Pages

Tuesday 1 October 2019

Al Risala | October 2019 (الرسالہ،اکتوبر)

4

-قرآن کا نزول

5

- تواصی بالحق،تواصی بالصبر

6

- اولاد کے لیے بہتر عطیہ

7

- ایک پروفیسر کا واقعہ

8

- دعوتی سیاحت

26

- جاننے والوں کا نہ جاننا

28

- مبنی بر مواقع پلاننگ

30

- زندہ قوم، زوال یافتہ قوم

32

- حقیقت پسندانہ سوچ

33

- روحانی ترقی

34

- مثبت اثر لینا

35

- مینج کرنا سیکھیے

36

- رحمت، سیف

37

- بین اقوامی رواج

38

- پیغمبرانہ ماڈل سے انحراف

45

- کنڈیشنڈ سوچ

46

- احتجاج کوئی پالیسی نہیں

47

- الفاظ، الفاظ، الفاظ

48

- آج کا نوجوان

49

- کامیابی اپنے ہاتھ میں

50

- خبرنامہ اسلامی مرکز


قرآن کا نزول

اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب قرآن اس لیے اتاری کہ وہ سارے عالم کے لیے انذار کا ذریعہ بنے۔ اس حقیقت کا اعلان سورہ الفرقان میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔
قرآن خالق کائنات کے تخلیقی منصوبے کا مستند اعلان ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس خدائی اعلان کو پڑھے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ قرآن کی ایک اور آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ (14:4)۔ یعنی اور ہم نے جو پیغمبر بھی بھیجا، اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، تاکہ وہ ان سے بیان کردے۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انذار کا یہ کام ہر قوم کی اپنی قابل فہم زبان (understandable language) میں انجام پائے۔ جیسا کہ معلوم ہے، قرآن کسی بین اقوامی زبان (lingua franca) میں نہیں ہے۔ بلکہ پورا قرآن عربی زبان میں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کا ترجمہ ہر قوم کی اپنی معروف زبان (understandable language) میں کیا جائے۔ اور پھر کمیونی کیشن کے ذرائع کو استعمال کرکے اس کو تمام قوموں کے لیے قابلِ حصول بنایا جائے۔
ساتویں صدی عیسوی میں جب قرآن اترا تو اس زمانے میں پرنٹنگ پریس وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس زمانے میں رسول اور اصحابِ رسول قرآن کے عربی متن (Arabic text) کے لیے مقری (reciter)بن گئے۔ بعد کے زمانے میں جب کہ دنیا میں ایج آف کمیونی کیشن آچکا ہے، تو اب قرآن کو عالمی سطح پر پہنچانے کے لیے یہ کرنا ہوگا کہ قرآن کے متبعین، یعنی امت محمدی اس کی عالمی اشاعت کےلیے ڈسٹری بیوٹر بن جائیں۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے، جس کو اگر امتِ محمدی انجام نہ دے، تو اس کا امت محمدی ہونا مشتبہ ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

تواصی بالحق،تواصی بالصبر

قرآن کی سورہ العصر میں اہلِ ایمان کی صفت بتاتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (103:3)۔ یعنی وہ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں۔
قرآن کی اِس آیت میں حق سے مراد اہلِ ایمان کی داخلی صفت ہے، اور صبر سے مراد اہلِ ایمان کی وہ صفت ہے، جس کا تعلق خارجی حالات سے ہے۔ ایمان کے معاملے میں اصل مطلوب چیز حق کا اتباع ہے۔ مومن وہ ہے جو حق کو شعوری طورپر دریافت کرے اور پھر عملاً اُس پر قائم ہوجائے۔
مگر یہ فیصلہ کوئی سادہ فیصلہ نہیں۔ جب ایک شخص اتباعِ حق کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ فیصلہ ایک ایسی دنیا میں ہوتا ہے جہاں طرح طرح کے مسائل ہیں۔ کبھی کوئی خارجی چیز اس کی خواہش (desire) یا اس کی انا (ego) کو بھڑکاتی ہے اور اس کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی خواہش سے متاثر ہو کر حق کے راستے سے ہٹ جائے۔ اِسی طرح کبھی خارجی مشکلات سے اس کے ارادے میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے، اور ضرورت ہوتی ہے کہ اس کو دوبارہ ثابت قدمی پر آمادہ کیا جائے۔
یہی وہ مواقع ہیں، جوتواصی کی ضرورت پیدا کرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اہلِ ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سچے مددگار بن جائیں۔ وہ خیر خواہانہ نصیحت کے ذریعے ایک دوسرے کو سنبھالیں۔ ایسے مواقع پر وہ ایک دوسرے کو درست مشورہ دے کر یہ کوشش کریں کہ اُن کا ساتھی حق سے منحرف نہ ہونے پائے، وہ صبر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بدستور حق پر قائم رہے۔ تواصی کا مطلب باہمی نصیحت یا باہمی مشورہ ہے۔
مشورہ کی کچھ لازمی شرطیں ہیں — ایک یہ کہ وہ مبنی بر خیر خواہی مشورہ ہو ،اور دوسرے یہ کہ وہ عملی طورپر ایک ممکن العمل مشورہ ہو۔ حقیقی تواصی وہی ہے جس میں یہ شرطیں پائی جائیں۔ تواصی بالحق سے مراد نظری معاملے میں تواصی ہے، اور تواصی بالصبر سے مراد عملی معاملے میں تواصی۔
واپس اوپر جائیں

اولاد کے لیے بہتر عطیہ

اولاد کی تربیت کے سلسلے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے أَیُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 1952)۔ یعنی ایوب بن موسیٰ اپنے والد موسیٰ اور دادا ابن سعید سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی باپ اپنے بیٹے کو نیک ادب اور صحیح تربیت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَأَنْ یُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَہُ، أَوْ أَحَدُکُمْ وَلَدَہُ، خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَتَصَدَّقَ کُلَّ یَوْمٍ بِنِصْفِ صَاعٍ(مسند احمد، حدیث نمبر 20900)۔ یعنی جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کوئی آدمی اپنی اولاد کو ادب سکھا ئے، یا تم میں سے کوئی اپنی اولاد کو ، وہ اس سے بہتر ہےکہ آدمی ہر روز نصف صاع صدقہ کرے۔
اس حدیث رسول میں در اصل فطرت کے ایک نظام کو بتایا گیا ہے۔ ہر انسان جو پیدا ہونے کے بعد اس دنیا سے کچھ سیکھتا ہے، وہ تجربہ (experience) ہے۔ اس کے بعد وہ دنیا سے چلا جاتا ہے، اور اس کی جگہ دوسرے لوگ آتے ہیں۔ فطرت کے اس نظام کا تقاضا ہے کہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا سے بہترین تجربات حاصل کرے، اور پھر ان تجربات کو اپنے بعد والوں کے لیے منتقل کرتا رہے۔ اس طرح ہر آنے والی نسل اپنی اگلی نسل سے بہتر زندگی کا سبق سیکھتی رہے گی، اور اس طرح پوری انسانیت تربیت یافتہ نسل کی صورت اختیار کرتی رہے گی۔
فطرت کے اسی نظام کی ایک منظم صورت وہ ہے، جس کو تعلیم کہا جاتا ہے۔ لوگوں نے اپنے تجربات کو نسل در نسل منتقل کرنے کے لیے اس کو ادارے (organization)کی صورت دے دی۔ اسی ادارے کا نام تعلیمی نظام ہے۔ ہر گھر اس ادارے کا ایک ابتدائی حصہ ہے۔تربیتِ اولاد کا عمل ذمے داری کا ایک ظاہرہ ہے، نہ کہ محبتِ اولاد کا ظاہرہ۔
واپس اوپر جائیں

ایک پروفیسر کا واقعہ

دہلی کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کا قصہ مجھے معلوم ہوا۔ وہ بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ان کے پاس سواری کے لیے ایک بائیسکل کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ ان کے بچے جب بڑے ہوئے تو انھوں نے اپنے باپ سے کہا کہ اتنے دنوں سے آپ سروس کررہے ہیں اور آپ کے پاس سواری کے لیے ایک بائیسکل کے سواکچھ اور نہیں۔ حالاں کہ یہاں دوسرے لوگوں کے پاس کار ہے، جس پر وہ اور ان کی فیملی کے لوگ سواری کرتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ میری عمر تو بائیسکل پر گزر گئی ، اب اگر تم لوگ کار چاہتے ہو، تو خود کما کر کار خرید لو۔ میں تو اپنے لائف اسٹائل کو بدلنے والا نہیں ہوں۔
اس واقعے میں یہ سبق ہے کہ باپ کو اپنے بیٹے کے حق میں کیسا ہونا چاہیے۔ باپ کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ سادہ زندگی گزارے، وہ قناعت کے اصول پر قائم رہے، اور بیٹوں کو یہ موقع دے کہ وہ خود محنت کرکے اپنی آمدنی بڑھائیں۔ وہ اپنی کمائی سے کار خریدیں، اور گھر بنائیں۔ باپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بیٹے کے لیے کمائی کرے۔ بیٹے کی ترقی خود اپنی محنت کی کمائی سے ہوگی، نہ کہ باپ کی کمائی سے۔
جو باپ اپنے بیٹے کے ساتھ ایسا سلوک کرے، اس کے بیٹے کے اندر اپنے آپ اعلیٰ اخلاقی اوصاف پیدا ہوگا۔ اس کے اندر محنت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس کے اندر خود اعتمادی کی صفت پیدا ہوگی۔ وہ سادہ زندگی کی اہمیت کو سمجھے گا۔ وہ سماج کو دینے والے (giver) ممبر بنے گا، نہ کہ لینے والا(taker)۔ اس کے اندر شکایت کی نفسیات نہیں پیدا ہوگی، بلکہ وہ مثبت نفسیات کا حامل انسان بن کر تیار ہوگا۔ اس کے اندر سادگی کی نفسیات پرورش پائے گی، جو کہ اعلیٰ اخلاقیات کی اصل ہے۔ ایسا انسان حقیقت پسند انسان بنے گا۔ ایسا انسان اپنے سماج کا پرابلم ممبر نہیں بنے گا، بلکہ وہ اپنے سماج کا مفید ممبر بنے گا۔اچھا انسان اچھی تربیت سے بنتا ہے، نہ کہ لاڈ پیار (pampering) کی کثرت سے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی سیاحت

