Pages

Friday 1 March 2019

Al Risala | March 2019 (الرسالہ،مارچ)

4

-بہتر گھر، بہتر سماج

5

- اولاد کی حیثیت

6

- والدین کی ذمہ داری

7

- ایک اچھی مثال

8

- بچوں کی تربیت

11

- گھر کا ماحول

12

- تربیت کا طریقہ

15

- زیادہ بڑی گود

16

- گھر کا ماحول

17

- خاندان کی اہمیت

18

- تربیت گاہ

19

- حسنِ اخلاق کی وراثت

20

- باپ کا تحفہ

21

- فیملی کلچر کا نقصان

22

- خدا کا اعتراف نہیں

23

- ایک عام کمزوری

24

- کامیابی کا طریقہ

25

- رزق کا معاملہ

26

- گھرایک تربیت گاہ

28

- بچوں کی اصلاح

29

- بچوں کا بگاڑ

30

- معکوس تربیت

31

- فرضی محبت

32

- خیر خواہی یا بد خواہی

33

- چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ

34

- اولاد پرستی کا فتنہ

35

- خوش فکری، یا حقیقت پسندی

36

- بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں

37

- اہل وعیال کا فتنہ

38

- پرچۂ امتحان

39

- ہاتھی کی دم میں پتنگ

40

- ہر گھر بگاڑ کا کارخانہ

41

- بچوں کا قبرستان

42

- نظر کی خریداری

43

- پیمپرنگ کا نقصان

44

- محرومی ایک نعمت

46

- تربیت اولاد

50

- پہلا اسکول


بہتر گھر، بہتر سماج

حضرت عائشہ کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3895)۔یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں۔خاندان کسی سماج کا ایک یونٹ ہے۔ خاندانوں کے مجموعے ہی کا دوسرا نام سماج ہے۔ اگر خاندان بہتر ہوگا تو سماج بھی بہتر ہوگا۔ اور اگر خاندان بہتر نہ ہو تو سماج بھی بہتر نہیں ہوسکتا۔ہر شخص کسی خاندان میں پیداہوتا ہے۔ گویا کہ گھر، خاندان یا سماج کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ اِس لیے اگر کسی سماج کو بہتر بنانا ہے تو خاندان کو بہتر بنانا ہوگا۔
تعلیم کی دو قسمیں ہیں — رسمی تعلیم (formal education)، اور غیر رسمی تعلیم (informal education) ۔ رسمی تعلیم کا ادارہ آدمی کو جاب (job) کے لیے تیار کرتا ہے اور غیررسمی تعلیم کا ادارہ سماج کے لیے بہتر افراد بنانے کا ذریعہ ہے۔ اسکول اور کالج رسمی تعلیم کے ادارے ہیں اور خاندان غیر رسمی تعلیم کے ادارے۔سماج کے اندر وسیع تر دائرے میں مثبت اور منفی نوعیت کے جو تجربات ہوتے ہیں، وہ تمام تجربات گھر کے اندر محدود دائرے میں ہوتے ہیں۔ گھر کے اندر کسی عورت یا مرد کو یہ سیکھنا ہے کہ جب گھر کے کسی فرد سے اس کو تکلیف پہنچے تو وہ اُس کو بھلا دے۔ اِسی طرح جب گھر کے کسی فرد سے اس کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ دل سے اس کا اعتراف کرے۔
جو لوگ اپنے گھر کے اندر اِس طرح کی تربیت حاصل کریں، وہ جب گھر سے نکل کر سماج میں داخل ہوں گے تو وہاں بھی وہ دوسروں کے ساتھ اِسی طرح کا برتاؤ کریںگے۔ وہ ناخوشگوار باتوں کو بھلائیں گے اور خوش گوار باتوں پر دوسرے کے سلوک کا اعتراف کریں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اخلاقی اعتبار سے بہترین لوگ ہیں۔ ایسے ہی افراد کسی سماج کو بہتر سماج بناتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اولاد کی حیثیت

ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے (الانفال، 8:28؛ التغابن، 64:15)اِس کا مطلب کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ مسلمان عام طورپر اولاد کو خدا کا انعام سمجھتے ہیں، کوئی بھی اپنی اولاد کو فتنہ نہیں بتاتا، پھر قرآن کی اُن آیتوں کا کیا مطلب ہے جن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے۔
میں نے کہا کہ اولاد اپنے آپ میں فتنہ نہیں ہے۔ زہر اپنے آپ میں زہر ہوتا ہے، مگر اولاد کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ اصلاً فتنہ کے طورپر پیدا ہوتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فتنہ بنانے کا معاملہ ہے، نہ کہ بذاتِ خود فتنہ ہونے کا معاملہ۔ والدین کا اپنا غلط مزاج اولاد کو فتنہ بنا دیتا ہے۔ والدین کے اندر اگر صالح مزاج ہو تو اُن کی اولاد اُن کے لیے فتنہ نہیں بنے گی۔فتنہ کے لفظی معنی آزمائش (test) کے ہیں۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں انسان کو جو چیزیں بھی دی گئی ہیں، وہ سب کی سب امتحان کے پرچے ہیں۔ مال ، اولاد اور دوسری تمام چیزیں بھی امتحان کے پرچے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام چیزوں کو اِسی اصل حیثیت سے دیکھے، وہ ہمیشہ یہ کوشش کرے کہ وہ اِس پرچۂ امتحان میں پورا اترے۔
اِس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کو اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے۔ دوسری دنیوی چیزوں میں سے کوئی بھی چیز، خواہ وہ مال ہو یا اولاد ہو یا اقتدار، وہ اس کا اصل کنسرن (sole concern)نہ بننے پائے۔ جو لوگ اِس امتحان میں پورے نہ اتریں، وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا کنسرن بنالیں، وہ آخرت میں ایک محروم انسان کی حیثیت سے اٹھیں گے، جب کہ اُن کے تمام سہارے ان سے ٹوٹ چکے ہوں گے۔ اس وقت وہ حسرت کے ساتھ کہیں گے:مَا أَغْنَى عَنِّی مَالِیَہْ ۔ ہَلَکَ عَنِّی سُلْطَانِیَہْ (69:28-29)۔ حقیقت یہ ہے کہ اولاد ذمے داری (responsibility)کا ایک معاملہ ہے، نہ کہ فخر (pride)اور مباہات کا کوئی معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

والدین کی ذمہ داری

اولاد کی تربیت کے بارے میں انس بن مالک کے حوالے سے ایک حدیثِ رسول ان الفاظِ میں آئی ہے:أَکْرِمُوا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَہُمْ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3671)یعنی اپنے اولاد کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اور ان کو اچھا ادب سکھاؤ۔
اس حدیث میں ادبِ حسن کا مطلب زندگی کا بہتر طریقہ ہے۔ یعنی یہ سکھانا کہ بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وہ کامیاب ہوں، وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا بوجھ (liability)نہ بنیں، بلکہ وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset)بن جائیں۔
والدین اپنے بچوں کو اگر لاڈ پیار (pampering) کریں تو انھوں نے بچوں کو سب سے بُرا تحفہ دیا۔ اور اگر والدین اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا کامیاب طریقہ بتائیں، اور اس کے لیے ان کو تیار کریں تو انھوں نے اپنے بچوں کو بہترین تحفہ دیا۔ مثلاً بچوں میں یہ مزاج بنانا کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے سے بچیں۔ وہ ہر معاملے میں اپنی غلطی تلاش کریں، وہ اپنی غلطی تلاش کرکے اس کو درست کریں ، اور اس طرح اپنے آپ کو بہتر انسان بنائیں۔ وہ دنیا میں تواضع (modesty) کے مزاج کےساتھ رہیں، نہ کہ فخر اور برتری کے مزاج کے ساتھ۔ زندگی میںان کااصول حیات یہ ہو کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں، نہ کہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے وقت اور اپنی توانائی کو صرف مفید کاموں میں لگائیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم غلطی کرو گے تو اس کی قیمت تم کو خود ادا کرنی ہوگی۔ کوئی دوسرا شخص نہیں جو تمھاری غلطی کی قیمت ادا کرے۔ کبھی دوسروں کی شکایت نہ کرو۔ دوسروں کی شکایت کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ہمیشہ مثبت انداز سے سوچو، منفی سوچ سے مکمل طور پر اپنے آپ کو بچاؤ۔بری عادتوں سے اس طرح ڈرو، جس طرح کوئی شخص سانپ بچھو سے ڈرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ڈیوٹی کانشش بنائیں، نہ کہ رائٹ(right) کانشش۔
واپس اوپر جائیں

ایک اچھی مثال

ایک بار دہلی کے ایک کالج کے استاد نے بتایا کہ دہلی میں طلبا کا ایک تقریری مقابلہ ہوا۔ اِس میں مختلف کالجوں کے منتخب طلبا اور طالبات نے شرکت کی۔ ہر طالب علم کو انگریزی زبان میں تقریر کرنا تھا۔ اِن تقریروں میں جج کو جو بنیادی چیز دیکھنا تھا، وہ طرز ادا یا طرزِ تقریر (delivery) تھا۔ ڈاکٹر مرچنٹ کی لڑکی کا طرزِ تقریر سب سے زیادہ کامیاب تھا، چناں چہ اُس کو پہلا انعام دیاگیا۔
اِس کامیابی کا راز کیا تھا، اِس کا جواب مجھے 26 اگست 2009 کو ملا۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام کے دوران میری ملاقات ڈاکٹر آر کے مرچنٹ سے ہوئی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور دہلی میں رہتے ہیں۔ اُن سے ملاقات کے دوران رٹائرڈ جنرل چھبّر اور دوسرے کئی لوگ موجود تھے۔ ڈاکٹر مرچنٹ نے کہا کہ میرے گھر میں ٹی وی نہیں ہے، میں ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتا ہوں۔ ان کی اِس بات میںمجھے اِس سوال کا جواب مل گیا کہ اُن کے بچے کیوںتعلیم میںاتنا زیادہ کامیاب ہیں۔اِس سے پہلے میںایک بار ڈاکٹر مرچنٹ کے گھر گیا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا تھا کہ اُن کا گھر بہت سادہ ہے۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں۔ دونوں خاموشی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتی ہیں۔ڈاکٹر مرچنٹ کے پاس ذاتی کار ہے، لیکن ان کی لڑکیاں ہمیشہ بس کے ذریعے اسکول جاتی ہیں۔ ان کے گھر میں ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا کوئی نشان مجھے نظر نہیں آیا— یہی سادہ اور با اصول زندگی ڈاکٹر مرچنٹ کے بچوں کی کامیابی کا اصل سبب ہے۔
آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طورپر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کرسکیں۔ وہ اپنے بچوں کو ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کااصل سبب ہے۔ اِس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کی تربیت

