Pages

Saturday 1 June 2019

Al Risala | June 2019 (الرسالہ،جون)

4

-قرآن کا مہینہ

6

- پوسٹ رمضان پلاننگ

7

- مجتہدانہ اسلوبِ دعوت

12

- دعوت کے تجربات

13

- جہاد کبیر

13

- نیا رجحان

15

- آفاقی سوچ

15

- فتویٰ یا دعوت

16

- تالیف قلب

17

- عسر میں یُسر

18

- دعوتی ماحول

18

- خیرخواہانہ دعوت

20

- جنت کی ضرورت

21

- مدعو انتظار میں

21

- خدا کا مستند پیغام

22

- سماجی میل جول

23

- تالیف قلب کی ایک مثال

23

- دعوتی تڑپ

24

- دعوت کیا ہے

25

- قول بلیغ

25

- فکری مستوی کے مطابق کام

25

- مذہب کی ضرورت

26

- دعوتی تیاری

28

- اکرامِ مسلم،اکرامِ انسانیت

29

- جدید دنیا میں دعوتی امکانات

29

- دعوت سے غفلت

30

- خواص میں دعوت

32

- خواص انتظار میں

33

- ایک دعوتی گفتگو

34

- دعوت کا ماحول

34

- مستقبل کو دیکھنا

35

- معاندانہ انداز، نارمل انداز

35

- بالواسطہ دعوت

36

- پیغمبر کا مشن

37

- انسانیت پنا، امت پنا

38

- دعوت کاایک عملی نمونہ

40

- جنت کا تعارف

41

- نفرت کی نفسیات

42

- سیاحت: دعوتی سفر

43

- مومن ایک با اصول انسان

44

- سوال وجواب


قرآن کا مہینہ

قرآن کی سورہ البقرۃ میں بتایا گیا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں اترا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًى لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْہُدَى وَالْفُرْقَانِ (2:185)۔ یعنی رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا، ہدایت ہے لوگوں کے لاور کھلی نشانیاں راستہ کی اور حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔توسیعی مفہوم کے اعتبار سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے مہینہ میں اہلِ ایمان کو سب سے زیادہ قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
مطالعہ ٔ قرآن کے مقصد کو قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن میں تدبر سے مراد قرآن پر عقلی غور و فکر ہے۔ اور عقلی غور و فکر کا مقصد یہ ہے کہ قرآن میں ذاتی نصیحت کے پہلوؤں کو دریافت کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں تدبر قرآن کا خاص مقصد ہے۔ قرآن کو ذاتی انطباق (self-application) کی نسبت سے دریافت کرنا۔
مثال کے طور پر آپ قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئےقرآن کی اس آیت تک پہنچتے ہیں : إِلَّا تَنْصُرُوہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللَّہُ إِذْ أَخْرَجَہُ الَّذِینَ کَفَرُوا ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّہَ مَعَنَا (9:40) ۔ یعنی اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو اللہ خود اس کی مدد کرچکا ہے جب کہ منکروں نے اس کو نکال دیا تھا، وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
قرآن کی اس آیت میں اس واقعہ کا ذکر ہے جو کہ ہجرت کے وقت پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا۔ اس واقعے کو اپنے ذہن میں رکھ کر جب آپ اس آیت پر غور کریں گے تو آپ سوچیں گے کہ اللہ کی رحمت ہر چیز تک وسیع ہے (وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ) الاعراف،7:156۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی جو رحمت ہجرت کے زمانے میں غار ثور کی تنہائی میں پیش آئی، ضروری ہے کہ وہ پیغمبر کے ساتھیوں کے لیے بھی مقدر ہو۔
آپ اگر اپنے ذہن کی تربیت اس انداز سے کریں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ اللہ کے راستے میں چلتے ہوئے کبھی آپ پر یہ وقت گزرے کہ جہاں آپ ہوں اور آپ کا ایک ساتھی ہو، اور پھر آپ کو یہ یاد آئے کہ اہلِ ایمان کے لیے قرآن میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ ان کے اوپر اللہ کے فرشتے اترتے ہیں۔ اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمھارے مددگار ہیں۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیںإِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُونَ ، نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ(41:30-31)۔یعنی جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے، پھر وہ ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے اترتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج کرو اور اس جنت کی بشارت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم دنیا کی زندگی میں تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔
ان باتوں کو سوچتے ہوئے عین ممکن ہے کہ آپ اپنے ساتھی سے کہہ اٹھیں کہ اندیشہ مت کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اور وہ واقعہ یاد کریں جو کہ غار ثور میں پیش آیا تھا۔غار ثور کا یہ واقعہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بیان ہواہے۔اس موقع پر رسول اللہ نے جو کہا، وہ یہ تھا:یَا أَبَا بَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللہُ ثَالِثُہُمَا(صحیح مسلم، حدیث نمبر2381) َ۔یعنی اے ابوبکر، تمھارا اُن دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہو۔عین ممکن ہے کہ ایسے موقعہ پر آپ پر سکینہ نازل ہو اور اپنے ساتھی سے آپ یہ کہہ اٹھیں: یا صاحبی ،مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللَّہُ ثَالِثُہُمَا۔ یعنی اے میرے ساتھی، تمھارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے، فرشتہ جن کا تیسرا ہے۔
õõõõõ
علم کا آغاز معرفت ہے۔ معرفت کے بغیر علم ایک فن ہے۔ معرفت کے بعد علم وزڈم بن جاتا ہے۔ علم کے لیے معرفت کی اہمیت وہی ہے، جو اہمیت سائنس میں میتھمیٹکس کی ہے۔
واپس اوپر جائیں

پوسٹ رمضان پلاننگ

رمضان کا بہت زیادہ تعلق قرآن سے ہے— قرآن رمضان کے مہینہ میں اتارا گیا، رمضان کے مہینے میں روزہ کے علاوہ سب سے زیادہ زور قرآن کے مطالعے پر دیا گیا ہے، اعتکاف کا خاص مقصد یہی ہے کہ یکسو ہو کر قرآن کو پڑھا جائے، تراویح کا مقصد یہ ہے کہ اس مہینہ میں پورا قرآن آدمی کی نظر سے گزرجائے۔ تراویح گویا رمضان کے مہینہ میں قرآن کا اجتماعی مطالعہ ہے۔ رمضان کو اگر شہر القرآن (قرآن کا مہینہ) کہا جائے تو یہ درست ہوگا۔
اس کا مقصد کیا ہے۔ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ اہل ایمان رمضان کے مہینہ میں کامل یکسوئی کے ساتھ قرآن پڑھیں۔ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں۔ وہ یہ دریافت کریں کہ قرآن اس سے کس عمل کا تقاضا کرتا ہے۔
اس اعتبار سے اہلِ ایمان اگر قرآن کا گہرا مطالعہ کریں تو قرآن کی ایک آیت ان کے لیےبہت زیادہ توجہ کا سبب بن جائے گی۔ وہ آیت یہ ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔ اس آیت پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کے نزول کا مقصد شارع کے منصوبہ کے مطابق یہ تھا کہ قرآن دنیا کی تمام قوموں تک پہنچے۔
قرآن کی اس عمومی اشاعت کا کام کون کرے گا، اور کون قرآن کو ہر دور میں نسل درنسل انسانوں تک پہنچائے گا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے،یعنی اہل ایمان یا امتِ مسلمہ۔اہل ایمان پر فرض ہے کہ وہ ہر دور کے انسانوں تک قرآن کوپوری ذمہ داری کے ساتھ پہنچائیں۔ یہ کام لوگوںکی اپنی قابلِ فہم زبان میں کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر لوگوں تک قرآن کو پہنچانے کی ذمہ داری ادا نہیں ہوسکتی۔موجودہ زمانے میں جدید کمیو نی کیشن نے اس کام کو پوری طرح قابلِ عمل بنا دیا ہے۔یہی اہلِ ایمان کی پوسٹ رمضان پلاننگ ہے۔
واپس اوپر جائیں

مجتہدانہ اسلوبِ دعوت

17مئی 2003 کو دہلی میں ایس آئی او (SIO) کے دفتر میں میرا ایک پروگرام تھا۔ یہاں مجھے اسلام پسند نوجوانوں سے گفتگو کا موقع ملا۔ ایک نوجوان مسٹر شمشاد احمد نے سوال کیا کہ آج کے تعلیم یافتہ طبقہ کو کس طرح موثر انداز میں اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔ یہی سوال زیادہ تر گفتگو کا موضوع رہا۔ میںنے کہا کہ عام طور پر یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اسلام آج کی دنیا میں کمتر ذہنی سطح کے لوگوں کی دلچسپی کا موضوع بن کر رہ گیا ہے، اعلیٰ ذہنی سطح کے لوگ اسلام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اس کا سبب مدعو کے اندر نہیں بلکہ داعی کے اندر ہے۔
دعوت کے نام پر موجودہ زمانہ میں بہت سی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر یہ سرگرمیاں وقت کے اعلیٰ فکر ی مستویٰ(intellectual level) کے مطابق نہیں۔ ان دعوتی سرگرمیوں میں کوئی فضائل کی کہانیاں سنا رہا ہے۔ کوئی فخر پسندی کی غذا دے رہا ہے۔ کوئی اسلام کو سیاسی غلبہ کا موضوع بنائے ہوئے ہے۔ کوئی ملی مسائل پرتقریر کرنے کو دعوت سمجھے ہوئے ہے۔ کوئی کمیونٹی ورک میںمشغول ہے اور اس کو دعوہ ورک کا نام دیے ہوئے ہے۔ اس قسم کا انداز اعلیٰ ذہنی سطح کے لوگوں کو اپیل نہیں کرسکتا اس لیے وہ اس کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے۔
قرآن میںدعوتی کلام کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ قُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)کا مصداق ہو، یعنی ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔ اس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرے۔ موجودہ زمانہ کے داعیوں کا کلام جدید انسان کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام ان کے لیے قابل غور چیز بھی نہیں بنتا۔ آج دنیا میں ہر جگہ لوگ اسلام قبول کررہے ہیں مگر یہ زیادہ تر متوسط طبقہ کے لوگ ہیں۔ بہت کم ایسے افراد ہوں گے، جو مثبت معنوں میںذہنی انقلاب کے بعد اسلام میں داخل ہوئے ہوں۔ جدید تاریخ میں ایسے قلیل افراد کی ایک مثال مجھے ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے میں ملتی ہے۔ وہ ایک سچے متلاشی ٔ حق تھے۔انہوں نے اپنے گہرے ذاتی مطالعہ سے اسلام کو سمجھا اور اس کو قبول کیا۔ ان کا واقعہ میں نے اپنی کتاب (Islam Rediscovered) میں نقل کیا ہے۔
پچھلی صدیوں میں اور موجودہ زمانہ میں بڑی تعداد میں لوگ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے۔ مگر یہ لوگ اسلام کی جدید تاریخ بنانے کا باعث نہ ہوسکے۔ مسلمانوں کی جدید نسلوں کا سفر بدستور زوال کی طرف جاری رہا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تمام نو مسلم ردِّ عمل کی نفسیات کے تحت اسلام میں داخل ہوئے۔مثال کے طورپر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے آدمی تھے۔ وہ اسلام قبول کرنا چاہتے تھے۔ لیکن مہاتما گاندھی اوردوسرے ہندو لیڈروں کی مداخلت سے ایسا نہ ہوسکا۔ تاہم اگر وہ اسلام قبول کرتے تو مجھے اُمید نہیں کہ ان کا قبول اسلام مثبت معنوں میں کسی جدید اسلامی تاریخ کے آغاز کا سبب بن سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی طرف ان کا میلان برہمنزم کے خلاف ردّ ِعمل کے تحت ہواتھا۔ایسی حالت میں اگر وہ اسلام قبول کر لیتے تب بھی صرف یہ ہوتا کہ وہ اسلام کے اسٹیج سے برہمنزم کے خلاف ایک محاذ کھول دیتے۔ مثبت معنوں میں وہ اسلام کی کوئی انقلابی خدمت نہ کر پاتے۔ جیسا کہ بدھزم کو قبول کرنے کے بعد اُنہوں نے کیا۔
اس معاملہ کی ایک مثال وہ تعلیم یافتہ نو مسلم افرادہیں جنہوں نے موجودہ زمانہ میں اسلام قبول کیا ہے۔ میرے علم کے مطابق، یہ سب کے سب ردّ عمل کی نفسیات کے تحت اسلام کی طرف آئے۔ اس لیے وہ مثبت معنوں میں اسلام کی جدید تاریخ بنانے کا ذریعہ نہ بن سکے۔ان میں سے کوئی مسلمانوں کے کسی کمیونٹی ورک میں لگا ہوا ہے، اور کوئی مفروضہ مسلم دشمنوں کے خلاف تقریر کررہا ہے۔موجودہ زمانہ کے معروف نو مسلموں میں سے اکثر کو یا تو میںنے سنا ہے یا پڑھا ہے یا ان سے ملاقات کی ہے۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، یہ سب لوگ کسی نہ کسی طور پر رد عمل کی نفسیات کے تحت اسلام کی طرف آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قبول اسلام کے بعد بھی ان کے سینہ میں غیرقوموں کے خلاف کدورتیں ختم نہیں ہوئیں۔ وہ اب بھی ردّ ِعمل کی بولی بول رہے ہیں۔ مثلاً امریکا کے حمزہ یوسف اور سراج وھّاج، جرمنی کے مرادہاف مین، برطانیہ کے یوسف اسلام، ہندستان (کیرلا) کی ڈاکٹر ثریا ، وغیرہ۔
میرے مطالعہ کے مطابق،موجودہ زمانہ کے خود مسلم داعیوں اوررہنماؤں کا حال بھی تقریباً یہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں جتنے بھی عرب یا غیر عرب علماء اور مفکرین اسلام کی خدمت کے لیے اُٹھے وہ کسی نہ کسی اعتبار سے ردِّ عمل کی نفسیات کے تحت اُٹھے۔ کوئی استعمار کے مسئلہ سے بھڑ ک اُٹھا۔ کوئی صہیونیت کی زمین سے اُبھرا۔ کسی کو مغربی تہذیب کے غلبہ نے بے چین کردیا۔ کوئی ہندو خطرہ یا غیرہندو خطرہ کے خلاف مجاہد بن گیا۔ کوئی مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت پر بے برداشت ہو کر تحریک چلانے لگا، وغیرہ۔ جب کہ داعی وہ ہے جو ابدی حقائق کی دریافت سے اُبھرے، نہ کہ وقتی مسائل کے ہنگاموں سے۔
دعوت کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دعوت کے دو مختلف اسلوب ہیں— مقلدانہ اسلوب اور مجتہدانہ اسلوب ۔ اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں جو دعوتی کوششیں ہورہی ہیں وہ سب کی سب مقلدانہ اسلوب پر ہو رہی ہیں۔ اس قسم کے اسلوب سے صرف تقلیدی مزاج کے لوگ ہی متاثر ہوسکتے ہیں، اور وہی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ جدید طبقہ مجتہدانہ اسلوب چاہتا ہے، مگر مجتہدانہ اسلوب میں دعوتی کام سرے سے نہیں ہو رہا ہے، اس لیے جدید طبقہ اسلام کی طرف مائل بھی نہیں ہو رہا ہے۔اس بنا پر اسلامی دعوت اور جدید طبقہ کے درمیان ایک قسم کا ذہنی بُعد (intellectual gap) پیدا ہوگیا ہے۔ دعوتی عمل کو تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان موثر بنانے کے لیے اس بُعد کو ختم کرنا ضروری ہے۔
پچھلے دنوں میری ملاقات بہار کے ایک صاحب ڈاکٹر اکرام الحق سے ہوئی۔ وہ ایم ڈی کی ڈگری لیے ہوئے تھے۔ انہیں اسلامیات کے مطالعہ کا شوق ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے انگریزی اور اردو کی تقریباً تمام تفسیریں پڑھی ہیں مگر مجھے ان تفسیروں سے اطمینان نہیں ہوا۔ اس قسم کا احساس موجودہ زمانہ کے اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تفسیریں زیادہ تر تقلیدی اسلوب میں لکھی گئی ہیں۔ میرے علم کے مطابق، حقیقی معنوں میں مجتہدانہ اسلوب میں کوئی تفسیر ابھی تک لکھی نہیں گئی ۔
میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کی ایک آیت ہے:کُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَہَا اللَّہُ(5:64)۔یعنی جب کبھی وہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے۔ اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ جدید امن پسند طبقہ کے لیے بے حد پرکشش ہے، مگر کسی بھی عربی یا اردو یا انگریزی تفسیر میں اس کی معنویت کو کھولا نہیں گیا ہے۔ عام طورپر اس آیت میں قدیم یہود کے معاملہ کو بتایا جاتا ہے۔ گویا کہ تمام مفسرین اس آیت کو زمانی مفہوم میں لے رہے ہیں۔ اس طرح یہ آیت بظاہر قدیم زمانہ کی ایک گزری ہوئی داستان بن کر رہ گئی ہے۔ نتیجۃً خود قرآن بھی غیر جانبدار قاری کو زمانۂ ماضی کا ایک قصہ معلوم ہوتا ہے جس میں آج کے لیے کوئی رہنمائی موجود نہ ہو۔
قرآن کو سمجھنے کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں جو بات قدیم ریفرنس میں کہی گئی ہے، اس کوآج کا ایک مفسر جدید حوالہ (modern context) میں دیکھ سکے، وہ اس آیت کا نیاانطباق (reapplication) دریافت کرسکے۔اس اعتبار سے غور کیجیے تو قرآن کی مذکورہ آیت میں ایک ابدی اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اہل اسلام کی پالیسی یہ ہونا چاہئے کہ دوسرے لوگ جنگ چھیڑیں تو وہ حسنِ تدبیر سے اس کو اوائڈکرنے کی کوشش کریں، نہ یہ کہ خود بھی جنگ میں الجھ جائیں:
Muslims must adopt the policy of avoiding war rather than of indulging in war.
موجودہ زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم اور نو مسلم دونوں کے درمیان کمیونٹی کاز (community cause) کی دھوم ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں ڈوائن کاز (divine cause) کے لیے تڑپنے والا ، اس کے لیے کام کرنے والا نظرنہیں آتا۔ حتیٰ کہ ہزاروں کتابیں ہرجگہ چھپ رہی ہیں، مگر میرے علم کے مطابق، کوئی بھی کتاب انسانیت عامہ کو موثر انداز میں خطاب کرنے والی نہیں۔
موجودہ زمانہ کا سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میںدعوت الی اللہ کا عمل سرے سے وجود ہی میںنہ آسکا۔ کچھ مسلمان یا مسلم جماعتیں بظاہر دعوت کے نام پر سرگرم ہیں، مگر یقینی طورپر وہ دعوت الی اللہ کا عمل نہیں۔ یہ لوگ اصلاًکوئی اور کام کررہے ہیں جس کا دعوت الی اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کوانہوں نے دعوت کاعنوان دے دیا ہے۔
مسلمانوں کی موجودہ تاریخ کا دعوت الی اللہ سے خالی ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے اسباب نہایت گہرے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں، یا جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا، ان میںدعوت الی اللہ کو سرے سے حذف کردیا گیا۔ دعوت الی اللہ کیا ہے اور اس کے لازمی اجزاء کیا ہیں، یہ قرآن میںنہایت واضح طورپرموجود ہے۔ مگر بعد کے زمانہ میں جو تفسیریں لکھی گئیں ان میں یہ سب چیزیں یا تو منسوخ کردی گئیں یا ان کی تفسیر درست طورپر نہ ہوسکی۔
مثلاً دعوت کے لیے ضروری ہے کہ داعی دوسرے لوگوں کو اپنی قوم سمجھے، جیسا کہ قرآن کے بیان کے مطابق پیغمبروں نے سمجھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں دوسرے گروہوں کو کافر قرار دے کر انہیں غیر قوم کے خانہ میں ڈال دیاگیا۔ اسی طرح دعوت کے لیے ضروری ہے کہ مدعوکی زیادتیوں پر یک طرفہ صبر کیا جائے۔مگر تفسیروں میں صبر کے حکم کو جہاد سے پہلے کے دور کی چیز قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح دعوت کے لیے تالیف ِ قلب لازمی طورپر ضروری ہے۔ مگر بعد کی تفسیروں میں تالیف قلب کے اصول کو ہمیشہ کے لیے منسوخ قرار دے دیاگیا۔ دعوت کے لیے ضروری ہے کہ اس کو مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ (الشعراء، 26:109)کے اصول پر چلایا جائے، یعنی میں تم سے اس دعوتی عمل پر کوئی اجر نہیں مانگتا ہوں۔ مگر موجودہ زمانہ میں دعوت کے ساتھ ملّی حقوق کی مطالباتی مہم کو جوڑ دیا گیا، وغیرہ۔شکایتی اور احتجاجی باتیں قاتل ِ دعوت ہیں، نہ کہ معاونِ دعوت۔
دعوت الی اللہ کے لیے قرآن کی شرطوں کو ملحوظ رکھے بغیر دعوت کا کام کرنا ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ اس کو دعوت الی اللہ کا مقدس نام ہر گز نہیں دیا جاسکتا۔ اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ مقلدانہ ذہن کو توڑ کر مجتہدانہ ذہن کے تحت سوچا جائے۔ اس کے بغیر دعوت الی اللہ کاعمل کبھی زندہ نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کے تجربات