ایک دعوتی گفتگو
عرب امارات کے سفر(مئی 2004)میں جناب عاطف سید انور علی کاظم (38 سال) سے 9 مئی کی صبح کو ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کچھ انوکھے واقعات بتائے۔ اپنا ایک تجربہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا ملنا جلنا دبئی کے ایک عیسائی سے تھا۔ وہ کسی قدر اسلام کی طرف مائل تھا۔ پھرانھوں نے کہا کہ میں ایک عالم سے ملا اور ان سے کہا کہ آپ میرے ساتھ چل کر اس عیسائی سے ملیں، اور اس کی تالیفِ قلب کے طور پر آپ کی طرف سے اسے ایک تحفہ پیش کیا جائے۔ اس عالم نے کہا :إِنَّ الْعِلْمَ یُؤْتَى وَلَا یَأْتِی (المدخل إلى السنن الکبرى للبیہقی، اثر نمبر686)۔ یعنی علم کے پاس جایاجاتا ہے ،علم خود نہیں آتا۔
یہ قول دراصل امام مالک کا ہے۔ ایک مرتبہ عباسی خلیفہ ہارون رشید نے چاہا تھا کہ امام مالک انھیں اپنی کتاب موطا سنانے کے لیے اس کے محل میں آئیں۔ مگرامام مالک نے کہا کہ آپ کو میرے پاس آنا چاہیے۔ کیوںکہ طالب کو چاہیے کہ وہ خود چل کر علم کے پاس جائے، نہ کہ علم اس کے پاس آئے۔عاطف صاحب نے مذکورہ جملے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ اصول مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہ اصول غیر مسلموں کے لیے نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ غیر مسلم تک علم پہنچانا دراصل دعوت کا عمل ہے، اور دعوت ہمارا اپنا فریضہ ہے۔ جب ہم اسلام کا علم کسی غیر مسلم تک پہنچاتے ہیں، تو ہم خود اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں، اور فریضہ ادا کرنا خود اس کا کام ہے، جس پر وہ چیز فرض ہورہی ہو۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے مجھے نماز کا فرض ادا کرنا ہے، تو مجھے خود مسجد جانا پڑے گا۔ مسجد میرے پاس اٹھ کر نہیں چلی آئے گی۔
عاطف صاحب نے اس کے بعد تبلیغی جماعت کے بعض افراد سے رابطہ قائم کیا اور مذکورہ مسیحی کے بارے میں انہیں بتایا۔ وہ لوگ فوراً وہاں جانے کے لیے تیارہوگئے، کیوںکہ ان کے اندر پہلے ہی سے یہ مزاج تھا کہ دین کو چل کر پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ تبلیغی جماعت کے 3 آدمی وہاں گئے۔ انھوں نے کچھ تحفہ (عطر، دعا کی کتاب اور کیسٹ) اس عیسائی کو پیش کیا ،اور اس سے نرمی اور محبت کے ساتھ بات کی اور اس کو دین کا ابتدائی پیغام پہنچایا۔
عاطف صاحب نے مزید بتایا کہ تبلیغی لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر کم از کم تین آدمی کی جماعت بناتے ہیں۔ ان میں سے ایک امیرہوتا ہے، اور دوسرا متکلم، اور تیسرا ذاکر۔ امیر گویا اس جماعت کا قائد ہوتا ہے۔ متکلم کا کام یہ ہے کہ وہ ضرورت کے وقت بات چیت کرے۔ ذاکر کا کام یہ ہے کہ وہ دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتا رہے اور دعا کرتا رہے کہ یہ مشن کامیاب ہو۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ یہ طریقہ نہایت فطری ہے۔ وہ اسلام کی اسپرٹ کے عین مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر مجلس میں یہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس طریقہ کو مسلم کلچر کا ایک جزبن جانا چاہیے۔
عاطف صاحب نے ایک اور بات بتائی۔ انھوں نے کہا کہ حق کے داعی کے اندر تین صفت ہونی چاہیے۔ یہ تین صفتیں انھوں نے قرآن کی ایک آیت سے اخذ کی ہیں۔ وہ آیت یہ ہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ (41:33)۔ یعنی اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی، جس نے اللہ کی طرف بلایا، اور نیک عمل کیا، اور کہا کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ داعی کے اندر پہلی مطلوب صفت یہ ہے کہ دعوتی کام پر مکمل یقین ہو، اور دوسرا یہ کہ جو چیز داعی دوسروں کو بتارہا ہے وہ خود بھی اس پر عمل کرنے والا ہو، تیسرا یہ کہ آدمی کے اندر تواضع (humbleness)کی صفت پائی جائے۔ ایک سچے داعی کے اندر یہ تین صفتیں ہونی چاہئیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے۔ یہی مزاج پوری امت میں ہونا چاہیے۔
دعوت کا ایک طریقہ
ایک غیر مسلم سے ملاقات ہوئی۔ ان سے میں نے روحانیت کے انداز میں کچھ باتیں کہیں۔ وہ میری باتوں کو سن کر متاثر نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں سچائی کا متلاشی (seeker) ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ کو میں ایک دعا بتاتاہوں۔ آپ اس کو پابندی کے ساتھ روزانہ پڑھیں۔ پھر میں نے یہ قرآنی دعا ایک کاغذ پر لکھی اور اس کو انہیں دیا۔ میں نے کہا کہ آپ اس دعا کو روزانہ پڑھیں۔ وہ دعا یہ تھی:رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ (28:24)۔یعنیخدایا، جو خیر تو نے میری طرف اُتارا، میں اس کا محتاج ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں اس دعا کو روزانہ پڑھوں گا۔(عرب امارات کا سفر)
میڈیا رپورٹنگ
عرب امارات کے سفرمیںایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ جب بھی کوئی اصلاح کا کام کیا جائے، خاص طور پر جب کہ وہ گہری بنیادوں پر کیا جارہا ہو تو میڈیا میں اس کا چرچا یقینی ہے۔ میڈیا کے مزاج کے مطابق، یہ چرچا تقریباً ہمیشہ منفی انداز سے ہوتاہے۔ اصلاح و دعوت کے میدان میں کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ میڈیا کی اس منفی رپورٹنگ کی پروا نہ کریں۔ منفی رپورٹنگ کے اندیشہ کی بنا پر وہ ایسا نہ کریں کہ میڈیا سے اعراض کرنے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر مائنس پوائنٹ کا ایک پلس پوائنٹ ہوتا ہے۔ یہی حال میڈیا کا بھی ہے۔ میڈیا کی ناقص رپورٹنگ پھر بھی ایک مفید کام کرتی ہے، اور وہ آپ کے کام کی پبلسٹی ہے۔ پبلسٹی کے بغیر کوئی بھی کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پبلسٹی لوگوں کے اندر تجسس پیدا کرتی ہے، اور تجسس پیغام کی اشاعت کا ذریعہ بنتا ہے۔
عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر
’’عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر‘‘ کا مطلب ہے عصری ذہن کے لیے اسلام کو قابلِ فہم (understandable) بنانا۔ مثلاً بنگلور کے روزنامہ سالار کے شمارہ26جولائی 2005 میںپہلے صفحہ پر ایک خبر شائع ہوئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ مسلم علماء کے ایک وفد کو خطاب کرتے ہوئے یہاں کے پولیس کمشنر اَجے کمار نے کہا کہ: آپ کو چاہیے کہ جمعہ کے خطبے میں نئی نسل خصوصاً نوجوان طبقے کو آپ ایسا پیغام دیں کہ ان نوجوانوں میں خود اعتمادی، وطن پرستی اور ایک اچھا شہری بننے کا جذبہ پیدا ہو جائے، وہ اپنی زندگی صرف تعمیری کاموں ہی میں صرف کریں، اور کسی طرح کے منفی جذبات ان کے اندر پیدا نہ ہوں‘‘۔
اس خبر کو لے کر بنگلور کے سفر میں محمد ضیاء صاحب نے کہا کہ میں جمعہ کی نماز باقاعدہ طورپر مسجد میںادا کرتا ہوں، اور ہر ہفتے جمعہ کے خطبات سنتا ہوں، اسی کے ساتھ میں مسلم علماء کی تقریروں میں بھی شرکت کرتا ہوں، میںنے پایا کہ کمشنر صاحب نے مسلم علماء سے جو کام کرنے کے لیے کہا ہے، وہ کام بالفعل ہورہا ہے۔ مسلم علماء بر ابر مسلم نوجوانوں کے سامنے قرآن وحدیث کے حوالے سے بہت سی باتیں بتاتے رہتے ہیں، مگر نوجوانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میںاصل سوال یہ ہے کہ مزید کیا کیا جائے۔ کیوں کہ جہاں تک کمشنر صاحب کے مشورے کا تعلق ہے وہ تو علماء پہلے ہی سے انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ علماء کی تقریریں بے اثر کیوں ہور ہی ہیں۔
میںنے کہا کہ یہ علماء جو باتیں کرتے ہیں، وہ روایتی زبان میں ہوتی ہیں۔ روایتی زبان اپنا اثر کھو چکی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ زمانۂ حاضر کی زبان میں لوگوں کو اسلام کا مثبت پیغام پہنچایا جائے۔میںنے مثال دیتے ہوئے کہا کہ علماء عرصے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ اسلام کے خاندانی نظام میں مرد کو قوّام (حاکم) کا درجہ دیاگیا ہے۔ مگر جدیدتعلیم یافتہ خواتین اس پر منفی ردّ عمل کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ نئے دَور کی خواتین کا ذہن صنفی مساوات (gender equality) کے نظریے پر بنا ہے۔ اس لیے ان خواتین کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ مرد کو خاندانی نظام میں قوّام کا درجہ دیا جائے۔
اس سلسلے میں میںنے اپنا تجربہ بتایا۔ میںنے کہا کہ جدید تعلیم یافتہ خواتین، مسلم اور غیر مسلم دونوں، کے درمیان مجھے بار بار خطاب کرنے کا موقعہ ملا ۔ خواتین اکثر قوّامیت کے نظریہ پر اعتراض کرتی تھیں۔ میں نے لفظ بدل کر قوّام کی جگہ باس (boss) کا لفظ استعمال کیا۔ میں نے کہا کہ ہر ادارہ اور ہر دفتر کو منظّم طورپر چلانے کے لیے ایک باس ہوتا ہے۔ کارکن خواتین اپنے دفتروں میں اس باس کو پوری طرح تسلیم کرتی ہیں۔ اسی طرح مرد گھر کا باس ہے۔ پھر اس لیے اعتراض کیوں:
Bossism is a universal principle, and home is not an exception.
میں نے اپنے تجربے میں پایا کہ جدید تعلیم یافتہ خواتین کو جب میں باس کی اصطلاح میں اس بات کو بتاتا ہوں تو وہ فوراً اس کو مان لیتی ہیں۔ ہمارے علماء کو چاہیے کہ وہ جدید علوم سیکھیں، اور وقت کے اسلوب میںاسلام کی تعلیمات پیش کریں۔ اس کے بغیر مسلم نوجوانوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
خدائی ہدایت کی ضرورت
ایک صاحب نے کہا کہ ہم کو خدا کی ہدایت کی کیا ضرورت۔ ہمارا ضمیر ہم کو بتا تا رہتا ہے۔ اگر ہم اپنے ضمیر کی آواز پر چلیں تو وہی نجات کے لیے کافی ہے۔ میںنے کہا کہ ضمیر کوئی قابلِ اعتماد ذریعہ نہیں۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی میں بار بار آدمی کے اوپر ذاتی انٹرسٹ غالب آجاتا ہے۔ مختلف مادّی مصلحتوں کی بنا پر آدمی اپنے ضمیر کے خلاف چلنے لگتا ہے۔ آدمی کی یہ روش اس کے ضمیر کودھیرے دھیرے بے حس بنا دیتی ہے۔ اس کی حسّاسیت یا ختم ہوجاتی ہے یا کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی کے پاس ضمیر کے علاوہ کوئی اٹل رہنمائی موجود ہو۔ یہ رہنمائی خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔(بنگلور کا سفر)
روحانیت اور مذہب
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ روحانیت دراصل مذہب کا اعلیٰ درجہ ہے۔ اب دنیا میں مذہب کا دَور ختم ہورہا ہے۔ اب ساری دنیا میں روحانیت کا دَور آرہا ہے۔ میںنے کہا اصل بات یہ ہے کہ آپ کی یہ بات رواجی مذہب کے لیے درست ہے۔ عام رَواج میں جس چیز کو مذہب کہا جاتا ہے وہ دراصل مذہب کا ظاہری فارم ہے۔ جہاں تک مذہب کی اصل اسپرٹ کا تعلق ہے، وہ وہی ہے جس کو روحانیت کہا جاتا ہے۔
روحانیت مذہب کا اعلیٰ درجہ نہیں۔ روحانیت مذہب کی اصل اسپرٹ ہے۔ مذہب آدمی کو مادّی سطح سے اُٹھا کر اعلیٰ فکری سطح پر پہنچا دیتا ہے۔ اسی کا نام روحانیت ہے۔ حیوانات جسمانی سطح پر جیتے ہیں۔ انسان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ رُوح کی سطح پر جینے لگے۔(بنگلور کا سفر)
کامیابی کا راز
ایک صاحب نے سوال کیا کہ زندگی کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اخلاقی قدروں اور انسانی اصولوں کے مطابق زندگی گذاریں تو ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ میںنے کہا کہ انسان کی زندگی کے دو مرحلے ہیں۔ ایک ہے موت سے پہلے کی عارضی زندگی اور دوسرا ہے موت کے بعد کی ابدی زندگی۔ آپ جوطریقے بتارہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کو عارضی زندگی میں بظاہر کامیاب کردے۔ مگر موت کے بعد کی ابدی زندگی میں اس قسم کی کامیابی کسی کے لیے مدد گار بننے والی نہیں۔ موت کے بعد کی زندگی کو کامیاب بناننے کے لیے یہ جاننا ہوگا کہ اس کے لیے خالق کا کریشن پلان کیا ہے۔(بنگلور کا سفر)
تمام مذاہب سچے ہیں
کچھ ہندو حضرات سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ تمام مذہب سچے ہیں۔ آدمی جس مذہب کی بھی پیروی کرے وہ نجات پاجائے گا۔ انہوںنے کہا کہ راستے جُدا ہوسکتے ہیں مگر منزل ایک ہے۔
میںنے کہا کہ ایک تصرف کے ساتھ آپ کی بات درست ہے۔ وہ یہ کہ تمام مذاہب سچے تھے، مگر بعد کو ہر مذہب کے اندر تبدیلیاں ہوگئیں۔ اب صرف قرآن غیر محرّف حالت میں ہے۔ بقیہ تمام مذہبی کتابیں تحریف کی بنا پر غیر مستند ہوچکی ہیں۔ اس لیے اصولی طورپر ہر مذہب کی ابتدائی صداقت کو مانتے ہوئے میں کہوں گا کہ اب قابلِ تقلید کتاب صرف قرآن ہے۔ اب نجات کا دارومدار صرف قرآن کے اتباع پر ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ قرآن افضل کتاب ہے بلکہ اس لیے کہ قرآن دوسری مذہبی کتابوں کے مقابلے میں محفوظ اور مستند حالت میں موجود ہے۔(بنگلور کا سفر)
قومی ذہن، دعوتی ذہن
موجودہ زمانہ میں دعوتی نقطۂ نظر سے سب سے بڑا حادثہ یہ پیش آیا ہے کہ قومی شکایتوں کو لے کر مسلمان تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ ہندو، یہودی، عیسائی، امریکن، یوروپین، سب کے سب مسلمانوں کو اپنے دشمن نظر آتے ہیں۔ اُن کو دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب لوگ مسلمانوں کے خلاف سازش میں مشغول ہیں۔ اس منفی سوچ کا نتیجہ یہ ہُوا کہ’’ انسانیتِ عامّہ‘‘ مسلمانوں کا کنسرن نہ رہی۔
اسلام کی حقیقی تعلیمات ایک مومن کو انسان فرینڈلی بناتی ہیں۔ جس آدمی کا ذہن قرآن سے بنا ہو وہ دوسری قوموں کو رحمت وشفقت کی نظر سے دیکھے گا۔ وہ یک طرفہ طور پر اُن کا خیر خواہ بنا رہے گا۔ اِسی کا نام مثبت ذہن ہے۔ یہ مثبت ذہن جب مسلمانوں میں ہو تو اس کے نتیجے میں اُن کے اندر حوصلہ اور آفاقیت پیدا ہوگی۔ وہ ہر شعبے میں کامیاب رہیں گے۔ اسی کے ساتھ اُن کا یہ مثبت ذہن دعوت کے عمل کو تیز تر کرنے میں معاون بنے گا۔ (ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
ڈبیٹ، دعوت
ایک صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میںنے کہا کہ آرٹ آف تھنکنگ کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ آپ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو جانیں۔ مثال کے طورپر آپ لوگ اکثر ڈبیٹ (debate) کو دعوت کہتے ہیں۔ حالاں کہ ڈبیٹ اور دعوت میں بنیادی فرق ہے۔ ڈبیٹ اپنے مقابل میں دوسرے کو زیر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ڈبیٹ در اصل ایک قسم کی تقریری پہلوانی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دعوت ایک درد مندانہ عمل ہے۔ دعوت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کو دل سوزی کے انداز میں سچائی کا پیغام پہنچایا جائے تاکہ وہ اُسے اپنے دل کی بات سمجھے اور اُس کو قبول کرلے۔
ڈبیٹ (مناظرہ) اور دعوت دونوں کے نتائج ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ڈبیٹ سے ڈبیٹر کے اندر فخر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف فریقِ ثانی کے اندر وہ نفرت کا جنگل اُگاتا ہے۔ ڈبیٹ اپنے نتیجے کے اعتبار سے دعوت کا قاتل ہے۔ دعوت کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ دعوت در اصل محبت و شفقت کا اظہار ہے۔ وہ داعی کے اندر احساسِ ذمے داری کو جگاتی ہے اور دوسری طرف مَدعو کے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے اندر نظر ثانی کرے اور سچائی کا متلاشی بن جائے، یہاں تک کہ سچائی کو اپنا کر وہ خدا کے ان بندوں میں شامل ہوجائے جن سے خدا قیامت میں راضی ہوگا۔(ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
اسلام پر اعتراض کا جواب
ایک صاحب نے معترضین اسلام کا سروے کرکے ساٹھ سوالات بنائے تھے۔ انہوں نے یہ سوالات مجھ کو لکھ کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ان سوالات کا جواب تیار کردیں تو ہم ان کو شائع کرکے بڑی تعداد میں پھیلائیں گے تاکہ اسلام کے خلاف غلط فہمیاں ختم ہوں۔ میںنے کہا کہ یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں۔ یہ سوالات ہمیشہ سُنی سنائی باتوں پر ہوتے ہیں۔ وہ کسی گہری سوچ کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سوال کاجواب دیتے رہتے ہیں مگر اسلام کے خلاف غلط فہمیاں ختم نہیں ہوتیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ لوگوں کے اندر آرٹ آف تھنکنگ پیدا کی جائے۔ لوگوں کو صحیح طرز پر سوچنے والا بنایا جائے۔ اِس کے بعد لوگ خود ہی ہر سوال کا جواب پالیں گے۔ (ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
فطرت کو موقع دینا
29 نومبر 2003 کو ناگپور سے دہلی کے لیے میں آندھراپردیش ایکسپریس کے ذریعہ سفر کررہا تھا۔ میرے کَیبن میں ایک ریلوے افسر سفر کر رہے تھے۔ ابتدا میں وہ مجھ سے بالکل بے تعلق رہے۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایک مغرور آدمی ہیں۔ مگر جب اُنہوں نے مجھ کو قریب سے دیکھا اور میری چند باتیں سنیں، تو وہ بالکل بدل گئے، اور مجھ سے نہایت تواضع کے ساتھ پیش آنے لگے۔ ( واردھا کا سفر)
مدعو کی رعایت
ایک اور سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہاکہ دعوتی کام کرنے کے لیے ہم نے بہت سے بروشر اور پمفلٹ انگریزی زبان میں شائع کیے ہیں۔ یہ اس لیے ہیں کہ آپ اور دوسرے تمام لوگ ان کو حاصل کرکے اپنے اپنے حلقے میں پھیلائیں۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے ہینڈبیگ میںاُن کو رکھے اور ملاقات اور انٹریکشن کے دوران وہ اُنہیں لوگوں تک پہنچا تا رہے۔ ان میں اسلام کو عمومی اور آفاقی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تیار کی ہوئی تمام کتابیں شعوری یا غیر شعوری طورپر مسلمانوں کے ذہن کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ اس لیے وہ غیرمسلموں کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ہم نے ان کتابچوں کو عمومی انسانی انداز میں تیار کیا ہے۔ تاکہ ہر ایک اس میںسے اپنے تجسس کا جواب پاسکے۔ یہ کتابیں مختصر ہونے کی بنا پر ایسی ہیں کہ آدمی فوراً ہی ان کو پڑھ لے۔ (ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
ختم نبوت کا مطلب
ایک موقع پر میں نے ایک حدیث کی وضاحت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے اوپر نبوت ختم ہوگئی، میرے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں (مسند احمد، حدیث نمبر 23358)۔ اس کا مطلب سادہ طور پر صرف یہ نہیں ہے کہ گنتی کے اعتبار سے پیغمبروں کی فہرست مکمل ہوگئی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد اب کسی اور پیغمبر کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ وہ اسباب ختم ہوگئے، جس کی وجہ سے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے تھے۔
میںنے کہا کہ پیغمبر کا مقصد ہدایتِ الٰہی کو انسانوں تک پہنچانا ہے۔ اس کے لیے پیغمبر کا شخصاً موجود ہونا ضروری نہیں۔ اگر ایک ایسا گروہ موجود ہو جو پیغمبر کے نمائندے کی حیثیت سے امرِ حق لوگوں تک پہنچاتا رہے تو ایسی حالت میں پیغمبر مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ پیغمبر اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خدا کا کلام (قرآن) اپنی اصلی حالت میں مکمل طورپر محفوظ ہوگیا۔ یہ حفاظت اِس بات کی ضمانت بن گئی کہ ہر نسل میں اور ہر زمانہ میں ایسے افراد موجود رہیں، جو ہدایتِ الٰہی کی صحیح معرفت حاصل کرکے اُسے دوسروں تک پہنچائیں۔ پیغمبر آخر الزماں سے پہلے اس قسم کی ضمانت موجود نہ تھی اس لیے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔(ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
سفر میں دعوت
ایک مجلس میں میں نے بتایا کہ موجودہ زمانہ میں سفر دعوت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں میں نے مولانا محمد ذکوان ندوی کا ایک تجربہ بتایا۔ یہ تجربہ ان کے بیان کے مطابق یہ ہے:
’’جون 2005 کو میں نے دہلی اور لکھنؤ کے درمیان ایک سفرکیا۔ یہ سفر گومتی ایکسپریس کے ذریعہ ہوا۔ جب میں اپنی ڈائری لکھ رہا تھا، تومیرے ہم سفر مسٹر ہریش نے سوال کیا: آپ کیا لکھ رہے ہیں؟ میں نے کہا : ڈائری۔ اِس طرح بات چیت شروع ہوئی۔ پھر میں نے انھیں گڈ ورڈ بکس سے چھپے ہوئےہندی اورانگریزی کے کچھ دعوتی پمفلیٹس دیے۔اس کو انھوں نے پڑھا۔وہ ان سے کافی متأثر ہوئے، اور انہوں نے کہا میں آپ لوگوں سے ملنے آؤں گا۔ مسٹر ہریش دہلی کے ایک ٹی وی چینل(آنکھوں دیکھی) کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آپ کوجب بھی کو ئی پروگرامکرنا ہو، فون کیجئے ۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ آؤں گا اور پروگرام ریکارڈ کرکے نشر کروں گا۔
