Pages

Sunday 1 October 2023

Al Risala | October 2005 (الرسالہ،اکتوبر)

1

- خصوصی شمارہ: بمبئی کا سفر


بمبئی کا سفرنامہ

پہلا سفر
۱۷ نومبر ۲۰۰۴کی صبح کو ۸ بجے نظام الدین سے ائر پورٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ اس سفر میں مسٹر خالد انصاری میرے ساتھ تھے۔ دہلی ائرپورٹ پر پہنچے تو یہاں کسی قدر مختلف منظر تھا۔ مجھے انڈین ائرلائنز کی فلائٹ سے سفر کرنا تھا۔ یہاں دو الگ الگ ٹرمنل ہیں۔ ایک پبلک ائر لائنز کے لیے اور دوسرا پرائیویٹ ائر لائنز کے لیے۔ ہمارے ڈرائیور نے غلط طورپر ہم کو پرائیویٹ ائرلائنز کے ٹرمنل پر پہنچا دیا۔ پھر گاڑی واپس چلی گئی۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ ہم غلط طورپر پرائیویٹ ائرلائنز کے ٹرمنل پر پہنچ گئے ہیں۔ انڈین ائر لائنز کا ٹرمنل یہاں سے کافی فاصلے پر تھا۔ وہاں پیدل پہنچنا ایک دیر طلب امر تھا۔ مگر ائر پورٹ کی طرف سے آرام دہ کوچ کا انتظام کیا گیا ہے۔ ایسے مسافر فوراً ہی ایر پورٹ کی کوچ کے ذریعہ چند منٹ میں مطلوب ٹرمنل پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس سروس کا کوئی کرایہ نہیں۔
زندگی میں ہمیشہ بعض غیر متوقع صورت حال (eventualities) پیش آتی ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پیشگی طورپر اس کا انتظام رکھے تاکہ اس کا سفر رکے بغیر جاری رہ سکے۔ اس حقیقت کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
سفینہ بنا رکھیں طوفاں سے پہلے
انڈین ایر لائنز کے ٹرمنل پر خلاف معمول کافی بھیڑ دکھائی دی۔ اس سے پہلے یہاں اتنی بھیڑ نہیں ہوتی تھی۔ یہ مقابلہ (competition) کا کرشمہ تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے زمانہ میں سرکاری کمپنیوں (پبلک سکٹر) کے لیے تحفظ (protection) کا اصول اختیارکیا گیا تھا۔ اس نے تمام سرکاری شعبوں میں لتھارجی (lethargy) کا مسئلہ پیدا کردیا۔ ہر شعبہ سُستی اور بے عملی کا شکار ہوگیا۔ پچھلے کچھ برسوں سے اس پالیسی کو بدلا گیا ہے اور اس کے بجائے مقابلہ کرو یا مر جاؤ (compete or perish) کا اصول اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے زبردست فرق آیا ہے۔ انڈین ائر لائنز کا معیار ہر اعتبار سے بہتر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈین ائر لائنز پر سفر کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔
ائر پورٹ پر مجھے ٹائلٹ جانا تھا۔ میں بوڑھے اور معذور لوگوں کے ٹائلٹ میں گیا۔ اس میں جگہ زیادہ کشادہ ہوتی ہے۔ اور دوسری مزید سہولتیں موجود رہتی ہیں۔
یہ احترام انسان کی ایک علامت ہے۔ جدید تہذیب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے انسان کے احترام کو بے حد اہمیت دی ہے۔ ہر شعبہ میں جدید تہذیب کا یہ مزاج نمایاں ہے۔ موجودہ زمانہ میںمعذوروں (disabled) کے احترام کا جو اہتمام ہر جگہ کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال تاریخ کے پچھلے دور میںغالباً موجود نہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ پچھلے زمانوں میں وہ سہولتیں پائی نہیں جاتی تھیں جو آج صنعتی انقلاب کے بعد پائی جارہی ہیں۔
ائر پورٹ پر ایک صاحب نے ایک دلچسپ بات بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ زمانہ میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے بعد دوسری سب سے بڑی انڈسٹری سلمنگ انڈسٹری (slimming industry) ہے۔یعنی موٹے مَردوں اور عورتوں کو دُبلا کرنا۔ آج کل ایک طبقہ کے پاس بہت زیادہ پیسہ آگیا ہے۔ یہ لوگ کھانے پینے اور آرام و عیش میں اتنا زیادہ خرچ کرتے ہیں کہ وہ موٹے ہوجاتے ہیں۔ یہ موٹاپا موجودہ زمانہ کی سب سے بڑی بیماری ہے۔ اس موذی بیماری سے بچنے کے لیے لوگ موٹا ہونے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو دبلا کرتے ہیں۔ اور اگر وہ دبلے نہ ہوسکیں تو وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اس کے علاج کے لیے انہیں ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے بھاری بل دینے پڑتے ہیں۔
مجھے ایک واقعہ یا دآیا کہ ایک بار ایک صاحب سے بات ہورہی تھی۔ میںنے کہا کہ آج کل لوگوں کو زیادہ پیسہ کمانے کا جنون ہورہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ لوگ زیادہ پیسہ کما کر آخر کرتے کیا ہیں۔ انہوں نے ہنس کر کہا: اپنے علاج پر خرچ کرتے ہیں۔
ہوائی جہاز کے اندر مختلف اخبارات مطالعہ کے لیے موجود تھے۔ ایک عرصہ سے میں اخبارات کو پڑھوا کرسنتا ہوں۔ یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔ اس تجربہ سے اندازہ ہوا کہ خود پڑھنے کے مقابلہ میں پڑھوا کر سننا نسبتاً زیادہ مفید ہوتا ہے۔ اس طرح زیادہ یکسوئی حاصل رہتی ہے اور بات زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔
اُردو روزنامہ اخبار مشرق کا شمارہ ۱۷ نومبر ۲۰۰۴ بھی جہاز کے اندر موجود تھا۔ اس شمارہ میں جو خبریں شائع ہوئی تھیں اُن میں سے ایک خبر وہ تھی جس کا دوسطری عنوان یہ تھا: ’’لندن میں محمدﷺ کی حیاتِ طیبہ پر بنی فلم ریلیز ہوگئی۔ فلم کا مقصد غیر مسلموں کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنا ہے‘‘۔ اس عنوان کے تحت حسب ذیل خبر درج تھی:
لندن ۱۶؍نومبر (یو این آئی) امریکی معاشرہ سے مسلمانوں کا رابطہ بہتر بنانے کی سمت میں ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ پر ایک اینیمیٹڈ فلم بنائی گئی۔ دستی تصاویر سے بنائی جانے والی اس فلم ’محمد دی لاسٹ پروفیٹ‘ کی نمائش عید کے دن شروع ہوئی ہے۔ فلم کے ڈسٹری بیوٹروں کا کہنا ہے کہ فلم کا مقصد مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو اسلام اور اسلام کی تاریخ کی بابت بتانا اور ان کو تفریح مہیا کرناہے۔ بی بی سی نے فائن میڈیا گروپ کے اسامہ جمال کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ فلم باکس آفس پر کیا کمال دکھاتی ہے سوال یہ ہے کہ لوگ فلم سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں۔ اسامہ جمال نے بتایا کہ پہلے اس فلم کی نمائش پورے امریکا میں ۲۰۰۲ میں کی جانی تھی لیکن گیارہ ستمبر کے حملوں کی وجہ سے روک دی گئی کیوںکہ لوگ اس وقت فلم کے موڈ میں نہیں تھے۔ مسلمانوں کو امید ہے کہ اس فلم کے ذریعہ مسلمانوں اور امریکیوں کے درمیان رابطہ قائم ہوسکے گا۔ پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی کی تعلیمات پر مبنی ۹۰ منٹ کی یہ فلم امریکا اور کناڈا کے ۴۰ شہروں میں دکھائی جائے گی۔ (صفحہ ۸)
پیغمبرِ اسلام کی زندگی پر بنائی جانے والی اس فلم کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں اور مغربی قوموں کے درمیان تعلقات درست ہوں گے۔ میرے نزدیک یہ ایک غیر عملی سوچ ہے۔ مذکورہ قسم کی فلم سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مغربی قوموں میں مسلمانوں کے بارہ میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں وہ خود مسلمانوں کی اپنی روش کو دیکھ کر ہوئی ہیں، نہ کہ پیغمبر اسلام کی تاریخ کی بنا پر ہوئی ہیں۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے بارہ میں مغربی قوموں کی غلط فہمی کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی روش کو بدلا جائے۔ اگر یہ مسلمان اپنی روش کو نہ بدلیں تو پیغمبر اسلام کی زندگی کی فلم کو دیکھ کر مغربی قوموں کی سوچ مسلمانوں کے بارہ میں ہر گزبدلنے والی نہیں۔
موجودہ زمانہ کے مسلم دانشوروں کا یہ مزاج بڑا عجیب ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے قابلِ شکایت باتوں کو دیکھ کر دوسری قوموں کے درمیان ان کے بارہ میں منفی رائے قائم ہوتی ہے تو یہ دانشور قرآن کی تعلیمات یا پیغمبراسلام کی زندگی کاحوالہ دیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک غیر متعلق بات ہے۔ اس معاملہ میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت کی جائے۔ مسلمانوں کی زندگیوں کی اصلاح کی جائے۔ پیغمبر اسلام کے اُسوۂ حسنہ سے کسی کو شکایت نہیں۔ لوگوں کو اصل شکایت مسلمانوں کے اُسوۂ سیئہ سے ہے۔ جب تک مسلمانوں کی موجودہ روش باقی ہے، لوگوں کی غلط فہمی دور ہونے والی نہیں۔
اس معاملہ کے دو پہلو ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ایک ہے مسلمانوں کی ذاتی زندگی۔اور دوسری چیز مسلمانوں کی زندگی کاوہ پہلو جو میڈیا میں آتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اسلامی دعوت کے سلسلے میں اصل اہمیت دوسرے پہلوکی ہے۔یعنی مسلمانوں کی اخباری تصویر یا اُن کی میڈیا امیج ۔ جہاں تک کسی مسلمان کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے، وہ آخرت کے اعتبار سے بلا شبہہ اہم ہے۔ مگر جہاں تک دوسروں میں اسلام کی تصویر بننے کا معاملہ ہے۔ وہ مسلمانوں کی میڈیا امیج سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔
یہ صورت حال جدید میڈیا کے دور کی بنا پر پیدا ہوئی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ بہت جلد باتیں لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ مگر میڈیا انتخابی نیوز (selective news) کی انڈسٹری ہے۔میڈیا صرف اُن باتوں کو منتخب کرتا ہے، جن میں کوئی سنسنی خیز پہلو ہو۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اُن معاملات میں سخت احتیاط کا رویّہ اختیار کریں جو میڈیا میں نمایاں ہونے والے ہیں۔ اگر مسلمان اِس بارہ میں حسّاس ہوجائیں اور ایسی خبر وجود میں لانے سے سخت پرہیز کریں جو میڈیا میں نمایاں ہو کر اسلام کی بدنامی کا سبب بننے والی ہوں تو دعوت کی رفتار بہت زیادہ تیز ہوجائے گی۔
ٹائمس آف انڈیا (۱۷ نومبر ۲۰۰۴) میں ایک خبر اس عنوان کے تحت چھپی تھی—جے این یو میں سنٹر برائے مطالعۂ امن کا قیام:
JNU to launch centre for peace & conflict resolution.
خبر میں بتایاگیا تھا کہ دہلی کی دو یونیورسٹیوں ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں امن کا شعبہ کھولا جارہا ہے۔ جس کا مقصد امن سے متعلق موضوعات کا مطالعہ ہوگا اور یہ کہ باہمی اختلافات کس طرح حل کیے جائیں۔ اس سلسلہ میں دونوں یونیورسٹیوں میں سرٹیفکٹ کورس اور ڈگری کورس اور ایم فل کو رس تک تعلیم کا انتظام ہوگا(صفحہ ۹)
اس قسم کے کورس دوسری عالمی یونیورسٹیوں میں بھی موجود ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس قسم کے تعلیمی کورس سے امن (peace)کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ میرے تجربہ کے مطابق، یونیورسٹی کی تعلیم صرف فنی موضوعات کے لیے کار آمد ہے۔ امن کا تعلق سیرت و کردار کی اصلاح سے ہے۔ اور انسان کی سیرت و کردار کی اصلاح غیر رسمی تعلیم (informal education) کے ذریعہ ہوتی ہے، نہ کہ رسمی تعلیم (formal education) کے ذریعہ۔
مصلحین (reformers) نے موجودہ زمانہ میں دنیا بھر میں اپنے بہت سے تعلیمی ادارے بنائے جن کا مقصد اصلاح یافتہ انسان تیار کرنا تھا۔ بنگال کی شانتی نکیتن (یونیورسٹی) کا مقصد بھی یہی تھا جس کو نوبیل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ قائم کیا تھا۔ مگر عملاً وہ دوسری یونیورسٹیوں کی طرح ایک عام یونیورسٹی بن کر رہ گئی، وہ ٹیگور کے مطلوب انسان کو پیدا کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہی۔ میرے نزدیک تعلیمی اداروں کو تعلیم برائے تعلیم کے اصول پر کام کرنا چاہیے۔ جہاں تک انسان سازی کا تعلق ہے، وہ روحانی اور مذہبی رہنماؤں کو انجام دینا چاہیے۔
ہندستان ٹائمس (۱۷ نومبر ۲۰۰۴) میں ایک خبر میں بتایاگیا تھا کہ اُسامہ بن لادن نے ایک نیا بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان میں اہلِ پاکستان کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں پاکستان کے مسلمانوں سے کہاگیا ہے کہ امریکا نے تمہارے ملک اور افغانستان پر حملہ کر رکھا ہے۔ تم کو امریکا سے جنگ کرنے کے لیے اُٹھ جانا چاہیے (صفحہ ۱۷)
القاعدہ کے چیف کا یہ بیان مستند ہے یا نہیں، یہ ایک اضافی بات ہے۔ اس لیے کہ لمبی مدت سے اس قسم کے مجاہدانہ بیانات مسلمانوں کے درمیان بے حد مقبول رہے ہیں۔ اس مدت میں کسی بھی قابلِ ذکر شخص نے ان جارحانہ بیانات کی کھلی مذمت نہیں کی— ڈاکٹر اقبال، مسٹر محمد علی جناح، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور دوسرے تمام لوگ خود بھی اسی قسم کی بولی بولتے رہے اور دوسرے لوگ جو اس قسم کی بولی بول رہے تھے، اُن کی براہِ راست یا بالواسطہ طورپر حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ایسی حالت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر بالفرض یہ بیان اُسامہ بن لادن کا نہ ہو تب بھی وہ موجودہ مسلمانوں کے مزاج کے عین مطابق ہوگا۔
اس معاملہ میںاصل قابلِ لحاظ بات یہ نہیں ہے کہ مسلمان اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف جہاد کریں بلکہ اصل قابل لحاظ بات یہ ہے کہ لمبی مدت تک جہاد کرنے کے باوجود اُس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہ آسکا۔ ایسی حالت میں کہنے کی بات یہ ہے کہ اب ہم کو چاہیے کہ اپنے نقشۂ کار پر نظر ثانی کریں۔ ’’دشمن کے خلاف جہاد‘‘ کے الفاظ کو چھوڑ کر وہ الفاظ بولیں جن کی تعلیم قرآن میں دی گئی ہے۔ وہ یہ کہ ہم کو چاہیے کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ امن اور دوستی کا معاملہ کریں۔ اور فطرت کے قانون کو موقع دیں کہ وہ ہمارے دشمن کو ہمارے دوست میں تبدیل کردے (فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم)۔
تقریباً دو گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز بمبئی ایر پورٹ پر اُترا۔ یہاں کئی ساتھی ملنے کے لیے موجود تھے۔ ایر پورٹ سے روانہ ہو کر میں ہارون شیخ صاحب کے آفس پہنچا۔ یہاںکچھ دیر قیام رہا اور کچھ لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔
۱۷ نومبر کی شام کی اس ملاقات میں اے۔جی خاں سرگروہ ایڈوکیٹ (Ph. 2650 4363) سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے الرسالہ میں ہیمرنگ کی بابت پڑھا تھا۔ اُنہوں نے پوچھا کہ ہیمرنگ کیا ہے؟اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ ہر مرد اور عورت کنڈیشننگ کا کیس ہیں۔ جب تک اس کنڈیشننگ کو توڑا نہ جائے وہ کُھلے ذہن کے ساتھ باتوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور ہیمرنگ کا مقصد اس کنڈیشننگ کو توڑنا ہے تاکہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ چیزوں کو دیکھنے کے قابل ہوجائیں۔ مگر ہیمرنگ کے اس طریقہ کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ وہ یہ کہ جو شخص ہیمرنگ کررہا ہے اس کے دل میں انسان کے لیے گہری محبت کا جذبہ ہو۔ اس کی ہیمرنگ محبت کی ہیمرنگ ہو۔ اس کے بغیر ہیمرنگ ڈانٹ ڈپٹ ہے نہ کہ نصیحت۔
۱۷ نومبرکی شام کو میں مسٹر ہارون شیخ کے مکان پر گیا۔ بمبئی میں میرا قیام زیادہ تر یہیں تھا۔ ۱۸نومبر کی صبح کو ۴ بجے نیند کھلی۔ نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر ہارون شیخ صاحب کے ساتھ باہر نکلا۔ ہم لوگ قریب کے ایک پارک میں گئے اور وہاں دیر تک ٹہلتے رہے۔ صبح کے وقت ٹہلنا میری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔
میرے لیے صبح کے وقت ٹہلنا صرف ورزش نہیں ہے بلکہ وہ میرے لیے خدا کی یاد کا ایک لمحہ ہے۔ قرآن میں ہے : انَّ قرآن الفجر کان مشہودا (بنی اسرائیل ۷۸) لوگ سمجھتے ہیں کہ اس آیت سے مرادصرف صبح کے وقت نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ بلا شبہہ آیت کا ابتدائی مفہوم یہی ہے۔ مگر حدیث میں آیا ہے کہ لکل آیۃ منہا ظہر وبطن ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ابتدائی مفہوم ہے اور اسی کے ساتھ اس کا ایک توسیعی مفہوم۔
اس اعتبار سے صبح سویرے کھلے آسمان اور تازہ ہوا اور قدرتی مناظر کے درمیان ٹہلنا بھی اسی قسم کا ایک تجربہ ہے۔ اس قیمتی وقت میں ایک مومن جب ٹہلتا ہے تو وہ گویا کتابِ معرفت کا مطالعہ کررہا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت یتفکرون فی خلق السموات والارض کا تجربہ کررہا ہوتا ہے۔ ایک ’’قرآنِ مشہود‘‘ وہ ہے جس کا تجربہ مومن کو مسجد کے اندر ہوتا ہے، اور دوسرا ’’قرآن مشہود‘‘ وہ ہے جس کا تجربہ مومن کو مسجد کے باہر ہوتا ہے۔
میںہارون شیخ صاحب کے دفتر میں تھا۔ وہاں ایک وکیل صاحب ملاقات کے لیے آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں دور سے آیا ہوں اور مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ اس کے بعد وہ نان اسٹاپ بولنے لگے۔ خاص بات یہ تھی کہ ان کی اکثر باتیں، میرے نزدیک، غیر منطقی(illogical) تھیں مگر وہ پورے یقین کے ساتھ اپنی باتوں کو دہراتے رہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ اسلام میں یکشنبہ سے پنجشنبہ تک کے ایام ہیں (یوم الاحد ، یوم الاثنین، یوم الثلاثاء، یوم الأربعاء، یوم الخمیس) جمعہ کا دن سرے سے اسلام میں موجود نہیں۔ میں نے قرآن کی سورہ الجمعہ کی یہ آیت پڑھی: اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سے مراد کوئی ہفتہ واری دن نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف اجتماع کا دن ہے۔ وہ اس طرح کی بے ربط باتیں دیر تک کرتے رہے۔ آخر میں وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ نے مجھے گوارا کیا، اس کا شکریہ!
Thank you, very much for tolerating me.
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے کہا کہ قر آن کی سورہ نمبر ۹، پارہ نمبر ۱۱، آیت نمبر ۱۰۷ میں مدینہ کی ایک عمارت (مسجد ضرار) کو ڈھانے کا ذکر ہے۔ اس کو لے کر کچھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹاور کو توڑنا قرآن کے مطابق، درست تھا۔ وہ اس طرح کہ ہم ان تینوں اعداد کو لیں۔ ہم سورہ توبہ کا نمبر ۹ لیں اور پارہ کا نمبر ۱۱ لیں اور آیت کا نمبر ۱۰۷لیں تو اس سے تین باتیں نکلتی ہیں۔ وہ یہ کہ نویں مہینہ کی ۱۱ تاریخ کو ایک ایسی بلڈنگ ڈھائی جائے گی جس کی منزلیں ۱۰۷ ہوں گی۔ یعنی اُنہوں نے آیت نمبر ۱۰۷ سے ورلڈ ٹاور کی ۱۰۷ منزلیں مراد لیں اور سورہ نمبر ۹ سے یہ مطلب نکالا کہ نویں مہینہ کی گیارہویں تاریخ کو یہ واقعہ ہوگا۔اس طرح گویا ۱۱ ستمبر کو ورلڈ ٹاور کو ڈھانا قرآن کے بیان کے مطابق تھا۔
میںنے کہا کہ یہ ایک بے بنیاد استدلال ہے۔ ماضی میں بار بار ایسا ہوا ہے کہ لوگ اعداد کے ذریعہ ایسی باتیں ثابت کرتے رہے ہیں جن کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ مثال کے طورپر ایران کے بہاء اللہ خاں نے اعلان کیا کہ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک ہزار سال پر نبوت کو بدل دیتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی نبوت کو ایک ہزار سال پورے ہوگئے ہیں اس لیے اب اس خدائی قانون کے مطابق، ان کی نبوت منسوخ ہوگئی اور اب میں اگلے ہزار سال کے لیے خدا کی طرف سے انسانیت کا گائڈ مقرر ہوا ہوں۔ اس بے بنیاد نظریہ کو اُنہوں نے قرآن کی اس آیت سے نکالا:
ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ ألف سنۃ مما تعدون (السجدہ ۵)
بہاء اللہ خاں نے اس آیت سے ’’ہزار سال‘‘ کا لفظ لیا اور پھر اس کے ساتھ ایک خود ساختہ مفروضہ کو جوڑ کر ایک ایسا نظریہ نکال لیا جو قرآن کے سراسر خلاف تھا۔ یہی حال مذکورہ استدلال کا ہے۔ اس میں تین عدد کو لے کر اس کے ساتھ خود ساختہ طورپر ایک مفہوم وابستہ کردیا گیا۔ اور پھر بے بنیاد طورپر ان اعداد کے حوالہ سے ایک ایسا مفہوم نکالا گیا جس کا قرآن سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس قسم کا استدلال یقینی طور پر باطل ہے۔اس کی کوئی حیثیت نہ علمی اعتبار سے ہے اور نہ شرعی اعتبار سے۔
بمبئی کا یہ سفر مسٹر ہارون شیخ کی دعوت پر ہوا تھا۔ اُنہوں نے نیو بمبئی کے علاقہ میں دواؤں کی ایک فیکٹری کھولی ہے۔ اس فیکٹری کے افتتاح کے سلسلہ میں یہ سفر ہوا۔ ۱۹ نومبر ۲۰۰۴ کو ہم لوگ قافلہ کی صورت میں روانہ ہوکر نیو بمبئی پہنچے۔ یہاں سے ہم لوگوں کو فیکٹری لے جایا گیا۔ فیکٹری میں بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔
یہاں ایک نشست سوال و جواب کی تھی۔ ایک ہندو انجینئر نے کئی سوالات کئے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ انسان کی نجات صرف اسلام مذہب میں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں نے ایک مسلمان کی تقریر سُنی۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں ایک آیت کا ریفرنس دیا اور اس کا ٹرانسلیشن اس طرح بتایا:
If anyone desires a religion other than Islam, never will it be accepted of him and in the Hereafter he will be in the ramps of those who have lost. (3: 85)
میں نے کہا کہ یہ کنفیوژن ترجمہ کی غلطی سے ہوا ہے۔ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ مسلم اسپیکر نے کیا تو اُنہوں نے یہ کیا کہ آیت کے دوسرے الفاظ کا تو انگریزی ترجمہ کیا مگر انہوں نے اسلام کے لفظ کا ترجمہ نہیں کیا۔ اس آیت میں اسلام کا لفظ کسی مذہب کے نام کے طورپر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے لغوی معنٰی میں ہے۔ اسلام کا لغوی مفہوم سرینڈر ہے۔ اگر مسلم اسپیکر اس کا ترجمہ سرینڈر کے لفظ سے کرتے تو آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔
مزید سوالات کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ خدا کو انسان سے اصلاً جو چیز مطلوب ہے وہ سرینڈر یا سب مشن ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کو خدا نے ٹیسٹ (امتحان) کے لیے بنایا ہے۔اسی ٹیسٹ کی مصلحت کی بنا پر خدا نے انسان کو پوری آزادی عطا فرمائی ہے۔ کیوں کہ آزادی کے بغیر ٹیسٹ ممکن نہیں۔
یہ ٹیسٹ کس بات کا ہے۔ یہ ٹیسٹ اِس بات کا ہے کہ انسان حقیقت پسندی کا رویّہ اختیار کرے، وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو بے آزادکرلے۔ وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو خدا کے کنٹرول میں دے دے۔ وہ اختیار رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو بے اختیار کرلے۔ یہی سَرینڈر ہے، یعنی آزادی کے باوجود خدا کے آگے جھک جانا۔ خدا کا اصل مطلوب دین یہی آزادانہ سر ینڈر ہے۔ جو شخص اس طرح آزاد ہوتے ہوئے خدا کے آگے سرینڈر کرے وہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں جنت کا انعام پائے گا اور جو شخص ایسا نہ کرے وہ موت کے بعد کی زندگی میںجہنم میں داخل ہوگا۔
قرآن اس سلسلے میں گویا گائڈ بُک کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ آزادی کے باوجودسَرینڈر کرنے کا مطلب کیا ہے۔ قرآن میں اس مطلوب زندگی کے بنیادی اصول بتا دیئے گئے ہیں، اور حدیث میںاس کی تفصیل موجود ہے۔
یہاں نیو بمبئی میں ایک اجتماع ہوا۔ جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔ اس موقع پر میں نے تجارت کے بارہ میں اسلام کا نظریہ بیان کیا۔ یہ تقریر موقع کی مناسبت سے کی گئی۔ اس تقریر کا خلاصہ اگلی سطروں میں درج کیا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تسعۃ أعشارالرزق فی التجارۃ (رزق کا نوّے فیصد حصہ تجارت میں ہے) 90 % of provision lies in trade. ۔ یہ کوئی مذہبی عقیدہ کی بات نہیں۔ یہ فطرت ایک اٹل اصول ہے۔ خدا نے جس تخلیقی نقشہ کے تحت اس دنیا کو بنایا ہے، اس کے مطابق یہی ہونا ہے کہ معاشی وسائل کا بیشتر حصہ تجارت کے دائرہ میں رہے۔ یہ خالق کا مقرر کیا ہوا قانون ہے، اس کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
ایسی حالت میں وہ لوگ صرف اپنی بے خبری کا اعلان کررہے ہیں جو یہ شکایت کریں کہ ملک کا سرکاری نظام ہمارے ساتھ تعصب برتتا ہے، وہ ہم کو سرکاری ملازمت نہیں دیتا۔ میں ذاتی طور پر اس شکایت کو بے بنیاد مانتا ہوں۔ تاہم بالفرض اگر وہ درست ہو تب بھی میں کہوں گا کہ کوئی سرکاری نظام صرف اتنا کرسکتا ہے کہ وہ ایک سے رزق کا دس فی صد حصہ چھین لے مگر خدائی نظام کے تحت رزق کا نوّے فیصد حصہ پھر بھی آپ کے لیے قابل حصول رہے گا۔ ایسی حالت میں شکایت اور احتجاج کی کیا ضرورت۔
پیغمبر اسلام کے ابتدائی ساتھیوں کو صحابہ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا طرز فکر اور جن کا مزاج براہِ راست پیغمبر کے ذریعہ بنا تھا۔ اس طرح ان لوگوں کے اندر جو صفات پیدا ہوئیں ان کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ معاشی معاملات میں کسی کی شکایت نہیں کرتے تھے بلکہ تجارت کے کھلے ہوئے میدان کو استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ اصحاب رسول خشکی اور تری میں تجارت کرتے تھے (إنّ الصحابۃ کانوا یتجرون فی البر والبحر) :
Companions of the Prophet were trading in land and sea.
پیغمبر اسلام کے بعد کے زمانہ میں اسلام کو جو عالمی توسیع حاصل ہوئی اس میں سب سے زیادہ اسی کا دخل تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کی وفات کے بعد عرب کے باہر مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ ان میں سے ہر ایک وَن مین ٹو مِشن (one man two mission) کا مصداق بن گیا۔ انہوں نے دعوت کو اپنا مقصد بنایا اور معاشی ضرورت کے لیے تجارت کو اپنا وسیلہ بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نصف صدی کے اندر تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ درست طورپر کہا گیاہے کہ خدا تجارت کو اپنا مبلّغ بناتا ہے:
God is making commerce His missionary.
یہاں میں قرآن کا ایک حوالہ دوں گا جو اس سلسلہ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ وہ تاریخی واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۶ میں آیا ہے۔ اس سورہ میںاس صورت حال کی طرف اشارہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے مکہ میں موجود تھی۔ مکہ میں مقامی طورپر معاشی وسائل موجود نہ تھے۔ چنانچہ مکہ کے قبیلہ قریش کے لوگ اس تجارت میں مشغول ہوگئے جس کو آج کل اکسپورٹ اور امپورٹ کہاجاتا ہے۔
یہ لوگ تجارتی قافلہ کی صورت میں مکہ سے یمن کی طرف اور مکہ سے شام کی طرف اپنے اونٹوں کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ وہ اپنے مقامی سامانِ تجارت کو اونٹوں پر لاد کر لے جاتے اور ان کو یمن اور شام کے بازاروں میں فروخت کرتے اور پھر وہاں سے دوسرے سامان اونٹوں پر لے آتے اور مکہ اور اطرافِ مکہ میں ان کو بیچ کر نفع حاصل کرتے۔