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِینَ (6:11)۔ یعنی کہو، زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ اس آیت میں ارض (زمین) سے مراد وہی دنیا ہے، جہاں انسان زندگی گزارتا ہے۔ یہاں ارض سے مراد پچھلی قوموں کے معذب علاقے نہیں ہیں۔ معذب اقوام ،مثلاً قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود،اہل مدین، اور قوم لوط، وغیرہ ۔ بلکہ خدا کی پیدا کردہ زمین ہے، جو اپنے آپ میں ایک عبرت و نصیحت کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں کھلی آنکھ کے ساتھ رہے۔ وہ دنیا کی تخلیقات میں خالق کو پہچانے۔
میری زندگی کا بڑا حصہ دعوتی اسفار میں گزرا ہے۔ اسفار کا یہ سلسلہ 1967 میں شروع ہوا۔ اس کے بعد مسلسل طور پر جاری رہا۔ یہ تجربات سفرنامے کی صورت میں پہلے الجمعیۃ ویکلی میں شائع ہوتے تھے۔ اس کے بعد یہ سفرنامے 1976 سے ماہنامہ الرسالہ میں شائع ہونا شروع ہوئے۔ یہ سفرنامے بعد کو کتاب کی صورت میں بھی چھپ کر شائع ہوچکے ہیں۔
ان اسفار کے دوران بار بار یہ تجربہ پیش آیا کہ قرآن کا پیغام ابھی تک زیادہ تر صرف عربی زبان میں دستیاب ہے۔ مختلف قوموں کی قابلِ فہم زبانوں میں قرآن کے ترجمے کا کام ابھی امت کے ذمے باقی ہے۔ ان تجربات کے دوران راقم الحروف نے فیصلہ کیا کہ امت کو عمومی طور پر اور اپنی دعوتی ٹیم کو خصوصی طور پر اس کے لیے آمادہ کیا جائے کہ وہ قرآن کی عالمی اشاعت کا نشانہ پورا کریں، تاکہ اس معاملے میں امت کے اوپر عائد ذمے داری اللہ کی توفیق سے انجام پائے۔ ان دعوتی اسفار میں میرے ساتھ جو تجربات گزرے ان میں سے کچھ آنے والے صفحات میں شامل ہیں۔ اللہ تعالی اس مجموعے کی اشاعت کے مقصد کو پورا فرمائے۔
3مارچ 2019 وحید الدین ، نئی دہلی
واپس اوپر جائیں

جہادِ کبیر

سوئزرلینڈ کے سفر میں 26جولائی 2001کی صبح کو ناشتہ پر ایک صاحب سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ قرآن میں پیغمبر کو حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَادًا کَبِیرًا (25:52)۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرو۔ ظاہر ہے کہ جہادِ کبیر کے لیے قوت کبیر درکار ہے۔ آپ کسی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم پنسل کے ذریعہ بڑی لڑائی کرو۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نظر میں قرآن خود ایک بڑی طاقت ہے۔ گویا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بڑا جہاد کرو بڑی طاقت کے ذریعہ جیسا کہ قرآن ہے:
Do great jihad with the great power of the Quran.
اس سے مزید یہ نکلتاہے کہ نظریہ کی طاقت تمام طاقتوں سے زیادہ بڑی طاقت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کا حکم دینے کا کوئی مطلب نہیں۔ میں نے مزید کہا کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نظریاتی طاقت سیاسی طاقت سے بہت زیادہ بڑی ہے:
Ideological power is greater than political power.
واپس اوپر جائیں

نیا رجحان

27 جولائی 2001کی شام کو کھانے کی میز پر ایک عیسائی پادری سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام رائے من پانیکر(Raimon Panikkar) تھا۔ ان کی عمر 83 سال ہوچکی ہے۔ وہ اسپین میں بارسلونا کے پاس ٹیورٹٹ(Tavertet) کے مقام پر رہتے ہیں۔ وہ صوفی اسلام سے متاثر ہیں۔ ان سے میں نے پوچھا کہ اسپین میں اسلام کے بارے میں کس قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ میں نے کہا کہ کس قسم کی غلط فہمی ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں پرتشدد جہاد کی جو خبریں آتی ہیں، ان کو وہ پسند نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ جہاد کے نام پر تشدد کی تحریکیں مسلمانوں کی قومی تحریک کا نتیجہ ہیں، وہ اسلام کی تعلیم کا نتیجہ نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان سب کے باوجود اسپین میں بہت سے لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اسلامی کتابوں کے ترجمے اسپینی زبان میں شائع کیے جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ جو لوگ اسلام قبول کررہے ہیں ان کو اسلام کا کون سا پہلو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک میرا اندازہ ہے اسلام کی سادگی (simplicity)لوگوں کو خصوصیت کے ساتھ اسلام کی طرف مائل کررہی ہے۔
اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید ہے۔ یعنی ایک خدا کا تصور ۔ اس کے مقابلہ میںموجودہ مسیحی عقیدہ تثلیث پرقائم ہے۔ مسیحی عقیدہ کے مطابق، تثلیث (trinity)کا مطلب یہ نہیں کہ خدا تین ہے۔ بلکہ اس کا مطلب تین میں ایک اور ایک میں تین(three in one, one in three) ہے۔ یہ غیرریاضیاتی عقیدہ اتنا پیچیدہ اور اس قدر ناقابل فہم ہے کہ مسیحی علماء بھی اس کی تشریح کرنے سے عاجز ہیں۔
میری لڑکی ڈاکٹر فریدہ خانم نے بتایا کہ جب وہ دہلی یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر سے ایم اے کر رہی تھی تو ایک بار کسی کتاب میں تثلیث کا ذکر آیا۔ انہوں نے اپنے مسیحی استاد (پروفیسر جارج) سے پوچھا کہ تثلیث کے عقیدہ کا مطلب کیا ہے۔ عیسائی پروفیسر نے کچھ دیر سوچا، اس کے بعد کہا کہ اگر تم پوچھو تو میں نہیں جانتا اور اگر تم نہ پوچھو تو میں جانتا ہوں:
If you ask me I do not know, if you do not ask me I know.
رائے من پانیکر نے دوسرے موقع پر بتایا کہ اسپین میں اسلام کے مطالعہ کا نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ اسپینی زبان میںاسلامی کتابوں کے ترجمے کیے جارے ہیں ،اور لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ اسلام سے ان کی دلچسپی کا سبب کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاص وجہ اسلام کی تعلیمات کی سادگی ہے۔ اس کی وجہ سے ہر آدمی فوراً اسلام کو سمجھ لیتا ہے۔ جب کہ دوسرے مذہبوں کی تعلیمات بہت پیچیدہ ہیں۔ دوسری بات انہوں نے یہ بتائی کہ دوسرے مذاہب کے برعکس، اسلام نے خدا کو ایک گوشہ میں نہیں ڈالا جیسا کہ دوسرے مذاہب میں کیا گیا ہے۔
Islam has not reduced God to a corner.
میں نے ان سے پوچھا کہ اسلام کے بارے میں لوگوں میں کس قسم کی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاص طورپر جہاد کے بارے میں۔ اس کی وجہ سے عام طورپر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانہ میں سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں غلط فہمی کو دور کیا جائے۔ یہ کام دوطریقوں سے کیا جانا چاہیے ایک یہ کہ اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پیش کیا جائے اور دوسرے یہ کہ مسلمان اپنی ان متشددانہ کارروائیوں کو بند کر دیں، جو وہ اسلامی جہاد کے نام پر کر رہے ہیں۔(ماہنامہ الرسالہ، سفرنامہ سوئزرلینڈ، مارچ 2002)
واپس اوپر جائیں

آفاقی سوچ

بھوپال کے سفر (نومبر 2001)میں مسٹر راجیندر سنگھ نے ایک ملاقات میں کہا کہ اگر آج کے مسلمانوں کا ذہنی کینواس(canvas) بڑا ہوجائے تو کوئی ان کی ترقی کو روک نہیں سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کل کے مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ تھوڑی معلومات کے باوجود وہ اسلام کی بات کرتے ہوئے مدعیانہ انداز میں بولنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے خیال میں اتنا گم رہتے ہیں کہ ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ سننے والے پر ان کے اس انداز کا الٹا اثر پڑے گا۔
میرے نزدیک یہ بات بالکل درست ہے۔ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کے اندر آفاقی ذہن بناتا ہے۔ مگر آج کل کے مسلمان اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر تنگ نظری کا شکار ہوگئے ہیں۔ وہ خود اپنی بنائی ہوئی دنیا میں جیتے ہیں۔ انہیں اپنے سے باہر کی دنیا کی کوئی خبر نہیں۔ مسلمانوں کا یہی مزاج، موجودہ زمانہ میںاسلام کی بدنامی کا سبب ہے، نہ کہ اسلام کی اصولی تعلیمات ۔ اسلام کے اشاعتی سیلاب کو جس چیز نے روک دیا ہے، وہ مسلمانوں کا یہی غیر آفاقی مزاج ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی تحریروں اور تقریروںسے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ان کی اپنی کمیونٹی ہی ان کا کنسرن (concern)ہے، وسیع تر انسانیت ان کا کنسرن ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