دوسری سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب مسٹر شنکر رَونِیار (غازی آباد) نے بھی بڑھ کر ایک پمفلٹ لیا اور اس کو پڑھنے کے بعد کہا: بہت اچھا لکھا ہے۔ مگر اس میں کچھ کٹّر پنتھ ہے۔ میں نے کہا کہ پمفلٹ میں لکھی ہوئی کوئی ایک بات بتائیے جس سے آپ نے یہ جانا کہ اس میں کٹر پنتھ ہے؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ پھر انہوں نے کہا : اسلام میں چار شادی کا حُکم ہے جس کی کوئی لاجک میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے کہا: آپ کی عمر مجھ سے بہت زیادہ ہے، آپ مجھے کسی ایک مسلم فیملی کا نام بتائیے جس نے چار شادیاں کی ہوں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا: میرے علم میں تو ایسا کوئی آدمی نہیں۔ میں نے کہا: جو چیز عملاً موجود نہیں اس میں اُلجھنے کی ضرورت کیا ہے۔ تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد وہ دوسرے پمفلٹ دیکھنے لگے۔ پھر کافی اختلاط شروع ہوگیا، اور کئی لوگوں نے سوالات شروع کردیے۔ مسٹر شنکر رونیار نے ہندی کتابچہ سَفَلتا کے سُوتر پڑھا اور کہا : اس کا لکھنے والا تو بڑا گیانی معلوم ہوتا ہے۔ وہ کافی متاثر ہوئے، انہوں نے کہا کہ اِس رائٹر سے تو ملنا چاہیے۔ میں ضروردہلی آکر ان سے ملوں گا، اور آشیر واد لوں گا۔ سامنے بیٹھی ہوئی دو ’’غیر مسلم‘‘ خواتین نے بھی دوسرے ہندی انگریزی پمفلٹس کے علاوہ ’’سفلتا کے سوتر‘‘ دیکھا اور بہت پسند کیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے اس کتابچے سے کیا سیکھا؟ انہوں نے کہا مجھے اس سے حوصلہ ملا، اور میں نے سیکھا کہ آدمی کو کسی بھی حال میں اپنا حوصلہ نہیں کھونا چاہیے۔
دورانِ گفتگو بہت سے لوگوں نے شوق سے CPS کے کتابچے لیے، ایک صاحب مسٹر ہریش کمار (پنجاب) اپنی سیٹ سے اُٹھ کر میرے پاس آئے اور کچھ کتابچے حاصل کیے۔ میں نے ان سے کچھ باتیں کیں اور پوچھا آپ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نغمے گاتا ہوں۔میں نے کہا کہ سچا نغمہ ایک خدائی نغمہ ہے۔ آپ سچے نغمے گائیے۔ اس پر وہ مسکرائے اور کتابچے لے کر اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میرے پاس آئے اور کہا میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا۔ آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں۔ مجھے آپ سے محبت محسوس ہورہی ہے۔ آپ برائے کرم میری اس کتاب پر ’’اُردو‘‘ میں میرا نام اور اپنا فون نمبر لکھ دیں۔ میں نے کہا آپ اُردو جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں،بس آپ کی یادگار ہوجائے گی۔
دورانِ سفر اِن حضرا ت سے دعوتی انداز میں باتیں ہوتی رہیں۔ اس طرح نو گھنٹے کا یہ سفر خدا کے فضل سے ایک دعوتی سفر بن گیا۔ اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد اُن لوگوں نے کہا ’’آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کی وجہ سے ہمارا سفر بہت اچھا گذرا۔ اس سفر میں ہمیں سچائی ملی، یہ سفر ہمارے لیے ایک تاریخی سفر بن گیا۔‘‘
یہ تجربہ بتاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں دعوت کے امکانات کتنے بڑھ گئے ہیں۔ سفر اور دوسرے مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ بار بار لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، اگر آدمی کے اندر داعیانہ ذہن موجود ہو تو وہ ان ملاقاتوں کو کامیابی کے ساتھ دعوت کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔(ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
دعوتی مزاج، فقہی مزاج
17 جولائی 2005 کو اتوار کا اسپریچول کلاس 1، نظام الدین ویسٹ مارکیٹ میںتھا۔ یہاں بلڈنگ کے ایک فلور کو خالی کرکے اس کو ایک ہال کی صورت میں از سر نو بنایا گیا ہے۔ یہ فلور اب ان شاء اللہ اسی خاص مقصد کے لیے استعمال ہوگا۔اس اسپریچول کلاس میں عورت اور مرد دونوں ایک ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آج کی ملاقات میں اس پر ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ وہاں عورت اور مرد دونوں ایک ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عورتوں کے لیے ایک علیحدہ کمرہ مخصوص ہونا چاہیے تھا۔ یہ صاحب خود بھی 17 جولائی کے اس پروگرام میں شریک تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاملے کو دیکھنے کے دو مختلف زاویے ہیں۔ ایک ہے فقہی زاویہ اور دوسرا ہے دعوتی زاویہ۔ فقہی نقطۂ نظر سے آپ کی بات درست ہوسکتی ہے مگر دعوتی مصلحت کے اعتبار سے یہاں دیکھیں تو جو ہورہا ہے وہی آپ کو درست نظر آئے گا۔ آپ چوں کہ دعوتی کام نہیں کررہے ہیں اس لیے آپ اس قسم کی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ اگر آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے میں دعوتی کام کریں تو آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ یہاں جو ہورہا ہے عملی طورپر وہی درست ہے۔ یہ دراصل تالیفِ قلب کا مسئلہ ہے اور تالیفِ قلب کی اہمیت کو صرف داعی انسان سمجھ سکتا ہے۔
تالیف قلب کی اہمیت اسلام میں بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے زکوۃ کی آٹھ مَدوں میں سے ایک مد تالیفِ قلب کی ہے۔ تالیف قلب سے مراد وہی چیز ہے جس کو دل جوئی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں کو نرم کیا جائے تاکہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ اسلام پر غور وفکر کرسکیں۔تالیفِ قلب دراصل ایک دعوتی ضرورت ہے۔ تالیفِ قلب کا مقصد یہ ہے کہ دعوت کے موافق ماحول بنایا جائے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً لوگوں کے لیے کوئی مفید رفاہی کام کرنا، لوگوں کے مزاجی بگاڑ کی بنا پر ان کی رعایت کرنا، داعی اور مدعو کے درمیان حالات کو معتدل بنانا، لوگوں کو کس نوعیت کا مادّی فائدہ پہنچانا تاکہ وہ اس سے متاثر ہو کر اسلام پر غور وفکر کرسکیں۔ خلاصہ یہ کہ بزنس میں جس چیز کو کسٹمر فرینڈلی سلوک کہا جاتا ہے، اسی کو مدعوکے اعتبار سے استعمال کرنے کا نام تالیف قلب ہے، یعنی مدعو فرینڈلی سلوک اختیار کرنا۔ (بنگلور کا سفر)
خیرخواہی کا ذہن
ایک سوال یہ تھا کہ غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام کیسے پہنچایا جائے۔ میں نے کہا کہ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ان لوگوں کو کافر کہنا چھوڑ دیا جائے۔ حتی کہ دل سے بھی انہیں ایسا نہ سمجھا جائے۔ ان کو صرف انسان سمجھا جائے اور انسان کہا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ان کے لیے آپ کے دل میں سچی خیر خواہی پیدا نہیں ہوگی، اور سچی خیر خواہی کے بغیر دعوتی کام کا آغاز ہی نہیں ہوسکتا۔
میں نے کہا کہ ایک بزنس مین لوگوں کو صرف کسٹمر کے روپ میں دیکھتا ہے، وہ ان کو مسلم اور کافر، یا اپنی قوم اور غیر قوم کے الفاظ میں نہیں بانٹتا، وہ سب کو یکساں طورپر انسان کے روپ میں دیکھتا ہے۔ اسی طرح سچا داعی وہ ہے ،جو انسان کو اپنے اور غیر، یا دوست اور دشمن میں تقسیم نہ کرے، بلکہ سب کے لیے شفقت کا وہی جذبہ رکھے، جو ایک ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے۔ رسول اللہ نے عرب میں دعوتی کام شروع کیا تو آپ نے یہ فرمایا اے انسانو!، اے میری قوم والو!۔
پیغمبر لوگوں کی ہدایت کا حریص ہوتا ہے۔ یہی پیغمبر کا سب سے بڑا دعوتی سرمایہ ہے۔ آپ قرآن کو پڑھیں تو اس میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں ملے گی جس کو آج کل پروگرام کہا جاتا ہے۔ مگر رسول اور اصحابِ رسول کے دل میں لوگوں کی ہدایت کے لیے بے پناہ شفقت اور خیر خواہی موجود تھی۔ یہی جذبہ ان کے لیے دعوتی کام کا سب سے بڑا رہنما بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ داعی ایک پروگرام ساز انسان ہوتا ہے۔ وہ ہر موقع کے لیے خود ہی پروگرام وضع کرلیتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ آج کل دعوت کے نام پر بہت سے کام کیے جارہے ہیں، مگر میرے علم کے مطابق یہ سب مطلوب دعوتی کام نہیں۔ ان کاموں میں سے کوئی ڈبیٹ ہے، کوئی اصلاح ہے، کوئی کمیونٹی ورک ہے اور کوئی قومی یا سیاسی کام ہے۔ بذاتِ خود یہ سب کام مفید ہوسکتے ہیں، مگر ان کاموں کو دعوت الی اللہ کا کام نہیں کہا جاسکتا۔(بنگلور کا سفر)
عصر حاضر کا فتنہ
ایک اور بات جو سمجھ میں آئی وہ یہ کہ قدیم زمانہ کا فتنہ اگر شرک تھا تو موجودہ زمانہ کا فتنہ مادّیت یا مال ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: إِنَّ لِکُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً وَفِتْنَةُ أُمَّتِی الْمَالُ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2336)۔ یعنی بیشک ہر امت کا ایک فتنہ ہے، اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت محمدی کے ظہور کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا جب کہ مال یا مادّیت سب سے بڑا فتنہ بن جائے گا۔
پٹا پرتھی میں تقریباً پچاس ہزار لوگ جمع تھے۔ ان کی ننانوے فیصد تعداد ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھی۔ یہی منظر دوسرے ہندو پیشواؤں کے یہاں نظر آتا ہے۔ عورت اور مرد دونوں بہت بڑی تعدادمیں ان کے آشرموں میں آتے ہیں تاکہ ان کا آشیرواد لے سکیں۔ اس تمام بھیڑ کا محرّک صرف ایک ہے اور وہ ہے مادّی برکت حاصل کرنا۔ ایسے لوگوں کو اگر اسلام کا پیغام پہنچایا جائے تو وہ اس کی طرف اسی وقت متوجہ ہوںگے جب کہ انہیں اسلام میں مادّی فائدہ دکھائی دے، جیسا کہ گُرو لوگوں کے درشن اور آشیرواد سے وہ مفروضہ طور پر سمجھتے ہیں۔ گروؤں کی یہ ساری مقبولیت دراصل فرضی امیدوں کی تجارت (false hopes business) کے ہم معنی ہے، اس کے سوا وہ اورکچھ نہیں۔
ایسی حالت میں اسلام کا مؤثر دعوتی اپروچ یہ ہوسکتا ہے کہ اسلام کے تصور جنت کو اُن کے سامنے نمایا ںکیا جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ آپ لوگ اپنا جو مادّی محل بنانا چاہتے ہیں وہ موجودہ دنیا میں بننے والا نہیں۔ موت کے بعد جنت کی دنیا ہی میں آپ کو اپنی خوشیوں کا محل مل سکتا ہے۔ جس جنت کو آپ قبل از موت مرحلۂ حیات میں تلاش کررہے ہیں، وہ صرف بعد از موت مرحلۂ حیات میں حاصل ہوسکتا ہے۔میرے تجربہ کے مطابق یہی اسلوب زیادہ مؤثر ہے۔ اس کو دین کی مادّی تعبیر نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ مادّی تعبیر ہمیشہ مادّی دنیا کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ جب کہ جنت کی بات جب بھی کی جائے گی آخرت کے حوالے سے کی جائے گی۔ اس کو جنتی تعبیر تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس کو مادّی تعبیر نہیں کہا جاسکتا۔(بنگلور کا سفر)
مدعو سےمیل جول
پٹا پرتھی کے سفر سے پہلے میری ملاقات دہلی میں ایک صاحب سے ہوئی، جو ایک بڑے مدرسے میں تدریس کا کام کرتے ہیں۔ اُن سے اِس سفر کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ سائی بابا کے ماننے والے تو اُن کو خدا کہتے ہیں، اس قسم کا عقیدہ کھلا ہوا شرک ہے۔ اس مشرکانہ ماحول میں جانا آپ کے لیے درست نہیں۔ مگر اس کانفرنس میں شرکت کے بعد مجھے ایک ایسی حقیقت دریافت ہوئی جو دعوتی کام کرنے والوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہاں مجھے معلوم ہوا کہ سائی بابا خود تو اپنے کو خدا نہیں بتاتے ہیں، مگر ان کے معتقدین ان کے بارے میں ایسا ہی کہتے ہیں۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں مجھے اسلام پر بولنے کے لیے بلایا گیا۔ کسی شرط کے بغیر ایک عظیم مجمعے کے سامنے مجھے اسلام پر بولنے کا موقع دیا گیا۔ میں نے اپنی تقریر میںصاف طورپر کہا کہ اسلام کا مقصد ہے انسان کو خدا کا پرستار (worshipper of God) بنانا۔ سائی بابا کے معتقدین ان کی حد درجہ تعظیم کرتے تھے۔ مگر میں یہاں اسی طرح رہا، جس طرح سیکولر کانفرنسوں میں رہتا ہوں۔ میری تقریر کے بعد کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ ہرایک نے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ خود سائی بابا نے کہا کہ ہم اپنے اسکولوں میں قرآن کو پڑھاتے ہیں، اور ہم اس پر پورا عقیدہ رکھتے ہیں۔
اس تجربے سے مجھے ایک اہم حقیقت کا علم ہوا۔ وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آدمی ایک لفظ بولتا ہے وہ اس لفظ کو خود اپنے ذہن کے اعتبار سے بولتا ہے مگر سننے والا اس کو اپنے ذہن کے اعتبار سے لے لیتا ہے۔ اس سے غیر ضروری قسم کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً سیکولر زم کے لفظ کو لیجیے، جدید تعلیم یافتہ لوگ سیکولرزم کا لفظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس کو سُن کر مذہبی لوگ غصہ ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کا دشمن ہے۔ حالانکہ یہ صرف سمجھنے کا فرق ہے۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ سیکولرازم کو سادہ طورپر ایک جمہوری طریقے کے معنی میں لیتا ہے، اس کے برعکس مذہبی طبقہ سیکولرازم کا ترجمہ ’’لادینیت‘‘ کرکے اُس کو اینٹی مذہب کے معنی میں لے لیتا ہے۔ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔حالاں کہ سیکولرازم صرف ایک غیر جانب دارانہ پالیسی کا نام ہے ،نہ کہ کسی مخالفانہ پالیسی کا نام ۔(بنگلور کا سفر)
اسلامی تحریک کی ابتدا
ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیئس سالہ دورِ نبوت کو دو دوروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے —مکّی دور اور مدنی دور۔ یہ دونوں دور تدریجی دور نہیں تھے، بلکہ وہ اضافی (relative) دور تھے۔ دونوں کے درمیان فرق کی اس نوعیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
بعض لوگوں نے ان دونوں دوروں کو لے کر اسلام کا ایک انقلابی نظریہ بنایا ہے۔ وہ اس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اسلام کی تحریک دعوت سے شروع ہوتی ہے پھر پُر امن مزاحمت (passive resistance) کا زمانہ آتا ہے۔ اُس کے بعد ہجرت ہوتی ہے اور پھر اہلِ ایمان منظّم ہو کر جنگی اقدام شروع کردیتے ہیں۔ یہ تقسیم سر تا سر بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مکّی دور اور مدنی دَور اسلام کی عملی تاریخ کا حصہ ہیں، وہ دعوت الی اللہ کی کسی نظری ترتیب کا اظہار نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اسلامی تحریک ہمیشہ دعوت سے شروع ہوتی ہے۔ دعوت سے مراد خدا کے پیغام کو خدا کے بندوںتک پُر امن طورپر پہنچانا ہے۔ اسلامی تحریک اپنے آغاز میں بھی دعوت ہے، اور اپنے اختتام میں بھی دعوت۔ دعوت کے سوا اسلامی تحریک کا کوئی ابدی نشانہ نہیں۔ انسان چوں کہ پیدا ہوتے ہیں، اور کچھ سالوں کے بعد مرجاتے ہیں، اس لیے دعوت کا عمل ایک ایسا عمل ہے، جو ایک جنریشن کے بعد دوسری جنریشن میں جاری رہتا ہے۔ یہ دعوتی عمل جاری رہے گا، یہاںتک کہ قیامت آجائے۔
دعوت کے بعد مزید جو واقعات پیش آتے ہیں ان کا تعلق داعی سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق مدعو سے ہے۔ دعوت کا عمل یکساں نوعیت کا ایک عمل ہے مگر جن انسانوں کے درمیان دعوت کا عمل کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے۔ دوسرے انسانوں کا یہی فرق مختلف قسم کے واقعات کو ظہور میں لانے کا اصل سبب ہے۔ پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ دعوت کے بعدکبھی طوفانِ نوح جیسا واقعہ پیش آیا، کبھی مدعو کی طرف سے وہ صورت پیش آئی، جس کا ایک نمونہ حضرت یونس کی زندگی میں ملتا ہے۔ کبھی وہ واقعہ پیش آیا ،جس کی ایک مثال حضرت یوسف کے معاصر بادشاہ کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح مختلف پیغمبروں کے یہاں مختلف نمونے نظر آتے ہیں۔انہی میں سے ایک نمونہ وہ ہے جس کی مثال پیغمبر اسلام کے زمانے میں مکّی اور مدنی دورکی صورت میں پیش آیا۔
اب عالمی افکار کے انقلاب کے بعد دنیا میں بالکل نئی صورت ِ حال سامنے آئی ہے۔ اب دعوت کا طریقہ اور مدعو کا ردّ عمل دونوں بدل چکے ہیں۔ دورِ قدیم کے تجربات کو لے کر بعض یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں بھی ہم کو اسی طریقے کو دہرانا ہے، مثلاً وہ کہتے ہیں کہ قدیم زمانہ کے داعی آگ میں ڈالے گئے اور اُن سے جنگ کی گئی اور ان کو ملک بدر کیا گیا، یہ سب واقعات موجودہ زمانے کے داعیوں کے ساتھ بھی پیش آنے چاہئیں، ورنہ ان کی دعوت پیغمبرانہ دعوت نہیں قرار پائے گی۔
اس قسم کا نظریہ بلاشبہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ اس قسم کے واقعات کا تعلق دعوت سے نہیں بلکہ مدعو کے ردّعمل سے ہے۔ قرآن میںاہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی گئی تھی :رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286)۔ یعنی اے ہمارے رب! ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا تونے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔
حقیقت یہ ہے کہ نبوتِ محمدی کے ظہور کے بعد تاریخ میںتدریجی تغیر کا ایک عمل شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میںآخر کار یہ ہوا کہ اسلامی دعوت کے راستے کی تمام رُکاوٹیں ختم ہوگئیں، اور داعیوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ آزادانہ ماحول میں دعوت الی اللہ کا عمل جاری کرسکیں۔ مگر بد قسمتی سے زمانۂ جدید کے یہ قیمتی مواقع استعمال نہ ہوسکے۔اس کا سب سے بڑا سبب مذکورہ قسم کا نام نہاد انقلابی نظریہ ہے۔ اس نظریے کے ماننے والوں کے دماغ میں یہ بسا ہوا تھا کہ اگر زندان وسلاسل کی جھنکار بلند نہ ہو اور جنگ وجدال کا معرکہ گرم نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ دعوت الی اللہ کا کام ہی نہیں ہُوا۔ چنانچہ انہوں نے خود ساختہ طور پر مُڈبھیڑ اور مسلّح ٹکراؤ کی صورتیں پیدا کر رکھیں ہیں، اور اس کے بعد پُر فخر طورپر کہتے ہیں کہ دیکھو، ہم وہ لوگ ہیں ،جو حقیقی دعوت الی اللہ کا کام کرتے ہیں۔
انقلابی اسلام کے ان نام نہاد مجاہدین پر صحابیٔ رسول حضرت عبد اللہ بن عمر کے الفاظ صادق آتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہدایات کے باوجود جب خلافت راشدہ کے آخری زمانے میں مسلمان اسلام کے نام پر خونیں لڑائی لڑنے لگے، اُس وقت حضرت عبد اللہ بن عمر نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگ اپنے اس متشددانہ عمل کو جہاد سمجھتے ہو حالاں کہ وہ ہر گز جہاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ کی قیادت کے تحت لڑکر فتنے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا تھا، اب تم اپنی خود ساختہ لڑائی کے تحت اس ختم شدہ فتنے کو دوبارہ زندہ کررہے ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4513)(بنگلور کا سفر)
اسلام کیوں قبول کیا
میرے ساتھی نے نومسلم سے پوچھا کہ آپ یہودیت کو چھوڑ کر اسلام میں کیسے آئے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پہلے گویا کہ میں چاند پر تھا اور اب میں زمین پر آگیا ہوں:
Earlier I was living on the moon, now I am living on earth.
مذکورہ نومسلم کا مطلب یہ تھا کہ پہلے میں اپنی فطرت کی مطلوب دنیا کے لیے گویا خلا میں سرگرداں تھا اب میںنے اپنی فطرت کی آواز کے مطابق یہ مطلوب دنیا پالی ہے۔ ان کو اسلام کی یہ دریافت ایک صوفی بزرگ کے ذریعہ ہوئی۔ وہ مادّی دنیا سے غیر مطمئن تھے۔ مادی ترقیوں میں انہیں اپنی فطرت کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ پھر جب وہ صوفی بزرگ سے ملے تو انہیں روحانیت کی سطح پر اپنی فطرت کا جواب مل گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اب نہایت اطمینان کی حالت میں ہیں۔ ان کو کامل ذہنی سکون مل گیا ہے۔ وہ اپنا زیادہ وقت ذکر اور تسبیح میں گزارتے ہیں۔ (اسپین کا سفر)
واپس اوپر جائیں