ایک مغربی ملک میں مقیم ایک مسلم خاندان نے اِس کا اظہار کیا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے کچھ دنوں کے لیے آکر ہمارے یہاں ٹھہریں اور ہم سے اسلامی تربیت حاصل کریں۔ میں نے اِس تجویز کو رد کردیا۔ میرے نزدیک یہ تربیت کا ایک مصنوعی طریقہ ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی نتیجہ خیز کام صرف فطری طریقے کے مطابق انجام پاتا ہے،غیر فطری طر یقہ کسی بھی کام کے لیے ہرگز مفید نہیں۔
اِس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ اپریل 1981 میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے تحت میں بار بیڈوز (Barbados)گیا تھا۔ اِس سلسلے میں وہاں کے مقیم مسلمانوں نے ایک مسجد میں میرا پروگرام رکھا۔ ایک صاحب اپنے ایک بچے کو اپنے ساتھ لے کر وہاں آئے۔ یہ بچہ جو تقریباً 12 سال کا تھا، وہ اصل اجتماع کے باہر ایک مقام پر اِس طرح بیٹھا کہ اس کی پیٹھ میری طرف تھی اور اس کا چہرہ دوسری طرف۔ ایک شخص نے اُس سے کہا کہ تم اِس طرح کیوں بیٹھے ہو، اندر چل کر لوگوں کے ساتھ بیٹھو۔ لڑکے نے نہایت بے پروائی کے ساتھ جواب دیا — می ناٹ (“me not”) یعنی مجھے اِس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔یہ واقعہ موجودہ زمانہ کے تمام مسلم خاندانوں کے لیے ایک علامتی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج کل کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ محنت کرکے کماتے ہیں اور پھر محبت کے نام پر اپنی کمائی کا بڑا حصہ بچوں پر خرچ کرتے ہیں۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ محبت نہیں ہے، بلکہ وہ لاڈپیار (pampering) ہے، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ بچوں کو بگاڑنے کا سب سے بڑا سبب یہی لاڈ پیار ہے۔
کسی بچے کا ابتدائی تقریباً 10سال وہ ہے جس کو، نفسیاتی اصطلاح میں، تشکیلی دور (formative period) کہاجاتا ہے۔ یہ تشکیلی دوربے حد اہم ہے، کیوں کہ اِس تشکیلی دور میں کسی کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ بے حد اہم ہے۔ یہی شخصیت بعد کی پوری عمر میں باقی رہتی ہے۔ اِسی حقیقت کو ایک عربی مقولے میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے:من شب على شیء شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جوان ہوتاہے، اُسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تشکیلی دور (formative period) میں نام نہاد محبت کے ذریعے بچوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آج کل کے تمام والدین اپنے بچوں کو می ناٹ بچے (me not children) بنادیتے ہیں۔ اس کے بعدوہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کسی کرشمہ ساز تربیتی طریقے (charismatic method of training) کے ذریعے اصلاح یافتہ بن جائیں۔
میرے تجربے کے مطابق، اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ اِس معاملے میں اگر کوئی باپ زیادہ سے زیادہ سوچ پاتا ہے تو وہ صرف یہ کہ وہ اپنے بیٹے کو گول ٹوپی اور اپنی بیٹی کو اسکارف پہنا دے، اور پھر خوش ہو کہ اُس نے اپنی اولاد کو اسلامی تربیت سے مزیّن کردیا ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں سنجیدہ ہو تو اس کے لیے میں چند عملی مشورے یہاں درج کروں گا۔
1- محبت کے نام پر لاڈ پیار (pampering) کو وہ اِس طرح چھوڑ دیں جیسے وہ کسی حرام کو چھوڑتے ہیں۔ محبت کے نام پر جو لاڈ پیار کیا جاتا ہے، اُس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بچے کو زندگی کے حقائق (realities) سے بالکل بے خبر کردیتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بچے کے اندر حقیقت پسندانہ طرز فکر (realistic approach) کانشو ونما نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ اِس کے نتیجے میں بچے کے اندر ایک خود پسند شخصیت (self-centered personality) تشکیل پاتی ہے، جو کسی آدمی کے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر میں بلا شبہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
2- اِس سلسلے میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ لحاظ ہے کہ بچے کی عمر کا ابتدائی تشکیلی دور ماں باپ کے ساتھ گزرتا ہے۔ اِس دور میں بچے کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، وہ ہمیشہ بدستور اس کے اندر باقی رہتی ہے۔ والدین کو جاننا چاہیے کہ اِس ابتدائی تشکیلی د ور میں اگر انھوں نے بچے کی تربیت میں غلطی کی تو بعد کے زمانے میں اس کی تلافی کبھی نہ ہوسکے گی۔ بعد کے زمانے میں ایسے کسی شخص کی اصلاح کی صرف ایک ممکن صورت ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ اس کو شدید نوعیت کا کوئی ہلادینے والا تجربہ (shocking experience) پیش آئے جو اس کے لیے ایک نقطہ انقلاب (turning point) بن جائے، مگر بہت کم لوگوں کو اِس قسم کا ہلادینے والا تجربہ پیش آتا ہے، مزیدیہ کہ ایسا ہلادینے والا تجربہ اور بھی نادر (rare) ہے، جب کہ وہ آدمی کے لیے مثبت انقلاب کا سبب بن جائے۔
3- اپنے تجربے کی روشنی میں ایسے والدین کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہمارے یہاں کا مطبوعہ لٹریچر اہتمام کے ساتھ پڑھوائیں، صرف ایک بار نہیں، بلکہ بار بار۔ اِسی کے ساتھ وہ کوشش کریں کہ اُن کے بچے ہمارے یہاں کے تیار شدہ آڈیو اور ویڈیو دیکھیں اور سنیں۔ یہ تمام آڈیو اور ویڈیو ہماری ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دستیاب ہیں۔ مزید یہ کہ دہلی میں ہونے والا ہمارا ہفتے وار لکچر کا پروگرام پابندی کے ساتھ سنیں ،جو کہ ہرسنیچر کو شام پانچ بجے(IST)اور ہر اتوار کی صبح کو ساڑھے دس بجے (IST) شروع ہوتا ہے ۔ان دونوں پروگراموں کو فیس بک (www.facebook.com/maulanawkhan/)پر لائیو دیکھا جاسکتا ہے۔
4- یہ لازمی نوعیت کا ابتدائی پروگرام ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت کے خواہش مند ہوں، اُن کو اِسے اختیار کرنا چاہیے۔ اگر وہ اِس کو اختیار نہ کریں تو کوئی بھی جادوئی تدبیر بچوں کی اصلاح کے لیے کار آمد نہیں ہوسکتی۔
٭ ٭ ٭٭٭
جولائی 1995 میں مراد آباد کا میرا ایک سفر ہوا۔ وہاں ایک صاحب نے بتایا کہ جو پیسہ والے مسلمان ہیں۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ تم اتنا زیادہ پیسہ کس لیے اکھٹا کررہےہو تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے: اس لیے کہ بچے آرام سے رہیں۔میں نے کہا کہ بچوں کے آرام کے لیے جو لوگ دولت اور جائداد اکٹھا کریں وہ خود اپنی اولاد کے لیے کوئی عقل مندی نہیں کررہے ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ بے محنت کے ملی ہوئی دولت آدمی کے اخلاق کو بگاڑتی ہے۔ وہ اس کے اندر سطحیت، حتی کہ آوارگی پیدا کردیتی ہے۔ بچوں کے ساتھ سب سے پہلی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کواعلیٰ تعلیم دلائی جائے، اور اس کے بعد دوسری ضرورت یہ ہے کہ ان کو محنت کے راستے پر ڈالا جائے۔
واپس اوپر جائیں

گھر کا ماحول

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ بتایا کہ ان کا معمول ہے کہ وہ روزانہ صبح کو اپنے گھر والوں کو ایک جگہ بٹھاتے ہیں، اور کسی دینی کتاب کا ایک حصہ پڑھ کر ان کوسناتے ہیں۔مجھے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس طریقے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ اپنا دینی فریضہ ادا کررہے ہیں۔یہ طریقہ بلاشبہ انسان کے بارے میں کمتر اندازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان اس طرح کی رسمی باتوں سے اپنا ذہن نہیں بدلتا۔
لیکن اس طرح گھر والوں کو دینی کتاب پڑھ کر سنانا اصل ذمہ داری کا صرف نصف ثانی ہے۔ اصل ذمے داری کی نسبت سے نصف اول یہ ہے کہ گھر کے اندر موافقِ دین ماحول بنایا جائے۔اگر گھر کے اندر موافق ماحول نہ ہوتو اس طرح کتاب پڑھ کر سنانے سے مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے گھر میں پوری طرح دنیادارانہ ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر دوسروں کے خلاف شکایت کی باتیں ہوتی ہیں۔ گھر کے اندر منفی خبروں کا چرچا رہتا ہے۔ گھر کے اندر انسانی خیرخواہی کی باتیں نہیں ہوتیں۔بلکہ اپنے لوگوں کو اپنا ، اور دوسرے لوگوں کو غیر سمجھنے کا ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر جن باتوں کا چرچا ہوتا ہے، وہ ہیں —کھانا کپڑا، روپیہ پیسہ،بزنس اور جاب، وغیرہ۔
گھر میں دینی کتاب پڑھ کر سنانا بلاشبہ ایک اچھا کام ہے۔ لیکن اس کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے اندر اس کے موافق ماحول موجود ہو۔ کتاب پڑھنے سے پہلے، اور کتاب پڑھنے کے بعد گھر کے اندر وہی ماحول ہو جو کتاب میں بتایا گیا ہے۔ کسی گھر کو دین دار گھر بنانا اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے۔گھر کا ماحول موافقِ دین بنائے بغیر گھر کے اندر دینی کتاب پڑھ کر سنانا گویا ہاتھی کے دم میں پتنگ باندھنا ہے۔ اس طرح کے کسی عمل سے گھر کے سرپرستوں کی ذمے داری ادا نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں

تربیت کا طریقہ

ایک صاحب کو ان کے پڑوسی نے نہایت سخت بات کہہ دی۔ وہ صاحب اس کو سن کر چپ چاپ اپنے گھر میں چلے آئے۔ انھوںنے کہنے والے کو کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کے لڑکے کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت بگڑا۔ اس نے کہا کہ اس شخص کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ میرے باپ کو اس طرح ذلیل کرے۔ میں اس کو سبق دوں گا تاکہ آئندہ وہ کبھی ایسی ہمت نہ کرے۔
باپ نے بیٹے کو ٹھنڈا کیا۔ باپ نے کہا کہ آخر اس نے ایک لفظ ہی تو کہا ہے۔ اس نے مجھے کوئی پتھر تو نہیں مارا۔ پھر اس میں ہمارا کیا نقصان ہے۔ اس نے اگر اپنی زبان خراب کی ہے تو ہم اپنی زبان کیوں خراب کریں۔ باپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم اس کو بھلادو اور اپنے کام میں لگ جاؤ۔بیٹا اس واقعہ کو ’’یاد‘‘ کے خانہ میں رکھنا چاہتا تھا، باپ نے اس کو ’’بھول‘‘ کے خانہ میں ڈال دیا۔ جو واقعہ عام حالات میں غصہ اور انتقام کا موضوع بنتا، وہ صبر اور برداشت کا موضوع بن گیا۔ کچھ دنوں بعد خود پڑوسی کو شرمندگی ہوئی۔ اس نے آکر اپنی گستاخی کی معافی مانگی اورآئندہ کے لیے پہلے سے زیادہ بہتر ہوگیا۔
باپ اگر اپنے بیٹے کے اندر انتقام کی نفسیات ابھارتا تو وہ برائی کا ایجنٹ بن جاتا۔ مگر باپ نے جب اپنے بیٹے کو بھلانے اور برداشت کے راستہ پر ڈالا تو وہ ان کے لیے نیکی اور سچائی کا رہنما ہوگیا۔ قرآن کے لفظوں میں وہ متقیوں کا امام بن گیا(الفرقان، 25:74)۔
اسی کا نام بچوں کی تربیت ہے۔ بچوں کی تربیت یہ نہیں ہے کہ ایک وقت مقرر کرکے انھیں بٹھایا جائے اور تحریر یا تقریر کی صورت میں انھیں اصلاحی باتیں سنائی جائیں۔ اصل تربیت یہ ہے کہ گھر کے اندر جب عملی طورپر وہ مواقع پیدا ہوں جہاں ایک راستہ صحیح سمت میں جاتاہو اور دوسرا راستہ غلط سمت میں۔ ایسے مواقع پر جذبات کو برداشت کرکے اور ذاتی نقصان اٹھا کر گھر والوں کو رہنمائی دی جائے۔ ان کے ذہن کو ایک رخ سے دوسرے رخ کی طرف پھیر دیا جائے-تربیت پیدا شدہ حالات کے درمیان رہنمائی کی جاتی ہے نہ کہ مجرّد قسم کی وعظ خوانی کے ذریعہ۔
ایک مثال
بچوں کی تربیت کے سلسلے میںعام طور سے یہ کیا جاتا ہے کہ ایک مقرر وقت پر جمع کرکے بچوں کو دین کے مسائل بتایا جائے۔ بچوں کی تربیت اس قسم کے وقتی وعظ سے نہیں ہوتی بلکہ تربیت کا اصل ذریعہ گھر کا ماحول ہے۔ اگر آپ کے گھر میں اخلاق اور انسانیت کا ماحول ہو۔ آپ کے گھر میں کسی کی غیبت اور شکایت نہ کی جاتی ہو، اور آپ کے گھر میں دوسروں کو عزت دینے کا ماحول ہو، خواہ وہ اپنا ہو یا غیر تو یہ ماحول آپ کے گھر کو ایک زندہ تربیت گاہ بنا دے گا۔ اس کے بعد کسی رسمی وعظ کی ضرورت نہ ہوگی۔
یہاں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے، جو بتاتا ہے کہ بچوں کی تربیت کیا ہوتی ہے۔ مظفر نگر (یوپی) کے ایک قصبہ کا واقعہ ہے۔ وہاں ایک مسلم خاندان کے یہاں ایک ہریجن عورت صفائی کے کام کے لیے روزانہ آتی تھی۔ گھر کی ایک بچی سے اس ہریجن عورت کی دوستی ہوگئی۔ یہ ہریجن عورت جب وہاں صفائی کے کام کے لیے آتی تو وہ سب سے پہلے مذکورہ بچی سے ملتی۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ گھر کے اندر جنت اور جہنم کا تذکرہ ہوا۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ جنت میں داخلہ کے لیے ایمان ضروری ہے۔ جو شخص مومن اور موحد ہو وہی موت کے بعد جنت میں جائے گا۔اور جو لوگ مشرک ہیں، جو غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ بچی کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی۔ وہ سوچنے لگی کہ میں تو مومن اور موحد ہوں اس لیے میں جنت میں جاؤں گی۔ مگر ہریجن عورت تو شرک میں مبتلا ہے، وہ کس طرح جنت میں جائے گی۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ اگلے دن جب مذکورہ ہریجن عورت صفائی کے کام کے لیے آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی دوست بچی گھر میں ایک کنارے کھڑی ہوئی بری طرح رو رہی ہے۔ عورت اس کو دیکھ کر گھبرا گئی۔ اس نے پوچھا کہ تم کو کیا تکلیف ہے۔ تم کیوں اس طرح رو رہی ہو۔ بہت پوچھنے کے بعد بچی نے کہا کہ میں مومن ہوں اس لیے میں جنت میں جاؤں گی، اورتم مشرک ہو اس لیے تم جنت میں نہیں جاؤ گی۔ اس طرح موت کے بعد کی زندگی میں میرا اور تمہارا ساتھ چھوٹ جائے گا۔ یہ سن کر ہریجن عورت نے کہا کہ تم مت روؤ۔ میں آج سے اسلام قبول کرتی ہوں تاکہ ہم دونوں ایک ساتھ جنت میں رہیں۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اگر گھر کا ماحول جیساہوگا، بچے اسی طرح کی راہ کا انتخاب کریں گے،اور یہی ماحول بچوں کی ذہن سازی میں رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
امریکا میں مقیم ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ اپنے بچوں کے بارے میں ہم کو یہ فکر رہتی ہے کہ ہمارے بعد دینی اعتبار سے اِن بچوں کا کیا حال ہوگا۔ انھوںنے بتایا کہ ہمارے بچے سیکولر اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ البتہ ہم اپنے گھر پر اسی کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا میں اس کو ہوم اسکولنگ (home schooling) کہا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ جب آپ نے امریکا میں رہنے کا فیصلہ کیا تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ آپ یہاں کے کلچر سے اپنے بچوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ ہوم اسکولنگ کے ذریعہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کاغذ کی دیوار سے سیلاب کا مقابلہ کرنا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ غالباً کو ئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں جس کی مثال کو لے کر یہ کہا جاسکے کہ ہوم اسکولنگ کا طریقہ اپنے مطلوب نشانے کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف گھر کے ماحول کو بدلا جائے، اور دوسری طرف بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا جائے۔ گھر میں سادگی (simplicity)اور بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کئے بغیر اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