فتویٰ یا دعوت

بھوپال کے سفر میں مولانا اختر قاسمی نے پوچھا کہ فتویٰ کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں طرح طرح کے فتوے جاری کیے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ایسا کریں، ایسا نہ کریں۔ ایسے فتوے کس حد تک درست ہیں۔
میںنے کہا کہ فتویٰ کا مطلب رائے (opinion) ہے۔ فتویٰ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ایک عالم کے پاس آیا۔ اس نے عالم کے سامنے اپنا ایک مسئلہ بیان کیا، اور اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کا حکم جاننا چاہا۔ اس طرح کے سوال پراپنے علم کے مطابق، شرعی حکم بتانا یہ فتویٰ ہے۔
مگر ہمارے یہاں فتویٰ کی ایک اور قسم رائج ہوگئی ہے جو یقینی طورپر غیر شرعی ہے۔ وہ یہ کہ کوئی مفتی یا مفتیوں کا کوئی بورڈ بطور خود یہ فتویٰ جاری کرتا ہے کہ جس کی داڑھی ایک مشت سے چھوٹی ہو اس کے پیچھے لوگوں کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ فلاں ملک اسلام دشمن ہے اس کی مصنوعات کو خریدنا جائز نہیں، وغیرہ۔ یہ دوسری قسم کا فتویٰ حقیقتاً فتویٰ نہیں، وہ یکطرفہ طورپر ہدایت جاری کرنا ہے، اور اس قسم کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار ایک قائم شدہ حکومت کو ہے، نہ کہ کسی مفتی کو۔
صحابہ اور تابعین کی مثال بتاتی ہے کہ وہ حاکمانہ ہدایت کبھی جاری نہیں کرتے تھے۔ اس کے بجائے وہ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے تھے۔ مثلاً اگر لوگ داڑھی کی سنت میں غفلت برت رہے ہوں تو صحابہ و تابعین کی سنت کے مطابق، ایسے لوگوں کے درمیان دعوت و تبلیغ کا کام کرنا چاہیے، نہ کہ بائیکاٹ کا فتویٰ صادر کرنا۔ مزید یہ کہ باعتبارِ نتیجہ اس قسم کا فتویٰ سراسر لاحاصل ہے۔ انسان کی اصلاح قلب و ذہن کے بدلنے سے ہوتی ہے، نہ کہ فتاویٰ جاری کرنے سے۔ خود ہندستان کی مثال بتاتی ہے کہ اہلِ بدعت کے خلاف لمبی مدت تک فتاویٰ جاری کرنے کے باوجود کوئی مسلمان بدعت سے تائب نہیں ہوا، مگر تبلیغی جماعت کی دعوتی کوششوں سے بہت سے بدعتی اپنے فعل سے تائب ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعت والوں نے فتویٰ کے بجائے نصیحت و تربیت کا انداز اختیار کیا۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں کے دل بدلے اور وہ بدعات سے تائب ہوگئے۔(ماہنامہ الرسالہ، سفرنامہ بھوپال، مئی 2002)
واپس اوپر جائیں

تالیفِ قلب

برطانیہ کے سفر (ستمبر 2001)کا ایک واقعہ یہاں قابلِ ذکر ہے۔ ایک تعلیم یافتہ غیر مسلم نے بتایا کہ ایک مسلمان عالم ایک بار ان کے یہاں آئے۔ یہاں کمرے کی دیوار پر ایک کیلنڈر لٹک رہا تھا، جس پر ایک ہندو دیوی کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ مذکورہ شخص نے بتایا کہ نماز کا وقت آیا، تو مولانا صاحب نے اپنی شیروانی اتار کر کیلنڈر کے اوپر لٹکادی۔ اس وجہ سے اس کی تصویر شیروانی کے نیچے چھپ گئی۔ اس کے بعد مولانا صاحب نے میرے کمرے میں نماز ادا فرمائی۔
اس واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے کہا کہ مولانا موصوف نے جو کچھ کیا بجائے خود درست تھا۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف یہ نمونہ ہے، اور دوسری طرف یہ مختلف مثال ہے کہ قدیم مکہ میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم وہاں روزانہ نماز ادا کرتے، مگر آپ نے ایسا نہیں کیا کہ پہلے ان بتوں کے اوپر چادر لٹکائیں، اور پھر وہاں نماز ادا کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے ایک اہم دعوتی حکمت معلوم ہوتی ہے۔ دعوت کا کام کرنے کے لیے ایک بے حد ضروری شرط یہ ہے کہ داعی کے اندر ناخوشگوار باتوں کو نظر انداز کرنے کا مزاج موجود ہو۔ وہ ان چیزوں سے پاک ہو، جو مدعو کی نظر میں کٹرپن، تنگ نظری، اور عدمِ رواداری بن جاتی ہے۔ دعوتی کام کے لیے رواداری لازمی شرط ہے۔ داعی کے اندر اگر رواداری کا مزاج نہ ہو تو وہ کامیاب داعی نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں

عسر میں یُسر

11ستمبر 2001 کو نیو یارک اور واشنگٹن میں جو بھیانک واقعہ ہوا، اس کے نتیجے میں ساری دنیا کا میڈیا اسلام کو ٹررزم (terrorism) کے روپ میں دیکھنے لگا۔ مگر اس عسر میں بھی یُسر کا ایک پہلو نکل آیا۔ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اس کے بعد لوگوں کے اندر اسلام کے بارے میں تجسس (curiosity)کا ذہن پیدا ہوا۔ چنانچہ پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر اسلام کا مطالعہ کیا جانے لگا۔ خود اس وقت کے امریکی صدر بش نے واشنگٹن کے اسلامک سینٹر کی زیارت کی۔ کہاجاتا ہے کہ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے اس دوران دوبار قرآن کا مطالعہ کیا ہے۔ جرمنی سے آئے ہوئے مسٹر فاروق نے بتایا کہ 11 ستمبر کے واقعہ کے بعد قرآن کے جرمن ترجمہ کی مانگ اتنی زیادہ بڑھی کہ مارکٹ سے جرمن ترجمہ کی کاپیاں ایک ہفتے کے اندر ختم ہوگئیں۔ یہی معاملہ اکثر مقامات پر پیش آیا۔
اس طرح کی مختلف مثالیں دیتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ (5:3)۔ یعنی پس تم ان سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے ظہور کے بعد اب دنیا سے خشیتِ انسانی کا دور ختم ہوگیا، اب دنیا خشیت ربانی کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ اب ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے معاملہ کو درست رکھیں۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے، اس کو اللہ نے خود نظامِ فطرت کے تحت پیشگی طور پر ہمارے موافق بنادیا ہے۔ (ماہنامہ الرسالہ، برطانیہ کا سفر، ستمبر 2002)
واپس اوپر جائیں

دعوتی ماحول

برمنگھم میں کئی چھوٹی بڑی مسجدیں ہیں۔ برمنگھم میں قیام (ستمبر 2001)کے دوران ایک سڑک سے گزرتے ہوئے ایک بڑی مسجد نظر آئی۔ اس کے اوپر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھا— قرآن پڑھیے، جو کہ آخری عہد نامہ ہے:
Read Al-Qur’an, the Last Testament.
مسجد کی بیرونی سمت میں لگا ہوا یہ بورڈ علامتی طور پر یہ بتارہا تھا کہ مغربی دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے کھلے مواقع موجود ہیں۔ ان مواقع کو استعمال کرنے کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ مسلمان اپنی کسی روش سے داعی اور مدعو کے درمیان نفرت کی فضا قائم نہ کریں۔ معتدل فضا میں اسلام کی اشاعت ہوتی ہے، اور نفرت اور تناؤ کی فضا میں اسلام کی اشاعت کا عمل رک جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خیرخواہانہ دعوت

جون 2002 میں میں نے رشی کیش کا سفر کیا ۔اس سفر میں میرا تاثر یہ ہے کہ برادرانِ وطن سیکڑوں سال سے توہماتی عقائد اور روایات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مگر مسلمان ان کی ہدایت کے لیے نہیں تڑپے۔ ان کی خیر خواہی نے انہیں بے چین نہیںکیا۔ خود ہندوؤں میں ایسے لوگ اٹھے جنہوں نے محدود طورپر اصلاح کی کوششیں کیں۔ مثلاً کبیر نے اس سلسلہ میں بہت سی باتیں کہیں۔ ان کا ایک شعر یہ ہے:
ماتھے تِلک ہاتھ مَلبانا
لوگن رام کھلونا جانا
آریہ سماج کی تحریک بھی اسی نوعیت کی ایک ادھوری تحریک تھی۔ گرونانک کی تحریک اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے غیر خداؤں کی پرستش کے بجائے ایک خدا کی پرستش کاپیغام تھا۔ اقبال نے گرونانک کے بارے میں یہ شعر کہاتھا:
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
مسلمانوں کے پاس محفوظ آسمانی کتاب کی صورت میں کامل سچائی موجود تھی، مگر مسلمان برادران وطن کی اصلاح کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ رشی کیش میں گفتگو کے دوران بہت سے ہندوؤں نے مجھ سے اسلام کے مطالعہ کی خواہش ظاہر کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی حقیقی اصلاحی کوشش کے لیے گہری خیرخواہی درکار ہوتی ہے۔ وہ خیر خواہی جو شکایتوں کے باوجود نہ ٹوٹے، بیٹے کے ساتھ ماں کی محبت کی طرح جو ہر حال میں قائم رہے۔ بد قسمتی سے مسلمانوں کے اندر برادران وطن کے لیے اس قسم کی خیرخواہی موجود نہ تھی۔ مسلم سلطنت کے دور میںوہ ہندوؤں کو کمتر سمجھتے رہے، اور 1947کے بعد وہ ہندوؤں سے اپنے سینہ میں نفرت اور شکایت لیے ہوئے ہیں، اور جو لوگ اس طرح کی نفسیات میںمبتلا ہوں وہ کبھی اصلاح و دعوت کاکوئی گہرا کام نہیں کرسکتے۔
1947 سے پہلے کے دور میں مسلم صوفیوں نے ضرور کچھ مفید کام کیے، مگر جہاں تک مسلم علماء کا تعلق ہے، وہ اس سلسلہ میںکوئی قابل قدر خدمت انجام نہ دے سکے۔ کچھ لوگوں نے ہندستان کو دارالحرب بتا کر مسلمانوں کے اندر منفی نفسیات پیدا کی۔کچھ لوگوں نے ہندوؤں کے ’’مسلم ملچھ‘‘ کے تصور کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’ہندو کافر‘‘کا نظریہ پھیلایا۔ کچھ لوگوں نے بت شکنی کے نام پر ایسے کام کیے جو اپنے نتیجہ کے اعتبار سے صرف دل شکنی کے ہم معنٰی تھے۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ساری مسلم دنیا میںکوئی بھی عالم یا غیر عالم نہیں جو ان مسلم رہنماؤں سے یہ کہے کہ تم اپنی قومی لڑائی کو انتہائی ناعاقبت اندیشانہ طورپر یہ مجرمانہ رنگ دے رہے ہو کہ ہندوؤں کی مسلم نفرت یا اسلام نفرت اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کے پیغام کو سننے کے قابل ہی نہ رہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میرے بچپن کے زمانہ میں کچھ علماء نے ’’تبلیغ‘‘ کے نام پر مناظرہ بازی کی مہم شروع کر رکھی تھی۔حالانکہ اس قسم کی مہم کو تبلیغ کے بجائے اینٹی تبلیغ کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
مثلاً ایک مناظر عالم کو جوش آیا۔ انہوں نے ایک کتاب تیار کی جس کانام انہوں نے ’’کفر توڑ‘‘ رکھا ۔ اس کے جواب میںایک ہندو مناظر نے کتاب شائع کی جس کا نام تھا ’’کفر توڑ کا بھانڈا پھوڑ‘‘۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ اردو زبان عمومی طورپر ہندواور مسلمان دونوں کی مشترک زبان تھی۔ گویا داعی اور مدعو کے درمیان وہ لسانی بعد (language gap) موجود نہ تھا جو آج پایا جاتا ہے۔ مگر اس سنہری زمانہ کو خیر خواہانہ دعوت کے بجائے مناظرہ بازی کے لیے استعمال کیا گیا، جس کا نقصان صرف یہ ہوسکتا تھا کہ برادرانِ وطن متنفر ہو کر اسلام سے کچھ اور دور ہوجائیں۔ اس قسم کی کوششوں نے یہی کارنامہ انجام دیا۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی ضرورت

رشی کیش کے پروگرام میں جین مذہب کے کئی لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایک جینی پیشوا جو اپنے منہ پر پٹّی لگائے ہوئے تھے ان سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ مندر بنانا چھوڑ و، انسان بناؤ۔ میںنے پوچھا کہ انسان بنانے کا فارمولا کیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ اپنی خواہشوں (desires) کو ہلاک کرنا۔ انہوں نے بتایاکہ جینی طریقہ کے مطابق، منہ پٹّی باندھنا اسی باپرہیز زندگی کی ایک علامت ہے۔
میںنے کہا کہ دوسرے لفظوں میں، آپ کا نظریہ، سلف کنٹرول کا نظریہ ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کوئی شخص سلف کنٹرول کیوں کرے۔ کوئی شخص اپنی طاقتور خواہشوں کو کیوں دبائے۔ انسان کو سلف کنٹرول پرآمادہ کرنے کے لیے ایک زیادہ بڑا محرک درکار ہے۔ اس سلسلہ میں میں نے انہیں اسلام کے نظریۂ جنت سے متعارف کرایا۔(ماہنامہ الرسالہ، رشی کیش کا سفر، جنوری2003)
واپس اوپر جائیں

مدعو انتظار میں

رشی کیش کا یہ سفر میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ وہاں جس ہندو سے بھی اسلام پر گفتگو ہوئی اُس نے دلچسپی کے ساتھ اُس کو سنا۔ کئی لوگوں کو کتابیں دی گئیں جن کو اُنہوں نے شوق کے ساتھ لیا اور پڑھنے کا وعدہ کیا۔ یہاں مجھے چند بار عمومی خطاب کا موقع ملا۔ اپنے خطابات میں میںنے اسلام کو دینِ رحمت کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی۔
میرا تجربہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ لوگ اس کو بہت بُرا مانتے ہیں کہ اُن کے اوپر مذہبی کٹّرپن کا الزام آئے۔ اس لیے وہ اپنے مذہب کے سوا دوسرے مذہب کی بات کو توجہ کے ساتھ سنتے ہیں۔ یہ زمانی مزاج ہم کو موقع دیتا ہے کہ ہم دینِ حق کی دعوت کو موافق ماحول میں پیش کرسکیں۔(ماہنامہ الرسالہ، رشی کیش کا سفر، جنوری2003)
واپس اوپر جائیں