جاننے والوں کا نہ جاننا

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ الیکشن سے پہلے ہمارے اسکول کے تمام اسٹودنٹ ، ایک کمیونٹی والے اور دوسری کمیونٹی والے ،دونوں مل جل کر رہتے تھے۔ لیکن الیکشن کے بعد ان کے اندر دوری آگئی۔ ہر کمیونٹی کا اسٹودنٹ دوسری کمیونٹی کے اسٹوڈنٹ کو اپنا غیر سمجھنے لگا۔
اس صورتِ حال کا الزام وہ پوری طرح دوسری کمیونٹی کو دے رہے تھے۔ یہی تمام لوگوں کا حال ہے۔ تمام لوگ صورتِ حال کی ذمے داری تمامتر دوسری کمیونٹی پر ڈالے ہوئے ہے۔ وہ اپنی کمیونٹی کو مکمل طور پر معصوم، اور دوسری کمیونٹی کو مکمل طور پر ذمے دار سمجھتے ہیں۔ یہ سراسر بے خبری کی بات ہے۔ نیوٹن (1643-1727)کا مشہور فارمولاہے— ہر عمل کا برابر مگر مخالف ردعمل ہوتا ہے
For every action, there is an equal and opposite reaction.
یہ ایک فطرت کا قانون ہےجس کو نیوٹن نے دریافت کیا تھا، اس لیے اس کو نیوٹن سے منسوب کردیا گیا۔ نیوٹن نے یہ فارمولا مٹیریل ورلڈ کے بارے میں دریافت کیا تھا، لیکن یہی فارمولا خود انسانی دنیا پر بھی منطبق (apply) ہوتا ہے۔ مادی دنیا میں یہ فارمولا غیر شعوری انداز میں منطبق ہوتا ہے، اور انسانی دنیا میں یہ فارمولا شعور کے ساتھ منطبق ہوتا ہے۔
پچھلے دو الیکشن میں ایک کمیونٹی نے سارے ملک میں اس پالیسی پر عمل کیا کہ مخالف پارٹی کو ہراؤ۔ اس نشانے کے لیے پورے ملک میں ایک ملک گیر تحریک چلائی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری پارٹی میں اس کا ری ایکشن ہوا۔ ایک کمیونٹی نے جب دوسری کمیونٹی کے بارے میں یہ ایجنڈا اختیار کیا کہ ہمیں دوسری کمیونٹی کو ہرانا ہے، تو دوسری کمیونٹی کے لوگوں میں اس کے رد عمل کے طور پر یہ ذہن عام ہوگیا کہ ہم کو اپنی کمیونٹی کو جتانا ہے۔ غیریَّت(Otherness ) کے اس ماحول میں فطری طور پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ ہارنے والی کمیونٹی کے بس میں صرف نفرت تھی، اس نے نفرت کی بات کا چرچا کیا۔ جیتنے والی کمیونٹی کے پاس طاقت تھی، اس نے ہارنے والی کمیونٹی کو اپنے انتقام کا شکار بنایا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں جیتنے والی کمیونٹی کے حصے میں تو صرف نفرت آئی۔ لیکن ہارنے والی کمیونٹی کے حصے میں فطری طور پر انتقام آیا۔ اب ہارنے والی کمیونٹی اس انتقام کا شکار ہورہی ہے۔ یہ غیریَّت(otherness) کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔
اب دوسری کمیونٹی کو دشمن بتاکر اس کو بُرا بھلا کہنا، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ طریقہ صرف نقصان میں اضافہ کرنے والا ہے۔ اس طریقے کا نقصان یہ ہوگا کہ ہر موڑ پر ، ہر معاملے میں ہارنے والی کمیونٹی کو جیتنے والی کمیونٹی کی انتقامی کارروائی کا تجربہ ہوگا۔ نفرت کے جواب میں مزید نفرت پیدا ہوگی۔ مسائل بڑھیں گے۔ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ ہارنے والی کمیونٹی کو پہلے جو کچھ ملا ہوا تھا، وہ بھی اس سے چھن جائے گا۔ قدیم روایتیں سب کی سب ٹوٹ جائیں گی۔ مغایرانہ پراسس (othering process) اتنا زیادہ بڑھے گا کہ راستے میں، بازار میں، اسکول اور کالج میں، ہر جگہ ہارنے والی پارٹی کو اس کا انجام بھگتنا پڑے گا۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے ہارنے والی کمیونٹی کو اس بات کا دل سے اعتراف کرنا ہوگا کہ اس کی پالیسی غلط تھی۔ وہ اپنے لیڈروں کی جذباتی باتوں کا شکار ہوگئے۔ اب ہارنے والی پارٹی کو یہ کرنا ہوگا کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر بدلے۔ وہ غیریت کے بجائےاپنا پن کا طریقہ اختیار کرے، وہ نفرت کے بجائے انسانوں سے محبت کرنا سیکھے۔ وہ دوسرے کی شکایت کرنے کے بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے والی کمیونٹی بنے۔
وہ قرآن کی ان آیات کی حکمت کو سمجھے، اور ان کو دل سے اپنی زندگی میں اپنائے:(ترجمہ) اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے۔ اور اگر شیطان تمہارے دل میں کچھ وسوسہ ڈالے تو اللہ کی پناہ مانگو۔ بیشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (41:34-36)
واپس اوپر جائیں