زیادہ بڑی گود

ہندستانی روایات میں ایک کہانی اس طرح ہے کہ ایک راجہ کے یہاں دو رانیاں تھی۔ دونوں رانی کے یہاں ایک ایک بچہ تھا۔ دونوں کے درمیان رقابت رہتی تھی۔ ایک دن ایک رانی کا بچہ راجہ کی گود میں آکر بیٹھ گیا۔ دوسری رانی نے اس منظر کو دیکھا تو اسے غصہ آگیا۔ وہ اپنے بیٹے کو لے کر آئی اور دوسری رانی کے بیٹے کو ہٹا کر اپنے بیٹے کو راجہ کی گود میں بٹھا دیا۔بچہ روتا ہوا اپنی ماں کے پاس گیا اور پورا قصہ بتایا۔ ماں نے کہا کہ اے میرے بیٹے تم پرم پتا کی گود میں بیٹھ جاؤ۔ اس کے بعد تمہیں ان باتوں کی شکایت نہ ہوگی۔
یہ ایک تمثیلی کہانی ہے۔ تاہم اس میں بہت بڑا سبق ہے۔ انسان عام طورپر مختلف قسم کی شکایتیں لیے رہتاہے۔ اس کو اپنے گھر والوں کی طرف سے اور سماج کے لوگوں کی طرف سے مختلف قسم کے ناپسندیدہ تجربات پیش آتے رہتے ہیں جو شکایت بن کر اس کے سینہ میں بس جاتے ہیں۔ مگر یہ سب بہت چھوٹی باتیں ہیں۔ زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آدمی خدا کی یادوں میں جینے والا بنے۔ وہ اپنا سارا بھروسہ خدا پر قائم کرے۔ وہ خدا کی دی ہوئی چیزوں کی عظمت میں اس طرح گم ہو کہ اس کو یاد ہی نہ رہے کہ کسی اور نے اس کو کیا دیا اور کیا نہیں دیا۔
انسانوں سے شکایت دراصل خدا سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ خدا کی طرف سے انسان کو جو بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہیں وہ ایک اتھاہ سمندر کی مانند ہیں اور انسانوں کی طرف سے جو کچھ پیش آتا ہے وہ اس کے مقابلہ میں ایک قطرہ سے بھی کم ہے۔ عطیاتِ الہٰی کے اس سمندر میں اگر کوئی شخص اپنی طرف سے ایک قطرہ اور ڈال دے تو سمندر میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس سمندر سے ایک قطرہ نکال لے تب بھی اس میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں۔
ہر آدمی ’’پرم پتا‘‘ کی گود میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس واقعہ کا شعوری ادراک اگر پوری طرح حاصل ہو جائے تو آدمی بڑی سے بڑی شکایت کو اس طرح نظر انداز کردے گا جیسے کہ اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

گھر کا ماحول

آج کل یہ حال ہے کہ سیکولر آدمی اور مذہبی آدمی کا فرق باہر کی زندگی میں تو نظر آتا ہے، لیکن گھر کی زندگی میں یہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔ بہ ظاہر دونوں کا لباس الگ ہوتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر گڈ مارننگ (good-morning) کہتا ہے تو مذہبی آدمی السلام علیکم کہتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر کلب (club) جاتا ہے تو مذہبی آدمی مسجد جاتا ہے، وغیرہ۔ لیکن یہ فرق باہر کی زندگی کی حد تک ہے۔ گھر کے اندر کے ماحول کو دیکھیے تو سیکولر آدمی کے گھر اور مذہبی آدمی کے گھر کے درمیان کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ اور اگر کوئی فرق ہوگا تو وہ صرف ظاہری رسم کے اعتبار سے ہوگا، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قرآن میں دونوں قسم کے گھروں کی پہچان بتائی گئی ہے۔ غیر مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کو جاننے کے لیے قرآن کی اِس آیت کا مطالعہ کیجیے: إِنَّہُ کَانَ فِی أَہْلِہِ مَسْرُورًا(84:13)۔ یعنی وہ اپنے اہل کے درمیان خوش رہتا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مذہبی انسان کی زندگی خاندان رُخی (family-oriented) زندگی ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں آکر محسوس کرتا ہے کہ میں اپنے لوگوں کے درمیان آگیا۔ وہ اپنا سارا وقت اور اپنا پیسہ اپنے اہلِ خاندان میں خرچ کرتا ہے اور مطمئن رہتا ہے کہ میں نے اپنے وقت اور اپنے پیسے کا صحیح استعمال کیا۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس کی دل چسپیوں اور اس کی سرگرمیوں کا مرکز اس کے اہلِ خاندان ہوتے ہیں۔ جو لوگ اِس طرح زندگی گزاریں، وہ کبھی خدا کے مطلوب بندے نہیں بن سکتے، خدا کی ابدی رحمتوں میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔
مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کتابِ الٰہی کی اِس آیت میں ملتی ہے:قَالُوا إِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِی أَہْلِنَا مُشْفِقِینَ (52:26)۔ یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ اِس سے پہلے ہم اپنے اہل کے درمیان ڈرتے رہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سچا مذہبی انسان وہ ہے جو ہر وقت خدا کی پکڑ سے ڈرتا ہو، خواہ وہ اپنے گھر کے باہر ہو یا اپنے گھر کے اندر۔ وہ مواخذہ (accountability) کی نفسیات کے تحت زندگی گزارتا ہے، نہ کہ بے خوفی کی نفسیات کے تحت۔
واپس اوپر جائیں

خاندان کی اہمیت

خاندان (family) وسیع تر انسانیت کا ایک یونٹ ہے۔ خاندان کے اندر محدود دائرے میں وہ تمام حالات پیش آتے ہیں جو وسیع تر انسانیت کے اندر زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، خاندان ہر ایک کے لیے گویا ایک تربیتی اسکول ہے۔ ہر آدمی اپنے خاندان کے اندر اُن تمام باتوں کو سیکھ سکتا ہے جو دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ مگر اِس کی ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آدمی خاندان پرستی کا شکار نہ ہو۔ وہ اپنے خاندان کو بھی اُس نظر سے دیکھے جس طرح کوئی شخص دوسرے انسانوں کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنے مختلف قسم کے کیریکٹر ہیں، وہ سب کیریکٹر ہر آدمی کے اپنے خاندان کے افراد میں موجود ہوتے ہیں۔خاندان ہر آدمی کے لیے روایتی ’’جامِ جمشید‘‘ کی مانند ہے۔ خاندان کے آئینے میں آدمی ہر قسم کے اخلاق کا نمونہ دیکھ سکتا ہے۔ اِس طرح ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں کو دیکھ کر زندگی کا تجربہ حاصل کرے اور اپنی زندگی کی حقیقت پسندانہ انداز میں منصوبہ بندی (planning) کرے۔
مگر بہت کم ایسے افراد ہیں جو اِس قریبی امکان سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اِس محرومی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے لوگوں کے اندر موضوعی طرزِ فکر کا نہ ہونا۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں بہت جلد متعصبانہ طرز فکر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اُن کو اپنے گھر والوں کی غلطی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کے بارے میں غیر ہمدردانہ انداز میں سوچتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں ہمدردانہ انداز میں۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کو دوسری نظر سے۔اِس طرح اُن کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ نہ اپنوں کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہیں اور نہ دوسروں کی زندگی سے کوئی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

تربیت گاہ

ایک حدیث رسول کا ترجمہ یہ ہے: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو (ابن ماجہ، حدیث نمبر 1977)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنے گھر کے لوگوں سے معاملہ کرنے میں بہتر ہوگا ،وہ باہر والوں سے معاملہ کرنے میں بھی بہتر ثابت ہوگا۔ گھر ہر آدمی کی فطری تربیت گاہ ہے۔ گھر کے اندر محدود سطح پر وہ سارے معاملات پیش آتےہیں جو باہر سماج کے اندر زیادہ وسیع طور پر پیش آتے ہیں۔ اس لیےجو آدمی محدود دائرہ میں بہتر انسانیت کا ثبوت دے گا، وہ باہر کے وسیع تر دائرہ میں بھی بہتر انسانیت کا ثبوت دے گا، وہ باہر کے وسیع تر دائرہ میں بھی بہتر انسانیت والا بن کر رہ سکے گا۔ایک صاحب گورنمنٹ سروس میں تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ بیوی کو دبا کر رکھنا چاہیے۔ گھر کے اندر وہ روزانہ اپنے اسی نظریہ پر عمل کرتے۔ وہ ہمیشہ گھر کی خاتون کے ساتھ سخت انداز میں بولتے۔ وہ ان کے ساتھ شدت والا سلوک کرتے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں دب کر رہیں۔
گھر کی تربیت گاہ میں ان کاجو مزاج بنا، اسی کو لے کر وہ دفتر میں پہنچے۔ یہاں ان کی افسر (باس) اتفاق سے ایک خاتون تھیں۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہاں بھی ان کا وہی گھر والا مزاج قائم رہا۔ وہ اپنی افسر خاتون کے ساتھ بھی اسی قسم کا ’’مرادنہ‘‘ معاملہ کرنے لگے ،جس کے عادی وہ اپنے گھر کی خاتون کے ساتھ ہوچکے تھے۔لیڈی افسر ابتداء ً ان کے ساتھ ٹھیک تھی۔ مگر ان کے غیر معتدل انداز نے لیڈی افسر کو بھی ان سے برہم کردیا۔ اس نے بگڑ کر ان کا ریکارڈ خراب کردیا۔ ان کا پروموشن رک گیا۔ وہ طرح طرح کی دفتری مشکلات میں پھنس گئے۔صحیح اصول وہ ہےجو گھر کے اندر اور گھر کے باہر دونوں جگہ یکساں طورپر مفید ہو۔ یہ اصول شرافت کا اصول ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ گھر کے اندر شرافت کے ساتھ رہے۔ وہ بڑوں کو عزت دے اور چھوٹوں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرے۔ یہ اصول گھر کے اندر بھی کامیاب ہے اور گھر کے باہر بھی۔ یہ آدمی کی اپنی ضرورت ہے کہ وہ گھر کے اندر اعتدال کے ساتھ رہے، اور گھر کے باہر بھی۔
واپس اوپر جائیں

حسنِ اخلاق کی وراثت

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: مَا وَرَّثَ وَالِدٌ ولدًا خَیْرًا مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر3658)۔ یعنی کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو سب سےعمدہ وراثت اچھا ادب سکھانا ہے۔
ادب کا مطلب عربی زبان میں حسن اخلاق (good conduct) ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے اندر پہلے اچھی سوچ آتی ہے، اس کے بعد اس کے اندر اچھا اخلاق آتا ہے۔ اچھی سوچ حسن اخلاق کی بنیاد ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کے اندر درست طرز فکر (right thinking)پیدا کرے۔ جس آدمی کے اندر درست طرزِ فکر ہو، اس کا ہر رویہ درست ہوجائے گا۔
ایسے آدمی کی سوچ درست سوچ ہوگی۔ ایسے آدمی کا سلوک، درست سلوک ہوگا۔ ایسے آدمی کا معاملہ (dealing)، درست معاملہ ہوگا۔ ایسےآدمی کی منصوبہ بندی، درست منصوبہ بندی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر مثبت سوچ (positive thinking)کا حامل ہوگا، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے مکمل طور پر خالی ہوگا۔
جس آدمی کے اندر یہ حسنِ ادب موجود ہو، وہ اپنے ہر معاملہ میں ایک بہتر انسان ہوگا۔ ایساآدمی خواہ اپنے گھر کے اندر ہو یا وہ گھر کے باہر ہو، وہ اپنوں سے معاملہ کرے یا غیروں سے معاملہ ۔ ہر حال میں وہ درست رویہ پر قائم رہے گا۔ اس کی درست سوچ ایک ایسا عامل (factor) بن جائے گی، جو اس کو ہر موقع پر بے راہ روی سے بچائے گی۔ ایسا آدمی ایک سنجیدہ انسان ہوگا۔ایسا آدمی ذمہ دارانہ اخلاق کا حامل ہوگا۔ ایسے آدمی کے اندر وہ کردار ہوگا، جس کو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ کسی انسان کے لیے اپنے سرپرستوں کی طرف سے یہ سب سے زیادہ قابل قدر عطیہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

باپ کا تحفہ

اگرکوئی باپ اپنے بچوں کو مادی چیزیں نہ دے سکے۔ مثلاً گھر اور مال جیسی چیزیں اس کے پاس دینے کے لیے نہ ہوں تو ایساباپ ہمیشہ اس احساس میں جیتا ہے کہ میں ایک نالائق باپ ثابت ہوا۔ میں اپنے بچوں کا باپ ہوتے ہوئے بھی ان کی دنیا تعمیر نہ کرسکا۔
اپنے بچوں کے لیے کسی باپ کا یہ احساس کوئی مثبت احساس نہیں۔ اس کے برعکس، صحیح احساس یہ ہے کہ جو باپ اپنے بچوں کے لیے دنیا کی چیزیں دے سکے، وہ اس بات کا شکر ادا کرے کہ اللہ نے اس کو دینے کے قابل بنایا۔ اللہ نے اس کو ہاتھ پاؤں دیا، کمانے کی صلاحیت دی۔ اس طرح وہ اس قابل بنا کہ اپنے بچوں کو دینے کی چیزیں دے سکے۔
لیکن جو باپ اپنے بچوں کو دنیا کی چیزیں نہ دے سکے، اس کے پاس بھی اپنے بچوں کو دینے کے لیے بہت بڑی چیز موجود ہوتی ہے، اور وہ دعا ہے۔ وہ اپنی دعاؤں میں یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ، میں اپنے بچوں کا باپ تھا، لیکن میں اپنے بچوں کو دینے کی چیز نہ دے سکا، تو میرا اور میرے بچوں کا رب ہے۔ تو میرے بچوں کو وہ چیز دے دے ، جو میں ان کو نہ دے سکا، تو میرے بچوں کے لیے میری طرف سے وہ دعا قبول فرما، جس میں تونے انسان کو یہ تلقین کی ہے: رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (2:201)۔
اگر کوئی باپ اپنے بچوں کے لیے یہ دعا کرسکے، تو اس نے اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دی۔ وہ چاہتا تھا کہ خود اپنے آپ کو اپنے بچوں کے لیے دے سکے، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعے اپنے بچوں کو اپنے رب کے حوالے کردے۔ گویا کہ اپنے آپ کو نہ دے کر خود اللہ رب العالمین کا ہاتھ بچوں کے سر پر دے دیا۔ وہ اپنی اولاد کو چھوٹی چیز دینا چاہتا تھا، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دے، یعنی اللہ رب العالمین کو۔
واپس اوپر جائیں