خدا کا مستند پیغام

فروری 1999 میں میں نے ٹریونڈرم (کیرالا) کا سفر کیا تھا۔28 فروری 1999 ء کی صبح کو ساڑھے پانچ بجے میں دہلی ایرپورٹ پہنچا۔ یہ نیا ائر پورٹ اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے ہال کی مانند ہے۔ میں اُس کے اندر کھڑا ہوا تو اُس کی وسعت میرے ذہن میں صحرائے حیات کی وسعت میں تبدیل ہوگئی۔
میں نے سوچا کہ موجودہ دنیا میں انسان گویا ایک عظیم صحرا میںکھڑا ہوا ہے۔ وہ رازِ حیات جاننا چاہتا ہے مگر کوئی Zدرخت یا پہاڑ اُس سے نہیں بولتا۔ کوئی ستارہ یا سیّارہ اُس سے ہم کلام نہیں ہوتا۔ اس خاموش دنیا میں وہ حیران کھڑا ہوا ہے۔ اس کے بعد اس کے سامنے خدا کا پیغمبر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کا فرستادہ ہوں اور تم کوخدا کا یہ پیغام دیتا ہوں۔
انسان کے لیے یہ کیسی عجیب راحت ہے۔ عقیدہ کے اعتبار سے یہاں بہت سے پیغمبر آئے۔ مگر ان کی شخصیت اور ان کا پیغام تاریخ کے اندھیروں میں گم ہے۔ یہاں صرف ایک ہی قابل یقین پیغمبر ہے اور وہ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہیں۔ ایک متلاشی روح کے لیے یہ بلا شبہ ایک عظیم نعمت ہے۔ ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے نے لمبی تلاش کے بعد جب پیغمبر اسلام کو پایا تو وہ چیخ اٹھے:
What a relief to find after all a truly historical Prophet to believe in.
واپس اوپر جائیں

سماجی میل جول

میں نے بار بار ایسی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے جہاں ساری کارروائی انگریزی میں ہوئی ہے۔ ایسے مواقع پر زیادہ تر میں اپنی تقریر لکھے ہوئے پیپر کی صورت میں کرتا تھا اور جزئی طورپر انگریزی میں کلام کرتا تھا۔ شانتی گری آشرم (کیرالا) میں لوگ یا تو ملیالم جانتے ـتھے یا انگریزی۔ اس لیے یہاں پوری مدت میں انگریزی ہی میں بولنا اور گفتگو کرنا پڑا۔ اس موقع پر پہلی بار مجھے اپنی اس استعداد کا تجربہ ہوا کہ میںخدا کے فضل سے انگریزی میںبے تکلف بول سکتا ہوں، اور بے تکلف تقریر کرسکتا ہوں۔ اس ذاتی تجربہ نے میرے دعوتی جذبہ میں ایک نیاحوصلہ پیدا کردیا۔
یہاں کانفرنس کی وجہ سے تعلیم یافتہ ہندو بڑی تعداد میںاکٹھا تھے۔ ان سے بڑے پیمانہ پر انٹرایکشن ہوا۔ اندازہ ہوا کہ لوگ عجیب عجیب قسم کی غلط فہمیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ موسیٰ کی ابتدائی عمر فرعون کے محل میں گزری۔ اس لیے موسیٰ کے بارے میں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ نسل میںپیدا ہوئے۔ مسیح نے مچھیروں کے درمیان کام کیا اس لیے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ وہ نچلے طبقہ میں پیدا ہوئے۔
اسی طرح پیغمبر ِ اسلام کو اپنے وطن مکہ سے ہجرت کرنا پڑا، اس لیے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ پیغمبر ِ اسلام نے مظلوم اور ناکام حالت میں وفات پائی۔ ضرورت ہے کہ اسلام کے بارے میں ہر قسم کی معلوماتی کتابیں بڑے پیمانہ پر تیار کرکے پھیلائی جائیں۔ اسی کے ساتھ بڑے پیمانہ پر مسلم اور غیر مسلم کا انٹرایکشن ہو۔ ڈائیلاگ کیے جائیں۔ تعلیمی اداروں میںدونوں گروہ کے لوگ بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کریں۔ تاہم صرف کتابیں چھاپنا کافی نہیں۔ زندگی کی سرگرمیوں میں دونوں کی شرکت ضروری ہے۔ (ماہنامہ الرسالہ، کیرلاکا سفر، فروری2003)
واپس اوپر جائیں

تالیفِ قلب کی ایک مثال

کیرلا کے لوگ (اور اسی طرح پورے جنوبی ہند کے لوگ) بے حد صفائی پسندہیں۔ صفائی ان کے کلچر میںشامل ہے۔ یہاںکے گھراور راستے بے حد صاف ہوتے ہیں۔ آپ اگر اچانک کسی گھر یاکسی بستی میںجائیں تو آپ اس کو ہمیشہ صاف ستھرا پائیں گے۔ وہ گھروں کے اندر جوتا پہننا پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے جوتا اتار دیاجاتاہے۔ میںنے یہاں کی ایک مجلس میں اس کا ذکر کرـتے ہوئے پیغمبر ِ اسلام کی یہ حدیث سنائی: الطُّہُورُ شَطْرُ الْإِیمَانِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر223)۔ اس کا ترجمہ میںنے اس طرح کیا:
Cleanliness is a part of religion.
لوگ اس حدیث کو سن کر بہت خوش ہوئے۔ ان کے چہرے سے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ خوش ہو رہے ہوں کہ خدا بھی ان کی تائید کر رہاہے۔ (ماہنامہ الرسالہ، کیرلاکا سفر، فروری2003)
واپس اوپر جائیں

دعوتی تڑپ

آشرم سے واپسی میں ہم لوگ ڈاکٹر گوپی ناتھ کے مکان میں تھوڑی دیر کے لیے ٹھہرے۔ اس وقت میری آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔ کئی لوگ وہاں موجود تھے۔ لوگ چاہتے تھے کہ میںکچھ کہوں۔ مگر میں جذبات سے اتنازیادہ مغلوب تھا کہ میںکچھ نہ بول سکا۔ میں سوچ رہا تھا کہ موجودہ زمانہ اتنا زیادہ مختلف زمانہ ہے کہ آج شاید ایک شخص صرف ’مہدی‘‘ بن سکتا ہے وہ ’’ہادی‘‘ نہیں بن سکتا۔ میرے دل میںانسانیت کی تڑپ طوفان بن کر ہلچل برپا کئے ہوئے تھی۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کے انسان کو کس طرح خدا سے ملایا جائے۔ آج کے انسان کو کس طرح خدا کا پیغام پہنچایا جائے۔
موجودہ زمانہ میںغیر مسلم تو کیا، مسلمان بھی سچائی سے آخری حد تک دو رہیں۔ ہر آدمی مادیات میں گم ہے۔ ربانیات کی نہ کسی کو معرفت ہے اور نہ کسی کو سننے کی فرصت۔ڈاکٹر گوپی ناتھ نے اپنے گھر میںایک میز پر طرح طرح کے کھانے کی چیزیں اور مشروب رکھے، مگر میں نہ کھا سکا اورنہ کچھ پی سکا۔ میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی اور میں انسانوں کے اجتماع میں داخل ہو کر امریکی سائنس داں کی طرح مائک چھین لیتا اور چلّا کر کہتا :
Stop everything, I want to inform you the law of the universe.
وہ لوگ بھی کیسے عجیب ہوں گے جوہادی بننے کے دعویدار ہوں حالانکہ وہ مہدی بھی نہ ہوں۔ جو معلم بنے ہوئے ہوں حالانکہ وہ متعلم بھی نہ ہوں۔ جو اپنے کو پانے والے کے روپ میں ظاہر کرتے ہوں حالانکہ وہ ڈھونڈنے والے بھی نہ ہوں۔ جو خدا کو جاننے کے دعویدار ہوںحالانکہ انہوں نے اپنے آپ کو بھی نہ جانا ہو۔(ماہنامہ الرسالہ، کیرلاکا سفر، فروری2003)
واپس اوپر جائیں

دعوت کیا ہے

حیدر آباد کے سفر (دسمبر 2002)میں کچھ مسلم نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ دعوت کاکام آدمی کو فطرت کے راستہ پرلے آنا ہے۔ اس کا مقصد کنڈیشننگ کو ختم کرکے انسان کو اپنی فطرت پرقائم کرنا ہے، مسلم وغیرمسلم دونوں کا مسئلہ یہی ہے:
Dawah is de-conditioning, both of Muslims as well as of non-Muslims.
حدیث میںبتایا گیا ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اُس کے ماں باپ اُس کو یہودی اور نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں (کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ)صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عام انسان اپنے ماحول سے متاثر ہو کر سچائی سے ہٹ جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے بارہ میں قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ بعد کے زمانہ میں وہ، دوسری امتوں کی طرح خود ساختہ دین کو دین سمجھ کر اُس پر قائم ہوجائیں گے۔ اس اعتبار سے دونوں ہی گروہوں کا کیس اپنے اپنے لحاظ سے کنڈیشننگ کا کیس ہے۔ اور دونوں ہی کے سلسلہ میں یہ کرنا ہے کہ اُن کی کنڈیشننگ کو ختم کر کے اُنہیں اپنی اصل حالت کی طرف لوٹایا جائے۔
واپس اوپر جائیں

قول بلیغ

حیدر آباد کے سفر (دسمبر 2002)میںہندوؤں کی ایک مجلس میںمیں نے اسلامی تعلیمات کا تعارف پیش کیا۔ لوگوں نے بہت غور سے سُنا۔ آخر میں ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ آپ اسلام کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے لیے سہج سوئکاریہ ہو جائے۔ یعنی اسلام کو ماننا اُن کے لیے آسان ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

فکری مستوی کے مطابق کام

موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی اصلاح اور اسلام کے احیائےو کا جو کام کرنا ہے وہ تقلیدی انداز میں نہیں ہوسکتا۔ آج ہزاروں تحریکیں اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں مگر مطلوب نتیجہ بر آمد نہیں ہورہا ہے۔ اُس کا خاص سبب یہی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو وقت کے فکر ی مستویٰ (intellectual level) پر پیش کیا جائے تاکہ وقت کا کارفرما طبقہ اُس کو اپنا سکے۔ ہماری موجودہ تحریکیں اسلام کو وقت کے فکری مستویٰ پر پیش نہیں کررہی ہیں اس لیے عوامی طبقہ کے کچھ لوگ تو ضرور اُن کے گرد اکٹھا ہو رہے ہیں مگر اعلیٰ طبقہ کے لوگ اُنہیں قابل توجہ نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ جب تک اعلیٰ طبقہ کے لوگ متوجہ نہ ہوں اسلام کی نئی تاریخ بنائی نہیں جاسکتی۔
واپس اوپر جائیں

مذہب کی ضرورت

حیدر آباد کے سفر (دسمبر 2002)میںایک تعلیم یافتہ ہندو نے گفتگو کے دوران کہا کہ آپ لوگ خدا اور روحانیت کی بات کرتے ہیں، لیکن آج کا ایک انسان جس کے پاس پیسہ ہے اور جس کو مادّی سہولتیں حاصل ہیں وہ کہتا ہے کہ ہم کو خدا اور روحانیت کی کیا ضرورت ۔ ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب کچھ ہم کو اس کے بغیر ملا ہوا ہے۔ پھر کیوں خدا اور روحانیت جیسی چیزوں میںاپنے دماغ کو الجھائیں۔
میںنے کہا کہ آپ کو جوچیز ملی ہوئی ہے وہ کیا ہے۔ وہ صرف وہ چیزیں ہیں جو آپ کے جسم کو آرام دے سکیں۔ مگر یہ تو زندگی کی حیوانی سطح ہے۔ کوئی بھی حیوان اس قسم کی زندگی حاصل کرسکتا ہے۔ انسان کی اصل عظمت یہ ہے کہ وہ دماغ رکھتا ہے۔ جسم تو صرف اس دماغ کی سواری ہے۔ انسان کی اصل ترقی اس میں ہے کہ اُس کا دماغ ترقی کرے۔ اگر جسم فربہ ہوجائے اور دماغی سطح پر کوئی ترقی نہ ہو توایسی ترقی کی کوئی قیمت نہیں۔ خدا اور روحانیت کا راستہ اسی دماغی ترقی کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔میںنے کہا کہ آپ جیسے لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ مخصوص تعلیم اور ٹریننگ کے ذریعہ دماغ کے ایک حصہ کو ترقی یافتہ بنا لیتے ہیں۔ یہ دماغ کا پروفیشنل حصہ ہے۔ ایسے لوگ پروفیشنل اعتبار سے ذہین معلوم ہوتے ہیں۔ مگر دماغ کے دوسرے فکری پہلوؤں کے اعتبار سے وہ بالکل غیر ترقی یافتہ حالت میں پڑے رہتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی تیاری