مبنی بر مواقع پلاننگ

اجتماعی زندگی میں کام کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک ہےغیر نزاعی طریقہ (non-confrontational approach)،اور دوسرا ہے نزاعی طریقہ (confrontational approach)۔ موجودہ زمانے میں جو سیاسی طریقہ عام طورپر رائج ہوا ہے، وہ زیادہ تر نزاعی طریقہ ہوتا ہے، یعنی برسرِ اقتدار پارٹی سے نزاع کرتے ہوئے اپنا طریقِ کار متعین کرنا۔ اس معاملے میں دوسرا طریقہ تعمیری طریقہ ہے۔ تعمیری طریقہ غیر نزاعی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجود صورتِ حال کو بدلنے کی کوشش نہ کرنا، بلکہ غیر نزاعی انداز اختیارکرنا۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا آزادی کے اصول پر بنی ہے۔ ہر انسان کو مکمل آزادی ہے۔ ایسی حالت میں جب بھی ایک شخص کوئی کام کرتا ہے، تو اس کو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ اس کے کام اور دوسرے کے کام میں ٹکراؤ ہے۔ ایسی حالت میں طریقِ کار کیا ہونا چاہیے۔
اس سلسلے میں جب پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی سنتوں میں سے ایک سنت وہ ہے، جس کو غیر نزاعی طریقہ کہا جاسکتا ہے۔ اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا، تو اس وقت جو لوگ وہاں آباد تھے، ان کی اکثریت بت پرستی یا عبادت اصنام کے کلچر کو مانتی تھی۔ ایسی حالت میں رسول اللہ کے لیے اپنے مشن کو اختیار کرنا، فوری طور پر ٹکراؤ پیدا کرنے والا تھا۔ پیغمبر اسلام نے اس موقع پر وہ طریقہ اختیار کیا، جس کو حضرت عائشہ نے اپنی زبان میں اس طرح بیان کیا ہےمَا خُیِّرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ، أَحَدُہُمَا أَیْسَرُ مِنَ الْآخَرِ، إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2327)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملے میں سے ایک کا اختیار دیاگیا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہو، تو آپ نے دونوں میں سے آسان تر کا انتخاب کیا۔
اختیار ایسر کا مطلب ہے، کنفرنٹیشنل میتھڈ کے بجائے نان کنفرنٹیشنل میتھڈ کو اختیارکرنا۔ رسول اللہ نے قدیم مکہ میں اسی اصول کو منطبق (apply)کیا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ٹکراؤ کے بغیر جو پہلو آپ کے لیے ممکن تھا، اس کو اختیار کیا۔ اس وقت کے ماحول میں اس کا طریقہ یہ تھا کہ آپ نے بت پرستی کے کلچر سے براہ راست ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ آپ نے دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔ ایک پہلو تھا بت پرستی کا عمل۔ اور اس کا دوسرا پہلو تھا، بت پرستی کلچر کی وجہ سے لوگوں کا وہاں جمع ہونا۔
آپ نے لوگوں کے جمع ہونے کے پہلو کو لیا، اور ان کو اپنے مشن کے لیے بطور آڈینس استعمال کیا۔ سیرت کی کتابوں میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً مکہ کا ایک واقعہ ان الفاظ میں نقل ہوا ہے عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ أَشْیَاخٍ مِنْ قَوْمِہِ، قَالُوا:لَمَّا لَقِیَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَہُمْ:مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا:نَفَرٌ مِنْ الْخَزْرَجِ، ... قَالَ:أَفَلَا تَجْلِسُونَ أُکَلِّمُکُمْ؟ قَالُوا:بَلَى. فَجَلَسُوا مَعَہُ، فَدَعَاہُمْ إلَى اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَرَضَ عَلَیْہِمْ الْإِسْلَامَ، وَتَلَا عَلَیْہِمْ الْقُرْآنَ...وَکَانُوا ہُمْ أَہْلَ شِرْکٍ وَأَصْحَابَ أَوْثَان(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ428)۔ یعنی عاصم بن عمر بن قتادہ اپنی قوم کے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو خزرج کے کچھ لوگوں سے ملے، تو آپ نے ان سے کہا کہ تم کون ہو، انھوں نے جواب دیا کہ ہم خزرج کے لوگ ہیں۔ آپ نے کہا کیا تم لوگ بیٹھوگےتاکہ میں تم لوگوں سے بات کروں ؟ انھوں نے کہاکیوں نہیں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ تو آپ نے ان کو اللہ کی طرف دعوت دی ، اور ان کے سامنے اسلام پیش کیا، اور ان کو قرآن پڑھ کر سنایا۔ اور وہ لوگ اہل شرک تھے، اور بت پوجنے والے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
احیائے اسلام کا مطلب ہے ، تبدیلیٔ زمانہ کے اعتبار سے اسلام کا مطالعہ کرکے اسلام کو سمجھنا، اور اپلائی کرنا۔
واپس اوپر جائیں

زندہ قوم، زوال یافتہ قوم

عبد المحیط خان (1932-2010)میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ انھوںنے 1955 میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک گفتگو کے دوران انہوں نے بنارس ہندو یونیوسٹی کا اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کیا۔
ہندویونیورسٹی میں ان کو لمڈی ہاسٹل (LIMDI Hostel) میں رکھاگیا۔ اس ہاسٹل کے ہر کمرے میں دو طالب علم کے رہنے کا انتظام تھا۔ ہمارے بھائی کا داخلہ ہوا، تو وہاں کے وارڈن مسٹر وی ۔ پی پانڈے (V.P. Panday) نے کہا کہ تم مسلمان ہو۔ تم کو نماز اور قرآن پڑھنا ہوگا، اس لیے میں تم کو ایک غیر مشترک کمرہ دیتا ہوں، تاکہ تم کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ یونیورسٹی کے قاعدہ کے مطابق، صرف مانیٹر کو تنہا اورغیر مشترک کمرہ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ مسٹر پانڈے نے ہمارے بھائی کو مانیٹر بنا دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تو پڑھنے لکھنے والا آدمی ہوں، مانیٹری میں کیسے کروں گا۔ مسٹر پانڈے نے کہا تم کچھ مت کرنا،صرف رجسٹر پر دستخط کر دینا، اور بس۔ بقیہ کام دوسرے لوگ کردیں گے۔چنانچہ ہمارے بھائی تعلیم کی پور ی مدت میںاس کمرہ میں غیر مشترک طورپر رہے۔
میرے بھائی نے بتایا کہ اس واقعہ کا ذکر انہوں نے یوپی کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے کیا۔ انہوں نے یہ بات سن کر میرے بھائی سے کہا کہ’’مسٹر خان، پانڈے نے نہایت ہوشیاری سے آپ کواچھوت بنا دیا۔‘‘ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا عام مزاج ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر منفی مزاج (negative mentality) کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کو ہر واقعہ میں صرف منفی پہلو دکھائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ مثبت واقعات میں بھی وہ کوئی نہ کوئی منفی پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اوپر کا واقعہ ہے۔
یہ زوال یافتہ قوم کا حال ہے۔ مگر جب کوئی قوم عروج کی حالت میں ہو تو اس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس کو ہر واقعہ میں مثبت پہلو دکھائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ایجابی مزاج کی بنا پر اس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ منفی واقعہ میں بھی مثبت پہلو دریافت کرلے۔
دور اول کے مسلمانوں کے اندر یہ صفت کامل طورپر موجود تھی۔ اس کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ خلیفہ ٔ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں مسلم فوجیں ایران میں داخل ہوئیں۔ ان کے اقدامات اتنے کامیاب تھے کہ ایرانی فوجی اپنا حوصلہ کھو بیٹھے۔ وہ ان کے بارے میں کہنے لگے  دیواں آمدند، دیواں آمدند (دیو آگئے، دیو آگئے)الأخبار الطوال للدینوری، صفحہ126۔ اس وقت ایرانی حکومت نے جنگ کو روک کر گفت وشنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران مسلم فوج کے کئی وفد ایرانیوں سے ملے۔ آخری وفد عاصم بن عمرو کا تھا۔ انہوں نے شاہ ایران یزدگرد کے دربار میں پہنچ کر جس بے باکی کا مظاہرہ کیا اس سے شاہ ایران غصہ ہوگیا۔ اس نے حکم دیا کہ مٹی کاایک ٹوکرا لایا جائے۔ اس کے بعد اس نے صحابی کے سرپر مٹی کا یہ ٹوکرا رکھوایا اور حکم دیا کہ ان کو اسی حال میں شہر کے باہر نکال دو۔صحابی اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر واپس روانہ ہوئے۔ وہ اسلامی فوج کے سردار سعد بن ابی وقاص کے خیمہ میں پہنچے اور مٹی کا ٹوکرا ان کے سامنے رکھ کر پورا قصہ بتایا۔
شاہ ایران کا یہ سلوک بلاشبہ سخت اشتعال انگیز تھا۔ مگر حضرت سعد غصہ نہیں ہوئے۔ اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ تم لوگوں کو خوش خبری ہو کیوں کہ خدا کی قسم انہوں نے اپنے ملک کی کنجیاں ہمارے حوالے کر دیں۔مٹی کا ٹوکرا دینے سے انہوں نے یہ فال لیا کہ ایرانیوں نے خود ہی اپنا ملک ہمارے حوالہ کردیا ہے۔(أَبْشِرُوا فَقَدْ وَاللَّہِ أَعْطَانَا اللَّہُ أَقَالِیدَ مُلْکِہِمْ. وَتَفَاءَلُوا بِذَلِکَ أَخْذَ بِلَادِہِمْ) البدایۃ والنہا یۃ ، جلد 9، صفحہ628۔
اس تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ زوال کی نفسیات اور عروج کی نفسیات میںکیا فرق ہے۔ زوال کی نفسیات میں مبتلا لوگ محرومی کے احساس میں جیتے ہیں، چنانچہ وہ ہر واقعہ سے منفی غذا لینے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ عروج کی نفسیات میں جیتے ہوں، وہ ہر واقعہ سے مثبت غذ۱ لیتے ہیں۔ وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ انتہائی ناموافق حالات میں بھی موافق پہلو تلاش کرلیں، حتیٰ کہ اپنے minus کو بھی اپنے plus میں تبدیل کرلیں۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندانہ سوچ

قرآن کی سورہ المائدۃ میں اجتماعی زندگی کے ایک قانون کا ذکر کیا گیا ہے۔آیت کے الفاظ یہ ہیں: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ(5:105)۔ یعنی اے ایمان والو، تمھارے او پر اپنی ذمہ داری ہے ۔ کسی کی گمراہی تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچائے گی اگر تم ہدایت پر ہو۔
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہی بات ایک اور آیت میں اس انداز میں آئی ہے: وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا(3:120)۔ یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہیں پہنچا ئے گی ۔ دونوں آیتوں کے مطالعے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں آدمی خود اپنے انجام کو بھگتتا ہے۔ آدمی کا رویہ اگر صابرانہ رویہ ہو، تو وہ لوگوں کی سازش سے یقیناً محفوظ رہے گا۔ اس کے برعکس، اگر اس کا رویہ بے صبری کا رویہ ہو تو وہ لوگوں کی سازش کا شکار ہوتا رہے گا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ خود اپنا محاسبہ کرے۔ دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے، وہ خود اپنی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔ ایسا آدمی یقینی طور پر دوسروں کے شر سے محفوظ رہے گا۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ اپنے معاملات کو ہمیشہ خوبصورت انداز میں تاویل کرلیتا ہے۔ اپنے غلط کام کو بھی صحیح شکل میں ڈھال لیتا ہے۔ آدمی کا مزاج ہے کہ وہ اپنے چھوٹے سے کام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، اور دوسرے کا کام کتنا ہی بڑا ہو، وہ اس کو گھٹا کر دیکھتا ہے۔ اس مزاج کی بنا پر آدمی ہمیشہ خود فریبی میں جیتا ہے۔ اپنے بار ے میں وہ ایک انداز میں سوچتا ہے، اور دوسرے کے بارے میں دوسرے انداز سے۔ انسان کا یہ مزاج اس کے لیے حقیقت پسندانہ سوچ میں سب سے بڑا مانع ہے۔ حقیقت پسندانہ سوچ کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر خود احتسابی کا مزاج پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اسی نظر سے دیکھنے لگتا ہے، جس طرح وہ دوسروں کودیکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

روحانی ترقی

اسلام کا اصل نشانہ روحانی ترقی ہے۔انسان کی روحانیت جاگے، انسان کے اندر چھپی ہوئی ربانیت بیدار ہو، یہ اسلام کا اصل مقصود ہے۔ قرآن میں اس کو تطہیر اور تزکیہ (التوبة، 9:103) کہاگیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان پیدائش سے فطرتِ صحیح لے کر پیداہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ہر انسان اپنی ابتدائی شخصیت کے اعتبار سے پاک صاف ہی ہوتاہے۔ مگر دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے اس پر خارجی غبار چھا جاتےہیں۔ اس خارجی غبار سے پاک کرنا اور اپنے آپ کو دوبارہ اپنی فطری حالت پر لے جانا، یہی تطہیر اور تزکیہ ہے۔تطہیر اور تزکیہ کا یہ عمل آدمی کو خود کرنا پڑتاہے۔ ایک چھوٹا بچہ اپنے آپ ہی طاہر اور پاک ہوتاہے۔ مگر اس کی یہ حالت کسی ذاتی کوشش کی بنا پر نہیں ہوتی، بلکہ فطرت کی تخلیق کی بناپر ہوتی ہے۔ بڑا ہونے کے بعد جب آدمی اپنے آپ کو روحانی اعتبار سے طاہر اور پاک صاف بناتا ہے تو یہ اس کا اپنا عمل ہوتا ہے۔ یہ شعوری طورپر خود اپنے ارادہ اور اپنی کوشش سے اپنے آپ کو روحانی ترقی کے درجہ تک پہنچانا ہے۔ یہی خود حاصل کردہ روحانی ترقی وہ اصل چیز ہے جو اسلام میں مطلوب ہے۔ اسی کو قرآن میں قلب سلیم کہا گیاہے (الشعراء، 26:89)۔
حدیث میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے کہا: اللَّہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا(صحیح البخاری، حدیث نمبر6316)۔ یعنی اے اللہ، میرے دل میں نور ڈال دے۔ اسی طرح آپ نے ایک شخص کے بارےمیںیہ دعا کی: اللَّہُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہُ وَطَہِّرْ قَلْبَہُ(مسند احمد، حدیث نمبر 22211)۔یعنی اے اللہ، اس کے گناہ کو بخش دے،اور اس کے قلب کو پاک کردے۔ اسی طرح موطا امام مالک میں حضرت لقمان کا ایک قول اس طرح نقل کیاگیا ہے کہ اللہ دل کو حکمت کے نور سے اسی طرح زندہ کرتاہے جس طرح وہ مردہ زمین کو بارش سے زندہ کرتا ہے (إِنَّ اللہَ یُحْیِی الْقُلُوبَ بِنُورِ الْحِکْمَةِ. کَمَا یُحْیِی الْأَرْضَ الْمَیْتَةَ بِوَابِلِ السَّمَاءِ)موطا امام مالک ،اثر نمبر 2117۔
یہی روحانی ترقی ہے، اور روحانی ترقی ہی اسلام کا اصل مقصود ہے۔ جو آدمی روحانی ترقی سے محروم ہو وہ یقینی طورپر اسلام سے بھی محروم ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

مثبت اثر لینا

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کئی غزوات پیش آئے، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو احد کہا جاتا ہے۔ اس غزوہ میں مسلمانوں میں سے ستر آدمی مارے گئے تھے، اور ستر زخمی ہوئے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ بھی زخمی ہوگئے تھے۔ اس مناسبت سے یہ آیت نازل ہوئی : فَأَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِکَیْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَا أَصَابَکُمْ (3:153)۔یعنی پھر اللہ نے تم کو غم پر غم دیا تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے کھوئی گئی اور نہ اس مصیبت پر جو تم پر پڑے۔ اس موقع پر قرآن میں یہ نصیحت کی گئی — تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے کھوئی گئی:
so that you might not grieve for what you lost,
  یہاں رنجیدہ برائے رنجیدہ نہیں ہوسکتا۔ ضرور ہے کہ رنجیدہ نہ ہونے کا کوئی مثبت مقصد ہو۔ وہ مقصد یہ ہے کہ غزوہ ٔاحد کے موقع پر جو کچھ پیش آیا، وہ بظاہر ایک منفی واقعہ تھا، لیکن تم کو چاہیے کہ اس منفی واقعہ کو مثبت تجربہ میں بدلو۔ ایسا کس طرح ہوسکتا ہے۔ ایسا اس طرح ہوسکتا ہے کہ لوگ خالص غیر متاثر ذہن کے تحت پورے معاملے پر سوچیں، اور خالص سوچ کے ذریعے اس نتیجے تک پہنچیں کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ، بلکہ وہ نئی زندگی کا آغاز ہے۔
مصیبت پر رنجیدہ نہ ہونا، کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آدمی اپنی جسمانی مصیبت کو ذہنی مصیبت نہ بنائے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ اس سے جو کچھ کھویا گیا، اس کے غم میں اپنا یہ حال کرلے کہ جو کچھ اب بھی اس کے پاس باقی ہے، اس سے غافل ہوجائے۔آدمی کو چاہیے کہ وہ کھوئے ہوئے کو فراموشی کے خانے میں ڈالے، اور جو کچھ اب بھی اس کے پاس بچا ہوا ہے، اس کو لے کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔ اس دنیا میں ہر ایک کو نقصان کا تجربہ ہوتا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو بچے ہوئے کو جانے ، اور اس کی بنیاد پر اپنے لیے نئی زندگی کی تعمیر کرے۔ اسی کا نام دانش مندی ہے، اور یہی دانش مندی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔
واپس اوپر جائیں

مینج کرنا سیکھیے

معاملات میں لوگ عام طور پر دو طریقے کو جانتے ہیں۔ ایک ہے، فریقِ مخالف سے ٹکرانا، اور دوسرا ہے، فریقِ ثانی کے مقابلے میں سرینڈر کرنا۔ عام طور پر لوگ ٹکرانے کو بہادری سمجھتے ہیں، اور سرینڈر کرنے کو بزدلی۔ یہ دونوں طریقے غیر حکیمانہ ہیں۔ حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ آپ معاملے کو مینج کرنا سیکھیں۔ یعنی براہ راست مقابلہ کیے بغیر بالواسطہ انداز میں مسئلے کو حل کرنا۔
مثال کے طور پر رسول اللہ ایک بار سفر میں تھے۔ آپ کو خبر ملی کہ فریقِ مخالف کا ایک دستہ آپ کی طرف چلا آرہا ہے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: مَنْ رَجُلٌ یَخْرَجُ بِنَا عَلَى طَرِیقٍ غَیْرِ طَرِیقِہِمْ الَّتِی ہُمْ بِہَا؟ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ قَالَ:أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ، قَالَ:فَسَلَکَ بِہِمْ طَرِیقًا وَعْرًا أَجْرَلَ بَیْنَ شِعَابٍ، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنْہُ، وَقَدْ شَقَّ ذَلِکَ عَلَى الْمُسْلِمِینَ وَأَفْضَوْا إلَى أَرْضٍ سَہْلَةٍ عِنْدَ مُنْقَطِعِ الْوَادِی (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 309)۔ یعنی آپ نے کہا : کون ہے جو ہم کو اس راستے سے لے کر چلے، جو ان سے الگ راستہ ہو۔ قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے کہا: میں ، اے خدا کے رسول۔ پھر وہ ان کو لے کر ایک دشور راستے سے چلا۔ یہ ایک مشکل بھراراستہ تھا۔ جب وہ اس دشوار راستے سے نکلے، اور یہ راستہ مسلمانوں کے لیے بہت مشقت والا تھا، وہ لوگ وادی کے خاتمے پر کھلے میدان میں پہنچ گئے۔
اس سنت رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹکراؤ کا اندیشہ ہو تو اپنا راستہ بدل دیجیے۔ ٹکراؤ کا اندیشہ ہوتو آپ ہرگز ایسا نہ کریں کہ اپنے راستے پر چلتے رہیں، یہاں تک کہ ٹکراؤ کی نوبت آجائے۔ بلکہ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے راستے کو بدلیں۔ اپنے منصوبے کو نئے انداز سے مرتب کریں۔ اس طریقے کو ری پلاننگ (replanning)کہا جاتا ہے۔ ری پلاننگ کا یہ طریقہ ہر جگہ مطلوب ہے۔ گھر کے اندر بھی، اور گھر کے باہر بھی۔ چھوٹے معاملے میں بھی اور بڑے معاملے میں بھی۔ گھریلو معاملے میں بھی اور بڑے بڑے اجتماعی معاملات میں بھی۔
واپس اوپر جائیں

رحمت، سیف

قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمة للعالمین (الانبیاء، 21:107) کہاگیا ہے۔ حدیث میںآیا ہے کہ آپ نےکہا  وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2355) یعنی میں رحمت والا نبی ہوں۔ ایک طرف پیغمبر اسلام کی حیثیت کے بارے میں اس قسم کے کھلے بیانات ہیں۔ دوسری طرف حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا :إِنَّ اللَّہَ بَعَثَنِی بِسَیْفِی بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ، وَجَعَلَ رِزْقِی تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِی (سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر 2370)یعنی بےشک اللہ نے قیامت سے پہلے مجھے میری تلوار کے ساتھ بھیجاہے، اور میرا رزق میرے نیزے کے سایے کے نیچے رکھ دیاہے ۔
یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے مختلف نظر آتی ہیں۔ مگر ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ در حقیقت دو الگ الگ پہلو ہیں۔ رحمت کی بات ایک پہلو سے کہی ہے ،اور سیف کی بات دوسرے پہلو سے۔اصل یہ ہے کہ صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی رحمت کے پیغمبر نہ تھے، بلکہ خدا نے جتنے پیغمبر بھیجے وہ سب پیغمبر رحمت ہی تھے۔ سب کے سب دینِ رحمت ہی لے کر آئے۔ مثال کے طورپر قرآن میں حضرت موسی کی کتاب کو رحمت فرمایا گیا ہے (سورہ ھود، 11:17)۔ مگر فرق یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کے ساتھ کوئی طاقت ور ٹیم تیار نہ ہوسکی، جو پیغمبروں کے مشن کے حق میں موثر طورپر حمایت اور دفاع کا کام کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلے پیغمبروں کے مشن کو مخالفین نے عملی طورپر آگے بڑھنے نہیں دیا۔پچھلے پیغمبروں کے زمانہ میں خدا کا دین صرف فکری تحریک کے مرحلہ میں رہا، وہ فکری انقلاب کے مرحلہ تک نہیں پہنچا۔
اس کے برعکس پیغمبر اسلام کو خدا کی مدد سے ’’اصحابِ سیف‘‘ بالفاظ دیگر، طاقت ورحمایتی گروہ حاصل ہوگیا۔ چنانچہ مخالفین نے جب جارحیت کرکے آپ کے پر امن مشن کو دبانا، اور مٹانا چاہا، تو آپ بھی اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس پوزیشن میں تھے کہ ان کی جارحیت کا موثر جواب دے کر ان کے مخالفانہ عزائم کو ناکام بنا دیں۔مذکورہ قسم کی احادیث میں نیزہ اور تلوار کا لفظ آپ کی دفاعی طاقت کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ آپ کی اصل پیغمبرانہ حیثیت کو بتانے کے لیے۔
واپس اوپر جائیں

بین اقوامی رواج

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ میں عرب کے دو آدمیوں نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ ایک یمامہ کا مسیلمہ بن حبیب، اور دوسرا صنعاء کا اسود بن کعب عنسی۔ مسیلمہ نے 10ہجری میں ایک خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس خط کامضمون یہ تھا: اللہ کے رسول مسیلمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد کے نام، سلام علیک، اما بعد، بے شک میں نبوت کے معاملہ میں آپ کے ساتھ شریک کیاگیا ہوں، اس لیے نصف زمین ہمارے لیے اور نصف زمین قریش کے لیے۔ مسیلمہ کی طرف سے دو قاصد اس کا یہ خط لے کر مدینہ آئے۔ ان کا نام ابن النواحہ اور ابن اُثال تھا۔ اس کے بعد روایت میں آتا ہے:قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ جَاءَہُ رَسُولَا مُسَیْلِمَةَ الْکَذَّابِ بِکِتَابِہِ یَقُولُ لَہُمَا:’’ وَأَنْتُمَا تَقُولَانِ مِثْلَ مَا یَقُولُ؟ ‘‘ قَالَا:نَعَمْ! فَقَالَ:أَمَا وَاللَّہِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکَمَا (راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا جب کہ مسیلمہ کذاب کے دونوں قاصد اس کا خط لے کر آئے، کیا تم دونوں بھی وہی کہتےہو جو وہ کہتا ہے۔ دونوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردنیں کٹوادیتا )۔راوی حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں :فَمَضَتِ السُّنة بِأَنَّ الرُّسُلَ لَاتُقْتَلُ (البدایة والنہایة،5/62)۔یعنی پھر یہ سنت جاری ہوگئی کہ قاصدوں کو قتل نہ کیاجائے ۔
اس سنت نبوی سےاسلام کا ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتاہے۔ وہ یہ کہ بین اقوامی معاملات میں بین اقوامی رواج پر عمل کیا جائے گا۔ ہر زمانہ میں بین اقوامی تعلقات کے لیے کچھ رواج ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں بھی اس قسم کے بہت سے رواج ہیں۔ اب اقوامِ متحدہ نے ان کو زیادہ منظم صورت دے دی ہے۔ اس قسم کے تمام رواج مسلم ملکوں میں بھی اسی طرح قابلِ احترام ہوں گے، جس طرح غیر مسلم ملکوں میں ان کو قابلِ احترام سمجھا جاتاہے۔ البتہ اگر اس قسم کے معاملات میں کوئی ایسی چیز یا رواج پایا جائے جو صراحةً حرام ہو۔ مثلاً بین اقوامی میٹنگوں میں شراب پیش کرنا، تو اس مخصوص جز کی حد تک اس کی پیروی نہیں کی جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبرانہ ماڈل سے انحراف

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں 570 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ پر پہلی وحی 610 ء میں اُتری۔ یہ قرآن کی سورہ نمبر 96 کی ابتدائی آیتیں تھیں۔ اِس کے بعد دوسری وحی المدثّر کی صورت میں اُتری، جو مصحف کی موجودہ ترتیب میں سورہ نمبر 74 کی حیثیت سے شامل ہے۔
سورہ المدثر میں آپ کو آپ کا دعوتی مشن بتاتے ہوئے کہاگیا:قُمْ فَأَنْذِرْ (74:2)۔یعنی تم لوگوں کو بتادو کہ ان کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور جلد ہی یوم الدین (Day of Judgement) آنے والا ہے، جب کہ سارے انسان حساب کے لیے خداوندِ ذوالجلال کے سامنے حاضر کیے جائیں گے اور اُن کے دنیوی ریکارڈ کے مطابق، اُن کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔سورہ المدثر میں یہ دعوتی حکم دیتے ہوئے مزید یہ کہاگیا تھا :وَلِرَبِّکَ فَاصْبِر (74:7)۔ یعنی تم پوری یکسوئی کے ساتھ اِس دعوتی مشن میں لگ جاؤ اور تمام غیر دعوتی مسائل سے اپنے آپ کو پوری طرح دور رکھتے ہوئے دعوت الی اللہ کا یہ کام انجام دو۔
دعوتِ حق کا یہی ابدی اصول ہے۔ یعنی دعوتی کام میں مکمل یکسوئی، اور غیر دعوتی چیزوں سے مکمل اعراض۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی اصول کا عملی نمونہ ہے۔ مثال کے طورپر مکہ کے تیرہ سالہ دور میں عرب کے سرداروں کی طرف سے آپ کو اقتدار کی پیش کش کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ:وَإِنْ کُنْتَ تُرِیدُ بِہِ مُلْکًا مَلَّکْنَاکَ عَلَیْنَا۔یعنی اگر تم اقتدار چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنے اوپر بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔ آپ نے اِس پیش کش کو نا منظور کرتے ہوئے فرمایا:مَا جِئْتُ بِمَا جِئْتُکُمْ بِہِ أَطْلُبُ أَمْوَالَکُمْ، وَلَا الشَّرَفَ فِیکُمْ، وَلَا الْمُلْکَ عَلَیْکُمْ، وَلَکِنَّ اللَّہَ بَعَثَنِی إلَیْکُمْ رَسُولًا، وَأَنْزَلَ عَلَیَّ کِتَابًا، وَأَمَرَنِی أَنْ أَکُونَ لَکُمْ بَشِیرًا وَنَذِیرًا(سیرۃ ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 295-96) یعنی میں جو کچھ لے کرتمھارے پاس آیا ہوں، میں اس کو اس لیے نہیں لایا ہوں کہ میں تمھارا مال طلب کروں، یا تمھارے درمیان فوقیت حاصل کروں، یا تمھارے اوپر بادشاہ بنوں(I seek not sovereignty over you.)، لیکن اللہ نے مجھے تمھاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، میرے اوپر کتاب نازل کی ہے، اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھارے لیے بشیر و نذیر بن جاؤں۔
دعوت (اِنذار و تبشیر) کا کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا زیادہ اہم ہے کہ داعیوں کے لیے یہ ضروری قرار دیاگیا ہے کہ وہ ہر مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تمام توانائی صرف اِس ایک کام میں لگائیں۔ اور قیامت تک نسل در نسل یہی کام انجام دیتے رہیں۔ پیغمبر نے اپنے زمانے میں اِس اصول کے مطابق، اپنی دعوتی ذمّے داری ادا کی اور آپ کے بعد آپ کی امت کو ہر دور میںاِسی اصول کا اتباع کرتے ہوئے دعوتی کام انجام دینا ہے۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس معاملے میں اپنی امت کو واضح ہدایات دی ہیں۔ خاص طورپر آپ نے امت کو شدت کے ساتھ تلقین فرمائی کہ تم لوگ سیاسی نزاعات سے دور رہو۔ کیوں کہ سیاسی نزاعات میں الجھنا صرف اِس قیمت پر ہوگا کہ دعوت الی اللہ کا کام رُک جائے گا۔ اِس بارے میں کتبِ احادیث میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے روایتیں موجود ہیں، اِن روایتوں کا خلاصہ اس حدیثِ رسول میں پایا جاتا ہے:أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی ان کا حق ان کو ادا کرو، اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کے حقوق بلا اختلاف ادا کرتے رہو، اور خدا کی طرف سے تم پر جو ذمّے داری ڈالی گئی ہے، اُس کو پوری یکسوئی کے ساتھ انجام دیتے رہو، اور اپنے حقوق کے معاملے میں ٹکراؤ کے راستے پر جانے کے بجائے خدا سے دعا کرو۔ اِس معاملے میں احادیث اتنی زیادہ واضح ہیں کہ علمائے امت نے اِجماعی طورپر، حکمرانوں سے ٹکراؤ (خروج) کو فعل ِ حرام قرار دے دیا ہے۔
اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک اِس اصول پر عمل جاری رہا۔ بعض انفرادی مثالوں کو چھوڑ کر برابر ایسا ہی ہوتا رہا کہ امت کی عظیم اکثریت نے اِس اصول کا التزام کیا، تاکہ اسلام کا مثبت دعوتی عمل بلا توقف جاری رہے۔
خلافتِ راشدہ کے آخری زمانے میں بنو ہاشم اور بنو اُمیّہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اُس وقت اصحابِ رسول بڑی تعداد میںموجود تھے، لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ اس ٹکراؤ سے اصحابِ رسول تقریباً مکمل طورپر علاحدہ رہے۔ یہ جنگ عملاً دو قبیلوں کی جنگ تک محدود رہی، اصحابِ رسول اُس میں شریک نہیں ہوئے۔
اِس کے بعد بنو امیہ کا دور آیا۔ اُس زمانے میں سیاسی بگاڑ بڑے پیمانے پر پیدا ہو چکا تھا، لیکن صحابہ اور تابعین نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ سیاسی اصلاح کے نام پر بنو امیہ سے جنگ چھیڑ دیں۔صحابہ اور تابعین کی پوری جماعت اِس زمانے میں اُسی اصول پر قائم رہی جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا، یعنی سیاسی ٹکراؤ سے اعراض اور تعلیم اور دعوت کے میدان میںاسلام کی خدمت انجام دیتے رہنا۔
اِس کے بعد مسلم تاریخ کا وہ دور آیا جس کو بنو عباس کا دور کہا جاتا ہے۔ اِس دور میں بھی مبیّنہ طورپر حکم رانوں میں ہر قسم کے سیاسی بگاڑ موجود تھے۔ مثلاً انھوں نے اسلامی خلافت کو خاندانی ملوکیت میں تبدیل کردیا، وغیرہ۔ اُس زمانے میں علمائے امت کی بڑی تعداد موجود تھی، جن کو عام طور پر محدثین اور فقہاکہاجاتا ہے۔ محدثین اُس زمانے میں خواص امت کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ انھوںنے اپنے آپ کو مکمل طورپر سیاسی نزاعات سے دور رکھا۔ انھوں نے اپنی ساری طاقت حدیث کی جمع وتدوین میں لگادی۔ اِس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج حدیث کا ذخیرہ محفوظ حالت میں ہمارے پاس موجود ہے۔
بنو عباس کے اِس عہد میں علما کا دوسراگروہ پیدا ہوا، جس کو عام طورپر فقہائے اسلام کا گروہ کہاجاتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، فقہا کے زمانے میں ہرقسم کے سیاسی بگاڑ پائے جارہے تھے، لیکن اِن فقہا نے سیاسی بگاڑ میںاصلاح کی کوئی مہم نہیں چلائی۔ مثلاً انھوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ ملوکیت کو ختم کرکے دوبارہ خلافت کا نظام قائم کریں۔ فقہا کی جماعت نے یا تو اپنے زمانے کے حکم رانوں سے موافقت کا طریقہ اختیار کیا، یا اُن سے الگ رہ کر وہ یکسوئی کے ساتھ اسلام کی خدمت کے کام میں لگے رہے۔ اِسی پالیسی کا یہ نتیجہ تھا کہ فقہ کی تدوین کا عظیم کام انجام پایا۔
اِس کے بعد وہ دور آتا ہے جس کو صوفیا کا دور کہاجاتا ہے۔ یہ دور بنوعباس کے آخری زمانے میں شر وع ہوا، اور مغل کے خاتمے تک پوری طاقت کے ساتھ جاری رہا۔ اِس زمانے میں بھی وہ حالات مسلسل طور پر جاری رہے، جن کو سیاسی بگاڑ کہاجاتا ہے۔ لیکن صوفیا نے کبھی اپنے آپ کو سیاسی معاملات یا سیاسی نزاعات میںنہیں الجھایا۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ دعوت اور اصلاح کے غیر سیاسی کام میں مصروف رہے۔ اِس کے نتیجے میں ایک طرف یہ ہوا کہ امت کی اخلاقی تربیت ہوتی رہی اور دوسری طرف، اسلام کی دعوتی توسیع عالمی سطح پر جاری رہی۔
یہ عمل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک جاری رہا۔ یہ ایک عظیم ربّانی حکمت تھی۔ یہ حکمت اِس بات کی ضامن بن گئی کہ سیاسی بگاڑ، یا دُنیوی مسائل کے باوجود دعوت الی اللہ کا بنیادی کام بلا توقف تاریخ میں جاری رہے۔
یہ دعوتی تسلسل پہلی بار انیسویں صدی میں ٹوٹتا ہے، جب کہ مغربی استعمار کا وہ دور آیا جس کو نوآبادیاتی نظام (colonialism) کہا جاتا ہے۔ اِس دور سے پہلے مسلم تاریخ کا وہ دور چلا آرہا تھا جس کو ایک اعتبار سے سیاسی ایمپائر کا دور کہا جاسکتا ہے۔ مغربی نوآبادیات کے دور میں مسلمانوں کا یہ سیاسی ایمپائر عملاً ٹوٹ گیا۔ یہ ایک قسم کے سیاسی بُحران (political crisis) کا معاملہ تھا، اُس وقت اُس رہنمایانہ صلاحیت کی ضرورت تھی، جس کو کرائسس مینج منٹ(crisis management) کہاجاتا ہے۔ اگر چہ اُس وقت عالمی سطح پر مسلمانوں کے اندر بڑے بڑے دماغ موجود تھے، لیکن یہ لوگ اِس بحران میں مطلوب رہ نمائی کا ثبوت نہ دے سکے۔ وہ اِس کے مقابلے میں مثبت عمل کے بجائے منفی ردّ عمل کا شکار ہو کر رہ گئے۔
اِس معاملے میں غالباً پہلا نمایاں نام سید جمال الدین افغانی (وفات1897ء) کا ہے۔ اُن کے زمانے میں ترکی اور ایران اور ہندستان میںابھی تک مسلم سلطنتیں موجود تھیں۔ اِن سلطنتوں نے سید جمال الدین افغانی کے ساتھ غیر معمولی تعاون کا معاملہ کیا۔ لیکن سید جمال الدین افغانی پر سیاسی طرز فکر اتنا غالب تھا کہ وہ مسلم حکمرانوں کے تعاون اور امت کے درمیان اپنی مقبولیت کا مثبت استعمال نہ کرسکے۔ وہ آخر وقت تک منفی سیاست میں مبتلا رہے، یہاں کہ اِس راہ میںاُن کا خاتمہ ہوگیا۔
اِسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد (1888-1958) ہندستان کے ایک بڑے مسلم رہ نما تھے۔ ان کو اپنے زمانے میں غیر معمولی مواقع ملے۔ وہ اِن مواقع کو استعمال کرکے دعوت اور اصلاح کا کام بڑے پیمانے پر کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے اپنی بہترین صلاحیت کو برٹش ایمپائر کے خلاف لڑنے میں ضائع کردیا، اور اُن کے زمانے کے بہترین مواقع برباد ہوکر رہ گئے۔
اِسی طرح عرب دنیا میں سید قُطب (1906-1966) کو غیر معمولی مواقع ملے، حتی کہ ان کے ہم عصر مصری حکمراں جمال عبدالناصر (1918-1970) نے اُنھیں یہ پیش کش کی کہ وہ تعلیم (education) کی وزارت کو لے لیں، اور قوم کو اسلامی اصولوں پر ایجوکیٹ کرنے کا بنیادی کام کریں۔ لیکن دوبارہ یہی ہوا کہ سید قطب اپنے سیاسی ذہن کی بنا پر تعلیم کی اہمیت کو نہ سمجھ سکے اور نزاعی سیاست میں الجھ گئے۔ وہ اسی بے فائدہ کام میں مشغول رہے، یہاں تک کہ اُن کا آخری وقت آگیا۔
یہی معاملہ سید ابو الأعلیٰ مودودی (1903-1979)کے ساتھ پیش آیا۔ انھوں نے اسلام کی سیاسی تشریح کی تھی، اِس لیے اُن کو کرنے کا سب سے بڑا کام یہ نظر آتا تھا کہ ’’سیاسی انقلاب‘‘ برپا کرنے کی کوشش کی جائے۔ صدر محمد ایوب خاں (1907-1974) پاکستان میںاُن کے ہم عصر حکمراں تھے۔ انھوںنے سید ابوالأعلیٰ مودودی کو یہ پیش کش کی کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر ایک نیشنل یونیورسٹی بنائی جائے۔ وہ اس کا مکمل چارج سید ابوالأعلیٰ مودودی کو دینے کے لیے تیار تھے۔ صدر محمد ایوب خاں کا ماننا یہ تھا کہ پاکستان کے نام سے ایک ملک بن گیا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کو اسلامی اصولوں پر تعلیم و تربیت دے کر اُنھیں مستقبل کی تعمیر کے لیے تیار کیا جائے۔ لیکن سید ابوالأعلیٰ مودودی کو اِس کام کی اہمیت سمجھ میں نہ آئی۔ وہ صدر محمد ایوب خاں کو حکمرانی کے مقام سے ہٹانے کی مہم میں لگ گئے۔ اِس کا نتیجہ صرف ناکامی کی صورت میں نکلا۔ سید ابو الأعلیٰ مودودی کی سیاسی سرگرمیوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ،یہاںتک کہ 1979 میں وہ وفات پاگئے۔
اِس فہرست میںایک اور نام میرے نزدیک، بے نظیر بھٹو (1953-2007)کا بھی ہے۔ بے نظیر بھٹو اگر چہ مذہبی شخصیت نہ تھی، لیکن انھیں اِس میدان میں کام کا نہایت اعلیٰ موقع ملا۔ بے نظیر بھٹو کی تعلیم یورپ اور امریکا میں ہوئی تھی۔ انگریزی زبان پر انھیں پوری قدرت حاصل تھی۔ وہ دوبار پاکستان کی پرائم منسٹر بنیں۔ اِس طرح کے مختلف اسباب سے انھیں غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ آخری زمانے میں جب کہ وہ لندن میں مقیم ہوگئی تھیں، ان کو مغرب کے اداروں اور یونیورسٹیوں کی طرف سے اسلام پر لیکچر دینے کے لیے بلایا جانے لگا۔
موجودہ زمانے میں اسلام کی ایک بہت بڑی ضرورت وہ ہے، جس کو امیج بلڈنگ (image building) کہا جاتا ہے، یعنی اسلام کی بگڑی ہوئی تصویر کی تصحیح کرنا۔ بے نظیر بھٹو اپنی خصوصی حیثیت کی بنا پر یہ کام اعلیٰ درجے پر کرسکتی تھیں۔ لیکن یہ کام شاید ان کو ایک کمتر کام نظرآیا۔ وہ غالباً سیاسی قیادت کے شوق میں پاکستان دوبارہ لوٹ آئیں، مگر نتیجہ صرف یہ نکلا کہ چند دن کے سیاسی ہنگامے کے بعد 28 دسمبر 2007 کو اُنھیں گولی مار کر ہلاک کردیاگیا ۔ بوقت وفات ان کی عمر صرف 54 سال تھی۔
یہی معاملہ عراق کے حکمراں صدام حسین (1937-2006)کے ساتھ پیش آیا۔ صدام حسین کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ عرب حکمرانوں میں سب سے زیادہ ذی علم آدمی تھے۔ ان کے حالات نے اُن کو موقع دیا کہ وہ عراق میںمطلق حکم راں کی حیثیت حاصل کرلیں۔ اِس طرح انھوں نے عراق میں تقریباً 25 سال تک حکمرانی کی۔انھوں نے انتہائی غیر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے، وہ جنگ چھیڑ دی جس کو وہ امّ المعارک (mother of battles) کہتے ـتھے۔ اِس مفروضہ جنگ کو کامیاب بنانے کے لیے انھوں نے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات کیے۔ انھوں نے غیر ضروری طورپر امریکا سے جنگ چھیڑ دی۔ جس کا متوقع انجام صرف یہ ہوا کہ اُن کو 30 دسمبر 2006 کو خود اپنے ملک عراق میں پھانسی دے دی گئی۔
اُس وقت صدام حسین کے پاس عراق کے مختلف مقامات پر بڑے بڑے محل تھے۔ اِس کے علاوہ، ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں کئی بلین ڈالر موجود تھے۔ اُن کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ اقتدار کے بجائے ایجوکیشن کو اپنا نشانہ بنائیں۔ اگر وہ اِس طرح تعمیری انداز میں سوچتے تو وہ یقینی طورپر عراق میں کم از کم 8 بڑے بڑے تعلیمی سنٹر قائم کرسکتے تھے۔ یہ اُن کے لیے اپنی زندگی کا بہترین استعمال ہوتا، اور وہ اُن کے بعد اُن کے لیے ایک عظیم صدقۂ جاریہ بن جاتا، لیکن وہ ایسا نہ کرسکے، اور صرف ناکامی کی موت مرکر اِس دنیا سے چلے گئے۔
مسلمانوں کے خطیب پُر جوش الفاظ کے ذریعے مسلمانوں کے ہر فعل کو کم از کم الفاظ کی دنیا میں جائز ثابت کر رہے ہیں۔ مثلاً آج کل مسلمان اپنی منفی سوچ اشتعال کی بنا پر مختلف مقامات پر گن کلچر چلا رہے ہیں، حتی کہ وہ خود کُش بم باری کرتے ہیں۔ اِس بنا پر دوسرے لوگ اُنھیں ٹررسٹ (terrorist) کہنے لگے ہیں۔ اب ایک خطیب اسٹیج پر آتا ہے اور پُرجوش انداز میں کہتا ہے — ہاں، ہم ٹررسٹ ہیں، لیکن ہم ٹررسٹ کس کے لیے ہیں۔ ہم مجرموں کے لیے ٹررسٹ ہیں، جیسا کہ پولس ہوتی ہے:
Every Muslim should be a terrorist. A terrorist is a person, who causes terror. The moment a robber sees a policeman, he is terrified. A policeman is a terrorist for the robber. Similarly, every Muslim should be a terrorist for the anti-social elements of society, such as thiefs, dacoits, and rapists. Whenever, such an anti-social element sees a Muslim, he should be terrified.
اِن باتوں کو سن کر مسلمان خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں، حالاں کہ یہ سر تاسر ایک لغو بات ہے۔ مجرموں کے خلاف کارروائی کرنا پولس اور عدالت کا کام ہے، وہ عوام کا کام نہیں۔ عام مسلمان کا کام پُرامن نصیحت کرنا ہے، نہ کہ انھیں ٹررائز (terrorize) کرنا۔ اِس قسم کی بات اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے، اور سیکولر قانون کے بھی خلاف۔ حیرت یہ ہے کہ مسلمان اِس قسم کی باتیں سن کر صرف تالیاں بجاـتے ہیں۔ اگر وہ مجرمین کے خلاف ٹررسٹ بن جائیں تو وہ خود قانون کی نظر میں مجرم قرار پائیں گے، اور سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں

کنڈیشنڈ سوچ

ایک اندازِ فکر موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں عام ہے، وہ یہ کہ کسی بھی مسئلے میں اپنے شاکلہ (الاسراء، 17:84) کے تحت سوچنا۔ مگر یہ طریقہ مکمل طور پر ایک غیر اسلامی طریقہ ہے۔ اہل ایمان کے لیے سوچنے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ قرآن کا مطالعہ کرکے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ کسی متعین مسئلہ کے بارے میں قرآن کا حکم کیا ہے۔ مثال کے طور پر جب مسلمانوں پر کوئی مصیبتیں آتی ہیں، تو وہ اس کا الزام دوسروں کو دیتے ہیں۔ مگر اسلامی روش یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس معاملے میں قرآن کیا کہتا ہے۔ اس سلسلے میں یہاں قرآن کی دو متعلق آیتیں نقل کی جاتی ہیں: وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ (42:30)۔ یعنی اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے تو وہ تمھارے ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں ہی سے پہنچتی ہے، اور بہت سے قصوروں کو وہ معاف کردیتا ہے۔ دوسری آیت یہ ہے: وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (3:120) ۔ یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔
دنیا کی زندگی مومن اور غیر مومن ہر ایک کے لیے ایک چیلنج اور مسابقت کا معاملہ ہے۔ خواہ کوئی مومن ہو یا غیر مومن دونوں کو طرح طرح کے حالات کے درمیان اپنا راستہ بنانا پڑتا ہے۔ اس بنا پر انفرادی زندگی کے مقابلے میں اجتماعی زندگی بالکل مختلف ہوجاتی ہے۔ انفرادی زندگی میں کسی کے ساتھ مزاحمت پیش نہیں آتی۔ لیکن اجتماعی زندگی میں بار بار مزاحمت کا پیش آنا لازم ہے۔ اس بنا پر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔
ایسی حالت میں ٹکراؤ کی صورتِ حال کو دوسروں کا ظلم بتا نا، ایک غیر فطری بات ہے۔ ٹکراؤ کی صورت حال فطری حالات کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی کے ظلم اور سازش کا نتیجہ۔ اس کا مطلب ہے کہ آدمی اگر اپنے ذاتی شاکلے کے مطابق سوچے تو وہ غیر فطری سوچ ہوگی، اس کے برعکس، اگر وہ فطرت کے قانون کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوچے ، تو اس کی سوچ حقیقت پسندانہ سوچ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

احتجاج کوئی پالیسی نہیں

احتجاج (protest) کوئی کام نہیں ہے۔ احتجاج صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے پاس مثبت (positive) معنی میں کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔ وہ صرف دوسروں کے خلاف بولنا جانتا ہے۔ اپنے امکانات کو اویل کرنے کا آرٹ اس کو نہیں معلوم۔ وہ احتجاج کرنا تو جانتا ہے، لیکن ری پلاننگ (replanning) کا آرٹ اس کو نہیں معلوم۔
خالق نے انسان کو نہایت اعلی صلاحیت دے کر پیدا کیا ہے۔ انسان ہر جنگل میں اپنا راستہ نکال سکتا ہے۔ انسان ہر مشکل میں نئی تدبیر دریافت کرسکتا ہے۔ انسان ہر ناکامی میں کامیابی کا راز دریافت کرسکتا ہے۔کوئی بند گلی انسان کا راستہ روکنے والی نہیں۔
جہاں ایک راستہ بند ہوجائے، وہاں دوسرا راستہ موجود ہوتا ہے۔ حتی کہ جب سامنے کا راستہ بند ہو، وہاں انسان یہ کرسکتا ہے کہ وہ یوٹرن (U-turn) لے، اور دوسرا راستہ اپنے سفر کے لیے تلاش کرلے۔
میں نے ایک مرتبہ ایک قصہ پڑھا تھا کہ ایک دکان دار کی دکا ن میں آگ لگ گئی، اس کا تمام سامان جل گیا۔ اس واقعے سے وہ مایوس نہیں ہوا، بلکہ اس نے اپنے کام کی ری پلاننگ کی۔ اس نے اپنی دکان کو دوبارہ درست کیا۔ اس نے جلےہوئے سامان کو ردی میں ڈال دیا، او ر تمام سامان نیا خرید کر اپنی دکان میں سجایا۔ اس کے بعد اس نے اپنی دکان پر ایک بورڈ لگا دیا، اس میں لکھا تھااس دکان میں آپ کو ہر سامان نیا ملے گا۔
اس بورڈ کو دیکھ کر لوگوں کے اندر شوق پیدا ہوا۔ وہ اس دکان میں بڑی تعداد میں آنے لگے۔ اس دکان کی بِکری بہت بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ وہ دکان پہلے سے بھی بہت زیادہ کامیابی کے ساتھ چلنے لگی۔ اس دنیا میں مسائل بھی ہیں، اور مواقع بھی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مواقع کو اویل کرنا سیکھے، نہ کہ مسائل پر احتجاج کرنا۔
واپس اوپر جائیں

الفاظ، الفاظ، الفاظ

کچھ لوگ بولتے ہیں، وہ مسلسل طور پر بولتے ہیں، ان کے الفاظ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ لیکن یہ الفاظ معانی سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں نہ کوئی تجزیہ ہوتا ہے، نہ کوئی وزڈم (wisdom) ، نہ کوئی گہری معنویت۔
یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پاس الفاظ کے ذخیرے کا کبھی ختم نہ ہونے والا خزانہ ہوتاہے، لیکن یہ الفاظ معنویت سے خالی ہوتے ہیں۔ آپ ان کی باتوں کو گھنٹوں سنتے رہیے، لیکن ان کی باتوں میں آپ کو کوئی حکمت یا کوئی دانشمندی کی بات نہیں ملے گی۔ حتی کہ آپ اس سے بھی بے خبر رہیں گے کہ انھوں نے کیا کہا۔ ان کی باتوں میں آپ کو کوئی ٹیک اوے نہیں ملے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پاس حافظہ (memory)ہوتا ہے، مگر ان کے پاس دانش مندی (wisdom) نہیں ہوتی۔ ان کے پاس گہرا مطالعہ نہیں ہوتا۔
فارسی کا ایک مثل ہے:یک من علم را، دہ من عقل می باید۔ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے ۔یہ بات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی بولنے سے زیادہ سوچے، وہ بولنے سے زیادہ تجزیہ (analysis)کرے، اس کے اندر مثبت سوچ (positive thinking)پائی جاتی ہو، وہ نفرت اور تعصب سےخالی ہو، اس کے اندر وہ صفت ہو تی ہے،جس کو حدیث میں دعا کی شکل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:اللَّہُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتّباعہ، وأرنا الباطل باطلا، وارزقنا اجتنابہ ، وَلَا تَجْعَلْہُ مُلْتَبِسًا عَلَیْنَا فَنَضِلَّ(تفسیر ابن کثیر، 1/427)۔ یعنی اے اللہ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے اوپر مبہم نہ بنا کہ ہم گمراہ ہو جائیں۔ اسی طرح یہ دعا:اللَّہُمَّ أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ (تفسیر الرازی، 13/37) ۔ اے اللہ، مجھے چیزوں کو اسی طرح دکھا، جیسا کہ وہ ہیں۔
واپس اوپر جائیں

آج کا نوجوان

میرا تجربہ یہ ہے کہ آج کے نوجوان خواہشیں بہت رکھتے ہیں، لیکن وہ غور و فکر کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کا یہ طریقہ صحیح ہے یا غلط۔ (ایک قاری الرسالہ، دبئی)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے نوجوانوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ پروفیشن کے اعتبار سے پڑھتے ہیں۔ تعلیم کے وسیع تر مفہوم میں ان کا کوئی مطالعہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے وہ پروفیشنل ڈگری لے کر کمائی تو اچھی کرلیتے ہیں، لیکن زمانے سے واقفیت کے بارے میں ان کا بہت زیادہ مطالعہ نہیں ہوتا۔ اس بنا پر ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ دورِ جدید نے ان کو بہت زیادہ آزادیاں دی ہے۔ لیکن عملا ًوہ آزادی کو بے راہ روی کے لائسنس کے طور پر لے لیتے ہیں۔ وہ آزادی کو اس معنی میں نہیں لیتے کہ آزادی نے قدیم زمانے کی موناپلی (monopoly) کاخاتمہ کردیا ، اب ہر دروازہ ہر ایک لیے کھلا ہوا ہے۔ لیکن وہ اس بات سے عملا ًبے خبر رہتے ہیں کہ آزادی کے ساتھ بہت ذمے داریاں (responsibilities) ہوتی ہیں۔ جو آدمی ذمے داریوں کو نبھانا نہ جانے، اس کو یہ حق نہیں کہ وہ آزادی کا کھلا استعمال کرے۔
یہ صحیح ہے کہ موجودہ زمانے میں ہر ایک کے لیے آزادی کے دروازے کھل گئے ہیں۔ لیکن اجتماعی زندگی (social life) میں کوئی شخص اکیلا نہیں ہوتا۔ اس لیے ہر ایک کے مشترک فائدے کی بات یہ ہے کہ وہ آزادی کو اس طرح استعمال کرے کہ دوسرےا نسانوں کے لیے مسئلہ پیدانہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں انسان کو سوچنے کے اعتبار سے مکمل آزادی ہے، لیکن عملی استعمال کے اعتبار سے ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی آزادی کو محدود دائرے میں استعمال کرے۔
مشہور مقولے کے مطابق، ہر آدمی کو آزادی کا استعمال اس طرح کرنا چاہیے کہ ہر آدمی کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے، جہاں دوسرےا نسان کی "ناک" شروع ہوتی ہے۔ دوسرے کو نقصان پہنچاکر آزادی کا استعمال کرنا، آزادی کی نفی ہے۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی اپنے ہاتھ میں

کامیابی(success) کیا ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ آدمی مواقع کو دریافت کرے۔ وہ مواقع کو منصوبہ بند انداز میں استعمال کرے۔ اسی کے نتیجے کا نام کامیابی ہے۔ کامیابی کسی کو عطیہ کے طور پر نہیں ملتی۔ کامیابی یہ ہے کہ آدمی مواقع کو جانے، وہ مواقع کو منصوبہ بند انداز میں اویل (avail)کرے۔
اس اعتبار سے دیکھیے تو کامیابی ہر انسان کے اپنے بس کی چیز ہے۔ کامیابی کوئی ایسی چیز نہیں جس کو کوئی دوسرا شخص آپ سے چھین لے۔ کامیابی ہر حال میں ہر انسان کے لیے ایک ملی ہوئی چیز ہے۔ کامیابی نہ کوئی شخص کسی کو دیتا ہے، اور نہ کوئی شخص کسی سے چھین سکتاہے۔ کامیابی ہر آدمی کا اپنا ذاتی اثاثہ ہے۔ کوئی دوسرا دے یا نہ دے، ہر حال میں کامیابی آپ کو حاصل رہتی ہے۔
کامیابی فطرت کے عطیات میں اپنا حصہ پانے کا نام ہے۔ جس خالق (Creator)نے آپ کو پیدا کیا ہے، وہی آپ کو دینے والا بھی ہے۔ اسی لیے قرآن میں خالق کو رزاق بتایا گیا ہے۔ رزاق ہر ایک کو دیتا ہے۔ مزید یہ کہ کوئی انسان اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ رزاق کے دیے ہوئے رزق کو کسی سے چھین سکے۔ آدمی اگر نادانی نہ کرے، اگر وہ اپنے آپ کو فطرت کے قانون کی خلاف ورزی سے بچائے، تو وہ پائے گا کہ فطرت نے جس طرح مجھ کو ہاتھ پاؤں دیے ہیں، اسی طرح اس نے انسان کو ترقی کے مواقع بھی دیے ہیں۔ آپ ترقی کے مواقع کو پہچانیے، اور اس کو حسنِ تدبیر (better planning)کے ذریعے اویل کیجیے، تو آپ کو نہ کسی سے شکایت ہوگی، اور نہ آپ کبھی مایوسی کا شکار ہوں گے۔
زندگی آپ کا حق ہے۔ کوئی شخص زندگی کو آپ سے چھین نہیں سکتا۔ اسی طرح اس دنیا میں کامیابی بھی آپ کا حق ہے۔ کسی کے بس میں نہیں کہ وہ آپ کی کامیابی کو آپ سے چھین لے۔ آدمی اپنی غلطی کو بھگتتا ہے۔ لیکن وہ کبھی کسی دوسرے کی سازش کا شکار نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ وہ فطرت کے قانون کو جانے، اور ا س کو عقل مندی کے ساتھ استعمال کرے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 269

سی پی ایس انٹرنیشنل کا بنیادی مشن یہ ہے کہ قرآن کے پیغام کو سارے عالم کے انسانوں تک پہنچایا جائے،اور یہ کام تمام قوموں کی قابل فہم زبان میں کیا جائے۔ اس سلسلے کی کچھ اہم سرگرمیاں درج ذیل ہیں
■ 27-28اپریل 2019 کو نئی دہلی کے ہوٹل دی لیلا امبینس میں سی پی ایس انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ایک دعوہ میٹ کا انعقاد کیا گیا۔ اس کا عنوان تھا قرآن کانفرنس، قرآن کو دنیا میںپہنچانا(Quran Conference: Taking the Quran to the World)۔ اس کانفرنس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے کونے کونے میں قرآن کے پیغام کو عام کیا جائے۔ اس میٹ میں سی پی ایس مشن کے تحت کام کرنے والے ہندوستان کے تقریباً تمام داعیوں نے حصہ لیا، اور ایک نئی دعوتی انرجی کے ساتھ واپس ہوئے۔یہ تمام دعاۃ اپنے علاقوں میں دعوتی کام کرتے ہیں، اور انسانیت کو خدا کے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
■ 14 جولائی 2019کو صدر اسلامی مرکز نے نئی دہلی میں قرآن کی ایک ویب سائٹ لانچ کی۔ یہ ویب سائٹ بنگلور ٹیم نے تیار کی ہے۔ اس ویب سائٹ پر بشمول عربی متن قرآن کے26مختلف زبانوں کے ترجمے موجود ہیں۔جو یہاں سے فری ڈاؤن لوڈکیےجاسکتے ہیں۔مثلاً اردو،آسان ہندی،شُدھ ہندی، تیلگو، کنڑا، مراٹھی، گجراتی، بنگالی،ڈوگری، پنجابی، ملیالم۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل زبانوں میں انگلش، سنہالا، اسپینش، چائنیز، فرانسیسی، پرتگیز، اٹالین، جرمن، ڈچ، رشین، تغالوگ (فلپینی زبان)، چیچوا، اورہبرو۔ اس کے علاوہ ہندی،اردو اور انگلش میں قرآن کی تفاسیربھی موجود ہیں ۔ یہ ویب سائٹ تمام انسانوں کو مد نظررکھ کر تیار کی گئی ہے۔ اس کا ایڈریس یہ ہے
www.cpsquran.com
جو حضرات ان تراجم ِ قرآن کی مطبوعہ کاپی (printed copy)حاصل کرنا چاہیں،وہ گڈ ورڈ بکس نئی دہلی سے رابطہ (0120 4504638)قائم کریں۔گڈورڈ بکس میں ان تراجم کے علاوہ دو ترجمے اور بھی موجود ہیں: تامل اور پولش۔
■ ان تراجم کے علاوہ درج ذیل زبانوں میں قرآن کے ترجمے کا کام فائنل مرحلے میں ہے
1.Khasi , 2. Burmese, 3. Thai, 4. Rwandese, 5. Korean, 6. Swahili,
7. Manipuri, 8. Uzbek, 9. Zulu, 10. Shona, 11. Afrikaans, 12. Xhosa, 13. Sotho, 14. Vietnamese, 15. Japanese.
نیز ان زبانوں میں بھی قرآن کے ترجمے کا کام شروع ہوگا
Bosnian, Bulgarian, Romanian, and Icelandic
■ جو صاحب دعوت کے اس عالمی مشن کا حصہ بننا چاہتے ہیں، وہ اس ای میل پر لکھیں
info@cpsglobal.org
واپس اوپر جائیں