فیملی کلچر کا نقصان

موجودہ زمانے میں خاص طورپر اورمشرقی دنیا میں عام طورپر لوگوں کے درمیان ایک ہی کلچر کا رواج ہے اور وہ فیملی کلچر ہے، یعنی پیسہ کمانا اور گھر والوں کے تقاضے پورا کرنا۔ لوگوں کو صرف یہی ایک ماڈل معلوم ہے، اِس کے سوا کسی اور ماڈل کا اُنھیں علم نہیں۔
اِس فیملی کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ عملاً تحمیق خاندان (befooling of family) کے ہم معنی بن گیا ہے۔اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ کا دائرہ بہت محدود ہوگیاہے۔ اُن کا ذہن صرف اپنی مادی ضرورتوں کے محدود دائرے میں کام کرتاہے۔ وہ اِس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ اِس محدود دائرے کے باہر سوچیں۔ ان کے یہاں کتابوں کے مطالعے کا ماحول نہیں ہوتا۔ اُن کے یہاں سنجیدہ تبادلۂ خیال (serious discussion)کا رواج نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں یہ کلچر نہیں ہوتا کہ وہ رشتےداروں کے علاوہ لوگوں سے ملیں اور اُن سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو جاب کے لیے یا تفریح کے لیے یا شاپنگ کے لیے۔ اِس قسم کی چیزوں کے علاوہ، ان کے یہاں ذہنی ارتقا کا کوئی تصور نہیں۔
اِس فیملی کلچر کا نقصان یہ ہے کہ لوگ بظاہر مادی اعتبار سے آسودہ زندگی گزار رہے ہیں، لیکن عملاً وہ فکری پس ماندگی (intellectual backwardness) کا شکار ہیں۔ اُن سے کسی سنجیدہ موضوع پر بات کیجیے تو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اندر کوئی علمی سوچ نہیں، اُن کو حقائقِ عالم کی معرفت نہیں، زندگی کے زیادہ بڑے مسائل کے بارے میں ان کی کوئی رائے نہیں۔ بظاہر وہ انسان نظر آئیںگے، لیکن عملاً وہ صرف ایک خوش پوش حیوان (well-dressed animal)کی مانند ہوں گے-خاندانی زندگی کی تشکیل اِس طرح ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کے لیے اُن کے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں مددگار ہو، نہ کہ لوگوںکے ذہنی ارتقا کے لیے وہ ایک مستقل رکاوٹ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا اعتراف نہیں

آج کل یہ رواج ہے کہ ایک شخص پیسہ کمائے گا اوراس کے بعد وہ ایک کار خرید کر اپنے بیٹے کو دے گا۔ کار کے شیشہ پر لکھا ہوا ہوگا— باپ کی طرف سے تحفہ (Dad's Gift)۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ناشکری کا کلمہ ہے۔ ایک نعمت جو حقیقۃً خدا کی طرف سے ملی ہے، اس کو خداکی طرف منسوب نہ کرنا، بلکہ اس کو خود اپنے کمالات کے خانے میں ڈال دینا، یہ خدا کے ساتھ بے اعترافی کا معاملہ کرناہے، اور خدا کے ساتھ بے اعترافی بلا شبہ خدا کی اِس دنیا میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کی سورہ النمل میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر سلیمان بن داؤد کو ایک مادّی نعمت ملی تو انھوں نے فوراً کہا:ہَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی (27:40) ۔یعنی یہ میرے رب کے فضل میں سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پیغمبر نے اس کو خدا کا عطیہ (God’s gift) قرار دیا۔ یہی صحیح ایمانی طریقہ ہے۔ صاحبِ ایمان وہ ہے جو ہر چیز کو خدا کی چیز سمجھے، جوہر ملی ہوئی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہوئے خدا کا اعتراف کرے۔
دنیا میںانسان کو جوچیزیں ملتی ہیں، وہ بہ ظاہر خود اپنی کوشش کے ذریعے ملتی ہیں، لیکن یہ صرف اس کا ظاہری پہلوہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہوتی ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری پردے کو پھاڑ ے، وہ اصل حقیقت کو دریافت کرتے ہوئے ہر ملی ہوئی چیز پر یہ کہہ دے کہ یہ میرے رب کا عطیہ ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے مجھ کو دیا گیا۔
اِسی اعتراف (acknowledgment) کا مذہبی نام شکر ہے۔ یہاں اُسی شخص کو جائز طورپر رہنے کا حق حاصل ہے جو شکر و اعتراف کی نفسیات کے ساتھ اِس دنیا میں رہے۔ شکر کی یہی نفسیات موجودہ دنیا میں کسی کو جائز طورپر جینے کا حق دیتی ہے۔ اِس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر ناشکری اور بے اعترافی کی نفسیات ہو، وہ خدا کی اِس دنیا میں مجرم اور درانداز (intruders) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک عام کمزوری

ایک مسلمان اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے۔ ایک گھنٹے کی ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اُن کو کوئی قلبی تعلق نہیں۔ البتہ اِس دوران اُن کے موبائل پر بار بار ان کے بچوں کے ٹیلی فون آتے رہے۔ اپنے بچوں سے ٹیلی فون پر وہ اِس طرح گفتگو کرتے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کو اپنے بچوں سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہے۔
میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا کیس اُسی طرح ایک نادان باپ کا کیس ہے جیسا کہ دوسروں کا کیس ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ آپ کو جو چیز عملاً ملی ہوئی ہے، اُس کو آپ بھر پور طور پر استعمال نہیں کرتے اور جو چیز آپ کو ملنے والی نہیں، اُس کو آپ اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے ہوئے ہیں۔ میںنے کہا کہ آپ کے پاس دو چیزیں ایسی ہیں جو عملاً آپ کو حاصل ہوچکی ہیں— ایک، آپ کا اپنا وجود۔ اور دوسری، آپ کی بیوی۔ آپ نے اپنے معاملے میں یہ کیا کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے، اور بیوی کے معاملے میں آپ کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اُن کو نظر اندازکیے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ مایوسی کا شکار ہیں، وہ اپنی زندگی کا کوئی تخلیقی کردار (creative role) دریافت نہ کرسکیں۔دوسری طرف، آپ کا یہ حال ہے کہ آپ کی تمام دلچسپیاں اپنے بچوں کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں، حالاں کہ یہ بچے آپ کو ملنے والے نہیں۔ آپ کا بیٹا اور آپ کی بیٹی دونوں آپ کو چھوڑ کر خود اپنی الگ زندگی بنائیں گے، وہ ہر گز آپ کے کام آنے والے نہیں۔ آپ ملی ہوئی چیز کو ضائع کررہے ہیں اور نہ ملنے والی چیز کے لیے آپ بے فائدہ طورپر اپنی تمام توجہ لگائے ہوئے ہیں۔
یہ معاملہ موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی ’’کھونے‘‘ کا کیس بن رہا ہے۔ کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’’پانے‘‘ کا کیس نہیں۔ آدمی اپنی اِس غفلت کو اپنی عمر کے آخر میں اُس وقت دریافت کرتاہے، جب کہ اِس تباہ کن غفلت کی تلافی کا وقت اُس کے پاس نہیں ہوتا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حاصل شدہ کو اپنا مرکز ِ عمل بنائے، نہ کہ غیر حاصل شدہ کو۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا طریقہ

ایک صاحب سروس کرتےتھے۔ ایک عرصے تک سروس کرنے کے بعد اُن کو احساس ہوا کہ سروس کی آمدنی بچوں کی ترقی کے لیے کافی نہیں۔اِس لیے انھوںنے سروس چھوڑ دی اور ایک بزنس شروع کردیا، تاکہ وہ زیادہ کمائیں اور بچوں کو زیادہ ترقی دلاسکیں، مگر عملاً یہ ہوا کہ بزنس میں اُن کو مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ چناں چہ وہ ٹینشن میں مبتلا ہو گئے۔ آخر کار، اُن کو کینسر ہوگیا اور بچوں کے لیے زیادہ پیسہ کمانے سے پہلے وہ اس دنیا سے چلے گئے۔
اِس طرح کا واقعہ مختلف صورتوں میں اکثر لوگوں کے ساتھ پیش آتاہے، مگر وہ ہر ایک کے لیے تباہ کن ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ حقیقت پسند (realist)بنیں۔ وہ اپنی زندگی کا منصوبہ خود اپنی استطاعت کی بنیاد پر بنائیں، نہ کہ اپنی اولاد کے بارے میں اپنی امنگوں (ambitions) کی بنیاد پر۔ وہ بچوں کے مستقبل کی تعمیر کے معاملے کو خود بچوں پر چھوڑ دیں۔ وہ ایسا ہر گز نہ کریں کہ بچوں کی خاطر اپنے آپ کو تباہ کرلیں اور آخر کار خود بچوں کو بھی۔بچوں کی ترقی کی سب سے بڑی ضمانت یہ ہے کہ خود اُن کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو، اُن کے اندر داخلی اسپرٹ جاگے، وہ خود حالات کو سمجھیں اور حالات کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ ترقی وہ ہے جو آدمی کو خود اپنی محنت سے ملے۔ دوسروں کی طرف سے دی ہوئی ترقی کوئی ترقی نہیں۔
اِس قسم کی خواہش رکھنے والے لوگ اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں سے جذباتی تعلق کی بنا پر ایسی چیز کے خواہش مند بن جاتے ہیں جو منصوبۂ الہی کے مطابق، اُن کو ملنے والی نہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ اِس معاملے میں وہ اپنے جذبات کے تحت کوئی فیصلہ نہ کرے، بلکہ وہ ایک حقیقت پسند انسان کی طرح حالات پر غور کرے اور فطرت کے قانون کی روشنی میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ یہی مطلب ہے اس اصول کا کہ — اِس دنیا میں کسی آدمی کو وہی ملتاہے جو اللہ نے اُس کے لیے مقدر کردیا ہو، نہ اُس سے زیادہ اور نہ اُس سےکم۔
واپس اوپر جائیں

رزق کا معاملہ

قرآن میں ایک حقیقت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ (31:34)۔ یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ اسی بات کو ایک حدیث رسول میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: جبریل نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم میں سے کوئی اس دنیا سے ہرگز نہیں جاسکتا، یہاں تک کہ وہ اپنے رزق کو مکمل کردے (حَتَّى یَسْتَکْمِلَ رِزْقَہُ)،تو اے لوگو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اور طلب میں خوبصورتی پیدا کرو۔(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر2136)
قرآن کی اس آیت اور اس حدیثِ رسول کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی معاش کا معاملہ خالق کی طرف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ انسان کے باپ کی طرف سے۔ موجودہ زمانہ اس معاملے کا ایک مظاہرہ (demonstration) ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر جگہ یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ باپ اندھا دھند کماتا ہے۔ اس کا یہ کمانا، اور گھر بنانا ، اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے بچے اس کے اندر آرام کی زندگی گزاریں۔ لیکن ہر ایک کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ باپ کی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا، ان کو نصیب نہیں ہوتا۔ وہ عملاً اس دنیا میں جیتا اور مرتا ہے، جو اس نے خود بنائی تھی۔ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو صرف ایک نسل میں زندگی کا سارا نقشہ بدل جاتا ہے۔ باپ نے کچھ چاہا تھا، اور عملاً کچھ اور ہوا۔
اس عام تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ رازق بننے کی کوشش کرے۔ باپ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو زندگی کا شعور دے۔وہ اپنی اولاد کو رازِ حیات بتائے۔ وہ اپنی اولاد کو خالق کا تخلیقی نقشہ بتائے، نہ یہ کہ وہ خود خالق کی سیٹ پر بیٹھ جائے۔ اس کے علاوہ باپ کچھ بھی کرے، لیکن عملاً وہی ہوگا، جو خالق نے مقدر کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

گھرایک تربیت گاہ

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی(ابن ماجہ،حدیث نمبر1977)۔ یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کسی سماج کا ایک ابتدائی یونٹ ہے۔جوکچھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پورے سماج میں پیش آتا ہے وہی گھر کے اندر چھوٹے پیمانہ پر پیش آتا ہے۔ آدمی کے اچھے یا برے ہونے کافیصلہ باہمی تعلقات کے درمیان ہوتاہے۔ ہر گھر گویا انہی تجربات کا ایک چھوٹا ادارہ ہے اور ہر سماج انہی تجربات کا ایک بڑا ادارہ ۔
ہر عورت یا مرد جب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ، کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات، کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے، کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں، کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے شعور ایمان کو زندہ رکھیں، وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے زندگی گذاریں، اُن کو ہمیشہ آخرت کی پکڑ کا احساس لگا ہوا ہو۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی مذکورہ بالا قسم کا کوئی موقع اُن کے سامنے آئے گا تو وہ متنبہ ہوجائیں گے اور صحیح اسلامی روش کو اختیار کریں گے۔
جو عورت اور مرد اپنے گھر کے اندر اس قسم کی ہوش مندانہ زندگی گذاریں، اُن کے لیے اُن کا گھر ایک تربیت گاہ بن جائے گا۔ اُن کے گھر کا ماحول اُنہیں ہر صبح و شام تیار کرتا رہے گا۔ اُن کی یہ زندگی اُن کے لیے اس بات کی ضمانت بن جائے گی کہ جب وہ گھر کے باہر سماجی زندگی میںآئیں تو وہ سماج کے اندر بھی اُسی طرح ایک حق پرست انسان ثابت ہوں جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر حق پرست انسان ثابت ہوئے تھے۔
ایک آدمی جواپنے گھر کے اندر لڑتا جھگڑتا ہو وہ اسی طرزِ زندگی کا عادی بن جائے گا۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آئے گا تو یہاں بھی وہ لوگوں سے لڑنے جھگڑنے لگے گا۔ اپنے آفس میں، اپنے کاروبار میں ، روز مرہ کی زندگی میںوہ دوسروں کے ساتھ بھی اُسی طرح غیر معتدل انداز میں رہے گا جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر غیر معتدل انداز میں رہ رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس کے گھر کے معاملات بھی بگڑ جائیں گے اور اُس کے باہر کے معاملات بھی۔
اسی طرح کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھر کے اندر تو غیر مہذب انداز میں رہتے ہیں لیکن جب وہ باہر آتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اُن کا رویّہ تہذیب اور شائستگی کا رویّہ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ مگر یہ ایک منافقت ہے، اور اللہ کو منافقت پسند نہیں۔
کسی مسلمان پر جو دینی ذمہ داری ہے وہ صرف اس طرح ادا نہیں ہوجاتی کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے اور مکہ جاکر حج کرلے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا اخلاق اچھا ہو۔ انسانوں کے ساتھ سلوک میںوہ خدائی احکام کی پابندی کرتاہو، لوگوں کے درمیان وہ اس احساس کے ساتھ رہے کہ اُس کو اپنے ہر قول اور ہر فعل کاجواب خدا کو دینا ہے۔
موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کی اصلاح