اس سفر میں ایک صاحب نے اپنی روداد بتائی۔اس سے موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرین کے ایک سفر میںان کی ملاقات ہندو لیڈر ڈاکٹر پروین توگڑیا سے ہوئی ۔ اس طرح انہیں ڈاکٹر توگڑیا سے تقریباً تین گھنٹہ بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ اسلام کی امتیازی حیثیت کو بتاتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر توگڑیا سے کہا :
Islam was the culmination of the evolution of religion.
میںنے کہا کہ یہ بات صحیح نہیں۔ اسلام ارتقائی مذہب نہیں ہے بلکہ وہ مذہب کا محفوظ ایڈیشن ہے۔ قرآن میں کئی مقامات پر پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم پچھلے نبیوں کی پیروی کرو۔ مثلاً فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ (6:90)۔ اگر اسلام مذہب کی ارتقائی صورت ہو تو پچھلے پیغمبروں کی پیروی کا حکم ایک ناقابلِ فہم حکم بن جائے گا۔ اسی طرح اسلام کی خصوصیت بتاتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر توگڑیا سے کہا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور اس وقت ہوا جب کہ زمانہ میں مکمل تبدیلی آگئی تھی، اور انسانی ذہن اتنا ترقی کر چکا تھا کہ خالص تعقل کی سطح پر وہ خدا کی معرفت حاصل کرسکے:
Human intelligence had developed sufficiently enough to recognize God through reason.
میں نے کہا کہ یہ ایک مغالطہ آمیزبات ہے ۔اس لیے کہ ساتویں صدی عیسوی میں انسانی علم ابھی روایتی دور میں تھا۔ انسانی علم کا روایتی دور سے نکل کر سائنسی دور میں پہنچنا مسلّمہ طورپر بہت بعد کو ہوا۔ اب اس معیار کے مطابق، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اسلام دورِ قدیم کا مذہب ہے، وہ دور جدید کا مذہب نہیں۔اُنہوں نے بتایا کہ گفتگو کے دوران ڈاکٹر توگڑیا نے کہا کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے، اور مسلم تاریخ خون سے لکھی گئی ہے۔ یہ سُن کر مذکورہ مسلمان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیاآپ اس معاملہ میں دوسرے مذاہب کی تاریخ کو جانتے ہیں۔ اُن کی تاریخ بھی اگر زیادہ نہیں تو اس سے کم خونی نہیں۔ ان کے الفاظ یہ تھے:
I countered by asking if he was aware of the history of other religions. They too were not less bloody if not more.
یہ جواب کا وہ طریقہ ہے جس کو الزامی جواب کہا جاتا ہے۔ وہ اُس آدمی کے لیے مفید نہیں جو دین حق کی نمائندگی کر رہا ہو۔ اسلام ہر حال میں با اصول کردار کا حکم دیتا ہے۔ دوسروں کا غلط رویّہ اسلام کے لیے کبھی مثال نہیں بن سکتا۔ ڈاکٹر توگڑیا کے مذکورہ بیان کا صحیح جواب یہ تھا کہ—اسلام اصولی حیثیت سے ایک پُر امن مذہب ہے۔ البتہ مسلمان، خاص طور پر مسلم حکمراں، تشدد کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مگر آپ کو چاہیے کہ اسلام اور مسلمان میں فرق کریں۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے اسلام کی تعلیمات کو دیکھیں، نہ کہ مسلمانوں کے عمل کو۔
انہوں نے اپنی گفتگو کی تفصیلی رپورٹ دینے کے بعد آخر میں کہا کہ جب میںنے مسلمانوں میں ریفارم کی ضرورت کو تسلیم کیا تو اس موقع پر ڈاکٹر توگڑیا نے آپ کا نام لیا اور آپ کی کوششوں کے بارہ میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مذکورہ مسلمان کے الفاظ یہ تھے:
Dr. Togadia asked me about you. He said he had not met Maulana Wahiduddin but his colleagues had. He was aware of your views and appreciated them.
اپنے تجربہ کے مطابق، میں ایسے بہت سے مسلمانوں کو جانتا ہوں۔ اسلام کے بارے میں ان کا علم محدود ہے۔ وہ اسلام کے بارے میں جب بولتے ہیں تو وہ اسلام کی یا تو غلط نمائندگی کرتے ہیں یا ناقص نمائندگی۔ ایسے مسلمانوں سے میں کہتا ہوں کہ وہ دو میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ یا تو وہ اپنے دوسرے کاموں کو چھوڑ کر ساری زندگی مطالعہ اور تحقیق میں لگائیں تا کہ وہ اسلام کی صحیح نمائندگی کے قابل ہوسکیں، اور اگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے تو دوسری صورت ان کے لیے یہ ہے کہ اگر کسی عالم نے اپنی پوری زندگی صرف کرکے اسلام پر ایسا لٹریچر تیا رکیا ہے، جس کا اعتراف دوسرے بھی کرتے ہوں تو وہ اس لٹریچر کو استعمال کریں، اور خود لکھنے اور بولنے کے بجائے اُس کی کتابیں دوسروں کو پڑھنے کے لیے دیں۔ مگر بدقسمتی سے ان لوگوں نے تیسری صورت کا انتخاب کر رکھا ہے۔ اور اس طرح کے معاملہ میں تیسرا انتخاب ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اکرامِ مسلم، اکرامِ انسانیت

حیدرآباد کے اس سفر میں ایک صاحب نے ملاقات کی اور کہا کہ آپ غیر مسلموں میں دعوت کی بات کرتے ہیں۔ غیر مسلموں میں دعوت کا کام کس طرح کیا جائے۔ میں نے کہا کہ دعوت کا عمل گہری خیر خواہی کے جذبہ کے تحت انجام پاتا ہے۔ اور جہاںگہری خیر خواہی ہووہاں یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہم یہ کام کیسے کریں۔
میں نے کہا کہ کیا کوئی ماں کسی سے پوچھنے جائے گی کہ میںاپنے بیٹے کی خدمت کس طرح کروں۔ کیا کوئی باپ کسی سے پوچھنے جائے گا کہ میں اپنی اولاد کے ساتھ پدری حقوق کس طرح ادا کروں۔ ماں اور باپ خود اپنی قلبی محبت کے تحت یہ جان لیتے ہیں کہ اُنہیں اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اسی طرح جو لوگ انسان کی محبت میں تڑپیں، جن کے دل میںیہ درد ہوکہ اُن کے آس پاس کے لوگ جہنم میں نہ جائیں، اُنہیں کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ لوگوں کی اصلاح و دعوت کا کام کس طرح کریں۔ اُن کا داخلی جذبہ ہی اُنہیں یہ بتانے کے لیے کافی ہو گاکہ اُنہیں اپنی دعوتی ذمّہ داری کو کس طرح ادا کرنا چاہیے۔ مگر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اکرامِ مسلم کو جانتے ہیں، اکرامِ انسان کی اہمیت سے شعوری طورپر وہ باخبر ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جدید دنیا میں دعوتی امکانات

حیدرآباد کے اس سفر میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے گفتگو ہوئی۔ میں نے اُنہیں انگریزی میں چھپا ہوا ایک انویٹیشن دکھایا۔ اس میں مجھے تقریر کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ دعوت نامہ دی انلا\ئٹینمنٹ فاؤنڈیشن (The Enlightenment Foundation) کی طرف سے تھا۔
اس میٹنگ کا موضوع یہ تھا کہ میںکون ہوں( Who Am I) میںنے کہا کہ اس طرح کے ادارے بڑی تعداد میں تقریباً ہر شہر میں قائم ہیں۔اس میں شرکت کرنے والوں کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے نقطۂ نظر سے زیر بحث موضوع پر بولے، اور اپنے علم کے مطابق، سوال کا جواب دے۔ اس طرح گویا ہر شہر میںایک قسم کا دعوتی میدان کھلا ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمان وہاں جاکر آزادانہ طور پر اپنی بات پیش کرسکتے ہیں، بشرطیکہ اُن کا انداز خالص علمی ہو۔ مناظرہ کا انداز، سیاسی پروپیگنڈے کا انداز یا قومی وکالت کا انداز نہ ہو۔ اس امکان کو اگر استعمال کیا جائے تو ہر شہر میں خاموش انداز میں دعوت کا کام شروع ہوجائے گا۔ مگر موجودہ مسلمانوں میں چونکہ دعوتی جذبہ نہیں اس لیے اُنہوں نے نہ اس جدید امکان کو جانا، اور نہ اُس کو استعمال کیا۔
واپس اوپر جائیں

دعوت سے غفلت

میں یہ بات بار بار لکھ چکا ہوں کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو جو مسائل پیش آرہے ہیں وہ سادہ طورپر صرف مسائل نہیں ہیں۔ وہ خدا کی تنبیہہ (warning) ہیں۔ یہ مسائل مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر یاد دلا رہے ہیں کہ تم اگر تباہی سے بچنا چاہتے ہو تو اپنی دعوتی ذمہ داری کو پورا کرو۔ یہ حقیقت میں نے قرآن سے اخذ کی ہے۔ جیسا کہ قرآن میںآیا ہے، اہلِ ایمان کے لیے عصمت من الناس کا راز تبلیغ ما انزل اللہ میںہے (المائدہ، 5:67)۔
موجودہ زمانہ کے مسلمان نہایت جوش و خروش کے ساتھ ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کی تحریک چلاتے ہیں۔ مگر اس قسم کی تحریکیں مضحکہ خیز حد تک بے معنٰی ہیں۔ ختم نبوت کے تحفظ کی ذمہ داری تو خود اللہ نے لے رکھی ہے پھر مسلمان اس میںکیا رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس قسم کی تحریک اتنا ہی بے معنٰی ہے جتنا کہ شمس و قمر کے تحفظ کی تحریک چلانا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ختمِ نبوت کا تحفظ نہیںہے بلکہ ختم نبوت کی دعوتی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے۔ ختم ِ نبوت کے بعد وہ مقام ِنبوت پر ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کا وہ کام کریں جو پہلے پیغمبر کے ذریعہ انجام پاتا تھا: لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ(22:78)۔ یعنی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ بنو۔
قرآن اور حدیث اور سیرت کا میں نے جو گہرا مطالعہ کیا ہے اس کی بنیاد پر میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ امت محمدی صرف نماز روزہ کی ادائیگی سے خدا کے یہاں بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ حتیٰ کہ خود ساختہ نظریات کے تحت موجودہ زمانہ میں اسلامی جہاد اور اسلامی سیاست کے جو ہنگامے مسلم دنیا میں جاری ہیں وہ بھی ہر گز اس کی نجات کا ضامن نہیں بن سکتے۔ مسلمانوں پر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ اور اس کے تمام آداب و شرائط کے ساتھ اس کو مسلسل انجام دیں۔ دعوتی فرض کی انجام دہی کے بغیر مسلمانوں کا امت ِمحمدی ہونا ہی مشتبہ ہے۔اور جب اصل حیثیت ہی مشتبہ ہو تو انعامات کس بنیاد پر دیے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

خواص میں دعوت

انگریزی میگزین انڈیا ٹوڈے (2 دسمبر2002)دیکھا۔ اُس کے صفحہ 66-67 پر برطانی جرنلسٹ َسرمارک ٹلی (Mark Tully) کی تازہ کتاب پر تبصرہ شائع ہوا تھا۔ 302 صفحہ کی یہ کتاب پنگوئن بُکس نے چھاپی ہے۔ کتاب کا نام یہ ہے:
India in Slow Motion (2002)
اس کتاب میں انٹروڈکشن کے علاوہ گیارہ ابواب ہیں۔ اس کا پہلا باب رام کی نئی دریافت (The Reinvention of Ram)کے بارے میں ہے اور آخری باب کاعنوان ہے، گم شدہ جنت (Paradise Lost)۔ کتاب کا ایک باب صوفیوں اور اُن کے عقائد کے بارے میں ہے۔ اس باب کا عنوان یہ ہےThe Sufis and a Plain Faith :
اس کتاب کی ترتیب کے دوران سَرمارک ٹلی نے راقم الحروف کا دوبار انٹرویو لیا تھا۔ کتاب کے مذکورہ باب میں اُنہوں نے تفصیل کے ساتھ میرے خیالات کا ذکر کیا ہے جو کتاب کے صفحہ 156 سے لے کر161 تک موجودہے۔
سر مارک ٹلی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اُن کو یہ خیال ہوا کہ وہ اپنی کتا ب میں اسلامی تصوف (Sufi Faith) پر ایک باب شامل کریں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ تبلیغی جماعت کے مرکز میں جاکر موضوع کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ مگر وہ لوگ اس سلسلہ میں انتہائی حد تک غیر معاون (unhelpful)ثابت ہوئے۔ حتیٰ کہ انہوں نے یہ بتانے سے بھی انکار کردیا کہ دوسرا کون مسلمان اس معاملہ میں ان کے لیے مدد گار ہوسکتا ہے۔ (صفحہ 155)
سرمارک ٹلی نے لکھا ہے کہ اس کے بعد اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کوشش کیجیے تاکہ تبلیغ کاکوئی آدمی مل جائے جس سے میںتبلیغ کے بارے میں معلومات لے سکوں۔ ان کے کہنے پر میںنے کوشش کی لیکن مجھے کامیابی نہ ہوسکی۔ میںنے ان کو ٹیلیفون کیا اور اس سلسلہ میں معذوری ظاہر کی۔ اس کی رپورٹ سر مارک ٹلی نے ان الفاظ میں لکھی ہے:
(Maulana) agreed but a few days later rang me back to confess failure. ‘These people are not living in this century’, he said. ‘They don't know what the media is.’ (p. 161)
اس کے بعد وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے صوفی ازم پر تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس سلسلہ میںانہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کے چند جملے یہ ہیں:
Maulana Wahiduddin Khan proved far more approachable. When we rang him he willingly agreed to see us both, and there was no question of Gilly (my wife) not being welcome. (P. 156)
موجودہ زمانہ کے مسلم مصلحین نے تقریباً مشترک طورپر یہ غلطی کی ہے کہ اُنہوں نے عوام کو اپنی کوششوں کا نشانہ بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانہ میں اسلام کی نمائندگی صرف عوام کی سطح پر ہوسکی۔ جہاں تک خواص کا تعلق ہے، وہ اسلام سے تقریباً بے بہرہ ہو کر رہ گئے۔
میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کے خواص (تعلیم یافتہ طبقہ) میں اسلام کا پیغام انتہائی حد تک قابلِ قبول بن چکا ہے، بشرطیکہ اس طبقہ کے سامنے اسلام کو اُس کی قابلِ فہم زبان میں پیش کیا جائے۔ بد قسمتی سے موجودہ زمانہ کے مسلم مصلحین لسانِ قوم میں بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس معاملہ میں اُن کی بے خبری کا حال یہ ہے کہ اُنہوں نے اکبر الٰہ آبادی جیسے ایک شاعر کو لسان العصر کا خطاب دے دیا۔ حالاں کہ اکبر الٰہ آبادی نہ تو عصر کو جانتے تھے، اور نہ اُن کی زبان لسان العصر کا مصداق تھی۔
واپس اوپر جائیں