امپورٹ اور اکسپورٹ کا یہ کامیاب بزنس قدیم زمانہ میں کیسے ممکن ہوا۔ اس کے بارہ میں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قریش کے لیے پُر امن سفر کے حالات پیدا کردیئے ۔ چنانچہ قریش کے قافلے محفوظ طورپر باہر کے علاقوں میں جاتے اور دوبارہ محفوظ طورپر واپس آتے:
God Almighty blessed the Quraysh with safe trade journeys.
قرآن کے مطابق، ایسا دو وجہوں سے ممکن ہوا۔ ایک تو یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا مرکزِ عبادت (کعبہ) مکہ میں تھا جس کی تولیت قریش کو حاصل تھی۔ عرب اور اَطرافِ عرب کی قومیں حضرت ابراہیم کو مشترک طورپر اپنا مذہبی بزرگ مانتی تھیں۔ دوسری بات یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سال غالباً ۵۷۰ میں یمن کے حاکم ابرہہ نے ۶۰ ہزار لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا مگر ابھی وہ مکہ کے باہر ہی تھا کہ ایک خدائی سزا کے تحت یہ پورا لشکر تباہ ہوگیا۔
ان دو واقعات کے نتیجہ میں مکہ کے قبیلۂ قریش کو عرب میں اور عرب کے باہر عمومی طورپر عزت واحترام کا مقام حاصل ہوگیا۔ اس طرح ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ اپنی تجارت کے لیے وہ چیز پالیں جس کو محفوظ سفر (safe journey) کہا جاتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں یہ تاریخ بہت زیادہ بڑے پیمانہ پر دہرائی گئی ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد جو نئے حالات پیدا ہوئے ہیں اُس کے نتیجہ میں سارے انسانوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ دنیا کے تمام حصوں میں محفوظ اور تیز رفتار سفر کر سکیں۔ وہ جدید کمیونیکیشن کے ذریعہ ساری دنیا میں اپنی تجارت کا جال بچھا دیں۔ یہ امکان تمام انسانوں کے لیے کھُلا ـتھا۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس نئے امکان میں سب سے کم حصہ اُن لوگوں کو ملا ہے جو اپنے آپ کو پُر فخر طور پر پیغمبرِ عربی کی امت کہتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی منفی سوچ کی بنا پر ایک ایسی سرگرمی میں مبتلا ہوگئے جو خدائی اسکیم سے لڑنے کے ہم معنٰی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان جہاد کے نام پر اُس چیز میں مبتلا ہوگئے ہیں جس کو دنیا اسلامک ٹررزم کہتی ہے— ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرنا، ہوائی جہازوں میں بم رکھ دینا، کاروں اور بسوں اور ٹرینوں میںبم رکھ کر سفر کو پُر خطر بنانا، سڑکوں پر بارودی سرنگ بچھا کر مسافروں کے دل میں خوف پیدا کرنا، وغیرہ۔
یہ سب کام خدا کی اسکیم کے خلاف ہیں۔ خدا نے چاہا کہ وہ اپنے بندوں کے لیے محفوظ سفر کے راستے پوری طرح کھول دے۔ مگر مسلمان اپنی متشددانہ تحریکوں کے ذریعہ خدا کی اس اسکیم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ان متشددانہ کارروائیوں میں براہِ راست طورپر مسلمانوں کی ایک محدود تعداد ہی شامل ہوتی ہے۔ مگر اسلامی شریعت کے مطابق، بقیہ مسلمان بھی اس سے بَری الذّمہ نہیں۔ اس لیے کہ بقیہ مسلمان ان واقعات کی مذمت کے لیے نہیں اُٹھے۔ ایسی حالت میں وہ شرعی اصول کے مطابق، ان متشددانہ کارروائیوں میں بالواسطہ طورپر شریک قرار پائیں گے جن میں دوسرے مسلمان براہِ راست طورپر شریک ہیں۔ حتی کہ کچھ مسلمان اگر ان واقعات کی مذمت کریں لیکن اسی کے ساتھ وہ اپنے بیان میں ’’اگر‘‘ اور ’’مگر‘‘ بھی جوڑ دیں تو ان کابیان اُنہیں اس معاملہ میں بری الذمّہ ثابت کرنے کے لیے ہر گز کافی نہیں ہوگا۔
بمبئی کے قیام میں انفرادی ملاقاتوں کے علاوہ بار بار چھوٹے اجتماعات ہوتے رہے۔ ایک اجتماع میںالرسالہ کے قارئین شریک تھے۔ اس موقع پر میں نے جو باتیں کہیں اُن میں سے ایک اجتماعی زندگی کی اہمیت کے بارہ میں تھی۔
میں نے کہا کہ اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔ دعوتی مشن بڑے پیمانے پر اجتماعیت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ مگر میرے تجربے کے مطابق اجتماعیت بے حد مشکل کام ہے۔ مسجد میں با جماعت نماز ادا کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن جماعتی طورپراسلامی دعوت کا کام کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں بار بار اختلاف اور شکایت کے مواقع آتے ہیں۔ جو لوگ شکایت کو عُذر بنائیں وہ کبھی اجتماعی کام نہیں کرسکتے۔ مضبوط اجتماعیت کی واحد شرط یہ ہے کہ ذاتی عذر کو کبھی عُذر نہ بنایا جائے۔ حتی کہ اُس وقت بھی نہیں جب کہ آدمی کو یقین ہو کہ اس کی رائے عملی طورپر زیادہ درست ہے۔
مثال کے طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوہ اُحد پیش آیا۔ عبد اللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں کی یہ رائے تھی کہ مدینے میںرہ کر مقابلہ کیا جائے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوان صحابہ کی رائے کی بنا پر مدینہ سے باہر نکل کرمقابلہ کا فیصلہ فرمایا۔ اس اختلاف کو لے کر عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی اجتماعیت سے الگ ہوگئے۔ یہ لوگ اسلام کی تاریخ میں منافقین کہے گئے۔ حالاں کہ تجربہ سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی رائے عملی اعتبار سے زیادہ درست تھی۔ چنانچہ بعد کو غزوۂ خندق کے موقع پر اسی رائے کے مطابق عمل کیا گیا۔
بمبئی میں کچھ مسلم نوجوانوں نے ایک دعوتی ادارہ قائم کیا ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
Islamic Centre for Research & Awareness (ICRA)
اِس ادارے کے ذمہ دار مسٹر سید جاوید (Tel: 9821197534) ہیں۔ اِ ن لوگوں نے اس ادارے کے ساتھ ایک بُک شاپ بھی کھولی ہے۔ جس میں الرسالہ اور دوسری اسلامی کتابیں موجود رہتی ہیں۔ اِس ادارے میں ایک اجتماع ہوا۔ اس میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کے علاوہ کچھ نَو مسلم بھی شریک تھے۔ یہاں میری ایک تقریر ہوئی۔
میںنے اپنی تقریر میں کہا کہ موجودہ زمانہ میں دعوتی نقطۂ نظر سے سب سے بڑا حادثہ یہ پیش آیا ہے کہ قومی شکایتوں کو لے کر مسلمان تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ ہندو، یہودی، عیسائی، امریکن، یوروپین، سب کے سب مسلمانوں کو اپنے دشمن نظر آتے ہیں۔ اُن کو دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب لوگ مسلمانوں کے خلاف سازش میں مشغول ہیں۔ اس منفی سوچ کا نتیجہ یہ ہُوا کہ’’ انسانیتِ عامّہ‘‘ مسلمانوں کا کنسرن نہ رہی۔
اسلام کی حقیقی تعلیمات ایک مومن کو انسان فرینڈلی بناتی ہیں۔ جس آدمی کا ذہن قرآن سے بنا ہو وہ دوسری قوموں کو رحمت وشفقت کی نظر سے دیکھے گا وہ یک طرفہ طور پر اُن کا خیر خواہ بنا رہے گا۔ اِسی کا نام مثبت ذہن ہے۔ یہ مثبت ذہن جب مسلمانوں میں ہو تو اس کے نتیجے میں اُن کے اندر حوصلہ اور آفاقیت پیدا ہوگی۔ وہ ہر شعبے میں کامیاب رہیں گے۔ اسی کے ساتھ اُن کا یہ مثبت ذہن دعوت کے عمل کو تیز تر کرنے میں معاون بنے گا۔
۲۱ نومبر کو بمبئی سے دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔ جناب ہارون شیخ صاحب کے ساتھ ائر پورٹ پہنچا۔ہارون شیخ صاحب بمبئی میں ایک اہم کام کررہے ہیں۔ وہ پورے معنوں میں ’’وَن مَین ٹو مشن‘‘ کی مثال ہیں۔ وہ ذاتی بزنس کے ساتھ ماہنامہ الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن نکال رہے ہیں۔ اِس انگریزی پَرچے کا نام اسپریچول میسیج (Spiritual Message) ہے۔ اس کا پہلا شمارہ جون ۲۰۰۳ کو شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد پابندی سے وہ ہر مہینے شائع ہورہا ہے۔ اس کا پتہ یہ ہے:
The Spiritual Message, Andheri (East)
Mumbai-400 099. India (Tel: 2834 1654)
بمبئی ایر پورٹ پہنچا تو وہاں حسب معمول بھیڑ دکھائی دی۔ انڈیا کے تمام ایر پورٹوں میں غالباً سب سے زیادہ بھیڑ بمبئی ایر پورٹ پر ہوتی ہے۔ بمبئی میں دو ائر پورٹ الگ الگ ہیں۔ ایک مُلکی پرواز کے لیے اور دوسرا انٹرنیشنل پروازوں کے لیے۔ بمبئی کے جہازوں میںمسافروں کی کثرت ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بمبئی سے لوگوں کے تجارتی تعلقات بہت زیادہ ہیں۔ آج کل ہوائی جہازوں میں سب سے زیادہ مسافر وہ لوگ ہوتے ہیں جو تجارت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تجارت کو ہر ملک میں غالب شعبہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر چہ مسلمان جدید تجارتی سرگرمیوں میںنسبتاً بہت کم نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے غیر حقیقی سیاسی ذوق نے اُن کو جدید تجارت کے میدان میں دوسروں سے پیچھے کردیا ہے۔
بمبئی سے انڈین ایر لائنز کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ جہاز کے اندر مطالعے کے لیے کئی اخبارات موجود تھے۔ ان میں سے ایک بمبئی کا اخبار ۲۱ نومبر کا مڈ ڈے (Mid Day) کا شمارہ ۲۱ نومبر ۲۰۰۴ تھا۔ اس اخبار میں ڈاکٹر اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال کا انٹرویو چھپا تھا، جو مسٹر دانش خاں نے ان سے لیا تھا:
سوال: پاکستان میںاس وقت جوصورت حال ہے اس پر اقبال کا ردّ عمل کیا ہوتا۔
جواب: موجودہ پاکستان کے بارہ میں اقبال کا رد عمل وہی ہوتا جو موجودہ انڈیا کے بارہ میں گاندھی کا ہوتا۔ میں بابری مسجد توڑے جانے اور گجرات کے فساد کے حوالے سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔
Q. How would have Iqbal reacted to the present state of affairs in Pakistan?
A. The same as Mahatma Gandhi would have reacted to the present state of affairs in India. I am referring to the demolition of the Babari Masjid and the massacre of Muslims in the state of Gujrat.
میں سمجھتا ہوں کہ یہ جواب صرف جزئی طورپر صحیح ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کی مسلم اقلیت کو جو حقوق اور جو مواقع ملے وہ اس سے بہت زیادہ تھے جو پاکستان کی ہندو اقلیت کو ملے۔ انڈیا میں بابری مسجد اور گجرات جیسے حادثے کی حیثیت استثناء کی ہے۔ جب کہ پاکستان کاحال یہ ہے کہ وہاں کے مسلمان تقریباً روزانہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہورہے ہیں۔ میرے نزدیک بابری مسجد کے گرانے سے بھی زیادہ سنگین واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں مسجدوں میںگھس کر نمازیوں کو بم اور گن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انڈیا کے مسلمان مسلسل ترقی کر رہے ہیں جب کہ پاکستان کے ہندوؤں کے لیے ترقی کے مواقع مسدود ہیں۔اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ انڈیا کے مسلمانوں کا تقابل پاکستان کے ہندوؤں سے کیا جائے۔ انڈیا کے مسلمانوں کا تقابل پاکستان کے مسلمانوں سے کرنا ایک مغالطہ انگیز بات ہے، وہ اس معاملہ میں صحیح تقابل نہیں۔
۲۱ نومبر ۲۰۰۴ کی شام کو ساڑھے سات بجے جہاز دہلی ائر پورٹ پر اترا۔ پورا جہاز بھرا ہوا تھا۔ یہ غالباً اس بات کی علامت تھی کہ حال میں حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں دہلی اور بمبئی کے درمیان کاروباری تعلق بہت بڑھ گیا ہے۔ دہلی کی حیثیت ملک کی سیاسی راجدھانی کی ہے۔ اور بمبئی کی حیثیت ملک کی تجارتی راجدھانی کی۔ اس نسبت سے دونوں کے درمیان پہلے بھی کافی تعلق تھا۔ اب اس تعلق میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ائر پورٹ سے نکل کر باہر آیا تو یہاں مسٹر رَجت ملہوترا ریسیو کرنے کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مشہور فلم اسٹار شاہ رُخ خان بھی اسی شام کی فلائٹ میں بمبئی سے دہلی آئے ہیں۔ وہ اپنے شیدائیوں کے ساتھ ابھی باہر نکلے ہیں۔ ان کو میں نے دیکھا تو میں نے فوراً ان کو پہچان لیا۔ مسٹررجت ملہوترا نے کہا کہ اگر یہی واقعہ پہلے ہوتا تو میں بھی ان کے پیچھے چلنے والوں میں سے ایک ہوتا۔ لیکن آج جب میں نے ان کو دیکھا تو میں صرف ۲ سکنڈ ان کی طرف دیکھ سکا اور اس کے بعد آپ کو ڈھونڈنے لگا۔
پھر انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ میرے اندر اس فرق کا سبب کیا ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ پہلے میں بھی مادّی نمائشوں میں گُم رہتا تھا۔ اب آپ کی کلاسوں میں شرکت کی وجہ سے مجھے اسپریچولٹی جیسی بڑی چیز مل گئی ہے۔ اب دوسری کوئی چیز مجھے اہم دکھائی نہیں دیتی، خواہ وہ کوئی فلم اسٹار ہو یا مادّی اعتبار سے کوئی دوسری بڑی چیز۔
دوسرا سفر
بمبئی میںایک دعوتی ادارہ قائم ہے۔ وہ خاص طور پر اسلام کے عمومی تعارف کے میدان میں کام کررہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو الرسالہ کی دعوتی تحریک سے متاثر ہوئے ہیں اور انہوں نے دعوت کے لیے منظم کام شروع کیا ہے۔ اس ادارے کا نام اور پتہ یہ ہے:
Islamic centre for research & awareness (ICRA)
3, Shantaram Patil Bldg., Gauthan 4th Lane,
S.V. Road, Behind Firdaus Mithaiwala,
Near Andheri Station (W.) Mumbai-58
Tel. 2628 6223— email:icra@islamsmessage.com
اس ادارے کی دعوت پر بمبئی کا سفر ہوا۔ ۹؍جون ۲۰۰۵ کو دہلی سے روانگی ہوئی اور ۱۲؍ جون ۲۰۰۵ کو بمبئی سے واپس آیا۔ یہ ایک دعوتی اور تربیتی سفرتھا۔
اِس سفر کی مختصر ردواد یہاں درج کی جاتی ہے۔ گھر سے ائیر پورٹ تک ایک صاحب مجھے پہنچانے کے لیے گیے تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ خدا کی معرفت کا طریقہ کیا ہے اُن کا خیال تھا کہ صوفیانہ اوراد ووظائف اور تبلیغی چلّے معرفتِ خداوندی کا ذریعہ ہیں۔ میں نے کہا کہ ان چیزوں کا معرفتِ خداوندی سے کوئی تعلق نہیں۔ خدا کی معرفت نہ کسی قسم کے تکرارِ الفاظ سے حاصل ہوتی ہے اور نہ وہ کسی نقل وحرکت کا نتیجہ ہے۔ معرفت کے حصول کا ذریعہ قرآن کے الفاظ میں تفکر اور تدبّر ہے۔
تفکر اور تدبّر کیا ہے۔تفکر اور تدبر سوچنے کے عمل کا نام ہے۔ معرفت دراصل ذہنی سرگرمی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے نہ کہ جسمانی ورزش کے ذریعہ۔ خدا نے انسان کو لامحدود ذہنی صلاحیت دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کے دماغ میں ایک سو ملین بلین بلین پارٹیکل ہیں۔ یعنی انسان کے دماغ میں سوچنے کی جو طاقت ہے وہ لامحدود ہے۔ اس ذہنی صلاحیت کو استعمال کرکے آدمی کو آفاق وانفُس میں خدا کی نشانیوں کو دریافت کرنا ہے۔ یہی ذہنی عمل معرفتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔
چنانچہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پہاڑوں کے علم سے اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی اُتارا۔ پھر ہم نے اُس سے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کردیے۔ اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ رنگوں کے ٹکڑے ہیں۔ اور گہرے سیاہ بھی۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی مختلف رنگ کے ہیں۔ اللہ سے اُس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست ہے، بخشنے والا ہے۔ (فاطر : ۲۸۔۲۷)
قرآن کی اس آیت میں پہاڑ جیسی چیزوں کا ذکر ہے۔ اور پھر فرمایا کہ: اللہ سے صرف علم والے ڈرتے ہیں۔ اس سیاق میںواضح طورپر علم سے مراد پانی، نباتات اور پہاڑ کا علم ہے۔ یعنی ان چیزوں کے علم سے خدا کی خشیت پیدا ہوتی ہے۔ یہی قرآنی ’’سُلوک‘‘ ہے اور یہی معرفتِ ربّانی کا اصل ذریعہ ہے۔
میرے سفروں میں اکثر کوئی مددگار میرے ساتھ ہوتا ہے۔ اس بار میرا یہ سفر تنہا تھا۔ کوئی مدد گار میرے ساتھ نہ تھا۔ میں سوچتا تھا کہ راستہ میں کوئی مشکل نہ پیش آئے مگر یہاں عجیب معاملہ ہوا۔ ایر پورٹ کے اندر داخل ہوتے ہی ایر کمپنی کی ایک خاتون کارکن نے آگے بڑھ کر مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے اور پھر میرا بیگ اور میرا ٹکٹ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے بعد ائر پورٹ کے تمام مراحل اسی خاتون نے طے کرائے۔ انتظار گاہ میں بیٹھنے کی جگہ نہ تھی تو انہوں نے ایک خصوصی کرسی کا انتظام کرکے مجھے بِٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ آپ یہاں بیٹھیے، جب جہاز کا وقت ہوگا تو میں خود آکر آپ کو لے جاؤں گی۔
میرا تجربہ ہے کہ بڑھاپا ایک اعتبارسے کمزوری ہے مگر وہ دوسرے اعتبار سے ایک نعمت ہے۔ نوجوان آدمی جب ایک بوڑھے انسان کودیکھتا ہے تو وہ اس کے روپ میں اپنے باپ یا اپنے دادا کو یاد کرتا ہے، وہ اپنے خاندانی بزرگ سے اُس کو اسوسییٹ کرلیتا ہے۔ چنانچہ وہ ایسے کسی آدمی کی خدمت کرکے ایک قلبی سکون حاصل کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے بزرگ کی خدمت کررہا ہوں۔
یہی تجربہ مجھے اجتماعات میں بھی ہُوا۔ دو سال پہلے نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر کے ہال میں میری ایک تقریر ہوئی۔تعلیم یافتہ ہندو یہاں کافی تعداد میں آئے ہوئے تھے۔ حاضرین میں سے ایک مسلمان نے بتایا کہ ان کے قریب کی سیٹ پر ایک ہندو پروفیسر بیٹھے ہوئے تھے۔ میری تقریر سُن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مسلمان نے اُن کے رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مولانا کی بزرگانہ باتوں کو سُن کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ میرے دادا مجھ سے خطاب کررہے ہیں۔
دہلی سے بمبئی کا سفر جیٹ ایرویز کی فلائٹ سے ہوا۔ فلائٹ پوری طرح بھری ہوئی تھی۔ یہ بیش تر تاجر لوگ تھے جو اپنے تجارتی مقاصد کے لیے بمبئی جارہے تھے۔ راستہ میں مختلف اخبارات اور میگزین مطالعے کے لیے موجود تھے۔ جیٹ ایر کی فلائٹ میگزین (Jet Wings) کے شمارہ جون۲۰۰۵ء میں بتایاگیا تھا کہ جیٹ ایرویز ہر دن 270 فلائٹ 72 مقامات کے لیے روانہ کرتی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے اس میں درج تھا کہ پانچ منٹ کے اندر ہم انڈیا کے کسی نہ کسی مقام کو مربوط کرتے ہیں:
Every 5 minutes we connect a place within India (p. 238)
میں نے سوچا کہ ربط کا اس سے بھی بڑا ایک واقعہ ہر لمحہ ہوتا ہے، مگر کسی کو اس کی خبر نہیں۔ اور وہ ہے خدا اور اس کے بندے کے درمیان غیر مرئی سطح پر ہر لمحہ ربط قائم ہونا۔ لوگوں کو مادّی سفرکا پتہ ہے لیکن لوگوں کو روحانی سفر کا پتہ نہیں۔
جیٹ ونگس کے ایک صفحے پر گووا کے ایک ہوٹل کا اشتہار تھا۔ اس اشتہار کے الفاظ یہ تھے: ایک ایسی جنت کا تصور کیجئے جہاں ہر قسم کے آرام اور سہولتیں موجود ہوں جن کا آپ نے کبھی خواب دیکھا ہے۔ ایسی جنت کے لطف کے لیے آپ گووا میں ہمارے ہوٹل میں آئیے یہاں آپ کو صحت، خوشی اور سکون ہر چیز ملے گی:
Imagine a paradise with all the comfort and facilities you ever dreamt of. Welcome to Radisson White Sands Resort Goa, where health, happiness and harmony stay together, so come…stay your way! (p. 125)
میں اس قسم کے ’’جنّتی ہوٹلوں‘‘ میں باربار ٹھہرا ہوں۔ مگر میرے تجربے کے مطابق کوئی بھی ہوٹل ’’جنتی ہوٹل‘‘ نہیں۔ اس قسم کے کسی ہوٹل میں جب آپ داخل ہوں تو وقتی طورپر بظاہر وہ آپ کو اچھا لگے گا، لیکن اگلے ہی دن آپ بورڈم کا شکار ہوجائیں گے۔ وہاں کے بظاہر تَعیّشاتی انتظامات آپ کو مصیبت معلوم ہونے لگیں گے۔ جلد ہی آپ اس سے بے رغبت ہو کر اس طرح واپس آئیں گے کہ یہ جنتی ہوٹل آپ کے لیے ایک تلخ یاد کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ اس قسم کے ہوٹل میں صرف اُن لوگوں کو خوشی مل سکتی ہے جو بظاہر تو انسان ہوں مگر ذہنی اعتبار سے وہ بھیڑ بکری کی سطح پر زندگی گذارتے ہوں۔
جہاز ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے بعد بمبئی پہنچا۔ میرے پاس کوئی لگیج نہ تھا۔ اس لیے میں فوراً ہی ایر پورٹ کے باہر آگیا۔ یہاں کئی لوگ موجود تھے— مسٹر ہارون شیخ، مسٹر محمد حنیف، ڈاکٹر کامران، ڈاکٹر اویس، مسٹر سید جاوید۔ ان کے ساتھ روانہ ہوکر مسٹر ہارون شیخ کے آفس میں پہنچا۔ یہ جگہ ائر پورٹ سے بہت قریب ہے۔ یہاں کئی لوگ اِکھٹّا ہوگئے۔ ظہر کی نماز تک یہیں قیام رہا۔
لوگوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ایک صاحب نے کہا کہ پہلے زمانہ میں آدمی ناہموار راستوں پر اونٹ اور خچر سے سفر کرتا تھا۔ اس لیے پہلے زمانہ میں شکر کی کیفیت پیدا ہوتی تھی۔ اب لوگ موٹر کار اور ہوئی جہاز کے ذریعہ سفر کرتے ہیں اس لیے اب شکر کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ میں نے کہا کہ یہ ناواقفیت کی بات ہے۔ شکر بالفاظِ دیگر ربانی کیفیت کا نام ہے۔ یہ خداوندِ بَرتر کے مقابلہ میں اپنی عاجزانہ عبدیت کو دریافت کرنا ہے۔ جو لوگ اس احساسِ عبدیت سے خالی ہوں اُن کو نہ پچھلے زمانہ میں ربّانی کیفیت کا تجربہ ہوسکتا تھا اور نہ وہ موجودہ زمانہ میں اس اعلیٰ کیفیت کا تجربہ کرسکتے تھے، جس کو شکر کہا جاتا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ دنیا کی نعمتوں کوکیوں نہ استعمال کیا جائے۔ اس سے تو خدا کے مُنعم ہونے کا تصوّر پیدا ہوتا ہے اور آدمی خدا کا شاکر بن جاتا ہے۔ میںنے کہا کہ نعمتوں پر شکر کا یہ بہت ناقص تصور ہے۔ شکر کا اعلیٰ تصوریہ ہے کہ آپ سورج اور چاند کو دیکھ کر شکر گذار بندے بنیں۔ دریا کی روانی اور ہوا کے جھونکوں میں آپ کوشکرِ خداوندی کا پیغام پہنچ رہا ہو۔ درخت کی ہریالی اور زمین کی گردش آپ کے اندر شکر کا طوفان برپا کردے۔ حقیقی شکر کا مآخذ ذاتی آرام نہیں، بلکہ قدرت خدا وندی کی پھیلی ہوئی نشانیاں ہیں۔ یہ بات قرآن کے ہر صفحے پر موجود ہے۔
ایک صاحب اقبال کے بہت پرستار تھے۔ میں نے کہا کہ اقبال کی شاعری غیر حقیقت پسندانہ جذباتیت پیدا کرتی ہے۔ جس کا نتیجہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مثلاً اقبال کا ایک شعر ہے:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میںتو دل ہوتا ہے سیپارہ
یہ شعر آدمی کے اندر وہ نفسیات پیدا کرتا ہے جس کو فارسی میں ’’پدرم سلطان بُود‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی آباواجداد کی گذشتہ عظمت پر فخر کرنا۔ حقیقت یہ تھی کہ سابق مسلم علماء کی کتابوں کے جو غیر مطبوعہ مسوَّدات یورپ کے کتب خانوں میں رکھے ہوئے ہیں، اب وہ صرف تاریخی میوزیم کی چیز ہیں۔ اب زمانہ اتنا ہی آگے بڑھ چکا ہے جتنا کہ قدیم غیر مطبوعہ کتابوں کے مقابلہ میں جدید طرز کی مطبوعہ اور مجلّد کتاب۔ اقبال کو چاہیے تھا کہ وہ مسلمانوں کے اندر حال اور مستقبل کا شعور پیدا کرتے مگر انہوں نے مسلمانوں کو فخرماضی کی مریضانہ نفسیات میں مبتلا کرکے چھوڑ دیا۔
مزید عبرت ناک بات یہ ہے کہ اقبا ل نے یورپ کی لائبریریوں میں اپنے آبا کی کتابوں کو دیکھا تو اُن کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، مگر اُسی یورپ میں لاکھوں لوگ سچائی سے محروم ہو کر جہنم کی طرف جارہے تھے لیکن اقبال اس اندوہ ناک صورت حال پر نہیں تڑپے اور نہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ تم یورپی قوموں کو جنت کا راستہ دکھا کر دعوت الی اللہ کا اہم ترین فریضہ ادا کرو اور پھر آخرت میں اللہ کے بڑے بڑے انعامات حاصل کرو۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ عرب دنیا میں جب مغربی استعمار کا دور آیا اور یہود فلسطین کی سرزمین میں غالب ہوگیے تو سارے عرب، عربی شاعر کا یہ شعر دھوم کے ساتھ پڑھنے لگے:
ہاتِ صلاح الدین ثانیۃً فینا جَدّدی حطّین أو شبہ حطّینا
یہ شعر گوئی یا اس قسم کی خطابت بے معنی جوش کے سوا اور کچھ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ صلاح الدین (وفات ۱۱۹۳ء)دوبارہ جدید تاریخ میں پیدا ہوئے اور اُنہوں نے دوبارہ حِطّین جیسے معرکے برپا کیے۔ مگر یہ سراسر بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ مثلاً سلطان ٹیپو (وفات ۱۷۹۹ء) بہادری کے اعتبار سے صلاح الدین سے کم نہ تھے۔ یاسر عرفات بھی اسی قسم کی ایک عسکری مثال تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ زمانہ علم کا زمانہ ہے نہ کہ تلوار کا زمانہ۔ مسلم رہنماؤں کی غلطی یہ ہے کہ وہ علم کے دَور میں تلوار کے ذریعہ جیت حاصل کرنا چاہتے ہیں، حالاں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔
بمبئی میں جوگیش وَری کے علاقے میں ایک نَو تعمیر فلیٹ چند دن کے لیے حاصل کیا گیا تھا، میرا قیام اسی فلیٹ میں رہا۔ ہارون شیخ صاحب کے آفس سے روانہ ہو کر ہم لوگ یہاں آگیے۔ یہاں حلقہ الرسالہ کے کئی لوگ برابر میرے ساتھ مقیم رہے۔ اُن سے برابر گفتگو جاری رہی۔ ان لوگوں نے عام رواج کے مطابق دعوتی کھانے کا انتظام کیا تھا۔ میںنے ان دعوتی کھانوں میںشرکت نہیں کی۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ اس نوابی تہذیب میں کب تک جیتے رہیں گے۔ جو لذیذ اور دعوتی کھانے مسلمانوں میں رائج ہیں وہ در اصل مسلمانوں کے پچھڑے پن کی علامت ہیں۔ الرسالہ کے ایک قاری اپنے گھر سے سادہ کھانا لاتے رہے اور میں نے بمبئی کے قیام کے دوران اسی کھانے کو ترجیح دی۔
جوگیش وری کا یہ فلیٹ عملاً ایک قسم کی تربیت گاہ بن گیا۔ یہاں رات دن لوگ آتے رہے اور ان سے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔
ایک صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میںنے کہا کہ آرٹ آف تھنکنگ کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ آپ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو جانیں۔ مثال کے طورپر آپ لوگ اکثر ڈبیٹ (debate) کو دعوت کہتے ہیں۔ حالاں کہ ڈبیٹ اور دعوت میں بنیادی فرق ہے۔ ڈبیٹ اپنے مقابل میں دوسرے کو زیر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ڈبیٹ در اصل ایک قسم کی تقریری پہلوانی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دعوت ایک درد مندانہ عمل ہے۔ دعوت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کو دل سوزی کے انداز میں سچائی کا پیغام پہنچایا جائے تاکہ وہ اُسے اپنے دل کی بات سمجھے اور اُس کو قبول کرلے۔
ڈبیٹ (مناظرہ) اور دعوت دونوں کے نتائج ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ڈبیٹ سے ڈبیٹر کے اندر فخر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف فریقِ ثانی کے اندر وہ نفرت کا جنگل اُگاتا ہے۔ ڈبیٹ اپنے نتیجے کے اعتبار سے دعوت کا قاتل ہے۔ دعوت کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ دعوت در اصل محبت و شفقت کا اظہار ہے۔ وہ داعی کے اندر احساسِ ذمے داری کو جگاتی ہے اور دوسری طرف مَدعو کے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے اندر نظر ثانی کرے اور سچائی کا متلاشی بن جائے، یہاں تک کہ سچائی کو اپنا کر وہ خدا کے ان بندوں میں شامل ہوجائے جن سے خدا قیامت میں راضی ہوگا۔