ایک خاتون نے کہا کہ آپ بچوں کی تربیت پر مضمون لکھئے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ میںنے کہا کہ بچوں کی اصلاح پر بے شمار مضمون لکھے گئے ہیں۔ہر روز بچوں کی اصلاح پر تقریریں ہورہی ہیں ، لیکن اِس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی اصلاح کے معاملے میں اصل ضرورت مضمون یا تقریر کی نہیں ہے۔ اِس معاملے میں اصل ضرورت یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے معاملے میں اپنے رویے کو بدلیں۔ تمام والدین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا معاملہ کرتے ہیں۔ یہی لاڈ پیار بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ جب تک والدین اپنے لاڈ پیار کو ختم نہ کریں، بچوں کی کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
میری بات سن کر مذکورہ خاتون نے کہا کہ بچوں کے ساتھ سختی بھی تو نہیں کی جاسکتی۔ میں نے کہا کہ میں نے آپ سے یہ نہیں کہاتھا کہ بچوں کے ساتھ سختی کیجیے۔ میں نے صرف آپ سے یہ کہا تھا کہ بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کو چھوڑ دیجیے۔ والدین کا یہی مزاج بچوں کی خرابی کی اصل جڑ ہے۔ آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ لاڈ پیا رنہ کرنا اُن کے ساتھ سختی کرنا ہے۔ والدین اپنے بچوںکے لیے اتنے حساس ہوتے ہیں کہ وہ لاڈ پیار نہ کرنے کو سختی کرنا سمجھ لیتے ہیں، اِس لیے وہ لاڈ پیار کو چھوڑ نہیں پاتے۔
پھر میںنے کہا کہ آپ خواہ لاڈ پیا رکتنا ہی زیادہ کریں، بچوںکے تقاضے کبھی ختم نہیںہوتے۔ بچے برابر اور زیادہ اور زیادہ کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ اِس بنا پر والدین یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے ابھی کچھ نہیںکیا۔ ہم نے ابھی بچوں کے تقاضے پورے نہیں کیے۔ اس بنا پر تمام والدین لاڈ پیار کے اس احساس میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم تو لاڈ پیار نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں لاڈ پیا رکا غلط معیار رہتاہے، یعنی بچے جب مزید تقاضا نہ کریں تو وہ سمجھیں گے کہ ہم نے لاڈ پیار کیا۔ مگر خواہشات کے معاملے میں بچہ اور بڑا دونوں کا یہ حال ہوتاہے کہ ان کو کچھ بھی مل جائے، وہ ان کی خواہشوں سے کم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ نئے تقاضے جاری رہتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا بگاڑ

ایک صاحب نے کہا کہ آج کل والدین عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ اُن کے بچے بگڑ گئے ہیں۔ اِس کا ذمے دار وہ سب سے زیادہ ٹی وی کو بتاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹی وی نے ان کے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔ انھوںنے پوچھا کہ اِس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
میںنے کہا کہ یہ سارا معاملہ اگر ٹی وی کا معاملہ ہے تو والدین کیوں اپنے گھر میں ٹی وی رکھتے ہیں۔ بچے خود خرید کر ٹی وی نہیں لاتے۔ یہ والدین ہیں جو بچوں کو خوش کرنے کے لیے ٹی وی لاکر اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ اِس لیے اِس معاملے میں اصل ذمے دار خود والدین ہیں، نہ کہ بچے۔
حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب لاڈ پیار (pampering) ہے۔ والدین کا نظریہ اپنے بچوں کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہر خواہش کو پورا کیا جائے۔ بچے جب تک چھوٹے ہیں، ان کی خواہش کھانے اور کپڑے جیسی چیزوں تک محدود رہتی ہے۔ اِس لیے چھوٹی عمر میں والدین اپنے نظریے کی غلطی سمجھ نہیں پاتے ، لیکن جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو اُن کی دلچسپیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اب وہ دوستی ، آؤٹنگ، کلب اور لو افیئر (love affair)جیسی چیزوں کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو والدین روک ٹوک کرتے ہیں، مگر بچے ان کی روک ٹوک کو قبول نہیں کرتے۔ یہ بلاشبہ خود والدین کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
چھوٹی عمر میں والدین نے اپنے بچوں کے اندر یہ ذہن بنایا کہ میری ہر خواہش پوری ہونی چاہیے۔ بالغ ہونے کے بعد اِس مزاج نے مزید ترقی کی۔ اب وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُن چیزوں کی طرف جانے لگے جو والدین کو پسند نہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ ’’میری خواہش سب کچھ ہے‘‘کا مزاج بچوں کے اندر کس نے پیدا کیا، یہ خود والدین نے اپنے لاڈ پیار سے پیدا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ محبت کے نام پر دشمنی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

معکوس تربیت

ایک مسلم تاجر کا واقعہ ہے۔ ان کی بیٹی نے اُن سے اپنی کسی ضرورت کے لیے پیسہ مانگا۔ مذکورہ مسلم تاجر نے اپنی بیٹی سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ انھوں نے فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اُس وقت ان کی جیب میں جتنے نوٹ تھے، وہ سب نکال کر انھوں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ میں رکھ دیا اور کہا کہ یہ لو، تم ہی لوگوں کے لیے تو کماتے ہیں۔
یہ کوئی استثنائی واقعہ نہیں۔ یہی سارے والدین کا حال ہے۔ والدین خود تو محنت کرتے ہیں، وہ مشقت کی کمائی کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کے بارے میں ان کا ذہن یہ رہتاہے کہ ان کی اولاد کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ خود تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنی اولاد کو ہر قسم کی راحت اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، خواہ اُنھیں اس کی جو بھی قیمت دینی پڑے۔
والدین کا یہ مزاج ان کی اولاد کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ والدین کا یہ مزاج اولاد کی معکوس تربیت کے ہم معنیٰ ہے۔ ان کی اولاد کو آخر کار جس دنیا میں داخل ہونا ہے، وہ حقائق کی دنیا ہے۔ وہاں کا اصول یہ ہے کہ— جتنا کرو، اتنا پاؤ۔
لیکن والدین گھر کے اندر اپنی اولاد کے اندر جو مزاج پیدا کرتے ہیں، وہ اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ گھر کا ماحول کیے بغیر پانے کا ماحول ہوتا ہے، اور گھر کے باہر کا ماحول کرکے پانے کا ماحول۔
اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج کا ہر نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں دونوں، منفی ذہن کا شکار ہورہے ہیں۔ اُنھیں دنیا کے ہر شخص سے شکایت ہوتی ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر ان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ میرے ماں اور باپ بہت اچھے تھے، بقیہ تمام لوگ نہایت برے ہیں۔
اِس صورتِ حال نے آج کی دنیا میں دو چیزوں کا خاتمہ کردیا ہے— محنت کے ساتھ اپنا کام کرنا، اور لوگوں کا خیر خواہ (well-wisher) بن کر اُن کے درمیان رہنا۔
واپس اوپر جائیں

فرضی محبت

ایک مسلم لڑکی اپنے ماں باپ کی اکیلی اولاد تھی۔اس کے والدین نے دھوم کے ساتھ اس کی شادی کی۔ اس کے بعد وہ رخصت ہو کر اپنی سسرال گئی۔ اس کے یہاں ایک بچہ بھی پیدا ہوگیا۔ مگر دو سال کے بعد وہ اپنے شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس واپس آگئی۔ اُس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ میرا شوہر نہایت سخت مزاج ہے، اس کے ساتھ میرا نباہ نہیں ہوسکتا۔
لڑکی کے والدین نے اس سے زیادہ پوچھ گچھ(scrutiny)نہیں کی، جو کچھ لڑکی نے کہا، اس کو انھوں نے درست مان لیا۔ انھوں نے کہا کہ بیٹی، تم فکر نہ کرو۔ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ تم یہاں آرام کے ساتھ رہو، تم کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔
مجھ سے ملاقات ہوئی تو میںنے لڑکی سے پوچھ گچھ کی، تاکہ اصل حقیقت معلوم ہوسکے۔ لڑکی نے بتایا کہ میرا شوہر ہر معاملے میں سختی کرتاہے۔ میںنے مثال پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرا شوہر مجھ کو شاپنگ کے لیے نہیں لے جاتا، وہ آؤٹنگ(outing)کا پروگرام نہیں بناتا۔ میںنے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ شاپنگ کا مطلب پیسے کا ضیاع(waste of money) ہے، اور آؤٹنگ کا مطلب وقت کا ضیاع(waste of time) ہے۔ آپ کا شوہر بہت اچھا کرتاہے کہ وہ آپ کو ایسی بے فائدہ چیزوں سے بچاتا ہے۔
ماں باپ نے لڑکی کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ محبت کا واقعہ تھا اور شوہر نے جو کچھ کیا، وہ خیرخواہی کا واقعہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ محبت کے مقابلے میں، خیر خواہی زیادہ بڑی چیز ہے۔ مگر اکثر لوگ اِس فرق کو نہیں جانتے۔ اِس لیے وہ محبت کرنے والے کو اپنا ہمدرد سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ اصل ہمدرد وہ ہے جو آپ کے ساتھ سچی خیر خواہی کرے۔
محبت صرف ایک جذباتی چیز ہے، جب کہ خیر خواہی ایک خالص عقلی رویہ ہے۔ وہ شخص بہت خوش قسمت ہے جس کو اپنی زندگی میںایک سچا خیر خواہ مل جائے۔
واپس اوپر جائیں

خیر خواہی یا بد خواہی

ایک باپ نے اپنی بیٹی کی شادی دور کے مقام پر کی۔ یہ بیٹی اپنے میکہ میں اس طرح رکھی گئی تھی کہ اس نے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ اس کے والدین کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ بیٹی خوش رہے۔ اس کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ مگر باپ جانتا تھا کہ سسرال میں ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ اس نے بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کہا کہ اب تم جہاں جارہی ہو، وہ تمھارے لیے ایک مختلف دنیا ہوگی۔ میکہ میں تم کو جو آرام ملا، سسرال میں تم اس کی امید نہ رکھنا۔
باپ نے اپنی سمجھ کے مطابق، یہ مشورہ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت دیا۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ بدخواہی کامشورہ تھا۔ حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی بیٹی اپنے سسرال میںہمیشہ منفی ذہن کے تحت رہے۔ وہ ہمیشہ احساسِ محرومی کا شکار رہے۔ وہ ہمیشہ یہ سمجھتی رہے کہ میرے میکہ کے لوگ بہت اچھے تھے اور میری سسرال کے لوگ بہت برے ہیں۔ میکہ والوں کے لیے اس کے دل میں جھوٹی محبت اور سسرال والوں کے لیے اس کے دل میں جھوٹی شکایت بھر جائے۔ ساری زندگی وہ اس احساس میں جیے کہ میری شادی غلط ہوگئی۔ وہ ہمیشہ میکہ والوں کو اچھا سمجھے اور سسرال والوں کو ہمیشہ برا سمجھتی رہے۔
موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ اپنی بیٹی کے حق میںاسی قسم کی فرضی خیر خواہی کرتے ہیں جو عملاً بیٹی کے لیے صرف ایک مستقل بد خواہی بن جاتی ہے۔ بیٹی اپنے میکہ کی کنڈیشننگ کی بنا پر خود سے کبھی اس معاملہ کو سمجھ نہیں پاتی، اور ماں باپ کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ اس کی کنڈیشننگ کو مزید پختہ کردیتے ہیں، وہ اس کی کنڈیشننگ کا خاتمہ نہیںکرتے۔
صحیح یہ ہے کہ باپ یا تو اپنی بیٹی کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا سلوک نہ کرے، یا کم ازکم یہ کرے کہ وہ اپنی بیٹی سے بوقتِ رخصت کہہ دے کہ ہم نے جو کچھ کیا، وہ غیر فطری طریقہ تھا، فطری طریقہ وہی ہے جس سے تم کو سسرال میں سابقہ پیش آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ

کامیاب زندگی کا ایک راز یہ ہے کہ چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ نہ لیا جائے۔ اجتماعی زندگی میں چھوٹی شکایتیں ہمیشہ پیش آتی ہیں۔ دانش مند وہ ہے جو چھوٹی شکایتوں کو نظر انداز کرے، اور نادان آدمی وہ ہے جو چھوٹی شکایت پر مشتعل ہوجائے اور اس کی بنیاد پر انتہائی فیصلہ لینے لگے۔ اِسی نوعیت کا ایک مشہور واقعہ وہ ہے جو سنڈے ٹائمس، لندن کے حوالے سے نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (17 اگست 2009 ) میں شائع ہوا ہے۔
لیبیا کے حکمراں معمّرالقذافی کے 33 سالہ بیٹے ہنی بال (Hannibal)جنیوا (سوئزر لینڈ) گئے۔ وہاں وہ ایک ہوٹل میں ٹھیرے۔ اُن کے ساتھ ان کی بیوی العین (Alaine)بھی تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہوٹل کی ایک تونیسی ملازمہ مونا (Mona) کی کسی بات پر العین کو غصہ آگیا۔ العین نے اُس کو مارا اور دھمکی دی کہ میں تم کو ہوٹل کی کھڑکی سے باہر پھینک دوں گی۔
اِس واقعے کی خبر مقامی پولس کو ہوئی۔ پولس نے ہنی بال اور العین کو گرفتار کرلیا۔ اگرچہ جلد ہی ان کو رہا کردیا گیا، لیکن اِس واقعے کی خبر جب ہنی بال کے والد معمر القذافی کو پہنچی تو اس کو انھوں نے اپنی بے عزتی (humiliation) سمجھا، وہ سخت غضب ناک ہوگئے۔ انھوںنے سوئزر لینڈ کے خلاف کئی سخت اقدامات کیے— سوئزر لینڈ سے ہوائی سروس منقطع کرنا، سوئزر لینڈ کی کئی کمپنیوں کے لیبیا میں موجود دفتروں کو بند کردینا، وغیرہ۔ حتی کہ انھوں نے کہا:
If I had an atomic bomb, I would wipe Switzerland off the map!
یہ واقعہ چھوٹی شکایت پر انتہائی اقدام کی ایک مثال ہے۔ اِس قسم کا اقدام ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ خواہ کوئی معمولی آدمی ہو یا کوئی بڑا آدمی، کوئی بھی اِس قسم کے انتہائی اقدام کے منفی نتائج سے بچ نہیں سکتا۔ جلد یا بدیر آدمی کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے، لیکن بعد کو اُس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ طلاق کے واقعے سے لے کر قومی جنگ تک، ہر معاملے میںاس کی مثالیں موجود ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اولاد پرستی کا فتنہ

ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ شرمندہ وہ شخص ہوگا جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنی آخرت کو بیچ دے (إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ نَدَامَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ رَجُلٌ بَاعَ آخِرَتَہُ بِدُنْیَا غَیْرِہِ)۔التاریخ الکبیر للبخاری، حدیث نمبر 1927۔ یہ حدیث موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ اُن لوگوں پر چسپاں(apply)ہوتی ہے جو صاحبِ اولاد ہیں۔ موجودہ زمانے میں صاحبِ اولاد لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کی اولاد اُس کا سپریم کنسرن بنی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں مصروف ہے، اور خود اپنی آخرت کی خاطر کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں۔
موجودہ زمانے میں ہر آدمی اِس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ اس کی اولاد اُس کے لیے صرف امتحان کا پرچہ (الانفال،8:28) ہے۔ اولاد اس کو اِس لیے نہیں ملی ہے کہ وہ بس اپنی اولاد کو خوش کرتا رہے، وہ اپنی اولاد کی دنیوی کامیابی کے لیے اپنی ساری توانائی لگادے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو بظاہر مذہبی وضع قطع بنائے رہتے ہیں اور رسمی معنوں میں صوم و صلاۃ کی پابندی بھی کرتے ہیں، لیکن عملاً وہ اپنا سارا وقت اور اپنی بہترین صلاحیت صرف دنیا کمانے میں لگائے رہتے ہیں، صرف اِس لیے کہ جب وہ مریں تو اپنی اولاد کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ سامانِ دنیا چھوڑ کر جائیں۔
مگر ایسے لوگ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ خدا کو دینے کے لیے اُن کے پاس صرف کچھ ظاہری رسوم ہیں اور جہاں تک حقیقی زندگی کا تعلق ہے، اس کو انھوں نے صرف اپنی اولاد کے لیے وقف کررکھا ہے۔ یہ خدا پرستی نہیں ہے بلکہ وہ اولاد پرستی ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد پرستی کا طریقہ کسی کو خدا پرستی کا کریڈٹ نہیں دے سکتا۔ خدا پرستی، زندگی کا ضمیمہ (appendix) نہیں، حقیقی خدا پرستی وہ ہے جو انسان کی پوری زندگی کا اِحاطہ کیے ہوئے ہو۔
واپس اوپر جائیں

خوش فکری، یا حقیقت پسندی

ایک باپ کو اپنے بیٹے سے بہت تعلق تھا۔ باپ کے ذہن میںکام کا ایک آئڈیل تصور تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اُس آئڈیل کام کے لیے تیار کرے۔ اِس مقصد کے لیے اُس نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اُس کی امیدیں تمام تر اپنے بیٹے سے وابستہ ہوگئیں۔ جب بیٹا بڑا ہوگیا اور اس کی تعلیم مکمل ہوگئی تو باپ نے چاہا کہ اس کا بیٹا اس کے پسندیدہ کام میں لگے۔ لیکن بیٹے نے انکار کردیا۔ باپ نے بہت کچھ کہا، لیکن بیٹے کی سمجھ میں نہ آیا۔ بیٹے نے آخری طورپر اپنے باپ سے کہہ دیا— بیٹا جب بڑا ہوجاتا ہے تو وہ خود اپنی عقل سے کام کرتا ہے۔
بیٹے کا یہ جواب سُن کر باپ کو اتنی مایوسی ہوئی کہ وہ نفسیاتی مریض بن گیا۔ اس کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں باپ کی غلطی تھی، نہ کہ بیٹے کی غلطی۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ ہر بچہ عقل وشعور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹی عمر میں جب وہ ناپختہ (immature) ہوتا ہے، اُس وقت وہ باپ اور ماں کی بات کو سنتا ہے۔ لیکن جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کا شعور پختہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر خود فکری (self-thinking) کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی عقل سے آزادانہ فیصلہ کرنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے والدین کی سوچ غیر فطری ہے، وہ کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔
والدین کو چوں کہ اپنے بیٹے سے بہت زیادہ محبت ہوتی ہے۔ محبت کے جذبے کے تحت، وہ اپنے بیٹے کے بارے میں خوش فکر (wishful) بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے ایسی امیدیں قائم کرلیتے ہیں جو قانونِ فطرت کے خلاف ہوتی ہے۔
اِس خوش فکری (wishful thinking) میں تقریباً ہر باپ مبتلا رہتا ہے۔ اِس قسم کی خوش فکری اِس دنیا میں کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسند بنیں، تاکہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں

ایک سینئر مسلم تاجر سے ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ کو خدا نے 95 سال کی عمر دی، یعنی تقریباً ایک صدی۔ اِس لمبی زندگی میں آپ نے کیا سیکھا اورکیا تجربہ کیا۔ اِس سوال کے بعد وہ دومنٹ چپ رہے۔ اس کے بعد انھوںنے نہایت سنجیدہ انداز میں کہا— کوئی تجربہ نہیں۔ بس پیداہوئے۔ بڑے ہوئے تو بزنس میں لگ گئے۔ شادی کی اور بچے پیدا کیے۔ بچوں کو سیٹل (settle)کیا۔ اب آخر عمر میں بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں، اور موت کا انتظار کررہے ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہی ہر گھر کی کہانی ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی تمام محبتوں کا مرکز بناتے ہیں۔ بچوں کی زندگی سنوارنے کے لیے وہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں، مگر آخر میںہر ایک کا یہ حال ہوتا ہے کہ بچے غیر وفادار نکلتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی آزاد زندگی بنا لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ماں باپ کی خدمت ایک فرسودہ تصور بن چکا ہے۔ بچوں کی ترقی کو ماں باپ اِس حسرت کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں کہ جس پیڑ کو ہم نے محنت کرکے اگایا تھا، اُس پیڑ کا سایہ اُنھیں حاصل نہیں ہوا۔
حدیث میںآیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ بچے اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کریں گے، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی کریں گے (بَرَّ صَدِیقَہُ، وَجَفَا أَبَاہُ)۔سنن الترمذی، حدیث نمبر 2210۔ یہ حدیثِ رسول، موجودہ زمانے پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ آج ساری دنیا میں عمومی طورپر ایسا ہی ہورہا ہے۔ اِس واقعے کا سب سے زیادہ بُرا حصہ اُن لوگوں کو مل رہا ہے جو ساری زندگی بچوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور آخر میں ان کے حصے میں غم کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ مزید یہ کہ ایسے ماں باپ اُس حدیث کا مصداق ہیں جس میںکہاگیا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھودے (أَذْہَبَ آخِرَتَہُ بِدُنْیَا غَیْرِہِ) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966۔
واپس اوپر جائیں

اہل وعیال کا فتنہ

حدیث کی کتابوں میںاہل وعیال کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن میں سے دو روایتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: الْوَیْلُ کُلُّ الْوَیْلِ لِمَنْ تَرَکَ عِیَالَہُ بِخَیْرٍ وَقَدِمَ عَلَى رَبِّہِ بِشَرٍّ(مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 314)۔ یعنی کامل تباہی وبربادی ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے عیال کو اچھی حالت میں چھوڑا، اور خود برے حال میں اپنے رب کے پاس پہنچا۔دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:یُؤْتَى بِرَجُل یَوْم الْقِیَامَة فَیُقَال أکل عِیَالہ حَسَنَاتہ(تخریج الأحادیث فی تفسیر الکشاف للزیلعی، حدیث نمبر 1357)۔یعنی قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا اورکہا جائے گا کہ اس کے اہل وعیال اس کی نیکیاں کھا گئے۔
قدیم زمانے میں صرف کچھ افراد اِس قسم کے ہوتے تھے، لیکن موجودہ زمانے میں اِس پہلو سے بگاڑ کا یہ حال ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے جیسے تمام لوگ اِس تباہ کن کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اِس کم زوری کا سبب حبّ ِعیال ہے۔ بظاہر لوگ خدا کا اور اسلام کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کی محبتیں صرف اپنے اہل وعیال سے ہوتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کاسب سے بڑا کنسرن اُن کے اہل وعیال ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال و اسباب کو اپنے اہل وعیال کے لیے وقف کیے رہتے ہیں۔ موت ایسے لوگوں کے لیے ایک جبری انقطاع(compulsive detachment) کے طورپر آتی ہے۔ ایسے لوگ جب موت کے بعد خدا کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔یہ بلاشبہ سب سے بڑی محرومی ہے۔ حدیث کے مطابق،یہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو تباہ کرنا ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966) ۔مزید یہ کہ یہ اہل وعیال جن کو آدمی اپنا سب کچھ دے دیتا ہے، وہ موت کے بعد اُس سے اِس طرح جدا ہوجاتے ہیں کہ دوبارہ وہ اُس کو کبھی نہیں ملتے۔
واپس اوپر جائیں

پرچۂ امتحان

یوپی کے ایک مسلمان دہلی میں آکر آباد ہوئے۔ انھوںنے پراپرٹی کا بزنس کیا۔ انھوں نے اِس بزنس میں کافی دولت کمائی۔ مگر اُن کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ ایک بار ان کی ماں دہلی آئیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا دہلی میں ایک بڑے گھر میں رہتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز اس کے پاس ہے، مگر شادی کو کافی عرصہ گزرنے کے باوجود اُن کے یہاں اولاد نہیں ہوئی۔اُن کی ماں اِس بات پر کافی پریشان ہوئیں۔ وہ اکثر کہتی تھیں — ہائے میرے بیٹے کی دولت کون لے گا۔
اِس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ (التغابن،64:15)کیوں کہاگیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے بیٹے کو اپنی ذات کی توسیع (extension) سمجھتے ہیں۔ اُن کو یقین ہوتا ہے کہ اُن کی کمائی ان کے بعد ضائع نہیں ہوگی، بلکہ اپنے بیٹے کی صورت میں بالواسطہ طورپر وہ اُن کو حاصل رہے گی۔
اولاد کے بارے میں اِسی تصور کی بنا پر لوگوں کے لیے اولاد ایک فتنہ بن جاتی ہے۔ اِس تصور کے تحت جو ذہن بنتا ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی موت کی سنگینی سے غافل ہوجاتا ہے۔ موت کے بعد کے احوال پر وہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچتا۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ موت اور موت کے بعد کی حقیقتوں کے معاملے سے بے خبر ہوجاتا ہے۔
اولاد کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اُس کے ذریعے نسلِ انسانی کا بقا وتسلسل جاری رہتا ہے۔ جہاں تک دولت کی بات ہے، وہ باپ کے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے، اور بیٹےکے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ۔ دولت کو اگر اِس ذہن کے تحت دیکھا جائے تو دولت کبھی مسئلہ نہ بنے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ کسی والدین کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے بہترین تحفہ یہ ہے کہ وہ تعلیم وتربیت کے ذریعے اس کو اچھا انسان بنائے۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر 1952)
واپس اوپر جائیں

ہاتھی کی دم میں پتنگ

اکثر والدین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں بچوں کی دینی تربیت کے لیے کیا کیا جائے۔ میرا جواب ہمیشہ ایک رہتا ہے— بچوں کی تربیت سے پہلے خود اپنی تربیت کیجیے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب خارجی ماحول نہیں ہے، بلکہ گھر کا داخلی ماحول ہے۔ گھر کا داخلی ماحول کون بناتا ہے، یہ والدین ہیں جو گھر کا داخلی ماحول بناتے ہیں۔ جب تک گھر کے داخلی ماحول کو حقیقی معنوں میں دینی، یعنی آخرت پسندانہ ماحول نہ بنایا جائے، بچوں کے اندر کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
موجودہ زمانے کا اصل فتنہ مال ہے۔ آج کل ہر آدمی زیادہ سے زیادہ مال کما رہا ہے۔ اِس مال کا مصرف والدین کے نزدیک صرف ایک ہے، اور وہ ہے گھرکے اندر ہر قسم کی راحت کے سامان اکھٹا کرنا، اور بچوں کی تمام مادّی خواہشوں کو پورا کرنا۔ موجودہ زمانے میں یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ اِس معاملے میں شاید کسی گھر کا کوئی استثنا نہیں، خواہ وہ بے ریش والوںکا گھر ہو، یا باریش والوں کا گھر۔والدین کے اِس مزاج نے ہر گھر کو مادّہ پرستی کا کارخانہ بنادیا ہے۔ تمام والدین اپنے بچوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر مادّہ پرستانہ ذہن بنانے کے امام بنے ہوئے ہیں۔ اِسی کے ساتھ تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے آخرت کی جنت سے بھی محروم نہ رہیں۔ اِسی مزاج کے بارے میں ایک اردو شاعر نے کہا تھا— رِند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
مگر یہ صرف ایک خوش خیالی ہے جو کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ تمثیل کی زبان میں یہ ’’ہاتھی کی دم میں پتنگ باندھنا‘‘ ہے۔ موجودہ زمانے کے والدین ایک طرف، اپنے بچوں کو ’’مادّی ہاتھی‘‘ بناتے ہیں۔ دوسری طرف، وہ چاہتے ہیں کہ اِس ہاتھی کی دم میں دین کی پتنگ باندھ دی جائے۔ مگر ایسی پتنگ کا حال صرف یہ ہونے والا ہے کہ ہاتھی ایک بار اپنی دم کو جھٹکا دے اور یہ پتنگ اُڑ کر بہت دور چلی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو دین دار، یعنی آخرت پسند بنانا چاہتے ہیں تو وہ اُس کی قیمت ادا کریں، ورنہ وہ فرضی طورپر اِس قسم کی منافقانہ بات کرنا بھی چھوڑ دیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر گھر بگاڑ کا کارخانہ