خواص انتظار میں

اس سلسلے کا ایک سبق آموز ذاتی تجربہ یہ ہے کہ میںنے انگریزی اخبار کے لیے ایک مضمون تیار کیا۔ یہ مضمون واضح طورپر موجودہ زمانہ کے ہندو گروؤں اور سوامیوں کے خلاف تھا۔ اس مضمون کا عنوان یہ تھا:
The Role of Spirituality in De-stressing the Human Mind.
آج کل ہندو سوامی اور ہندو گرو ملک میں اور ساری دنیا میں بہت بڑے بڑے آشرم چلا رہے ہیں۔ یہاں میڈیٹیشن کی مخصوص تکنیک کے ذریعہ لوگوں کے ذہنی تناؤ کو دور کیا جاتا ہے۔ میرا مضمون اس کے سراسر خلاف تھا۔ انگریزی اخبار کے دفتر میںجب میرا مضمون پہنچا تو وہاں کے ذمہ داروں کے درمیان اس پر بحث ہوئی۔ ایک ہندو صحافی نے کہا کہ یہ مضمون تو ہماری بنیاد کو ڈھارہا ہے۔ دوسرے ہندو صحافیوں نے جواب دیا کہ ہمیں اس سے بحث نہیں۔ یہ مضمون سائنسی اور منطقی دلائل سے بھر پور ہے۔ اس لیے ہم اُس کو اپنے اخبار میں چھاپیں گے۔ چنانچہ یہ مضمون بعینہٖ دہلی کے مشہور انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (31دسمبر2002) میں چھپا تھا۔
سچائی اور کنفیوژن
احمد آباد کے سفر (جنوری 2003)میںایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں کئی ایسے افراد دیکھے جو بے حد شریف تھے۔ وہ اعلیٰ انسانی اوصاف کے حامل تھے۔ اس کے باوجود وہ سچائی کو نہ پاسکے۔ اس کا سبب میرے تجربہ کے مطابق، ذہنی انتشار (confusion) ہے۔ سوال یہ ہے کہ کنفیوژن کسی کو کیوں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کا دماغ زیادہ تر معلومات کا جنگل ہوتا ہے۔ وہ ایسا نہیں کر پاتے کہ تحلیل و تجزیہ (analysis) کرکے مختلف معلومات سے ایک نتیجہ نکال سکیں۔ وہ متعلق اور غیر متعلق، کا فرق سمجھیں۔ وہ بنیادی اور غیر بنیادی میں تمیز کرسکیں اور پھر مختلف معلومات کو ہضم کرکے صحیح نتیجہ نکالیں۔ اسی ناکامی کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ لوگوں کا معلوماتی ذخیرہ اُن کو صرف کنفیوژن تک پہنچاتا ہے، وہ اُنہیں فکری پختگی عطا نہیں کرتا۔
اسی قسم کے ایک صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کافی ذہین او رتعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سخت ذہنی انتشار میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مسکّن (tranquilizer) استعمال کرکے سوتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک دعوتی گفتگو

احمد آباد کے سفر (جنوری 2003)میں محمد حسن جوہر صاحب کے گھر پر کچھ تعلیم یافتہ ہندوؤں سے ملاقات ہوئی۔ مسٹر چونی اور مسٹر ویدیا، وغیرہ۔ اُن کا ایک سوال یہ تھا کہ خدا کا تصور اسلام میں کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اسلام میںادوئت واد کا تصور نہیں ہے۔ بلکہ اسلام میں دوئت واد کا تصور ہے، یعنی خالق اورمخلوق دونوں ایک نہیں ہیں، بلکہ دونوں ایک دوسرے سے مکمل طورپر الگ ہیں۔ اس سلسلہ میں میںنے توحید کے عقیدہ کی کچھ تفصیل بیان کی۔
ان کا ایک سوال یہ تھا کہ آپ لوگ قرآن کو آخری کتاب مانتے ہیں جو کہ چودہ سو سال پہلے اُتاری گئی۔ انسان کے حالات تو بار بار بدلتے رہتے ہیں۔ پھر بدلے ہوئے حالات میں دوسری کتاب کیوں ضروری نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس عقیدہ سے تو ذہنی ارتقا رک جاتا ہے جب کہ ہندو ازم میںایسا عقیدہ نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی ارتقاء جاری رہتا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ ہم قرآن کو آخری کتاب مانتے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ اسلام کی ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اسلام کی ابدی تعلیمات کا از سرِ نو انطباق(re-application) دریافت کیاجائے۔ اس طرح اجتہاد کا اصول اسلام کی ابدیت کو مسلسل باقی رکھتا ہے۔(ماہنامہ الرسالہ،احمدآبادکا سفر، مئی2003)
واپس اوپر جائیں

دعوت کا ماحول

میرٹھ (یوپی) کے سفر (اگست 2003) میں 6 ستمبر کی رات کومحمد ساجد صاحب کے مکان پر کئی ہندو اور مسلمان اکٹھا ہوئے۔ ان سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔6 ستمبر کی شام کے کھانے میں مسلمانوں کے ساتھ کئی ہندو بھی شریک تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ یہ علامتی طورپر گویا مستقبل کے ہندستان کی ایک تصویر ہے۔ یعنی وہ ہندستان جب کہ مسلمان اور ہندو دونوں بھائی بھائی کی طرح مل کر رہیں گے۔ وہ ایک ساتھ بیٹھیں گے اور ایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔جب ایسا ہوگا تو یہ صرف سماجی معنوں میں میل ملاپ کا واقعہ نہ ہوگا، بلکہ وہ ایک ایسا انٹر یکشن ہوگا جو فطری انداز میں دینِ حق کے تعارف کا ذریعہ بن جائے گا۔
اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے میں نے پایا ہے کہ اسلام کا سب سے زیادہ تعارف جس ذریعہ سے ہوا وہ نارمل ماحول میں انٹریکشن یا باہمی اختلاط سے ہوا۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا اختلاط جب بھی ہوا وہ اسلام کے تعارف کا باعث بنا۔ ہمارے مشن کا خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان کھلے ماحول میں پر امن ڈائیلاگ ہونے لگے۔
واپس اوپر جائیں

مستقبل کو دیکھنا

میرٹھ کے سفر میں ایک مجلس میں سوالات کے وقفہ کے دوران ایک صاحب نے کچھ انتہا پسند ہندو لیڈروں کا نام لے کر کہا کہ ہندوؤں کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے پھر اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ اس موقع پر ہمارے ساتھی مسٹر رجت ملہوترہ بھی شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو دیکھیے ، میں اس سوال کا ایک عملی جواب ہوں۔
میں ایک ہندو فیملی میں پیدا ہوا۔ دو سال پہلے میں ویسا ہی ہندو تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ مگر آج میں پوری طرح بدل چکا ہوں۔ آج میرے دل میں اسلام سے اتنا ہی پیار ہے جتنا کسی مسلمان کو ہوسکتا ہے۔ میرے اندر یہ تبدیلی الرسالہ مشن کی وجہ سے آئی۔ میں پچھلے دو سال سے الرسالہ مشن میں شریک ہوں، اور باقاعدہ اسلام کا مطالعہ کررہا ہوں۔ خدا کے فضل سے وہ تمام نفرتیں اور بدگمانیاں میرے دل سے ختم ہوچکی ہیں، جو اس سے پہلے میرے اندر موجود تھیں۔ آپ یہ نہ دیکھئے کہ آدمی آج کیسا ہے، بلکہ یہ دیکھئے کہ وہ کل کیسا ہوسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

معاندانہ انداز، نارمل انداز

7 ستمبر کی صبح کو میری قیام گاہ پر کچھ مسلمان بیٹھے ہوئے تھے۔ اس موقع پر ان بعض ہندوؤں کا ذکر ہوا جنہوں نے کل شام کے جلسے میں کچھ ٹیڑھے قسم کے سوالات کئے تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ جلسہ کے بعد میری ملاقات اسی قسم کے ایک ہندو سے ہوئی۔ یہ ہندو کل شام کے جلسہ میں بظاہر بہت معاندانہ انداز میں بول رہا تھا۔ مگر جلسہ کے بعد وہ آپ کے سامنے آیا اور آپ کو پرنام کیا۔ پھر میں اُس سے ملا تو اُس نے مجھ سے نارمل انداز میں بات کی۔ یہ قصّہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ جب کسی میٹنگ میں آتے ہیں تو صرف بولنے کے لیے بولتے ہیں، ورنہ ان کے دل کے اندر کچھ بھی نہیں رہتا۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس قسم کے افرادکے دل میں شکایت کا لاوا بھرا ہوا ہے۔ ان کو ایک ایسا موقع مل جاتا ہے جہاں وہ اپنے لاوے کوباہر لا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔(ماہنامہ الرسالہ،میرٹھ کا سفر، اپریل2004)
واپس اوپر جائیں

بالواسطہ دعوت

ڈاکٹر کرشن کمار گپتا سے ملاقات ہوئی۔ وہ آج کل اردو سیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے ملاقات میں کئی باتیں بتائیں۔میری ایک کتاب کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں میں نے ایک حدیث پڑھی ہے جس سے مجھے جھوٹ کی ایک نئی قسم معلوم ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کوئی بات سنے اور تحقیق کے بغیر اس کو پھیلانے لگے۔ اس حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں :کَفَى بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِع(صحیح مسلم، حدیث نمبر 5)۔ (ماہنامہ الرسالہ،میرٹھ کا سفر، اپریل2004)
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کا مشن

میرٹھ میں کچھ تعلیم یافتہ ہندوؤں سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ دو قسم کے لیڈر دنیا میںر ہے ہیں۔ ایک وہ جن کو ریفارمر کہا جاسکتا ہے، اور دوسرے وہ جن کو پرافٹ (پیغمبر)کہا جاتا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ریفارمر کا نظریہ انسان بمقابلۂ انسان (man versus man) کے اصول پر مبنی ہوتا ہے اور پرافٹ کا نظریہ انسان بمقابلۂ خدا (man versus God) کے اصول پر قائم ہے۔ ریفارمر کا طریقہ ہمیشہ انسانوں میں دو متحارب گروہ بناتا ہے۔ ریفارمر یہ کرتا ہے کہ وہ انسانیت کے ایک گروہ کو معصوم کے طورپر لیتا ہے اور دوسرے گروہ کو خطاوار کے طور پر۔ اور پھر وہ مفروضہ معصوم گروہ کو مفروضہ خطا وار گروہ سے ٹکرادیتا ہے۔
مثلاً فرانس کے سیاسی ریفارمر روسو نے انسانیت کو سیاسی مظلوم اور سیاسی ظالم کے نام سے دوگروہوں میں بانٹا۔ چنانچہ روسو کی کتاب معاہدۂ عمرانی (Social Contract) اس جملہ سے شروع ہوتی ہے— انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر میںاُس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پاتا ہوں:
Man was born free. But I find him in chains.
اس قسم کا نظریہ ہمیشہ انسانیت کو بانٹتا ہے۔ وہ انسانوں کے درمیان گروہی نزاع پیدا کرتاہے۔ وہ انسانوں کے درمیان نفرت اور تناؤ جیسے منفی جذبات پیدا کرتا ہے۔ پیغمبر کے طریقہ کی مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْخَلْقُ عِیَالُ اللَّہِ (سارے انسان خدا کی فیملی ہیں)مسند البزار، حدیث نمبر 6947۔ اس نظریہ میں ایک طرف خدا ہوتا ہے اور دوسری طرف تمام انسان۔ اس طرح یہ نظریہ تمام انسان کو ایک اُصول پر متحد کردیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے لیے مثبت جذبات فروغ پاتے ہیں، نہ کہ منفی جذبات۔
واپس اوپر جائیں

انسانیت پنا، امت پنا

ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میںنے کہا کہ ’’امت پنا‘‘ کا تصور اسلام کی آفاقی روح کے خلاف ہے۔ اسلام کی اصل روح ’’انسانیت پنا‘‘ ہے نہ کہ ’’امت پنا‘‘۔ اس معاملہ میں موجودہ مسلمانوں کا مزاج دعوت کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک یہ مزاج نہ بدلے، حقیقی معنوں میں دعوت کا کام نہیں ہوسکتا۔(ماہنامہ الرسالہ،میرٹھ کا سفر، اپریل2004)
داعیانہ سوچ
واردھا کے سفر (نومبر 2003) میںایک صاحب مجھ سے ملاقات کے لیے آئے ۔اُنہوں نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ آپ کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آپ مسلم دشمن طاقتوں کے آلۂ کار ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اس الزام کا ثبوت کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ لوگ بتاتے ہیں کہ آپ اُن لوگوں کے جلسوں میں جاتے ہیں۔ اُن کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں۔ حالاںکہ مسلم دشمن طاقتوں سے ہم کو دور رہنا چاہئے۔میں نے کہا کہ یہ الزام صرف غلط فہمی پر قائم ہے۔ چوںکہ موجودہ مسلمانوں میں دعوتی ذہن نہیں، وہ صرف قومی ذہن کے تحت سوچنا جانتے ہیں۔ اس لیے وہ ہمارے مِشن کو سمجھ نہیں پاتے۔ اصل یہ ہے کہ ہمارا مِشن دعوت الی اللہ کا مِشن ہے۔ ہم خدا کے پیغام کو خدا کے بندوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ’’مسلم وار تحریک‘‘ کے ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ مسلم وار تحریک کے ذریعہ مسلمانوں کی اصلاح کا کام ہوسکتا ہے، نہ کہ غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا کام۔
داعی ہر ایک کو انسان کی صورت میں دیکھتا ہے۔ وہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ انسانوں کو دوست اور دشمن کے الگ الگ خانوں میں تقسیم کرے۔ وہ کچھ لوگوں کو بطور خود مسلم دوست بتاکر اُن سے قریب ہو، اور کچھ لوگوں کو بطور خود مسلم دشمن قرار دے کر اُن سے دور ہوجائے۔ چوںکہ موجودہ مسلمانوں کا ذہن دعوتی ذہن نہیں ہے، اس لیے وہ مسلم وار تحریک کی اہمیت کو فوراً سمجھ لیتے ہیں۔ اگر اُن کے اندر دعوتی ذہن ہوتا تو وہ جان لیتے کہ اس مقصد کے لیے ہمیں ہندو وار تحریک، کرشچین وار تحریک، حتّٰی کہ یہودوار تحریک چلانا چاہیے۔ ہم نے اپنے مِشن کے تحت اسلام پر تعارفی لٹریچر بڑی تعداد میں چھاپا ہے۔ ہم اس لٹریچر کو غیر مسلموں تک پہنچانے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔ اس دعوتی کوشش کا ایک جزء یہ ہے کہ جب دوسرے مذہب کے لوگ کوئی پروگرام کرتے ہیں اور مجھ کو بلاتے ہیں تو میں وہاں جاتا ہوں، اور موضوع کی نسبت سے وہاں اسلام کا تعارف پیش کرتا ہوں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کاایک عملی نمونہ