ایک صاحب نے معترضین اسلام کا سروے کرکے ساٹھ سوالات بنائے تھے۔ انہوں نے یہ سوالات مجھ کو لکھ کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ان سوالات کا جواب تیار کردیں تو ہم ان کو شائع کرکے بڑی تعداد میں پھیلائیں گے تاکہ اسلام کے خلاف غلط فہمیاں ختم ہوں۔ میںنے کہا کہ یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں۔ یہ سوالات ہمیشہ سُنی سنائی باتوں پر ہوتے ہیں۔ وہ کسی گہری سوچ کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سوال کاجواب دیتے رہتے ہیں مگر اسلام کے خلاف غلط فہمیاں ختم نہیں ہوتیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ لوگوں کے اندر آرٹ آف تھنکنگ پیدا کی جائے۔ لوگوں کو صحیح طرز پر سوچنے والا بنایا جائے۔ اِس کے بعد لوگ خود ہی ہر سوال کا جواب پالیں گے۔
میں پارک میں ٹہل رہا تھا، یہاں ایک صاحب مجھ سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کو ٹی وی پر دیکھا تھا اس سے میں نے آپ کو پہچانا۔ انہوں نے اپنا نام ابو سفیان بتایا۔ وہ الرسالہ کے قاری تھے اور کچھ کتابیں بھی پڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ الرسالہ کے مطالعے سے مجھ کو بہت فائدہ ہوا۔ خاص طورپر اس کی وجہ سے میرے اندر حقیقت پسندی آئی۔ ایک اور صاحب (مسٹر خالد) سے ملاقات ہوئی۔ انہوںنے بتایا کہ ۱۹۹۳ء میں جب آپ بمبئی آئے تھے اور یہاں آپ نے بابری مسجد کے مسئلے پر تقریر کی تھی، اُس وقت اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں میں میں بھی شریک تھا۔ اُس وقت میں آپ کو دشمنوں کا آدمی سمجھتا تھا۔ مگر اُس کے بعد میں نے الرسالہ اور آپ کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا یہاں تک کہ میری فکر پوری طرح بدل گئی۔ اب میں آپ سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور آپ کے مشن سے جڑ کر کام کرنا چاہتا ہوں۔
ایک مسلم نوجوان نے کہا کہ آپ اکثر ایڈجسٹمنٹ کی باتیں کرتے ہیں یہ تو بزدلی ہے۔ میں نے کہا کہ ایڈجسٹمنٹ بزدلی نہیں بلکہ وہ ایک حکیمانہ تدبیر ہے۔ میں نے کہا کہ ایڈجسٹمنٹ تو ہرآدمی ہر روز کرتاہے ایڈجسٹمنٹ کے بغیر کوئی فیملی نہیں چل سکتی، ایڈجسٹمنٹ کے بغیر آپ کوئی جاب نہیں کرسکتے، ایڈجسٹمنٹ کے بغیر آپ بزنس میں کامیاب نہیں ہوسکتے، ایڈجسٹمنٹ کے بغیر آپ سوسائٹی میں عافیت کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔
میں نے کہا کہ آپ اور دوسرے لوگ اپنی ذاتی زندگی میں عین یہی طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مگر جب معاملہ مسلم اور نان مسلم یا مسلمان اور ہندو کا ہو تو آپ لوگ اُس کو قومی پرسٹیج (prestige) کا ایشو بنالیتے ہیں۔ یہی وہ منفی نفسیات ہے جس کی بناپر آپ جیسے لوگوں کو ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ پسپائی اور بزدلی کا طریقہ نظر آنے لگتا ہے۔
۱۰؍جون ۲۰۰۵ کو جمعہ کا دن تھا۔ پروگرام کے مطابق ہم لوگ ڈیری فارم کی مسجد میں گیے اور وہاں جمعہ کی نماز ادا کی۔ لوگوں کی فرمائش کے مطابق میں نے خطبۂ جمعہ سے پہلے آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ میںنے کہا کہ جب میں یہاں پہنچا تو نماز سے پہلے مجھے مسجد کے چیر مین صاحب کے دفتر میں تھوڑی دیر بیٹھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے مجھے آربری کا انگریزی ترجمہ دکھایا اور بتایا کہ میں اس کو برابر پڑھتا ہوں ۔ اس واقعہ کو لے کر میں نے بتایا کہ آربری کی پیدائش ایک مسیحی خاندان میں ہوئی۔ مراکو کے ایک ہوٹل میں قیام کے دوران انہوں نے قرآن کی قرأت ٹیپ پر سُنی۔ وہ اگر چہ عربی زبان نہیں جانتے تھے، مگر قرآن کے حُسن صَوت سے وہ بہت متاثر ہوئے۔اس کے بعد انہوںنے مصر جاکر عربی سیکھی اور پھر قرآن کا براہِ راست مطالعہ کرکے اُنہوں نے اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ کہاجاتاہے کہ انہوں نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا۔
میں نے قرآن سے متعلق کئی واقعات بیان کیے اور پھر کہا کہ قرآن خدا کا ایک ابدی معجزہ ہے، ویسا ہی ایک معجزہ جیسا کہ حضرت موسی ؑ کا عصا تھا۔ قدیم مصر میں جب حضرت موسیؑ کا مقابلہ جادوگروں سے ہوا، تو یہ ہوا کہ جادو گروں نے رسّیاں اور لاٹھیاں ڈالیں جو میدان میں سانپ کی مانند دوڑنے لگیں۔ قرآن کے مطابق، اس کو دیکھ کر حضرت موسیٰ ڈر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ، تم نہ ڈرو بلکہ تم اپنا عصا میدان میں ڈال دو، وہ جادو گروں کے سانپوں کو نگل جائے گا۔ چنانچہ یہی ہوا۔ حضرت موسی نے جب اپنا عصا ڈالا تو اس کے بعد وہ معجزاتی واقعہ ظاہر ہوا جس کو قرآن میں: فإذا ہی تلقف ما یأفکون کہا گیا ہے۔
میں نے کہا کہ آج کے مسلمان اگر قرآن کو سمجھیں، وہ قرآن کے مطابق اپنی سوچ بنائیں، وہ اپنے حریفوں کے مقابلہ میں قرآن کو استعمال کریں توآج بھی دوبارہ یہ معجزاتی واقعہ پیش آئے گا کہ: فإذا ہی تلقف مایأفکون۔
۱۰ جون کی شام کو اکراء (ICRA) کے ادارے میں ایک اجتماع ہوا۔ اس میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی شریک ہوئے۔ اس اجتماع کے لیے یہ عنوان رکھاگیا تھا: اسلام عالم انسانیت کو کیا دیتا ہے۔ میںنے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام کی عمومی تعلیمات کو بیان کیا۔ لوگ بہت غور سے اُس کو سنتے رہے۔
اس تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کوئی منفرد یا سُپیریر مذہب نہیں۔ اسلام وہی عالمی مذہب ہے جو خدا ہر زمانہ میں مختلف پیغمبروں کے ذریعہ بھیجتا رہا ہے۔ اسلام اور دوسرے مذہبوں میں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ اسلام تاریخی اعتبار سے قابل اعتبار مذہب ہے، جب کہ دوسرے مذاہب کی تاریخی اعتباریت یقینی نہیں۔ اس سلسلے میں میں نے مختلف غیر مسلم اسکالرس کا حوالہ دیتے ہوئے اس کو علمی طورپر واضح کیا۔
میںنے کہا کہ ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے نے اعتراف کیا ہے کہ پیغمبر اسلام کے سوا کسی مذہبی رہنما کو تاریخی شخصیت نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح سوامی وویکانند نے اعتراف کیا ہے کہ یہ صرف اسلام ہے جس نے کامل مساوات پر مبنی انسانی سماج قائم کیا ہے۔ اسی طرح مہاتما گاندھی نے کہا ہے کہ ہمارے وزیروں کو سادگی اور انصاف کے لیے ابوبکر اور عمر کا نمونہ پکڑنا چاہیے۔ کیوں کہ رام اور کرشن تاریخی شخصیت نہیں۔ اسی طرح آرنلڈ ٹوائن بی نے لکھا ہے کہ جدید سائنس کو مُوحِّدانہ مذہب (اسلام) نے پیدا کیا۔ اسی طرح ڈاکور مائیکل ہارٹ نے لکھا ہے کہ محمد پوری انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے، وغیرہ۔
اس طرح کی مثالیں دیتے ہوئے میں نے کہا کہ اسلام کا تاریخی پہلو اتنا زیادہ واضح ہے کہ غیر مسلم مؤرخین نے بھی کھلے طورپر اس کا اعتراف کیا ہے۔ مگر ایک کمی ابھی تک موجودہ ہے کہ مذہب کی دنیا میں کھلا ڈائیلاگ رواج نہ پاسکا۔
میںنے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے علمی شعبوں میں مسلسل ترقی ہورہی ہے۔ لیکن مذہب جمود کا شکار ہے۔ مذہب ایک ہی روایتی حالت پر مسلسل قائم ہے۔ اس جمود کا سبب یہ ہے کہ مذہب میں کھلا ڈائیلاگ ممکن نہ ہوسکا۔ جب بھی مذہب میں کھُلا ڈائیلاگ کیا جاتا ہے تو وہ فوراً مناظرے کی صورت اخیتار کرلیتا ہے۔ اور مناظرہ ضد اور تعصب کو بڑھا کر ذہنی ترقی کے عمل کو روک دیتا ہے۔
تقریر کے بعد سوال وجواب کا وقفہ تھا۔ حاضرین کی طرف سے کئی سوالات سامنے آئے۔ ڈاکٹر ہریش کامدار امریکا کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ وہ بھی اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ اُنہوں نے سوال کیا کہ میں خود ایک سیکولر آدمی ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب میں اوپن ڈائیلاگ ممکن نہیں۔ جیسا کہ آپ نے خود کہا۔ آپ حق کے متلاشی تھے۔ پھر آپ نے اسلام کو واحد سچائی (The Truth) کے طورپر دریافت کیا۔ ایسی حالت میںآپ کھُلے ذہن کے ساتھ ڈائیلاگ کیسے کرسکتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ سائنسی علوم کی طرح مذہب میں بھی کھُلا ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ مگر سائنس میں ڈائیلاگ اس لیے کا میاب ہوتا ہے کہ وہاں کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے آخری سچائی کو پالیا ہے۔ مگر مذہب میں اس قسم کا بے لاگ ڈسکشن ممکن نہیں۔
میں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ انسان کی صلاحیت کا کمتر اندازہ ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے برین میں ایک سو ملین بلین بلین پارٹیکل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں لامحدود صلاحیت موجود ہے۔ انہی میں سے ایک صلاحیت بلاشبہہ یہ ہے کہ وہ خالی الذہن (empty mind)ہو کر سوچ سکے۔ وہ اپنے خیالات سے الگ (detach) ہو کر دوسرے نقطۂ نظر کو سُن سکے۔
میں نے کہا کہ دماغ کے اس لامحدود امکان کی ایک مثال یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے محبت کرتا ہے مگر عین اُسی وقت وہ اپنے باپ سے اُتنی ہی محبت کرتاہے۔ آدمی اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ یکساں طورپر اپنی بہن سے بھی محبت کرتا ہے۔ یہ انسانی ذہن کے لامحدود امکانات کی ایک مثال ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مغربی مفکر نے کہا کہ میرا ظرف اتنا زیادہ بڑا ہے جو ان تمام تضادات کو اپنے اندر سمو سکے:
I am large enough to contain all these contradiction.
اس اجتماع میں ایک اور ہندو تاجر شریک تھے وہ جین مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کا نام نیول سنگھوں تھا۔ اُنہوں نے پوری تقریر سنی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک سوال کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ سڑک پر اگر کوئی شخص ایک انسان کو قتل کرے تو آپ کو کیسا لگے گا۔ میںنے کہا کہ بہت بُرا لگے گا۔ انہوںنے پھر کہا کہ اگر کوئی شخص ایک کُتے کو سڑک پر قتل کرے تو آپ کو کیسا لگے گا۔ میںنے کہا کہ بہت بُرا لگے گا۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ جب ایسا ہے تو آپ لوگ کیوں ذبیحہ کرتے ہیں اور جانور کو مار کر اُس کا گوشت کھاتے ہیں۔
میں نے کہا کہ اس معاملہ کے دو پہلو ہیں۔ اخلاقی اور غذائی۔ اخلاقی اعتبار سے آپ اس معاملہ کو نہ دیکھیںبلکہ غذائی اعتبار سے دیکھیں۔ آپ جانتے ہیں کہ زمین کے بہت سے حصے ایسے ہیں جہاں گوشت اور مچھلی کے سوا کوئی اور غذا نہیں ملتی۔ میں خود روس گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں صرف نان ویجیٹیرین فوڈ دستیاب ہے۔ ایسی حالت میں اگر آپ سارے انسانوں کو ویجیٹیرین فوڈ کھانے پر مجبور کردیں تو بہت سے لوگ بھوکے مر جائیں گے۔
پھر میں نے کہا کہ بات صرف ویجٹیرین فوڈ اور نان ویجیٹیرین فوڈ کی نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز زندگی سے خالی نہیں۔ ہوا ، پانی ، دودھ اور سبزی اور پھل ہر چیز میں زندگی ہے۔ آپ خواہ گوشت مچھلی نہ کھائیں تب بھی آپ ہر دن لاکھوں زندگیوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ گویا نان ویجیٹیرین فوڈ کا نظریہ سرے سے قابل عمل ہی نہیں۔
مذکورہ دونوں صاحبان نے میرے جواب کے وزن کو تسلیم کیا۔ چنانچہ اجتماع کے خاتمہ پر جب لوگ جانے لگے تو پروفیسر ہریش کامدار نے اعتراف کے طورپر ہندو طریقہ کے مطابق، میرا چَرَن اَسپَرش کیا۔ اُنہوں نے اجتماع کے ناظم مسٹر سید جاوید سے کہا کہ مولانا صاحب کی تقریر میری توقع سے زیادہ تھی۔ اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں اُن کے تمام پروگرام میں شرکت کرتا۔
مسٹر نیول سنگھوں نے اپنے ایک مسلم ساتھی ریاض احمد صاحب سے کہا کہ اسلام ایک پریکٹکل مذہب ہے۔ اسلام میں ہر بات بہت کلیر ہے۔
اس اجتماع سے فارغ ہوکر ہم لوگ جوگیش وری کے فلیٹ میں آگئے۔ یہاں کئی لوگ اکھٹا ہوگئے۔ اُن سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کے اجتماع سے ایک بات یہ واضح ہوتی ہے کہ انڈیا میں دعوتی کام کے مواقع بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ میں نے اپنی تقریر میں واضح طورپر دوسرے مذہبوں کے مقابلہ میں اسلام کوزیادہ مستند مذہب بتایا۔ مگر کسی ہندو کی طرف سے منفی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ بلکہ سبھی نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔
ایک اور سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہاکہ انڈیا کے ہندوؤں میں کام کرنے کے لیے ہم نے بہت سے بروشر اور پمفلٹ انگریزی زبان میں شائع کیے ہیں۔ یہ اس لیے ہیں کہ آپ اور دوسرے تمام لوگ ان کو حاصل کرکے اپنے اپنے حلقے میں پھیلائیں۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے ہینڈبیگ میںاُن کو رکھے اور ملاقات اور انٹریکشن کے دوران وہ اُنہیں لوگوں تک پہنچا تا رہے۔ ان میں اسلام کو عمومی اور آفاقی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تیار کی ہوئی تمام کتابیں شعوری یا غیر شعوری طورپر مسلمانوں کے ذہن کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ اس لیے وہ غیرمسلموں کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ہم نے ان کتابچوں کو عمومی انسانی انداز میں تیار کیا ہے۔ تاکہ ہر ایک اس میںسے اپنے تجسس کا جواب پاسکے۔ یہ کتابیں مختصر ہونے کی بنا پر ایسی ہیں کہ آدمی فوراً ہی ان کو پڑھ لے۔
۱۱ جون ۲۰۰۵ کی صبح ہوئی تو میں جوگیش وری کے فلیٹ میں تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق، محمد حنیف صاحب صبح کو آئے۔ ان کے ساتھ روانہ ہو کر میں ملت نگر پہنچا۔یہاں کی مسجد میں فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی۔ مسجد کافی بڑی تھی اور نمازیوں کی تعداد بھی کافی۔ اس مسجد میں پہلے بھی میں نماز ادا کرچکا ہوں۔
اس کے بعد محمد حنیف صاحب کے ساتھ قریب کے پارک میں ٹہلنے کے لیے گیا۔ یہاں ایک صاحب ملے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اُنہوں نے مجھ کو ٹی وی پر دیکھا تھا۔ اس لیے وہ مجھ کو دیکھتے ہی پہچان گئے۔ اُن کے ساتھ کچھ دیر تک پارک کی بنچ پر بیٹھا۔ ان صاحب نے بتایا کہ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ اس سے پہلے اُن کے مزاج میں شدت تھی۔ وہ دوسروں سے فوراً لڑ پڑتے تھے۔ مگر الرسالہ پڑھنے کے بعد ان کے اندر تحمل کی صفت پیدا ہوگئی۔ اب وہ زیادہ کامیاب اور پُرسکون زندگی گذار رہے ہیں۔
الرسالہ کے اکثر قاری یہی بات کہتے ہیں— اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم رہنماؤں کی منفی سیاست کے نتیجے میں پوری کی پوری قوم شدت پسند بن گئی۔ ہر مسلمان معمولی بات پر بھڑک اُٹھتا ہے۔ جدید تاریخ میںالرسالہ پہلا پرچہ تھا جس نے مسلمانوں کو صبر اور تحمل کی اہمیت بتائی۔ ایک طرف قرآن و حدیث اور دوسری طرف عقلی دلائل کے ذریعہ لوگوں کو یقین دلایا کہ ترقی کا راز صبر و تحمل میں ہے، نہ کہ ٹکراؤ اور احتجاج میں۔
اس کے بعد ہم لوگ جوگیش وری واپس آگئے۔ یہاں عصر کی نماز ادا کی۔ کئی لوگ اکھٹا ہوگئے جن سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔
مسٹر فاروق فیصل نے کہا کہ الرسالہ میں دار الاسلام، دار الکفر اور دار الحرب کے عنوان سے آپ کا جو مضمون آیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اس کی اہمیت کی بنا پر ضرورت ہے کہ اس موضوع پر ایک باقاعدہ سیمنار کیا جائے۔
میں نے پوچھا کہ مختلف موضوعات پر بار بار بڑے بڑے سیمنار ہوئے ہیں۔ کیا ان سیمناروں کا کوئی مثبت نتیجہ نکلا ہے۔ کسی قدر سوچنے کے بعد انہوں نے کہا: نہیں۔ انہوںنے کہا میں نے خود کئی سیمناروں میں شرکت کی ہے۔ مگر وہاں ’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ کے سوا مجھ کو کچھ اور نہیں ملا۔ میں نے کہا کہ جب آپ کو خود یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ ان سیمناروں کا کوئی فائدہ نہیں تو اب اِسی قسم کا ایک اور بے فائدہ سیمنار آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سیمینار کا لفظ بولنے میں بہت بڑا معلوم ہوتا ہے مگر کم ازکم موجودہ حالات میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ سیمینار میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اکھٹا ہوتے ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق یہ سب کے سب ایگوئسٹ (egoist) ہوتے ہیں۔ اُن کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کی بات نہ مانیں۔ چنانچہ وہ نیا نیا نکتہ نکال کر مسلسل بحث کرتے رہتے ہیں، ایسی بحث جو کبھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچتی۔ حقیقی علم وہ ہے جو آدمی کے اندر ماڈسٹی پیدا کرے۔ مگر ایسے صاحب علم بے حد کم یاب ہیں جن کے علم نے ان کو ماڈسٹ بنا دیا ہو۔
الرسالہ کے قارئین کی ایک نشست میں یہ طے ہوا کہ بمبئی کے کسی مناسب مقام پر ایک ماہانہ اجتماع ہر مہینے کے پہلے اتوار کو کیا جائے۔ پھر اجتماع کے آرگنائزر کے طورپر مسٹر سید جاوید کا انتخاب کیا گیا۔
میں نے کہا کہ کسی بھی مشن کی کامیابی کے لیے اجتماعی جدوجہد بہت ضروری ہے۔ میںنے کہا کہ جماعت بندی اور اجتماعی جدوجہد میں فرق ہے۔ جماعت بندی تعصّب اور گر وہ پرستی پیدا کرتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں اجتماعی جدوجہد ایک عملی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں نے جماعت بندی میں غلو کرکے اس کو عقیدے کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ یعنی جو جماعت میں نہیں وہ ’’من شَذّ شُذَّ فی النار‘‘ کا مصداق ہے۔ اس قسم کا نظریہ بلا شبہہ بدترین غلو ہے۔ اور غلو، اسلام میں نہیں۔
صحیح یہ ہے کہ اجتماعیت کا تعلق عقیدے سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عملی ضرورت سے ہے۔ کوئی ایک شخص خواہ وہ کتنا ہی زیادہ قابلیت رکھتا ہو، کبھی کوئی بڑا کام نہیںکرسکتا۔ بڑے کام کے لیے اجتماعی جدوجہد یا مشترکہ جدوجہد لازمی طورپر ضروری ہے۔ اجتماعی جدوجہد ایک عملی ضرورت ہے۔ وہ شرعی عقیدے کا مسئلہ نہیں۔
۱۱ جون ۲۰۰۵ کو ماہِم میں مسٹر رضوان احمد ایڈوکیٹ کی رہائش گاہ پر ایک اجتماع ہوا۔ اس میں تعلیم یافتہ مرد اور عورت شریک ہوئے۔ اس اجتماع میں ایک سوال کی کسی قدر مفصل وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ میرے مطالعے کے مطابق جنت میں جانے کے لیے مُزکّٰی شخصیت (purified soul) (طٰہ ۷۶)کی ضرورت ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے جنت کے حصول کے بارہ میں جو نظریے بنائے وہ سب کے سب مجھے بے بنیاد نظر آتے ہیں۔
کوئی سمجھتا ہے کہ کلمہ کے الفاظ دہرا لینا جنت میں داخلے کے لیے کافی ہے۔ کوئی کسی وسیلے پر بھروسہ کئے ہوئے ہے۔ کوئی فضائل کی کہانیوںمیںگم ہے۔
میرے مطالعے کے مطابق یہ سب ’’اَمانی‘‘(النساء ۱۲۳) کی مثالیں ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ جنت ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کریں۔
میں نے کہا کہ قرآن میں آیا ہے: قد أفلح من زَکّٰہا وقد خاب من دسّٰہا (الشمس ۹۔۱۰)
Succesful are those who purify their souls and failures are those who pollute their souls (91: 9-10)
اس معاملہ کی وضاحت حدیث سے ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
إن ہذہ القلوب تصدأ کما یصدء الحدید إذا أصابہ الماء. قیل وما جلاء ہا؟ قال: کثرۃ ذکر الموت وتلاوۃ القرآن (دلوں کو زنگ لگتا ہے جس طرح لوہے کو پانی سے زنگ لگتا ہے۔ پوچھا گیا اس زنگ کی صفائی کا طریقہ کیا ہے؟ فرمایا: موت کو زیادہ یاد کرنا اور قرآن کو پڑھنا)
دل میں زنگ کی عملی صورت کیا ہوتی ہے اس کو ایک اور حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
إن المؤمن إذا أذنب کانت نکتۃ سوداء فی قلبہ. فإن تاب واستغفر صقل قلبہ، وإن زاد زادت حتّی یعلوَ قلبہ (مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا دھبّہ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر یہ دَھبّے بڑھتے رہیں تو وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتے ہیں)
اس معاملہ کو جدید نفسیاتی تحقیق کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ جدید نفسیاتی تحقیق بتاتی ہے کہ انسانی دماغ کے تین حصّے ہیں: کانشش مائنڈ، سَب کانشش مائنڈ اور اَن کانشش مائنڈ۔ مطالعے کے مطابق یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص کوئی بُرائی کرتا ہے تو پہلے دن وہ اس کے کانشش مائنڈ میں ہوتی ہے۔ اگر وہ اس کو لے کر رات کو سوجائے تو فطری پراسس کے تحت وہ اس کے سب کانشش مائنڈ میں چلی جاتی ہے۔ اگر وہ اسی حالت پر باقی رہے تو اگلی رات یا کئی راتوں کے بعد وہ اَن کانشش مائنڈ میں چلی جاتی ہے۔ کوئی چیز جب تک کانشش مائنڈ میں ہو، وہ پوری آدمی کے کنٹرول میں ہوتی ہے لیکن سب کانشش مائنڈ میں جانے کے بعد اگر مزید تاخیر ہو اور وہ فطری پراسس سے گذرتے ہوئے اَن کانشش مائنڈ میں پہنچ جائے تو اس کے اوپر سے آدمی کا کنٹرول ختم ہوجاتا ہے۔
اس تحقیق کی روشنی میں معاملہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جب آدمی کے ذہن میں کوئی بُرائی یا دوسرے لفظوں میں نگیٹیو آئیٹم (negative item)آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ فوراً اس کی تطہیر کرے تاکہ وہ اس کے حافظے میں پازیٹیو آئیٹم کے طورپر اسٹور (store) ہو۔ اگر آدمی نے ایسا نہیں کیا تو دھیرے دھیرے اس کا اَن کانشش مائنڈ نگیٹیو آئیٹم کا اسٹور بن جائے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے انسان کا قول و عمل زیادہ تر اس کے اَن کانشش مائنڈ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جس آدمی کا لاشعور نگیٹیو آئیٹم سے بھر جائے وہ گویا کثیف روح بن گیا اور جو آدمی اپنے لاشعور کو مطہَّرکرسکے وہی خدا کے نزدیک مطہّر روح قرار پائے گا۔
۱۱؍جون ۲۰۰۵ کی شام کو ہم لوگ دوبارہ جوگیش وری کے فلیٹ میں واپس آئے۔ یہاں حسب معمول لوگوں سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ایک مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ کار آمد انسان وہ ہے جس میں دو میں سے ایک صفت ہو۔ یا تو وہ باتوں کو خود گہرائی کے ساتھ سمجھ سکتا ہو۔ اور اگر اس کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو تو اس کے اندر یہ صفت ہونی چاہیے کہ وہ سمجھ دار آدمی کی بات فوراً مان لے۔ جن لوگوں کے اندر دونوں میں سے کوئی ایک بات موجود نہ ہو، ان کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ مولانا اسماعیل میرٹھی نے اس بات کو سادہ انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:
جو نہ دانا ہو، نہ داناؤں کا مانے کہنا
میرے نزدیک یہ بات درست ہے مگر اسی کے ساتھ میرا تجربہ ہے کہ دونوں ہی میں ایک بات مشترک ہے اور وہ تواضع (modesty) ہے۔ دانش مند کی دانش مندی اُسی وقت کار آمد ہے جب کہ اس کے اندر تواضع کی صفت کامل طورپر موجود ہو۔ اسی طرح غیر دانش مند کی غیر دانشمندی اُس وقت مفید ہے جب کہ وہ دل سے یہ مانتا ہو کہ میں دانش مند نہیں ہوں۔
عشاء کی نماز کے بعد لوگوں کو بتایا کہ نماز اصلاً ایک انفرادی عمل ہے۔ نماز کا مقصد خشوع ہے اور خشوع کسی ایک فرد کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کیوں نماز کو جماعت کے ساتھ لازم کردیا گیا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کے اندر اجتماعیت کی اسپرٹ پیدا کرنا ہے۔ عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر باجماعت نماز کی دھوم مچی ہوئی ہے، مسجدیں باجماعت نمازیوں سے بھری رہتی ہیں، مگر اجتماعیت کی روح مسلمانوں کے اندر بالکل موجود نہیں۔ گروہی عصبیت کے تحت وہ اپنے بنائے ہوئے حلقے کے ساتھ وابستہ رہ سکتے ہیں، مگر وسیع تر معنوں میں اسلامی اجتماعیت اُن کے اندر سرے سے موجود نہیں۔
۱۲ جون ۲۰۰۵ کو بمبئی سے واپسی کا دن تھا۔ صبح کو فجر کی نماز میں نے ہارون شیخ صاحب کے ساتھ ادا کی۔ پھر اُن کے ساتھ قریب کے ایک پارک میں گیا۔ بمبئی میں پارک اتنے کم ہیں کہ یہاں صبح کو اس میں داخلے کے لیے اس کی فیس دینی پڑتی ہے۔ چنانچہ جس پارک میں ہم لوگ گئے اس میں فی کس پانچ روپئے ادا کرنا پڑا۔ کافی دیر ہم لوگ یہاں ٹہلتے رہے۔ اس کے بعد ہارون شیخ صاحب کے ساتھ ان کے گھر پر چائے پی۔ اور پھر ہارون شیخ صاحب کے ساتھ ایر پورٹ کے لیے روانہ ہوگیا۔
ڈاکٹر ریکھا نے ٹیلیفون پر بتایا تھا کہ وہ ائر پورٹ آکر مجھ سے ملیں گی اور اسلام کے بارہ میں مجھ سے کچھ سوالات پر گفتگو کریں گی۔ مگر کسی وجہ سے وہ وقت پر ایر پورٹ نہ پہنچ سکیں۔ کچھ دیر ان کا انتظار کرنے کے بعد میں ایر پورٹ کے اندر داخل ہوگیا۔
بمبئی سے دہلی کے لیے دوبارہ جٹ ایر کی فلائٹ سے سفر کیا۔ یہ بڑا جہاز تھا، مگر اس کی بیش تر سیٹیں خالی تھیں۔ میں نے ایک ایر ہاسٹس سے پوچھا کہ آج کیوں ایسا ہے کہ جہاز میں بہت کم مسافر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ آج اتوار کا دن ہے اور اتوار کے دن دہلی اور بمبئی دونوں جگہ کاروبار بند رہتا ہے۔ اس لیے آج مسافر بہت کم ہیں۔ کیوں کہ آج کل ہوائی سفر میں زیادہ تر تجارتی لوگ ہوتے ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی پروازکے بعد جہاز گیارہ بجے دہلی کے ایر پورٹ پر اُتر گیا۔ یہاں میرے کچھ ساتھی موجود تھے، ان کے ساتھ روانہ ہو کر گھر پہنچا۔ بمبئی کے لوگ مزید قیام کے لیے کہہ رہے تھے مگر اتوار کی شام کو ہماری ہفتے وار کلاس ہوتی ہے، اس لیے مجھے صبح کی فلائٹ سے واپس آنا پڑا۔
گفتگو کی رُوداد
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ کچھ لوگ قرآن کی آیت سے اقامتِ دین کا لفظ لیتے ہیں اور اس کے معنی یہ بتاتے ہیں کہ اس سے مراد ہے: اقامتِ سیاست۔ یعنی سیاسی اقتدار پر قبضہ کرکے قوانین شرعی نافذ کرنا۔ یہ قرآنی آیت کی تفسیر نہیں ہے، بلکہ قرآنی آیت کو اپنے خود ساختہ نظریے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اس قسم کا غیر منطقی استدلال تمام باطل فرقے کرتے رہے ہیں۔