آج کل عام طورپر یہ حال ہے کہ ہر گھر میںایک طرف اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کی تعریف کی جاتی ہے، اُن کا ذکر ہمیشہ مثبت انداز میں کیا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جب بھی دوسروں کا چرچا کیا جاتا ہے تو وہ تنقیص کے انداز میں ہوتا ہے۔
اپنوں کے بارے میں مثبت باتوں کا چرچا اور دوسروں کے بارے میں منفی باتوں کا چرچا، یہ کلچر اـتنا زیادہ عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اِس سے خالی ہو۔
گھر کے اندر سماج کے شہری بنتے ہیں، لیکن مذکورہ کلچر نے گھر کو اِس قابل نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنے سماج کے لیے اچھے شہری سپلائی کرے۔ ہر گھر میںایسے عورت اور ایسے مرد بن کر تیار ہورہے ہیں جو اپنوں کے بارے میں مثبت رائے اور دوسروں کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، جن کو اپنوں سے محبت ہے اور دوسروں سے نفرت ، جو اپنوں کے بارے میں روادار (tolerant) ہیں اور دوسروں کے بارے میںوہ غیر روادار(intolerant)بنے ہوئے ہیں، جن کے اندر اپنوں کو دینے کا ذہن ہے اور دوسروں سے صرف لینے کا ذہن، جو اپنوں کو برتر سمجھتے ہیںاور دوسروں کو کم تر، جو اپنوں کی ترقی پر خوش ہوتے ہیںاور دوسروں کی ترقی دیکھ کر اُنھیں کوئی خوشی نہیں ہوتی، جو اپنوں کی تکلیف سے فکر مند ہوتے ہیں اور دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر انھیں کوئی فکر مندی لاحق نہیں ہوتی، وغیرہ۔
اِس صورتِ حال کا یہ نتیجہ ہے کہ اب سماجی اقدار (social values) کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ اب ایک ہی چیز ہے جو ہر ایک کا واحد کنسرن (sole concern) بنی ہوئی ہے، اور وہ ہے ذاتی مفاد(self-interest)۔ اِس صورتِ حال نے ہر ایک کو خود غرض اور استحصال پسند بنا دیا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ یہ صورتِ حال بے حد سنگین ہے۔ اِس کی اصلاح جلسوں اور تقریروں کے ذریعے نہیں ہوسکتی، اس کی اصلاح کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گھر والے اپنے گھر کے ماحول کو درست کریں۔گھر کے ماحول کو درست کیے بغیر اِس سنگین صورتِ حال کی اصلاح ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بچوں کا قبرستان

ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہمارے مشن سے جڑے ہوئے تھے۔ اُس وقت ان کے یہاں اولاد نہیں تھی، پھر ان کے یہاں بچے پیدا ہوئے۔ اِس کے بعد وہ دھیرے دھیرے مشن سے دور ہوگئے۔ ایک عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے دعوتی کام کو کیوں چھوڑ دیا۔ انھوں نے کہا— بچوںکی ذمے داریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب وقت نہیں ملتا۔
موجودہ زمانے میں یہی کم و بیش ہر آدمی کا حال ہے۔ لوگوں کے لیے ان کے بچے ان کا قبرستان بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے اس کے بچے اس کا واحد کنسرن (sole concern) ہیں۔ ہر آدمی اپنا پیسہ، اپنا وقت، اپنی انرجی، غرض جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ اس کو اپنے بچوں کے لیے وقف کیے ہوئے ہے۔ دوسروں کے لیے اس کے پاس صرف زبانی ہمدردی (lip service) ہوتی ہے، اور اپنی اولاد کے لیے حقیقی عمل، حتی کہ خدا کے لیے یا خدائی کام کے لیے بھی اس کے پاس صرف الفاظ ہوتے ہیں، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
آج جس شخص سے ملاقات کیجیے، وہ اپنے بچوںکے لیے فکر مند ہوگا، لیکن وہ خود اپنے مستقبل کے لیے فکر مند دکھائی نہ دے گا۔ یہ عین وہی صورتِ حال ہے جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیاگیا ہےکہ دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھو دینا(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966)۔ اِس معاملے کا سب سے زیادہ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ لوگ محبتِ اولاد میں اتنا زیادہ غرق ہیں کہ وہ اِس حدیثِ رسول کا مصداق بن گئے ہیں: حُبُّکَ الشَّیْءَ یُعْمِی وَیُصِمُّ(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 5130) ۔ یعنی کسی چیز سے تمہاری محبت تم کو اندھا اور بہرا بنادیتی ہے۔ اولاد کی محبت ان پر اتنا زیادہ غالب ہے کہ وہ یہ بھی سوچ نہیں پاتے کہ ہم اولاد کے مستقبل کو بنانے کی فکر میں خود اپنے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ اِس بنا پر لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان کے پاس زیادہ اہم کاموں کے لیے وقت نہیں۔ مثلاً دینی مطالعہ، دعوہ ورک، آخرت کو سامنے رکھ کر اپنے معاملات کی منصوبہ بندی، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

نظر کی خریداری

ایک صاحب مجھ کو اپنے گھر لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ ان کا گھر مختلف قسم کے سامانوں سے بھرا ہوا ہے۔ پورا گھر ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور (departmental store)معلوم ہوتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں اتنا زیادہ سامان کیوں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب میں بازار جاتا ہوں اور وہاں میں کسی چیز کو دیکھتا ہوں، وہ مجھ کو پسند آجاتی ہے تو میں اس کو خرید لیتا ہوں۔ یہ نظر کی خریداری ہے۔ اکثر لوگوں کا حال یہی ہے کہ وہ چیزوں کو دیکھ کر خریدتے ہیں، خواہ وہ ان کے استعمال میں آنے والی ہوں یا نہ ہوں۔
خریداری کی دو قسمیں ہیں— نظر کی خریداری اور ضرورت کی خریداری۔ نظر کی خریداری وہ ہے جو دیکھ کر کی جائے۔اس کے برعکس، ضرورت کی خریداری یہ ہے کہ آپ کو ایک چیز کی ضرورت ہو ، اس کو حاصل کرنے کے ارادے سے آپ گھر سے نکلیں اور جہاں وہ چیز ملتی ہو، وہاں جاکر اس کو خرید لیں۔
نظر کی خریداری دوسرے الفاظ میں بے مقصد خریداری ہے۔ وہ اپنے وقت اور اپنے مال کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مال کی تبذیر (الاسراء،17:26) بتایا گیا ہے۔ یعنی مال کو بلاضرورت بکھیرنا۔ ضرورت کی خریداری ایک ذمہ دارانہ فعل ہے، اور نظر کی خریداری ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ۔
کسی مرد یا عورت کے پاس جو مال ہے، وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، وہ اللہ کی ایک امانت ہے۔ جو عورت یا مرد مال کومسرفانہ طور پر خرچ کریں، وہ خدا کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا کام کرتے ہیں، جس کے لیے آخرت میں ان کی سخت پکڑ ہوگی۔ مال کو جائز ضرورت پر خرچ کرنا ثواب کا کام ہے۔ اس کے برعکس، اگر مال کو غیر ضروری مدوں میں خرچ کیا جائے تو وہ خرچ کرنے والے کے لیے ایک گناہ بن جاتا ہے۔ مال کو خرچ کرنے کے معاملے میں انسان کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

پیمپرنگ کا نقصان

میرے والد فرید الدین خاں کا انتقال دسمبر 1929میں ہوا۔ اُس وقت میری عمر تقریباً 6 سال تھی۔ میرے والد اپنے تمام بچوں میں مجھ کو سب سے زیادہ مانتے تھے۔ وہ میرے ساتھ لاڈپیار(pampering) کا معاملہ کرتے تھے۔ اِس بنا پر میں بہت شوخ ہوگیا تھا اور اکثر طفلانہ شرارتیں کیاکرتا تھا۔ شیخ محمد کامل میرے پھوپھا تھے۔ وہ اِس کو دیکھ کر غصہ ہوتے تھے۔ وہ میرے والد سے کہتے تھے کہ — تم اپنے بیٹے کو خراب کرڈالوگے۔
لیکن بچپن میں میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میری والدہ زیب النساء (وفات 1985 ) بتاتی تھیں کہ والد کی زندگی میں میں بہت بولتا تھا، لیکن جب والد کا انتقال ہوگیا تو اچانک میں بالکل بدل گیا۔ میری شوخیاں ختم ہوگئیں۔ اب میں خاموش رہنے لگا۔ یہ میری زندگی کا بہت بڑا واقعہ تھا۔ اگر میرے باپ زیادہ دن تک زندہ رہتے تو یقینی طورپر میں اُسی قسم کا ایک نوجوان بن جاتا جس کو لاڈ پیار سے بگڑا ہوا بچہ (spoilt and pampered child) کہاجاتا ہے۔ بعد کو میری زندگی میں جو حقیقت پسندی اور سنجیدگی آئی، وہ براہِ راست طورپر میری یتیمی کا نتیجہ تھی۔
ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے تو ابتدائی طورپر وہ اپنے والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن یہ مدت عارضی ہوتی ہے۔ اس کو اپنی بقیہ زندگی والدین کے ماحول سے باہر، دوسروں کے درمیان گزارنی پڑتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کا معاملہ کرتے ہیں۔
اِس لاڈ پیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ شعوری یا غیر شعوری طورپر سمجھ لیتا ہے کہ مجھ سے محبت کرنے والا وہی ہے جو میرے ساتھ لاڈ پیار(pampering) کا معاملہ کرے۔ لیکن یہ بچہ جب اپنے گھر سے باہر آتا ہے تو دوسرے لوگوں سے اس کو والدین والا لاڈ پیار نہیں ملتا۔ اب وہ ساری دنیا سے بے زار ہوجاتا ہے۔ اِس صورتِ حال نے تمام عورتوں اور مردوں کو شکایت کی نفسیات میں مبتلا کردیا ہے، جب کہ صحیح یہ تھا کہ لوگوں کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے محبت کی نفسیات پیداہو۔
واپس اوپر جائیں

محرومی ایک نعمت

مئی 2000 میں میں نے بہار کا سفر کیا۔ اس سفر میں مجھے بتیا (بہار) کا یتیم خانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔یہ یتیم خانہ 1928 سے قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بچہ یا بچی کا یتیم ہونا کوئی برائی نہیں۔ یہ ایک نعمت ہے جو فطرت کی طرف سے کسی کو دی جاتی ہے۔ اگر یتیم ہونا نعمت نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ پیغمبر ِ اسلام کے لیے یتیمی کا انتخاب نہ فرماتے۔یتیم ہونا کسی بچہ یا بچی کے لیے قدرت کی طرف سے ایک خوشخبری ہے۔ اس بات کی خوشخبری کہ تم کو زندگی کے سفر کے لیے وہ کورس عطا کیا گیا ہے جو اس انسان کو عطا ہوا جس کے بارےمیں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم حضرات بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ بشری کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔
یتیم بچہ یا بچی کو پیداہونے کے بعد دنیا میں اپنے فطری امکان کو بروئے کار لانے کے لیے اور کیا چیز ملنی چاہیے اس کااشارہ اس قرآنی آیت میں ملتا ہے:أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَى (93:6)۔ یعنی کیا اللہ نے تم کو یتیم نہیں پایا، پھر اس نے تم کو ٹھکانا دیا۔ اپنے آغاز حیات میں اپنی زندگی کی تعمیرکے لیے ایک مأویٰ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ یتیم خانہ اور اسی طرح تمام یتیم خانے اسی آیت کی عملی تفسیر ہیں۔وہ یتیموں کو مأویٰ فراہم کرتےہیں۔ اس طرح کے کام کو میں اپنی زبان میں منصوبۂ خداوندی سمجھتا ہوں۔
ایک صاحب نے اپنا قصہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں بچپن میں یتیم ہوگیا تھا۔ میرے رشتہ داروں نے مجھے یتیم خانہ میں داخل کردیا۔ میرے ساتھ دو یتیم بچے اور تھے۔ ہم تینوں نے یتیم بچوں کی حیثیت سے یتیم خانہ میں پروش پائی۔ اس وقت بظاہر ہمارا کوئی مستقبل نہ تھا۔ مگرآج ہم تینوں اللہ کے فضل سے کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔میں نے کہا کہ یہ آپ کے اسی یتیم ہونے کا نتیجہ ہے۔ یتیمی کی حالت بہترین حالت ہے۔ یتیمی آدمی کے اندر خودشناسی پیدا کرتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر خود کفیل بننے کا جذبہ ابھارتی ہے۔ یتیم آدمی سمجھتا ہے کہ میرا کوئی سہارانہیں، اس لیے مجھ کو خود ہی سارا عمل کرنا ہے۔ اس طرح وہ دوسروں سے زیادہ محنت کرنے لگتا ہے۔ یتیمی کے حالات آدمی کو ہیرو بنادیتےہیں۔
ڈفرنٹلی ایبلڈ پرسن
اکتوبر 2000میں مَیں نے بھوپال کا سفر کیا ۔ اس دوران میں نے جو چیزیں دیکھیں، ان میں سے ایک رفاہی ادارہ بھی تھا، جو ڈفرنٹلی ایبلڈ بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کا نام شبھم وکلانگ سیوا سمیتی ہے۔ یہ ادارہ 1980 میں قائم ہواہے۔ میں نے ان بچوں کو دیکھا جن کی تعداد 63 ہے ان میں ہندو اور مسلمان دونوں بچے شامل ہیں۔ میں نے کئی بچوں سے بات کی دوبچوں سے ہونے والی بات کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
سنتوش چورسیہ (عمر 14 سال) سے میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کرتےہیں۔ انھوں نے کہا کہ پڑھتےہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ پڑھ لکھ کر میں اپنے پیروں پر کھڑاہوں گا۔ ایک بچہ جس نےاپنا نام شنکر شرما (عمر 12 سال) بتایا۔وہ بھی اپنے دونوں پیروں سے معذور تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ پڑھنے کے بعد کیا کریں گے۔ اس نے جواب دیا میں پڑھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ یہ بات وہ بچے کہہ رہے تھے جو اپنے دونوں پیروں سے معذور تھے اور جسمانی طورپر کھڑے نہیں ہوسکتےتھے۔ میں نے سوچا کہ علم میں کیسی عجیب طاقت ہے۔ علم آدمی کو اس حد تک با شعور بناتا ہے کہ وہ جسمانی طورپر کمزور ہوتے ہوئے بھی ذہنی طورپر اتنا طاقتور ہوجائے کہ اس کی جسمانی کمزوری ترقی کی راہ میں حائل نہ ہوسکے۔
مزید یہ کہ موجودہ زمانے میں یہ بات ریسرچ سے ثابت ہوگئی ہےکہ کوئی شخص مطلق معنوں میں قوی یا ضعیف نہیں ہوتا۔ چناں چہ پہلے معذور کے لیے ڈس ایبلڈ (disabled) کا لفظ بولا جاتا تھا۔ مگر اب یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔ اب ایسے افراد کو ڈفرینٹلی ایبلڈ (differently abled) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک اعتبار سے معذور اور دوسرے اعتبار سے طاقت ور۔
واپس اوپر جائیں