واردھا کی اس کانفرنس میں24 نومبر 2003 کا دن اسلام کے لیے خاص تھا۔ اس میں مَیں واحد اسپیکر تھا۔ پروگرام کی ترتیب اس طرح بنائی گئی کہ دوپہر سے پہلے کے سیشن میں میں نے اسلام پر ایک تعارفی تقریر کی جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ دوپہر بعد کاسیشن سوال و جواب کے لیے رکھا گیا تھا۔ حاضرین کی طرف سے اسلام پر مختلف قسم کے سوالات کئے گئے جن کے میں نے جواب دئے۔
اپنی تقریر میں میں نے پہلے قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کا سادہ تعارف پیش کیا۔ اس کے بعد یہ بتایا کہ فنڈمنٹلزم وہی چیز ہے، جس کو قرآن و حدیث میں غلو کہا گیا ہے۔ اور غلو (extremism) کو اسلام میں ہلاکت خیز برائی بتایا گیا ہے۔ اس کے بعد میں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اسلام کے مطابق، پر امن سماج بنانے کا فارمولا کیاہے۔
سوال و جواب کے سیشن میں لوگوں نے کافی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا۔ بہت سے سوالات کئے گئے جن کا میں نے جواب دیا۔ایک سوال یہ تھا کہ میڈیا کے مطابق، اسلامی مدرسوں میں ٹررزم کی تعلیم دی جاتی ہے ،اور وہاں ٹررسٹ تیار کئے جاتے ہیں۔ میں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں خودمدرسہ کاایک پروڈکٹ ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مدرسہ کا کوئی تعلق ٹررزم سے نہیں ہے۔ کم از کم انڈیا میں مجھے کوئی ایسا مدرسہ معلوم نہیں جہاں مدرسہ کے نظام کے تحت ٹررزم کی تعلیم دی جاتی ہو۔ مدرسہ میں کیسے لوگ تیار کئے جاتے ہیں، اس کا اندازہ مجھ کو دیکھ کر آپ کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ صرف مذہبی تعلیم کے لیے ہے۔ وہاں کے نصاب یا وہاں کے نظام کا کوئی بھی تعلق اس چیز سے نہیں جس کو آج کل ٹررزم کہا جاتا ہے۔
ایک نوجوان نے کہا کہ ہم نے کتاب میں پڑھا ہے کہ اسلام کے پیغمبر نے خود حملہ کیا اور لڑائی کی پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ایک امن پسند انسان تھے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ بات کس کتاب میں پڑھی ہے۔ وہ کسی کتاب کا نام نہ بتاسکے۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات واقعہ کے خلاف ہے۔ پیغمبر اسلام نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ خود کسی کے اوپر حملہ کریں۔ ان کی پالیسی ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ اگر فریق ثانی کی طرف سے جارحیت ہو تو اپنے بچائو کے لیے جنگ کی جاسکتی ہے۔ آپ نے دفاعی جنگ بھی اس وقت کی جب کہ اس کے سوا کوئی اور صورت باقی نہیں رہی تھی۔ مگر جہاں تک خود اپنی طرف سے حملہ کرنے کی بات ہے تو پیغمبر نے نہ ایسا کبھی کیا اور نہ انہوں نے اس کی تعلیم دی۔
میں نے اپنی تقریر میں آغازِ اسلام کی مختصر تاریخ بتائی۔ پیغمبر اسلام کے مکی دور اور مدنی دور کا تذکرہ کیا۔ قرآن اور حدیث سے متعارف کرنے کی کوشش کی۔ اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ پیش کیا۔ آخر میں میں نے کہا کہ اسلام کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اسلام اورمسلمانوں میں فرق کریں۔ آپ اسلام کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ ایسا ہرگز نہ کریں کہ مسلمان جو کچھ کرتے ہیں اُس کو دیکھ کر سمجھ لیں کہ اسی کا نام اسلام ہے۔
دوپہر بعد کا پروگرام سوال و جواب کے لیے تھا۔ اس میں شرکاء نے اپنے اپنے سوالات اسلام کے بارے میں پیش کیے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ ایک سوال اور ایک جواب کے اُصول پر سختی سے کار بند ہیں۔ کسی نے بھی میرے جواب کے بعد دوبارہ سوال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان اپنے عقیدہ کے مطابق، ہندوئوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نارمل تعلقات کیسے قائم ہوسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق، ہندو یا دوسرے مذہبی گروہ کافر نہیں ہیں، بلکہ وہ انسان ہیں۔ قرآن میں بار بار لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اے انسان، اور اے انسانو، کے الفاظ آئے ہیں۔ پیغمبر کے اصحاب پیغمبر کی وفات کے بعد عرب کے باہر ایشیا اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ ہرجگہ اُنھوں نے یہ کیا کہ وہاں کے باشندے خود اپنے آپ کو جو نام دیے ہوئے تھے وہی نام اصحابِ پیغمبر نے بھی اُنہیں دیا۔ مثلاً مسیحی کو مسیحی، یہود کو یہود، رومی کو رومی، مجوس کو مجوس، بدھسٹ (بوذا) کو بدھسٹ، وغیرہ۔
یہی اس معاملہ میں اسلام کا طریقہ ہے۔ ہندستان میں مختلف مذہبوں کے ماننے والے لوگ بستے ہیں۔ اسلام کے مطابق، مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہرگروہ کو اُسی نام سے پکاریں، جو اُن کا اپنا اختیار کردہ نام ہے۔ مثلاً ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی، جینی، وغیرہ۔ مسلمانوں کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ ان گروہوں کو کافر کے لفظ سے پکاریں۔ یہی اس معاملہ میں اسلام کی تعلیم ہے۔
گاندھیائی سینٹر میں میری تقریر کے بعد جو سوالات ہوئے وہ زیادہ تر اسی قسم کے سوالات تھے جو دوسرے غیر مسلم اجتماعات میں کئے جاتے ہیں۔ مثلاً بابری مسجد، برقعہ، مدرسوں میں عسکری تربیت وغیرہ۔ اسی قسم کا تجربہ مجھے مسلمانوں کے اجتماعات میں بھی ہوا۔ مسلمانوں کے اجتماع میں جب میں تقریر کرتا ہوں اور اس کے بعد سوال کا وقفہ دیا جاتا ہے تو وہاں بھی زیادہ تر ایک ہی قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں۔ مثلاً بابری مسجد، فرقہ وارانہ فساد، وندے ماترم، مسلم پرسنل لا وغیرہ۔ میں نے سوچا کہ آخر لوگ یکساں قسم کے سوالات کیوں کرتے ہیں۔ میری سمجھ میں آیا کہ اس کا راز اخبارات ہیں۔ مسلمان اور غیر مسلم دونوں اخباروں کے ذریعہ اپنی رائے بناتے ہیں۔ اخباروں میں عام طور پر جو باتیں آتی رہتی ہیں وہی باتیں ان کے ذہن میں ہوتی ہیں، اور انہی کے بارے میں وہ سوال کرتے ہیں۔ یہ طریقہ ذہنی ارتقاء کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا تعارف

25 نومبر کو دوپہر بعد کے سیشن میں ڈاکٹر ہیمنت شاہ کی تقریر تھی۔ انھوں نے جین ازم کے نقطۂ نظر سے خطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا وقفہ تھا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں یہ کہا تھا کہ پیس قائم کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز برداشت (restraint) ہے۔ برداشت کرنے والے کو پیس آف مائنڈ ملتا ہے جو کہ جین ازم میں انسانی ترقی کا اعلیٰ درجہ ہے۔
اس سلسلہ میں میں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ برداشت سے پیس حاصل ہوتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کوئی برداشت کیوں کر ے۔ برداشت میں کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ اور انسان چھوڑنے پر اسی وقت راضی ہوتا ہے جب کہ اس کو کوئی اس سے بڑی چیز مل رہی ہو۔ میں نے کہا کہ اسلام میں بھی صبر و برداشت کا اصول ہے۔ اسلام میں اس کا انعام یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے آدمی کو ابدی جنت (eternal paradise)بطور انعام ملے گی۔ مگر آپ جس چیز کو انعام بتاتے ہیں وہ صرف پیس آف مائنڈ ہے۔ انسان کا نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ آدمی صرف پیس آف مائنڈ کے نام پر اپنے مادی حقوق کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔ اسلام ضبط (restraint) کی زندگی کا انعام جنت کی اٹرنل ورلڈ کی شکل میں دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں ضبط و تحمل کی تعلیم بھی ہے، اور اسی کے ساتھ ضبط و تحمل کا محرک بھی۔ جب کہ دوسرے مذہبی یا غیر مذہبی نظاموں میں یہ ہے کہ وہ ضبط و تحمل کی تلقین تو کرتے ہیں، مگر وہ اس کے لیے کوئی محرک (incentive) پیش نہیں کرپاتے، اورمحرک کے بغیر صرف تلقین کی عملی طور پر کوئی اہمیت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نفرت کی نفسیات

موجودہ زمانہ میں ساری دنیا میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ شکایت اور احتجاج کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ موجودہ مسلمان دوسری قوموں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔ اس منفی نفسیات کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوت کا مزاج ختم ہوگیا ہے۔ دعوت ایک ایسا عمل ہے جو محبت اور خیر خواہی کی نفسیات کے تحت ظاہر ہوتا ہے۔ نفرت کی نفسیات کے تحت کبھی دعوت کا عمل ظہور میں نہیں آتا۔
عملی دعوت
ایک ہندو خاتون جو واردھا کی کانفرنس میں شریک تھیں انھوں نے کہا کہ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے۔ ان کا نام کوکِلّا اپادھیائے تھا۔ وہ پروفیسر ایس اے اپادھیائے کی بیوی تھیں۔ وہ بمبئی سے آئی تھیں (Tel. 23803811)
24 نومبر کی شام کو وہ میرے کمرے میں آئیں۔ میں نے وضو کیا اور ان کے سامنے دو رکعت نماز بلند آواز سے پڑھی۔ وہ بہت غور سے اس کو دیکھتی رہیں اور اس سے کافی متاثر ہوئیں۔ انھوں نے اسلام پر کتابیں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ ان کوہمارے یہاں کی چھپی ہوئی چند انگریزی کتابیں دی گئیں۔ اسی طرح اور بھی کئی لوگوں کو کتابیں دی گئیں۔ مثلاً ڈاکٹر نتین ویاس جو بڑودہ یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ آف فلاسفی کے ہیڈ ہیں۔ (ماہنامہ الرسالہ ، واردھا کا سفر، جولائی2004)
واپس اوپر جائیں

سیاحت: دعوتی سفر

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عَنْ أَبِی أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، ائْذَنْ لِی فِی السِّیَاحَةِ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ سِیَاحَةَ أُمَّتِی الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ تَعَالَى(سنن ابو داؤ، حدیث نمبر 2486)۔ یعنی ابو امامہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے خدا کے رسول، مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بیشک میری امت کی سیاحت اللہ کے راستے میں جہاد ہے۔
اس حدیث میں جہاد کا لفظ مسلح قتال کے معنی میں نہیں لیا جاسکتا۔ اس لیے کہ مسلح قتال ایک فرد کا عمل نہیں ہے، وہ ایک اجتماعی عمل ہے، جو ایک قائم شدہ حکومت کے نظم کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ جب کہ اس حدیث میں جس عمل کا ذکر ہے، وہ ایک انفرادی عمل ہے۔ جہاد بمعنی قتال اجتماعی عمل ہوتا ہے، نہ کہ کوئی انفرادی عمل۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں سیاحت سے مراد دعوتی سفر ہے۔ دعوت کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ آدمی مقامی طور پر کسی سے مل کر اس کو توحید اور آخرت کا پیغام دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی سفر کرکے ایک مقام سے دوسرے مقام پر جائے، اور توحید اور آخرت کا پیغام ان غیر ہم وطنوں کو پہنچائے۔
دعوتی سفر کسی سفر کے دوران اتفاقی ملاقات کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک مومن ذاتی طور پر یا اجتماعی طور پر منصوبہ بند انداز میں ایک مقام سے دوسرے مقام کا سفر کرے۔ وہ دعوتی ضرورت کے تحت تیاری کرے، اور منصوبہ بند انداز میں مقام سفر کے لوگوں تک دعوت اور آخرت کا پیغام دے، خواہ زبانی طور پر یا لٹریچر کے ذریعے یا مدعو کی زبان میں قرآن کا ترجمہ ڈسٹری بیوٹ کرنے کی صورت میں ۔سفر کے ذریعے دعوت کا دوسرا نام دعوہ آن دی موو (dawah on the move) ہے۔
واپس اوپر جائیں

مومن ایک با اصول انسان

عمر آباد سے مولانا سید اقبال احمد عمری کا پیغام موصول ہوا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ جا معہ دارالسلام عمر آباد کے سابق ناظم (پرنسپل )مولانا خلیل الرحمن اعظمی عمری کی پیدائش 2جنوری 1935کو عمر آباد میں ہوئی، اور 25 جون 2017کو ان کا انتقال ہوا۔مولانا خلیل الرحمن اعظمی عمری بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ نظم و ضبط کے معاملے میں بلا مبالغہ آپ نے طلبہ کی کئی نسلوں کو متأثر کیا ہے ۔ آخری ملاقات میں ایک ساتھی نے ان سے کہا کہ شیخ آپ کی نظامت بہت سخت تھی، مولانا کا جواب تھا کہ سخت نہیں بلکہ پابند تھی۔
حدیث ،نصرت بالرعب،کا مطلب مولانا مرحوم یہ بتایا کرتے تھے کہ اس سے مراد بااصول زندگی ہے۔ اصول پسند انسان سے اکثر لوگ ہیبت میں رہتے ہیں، امت اگر اصولی طور پر معاملہ کرے تو یقیناً وہ ترقی کے میدان میں آگے بڑھ سکتی ہے۔
اصول پسندی بلاشبہ کسی انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اصول پسندی ایک جامع اخلاقی صفت ہے۔ جس کے اندر اصول پسندی ہے، اس کے اندر تمام اخلاقی اوصاف موجودہیں۔ ایسا آدمی ایک لفظ میں قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہوتا ہے۔ اصول پسند آدمی وہ ہے، جس کے بارے میں پیشگی طور پر یہ اندازہ کیا جاسکے کہ کس صورت حال میں وہ کس طرح کا رد عمل ظاہر کرے گا۔ اصول پسند انسان جیسا اپنے لیے ہوتا ہے، ویسا ہی وہ دوسروں کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اصول پسند انسان دوسروں کے نفع اور نقصان کو بھی اتنا ہی اہمیت دیتا ہے، جتنا خود اپنے نفع اور نقصان کو۔ اصول پسند انسان اپنے عہد کا پابند ہو تا ہے۔ اصول پسند انسان جب بولتا ہے تو سوچ کر بولتاہے، اور جب وہ کرتا ہے تو کرنے سے پہلے سوچتا ہے، پھر کرتا ہےجو اس کو کرنا ہے۔ اصول پسند انسان آخری حد تک ایک سنجیدہ انسان ہوتا ہے۔ اصول پسندی بلاشبہ مومن کا کردار ہے۔ اصول پسند انسان وہ ہے جو قولاور عمل کے تضاد سے پاک ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
یہاں ہمارے ساتھی اس بات سے منفی (negative) ہورہے ہیں کہ وہ دعوتی کام کرتے ہیں، لیکن لوگ تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ اس کا حل کیا ہو، اور اپنے دعوتی ساتھیوں کو کیسے سمجھایا جائے۔ (طارق بدر، پاکستان)
جواب
جو لوگ دعوت کے معاملے میں اس طرح کی منفی بات کہتے ہیں، ان کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ قرآن میں نبیوں کا تذکرہ ہے۔ انبیا ء وہ لوگ ہیں، جو دعوت کا معیاری ماڈل تھے۔ انھوں نے جب لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی تو اکثریت نے منفی رد عمل کا اظہار کیا۔ چنانچہ قرآن میں اس تجربے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یَاحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا یَأْتِیہِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ (36:30)۔یعنی افسوس ہے بندوں کے اوپر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کے مقابلے میں منفی رد عمل کے باوجود انبیاء اپنا دعوتی کام کرتے رہے۔ انھوں نے لوگوں کی شکایت نہیں کی، اور نہ اپنا دعوتی کام چھوڑا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انبیاء جو دعوتی کام کرتے تھے، وہ مدعو کے لیے نہیں کرتے تھے، بلکہ اللہ کے لیے کرتے تھے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء دعوت کے کام میں ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ دعوت کا کام کریں، ان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اس ماڈل کو اپنے سامنے رکھیں۔مثلاً پیغمبر اسلام آخری پیغمبر ہیں۔ آپ کی مثال بتاتی ہے کہ دعوت کا ایک اصول ری پلاننگ ہے۔ مکی دور کا طریقہ موثر نہیں ہوا، تو آپ نے دعوت کا دوسرا منصوبہ بنایا، اور یہ دوسرا منصوبہ اتنا زیادہ کامیاب ہوا کہ پوری قوم نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا۔ اس نمونے سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کا ایک اصول ری پلاننگ ہے۔ اگر ایک طریقہ (method) موثر نہ ہو، تو داعی کو چاہیے کہ وہ دوسرے طریقہ کا تجربہ کرے۔ عین ممکن ہے کہ دوسرا طریقہ اللہ کی مدد سےکامیاب ثابت ہو۔  
سوال
ایک سلفی عالم نے تقریر کی کہ چند لوگوں کا منہج دعوت کلام وفلسفہ اور اسلوب عصر حاضر ہے۔ مگر سلفیوں کا استدلال وحی کے مطابق ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی:قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُکُمْ بِالْوَحْیِ (21:45)یعنی کہو کہ میں بس وحی کے ذریعہ سے تم کو آگاہ کرتا ہوں، لا بالکلام ولا بالفلسفة (علم الکلام اور فلسفہ سے نہیں)۔اس پر میرا سوال یہ ہے کہ عصرحاضر کا ایک داعی اسلوب عصر کو اپناتا ہے تو کیا اس کو فلسفہ کہا جائے گا، اور اس کو وحی سے إنذار نہ کرنے کا ہم معنی قرار دیا جائے گا؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
جواب
’’وحی کے ذریعہ یا وحی کے موافق انذار‘‘ کسی مخصوص مسلک کے مطابق انذار نہیں ہے۔ اس میں سارا قرآن شامل ہے ۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ اس آیت کے مطابق، آفاق و انفس کے مطالعے سے معلوم ہونے والی تمام نشانیاں اس میں شامل ہیں۔ آپ انفس اور آفاق کا مطالعہ کریں، اور اس سے حاصل کردہ معلومات کو اپنی دعوت میں استعمال کریں تو وہ سب انذار بالوحی میں شمار ہوگا۔ اگر آپ غور کیجیے تو آفاق و انفس کی نشانیوں میں سارے ثابت شدہ علوم شامل ہوجاتے ہیں۔ انذار بالوحی کسی فقہی مسلک پر مبنی انذار نہیں ہے، بلکہ سارے حقائق فطرت اس میں شامل ہیں۔
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ (42:30) ۔ اس آیت کے مطابق، اگر آپ ایسا کریں کہ مسلمانوں کو نصیحت کریں کہ دوسرے کے ظلم کی شکایت کرنا چھوڑیں ۔ہر ایسے تجربے کو خود اپنے محاسبہ کے خانے میں ڈالیں تو یہ بھی انذار بالوحی ہوگا، کیوں کہ قرآن سارا کا سارا وحی ہے، اور وحی یہ بتاتی ہے کہ جو مصیبت کسی کو پیش آتی ہے، وہ اس کی اپنی ہی کمزوریوں کی بنا پر ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے قومی مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا ، وحی کے خلاف ہے، اور مسلمانو ں کو خود اپنی اصلاح کی ترغیب دینا، وحی کے مطابق ہے۔ کیوںکہ قرآن کی یہ آیت ہم کو ایسا ہی بتار ہی ہے۔
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر نے والی ہو۔ اس آیت میں قول بلیغ کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کا کام اس طرح کرو کہ پہلے مدعو کا مطالعہ کرو، مدعو کے ذہن کو سمجھو، اور پھر ایسے انداز میں اس سے بات کہو، جو اس کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق، سارے انسانی علوم دعوت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ مدعو کی نفسیات کو جاننے کے لیے جس علم کی ضرورت ہو، وہ سب علم دعوت کا مطلوب علم بن جاتا ہے۔ داعی کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ حسب استطاعت ہر اس علم سے واقفیت حاصل کرے، جو مدعو کو مطمئن کرنے والا ہو،حتی کہ حدود کے اندر کلام اور فلسفہ اور عصری اسلوب بھی۔
قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (6:108)۔ قرآن کی اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایسی بات نہ کہو، جو مدعو کو مشتعل کرنے والی ہو۔ اس آیت کے مطابق، ہم کو بہت زیادہ محتاط زبان میں کلام کرنا چاہیے۔ اشتعال دلانے والا کلام (provocative speech) سے مکمل احتراز کرنا چاہیے۔ اگر غور کیجیے تو آج کل مسلمانوں کا سارا لکھنے اور بولنے والا طبقہ مدعو کے خلاف لکھنے اور بولنے میں مصروف ہے۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ تمھیں اس آیت کے مطابق، لکھنا اور بولنا چاہیے۔
انذار بالوحی کسی محدود اسلوب کلام کا نام نہیں ہے۔ اس میں سارا قرآن، ساری حدیث، ساری سنت شامل ہے۔ اس کے مطابق مسلم رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ جدال احسن کا طریقہ اختیار کریں (النحل، 16:125)۔ وہ مناظرہ بازی کو بالکل ختم کردیں۔ وہ عادلانہ کلام کا طریقہ اختیار کرے، وہ عدل کے خلاف ہر گز نہ جائے(المائدہ، 5:8)، الغاء فی الکلام نہ کریں(فصلت، 41:26)، یعنی عیب زنی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس طرح کی سینکڑوں باتیں ہیں، جو انذار بالوحی میں شامل ہیں۔ جب کہ مسلمان عام طور پر اس کے خلاف طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان تمام باتوں کے لیے مسلمانوں کو نصیحت کرنا انذار بالوحی میں شامل ہے۔
سوال
انسان کے اندر گویا ایک پیمانہ رکھ دیا گیا ہےجس کو ہم ضمیر کہتے ہیں جس کے ذریعے وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکے۔ یہاں پر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ عام حالات میں اپنے عمل کا ذمہ دار خود انسان ہے، اور نتیجہ کے طور پر جزا اور سزا کا حق دار بھی۔ دوسرا ہے عقیدہ کا معاملہ, جو انسان کو اکثر وراثت اور ماحول سے ملتا ہے۔اسلام میں ہم کو بتایا جاتا ہے کہ ان معاملات میں جن کے اندر انسان کو تمیز حاصل ہے، ہوسکتا ہے اس کی غلطی پر اس کو معاف کردیا جائے، اور وہیں عقیدہ کے معاملہ میں جہاں کسی طرح کے شکوک کا سامنا ہے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو رعایت نہیں دی جائے گی۔ کیا کچھ غیر مناسب نہیں لگتا۔ (ایک قاریٔ الرسالہ، ممبئی)
جواب
یہ سوال ایک غلط مفروضہ پر قائم ہے۔ سوال میں کہا گیا ہے کہ عقیدہ کا معاملہ انسان کو اکثر وراثت اور ماحول سے ملتا ہے۔یہ جملہ ایک غلط بنیاد پر قائم ہے۔ عقیدہ کا معاملہ ہرگز وراثت اور ماحول کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ سنجیدہ غور و فکر کے بعد حاصل ہونے والے یقین کا معاملہ ہے۔ آدمی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قسم کی کوشش کے ذریعہ اپنے عقیدہ کو درست بنائے۔ کیوں کہ اللہ کے یہاں صرف درست عقیدہ ہی قبول کیا جائے گا۔ غلط عقیدہ اللہ کے یہاں قابل قبول نہ ہوگا۔
آپ کا یہ جملہ بھی درست نہیں ہے کہ ان معاملات میں جن کے اندر انسان کو تمیز حاصل ہے، ہوسکتا ہے اس کی غلطی پر اس کو معاف کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی غلطی کی معافی اپنے آپ نہیں ہوجاتی، کسی غلطی کی معافی صرف اس وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی کو اس پر ندامت (repentance) ہو، وہ دل سے توبہ کرے۔ وہ اپنی زندگی کے لیے نیا فیصلہ لے۔ اس کو قرآن میں توبۂ نصوح (التحریم، 66:8) کہا گیا ہے۔ توبۂ نصوح کے بغیرغلطی ، غلطی ہی رہے گی۔ توبۂ نصوح کے بغیر ہرگز کوئی غلطی معاف نہ ہوگی۔
سوال
ایک صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:مزاج کاملیت پسند ہے، جو جذباتی نقصان ہوگیا، دل آج تک اسی میں پھنسا ہوا ہے۔ کچھ اسباب کی بنا پر معاشرے میں جو مل رہا ہے، وہ دل سے قبول تو نہیں، لیکن کیا صبر کرکے جو مل رہا ہے اس پر گزارا کیا جائے، یہ سوچ کر کہ جو ملا ہے وہ اسی دنیا تک ہے۔ اور من پسند چیز آخرت میں ملے گی۔ (ایک قاری الرسالہ، پاکستان)
جواب
آپ نے جس تجربے کا ذکر کیا ہے، اس کا تعلق آخرت سے یا جنت سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق صرف دنیا کے بارے میں قانونِ فطرت سے ہے۔ موجودہ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طور پر حوصلہ مند (ambitious)پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس عارضی دنیا میں محدودیت (limitations) کا قانون ہے۔ اس لیے یہاں ہر شخص کو اس کے اپنے حوصلے کی نسبت سے کم ملتا ہے۔ تاریخ میں کوئی بھی شخص ایسا پایا نہیں جاتا، جس نے اپنے حوصلے کے بقدر دنیا کو حاصل کیا ہو۔
اس حقیقت کی بناپر اس دنیا میں انسان کے لیے دانشمندی یہ ہے کہ وہ — حقیقت پسند بنے، یعنی زیادہ چاہے، مگر کم پر راضی ہوجائے۔ موجودہ دنیا کا یہ قانون قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ (2:155)۔ یعنی اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو ۔
یہ آیت موجودہ دنیا کے مادی قانون کو بتا رہی ہے۔ اس دنیا میں ایسا ہوگا کہ یہاں انسان کو مختلف پہلوؤں سے نقصان کا تجربہ ہوگا۔ کسی شخص کے لیے اس دنیا میں نقصان سے بچنا ممکن نہیں، نہ صالح لوگوں کے لیے ،اور نہ غیر صالح لوگوں کے لیے۔ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف ایک چوائس ہے، اور وہ صبر ہے۔ صبر کوئی بزدلی کی بات نہیں۔ صبر دانش مندی کی بات ہے۔ صبر کا مطلب ہے، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی ملے ہوئے پر کرنا، اور جو نہیں ملا اس کو خدا کی اسکیم آف تھنگس (scheme of things) کے خانے میں ڈال دینا ہے۔ یعنی جو ملا اس کو اپنا سمجھنا، اور جو نہیں ملا اس کے بارے میں اس اصول پر راضی ہوجانا کہ وہ خدا کا فیصلہ تھا، اور خدا کے فیصلے کو کوئی بدل نہیں سکتا۔
سوال
میں خدا سے کوئی قلبی تعلق محسوس نہیں کرتا، صرف جنت کی لالچ یا جہنم کا خوف مجھے عبادت کی جانب مائل کرتا ہے۔ اسی طرح میرا یہ سوال بھی ہے کیا اچھے اعمال کی بنیاد پر صرف جنت ملے گی، دنیا میں جو آرزوئیں ادھوری رہ گئی تھیں، وہ نہیں ملیں گی۔( جہانزیب کمال، کراچی)
جواب
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ جو بات کہہ رہے ہیں وہ انسانی نفسیات کے خلاف ہے۔ اس لیے مجھے شک ہے کہ آپ نے خود اپنے آپ کو دریافت نہیںکیا۔ اللہ رب العالمین اور جنت دونوں کو ماننا ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ جو آدمی اللہ رب العالمین کا طالب ہو گا، وہ اسی کے ساتھ جنت کا طالب بھی بن جائے گا۔ دونوں عقیدے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنت کا طالب ہونا، اور خدا سے بے تعلق ہونا دو متضاد حالتیں ہیں۔ کیوں کہ جنت ایک مطلوب چیز ہے، اور اس مطلوب کو دینے والا (giver) صرف اللہ رب العالمین ہے۔ ایسی حالت میں بالکل فطری بات ہے کہ آپ دونوں کو لیں،یا دونوں کو چھوڑ دیں۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جنت ان افراد کے لیے ہے جو اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کریں۔ جو افراد اپنے اندر جنتی شخصیت بنائے، وہی جنت میں بسائے جانے کے قابل ٹھہریں گے۔ یہ مبہم قسم کے اعمال کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اپنی شخصیت کی تعمیر کا معاملہ ہے۔
دنیا کی آرزوئیں پوری ہوئیں یا نہیں ۔ یہ اصل مسئلہ نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی آدمی نے جنت کے معیارکے مطابق اپنے آپ کو مستحق امیدوار (deserving candidate) بنایا یا نہیں بنایا۔ جنت میں جو افراد داخل کیے جائیں گے، وہ کبھی اس احساس سے دوچار نہ ہوں گے کہ اس کی فطری آر زوئیں پوری نہیں ہوئیں۔کیوں کہ جنت میں جو اعلیٰ معیار کی نعمتیں ملیں گی، اس میں وہ پوری طرح اس کے خواہش کی تکمیل موجودہوگی۔
õõõõõ
ایک نوجوان عالم دین، محمد طلحہ ندوی(بجنور) 26 مارچ 2019کو صدر اسلامی مرکز سےملنے کے لیے ان کے آفس میں آئے ، اور نصیحت کی درخواست کی، تو صدر اسلامی مرکز نے ان کو یہ نصیحت کی
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آپ ٹھہر ٹھہر کر بولنا سیکھیں، کبھی تیز تیز نہ بولیں، تاکہ سننے والا ہر بات کو پکڑتا چلاجائے، یہی طریقہ رسول اللہ کا تھا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یُحَدِّثُ حَدِیثًا لَوْ عَدَّہُ العَادُّ لَأَحْصَاہُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر3567؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2493)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات اس طرح بولتے تھےکہ اگر کوئی گننے والا گننا چاہتا تو شمار کرلیتا۔
(2) سیاسی مسائل، اور شکایت کے مسائل اور دینی اختلاف کے مسائل پر بولنا بالکل چھوڑ دیں،ان کو ممنوعات کلام میں شمار کریں۔اگر آپ نے ان دونصیحتوں پر عمل کیا، تو ان شاء اللہ، آپ ایک نئے انسان بن جائیں گے۔
نوٹ ہر انسان کو اس کے خالق نے کسی خاص صلاحیت کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اس عطیۂ الٰہی کو دریافت کرے، اور اس کو منصوبہ بند انداز میں استعمال کرے۔
واپس اوپر جائیں