میں نے اپنی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ سورۂ شوریٰ کی آیت أقیموا الدین (۱۳) میں اقامتِ دین سے مراد دین کی پیروی ہے۔ یعنی دین کی ابدی تعلیمات کو ذاتی زندگی میں اپنانا۔ اس آیت کا کوئی تعلق قانون اور سیاست سے نہیں ہے۔ میں نے حوالوں کے ذریعہ دکھایا ہے کہ اس آیت میں تمام مفسرین یہی مفہوم لیتے ہیں۔ پوری تاریخ میں کوئی ایک مفسر ایسا نہیں جو اس آیت میںاقامتِ دین کا وہ مفہوم لیتا ہو جو موجودہ زمانہ کے نام نہاد انقلابی مفکرین لیتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کے منکرین نے پیغمبر کا انکار اس لیے کیا کہ وہ انہیں بَشَر دکھائی دیے۔ بعد کو پیغمبروں کے مومنین نے یہ کیا کہ اپنے پیغمبروں کو غیرِ بشر ثابت کر ڈالا۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کا کوئی استثناء نہیں ہے۔ الطاف حسین حالی نے بہت پہلے مسلمانوں کے بارہ میں کہا تھا کہ : نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں۔ یہ مزاج مزید اضافے کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ اِس کا مظاہرہ نعتیہ اشعار میں بخوبی طورپر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں دو شعر یہ ہیں:
مدینے کی مسجد میں منبر کے اوپر
بِلا عین کے ایک عرب ہم نے دیکھا
وہی جو مُستویٔ عرش تھا خدا ہوکر
اُتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر
نعت گوئی ایک بدعت ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پہلے نعت خواں حضرت حسّان تھے۔ میرے نزدیک یہ بدعت پر جھوٹ کا اضافہ ہے۔ میرے نزدیک حضرت حسّان نعت خواں نہیں تھے بلکہ وہ اسلام کے دفاع میں شعر کہا کرتے تھے۔
ایک تفسیری مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن میں جنت کے بارہ میں ارشاد ہوا ہے کہ: ویدخلہم الجنۃ عَرفہا لہم (محمد ۶) میں نے کہا کہ اس آیت میں ’’عرّفہا لہم‘‘کی وضاحت اکثر مفسرین نے بَیَّنہا لہم جیسے الفاظ سے کی ہے۔ یعنی اللہ مومنین کو جنت میں داخل کرے گا جس کو اُنہیں معلوم کرادیا ہے۔
میرے نزدیک یہ اِس آیت کی ایک ناقص تفسیر ہے۔ اس آیت پر غور کرنے کے بعد میں یہ سمجھا ہوں کہ اس آیت میں عرّفہا لہم سے مراد یہ ہے کہ اُن کو جنت کی پیشگی پہچان یا معرفت کرادی ہے۔ اس سے مراد غالباً یہ ہے کہ جنت میں داخلہ اُن خوش قسمت انسانوں کو ملے گا جو جنّت کی سوچ میں اتنا غرق ہوئے کہ اُنہیں دنیا ہی میں جنت کی معرفت مل گئی۔ گویا کہ وہ موت سے پہلے ہی جنت کا تصوراتی مشاہدہ کرنے لگے۔
اِس سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص جنت کا اتنا زیادہ طالب بن جائے کہ وہ جنت کے علم سے گذر کر جنت کی معرفت کا درجہ حاصل کرلے تو اِس قسم کا عارفانہ ادراک اُس کے لیے غالباً جنت میں داخلے کا سرٹیفکیٹ بن جائے گا۔
ایک سوال کے جوا ب میں میں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ پچھلے تقریباً ایک سو سال سے مسلمانوں کے درمیان ایک تحریک چلتی رہی ہے کہ مسلمان مخلوط علاقے میں نہ رہیں بلکہ ان کی آبادیاں غیر مسلموں کی آبادی سے الگ بنائی جائیں۔ تقریباً تمام مسلم رہنما اس سوچ کا شکار رہے۔ میرے نزدیک یہ بدترین رہنمائی تھی۔ جس کا مسلمان شکار ہوئے۔ ان مسلم رہنماؤں نے ایک عظیم تاریخی حقیقت کو نہیں جانا وہ یہ کہ اختلاط (interaction) ہر قسم کی ترقیوں کا راز ہے۔ علیحدہ پاکٹ بنانا ترقی کے راستہ میں مستقل رکاوٹ ہے۔ اسی مصلحت کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانہ میں صحابہ کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ عرب سے نکل کر دوسرے ملکوں میں پھیل جائیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد صحابہ کی اکثریت نے ایسا ہی کیا۔ وہ اطراف کے عرب ملکوں میں چلے گئے۔ حالاں کہ ان ملکوں کی زبان اور ان کا کلچر صحابہ کے لیے بالکل اجنبی چیز کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک موقع پر میں نے ایک حدیث کی وضاحت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے اوپر نبوت ختم ہوگئی، میرے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں۔ اس کا مطلب سادہ طور پر صرف یہ نہیں ہے کہ گنتی کے اعتبار سے پیغمبروں کی فہرست مکمل ہوگئی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد اب کسی اور پیغمبر کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ وہ اسباب ختم ہوگئے، جس کی وجہ سے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے تھے۔
میںنے کہا کہ پیغمبر کا مقصد ہدایتِ الٰہی کو انسانوں تک پہنچانا ہے۔ اس کے لیے پیغمبر کا شخصاً موجود ہونا ضروری نہیں۔ اگر ایک ایسا گروہ موجود ہو جو پیغمبر کے نمائندے کی حیثیت سے امرِ حق لوگوں تک پہنچاتا رہے تو ایسی حالت میں پیغمبر مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ پیغمبر اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خدا کا کلام (قرآن) اپنی اصلی حالت میں مکمل طورپر محفوظ ہوگیا۔ یہ حفاظت اِس بات کی ضمانت بن گئی کہ ہر نسل میں اور ہر زمانہ میں ایسے افراد موجود رہیں جو ہدایتِ الٰہی کی صحیح معرفت حاصل کرکے اُسے دوسروں تک پہنچائیں۔ پیغمبر آخر الزماں سے پہلے اس قسم کی ضمانت موجود نہ تھی اس لیے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب (India Wins Freedom) میں بتایا ہے کہ تقسیم کی ذمّے داری کانگریس کی قیادت پر ہے۔ ۱۹۳۶ کا الیکشن آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں ملک کر لڑے تھے۔ اس الیکشن میں دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ اتفاق ہوگیا تھا کہ مسلم وزرات کا کوٹہ مسلم لیگ سے پُر کیا جائے گا۔ مگر الیکشن کے خاتمے پر جب کانگریس کو امید سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی تو اس نے اپنا موقف بدل لیا۔ اس نے یوپی کی وزارت میں یہ کیا کہ مسلم لیگ کے نمائندہ عبد الرحمن نشتر کو چھوڑ کر کانگریسی امیدوار حافظ محمد ابراہیم کو وزیر بنا دیا۔ یہ واقعہ مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح کے لیے بامب شیل(bomb shell) ثابت ہوا۔ وہ ہمیشہ کے لیے کانگریس سے الگ ہوگیے اور تقسیم ملک کی تحریک میں شدت کے ساتھ سرگرم ہوگیے۔ جس کا نتیجہ پاکستان کا قیام تھا۔
مولانا ابو الکلام آزادکا تعلق کانگریس سے تھا اور مسٹر محمد علی جناح کا تعلق مسلم لیگ سے۔ مگر سیاسی بصیرت کے اعتبار سے دونوں ایک سطح پر نظر آتے ہیں۔ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ سب سے بڑی سیاست یہ ہے کہ عُذر کو عُذر نہ بنایا جائے۔ جو لوگ عذر کو عذر بنائیں ان کے لیے سیاست کے میدان میں داخل ہونا ہی جائز نہیں۔
میں نے کہا کہ دورِ اوّل کے مسلمانوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کی عظیم تاریخ بنائی۔ مگر شاید لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ مسلمان تاریخ سازی کا یہ کردار اسی لیے ادا کر پائے کہ انہوں نے عُذر کو عذر نہیں بنایا۔ مثال کے طورپر خلیفۂ اول کے انتقال کے وقت انصار کے نمائندہ کو خلیفہ نہیں بنایا گیا۔ اس وقت مہاجرین کی طرف سے یہ کہاگیا کہ: نحن الأمراء وأنتم الوُزراء۔
مگر بعد کو اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ انصار اگر اس کو عذر بناتے تو یہ واقعہ اُن کے لیے بامب شیل ثابت ہوتا۔ لیکن انہوں نے اس عذر کو عذر نہیں بنایا۔ اس طرح اسلام کی تاریخ آگے بڑھ گئی۔ عام انسان صرف حال میں دیکھتا ہے، حقیقی لیڈر وہ ہے جو حال کے ساتھ مستقبل کو شامل کرکے دیکھ سکے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ محدثین نے ایک اصول یہ بیان کیا ہے کہ جب بھی کوئی شخص ایسی روایت بیان کرے جس میں چھوٹے عمل پر بڑا ثواب بتایاگیا ہو تو اس کو موضوع سمجھنا چاہیے۔ میںنے کہا کہ اس مسئلے کی مزید وضاحت یہ ہے کہ کوئی ’’چھوٹا‘‘ عمل ہمیشہ ایک ظاہری عمل ہوتا ہے اور ظاہری عمل پر بڑے بڑے ثواب کی کہانیاں بنانا بلا شبہہ باطل ہے۔ ثواب ہمیشہ داخلی یا قلبی عمل پر ملتا ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں فضائل کی کہانیاں داخلی عمل پر نہیں بنتیں بلکہ وہ ہمیشہ ظاہری عمل پر بنتی ہیں۔ میںنے کہا کہ فضائلِ اعمال کا مطلب فضائلِ ظاہرِ اعمال ہے نہ کہ فضائلِ حقیقتِ اعمال۔
بمبئی کے ایک علاقے سے گذرتے ہوئے میں نے وہاں کی مسجد میں نماز پڑھی۔ باہر نکلا تو میرے ساتھی نے کہا کہ یہ پورا علاقہ مسلِمستان ہے۔ میںنے کہا کہ میرے لیے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں۔ مسلمانوں کا اپنا پاکیٹ بنا کر الگ تھلگ رہنا ان کی ترقی میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر رہنے کی اہمیت کو سمجھیں۔ وہ د وسروں کے ساتھ مل جُل کر رہنا سیکھیں۔ اس کے بغیر وہ ترقی نہیں کرسکتے۔
ایک مجلس میں ایک صاحب تھے جو بار بار درمیان میں بول پڑتے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ طریقہ آپ کے ذہنی ارتقا میںرُکاوٹ ہے۔ ایک انگریزی مقولہ ہے کہ ’’جب میں بول رہا ہوں تو میں سوچ نہیں رہا ہوں‘‘ جب آپ بولتے ہیں تو اخذ کرنے کا عمل معطّل ہوجاتا ہے۔ آپ اگر چاہتے ہیں کہ آپ کو ذہنی ارتقاء کی نعمت حاصل ہو تو آپ اپنی اس روش کو مکمل طورپر چھوڑ دیں۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا آج کل درگاہ کلچر کی دھوم ہے۔ کچھ مُردہ شخصیتوں کو شعوری یا غیر شعوری طورپر خدائی کا درجہ دے کر ان کے نام پر دھوم مچی ہوئی ہے ۔ میں نے کہا کہ درگاہ کلچر کی اس مقبولیت کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے خدا کی معرفت نہ ہونا۔ آج مسلمانوں کے لیے خدا صرف ایک رسمی عقیدہ ہے، خدا اُن کے زندہ یقین کا حصہ نہیں۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے وہ چیز وجود میں آئی ہے جس کو مَیں بزرگ پرستی کہتا ہوں۔ موجودہ درگاہ کلچر اسلام میں بلاشبہہ اجنبی ہے۔ اسلام میں قبر پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ خواہ اس کو کتنا خوب صورت نام دے دیا جائے۔
میںنے درگاہ کلچر کے ایک مبلّغ کی تقریر ٹی وی پر سُنی۔ ان سے سوال کیاگیا تھا کہ مُرادیں پوری کرنے کی طاقت تو صرف خدا کو حاصل ہے۔ پھر لوگ قبروں پر جاکر کیوں اُن سے مرادیں مانگتے ہیں۔ مقرر موصوف نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ مرادیں پوری کرنے کی طاقت صرف خدا کو حاصل ہے۔ لیکن جب خدا اپنی طرف سے کسی کو اپنی عنایت کے طورپر مرادیں پوری کرنے کی طاقت دے دے تو وہ توحید کے خلاف نہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کسی ملک میں اصل طاقت صدر مملکت کو ہوتی ہے، لیکن جب وہ خود اپنی طرف سے اپنے اختیار کا ایک جُز گورنر کو دے دے تو گورنر بھی اس عطا کردہ اختیار کو استعمال کرنے کا حق دار ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا کہ کسی غیر خدا کو مُرادپوری کرنے کا اختیار ہونا، صدر وگورنر جیسی غیر متعلق مثال سے ثابت نہیں ہوتا، اس کے ثابت ہونے کے لیے براہِ راست قرآن میں دلیل ہونی چاہیے۔
صدر یا وزیرِ اعظم کی مثال پر قیاس کرکے خدا کے معاملے کو ثابت کرنا، قیاس مع الفارق کا معاملہ ہے۔ خدا کے متعلق ایسی مثال دینا، حقیقت بیانی نہیں، بلکہ وہ مجرمانہ جسارت کے ہم معنی ہے۔ صدر یا وزیر اعظم کیوں کسی کو اپنا نائب مقرر کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ صدر یا وزیر اعظم بہرحال انسان ہیں۔ ان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی پوری سلطنت کو براہِ راست اپنے کنٹرول میں رکھ سکیں۔ چنانچہ وہ اپنے عجز کی تلافی کے لیے اپنا نائب مقرر کرتے ہیں۔ مگر خدا اپنی ذات میں قادرِمطلق ہے۔ اس کو اپنے اختیار کے استعمال کے لیے ہر گز کسی اور کی ضرورت نہیں۔
ایک معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ صرف کچھ کتابیں پڑھنے سے علم نہیں آتا۔ فارسی کا مقولہ ہے کہ:
یک من علم را دہ من عقل می باید
یعنی ایک مَن علم کے لیے دس من عقل چاہیے۔ کتابوں کے مطالعے سے آدمی کو معلومات حاصل ہوسکتی ہیں، لیکن آدمی جب تک صحیح تجزیہ کرنا نہ جانے وہ اپنے مطالعے یا تعلیم سے عارفِ حقیقت نہیں بن سکتا۔ظاہری قسم کے مسئلے مسائل کو بتانے کے لیے معلومات کافی ہوسکتی ہیں، مگر دین کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے لیے معرفت درکار ہے۔
اس سفر میں ایک بڑا عبرت ناک واقعہ معلوم ہوا۔ بمبئی میںایک ڈاکٹر نیتومانڈ کے تھے۔ ۲۰۰۳ میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ امراضِ قلب کے بہت بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ سرجری میں اُن کو کمال حاصل تھا۔ انہوں نے بہت سے دل کے مریضوں کی کامیاب سرجری کی تھی۔ آخر میں اُن کو اپنے فن پر بہت غرور آ گیا تھا۔یہاں تک کہ وہ خدا کے منکربن گئے ۔
ایک صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار ایک مسلم خاتون کے دل کا آپریشن کیا۔ بعد کو مسلم خاتون نے ڈاکٹر صاحب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آپریشن کامیاب رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اس میں خدا کی کیا بات ہے۔ تم پیسہ دو اور میں تم کو صحت دوں گا:
Give me money and i will give you cure.
وہ ایک آپریشن کا معاوضہ تین لاکھ روپئے لیتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود اُن کا انتقال دل کے دورے میں ہوا۔ وہ اپنی قیمتی کار میں سفر کررہے تھے، ہندو جا ہاسپٹل پہنچے کہ اچانک اُن پر دل کا دورہ پڑا۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا، اتفاق سے وہاں اُس وقت جو عملہ تھا وہ ان کو پہچانتا نہ تھا۔ چنانچہ اسپتال میں ان کے ساتھ بہت زیادہ بے توجہی کا معاملہ ہوا۔ وہ بے بسی کے ساتھ چلّاتے رہے کہ میں ڈاکٹر مانڈکے ہوں۔ مگر عدم واقفیت کی بنا پر وہاں بَر وقت ان کا صحیح علاج نہ ہوسکا اور اسپتال ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔
ہر انسان مکمل طورپر عاجز ہے مگر وہ اپنے کو قادر سمجھ لیتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ غور و فکر سے کام نہیں لیتا۔ بمبئی میں ایک سرجن ڈاکٹر کامران نے مجھے بتایا کہ انسان کے جسم میں ایک خاص عنصر ہوتا ہے۔ یہی آپریشن کے بعد اندمال کا سارا کام کرتا ہے۔ اگر یہ عنصر نہ ہوتو تمام سَرجن بے روزگار ہوجائیں۔ ڈاکٹر مانڈکے اگر اِس پوری حقیقت پر غور کرتے تو وہ ہر سرجری کے بعد اپنے عجز کو دریافت کرتے۔ لیکن غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے وہ برعکس طورپر سرجری کے واقعے میں اپنی مہارت دیکھتے رہے۔ اس لیے ایسا ہوا کہ جس واقعے میں انہیں عجز کی غذا مل رہی تھی، اُس سے وہ غلط طورپر کبر کی غذا لیتے رہے اور آخر کار اس بے خبر کے ساتھ اُن کا خاتمہ ہوگیا۔
ایک مجلس میں میں نے بتایا کہ موجودہ زمانہ میں سفر دعوت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں میں نے مولانا محمد ذکوان ندوی کا ایک تجربہ بتایا۔ یہ تجربہ ان کے بیان کے مطابق یہ ہے:
’’جون ۲۰۰۵ کو میں نے دہلی اور لکھنؤ کے درمیان ایک سفرکیا۔ یہ سفر گومتی ایکسپریس کے ذریعہ ہوا۔ اس سفر میں کچھ دعوتی تجربات ہوئے جن کا ذِکر یہاں کیا جاتا ہے۔
میں اپنی عادت کے مطابق سفر کے دوران اپنی ڈائری لکھ رہا تھا۔میرے ہم سفر مسٹر ہریش نے سوال کیا: آپ کیا لکھ رہے ہیں؟ میں نے کہا : ڈائری۔ اِس طرح بات شروع ہوئی۔ پھر میں نے ہندی اورانگریزی کے کچھ پمفلٹس اُنہیں دیے۔ وہ کافی متأثر ہوئے اور انہوں نے کہا میں CPS (Center for Peace and Spirituality towards God Realization)آؤں گا۔ مسٹر ہریش دہلی کے ایک ٹی وی (آنکھوں دیکھی) کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آپ کوجب بھی کو ئی پروگرام دینا ہو فون کیجئے ۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ آؤں گا اور پروگرام ریکارڈ کرکے نشر کروں گا۔
دوسری سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب مسٹر شنکر رَونِیار (غازی آباد) نے بھی بڑھ کر ایک پمفلٹ لیا اور اس کو پڑھنے کے بعد کہا: بہت اچھا لکھا ہے۔ مگر اس میں کچھ کٹّر پنتھ ہے۔ میں نے کہا کہ پمفلٹ میں لکھی ہوئی کوئی ایک بات بتائیے جس سے آپ نے یہ جانا کہ اس میں کٹر پنتھ ہے؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ پھر انہوں نے کہا : اسلام میں چار شادی کا حُکم ہے جس کی کوئی لاجک میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے کہا: آپ کی عمر مجھ سے بہت زیادہ ہے آپ مجھے کسی ایک مسلم فیملی کا نام بتائیے جس نے چار شادیاں کی ہوں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا: میرے علم میں تو ایسا کوئی آدمی نہیں۔ میں نے کہا: جو چیز عملاً موجود نہیں اس میں اُلجھنے کی ضرورت کیا ہے۔ تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد وہ دوسرے پمفلٹ دیکھنے لگے۔ پھر کافی اختلاط شروع ہوگیا اور کئی لوگوں نے سوالات شروع کردیے۔ مسٹر شنکر رونیار نے بابری مسجد کے متعلق بتایا کہ وہ سراسر نادانی اور ہٹ دھرمی کا کیس تھا۔ مسٹر اڈوانی اور دوسرے لوگوں نے صرف اپنی سیاست چمکانے کے لیے یہ ڈرامہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا: میں بابری مسجد ڈھائے جانے کے بعد وہاں بنائے جانے والے عارضی مندر میں درشن کے لیے ایودھیا حاضر ہوا تو میں نے وہاں کی صورت حال دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا: پربھو! ہم آپ سے کیا مانگیں آپ تو خود ہی مظلوم ہیں۔ اس سے اچھے تو آپ پہلے ہی تھے۔ جھوٹی سیاست کے نام پر لوگوں نے اب آپ کو ایک سایے دار مکان سے باہر نکال کر ایک چھوٹے سے کیمپ میں لاکر رکھ دیا ہے۔ پھر انہوں نے دوسرا پمفلٹ سَفَلتا کے سُوتر ¼lQyrk ds lw=k½ پڑھا اور کہا : اس کا لکھنے والا تو ایک فلاسفر معلوم ہوتا ہے۔ وہ کافی متاثر ہوئے، انہوں نے کہا کہ اِس رائٹر سے تو ملنا چاہیے۔ میں ضروردہلی آکر ان سے ملوں گا، اور آشیر واد لوں گا۔ سامنے بیٹھی ہوئی دو ’’غیر مسلم ‘‘خواتین نے بھی دوسرے ہندی انگریزی پمفلٹس کے علاوہ ’’سفلتا کے سوتر‘‘ دیکھا اور بہت پسند کیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے اس کتابچے سے کیا سیکھا؟ انہوں نے کہا مجھے اس سے حوصلہ ملا۔ اور میں نے سیکھا کہ آدمی کو کسی بھی حال میں اپنا حوصلہ نہیں کھونا چاہیے۔
دورانِ گفتگو بہت سے لوگوں نے شوق سے CPS کے کتابچے لیے، ایک صاحب مسٹر ہریش کمار (پنجاب،Tel: 9814589292 ) اپنی سیٹ سے اُٹھ کر میرے پاس آئے اور کچھ کتابچے حاصل کیے۔ میں نے ان سے کچھ باتیں کیں اور پوچھا آپ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نغمے گاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ نغمے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک سچا نغمہ اور دوسرا جھوٹا نغمہ۔ آپ جو نغمہ گاتے ہیں وہ جھوٹا نغمہ ہے۔ وہ اس جھوٹی دنیا میں جھوٹی زبان سے گایا جاتا ہے تاکہ کچھ جھوٹے کان اسے سن سکیں۔ یہ ساری چیزیں ایک دن مٹی ہوجانے والی ہیں۔ سچا نغمہ ایک خدائی نغمہ ہے۔ آپ سچے نغمے گائیے اور جھوٹے نغمے چھوڑیے۔ اس پر وہ مسکرائے اور کتابچے لے کر اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میرے پاس آئے اور کہا میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا۔ آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں۔ مجھے آپ سے محبت محسوس ہورہی ہے۔ آپ برائے کرم میری اس کتاب پر ’’اُردو‘‘ میں میرا نام اور اپنا فون نمبر لکھ دیں۔ میں نے کہا آپ اُردو جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں،بس آپ کی یادگار ہوجائے گی۔
دورانِ سفر اِن حضرا ت سے دعوتی انداز میں باتیں ہوتی رہیں۔ اس طرح نو گھنٹے کا یہ سفر خدا کے فضل سے ایک دعوتی سفر بن گیا۔ اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد اُن لوگوں نے کہا ’’آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کی وجہ سے ہمارا سفر بہت اچھا گذرا۔ اس سفر میں ہمیں سچائی ملی، یہ سفر ہمارے لیے ایک تاریخی سفر بن گیا۔‘‘
یہ تجربہ بتاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں دعوت کے امکانات کتنے بڑھ گیے ہیں۔ سفر اور دوسرے مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ بار بار لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، اگر آدمی کے اندر داعیانہ ذہن موجود ہو تو وہ ان ملاقاتوں کو کامیابی کے ساتھ دعوت کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
ایک واقعہ پیش آیا۔ اس پر میں نے کہا کہ کسی کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک وہ جس کو تنقیدی انداز کہا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ تنقیدی انداز کو پسند نہیں کرتے۔ اگرچہ اصلاح کا فائدہ صرف تنقیدی انداز میں ہے۔ تنقید وتجزیہ کا انداز آدمی کے اندر صحیح سوچ پیدا کرتا ہے۔ اور صحیح سوچ سے صحیح عمل ظہور میں آتا ہے۔ اگر لوگ تنقید کو معتدل انداز میں لیں تو حقیقی تنقید سے زیادہ بڑی نعمت کوئی دوسری چیز نہیں۔ غلطی پر ٹوکنے کا دوسرا طریقہ لطیفے کا طریقہ ہے۔ لطیفہ کے طریقہ میں آدمی بات کو کہہ دیتا ہے مگر اصلاح کے نقطۂ نظر سے اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں میںنے ڈاکٹر عندلیب شادانی کا ایک واقعہ بتایا۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی اردو کے شاعر اور ادیب تھے۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی کا اصل نام وجاہت حسین تھا۔ وہ ۱۸۹۷ میں سنبھل (مرادآباد) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۹۲۵ میں انہوںنے اسلامیہ کالج لاہور سے فارسی میں ایم اے کیا۔ ۱۹۲۶ میں وہ ہندو کالج دہلی میں اردو اور فارسی کے لکچرر ہوئے۔ جنوری ۱۹۲۸ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور فارسی میں لکچرر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۳ میں ’’ہندستان کے مسلم مورخ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر لندن یونیورسٹی سے پی۔ ایچ ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ ۱۹۴۵ میں اپنے شعبے میں ریڈر اور ۱۹۴۷ میں پروفیسر اور صدر شعبہ مقرر ہوئے۔ جولائی ۱۹۶۹ میں ڈھاکہ ہی میں ان کا انتقال ہوا۔
عندلیب شادانی ایک شگفتہ مزاج آدمی تھے۔ ان میں مزاح کا ذوق پایا جاتا تھا۔ ڈھاکہ کے زمانۂ قیام میں ایک دفعہ چند طلبہ ان کے پاس یہ شکایت لے کر آئے کہ طلبہ کے نماز پڑھنے کا کمرہ طالبات کے کامن روم کے مقابل ہے، اس لیے لڑکیوں کی آوازوں سے نماز میں خلل پڑتا ہے۔ شادانی صاحب نے ان کو یقین دلایا کہ یا تو نماز کا کمرہ بدل دیا جائے گا یا طالبات کا کامن روم۔ اس کے بعد انہوںنے کہا کہ تاہم آپ لوگ ایک لطیفہ سن لیجئے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کسی میدان میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کے سامنے سے مجنوں کا گزر ہوا۔ نمازی جلدی سے نماز ختم کرکے مجنوں کو ملامت کرنے لگا کہ دیکھتا نہیں میں نماز پڑھ رہا ہوں اور تو میرے سامنے سے گزر گیا۔ اس پر مجنوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں تو اپنے مجازی محبوب (لیلیٰ) کے خیال میں اس قدر محو تھا کہ مجھے اپنے ارد گرد کا احساس نہ رہا۔ تعجب ہے کہ تجھے محبوبِ حقیقی کے حضور میں کھڑے ہونے کے باوجود میرے گزرنے کا احساس ہوا۔
فنِ لطیفہ کے اعتبار سے یہ ایک اچھا لطیفہ ہے مگر نصیحت اوراصلاح کے اعتبار سے وہ کوئی اچھی مثال نہیں۔ کیوں کہ اس لطیفہ کو سن کر آدمی صرف یہ کرے گا کہ وہ ہنس دے۔ اس قسم کے لطیفے سے کسی شخص کے اندر اصلاح کی تڑپ پیدا ہونے والی نہیں۔
ایک مسلم اخبار میں پاکستان کے بارے میں ایک خبر تھی جس کی سرخی یہ تھی: ’’دینی مدارس سے غیر ملکی طلبہ کا انخلاء‘‘۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ:
’’ صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں زیرِ تعلیم دینی مدارس کے غیر ملکی طلبہ سے کہا ہے کہ وہ فوری طورپر اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ انہوں نے غیر ملکی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ غیر ملکی اور دوہری شہریت رکھنے والے طلبہ کو مدارس میں تعلیم کے لیے ویزا نہیں دیا جائے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے دینی مدارس میں تقریباً ۱۴۰۰ غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم ہیں، ان کے پاکستان سے انخلاء کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں‘‘۔
پاکستان نے موجودہ زمانہ میں ’برعکس نہند نامِ زنگی کافور‘ کی مثال پیش کی ہے۔ ۱۹۴۷ سے پہلے بر صغیر ہند کے مسلم رہنماؤں نے یہ کہا کہ ہم کو ایک علاحدہ لینڈ چاہیے جہاں ہم اسلام پر مبنی نظام قائم کرسکیں۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ تقسیم کے بعد اپنے آپ ایسا ہو جائے گا۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو اس کے حصول کے لیے ہنگامہ خیز الیکشنی سیاست شروع کی گئی۔ الیکشنی سیاست بھی اسلام نظام کے قیام میں ناکام رہی تو اس کے بعد اسلامی جہاد کے نام پر تشدد کی سیاست شروع کردی گئی۔ یعنی ایک پاکستانی بزرگ کے الفاظ میں مسلح ٹکراؤ(armed conflict) ۔ جب متشددانہ جہاد ناکافی ثابت ہوا تو اس کے بعد خود کش بمباری کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس نام نہاد اسلامی جہاد میں پاکستان کے تقریباً تمام مدرسے اور مسجدیں اور ادارے براہِ راست یا بالواسطہ طورپر ملوث، ہوگئے ۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اس معاملہ میں مسلم رہنما اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے نئی سمت سفر طے کریں۔
موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ہوائی جہاز بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ ہوائی سفر کو واقعہ بنانے کے لیے بہت سے فطری عوامل کے علاوہ مختلف قسم کے زمینی اور ہوائی انتظامات لازمی طورپر ضروری ہوتے ہیں۔ قدیم زمانے میں خشکی پر بیل گاڑی کا سفر یا سمندر میں کشتی کا سفر ایک سادہ نوعیت کا سفر ہوتا تھا۔ ان سفروں کے لیے کسی پیچیدہ نظام کی ضرورت نہ تھی۔ مگر آج ہوائی جہاز کے سفر کے لیے بہت سے انتظام ضروری ہوتے ہیں۔ آدمی اگر ان باتوں پر غور کرے تو سفر کا واقعہ اس کے لیے معرفت کی غذا بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

Tuesday 1 November 2022

Al Risala | November۔December 2022 (الرسالہ،نومبر۔ دسمبر)

4

-علم سے آغاز

5

- دنیا ایک سفر

6

- کاؤنٹ ڈاؤن ہو رہا ہے

7

- اہل کتاب سے استفادہ

9

- مطالعۂ حدیث(شرح مشکاۃ المصابیح)

20

- دعا کی حقیقت

21

- مکمل اسلام ، ربانی اسلام

23

- اہل جنت

24

- عمل کی دعوت

25

- بڑھاپے کا تجربہ

26

- چیلنج کی صورتِ حال

28

- بائی ٹائم اسٹریٹجی

29

- بات کرنے کا طریقہ

30

- ڈائری 1986

42

- ایگو کو مینج کرنا

43

- گناہ خدا سے قربت کا ذریعہ

44

- مولانا کے بعد

47

- تعارفِ کتب

49

- خبرنامہ اسلامی مرکز


علم سے آغاز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 570 ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ 610 ء میں آپ پر خدا کی طرف سے پہلی وحی اتری۔ یہ ابتدائی کلام جو خدا کی طرف سے آپ کو ملاوہ یہ تھا:
ٱقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّکَ ٱلَّذِی خَلَقَ ۔ خَلَقَ ٱلۡإِنسَٰنَ مِنۡ عَلَقٍ ۔ ٱقۡرَأۡ وَرَبُّکَ ٱلۡأَکۡرَمُ ۔ ٱلَّذِی عَلَّمَ بِٱلۡقَلَمِ ۔ عَلَّمَ ٱلۡإِنسَٰنَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ (96:1-5)۔ یعنی، ’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ پیداکیا انسان کو علق سے۔ پڑھ اور تیرارب بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم سے ۔ا نسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہ تھا‘‘۔
قرآن میں اتراہوا یہ پہلا کلام الٰہی بتاتا ہے کہ کسی حقیقی عمل کا آغاز کیاہے۔ یہ آغاز علم ہے۔ یعنی انسان کو باشعور بنانا۔اس کے اندر ذہنی تبدیلی لاکر فکری انقلاب پیدا کرنا۔ یہی انسانوں کے درمیان کسی حقیقی تحریک کاآغاز ہے۔ اس دنیا میں وہی انسانی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے جو شعور کی بیداری سے اپنے کام کاآغاز کرے۔ رسول اللہ نے علم کا پیغام دیا جوابدی اہمیت کا حامل تھا۔ جوحال سے لے کرمستقبل تک انسان کے کام آنے والا تھا۔ اور جو اپنے وسیع انطباق (universal application) کے اعتبار سے دوسرے تمام پہلوؤں کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔
علم طاقت ہے ۔ علم اس دنیا میں سب سے بڑا ہتھیار ہے، ایک فرد کے لیے بھی اور پوری انسانیت کے لیے بھی ۔ علم کاآغاز مائنڈ سے ہوتا ہے مگر وہ پوری خارجی دنیا کو مسخر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
علم سے آدمی کی تکمیل ہے۔ علم کے بغیر ایک انسان ادھورا انسان ہے۔ علم کے بعد وہ مکمل انسان بن جاتا ہے۔ علم سے خالی انسان صرف اپنی ذات کو جانتا ہے۔ علم کے حصول کے بعد آدمی پوری کائنات کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ علم انسان کے ذہنی افق کو بلند کرتا ہے۔ علم انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کرتا ہے۔ علم انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ معرفت حق کے اعلی درجات تک پہنچے۔علم کسی ناقص انسان کو ایک کامل انسا ن بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دنیا ایک سفر

ملکہ ایلزبتھ دوم 8 ستمبر2022ء کو 96 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ وہ 70 سال تک انگلینڈ کی ملکہ رہیں۔ پوری دنیا میں کئی دنوں تک ملکہ کے موت کی خبر برننگ نیوز کی حیثیت سے چلتی رہی۔اگر غور کیا جائے توگویا یہ خبر انسانوں کے لیے ایک فطری حقیقت کی یاد دہانی تھی۔ یعنی اس دنیا کے ہر انسان کو ایک دن اسی طرح اس دنیا سے چلے جانا ہے،جس طرح ملکہ گئیں۔ کسی کو موت سے چھٹکارا نہیں۔
ایک دن کا واقعہ ہے۔میں اپنے کمرہ میں لیٹی ہوئی تھی، اس وقت مجھے ہلکی سی نیند آئی۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں سی 29 نظام الدین ویسٹ کے جس کمرہ میں موجود ہوں، وہ ایک ٹرین کی شکل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ٹرین کےاوپر جہاں سامان رکھنے کے لیے جگہ بنی ہوتی ہے، وہاں میں کوئی کپڑا رکھ رہی ہوں۔ ٹرین بالکل سادہ ہے۔ کپڑا بھی سفید چادر کی طرح ہے۔
یہ خواب دیکھ کر میرا مائنڈ ٹرگر ہوا۔ میں سوچنے لگی کہ ہم لوگ اِس دنیا کے گھر کوغیر شعوری طور پر اپنا مستقل ٹھکانا ( permanent abode) سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک غلط فہمی کا معاملہ ہے۔ یہ ایک سراب (mirage ) ہے۔ مرتے ہی حقیقت سامنے آ جائے گی کہ یہ دنیا ایک پلیٹ فارم کے سوا کچھ نہیں تھی۔ صاحب معرفت وہی لوگ ہیں جو مرنے سے پہلے اس حقیقت کا ادراک کر لیں۔ اس سلسلے میں ایک بامعنی حدیثِ رسول ا بن عمر رضی اللہ عنہما کے الفاظ میںاس طرح آئی ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں اس طرح زندگی گزارو، جیسے تم اجنبی ہو یا سفر کرنے والے۔ا بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اورصبح کے وقت شام کا انتظار نہ کرو۔ اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کوموت سے پہلے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6416)۔
مولانا وحید الدین خاں صاحب نے لکھا ہے کہ" یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ انسان آج اپنے آپ کو موجودہ دنیا میں پاتاہے۔ لیکن ایک دن آتا ہے جب کہ ہر عورت اور مرد اس دنیا سے نکال کر اگلی ابدی دنیا کی طرف منتقل (transfer) کردیاجاتا ہے۔ اس کے پیچھے وہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوٹ جاتی ہے، جس کو وہ غیر شعوری طور پر اپنا مستقل ٹھکانا سمجھتا تھا۔ دانش مند وہ ہے جو اُس آنے والی ابدی دنیا کو اپنا اصل ٹھکانا سمجھے اور اس کے لیے تیاری کرے" (ماخوذ الرسالہ، نومبر 2016)۔ ڈاکٹر فریدہ خانم
واپس اوپر جائیں

کائونٹ ڈائون ہورہا ہے

سورہ العصر میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو حقیقی تعمیر کے لیے ٹائم مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔ اس ٹائم مینجمنٹ کے بغیر کسی کے لیے حقیقی ترقی کو پاناممکن نہیں۔کیوں کہ اس دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے آدمی کو خود کوشش کرنا ہے، خواہ وہ دنیا کی کامیابی ہو یا آخرت کی۔ جب کہ ناکامی کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے آپ انسان کی طرف بھاگی چلی آرہی ہے۔ سورہ العصرکا ترجمہ یہ ہے: زمانہ گواہ ہے ۔ بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔ سواان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیا اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔( 103:1-3)
قرآن کی اس سورہ میں زندگی کی ایک اہم حقیقت کے بارے میں انسان کو آگاہ کیا گیا ہے۔ ایک بزرگ نے کہا کہ سورۃ العصر کا مطلب میں نے ایک برف بیچنے والے سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ لوگو، اس شخص پر رحم کرو جس کا اثاثہ گھل رہا ہے، لوگو، اس شخص پر رحم کرو، جس کا اثاثہ گھل رہا ہے (ارْحَمُوا مَنْ یَذُوبُ رَأْسُ مَالِہِ)۔ اس پکار کو سن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ جس طرح برف پگھل کر کم ہوتی رہتی ہے اسی طرح انسان کو ملی ہوئی عمر بھی تیزی سے گزر رہی ہے۔ آدمی اگر اپنی مہلتِ عمر کو استعمال نہ کرے تو آخر کار اس کے حصہ میں جوچیز آئے گی وہ صرف ہلاکت ہے (تفسیر کبیر امام رازی، جلد 32، ص278)۔
انسان ہر لمحہ زندگی سے موت کی طرف جارہا ہے۔ ہر لمحہ انسان کاکائونٹ ڈائون ہورہا ہے۔ یہ فطرت کا ایک لازمی قانون ہے۔ اس قانون کو دوبارہ الٹی طرف چلایا نہیں جا سکتا۔مثال کے طور پر ایک شخص کی مقرر عمراگر 80 سال ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کا کائونٹ ڈائون شروع ہو گیا۔ ہر نیا دن، آنے والا سال اس کی عمر میں کمی کا اعلان ہے۔ گویا کہ اس کی عمر کا سفر اس طرح ہورہا ہے:
¢†80،79،78،77،76،75،74،73،72، 71،70.......
اسی کائونٹ ڈائون (الٹی گنتی)کو قرآن کی مذکورہ سورہ میں خسران کہا گیا ہے۔یعنی عمر برف کی طرح پگھلتی جارہی ہے۔ انسان اگر اپنی عمر کومذکورہ چار قسم کے عمل کے لیے استعمال نہ کرے تو وہ ابدی گھاٹے میں ہے۔
واپس اوپر جائیں

اہل کتاب سے استفادہ

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِی إِلَیْہِمْ فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (16:43)۔ یعنی اور ہم نے تم سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔
مفسرین نے اہل الذکر سے اہل کتاب مراد لیے ہیں،یا وہ لوگ جو پچھلی امتوں اور پچھلے پیغمبروں کے تاریخی حالات کا علم رکھنے والے ہیں۔ مگر توسیعی معنی کے اعتبار سے اس سے مراد موجودہ زمانے کے جدید تعلیم یافتہ یہودی اور مسیحی علما ہیں۔ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ اہل کتاب وہ باتیں جانیں گے، جن سے مسلم علما زیادہ باخبر نہ ہوں گے، اور ان کے لیے موقع ہوگا کہ وہ اہل کتاب کی جدید تحقیقات سے اپنے دینی علم میں اضافہ کریں۔
اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں یہوداور مسیحی قوموں کے لیے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہ اپنے قدیم وطن سے نکل کر ڈائسپورا (diaspora)میں چلے گئے۔پھر ان کو موقع ملا کہ وہ مغرب کے جدید علوم کو سیکھیں۔جدید علوم سے باخبر ہونے کی بنا پر انھوں نے سائنسی دریافتوں کو جانا،اور ان کو اپنی مذہبی کتابوں کی شرح کے لیے استعمال کیا۔مگر مسلم اہل علم اس سےبے خبر رہے ۔
مثلاًجدید سائنسی دریافت کے نتیجے میں بالواسطہ انداز میں خدائی حقیقتیں قابل فہم ہوگئیں۔ مگر یہ دریافتیں نیوٹرل انداز میں تھیں۔ چنانچہ یہودی علما اور عیسائی علما نے انطباقی انداز میںخدا کے وجود پر بڑی تعداد میں کتابیں اور مقالات لکھیں۔ان میں سے ایک کتاب یہ ہے
The Evidence of God in an Expanding Universe: Forty American Scientists Declare Their Affirmative Views on Religion (John Clover Monsma, G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250)
خدا کی سائنسی شہادت پریہ کتاب یہودی اور عیسائی اہل علم کے مضامین پر مشتمل ہے۔
اسی طرح علم الانسان (Anthropology)اور علم الآثار (Archaeology)، وغیرہ جدید ڈسپلنز ہیں۔ ان کےذریعے جدید سائنسی اصول کی روشنی میں انسان کی قدیم تہذیب اور تاریخ، وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان ڈسپلنز کی روشنی میں یہودی اور عیسائی علما نےوہ تاریخی حقائق دریافت کیے ہیں، جو بائبل اور قرآن کے مشترک موضوعات تھے۔ مثلاً پیغمبر ابراہیم کا بیان، پیغمبر موسیٰ اور فرعون کاواقعہ، حضرت مسیح کی زندگی، یہاں تک کہ قرآن کے تاریخی استناد(historicity) پر بھی انھوں نے تحقیق کی، وغیرہ۔ ان تحقیقات کے ذریعے یہودی اور عیسائی علما نے مذہبی شخصیات اور واقعات کے تاریخی استناد کو ثابت کرنے کا کام کیا ہے۔ان یہودی اور مسیحی علما کی سائنسی تحقیقات کی بنا پر اب مذہبی تاریخ دیگر تاریخی حقیقتوں کی طرح ثابت شدہ حقیقتیں بن چکی ہیں۔
بائبل اور قرآن میں بنیادی موضوع مشترک ہیں، مثلا ًخدا کا وجود اور انبیاء کے حالات، وغیرہ۔اس بنا پر اہلِ کتاب کی یہ تحقیقات بالقوہ طور پر (potentially)اسلام کی تائید کا کام ہیں۔ یہ مسلم علما کی ذمہ داری ہےکہ وہ اس پوٹنشل کو ایکچول بنائیں تاکہ اسلام کی صداقت جدید علمی معیار پر ثابت شدہ حقیقت بن کر انسانوں کے سامنے آسکے۔ فرانس کےڈاکٹر موریس بکائی (وفات1998ء) کی کتاب ـ"بائبل، قرآن اور سائنس " اس قسم کی ایک کوشش ہے۔ اس کے انگریزی ترجمے کا ٹائٹل یہ ہے:
The Bible, The Qur'an and Science by Dr. Maurice Bucaille
چوں کہ جدید علوم سے بے خبری کی بنا پر مسلم اہل علم اس میدان میں پیچھے ہیں۔ اس لیےان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ یہودی اور کرشچن علما کی دریافتوں سے اسی طرح استفادہ کریں جس طرح وہ کوئی دوسرادینی علم حاصل کرتے ہیں۔تاکہ خدا کا دین وقت کے مسلّمہ علمی معیار پر مدلل ہوکر انسانوں کے مائنڈ کو ایڈریس (address) کرے۔
اعلان
سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کی جانب سے انڈیا کےمدارس اسلامیہ کو مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں ہدیے میں بھیجی جارہی ہیں۔ اس مقصد کے تحت ادارہ کی جانب سے مسٹر آصف خان (9918578630) مدارس میں جاتے ہیں، اور وہاں کی انتظامیہ سےاجازت حاصل کرتے ہیں۔ پھر ان مدارس کو کتابیں بھیجی جاتی ہیں۔ قارئین الرسالہ اور دوسرے خواہش مند حضرات سے گزارش ہے کہ وہ آصف صاحب سے رابطہ قائم کرکے اس سلسلے میں ان کا تعاون فرمائیں۔ شکریہ
واپس اوپر جائیں

مطالعۂ حدیث

شرح مشکاۃ المصابیح
12
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں، یہاں تک کہ وہ اس کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں اور وہ زکاة ادا کریں۔ پھر جب وہ ایسا کریں تو وہ اپنے خون اور اپنے مال کو مجھ سے بچالیں گے، سوااسلامی حق کے، ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ (متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر25، صحیح مسلم، حدیث نمبر22)
اس حدیث میں وہی بات بتائی گئی ہے، جو سورہ التوبہ کی ابتدائی آیتوں میں بیان کی گئی ہے۔اس حدیث میں لوگوں (الناس) سے مراد قدیم عرب کے وہ مشرکین ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر تھے۔ ان کے اوپر براہِ راست پیغمبر کے ذریعہ اتمام حجت کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ لوگ دشمنی پر اڑے ہوئے تھے۔ اس لیے قانونِ الٰہی کے مطابق، ان کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا — وہ یا تو اسلام قبول کریں یا قتال کے لیےتیار ہو جائیں۔ مگر ابتدائی مخالفت کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرلیا، اس لیے ان پر مذکورہ قانونِ الٰہی کے نفاذ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
پیغمبر اسلام کی معاصر قوم کے سوا دوسری قوموں کے لیے ایسا قانون نہیں۔ دوسری قوموں کے لیے صرف پر امن دعوت ہے اور بس۔ پیغمبر کے بعد اب کسی بھی قوم سے اس قسم کا معاملہ نہیں کیا جائے گا۔
13
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ بنائے۔ اور ہمارے ذبیحہ کو کھائے تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے۔ تو تم اس کے ذمہ کو نہ توڑو (صحیح البخاری، حدیث نمبر391)۔
اس حدیث میں ذمہ سے مراد وہ امن یا امان ہے جو ایک مسلم معاشرہ میں کسی کو دیا جاتا ہے۔ ایک شخص اگر مسلمان ہونے کا دعوی کرے اور اسلام کے ظاہری احکام پر عمل کرے تو اس کو مسلم معاشرہ کے ایک فرد کی حیثیت سے قبول کرلیا جائے گا۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اس کی مخفی نیت کی بنیاد پر اس کے خلاف کوئی حکم لگائے اور نہ کسی کو یہ حق ہوگا کہ وہ کسی شخص کو بطور مسلمان قبول کرنے کے لیے مذکورہ شرطوں کے سوا کسی اور عملی شرط کا مطالبہ کرے ۔
14
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا۔ اس نے کہا کہ مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو میں جنت میں چلا جاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تم فرض نماز کو قائم کرو اور فرض زکاة ادا کرو۔ اور تم رمضان کے روزے رکھو۔ اعرابی نےکہا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں ان پر نہ کسی چیز کو بڑھاؤں گا اور نہ کسی چیز کو گھٹاؤں گا۔ جب وہ واپس ہونے کو ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی ایک جنتی انسان کو دیکھنے کی خوشی حاصل کرنا چاہے وہ اس اعرابی کو دیکھ لے۔(متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر1397، صحیح مسلم، حدیث نمبر14)
اس حدیث میں جو اعمال بتائے گئے ہیں وہ اسلام کے بنیادی اعمال ہیں۔ یہ اعمال جس آدمی کے وجود میں حقیقی طورپر شامل ہوجائیں وہ اس کی پوری زندگی میں سما جائیں گے، وہ اس کی پوری شخصیت کو اللہ کے رنگ میں رنگ دیں گے۔
15
سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ بتاتےہیں کہ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتائیے کہ پھرمیں اس کے بارے میں کسی اور سے نہ پوچھوں۔ آپ نے فرمایا کہ تم کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا، پھر تم اس پر جم جاؤ (صحیح مسلم، حدیث نمبر38)۔
اللہ پر ایمان لانا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اس بات کا اقرار ہے کہ میں نے شعوری فیصلہ کے تحت اللہ کو اپنا رب ومعبود بنا لیا۔ اس قسم کا شعوری فیصلہ پورے معنوں میں آدمی کے فکر وعمل کے لیے ایک کامل رہنما بن جاتاہے۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر آدمی سے تقاضا کرتاہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ایسے تمام مواقع پر اپنے فیصلہ کے اوپر پوری طرح قائم رہنا، اسی کا نام مذکورہ حدیث میں استقامت ہے۔ اور جنت انہیں لوگوں کے لیے ہے جو ایمان کے بعد عملی استقامت کا ثبوت دیں۔
16
طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجد کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ (وہ دور تھا) اس لیےہم اس کی دھیمی آواز سن رہے تھے۔ مگر یہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آگیا۔ تو وہ اسلام کے بارےمیں پوچھ رہا تھا۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ وقت کی نمازیں دن میں اور رات میں۔ اس نے کہا کہ کیا میرے اوپر ان کے سوا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، الا یہ کہ تم نفل نماز پڑھو۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا۔ اس نے کہا کہ کیا میرےاوپر اس کے سوا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں، إلا یہ کہ تم نفل روزے رکھو۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکاة کے بارے میں کہا۔ اس نے کہا کہ کیامیرے اوپر اس کے سوا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں،إلا یہ کہ تم نفل صدقہ کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ آدمی لوٹا اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ خدا کی قسم میں اس پر نہ زیادہ کروں گا اور نہ اس پر کمی کرونگا۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آدمی کامیاب ہوگا، اگر اس نے سچ کہا۔ (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر46،صحیح مسلم، حدیث نمبر11)
اسلام میں متعین کچھ عبادتی فرائض ہیں۔ آدمی اگر سچا عبادت گزاربن جائے تو وہ فرض کے سوا زائد عبادت بھی کرنے لگتا ہے جس کو شریعت میں نفل کہاگیا ہے۔ اسی طرح جب آدمی کی زندگی میں عبادت کی روح پوری طرح پیدا ہوجائے تو اس کے لازمی نتیجہ کے طورپر ایسا ہوتاہے کہ اخلاق ومعاملات میں بھی اس کا اثر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ خدا کی نسبت سے وہ عابد بن جاتاہے، اور بندوں کی نسبت سے عادل۔
17
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبد القیس کا وفد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کون لوگ ہو۔ انہوں نے کہا کہ (ہم )ربیعہ( قبیلہ سے ہیں)۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اچھے آئے کہ نہ رسوا ہوئے اور نہ شرمندہ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، ہم آپ کے پاس صرف حرام مہینے میں ہی آسکتے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان (مخالف) قبیلہ مضر آباد ہے۔ پس آپ ہمیںکچھ بنیادی رہنمائی کردیں جس سے ہم ان لوگوں کو باخبر کردیں جو ہمارے  پیچھے ہیں۔ اور اس کے ذریعہ ہم جنت میں داخل ہوجائیں۔ انہوں نے آپ سے مشروبات کے بارے  میں پوچھا ۔ آپ نے ان کو چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ آپ نے ان کو ایک اللہ پر ایمان رکھنے کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم جانتےہو کہ ایک اللہ پر ایمان رکھنا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتےہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا اور زکاة ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو۔ اور آپ نے ان کو چار چیزوں سے منع فرمایا ٹھلیا (الحنتم) سے اور توبنی (الدباء) سے اور نقیر سے اور تارکول والے پیالے (المزفت) سے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کو یاد رکھو اورتمہارے پیچھے جو لوگ ہیں ان کو بتادو (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر53،صحیح مسلم، حدیث نمبر17)
مدینہ میں جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو بااقتدار حیثیت حاصل ہوگئی تو آپ نے مختلف عرب قبائل کے پاس تبلیغی وفود بھیجنا شروع کیا۔ اس کے بعدیہ ہوا کہ عرب قبائل مدینہ آکر آپ کی اطاعت قبول کرنے لگے۔ یہاں تک کہ عرب کے تمام قبائل مدینہ کی ریاست کی ماتحتی میں آگئے۔ اس حدیث میں ایک اصول یہ ملتا ہے کہ ایسے حالات میں جب کہ آدمی کے سامنے دو میں سے ایک کا انتخاب ہو — وہ یا تو اپنی مرضی سے ماتحتی قبول کرلے ورنہ اُس کو رسوائی اور شرمندگی کے ساتھ ماتحتی کو قبول کرنا ہوگا۔ ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ باعزت صلح کو اختیار کرلیا جائے اور بےنتیجہ جنگ کا طریقہ چھوڑ دیاجائے۔
نوٹ حدیث میںقدیم عرب کے چار برتنوں کا ذکر ہے جو شراب بنانے اور پینے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ "حنتم "شراب کی ٹھلیا۔ "دُباء" اندر سے کھوکھلا کیا ہوا کدو جو جگ کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔" نقیر" درخت کی جڑ کواندر سے کھوکھلا کر کے اس میں شراب رکھتے تھے۔ "مزفت" تارکول سے بنا ہوا شراب کا برتن— رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حرام پر روک لگانے کے ساتھ اسباب حرام پر بھی روک لگا دی۔
18
عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا— اس وقت صحابہ کی ایک جماعت آپ کے پاس تھی— مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے۔ اور تم چوری نہ کروگے اور تم زنا نہیں کروگے اور تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگے اور تم کسی پر جھوٹا بہتان نہ لگاؤگے اور تم معروف میں نافرمانی نہ کروگے۔ پھر تم میں سے جو شخص اس عہد کو پورا کرےتو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ تم میں سے کوئی شخص ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کرلے اور وہ دنیا میں سزا پالے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔اور کوئی شخص ان میں سے کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے، پھر اللہ اس کی پردہ پوشی کرے تو اس کا معاملہ اللہ کے اوپر ہے، چاہے وہ اس کو معاف کرے یا وہ اس کو سزا دے۔ پھر ہم نے آپ سے اس پر بیعت کی۔(متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر18، صحیح مسلم، حدیث نمبر41)
اسلام میں جن چیزوں سے منع کیاگیا ہے ان سے اپنے آپ کو دور رکھنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ اگر کبھی کوئی شخص نفس سے مغلوب ہوکر وقتی طورپر گناہ میں مبتلا ہوجائے تو اس کو فوراً توبہ کرنا چاہیے۔ ایسے آدمی کو کبھی دنیا ہی میں کوئی تکلیف دے کر اس کے گناہ کو دھودیاجاتا ہےاور کبھی اس پر پردہ ڈال دیاجاتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ اللہ کےاوپر ہوتا ہے کہ وہ اپنے بندے سے آخرت میں کس طرح کا معاملہ فرمائے۔ یہ وقتی طورپر گناہ میں مبتلا ہونے کا معاملہ ہے۔ گناہ میں مستقل طورپر مبتلا رہنا اور توبہ کے بغیر مرجانا قابل معافی نہیں۔
19
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ انسان نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اسے سزاوار نہ تھا۔ اور اس نے مجھے گالی دی حالاں کہ یہ اس کے لیے سزاوار نہ تھا۔ پس اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ خدا مجھے دوبارہ نہ بنا سکے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی بار بنایا۔ حالانکہ دوسری بار پیدا کرناپہلی بار پیداکرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے۔ حالانکہ میں اکیلا اور بےنیاز ہوں جس نے نہ جنا ور نہ وہ جنا گیا اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4974)۔
جب کوئی شخص خدا کے وجود پر شبہ کرتا ہے یا وہ اس کی صفات کمال کا انکار کرتاہے تو اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک جھوٹ ہوتا ہے۔ خدا کے تخلیقی مظاہر خدا کے وجود کا یقینی ثبوت ہیں۔ اسی طرح کائنات کی معنویت خدا کی صفات کمال پر گواہی دیتی ہے۔ ایسی حالت میں جو آدمی خداکو نہ پائے، جو خدا کی تخلیق میں خدا کے جلووں کو نہ دیکھے وہ یا تو اندھا ہے یا وہ جان بوجھ کر سرکشی کررہا ہے۔
20
ایک اور روایت میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالى عنہ کہتے ہیں کہ (اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ) انسان کا مجھ کو گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ کوئی میرا بیٹا ہے۔ حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ میں کسی کو اپنی بیوی یا اپنا بیٹا بناؤں (صحیح البخاری، حدیث نمبر4482)۔
کسی انسان کے لیے یہ کہا جائے کہ اس کی ایک بیوی یا اس کا ایک بیٹا ہے تو یہ صرف ایک واقعہ کا اظہارہوگا۔ لیکن اس قسم کی بات خداوندِ عالم کے لیے سخت ترین بہتان ہے۔ خدا اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی کوئی بیوی یا اس کا کوئی بیٹا ہو۔ انسان ایک نامکمل مخلوق ہے۔ اس کو اپنی تکمیل کے لیے بیوی اور بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے مگر خدا اپنی ذات میں آخری حد تک ایک مکمل وجود ہے۔ ایک کامل اور مکمل خدا ہی موجودہ عظیم کائنات کو پیدا کرسکتا ہے۔
ایسی حالت میں کسی کو خدا کا بیٹا بتانا خدا کے رتبہ کو گھٹانا (degradation)ہے۔ اور اس قسم کا قول بلاشبہ بدترین قسم کا سب ّوشتم ہے۔
21
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ انسان مجھ کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے۔ حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہاتھ میں ہے معاملہ، میں رات اور دن کو پلٹتا ہوں (متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر4826،صحیح مسلم، حدیث نمبر2246)
انسان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کو زمانہ کا نتیجہ سمجھ کر زمانہ کو برا بھلا کہنے لگتا ہے۔ مگر اس قسم کے کلمات زمانہ پر نہیں بلکہ خدا پر پڑتے ہیں کیوں کہ زمانہ کوئی آزاد اور بااختیار چیز نہیں۔ وہ خدا کے حکم کے تابع ہے۔ یہ دراصل خدا ہے جو اپنے فیصلہ کو احوال زمانہ کی صورت میں ظاہر کرتاہے۔ ایسی حالت میں آدمی کو چاہئے کہ وہ ہر موقع پر خدا کی طرف رجوع کرے نہ کہ زمانہ کو ذمہ دار سمجھ کر شکایت کرے۔
22
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تکلیف دہ بات کو سن کر اس پر صبر کرنے والا خدا سے زیادہ اور کوئی نہیں۔ لوگ خدا کی طرف بیٹے کی نسبت کرتے ہیں۔ مگر وہ انہیں معاف کرتا ہے اور انہیں رزق دیتا رہتا ہے(متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر2099، صحیح مسلم، حدیث نمبر2804)
انسان اگر کسی تکلیف دہ بات پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کی مجبوری ہے۔ کیوں کہ انسان کا اختیار بہت محدود ہے۔ محدود اختیار کی بنا پر اس کے لیے یہ موقع نہیں کہ وہ کسی سے بھر پور انتقام لے  سکے۔ لیکن خدا کامل اور لا محدود اختیار کا مالک ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی مرضی کے خلاف باتوں کو دیکھتا ہے اور اس پر صبر کرتا ہے۔ اس کا سبب خود خدا کا قائم کردہ قانونی امتحان ہے۔ خدا ہر ایک کو آزادی دے کر اس کا امتحان لےرہاہے۔ جب تک امتحان کی مدت ختم نہ ہو، یہ آزادی بھی ختم ہونے والی نہیں۔
23
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک گدھے پر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان کجاوہ کے پچھلے حصہ کی سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اے معاذ، کیا تم جانتےہو کہ اللہ کا حق اپنے بندوں کے اوپر کیا ہے۔ اور بندوں کا حق اللہ کے اوپر کیا ہے۔
میںنےکہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریںاور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور بندوں کا حق اللہ کے اوپر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔ پھر میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول کیا میں لوگوں کو اس کی خوش خبری نہ دے دوں۔ آپ نے فرمایا کہ لوگوں کو خوش خبری نہ دو ورنہ لوگ اسی پر بھروسہ کرلیں گے۔(متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر 2856، صحیح مسلم، حدیث نمبر30)
نجات کا دارومدار ہر ایک کے لیے شرک کے انکار اور توحید کے اقرارپر ہے۔ مگر اس کا مطلب صرف زبان سے کچھ الفاظ کی تکرار نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ فکری انقلاب ہے جو آدمی کی پوری شخصیت کو بدل دیتا ہے۔ آدمی اندر سے لے کر باہر تک اور قول سے لے کر عمل تک ایک ربانی رنگ میں رنگ جاتاہے۔ یہ تبدیلی اتنی گہری ہوتی ہے کہ اگر اتفاقی سبب کے تحت وہ اپنے عقیدہ کے خلاف کوئی غلطی کر بیٹھے تو اس کی پوری شخصیت آخری حد تک تڑپ اٹھتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ غلطی اس کے لیے مزید اضافے کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
اس حدیث میں بھروسہ کرنے (فَیَتَّکِلُوا) کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ باتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھتے وہ اس کو صرف رسمی عقیدہ کے معنی میں لے لیں گے، اور کچھ الفاظ کو اپنی زبان سے دہرا کر یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے آخرت میں اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنا لیاہے۔ حالانکہ حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں۔
24
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کجاوہ پر تھے اور معاذ بن جبل ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اے معاذ، انھوںنے کہا میں حاضر ہوں خدمت میں ۔ آپ نے فرمایا کہ اے معاذ، انھوں نے کہا میں حاضر ہوں خدمت میں۔ آپ نے تین بار اس طرح فرمایا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اللہ ضرور آگ کو اس پر حرام کر دے گا۔ انھوں نے کہا اے خدا کے رسول، کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں کہ وہ خوش ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر وہ بھروسہ کرلیں گے۔ پھر معاذ نے اپنی موت کے وقت اس کی خبر دی، گناہ سے بچنے کے لیے (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر128، صحیح مسلم، حدیث نمبر 32)۔
ایک سچائی جب کسی آدمی کے دل ودماغ میں آخری حد تک اتر جائے، وہ اس کے یقین واعتماد کا لازمی حصہ بن جائے، اس وقت جو کلمۂ اعتراف آدمی کی زبان سے نکلتا ہے اسی کا نام گواہی (شہادت) ہے۔ جو آدمی اس طرح کمال درجہ میں خدا اور رسول کی معرفت حاصل کرلے اور پھر اس کا سچا اعتراف کرے تو یہ اعتراف اس کی پوری شخصیت کا نمائندہ ہوتاہے۔ ایسا اعتراف اللہ کی نظر میں اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ اس کے اوپر جہنم کی آگ حرام کردی جاتی ہے۔
جو آدمی شہات کےدرجہ میں پہنچ کر خدا کی خدائی کا اعتراف کرے، اس کا پورا وجود معرفت رب میں ڈھل جاتا ہے۔ وہ ایک ایسا مزکیّٰ شخصیت (purified soul) بن جاتا ہے جو جہنم کی دسترس سے باہر ہوچکا ہو۔
25
ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس وقت آپ کے اوپر ایک سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے۔ پھر میں آپ کے پاس آیا تو آپ جاگ چکے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی بھی بندہ جو یہ کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر وہ اسی پر مر جائے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے کہا، اگر چہ اس نے زناکیا اگر چہ اس نے چوری کی۔ آپ نے فرمایا اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ میں نے کہا،اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ آپ نے فرمایا اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ میں نے کہا، اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ آپ نے فرمایا اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی، ابوذر کی ناپسندیدگی کے باوجود۔ اور ابو ذر جب بھی اس حدیث کو بیان کرتے تو اس کے ساتھ یہ بھی کہتے کہ ابو ذر کی ناپسندیدگی کے باوجود۔ (متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر5827، صحیح مسلم، حدیث نمبر94)
کلمۂ توحید کےاقرار سے مراد وہ اقرار ہے جو آدمی کی پوری شخصیت کا نمائندہ بن کر ظاہر ہو، جس میں آدمی کا پورا وجود شامل ہو۔ ایسے اقرار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا فکری اور روحانی وجود مکمل طورپر توحید کی حقیقت میں ڈھل گیا ہے۔ یہی وہ ربانی انسان ہے جو آخرت میں جنت کا مستحق قرار پائے گا۔
حدیث میں وإن زنى وإن سرق (اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی)کا لفظ ہے، نہ کہ وإن یزنی وإن یسرق (اگرچہ وہ زنا کرتا رہے، اگرچہ وہ چوری کرتا رہے)کا لفظ۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد بھی مستقل طورپر زنا اور سرقہ میں مبتلا رہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اتفاقی طور پر وقتی سبب سے کبھی اس قسم کا گناہ سرزد ہوجائے۔ اور پھر اس پر غلطی کا شدیداحساس طاری ہو اور پھر وہ توبہ اور گریۂ ندامت سے اپنے آپ کو پاک کرلے۔ اس حدیث میں خدا سے ڈرنے والے انسان کا ذکر ہے، اور جس انسان کے دل میں خدا کا ڈر سمایا ہو وہ اگر کبھی جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کرلے تو اس کے بعد اتنی شدت کے ساتھ اس کے اوپر گناہ کا احساس طاری ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ پاک انسان بن جاتاہے۔
26
عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔ اور یہ کہ عیسی اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور وہ اس کی بندی کے بیٹے ہیں اور وہ اس کا کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف القاء کیا۔ اور وہ اس کی طرف سے روح ہیں اور یہ کہ جنت اور جہنم حق ہے۔ اللہ ایسے آدمی کو جنت میں داخل کرے گا، اس عمل کے مطابق جس پر وہ تھا (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر 3435، صحیح مسلم، حدیث نمبر28)۔
ایمان دراصل معرفت کا نام ہے۔ یعنی آدمی کو خدائی حقیقتوں کی شعوری دریافت حاصل ہو۔ اور پھر وہ اس کو بھر پور طور پر اپنی زندگی میں شامل کرلے۔ ایسے ہی انسان کو آخرت کی ابدی جنتوں میں داخلہ ملے گا۔
27
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا۔ مگر میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا۔ آپ نے کہا کہ اے عمرو، یہ کیا ۔میں نے کہا کہ میں شرط لگانا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : کیا شرط لگانا چاہتے ہو۔ میں نے کہا:یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ اے عمرو، کیاتم نہیں جانتے کہ اسلام پچھلے کیے کو ڈھا دیتا ہے۔اور ہجرت اپنے سے پہلے کیے کو ڈھا دیتی ہے۔ اورحج اس سے پہلے کے کیے کو ڈھادیتا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر121)
ایمان انسانی شخصیت میں مکمل تبدیلی کا نام ہے۔ حقیقی ایمان کے بعد کوئی آدمی اپنی شخصیت کے اعتبار سے وہ نہیں رہتا جو کہ وہ اس سے پہلے تھا۔ یہ تبدیلی اس کی پوری شخصیت میں ایک مثبت انقلاب کا باعث بن جاتی ہے۔ایمان کے بعد انسا ن کی سوچ، اس کا بولنا، اور اس کا کردار سب ایک نئے رنگ میں رنگ جاتا ہے، یعنی اللہ کا رنگ۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرتی ہے۔ انسان کے ذہنی ارتقا میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔اب اس کے اندر ایک تخلیقی شخصیت جاگتی ہے۔ اب اس کا ذکر رب العالمین کا ذکر بن جاتا ہے۔ اب اس کا شکر اعلیٰ شکر بن جاتا ہے— خدا کے یہاں بعداز ایمان حالت کا اعتبار ہے، نہ کہ قبل از ایمان حالت کا۔
واپس اوپر جائیں

دعا کی حقیقت

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دعا کچھ مقرر الفاظ کی تکرار کا نام ہے۔یعنی پراسرار نوعیت کے کچھ الفاظ ہیں، ان کو اگر صحیح تلفظ کے ساتھ انسان دہرا لے تو ایسی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ دعا اسپرٹ کا نام ہے، جو دل کی گہرائیوں کے ساتھ بندے کی زبان سے نکلتی ہے۔ یہ دراصل اسپرٹ ہے، جو کسی دعاکو قابلِ قبول دعا بناتی ہے۔ دعا کے الفاظ داعی کی قلبی کیفیت کو بتاتے ہیں، وہ محض زبانی طور پر تلفظ کلمات کے ہم معنی نہیں ۔
دعا انسان کے داخلی احساس کالفظی اظہار ہے۔ دعا دراصل اس بات کا نام ہے کہخدا کی کائنات میں وہ بالکل بےبس ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان دریافت کرے کہ خدا قادر مطلق ہے، اور وہ عاجز مطلق۔خدا سب کچھ ہے، اور وہ بے کچھ ۔ اگر خدا نہ دے تو اس کو کوئی چیز ملنے والی نہیں۔ یعنی وہ خدا کے مقابلے میںاپنی حالتِ عجز کو دریافت کرے۔ اور یہ دریافت انسان کے لیے اس کے وجودکا حصہ بن جائے۔جب بندہ کو یہ بات دریافت کے درجے میں معلوم ہوجائے کہ اس کو وہی مل سکتا ہے، جس چیزکو اس کا خدا اسے دینے پر راضی ہوجائے۔ اس وقت بندہ کے اندر ایک بے پناہ تڑپ پیدا ہوتی ہے، اور وہ اپنی زبان سے اپنے رب کو پکارنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کے ساتھ اس کی زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں، اسی کا نام دعا ہے۔
ایک روایت کے مطابق، وہ دعا، دعا نہیں جو غفلت والے دل (قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ) سے مانگی جائے (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3479)۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ وہ بظاہر زبان سےدعا کے الفاظ تو دہرائے ۔ لیکن ا س کا دل کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔ دعا وہ ہے، جو سچی اسپرٹ کے ساتھ مانگی جائے، جس میں آدمی کی شخصیت اور دعا دونوں ایک دوسرے کے ترجمان بن گئے ہوں۔ آدمی کی شخصیت زبان حال سے انسان کی ترجمانی کرے، اور دعا زبان قال سے انسان کی ترجمانی کرے۔ دعا اس کی شخصیت ہو، اور اس کی شخصیت اس کی دعا۔
واپس اوپر جائیں

مکمل اسلام، ربانی اسلام

اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ قرآن میں کُونُوا رَبَّانِیِّینَ (3:79)تو آیا ہے، یعنی اللہ والے بنو۔ مگر نفذوا شرائع الاسلام(اسلامی شریعت کو امپوز کرو) کہیں نہیں آیا ہے۔ اسلام کا یہ تصور بلاشبہ قرآن و سنت میں ایک اجنبی تصور ہے۔یعنی یہ کہ اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے، اور اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ اس کوزندگی کےہر شعبہ حیات میں پوری طرح نافذ کریں۔ کسی پیغمبر نے دین کا یہ تصور پیش نہیں کیا، اور نہ کسی پیغمبر نے یہ کہا کہ میرا کام خدا کے دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں کامل طور پر نافذ کرنا ہے۔ حالاں کہ تمام پیغمبروں کا اصل دین ایک تھا۔
آپ اس قسم کے کسی مسلم رہنما کی تحریر پڑھیے یا اس کی تقریر سنیے، تو لمبی تقریر اور لمبی تحریر کے باوجود ان کی باتوں میں اصل اسلام حذف ہوگا۔ اللہ سے محبت کی بات ، اللہ سے خوف کی بات، آخرت کے مواخذہ کی بات، جنت کے شوق کی بات، ذاتی تزکیہ کی بات ، دعوت الی اللہ کی بات، وغیرہ۔ اس قسم کی تمام باتیں ان کے طویل کلام میں حذف ہوں گی۔ البتہ ساری دھوم اس بات پر ہوگی کہ فلاں طاقت اسلام کی دشمن ہے، فلاں طاقت اسلام کے خلاف سازش کررہی ہے، فلاں قوم کے اندر اسلاموفوبیا کا مزاج پیدا ہوگیا ہے، فلاں حکومت اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، و غیرہ۔
ایسا کیوں ہے کہ ان لوگوں کی باتوں میں مثبت اسلام غائب ہوجاتا ہے، اور دشمنان اسلام کے تذکرے کی دھوم ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تحریک کے لیے صحیح نقطۂ آغاز کو دریافت ہی نہیںکیا۔ وہ ہمیشہ ایک ایسے مقام سے اپنے عمل کا آغاز کرتے ہیں جو اس دنیا میں کبھی اپنی منزل تک پہنچنے والا ہی نہیں۔
جب وہ اس بات کو اپنا نشانہ بناتے ہیں کہ اسلام کو مکمل نظریۂ حیات کےطور پر نافذ کرنا ہے۔ تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی پولیٹکل اتھارٹی ہے جو ان کے کام میںمستقل رکاوٹ ہے۔ اس لیے وہ فوراً پولیٹکل اتھارٹی سے ٹکراؤ شروع کردیتے ہیں تاکہ خود پولیٹکل سیٹ پر قبضہ کریں۔ کیوں کہ ان کے مفروضہ نظریے کے مطابق ان کو نظر آتا ہے کہ پولیٹکل سیٹ پر قبضہ کیے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت کا دستورانھیں اجازت دے کہ تم نان پولیٹکل میدان میں اپنا کام جاری رکھو، تو ان کو دکھائی دے گا کہ یہ تو ناقص اسلام ہے۔ ہم اپنے نظریے کے خلاف ناقص اسلام پر کیسے راضی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کا مفروضہ مکمل اسلام ان کو کبھی حاصل نہیں ہوتا، اور جو اسلام ان کو حاصل ہوتا ہے، وہ نامکمل دکھائی دیتا ہے۔
اگر دین کا یہ تصور درست ہو کہ دین ایک جامع نظام حیات کا نام ہے، اور دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنا اہل دین کا مشن ہے تو یہ دین کا ایک ایسا تصور ہے جو سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی اپنا مشن یہ بنائے کہ مجھے سورج کو مغرب سے نکالنا ہے، اور اس کو مشرق میں غروب کرنا ہے، تو ایسا مشن کبھی واقعہ نہیں بنے گا۔ یہی حال اس تصور دین کا ہے جس کو مکمل اسلامی نظام کہا جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت آدم سے لے کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تک انسانی تاریخ میں پیغمبروں کی رہنمائی میں دینی تحریک کاتسلسل جاری رہا۔ مگر اس پوری مدت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں کامل نظام کی حیثیت سے نافذ اور قائم ہوجائے۔ حتی کہ خاتم النبیین کے زمانے میں بھی نہیں۔ انبیاء اور انبیاء کے متبعین کی پوری تاریخ میں کوئی نہیں بتاسکتا ہے کہ اس قسم کا مفروضہ کامل نظام کبھی عملاً جاری و نافذ رہا ہے۔
عمر بن الخطاب (وفات 23 ہجری)اسلام کے دوسرے خلیفہ تھے۔ انھوں نے اپنے ایک خطاب میں کہاإِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَتْ آیَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ - صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - قُبِضَ وَلَمْ یُفَسِّرْہَا لَنَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّیبَةَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2276)۔یعنی سب سے آخر میں جو آیت نازل ہوئی، وہ آیتِ ربا تھی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، اور آپ نے ہمارے لیے اس کی تفسیر نہیں بیان کی۔ پس تم ربا بھی چھوڑ دو، اور جس میں ربا کا شبہ ہو، اس کو بھی چھوڑ دو۔
اس طرح کے دوسرے بہت سے احکام ہیں، جن میں ہم کو بنیادی اصول تو ملتا ہے، لیکن ہم کو ان کی تفصیل نہیں ملتی۔ مثلاً خلیفہ کے انتخاب کا کوئی ایک متعین قرآن و سنت میں موجود نہیں۔ ایسی حالت میں یہی کہا جاسکتاہے کہ دین اصلاً انفرادی پیروی کا موضوع ہے، نہ کہ اجتماعی نفاذ کاموضوع۔
واپس اوپر جائیں

اہل جنت

قرآن میں اہل جنت کے تین گروہوں کا ذکراس طرح آیا ہے فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیرُ (35:32)۔ یعنی پس ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور ان میں سے کچھ بیچ کی چال پر ہیں۔ اور ان میں سے کچھ اللہ کی توفیق سے بھلائیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی سب سے بڑا فضل ہے۔
یہ تین درجات جنت کے لیے انسان کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جنت کے دروازے ہر ایک کے لیے کھول دیے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جنت کے مختلف درجات ہیں ۔ کیوں کہ دنیا میں لوگوں کی کوششیں مختلف سطح پر ہوتی ہیں (اللیل، 92:4)۔یہ کوششیں وسیع تر تقسیم کے اعتبار سے تین درجات پر مشتمل ہیں۔یہ درجات دراصل عمل کے اعتبار سے ہیں۔یعنی جنت کے لیے عمل کی تین بنیادی سطحیں ہیں۔ اور یہ سطحیں اس اعتبار سے بنیں گی کہ کون کتنا زیادہ مواقع کو اویل (avail) کرے گا۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی (1730-1810ء) اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ ظالم لنفسہ وہ لوگ ہیں، جو عمل میں کوتاہی کرتے ہیں (مقصر فى العمل)۔ اور مُقْتَصِدٌ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو ظاہر قرآن پر عمل کرتے ہیں ، حقیقت تک ان کی رسائی نہیں ہوئی ( یعمل على ظاہر الکتاب ولا یفوز الى حقیقتہ)۔ اور سابق بالخیرات وہ ہیں، جن کی رسائی حقائق قرآن تک ہے،جو عمل بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو تعلیم بھی دیتے اور ہدایت بھی کرتے ہیں(من ضم الى العمل التعلیم والإرشاد)تفسیر مظہری، جلد8، صفحہ56۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت کا شوق جنت کے حصول کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی عملاً اس کی تیاری کرے۔چوں کہ انسان اپنی کوششوں کے اعتبار سے مختلف درجات میں بٹا ہوا ہوتاہے۔ وہ اسی اعتبار سے آخرت میں اپنا مقام پائے گا۔
واپس اوپر جائیں

عمل کی دعوت

قرآن کی ایک آیت ہے، جس کو اکثر صلحائے امت نے سب سے زیادہ امید کی آیت بتایا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ قرآن کی اس آیت کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت میں عدم قَنوط پر زور دیا گیا ہے، یعنی غلطی سے جو احساسِ خطا پیدا ہوتا ہے، اس کو عمل مزید کی طرف موڑ دو۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ انسان امید (hope)میں جئے، وہ ناامیدی سے دور رہے۔یعنی بندے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس سے خطا سرزد ہوئی ہے۔ لیکن رب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ بندہ مایوسی کا شکار نہ ہو ، ورنہ وہ بےعملی کا شکار ہوجائے گا۔اس کے برعکس،توبہ کا مطلب ہےنئے جذبہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عمل کی کوشش کرنا۔
اس آیت کا سب سے زیادہ اطلاق موجودہ زمانے پر ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں عمل کے مواقع بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔یعنی دورِ جدید میں پوری طرح عمل کی آزادی ہے۔ قدیم دور میںمذہبی جبر کی وجہ سے یہ موقع نہیں تھا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے احساسِ خطا کو اس طرح موڑ دے کہ وہ مواقع عمل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ وہ توبۂ نصوح کی اسپرٹ کو عمل نصوح کے لیے استعمال کرے۔ وہ اپنے احساسِ خطا کو عمل کثیر کے لیے استعمال کرے۔
قدیم زمانے میں انسان کے لیے صرف احساسِ خطا میں جینے کا موقع تھا۔ آج مواقع کی فراوانی کی بنا پر اس کے لیے یہ موقع پیدا ہوگیا ہے کہ وہ کثرتِ مواقع کو کثرتِ عمل کے لیے استعمال کرے۔ یعنی جو موقع آپ سے کھویا گیا ، اس کو بھلا کر جو موقع ابھی باقی ہے، اس کو زیادہ سے زیادہ اویل کرو۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کا تجربہ

عربی زبان میں ایک مقولہ ہے — بڑھاپا نوجوانی کا ختم ہوجانا نہیں ہے، بلکہ وہ ایک نئے مرحلے کی تیاری کے لیے موقع ہے(الشیخوخة لیست فقدان الشباب، وإنما مرحلة جدیدة للفرصة)۔ بڑھاپے کا تجربہ خالق نے انسان کے لیے کیوں مقدر کیا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ تواضع (modesty) کی اہمیت کو سمجھے۔ انسان کے لیے ہر قسم کی ترقی ماڈسٹی کے ساتھ رکھ دی گئی ہے۔ مگر تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ انسان تعلیم و تربیت کے ذریعہ ماڈسٹی کی اہمیت کو دریافت نہیں کرپاتا۔ اس لیے خالق نے انسان کے لیے یہ مقدر کیا کہ وہ بڑھاپے کے پُرمشقت تجربہ سے گزرے، اور غور و فکر کے ذریعے ماڈسٹی کی حکمت کو دریافت کرے۔
زمین کی کشش (gravitational pull) ایک عجیب نعمت ہے۔ کشش کے نظام کے بغیر زمین پر انسان کی زندگی کا فروغ ممکن ہی نہ ہوتا۔ اس لیے خدا نے نیوٹن (1642-1727ء) کے واسطے سے انسان کے لیے ایپل شاک (apple shock) کا تجربہ مقدر کیا۔ تاکہ انسان زمین کی قوت کشش کو دریافت کرے، اور اللہ کی رحمت سے باخبر ہو کر اللہ کا شکر گزار بندہ بنے۔ اسی مصلحت کے تحت خالق نے انسان کے لیے بڑھاپے کا دور مقدر کیا ۔ بڑھاپا انسان کے لیے گویا ایپل شاک ہے۔
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شاک کے بغیر گہری باتوں کو پکڑنہیں پاتا ۔ بڑھاپا انسان کے لیےزندگی کی حقیقت کو پکڑنے کا آخری دورہے۔ یعنی اللہ تعالی نے بڑھاپے کے طور پرانسان کو سچائی کی دریافت کا آخری موقع عطا کیا ہے ۔ تاکہ پُر مشقت تجربہ کے ذریعہ انسان کے اندر سوچ جاگے، اور انسان اپنی زندگی کو زیادہ درست انداز میں منظم کرے۔ بڑھاپا انسان کے لیے گویا توبہ اور اصلاح کا دور ہے۔ بڑھاپا اس لیے ہے کہ انسان اپنے آخری زمانے میں اس حکمت کو دریافت کرے، جس سے وہ اپنے ابتدائی دور میںبے خبر رہا ہے۔بڑھاپا سادہ معنی میں نوجوانی کا ختم ہوجانا نہیں ہے، بلکہ ایک نیا مرحلہ ہے۔ زندگی کا آخری موقع جس میں انسان خدا کی اسکیم آف تھنگ کو جانے اور اس کے مطابق عمل کرے۔
واپس اوپر جائیں

چیلنج کی صورتِ حال

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6412)۔ یعنی عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: دو نعمتیں ہیں جن میں بہت سےلوگ دھوکےمیں رہتے ہیں— تندرستی اور فرصت ۔
اس حدیث میں ایک قانون فطرت کو بیان کیا گیا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جس کو چیلنج کی صورتِ حال کا سامنا نہ ہو وہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں جب آرام و راحت کی صورتِ حال پیش آجائے تو ایسا انسان جمود (stagnation) کا شکار ہوجاتاہے۔ ایسا انسان فکری طور پر ڈل (dull) ہوجاتا ہے۔اس کے بر خلاف، جب انسان چیلنج کی صورتِ حال میں رہتا ہے تو اس کی سوئی ہوئی فطری صلاحیتیں بیداررہتی ہیں۔ چیلنج کی حالت انسان کی تخلیقیت (creativity) کو بڑھاتی ہے۔ اس کی وجہ سےایک عام انسان سپر انسان (superman)بن جاتاہے۔اس کےاندر ناموافق صورتِ حال کو مثبت طور پر مینج کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایسا انسان ہر عسر کے اندر یسر تلاش کرلیتا ہے۔
برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975ء) نے12 جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام اسٹڈی آف ہسٹری (A Study of History)ہے۔ اس کتاب میں اس نے پوری دنیا کی 19 عظیم تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے۔ ا س جائزے میں اس نے بتایا ہے کہ تاریخ میں فطرت کا ایک نظام قائم ہے۔ جس کو اس نے چیلنج- رسپانس میکینزم کانام دیا ہے۔ یعنی حالات کے تحت ایک چیلنج پیش آتا ہے۔ اس کے بعد قوم کے اندر ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہلچل اس قوم کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ غیر ترقی یافتہ قوم ترقی یافتہ قوم بن جاتی ہے۔ یہ عمل پوری تاریخ میں جاری رہا ہے۔ یہ معاملہ قوم کا بھی ہے، اور فرد کا بھی۔
اس کوراقم الحروف کے ایک تجربے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے ایک بار کہا کہ محمد کو اگر تاریخ سے نکال دیا جائے تو تاریخ میں کیا کمی رہ جائے گی۔ اس کو میں نے مثبت چیلنج کے طور پر لیا۔ اس طرح مجھےیہ موقع ملا کہ میں وہ کتاب لکھوں جس کا نام اسلام دورِ جدید کا خالق ہے۔
اسی طرح ایک مثال یہ بھی ہے کہ میرے پاس ایک نوجوان عالم دین رہتے تھے۔ ان کی ایک اہم صفت یہ تھی کہ وہ میرے اوپر خوب تنقیدیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے جاب کے لیے یو اے ای (UAE)چلے گئے۔ وہاں انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: انا ناقد اکبر ناقدٍفی الہند (میں ہندستان کے سب سے بڑے ناقد پر نقد کرنے والا ہوں) ۔ان کی تنقید وں سےمیرے ذہن کے بند گوشے کھلتے تھے، نئی نئی باتیں ذہن میں آتی تھیں، وغیرہ۔
چیلنج کی صورتِ حال انسانی نیچرکے مطابق ہے۔ اس کے برعکس، آرام و راحت کا راستہ انسان کی نیچرکےمطابق نہیں ہے۔میں ایک مرتبہ احمد آباد کے سفر میں ایک فیکٹری دیکھنے گیا۔ نئی امپورٹڈ مشینیں اس فیکٹری میں لگی ہوئی تھیں۔ فیکٹری کے نوجوان مالک نے بات چیت کے دوران ایک جملہ بولا تھااپنی تو لیمیٹشن (limitation)آجاتی ہیں مینجمنٹ سائڈ پر۔ اس جملے نے میرےمائنڈ کو ٹریگر کیا۔ میں نے سوچا کہ اسی طرح ہر انسان کے لیے اس کی ترقی کی لیمیٹشن (limitation) آجاتی ہے ، جب اس کے لیے چیلنج کا ماحول باقی نہ رہے۔
کسی انسان کی زندگی میں چیلنج کا ماحول کیسے پیدا ہوتا ہے۔ جو انسان دو صفتوںیعنی کامل سادگی اور مکمل قناعت کا حامل ہو، اس کی زندگی میں یہ انقلاب آتا ہے۔ مکمل سادگی کامل عزم کی علامت ہے۔یہ ایک بامقصد زندگی کی علامت ہے۔ عدم قناعت اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے اندر گہرائی کا فقدان ہے، اور قناعت اس بات کی علامت ہے کہ آدمی گہری غور وفکر کا مالک ہے۔ اس بنا پروہ مادی چیزوں کے بجائے معنوی چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ اس کو پانے کا طریقہ ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ المَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2317)۔یعنی یہ کسی آدمی کے اچھے اسلام میں سے ہے کہ وہ بے فائدہ چیز کو ترک کرے۔ دوسرے الفاظ میں ، وہ غیرمتعلق چیزوں کو ترک کردے تاکہ وہ سادہ زندگی ، اونچی سوچ کا طریقہ اختیار کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

بائی ٹائم اسٹریٹجی

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَفْضَلَ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنَ اللہِ(مسند البزار، حدیث نمبر 6297)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا بے شک افضل عبادت اللہ کی جانب سے کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔ ایک شارح نے اس حدیث کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے بترک الشِّکایة من البلاء النازل(شرح مصابیح السنةلابن الملک، حدیث نمبر1602)۔ یعنی نازل شدہ مصیبت کے موقع پر شکایت کو ترک کرنا۔
موجودہ زمانے میں ایک اسٹریٹجی وجود میں آئی ہے۔ اس کو بائنگ ٹائم (buying time) کہا جاتا ہے۔یعنی کسی کام کےلیے وقتی طور پر تاخیر کرنا تاکہ اپنی پوزیشن کو ٹھیک کیا جاسکے
to delay an event temporarily so as to have a longer time to improve one's own position.
اس کا مطلب ہے وہی کام کرنا، جو آپ کے لیے ممکن ہو۔ زندگی میں جذباتیت کو ترک کرکے حقیقت پسند بننا۔اگر انتظار کی ضرورت ہو تو جلد بازی کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائےانتظار کرنا اور صبر سے کام لینا۔ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ نے قریش مکہ کے ساتھ یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلیا تھا۔ یہ جدید اصطلاح کے مطابق بائی ٹائم اسٹرٹیجی تھی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بائی ٹائم اسٹرٹیجی کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا(48:27)۔ یعنی پس اللہ نے وہ بات جانی جو تم نے نہیں جانی۔ مفسر البیضاوی (وفات 1292ء)نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے من الحکمة فی تأخیر ذلک (تفسیر البیضاوی، جلد5، صفحہ131)۔ یعنی اس تاخیر میں جو حکمت ہے۔
اس صلح کے ذریعہ قریش سے دس سال کا ناجنگ معاہدہ طے پایا اور نتیجۃً دعوت الی اللہ کے لیے موافق فضا پیدا ہوئی۔ اس صلح کےذریعہ آپ نے اپنے لیے تیاری کا موقع حاصل کیا، اور اتنی زیادہ تیاری کرلی کہ کسی جنگ کے بغیر آپ کو فریق ثانی کے مقابلے میں کامیابی حاصل ہوگئی۔ اسی لیے اس صلح کو قرآن میں فتح مبین کہا گیا ہے۔یعنی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیے بغیر بائی ٹائم اسٹرٹیجی کے ذریعے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل کرنا۔
واپس اوپر جائیں

بات کرنے کا طریقہ

گفتگو کرنے کا ایک صحیح طریقہ ہے، اور ایک بے فائدہ طریقہ۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ کی بات سن کر سننے والے کو اس سے کوئی ٹیک اوے (takeaway)ملے، یعنی کوئی واضح بات جس کو لے کر وہ آپ کی مجلس سے اپنے گھر جائے۔ ایسی گفتگو صحیح گفتگو ہے۔یعنی جب سننے والے سے پوچھا جائے کہ تمھارے لیے اس کا ٹیک اوے کیا تھا۔اس کے جواب میں اگر سننےوالے نے آپ کی گفتگو سے کوئی نئی بات پائی ہو، اور وہ کوئی واضح اور متعین بات کہتا ہےتو آپ کی گفتگو کا طریقہ صحیح تھا۔ ٹیک اوے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں آپ کو ذہنی غذا (intellectual food) ملتی ہے۔
اس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ آپ نے لمبی بات کہی یا لمبی تقریر کی۔ لیکن جب سننے والے سے پوچھا جائے کہ تمھیں اس بات یا تقریر سے کیا ٹیک اوے ملا۔ اور وہ اس کا کوئی واضح جواب نہ دے سکے تو ایسی گفتگو کا نہ سننے والے کو کوئی فائدہ ، اور نہ بولنے والے کو۔
صحیح گفتگو وہ ہے، جس سے سننے والے کو ٹیک اوے ملے۔ جس کو سن کر آدمی کا ذہن کھلے ، جس کو سن کر آدمی کو کوئی واضح پوائنٹ حاصل ہو، جس کو سن کر آدمی جب لوٹے تو ایک متعین بات سمجھ میں آئی ہو۔ اس کوئی نئی بات دریافت ہوئی ہو۔ صحیح گفتگو وہ ہے جو کہنے والے کی طرف سے سوچ سمجھ کر کہنے کے ہم معنی ہو، اور سننے والے کے لیے وہ کسی نئی بات کی دریافت بن جائے۔ جس گفتگو میں یہ صفت نہ پائی جائے، وہ لَا خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاہُمْ (4:114) کا مصداق ہے۔ یعنی ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں۔
جن لوگوں کے اندر سنجیدگی نہ پائی جاتی ہو وہ الفاظ بولتےہیں، لیکن ان کے الفاظ گہری معنویت سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں وضوح (clarity) نہیں ہوتا۔ ایسے کلام سے لوگوں کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔سچا انسان وہ ہے، جو کسی سے گفتگو کے وقت یہ محسوس کرے کہ اس کی گفتگوزیادہ مؤثر گفتگو نہیں ہے، وہ بے فائدہ کلام ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ بے فائدہ بحث و مباحثہ سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ لایعنی باتوں سے پرہیز کرے،اور اپنے آپ کو غور وفکر میں لگائے۔
واپس اوپر جائیں

ڈائری 1986

27جنوری 1986
پروفیسر علی اشرف(جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی) سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے کہا: میں ہر مہینہ باقاعدہ الرسالہ پڑھتا ہوں۔اس سے پہلے 1980ءمیں آپ کی تمام کتابیں خرید کر پڑھ چکا ہوں۔ بعض کتابیں ایک سے زیادہ بار بھی پڑھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تحریروں میں جو فکر پیش کیا ہے اس سے مجھے صد فی صد اتفاق ہے۔اب تک کے مطالعے میں مجھے آپ کی صرف ایک بات کھٹکی ہے اور وہ آپ کا وہ مضمون ہے، جس کاعنوان ہے: حسنین: تاریخ کے دو علامتی کردار(ظہور اسلام، صفحہ 90)۔
اس مضمون کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا گویا آپ یہ تلقین کر رہے ہیں کہ انسان کو برائی (evil) کے مقابلے میں کچھ نہیں کرنا چاہیے۔اس کو برائی کے مقابلے میں اپنا سر جھکا کر بیٹھ جانا چاہیے۔
میں نے کہا کہ مجھے برائی کے خلاف اقدام کرنے پر اعتراض نہیں ہے بلکہ ایسے اقدام پراعتراض ہے جب کہ اقدام سے نقصان ہوجائے مگر برائی وہیں کی وہیں باقی رہے۔
میں نے کہا کہ میرا اختلاف برائی کے خلاف اقدام سے نہیں ہے بلکہ میرا اختلاف ایسا اقدام سے ہے جو نتیجہ خیز ہونے والا نہ ہو۔قبل از وقت اقدام یا تیاری کے بغیر اقدام ہمیشہ بے فائدہ ہوتا ہے۔اور اقدام کی یہی وہ قسم ہے جس سے مجھے اختلاف ہے۔برائی کے خلاف عملی اقدام صرف اس وقت کرنا چاہیے جب کہ اقدام کے ضروری اسباب فراہم ہوگئے ہوں۔بصورتِ دیگر برائی کے خلاف نصیحت اور تلقین کی سطح پرکام کیا جانا چاہیے، نہ کہ عملی اقدام کی سطح پر۔
پروفیسر علی اشرف صاحب نے میری اس وضاحت سے اتفاق کیا۔
28جنوری 1986
مسز شکیلہ خاں(پیدائش1940ء) 1980سے الرسالہ پڑھتی ہیں، اوراس کے ساتھ ان کے شوہر آ ر یو خان بھی۔انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ کے کئی پرچے منگاتی ہوں اور ان کو دوسروں تک پہنچاتی ہوں۔میں جانتی ہوں کہ الرسالہ بہت اچھی چیز ہے ،مگر کبھی بہت اچھی چیز بھی لوگوں کو اچھی دکھائی نہیں دیتی۔
انہوں نے کہا کہ آپ کی یہ بات مجھے بہت پسند ہے کہ گنبد کھڑا کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ اینٹیں اس کی نیومیں دفن ہونے پر راضی ہوں۔انہوں نے اپنے بارے میں تاثر کے ساتھ کہا کہ’’ میں وہ نیو(foundation) بننا چاہتی ہوں جس پر کوئی گنبد کھڑا ہو سکے‘‘۔
انہوں نے اپنے شوہر کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت حقیقت پسند (realist)ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر میں ایک مسئلہ پیدا ہوا ۔میں بہت جھنجھلائی۔میرے شوہر نے سمجھا یا کہ اس وقت ہم صرف صبر ہی کر سکتے ہیں۔جو کچھ ہو سکتا ہے وہ بعد کو ہو سکتا ہے۔ان کا یہ جملہ مجھے بہت پسند آیا کہ ’’بعد کو سب کچھ ہوگا مگر اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔اسی طرح ایک بار وہ اپنے ایک رشتے دار کے یہاں گئیں۔وہاں انہیں کچھ دن ٹھہرنا تھا۔وہاں لوگوں کے رہنے سہنے کے طریقے انہیں غلط نظر آئے۔اس پر انہیں غصہ آیا۔وہ چاہتی تھیں کہ لوگوں سے لڑ جائیں۔ان کے شوہر نے کہا کہ یہ تمہارا گھر نہیں ہے،یہ دوسرے کا گھر ہے۔یہاں تم کو برداشت کرکے رہنا ہوگا۔اس گھر میںکچھ نہیں بدلے گا، اگر بدلوگی تو تم بدلوگی۔اسی طرح انہوں نے اپنے شوہر کی ایک بات ان الفاظ میں نقل کی:’’اگر اپنی غلطی کو درست ثابت (justify)کروگی تو کبھی ترقی نہیں کروگی۔ترقی کرنے کے لیے اپنی غلطی کو ماننا پڑتا ہے‘‘۔
29جنوری 1986
27جنوری 1986 کو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز(تغلق آباد) میں مسٹر اصغر علی انجینئر کی ایک تقریر تھی۔اس کا عنوان تھا:
Islam and Contemprorary Problems
مسٹر اصغر علی انجینئر ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں حالات بدل گئے ہیں،اس لیے اسلام کی از سرنو تعبیر(بالفاظ دیگر نظرثانی) ہونی چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن منزل (goal) کی بات نہیں کرتا بلکہ صراط کی بات کرتا ہے۔صراط کا مطلب ان کے نزدیک پراسس ہے۔گویا اسلام میں کوئی حکم آخری طور پر طے شدہ نہیں ہے۔مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ صراط کے معنی پراسس کیسے ہیں۔انہوں نے اس کی کوئی لغوی دلیل نہیںدی۔حالانکہ دلیل کے بغیر مجرد بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔
ایک گھنٹے کی تقریر میںانہوں نے کوئی ایک بھی ایسی واضح مثال نہیں دی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حالات میں ایسا فرق ہو گیا ہے کہ اب اسلامی حکم میں تبدیلی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم معاشرہ میں عورتوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ اسلام کے نکاح وطلاق کے قانون پر نظر ثانی کی جائے۔انہوں نے اس سلسلے میں اسلام میں فری انکوائری کے اصول کو رائج کرنے پر زور دیا۔یہ ایک بڑا عجیب تضاد ہے۔مقرر موصوف نے جو مثال پیش کی اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ میں عمل(practice) غیراسلامی ہو گیا ہے۔مگر اس کی بنیاد پر وہ اسلام کے اصولوں کے بارے میں فری انکوائری کی وکالت کر رہے ہیں۔جب کہ امرواقعہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرتی خرابی اصول پر عدم پابندی سے ہوئی ہے ۔تو فری انکوائری اس بات پرہونی چاہیے کہ اصول اور عمل میں مطابقت کیسے پیدا کی جائے، نہ یہ کہ اصولوں پر فری انکوائری کا عمل کیا جائے۔
30جنوری 1986
آج اتفاقاً لال قلعہ (دہلی) کی طرف جانا ہوا۔اس عظیم قلعہ کوپانچویں مغل حکمراں شاہ جہاں (1592-1666ء)نے بنوایا تھا۔قلعہ کی وسیع عمارتیں اور 75 فٹ اونچی دیواریں سرخ پتھروں سے بنی ہوئی ہیں۔ان کو دیکھ کر عجیب تاثر قائم ہوتا ہے۔
تین سو سال پہلے یہ قلعہ دنیا کی ایک طاقتور سلطنت کا مرکز تھا۔’’سلطان دہلی کو اس وقت کتنی بڑی حیثیت حاصل ہوگی‘‘ لال قلعہ کو دیکھ کر میری زبان سے یہی جملہ نکلا۔مگر عجیب بات ہے کہ لال قلعہ بننے کے بعد ہی مغل سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔اس کی وجہ افراد کی کمی تھی۔مغل حکمرانوں کے پاس پتھر کافی مقدار میں تھے،جن سے وہ ایک عظیم قلعہ بنا سکیں،مگر ان کے پاس جاندار افراد نہ تھے جن سے وہ ایک عظیم سیاسی نظام بنا سکیں۔
اس کے بعد شاہی خاندان میں اقتدار کی لڑائیاں شروع ہو گئیں۔شاہی افراد ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔صوبائی حاکموں میں مرکز سے بغاوت کا رجحان پیدا ہوگیا۔اس صورت حال سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا۔وہ دھیرے دھیرے پورے ملک پر قابض ہو گئے۔
لال قلعہ کو دیکھ کر یہ سب باتیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔میں نے اپنے دل میں کہا:قوم کے افراد میں اگر جان نہ ہو تو پتھروں کی دیواریں قوم کو بچانے والی ثابت نہیں ہوتیں۔جس قلعہ کو مغل حکمرانوں نے اپنے ابدی اقتدار کی علامت سمجھا تھا وہ ان کے اقتدار کا قبرستان بن کر رہ گیا— طاقت کا اصل راز جاندار افراد ہیں اور یہی وہ متاع ہے جودنیا میں ہمیشہ سب سے کم پائی گئی ہے۔
31جنوری 1986
قرآن میں حکم دیا گیا ہےکہ قرآن کی آیتوں پر غور کرو۔اس سے واضح ہے کہ قرآن کا ایک حصہ سطور (lines) میں ہے اور اسی کا دوسرا حصہ بین السطور (between the lines)میں۔اس بین السطور والے قرآن کو صرف غور کرکے پایا جا سکتا ہے۔اگر قرآن کا ایک حصہ غیرملفوظ طور پر اس کے بین السطور میں نہ ہوتا تو قرآن پر غور کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔
مجھ پر ایک تجربہ گزرا۔یہ تجربہ ایک مثال ہے جو اس معاملے کو واضح کر رہا ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو قسم کے پانی بنائے۔ایک میٹھا اور دوسرا کھاری(فاطر،35:12) ۔اسی طرح قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ زمین میں مختلف پھل پیدا ہوتے ہیں۔سب کو ایک پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔مگر سب برابر نہیں۔ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے(الرعد،13:4)۔
ان آیتوں پر غور کرتے ہوئے اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ان میں ایک ایسا مفہوم پارہا ہوں جو لفظوں میں لکھا ہوا نہیں۔یعنی اللہ کی ایک نئی صفت۔میرے ذہن میں آیا کہ انسان کسی چیز کے مزے کو چکھ کر جانتا ہے۔آدمی اگر چیز کو زبان سے نہ چکھے تو وہ اس کے مزے کو نہ جان سکے۔
خدا کھانے پینے سے ماورا ہے۔خدا نے کبھی کسی چیز کو نہیں چکھا۔پھر اس کو چیزوں کا مزا کیسے معلوم ہوا۔یہ غور کرتے ہوئے اچانک مجھ پر خدا کی ایک نئی صفت منکشف ہوئی۔یہ صفت کہ وہ چکھے بغیر چیزوں کے مزے کو جانتا ہے۔خدا اس انوکھی طاقت کا مالک ہے کہ وہ چیزوں کو انسان کی طرح زبان سے نہ چکھے،اس کے باوجود وہ پوری طرح جانے کہ کس چیز کا مزہ کیا ہے اور کس چیز کا مزہ کیا۔
1فروری 1986
3ستمبر1984کو مسٹرمسعود احمد بنارسی سے میری ایک گفتگو ہوئی تھی۔گفتگو کا موضوع سکھوں کاآزاد صوبہ (پنجابی صوبہ) تھا۔میں نے کہا کہ آزاد پنجابی صوبہ کبھی نہیں بنے گا۔انہوں نے اس سے سخت اختلاف کیا۔انہوں نے کہا کہ تین سال میں سکھوں کا آزاد پنجابی صوبہ ضرور بن جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر میرا یہ اندازہ صحیح نہیں نکلا تو میں آپ کو ایک لاکھ روپے ادا کروں گا۔انہوں نے اپنے قلم سے میری ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
Within three years Punjab will have an independent Khalistan. Bet Rs. one lakh.
آج ہندوستان ٹائمس (1فروری 1986) میں،میں نے مسٹر خشونت سنگھ کا ایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون کو پڑھ کر مجھے وہ واقعہ یاد آیا جو اوپر نقل کیا گیا ہے۔مسٹر خشونت سنگھ کے مضمون کا عنوان ہے:بیوقوفوں کی ایک قوم(A Nation of Fools) ۔اس مضمون میں مسٹر خشونت سنگھ نے اس پوری سیاست کو احمقانہ سیاست بتایا ہے۔انہوں نے پنجاب کی تازہ سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
I disapprove of their actions. This is no kar seva but kursee-seva. (Gurcharan Singh) Tohra (d. 2004) wants to stick to his kursee, they want it for themselves.
انہوں نے پنجاب کی سیاست پر اردو کا حسب ذیل شعر چسپاں کیا ہے:
جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے ادھر بھی عقل کے دشمن ادھر بھی دیوانے
3فروری 1986
آج کانپورکے دو صاحبان ملنے کے لیے آئے۔ایک ندوی عالم تھے اور دوسرے تاجرتھے۔ وہ دونوں تبلیغی جماعت کے چلہ میں گجرات جا رہے ہیں۔
گفتگو کے دوران میں نے کہاکہ اس وقت امت میں دو قسم کے کام چل رہے ہیں۔ایک اصلاحی اور دوسرا مطالباتی۔پہلے کو داخلی انداز کار اور دوسرے کو خارجی انداز کار کہہ سکتے ہیں۔قرآن وسنت سے جہاں تک میں سمجھا ہوں،صرف داخلی انداز کار ہی صحیح انداز کار ہے۔خارجی انداز کار کی تصدیق قرآن نہیں کرتا۔
پھر میں نے کہا کہ داخلی انداز کار کا اصول اگر مسلمانوں کی کسی جماعت میں پایا جاتا ہے تووہ صرف تبلیغی جماعت ہے۔تبلیغی جماعت، احتجاج اور مقابلہ اور تجاویز کا طریقہ اختیار نہیں کرتی جو موجودہ زمانہ میں دوسری مسلم جماعتیں اختیار کیے ہوئے ہیں۔وہ تمام تر مسلمانوں کی داخلی اصلاح پر زور دیتی ہے۔اور داخلی اصلاح ہی بلا شبہ اصل قرآنی کام ہے۔
میں نے کہا کہ مستقبل میں اگر کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو صرف داخلی انداز کار سے نکل سکتا ہے۔ خارجی انداز کار سے قطعاً کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔خواہ اس قسم کی تحریکیں ایک ہزار سال تک چلتی رہیں۔
4فروری 1986
دومسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ ایس آئی ایم آئی(SIMI) سے تعلق رکھتےہیں۔پھر انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مسلم مسائل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ کون سے مسلم مسائل؟ انہوں نے کہا کہ مثلاً یہ کہ:
’’ہندوستان کی کورٹ ہمارے شرعی قانون کو چیلنج کرنا چاہتی ہے‘‘
میں نے کہا کہ آپ کے اس جملے میں دو غلطیاں ہیں۔آپ کورٹ کے بارےمیں فرما رہے ہیں کہ وہ شرعی قانون کو بدلنا چاہتی ہے۔حالانکہ کورٹ کا یہ کام ہی نہیں۔قانون کو بدلنا قانون ساز اسمبلی کا کام ہے، نہ کہ کورٹ کا۔کورٹ تو صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ بنے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ دے۔وہ قانون کومنطبق کرنے کے لئےہوتی ہے، نہ کہ حقیقتاً قانون کو بنانے کے لیے۔
دوسری بات یہ کہ عدالت کا کوئی اقدامی رول نہیں ہوتا۔یعنی وہ خود سے آکر آپ کے اوپر کوئی قانون نافذ نہیں کرتی۔آپ جب اس کے یہاں جا کر کہتے ہیں کہ فلاں قانون کے مطابق میرے معاملے کا فیصلہ کرو تو وہ شہادتوں کو سننے کے بعد متعلقہ قانون کو آپ کے معاملے پرمنطبق کر دیتی ہے۔
مثال کے طور پر شاہ بانو کے کیس میں خود مذکورہ مسلم خاتون نے عدالت سے کہا کہ میرے معاملے میں کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ125 کے مطابق فیصلہ دیا جائے تو اس نے فیصلہ دیا۔اس کے برعکس، اگر مسلم خاتون یہ دعوی کرتی کہ میرے معاملے میںمسلم شرعی قانون کے مطابق فیصلہ دیا جائے تو کورٹ مسلم پرسنل لا کے مطابق فیصلہ دیتی۔اس معاملے میں واضح طور پر مسئلہ کسی کورٹ کی طرف سے نہیں پیدا ہوا ہے بلکہ خود مسلمانوں کی طرف سے پیدا ہوا ہے جو اپنے معاملات کا فیصلہ ملکی قانون کے تحت کرانا چاہتے ہیں۔
5فروری 1986
نظام الدین(نئی دہلی) میںہمارے دفتر سے ملا ہوا ایک پارک ہے۔اس پارک میں ایک لمبا سیمل کا درخت (silk-cotton tree) ہے۔اس درخت کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔اس میںروزانہ رات کو گدھ آ کر بیٹھتے تھے۔لوگوںنے پٹاخہ چھوڑ کر ان کو بھگانے کی کوشش کی،مگر وہ نہیںبھاگے۔ آخرکار کارپوریشن نے اس کا حل یہ نکالا کہ درخت کی تمام شاخیں کاٹ دی گئیں۔
یہ واقعہ1985ء کے آغاز میں ہوا۔شاخیں کاٹنے کے بعد درخت کا منظر یہ تھا۔تاڑ کی مانند ایک لمبا خالی تنا فضا میں کھڑا ہوا دکھائی دیتا تھا۔البتہ کاٹنے والوںنے یہ کیاکہ بالکل اوپر ایک آخری شاخ چھوڑ دی۔یہ شاخ تقریباً دو میٹر لمبی تھی۔
اب اس درخت کے کٹنے پر ایک سال پورا ہو چکا ہے۔آج اس بظاہر خشک تنے کا منظر دوسرا ہے۔قدیم شاخوں کے کٹنے کے بعدنیچے سے اوپر تک تنے کے چاروں طرف نئی شاخیں اور پتیاں نکلیں،یہاں تک کہ وہ ان سے ڈھک گیا۔اب وہ خشک تنا نہیںبلکہ وہ ایک پورا درخت ہے جو سرسبزو شاداب حالت میں کھڑا ہوا ہے۔تاہم اس شادابی میں ایک استثنا ہے اور وہ اسی شاخ کا ہے جس کو کاٹنے والے نے چھوڑ دیا تھا۔یہ شاخ آج بھی ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ایک سال پہلے تھی۔ایک پتلی سی لکڑی اور اس کے اوپر چند سوکھی پتیاں۔درخت کی نئی شاخیں خوب سرسبزوشاداب نظر آتی ہیں،مگر یہ قدیم شاخ ایک مرجھائی ہوئی موٹی ٹہنی کا منظر پیش کرتی ہے۔
یہ قدرت کا ایک سبق ہے۔اس دنیا میں جس کو کاٹا جائے وہی دوبارہ ظہور کرتا ہے۔جس کی سرسبزی کو مٹایا جائے وہی زیادہ سرسبزو شاداب ہو کر زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے۔یہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاںنہیں میں ہے کا امکان ہے۔جہاں موت کے اندر زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔
6فروری 1986
ڈاکٹرشعیب احمد قاسمی(پرنسپل طیبہ کالج جے پور) ملاقات کے لیےتشریف لائے۔انہوں نے بتایا کہ جے پور میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے۔اس کا ایک جلسہ ہوا اور اس کی صدارت کے لیے ہندوستان کے ایک مشہور ترین عالم کو بلایا گیا۔
اس جلسہ میں ادارہ کے ذمہ دار نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ دوسرے کورسوں کے علاوہ ٹیکنیکل کورس بھی رکھیں اور اس کے ذریعے ٹیکنیشین(technicians) تیار کریں۔مذکورہ عالم تقریر کے لیے کھڑے ہوئےتو انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہاں ٹیکنیشین (technicians) کی نہیں بلکہ اکسپرٹ(experts)کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر شعیب نے بتایا کہ مولانا کی یہ تقریر بہت پسند کی گئی۔
میں نے کہا کہ یہ محض ایک خطابت ہے۔یہ کوئی گہری بات نہیں۔حضرت عمر اور حضرت علی دونوں جلیل القدر صحابی تھے۔مگر حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ میں معاملات درست تھے اور حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں معاملات بگڑ گئے۔کسی نے حضرت علی سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ حضرت علی نے جواب دیا:’’عمر کے ساتھی میرے جیسے لوگ تھے،میرے ساتھی تمہارے جیسے لوگ ہیں‘‘(تاریخ ابن خلدون، جلد1، صفحہ 264)۔باالفاظ دیگر عمر کے زمانہ میں’’اکسپرٹ‘‘ کے ساتھ’’ٹیکنیشین‘‘ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اب ’’اکسپرٹ‘‘ ہیں مگر’’ٹیکنیشین‘‘ موجود نہیں۔ایک اکسپرٹ کے تحت لاکھوں ٹیکنیشین درکار ہوتے ہیں تب ایک نظام چلتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی بربادی کا سب سے بڑا سبب مذکورہ بالا قسم کی پرجوش تقریریں ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان یونیورسٹی بناتے ہیں، مگر وہ ابتدائی سطح پر جدید تعلیم کا انتظام نہیں کرتے۔ وہ خلافت اور حکومت قائم کرنے کے لیے دوڑتے ہیں،مگر معاشرہ تیار نہیں کرتے۔عالمی انقلاب کی باتیں ان کو بہت پسند آتی ہیں،مگر افراد کے اندر انقلاب لانے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کا ہر آدمی’’گنبد‘‘ کی اصطلاحوں میں سوچتا ہے،مگر’’بنیاد‘‘ کی اصطلاحوں میں سوچنا انہیں کم تر درجہ کی بات معلوم ہوتی ہے۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے ہوائی قلعے تو خوب بن رہے ہیں،مگر حقیقی قلعہ تعمیر کرنے میں وہ اب تک کامیاب نہ ہو سکے۔
7فروری 1986
ایک مضمون نظر سے گزرا۔اس کا عنوان تھا’’عمامہ اور اتباع سنت‘‘۔مضمون نگار نے محدث ابو بکر بیہقی (وفات 1066ء) کی شعب الایمان کے حوالے سے عمامہ کی فضیلت میں ایک روایت نقل کی ہے۔پھر اطاعت رسول اور اتباع سنت کی اہمیت ثابت کرتے ہوئے عمامہ باندھنے پر زور دیا ہے۔
عمامہ باندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملاً ثابت ہے۔لیکن قولاً کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جس سے عمامہ پہننے کی اہمیت ثابت ہوتی ہو۔عمامہ کی فضیلت میں جو بھی روایتیں ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں، وہ سب کی سب غیر ثابت شدہ ہیں،ایک بھی صحیح حدیث نہیں۔سنن الترمذی کے شارح عبدالرحمن مبارکپورى لکھتے ہیں : لَمْ أَجِدْ فِی فَضْلِ الْعِمَامَةِ حَدِیثًا مَرْفُوعًا صَحِیحًا وَکُلُّ مَا جَاءَ فِیہِ فَہِیَ إِمَّا ضَعِیفَةٌ أَوْ مَوْضُوعَةٌ(تحفة الأحوذی للمبارکفورى، جلد 5، صفحہ 339)۔ یعنی، عمامہ کی فضیلت میں کوئی صحیح مرفوع حدیث مجھے نہیں ملی، اس تعلق سے جو حدیثیں بھی ہیں، وہ یا تو ضعیف ہیں یا موضوع۔
مثلاً ایک روایت یہ ہے:عَلَیْکُمْ ‌بِالْعَمَائِمِ فَإِنَّہَا سِیمَاءُ الْمَلَائِکَةِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 13418)۔ یعنی، تم پر پگڑیاں پہننا لازم ہے،کیوں کہ یہ فرشتوں کی پہچان ہے۔ اس حدیث کا ایک راوی مجہول ہے(الحاوی للفتاوی للسیوطی، جلد 1، صفحہ 359) اور علامہ ابن طاہر پٹنی (وفات 1578ء)نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے (تذکرة الموضوعات، صفحہ 155)۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: الْعَمَائِمُ ‌تِیجَانُ الْعَرَبِ (مسند الشہاب، حدیث نمبر 68)۔ یعنی، پگڑیاں عرب کا تاج ہیں۔یہ روایت بھی باعتبار اسناد ضعیف ہے (المقاصد الحسنہ للسخاوی، حدیث نمبر 717)۔
یہ بات بطور واقعہ صحیح ہے کہ قدیم عرب میں پگڑی پہننا شرافت اور عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔اُس دور میںپگڑی آدمی کی سنجیدگی اور وقار کا نشان تھی۔اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے بھی پگڑی کا استعمال کیا۔مگرمیرا خیال ہے کہ عمامہ باندھنا عادت عرب ہے ،نہ کہ سنتِ رسول، یہ تاج العرب ہے، نہ کہ تاج الاسلام ۔
8فروری 1986
شری ڈی این آول6فروری کو ہمارے دفتر میں آئے۔وہ اس وقت دہلی میں اپنے لڑکے کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں۔بات چیت کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ اردو بخوبی جانتے ہیں۔چنانچہ میں نے ان کو اپنی نئی کتاب ’’اللہ اکبر‘‘ بطور تحفہ دی۔ تیسرے دن 8فروری کو کتاب واپس آ گئی۔میں نے سمجھا کہ شاید بغیر پڑھے ہوئے انہوں نے واپس بھیج دی ہے۔مگر اس کے ساتھ ان کا ایک خط بھی تھا۔اپنے اس خط میںانہوں نے کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات بتاتے ہوئے نہایت بامعنیٰ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا:
’’آپ کی کتاب’’اللہ اکبر‘‘ مجھے پرسوں عطا ہوئی تھی۔میں اس کے مطالعہ میں اس قدر کھو گیا کہ آج صبح تک اس کو سارا پڑھ کر ہی دم لیا۔یہ بھی قادر مطلق کی شان ہے، ورنہ288 صفحات کی کتاب کو اتنی جلدی پڑھ لینا کوئی آسان کام نہ تھا‘‘۔
یہ کتاب میں نے انہیں واپسی کی شرط پر نہیں دی تھی،تاہم انہوں نے کتاب کو بہت ہی حفاظت کے ساتھ ورق کے اوپر کاغذ لگا کر پڑھا اور ویسے کا ویسا ہی واپس کر دیا۔
پچھلے برسوں میں،میں نے بہت سے مسلمانوں کو ہدیۃً یہ کتاب دی ہے۔اور ان سے یہ کہا ہے کہ آپ اس کو پڑھنے کے بعد ایک خط میں اپنے تاثرات لکھ کر بھیج دیں۔مگر جہاں تک یاد ہے غالباً کسی ایک مسلمان نے بھی اب تک ایسا خط نہیں بھیجا۔
اس طرح کے مختلف تجربات ہیں جس کی روشنی میں ،میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان بالکل بے جان قوم ہو چکے ہیں۔اس کے مقابلے میں ہندو ایک زندہ قوم ہیں۔کاش اسلام کے خلاف تعصب کی دیواریں ڈھ جائیں اور وہ موجودہ دور میں خدا کے دین کے علم بردار بن سکیں۔
9فروری 1986
آج تبلیغی جماعت کے کچھ لوگ ملنے کے لیے آ ئے۔وہ بکارو اسٹیل(بہار) میں کام کرتے ہیں۔ان میں ایک صاحب انجینئر تھے۔گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ ہمارا مشن اور تبلیغ کا مشن اصلاً ایک ہے۔فرق یہ ہے کہ تبلیغ عوام(masses)کے لحاظ سے کام کرتی ہے اور ہم ذہین طبقہ (intellectual class) کے لحاظ سے کام کررہے ہیں۔
انجینئر صاحب نے کہا کہ تبلیغی جماعت دونوں طبقہ کے لیے کام کر رہی ہے۔مثلاً آپ دیکھیے کہ ہماری جماعت جو بکارو سے آئی ہے اس میں میرے سمیت چار انجینئرہیں۔
یہ ایک زبردست غلط فہمی ہے۔لوگ ڈگری ہولڈرس اور انٹیلکچولس کو ہم معنیٰ سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ ایسی بات کہتے ہیں۔حالاں کہ یہ دونوں ہم معنیٰ الفاظ نہیں۔انٹیلکچول سے مراد وہ شخص ہے جو غیرمعمولی ذہین ہو اور مسائل پر زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچتا ہو۔جب کہ ڈگری یافتہ ہر وہ شخص ہے جو کسی تعلیمی ادارہ سے ایک متعین کورس کو مکمل کرنے کے بعد ڈگری حاصل کر لے۔
انٹیلکچولس پڑھے لکھے لوگوں میںبھی ہوتے ہیںاوربے پڑھے لکھے لوگوں میںبھی۔یہ لوگ معاملات کو تفکری انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں۔فکروفہم ان کی غذاہوتی ہے۔وہ کسی بات کو اسی وقت مانتے ہیں جبکہ اس کو ان کی فکری سطح پر قابل فہم بنا دیا گیا ہو۔
10فروری 1986
8-10 فروری 1986 کو غالب اکیڈمی(نئی دہلی) میں ایک سہ روزہ سیمینار ہوا۔اس کا موضوع اردو صحافت تھا اور اس کو اردو اکادمی نے منظم کیا تھا۔راقم الحروف نے بھی اس میں ایک مقالہ پڑھا۔
ایک ہندو صحافی دہلی سے ’’مستانہ جوگی‘‘ نام کا اردو اخبار نکالتے ہیں۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میری پرورش لاہور میں ہوئی۔میں صرف اردو زبان جانتا ہوں۔مگر میرےبچوں کا حال یہ ہے کہ صرف ہندی اور انگریزی جانتے ہیں۔وہ اردو بالکل نہیں پڑھ سکتے۔یہی حال اب نئے ہندوستان میں بہت سے مسلم خاندانوں کا ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے اردو پرچوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے ساتھ ہندی پرچے نکال رکھے ہیں۔مثلاً’’شمع‘‘ اردو کا ماہنامہ ہے۔مگر اسی کے ما تحت اس نے’’ششما‘‘ نام سے ہندی ماہنامہ نکال رکھا ہے۔اسی طرح اور بہت سے پرچے اردو کے ساتھ ہندی ایڈیشنز جاری کیے ہوئے ہیں۔تاکہ اگر اردو کی کشتی ڈوبے تو وہ ہندی کی کشتی پر سوار رہ سکیں۔مگر یہی بات آپ کسی ہندی پرچے میں نہیں پائیںگے۔یعنی کوئی ہندی پرچہ ایسا نہیں ہے جس نے ہندی کے ساتھ اردو کا پرچہ جاری کر رکھا ہے۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس ملک کا مستقبل ہندی کے ساتھ ہے۔
میرا خیال ہے کہ تاریخ کے بارے میں اس قسم کے اندازے اکثر صحیح نہیں ہوتے۔مثال کے طور پر تقسیم کے بعد عام خیال یہ تھا کہ ملک میں اردو کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا۔مگر چالیس سال بعد بھی اردو ختم نہیں ہوئی۔بلکہ آزادی کے وقت اور آج کی صورت حال کا موازنہ کیا جائے تو اردو کافی بڑھی ہے۔
دوسری بات ایک اور ہے جس کو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں۔ہندوستان میںلکھنے والی اردو ضرور کم ہوئی ہے،مگر بولی جانے والی اردو میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ہندوستان کے ٹیلی وژن میں جو زبان استعمال ہوتی ہے،وہ واضح طور پر اردو ہوتی ہے ،نہ کہ ہندی۔حقیقت یہ ہے کہ زبانوں کا تسلسل ختم ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور اردو بلا شبہ کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایگو کو مینج کرنا

میں نے آپ سےیہ سیکھا ہے کہ ماڈسٹی سے انسان کا ایگو ختم ہوجاتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا ایگو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ اس کو کیسے ختم کیا جائے۔ (ڈاکٹر سفینہ تبسم، سہارن پور، یوپی)
جواب
انا(ego) شیطان کی جانب سے انسان کے خلاف جدو جہد کا حصہ ہے۔ اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس کو مینج کرنا ہے۔ایگو با ر بار آئے گا۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ شیطان کی جانب سے آئے ہوئے ایگو کو پہچانے، اور اس سے بچاؤ کی کوشش کرے۔یہ سلسلہ موت تک جاری رہے گا۔ انسان کو بیدار (vigilant)رہنا ہے تاکہ وہ شیطان کے حملوں کو مینج کرنا سیکھے۔
انسان کے اندرانا (ego) کا جذبہ بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ جذبہ انسان کی ساری سرگرمیوں میں کام کرتا ہے۔ انسان کے لیے سب سے بڑی تباہ کن بات یہ ہے کہ وہ انا(ego) کا شکار ہوجائے۔ایگو کے فتنے کا سب سے زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے ہر عمل کا ایک جواز (justification) تلاش کرلیتا ہے۔ وہ غلط کام بھی کرتا ہے تو اس کا ایک مبرر (justified reason) اس کے پاس ہوتا ہے۔ وہ غلط کام کو اس یقین کے ساتھ کرتا ہےکہ وہ ایک درست کام ہے۔ یہ ایک خود فریبی کی بدترین صورت ہے۔
انا کا ایک نقصان یہ ہے کہ آدمی ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہوجاتا ہے۔ایسا انسان حقیقت کے اعتبار سے وہ بے اصل خوش فہمیوں میں جیتا ہے، لیکن بطور خود یہ سمجھتا ہے کہ میں ایک ثابت شدہ حقیقت پر جی رہا ہوں۔ اس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈی کنڈیشنڈ مائنڈ بنائے۔ ڈی کنڈیشننگ کی بنا پر آدمی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے، اس بنیاد پر وہ سچائی کو اس کی درست شکل میں دیکھتا ہے، اور اس کو قبول کرلیتا ہے۔ہر آدمی کی یہ ایک اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنی ایگو کی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور سیلف ہیمرنگ کے ذریعے اپنے ایگو کو مینج کرنا سیکھے۔
واپس اوپر جائیں

گناہ خدا سے قربت کا ذریعہ

گناہ کے حوالے سے ایک پرامید حدیثِ رسول یہ ہے:اللہ ایک بندہ کو اس کے گناہ سے بھی فائدہ پہنچاتا ہے، جس گناہ کا ارتکاب وہ کرگزرتا ہے(إِنَّ اللہَ لَیَنْفَعُ ‌الْعَبْدَ بِالذَّنْبِ یُذْنِبُہُ) مسند الشہاب ، حدیث نمبر 1095۔ گناہ سے انسا ن کیسے خدا سے قریب ہو سکتا ہے۔اصل یہ ہے کہ گناہ اپنے آپ میں غلط عمل ہے، مگر وہ آپ کو نیکی کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ یعنی غلطی کا ارتکاب ہونے پرآپ سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کریں، بلکہ ندامت کا احساس کرکے خدا کے آگے جھک جائیں۔ یہی عمل توبہ کہلاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ کبھی روٹین میں کیا جانے والا نیک عمل انسان کو خدا سے قریب نہیں کرپاتا ہے۔ لیکن ایک گناہ انسان کو خدا سے بہت زیادہ قریب کردیتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کو اپنے گناہ پر شرمندگی کا احساس ہو، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ توبہ و استغفار کا طریقہ اختیار کرے۔گویا گناہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ خدا سے قریب ہوجائیں۔ احساسِ گناہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔ یہ آپ کی شخصیت میں تبدیلی کا دروازہ ہے۔ وہ خدا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کا ذریعہ ہے۔ آپ کی شخصیت جو گناہ سے پہلے عام شخصیت تھی، وہ گناہ کے بعد ایک ربانی شخصیت میں بدل سکتی ہے۔
احساسِ گناہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ احساسِ کمتری (inferiority complex) کا شکار ہو کریہ سمجھ لیں کہ میں کوئی نیک عمل نہیںکرسکتا۔ ہر وقت مجھ سے گناہ اور غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ پھر اس کے بعدآپ ناامیدی کا شکار ہو کر دھیرے دھیرے ڈپریشن کا شکار ہوجائیں۔یہ اسلام کی تعلیم نہیں۔ اسلام کی تعلیم ہے توبہ یعنی رپنٹنس (repentance) پھر نئی انرجی کے ساتھ نیک عمل۔
رسول اللہ اہل ایمان کو توبہ و استغفار پربہت زیادہ ابھارا کرتے تھے۔ایک صحابی حبیب بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ!مجھ سے گناہ ہوتے رہتے ہیں۔ آپ نے کہا:توبہ کرلیا کرو۔اس نے کہا: اے اللہ کے رسول، میں توبہ کروں گا، لیکن دوبارہ میں گناہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا، جب جب گناہ کرو توبہ کرلو۔ اس نے کہا: تب میرے گناہ بہت زیادہ ہوجائیں گے۔ رسول اللہ نے کہا: اللہ کی معافی تیرے گناہوں سے بہت وسیع ہے (عَفْوُ اللہِ أَکْثَرُ مِنْ ذُنُوبِک) المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث نمبر 4854۔ (مولانا فرہاد احمد)
واپس اوپر جائیں

مولانا کے بعد

آج بتاریخ 4اکتوبر 2022ء کومولانا وحیدالدین خاں صاحب کی رہائش گاہ ( نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) پہنچا۔ گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا تو مولانا کی صاحبزادی ڈاکٹر فریدہ خانم (آپا) نے آواز دی کہ اوپر آجائیں۔ میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے ۔بالآخر کسی طرح سیڑھیاں چڑھ کر مولانا مرحوم کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ میں جس شخصیت سے استفادے کے لیے ہمیشہ حاضر ہوا کرتا تھا، آج شدت سے مجھے اس کی غیر موجودگی کا احساس ستانے لگا۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ میرے کانوں میں مولانا کے چند سادہ اور محبوب کلمات گونج رہے تھے۔ مثلاً، ارے بھائی! دیکھو بھائی! سنو بھائی! وغیرہ۔ یہ گویا کسی درد مند دل کی پکار تھی۔ اِسی کے ساتھ یہ سوالات بھی سنائی دینے لگے: "اقبال صاحب! فیاض صاحب! کوئی نئی خبر، کوئی نیا تجربہ ہے آپ کے پاس۔۔۔؟" ایک مرتبہ ایک صاحب نے کہا تھا کہ کوئی خبر نہیں ہے۔ تو مولانا نے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں۔ ہر دن نیا سورج نکلتا ہے، پوری کائنات اعلی بندوبست کے ساتھ چل رہی ہے— کیا یہ خبر(نیوز) نہیں ہے۔ گویا مولانا کے نزدیک اخباری نیوز کوئی نیوز نہیں تھی، بلکہ حقیقی نیوز وہ تھی، جس سے معرفت کا رزق حاصل ہو۔
مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ آج بظاہر سوال کرنے والا ہمارے سامنے موجود نہیں ہے، مگر سوال بدستور قائم ہے۔ تاکہ مولانا کے بعد بھی معرفت کا عمل رکے بغیر جاری رہے۔ مولانا کے کمرے میں خالی کرسی اور شیلف میں آویزاں اُن کے عبا کو پر نم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا ، ایک طرف خالی کرسی اور جبہ ، دوسری طرف مولانا کی ساری تصنیفات۔ گویا کرسی اوران کا جبہ زبان حال سے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ شخصیت اب اِن کتابوں میں موجود ہے۔
پنچ پیراں قبرستان میں:اس کے بعد پہلی بار مولاناوحیدالدین خاں صاحب کی قبر پر حاضری کا موقع ملا۔ بستی حضرت نظام الدین کے قبرستان پنچ پیراں کے صدر دروازے سے داخل ہونے کے بعد سیدھے قبرستان کے آخری حصے میں ایک مزار کی مضبوط فصیل بنی ہوئی ہے۔ ٹھیک اس سے ذرا پہلے مولانا کی قبر موجود ہے۔ میری زبان گنگ تھی۔ ’’السلام علیکم یا أہل القبور‘‘(اے قبر کے ساکنو، تم پر سلامتی ہو) کے روایتی الفاظ زبان پر جاری تھے۔
قریب ہوا، اپنے ساتھی سے قبلہ معلوم کیا اور نماز جنازہ ادا کی۔ میرا دل مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ مولانا! فی الوقت میں آپ کی قبر کے پاس ہوں۔ جس معرفت کی سطح پر آپ پہنچے ہیں اس کو لے کر مجھے اور میرے ساتھیوں کو آگے بڑھنا ہوگا۔اس وقت میں قبرستان میں اسی اضطراب کے عالم میں کبھی میں قبر کے کتبہ پر ہاتھ لگا تا، کبھی قبر کو دیکھتا ۔ گویا میں مولانا سے کچھ سننا چاہتا ہوں۔ مگر میرے شعور نے کہا کہ مولانا آپ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے کسی کی پرواہ کیے بغیر واضح طور پرخدا کی ہر بات کھول کھول کر بتادی، آخری حد تک خیرخواہی کردی( قَد ‌بَلَّغْتَ، وَأَدَّیْتَ، وَنَصَحْتَ)۔ اب مولانا خدا کے فطری قانون کے تحت ہم سے جدا ہوکر آخرت کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں۔ پھر یہ ہم لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہم نے مولانا کے ذریعہ جو عصری اسلوب میں اسلام پایا ہےاس کو آگے لے کر جائیں۔
بہرحال، اِنھیں کیفیات سے گزرتا ہوا سوچ رہا تھا کہ اچانک مجھے افطار کے وقت کی ایک دعا یاد آگئی:ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، ‌وَثَبَتَ ‌الْأَجْرُ ‌إِنْ ‌شَاءَ ‌اللہُ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2357)۔ یعنی، پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہاتواجروثواب قائم ہوگیا۔ اِس دعا کو میں اِس طرح پڑھنے لگا: ذھب روح مولانا ودفن الجسم وارجو من اللہ ان یثبت لہ الفردوس (مولانا کی روح پرواز کرگئی۔ جسم قبر کے حوالے ہوگیا اور اللہ سے امید ہے کہ وہ اپنے فضل سے مولانا کو جنت الفردوس میں ٹھکانہ عطا فرمائے گا)۔ اور یہ بھی سوچا کہ مولانا کی روح جب پرواز کررہی تھی تو اس وقت بھی وہ اسی قسم کے الفاظ دہرارہے ہو ں گے :ذھب نفسی، ودفن جسدی وأرجو من اللہ ان یثبت اجری( میری روح پرواز کر گئی میرا جسم سپرد خاک ہوگیا امید ہے کہ میرا رب میرے حق میں بہتر فیصلہ فرما ئے گا)۔ گویا مولانا کی سادہ زندگی معرفت کی راہ کا "روزہ" تھا، موت ان کے لیےرفیق اعلی سے ملاقات کا"افطار" بن گئی۔
حقیقت کی تلاش اور حقائق کی یافت کی خاطر ان کی ہڈیاں چٹخ گئیں اور رگوں کا خون خشک ہوگیا ، پوری امید ہےکہ برزخ کی زندگی میں خدا نےانھیں ضرور تروتازہ رکھا ہوگا، اوراجر عظیم کا فیصلہ کیا ہوگا جس کی رضا کی خاطرمولانا نے لوگوں کی ناراضگی کو برداشت کیا ۔حقیقت یہ ہے کہ معرفت والا دین غائب ہو جائے اور رسمی عبادت باقی رہ جائے تو از سر نو روحِ عبادت کو ڈسکور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں نے یہی کام سر انجام دیا ہے۔
داعی کا مشن: خدا امید کا سرچشمہ ہے۔ایک سچے مومن کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس کی ساری زندگی اضطراب میں گزرتی ہو، مگر اس کا خاتمہ پرامید ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ’معلوم مقام‘ کی طرف جارہا ہوتاہے، یعنی آخرت اور خدا کی بنائی ہوئی ابدی جنت کی طرف۔ معرفتِ رب ہو یا معرفت ِآخرت، اس کی تذکیر کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ مگر شیطان غفلت میں مبتلا کردیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ جوانوں کا موضوع نہیں، بوڑھے لوگوں کا موضوع ہے۔کیوں وہ لوگ زندگی سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔انسان کی یہی سب سے بڑی نادانی اور سرکشی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ موت کی یاد اور اس کے لیے تیا ری کا چرچا آج کل بہت کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی داعی یا مربی معرفت ِرب یا فکر ِآخرت کی یاددہانی کراتا ہے تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے ۔ آخرت کے علاوہ بقیہ سارے موضوعات سے ہردن روز نامچے یا اخبار ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ مگر خدا کے منصوبۂ تخلیق کےمطابق، اصل تیاری آخرت کی ہے۔ جس کے لیےخالق نے اہتمام کے ساتھ انبیاء کرام کو منتخب کیا تھا۔ قرآن میں ہے:إِنَّآ ‌أَخۡلَصۡنَٰہُم بِخَالِصَةٖ ذِکۡرَى ٱلدَّارِ (38:46)۔ بے شک ہم نے ان کو ایک خاص بات کے ساتھ مخصوص کیا تھا کہ وہ آخرت کی یاد دہانی ہے ۔
چنانچہ آخرت داعی کاخاص موضوع ہوتا ہے۔ مسائلِ دنیا تو غیر داعی کا موضوع ہے، مگر مسائل آخرت صرف ایک نبی اور ان کے بعدان کے ماننے والےداعی کا موضوع ہواکرتا ہے۔یقیناً مولانا کی ہر بات آخرت رخی تھی۔ ان کی مجلسوں ، ٹیلفونک گفتگو اوران کی کتابوں سے میں نے یہی پایا ہے۔وہ معرفت اورآخرت کے داعی بن کر دنیا میں رہے اور اسی حالت میں وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے آخری حد تک اپنی صلاحیتوں کی قربانی دی ۔ انھوں نےاللہ کی عبادت کو مقصد اور اس کی طرف بلانے کو اپنا مشن بنایا، ان کی ساری تحریروں کو اسی نقطہ نظر کے تحت سمجھا جاسکتا ہے ۔ (مولانا سید اقبال احمد عمری، عمرآباد)
واپس اوپر جائیں

تعارفِ کتب

تربیت اولاد
ایک حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ "کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو سب سے عمدہ وراثت اچھا ادب سکھانا ہے" (المعجم الاوسط، حدیث نمبر3658)۔کہتے ہیں کہ گھر بچہ کا پہلا مدرسہ (اسکول) ہوتا ہے۔ جہاں وہ سب سے پہلے اپنے والدین، گھر کے ماحول اور گھر کے باقی افراد سے غیر رسمی طور پر بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اور بچہ کی پرورش، نمو اور تربیت کا یہی وہ اہم ترین دور ہوتا ہے جس میں ہر سکھائی یا سیکھی گئی بات (چاہے وہ صحیح ہو یا غلط) بچہ کے دل ودماغ میں نقش ہو جاتی ہے اور عملی طور پر زندگی بھر وہ اس کو یاد رکھتا ہے۔
یعنی اگر گھر کا ماحول بہتر ہوگا تو بچہ کی پرورش اور تربیت بھی بہت صحیح انداز میں ہوگی۔ ظاہر ہے گھر کا ماحول والدین کی بہتر سوچ اور عمل سے ہی بہتر ہو سکتا ہے۔ اگر والدین کو خود تربیت کی ضرورت ہو تو وہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کر پائیں گے۔ اس لیے کہ تربیت یافتہ ہی دوسروں کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں۔ اور یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ والدین کی اکثریت یہی سوچتی اور سمجھتی ہے کہ بچے کی تربیت اسکول، مدرسہ، کالج یا یونیورسٹی کرتی ہے۔ ان کی ساری امیدیں اور امنگیں ان رسمی تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوتی ہیں، وہ بچے کی پہلی درسگاہ (گھر) کوکوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ایسے لوگ پھر بچوں کے بگاڑ کے ذمہ دار بھی ان تعلیمی اداروں کو ٹھہراتے ہیں۔
تربیتِ اولاد کے موضوع پر بہت ساری کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے ہیں ان کو بے شک پڑھیں لیکن 80 صفحات پر مشتمل زیرِ تبصرہ کتاب "تربیت اولاد" اس موضوع پر مختصر مگر ایک جامع اور شاندار کتاب ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس کے مصنف کی علمی و فکری شخصیت سے کیا جا سکتا ہے، جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ نہ صرف سنجیدہ والدین کو بلکہ علم و دانش سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والے ہر فرد کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہ کتاب معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے۔ فرد بدلے گا تو خاندان بدلیں گے اور اس طرح معاشرہ بہتر سے بہترین کی طرف سفر کرے گا۔ یقیناً آپ احباب نے اس موضوع پراب تک کئی کتابیں پڑھی ہوں گی لیکن ایک موقع اس چھوٹی سی کتاب کو بھی دیجیے جو ہماری نسلوں کی بقا جیسے اہم مقصد کے تحت لکھی گئی ہے۔
کتاب کےصفحہ 11 کا ایک پیراگراف ملاحظہ کیجیے:"آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طور پر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کر سکیں۔ وہ اپنے بچوں کو "ٹی وی کلچر" کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر" ۔ (طاہر حجازی، کراچی، پاکستان)۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
مذہب اور جدید چیلنج
موجودہ دور میں الحاد (Atheism) کا نظریہ پھیل رہا ہے۔ موجودہ الحاد سائنس اور فلسفے کے جلو میں نمودار ہوا ہے جس نے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کیا ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ الحادی فکر سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ صراحتاً خدا کے وجود کے منکر نہیں بنے لیکن تشکیک (agnosticism) میں ضرور مبتلا ہوئے۔ موجودہ سائنسی علوم کا ارتقا جن شخصیات کے ہاتھوں ہوا وہ یا تو خدا کے وجود کے منکر تھے یا متشکک (agnostic)۔ لہٰذا وقت کی بڑی اہم ضرورت تھی کہ موجودہ الحادی فکر کو سائنس کی روشنی میں ردّ کیا جائے اور سائنس سے خدا کے وجود کا اثبات کیا جائے۔ مولانا وحید الدین خان صاحب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور سائنسی مسلّمات کی روشنی میں الحادی فکر کا ردّ کیا۔ مولانا چونکہ انگریزی زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے، لہٰذا انہوں نے سائنسی اور الحادی مواد کا اصل سورس سے مطالعہ کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ الحاد کا ایسا ردّ سائنس کی روشنی میں کسی اور شخصیت نے نہیں کیا جیسا انہوں نے کیا۔اس ضمن میں ان کی اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
1۔مذہب اور سائنس 2۔ مذہب اور جدید چیلنج،
3۔عقلیاتِ اسلام 4۔خدا کی دریافت: سائنسی حقائق کی روشنی میں۔
دینی مدارس کے طلبہ و علما کو ان کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہ کتابیں سی پی ایس انٹرنیشنل کی ویب سائٹ (www.cpsglobal.org/books)پر بھی موجود ہیں ۔( ڈاکٹر فرخ نوید ،پاکستان)
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 278

1۔ میں نے مولانا صاحب سے کیا سیکھا: مولانا وحیدالدین خاں صاحب سے میں نے وہ سب سیکھا جو کسی اور سے نہ سیکھا۔مولانا صاحب جیسی ہستی سےکاش بہت پہلے ہی تعارف ہوجاتا تو تعصبات اور فرقہ واریت اور مذہبی ظاہر پرستی میں اپنے قیمتی ایام ضائع نہ کرتا۔خیر اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ اس نے مولانا وحیدالدین خاں کی شکل میں عظیم رہنما اور غیر معمولی شخصیت سے ملاقات کروا دی۔ مولانا صاحب کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اصحاب رسول اور انبیاء کرام کا خشیت الٰہی اور معرفت کا کتنا عظیم لیول ہوگا۔مولانا صاحب کے بارے میں سب سے پہلے جناب ابویحییٰ صاحب (ادارہ انذار)نے بتایا تھا۔اس کے بعدمیںنے مولانا کی پہلی تقریر انٹرنیٹ پر سنی اور پہلی کتاب 2017 میں پڑھی۔ پھرمولانا کے ہی ہو کر رہ گئے۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مولانا کو میری زندگی میں شامل کر دیا۔
میں لفظوں میں کیسے بتاؤں کہ مولانا صاحب نے میری زندگی میںکیا تبدیلی پیدا کی ہے۔ مولانا کی بدولت— دین کی اصل روح اور حقیقت سے آشنائی ہوئی ثمثبت انداز فکر اور معرفت الٰہی کو سمجھنے میں مدد ملیثزندگی کی بے ثباتی اور موت کی حقیقت آشکار ہوئی ثعام مذہبی فکر سے اعراض اور اصل اسلام کی پہچان ہوئی ثقرآن سے تعلق اور اس کو بنیادی اور مرکزی حیثیت دینے میں مدد ملی ثاس حقیقت کا ادراک ہوا کہ ایمان و اخلاق اور تزکیہ نفس ہی نجات کا اصل ذریعہ ہے ثمالک کے تخلیقی منصوبہ کا فہم حاصل ہوا ثصبر و شکر کی اہمیت اور اصل روح سے آشنائی ہوئی ثانفس و آفاق کی نشانیوں اور کائنات میں تدبر اور تفکر کرنا پیدا ہوا ثمالک کائنات کی کبریائی اور عظمت کا ادراک ہوا۔خواہش تھی کہ آپ جب کبھی پاکستان آئے تو ضرور ملاقات کا شرف حاصل کروں گا لیکن اس فانی دنیا میں یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ان شاءاللہ رب العالمین جنت میں یہ موقع ضرور دے گا۔(طارق سلیم، گورنمنٹ ہائی سکول،ضلع پاک پٹن)
2۔ 3 مئی 2022 کو سی پی ایس سہارن پور نے اپنے سینٹر پیس ہال میں عید ملن پروگرام کا انعقاد کیا تھا، جس میں سماجی اور سیاسی اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔ ان تمام لوگوں کو سہارن پور ٹیم کی جانب سے بطور عید گفٹ دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ اسی طرح 25 مئی 2022 دہلی لیلا پیلیس میں ڈاکٹر اسلم کو امن و شانتی کے میدان میں کام کرنے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایوارڈ دینے کے لیے مرکزی وزیر مسٹر انوراگ ٹھاکر آئے تھے۔ ان کو اور دوسرے مہمانوں کو دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا، اور کتابیں پڑھنے کا وعدہ کیا۔
3۔کتاب میلہ (Book Fair) حصولِ علم و معلومات کا وسیلہ ہے۔یہاں پر علم اور مطالعہ سےدلچسپی رکھنے والے لوگ آتے ہیں۔ اس لیے مولانا وحید الدین خاں صاحب ہمیشہ سی پی ایس ٹیم کوبک فئر میں شرکت پر ابھارا کرتے تھے۔اس کا نتیجہ ہے کہ سی پی ایس انٹرنیشنل ہمیشہ نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر منعقد ہونے والے بک فئر میں شریک ہوتا رہا ہے۔ مثلا 3-6 نومبر 2021 کو شارجہ میں انٹرنیشنل بک فئر لگا تو اس میں گڈورڈ بکس نے شرکت کی۔
چنئی بک فئر: مولانا اسرار الحسن عمری (چنئی)کے مطابق، چنئی بپاسی (BAPASI) کے زیرِ اہتمام منعقد 45 واں بک فئر 16فروری 2022 کو شروع ہوا اور 6 مارچ 2022 کو اختتام پذیر ہوا۔ اس بک فئر میں چنئی گڈورڈ تقریباً دس سالوں سے حصہ لے رہا ہے۔ اس بار گڈورڈ کو چنئی BAPASI کی ممبرشپ بھی حاصل ہو گئی ہے۔ اس سال بک فئر میں تقریباً آٹھ سوپبلشرز نے حصہ لیا۔ بک فئرآنے والی پبلک کی تعداد پندرہ لاکھ تک بتائی جارہی ہے۔ اس بک فئر سے پتا چلا کہ جہاں لوگوں میںڈیجیٹل کتابوں کا رجحان بڑھا ہے، وہیںلوگوں کی کثیر تعداد ہارڈ کاپی میں مطالعہ کرنا پسند کرتی ہے۔ اس مرتبہ سی پی ایس چنئی نے تمل زبان میں دو کتابیں ریلیز کیں: تمل ترجمۂ قرآن کا روائزڈ ایڈیشن اور گاڈ ارائزز کا تمل ترجمہ۔ پبلک نے دونوں کتابوں کو بہت پسند کیا۔ بہت سے لوگوں کو ہم نے یہ کتابیں بطور تحفہ بھی پیش کیں۔ اس سال ہمارے اسٹال پر جو لوگ آئے ان میں ایک معروف نام تامل اور ملیالم ٹی وی ایکٹریس مز شبانہ شاہجہاں ہیں۔ انھوں نے کچھ کتابیں خریدیں، مثلاً لیڈنگ اے اسپریچول لائف۔ اس کے علاوہ ان کو پرافٹ آف پیس بطور تحفہ دی گئی۔ اس کتاب میلے سے یہ احساس بڑھا کہ الرسالہ مشن کی تمام کتابوں کا تمل ترجمہ ہم کو جلداز جلد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
لکھنؤ بک فئر:سی پی ایس ٹیم نے لکھنؤ بک فئر (23rd Sep to 2nd Oct 2022) میں شرکت کی۔ مولانا سید اقبال عمری (چنئی)، خطیب اسرار الحسن عمری (چنئی)اور مسٹر آصف خان (کانپور) اسٹال کا انتظام سنبھالا۔ یہاں بھی کافی تعداد میں پبلک نے اسٹال وزٹ کیا، اور قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر لے کر گئے۔یہاں انگریزی کتابوں کی بہت ڈیمانڈ تھی۔اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر ہونے والے بک فئر میں سی پی ایس انٹرنیشنل کی مختلف ٹیموں نے حصہ لیا۔ مثلاً سی پی ایس پاکستان نے پاکستان کے اندر جن بک فئر میں حصہ لیا، وہ یہ ہیں:اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی بک فئر اسلام آباد (14-18 دسمبر 2021)، جی سی یونیورسٹی بک فئر (20-23 دسمبر 2021)، انٹرنیشنل بک فئر کراچی (30 Dec'21 to 3 Jan'22)، پریمیر بک فئر لاہور (11-13 مارچ 2022)، فیصل آباد اگریکلچر یونیورسٹی بک فئر (27-31 مارچ 2022)، لاہور بک فئر (12-15 مئی 2022)، بک فئر مجلس ترقی ادب، لاہور (11-14 اگست 2022)۔اس کے علاوہ ایریزونا (یو ایس) میں 11-13 مارچ 2022 کو ایک بک فئر لگا۔ اس میں سی پی ایس امریکا نے شرکت کی۔ ان تمام بک فئرمیں آنے والے لوگوں کو جن موضوعات پر کتابیں تقسیم کی گئیں ، وہ ہیں معرفت خدا، امن عالم اور دعوت الی اللہ، وغیرہ۔
4. I am, Muhammad Sohaib From England, and I am a Physiotherapist here. Every day I watch Maulana Wahiduddin khan's videos. I learned many things. Please upload the video at least once a week, and your Background Islamic tone is very effective and heart-touching. Please include this background tone in every Video. Thanks
5. I pray for you and send my best wishes regarding this magnificent deed of Tableegh e Deen. Undoubtedly the youngsters of today direly need to understand the Almighty's message, the Quran, through the books of Maulana Waheedudin Khan. (Muhammad Rafique [qrafi*****@yahoo.com])
واپس اوپر جائیں