تربیت اولاد

حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا:باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کے لیے اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں کہ وہ اس کو اچھے آداب سکھائے ( مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ)۔سنن الترمذی، حدیث نمبر 1952)۔ اس حدیث میںبظاہر صرف والد کا ذکر ہے مگر تبعاً اس سے مراد والد اور والدہ دونوں ہیں۔ نیز ادب کا لفظ یہاں تعلیم وتربیت کے تمام پہلوؤں کے لیے جامع ہے، خواہ وہ مذہبی نوعیت کی چیزیں ہوں یا دنیاوی نوعیت کی چیزیں۔
عورت اور مرد کو فطری طور پر اپنی اولاد سے غیر معمولی محبت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہےکہ اس محبت کا بہترین استعمال کیا ہے یاکیا ہونا چاہیے۔ وہ استعمال یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو آداب زندگی سکھائیں۔ وہ اپنے بچوں کو بہتر انسان بناکر دنیا کے کارزار میں داخل کریں۔یہ دیکھاگیا ہے کہ والدین اپنی محبت کا استعمال زیاہ تر اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بچہ جو چاہے وہ اس کے لیے حاضر کردیا جائے، یہی بچہ کے لیے محبت کا سب سے زیادہ بڑا استعمال ہے، مگر یہ بچوں کے حق میں خیر خواہی نہیں۔
چھوٹا بچہ اپنی خواہشوں کے سوا کچھ اور نہیں جانتا۔ اس کی سوچ بس یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں جو خواہش آئے وہ فوراً پوری ہوجائے۔ مگر یہ طفلانہ سوچ ہے۔ کیونکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بچہ ایک دن بڑا ہوگا۔ وہ بڑا ہو کر دنیا کے میدان میں داخل ہوگا۔ زندگی کے اس اگلے مرحلہ میں کامیاب ہونے کے لیے بچہ کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ وہ آدابِ حیات سے مسلّح ہو کر وہاں پہنچا ہو۔
بچہ جب بالکل چھوٹا ہو اسی وقت سے اس کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے تاکہ یہ چیزیں عادت بن کر اس کی زندگی میں داخل ہوجائیں۔ زندگی کے ان آداب کے تین خاص پہلو ہیں: دین، اخلاق اور ڈسپلن۔
دین کے اعتبار سے بچہ کی تربیت کا آغاز پیدائش کے فوراً بعد ہوجاتا ہے جب کہ اس کے کان میں اذان کی آواز داخل کی جاتی ہے۔ یہ علامتی انداز میں اس بات کا اظہار ہے کہ بچہ کو دین دار بنانے کا عمل آغازِ عمر ہی سے شروع کردینا ہے۔ یہ کام ماں اور باپ دونوں کوکرنا ہے۔
والدین کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ بچہ کے اندر توحیداور اسلامی عقائد خوب پختہ ہوجائیں۔ ذکر اور عبادت اس کی زندگی کے لازمی اجزاء بن کر اس کی شخصیت میں شامل ہوجائیں۔ وہ نماز، روزہ کا پابند ہو۔ صدقہ اورخیرات کا شوق اس کے اندر پیدا ہوجائے۔ قرآن اور حدیث سے اس کو اس قدر شغف ہوجائےکہ وہ روزانہ اس کا کچھ نہ کچھ حصہ مطالعہ کرنے لگے۔ اس کو دیکھ کر ہر آدمی یہ کہہ دے کہ یہ بچہ ایک دین دار بچہ ہے۔
اخلاق کی تربیت کی صورت یہ ہے کہ ہر موقع پر بچہ کو سکھایا جائے۔ اگر وہ غلطی کرے تو اس کوٹوکا جائے۔ حتی کہ اگر ضرورت ہو تو اس کی تنبیہ کی جائے۔ بھائی بہنوں میںلڑائی ہو تو فوراً سمجھایا جائے۔ اگر کبھی بچہ جھوٹ بولے یا کسی کو گالی دے۔ یا کسی کی چیز چرا لے تو نہایت سختی کے ساتھ اس کا نوٹس لیاجائے۔ اور یہ سب بالکل بچپن سے کیا جائے تاکہ بچہ کو زندگی میں یہ چیزیں مستقل کردار کے طورپر شامل ہوجائیں۔
یہی طریقہ ڈسپلن کے بارے میں اختیار کرنا ہے۔ بچہ کو اوقات کی پابندی سکھائی جائے۔ چیزوں کو صحیح جگہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے۔ کھانا پینا باقاعدہ وقت کے ساتھ ہو۔ اگر وہ کوئی کاغذ یا تھیلی سڑک پر پھینک دے تو فوراً اسی سے اس کو اٹھوایا جائے۔ شور کرنے سے روکا جائے، ہر ایسی چیز سے بچنے کی تلقین کی جائے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہو۔
بچہ کی حقیقی تربیت کے لیے خود ماں باپ کو اپنا طرزِ زندگی اس کے مطابق بنانا ہوگا۔ اگر آپ اپنے بچہ سے کہیں کہ جھوٹ نہ بولو، اسی کے ساتھ آپ یہ کریں کہ جب کوئی شخص دروازہ پر دستک دے تو کہلوا دیں کہ وہ اس وقت گھر پر نہیں ہیں تو ایسی حالت میں بچہ کو جھوٹ سےروکنا بے معنی ہوگا۔ اگر آپ سگریٹ پیتے ہوںتو بچہ کے سامنے اسموکنگ کے خلاف تقریر کرنا بے معنی ہے۔ اگر آپ وعدہ پورا نہ کرتےہوں اور بچہ سے کہیں کہ بیٹے، ہمیشہ وعدہ پورا کرو، تو کبھی ایسی نصیحت کو نہیں پکڑے گا۔
بچہ اپنے والدین کو ماڈل کے روپ میں دیکھتا ہے۔ اسی طرح بڑا بچہ چھوٹے بچوں کے لیے ماڈل ہوتاہے۔ اگر والدین اور بڑا بچہ ٹھیک ہو تو بقیہ بچے اپنے آپ سدھرتے چلے جائیں گے۔
اخلاقی زہر
6 جنوری 1990 کو دہلی (شکر پور) میں ایک دردناک واقعہ ہوا۔ کچھ چھوٹے بچے ایک میدان میں کھیل رہے تھے۔ وہاں ایک طرف کوڑے کا ڈھیر تھا۔ وہ کھیلتے ہوئے اس کوڑے تک پہنچ گئے۔ یہاں انھیں ایک پڑی ہوئی چیز ملی۔ یہ کوئی زہریلی چیز تھی۔ مگر انھوں نے بے خبری میں اس کو اٹھا کر کھا لیا۔ اس کے نتیجہ میں دو بچے فوراً ہی مر گئے، اور آٹھ بچوں کو تشویشناک حالت میں جے پرکاش نرائن اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ یہ بچے دو سال سے پانچ سال تک کے تھے۔
ٹائمس آف انڈیا (7 جنوری 1990) نے صفحہ اول پر اس کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان بچوں میں سے ایک نے وہاں ایک چھوٹا پیکٹ پایا۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ سو گرام کوئی سفید رنگ کا سفوف تھا۔ انھوںنے غلطی سے اس کو شکر سمجھا اور آپس میں تقسیم کرکے کھانے لگے۔ کھانے کے چند منٹ بعد ان کے ہونٹ نیلے پڑ گئے:
One of them found a small packet containing about 150 gm of white, powdery substance. They mistook it for sugar and distributed it among themselves. Within minutes of consuming it, their lips turned blue.
مادی خوراک کے اعتبار سے یہ چند بچوں کا واقعہ ہے۔ لیکن اخلاقی خوراک کے اعتبار سے دیکھئے تو آج یہی تمام انسانوں کا واقعہ ہے۔ آج کی دنیا میں تمام انسان ایسی اخلاقی غذائیں کھارہے ہیں جو ان کی انسانیت کے لیے زہر ہیں، جو ان کو ابدی ہلاکت سے دوچار کرنے والی ہیں۔
جھوٹ، بدکاری، رشوت، غرور، حسد، الزام تراشی، ظلم، غصب، بد دیانتی، وعدہ خلافی، بدخواہی، بے اصولی، بدمعاملگی، انانیت، بے اعترافی، غلطی نہ ماننا، احسان فراموشی، خود غرضی، انتقام، اشتعال انگیزی، اپنے لیے ایک چیز پسند کرنا اور دوسرے کے لیے کچھ اور پسند کرنا، یہ تمام چیزیں اخلاقی معنوں میں زہریلی غذائیں ہیں۔ آج تمام لوگ ان چیزوں کو میٹھی شکر سمجھ کر کھارہے ہیں۔ مگر وہ وقت زیادہ دور نہیں جب انکا زہریلا پن ظاہرہوگا۔ اور پھر انسان اپنے آپ کو اس حال میں پائے گا کہ وہاں نہ کوئی اس کی فریاد سننے والا ہوگا اور نہ کوئی اس کا علاج کرنے والا۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
اگست 1996 میں میرا امریکا کا سفر ہوا۔ وہاںماؤنٹ ہالی ( نیو جرسی)کی مسجد میں ایک اجتماع ہوا۔ اس میں زیادہ تر عورتیں شریک تھیں۔ اس میں خطاب کا موضوع تھا کہ امریکی معاشرہ میں بچوں کا اسلامی تحفظ۔ اس پر بولتے ہوئے میں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا:میں نے کہا کہ اگلی نسل کا اسلامی تحفظ اس طرح نہیںہوسکتا کہ آپ ایک مولوی صاحب کو مقرر کردیں جو روزانہ شام کو آکر ’’دینیات‘‘ پڑھا دیں۔ یا کوئی دینی رسالہ آپ اپنے بچوں کے نام جاری کردیں۔ یا انھیں کلچرل نوعیت کی کچھ چیزوں کا عادی بنانے کی کوشش کریں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اگر آپ کو اپنے بچوں کو اسلامائز کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنے گھر کو اسلامائز کیجئے۔ آپ کے گھر میں دنیا کا چرچا نہ ہو بلکہ دین کا چرچا ہو۔ گھر کا ماحول مادی رنگ میں رنگا ہوا نہ ہوبلکہ آخر\ت کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔دوسری بات یہ کہ آپ اپنے بچوں کے اندر داعیانہ اسپرٹ پیدا کریں۔ یہ ایک اصول ہے کہ جو داعی نہیں بنتا اس کو مدعو بننا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر آپ نے اپنے بچوں کے اندر داعیانہ اسپرٹ نہیں پیدا کی تو وہ دوسروں سے متاثر ہو کر رہیں گے۔ یہ فطرت کا قانون ہے، اور فطرت کا قانون کبھی نہیں بدلتا۔
واپس اوپر جائیں

پہلا اسکول

علم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ہر دوسری مصلحت پر اس کو فوقیت حاصل ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمان تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں سے پیچھے ہوگئے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ موجودہ زمانہ میں جو تعلیمی ادارے قائم ہوئے، ان کے اساتذہ زیادہ ترغیر مسلم تھے۔ مسلمانوں کے رہنماؤں نے کہا کہ یہ غیر مسلم استاد ہمارے بچوں کو خراب کردیں گے، اس لیے ان اداروںمیں مسلمانوں کو داخل کرنا درست نہیں۔ اس کے نتیجہ میں مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہوگئے۔
یہ مصلحت درست نہ تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں جو سب سے پہلا اسکول کھولا گیا، اس کے تمام استاد غیر مسلم تھے۔ یہ اسکول مدینہ میں مشرک قیدیوں کے ذریعہ کھولا گیا۔ بعض لوگ صفّہ کو پہلا اسلامی مدرسہ کہتےہیں۔ مگر صفّہ تربیت گاہ تھا نہ کہ تعلیم گاہ۔ اسلام کی پہلی تعلیم گاہ یقیناً وہ ہےجو غزوۂ بدر کے قیدیوں کے ذریعہ مدینہ میں قائم کی گئی اور اس کےٹیچر سب کے سب مشرک اور غیر مسلم تھے۔
حتی کہ اس تعلیمی نظام کی بنا پر مدینہ میں مسائل بھی پیداہوئے۔ مثلاً مسند احمد بن حنبل کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ مقرر کیا کہ وہ انصار کے لڑکوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ اس کے بعد ایک روز ایک لڑکا روتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا۔ ماںنے پوچھا تمھارا حال کیا ہے۔ اس نے کہا کہ میرے معلّم نے مجھ کو مارا ہے۔ )َجَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فِدَاءَہُمْ أَنْ یُعَلِّمُوا أَوْلَادَ الْأَنْصَارِ الْکِتَابَةَ۔ قَالَ:فَجَاءَ غُلَامٌ یَوْمًا یَبْکِی إِلَى أَبِیہِ، فَقَالَ:مَا شَأْنُکَ؟ قَالَ:ضَرَبَنِی مُعَلِّمِی)مسند احمد، حدیث نمبر 2216۔
یہ قیدی سب کے سب اسلام کے دشمن تھے۔ ان کو چھوڑنے میں یہ اندیشہ تھا کہ وہ دوبارہ اسلام کے خلاف مسئلہ بنیں گے۔ اس کے باوجود انھیں تعلیم کی قیمت پر چھوڑ دیاگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ہر اندیشے کو نظر انداز کرکے اسے حاصل کرنا چاہیے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
امریکا کے سفر میں ایک شادی شدہ خاتون سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے ساتھ دو چھوٹے بچے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ خاتون اپنے شوہر سے اختلاف کرکے اپنے بچوں کے ساتھ الگ ایک چھوٹے مکان میںرہتی ہیں۔ میں نے کہا کہ آج کل کے زمانے میں ایک عجیب چیز یہ ہو رہی ہے کہ شوہر کو اپنے بچوں سے محبت ہے، لیکن اس کو اپنی بیوی سے نفرت ہے۔ اِسی طرح بیوی کو اپنے بچوں سے محبت ہے، اور اپنے شوہر سے نفرت۔ یہ تضاد کی بات ہے۔ اور فطرت کے قانون کے مطابق، اِس قسم کی متضاد سوچ (contradictory thinking) اور ذہنی ارتقا دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔میںنے کہا کہ آج کل یہ حال ہے کہ شوہر اور بیوی کے لیے اُن کا بچہ عملاً لٹل گاڈ (little god) ہوتا ہے۔ مگر جس شوہر یا جس بیوی کے ذریعے یہ بچہ پیدا ہوا، اُس سے دونوں کو دوری ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں