا مطالعہ، ایک زندہ مطالعہ بن جائے گا۔ جو چیز انھوں نے ’’صحبت‘‘ کے ذریعے پائی تھی، وہ اس کو الرسالہ کے مطالعے کے دوران پالیں گے۔
واپس اوپر جائیں

مشن، انٹرایکشن

ایک صاحب لکھتے ہیں:میں کافی عرصے سے مستقل طورپر آپ کے مؤقر علمی اور دعوتی مجلہ ماہ نامہ الرسالہ کا مطالعہ کررہا ہوں۔ میں نے ہر لحاظ سے الرسالہ کو مفید اورچشم کشا پایا ہے۔مدرسہ کے دیگر اساتذہ بھی الرسالہ سے برابر استفادہ کررہے ہیں۔ ادارے کے بہت سے نزاعی امور کو حل کرنے میں بھی الرسالہ نے ہمیں حکیمانہرہ نمائی دی اور کئی نازک مسائل نہایت احسن طریقے سے حل ہوگئے۔ تاہم ایک چیز جو مجھے آپ سے عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ بسا اوقات آپ ایک انگریزی عبارت نقل کرتے ہیں، مگراس کا ترجمہ درج نہیں ہوتا۔ اِس سے پوری بات سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اگر آپ ہر انگریزی عبارت کا ترجمہ بھی تحریر فرمادیں تو ہم جیسے لوگوں کے لیے الرسالہ سے مزید استفادہ کرنا آسان ہوجائے گا (مولانا محمد شاہد قاسمی، ہریانہ)۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ماہ نامہ الرسالہ میںانگریزی عبارتیں بھی ہوتی ہیں اور قرآن اورحدیث کے حوالے بھی۔ اکثر ان کا ترجمہ ساتھ ساتھ موجود رہتا ہے، مگر کبھی کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا بھول کر نہیں ہوتا، بلکہ ایسا بالقصد کیا جاتا ہے۔ ایسا ایک مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو چاہیے کہ وہ اِس مقصد کو سمجھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، الرسالہ ایک مشن ہے۔ مشن لازمی طورپر انٹریکشن (interaction) چاہتا ہے۔ بعض اوقات ترجمہ نہ دینے کا مقصد قارئین کے لیے انٹریکشن کے اِنھیں مواقع کو پیداکرنا ہے۔ مثلاً جب الرسالہ میںکوئی انگریزی لفظ یا انگریزی جملے ہوں اوران کا ترجمہ وہاں موجود نہ ہو، تو غیر انگریزی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر آس پا س کے کسی انگریزی داں آدمی سے ملے، اور اُس کے ذریعے سے انگریزی عبارت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح، قارئین الرسالہ کی ملاقات دوسرے لوگوں سے ہوگی اورنتیجۃً ایسی ملاقات مشن کی توسیع کا ذریعہ بن جائے گی۔
اِسی طرح، جب کبھی الرسالہ میں قرآن اور حدیث کا کوئی حوالہ ہو اور وہاں اس کا ترجمہ موجود نہ ہو، تو غیر عربی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر قریب کے کسی عالم سے ملے۔ وہ اُس عالم کی مدد سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح یہ ہوگا کہ الرسالہ کے قارئین کا تعلق علما سے بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں ان کو بہت سے دینی فوائد حاصل ہوں گے۔
الرسالہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اِس کے قارئین کا عمومی انٹریکشن بڑھے، جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں کا تعلق علما سے قائم ہو، اور اِسی طرح، علما کاتعلق جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں سے قائم ہو۔ اِس طرح، دونوں کے اجتماع سے دینی اور دعوتی فوائد کے علاوہ، ان کے لیے ذہنی ارتقا کا دروازہ کھلے، اور وہ زیادہ بہتر طورپر الرسالہ کے دعوتی مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں

اسوہ رسول

قرآن میں بتایا گیا ہے :لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (33:21)۔ یعنی اللہ کے رسول میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اِس آیت میں ’اسوہ‘ کسی محدود معنی میں نہیں ہے، وہ پیغمبر کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ پیغمبر اپنی پوری زندگی کے اعتبار سے، اہلِ ایمان کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس عموم میں استثنا صرف کسی ایسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کو صراحتاً پیغمبر کے ساتھ خاص کیاگیا ہو۔ مثلاً ازدواج کے معاملے میں بعض پہلوؤں سے آپ کے ساتھ استثنا کا معاملہ، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: خَالِصَةً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ(33:50)۔ یعنی یہ خاص تمہارے لیے ہے، سب مسلمانوں کے لیے نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول کا ہر قول اورہر فعل امت کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہوگا، الا یہ کہ رسول کے کسی فعل کو صراحتاً رسول کی ذات کے ساتھ خاص کیاگیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ مشن

ماہنامہ الرسالہ 1976میں دہلی سے جاری ہوا۔ اس وقت سے اب تک برابر پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ الرسالہ ریڈر پوری اردو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جنھوں نے الرسالہ کو پڑھنے کے لیے اردو زبان سیکھی۔ ایسے افراد بھی ہیںجو الرسالہ کا ترجمہ اپنی زبان میں کرواتے ہیں تاکہ وہ اس کا مطالعہ کرسکیں۔ الرسالہ کس قسم کا ذہن پیدا کرتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جنوری 2017 میں مہاراشٹر کے ایک الرسالہ ریڈر سے پوچھا گیا کہ تم کو الرسالہ سے کیا ملا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو الرسالہ سے ایک سوچ ملی۔ پھر اس نے اس سوچ کو تین جملوں میں بیان کیا— اللہ دیکھ رہا ہے، فرشتے لکھ رہے ہیں، میں مرنے والا ہوں۔(روایت : محبوب ہنوتگی، ممبئی)
میں سمجھتا ہوں کہ یہ الرسالہ مشن کا نہایت درست خلاصہ ہے۔ اگر آدمی کی سوچ یہ بن جائے کہ اللہ اس کو ہر لمحہ دیکھ رہا ہے، اسی طرح اس کو یقین ہوجائے کہ فرشتے اس کے قول و عمل کا مکمل ریکارڈ تیار کررہے ہیں، اور وہ اس شعور میں جیتا ہو کہ کسی بھی صبح و شام اس کی موت آسکتی ہے۔ جس آدمی کے اندر اس طرح کا ذہن پیدا ہوجائے، اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی بن جائے گی۔ وہ پورے معنی میں ایک ذمہ دارانہ زندگی جینے لگے گا۔ وہ چاہے گا کہ اپنا کام آج ہی پورا کرلے، کیوں کہ کل کا دن اس کو ملنے والا نہیں۔
انسان کو جو چیز انسان بناتی ہے، وہ کوئی نظام یا سسٹم نہیں ہے، بلکہ اس کا اپنا طریقِ فکر (way of thinking) ہے۔ آدمی جیسا سوچتا ہے، ویسی ہی اس کی شخصیت بنتی ہے۔ انسان کی شخصیت اس کی سوچ کے تابع ہے۔ انسان کی تعمیر کے سلسلے میں اصل بات یہی ہے کہ اس کے اندر صحیح سوچ (right thinking) پیدا کی جائے۔ یہی انسانی تعمیر کا نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔کارل مارکس نے اس ترتیب کو الٹ دیا تھا۔ یعنی اس کے مطابق یہ سسٹم ہے جو انسان کی شخصیت بناتا ہے، مگر پہلے ہی تجربے میں یہ نظریہ ناکا م ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

تعمیری مشن، غوغائی سیاست

ماہنامہ الرسالہ کے ایک قاری لکھتے ہیں: الرسالہ میرا سب سے محبوب میگزین ہے۔ اس میگزین نے میری زندگی میں جو اہم تبدیلی پیدا کی ہے، وہ یہ ہے کہ میں نے منفی اندازِ فکر کو چھوڑ کر مثبت طرزِ فکر والی زندگی اختیار کی ۔ مزید یہ کہ اس کے مطالعے سے ناسازگار صورتِ حال میں بھی جینے کی امید ملتی ہے۔ (محمد اکبر، گلمرگ، کشمیر)
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ الرسالہ مشن کس قسم کے انسان بنانے کی مہم چلا رہا ہے۔ اللہ کے فضل سے آج ساری دنیا میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں، جو اس انداز میں سوچتے ہیں، اور دوسروں میں بھی یہی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اللہ ان کی کوششوں کو کامیاب کرے۔
کوئی تعمیری مشن غوغائی سیاست سے شروع نہیں ہوتا ۔ اسٹریٹ ایکٹوزم سے جو تعمیری مشن شروع کیا جائے، اس کا ناکام ہونا پیشگی طور پر ایک معلوم بات ہے۔ تعمیری مشن ہمیشہ تعمیرِ افراد سے شروع ہوتا ہے۔ تعمیری مشن کے لیے ہائی پروفائل ہرگز کار آمد نہیں۔ تعمیری جدو جہد وہ ہے، جو لوپروفائل (low profile) کے ساتھ شروع کیا جائے۔
تعمیر ِ افراد کا مطلب گویا محل بنانے سے پہلے اس کی اینٹیں تیار کرنا ہے۔ اینٹیں جتنی پختہ ہوں گی، محل بھی اتنا ہی مضبوط بنے گا۔کچی اینٹوں پر کوئی مضبوط محل تعمیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہی معاملہ کسی بڑے مشن کی ترقی کا ہے۔ مشن کے معماروں کو چاہیے کہ وہ دھوم دھام کے بجائے افراد کی تعمیر پر طاقت صرف کریں۔ وہ افراد کے اندر گہری فکر پیدا کریں۔ وہ افراد کے اندر پازیٹیو تھنکنگ پیدا کریں۔ وہ افراد کے اندر سطحیت کے بجائے گہرائی کا مزاج بنائیں۔وہ افراد کے اندر غیر جذباتی مزاج بنائیں۔ یہ صلاحیت پیداکریں کہ وہ منصوبہ بند اند از میں کام کرنا سیکھیں۔ وہ خلاف مزاج باتوں پر بھڑکنے سے پاک ہوں۔
واپس اوپر جائیں

قاری الرسالہ کا تاثر

ایک قاری الرسالہ نے لکھا ہے: میں نے ماہنامہ الرسالہ نومبر2018 کا ایک مضمون پڑ ھا: خدا کی پہچان (صفحہ 28-29)۔ اس میں جو مثال آپ نے دی ہے ،وہ بہت ہی عمدہ ہے۔ ا س طرح کا انداز کسی کا نہیں ہے سوائے آپ کے۔ اس مثال سے خدا کے انکار کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔
انھوں نے اپنا ایک اور تاثر ان الفاظ میں لکھا ہے: آج صبح کو جب سورج طلوع ہو رہا تھا، تو میں نے یہ محسوس کیا کہ سورج اور چاند ہم جہاں جاتے ہیں وہ ہمارے ساتھ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اس کو پیدا کرنے والے کی نظر بھی،رحمت بھی،رزق بھی، مسائل بھی، اورمواقع بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ستارے ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ جس طرح وہ دور ر ہ کر بھی پاس نظر آتے ہیں، اسی طرح خدا عرش پر ر ہ کر بھی بندوں کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔سورج سے خدا ہمیں یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ اس کا غصہ کیسا ہوگا،اور چاند سے ہمیں اس کی رحمت کی ٹھنڈک، بارش سے اس کی رحمتیں، اور ٹھنڈک سے جنت کا احساس۔میرا یہ ماننا ہے کہ الرسالہ کی نظر سے کائنات کی چیزوں کو دیکھا جائے تو معرفت کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ (ام اشہاد، تامل ناڈو)
یہ ایک مثال ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ برابر ماہنامہ الرسالہ کا مطالعہ کرتے ہیں، ان کے اندر کس قسم کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔ یہ ذہن ربانیت کا ذہن ہے۔ الرسالہ کے مضامین اپنے قاری کو رب العالمین کی یاد دلاتے ہیں۔ الرسالہ کے قاری کو الرسالہ کے مضامین میں ربا نیت کی غذا ملتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ الرسالہ میں صحافت کے عمومی رواج کے خلاف نہ مفروضہ ظلم کے خلاف شکایتی باتیں ہوتی ہیں، اور نہ کوئی اور منفی (negative)تذکرہ ہوتا ہے۔ الرسالہ میں ہمیشہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مبنی مضامین ہوتے ہیں۔ الرسالہ میں ان باتوں کا تذکرہ ہوتا ہے، جن کو قرآن میں اللہ کی آیات (signs of God) کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص برابر الرسالہ کو پڑھتا ہے، اس کے اندر خدا رخی (God-oriented) ذہن بنتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسپریچول کلاس

پچھلےکئی سالوں سے میں دہلی میں اسپریچول کلاس (spiritual class) چلا رہا ہوں۔اس کلاس میں انگریزی تعلیم یافتہ ہندو اور مسلمان شریک ہوتے ہیں۔اسپریچول کلاس در اصل ایک خاص تصورِ اصلاح پر قائم ہے۔اس کا آغاز اس طرح ہوا کہ دہلی کے کچھ انگریزی تعلیم یافتہ ہندو نوجوانوں کے اندر اسلام کو سمجھنے کا شوق پیدا ہوا۔وہ انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر چاہتے تھے۔ان کو دہلی کے کسی مسلمان نے بتایا کہ تم لوگ جماعتِ اسلامی کے دفتر جائو، وہاں تم کو اپنے مقصد کے مطابق کتابیں مل جائیں گی۔چنانچہ وہ جماعت ِاسلامی کے مرکزی دفتر گئے اور وہاں کے ذمہ داروں سے ملے۔انھوں نے ان ہندو نوجوانوں کو 15کتابیں دیں۔یہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں کا انگریزی ترجمہ تھا۔ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد وہ دوبارہ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے ملے۔انھوں نے انھیں بتایا کہ آپ کی یہ کتابیں ہم نے پڑھیں، مگر یہ کتابیں ہمارے مائنڈ (mind) کو ایڈریس نہیں کرتیں:
These books do not address our mind
انھوں نے کہا کہ یہ کتابیں مسلم مائنڈ کو سامنے رکھ کرلکھی گئی ہیں جو پہلے ہی سے بطورِ عقیدہ اسلام کی سچائی کو مانتے ہیں۔جب کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ ہم اسلام کی سچائی کو بطور عقیدہ نہیں بلکہ بطوردلیل آبجیکٹیو طور پر سمجھنا چاہتے ہیں۔ہم سچائی کے متلاشی ہیں اور ہم نے دوسرے مذہبوں اور فلسفوں کو پڑھا ہے اور اب ہم اسلام کو اس حیثیت سے پڑھنا چاہتے ہیںکہ کیا وہ عقلی بنیاد پر پورا اتر رہا ہے یا دوسرے مذہبوں کی طرح وہ بھی ایک عقیدہ (dogma)کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ نوجوان وہاں سے مایوس ہوکر واپس ہو گئے۔پھران کی ملاقات جمیل احمد الیاسی سے ہوئی۔انھوں نے کہا کہ میرے علم کے مطابق، دنیا میں صرف ایک ہی مسلم عالم ہے جس کی کتاب تم لوگوں کو مطمئن کر سکتی ہے۔انھوں نے میرا نام بتایا۔یہ نوجوان میرے پاس آئے۔میں نے ان لوگوں کونہ صرف اپنی کتابیں پڑھنے کو دیں بلکہ ان کو اپنے ہفتہ وار اسپریچول کلاس میں شامل کرلیا۔اب یہ نوجوان مکمل طور پر اسلام کی صداقت پر مطمئن ہو چکے ہیں اور وہ ہمارے مشن کے باقاعدہ ممبر ہیں۔
اس تجربہ سے مجھے ایک نئی حقیقت دریافت ہوئی۔مسلمانوں میں جو مصلحین اٹھے انھوں نے زیادہ ترجلسوں اور اجتماعات کو خطاب کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔گویاکہ ان کا طریقہ بھیڑ(crowd) کو ایڈریس کرنا تھا۔مگر یہ تجربہ اپنے مقصد کے اعتبار سے نا کام رہا۔اسپریچول کلاس کے تجربہ کے ذریعہ مجھے معلوم ہوا کہ اصلاح یا قرآن کے الفاظ میں تزکیہ کاصحیح طریقہ یہ ہے کہ انفرادی ذہن کو ایڈریس کیا جائے۔یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ اصلاح کا مقصد حقیقی طورپر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس تجربہ کے ذریعہ میں نے ایک معلوم حقیقت کو دوبارہ دریافت کیا۔ وہ یہ کہ، مشہور حدیث کے مطابق ،ہر انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی بے آمیز فطرت پر ہوتا ہے۔اس اعتبار سے ہر انسان کو مسٹر نیچر کہا جا سکتا ہے۔مگر اس کے بعد اس کا ماحول اس کو ’’یہودی یا مجوسی یا نصرانی‘‘ بنا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ ایک کنڈیشنڈ کیس بن جاتا ہے۔ایسی حالت میں سب سے پہلا کام ہر آدمی کی کنڈیشننگ کو توڑنا ہے ۔گویاکہ اصلاح و تزکیہ کا کام ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) سے شروع ہوتا ہے، نہ کہ عمومی تقریر یاوعظ خوانی سے۔
ہماری اسپریچول کلاس میں جو ہندو نوجوان شریک ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم اس کلاس میں شرکت سے پہلے اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ہم یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اسلام ہمارے لیے کوئی پسندیدہ مذہب بن سکتا ہے۔ہم تو آپ کے پاس روحانیت (spirituality)کی تلاش میں آئے تھے۔پہلے ہم سمجھتے تھے کہ اسلام کا مطالعہ اسلام کے بارے میں ہمارے منفی ذہن کو مزید پختہ کردے گا۔مگر آپ نے ہمارے اوپر ڈی کنڈیشننگ کاجو پراسس چلایا اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ ہم اسلام کی تصویرکواس کی اصلی صورت میں دیکھ سکیں۔
اسپریچول کلاس سے ایک اور بات مجھے معلوم ہوئی۔یہ نوجوان میری کلاس میں آنے لگے تو میں اپنی عادت کے مطابق، ایسا نہیں کرتا تھا کہ ان سے میٹھی میٹھی باتیں کروں۔بلکہ میں شدید الفاظ میں ان کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا تھا۔یہ لوگ اپنے گھروں میں اپنے ماں باپ کی طرف سے پیمپرنگ (pampering)کے عادی تھے، لیکن میرے یہاں اس کے برعکس انہیں ہیمرنگ (hammering)کا تجربہ ہوا۔ابتدا میں وہ لوگ اس سخت تجربہ سے گھبرائے۔مگر وہ برابرہماری کلاس میں آتے رہے کہ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔
آخرکار اب وہ کھلے طور پرمانتے ہیں کہ میری ہیمرنگ سے ان کو وہ فائدہ ہوا جو انہیں ان کے ماںباپ کی پیمپرنگ سے نہیں ہو سکتاتھا اور نہ ہوا تھا۔ہماری کلاس کی ایک خاتون پریا ملک ممبئی گئیں۔وہاں ایک مسلمان سے ان کی گفتگو ہوئی۔پریا ملک نے اسلام کے بارے میں جوگہری باتیں بتائیں اس کو سن کرمسلمان کو بہت تعجب ہوا۔انھوں نے پوچھاکہ آپ ایک ہندو فیملی میں پیدا ہوئیں پھر اسلام کے بارے میں آپ کے اندر اتنی کلیرٹی (clarity) کہاں سے آئی۔پریا ملک نے جواب دیا کہ اس کا راز صرف ایک ہے اور وہ ہے:
hammering, hammering, hammering.....
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
تعلیم کی دو قسمیں ہیں — رسمی تعلیم (formal education)، اور غیررسمی تعلیم (informal education) ۔ رسمی تعلیم کا ادارہ آدمی کو جاب (job) کے لیے تیار کرتا ہے، اور غیررسمی تعلیم کا ادارہ سماج کے لیے بہتر افراد بنانے کا ذریعہ ہے۔ اسکول اور کالج رسمی تعلیم کے ادارے ہیں اور خاندان غیر رسمی تعلیم کے ادارے۔سماج کے اندر وسیع تر دائرے میں مثبت اور منفی نوعیت کے جو تجربات ہوتے ہیں، وہ تمام تجربات گھر کے اندر محدود دائرے میں ہوتے ہیں- گھر کے اندر کسی عورت یا مرد کو یہ سیکھنا ہے کہ جب گھر کے کسی فرد سے اس کو تکلیف پہنچے تو وہ اُس کو بھلا دے۔ اِسی طرح جب گھر کے کسی فرد سے اس کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ دل سے اس کا اعتراف کرے۔
واپس اوپر جائیں

سی پی ایس انٹرنیشنل

سَروے بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد آئی ڈنٹٹی کرائسس (identity crisis) کا کیس بنے ہوئے ہیں۔ اِس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر چھوٹے اور بڑے انسان کا یہ حال ہوا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ایک کامیڈی کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا مگر موت نے بتایا کہ ہر ایک کے لیے صرف ٹریجڈی کا انجام مقدر تھا، ہر آدمی غیر حاصل شُدہ تمنّاؤں (unfulfilled desires)کا کیس بن کر رہ گیا۔ یہ بلا شبہہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ دردناک سوال ہے جس کا جواب شعوری یا غیر شعوری طورپر تمام عورت اور مرد تلاش کررہے ہیں، اِس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔تجربہ بتاتا ہے کہ ہر عورت اور مرد شعوری یا غیر شعوری طورپر کچھ سوالات سے دوچار رہتے ہیں——میں کون ہوں، میری پیدائش کا مقصد کیا ہے، یہ دنیا کس منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے، موت کے بعدکیا ہونے والا ہے، اس دنیا کے بارے میں خدا کا کریشن پلان کیا ہے۔ یہ سوالات آئڈیالوجی آف لائف سے تعلق رکھتے ہیں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا مقصد انھیں سوالات کا جواب فراہم کرنا ہے۔
سی پی ایس انٹرنیشنل (Centre for Peace and Spirituality)گویا ایک اسٹڈی فورم ہے۔ سی پی ایس، لٹریچر، میڈیا، آڈیو اور ویڈیو اورانٹرنیٹ کے ذریعے یہ کوشش کررہا ہے کہ وہ پُرامن انداز میں سچائی کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل گویا عالمی ڈائلاگ کا ایک اسٹیج ہے۔ وہ اِس لیے قائم کیا گیا ہے کہ لوگ اعلیٰ فکری سطح پر زندگی اور کائنات کے بارے میں ڈسکشن کریں اور اِس معاملے میں وہ کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ سی پی ایس انٹرنیشنل ایک خالص دعوتی تحریک ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا تعلق، سیاست سے نہ براہِ راست طورپر ہے اور نہ بالواسطہ طورپر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں سیاست ایک ثانوی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ اب سیاست کا تعلق صرف ایڈمنسٹریشن سے ہے۔ زندگی کے دوسرے تمام شعبے سیاست کے دائرۂ عمل سے باہر ہوچکے ہیں، جب کہ قدیم زمانے میں ایسا نہ تھا۔
زندگی میں دو اہم شعبے ہیں۔ ایک ہے انتظامِ ملکی، اور دوسرا ہے انسان سازی۔ قدیم زرعی دَورمیں یہ دونوں شعبے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ موجودہ صنعتی اور سائنسی دَور میں یہ دونوں شعبے عملاً ایک دوسرے سے الگ ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کو انتظامیہ (administration) کہاجاتا ہے۔ اب اگر کسی کو حکومتی عہدہ مطلوب ہو تو اس کو سیاست میں جانا چاہیے۔ لیکن جو لوگ انسانی ترقی سے دلچسپی رکھتے ہوں اُن کے لیے صحیح اور مفید طریقہ یہی ہے کہ وہ اقتدار سے باہر غیر سیاسی شعبوں کو اپنی جدوجہد کا نشانہ بنائیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل انسانی ترقی سے دل چسپی رکھتا ہے۔ اِس لیے ا س نے صرف غیر سیاسی شعبے کو اپنا میدان کار بنایا ہے۔ مثلاً ایجوکیشن، فارمل اور انفارمل دونوں، اسپریچول ڈیولپ مینٹ، تعمیر ِ شعور، امن کا فروغ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا، ویب سائٹ، میٹنگ اور ڈائلاگ، فکری رہنمائی اور ذہنی انقلاب ، وغیرہ۔ یہی سی پی ایس کا اساسی مقصد ہے۔ ہمارا اصل کام فکری انقلاب لانا ہے۔ عملی انقلاب اِسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے۔ فکری انقلاب کے بغیر عملی نتائج پانا کسی بھی حال میں ممکن نہیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں پر قائم کیاگیا ہے۔ سی پی ایس کا پیغام یہ ہے کہ آؤ ہم امن اور روحانیت کے اصولوں میں اپنی مطلوب آئڈیالوجی آف لائف کو تلاش کریں۔ سی پی ایس کو یقین ہے کہ انسان، امن اور روحانیت کے ربّانی اصولوں میں اپنے اُن سوالات کا جواب پاسکتا ہے جن کا جواب پانے کے لیے وہ لمبی مدت سے ناکام طورپر سرگرداں ہے، اور پھر زیادہ بہتر بنیادوں پر وہ اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل کرسکتا ہے۔
امن کے متعلق عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے وہ عدمِ جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ مگر یہ امن کی ایک ناقص تعبیر ہے۔ صحیح یہ ہے کہ امن ایک مکمل کلچر کا نام ہے۔ امن ایک اصولِ حیات ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عدم ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے زندگی کی تعمیر وتشکیل کی جائے۔ میدانِ جنگ کے محدود دائرے سے باہر کی پوری زندگی امن کے دائرے میں داخل ہے۔
روحانیت کو عام طور پر ایک پُر اسرار ڈسپلن سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ روحانیت اِس سے زیادہ وسیع ہے۔ روحانیت در اصل، ربّانیت (divine culture) کانام ہے۔ روحانیت کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ روحانیت، دوسرے لفظوں میں، خدا رُخی زندگی(God-oriented life) کانام ہے۔ روحانیت یہ ہے کہ آدمی اعلیٰ شعوری سطح پر سچائی کی معرفت حاصل کرے۔ فکری عمل کے ذریعے وہ اپنے اندر ربّانی شخصیت پیدا کرے۔ وہ سچائی کو ابدی حقیقت کی صورت میں دریافت کرے۔ وہ محدود مادّی دنیا سے اوپر اٹھ کر سچائی کو اس کی آفاقی صورت میں پالے۔ وہ زندگی کی معنویت کو دریافت کرکے پوری طرح ایک بامقصد انسان بن جائے۔
سی پی ایس انٹر نیشنل اپنے فکر کے اعتبار سے ایک آفاقی تحریک ہے اور اپنے مزاج کے اعتبار سے انسان فرینڈلی مزاج رکھتی ہے۔ سی پی ایس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے محدود دائرے سے اٹھ کر کائناتی کلچر کا حصہ بن جائے۔ وہ امن اور روحانیت اور حقیقت شناسی کی لامحدود دنیا میں جینے لگے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
موجودہ زمانے میں جو تبدیلیاں ظہور میں آئی ہیں، وہ اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی انسائکلوپیڈیا بھی ان کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ ان کے بیان کے لیے ایک پوری لائبریری کی ضرورت ہے۔ تاہم مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِن تبدیلیوں کی بناپر تاریخ انسانی میں پہلی بار ایک نیادور پیداہوا، ایک ایسا دور جس کا تصور قدیم انسان نہیں کرسکتا تھا۔ یہ دور اپنی حقیقت کے اعتبار سے، مکمل طورپر ایک موافقِ اسلام دور ہے۔ مزید یہ کہ دورِ جدید کے یہ عظیم امکانات تمام تر امن کے تصور پر مبنی ہیں۔ اِن امکانات کو استعمال کرنے کے لیے نہ جنگ کی ضرورت ہے اور نہ کوئی سیاسی ایمپائر قائم کرنے کی۔
واپس اوپر جائیں

روحانی ارتقا

میں ذاتی طورپر اسپریچول ڈیولپمنٹ کو بہت اہمیت دیتا ہوں، لیکن میرے نزدیک اسپریچول ڈیولپمنٹ ایک مائنڈ بیسڈ ڈسپلن (mind-based discipline) ہے، نہ کہ ہارٹ بیسڈ ڈسپلن (heart-based discipline)۔ مبنی بر قلب میڈیٹیشن آدمی کو وجد (ecstasy) تک لے جاتا ہے۔ جب کہ مبنی برذہن میڈیٹیشن آدمی کو انٹلیکچول ڈیولپمنٹ تک پہنچاتا ہے، اور انٹلیکچول ڈیولپمنٹ ہی پیس آف مائنڈ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
روحانیت کا اصل مقصد معرفت ہے، اور معرفت کا دائرہ اتنا بڑا ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور(1861-1941)نے اپنی کتاب گیتانجلی میں لکھا تھا، بینا کے تاروں کو سلجھانے میں ساری عمر بیت گئی، جو انتم گیت میں گانا چاہتا تھا، نہ گا سکا۔
جو آدمی ابھی صرف متلاشی (seeker)ہو، وہ گویا قبلِ معرفت کے دور میں ہے۔ اس کے لیے بھی تلاش معرفت ایک لامحدود میدان کی حیثیت رکھتا ہے، اور جو انسان معرفت کی دریافت تک پہنچ گیا ہو، اس کے لیے بھی معرفت کا میدان ایک لامحدود میدان ہے۔ اس لامحدود میدان کو پار کرنا، دونوں ہی کا سب سے بڑا کنسرن ہوتا ہے۔
روحانی ارتقا (spiritual development)کا قرآنی نام ربانی ارتقا (Rabbani development) ہے۔ یہ ربانی ارتقا کسی انسان کی فطرت کی سب سے بڑی تمنا ہوتی ہے۔ ایک انسان جو مادیات سے اوپر اٹھ گیا ہو، وہ محسوس کرتا ہے کہ میرے ذہن میں جو خیالات آتے ہیں، ان کو ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ وہ مسلسل طور پر اسی احساس میں جیتا ہے جس کا ایک نمونہ ٹیگور کے مذکورہ الفاظ میں موجود ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے سب سے بڑی چیز جو چاہتا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایکسپرس (express)کرسکے۔ مگر ذہنی ارتقا کا ہر درجہ اس کو صرف یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی دریافت کو الفاظ میں بیان کرنے سے عاجز ہے۔
انسان کا یہی احساس جنت کی سب سے بڑی دریافت ہے۔ انسان سب بڑی چیز جو چاہتا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایکسپرس کرسکے۔ مگر انسان اس میدان میں جتنا زیادہ کوشش کرتا ہے، اتنا ہی اس کا یقین بڑھتا چلا جاتا ہےکہ وہ اس دنیا میں اپنے آپ کو ایکسپرس (express) کرنے پر قادر نہیں۔ یہ گویا اس دنیا میں جنت کا ایک سراغ (clue) ہے۔ آدمی اگر اس سراغ پر گہرائی کے ساتھ غور کرے تو وہ یقینا ًجنت کی دریافت تک پہنچ جائے گا۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ(51:49)۔ یعنی اور ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ تخلیق کا یہ پہلو گویا جنت کا ایک یقینی سراغ ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے انسان اس دریافت تک پہنچتا ہے کہ موجودہ دنیا کے بعد یقیناً ایک اور دنیا ہے، اسی دوسری دنیا کو جنت کہا گیا ہے۔ جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat) ہے۔ جنت موجودہ دنیا کی کمی کی تکمیل ہے۔ جنت میں وہ تمام اسباب اپنی اعلیٰ ترین شکل میں موجود ہوں گے، جہاں انسان اپنی خواہشات کو پالے :وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (41:31) ۔یعنی اور تمہارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کا تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔ یقینا ًانسان کی اس خواہش کی تکمیل بھی وہاں موجود ہوگی، جس کو ہم نے اپنی ہستی کا کامل اظہار کہا ہے۔
جنت میں انسان اپنی ارتقا یافتہ ہستی کے ساتھ داخل ہوگا۔ جنت میں انسان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ ان حقیقتوں کو دریافت کرسکے، جن کو وہ دنیا کی زندگی میں دریافت کرنے میں ناکام رہا تھا۔ مزید یہ کہ جنت میں انسان کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنی دریافت کردہ باتوں کو الفاظ کی صورت میں بیان کرسکے۔ جنت انسان کے لیے مقامِ راحت بھی ہے اور اس بات کا مقام بھی کہ وہ اپنی اعلیٰ دریافتوں کو بیان کرنے کے لیے اعلیٰ الفاظ پالے۔ جنت انسان کی شخصیت کی تکمیل کا مقام ہے، ہر اعتبار سے تکمیل، ایک ایسی تکمیل جس کے بعد کوئی چیز غیر مکمل حالت میں باقی نہ رہے۔ جنت انسان کے لیے اپنی آرزؤں کی تکمیل بھی ہے اور اپنےرب کی اعلی دریافت بھی۔
واپس اوپر جائیں

نقل اور عقل

ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں:سلفی اصول ہے تقدیم النقل علی العقل، اس کے مقابلے میں معتزلہ و متکلمین تقدیم العقل علی النقل کرتے ہیں۔ اس معاملے میں آپ کا منہج کیا ہے۔ علاماتِ قیامت کی تشریح کےلیے آپ نے کس منہج کو اختیار کیا ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
مَیں اس معاملے میں اصولاً سلفی مسلک کو درست سمجھتا ہوں۔ البتہ اس معاملے میں میرے الفاظ مختلف ہوتے ہیں۔ یعنی الفاظ کے فرق کے ساتھ میں علمائے سلف کے مسلک کو اصولاًدرست مانتاہوں ، اور متکلمین و معتزلہ کا مسلک میرے نزدیک درست مسلک نہیں۔میرے مطالعے کے مطابق نقل (قرآن اور سنت) کو علم کے اصل ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس معاملے میں جو لوگ عقل کو مقدم قرار دیں ، اور نقل کو اس کے تابع کی حیثیت دے دیں، وہ بلاشبہ غلطی پر ہیں۔ تاہم میں ایسے لوگوں کی تکفیر کا قائل نہیں ہوں۔ البتہ میں اس کو ضروری سمجھتا ہوں کہ علمی مباحثہ کے ذریعہ ان کی غلطی کو واضح کیا جائے۔میرے مطالعے کے مطابق ، علوم عقلیہ کی حیثیت تائیدی علم کی ہے، نہ کہ مستقل ماخذ کی حیثیت۔ میں علیٰ وجہ البصیرۃ یہ مانتا ہوں کہ نقل میں اور حقیقی عقل میں کوئی ٹکراؤ نہیں ۔ تاہم اگر بالفرض دونوں کے درمیان کوئی ٹکراؤ پیش آئے تو میں بلاتوقف نقل کو ترجیح دوں گا، اور عقل کو چھوڑ دوں گا۔
میں نے کثیر تعداد میں چھوٹی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ ان تمام کتابوں کا مشترک موضوع ہے اسلام کی تعلیمات کو عصری ذہن کے لیے قابلِ فہم بنا نا۔ میرا یہ کام کسی قسم کی مرعوبیت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ کامل یقین کی بنا پر ہے۔ میں نے اپنے مطالعے میں کبھی ایسی کوئی چیز نہیں پائی جو حقیقی اسلام اور ثابت شدہ عقل کے خلاف ہو۔ نقل سے میری مراد قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں۔ بعد کے علما کے بارے میں میرا مسلک وہی ہے جو امام مالک کا مسلک تھا۔ ان کا مشہورقول ہے: کل أحد یؤخذ من قولہ ویترک إلا صاحب ہذا القبر (سیر اعلام النبلاء،7/178 )۔
واپس اوپر جائیں

مین آف مشن

ایک صاحب مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے سنا تھا کہ آپ بوڑھے ہوگئے ہیں، اور اب کسی سے ملاقات نہیں کرتے۔ اس کے باوجود میں آپ سے ملنے کے لیے آگیا۔ میں نے سوچا کہ اگر بات چیت نہیں ہوگی تو میں کم از کم آپ کو دیکھ لوں گا، اور آپ سے مصافحہ کرلوں گا۔
میں نے کہا کہ آپ نے مین آف مشن کو انڈر ایسٹیمیٹ (underestimate) کیا۔ مین آف مشن نہ کبھی بوڑھا ہوتا ہے، اور نہ وہ کبھی ملاقات کا سلسلہ بند کرتا ہے۔میں نے کہا کہ آدمی جب بوڑھا ہو تو وہ مشن پلس (mission ‘plus’) بن جاتا ہے۔ بوڑھا ہونے سے پہلے اس کے پاس علم تھا تو بوڑھا ہونے کے بعد اس کے پاس علم کے ساتھ تجربہ (experience) کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ لمبی عمر کی بنا پر وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ حال کے واقعات پر دانش مندانہ تبصرہ کرے۔ اسی کے ساتھ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ پچھلے زمانہ کے بارے میں لوگوں کو اپنا مشاہدہ بتائے۔
علم یا معلومات ہر ایک کے پاس ہوسکتی ہے، لیکن تجربہ ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا۔ تجربے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پر مختلف قسم کے احوال گزریں، اور اس قسم کا معاملہ صرف اس کے ساتھ پیش آتا ہے جو لمبی عمر تک زندہ رہے۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ بوڑھے آدمی سے ضرور ملیں۔ وہ بوڑھے آدمی سے مل کر زندگی کے بارے میں اس کے تجربات کو جانیں، وہ اس کے تجربات سے اپنی زندگی کی زیادہ درست منصوبہ بندی کریں۔
یہ فطرت کا ایک عجیب نظام ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جسمانی اعتبار سے بوڑھا ہوجاتا ہے، لیکن ذہنی اعتبار سے وہ بوڑھا نہیں ہوتا۔ اکثر حالات میں اس کی یاد داشت (memory) بڑی حد تک باقی رہتی ہے ۔ اس بنا پر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے پچھلے گزرے ہوئے واقعات کو بتائے، اور طویل مدت کے درمیان پیش آنے والے تجربات سے لوگوں کو واقف کرائے۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ اولڈ از گولڈ (old is gold)۔
واپس اوپر جائیں

آسان تدبیر

میں نے اپنی ڈائری (17 فروری 2004) میں یہ الفاظ لکھے —جب بھی مجھے کسی سے کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے تو میںاس معاملہ میں خود اپنی غلطی دریافت کرلیتا ہوں۔ اس کے بعد وہ شکایت اپنے آپ ختم ہوجاتی ہے۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا ناخوشگوار باتوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں ہر آدمی کو اپنی پسند کے خلاف باتوں کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ایسی ایک ناموافق دنیا میں آدمی کس طرح زندگی گزارے ۔ وہ ناخوش گوار تجربات کے درمیان کس طرح اپنے لیے ایک خوش گوار زندگی کی تعمیر کرے۔ اس کا فارمولا صرف ایک ہے — ناخوش گواری کو خوش گواری میں بدل لینا۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ترقی کا سب سے بڑا راز مثبت سوچ ہے۔ تمام ترقیاں اسی مثبت سوچ کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ منفی تجربات کے درمیان مثبت سوچ کو کس طرح برقرار رکھا جائے۔ اس کا سب سے آسان فارمولا یہ ہے کہ شکایت پیدا ہوتے ہی آدمی اس کو ڈیفیوز کرکے ختم کردے۔ڈیفیوز کرنے کے لیے آدمی اگر یہ طریقہ اختیار کرے کہ جس سے شکایت ہوئی ہے اُس سے بحث کرکے اُس کو قائل کرے تو اس طرح کی کوشش میں کامیابی تقریباً صفر کے برابر ہے۔ ایسی حالت میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ آدمی خوداپنے اندر شکایت کا سبب دریافت کرے۔ اس طرح وہ ایک لمحہ کے اندر اپنے آپ کو معتدل بنا سکتا ہے، وہ کسی تاخیر کے بغیر اپنے اندر مثبت سوچ کا عمل دوبارہ جاری کرسکتا ہے۔
اس تدبیر کی معنویت یہ ہے کہ آدمی کو دوسروں کے اوپر تو کوئی اختیار نہیں۔ مگر ہر آدمی خود اپنے آپ پر پورا اختیار رکھتا ہے۔ شکایت کو دور کرنے کے لیے د وسروں سے آغاز کرنا گویا ناممکن سے آغاز کرنا ہے۔ اس کے مقابلہ میں شکایت کو ختم کرنے کے لیے خود اپنے آپ سے آغازکرنا گویا ممکن سے آغاز کرنا ہے۔ اور جب ممکن سے آغاز کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہو تو کوئی نادان ہی ایسا کرسکتا ہے کہ وہ ناممکن سے آغاز کرنے کی ناکام کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

چشمہ کا سبق 

1989 کے وسط میں میں نے کشمیر کا سفرکیا۔ایک روز میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سرینگر کے باہر گیا۔ ہم لوگ ایک کھلی وادی میں تھے۔ سامنے پہاڑی سلسلے دکھائی دیتے تھے۔ ان پہاڑوں سے نکلنے والے چشمے میدان میں ہر طرف بہہ رہے تھے۔ میں اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ دیکھیے یہ سیکڑوں چشمے جو یہاں بہہ رہے ہیں، وہ فطرت کی زبان میں آپ کو ایک بے حد اہم پیغام دے رہے ہیں۔ وہ پیغام یہ ہے کہ ٹکراؤ سے اعراض کرکے اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔
پھر میں نے کہا کہ ان بہتے ہوئے چشموں کے راستے میں جگہ جگہ پتھر موجود ہیں۔ یہ پتھر بظاہر ان کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ اگر چشمے ایسا کریں کہ وہ پتھر کو توڑ کر سیدھ میں آگے جانا چاہیں، تو ان کاسفر اچانک رک جائے گا۔ ان چشموں نے اس مسئلے کا یہ فطری حل نکالا ہے کہ وہ پتھر کے دائیں یا بائیںمڑ کر آگے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ان کا راستہ ایک لمحہ رکے بغیر جاری رہتا ہے۔
یہ اہلِ کشمیر کے لیے فطرت کا ایک عظیم سبق ہے۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی چٹانوں سے ٹکرانے کا ذہن ختم کردیں، اور ان سیاسی چٹانوں کی موجودگی میں جو مواقع آپ لوگوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں، ان کو استعمال کریں۔یہی انسان کے لیے اس دنیا میں کامیاب سفر کا واحد طریقہ ہے۔ جس طرح بہتے ہوئے چشمے کے راستے میں پتھر ہوتے ہیں، اسی طرح ہر فرد اور ہر گروہ کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں موجود ہوتی ہیں۔ عقل مندی یہ ہے کہ آدمی پیش آنے والی رکاوٹوں سے نہ ٹکرائے، وہ رکاوٹوں سے اعراض کرتے ہوئے اپنا سفر مسلسل جاری رکھے۔ رکاوٹوں سے ٹکرانا، سفر کو روک دینے کے ہم معنی ہے۔ اس کے برعکس، رکاوٹوں سے اعراض کرنا، بلاتوقف اپنے سفر کے لیے مواقع حاصل کرنا ہے۔ یہ اس دنیا کے لیے فطرت کا قانون ہے۔ اس قانون سے لڑنا، خود فطرت کے نظام سے لڑنا ہے، اور کون ہے، جو فطرت سے لڑ کر کامیاب ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کے حق کی قیمت پر

ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ الرسالہ کے قاری ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ اکثر خاندان کی تقریبات میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ الرسالہ مشن کے لیے کچھ نہیں کرپاتے۔ میں نے اُن سے پوچھا تو اُنھوں نے کہا کہ رشتے داروں کا بھی تو حق ہے۔ میںنے کہا کہ خدا کا حق، رشتے داروں کے حق سے بھی زیادہ ہے۔ آپ خدا کے حق کی قیمت پر رشتے داروں کا حق ادا کررہے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک جرم ہے، نہ کہ کوئی اچھا کام۔
موجودہ زمانے میں ہر عورت اور مرد کا یہی حال ہے، خواہ وہ بے دین ہو، یا بظاہر دین دار۔ ہر ایک اِس طرح فیملی کلچر میں پھنسا رہتا ہے، جیسے کہ اس کا خاندان ہی اس کا معبود ہے۔ ایسے لوگوں کی زندگی میںخدا کی حیثیت صرف ایک رسمی عقیدے کی ہوتی ہے۔ عملاً وہ اپنا وقت اور اپناپیسہ اور اپنے جذباتِ محبت کا مرکز اپنے خاندان کو بنائے رہتے ہیں۔ اور رسمی الفاظ کی حیثیت سے خدا کا نام بھی لے لیتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام میں رشتے داروں کے حقوق کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن اس کا تعلق حقیقی ضرورت سے ہے، نہ کہ خاندانی رسوم اور خاندانی رواج کو پورا کرنے سے۔ موجودہ زمانے میں ’’رشتے داروں کے حقوق‘‘ کے نام پر جو سرگرمیاں جاری ہیں، وہ بلا شبہ ایک سنگین گناہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ نمائشی قسم کی سرگرمیوں میں لگے رہتے ہیں اور بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شرعی حقوق کو ادا کررہے ہیں۔ ایسے لوگ جو کچھ کرتے ہیں، اگر وہ اس کو خاندان کے نام پر کریں، تو وہ صرف ایک گناہ ہے۔ اور اگر وہ اُس کو شریعت کے نام پر کریں، تو یہ گناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے۔یہ بے حد سنگین صورتِ حال ہے۔ کیوں کہ گناہ، خدا کے یہاں قابلِ معافی ہے، لیکن سرکشی خدا کے یہاں قابلِ معافی نہیں۔ جو آدمی سرکشی کی زندگی اختیار کرے اور توبہ کیے بغیر مرجائے، تو وہ اِس طرح خدا کی سخت پکڑ میںآجائے گا کہ وہاں اُس کا کوئی رشتے دار اس کو بچانے کے لیے موجود نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

لائن آف ایکشن کا مسئلہ

1947 میں جب ہندستان آزاد ہوا تو اس کے بعدتمام مسلمانوں کے سامنے یہ سوال تھا کہ نئے ہندستان میں مسلمانوں کے لیے لائن آف ایکشن کیا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس موضوع پر ہزاروں تحریریں سامنے آئیں اور ہزاروں جلسے کیے گئے۔ مگر آج بھی لوگ یہی پوچھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کیا ہونا چاہیے۔
میرے نزدیک یہ مسئلہ لائن آف ایکشن کی غیر موجودگی کا نہیں ہے بلکہ لائن آف ایکشن کے موجود ہوتے ہوئے اس کو عملاً قبول نہ کرنے کا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے بار بار مختلف جماعتوں اور رہنماؤں کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں اس سوا ل کا جواب دیا گیا ہے مگر آج تک کسی بھی جوا ب کو مسلمانوں میں عمومی قبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے 1948 میں لکھنؤ میں مشہور مسلم کنونشن کیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد نے جو تقریر کی تھی وہ آج بھی چھپی ہوئی موجود ہے۔ اپنی اس تقریر میں انہوں نے مسلمانان ہند کے سامنے یہ لائحۂ عمل پیش کیا کہ وہ مسلم لیگ کو توڑ دیں اور نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہندستان کے مسلمان فرقہ وارانہ بنیاد پر اپنی ملی پالیسی نہ بنائیں بلکہ اپنی پالیسی مشترک قومی بنیاد پر بنائیں۔ نمائندگی کے اعتبار سے لکھنؤ کا یہ آل انڈیا مسلم کنونشن نہایت کامیاب تھا۔ مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان مولانا آزاد کے مشورہ کو اپنی ملی پالیسی کے طورپر اختیار کرلیں۔ ان کی ولولہ انگیز تقریر فضا میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔
اسی طرح نہایت دھوم کے ساتھ آل انڈیا مسلمِ مجلس مشاورت (1964) بنی ۔ ملک کے تقریباً تمام مسلم رہنما اس کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئے۔ مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیںنکلا۔ آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت نے متفقہ طورپر ایک مسلم منشور تیار کرکے شائع کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کے مسلمان اس ملک میں خیرِ امت کا کردار ادا کریں۔ مگر اس عنوان پر مسلمان عملاً متحرک نہ ہوسکے۔ یہاں تک کہ خود مسلم مجلسِ مشاورت بے اثر ہوکر رہ گئی۔
یہی معاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (1972) کا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بانی قائدین کے زمانہ میں متفقہ طورپر تعمیر ِ ملت اور اصلاحِ معاشرہ کی تجویز پاس کی۔ اس پر کافی حد تک وہ کام بھی ہوا جس کو پیپر ورک کہا جاتا ہے۔ مگر یہ لائحۂ عمل بھی مسلمانوں کے درمیان عملی قبولیت حاصل نہ کر سکا۔اس طرح کچھ مسلم قائدین نے نہایت دھوم کے ساتھ وہ تحریک شروع کی جو پیام ِانسانیت (1951) کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان خود انسانی اقدار کو اپنائیں اور برادرانِ وطن کو انسانی اقدار کی پیروی کی دعوت دیں۔ مگر جلسوں کی وقتی دھوم دھام کے علاوہ اس کا بھی کوئی عملی نتیجہ نہیں نکلا۔ انسانی اقدار کی پیروی کی فضا نہ مسلمانوں میں قائم ہوسکی اور نہ غیر مسلموں میں۔
اسی طرح1990 میں بابری مسجد کے نام پر جلسہ اور جلوس اور ریلی کے زبردست ہنگامے شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہوگیا۔ اس تحریک کے مسلم لیڈروں نے یہ نعرہ دیا کہ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مارچ کرکے اجودھیا پہنچیں اور حملہ آور وںکے مقابلہ میں بابری مسجد کی حفاظت کریں۔ مگر اس مقصد کے لیے نہ چھوٹا مارچ ہوا اور نہ بڑا مارچ۔ یہاں تک کہ ’’حملہ آور‘‘ کسی مزاحمت کے بغیر 6دسمبر 1992 کو اجودھیا میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بابری مسجد کے ڈھانچہ کو توڑ کر اس کی جگہ ایک عارضی رام مندر تعمیر کر دیا۔
اسی طرح کچھ ممتاز مسلم لیڈروں نے یہ لائحۂ عمل دیا کہ مسلمان اس ملک میں باعزت زندگی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت کو اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرانے کے لیے استعمال کریں۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک اردو شاعر کا یہ شعر سنایا:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میںہو خوئے حریری
ہر بار جب اسمبلی اور پارلیمنٹ کا الیکشن ہوتا ہے تو وہ وقت آتا ہے جب کہ مسلمان اس لائحۂ عمل کو اختیار کرکے مفروضہ اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرائیں اور مفروضہ پرومسلم پارٹیوں کو جتائیں۔ مگر ہر بار صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ اپنے عدمِ اتحاد کی بنا پر منتشر ہوجاتا ہے۔ مذکورہ سیاسی مقصد حاصل کرنے کے بجائے مسلمان صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ ہر الیکشن کے موقع پرتقسیم ہو کرووٹ کی طاقت کو ضائع کردیتے ہیں۔ الیکشن ان کے ووٹوں کا ایک سیاسی قبرستان بن کر رہ جاتا ہے۔
یہی معاملہ جمعیۃ علماء ہند کا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے تقریباً ہر موقع پر یہ لائحہ عمل پیش کیا ہے کہ مسلمان ایسا طریقِ کار نہ اختیار کریں جس میں ہندو اور مسلم کے درمیان ٹکراؤ کی فضا بنے۔ اس کے بجائے وہ خاموش تدبیر اور تعمیری اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اپنا مسئلہ حل کریں۔ مگر ہر بار یہی ہوا ہے کہ مسلمان جمعیۃ علماء ہند کے بتائے ہوئے اس لائحۂ عمل کو اختیار نہیں کر پاتے۔ گویا لائحہ عمل موجود ہے مگر لائحۂ عمل کی قبولیت اور پیروی موجود نہیں۔
اس فہرست میں کسی قدر فرق کے ساتھ خود الرسالہ مشن کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت مسلمانوں کے سامنے نہایت واضح اور مدلّل انداز میں1976 سے یہ لائحہ عمل پیش کیا جارہا ہے کہ مسلمان کا اصلی اور ابدی مشن دعوت ہے۔ اس ملک میں مسلمان اور برادران وطن کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے اپنے اس فریضہ کو پہچانیں۔ وہ دعوت کے آداب اور دعوت کی حکمتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ملک میں دین حق کی پر امن پیغام رسانی کا کام انجام دیں۔ مگر رُبع صدی سے زیادہ مدت تک مسلسل جدوجہد کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی صرف ایک محدود تعداد ہی نے اس راہ ِعمل کوعملاً اختیار کیا ہے۔
یہ طویل تجربہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ راہ عمل کی غیر موجودگی نہیںہے بلکہ جذبۂ قبولیت کی غیر موجودگی ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے درمیان حقیقی کام کا آغاز صرف یہ نہیں ہوسکتا کہ تقریر یا تحریر کی صورت میں ایک راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کا اعلان کردیا جائے۔ موجودہ حالات میں اس کے لیے شعوری تعمیر اور ذہنی بیداری کی ایک مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پہلے شعوری اعتبار سے لوگوں میںمادّۂ قبولیت پیدا کیجیے، اُس کے بعد ہی راہِ عمل کے اعلان کا کوئی مفید عملی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، اس کے بغیر ہر گز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

الرسالہ مشن کے متعلق بعض سوالات

1۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ اپنی تحریروں اور تقریروں میں ہمیشہ اسلام کے نظریاتی پہلو کو بیان کرتے ہیں۔ اسلام کا جو عملی پہلو ہے اس کو آپ بیان نہیں کرتے۔ آخر یہ تفریق کیوں۔
میں نے کہا کہ عمومی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ میں نے اسلام کے تقریباً ہر موضوع پر لکھا ہے۔ مثلاً نماز اور روزہ اور حج جیسے موضوعات پر میری کئی کتابیں موجود ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ میں اسلام کے نظری پہلوؤں پر زیادہ زور دیتا ہوں۔ نظری پہلو سے میری مراد ہے اسلام کی داخلی اسپرٹ، یعنی اسلامی طرزِ فکر پیدا کرنا، لوگوں کے اندر اسلامی جذبہ ابھارنا، اسلام کی صحیح اسپرٹ کو زندہ کرنا۔ یہ میری توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے۔ یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ آپ کو یہ بات قابلِ اعتراض اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ آپ ہمارے مشن کو امت کی سرگرمیوں سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ ہمارے مشن کو امت کی عمومی سرگرمی میں شامل کرکے دیکھیں تو آپ کا اعتراض اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ملتِ مسلمہ کے احیاء کی تحریک عالمی سطح پر چل رہی ہے۔ اس میں امت کے تمام درد مند افراد شریک ہیں۔ میںنے اپنے مطالعے میں پایا کہ احیاءِ ملت کی یہ تحریکیں ننّانوے فیصد کی حد تک اُسی پہلو پر چل رہی ہیں جس کو آپ اسلام کا عملی پہلو کہہ رہے ہیں۔ آپ دیکھیے تو ان میں سے کوئی نماز اور روزہ اور حج جیسے اسلامی اعمال کا نظام قائم کرنے میں مصروف ہے۔ کسی نے اسلام کے سماجی پہلوؤں پر اپنی توجہ لگا رکھی ہے۔ کوئی اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی مسجد اور مدرسے کے نظام کو قائم کرنے میںمصروف ہے۔ کوئی مسلمانوں کے خاندانی نظام کو اسلامی احکام پَر تشکیل دینا چاہتا ہے۔ کوئی ملّی مسائل، یا کمیونٹی ورک کے میدان میں محنت کررہا ہے، وغیرہ۔ لیکن میں نے اپنے تجربے میں پایا کہ کوئی بھی عصری اسلوب میں اسلام کی اسپرٹ کو جگانے کاکام نہیں کررہا ہے۔ اس لیے ہم نے اپنے آپ کو اس چھوٹے ہوئے کام میں لگا دیا ہے۔ گویا کہ ہمارا مشن احیاءِ ملت کے مجموعی کام میں ایک تتمّہ (supplement) کی حیثیت رکھتا ہے۔
موجودہ حالات میں یہی چیز ممکن اور قابلِ عمل ہے۔ احیاءِ ملت کا موجودہ کام جو عالمی سطح پر انجام پارہا ہے اس کی حیثیت ایک پراسس (process) کی ہے۔ اِس پر اسس میں ساری تحریکیں اور سارے اجزائے ملّی شریک ہیں۔ ہمارا مشن بھی اِس پراسس کا ایک حصہ ہے۔ یہ پراسس گویا کہ ایک بلا اعلان تقسیمِ کار کا معاملہ ہے۔ اِس پراسس کے مختلف اجزا میں سے کوئی ایک بھی ساری ملی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا اور نہ کررہا ہے۔ ہر ایک کسی ایک پہلو سے ملت کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ ہر ایک کو اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں انعام ملے گا۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملّت کے اندر تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری ضرورتوں کی طرح، تنقید بھی ملت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ تنقید، حدیثِ رسول (سنن ابو داؤد، حدیث  نمبر 4918)کے الفاظ میںالْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ ( مومن مومن کے لیے آئینہ ہے) کے اصول کی تکمیل ہے۔ علمی تنقید ہمیشہ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر علمی تنقید کا طریقہ ختم کردیا جائے تو اس کے نتیجے میں صرف یہی نہیں ہوگا کہ علمی تنقید باقی نہ رہے گی، بلکہ ذہنی ارتقا کا عمل رک جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ذہنی جمود پیدا ہو جائے گا جو کسی گروہ کے لیے سمّ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
2۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ کا مشن ایک فکری مشن ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمارا نشانہ یہ ہے کہ ہم اسلام کو عصری اسلوب میں پیش کریں۔ اِس طرح ہم کچھ لوگوں کے لیے اسلام کو ان کی ڈسکوری بنانا چاہتے ہیں، اور کچھ لوگوں کے لیے اسلام کو ان کی ری ڈسکوری۔ آپ کی اِس فکری مہم میں مسلمانوں کا کیا درجہ ہے۔ کیا آ پ مسلم اور غیر مسلم کو اِس معاملے میں برابر کی حیثیت دیتے ہیں یا آپ کے نزدیک مسلمانوں کو کوئی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔
قرآن اور حدیث کے مطابق، ہماری رائے یہ ہے کہ جہاں تک آخرت کی جزا اور سزا کا معاملہ ہے، اس میں دونوں گروہوں کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات قرآن کی اِس آیت سے واضح طور پر ثابت ہوتی ہے:لَیْسَ بِأَمَانِیِّکُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِہِ(4:123) یعنی نہ تمھاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو کوئی بھی بُرا کرے گا وہ اس کا بدلہ پائے گا۔
یہ عقیدہ بالکل بے بنیاد ہے کہ مسلمان خود اپنی پیدائش کے اعتبار سے ’’منتخب گروہ‘‘ بن چکے ہیں۔ اور ان کی جنّتیں رزرو (reserve)ہیں۔ یہ عقیدہ سر تا سر بے بنیاد ہے۔ یہ عقیدہ بھی ایک بے بنیاد عقیدہ ہے کہ کچھ ظاہری رسوم ورواج کی تعمیل، یا کسی کلچرل شناخت کو اختیار کرناآدمی کو جنت کا سرٹفکیٹ دے دیتا ہے۔ جنت نفوسِ مزکّیٰ کے لیے ہے، نہ کہ کسی کلچرل گروہ کے لیے (طٰہٰ، 20:76)۔البتہ ایک اور پہلو ہے جس کے اعتبار سے مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلے میں موافق حیثیت (advantageous position) حاصل ہے۔ وہ یہ کہ دوسروں کے برعکس، مسلمانوں کا ذہن اسلام کے خلاف تعصّب سے خالی ہوتا ہے۔ اِس بنا پر مسلمان ممکن طورپر اس قابل رہتے ہیں کہ وہ کسی نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر اِس بارے میں غور وفکر کا صحیح نقطۂ آغاز پالیں۔
حدیث میں آیا ہے: کُلُّ مَوْلُودٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اس کو یا تو یہودی بنا دیتے ہیں۔ یانصرانی بنا دیتے ہیں، یا مجوسی بنادیتے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا کسی خاندان میں پیداہوتا ہے اور کسی سماج میں اس کی پرورش ہوتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی بچپن ہی سے متاثّر ذہن کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں کنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ہر آدمی بلا استثنا کنڈیشننگ کا ایک کیس ہوتا ہے۔ آدمی کی کنڈیشننگ جس ماحول میں ہوتی ہے، اُسی ماحول کے اعتبار سے اس کی شخصیت بن کر تیار ہوتی ہے۔ کنڈیشننگ کے اِس عمل کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کو اپنے خاندانی مذہب کے ساتھ متعصبانہ حد تک جذباتی تعلق ہوجاتا ہے، اور دوسرے مذہب کے بارے میں وہ منفی ذہنیت کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ کنڈیشننگ کسی غیر مسلم کے لیے اس میں رکاوٹ بن جاتی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں غیر متاثر ذہن کے ساتھ سوچ سکے۔
اِس معاملے میں مسلمان ایک مستثنیٰ حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مخالفانہ احساس سے خالی ہوکر اسلام کا مطالعہ کرسکے۔ اِس طرح ایک مسلمان کو اسلام کے مطالعے کے لیے ایک موافق نقطۂ آغاز مل جاتا ہے۔ وہ اِس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے اور کسی قسم کی نفسیاتی رُکاوٹ کے بغیر اسلام کی صداقت اس کے ذہن میں بیٹھتی چلی جائے۔
3۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ — الرسالہ کا انداز غیر معتدل انداز ہے۔ آپ اُس میں ہمیشہ مسلمانوں کو صبر اور تقوی کی ’’نصیحت‘‘ کرتےہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور سازشوں پر آپ کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ جب کہ دوسرے مسلم اہلِ علم اور رہنما، اعتدال کا طریقہ اپناتے ہوئے ہمیشہ دونوں فریقوں کی غلطی کو بتاتے ہیں۔
میں نے کہا کہ الرسالہ کا انداز قرآنی انداز ہے، وہ ہر گز غیر معتدل انداز نہیں۔ اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے غزوۂ احد (3 ہجری) کی مثال دی۔ میں نے کہا کہ مشرکین نے مکہ سے چل کر چار سو کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ اور یک طرفہ طورپر انھوں نے مدینہ میں مقیم مسلمانوں پر جارحانہ اقدام کرکے انھیںجنگ کرنے پر مجبور کردیا۔ اِس جنگ میں اپنی ایک غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ ستر صحابہ شہید ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مخالفین کے پتھراؤ کی وجہ سے شدید طورپر زخمی ہوگیے۔
اِس کے باوجود قرآن میں جب اِس واقعہ پر تبصرہ نازل ہوا تو اُس میں یک طرفہ طورپر ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالتےہوئے کہاگیا: حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْأَمْرِ وَعَصَیْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاکُم مَّا تُحِبُّونَ (3:152)۔ یعنی جب تم خود کمزور پڑ گئے اور تم نےکام میں جھگڑا کیااور تم کہنے پر نہ چلے جب کہ اللہ نے تم کو وہ چیز دکھا دی تھی جو تم چاہتے تھے۔
میں نے کہا کہ آپ کے نزدیک ایسے موقع پر معتدل انداز یہ تھا کہ دونوں فریقوں پر تبصرہ کیا جاتا۔ پہلے مشرکینِ مکہ کے جارحانہ اقدام کی کھلے طورپر مذمت کی جاتی اور اُس کے بعد مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے ان کی کمزوری بتائی جاتی۔ حالاں کہ قرآن کے اِس تبصرے میں ایسا انداز نہیں ہے۔ اِس میں مشرکینِ مکہ کے جارحانہ اقدام کا سرے سے کوئی ذکر موجود نہیں، بلکہ اِس آیت میںساری ذمے داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے، اور کہاگیا ہے کہ احد کی شکست کسی دشمن کی سازش اور ظلم کا نتیجہ نہ تھی۔ یہ شکست خود تمھاری اپنی کمزوری کا نتیجہ تھی۔
میں نے کہا کہ اگر آپ قرآن کے اِس تبصرے کو درست سمجھتے ہیں تو آپ کو یقیناً الرسالہ کے انداز ہی کو صحیح انداز سمجھنا چاہیے۔ الرسالہ کا انداز خالص قرآنی انداز ہے، نہ کہ غیر معتدل انداز۔
میں نے کہا کہ قرآن میں واضح طورپر یہ آیت موجود ہے: وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا(3:120)۔یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو (مخالفین) کی کوئی بھی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی۔ اِس آیت سے واضح طورپر یہ ثابت ہوتاہے کہ اہلِ ایمان کے لیےاصل مسئلہ سازش کا ہونا نہیں ہے، بلکہ صبر اور تقوی کا نہ ہونا ہے۔ اگر کسی گروہ کے اندر صبر اور تقوی کی صفت موجود ہے تویہ صبر اور تقوی ان کے لیے ہر سازش کے خلاف ایک چیک بن جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر کوئی مسلم گروہ کسی مخالف گروہ کی سازش کا نشانہ بنے تو قرآن کے مطابق، لازماً یہ یقین کرنا چاہیے کہ صبر اور تقوی کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ سازش کی موجودگی نقصان کا سبب نہیں، بلکہ صبر اور تقوی کی عدم موجودگی نقصان کا اصل سبب ہے۔ اس لیے تمام لکھنے اور بولنے والوں کو صبر اور تقوی کی اسپرٹ جگانے پر مصروف ہونا چاہیے، نہ یہ کہ وہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف بے فائدہ طورپر احتجاج اور شکایت کی مہم میں لگ جائیں۔ صبر اور تقوی کامیابی کی واحد ضمانت ہے، جب کہ احتجاج اور شکایت کا طریقہ اپنانا،کامیابی کی اِس واحد خدائی ضمانت سے اپنے آپ کو محروم کرلینا ہے۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی حکیمانہ بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ ایسے معاملات میں اگر دونوں فریقوں کو نصیحت کی جائے تو نصیحت غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ نصیحت کے لیے ہمیشہ یک طرفہ کلام موثر ہوتا ہے، تاکہ سامع کی ساری توجہ صرف قابلِ اصلاح پہلو پر پڑے، اس کی توجہ اصل مرکز سے ہٹنے نہ پائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک سوال

اکثر علماء یہ سوال کرتے ہیں کہ صاحب الرسالہ کا منہج اخذ واستدلال کیا ہے؟ اس سلسلے میںجواب مطلوب ہے۔ (حافظ سید اقبال عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
جواب
اس معاملہ میں ہمارا منہج وہی ہے جو عملاً تمام علما کا معروف منہج ہے۔ اس منہج کی اصل صحابی رسول حضرت معاذ بن جبل کی حدیث میں موجود ہے۔ یہ حدیث سنن الترمذی، ابوداوود، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الیَمَنِ، فَقَالَ:کَیْفَ تَقْضِی؟، فَقَالَ:أَقْضِی بِمَا فِی کِتَابِ اللہِ، قَالَ:فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِی کِتَابِ اللہِ؟، قَالَ:فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِی سُنَّةِ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ:أَجْتَہِدُ رَأْیِی، قَالَ: الحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّہِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر1327)۔
معاذ بن جبل کے بعض ساتھیوں سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو پوچھا: تم کس طرح فیصلہ کرو گے ۔ انہوں نے کہا اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ نے پوچھا: اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ ؟ انھوں نےکہاکہ رسول اللہ کی سنت کے مطابق (فیصلہ کروں گا)۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اگر سنتِ رسول میں بھی نہ پاؤ ؟ انھوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا: اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے رسول اللہ کے رسول کو اس چیز کی توفیق دی۔
اس حدیث کو بعض علماء نے ضعیف بتایا ہے۔ لیکن یہ تضعیف خالص فنی بنیاد پر ہے۔ چناں چہ دوسرے علما ءنے اس کی تصحیح کی ہے، مثلاً ابن القیم الجوزیہ ۔ اس فنی بحث سے الگ ہوکر دیکھا جائے تو عملاً تمام علماء نے اس روایت کو تسلیم کیا ہے۔ کیوں کہ تمام علماء کے متفقہ مسلک کے مطابق مصادر شریعت چار ہیں، قرآن، سنت ، قیاس، اور اجماع۔ یہ مسلک عین معاذ بن جبل کی روایت کے مطابق ہے۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ باعتبار حقیقت مصادر شریعت چار نہیں ہیں، تین ہیں۔ کیوں کہ قیاس اور اجماع دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ جب قیاس کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد انفرادی قیاس ہوتا ہے اور جب اجماع کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد اجتماعی قیاس ۔ قیاس اور اجماع دونوں کی اصل اجتہاد ہے۔
یہاں میں اضافہ کروں گا کہ قرآن میں اجتہاد کا لفظ نہیں آیا ہے۔ البتہ اس کے ہم معنی دوسرالفظ آیا ہے، اور وہ استنباط (النساء ، 4:83)ہے۔اجتہاد اور استنباط دونوں کا مشترک مفہوم ایک ہے، اوروہ استخراج (inference)ہے۔ جب کسی معاملہ میں حکم شرعی منصوص انداز میں موجود ہو تو وہاں کسی اجتہاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن جب کسی معاملہ کا حکم بشکل نص موجود نہ ہو تو وہاں ضرورت ہوتی ہے کہ غور و فکر کرکے متعلقہ معاملہ میں حکم کی شرعی تطبیق (application) کو دریافت کیا جائے۔ اسی عمل کو استخراج کہا جاتا ہے۔ یعنی نص شرعی کے حدود میں رہتے ہوئے، بطریق استنباط متعلقہ معاملہ کا حل تلاش کرنا۔
**********
مومن کا مشن عالمی دعوت کا مشن ہے۔ یہ ذہن فطری طورپر مومن کے اندر آفاقیت پیدا کرتا ہے۔ اس کا نشانہ پوری انسانیت ہوتی ہے۔ وہ قومی تعصب سے یکسر خالی ہوتاہے۔ وہ سارے انسانوں کا خیر خواہ ہوتا ہے۔ وہ سارے انسانوں کو ایک فیملی کی طرح اپنا سمجھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن ’’ہم اور وہ‘‘(We and They) کے تصور سے ناآشنا ہوتا ہے۔ اِس کے بجائے مومن کا تصور ’’ہم اور ہم‘‘ (We and We) کے تصور پر مبنی ہوتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیاہےکہ اللہ تمام انسانوں کا رب ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو مومن کا ذہن بناتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک انٹرویو

مندرجہ ذیل انٹرویو ریاض (سعودی عرب) سے شائع ہونے والے مجلہ اوج (مطبوعہ شمارہ نمبر 4، 1439/2018) نے لیا تھا۔ یہاں اس انٹرویو کا متعلق حصہ نقل کیا جار ہا ہے:
سوال: مسلمانوں کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ اس وقت مادی والحادی فکر اور اسلام و ایمان کے درمیان ایک آئڈیولاجیکل ٹکراؤ ہے۔ چوں کہ ہر ٹکراؤ کا ایک اسلحہ ہوتا ہے، تو ان مادی اور الحادی فکر رکھنے والوں کا مشہور ہتھیار کیا ہے،جس کے ذریعہ وہ دور جدید میں اہل ایمان اور مسلم نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں؟
جواب: اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں لوگوں کے اندر تبدیلی آئی ہے۔ بیسویں صدی کا دور نظریاتی دور تھا۔ اس زمانے میں چیزوں کو نظریاتی اعتبار سے جج (judge) کیا جاتا تھا۔ مگر مارکسزم کے زوال کے بعد یہ ذہن ختم ہوگیا۔ اب ساری دنیا میں چیزوںکو ان کی افادیت کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اگر نظریے کا حوالہ دیں تب بھی حقیقت میں ان کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی ترقی کا راز کیا ہے۔ مادی ترقی کے اعتبار سے وہ کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔
مسلمان چوں کہ ابھی تک روایتی دور میں جی رہے ہیں، اس لیے نئے دور کے لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے ساتھ ترقی کا سفر جاری نہیں ہوسکتا۔ لوگ خواہ الفاظ جو بھی بولیں، لیکن پس منظر میں جوبات ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ اسلام کے روایتی ورزن کو لے کر ترقی کا سفر طے نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کے روایتی ورژن کی پیروی کرنے سے مسلمان مستقل طور پر پسماندہ کمیونٹی بنے رہیں گے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو اس کے روایتی ورزن سے نکال کر ماڈرن ایج کے اعتبار سے اس کو متعارف کرانا ہوگا۔ تاکہ اسلام دور جدید کے لوگوں کو سمجھ میں آسکے۔یہ اسلام کی تعلیمات میں تبدیلی کی بات نہیں ہے، بلکہ دور جدید کی زبان میں اسلام کو متعارف کرانے کی بات ہے۔
سوال: دورِ جدید میں پھیلنے والے لامذہبیت اور سیکولرزم کا سبب کیا ہے، آپ کی نظر میں اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟
جواب: یہ بات جو کہی جاتی ہے، وہ در اصل اسلام کے اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ اسلام کے روایتی ورزن کے اعتبار سے ہے۔ اسلام کے روایتی ورزن کے اعتبار سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام کا تعلق زندگی کے سارے پہلو سے ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ یہی سوچ سب سے بڑا سبب ہے کہ مسلمانوں کا ذہین طبقہ کیوں سیکولرزم کی طرف مائل ہورہا ہے۔ مگر یہ سوچ بذات خود غلط ہے۔ جہاں تک میں سمجھتاہوں اسلام کا تعلق اصلاً انسان کے مذہبی امور سے ہے، جیسا کہ خود پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا تھا: إِذَا کَانَ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْیَاکُمْ فَشَأْنَکُمْ بِہِ، وَإِذَا کَانَ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ دِینِکُمْ فَإِلَیَّ(مسند احمد، حدیث نمبر 24920) ۔ یعنی کوئی چیز اگر دنیا کے معاملہ سے متعلق ہو تو تم اس کو زیادہ جانتے ہو اور اگروہ بات دین کے متعلق ہو تواس کی ذمےداری میرے اوپر ہے۔
مذہبی دائرے کے سوا اسلام انسان کو پوری آزادی دیتا ہے۔ مثلا ًروایتی اسلام میں رسول اللہ کے بارے میں کوئی کریٹیکل کمنٹ دینا شتم رسول کا حکم رکھتا ہے، اور شتم رسول ایک ایسا جرم ہے، جس کی سزا قتل ہے۔ جب کہ قرآن و سنت دونوں میں اس پر سزا کا براہ راست ثبوت نہیں ملتا۔ تفصیل کے لیے میری کتاب، شتم رسول کا مسئلہ ملاحظہ ہو۔
شتم رسول پر سزا آج کے انسان کے لیے قابل قبول نہیں۔ موجودہ زمانے کی فکر، اظہار خیال کی آزادی (freedom of expression) پر قائم ہے۔ اس بنا پر لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام کے ساتھ دنیا میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ اسلام ان مسائل کی بنیاد پر دوسری قوموں سے اتحاد میں رکاوٹ ہے، اور اتحاد کے بغیر ترقی کا کوئی پلان نہیں بنایا جاسکتا۔ جدید ذہن کے لیے اسلام کا یہ نظریہ مستقل طور پر قیام امن میں رکاوٹ ہے، اور قیامِ امن کے بغیر کوئی ترقی کا کام عملاً ممکن ہی نہیں۔ اس معاملے کا حل صرف اسلام کے پر امن پیغام کو عام کرنا اور شتم کرنے والے کے ساتھ اس معاملے میں افہام و تفہیم کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔
سوال: آپ مسلم مفکرین اور لکھنے والوں کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گے، بطور خاص اس لیے کہ آپ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ آپ نے جب بھی کسی فکر پر تنقید کرنے کا ارادہ کیا، تو اس کے بارے میں ہزاروں صفحات پڑھا ہے؟
جواب: مسلم مفکرین اور لکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جدید فکر (modern thought) ان کے خلاف ایک چیلنج ہے۔ مگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس چیز کو جدید فکر کہا جاتا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام مخالف نہیں ہے، وہ عین موافق اسلام ہے۔ مسلم مفکرین کی یہ غلطی ہے کہ انھوں نے جدید فکر یا جدید تہذیب کو اسلام کا مخالف سمجھ لیا۔ اس بنا پر ان کے اور جدید ذہن کے درمیان غیر ضروری ٹکراؤ پیدا ہوگیا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ذہن اور جدید تہذیب پوری کی پور ی اسلام کے موافق ہے۔ حقیقت کےاعتبار سے دیکھیے تو اسلام اور جدید فکر میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔
اصل مسئلہ فکر جدید کو بدلنے کا نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی سوچ کو بدلنے کا ہے۔ اس کے بعد کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔ مسلمانوں کا مزاج یہ تھا کہ ہر نئی چیز کے خلاف ہوجانا۔ تو جب کلونیلزم کا دور آیا تو وہ ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ اسی چیز نے اصل مسئلہ پیدا کیا۔ تو اسی ذہنیت کو بدلنا ہے۔میری ان کو نصیحت ہے کہ وہ جدید فکر کے خلاف اپنی منفی مہم کو بند کردیں۔
سوال: آنے والے دنوں میں آپ اسلام کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
جواب: اسلام کا مستقبل بہت ہی اچھا ہے، بشرطیکہ مسلمان اپنے کو بدلیں۔ موجودہ زمانے کی کوئی چیز اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن مسلمان ہر چیز کو اسلام کے خلاف سمجھنے لگتے ہیں، اور ہر چیز کے خلاف لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً جب پرنٹنگ پریس آیا تو ابتداء میں ترکی کے شیخ الاسلام نے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا۔ یہ دورِ جدید سے علماء کی بے خبری کا مسئلہ تھا، نہ کہ غیر مسلموں کی اسلام سے مخالفت کا۔اس لیے ضرورت یہ ہے کہ مسلمان اپنی سوچ کو بدلیں۔
سوال: آپ کے بچپن یا جوانی کا کوئی واقعہ ، جس کو آپ ابھی تک یاد کرتے ہوں، اور اس کا آپ کی شخصیت پر آج تک اثر ہو؟
جواب: میں تو سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ جو واقعہ مجھے یاد رہتا ہے، وہ وہی سبق ہے جو میرے استاذ امین احسن اصلاحی سے مجھے ملا۔ ایک روز قرآن کی کلاس میں یہ آیت سامنے آئی:أَفَلَا یَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ کَیْفَ خُلِقَت (88:17)۔ یعنی کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا۔ استاذ محترم نے اس موقع پر طلبہ سے پوچھا کہ اونٹ کے سم پھٹے ہوتے ہیں یا جڑے ہوتے ہیں۔ یعنی بیل کی مانند پھٹے ہوتے ہیں یا گھوڑے کی مانندجڑے ہوئے۔ اس وقت ہماری جماعت میں تقریبا 20 طالب علم تھے۔ مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ اس کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک اٹکل بچو سے کبھی ایک جواب دیتا، اور کبھی دوسرا جواب۔
اس موقع پر استاد محترم نے ہم لوگوں کو سمجھایا کہ تمھارے جوابات سے اندازہ ہو تاہے کہ تم لوگ اونٹ کے سم کی نوعیت نہیں جانتے۔ پھر انھوں نے عربی کا مقولہ سنایا: ا ادری نصف العلم (میں نہیں جانتا، آدھا علم ہے)۔ اس کی تشریح انھوں نے کی کہ اگر تم لوگ یہ جانتے کہ تم اونٹ کے سم کے بارے میں بے خبر ہو تو گویا کہ اس معاملہ میں تمھارے پاس آدھا علم ہوتا۔ کیوں کہ اپنی لاعلمی کو جاننے کے بعد تمھارے اندر یہ شوق پیدا ہوتا کہ تم اپنے علم کو مکمل کرنے کے لیے یہ معلوم کرو کہ اونٹ کے سم کیسے ہوتے ہیں۔ اگر لا ادری (میں نہیں جانتا) کا شعور تمھارے اندر بیدار ہوتا تو اونٹ پر نظر پڑتے ہی تم اس کے سم کو غور سے دیکھتے، اور پھر تم اس کے نہ جاننے کو جاننا بنا لیتے۔
مدرسہ کا یہ واقعہ میرے لیے اتنا موثر ثابت ہوا کہ یہ میرا عمومی مزاج بن گیا کہ میں ہر معاملہ میں اپنی ناواقفیت کو جانوں، تاکہ میں اس کو واقفیت بنا سکوں۔ علمی تلاش کا یہ جذبہ مجھے ابتداء ً مدرسہ سے ملا تھا۔ بعد کو میں نے اس موضوع پر مغربی مصنفین کی کچھ کتابیں پڑھیں، مثلاً اسپرٹ آف انکوائری (Spirit of Inquiry)۔ ان سے معلوم ہوا کہ تجسس کا یہی جذبہ تمام علمی ترقیوں کی اصل بنیاد ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں نے سیب کو درخت سے گرتے دیکھا تھا۔ مگر اس معاملہ میں وہ اپنے ’’لا ادری‘‘ کو نہیں جانتے تھے، اس لیے وہ حقیقت سے بے خبر رہے۔ نیوٹن پہلا شخص ہے، جس نے اس معاملہ میں اپنے ’’لاادری‘‘ کو جانا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ’’ادری‘‘ کے درجہ تک پہنچ گیا۔
اس کے برعکس، مسلم علماء دور جدید کو نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے فتوی دے کر یہ ظاہر کیا کہ ادری ان العصر الجدید حرام (میں جانتا ہو ںکہ دور جدید حرام ہے)۔جب کہ انھیں کہنا یہ چاہیے تھاکہ لاادری ما ھوالعصر الجدید (میں نہیں جانتا کہ دورجدید کیا ہے )۔ اس کے بعد وہ اس قابل ہوتے کہ دور جدید کو جانیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جب انھوں نے دور جدید کو جانے بنا ایک قدم اٹھایا تو اس کے نتیجے میں انھوں نے اس ادری (میں جانتا ہوں) کلچر کی بنیاد پر ہر چیز کو حرام قرار دے دیا، اوریہی وہ چیز ہے جو سیکولر تعلیم یافتہ مسلمانوں کے اسلام سے دور ہونے کا سبب بن رہی ہے۔ جب کہ میں ہر چیز کو سب سے پہلے لاادری (میں نہیں جانتا ہوں)کے خانے میں ڈالتا ہوں۔ اس کے بعد موضوعی اعتبار سےیہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
سوال: وہ کیا پروگرام ہیں، جس کے بارے میں آپ اللہ سے یہ تمنا کرتے ہیں کہ وہ اس کو پورا کرے؟
جواب: میری صرف ایک تمنا ہے۔ حدیث میں آیا ہےکہ اللہ ہر گھر میں اسلام کا کلمہ داخل کرے گا، روایت کے الفاظ یہ ہیں: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللَّہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ(مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔ یعنی روئے زمین پر کوئی بھی بڑا یا چھوٹا گھر باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کرے گا۔ میری خواہش ہے کہ اس حدیث میں بیان کردہ پراسس کا میں حصہ بن جاؤں۔یہاں تک کہ یہ ریَلٹی بن جائے، اور قرآن کی آیت ، لیکون للعالمین نذیرا (25:1)، کے مطابق سارے عالم تک قرآن کا میسج آف انذار پہنچ جائے۔
My greatest desire is to become a part of this historical process, the process of the spreading of the word of God, until it becomes a reality.
سوال: آپ کی ایک اہم کتاب الاسلام یتحدی (مذہب اور جدید چیلنج) ہے۔ کیا آپ کا یہ ارادہ ہے کہ اس کو نئے سائنسی انکشافات کے اعتبار سے اپ ڈیٹ (update) کی جائے، تاکہ وہ موجودہ دور کے اعتبار سےاپ ٹو ڈیٹ (up to date) ہوسکے؟
جواب: جہاں تک کتاب کو اپ ڈیٹ کرنے کی بات ہے، تو میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ اس میں جو مباحث موجود ہیں، وہ ابھی تک ریلیونٹ ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ ایک ہسٹاریکل بک بن چکی ہے۔ اس میں کسی اپ ڈیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت میں سارا فوکس دعوت پر دیتا ہوں ، اور دعوتی فوکس کے اعتبار سے اس معاملہ میں میری ایک نئی کتاب آئی ہے، اظہار دِین۔ یہ کتاب فی الوقت اردو زبان میں موجود ہے۔
سوال: آپ مسلم نوجوانوں کو کن کتابوں کے پڑھنے کا مشورہ دیں گے، تاکہ وہ فکری اعتبار سے مضبوط ہوسکیں؟
جواب: میں انھیں دو کتابیں پڑھنے کامشورہ دوں گا۔ ایک ہے ، اللہ یتجلی فی عصر العلم (اردو ترجمہ :خدا موجود ہے)۔ یہ جان کلوور مونسما کی کتاب The Evidence of God in an Expanding Universeکا عربی ترجمہ ہے۔ اس سے انھیں معلوم ہوگا کہ سائنس اسلام کے خلاف نہیں ہے، اور دوسری کتاب جس کومیں پڑھنے کا مشورہ دوں گا، وہ یہ ہے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West
اس کتاب سے انھیں معلوم ہوگا کہ دورِ جدید کی فکر کیا ہے۔
سوال: ہم کیوں نوجوان مسلم عورتوں میں دینی انحراف دیکھتے ہیں،اس کا سبب کیا ہے؟
جواب: اس کی وجہ صرف ایک ہے، اسپرٹ (تقوی، محبتِ الٰہی اور اخلاق )کے بجائے ظواہرِ دین پر غلو کی حد تک زور دینا۔ مثلاً پردہ پر غیر ضروری زور دینا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو کام پردہ کے باہر جائز نہیں ہے، اس کو انھوں نے پردے کی آڑ میں جائز کر لیا ہے:
What is not allowed outside the purdah, they are allowing inside the purdah.
اِس زمانے میں برقعہ والی عورتیں زیادہ فیشن کرتی ہیں۔ یہ برقعہ پر ظواہر دین پر غلو سے پیدا ہونے والا ری ایکشن ہے۔ پیغمبر ِ اسلام کی بیوی عائشہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تربیت نتیجہ خیز کیسے ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا: إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْہُ سُورَةٌ مِنَ المُفَصَّلِ، فِیہَا ذِکْرُ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الإِسْلاَمِ نَزَلَ الحَلاَلُ وَالحَرَامُ، وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَیْءٍ:لاَ تَشْرَبُوا الخَمْرَ، لَقَالُوا:لاَ نَدَعُ الخَمْرَ أَبَدًا، وَلَوْ نَزَلَ:لاَ تَزْنُوا، لَقَالُوا:لاَ نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا، لَقَدْ نَزَلَ بِمَکَّةَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِنِّی لَجَارِیَةٌ أَلْعَبُ:بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْہَى وَأَمَرُّ[ 54:46] وَمَا نَزَلَتْ سُورَةُ البَقَرَةِ وَالنِّسَاءِ إِلَّا وَأَنَا عِنْدَہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر4993 )۔ یعنی سب سے پہلے جو چیزیںنازل ہوئیں، ان میں ایک مفصل کی سورت ہے۔ اس میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے ۔ پھر جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہو گئے، اس کے بعد حلال وحرام (کے احکام) اترے ، اگر ابتداہی میں یہ اترتاکہ شراب نہیں پینا تو لوگ کہتے ہم تو کبھی بھی شراب پینا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتاکہ زنا نہیں کرنا تو لوگ کہتے ہم تو زنا نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے بجائے مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی : بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھی وامر ( بلکہ قیامت ان کے وعدہ کا وقت ہے اور قیامت بڑی سخت اور بڑی کڑوی چیز ہے)۔ اس وقت جب میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی ۔ (اس کے برعکس،) سورۃ البقرہ اور سورۃ النساء اس وقت نازل ہوئی ، جب کہ میں ( مدینہ میں )آپ کے پاس آگئی تھی ۔
سوال: موجودہ دور میں امت کی حالت کے اعتبار سے کمی کہاں ہے؟
جواب: صرف ایک دور جدید سے بے خبری۔موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے مودودی اور سید قطب کی کتاب کو نہ پڑھا جائے، بلکہ اس کتاب کو پڑھا جائے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West
سوال: آپ کے اعتبار سے قرآن کا مطلوب انسان کون ہے، جیسا کہ آپ کی ایک کتاب بھی اسی نام سے ہے؟
جواب: داعی انسان۔ قرآن کا سب سے زیادہ فوکس دعوت پر ہے،اور قرآن کا مطلوب انسان وہی ہے جو قرآن سے اس کو دریافت کرے،اور قرآن کا داعی بن جائے۔
سوال: وہ پانچ اہم افکار کیا ہیں، جن پر آپ نے اپنی فکری اور تجدیدی پروگرام میں فوکس کیا؟
جواب:وہ پانچ افکار درج ذیل ہیں:
(1) معرفتِ خداوندی (realization of God)
(2) مثبت سوچ (positive thinking)
(3) دعوت الی اللہ
(4)نفرت (hate) کا کلی خاتمہ، منفی سوچ کا کلی خاتمہ، مغرب کو اسلام کا دشمن سمجھنے کے بجائے، اس کو اسلام موید سمجھنا۔
(5) سیاسی ٹارگٹ کے بجائے، آخرت رخی زندگی کواپنا ٹارگٹ بنانا۔
سوال: آپ کی زندگی بھر کی حکمت کا کوئی خلاصہ ۔
جواب: پرابلم کو اگنور کرنا، اورمواقع کو دریافت کرکے اس کو اویل کرنا۔
To ignore the problem and avail of the opportunity by discovering it.
**********
اٹھارھویں صدی میں قدیم زمانی حالات ختم ہوگئے۔ اب کسی قوم کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ قدیم طرز کا سیاسی ایمپائر قائم کرے۔ مسلمانوں کی سیاسی تحریکوں کو جو ناکامی ہوئی، وہ کسی دشمن کی ’’سازش‘‘ کی بنا پر نہ تھی، وہ صرف اِس لیے تھی کہ موجودہ زمانے میں اٹھنے والے مسلم رہنما زمانے کی تبدیلی سے بے خبر تھے۔ اِس بنا پر وہ ایسی سیاست کے چیمپئن بنے رہے جو نئے دور میں سرے سے ممکن ہی نہ تھی۔اب جو لوگ مسلم تحریکوں کی ناکامی کو دشمن کی ’’سازش‘‘ قرار دے کر مضامین اور کتابیں لکھ رہے ہیں، وہ صرف اپنی بے دانشی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں