Pages

Thursday 2 December 2010

Alrisala December 2010 (الرسالہ دسمبر)

2

-قرآن میں تدبر

3

- شعورِ فطرت، وجودِخدا

4

- ہر چیز عارضی

5

- جنت کا تعارف

6

- دورِ زوال کا ظاہرہ

7

- سکنڈری رول

8

- حج کا فائدہ

10

- ذکر ِ کثیر

11

- بولنے پر کنٹرول

12

- مذہبی آزادی کا دور

13

- مطالعہ قرآن کی اہمیت

14

- بعد کے زمانے کا فتنہ

15

- شیطان کا پردہ

16

- قیامت کی ایک نشانی

17

- بعثت ِ نبوی اور قیامت

21

- معرفت کی پہچان

22

- انوکھی تخلیق

23

- قرآن کے انگریزی تراجم

24

- فکری انقلاب کی ضرورت

25

- بابری مسجد کا مسئلہ

30

- غیر دعوتی ذہن

31

- جذباتی قیادت

32

- نظریۂ ارتقاء پر شبہات

33

- خاتمۂ تاریخ کا الارم

34

- قیامت قریب آگئی

35

- سننے کی عادت ڈالیے

36

- نادانی کی چھلانگ

37

- خودکشی حرام کیوں

38

- ڈکشنری کافی نہیں

39

- سوال وجواب

39

- خبر نامہ اسلامی مرکز


قرآن میں تدبر

قرآن کی سورہ ص میں نزولِ قرآن کا مقصد بتاتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ: یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں (38: 29)۔
تدبر سے کیا مراد ہے۔ تدبر کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آپ اس کو دھیان کے ساتھ پڑھیں اور اس کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے اس کی تلاوت کریں۔ یہ طریقہ بھی بلاشبہہ مفیدہے، لیکن قرآن کے اعلیٰ معانی تک رسائی کے لیے یہ طریقہ کافی نہیں۔
قرآن میں تدبر کے بنیادی طورپر دو پہلو ہیں— غور وفکر، اور دعا۔ غوروفکر کیا ہے، اس کو میں نے ایک واقعہ سے سمجھا۔ ایک بار میری ملاقات ایک مسلم ادیب سے ہوئی۔ اُن کے ساتھ مجھے کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں غالب کا عاشق ہوں‘‘۔ میںنے پایا کہ وہ غالب کے اشعار کے نہایت گہرے معانی بتاتے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ غالب کے دیوان کو صرف پڑھتے نہیں، بلکہ وہ اسی میں جیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں، ’’غالب کے اشعار ہر وقت میرے ذہن میں گھومتے رہتے ہیں‘‘۔
یہی تدبر ہے۔ تدبر کا مطلب صرف یہ نہیں کہ تلاوت کے وقت قرآن کے معانی پر دھیان دیتے ہوئے اس کی تلاوت کریں۔ تدبر یہ ہے کہ قرآن آپ کے دماغ پر چھایا ہوا ہو۔ قرآن کی آیتیں ہر وقت آپ کے ذہن میں گھومتی رہیں۔ آپ قرآن کی آیتوں کو لے کر سوئیں اور قرآن کی آیتوں کے ساتھ جاگیں۔ قرآن سے اِس طرح کے فکری تعلق پیدا ہوجانے کا نام تدبر ہے۔ تدبر کی دوسری لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی برابر اللہ سے دعا کرتا رہے ۔ دعا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’’رب زدنی علماً‘‘ جیسے الفاظ اپنی زبان سے دہراتے رہیں۔ دعا کا آغاز اپنے عجز کی دریافت سے ہوتا ہے۔ جس آدمی نے دریافت کے درجے میں اپنے عجز کو نہیں جانا،وہ گویا کہ اللہ سے دعا کرنے کا اہل بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

شعورِ فطرت، وجودِخدا

قرآن کی سورہ الذاریات میں ارشاد ہوا ہے: ومن کل شییٔ خلقنا زوجین، لعلکم تذکرون (51: 49)یعنی خالق نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے، تاکہ تم اس سے سبق لو۔ اِس آیت کے مختلف پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو خود خالق کی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس اصول کی رہنمائی میں غور کیا جائے تووہ آدمی کے لیے خدا کے وجود پر ایمان کا ذریعہ بن جائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر آدمی اپنے اندر ایک اعلیٰ حقیقت کو پانے کا بے پناہ جذبہ رکھتا ہے۔ ہر انسان اِس اعتبارسے ایک متلاشی (seeker) انسان ہے۔ جب انسان کی تلاش کامیاب ہوتی ہے اور وہ خدا کی دریافت کرتا ہے تو اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی فطری تلاش کا جواب پالیا۔ اِس اعتبار سے، فطرت کا شعور گویا کہ داخلی حصہ (part)ہے اور خدا کا وجود اس کا خارجی مثنی (counter part)۔ یہی خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
خدا کے وجود پر بہت سے فلسفیانہ دلائل اور سائنسی دلائل موجود ہیں۔ یہ دلائل صرف پچاس فی صدکی حد تک کام کرتے ہیں۔ یہ دلائل خدا کے وجود پر صرف عقلی قرینہ (rational probability) فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یقین والا ایمان کسی آدمی کو صرف اُس وقت حاصل ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنے شعور کی سطح پر خدا کو پالے۔ عقلی دلائل آدمی کو امکان (probability) تک پہنچاتے ہیں اور آدمی کا داخلی شعور اس کو یقین (conviction) عطا کرتا ہے۔
فطری شعور کی سطح پر خدا کو پانا ایسا ہی ہے جیسے ایک چھوٹا بچہ جدائی کے بعد اپنی ماں کو پالے۔ اُس وقت بچے کو بلاشبہہ یہ یقین ہوتا ہے کہ یہی خاتون میری ماں ہے۔ لیکن اُس کے اِس یقین کی بنیاد کسی عقلی تجزیہ پر نہیں ہوتی، بلکہ داخلی شعور کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جس شخص نے خدا کو اپنے داخلی شعور کی سطح پرپایا، وہی دراصل خود کو پانے والا ہے۔ حقیقی ایمان وہ ہے جو داخلی یقین سے حاصل ہو ۔ صرف عقلی دلیل کے ذریعے حاصل ہونے والا ایمان مطلوب ایمان نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر چیز عارضی

قرآن کی سورہ الفجر میں بتایا گیا ہے کہ جب کسی انسان کو کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ اس کو اکرام کے معنی میں لے لیتا ہے۔وہ اپنے آپ کو ایک باعزت انسان سمجھنے لگتا ہے (89:15) ۔ اس احساس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر فخر اور بڑائی اور سرکشی کامزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اُس سب سے زیادہ قابلِ قدر چیز کو کھو دیتا ہے جس کو تواضع (modesty) کہا جاتا ہے۔
کسی نعمت کو پاکر اس قسم کا غیر مطلوب ذہن کیوں بنتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی اس نعمت کو مستقل (permanent) سمجھ لیتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ نعمت جو مجھ کو ملی ہے، وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔اِس دنیا میں انسان کو مختلف قسم کی نعمتیں دی جاتی ہیں۔ مثلاً صحت، جوانی، دولت، اقتدار، عزت وغیرہ۔ یہ تمام نعمتیں ہر شخص کے لیے صرف وقتی ہیں۔ اگر آدمی اِن نعمتوں کو صرف وقتی سمجھے تو کبھی اس کے مزاج میں بگاڑ نہ آئے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جب بھی اس کو کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ اس کو شعوری یا غیر شعوری طورپر ابدی سمجھ لیتا ہے۔ یہی بگاڑ کی اصل جڑ ہے۔
نعمت کو وقتی سمجھنا، اِس معاملے میں ایک چیک (check) کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب آدمی ایک نعمت کو وقتی سمجھے تو وہ اِس اندیشے میں مبتلا رہے گا کہ کچھ نہیں معلوم کہ کب اس سے یہ نعمت چھن جائے۔ زوالِ نعمت کا یہ احساس آدمی کے اندر فخر اور گھمنڈ کا مزاج پیدا ہونے نہیں دیتا۔ زوالِ نعمت کا احساس اس کو ہمیشہ کٹ ٹو سائز (cut to size) بنائے رہتا ہے۔ اس کا حال یہ ہوجاتاہے کہ وہ آج کے لیے اللہ کا شکر ادا کرتاہے اور کل کے لیے وہ خدا سے عافیت کا طلب گار بنا رہتا ہے۔ اِس کے برعکس، جس آدمی کے اندر یہ احساس پیدا ہوجائے کہ اس کو جو نعمت ملی ہے، وہ اس کو ہمیشہ حاصل رہے گی، اس کا یہ احساس اس کے اندر اکڑ کا مزاج پیدا کردے گا۔ وہ اپنے آپ کو مصنوعی طورپر بڑا سمجھنے لگے گا۔ اس کا یہ مزاج صرف اُس وقت ختم ہوگا جب کہ اس کو ملی ہوئی نعمت اس سے چھن جائے اور اس کے پاس اکڑ کے لیے کچھ بھی باقی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا تعارف

قرآن کی سورہ نمبر السجدہ میں ارشاد ہواہے: فلا تعلم نفس ما أخفی لہم من قرّۃ أعین جزائً بما کانوا یعملون (21: 17)یعنی کسی کو خبر نہیں کہ اِن لوگوں کے لیے آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔
اس آیت کے مطابق، جنت اِس دنیا میں ایک لا معلوم چیز ہے۔ لیکن قرآن کی ایک اور آیت میں کہاگیا ہے : یدخلہم الجنۃ عرّفہا لہم (47: 6)یعنی خدا ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اُنھیں پہچان کرا دی ہے۔ دوسری آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی پہچان اِسی دنیا میں ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں دونوں آیتوںکے درمیان تطبیق کی صورت کیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ پہلی آیت میں جنت کی عملی یافت کو بتایا گیا ہے اور دوسری آیت میں جنت کی فکری دریافت کا بیان ہے۔ جنت بلا شبہہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے صرف آخرت میں معلوم ہوگی، لیکن موجودہ دنیا میں انسان جنت کو بالقوہ طور پر (in terms of potential) جان لیتا ہے، اور آخرت میں وہ جنت کو بالفعل طورپر (in terms of actual) حاصل کرلے گا۔
جو انسان جنت کے بارے میں حساس ہو، جو خدا کے تخلیقی نقشہ پر غور کرتا ہو، جو دنیا اور آخرت کی حکمتوں میں تدبر کرتا ہو، وہ اِسی دنیا میں جنت کی جھلک کو پالیتاہے۔ وہ اِس حقیقت کو دریافت کرلیتا ہے کہ موجودہ دنیا اِس انداز میں بنائی گئی ہے کہ وہ جنت کا تعارف بن گئی ہے۔
آخرت کی جنت ایک کامل (perfect) جنت ہے اور موجودہ دنیا گویا کہ غیر کامل (imperfect)جنت۔ آخرت کی جنت میںآدمی جن آسائشوں کو اپنی آئیڈیل صورت میں پائے گا، اُن آسائشوں کا تجربہ اس کو اِسی دنیا میں آئڈیل سے کم تر درجے میں ہوجاتا ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ آخرت کی جنت ابدی جنت ہے اورموجودہ دنیا اس کا صرف وقتی اور جزئی تعارف۔
واپس اوپر جائیں

دورِ زوال کا ظاہرہ

قرآن کی سورہ الحشر میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فأنساہم أنفسہم، أولئک ہم الفاسقون (59: 19) یعنی تم اُن لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنھوں نے اللہ کو بھلا دیا، تو اللہ نے بھلا دئے اُن کو خود اُن کے نفس۔ یہی لوگ ہیں نافرمان:
(Believers!) Do not be like those who forgot God, so that He caused them to forget themselves.
اِس آیت میں اُس قانون کو بیان کیا گیا ہے جو اہلِ کتاب گروہ سے متعلق ہے۔ اِس میں اہلِ اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ تم یہود جیسے نہ ہو جانا،ورنہ تمھارا انجام بھی یہود جیسا ہوگا، یعنی خدا کے احکام سے غفلت کے نتیجے میں خود اپنے بارے میں فراموشی میں مبتلا ہوجانا۔
اِس آیت میں مخصوص قرآنی اسلوب میں اُس واقعے کو بتایا گیا ہے جس کو دوسرے الفاظ میں زوال (degeneration) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب کوئی اہلِ کتاب گروہ اپنے بعد کے زمانے میں زوال کا شکار ہوتا ہے تو اُ س کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ حقیقی دینی اسپرٹ سے خالی ہوجاتا ہے۔ ابتدائی دور میں اس کا دین خوفِ خدا پر مبنی ہوتا ہے، لیکن دورِ زوال میں اس کا دین عملاً قومی فخر (pride) کے ہم معنیٰ بن جاتا ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ دورِ زوال میں پیدا ہونے والے اِسی قومی فخر کا معاملہ ہے۔
ایک سیکولر گروہ کی قومی پالیسی عقل (reason)پر مبنی ہوتی ہے۔ اِس کے برعکس، زوال یافتہ اہلِ کتاب کی پالیسی قومی فخر پر۔ فخر کی اِس نفسیات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا گروہ عقلی غور وفکر اور حقیقت پسندانہ مزاج سے محروم ہوجاتا ہے۔ عام سیکولر گروہ اپنی عقلیت کی بنا پر اپنی دنیا کو درست کرسکتا ہے، لیکن زوال یافتہ اہلِ کتاب اپنے فخر پسندی کے مزاج کی بناپر اپنی دنیا کے بارے میں بھی صحیح رویّے سے محروم ہوجاتے ہیں اور نتیجتاً وہ خَسِرَ الدنیا والآخرۃ کا مصداق بن جاتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

سکنڈری رول

قرآن کی سورہ الزخرف میں فطرت کا ایک قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ورفعنا بعضہم فوق بعض درجاتٍ، لیتّخذ بعضُہم بعضاً سُخریّاً (43: 32)یعنی ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔
قرآن کی اِس آیت میں سادہ طورپر طبقاتی تفاوت یا طبقاتی امتیاز کی بات نہیں کہی گئی ہے، بلکہ اِس آیت میں طبقاتی حکمت کی بات کہی گئی ہے۔ اِس دنیا میں کوئی بڑا کام صرف اجتماعی کوشش سے ہوسکتا ہے، اور اجتماعی کوشش مفید طورپر صرف اُس وقت وجود میں آتی ہے، جب کہ افرادِ اجتماع کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر بنانے پر پوری طرح راضی ہوجائیں۔ اجتماعی کوشش نام ہے— لیڈر کا ماتحت بن کر کوشش کرنے کا۔ جو لوگ اِس اصول پر راضی نہ ہوں، وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے۔
قرآن کی اِس آیت سے سکنڈری رول (secondary role) کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اگر ایک سو آدمیوں کا اجتماع ہے تو اس میں 99 لوگوں کو سکنڈری رول پر راضی ہونا پڑتا ہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک شخص لیڈر بن کر اپنا قائدانہ رول ادا کرسکے۔ اِس اصول کا مظاہرہ روزانہ نمازِ باجماعت کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ نماز باجماعت یہ پیغام دیتی ہے کہ— اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کھڑا کرکے سب کے سب بیک سیٹ (back seat) پر چلے جاؤ، ایک شخص کو امام بنا کر سب کے سب اس کے مقتدی بننے پر راضی ہوجاؤ۔
سکنڈری رول کا معاملہ صرف ایک عملی بندوبست کا معاملہ ہے۔ جہاں تک اہمیت کی بات ہے، سکنڈری رول کی اہمیت قائدانہ رول سے بھی زیادہ ہے۔ قائدانہ رول ادا کرنے والے کو اگر ایک کریڈٹ ملے گا تو سکنڈری رول ادا کرنے والے کو ڈبل کریڈٹ دیا جائے گا۔ کیوں کہ سکنڈری رول ادا کرنے والا شخص، اپنا رول ادا کرنے کے ساتھ مزید یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی انا کو قربان کردیتا ہے۔ انا کی قربانی کے بغیر سکنڈری رول کی ادائیگی ممکن نہیں، اور اناکی قربانی بلا شبہہ تمام قربانیوں میں سب سے بڑی قربانی ہے۔
واپس اوپر جائیں

حج کا فائدہ

صحیح البخاری (کتاب الحج) کی ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن جب حج ادا کرکے اپنے گھر واپس لوٹتا ہے تو وہ اس دن کی طرح ہوجاتا ہے جب کہ اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا (رجع کیوم ولدتہ أمہ)۔
He returns after Hajj like a newborn child.
اِس حدیث کو سمجھنے کے لیے ایک اور حدیث کو دیکھئے۔ ایک اور روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہودی اور مجوسی اور نصرانی بنا دیتے ہیں(صحیح البخاری، کتاب الجنائز)
ان دونوں حدیثوں پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ حجکی عبادت اگر صحیح اسپرٹ کے ساتھ کی جائے تو وہ حاجی کے لیے وہی چیز بن جاتی ہے جس کو آج کل کی زبان میں ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کہا جاتاہے۔
اصل یہ ہے کہ اپنے ماحول کے اعتبار سے ہر آدمی کی کنڈیشننگ ہوتی رہتی ہے۔ حج کی عبادت اس کنڈیشننگ کو توڑنے کا ذریعہ ہے۔ حج ایک ایسا کورس ہے جو ہر آدمی کی کنڈیشننگ کو ختم کرکے اس کو دوبارہ اس کی اصل فطرت پر پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جو شخص اس سے پہلے مسٹر کنڈیشنڈ (Mr. conditioned) تھا، وہ اب مسٹر نیچر (Mr. nature) بن جاتاہے۔
حج کا یہ فائدہ صرف اس شخص کو ملتا ہے جو حج کی پوری اسپرٹ کے ساتھ حج کی عبادت انجام دے۔ جو آدمی صرف حج کے ظاہری مراسم ادا کرے، اس کے لیے حج صرف ایک آؤٹنگ (outing) ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
حج کے بعد
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں حج ادا فرمایا۔ اس موقع پر تمام صحابہ عرفات کے میدان میں اکھٹا ہوئے۔ یہاں آپ نے اونٹ پر بیٹھ کر ایک خطبہ دیا۔ یہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔اِس خطبہ میں آپ نے اپنے اصحاب (معاصر اہلِ ایمان) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: إن اللّٰہ بعثنی کافۃً للناس فأدوا عنی (اللہ نے مجھ کو تمام انسانوں کے لیے بھیجا ہے، تم میری طرف سے اس کو تمام لوگوں تک پہنچا دو)۔
اس کے بعد جو ہوا وہ یہ تھا کہ راوی کے بیان کے مطابق، جس صحابیٔ رسول کی سواری جس رخ پر کھڑی ہوئی تھی، اُسی رخ پر وہ روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد تمام لوگ دعوت الی اللہ کے پیغمبرانہ کام میں لگ گئے۔ انھوں نے اس وقت کی آباددنیا کے بڑے حصہ میں دین کا پیغام پہنچا دیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کا خاتمہ دراصل ایک نئے عمل کا آغاز ہے۔ جہاں حج کے مراسم ختم ہوتے ہیں، وہاں سے ایک اور زیادہ بڑا حج شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دعوت الی اللہ ہے۔ گویا کہ حج ایک ٹریننگ ہے اور دعوت الی اللہ اس ٹریننگ کا عملی استعمال۔
ایک حدیث کے مطابق، حج کے مراسم حضرت ابراہیم کی زندگی کے مختلف مراحل کا علامتی اعادہ ہیں۔ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی دعوت الی اللہ کی زندگی تھی۔ یہی طریقہ ہر مومن کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ مثلاً احرام کیا ہے۔ وہ سادہ زندگی کی علامت ہے۔ طواف سے مراد ڈیڈیکیشن (dedication) ہے۔ سعی اس بات کا پیغام ہے کہ مومن کی دوڑ دھوپ خدا کی طرف ہونی چاہیے۔ جانور کا ذبیحہ قربانی والی زندگی کی تعلیم ہے۔ رمی جمرات کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شیطان کو اپنے آپ سے دور بھگائے۔ لبیک لبیک کہتے ہوئے عرفات کے میدان میں پہنچنا خدا کے سامنے حاضری کو یاد دلاتا ہے، وغیرہ۔
حج بڑا حج ہے اور عمرہ چھوٹا حج۔ دونوں کا پیغام ایک ہے۔ شریعت کی یہ منشا نہیں کہ لوگ بار بار حج اور عمرہ کرتے رہیں۔ شریعت کی منشا یہ ہے کہ لوگ ایک بار حج اور عمرہ کرنے کے بعد اس کی اسپرٹ کے مطابق زندگی گزاریں اور اس کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچائیں۔
واپس اوپر جائیں

ذکر ِ کثیر

مچھلی پانی سے باہر خشکی میں ہوتو وہ مسلسل تڑپتی ہے۔ یہ تڑپنا اس کی حالتِ فطری کا ایک خود بخود اظہار ہوتا ہے۔ یہی معاملہ ذکر کثیر کا ہے۔ ذکر کثیر دراصل تجربۂ کثیر کے ایک اظہار کا نام ہے۔ مچھلی کی مثال میں یہ اظہار مجبورانہ تجربہ کے تحت ہوتا ہے۔ اِس کے برعکس، مومن کی زندگی میں یہ اظہار ایک تجربہ کی شعوری دریافت کی صورت میں پیش آتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کے مقابلے میں کامل طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ انسان کی بے شمار ضرورتیں ہیں۔ ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وہ ہر لمحہ خدا کی مدد کا محتاج ہوتا ہے۔ خدا کے مقابلے میں اس حیثیتِ عجز کی دریافت کے بعد فطری طورپر انسان ہر لمحہ خدا کی یاد میں جینے لگتا ہے۔ اِسی کا نام ذکر کثیر ہے، یعنی ایک مسلسل تجربہ کا ایک مسلسل یاد میں ڈھل جانا۔ ذکر کسی قسم کے لفظی تکرار کا نام نہیں، ذکر ایک مسلسل احساس کا مسلسل اظہار ہے۔
اگر کسی شخص کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو اس کے بعد وہ ہر لمحہ اس کے درد کو محسوس کرتا رہے گا۔ اِسی طرح انسان کو ہر لمحہ خدا کی کسی نہ کسی رحمت کا تجربہ ہوتا ہے۔ صبح وشام کا کوئی لمحہ بھی اِن تجربوں سے خالی نہیں ہوتا۔ جس آدمی کو خدا کی شعوری معرفت حاصل ہوجائے، وہ ہر لمحہ اِن ربانی تجربات کو محسوس کرتا رہے گا۔ یہ تجربہ ہر لمحہ خدا کی یاد میں ڈھلنے لگے گا۔ وہ اُسی کو لے کر سوچے گا، اسی کے مطابق احساسات اس کے اندر ابلیں گے، یہی تجربات اس کی زبان سے الفاظ بن کر ظاہر ہوتے رہیں گے۔ خدا کی اسی دوامی یاد کا نام ذکر کثیر ہے۔
جس آدمی کو ذکر کثیر کی توفیق حاصل ہوجائے، اس کو وہ سب سے بڑی چیز حاصل ہو گئی جو اِس قابل ہے کہ اِس دنیا میں آنے والا انسان اُس کو پائے اور ہر لمحہ وہ اپنے منعم کی یاد میں جینے لگے۔ خدا کی یادوں میں جینے والا انسان اپنے محسن کی یادوں میں جینے والا انسان ہے، اور کسی انسان کا سب سے بڑا شرف یہی ہے کہ وہ اپنے محسنِ حقیقی کی یادوں میں جینے والا انسان بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

بولنے پر کنٹرول

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِسراء کے سفر میں جزاوسزا کے معاملے کو تمثیل کے روپ میں دکھایا گیا۔ اُن میں سے ایک تمثیلی واقعہ یہ تھا: مرّ بثور عظیم یخرج من ثقب صغیر یرید أن یرجع فلا یستطیع۔ قال: ہذا الرجل یتکلم بالکلمۃ فیندم فیرید أن یردہا فلا یستطیع۔ (رواہ الطبرانی والبزّار، بحوالہ فتح الباری، جلد 7، صفحہ 63، باب حدیث الإسراء) یعنی معراج کے دوران رسول اللہ ایک عظیم الجثہ بیل کے پاس سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ایک چھوٹے سوراخ سے نکلتا ہے، پھروہ چاہتا ہے کہ وہ واپس جائے، مگر وہ واپس نہیں جاسکتا۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ اُس انسان کی مثال ہے جو ایک بات کہتا ہے، پھر اس پر شرمندہ ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واپس لے لے، مگر وہ اس کو واپس لینے پر قادر نہیںہوتا۔
یہ اُس انسان کی مثال ہے جو غیر ذمے دارانہ طورپر کسی کے خلاف ایک منفی بات کہہ دیتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ اس کی منفی بات سے ایک بڑا فتنہ پیدا ہوگیا ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واپس لے، مگر وہ اس پر قادر نہیں ہوتا۔ اس کی منفی بات ایک فتنے کو جگا دیتی ہے۔ وہ ایک ایسے فتنے کا باعث بن جاتی ہے جس کو کہنے والے نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
اِس حدیث کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کو بولنے کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ اگر آدمی کوئی مثبت بات بولے تو اس میں کسی فتنے کا اندیشہ نہیں ہے۔
لیکن منفی بات کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ منفی بات ہمیشہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور پھیلنے کے وقت اس میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ابتدا میں وہ بظاہر ایک چھوٹی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن لوگوں کے درمیان پھیلنے کے بعد وہ نہایت سنگین صورتِ حال اختیار کر لیتی ہے، یہاں تک کہ آخر کار اس کے نتیجے میں نفرت اور تشدد کا جنگل اگ آتا ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کے اوپر فرض ہے کہ وہ نتیجہ (result)سے پہلے سوچے، وہ بولنے سے پہلے اس کے نتیجے پر غور کرے۔
واپس اوپر جائیں

مذہبی آزادی کا دور

خباب بن الاَرتّ ایک مشہور صحابی ہیں۔ 37 ہجری میں 73 سال کی عمر میں کوفہ (عراق) میںان کا انتقال ہوا۔ مکی دور کے آخر کا واقعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت کعبہ کے سائے میں ایک کمبل کے تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے آپ سے کہا: اے خدا کے رسول، کیا آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا نہیں کرتے۔ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ آپ نے فرمایا: تم سے پہلے کی امتوں کا یہ حال تھا کہ ان کے اوپر لوہے کی کنگھی کی جاتی تھی جو اُن کے گوشت سے گزر کر ان کی ہڈیوں تک پہنچ جاتی تھی، مگر یہ چیز ان کو ان کے دین سے پھیرتی نہیں تھی۔ اِسی طرح اُن کے سر پر آرا چلایا جاتا تھا جو اُن کے جسم کے دو ٹکڑے کردیتا تھا، مگر یہ چیز ان کو ان کے دین سے پھیرتی نہیں تھی۔ اور اللہ اس امر کو ضرورپورا کرے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور چیز کا خوف نہ ہوگا (لیتمّنّ اللہ ہذا الأمر حتی یسیر الراکب من صَنعاء إلی حضر موت، ما یخاف إلاّ اللہ) صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار۔
اِس حدیث میں در اصل تاریخِ دعوت کے دو دور کو بتایا گیا ہے، پہلا دور وہ ہے جب کہ دعوت الی اللہ کا کام مذہبی تعذیب (religious persecution) کے حالات میں ہوتا تھا۔ دوسرا دور وہ ہے جب کہ یہ ممکن ہوجائے گا کہ دعوت الی اللہ کا کام مذہبی آزادی (religious freedom) کے حالات میں انجام دیا جانے لگے۔ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ ساتویں صدی عیسوی میں جو انقلابی عمل شروع ہوا، وہ دونوں کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ انقلابی عمل (revolutionary process) اب اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ اب پوری طرح یہ ممکن ہوگیا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام پوری آزادی کے ساتھ کسی روک ٹوک کے بغیر انجام دیا جاسکے، صرف اِس واحد شرط کے ساتھ کہ داعی، تشدد (violence) سے مکمل طورپر پرہیز کرے، وہ کامل طورپر پر امن طریقِ کار پر قائم رہے۔ یہ تبدیلی اب پیشین گوئی نہیں ہے، بلکہ وہ اب پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔
واپس اوپر جائیں

مطالعہ قرآن کی اہمیت

عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما: من قرأ القرآن لم یُرَدّ إلی أرذل العمر( صحیح الترغیب للألبانی، رقم الحدیث: 1435 )یعنی جس نے قرآن کو پڑھا، وہ کبھی ناکارہ عمر تک نہیں پہنچے گا۔
اِس حدیث میں قرآن پڑھنے سے مراد قرآن کا مطالعہ ہے۔ جو آدمی قرآن کا گہرا مطالعہ کرے گا، اس کو قرآن سے مسلسل فکری غذا (intellectual food) ملتی رہے گی۔یہ فکری غذا آدمی کو مسلسل توانائی دیتی رہے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ناکارہ عمر (abject old age) تک نہیں پہنچے گا۔ اس کا ذہن مسلسل طورپر بیدار اور متحرک (active) رہے گا۔ ایسے آدمی کا جسم بوڑھا ہوگا، لیکن اس کا دماغ کبھی بوڑھا نہیں ہوسکے گا۔
ریسرچ کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ انسان کے جسم اور دماغ میں ایک فرق ہے۔ خالص حیاتیاتی اعتبار سے جسم پر بڑھاپا آتا ہے، لیکن دماغ یا برین (brain)پر بڑھاپا نہیں آتا۔ کوئی آدمی اگر اپنے دماغ کو منفی سوچ (negative thinking سے بچائے ، وہ مکمل طورپر اس کو مثبت سوچ (positive thinking) کا حامل بنائے تو اس کے دماغ پر بڑھاپا نہیں آئے گا۔ کوئی شخص قرآن کا گہرامطالعہ کرے تو اس کو ہر دن قرآن سے تخلیقی افکار کی غذا ملتی رہے گی۔اس کو کبھی ذہنی فاقہ (intellectual starvation) کا تجربہ نہیں ہوگا۔ اس کا دماغ مسلسل طورپر سرگرم رہے گا، وہ مسلسل طورپر تخلیقی فکر سے بھرا رہے گا۔
مادی غذا جس طرح جسم کو طاقت دیتی ہے، اُسی طرح فکر ی دریافتیں انسان کو توانائی عطا کرتی ہیں۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ پرجوش تجربہ، دریافت (discovery) کا تجربہ ہوتا ہے۔ قرآن کا گہرا مطالعہ کرنے والے کو مسلسل طورپر اِس قسم کا تجربہ ہوتا رہتاہے۔ یہی تخلیقی تجربہ کسی آدمی کے لیے اِس امر میں مانع بن جاتا ہے کہ وہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچے اور عملاً ناکارہ ہو کر رہ جائے۔
واپس اوپر جائیں

بعد کے زمانے کا فتنہ

حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیخرج قومٌ فی آخر الزّمان ، أحداث الأسنان، سُفہاء الأحلام، یقولون من خیر قولٍ البَریَّۃ۔ یقرؤن القرآن، لا یجاوز إیمانہم حناجرہم، یمرقون من الدین کما یمرق السہم من الرّمیۃ (صحیح البخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب قتل الخوارج)یعنی آخری زمانے میں کچھ لوگ نکلیں گے، کم عمر والے، کم عقل والے۔ بظاہر وہ اچھی باتیں کریں گے۔وہ قرآن کو پڑھیںگے، مگرایمان اُن کے حلق سے تجاوز نہ کرے گا۔ وہ دین سے اِس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جس طرح تیر شکار کے اوپر سے نکل جاتا ہے۔اِس حدیث میںایک چیز مابین السطور (between the lines) ہے۔ اس کو شامل کرنے کے بعد ہی یہ حدیث پوری طرح سمجھی جاسکتی ہے، وہ مابین السطور یہ ہے کہ آئندہ ایسے حالات پیدا ہوں گے جو لوگوں کو یہ موقع دیں گے وہ علم اور تجربہ کی کمی کے باوجود نمایاں ہوجائیںگے، وہ لوگوں کے درمیان بڑے بڑے درجے حاصل کرلیں گے۔
موجودہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی۔موجودہ زمانے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بعد کو پیدا ہونے والے حالات سے کیا مراد ہے۔ وہ ہے میڈیا، اسٹیج، آزادی، جمہوریت، دولت کی فراوانی، مظاہرہ کی سیاست ، مسلمانوں کی عظیم اکثریت، وغیرہ۔آج صاف نظر آتا ہے کہ اِن نئی چیزوں نے کس طرح لوگوں کو یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ بے صلاحیت ہونے کے باوجود خوش نما الفاظ بول کر لوگوں کے درمیان اونچا مقام پالیں ، جو داخلی اعتبار سے سطحی ہونے کے باوجود ظاہری نمائش کے ذریعے عوامی مقبولیت حاصل کرلیں، جو قرآن کی روح سے خالی ہونے کے باوجود محض اپنی خوش الحانی کے ذریعے شہرت حاصل کرلیں، جو خدا کے خوف اور آخرت سے غافل ہونے کے باوجود عوامی تقریریں کرکے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیں۔ یہ سب صنعتی دور میں پیدا ہونے والے نئے مواقع کی بناپر پیش آئے گا۔ افراد ہمیشہ حالات سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ حالات کے بغیر۔
واپس اوپر جائیں

شیطان کا پردہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طویل حدیث مروی ہے۔ اُس کا ایک حصہ یہ ہے: ہذہ الشیاطین یحومون علی أعیُنِ بنی آدم أن لا یتفکروا فی ملکوت السماوات والأرض۔ ولو لا ذلک لرأوا العجائب(مسند احمد، جلد 2 ، صفحہ 353) یعنی یہ شیاطین، بنی آدم کی آنکھ کے سامنے منڈلاتے رہتے ہیں، تاکہ وہ آسمان و زمین میں خدا ئی قدرت پر غور نہ کریں۔ اگر ایسا نہ ہو تو یقینا وہ عجائب کو دیکھیں۔
ہمارے گردوپیش جو کائنات ہے، اس کو علمی اصطلاح میں فطرت (nature) کہا جاتا ہے۔ اِس وسیع عالم فطرت میں بے شمار واقعات یا مظاہر ہیں جو ہر وقت انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہر آنکھ والا انسان اُن کو دیکھتا ہے اور اُن کا تجربہ کرتا ہے، لیکن بیش تر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اِس آیت کا مصداق بنے رہتے ہیں: وکأین مِن آیۃٍ فی السماوات والأرضِ یمرّون علیہا، وہم عنہا معرضون (12: 105)
یہ کائناتی واقعات دراصل خدائی نشانیاں (divine signs) ہیں، وہ تخلیق (creature)کی صورت میں اپنے خالق (Creator)کا تعارف ہیں۔ انسان اگر کھلی آنکھ سے دیکھے تو وہ اِن واقعات میں عجائب قدرت کا مشاہدہ کرے گا۔ لیکن شیطان آدمی کے ذہن میں ایسی باتیں ڈالتا ہے کہ وہ اِن کائناتی واقعات کو صحیح زاویۂ نظر سے نہ دیکھ سکے۔شیطان، آدمی کے ذہن میں یہ تصور ڈالتا ہے کہ یہ سب واقعات خود کار قوانین کا نتیجہ ہیں،نہ کہ خدائی قدرت کا نتیجہ۔ شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ آدمی اِن واقعات کو نصیحت کے پہلو سے نہ دیکھے، بلکہ وہ صرف اِس نظر سے دیکھے کہ کس طرح اُن کے مادّی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ آدمی اپنے اردگرد کے واقعات کو فارگرانٹیڈ (for granted) طورپر لیتا رہے، وہ اُن کے بارے میں زیادہ غور وفکر نہ کرے۔ یہی وہ شیطانی وسوسے ہیں جو انسان کو حقائق کی صحیح معرفت سے محروم کردیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

قیامت کی ایک نشانی

حدیث میں قربِ قیامت کی بہت سی علامتیں بتائی گئی ہیں، اُن میں سے ایک طویل روایت میں اس کی ایک علامت اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: أمورکم إلیٰ نسائکم (الترمذی، کتاب الفتن) یعنی اُس زمانے میں لوگوں کے معاملات اُن کی عورتوں کے سپرد ہوجائیںگے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ساتویں صدی عیسوی میں کہی تھی، اُس وقت ساری دنیا میں عورت اور مرد کے درمیان تقسم کار (division of work) کا اصول رائج تھا۔ داخلی امور بنیادی طورپر عورتوں سے متعلق ہوتے تھے، اور خارجی امور بنیادی طورپر مردوں سے تعلق رکھتے تھے۔ پیغمبر اسلام نے پیشین گوئی کے طورپر فرمایا کہ ایک وقت آئے گا، جب کہ یہ حد بندی ٹوٹ جائے گی۔ عورتیں بھی اُسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیں گی جس طرح مرد دکھائی دیتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں صنفی مساوات (gender equality) اور فیمن ازم (feminism) کی تحریکوں نے تاریخ میں پہلی بار یہ صورتِ حال پیدا کی ہے کہ عورت اور مرد د دونوں صنفوں کے درمیان تقسیم کار کا اصول ٹوٹ گیا۔ زندگی میں جو شعبے روایتی طور پر مردوں سے متعلق ہوتے تھے، اُس میں اب عورتیں بڑے پیمانے پر دخیل ہوگئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں عورتیں نہ صرف مقامِ عمل (work place) میں مشترک طورپر دکھائی دیتی ہیں، بلکہ وہ فیصلہ کرنے والے شعبوں (decision-making) میں برابری کے ساتھ شرکت کی دعوے دار ہیں۔عملی نتائج کے اعتبار سے اِس صورتِ حال کی حقیقت کیا ہے، اِس سے قطعِ نظر، اِس پیشین گوئی کا موجودہ زمانے میں واقعہ بننا ایک بے حد سنگین الارم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت غالباً اب بہت قریب آچکی ہے۔ انسانی تاریخ اب اپنے خاتمے پر پہنچنے والی ہے۔ یعنی وہ وقت جب کہ فرشتہ اسرافیل اپنا صور پھونک دے اور دنیا کا موجودہ نظام ٹوٹ پھوٹ جائے۔ اس کے بعد تمام انسان دوبارہ زندہ ہو کر میدانِ حشر میں اکھٹا ہوں، اور خدا کی طرف سے تمام عورتوں اور مردوں کے مستقبل کا آخری فیصلہ کردیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

بعثت ِ نبوی اور قیامت

ایک روایت کے مطابق ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُعثتُ أنا والساعۃ کہاتین (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی بُعثت أنا والساعۃ) یعنی میں اور قیامت دونوں ایک ساتھ بھیجے گئے ہیں، پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کی طرف اشارہ فرمایا، یعنی جس طرح یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں، اُسی طرح میںاور قیامت ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔
اِس حدیث میں دراصل ایک تاریخی پراسس (process) کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ذریعے سے انسانی تاریخ میں ایک پراسس کا آغاز ہوا ہے جس کی تکمیل پر قیامت ہے:
I have initiated a process in human history the culmination of which is Qayamah (Doomsday)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو تاریخی پراسس جاری ہوا، اس کے چار بڑے مرحلے ہیں— اظہارِ دین، حفاظتِ وحی، تبیینِ حق، ادخالِ کلمہ۔ یہ چاروں مرحلے قیاسی نہیں، بلکہ وہ قرآن اور حدیث کے مطالعے سے واضح طور پر معلوم ہوتے ہیں۔
1 - پہلا مرحلہ وہ ہے جس کو قرآن میں اظہاردین (48: 28)یا استیصالِ فتنہ (8: 39) کہاگیا ہے۔ اِس سے مراد ہے مذہبی جبر (religious persecution) کا خاتمہ اور کامل معنوںمیں مذہبی آزادی (religious freedom) کے دور کو لانا۔ اصحابِ رسول نے اِس کام کو انجام دیا۔ انھوں نے اپنی قربانیوں کے ذریعے شرک کو سیاسی اقتدار سے جدا کردیا۔ اصحابِ رسول کا یہی کارنامہ ہے جس کو قرآن میں وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
2 - دوسرا مرحلہ حفاظتِ وحی کا ہے، وحی متلو بھی اور وحی غیر متلو بھی۔ اِس مرحلے کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 15 میں اس طرح آیا ہے: إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحافظون (15: 9)اِس آیت میں ’’الذکر‘‘سے مراد قرآن ہے۔ آیت میں حفاظتِ وحی کے عمل کو براہِ راست اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ اپنے فرشتے بھیجے گا اور وہ اس کام کو انجام دیں گے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کچھ لوگوں کو توفیق دے گا اور وہ اللہ کی خصوصی مدد سے اس کام کو انجام دیں گے۔
حفاظت کا یہ کام بنیاد ی طورپر عباسی دور میں انجام پایا۔ اُس زمانے میں قرآن اور قرآنی علوم کو حفاظت کے آخری درجے تک پہنچا دیاگیا۔ اِس زمانے میں حدیث کی تدوین کا کام بھی اعلیٰ سطح پر انجام دیاگیا، نیز دوسرے متعلق علوم پر اتنا زیادہ تحریری کام ہوا کہ اُن سے ایک پورا کتب خانہ تیار ہوگیا۔
3 - اِس سلسلے میں تیسرا کام وہ ہے جس کو قرآن میں تبیینِ حق (41: 53)کہا گیا ہے، یعنی آفاق اور انفس میں چھپی ہوئی خدائی نشانیوں کو کھولنا، تاکہ دینِ خداوندی کے حقائق خود علمِ انسانی کی سطح پر ثابت شدہ بن جائیں۔ یہ کام ساتویں صدی اور آٹھویں صدی عیسوی میں مسلم سائنس دانوں نے شروع کیا، پہلے بغداد میں اور پھر اندلس میں۔ اُس زمانے کے مسلم سائنس دانوں نے علومِ فطرت کی تحقیق میں کافی کام کیا، لیکن وہ اُس کو تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان مذہبی عقیدہ اور سائنسی تحقیق کو ایک دوسرے سے الگ نہ کرسکے۔ چناں چہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ اور ان کے سائنسی علماء کے درمیان مسلسل نزاعات پیش آتے رہے، جس کی وجہ سے یہ کام زیادہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اِس کی تفصیل درج ذیل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے:
تاریخ اسلام، از: اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد سوم
History of the Arabs, by Philip K Hitti
اِن نزاعات کی بنا پر مسلمان تبیین حق بالفاظِ دیگر علوم فطرت کے انکشاف کو تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ اِس کام کی تکمیل نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے بعد یورپ میں انجام پائی اور پھر وہ امریکا میں جاری رہی۔ اِس معاملے کی تفصیل درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
The Conflict between Science and the Religion, by J W Draper (1882)
اس کا سبب یہ ہے کہ مغربی قوموں نے مذہبی عقیدہ اور سائنسی تحقیق کے کام کو ایک دوسرے سے الگ کردیا، یہاں تک کہ بیسویں صدی کے آخر میں تبیین حق کا یہ کام اپنے آخری مرحلے تک پہنچ گیا۔ اب زیادہ تر فطرت کی اِن دریافتوں کو دینِ حق کے لیے استعمال کرنا ہے اور ان کی بنیاد پر دینِ حق کو خود انسانی علم کی سطح پر ثابت شدہ بنانا ہے۔
4 - اِس سلسلے کا چوتھا کام وہ ہے جس کو حدیث میں ’ادخالِ کلمہ، کہاگیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین کے اوپر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا جس کے اندر اسلام کا کلمہ نہ پہنچ جائے (مسند احمد، جلد ، 6 ، صفحہ 4)
واقعات بتاتے ہیں کہ چار مطلوب مرحلوں میں سے تین مرحلے گزر چکے ہیں۔ اب اظہارِ دین بھی ہوچکا ہے اور حفاظتِ دین کا کام بھی انجام پاچکا ہے۔ اِسی طرح تبیین حق کا کام بھی بقدر ضرورت انجام پاچکا ہے۔ اب اکیسویں صدی میں اہلِ ایمان کو جو کام انجام دینا ہے، وہ ادخالِ کلمہ ہے، یعنی خدا کی کتاب کو دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچا دینا۔ جدید ٹکنالوجی اور کمیونکیشن کے ذرائع اِس بات کا اشارہ ہیں کہ اب اہلِ ایمان کا یہی واحد کام ہے کہ وہ اِن جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے خداکے کلام اور اس سے متعلق تشریحی لٹریچر کو تمام انسانوں تک پہنچا دیں۔گلوبل وارمنگ کے نئے ظاہرہ کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں، وہ مزید یہ بتارہے ہیں کہ قیامت اب بہت قریب آچکی ہے۔ اِس کاتقاضا ہے کہ اہلِ ایمان اپنی ساری توانائی کو اِس آخری کام میں لگا دیں، اِس سے پہلے کہ صورِ اسرافیل پھونک دیا جائے اور اُن کے لیے کچھ کرنے کا موقع باقی نہ رہے۔
آج اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اس کو اظہارِ دین کے عمل کا کریڈٹ ملے تو اب یہ ناممکن ہوچکا ہے۔ اِسی طرح حفاظتِ دین کا کریڈٹ بھی لینے والے لے چکے، اب آج کے لوگوں کے لیے اس کا کریڈٹ لینے کا موقع باقی نہیں رہا۔ اِسی طرح آج اللہ کی توفیق سے ایسا لٹریچر تیار ہوچکا ہے جس نے تبیینِ حق کے کام کو ضروری حد تک انجام دے دیا ہے۔ اِس کام کا کریڈٹ (credit) لینے کا موقع بھی اب کسی کے لیے باقی نہیں رہا۔
اب اکیسویں صدی عیسوی میں اصلاً ایک ہی کرنے کا کام ہے جس کا کریڈٹ آج کے لوگوں کو مل سکتاہے، اور وہ ہے ادخالِ کلمہ کا کام، یعنی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اللہ کے پیغام کو تمام لوگوں تک پہنچانا۔ جدید کمیونکیشن کے ذرائع کو بھر پور استعمال کرتے ہوئے اس کو تکمیل کے مرحلے میں داخل کردینا۔ اکیسویں صدی کے اہلِ ایمان کو جاننا چاہیے کہ ابتدائی تین کریڈٹ کولینے کا وقت اب اُن کے لیے باقی نہیں رہا، کیوں کہ اللہ کے کچھ بندے اِس کام کو انجام دے چکے ہیں۔ اب جس کام کا کریڈٹ لینے کا موقع باقی ہے، وہ صرف ادخالِ کلمہ ہے۔ یا تو اِس کام کو انجام دیجئے اور اللہ کے یہاں اس کا انعام حاصل کیجئے، یا پھر اس کام سے غافل رہیے اور قیامت میں اُن لوگوں کے ساتھ اللہ کے حضور پہنچئے جن کو اللہ کی آخری عدالت میں محرومی کے سوا کچھ اور ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کی پہچان

ماہ نامہ الرسالہ، ستمبر 2010 میں 12 صفحات پر مشتمل ایک طویل مقالہ چھپا ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے: معرفت —مقصدِ انسانیت۔ اس کو پڑھ کر ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ کا یہ مضمون مجھ کو بہت پسند آیا۔ اب یہ سوال ہے کہ معرفت کی پہچان کیا ہے، یعنی کوئی شخص کیسے یہ سمجھے کہ اس کو وہ چیز حاصل ہوئی ہے جس کو دین میں معرفت کہا جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ قرآن میںاس کی پہچان بتا دی گئی ہے، اور وہ ذکر کثیر (33: 41) ہے، یعنی بہت زیادہ خدا کو یاد کرنا۔ معرفت دراصل رب العالمین کی ڈسکوری ہے۔ جب رب العالمین کی ڈسکوری (دریافت) کسی کو معرفت کے درجے میں حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس کے اندر ایک گہرا ذہنی انقلاب آجاتا ہے۔ اب خدا ہی اس کی سوچ کا مرکز ومحور بن جاتا ہے۔ ایسا انسانصبح وشام خدا کو یاد کرتا ہے، وہ ہر لمحہ اس کے بارے میں سوچتا ہے، وہ اسی کا چرچا کرتا ہے۔ یہی اس کے وجود کی سب سے زیادہ نمایاں پہچان بن جاتی ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ کسی شخص کو اگر کوئی ایسی چیز مل جائے جس کو وہ بہتبڑی چیز سمجھتا ہو تو وہ خود اپنے فطری تقاضے کے تحت اس کا بہت زیادہ چرچا کرتا ہے۔ اس کو اُس چیز کی یاد میںاتنی لذت ملتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ اُسی کے بارے میں سوچتا اور بولتا رہے۔
یہی معاملہ خداوند عالم کی معرفت کا ہے۔ جب کسی شخص کو دریافت کے درجے میں اللہ کی معرفت ہوجائے تو یہ معرفت اس کے ذہن پر چھا جاتی ہے۔ اپنے فطری تقاضے کے تحت، وہ اُسی کے بارے میں سوچتا ہے، اسی کے بارے میں بولتا ہے، حتی کہ اپنی تنہائیوں میں وہ اسی کے تصور میں غرق رہتا ہے۔ اس کا ہر تجربہ اس کے لیے خدا کی معرفت میں ڈھل جاتاہے۔ جب کسی انسان کا یہ حال ہوجائے تو یہ اِس بات کی پہچان ہے کہ اس کو وہ ربانی رزق عطا ہوا ہے جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

انوکھی تخلیق

شَمسینظام (solar system)اور اس کے اندر استثنائی نوعیت کاسیارہ زمین (Planet earth) ایک انوکھی تخلیق ہے۔ یہاں انسان کے لیے اس کی ضرورت کی تمام چیزیں اعلیٰ معیار کے ساتھ موجود ہیں۔لیکن اِسی کے ساتھ یہاں ایک اور چیز بھی ہے جس کو قرآن میں کبد (90:5) کہاگیا ہے، یعنی یہاں اگر چہ انسان کے لیے ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں، لیکن اِسی کے ساتھ یہاں انسانی زندگی کے ہم راہ مشقت (distress) شامل کردی گئی ہے۔ انسان کچھ بھی کرے، لیکن وہ اپنی زندگی کو کسی بھی حال میں درد وکرب سے بچا نہیں سکتا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں کے ماحول کا تجربہ کریں گے تو ان کی زبان سے نکلے گا: الحمد للہ الذی أذہب عنّا الحزن (35: 34) یعنی اُس اللہ کا شکر ہے جس نے خوف وحزن کو ہم سے دو رکردیا :
Praise be to God who has taken away all sorrow from us.
اہلِ جنت کا یہ کلمہ دراصل دریافت کا ایک کلمہ ہوگا۔ وہ جنت کی صورت میںایک نئے اور انوکھے تخلیقی کرشمہ کی دریافت کریں گے، یہ دریافت ک جو خالق کبد والی دنیا کی تخلیق کرسکتا تھا، وہ اِس طاقت کا بھی حامل تھا کہ ایک اور دنیا کی تخلیق کرے جہاں خوف اور حُزن کی کوئی صور ت نہ پائی جائے۔ ایسی ایک جنت بنانے کے لیے ایک اور دنیا تخلیق کرنے کی ضرورت تھی اور خدا نے جنت کی صورت میں اُس نئی دنیا کی تخلیق کردی۔
اہل جنت جب ایک ایسی انوکھی دنیا کو پائیں گے تو کمالِ استعجاب سے وہ کلمہ ان کی زبان پر جاری ہوجائے گا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: وقالوا الحمد للہ الذی أذہب عنا الحزن۔ خوف وحزن سے خالی دنیا کی تخلیق ایک ایسا انوکھا واقعہ ہے جس کو ظہور میں لانا، قادر مطلق خدا کے سوا کسی اور کے لیے ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کے انگریزی تراجم

سعودی عرب (مدینہ) میں قرآن کی اشاعت کے لیے ایک بڑا ادارہ قائم ہے۔ اس کا نام یہ ہے: مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف۔ اِس ادارے کے تحت 2007 میں انگریزی زبان میں ایک کتاب چھاپی گئی ہے۔اِس کتاب میں قرآن کے انگریزی تراجم وتفاسیر کا تعارف اور تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 474 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف پروفیسر عبد الرحیم قدوائی ( مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ) ہیں۔ اس کتاب کا پورانام یہ ہے:
Bibliography of the Translations of the Meanings of the Glorious Quran into English: (1649-2002) A Critical Study
اِس کتاب میں قرآن کے 47 انگریزی تراجم وتفاسیر کا ذکر ہے۔ یہ تراجم پچھلے ساڑھے تین سو سال کے درمیان کئے گئے ۔ اِن کے مترجمین میں مسلم نام بھی ہیں اور غیر مسلم نام بھی۔ کتاب میں درست طورپر یہ اعتراف کیاگیا ہے کہ یہ انگریزی تراجم مغربی دنیا میں یا انگلش اسپیکنگ دنیامیں مقبول نہ ہوسکے۔ یہ ترجمے اگر چہ لوگوں کے درمیان تقسم کئے گئے، لیکن مطالعے کے اعتبار سے وہ عملاً مقبول نہ ہوسکے۔ یہ بات بجائے خود واقعہ ہے، لیکن کتاب میں اِس کی نشان دہی موجود نہیںکہ اِس غیرمقبولیت کا اصل سبب کیا تھا۔
انگریزی ترجموں کی اِس غیر مقبولیت کا اصل سبب یہ تھا کہ یہ ترجمے قرآنی اسلوب کی اصل خصوصیت سے محروم تھے، وہ خصوصیت قرآن کی اِس آیت میں بتائی گئی ہے: ولقد یسَّرنا القرآن للذکر (54: 17) یعنی ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے۔ اس آیت میں آسانی سے مراد وضوح ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کے اسلوب میں سادگی اور وضوح بدرجۂ اتم (par excellence) پایا جاتا ہے۔ اِسی امتیازی خصوصیت کی بنا پر قرآن نے عربوں کے ذہن کو مسخر کرلیا۔ مگر عجیب بات ہے قرآن کے انگریزی ترجموں میں قرآنی اسلوب کی یہی امتیازی خصوصیت موجود نہیں۔ یہی خاص وجہ ہے جس کی بنا پر قرآن کے انگریزی تراجم، انگریزی دانوں کے درمیان زیادہ مقبول نہ ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

فکری انقلاب کی ضرورت

پرنٹنگ پریس کا زمانہ آنے کے بعد مسلمانوں میں اصلاح کی بے شمار تحریکیں اٹھیں۔ ہر ملک میں اسلام کے نام پر دھوم دکھائی دینے لگی، لیکن نتیجہ تقریباً صفر ہے۔ اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے لوگ شکایت کی زبان بول رہے ہیں۔ اگر اسلام کے نام پر کی جانے والی دھوم درست ہو تو آج لوگوں کو اعتراف کی زبان میں بولنا چاہیے تھا، نہ کہ شکایت کی زبان میں۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلم ملت کا مسئلہ فقدانِ عمل کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ فقدانِ نتیجہ کا مسئلہ ہے۔ ہمارے پچھلے رہنماؤں نے عمل کا طوفان کھڑا کیا، لیکن آج اُن کی طوفانی سرگرمیوں کا کوئی حقیقی نتیجہ نظر نہیں آتا۔ موجودہ زمانے میں مسلم ملت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ کیوں ایسا ہوا کہ اُن کے رہنماؤں نے کھیتی کی، مگر مسلمانوں کو اُس سے فصل نہیں ملی۔ ہمارے رہنماؤں نے باغ لگائے، لیکن مسلمان اس کے پھل سے محروم رہے۔اِس المیہ کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جو مسلم رہنما اٹھے، اُن سب کا نقطۂ آغاز غلط تھا۔ وہ اِس مفروضہ پر کھڑے ہوئے کہ مسلم ملت موجود ہے، اب اس کو صرف متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلم نام سے صرف ایک بھیڑ موجود تھی، نہ کہ حقیقی معنوں میں امت۔ ایسی حالت میں اصلاح امت کے کام کا نقطۂ آغاز لوگوں کے ذہن کی تشکیل نو تھا، نہ کہ جذباتی باتیںکرکے اُنھیں متحرک کرنا۔ موجودہ زمانے میں مسلم رہنماؤں نے جو طریقِ کار اختیار کیا، اُس کی ایک مثال ڈاکٹر محمد اقبال کا یہ مصرعہ ہے: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ۔ اقبال کا حسب ذیل شعر موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنماؤں کے فکر کی ترجمانی کرتاہے:
نوا را تلخ تر می زن، چو ذوقِ نغمہ کم یابی حُدی را تیز تر می خواں، چو محمل راگراں بینی
مسلم رہنماؤں نے مٹی کو صرف نم نہیں کیا، بلکہ اُس کو جل تھل کردیا، مگر عمل کے اعتبار سے اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اِس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے اور امت کی اصلاح کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

بابری مسجد کا مسئلہ

اجودھیا کی بابری مسجد کو مغل دور کے گورنر میر باقی نے 1528 میں بنوایا تھا۔اس معاملے میں مسلمانوں کو پہلا شاک (shock) اُس وقت لگا جب کہ 23 دسمبر1949 کی رات کو کچھ ہندوؤں نے مسجد کے اندر تین مورتیاں رکھ دیں۔ اس کے بعد دوسرا بڑا شاک اُس وقت لگا، جب کہ 6دسمبر 1992 کو بابری مسجد ڈھادی گئی اور اُس کی جگہ ایک عارضی مندر (make-shift temple) بنا دیاگیا۔ اِس کے بعد اِس معاملے میں تیسرا شاک مسلمانوں کو 30ستمبر 2010 کو لگا۔ یہ وہ تاریخ ہے جب کہ تقریباً 60 سالہ عدالتی کارروائی کے بعد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کے بارے میں اپنا فیصلہ دیا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کے نزدیک، ان کی امیدوں کے مطابق نہیں تھا، اِس لیے دوبارہ وہ ذہنی صدمہ کا شکار ہوگئے۔
اِس طرح کے بحران (crisis) کے معاملے میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے۔ کیا اسلام میں صرف نماز، روزہ کے احکام ہیں یا اُس میں بابری مسجد جیسے حادثے کے بارے میں بھی واضح رہنمائی موجود ہے۔ میرے نزدیک، بلا شبہہ یہ رہنمائی اسلام میں موجود ہے۔ ذیل میں مختصر طورپر اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔
1 - بابری مسجد کے معاملے میں اسلامی تعلیمات سے انحراف کا پہلا واقعہ 1528 میں پیش آیا، جب کہ اجودھیا میں یہ مسجد بنائی گئی۔ اُس وقت وہاں ’’رام چبوترہ‘‘ کے نام سے ایک چبوترہ موجود تھا، یہاں رام اور سیتا کی کچھ یادگاریں مثلاً سلوٹا اور بیلن جیسی چیزیں موجود تھیں اور ہندو اس کو سیتا کے رسوئی گھر کے طور پر مقدس سمجھتے تھے۔ بابر کے گورنر میر باقی نے مسجد بناتے ہوئے اِس رام چبوترہ کو اس کے صحن میں شامل کردیا ۔ یہ طریقہ اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف تھا۔
اس کی ایک متعلق مثال یہ ہے کہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق اپنے زمانہ ٔ خلافت (636 ء)میں مدینہ سے چل کر یروشلم (فلسطین) گئے۔ وہاں یروشلم کے بطریق (بشپ) سے گفتگو کرکے دونوں کے درمیان ایک صلح نامہ طے ہوا۔ اُس وقت حضرت عمر فاروق یروشلم کے کنیسۃ القیامہ (Church of Resurrection) میں تھے۔ عصر کی نماز کا وقت آگیا اور آپ نے نماز پڑھنا چاہا تو مسیحی بطریق نے کہا کہ آپ یہیں چر چ کے اندر نماز پڑھ لیجئے۔ حضرت عمر نے کہا کہ نہیں، میں رمیۃ الحجر،یعنی پتھر پھینکنے کی دوری (stone’s throw) پر جاؤں گا اور وہاں نماز پڑھوں گا۔ اِس کی حکمت انھوں نے یہ بتائی کہ اگر میں چرچ کے اندر نماز پڑھ لوں تو بعد کے زمانے کے مسلمان کہیں گے کہ یہاں ہمارے خلیفہ نے نماز پڑھی ہے، اِس لیے ہم یہاں مسجد بنائیں گے۔ اِس طرح یہاں چرچ اور مسجد کا جھگڑا کھڑا ہوجائے گا۔
بابری مسجد کے معاملے میں حضرت عمر کے مذکورہ نمونے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پہلی غلطی خود میر باقی نے کی۔ انھوں نے ہندوؤں کے مقدس استھان سے ملا کر مسجد بنائی۔ اِس طرح انھوںنے پہلے ہی دن اِس معاملے میں نزاع کی بنیاد رکھ دی۔
2 - دسمبر 1949 میں جب بابری مسجد کے اندر تین مورتیاں رکھ دی گئیں، اُس وقت بھی مسلمانوں نے اِس معاملے میں اسلام کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل نہیں کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسئلہ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ ناقابلِ حل مسئلہ بن گیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں جب توحید کا مشن شروع کیا، اُس وقت وہاں کی ابراہیمی مسجد کعبہ کے اندر مشرکین نے 360 بت رکھ دئے تھے۔پیغمبر اسلام نے ان بتوں کی موجودگی سے اعراض فرمایا اور اپنی ساری کوشش وہاں کے انسانوں پر شروع کردی۔ آپ نے کعبہ کی عمارت کے اندر سے بتوں کو نکالنے کے بجائے لوگوں کے دلوں سے بتوں کے نکالنے کو اپنا نشانہ بنایا۔ یہ طریقہ نہایت کامیاب ہوا، یہاں تک کہ 18 سال کی دعوتی کوشش کے بعد مکہ کے مشرکین نے بت پرستی کو ترک کردیا اور خود کعبہ کی عمارت سے تمام بتوں کو ہٹا دیا۔ اِس کے برعکس، موجودہ زمانے کے مسلمان اِس پیغمبرانہ حکمت کو اختیار کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہے۔ چناں چہ انھوں نے اِس معاملے میں رد عمل کا طریقہ اختیار کیا جس کا نتیجہ صرف الٹی صورت میں برآمد ہوا۔
3 - ستمبر1991میں پی وی نرسمہا راؤ (وفات:2004 ) ہندستان کے وزیر اعظم تھے۔انھوں نے ہندستانی پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کرایا جس کا نام یہ تھا:
Places of Worship (Special Provisions) Act-1991
اِس قانون میں یہ متعین کیاگیا تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا کی یہ ذمے داری ہوگی کہ وہ ملک کے تمام عبادت خانوں کو اُس حالت پر برقرار رکھے جو کہ آزادی کے وقت 15 اگست 1947 میں ان کی حالت تھی۔ اِس قانون میں یہ کہا گیا تھا کہ چوں کہ بابری مسجد کا کیس عدالت میںہے، اِس لیے اِس معاملے میں حکومت عدالتی فیصلے کا انتظار کرے گی اور فیصلہ آنے کے بعد اس کے مطابق، اس کی تعمیل کی جائے گی، لیکن مسلمانوں نے اِس ایکٹ کو نہیں مانا،انھوں نے اِس معاملے کو جلسہ جلوس کا معاملہ بنادیا۔ اِس کے بعد فطری طور پر ہندوؤں میں جوابی ہنگامہ آرائی کا ذہن بنا، یہاں تک کہ ہندوؤں کے ایک پرجوش ہجوم نے 6 دسمبر 1992 کو اجودھیا میں میں داخل ہو کر بابری مسجد کو ڈھا دیا۔ اُس وقت میں نے کہا تھا کہ — بابری مسجد کو ہندوؤں نے توڑا، اور مسلمانوں نے اس کو توڑوایا۔
4 - 30 ستمبر 2010 کو عدالت کا جو فیصلہ آیا ہے، مسلمان عام طورپر اس کو اپنے حق میں ناانصافی سمجھتے ہیں۔ ان کا رجحان یہ ہے کہ وہ اِس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جائیں اور وہاں سے منصفانہ فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کریں، مگر یہ طریقہ بابری مسجد کے مسئلے کو حل کرنے والا نہیں۔
اِس مسئلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی صورت میں بالفرض اگر ایسا ہو کہ سپریم کورٹ اِس کیس کا فیصلہ مسلمانوں کی موافقت میں کردے، تب بھی ہندوؤں کے لیے مزید کارروائی کا دروازہ کھلا رہے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے، شاہ بانو کیس (1985)میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کو اپنے خلاف نظر آیا اور انھوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا۔ چناںچہ اس کے خلاف پورے ملک میں مسلمانوں کی طرف سے مظاہرے شروع ہوگئے، یہاں تک کہ اُس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی (وفات: 1991 ) کو پارلیمنٹ سے ایک نیا ایکٹ بنوانا پڑا۔ یہ دروازہ بلاشبہہ ہندوؤں کے لیے بھی کھلا ہوا ہے۔ وہ یہ کہہ کر سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کرسکتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہمارے مذہبی جذبات کے خلاف ہے، اِس لیے ہم اس کو قبول نہیں کرسکتے۔
5 - بابری مسجد کے معاملے میں اسلام اور دانش مندی دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ اب اِس معاملے میں کاما (comma) نہ لگایا جائے، بلکہ فل اسٹاپ (full stop) لگادیا جائے۔ دوسرا کوئی بھی طریقہ صرف مسئلے کو مزید پیچیدہ کرے گا، وہ اِس مسئلے کو حل کرنے والا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اب اِس معاملے میں مسلمانوں کے لیے عملاً ایک ہی ممکن انتخاب (option) باقی رہاہے اور وہ مسجد کا ری لوکیشن (re-location) ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جس کو پٹرول کے ظہور کے بعد عرب ملکوں میں بڑے پیمانے پر اختیار کیا گیا ہے، یعنی سٹی پلاننگ (city planning) کے لیے قدیم مسجدوں کو ری لوکیٹ کرنا۔
موجودہ حالات کے اعتبار سے، اب مسلمانوں کے لیے عملاً صرف دو میں سے ایک کا انتخاب باقی رہ گیا ہے — یا تو وہ اِس معاملے میں خود غیر جانب دار ہو کر مزید کارروائی کے لیے اس کو حکومت کے حوالے کردیں، جیسا کہ دوسرے عدالتی فیصلوں کے معاملے میں ہوتا ہے، یا اگر وہ چاہتے ہیں کہ بابری مسجد کو وہ ایک تاریخی یادگار کے طورپر باقی رکھیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں کہ وہ اس کے ری لوکیشن (re-location) پر راضی ہوجائیں، یعنی کسی دوسرے غیر نزاعی مقام پر اُسی شکل کی مسجد تعمیر کرنا۔ سابق مقام پر دوبارہ بابری مسجد کی تعمیر ایک ایسا غیر حقیقت پسندانہ تصور ہے جو کبھی واقعہ بننے والا نہیں۔
6 - اجودھیا کے متنازع مقام پر عدالتی فیصلہ آنے کے بعد عام طورپر مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ اِس فیصلے میں ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا عام ذہن ہے۔ ہر جگہ مسلمانوں کو دوسرے فریق سے یہی شکایت ہے۔ مگر یہ شکایت یقینی طورپر غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ یہ شکایت صرف یہ بتاتی ہے کہ مسلمان معاملات کو صرف جذباتی اعتبار سے دیکھتے ہیں، نہ کہ عقل وفہم کے اعتبار سے۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ فرد اور اجتماع کے درمیان فرق کیا جائے۔ قرآن اور حدیث میں اِس بات کی سخت تاکید کی گئی ہے کہ فرد کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ انصاف کے راستے پر چلے، وہ اِس معاملے میں کسی چیز کو عذر (excuse) نہ بنائے۔ لیکن اجتماع کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ جب کسی اجتماعی معاملے میں دو فریقوں کے درمیان نزاع پیدا ہوجائے تو اُس وقت یہ ممکن نہیں ہوتا کہ خالص نظری بنیاد (theoretical reason) پر ایسا فیصلہ کیا جائے جو دونوں فریقوں کو منصفانہ فیصلہ نظر آئے۔ ایسے موقع پر صرف یہی ممکن ہوتا ہے کہ عملی تقاضے (practical reason) کو دیکھا جائے اور عملی طورپر جو ممکن ہو، اس کے مطابق، فیصلہ کردیا جائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت سی ایسی مثالیں ہیں جو اِس اصول کی تصدیق کرتی ہیں۔ آپ نے اجتماعی نزاع کے معاملے میں ہمیشہ عملی بنیاد پر فیصلہ کیا، نہ کہ نظری انصاف کی بنیاد پر۔ اِس معاملے کی ایک نمایاں مثال صلح حدیبیہ ہے۔
7 - اگر نزاعی معاملے میں یہ صورت پیدا ہوجائے کہ اس میں تبدیلی ممکن نظر نہ آتی ہو، ایسی حالت میں عقل اور اسلام دونوں کا یہ تقاضا ہے کہ موجودہ صورت حال (status quo) کو مان کر مسئلے کو ختم کردیا جائے۔ کیوں کہ کوئی نزاعی معاملہ جب اِس نوبت کو پہنچ جائے تو انتخاب (option) صحیح اور غلط کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ اُس وقت انتخاب ممکن اور ناممکن کے درمیان ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں عقل اور اسلام دونوں کا یہ تقاضا ہے کہ ناممکن کے پیچھے مزید وقت ضائع نہ کیا جائے، بلکہ جو ممکن ہے اُس کو قبول کرلیاجائے۔ اِس کا فوری فائدہ یہ ہوگا کہ حالات نارمل ہوجائیں گے اور تعمیر وترقی کی سرگرمیاں کسی رکاوٹ کے بغیر جاری ہوجائیں گی۔
خلاصہ بحث
خلاصہ یہ کہ لمبی مدت کی ناکام جدوجہد کے بعد اب اجودھیا کا معاملہ نظر ثانی (reassessment) کا معاملہ بن چکا ہے۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے جب کہ اُن تدبیروں کو دہرایا جائے جن کو اس سے پہلے بار بار بڑے پیمانے پر عمل میں لایا گیا، مگر وہ مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ 30 ستمبر 2010 کے پہلے کی تاریخ کو بھلا دیا جائے اور 30 ستمبر 2010 کے بعد سامنے آنے والے حقائق کو ملحوظ رکھتے ہوئے از سرِ نو اِس معاملے میں فل اسٹاپ لگا دیا جائے۔ اِس مسئلے میں مزید کاما لگانا، اب صرف اپنی تباہی میں اضافے کا باعث ہوگا، وہ کسی بھی درجے میں مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ اِس معاملے میں اب اگر کوئی کاما لگایا جائے تووہ یقینی طور پرمسلمانوں کے احساسِ ناکامی میں احساسِ ذلت کے اضافے کے ہم معنی ہوگا، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

غیر دعوتی ذہن

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (5 اگست2010 ) میں ایک خبر اِس عنوان کے تحت چھپی ہے۔ پاکستان کے ایک ہندو نوجوان کے تابوت پر ’’کافر‘‘ کا ٹیگ لگایا گیا :
Pak Hindu youth’s coffine tagged 'Kafir'.
خبر میں بتایا گیا ہے کہ 28 جولائی 2010 کو پاکستان کا ایک ہوائی جہاز گر کر تباہ ہوگیا۔ اِس جہاز میں کُل 152 مسافر تھے، جو سب کے سب مر گئے۔ اِن مسافروں میں پاکستان کا ایک ہندو نوجوان پریم چند (25سال) تھا۔ وہ بھی اِس حادثے میں ختم ہوگیا۔ مردہ لاشوں کا جب تابوت تیار کیاگیا تو اُن میں سے ایک تابوت مذکورہ ہندو نوجوان کا بھی تھا۔ عام اصول کے مطابق، اِس تابوت پر ہندو نوجوان کا صرف نام لکھنا چاہیے تھا، لیکن پیک کرنے والوں نے اس کے تابوت پر نمایاں حروف میں ’’کافر‘‘ لکھ دیا:
The coffin of a promising young Pakistani Hindu social worker, killed in the recent airliner crash here, has been marked as 'kafir' or infidel, causing anguish and revulsion among his friends and netizens. Prem Chand, 25, a bright spark from the minority Hindu community, was a member of the National Youth Parliament and was heading to Islamabad from Karachi to attend the organisation's last session when the Airblue flight crashed into the Margallah Hills on July 28, killing all 152 people on board. Ehsan Naveed Irfan, a youth parliamentarian who identified Prem Chand's body, said the coffin was first marked in black with the word 'kafir' and this was then highlighted in red. (p. 13)
پاکستانی فضائیہ کے ذمے داروں کے اندراگر انسانی ہمدردی کا جذبہ ہوتا تو وہ تابوت پر صرف ہندو نوجوان کا نام لکھتے۔ اور اگر ان کے اندر دعوتی جذبہ ہوتا تو وہ درد مندی کے ساتھ یہ سوچتے کہ ہمارے ملک کا ایک شخص کم عمر ی میں اس دنیا سے چلا گیا اور ہم یہ نہ کرسکے کہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے اُس کو خدا کا پیغام پہنچا دیں — کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جن کے اندر نہ انسانی ہمدردی ہے اور نہ دعوتی تڑپ۔ اِس کے باوجود وہ اپنے آپ کو اسلام کا سب سے بڑا نمائندہ سمجھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

جذباتی قیادت

ایک پاکستانی مسلمان جو پروفیشن کے اعتبار سے ڈپلومیٹ (diplomate)تھے، انھوں نے ایک امریکن لڑکی سے شادی کی جو کہ کرسچن تھی۔ اس سے ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام داؤد (David Coleman Headley) تھا۔
جیسا کہ اس کے چچا نے بتایا، نوجوانی کی عمر تک ہیڈلی ایک معتدل اور امن پسند مسلمان تھا،لیکن بعد کو وہ بہت بڑا ملٹنٹ بن گیا۔ 26 نومبر 2008 کو بمبئی پر حملے کا وہی ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس نے ڈنمارک کے کارٹونسٹ کے خلاف قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی اِن متشددانہ کارروائیوں میں سیکڑوں آدمی ہلاک ہوگئے، وغیرہ۔
داؤد ہیڈلی کس طرح ایک ملٹنٹ مسلمان بن گیا، اِس کاراز اُس نے خود اپنے اُس بیان میں بتایا جو اُس نے شکاگو کی امریکی عدالت میں دیا تھا۔ اِس بیان میںاُس نے کہا کہ — پاکستان کے شعلہ بار مقرر جو انڈیا کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی تقریریں کرنے کے لیے مشہور ہیں، ان کی تقریریں سن کر میں ملٹنٹ بن گیا۔ اس نے خود یہ اعتراف کیا کہ وہ حافظ سعید کی تقریروں سے متاثر ہوا:
Hafiz Mohammad Saeed the hate-spewing jihadi ideologue. But given that Headly has already acknowledged having been inspired by Saeed’s anti-India rehetoric and his testimony about the involvement of Lashkar commanders in the Mumbai plot. (The Times of India, March 20, 2010)
یہ مثال موجودہ زمانے میں پوری امتِ مسلمہ کی تصویر ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر ایسے جذباتی رہنما پیدا ہوئے جن کی پر شور خطابت (rhetoric) نے مسلمانوں کو دیوانہ بنادیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں الثرثارون (الترمذی، رقم الحدیث:2018 )کہاگیا ہے۔ یہی رہنما موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی تباہی کے اصل ذمے دار ہیں۔رہنمائی کا کام صرف اُس شخص کو کرنا چاہیے جو غیرجذباتی انداز میں سوچے اور غیر جذباتی بنیادوں پر فیصلے لے سکے۔
واپس اوپر جائیں

نظریۂ ارتقاء پر شبہات

انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں 2003 میں کسی قدیم انسان کا ایک متحجرڈھانچہ (fossilized skeleton)ملا۔ ماہرین کی ایک انٹرنیشنل ٹیم نے گہرائی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا۔ اِس مطالعے کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اُس سے معلوم ہوا کہ یہ ڈھانچہ 18 ہزار سال پرانا ہے۔ اِس مطالعے کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8 مارچ 2010 ) میں چھپا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ— یہ دریافت اچانک انسانی ارتقاء کے بارے میں سائنسی نظریات کے خلاف ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ انسانی ارتقاء کا عمل اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے، جیسا کہ پہلے سمجھ لیا گیا تھا:
Almost overnight, the find threatened to change science's understanding of human evolution. It would mean contemplating the possibility that not all the answers to human evolution lie in Africa, and that human development was more complex than thought (p. 23)
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دریافت نظریۂ ارتقاء کے لیے بڑا چیلنج (big challenge) نہیں، بلکہ یہ نظریہ ارتقاء کی ایک بڑی تردید ہے۔ اِس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی ارتقا ء کا نظریہ اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے جتنا کہ اس کو سمجھ لیا گیا تھا۔ اصل یہ ہے کہ انسانی زندگی کا واقعہ اِس سے زیادہ پیچیدہ ہے کہ نظریۂ ارتقاء کے ذریعہ اس کی توجیہہ ہوسکے:
Human development is complex enough to be explained by the evolution theory.
حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء کا نظریہ صرف ایک مفروضہ ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی علمی نظریہ۔ جدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان وہ صرف اِس لیے پھیل گیا کہ اُنھیں یہ نظر آیا کہ یہ اُن کے لیے ایک ورک ایبل (workable) نظریہ ہے۔ تاہم اِس نظریے کا ثابت شدہ واقعہ ہونا، ابھی تک اہلِ علم کے درمیان اختلافی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خاتمۂ تاریخ کا الارم

امریکا میں مطالعۂ فطرت کا ایک ادارہ ہے جس کو عام طورپر انٹرنیشنل تھنک ٹینک کہاجاتا ہے۔ اس ادارے کا اصل نام حسب ذیل ہے:
Global Footprint Network
اِس ادارے نے عالمی ریسرچ کے بعد بتایا ہے کہ کرۂ ارض تیزی کے ساتھ انسان کے لیے ناقابل رہائش (inhabitable) بنتاجارہا ہے، اِس لیے کہ موجودہ زمین کے ذرائع اُس معیارِ حیات کے لیے ناکافی ہیں جو جدید تہذیب کے ظہور کے بعد انسان نے اختیار کیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر زمین کے تمام باشندے امریکا کے معیارِ حیات پر زندگی گزارنا چاہیں تو آج ہی ہم کو موجودہ زمین جیسی پانچ زمین کی ضرورت ہوگی۔ اِسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ دنیا میں ذرائع حیات اگر موجودہ صورتِ حال پر برقرار رہے، تب بھی موجودہ زمین کے ذرائع صرف 2030 تک کام آ سکتے ہیں:
Humans using resources at alarming rate- Humanity would need five earths to produce the resources needed, if everyone lived as profligately as Americans. We are demanding nature's services - resources and creating CO2 emissions- at a rate 44% faster than what nature can regenerate and reabsorb. That means, it takes the Earth just under 18 months to produce the ecological services, humanity needs in one year. And if humankind continues to use natural resources and produce waste at the current rate, we will require the resources of two planets to meet our demands by the early 2030s, a gluttonous level of ecological spending that may cause major ecosystem collapse (The Times of India, New Delhi, November 25, 2009, p. 24)
یہ صورت حال بے حد الارمنگ (alarming)ہے۔ مذکورہ سائنسی رپورٹ قیامت کی پیشگی اطلاع کے ہم معنیٰ ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ لوگ بیدار ہوجائیں۔ لوگ اپنے آپ کو اِس قابل بنائیں کہ وہ محفوظ طورپر قیامت کا سامنا کرسکیں۔ اِس بیداری کا تعلق مسلمانوں سے بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ اُس کا تعلق غیر مسلموں سے ہے۔
واپس اوپر جائیں

قیامت قریب آگئی

ایس سی اے آر (Scientific Committee on Antarctic Research) کی ایک سروے رپورٹ میڈیا میں شائع ہوئی ہے۔ تیرہ ملکوں کے ایک سو انٹرنیشنل سائنس دانوں کے گروپ نے یہ سروے کیا ہے۔ اِس سروے میں بتایا گیا ہے کہ برف کے ذخائر (گلیشئر) کے پگھلنے سے سمندروں میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے۔ اکیسویں صدی عیسوی کے خاتمے تک سطحِ آب کا یہ اضافہ چار فٹ سے زیادہ ہوجائے گا۔ اگر یہ اندازہ درست ثابت ہوتا ہے توبہت سے سرحدی علاقے زیر آب ہو جائیں گے۔ مثلاًمالدیپ، ممبئی ، مدراس اور کلکتہ، وغیرہ:
Rise in sea levels could be double of estimates — a major study by a group of 100 international scientist has said that sea levels are likely to rise by as much as 1.4 metres (more than 4 feet) by the end of this century. If these projections come true, most low-lying island nations like the Maldive would go under the sea. The New study also significantly enhances the threat to the Indian coasts — and cities like Mumbai, Chennai and Kolkata. (The Times of India, New Delhi, December 2009, p. 1)
حدیث میں قیامت کی جو پیشین گوئیاں بتائی گئی ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ زمین پر پانی کی سطح بلند ہوجائے گی۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سطحِ آب میں اضافے کا یہ عمل تیزی سے شروع ہوچکا ہے۔ سائنس داں یہ بھی مانتے ہیں کہ اِس عمل کو روکنا، انسان کے بس سے باہر ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان توبہ اور انابت میںاضافہ کرے۔ فطرت کے اِس عمل کو روکنے کے لیے کانفرنسیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
تمام قرائن یہ بتارہے ہیں کہ موجودہ زمین پرانسان کی تاریخ اب خاتمہ کے قریب پہنچ گئی۔ چناں چہ سائنس داں انسانی نسل کی بقا کے لیے زمین جیسے ایک اور کرہ کی تلاش میں ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وسیع خلا میں زمین جیسا کوئی اور کرہ موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سننے کی عادت ڈالیے

تجربہ بتاتا ہے کہ ملاقات کے وقت اکثر لوگ صرف اپنی بات سناتے رہتے ہیں، وہ دوسرے کی بات سننے کے حریص نہیں ہوتے۔ یہ بہت بڑی کمزوری ہے۔ اِس کمزوری کا براہِ راست نقصان خود زیادہ بولنے والے کے حصہ میں آتا ہے، اور وہ یہ کہ اس کا ذہنی ارتقا نہیں ہوتا۔
بسیار گوئی کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری نہیں ہوتا۔ ایسے آدمی کا یقینی انجام یہ ہے کہ وہ ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہو کر رہ جائے۔
کسی نے درست طورپر کہا ہے کہ — جب میں بولتا ہوں تو میں سوچ نہیں رہا ہوں:
When I am speaking, I am not thinking.
ذہنی ارتقا کا تعلق تمام تر سوچ پر ہے۔ زیادہ بولنا، آدمی کے ذہن میں سوچنے کے عمل کو روک دیتا ہے، اور جس آدمی کے اندر سوچنے کا عمل رک جائے، اُس کا یہ حال ہوگا کہ وہ فکری اعتبار سے جہاں پہلے تھا، وہیں وہ بعد کے زمانے میں بھی باقی رہے گا۔
ہر آدمی کا الگ الگ میدان ہوتاہے، ہر آدمی مختلف قسم کے تجربات سے گزرتا رہتا ہے۔ اِس بنا پر ہر آدمی کے پاس کچھ ایسی بات ہوتی ہے جو دوسرے کے پاس نہیں ہوتی۔
اِس لیے جب بھی آپ کسی شخص سے ملیں تو آپ پیشگی طورپر یہ یقین کرلیجیے کہ اس کے پاس کوئی نئی بات ہوگی۔ اِس لیے سب سے پہلے چپ رہ کر اس کی بات سنئے۔ اس کے تجربات پوچھ کر اپنے علم میں اضافہ کیجئے۔
یہی ملاقات کا واحد صحیح طریقہ ہے۔ آج کل ہر آدمی سنانے کا ماہر بنا ہوا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ سننے کے عادی بنیں۔ سنانا بھی ایک عادت ہے اور سننا بھی ایک عادت۔ بہتر یہ ہے کہ آپ سننے کی عادت ڈالیں، نہ کہ صرف سنانے کے عادی بنے رہیں۔ سننے کی عادت صحت کی علامت ہے اور سنانے کی عادت بیماری کی علامت۔
واپس اوپر جائیں

نادانی کی چھلانگ

19 فروری 2010 کے اخبارات میں ایک انوکھی خبر تھی۔ خبر کے مطابق، امریکا کے ایک 53 سالہ شخص جوزیف (Joseph Andrew Stack) نے امریکا کے شہر آسٹن (Texas) میں اپنا چھوٹا جہاز اڑایا اور اس کو لے جاکر فیڈرل ٹیکس آفس (federal tax office) کی سات منزلہ بلڈنگ کے دوسرے فلور سے ٹکرادیا۔ اس کے بعد جو واقعہ ہوا، اس کو بلڈنگ کے ایک شخص نے اِن الفاظ میں بیان کیا:
It was almost like an earthquake.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ امریکی شخص نے جس جہاز کو بلڈنگ سے ٹکرا کر خود کشی کی، وہ کوئی مسافر بردار جہاز نہ تھا، بلکہ وہ اُس کا اپنا ذاتی جہاز تھا:
The plane belonged to Joseph Andrew Stack. (The Guardian,February. 18, 2010)
جس امریکی شخص نے خود کشی کی، وہ کوئی غریب آدمی نہ تھا۔ اس کے پاس اپنا ذاتی جہاز تھا، اور اِسی کی نسبت سے یقینی طورپر دوسری بہت سی چیزیں اس کو ملی ہوئی تھیں۔ اِس کے باوجود اس نے کیوں خود کشی کرلی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اُس کو موت سے پہلے کے مسئلے کی خبر تھی، لیکن اُس کو موت کے بعد کے مسئلے کی خبر نہ تھی۔ اگر وہ اِس حقیقت کو جانتا تو وہ ہر گز خود کشی نہ کرتا۔
کہا جاتا ہے کہ مذکورہ امریکی شخص ٹیکس کے مسائل سے پریشان تھا اور اِس بنا پر اس نے خود کشی کرلی۔ لیکن ٹیکس کا مسئلہ بہر حال ایک چھوٹا مسئلہ تھا، جب کہ خود کشی کے بعد پیش آنے والا مسئلہ یقینی طورپر اس کے لیے ایک بڑے مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر وہ اِس حقیقت کو جانتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتا کہ ایک چھوٹے مسئلے سے گھبرا کر بڑے مسئلے کی طرف چھلانگ لگا دے — یہی نادانی آج تمام لوگ کررہے ہیں، کوئی ایک صورت میں کررہا ہے اور کوئی دوسری صورت میں۔
واپس اوپر جائیں

خودکشی حرام کیوں

یکم اکتوبر 2009 کا واقعہ ہے۔ تھنّہ منڈی (جموں وکشمیر) کے علاقے میں ایک گاؤں کے اندر ایک واقعہ ہوا۔ ایک ملٹنٹ کمانڈر اپنے دو ساتھیوں کے ہم راہ رات کے وقت ایک گھر میں داخل ہوا۔ اِن لوگوں نے گھر کے مرد اور عورت کو اتنا زیادہ مارا کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ اُن کو شک تھا کہ یہ لوگ مخبری کا کام کرتے ہیں۔ ان کی 18 سالہ لڑکی رخسانہ اُس وقت گھر کے اندر موجود تھی۔ وہ اِس منظر کو دیکھ نہ سکی۔ اس نے فوراً ایک کلہاڑی لے کر پہلے ملٹنٹ کمانڈر کو مار کر گرادیا۔ اس کے بعد تیزی سے اس کی گن چھین کر اُسی گن سے اس کے اوپر کئی فائر کیے۔ ملٹنٹ کمانڈر اسی وقت ہلاک ہوگیا اور اس کے دونوںساتھی اس کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
اِس واقعے میں بہت بڑا سبق ہے۔ انسانی دماغ کے اندر غیر معمولی توانائی موجود ہے، عام حالات میں وہ غیر متحرک رہتی ہے، لیکن جب کوئی شدید جھٹکا لگتا ہے تو دماغ کے اندر موجود یہ توانائی فی الفور جاگ اٹھتی ہے اور ایک لمحے کے اندر آدمی کو ہیرو بنادیتی ہے۔
مذکورہ لڑکی کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اس کے والدین کے ساتھ جو ہولناک معاملہ پیش آیا، اس نے اس کے دماغ کے بند خانوں کو کھول دیا۔ ایک لمحے کے اندر اُس نے ناقابلِ تسخیر پلاننگ کی، چناں چہ اس نے پہلے کلہاڑی کے ذریعے کمانڈر کو مغلوب کیا اس کے بعد بجلی جیسی تیزی کے ساتھ کمانڈر کی گن کو چھینا اور فی الفور گن چلا کر اس کا خاتمہ کردیا۔
اِس موقع پر لڑکی اگر خودکشی کر لیتی تو وہ اِس بہادرانہ کارنامے کو انجام دینے سے محروم رہ جاتی۔ خود کشی کو اسلامی شریعت میں اِس لیے حرام کیا گیا ہے، تاکہ انسان کی زندگی کو بچایا جائے اور ا س کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ زندہ رہ کر مستقبل میںکوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے:
It is to save a life, so that he may play a greater role in future.
واپس اوپر جائیں

ڈکشنری کافی نہیں

اگر آپ گہرا علم نہیں رکھتے اور صرف ڈکشنری کی مدد سے قرآن کو پڑھنا چاہتے ہیں تو یقین ہے کہ آپ غلطیاں کریں گے۔ گہرے علم کے بغیر آدمی صرف ڈکشنری یا لغت کی مدد سے نہ قرآن کو سمجھ سکتا، نہ کسی اور کتاب کو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ الفاظ کے معانی اس کے سیاق (context) سے متعین ہوتے ہیں۔ اِسی طرح ہر لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتا ہے، اور ایک اس کا استعمالی مفہوم۔ اِسی طرح صِلہ (preposition) کے فرق سے بھی الفاظ کے معانی بدل جاتے ہیں۔ جو لوگ اِس طرح کی بصیرت نہ رکھتے ہوں، وہ کسی کتاب کو درست طور پر نہیں سمجھ سکتے۔
مثلاً انگریزی کی مثال لیجیے۔ کسی گھر میں آگ لگ جائے تو کہا جائے گا:
The house cought fire.
اِس جملے میں فائر (fire) کے معنی آگ کے ہیں۔ دوسری طرف، اگر کسی آدمی کو سروس سے برخاست کردیا جائے تو کہا جائے گا:
He was fired.
اِس جملے میں ’’فائر‘‘ کے معنی آگ کے نہیں ہیںاور نہ گولی مارنے کے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سروس ختم کردی گئی ہے۔ الفاظ کا یہ فرق صرف گہرے علم کے بعد آدمی کو حاصل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ قرآن کا ہے۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت ہے: أقیموا الدین (42: 13)اِس آیت کا لفظی ترجمہ ہے: دین کو قائم کرو۔ جو آدمی صرف لغت کو جانتا ہو اور اس کے اندر علمی بصیرت نہ ہو، وہ اِس کا مطلب یہ لے لے گا کہ دین کو غالب کرو، شرعی احکام کو نافد کرو، حالاں کہ آیت کا یہ مطلب نہیں۔ اِس آیت میں دین کی اقامت کا مطلب دین کی پیروی کرنا ہے، نہ کہ دین کو خارجی دنیا میں نافذ کرنا۔ جو آدمی گہری علمی بصیرت نہ رکھتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ کسی کو اپنا رہنما بنا لے۔ وہ اُس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی نصیحت پر عمل کرے، نہ یہ کہ وہ اپنا رہنما آپ بن جائے ۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
9 اکتوبر 2010 کو نئی دہلی کے اردو اخبار ’’راشٹریہ سہارا‘‘ میں بابری مسجد کے موضوع پر آپ کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اِس مضمون کو دیکھنے کے بعد دو مسلمانوں کے درمیان جوگفتگو ہوئی، وہ اِس طرح تھی۔ ایک نے کہا: کیا مولانا نے بابری مسجدہندوؤں کو دے دی ۔ دوسرے مسلمان نے جواب دیا: وہ تو بہت پہلے دے چکے ہیں۔ براہِ کرم، اِس تبصرہ پر روشنی ڈالیے۔ (محمد شارق ، نئی دہلی)
جواب
یہ تبصرہ محض بے شعوری کا ثبوت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تمام مسلمان بابری مسجد کو عملاً چھوڑچکے ہیں، بابری مسجد اب اُن کا حقیقی کنسرن (concern) نہیں۔ اب ہر مسلمان، بشمول مذکورہ تبصرہ نگار، مکمل طورپر مادّی ترقی کو حاصل کرنے میں مشغول ہے۔ وہ اگر بابری مسجد کا ذکر کرتا ہے تو وہ صرف لپ سروس(lip service) کے طور پر ہوتا ہے۔
اِس حقیقت پر غور کیجئے تو راقم الحروف اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو فرق ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ میںنے بابری مسجد کو دے دیا اور بقیہ مسلمانوں نے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’دینے‘‘ کے واقعے کا تعلق دونوں طرف سے ہے، فرق صرف یہ ہے کہ میںنے اِس معاملے میں جو رویہ اختیار کیا ہے، وہ شعوری طور پر ایک اصول کے تحت اختیار کیا ہے، جب کہ دوسرے مسلمانوں نے اپنا رویہ ذاتی انٹرسٹ (مفاد) کے تحت بنایا ہے، یعنی زبانی طورپر بابری مسجد کا نام لینا اور عملاً اُس سے پوری طرح غیر متعلق ہو کر اپنے دنیوی بہبود کے لیے مصروف رہنا۔
مزید یہ کہ راقم الحروف نے کبھی وہ لفظ استعمال نہیں کیا جو مذکورہ تبصرہ میں میری طرف منسوب کیاگیا ہے۔ اگر کسی کو اِس معاملے میں میرا نقطہ نظر بتانا ہے تو اس کو خود میرا لفظ استعمال کرنا چاہیے، نہ کہ اپنا لفظ۔ 6 دسمبر 1992کو میں نے جو کچھ کہا تھا، وہ یہ تھا — ایک مسجد پر مسلمان چپ ہوجائیں، اور ایک کے بعد دوسری مسجدوں پر ہندو چپ ہوجائیں۔ اُس وقت تمام مسلمان اِس پر غصہ ہوگئے تھے، لیکن آج حالات کے دباؤ کے تحت، تمام مسلمان اس کو عملاً اختیار کرچکے ہیں۔ اِ س دنیا کا قانون یہ ہے کہ اگر آپ ایک بات کو اصول کے تحت نہ مانیں تو آپ کو اُسے دباؤ کے تحت ماننا پڑے گا، اور اِسی کا دوسرا نام منافقت ہے۔
بابری مسجد کے معاملے میں دوسرے لوگ جو رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے صرف منافقت ہے، نہ کہ اصول پسندی۔ جو آدمی بابری مسجد کے منہدم کئے جانے کے واقعے کو ظلم کا معاملہ سمجھتا ہے، اُس کو جاننا چاہیے کہ اِس معاملے میں صرف الفاظ بولنا کافی نہیں ہے، بلکہ اُس کو ’’مجاہد‘‘ بن کر اجودھیا پہنچ جانا چاہیے۔ اپنے کاروبار میںمشغول رہتے ہوئے صرف زبان سے مذکورہ قسم کے الفاظ بولنا، واضح طور پر منافقانہ رویہ ہے اور منافقت سے زیادہ بُری کوئی چیز اسلام میں نہیں (4: 145)۔ اِس قسم کی بولی بلا شبہہ منافقانہ بولی ہے، نہ کہ مومنانہ بولی۔
سوال
آج ساری دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے جذبات ابھارے جارہے ہیں۔ کہیں کارٹون بنانے کے واقعات پیش آرہے ہیں تو کہیں قرآن کریم کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ایسی صورت میں امتِ مسلمہ کا کیا رول ہونا چاہیے (جیسا کہ ظلم وستم کو روکنے کا حکم ہے اور نہ روک سکیں تو دعا کرنے کا حکم) برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میںجواب دیں، جیسا کہ آپ کرتے ہیں۔ یہ بتائیں کہ مسلمان روکنے کی پوزیشن میں ہیں یا صرف دعا کرنے کی پوزیشن میں۔آپ کی بات اور آپ کا انداز سب سے جدا ہے اور مجھے مطمئن کرنے والا ہوتا ہے۔ (حماد احمد، نئی دہلی)
جواب
یہ کہنا درست نہیں کہ مسلمانوں کے جذبات ابھارے جارہے ہیں، یا اُن کو مشتعل کیا جارہا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان بعض واقعات پر غیر ضروری طورپر مشتعل ہو رہے ہیں، وہ غیر ضروری طور پر ان واقعات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں صبر وتحمل پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے، حتی کہ نماز سے پہلے صبر کا حکم ہے: استعینوا بالصبر والصلاۃ (2: 45) ۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نماز تو دھوم سے پڑھتے ہیں، لیکن وہ صبر کو پوری طرح چھوڑے ہوئے ہیں۔ اِس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ مسلمان خود اپنے رویے کو بدلیں۔
آپ نے لکھا ہے کہ اِس معاملے میں مسلمان کیا کریں، وہ اِن واقعات کو روکیں یا وہ اُس کے لیے دعا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کو خود اپنے آپ کو روکنا ہے اور خود اپنے لیے دعا کرنا ہے۔ کارٹون کا واقعہ یا قرآن کی بے حرمتی جیسی خبریں سن کر بھڑک اٹھنا، یہی مسلمانوں کی اصل غلطی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ جب وہ ایسی کوئی خبر سنیں تو وہ فوراً متعلق افراد سے ملیں اور اُن کو اسلامی لٹریچر پڑھنے کے لیے دیں۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا میں ہر انسان کو مصلحتِ امتحان کی بنا پر آزادی دی ہے۔ مذکورہ قسم کا کوئی واقعہ خدا کی دی ہوئی آزادی کا صرف ایک غلط استعمال ہوتا ہے۔ چوں کہ آپ آزادی کو ختم نہیں کرسکتے، اس لیے اُس کے خلاف لڑنا بھی آپ کے لیے درست نہیں۔ آپ صرف یہ کرسکتے ہیں کہ تبلیغ ونصیحت کے ذریعے اُس آدمی کی سوچ کو بدلیں، اسلام کے صحیح تعارف کے ذریعے اُس کے ذہن کو درست کریں اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کریں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 207

1 - پستک میلہ سمیتی (نئی دہلی) کی جانب سے مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر گوالیار میں 60واں نیشنل بک فئر منعقد ہوا۔ یہ بک فئر 4 اگست 2010 سے 9 اگست 2010 تک جاری رہا۔ اِس میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے حصہ لیا۔ یہاں یہ واحد اسلامک اسٹال تھا۔ لوگ بڑی تعداد میں اسٹال پر آئے اور صدر اسلامی مرکز کا ہندی اور انگریزی ترجمہ قرآن حاصل کیا۔ مقامی اخبارات نے اس کی خبریں شائع کیں۔ ہندی اخبار ’’پریوار ٹوڈے‘‘ (6 اگست 2010 ) نے صدر اسلامی مرکزکے کام کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:
ekSykuk oghnqیhu [kku iqLrdksa ds ek/;e ls fiNys ipkl o"kZ ls 'kkfUr vkSj HkkbZpkjs dk lans'k ns jgs gSaA
2 - اگست- ستمبر 2010 (رمضان 1431 ہجری) میں جنوبی ہند کا سفر ہوا۔ یہ سفر 20 اگست 2010 کو شروع ہوا اور 5 ستمبر 2010 کو ختم ہوا۔ آندھرا پردیش کے حیدرآباد ، محبوب نگر، کریم نگر اور ریاست کرناٹک کے شہر گل برگہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے پاس ماہ نامہ الرسالہ کے 2000 شمارے اور ’’صوم رمضان‘‘ کی 8000 کاپیاں تھیں جو وہاں کے تعلیم یافتہ افراد کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مقامی لوگوں نے اپنا بھر پور تعاون دیا۔ کافی لوگ الرسالہ کے ممبر بنے اور پرانے ممبروں نے اپنی خریداری کی تجدید کی -
3 - پستک میلہ سمیتی (نئی دہلی) کی جانب سے مہاراشٹر کے تاریخی شہر ناگ پور میں 62 واں نیشنل بک فئر منعقد ہوا۔ یہ بک فئر 24 ستمبر 2010 سے 3اکتوبر 2010 تک جاری رہا۔ اس میں گڈ ورڈ بکس نے حصہ لیا۔ یہاںیہ واحد اسلامک اسٹال تھا۔ دعوتی اعتبار سے یہ بک فئر بہت کامیاب رہا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے یہاں سے اسلامی مرکز کی کتابیں اور ہندی اور انگریزی ترجمہ قرآن حاصل کیا۔ بک فئر کے دوران 27 اگست 2010 کو ’’سمّان سماروہ‘‘ ہوا۔ پستک میلہ سمیتی کی طرف سے شہر ناگپور کے 16 لوگوں کو مختلف فیلڈ (لٹریچر وصحافت) میں نمایاں کام کرنے پر ایوارڈ دیا گیا۔ اِس موقع پر سبھی شرکاء کو خاص طورپر بک فئر کے سکریٹری چندر بھوشن اور سابق یونین منسٹر اور ایم پی مسٹر ولاس روا (Vilasroa Muttemwar) کو ہندی ترجمہ قرآن کی ایک ایک کاپی دی گئی۔ (شاہ عمران حسن)
4 - فرینکفرٹ (جرمنی) میں 6-10 ستمبر 2010 ایک انٹرنیشنل بک فئر ہوا۔ اِس میں گڈورڈ بکس نے شرکت کی۔ یہاں صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘ کو تین انٹرنیشنل پبلشرز نے مختلف زبانوں — جرمن، فرنچ، مَلے میں شائع کرنے کا وعدہ کیا۔ اس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
-5 دور درشن (نئی دہلی) کے نیشنل چینل کے تحت اس کے آڈی ٹوریم میں 25 ستمبر 2010کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام 2 اکتوبر کی نسبت سے مہاتما گاندھی کے بارے میں تھا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Non-violence and Relevance of Gandhian Principles.
یہ ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اِس میں ٹاپ کے پینلسٹ شامل تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں شرکت کی اور موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے شرکاء کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور ’’پرافٹ آف پیس‘‘ مطالعے کے لیے دی گئی جس کو لوگوں نے بہت شوق سے لیا۔
6 - نئی دہلی کے اسٹار ٹی وی اور این ڈی ٹی وی نیز کئی اخباروں نے 30 ستمبر 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو بابری مسجد کے حالیہ فیصلے کے بارے میں تھا۔ اِس میں بتایا گیا کہ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد مسلمان اب معاملے کو حکومت کے حوالے کردیں، تاکہ باہمی امن قائم ہو ا ور تعمیری کاموں کے مواقع کھل جائیں۔
7 - بابری مسجد ورڈکٹ (30 ستمبر2010) کے بعد صدر اسلامی مرکز نے اِس موضوع پر ایک مضمون تیار کیا جو اِس شمارے میں موجود ہے۔ یہ مضمون نئی دہلی کے اردو اخبار ’’راشٹریہ سہارا‘‘ (8 اکتوبر2010) اور ٹائمس آف انڈیا (12 اکتوبر 2010 ) میں شائع ہوا۔ ہندو مسلم دونوں طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگوں میں اس کو بے حد پسند کیا گیا۔ اِس سے اندازہ ہوتاہے کہ الرسالہ کا دعوتی فکر اب وقت کی آواز بن چکا ہے۔ اِس سلسلے میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر اپنے تاثرات بھیجے۔ یہاں صرف دو تاثر نقل کیے جارہے ہیں:
ک The article is very well written. Maulana’s solution alone will lead to peace between the two communities and put an end to this issue. (Swami Nikhilananda, New Delhi)
ک This is to convey my appreciation of your fine essay, 'Babri Masjid Revisited' in 'The Times of India' of 12 October 2010.(Vasumathi Krishnasami, Bangalore)
8 - امریکا کے لیے 2 اکتوبر 2010 کی صبح کو صدر اسلامی مرکز نے ایک خطاب کیا۔ اِس کو ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعے امریکا کے مختلف شہروں میں سناگیا۔ یہ ایک گھنٹہ کا خطاب تھا جو انگریزی زبان میں ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Establishing contact with God.
خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام آدھ گھنٹے تک جاری رہا۔
9 - جیسا کہ معلوم ہے، سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت 2-3 اپریل 2010 کو نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں الرسالہ مشن کے ممبران کا ایک دعوتی اجتماع (Dawah Meet) ہوا تھا۔ اِس اجتماع سے غیر معمولی طور پر دعوتی اور تربیتی فائدہ ہوا۔ اِس میں بہت سے ایسے افراد تھے جو الرسالہ مشن کے تحت لمبی مدت سے عملاً دعوتی کام کررہے ہیں،مگر انھوں نے کبھی صاحبِ مشن (مولانا وحیدالدین خاں صاحب) سے براہِ راست ملاقات نہیں کی تھی۔ اس کے باعث ان کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات تھے۔ اجتماع میں شرکت کے بعد انھوںنے بتایا کہ مولانا کو دیکھ کر ہی ہمارے تمام سوالات ختم ہوگئے اور دعوت کی نئی اسپرٹ ہمارے اندر پیدا ہوگئی۔ اِس سلسلے میں مختلف ساتھیوں کے کچھ تاثرات مختصراً یہاں اردو اور انگریزی زبان میں نقل کئے جاتے ہیں:
ک دعوہ میٹ واقعی معنوں میں Angels Meet تھی۔ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام جس درد و کرب کے ساتھ الرسالہ مشن سے وابستہ یہ افراد پہنچا رہے ہیں، وہ صحابہ کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ دعوت الی اللہ کے میدان میں بیش بہا قربانیوں کے باوجود ان کو کوئی فخر نہیں، بلکہ احساس ذمہ داری سے ان کی آنکھیں نم تھیں۔ اہلِ جنت کی یہی نشانی ہے — ایمان باللہ، عمل صالح اور تواضع۔ اِس مجلس میں کلمہ شہادت کو پہلی بار شعوری طور پرمولانا کے ساتھ تجدید کرنے کا تاریخی موقع نصیب ہوا۔ مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ یہ منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ ہر آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے اور وجود لرز رہا تھا۔ مولانا نے جب روتے ہوئے کہا: ’’اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں، میری ہڈیاں پگھل چکی ہیں‘‘ تو میرے ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ اِس بوڑھے آدمی نے اپنی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں سے اتار کر ہم پر ڈال دیا ہے۔ یہ احساس مجھ پر اس قدر غالب رہا کہ میں رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ Dawah Meet نے مجھے وادی کشمیر میں میر سید علی ہمدانی کے دعوتی مشن کو دوبارہ زندہ کرکے اسے عالمی سطح تک پہنچانے کے عزائم دئے۔میٹنگ کے بعد جب ہم واپس لوٹ رہے تھے تونئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر ایک جاپانی خاتون (Yukie Matsuoka) سے دلچسپ انٹریکشن ہوا۔ میں نے خاتون کو قرآن کا انگریزی ترجمہ gift کیا۔ اس کو سینے سے لگا کر وہ خوشی سے جھوم اٹھی: “This is for me!” جیسے ایک ماں اپنے کھوئے ہوئے بچے کو پاکر خوشی اور مسرت کااظہار کرتی ہے۔ میرے ساتھی اشک بار آنکھوں سے کہہ رہے تھے: ’’ہم مجرم ہیں، ہم مجرم ہیں‘‘ (حمید اللہ حمید، ایم اے، بیروہ، کشمیر)
ک دعوہ میٹ میں مولانا وحیدالدین خاں صاحب نے اپنی خصوصی تقریر کے آغاز میں کہا کہ یہ دعوہ کانفرنس سادہ معنوں میں صرف الرسالہ ریڈرس کی کانفرنس نہیںہے، بلکہ وہ الرسالہ اینجلس (angels) کی کانفرنس ہے۔اِس تاریخی اجلاس نے بلا تشبیہ حجۃ الوداع کی یاد تازہ کردی۔ مولانا نے بتایا کہ انھوںنے ساٹھ سال پہلے ایک تنظیم جس کا نام ’’انصار اللہ‘‘ تھا، قائم کیاتھا۔ اِس ٹیم میں اس وقت صرف مولانا اکیلے تھے۔ آج ساٹھ سال کی مسلسل محنت اور دعاؤں کے نتیجے میں انتہائی سنجیدہ اور باشعور لوگوں کی ایک طاقت ور ٹیم وجود میں آچکی ہے۔ مولانا نے حاضرین کانفرنس سے یہ امید ظاہر کی کہ یہ ٹیم اخوان رسول کی مانند ادخالِ قرآن جیسے عظیم ترین کام کو بخوبی طورپرانجام دے گی۔مولانا نے مزید کہا کہ اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں، ساٹھ سال کی مسلسل محنت کے بعد میری ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میں جلد ہی اپنے رب کے پاس چلا جاؤں، لیکن آپ لوگوں کو آخری سانس تک اپنے آپ کو اس مشن سے وابستہ رکھنا ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اِس سچے مشن کو پانا سچ مچ خدائی مدد ہے۔ یہی وہ مشن ہے جس کی مدد کا خدا نے وعدہ کیا ہے۔ ٹیم کے ہر ممبر کے چہرے پر روحانیت اور سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ بیش تر حاضرین اس موقع پر اپنے آنسو روک نہیں پارہے تھے۔ میرے ساتھ بھی کچھ یہی روحانی احساس گزرا۔میں نے 11 جنوری 2006 کو عرفات کے میدان میں خدا کے سامنے حاضری دی تھی۔ وہی ربانی کیفیت ہمیں آج یہاں محسوس ہورہی تھی۔ صاحب مشن کے ساتھ ہم ایک لامحدود روحانی دریا میں نہا رہے تھے ، ایسا محسوس ہورہا تھا،جیسے ہم فرشتوں کی صحبت میں بیٹھے ہوئے ہوں، جیسے ہم خداوند ذوالجلال کی ابدی رحمتوں کے سائے میں آگئے ہوں۔(ڈاکٹر محمد اسلم خان، سہارن پور)
ک دعوہ میٹ ایک عجیب اجتماع تھا۔ میںنے بہت سے مسلم اور غیر مسلم اجتماع میں شرکت کی ہے۔ مگرمذکورہ اجتماع کاپورا ماحول اور وہ کیفیتیں جو شرکاء پر طاری تھیں، اس کو میری آنکھوں نے نہ کبھی دیکھا اور نہ میرے جیسے انسان کے لیے اُس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہے۔ یہ واحد اجتماع تھا جس میں ہر طرف میںنے صرف اللہ کی عظمت کا چرچا سنا، اللہ کی عظمت کے سوا دوسری کسی عظمت سے یہ اجتماع مکمل طورپر خالی تھا۔ یہ اجتماع غیر معمولی طورپر اثر انگیز تھا۔ سارے لوگ تڑپ رہے تھے اور رورہے تھے، اس فکر میں کہ کیسے تمام انسانوں تک خدا کا کلام (قرآن) پہنچادیاجائے۔ خود صدر اسلامی مرکز کا حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے، جسم کانپ رہا تھا، اس احساس میں کہ ’’ہم سب سے بڑے ظالم ہیں، کیوں کہ ہم نے انسانوں سے ان کی جنت چھین رکھی ہے‘‘۔ اس اجتماع میں جن چیزوں نے مجھے ششدر کردیا، اس میں ایک دہلی سی پی ایس ٹیم کی تواضع (modesty) تھی۔ ڈاکٹر فریدہ خانم، ڈاکٹر ثانی اثنین خاں، مولانا محمد ذکوان ندوی، نغمہ صدیقی، استتھی ملہوترا، رجت ملہوترا، نودیپ کپور، وغیرہ ایسے انسان ہیں جنھوںنے اپنی انا کو کچل دیاہے۔ میری زندگی میں یہ پہلا اجتماع تھا جس میں چیئر کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، جس میں خود منتظمین کے بڑے اور اہم افراد زمین پر اور سب سے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ خود مولانا صاحب راؤنڈ میز کی ایک کامن چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کے دعوتی تجربات سن رہے تھے، اس طرح جیسے لوگ اُن کو گہرا علم دے رہے ہوں۔ کوئی شخص جس نے مولانا کو کبھی نہ دیکھا ہو، وہ یقینا اس روز مولانا کو نہیں پہچان سکتاتھا۔یہ بلا شبہہ الرسالہ اور مولانا کی تربیت کا ثمرہ ہے جس نے سی پی ایس دہلی کی ٹیم کو متواضع (modest) با مقصد اور بے غرض بنا دیا ہے۔ایک دوسرا واقعہ جس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، وہ اِس اجتماع میں علماء کی موجودگی تھی۔ میرے دماغ میں یہ بات تھی کہ الرسالہ زیادہ تر جدید حلقہ میں پڑھا جاتا ہے، علماء الرسالہ نہیں پڑھتے۔ مگر کانفرنس کا منظر کچھ اور ہی تھا۔ یہاںبڑی تعداد میں علماء موجود تھے۔ یہ سارے علماء نہایت سنجیدہ اور با صلاحیت ہیں۔ میں نے سارے علماء سے ملاقات کی۔ میںنے پایا کہ سارے علماء الرسالہ کے گہرے قاری ہیں اور الرسالہ مشن سے پوری طرح متفق ہیں۔ ان لوگوں نے یہ اعتراف کیا کہ مولانا نے قرآن اور سیرت کے ایسے پہلوؤں کو کھولا ہے جن کو ہمارے علم کے مطابق، مولانا سے پہلے کسی عالم نے نہیں کھولا۔ مثلاً دعوت الی اللہ کا بے آمیز تصور،خدا کی اعلیٰ شعوری معرفت، دنیا کے دار الانسان یا دار الدعوہ ہونے کی حیثیت، وغیرہ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر علماء نوجوان ہیں جو علمی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی سنجیدہ ہیں۔ میںنے اس سے پہلے کسی عالم کو نہیں پایا جو اتنا سنجیدہ ہو، جو مستقل دعوتی فکرمیں جیتا ہو اور بالکل کھلے طورپر ڈسکشن کا مزاج رکھتا ہو۔ الرسالہ مشن سے وابستہ یہ علماء اِس اعتبار سے ایک استثناء (exception) تھے۔ یہ یقینا خدا کی خصوصی نصرت ہے۔ یہ علماء ملک کے بڑے بڑے مدرسوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ندوی، قاسمی، سلفی، عمری ہر طبقے کے علماء موجود تھے۔ (حافظ ابو الحکم محمد دانیال ،بی ایس سی، پٹنہ،بہار)۔
ک دعوہ میٹ میں شرکت کا دن میری زندگی کا ایک یادگار دن تھا۔ اِس میں مجھے دعوت کے موضوع پر مولانا کی ایمان افروز تقریریں سننے کا موقع ملا۔ اس میں لانچ کئے گئے ’القرآن مِشن‘ کے مقاصد اور اِدخالِ کلمہ کے مفہوم پر مولانا نے اظہارِ خیال کیا۔ ان کی باتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ دعوت الی اللہ کا درد ان کے رگ وریشے میں سیرایت کرگیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ اسلام کی جدید تاریخ میں مولانا کا مقام ایک استثنائی مقام ہے۔ مولانا نے جس طرح دعوت الی اللہ کو اپنا supreme concern بنایا ہے، وہ بلا تشبیہ اسی پیغمبرانہ بصیرت کا حصہ ہے جس کا اظہار ہمیں حجۃ الوداع کے موقع پر ملتا ہے۔ جب پیغمبر اسلام نے میدان عرفات میں اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوے پوچھا تھا کہ کیا تم لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میںنے خدا کا پیغام تم تک پہنچا دیا ، تو سب نے بیک زبان کہا تھا کہ ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔ ہمارے دور کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ خطبۂ حجۃ الوداع جو رسولِ خدا کی زندگی کا آخری خطبہ تھا، اس کے اندر چھپا ہوا دعوت کا پیغام اپنی بے آمیز صورت میں ہمارے اہلِ علم ودانش پر آشکارا نہ ہوسکا۔ خدا کا شکر ہے کہ اُس نے مولانا وحید الدین خاں کے ذریعے اب اس پیغام اور اس حکمتِ ربانی کو دنیا پر افشا کردیا ہے۔ (احمد شناس، جموں وکشمیر)
ک I can say that the Dawah Meet-2010 was the third turning point in my life. The first, when I discovered the Truth sometime in 1993–1994 and the second, when I met Maulana Wahiduddin Khan for first time in Delhi in 1994.The meet gave me, for the first time, the clear and unambiguous mission of true Dawah. Now I have a very clear mission to spread the word of God to one and all without any exception. Maulana used the word of seven billion roohen (souls) as the target of our mission. This meet provided me again the first time the opportunity to meet so many daees at one place. The effect of interaction and exchange of ideas was overwhelming. The lectures by Maulana clarified many doubts related to a daee’s position as regards the mad’u. The importance of talif-e-qalb was explained beyond any doubt. The urgency of purpose and nearness of the Day of Judgment was more than explained by Maulana Sb's heart-touching lectures. Now the only purpose of our lives, till the end, will be to communicate the word of God to all the souls inhabiting the earth, Insha Allah. (Sajid Anwar Roorki, UP)
ک I consider myself extremely lucky in getting a chance to attend the Dawah Meet 2010. Listening to the Maulana Wahiduddin Khan and so many “Al-Risala angel” (and interacting with some of them)was a hugely enriching experience. Yet again, the importance of discovering Allah and sharing the discovery with people around was driven home to us. We got to learn that dawah is not just about delivering the Quran and other material to the madu, it's about having true love and deep sympathy in your heart for them as well as praying for them. Any negligence in this regard would be at the cost of Jannah, the ultimate cost indeed. And the price to pay for meaningful dawah work is to change one’s lifestyle, behavior and character. Another very important thing we learnt was that one has to discover the starting point to do dawah work and start with what is possible. The dai can't afford to wait any longer as the alarm of qayamat has already been sounded.Taleef-e-qalb of the madu is of the utmost importance. There is no limit to it. One has to be prepared to go to great lengths to please the madu and make a place in their heart. The da‘is work may appear difficult but it can be made easy with dua and tawakkul.When the Maulana told us that he hoped we were the Ikhwan-e-Rasul (brothers of the messenger) mentioned in a hadith we couldn’t but feel thrilled and exhiliarated. (Anwar Imam Ghazali, Patna, Bihar)
ک As far my impressions of Da‘wah meet 2010 is concerned, I would say I fail to find words for it. Ever since I was first introduced to Maulana’s literature in 1976, it has always served as a great source of inspiration and motivation. His writing awakened me to the greater purpose of my own life: Da‘wah work. It has become my primary mission and one that I wish to continue to work for tirelessly for the rest of my life. However, no matter how much self-motivation we may have, we all need a battery charge now and then. The Da‘wah Meet provided this recharge for me. Listening to Maulana’s words, and also meeting and hearing from so many others who are engaged in this work in India and around the world, provided me with new motivation and reinvigorated the Da‘wah. The Prophet mentioned that towards the end of time, there will emerge a group known as the “Ikhwan-e-Rasul” that will do this work. It is my sincere hope that those engaged in this work under Maulana’s leadership can become eligible to be part of that group that the Prophet spoke of so highly. (Khaja Kaleemuddin, USA)
واپس اوپر جائیں

Al Risala | December 2010 (الرسالہ،دسمبر)

Tuesday 2 November 2010

Al Risala | November 2010 (الرسالہ،نومبر)

2

-آیت الکرسی

3

- تسبیحِ خداوندی

4

- جہاد فی اللہ

5

- امت ِ مسلمہ کا المیہ

6

- نزاعی معاملے میں فیصلے کی بنیاد

7

- عقیدہ، عملی اقدام

8

- اسلامی تاریخ کاایک گم شدہ باب

14

- شخصیت کی تعمیر

15

- ذکر کیا ہے

16

- فرد اور جماعت

17

- ابتدائی حمد، انتہائی حمد

18

- نتیجے کو دیکھئے

19

- دعوتی طرزِ فکر

20

- جنات کی حقیقت

21

- عجز کی طاقت

22

- استدلال اور بنائِ استدلال

23

- ٹوٹا ہوا دل

24

- شخصیت کی تعمیر

25

- اسلام کا تصور ِ انسانیت

30

- عجز کی دریافت

31

- زمانے کی تبدیلی

32

- مرنے والوں کا تذکرہ

33

- حقوق اللہ، حقوق العباد

34

- معیاری نقطۂ نظر، عملی نقطۂ نظر

35

- جدید اسلوب

36

- عقیدے کی طاقت

37

- اپنی ذات کی توسیع

38

- دریافت، دریافت، دریافت

39

- سوال وجواب

44

- خبر نامہ اسلامی مرکز


آیت الکرسی

قرآن کی سورہ البقرہ میں ایک آیت ہے جس کو عام طورپر آیت الکرسی کہاجاتا ہے۔ اِس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے والا۔ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اُسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور وہ اس کے علم میںسے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جو وہ چاہے۔ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمینوں پر پھیلا ہوا ہے۔ وہ تھکتا نہیں ہے اُن کے تھامنے سے۔ اور وہی ہے بلند مرتبہ، عظمتوں والا (2: 255)۔
بلاغت کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر کسی حقیقت کو کامل صحت کے ساتھ بیان کردیا جائے تو ایسا بیان اپنے آپ میں کافی ہوجاتا ہے، اس کے بعد اِس بیان کو مدلل کرنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ مثلاً دوپہر کے وقت اگر کھلے آسمان میں سورج چمک رہا ہو تو یہ کہنا کافی ہے کہ سورج نکلا ہوا ہے۔ اِس کے بعد اِس بیان کو ثابت کرنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہ ہوگی۔
سورج کی مثال ایک حسّی مثال ہے۔ یہی معاملہ غیر حسّی حقیقتوں کا بھی ہے۔ اگر کسی غیر حسی حقیقت کو کوئی شخص پوری طرح دریافت کرلے اور پھر اس کو کامل صحت کے ساتھ الفاظ میں بیان کردے تو ایسا بیان اپنے آپ میں ایک مدلل بیان بن جائے گا۔ یہی معاملہ قرآن کی مذکورہ آیت کا ہے جس کو آیت الکرسی کہاجاتا ہے۔آیت الکرسی میں خداوند ذوالجلال کی جن صفتوں کو الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، ان میں صحتِ بیان اتنا زیادہ کمال درجے میں پایا جاتا ہے کہ اگر اس میں مزید وضاحت شامل کی جائے تو وہ اصل بیان کو کم تر کرنے کے ہم معنی بن جائے گی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ آیت الکرسی کو یاد کرکے بار بار اس کو دہرائے۔ وہ محسوس کرے گا کہ وہ ایک ایسے کلام کو دہرا رہا ہے جو معروف قسم کے مدلل کلام سے بھی زیادہ مدلل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت الکرسی ایک ایسا کلام ہے جس کو تشریح کے بغیر پڑھنا چاہیے۔ اُس میں کسی تشریح کا اضافہ صرف اس کی عظمت کو گھٹانے والا ثابت ہوگا، نہ کہ اس کی عظمت کو بڑھانے والا۔
واپس اوپر جائیں

تسبیحِ خداوندی

قرآن میں بار بار یہ تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی تسبیح کرے۔ اِس کے لیے دوسرے الفاظ بھی آئے ہیں۔ مثلاً تحمید، تمجید، تقدیس ، وغیرہ۔ اِن سب کا خلاصہ ایک ہے، اور وہ ہے اعتراف (acknowledgement) انسان کی نسبت سے جس چیز کو اعتراف کہاجاتا ہے، اسی کو اللہ کی نسبت سے تسبیح وتحمید کہاگیا ہے۔ تسبیح وتحمید کے الفاظ دراصل اعتراف ہی کی منزّہ تعبیریں ہیں۔ پھر اِن سب کا خلاصہ صرف ایک ہے، اور وہ گلوری فکیشن (glorification) ہے، یعنی اللہ کی عظمت وکبریائی کا بندے کی زبان سے اظہار۔
خدا اور بندے کے درمیان جو نسبت ہے، وہ دینے والے اور پانے والے کی نسبت ہے۔ بندے کے پاس اللہ کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ واحد چیز جس کو ایک بندہ اپنے رب کے سامنے پیش کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کو اس کی حیثیتِ واقعی کے ساتھ دریافت کرے۔ اِسی دریافت کا نام معرفت (realization) ہے۔ جب کوئی بندہ جہاد فی اللہ کرتا ہے، یعنی اللہ کے معاملے میں انتہائی حد تک غوروفکر، اُس وقت اللہ کی توفیق سے اُس پر حقیقت خداوندی کا انکشاف ہوتا ہے۔ وہ کامل یقین کے درجے میں اللہ کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ اِس کے بعد اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں ایک فکری بھونچال آجاتا ہے۔ وہ اندرونی طوفان کے ذریعے اللہ کا اعلیٰ اعتراف کرنے والے الفاظ بولنے لگتا ہے۔ یہ گویا معرفتِ داخلی کا خارجی الفاظ میں ڈھل جانا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو قرآن میں تسبیح وتحمید جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔کسی انسان کا اِس طرح اللہ کو دریافت کرنا کوئی آسان با ت نہیں۔ یہ مخلوق کا اپنے خالق کو دریافت کرنا ہے، یہ طالب کا اپنے مطلوب کو دریافت کرلینا ہے، یہ عاجز ِ مطلق کا قادرِ مطلق کو دریافت کرلینا ہے۔ اِس دریافت کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ وہ لمحہ ہے جب کہ ایک انسان اپنے رب کو اس کی حیثیتِ واقعی کے ساتھ دریافت کرلیتا ہے۔ وہ اِس پوزیشن میں ہو جاتاہے کہ وہ دیکھے بغیر اللہ کو دیکھے، وہ دوری کے باوجود اللہ کی قربت کا تجربہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

جہاد فی اللہ

قرآن کی سورہ العنکبوت میںایک آیت آئی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے— جو لوگ اللہ میں جہادکریں گے، ان کو اللہ ضرور اپنے راستے دکھائے گا(29: 69) ۔ قرآن کی اِس آیت میں ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ نہیں ہے، بلکہ ’’جہاد فی اللہ‘‘ ہے، یعنی یہاں اللہ کے راستے میں جہاد نہیں، بلکہ اللہ میں جہاد۔سورہ العنکبوت ہجرت حبشہ (5 نبوی) سے پہلے اتری۔ اِس لیے یہ واضح ہے کہ اِس آیت میں جہاد سے مراد قتال نہیں ہے۔ اِسی طرح اِس آیت میں جہاد سے مراد احکامِ الٰہی کی عملی اطاعت بھی مراد نہیںہوسکتی، کیوں کہ ایسا کوئی لفظ یہاں موجود نہیں۔ اِس آیت میںجہاد فی اللہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی چیز کو ہدایت کہاگیا ہے، اِس لیے اِس آیت میں جہاد فی اللہ کا کوئی ایسا مطلب مراد ہوگا جس کا تعلق ہدایت سے ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں جہاد سے مراد جہادِ فکری ہے، یعنی اللہ کے بارے میں سوچنا، اللہ کے بارے میں تفکر اور تدبر کرنا، اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا، مسلسل مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعے اپنے ایمان میں اضافہ کرتے رہنا، وغیرہ۔
دین کا آغاز معرفت سے ہوتا ہے۔ یعنی مخلوقات میں غور وفکر کے ذریعے خالق کو پہچاننے کی کوشش کرنا، کلام الٰہی کا مطالعہ کرکے اس سے مسلسل ذہنی غذا حاصل کرنا، اپنے روز مرہ کے تجربات کو ربانی بصیرت میں ڈھالنا، وغیرہ۔ اِس قسم کا غور وفکر کامل یکسوئی کے ذریعے ہوتا ہے، اور کامل یکسوئی (concentration) بلاشبہہ ایک عظیم جہاد ہے۔
’’ہم ضرور ان کو اپنے راستے دکھائیں گے‘‘ اِس سے مراد ہدایت کے راستے ہیں، یعنی ایسے لوگوں کا ذہن زیادہ سے زیادہ کھلے گا، ان کے ندر نئی سوچ جاگے گی، ان پر معرفتِ خداوندی کے نئے نئے پہلو واضح ہوںگے۔ جس طرح اللہ کی ذات لامحدود ہے، اسی طرح اس کی معرفت بھی لامحدود ہے۔ اِس لامحدود معرفت کی توفیق انھیں لوگوں کو ملتی ہے جو تفکر اور تدبر کے ذریعے اللہ میں جہاد کرنے والے ہوں۔ اِسی فکری جہاد کو اِس آیت میں جہاد فی اللہ کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

امت ِ مسلمہ کا المیہ

حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنما أخاف علی أمتی الأئمۃَ المُضَلِّین، وإذا وُضع السیف فی أمتی، لم یُرفع عنہم إلی یوم القیامۃ (أبو داؤد والترمذی، بحوالہ: مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث :5394 ) یعنی میںاپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ گم راہ کن لیڈروں سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت کے اندر تلوار داخل ہوگی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اٹھائی نہ جائے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ امتِ محمدی کے اندر یہ تلوار حضرت عثمان کی خلافت کے زمانے میں داخل ہوئی۔ یہ معاملہ گمراہ کن لیڈروں کے ذریعہ پیش آیا اور عملاً وہ آج تک مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسلام کا اصل ماڈل دعوتی ماڈل ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں یہی ماڈل امت کے درمیان جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اس میں تبدیلی آئی۔ اب امت کے اندر غیردعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔
دعوتی ماڈل پر امن مشن کا ماڈل ہے۔ اِس ماڈل میں مثبت سوچ ہوتی ہے، تعمیری سرگرمیاں ہوتی ہیں، تمام سرگرمیاں دعوت کے مرکزی تصور کے تحت تشکیل پاتی ہیں، ٹکراؤ کے بجائے مصالحت کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دشمن کو دوست بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اختلاف کوگفت وشنید (negotiation) کے ذریعے حل کیا جاتا ہے، وغیرہ۔
غیر دعوتی ماڈل کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ اس میں نفرت اور تشدد اور ٹکراؤ جیسی چیزیں فروغ پاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد امت میں غیر دعوتی ماڈل رائج ہوگیا۔ اس کے بعد امت کے اندر کوئی ایسی طاقت ور شخصیت نہیں ابھری جو غیر دعوتی ماڈل کو ختم کرے اور امت کے اندر دوبارہ دعوتی ماڈل کو رائج کرے۔ یہی امتِ مسلمہ کا اصل المیہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اِس المیہ کو دورکرکے امت کو دوبارہ دعوتی ماڈل پر لایاجائے۔ اِس کے بغیر امت کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نزاعی معاملے میں فیصلے کی بنیاد

قرآن کی سورہ النساء میں ایک اجتماعی حکم بیان کیاگیا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: پس تیرے رب کی قسم، وہ کبھی ایمان والے نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے باہمی جھگڑے میں تم کو حَکَم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلہ تم کرو، اُس پر وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور وہ اس کو خوشی سے قبول کرلیں(4: 65) ۔
قرآن کی اِس آیت کا ایک شانِ نزول بیان کیا جاتاہے، مگر اِس آیت میں ایک وقتی واقعہ کے حوالے سے ایک ابدی اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اجتماعی نزاعات کا فیصلہ کس طرح کیا جائے، اجتماعی نزاعات کو کس اصول کے تحت ختم کیا جائے۔ وہ اصول یہ ہے کہ تمام متعلقہ فریق عدالت کے فیصلے کو بلا شرط مان لیں، نزاعی معاملے کو حل کرنے کے لیے اِس کے سوا کوئی اور قابلِ عمل صورت نہیں۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اجتماعی نزاعات عام طورپر باہمی گفت وشنید سے ختم نہیں ہوتے، پھر اس کو کس طرح ختم کیاجائے۔ اس کا آخری طریقہ یہ ہے کہ تمام لوگ نزاعی معاملے میں عدالت کے فیصلے کو مان لیں جو کہ قانونی طورپر ایک مسلّمہ ادارہ (legally accepted institution) کی حیثیت رکھتا ہے۔ عدالت ایک ایسا ادارہ ہے جو کسی سماج میں دستوری اور قانونی بنیاد پر قائم کیا جاتاہے۔ اِس بنا پر کسی سماج میں عدالت کو لوگوں کے درمیان ایک مستند حیثیت ہوجاتی ہے۔ اب نزاع کے ہر فریق کو چاہیے کہ وہ عدالت کی اِس مسلّمہ حیثیت کو مانتے ہوئے اس کے فیصلے کو بلا شرط قبول کرلے، خواہ وہ اس کے موافق ہو یا اس کے خلاف۔
کسی سماج میں نزاع کا مستقل طورپر باقی رہنا، اُس کی ترقی میں ایک رکاوٹ ہے۔ کسی سماج میں نزاع اگر دیر تک باقی رہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس سماج میں صحت مند ماحول کا خاتمہ ہوجائے گا، جب کہ صحت مند ماحول کے بغیر تعمیر وترقی کا کوئی کام مطلوب انداز میں ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں واحد قابل عمل صورت یہ ہے کہ عدالت کو قولِ فیصل کا درجہ دے دیا جائے۔ اِس طریقے کا ایک مزید فائدہ یہ ہے کہ اِس میں کسی فریق کا وقار مجروح نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

عقیدہ، عملی اقدام

کسی بات کو بطور عقیدہ ماننا ہو تو صرف یہ دیکھنا کافی ہوگا کہ اصولاً وہ بات درست ہے یا نہیں۔ اگر وہ بات اصولی اعتبار سے درست ہے، تو آپ کو حق ہے کہ آپ اس کو اپنا عقیدہ بنائیں۔ عقیدے کا تعلق آدمی کی اپنی ذات سے ہوتا ہے، دوسروں کی تصدیق یا موافقت اس کے لیے ضروری نہیں۔
لیکن عملی اقدام (practical step) کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ عملی اقدام کی صورت میں آپ تنہا نہیں ہوتے، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔ کوئی عملی اقدام کرتے ہوئے آپ کو لازماً یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کے اقدام کا نتیجہ (result) کیا ہوگا۔
اگر آپ کے اقدام کا مثبت نتیجہ (positive result)نکلنے والا ہو تو آپ اقدام کرسکتے ہیں، لیکن اگر حالات بتاتے ہوں کہ آپ کے اقدام کا نتیجہ منفی (negative)صورت میں نکلے گا تو آپ پر فرض ہوگا کہ آپ ہر گز ایسا اقدام نہ کریں۔ ایسی حالت میں، اصول کا حوالہ دے کر اقدام کرنا، بلا شبہہ باطل ہے، مذہبی شریعت میں بھی اور سیکولر شریعت میں بھی۔ عملی اقدام کی صورت میں نتیجہ (result)معیار ہے، نہ کہ اصولی طورپر اس کا درست ہونا۔
یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیث رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے: مِن حُسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ (الترمذی، کتاب الزہد) یعنی آدمی کا حسنِ اسلام یہ ہے کہ وہ اُس عمل کو ترک کردے جو بے نتیجہ ثابت ہونے والا ہو۔
گویا کہ جس طرح عمل مطلوب ہے، اُسی طرح ترکِ عمل بھی مطلوب ہے۔ اِس معاملے میں جو چیز فیصلہ کن ہے، وہ نتیجہ (result) ہے، یعنی جس عملی اقدام کا نتیجہ مثبت صورت میں نکلنے والا ہو،اس کو اختیار کیا جائے گا۔ اور جس عملی اقدام کا نتیجہ منفی صورت میں نکلنے والا ہو، اس کو ہر گز اختیار نہیں کیا جائے گا۔ مثلاً یک طرفہ ہلاکت، مسائل میں مزید اضافہ، امن کی فضا کی بربادی، باہمی تعلقات کا بگاڑ، مواقع(opportunities) کا غیر استعمال شدہ حالت میںپڑا رہ جانا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی تاریخ کا ایک گم شدہ باب

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: إنّ الاسلام بدأ غریباً وسیعود غریباً کما بدأ فطوبیٰ للغرباء (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان أن الاسلام بدأ غریبا) یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی (stranger) تھا۔ وہ دوبارہ اجنبی ہوجائے گا، جیساکہ وہ پہلے تھا، تو اجنبیوں کو مبارک ہو۔
بعد کے زمانے میں اسلام کے اجنبی ہونے کی یہ پیشین گوئی مسلمانوں کی نسبت سے ہے، یعنی اسلام خود مسلمانوں کے درمیان اجنبی ہوجائے گا۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس سے مراد نفسِ اسلام نہیں ہے، بلکہ اسلام کاکوئی بنیادی جز ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ بنیادی جز کیا ہے۔
غور کیجئے تو بعد کی مسلم نسلوں میں ہمیشہ اسلام بظاہر موجود رہا ہے اور آج بھی وہ موجو د ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی مسلم نسلوں میں اور آج کی مسلم نسلوں میں بھی تمام اسلامی مظاہر موجود ہیں۔ان کے درمیان کلمۂ ایمان موجود ہے، نماز اور روزہ موجود ہے، زکوۃ اور عمرہ اور حج موجود ہے، قرآن کی تلاوت موجود ہے، دینی تعلیم کے ادارے موجود ہیں، مسجدیں اور مدرسے موجود ہیں، اسلام کے نام پر جہاد موجود ہے، ذکر واذکار کی محفلیں موجود ہیں، دین کے نام پر نقل وحرکت موجود ہے، ہزاروں کی تعداد میں اسلام کے نام پر بننے والی تنظیمیں بھی موجود ہیں، مسلمانوں کے اپنے دعوے کے مطابق، اسلامی سیاست اور اسلامی حکومت بھی موجود ہے، ساری دنیا میں بڑی بڑی شخصیتیں بھی موجود ہیں جن کی شناخت اسلام کے حوالے سے ہوتی ہے، اسلام کے نام پر جان ومال کی قربانی دینے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کو خود مسلمانوں نے اِس قسم کے ٹائٹل دے رکھے ہیں— مفکر اسلام، مجاہد اسلام، قائد اسلام، حکیم الاسلام، سیف الاسلام، حجۃالاسلام، مجدداسلام، شیر ِ اسلام، وغیرہ۔
لیکن غور کیجئے تو اسلام کی صرف ایک بنیادی تعلیم ایسی ہے جو مسلمانوں کے درمیان موجود نہیں، یہ دعوت الی اللہ ہے۔ دعوت الی اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مشن تھا۔ رسول اور اصحاب رسول نے اپنی ساری توانائی اِسی ایک مشن پر خرچ کی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا کنسرن (sole concern) دعوت تھا۔ اِس کا ایک اظہار قرآن کی اِس آیت سے ہوتاہے: لعلک باخع نفسک أن لا یکونوا مؤمنین (26: 3) یعنی اے رسول، شاید تم اپنے آپ کو اِس لیے ہلاک کرڈالوگے کہ لوگ (تمھاری غیر معمولی دعوتی محنت کے باوجود) ایمان نہیں لارہے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس معاملے میں صحابہ کی تربیت کس طرح کی تھی اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر کیسا مزاج بنا تھا، اس کا اندازہ ایک روایت سے ہوتاہے۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے حضرت علی بن ابی طالب کو ایک مہم پر روانہ کیا۔ روانگی کے وقت آپ نے اُن کو جو نصیحت کی، ایک روایت کے مطابق، اُس کے الفاظ یہ تھے: یا علی، لأن یہدی اللہ علی یدیک رجلاً، خیر لک مما طلعت علیہ الشمس (المستدرک علی الصحیحن للحاکم، 3/690 ) یعنی اے علی یاد رکھو، اگر اللہ تمھارے ذریعے سے ایک انسان کو ہدایت دے دے تو وہ تمھارے لیے اُن تمام چیزوں سے بہتر ہے جن کے اوپر سورج طلوع ہوتا ہے، یعنی تمام دنیا ومافیہا سے زیادہ بہتر۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی انداز میں اپنے اصحاب کو تربیت دی تھی۔ آپ ہر موقع پر اُنھیں دعوت الی اللہ کی اہمیت بتاتے تھے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پُرامن دعوت، اصحاب رسول کا سب سے بڑا کنسرن بن گیا۔ ان کے لیے دعوت کے سوا، دوسری تمام چیزیں اضافی (relative) بن گئیں۔ دعوت ہی ایک ایسا کام تھا جو اُن کے لیے حقیقی کام کی حیثیت رکھتا تھا۔
رسول اور اصحاب ِ رسول اور تابعین کے دو رکو اسلام کی تاریخ میں قرون مشہود لہا بالخیر کہاجاتا ہے۔ اِس ابتدائی زمانے میں تمام صحابہ کا واحدنشانۂ عمل یہی تھا۔ نبوت کا آغاز 610 عیسوی میں ہوا۔ اِس کے بعد مسلسل دعوتی کوشش کے نتیجے میں 20 سال کے عرصے میں عرب کے تقریباً تمام لوگ اپنے سابقہ مذاہب کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوگئے۔ جب عرب میںدعوت کا کام مکمل ہوگیا تو حجۃ الوداع (10 ہجری) کے بعد اصحاب رسول عرب سے نکل کر آس پاس کے ملکوں میں پھیل گئے اور اپنی دعوتی ذمے داریوں کو بیرونی علاقوں میں انجام دینے لگے، دعوت کا یہ کام کم وبیش بنو امیہ کے دور اقتدار (661- 750) تک جاری رہا۔
750 عیسوی سے تاریخ بدلتی ہے۔ اِسی سال بنو عباس نے ایرانیوں کی مدد سے اپنی سلطنت قائم کی۔ عباسی دور ہی وہ دور ہے جب کہ مسلمانوں کے اندر سے دعوتی شعور کا خاتمہ ہوگیا۔ عباسی دور میں مختلف قسم کی غیر معمولی ترقیاں ہوئیں، لیکن جہاں تک دعوتی عمل کا تعلق ہے، وہ اس دور میں تقریباً مفقود ہوگیا۔ اسلام کی اپنی فطری کشش کی بنا پر اگر چہ ہر زمانے میں لوگ اسلام قبول کرتے رہے، لیکن ایک باقاعدہ شعور کی حیثیت سے دعوت کا وجود باقی نہ رہا۔
عباسی دور ہی میں اسلام کے مختلف موضوعات پر وہ تمام کتابیں لکھی گئیں جن کو اسلام کا کلاسیکل لٹریچر سمجھا جاتاہے، مگر اِن تمام کتابوں میں واحد باب جو حذف ہوگیا، وہ دعوت کا باب تھا۔ اِن کتابوں میں اسلام کے تقریباً تمام ممکن موضوعات پر بحث موجود ہے، لیکن حیرت انگیز طورپر اُن میں دعوت کا باب موجود نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اِن مصنفین نے دعوت کے کام کو عملاً منسوخ قرار دے دیا ہو۔
عباسی دور میں جو پیٹرن (pattern)قائم ہوا، وہی پیٹرن دنیا کے تمام مسلمانوں کے اندر گویا کہ واحد مستند پیٹرن بن گیا۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی صدیوں میں کثیر تعداد میں قرآن کی تفسیریں لکھی گئیں، مگر اِن تفسیروں میں سے کوئی تفسیر دعوتی اسلوب پر نہیں لکھی گئی۔ احادیثِ رسول کی تدوین ہوئی تو ان میں ہر قسم کے ابواب قائم ہوئے، لیکن دعوت کا باب حدیث کی کتابوں میں موجود نہیں۔ یہی حال فقہ کا ہوا۔ فقہ کی کتابوں میںہر قسم کے ابواب موجود ہیں، مگر دعوت وتبلیغ کا باب فقہ کی کسی کتاب میں نہیں پایا جاتا۔
اِسی طرح سیرت کی کتابیں مغازی کے پیٹرن پر لکھی گئیں۔ اسلامی تاریخ پر لکھی جانے والی کتابیں اِس انداز پر لکھی گئیں کہ وہ عملاً سیاسی اسلام کی تاریخ بن گئیں، حتی کہ مورخ ابن خلدون (وفات:1406 ء) نے غیر سیاسی نہج پر اسلام کی تاریخ لکھنا چاہی، مگر وہ اِس مقصد میںکامیاب نہ ہوسکا۔ کیوں کہ اس کے زمانے میں ایسی کتاب لکھنے کے لیے ضروری تاریخی مواد (data) ہی موجود نہ تھا۔اِسی طرح بعد کے زمانے میں اسلام کی تشریح پر جو مشہور کتابیں لکھی گئیں ہیں، وہ بھی عملاً دعوت کے ابواب سے خالی ہیں۔ مثلاً الغزالی کی احیاء علوم الدین، ابن قیم کی اعلام الموقعین، شاہ ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ اور اِس قسم کی دوسری کتابیں جو عربی یا کسی اور زبان میں لکھی گئیں، وہ سب اِس دعوتی تصور (concept)کے فقدان کی کھلی ہوئی مثالیں ہیں۔
آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارھویں صدی عیسوی تک یہی صورتِ حال باقی رہی۔ اِس کے بعد انیسویں صدی میں مغربی قومیں نئی طاقتوں کے ساتھ اٹھیں۔ انھوںنے مسلمانوں کے سیاسی دبدبے کا خاتمہ کردیا۔ دھیرے دھیرے مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر ختم ہوگیا، البتہ چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستیں باقی رہیں جو اب بھی 57 مسلم ملکوں کی شکل میں موجود ہیں۔
اِس کے بعد مسلم سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ یہ دور زیادہ واضح طورپر سید جمال الدین افغانی کے زمانے میں انیسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا اور بیسویں صدی کے آخر تک جاری رہا۔ اِس زمانے میں مسلمانوں کی کوشش یہ تھی کہ وہ دوبارہ مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم کریں۔ یہ کام مفروضہ سیاسی غاصبین کے خلاف جہاد بالسیف کی صورت میں شروع ہوا، مگر وہ اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہا۔ اِس ناکامی کے دو بڑے علامتی واقعات ہیں— فلسطین میںعربوں کے مسلح جہاد کی مکمل ناکامی، اِسی طرح کشمیر میں مسلح جہاد کی مکمل ناکامی۔
مسلح جہاد کی اِس ناکامی کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان پورے معاملے کا از سرِ نو جائزہ لیتے۔ وہ اپنی کمی کو دریافت کرتے اور نئی بنیادوں پر اپنی جدوجہد کی منصوبہ بندی کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ مسلمانوں کے مفکرین نے اِس کے بجائے یہ کیا کہ انھوںنے اسلام کی پورے معنوں میں سیاسی تعبیر کرڈالی۔ اِس سے پہلے مسلمانوں کا مسلح جہاد صرف عملی معنوں میں ایک سیاسی جہاد کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن اسلام کی سیاسی تعبیر کے بعد وہ مسلمانوں کے لیے عقیدہ کا ایک مسئلہ بن گیا، یعنی ہر حال میں انھیں اپنی سیاسی لڑائی لڑنا ہے، خواہ اِس کا نتیجہ یک طرفہ تباہی کے سوا کچھ اور نہ ہو۔
اسلام کی سیاسی تعبیر ایک خطرنک قسم کے غلو(extremism) کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہی وہ انتہا پسندانہ تعبیر ہے جس کے بطن سے وہ ظاہرہ برآمدہوا ہے جس کو آج کل خود کش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے، یعنی جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاک کرکے دشمن کو کچھ نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا۔ اسلام کی سیاسی تعبیر نے پہلے یہ کیا کہ مسلمانوں کے لیے دوسری اقوام کو اُن کا حریف بنا دیا۔ اِس کے بعد مسلمان دوسری قوموں سے نفرت کرنے لگے، وہ متشددانہ کارروائی کے ذریعے دشمن کو مغلوب کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ان کی تقریر وتحریر، ان کی انتخابی کارروائیاں (electoral activities)، اُن کے مسلح حملے اپنے مفروضہ دشمن پر انھیں کامیابی نہیں دے رہے ہیں تو وہ مایوسی کی آخری حد تک پہنچ کر خود کش بمباری کرنے لگے۔
عباسی دور میں جب دعوت کا تصور پس پشت چلا گیا اور مسلمانوں میں سیاسی توسیع کا ذہن پیدا ہوگیا تو یہ اسلامی تاریخ میں گویا کہ پہلا انحراف (derailment) تھا۔ اس کے بعد جب بیسویں صدی عیسوی میں اسلام کی سیاسی تعبیر کی گئی تو یہ کامل طورپر دعوتی ذہن کے خاتمہ کے ہم معنی تھا۔بیسیوں صدی میں اسلام کی جو سیاسی تعبیر کی گئی، اس کے دو خاص چیمپین تھے — عرب دنیا میں سید قطب مصری، اور بر صغیر ہند میں سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ اِس کے علاوہ، ثانوی درجے میں اِس سیاسی تعبیر کے کچھ اور موجدین ہیں۔ مثلاً آیت اللہ الخمینی، اسامہ بن لادن، وغیرہ۔
کسی شخص کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی انسان کی نیت پر حملہ کرے یا فتویٰ کی زبان میں اس کے عند اللہ مقبول یا غیرمقبول ہونے کا اعلان کرے۔ لیکن عملی نتیجہ کے اعتبار سے، یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ موجودہ زمانے میں اسلام کی سیاسی تعبیر دجالی فتنے سے کم نہیں۔ اِس عظیم فتنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ غیر اسلام کو اسلام کے نام پر کیا جانے لگا— داعی کے لیے اس کا مدعو نفرت کا موضوع بن گیا، تشدد کو ایک مقدس عمل کا درجہ حاصل ہوگیا، خود کش بم باری مسلم انتہا پسندوں کے لیے جنت میںفی الفور داخلے کا ذریعہ قرار پائی، خدا رخی اسلام عملاً سیاست رخی اسلام بن گیا، کمیونسٹ اخلاقیات کو اسلامائز کرکے اس کو اسلام میں داخل کرلیا گیا، لوگوں کی جنت کے حریص بننے والے، لوگوں کی ہلاکت کے حریص بن گئے، نفرت اورتشدد کے پروپیگنڈے کا یہ نتیجہ ہوا کہ دعوت کے اعلیٰ مواقع کو استعمال کرنا ممکن نہ رہا، مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) مکمل طورپر ختم ہوگئی، وغیرہ۔
مذکورہ جائز ہ بتاتا ہے کہ اسلام کی بعد کی تاریخ میں جو چیز اجنبی بن گئی، وہ اسلام کا دعوتی پہلو تھا۔اکیسویں صدی میں یہ صورتِ حال اپنے نقطۂ انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اسلام کے اس اجنبی پہلو کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ اہل اسلام کو دوبا رہ تیار کیا جائے کہ وہ دعوت کے نشانے کو اپنا نشانہ بنائیں۔ وہ دوبارہ اُس دعوتی عمل کو زندہ کریں جو دنیا کی تمام قیمتی چیزوں میں سب سے زیادہ قیمتی عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی لوگ اُس اعلیٰ خدائی مبارک باد کے مستحق قرار پائیںگے جس کا ذکر مذکورہ حدیث رسول میں کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی تعمیر

قرآن کی سورہ نمبر 90میں ارشاد ہوا ہے: لقد خلقنا الإنسان فی کبد (البلد :4 ) یعنی اللہ نے انسان کو مشقت (toil) میں پیدا کیا۔
قرآ ن کی اِس آیت میں مشقت (کبَد)کا لفظ منفی مفہوم (negative sense) میں نہیں آیا ہے، بلکہ وہ مثبت مفہوم (positive sense) میں آیا ہے۔اِس اعتبار سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اِس سے مراد جدو جہد (struggle) ہے۔
یعنی موجودہ دنیا میں انسان ایسی حالت میں رہتا ہے کہ اس کو زندگی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، وہ سخت محنت کے کورس سے گزرتا ہے۔ یہ انسانی شخصیت کی مثبت تعمیر کے لیے ضروری ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ —سہولت نہیں، بلکہ کوشش ، آسانی نہیں ، بلکہ مشکل وہ چیز ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے:
It is not ease but effort, not facility but difficulty that make men.
انسان ابتدائی طور پر خام لوہا(ore) کے مانند ہے۔ لوہے سے مشین بنتی ہے، لیکن اس کے لیے لمبا عمل (process) درکار ہوتاہے۔ خام لوہے کو آگ کی بھٹی سے گزرنا ہوتا ہے، اس کے بعد وہ اسٹیل بنتا ہے، پھر مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد وہ مشین کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ انسان امکانی طورپر اعلیٰ صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن اپنے فطری امکانات کو واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے سخت مراحل سے گزرے۔ اِنھیں مراحل کے درمیان اس کا ذہنی ارتقاء ہوتا ہے، اس کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو پختگی (maturity) کہا جاتاہے۔ زندگی کے سخت مراحل سے گزرے بغیر کوئی شخص اعلیٰ انسان نہیں بنتا۔اِس دنیا میں ہر مشکل ایک چیلنج (challenge)ہے۔ یہ دراصل چیلنج ہی ہے جس کا سامنا کرنے کے بعد انسان اعلیٰ ترقی کے درجے تک پہنچتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذکر کیا ہے

مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977 ) نے قرآن کی آیت: فاذکرونی، أذکرکم (البقرۃ:152 ) کی تشریح کے تحت اپنی تفسیر میں لکھا ہے:
’’ابوبکر جصّاص رازی (وفات: 370 ھ) نے ذکر سے مراد لیا ہے — آیاتِ الٰہی اور ان کی عظمت وقدرت کا تفکّر، اور اِسی کو سارے اذکار سے افضل اور ان کی اصل قرار دیا ہے (وذکرہ بالفکر فی دلائلہ وآیاتہ وقدرتہ وعظمتہ۔ وہو أفضل سائر وجوہ الذکر مبنیۃ علیہ وتابعۃ لہ‘‘ (أحکام القرآن1/112 )۔
اصل یہ ہے کہ اللہ کی ذات کا تصور ہم موجودہ دنیا میں صرف اللہ کی صفات کے اُن مظاہر کے ذریعے کرتے ہیں جو ہمارے وجود میں اور کائنات میں ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ اِن مظاہرِ فطرت میں تدبر کرنے سے ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ذکر، اللہ کے اسمِ ذات کی لفظی تکرار کا نام نہیںہے۔ ذکر یہ ہے کہ اللہ کے تخلیقی مظاہر میں غور کیا جائے، تخلیقی کمالات کے ذریعے اللہ کی عظمت کو دریافت کیا جائے۔ یہی ذکر ہے اور اِسی ذکر کے ذریعے کسی انسان کو اللہ کی اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم خدا کی ذات کا مشاہدہ نہیں کرسکتے، البتہ ہم خدا کی تخلیقات میں ضرور اس کی جھلک کو دیکھ سکتے ہیں۔ تخلیقاتِ الٰہی میں اِسی غور وفکر کا نام ذکر ہے، اور اِسی کے ذریعے کسی انسان کو وہ اعلیٰ درجۂ ایمان نصیب ہوتا ہے جس کو معرفت کہا گیا ہے۔
ذاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرنے کی کوشش انسان کو یا تو وجد (ecstacy)تک پہنچاتی ہے، یا کنفیوژن (confusion) تک، اور یہ دونوں ہی بلاشبہہ غیر مطلوب ہیں— اِس معاملے میںاصل مطلوب چیز وہی معرفتِ ربانی (divine realization) ہے جو تدبر اور تفکر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اِس منزل تک پہنچنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

فرد اور جماعت

قرآن کی سورہ البقرہ میں فطرت کا ایک قانون اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ بإذن اللہ، واللہ مع الصابرین (2: 249) یعنی کتنے ہی چھوٹے گروہ اللہ کے اِذن سے بڑے گروہوں پر غالب آئے ہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت کی طاقت فرد سے ہوتی ہے، جماعت الگ سے کوئی چیز نہیں۔ جماعت افراد کا مجموعہ ہے۔ جیسے افراد ہوں گے، ویسی جماعت ہوگی۔ اِس کی ایک مثال اینٹ سے بنی ہوئی بلڈنگ ہے۔ بلڈنگ کی مضبوطی خود بلڈنگ کے اندر نہیں ہوتی، بلکہ بلڈنگ کی مضبوطی کا تعلق اینٹ سے ہے۔ اینٹیں اگر مضبوط ہوں تو بلڈنگ بھی مضبوط ہو گی۔ اور اینٹیں اگر مضبوط نہ ہوں تو بلڈنگ بھی مضبوط نہیں ہوسکتی۔ یہی معاملہ گروہ یا جماعت کا ہے۔ جماعت کی طاقت عددی معنوں میں اس کے چھوٹے اور بڑے ہونے میں نہیں ہے، بلکہ وہ اس کے افراد میں ہے۔
ایک جماعت بظاہر بڑی جماعت ہے، لیکن اس کے افراد زیادہ باشعور نہیں، اس کے افراد کے اندر اتحاد کی اسپرٹ نہیں، اس کے افراد کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں، اس کے افراد کے اندر مقصد کے لیے قربانی کا جذبہ نہیں، اس کے افراد کے اندر صبر وتحمل کی صفت نہیں، وغیرہ۔ ایسا گروہ عددی اعتبار سے بظاہر بڑا ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے کمزور ہے۔
اِس کے مقابلے میں ایک اور گروہ کو لیجئے۔ تعداد کے اعتبار سے بظاہر وہ چھوٹا ہے، لیکن اس کے افراد کے اندر شعوری پختگی موجود ہے، اس کے افراد اختلاف کے باوجود متحد رہنا جانتے ہیں، وہ قربانی کے وقت قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں، وہ جذباتیت اور رد عمل کی نفسیات سے بچے ہوئے ہیں، وہ ہر حال میں اپنے سردار کی اطاعت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں— ایسا گروہ بظاہر چھوٹا ہونے کے باوجود ایک طاقت ور گروہ ہے۔ چناں چہ ایسا ایک چھوٹا گروہ مقابلے کے میدان میں زیادہ بڑے گروہ پر غالب آجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ابتدائی حمد، انتہائی حمد

رابندر ناتھ ٹیگور (وفات:1941 ) مشہور بنگالی مصنف ہیں۔ ان کو 1913 میں لٹریچر کا نوبل پرائز ملا۔ انھوں نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے —ساری عمر بینا (ستار) کے تاروں کو سلجھانے میں بیت گئی۔ انتِم (آخری) گیت جومیں گانا چاہتا تھا، وہ میں نہ گا سکا۔
ٹیگور نے یہ بات اپنے مخصوص شاعرانہ انداز میں کہی تھی۔ لیکن یہ بات حمدِ الٰہی کے بارے میں زیادہ درست طور پر صادق آتی ہے۔ ایک مومن جب خدا کو دریافت کرتاہے تو وہ بے اختیارانہ طور پر یہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ خدا کی حمد بیان کرے، وہ خدا کی عظمت کے نغمے گائے۔ لیکن اس کی عمر پوری ہوجاتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کی عظمت کا بیان گویا ایک ان کہی عظمت (untold glory) ہو کر رہ گیا ہے۔
قرآن میں مومن کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے ہیں : الحمد للہ ربّ العالمین۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہی حمد دوبارہ آخرت میں بیان کی جائے گی(وقیل الحمد للّٰہ رب العالمین) دونوں میں کیا فرق ہے۔ اصل یہ ہے کہ دنیا میں محدودیت (limitations) کی بنا پر ایک مومن صرف ابتدائی حمد بیان کرتا ہے۔ آخرت کی لامحدود دنیا میں مومن کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ خدا کی انتہائی حمد بیان کرسکے۔ موجودہ زندگی میں شخصیتوں کا اوردنیوی موضوعات کا چرچا ہوتا ہے۔ آخرت میں صرف ایک اللہ کی حمد اور کبریائی کا چرچا ہوگا۔ یہ ایک ابدی چرچا ہوگا جو ہمیشہ نئے نئے پہلوؤں کے اعتبار سے جاری رہے گا، وہ کبھی ختم نہ ہوسکے گا۔ اُس وقت مومن کو محسوس ہوگا کہ نئے حالات نے اس کو یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ اللہ کی ان کہی عظمت (untold glory) کو بیان کرے اور ابدی طورپر اس کو بیان کرتا رہے۔ موجودہ زندگی گویا کہ اِسی ربانی صلاحیت کو پیدا کرنے کی تربیت گاہ ہے۔آخرت میں خدا کی بے پایاں حمد کو بیان کرنا، بلاشبہہ ایک عظیم ترین سعادت ہے۔ یہ سعادت صرف اُن لوگوں کو ملے گی جو موت سے پہلے کی زندگی میں اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرچکے ہوں۔
واپس اوپر جائیں

نتیجے کو دیکھئے

غیر نزاعی معاملے میں اصول کا اعتبار کافی ہے، لیکن جو معاملہ دو فریق کے درمیان نزاعی ہو، اس کی نوعیت یکسر مختلف ہوجاتی ہے۔ نزاعی معاملے میں ہمیشہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کو دیکھا جائے گا، نہ کہ صرف یہ کہ اصول کا تقاضا کیاہے۔
غیر نزاعی معاملہ میں اصول کو اختیار کرنا قابل عمل ہوتا ہے، لیکن جب کوئی معاملہ نزاعی معاملہ ہو تو اُس وقت اس کے سوا او رکوئی صورت نہیں کہ عملی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اقدام کیا جائے۔ بصورت دیگر، آپ کا اقدام معاملے کو صرف بگاڑے گا، وہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہوگا۔
زندگی میں پریکٹکل وزڈم کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پریکٹکل وزڈم کا مطلب ہے— عملی حقائق (practical realities) کا اعتبار کرتے ہوئے فیصلہ کرنا۔ مثلاً ایک نزاعی معاملہ ہے، اس میں بظاہر قانون آپ کے ساتھ ہے، حقوقِ انسانی کے تصورات بھی آپ کی موافقت میں ہیں، اپنے ذاتی خیال کے مطابق، آپ اپنے کو برحق سمجھتے ہیں، لیکن اِن سب کے باوجود عملی صورتِ حال آپ کی موافقت میں نہیں ہے۔ عملی صورتِ حال بتاتی ہے کہ اگر آپ نے اقدام کیا تو نتیجہ امید کے خلاف نکلے گا۔ اس کے بعدنفرت اور تشدد میںاضافہ ہوگا۔ کوئی مسئلہ حل نہ ہوگا اور مزید مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ ایسی حالت میں اصولی تقاضے کو نہیں دیکھا جائے گا، بلکہ عملی تقاضے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔
بیش تر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ وہ صرف اصولی پہلو کو دیکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اقدام کردیتے ہیں۔ اس کے بعد جب الٹا نتیجہ برآمد ہوتاہے تو وہ ایک نئی بے فائدہ مہم شروع کردیتے ہیں، یعنی شکایت کی مہم، احتجاج کی مہم، جلسوں اور جلوس کی مہم، مطالبات کی مہم، وغیرہ۔
اِس قسم کی منفی مہم کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ مسئلے کی سنگینی میں اور اضافہ ہوجاتاہے۔ پہلے اگر معاملہ محدود درجے میں تھا تو اب معاملہ لامحدود درجہ تک پہنچ کرنا قابلِ حل بن جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتی طرزِ فکر

مسٹر حمید اللہ حمید ایم اے کشمیری، القرآن مشن (نئی دہلی) سے وابستہ ہیں۔ انھوںنے ٹیلی فون پر بتایا کہ 23 ستمبر 2010 کو بیروہ ٹاؤن (کشمیر) میں پبلک انٹریکشن(Public Interaction) کے عنوان کے تحت حکومتِ ہند کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں انڈین آرمی کے اعلیٰ افسران اور مقامی مسلمان موجودتھے۔ اِس پروگرام کے مہمانِ خصوصی مسٹر گُردیپ سنگھ، جنرل کمانڈنگ آفیسر (GCO) اور مسٹرانل پانڈے (بریگیڈیر) تھے۔ حمیداللہ حمید صاحب نے بتایا کہ اِس موقع پر ایک کشمیری مسلمان نے اپنا ذاتی تاثر بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ ہند نے مسئلہ کشمیر کو تجارت بنا لیا ہے، یہ لوگ اب کشمیر کے نام پر صرف سیاسی تجارت کررہے ہیں۔ میں نے مذکورہ مسلمان سے کہا کہ میں نے بھی قرآن (61:10-11) کے مطابق، ایک تجارت شروع کی ہے۔ اِس کے بعد حمید اللہ حمید صاحب پبلک انٹریکشن کے اِس پروگرام میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر لے کر پہنچے۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو مطالعہ کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ انھوںنے مسٹر گردیپ سنگھ اورمسٹر انل پانڈے کو ترجمہ قرآن کے علاوہ، ہمارے یہاں سے شائع ہونے والی کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘ مطالعہ کے لیے دی ۔ اِس کے بعد مسٹر گردیپ سنگھ نے اپنی تقریر میں کہا کہ حال میں، قرآن برننگ کے اشو کو لے کر آپ لوگوں نے کشمیر میں ہنگامہ کیا، جس کے نتیجے میں یہاں 17 نوجوان ہلاک ہوگئے۔ مسٹر گردیپ سنگھ نے قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے کر کہا کہ آپ لوگ قرآن کے نام پر تشدد (violence) کرتے ہیں۔ مجھ کو بتائیے کہ قرآن کی کس آیت میں تشدد کا حکم دیاگیا ہے۔ اِس سوال پر تمام مسلمان خاموش رہے۔
اگر آدمی کے اندر دعوتی ذہن موجود ہو تو وہ اِس قسم کے ہر موقع کو دعوت کے لیے استعمال کرے گا، وہ ایسے موقع پر اللہ کے بندوں کو اللہ کے کلام کا تحفہ پیش کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر آدمی کا ذہن دعوتی طرز فکر سے خالی ہو تو اس کو ایسا ہر دعوتی موقع محض ’’سیاست‘‘ کا ایک اسٹیج معلوم ہوگا۔ ایسے موقع پر دوسروں کو دینے کے لیے اس کے پاس صرف نفرت کا تحفہ ہوگا، نہ کہ محبت کا تحفہ۔(مولانا محمد ذکوان ندوی)
واپس اوپر جائیں

جنّات کی حقیقت

قرآن کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کے علاوہ ایک اور غیر مرئی مخلوق (invisible being) ہے جس کو جن یا شیطان کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، شیطان ہمارا دشمن ہے اور تزئین کے ذریعے وہ ہم کو بہکاتا رہتا ہے۔ یہ بات قرآن میں بار بار مختلف اندازسے بتائی گئی ہے۔
موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن میں جس کو شیطان کہاگیا ہے، وہ انسان کے علاوہ کوئی مستقل وجود نہیں رکھتا۔ یہ دراصل استعارہ (metaphor) کی زبان ہے۔اس سے مراد خود انسان کے اپنے دماغ کا منفی حصہ (negative part) ہے۔ یہ انسان کے خود اپنے دماغ کی ایک فیکلٹی ہے جس کو شیطان کہاگیا ہے۔ انسان خود اپنے دماغ کے منفی حصے سے متاثر ہوتا ہے۔ انسان کے باہر کوئی اور نہیں جو اس کو بہکاکر غلط راستے پر ڈال دے۔
اِس دعوے کے ثبوت کے لیے دو میں سے کوئی ایک بنیاد ہونی چاہیے —سائنس کی تحقیق، یا قرآن کا بیان۔ جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، اِس معاملے میں سائنس کوئی بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ موضوع سائنس کے مطالعے کا موضوع ہی نہیں۔ اِس معاملے میں کوئی شخص اگر سائنس کا نام لے تو یہ صرف اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ سائنس سے بالکل بے خبر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں کوئی فیصلہ صرف قرآن کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے، اور قرآن کا بیان مذکورہ نظریے کے تائید نہیں کرتا۔ قرآن کی سورہ الحجر میںواضح طورپر بتایا گیا ہے کہ جنات کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق سے پہلے نارِ سموم (15:27) سے پیدا کیا۔
یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ قرآن جس شیطان کا ذکر کر رہا ہے، اس کی تخلیق انسان سے پہلے ہوچکی تھی۔ مذکورہ تصور کے مطابق، انسان کو بہکانے والا عنصر انسان کے ساتھ ساتھ پیدا ہوا، جب کہ قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق، انسان کو بہکانے والا عنصر انسان کی پیدائش سے پہلے وجود میں آچکا تھا۔
واپس اوپر جائیں

عجز کی طاقت

لوگ مظلوم کی طاقت کو جانتے ہیں، لیکن لوگ عاجز کی طاقت کو نہیں جانتے، حالاں کہ عاجز کی طاقت مظلوم کی طاقت سے بھی زیادہ ہے۔ ایک فارسی شاعر نے کہا ہے کہ— مظلوم کی آہ سے بچو، کیوں کہ جب وہ دعا کرتا ہے تو اللہ کی طرف سے اجابت خود اُس کے استقبال کے لیے دوڑ پڑتی ہے:
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دعا کردن اجابت از درِ حق بہر استقبال می آید
مگر مظلومیت سے بھی زیادہ بڑی حقیقت عجز ہے۔ اگر کوئی شخص واقعی طورپر اپنے عجز کو دریافت کرے، وہ واقعی طورپر اس کا ادراک کرلے کہ خدائے قادرِ مطلق کے مقابلے میں وہ سر تا سر ایک عاجز انسان ہے، تو اس کی زبان سے دعا کا ایساکلمہ نکلے گا جس کا تحمل زمین و آسمان بھی نہیں کرسکیں گے۔ وہ کلمہ یہ ہے — خدایا، تو نے مجھے عاجز انسان کی حیثیت سے پیدا کیا۔ اب تو ایسا نہیں کرسکتا کہ تو میرے بارے میںغیر جانب دار (indifferent) ہوجائے۔
عجز کیا ہے۔ عجز حقیقتِ انسانی کی دریافت ہے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی خالق کی نسبت سے، اپنی حیثیتِ واقعی کو دریافت کرلے۔ عجز سادہ طور پر مسکینی کا نام نہیں، عجز اکتشافِ حقیقت کا نام ہے۔عجز اپنے آپ میں ایک طاقت ہے۔ عجز خدا کے سامنے سب سے بڑی سفارش ہے۔ عجز کا مطلب اپنے آپ کو عبدیت کے مقام پر کھڑا کرنا ہے، اور بلاشبہہ عبدیت سے بڑا کو ئی مقام نہیں۔
قرآن کی سورہ العلق میں ارشاد ہوا ہے: واسجد واقترب (96:14 )۔ سجدہ اظہارِ عجز کی آخری صورت ہے۔ عجز بلاشبہہ قربت خدا وندی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جہاں عجز کی آخری حد آجائے، وہاں سے اُس ربانی تجربے کا آغاز ہوجاتا ہے جس کو لقائِ رب کہاگیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کبر (arrogance) آدمی کو خداسے دور کر دیتا ہے، اور اس کے مقابلے میں عجز (helplessness) آدمی کو خدا سے قریب کردینے والا ہے— کبر (arrogance)اللہ سے دوری کا ذریعہ ہے، اور عجز (helplessness)اللہ سے قربت کا ذریعہ۔
واپس اوپر جائیں

استدلال اور بنائِ استدلال

اگر آپ کے بینک اکاؤنٹ میں صرف دس ہزار روپئے موجود ہیں اور آپ پچاس ہزار روپئے کا چیک لکھ کر کسی کو دے دیں تو ایسا چیک ڈڈ چیک (dud cheque) کہاجائے گا، وہ بینک سے کیش نہ ہوسکے گا۔ کیوںکہ اِس چیک کے برابر رقم آپ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود نہیں۔
یہی معاملہ استدلال کا ہے۔ جب آپ اپنے کسی دعوے پر استدلال قائم کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ اُس کے حق میں ایک تسلیم شدہ بنائِ استدلال پیشگی طور پر موجود ہو۔
جس استدلال کی پشت پر اِس قسم کی مسلّمہ استدلالی بنیاد موجود نہ ہو، وہ استدلال ایک غیرمعقول استدلال (invalid argument) قرار پائے گا، وہ علمی اعتبار سے قابلِ قبول نہ ہوگا۔ اِسی حقیقت کو علماء نے ’’بنائِ فاسد علی الفاسد‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
اِس معاملے کی ایک مثال لیجئے۔ کچھ لوگ جو فلسفیانہ طرزِ فکر سے متاثر تھے، انھوںنے یہ کہہ دیا کہ جنت اور جہنم اَحوال ہیں، مقامات نہیں:
Heaven and hell are states, not localities.
اِس استدلال کی پشت پر ضروری بنائِ استدلال موجود نہیں۔ جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، وہ اِس معاملے میں کوئی بنیاد (scientific base) فراہم نہیں کرتی۔
اِس کے بعد دوسری بنائِ استدلال (rational base)وہ ہے جو وحیِ خداوندی (divine revelation)میں پائی جائے۔ قرآن وحی خداوندی کا مستند (authentic)مجموعہ ہے، مگر قرآن کے کسی بیان سے اِس کی تائید نہیں ہوتی۔
اِس کے برعکس، قرآن بتاتا ہے کہ جنت ویسی ہی ایک دنیا ہوگی، جیسی کہ ہماری موجودہ دنیا (2:25)۔ قرآن کے مطابق، جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں پوری ہوںگی (41: 31) اور انسان کی خواہشیں بلاشبہہ مادی تسکین چاہتی ہیں، صرف روحانی تسکین نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ٹوٹا ہوا دل

ایک صاحب سوشل ورک میں مشغول ہیں۔انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اُن لوگوں کی مدد کی جائے جو ٹوٹے ہوئے دل (broken hearts) کے ساتھ دنیا میں جی رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خدمت کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ پھر انھوں نے یہ شعر پڑھا:
دل بدست آورد کہ حجِ اکبر است از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است
میں نے کہا کہ ایک حدیثِ قدسی ان الفاظ میں آئی ہے: أنا عند المنکسرۃ قلوبہم (حلیۃ الأولیاء، جلد 2، صفحہ 364 ) یعنی اللہ ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے ٹوٹے ہوئے دل کا تجربہ ہونا، بہت بڑی رحمت ہے۔ کیوںکہ یہ تجربہ اُس کو اللہ کے بہت قریب پہنچا دیتا ہے۔ میں نے کہا کہ اللہ کا تخلیقی پلان تو یہ ہے کہ انسان کے ساتھ دل شکستگی کے واقعات پیش آئیں، تاکہ اس کی ربانی نفسیات جاگے اور اس کو اللہ کی قربت کا تجربہ ہوسکے۔ مگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں ٹوٹے ہوئے دل والے لوگ ہی نہ رہیں، خواہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کی قربت کی اعلیٰ سعادت سے محروم ہوجائیں۔
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیش کش کی کہ ان کو فراخی کی زندگی حاصل ہوجائے۔ آپ نے فرمایا کہ اے میرے رب نہیں، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ کبھی مجھ کو بھوک کا تجربہ ہو، تاکہ میں تیرے سامنے گڑگڑاؤں۔ اور کبھی مجھ کو شکم سیری کا تجربہ ہو، تاکہ میں تیری حمد کروں اور تیرا شکر کروں (لا یاربّ، ولکن أشبع یوماً وأجوع یوماً۔ فإذا جعتُ تضرّعتُ إلیک وذکرتک، وإذا شبعتُ حمدتک وشکرتک)
صحیح طریقہ یہ ہے کہ دنیا کے معاملے میں لوگوں کو محنت کے راستے پر لایا جائے، اور آخرت کے معاملے میں ان کو جنت اور جہنم کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے— یہی طریقہ اللہ کے تخلیقی پلان (creation plan)کے مطابق ہے۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی تعمیر

جنت، انسان کی آخری منزل ہے، اور موجودہ دنیا میں انسان کا واحد نشانہ (goal) یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اُس شخصیت کی تعمیر کرے جو جنت میں بسائے جانے کے قابل ہو۔ ایمان، عبادت، اخلاقیات(moral values) ، دعوت الی اللہ، سب کا اصل مقصد یہی ہے۔ یہی واحد معیار ہے جس پر تمام دینی سرگرمیوں کو جانچنا چاہئے۔
جنت کسی شخص کو اِس لیے نہیں ملے گی کہ اُس نے مفروضہ اکابر کا دامن تھام رکھا تھا، یا اُس کو خدا کے برگزیدہ بندوں کی سفارش حاصل ہوگئی، یا وہ کسی ایسے گروہ میں شامل تھا جس کے بارے میںاس نے فرض کررکھا تھا کہ یہ اللہ کا خاص گروہ ہے، وغیرہ۔ اِس طرح کے پراسرار عقائد کا کوئی بھی تعلق جنت کے حصول سے نہیں ہے۔ جو لوگ اِس طرح کی بات سوچتے ہیں، وہ جنت کی تصغیر کرتے ہیں۔ اُن کو نہ جنت کا علم ہے اور نہ خدا کے تخلیقی پلان(creation plan) کا علم۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بے حد نفیس اورکامل دنیا بنائی ہے۔ اِسی دنیا کا نام جنت ہے۔ موت سے پہلے کی زندگی اِس لیے ہے کہ امتحان سے گزار کر اُن لوگوں کو منتخب کیا جائے جو جنت میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ قیامت سے پہلے کی اِس دنیا میں یہی انتخابی عمل جاری ہے۔ جب اللہ کے علم کے مطابق، یہ انتخابی عمل پوراہوجائے گا تو اس کے فوراً بعد قیامت آجائے گی۔
جنتی شخصیت کی تعمیر کیا ہے، اِس سے مراد وہ انسان ہے جو اپنے کامل عجز اور اللہ کی کامل قدرت کو دریافت کرے، جو اللہ کی معرفت میں جینے والا بن جائے، جو اپنے اندر اِس ذہن کی تعمیر کرے کہ ساری کائنات اُس کے لیے خدائے برتر کا تعارف بن جائے، جس کا یہ حال ہو کہ اس کے محبت کے جذبات سب سے زیادہ خدا سے وابستہ ہوجائیں اور اس کے خوف کے جذبات کا مرکز صرف ایک اللہ بن جائے، جس کا حال یہ ہو کہ وہ سب سے زیادہ جنت کا طالب ہو اور سب سے زیادہ جہنم سے ڈرنے والا ہو۔یہی وہ انسان ہے جو جنت کی ابدی دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کا تصور ِ انسانیت

اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں ہوا۔ اُس وقت ساری دنیا میں بادشاہت کا رواج تھا۔اُس زمانے کی انسایت حاکم اور رعایا، راجا اور پرجا میں بٹی ہوئی تھی۔ اسلام نے اعلان کیا کہ نہ کوئی حاکم ہے اور نہ کوئی محکوم، سارے انسان برابر ہیں۔ انسانوں کے درمیان اِس قسم کی تقسیم غیرفطری تقسیم ہے۔ اِسی طرح سفید فام اور سیاہ فام دونوں یکساں طورپر انسان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انسانی زندگی میں اس قسم کا انقلاب اچانک نہیں آتا، وہ ایک تاریخی عمل (historical process) کے روپ میں آتا ہے۔ اسلام نے پہلی بار اِس عمل کو تاریخ میں جاری کیا، پھر دھیرے دھیرے وہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں دو تاریخی مثالیں نقل کی جاتی ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 632 عیسوی میں اپنے اصحاب کے ساتھ حج ادا کیا۔ اُس وقت آپ عرب کے سیاسی قائدبن چکے تھے۔ آپ نے قائد کی حیثیت سے اعلان کیا کہ آج سے جاہلیت کے تمام رواج ختم کردئے گئے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں، کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر فضیلت نہیں، کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ اور پرہیزگار ی کے۔
دوسرا واقعہ خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب کا ہے۔ حضرت عمرکی خلافت 634 سے 644 تک تھی۔ اُس وقت خلافت کا دائرہ ایشیا سے افریقہ تک پھیلا ہوا تھا۔ اُس زمانے میں مصر میں ایک واقعہ ہوا۔ اُس وقت مصر کے گورنر ایک عرب تھے جن کا نام عمروبن العاص تھا۔ ایک معاملے میں گورنر کے بیٹے محمد بن عمرو اور ایک مقامی باشندہ (قبطی) کے درمیان ایک مسئلہ پر نزاع پیدا ہوگئی۔ نزاع بڑھی تو گورنر کے بیٹے نے مصری کو کوڑے سے مار دیا اور کہا کہ: خُذہا، وأنا ابن الأکرمین (یہ لو، اور میں شریفوں کی اولاد ہوں)۔
اِس واقعے کے بعد وہ قبطی مصر سے روانہ ہو کر مدینہ پہنچا اور خلیفہ عمر بن الخطاب سے اِس معاملے کی شکایت کی۔ خلیفہ دوم حضرت عمر نے اپنے ایک خاص آدمی کو مصر بھیج کر گورنر اور ان کے بیٹے دونوں کو مدینہ بلوایا۔ جب وہ دونوں مدینہ آگئے تو معاملے کی تحقیق کے بعد حضرت عمر نے مذکورہ قبطی کے ہاتھ میں ایک کوڑا دیا اور کہا کہ جس نے تم کو مارا ہے، تم بھی اس کو مارو۔ چناںچہ اس نے محمد بن عمرو کو مارنا شروع کیا، یہاں تک کہ اس نے انھیں زخمی کردیا—اِن واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح اسلام نے انسانی برابری کے تصور کو عملاً تاریخ میں رائج کیا۔
قرآن کی سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ —اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ (4: 1)
یہ ایک تاریخی اعلان تھا۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان امتیاز کی تمام صورتیں مصنوعی اور غیر فطری ہیں۔ جب تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں تو ایک اور دوسرے کے درمیان امتیاز کا کوئی جواز نہیں۔ اِسی بات کو ایک حدیث میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الخلق عیال اللہ (البیہقی، رقم الحدیث: 6947 ) یعنی تمام انسان ایک خدا کی فیملی ہیں۔
اس حقیقت کی تصدیق موجودہ زمانے میں سائنس کے ذریعے ہو چکی ہے۔ موجودہ زمانے میں خالص سائنسی رسرچ کے ذریعے یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام انسان ایک ہی جدِّ اعلیٰ کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا کہ تمام انسان ایک ہی خونی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ تمام عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے بلڈ بردرس (blood brothers) اور بلڈ سسٹرس (blood sisters) کی حیثیت رکھتے ہیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب ’’تعمیر انسانیت‘‘ ، صفحہ 145)
اسلامی شریعت میں حقوق العباد یاایک انسان کے اوپر دوسرے انسان کے فرائض کے سلسلے میں تفصیلی احکام دئے گئے ہیں۔ اسلام کے مطابق، جس طرح انسان کے اوپر اس کے خالق کا حق ہے، اُسی طرح ایک انسان کے اوپر دوسرے انسان کا بھی حق ہے۔ جو انسان خدا کی عبادت کرے، لیکن وہ انسانوں کے حقوق ادا نہ کرے، اس کی عبادت قبول نہ ہوگی۔ اسلام میں سچے مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی نسبت سے اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنے والا ہو۔ اِس معاملے میں، اسلام کے احکام اتنے زیادہ سخت ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ — خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں، خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں، خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں جس کے شر سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو۔
اِسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچا مسلم وہ ہے جس کی زبان سے اور جس کے ہاتھ سے لوگ محفوظ ہوں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مسلمان اپنے سماج کا ایک پر امن ممبر ہوتا ہے۔ وہ اپنے سماج میںایک بے مسئلہ انسان (no-problem person) کی حیثیت سے زندگی گزارتا ہے۔ وہ اپنے سماج میں ایک دینے والے (giver)انسان کی حیثیت سے زندگی گزارتا ہے، نہ کہ صرف لینے والے(taker) انسان کی حیثیت سے۔
اسلام میں جان کا احترام اتنا زیادہ ہے کہ کسی انسان کے ناحق قتل کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کی سورہ المائدہ میں ارشاد ہوا ہے کہ —جو شخص کسی انسان کو قتل کرے، بغیر اِس کے اس نے کسی انسان کو قتل کیا ہو، یا اس نے زمین میں فساد برپا کیا ہو، تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کردیا، اور جس شخص نے ایک شخص کو بچالیا توگویا اُس نے سارے انسانوں کو بچا لیا (5:32) ۔
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام ایک ایسا سماج بنانا چاہتا ہے جس میں ہر انسان دوسرے انسان کے لیے آخری حد تک بے ضرر (harmless) بنا ہوا ہو، جس میں ہر انسان دوسرے انسان کے خون کو اتنا ہی محترم سمجھے، جتنا کہ وہ خود اپنے خون کو محترم سمجھتا ہے۔ اسلام ایسا سماج بنانا چاہتا ہے جس میں ہر انسان دوسرے انسان کو اُسی طرح زندہ رہنے کا حق دے جس طرح وہ خود اپنے لیے زندہ رہنے کا حق سمجھتا ہے۔ اسلام کے مطابق، سچا انسانی سماج وہ ہے جس میں ہر عورت اور مرد کو یکساں طور پر جینے کا حق حاصل ہو۔
اسلام کے مطابق، انسانی سماج کی تعمیر کے دو بنیادی اصول ہیں— توحید، اور عدل۔ یہ دونوں اصول انسانی سماج کے لیے دو بنیادی رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس سماج میں یہ دو بنیادی اصول پائے جائیں، وہ سماج اعلیٰ انسانی سماج ہوگا، اور جس سماج میں یہ دو بنیادی اصول نہ پائے جائیں، وہ سماج ایک قسم کا حیوانی سماج ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی انسانی سماج۔
توحید (oneness of God) کا مطلب ہے— خدا کو ایک ماننا۔ یہ ماننا کہ ایک ہی خدا ہے، اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔ یہی خدا تمام موجودات کا خالق ہے، یہی خدا تمام کائنات کا انتظام کررہا ہے۔ خدا کے سوا جو کچھ ہے، وہ سب اِسی ایک خدا کی مخلوق ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو فرد اور سماج دونوں کو زندگی گزارنے کی درست نظریاتی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ خدا کا تصورانسانی سماج کی صحیح شیرازہ بندی کرتا ہے، خدا کا تصور نہ ہو تو انسانی سماج جنگل کا سماج بن جائے۔
اس سلسلے میں دوسری چیز وہ ہے جس کو عدل (justice) کہا جاتا ہے۔ قرآن کی سورہ الرحمن میں ارشاد ہوا ہے کہ — انصاف کے ساتھ سیدھی ترازو تولو اور تول میں نہ گھٹاؤ (55: 9) ۔ قرآن کی اِس آیت میں انسانی زندگی کو عدل و انصاف پر قائم کرنے کے لیے ترازو کی مثال دی گئی ہے۔ ترازو ہمیشہ ٹھیک ٹھیک تولتا ہے۔ وہ تول میں نہ کمی کرتا ہے اور نہ زیادتی۔ ترازو عدل و انصاف کی مادی تمثیل ہے۔ یہی عادلانہ روش انسان سے مطلوب ہے۔
ہر انسان کو چاہیے کہ وہ دوسرے انسان کو اس کا پورا حق ادا کرے۔ اِس منصفانہ روش کا تعلق جس طرح مال اور جائداد جیسی چیزوں سے ہے، اسی طرح اس کا تعلق اخلاقی معاملات سے بھی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے وہی چاہے جو وہ خود اپنے لیے چاہتا ہے، وہ دوسروں کے بارے میں کوئی بیان دے تو اس کا بیان ٹھیک ٹھیک اصل واقعہ سے مطابقت رکھتا ہو، وہ دوسروں کے بارے میں جب کوئی رائے قائم کرے تو اس میں وہ نہ کوئی کمی کرے اور نہ کوئی زیادتی، وہ دوسروں کے بارے میں جب کوئی رپورٹ دے تو اس کی رپورٹ یک طرفہ نہ ہو، بلکہ اس میں دونوں فریق کی پوزیشن کو ٹھیک ویسا ہی بیان کیا گیا ہو، جیسا کہ وہ حقیقۃً ہے — عدل وانصاف پر مبنی یہی وہ سماج ہے جس کو اسلامی سماج کہاجاتاہے۔
اس سلسلے میں ایک سوال یہ ہے کہ انسانی سماج کی تشکیل پر امن بنیادوں پر کس طرح کی جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کے درمیان مختلف قسم کے فرق (differences) پائے جاتے ہیں— مذہب کا فرق، کلچر کا فرق، رواج کا فرق، انٹرسٹ کا فرق، وغیرہ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اِس فرق کو مٹایانہیں جاسکتا۔ یہ تمام فرق اتفاق کی بنیاد پر نہیں ہیں، بلکہ وہ فطرت کی بنیاد پر ہیں۔ اِس لیے ان کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اِس کے حل کے لیے اسلام میں ایک سادہ طریقہ بتایا گیاہے، اور وہ ہے: لکم دینکم، ولی دین(109:6) یعنی تمھارے لیے تمھارا طریقہ، میرے لیے میرا طریقہ۔ اِس اصول کی بنیاد پر اگر ایک فارمولا بنایا جائے تو وہ یہ ہوگا — ایک کی پیروی کرو اور سب کی عزت کرو:
Follow one and respect all
یہی واحد فارمولا ہے جس سے کسی سماج میں اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے، ایک فرقے کے سماج میں بھی اور مختلف فرقوں کے سماج میں بھی۔ گویا اختلاف کے باوجود متحد ہونا یہی مذکورہ مسئلہ کا واحد حل ہے اور اِسی میں انسانی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عجز کی دریافت

انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے کامل طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ لیکن امتحان (test) کی مصلحت کے تحت اس کے اوپر بظاہر قدرت کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اِس پردے کو پھاڑے اور بظاہر عاجز نہ ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے عجز کو دریافت کرے۔ یہ دریافت بلاشبہہ سب سے بڑی دریافت ہے۔ اِسی دریافت میں انسان کی تمام سعادتوں کا راز چھپا ہوا ہے۔
عجز (helplessness)کی دریافت کسی انسان کے لیے اس کی عظیم ترین دریافت (greatest discovery)ہے۔ یہ دریافت اس کو ذکر و دعا کے اعلیٰ مواقع عطا کرتی ہے۔ یہ دریافت اس کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ یہ کہہ سکے کہ — خدایا، تو نے انسان کو عجز کے ساتھ پیدا کیا۔ ساری قدرت تیری طرف، اور سارا عجز انسان کی طرف۔ ایسی حالت میں، تو انسان کے معاملے میں غیرجانب دار (indifferent) نہیں ہوسکتا۔ یہ تیری شانِ خداوندی کے خلاف ہے کہ تیرے اور انسان کے درمیان، عجز اور غیر جانب داری (indifference) کا تعلق ہو۔ ضروری ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان محر وم (deprived)اور معطی(giver) کا تعلق ہو۔ یہی تعلق خدائے رحمان اور رحیم کی شان کے مطابق ہے۔
یہی وہ دعا ہے جس کو حدیث میں اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنا بتایا گیا ہے۔جب کوئی بندہ حقیقی معنوں میں یہ کہے کہ — خدایا، تو نے مجھ کو ایک عاجز انسان کی حیثیت سے پیدا کیا تو اب تو میرے معاملے میں غیر جانب دار (indifferent) نہیں ہوسکتا۔
جب کوئی بندہ اِس طرح خدا کو پکارے تو خدا کی رحمت روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرکے اس کی طرف آجاتی ہے۔ شاعر نے جو بات مظلوم کی نسبت سے کہی تھی، وہ عاجز کی نسبت سے زیادہ درست ہے، یعنی اجابت (قبولیت) کا خود دعا کا استقبال کرنے کے لیے آجانا:
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دعا کردن اجابت از درِ حق بہرِ استقبال می آید
واپس اوپر جائیں

زمانے کی تبدیلی

قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے بادشاہت کا سیاسی نظام قائم تھا۔ بادشاہت کے نظام میں ایک شخص کی حیثیت حاکم کی ہوتی ہے اور بقیہ تمام لوگوں کی حیثیت محکوم کی۔ اسلامی انقلاب کے بعد مسلمانوں میں سلطنت کا جو نظام قائم ہوا، وہ بھی عملاً اِسی ماڈل کے مطابق تھا، یعنی شخصی اقتدار کا ماڈل۔ بعد کے مسلمانوں کا ذہن اِسی لمبی تاریخ کے نتیجے میں بنا۔
اٹھارھویں صدی عیسوی کے آخر میں فرانسیسی انقلاب (French Revolution) آیا۔ اِس کے بعد دنیا میں جمہوری نظام قائم ہوا۔ بادشاہت اور جمہوریت کے فرق کو ایک لفظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ —بادشاہت کا نظام شخصی اجارہ داری کا نظام ہے، اور جمہوریت کا نظام اجتماعی حصہ داری کا نظام۔ بادشاہت کے نظام میں دئے بغیر مل سکتا تھا، لیکن جمہوریت کا نظام اِس اصول پر قائم ہے کہ اگر تم اپنا حصہ لینا چاہتے ہو تو دوسروں کو بھی اُن کا حصہ ادا کرو۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ زمانے کے اِس فرق کو سمجھ نہ سکے۔ وہ اپنے قدیم ذہن(mindset) کے ساتھ جدید دور میں رہنا چاہتے ہیں اور ایسا ہونا ہر گز ممکن نہیں۔ اِس کی ایک مثال وہ ظاہرہ ہے جس کو مسلم جذبات کا مجروح ہونا بتایا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ اظہارِ خیال کی آزادی کا زمانہ ہے۔ مسلمان خود تو اِس آزادی کو بھر پور طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، لیکن دوسروں کو وہ ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ جن باتوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، وہ دراصل آزادی کے حق کا استعمال ہوتا ہے۔ مسلمان اگر خود اپنے لیے آزادی کے حق کا استعمال چاہتے ہیں تو اُنھیں دوسروں کو بھی آزادی کے استعمال کا حق دینا ہوگا۔ اِس معاملے میں وہ خود اپنی طرف سے کوئی شرط عائد نہیں کرسکتے۔ اِس معاملے میں وہی شرط قابل قبول ہوگی جو عالمی اصول (international norm) کے مطابق ہو۔ مسلمان اگر اِس اصول کو نہ مانیں تو اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ وہ ایک بے اثر احتجاجی گروہ (protestant group) بن کر رہ جائیں گے، جیسا کہ عملاً وہ آج بنے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مرنے والوں کا تذکرہ

یہ ایک عام رواج ہے کہ جب کوئی شخص مرتا ہے تو اس کے بارے میں رسائل و جرائد میں مضامین شائع کیے جاتے ہیں، اس کی یاد میں تعریفی مضامین چھپتے ہیں، اس کی یاد میں شان دارجلسے کئے جاتے ہیں۔ اِن سب میں یہ ہوتا ہے کہ مرنے والے کے کارنامے اور اس کی عظمتیں بیان کی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ سخت مغالطہ انگیزی (misleading) کا ذریعے ہے۔
کسی کی موت پر جواصل واقعہ پیش آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مرنے والا اپنی عظمت کے تمام نشانات کو اچانک چھوڑ دیتا ہے۔ موت اس کو ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتی ہے جہاں وہ بالکل تنہا اور بے سروسامان ہوتا ہے۔ حال (present) کے لحاظ سے مرنے والے کا اصل پہلو یہی ہوتاہے۔ لیکن تمام لکھنے اور بولنے والے، مرنے والے کے حال کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے، وہ صرف اس کے ماضی (past) کو لے کر اس کی دنیوی بڑائیاں بیان کرتے ہیں، حالاں کہ مرنے والا عملاً اپنے اِس ماضی سے مکمل طورپر منقطع ہوچکا ہوتا ہے۔
موت کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ کسی انسان کے لیے انقطاعِ کلّی (total detachment) کے ہم معنی ہوتی ہے۔ موت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے پہلے موقع (first chance) کو کھودیا، اور جہاں تک دوسرے موقع (second chance)کا سوال ہے، وہ کبھی کسی کو ملنے والا نہیں۔ ہر مرنے والا دراصل زندگی کے اِس سنگین پہلو کو یاددلاتا ہے۔ لیکن یہی وہ پہلو ہے جس کا تذکرہ نہ تحریروں میں کیا جاتا ہے اور نہ تقریروں میں۔
مرنے والے کے فضائل وکمال کو پڑھ کر یا سن کر بظاہر یہ تاثر قائم ہوتاہے کہ وہ آج بھی اِنھیں فضائل کا حامل ہے، حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں۔ مقررین اور محررین جس انسان کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ ایک تاریخ ساز انسان تھا، عین ممکن ہے کہ اس وقت خود مرنے والے کا حال یہ ہو کہ وہ ایک بے تاریخ انسان بن کر حسرت وبے بسی کے عالم میں پڑا ہو۔
واپس اوپر جائیں

حقوق اللہ، حقوق العباد

حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اگر نفسیات کی اصطلاح میں بیان کریں، تو اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کی نفسیاتی حقیقت ایک ہے، اور وہ ہے دوسرے کو اس کا واقعی درجہ دینا۔ خدا کی نسبت سے اِس عمل کا نام شکر (gratefulness) ہے، اور انسان کی نسبت سے اِس عمل کا نام اعتراف (acknowledgement) ہے۔ جس انسان کے اندر یہ دونوں خصوصیات (qualities) پائی جائیں، وہی انسان مکمل انسان ہے۔ اور جس انسان کے اندر یہ دونوں خصوصیات کم پائی جائیں، وہ ایک نامکمل انسان ہے۔ اور جس انسان کے اندر یہ خصوصیات سرے سے موجود نہ ہوں، وہ انسان نہیں ہے، بلکہ وہ غیر انسان ہے، خواہ اپنے ظاہر کے اعتبار سے وہ کتنا ہی اچھا انسان دکھائی دیتا ہو۔
خدا اور انسان کا تعلق یہ ہے کہ خدا خالق ہے اور انسان مخلوق، خدا دینے والا ہے اور اانسان پانے والا، خدا مالک ہے اور انسان اس کا ماتحت۔ جو انسان اِن پہلوؤں کو شعوری طورپر دریافت کرے اور اِ س دریافت کے مطابق، اپنی زندگی گزارے، وہ حقوق اللہ کے معیار پر پورا اترا۔ یہی وہ انسان ہے جس کو خدا اپنے مزید انعامات سے نوازے گا۔
انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اجتماعی حیوان (social animal) ہے۔ ایک انسان پیدا ہوتے ہی دوسرے انسانوں سے جڑ جاتا ہے۔ اِن تعلقات کے دوران اس کے اوپر دوسروں کی نسبت سے، مختلف قسم کی ذمے داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔ جو انسان اِن ذمے داریوں کو حقیقی طورپر پہچانے اور عملی طورپر ان کا اعتراف کرے، وہ حقوق العباد کے معیار پر پورا اترا۔ یہی وہ انسان ہے جس کو جنت کے معیاری معاشرے میں رہنے کا موقع دیا جائے گا۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کے معاملے میں اصل چیز شعوری ادراک اور قلبی احساس ہے۔ یہی وہ صفت (quality)ہے جو خارجی زندگی میں ظاہر ہوتی ہے تو اس کو شریعت کی زبان میں عملِ صالح کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

معیاری نقطۂ نظر، عملی نقطۂ نظر

اکثر لوگ اعتدال اور توسط کی بات کرتے ہیں، مگر معروف معنوں میں،اعتدال اور توسط اپنے آپ میں کوئی اصول نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے معاملات میں صرف دو نقطۂ نظر ہیں— معیاری نقطۂ نظر، اور عملی نقطہ نظر۔ جہاں تک ’’معتدل نقطۂ نظر‘‘ کا تعلق ہے، وہ اپنے آپ میں کوئی اصول نہیں۔
معیاری نقطۂ نظر (idealism) وہ ہے جو خالص اصول پر مبنی ہو، جو ابدی طورپر ایک ہی مستند اصول کے طور پر قائم رہے۔ مثلاً سچ بولنا ایک ابدی اصول ہے، اصول کے اعتبار سے وہ کبھی بدلنے والا نہیں۔ عملی نقطہ نظر (pragmatism) سے مراد وہ طریقہ ہے جس میں نتائج کو ملحوظ رکھا گیا ہو، جو خالص اصول پر مبنی نہ ہو، بلکہ وہ عملی پہلوؤں کی رعایت پر مبنی ہو۔
زندگی کے معاملات میں کوئی موقف اختیار کرنے کے لیے اعتدال اور توسط کوئی معیار (yardstick) نہیں ہے۔ یہ معیار صرف دو ہے— ایک، یہ کہ خالص اصولی طورپر جو نقطہ نظر درست ہو، اس کو اختیار کرنا۔ یہ آئڈیل ازم (idealism) ہے۔ خالص ذاتی معاملات میں آئڈیل ازم پوری طرح قابلِ عمل ہوتا ہے۔ اِس لیے جہاں خالص ذاتی معاملہ ہو، وہاں آدمی کو وہی کرنا چاہیے جو آئڈیل ازم کا تقاضا ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں معاملہ ففٹی ففٹی ہوجاتا ہے، یعنی پچاس فی صد آدمی کی اپنی سوچ، اور پچاس فی صد دوسرے متعلق افراد کی سوچ۔ عملی نقطۂ نظر (pragmatism)کا لفظ زندگی کے اِسی دوسرے دائرے کے بارے میں بولا جاتا ہے۔
اِس دوسرے دائرے کے بارے میں دانش مندی کا تقاضا ہے کہ آدمی قابلِ عمل اور ناقابلِ عمل کے درمیان فرق کرے۔ حالات کے اعتبار سے جو موقف قابلِ عمل ہو، اس کو اختیار کیاجائے اور حالات کے اعتبار سے جو موقف قابلِ عمل نہ ہو، اس کو ترک کردیا جائے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں ہمیشہ یہ امکان رہتا ہے کہ اصلاح کے بجائے فساد پیدا ہوجائے اور غیر ضروری طورپر کوئی نیا ناقابلِ حل مسئلہ وقوع میں آجائے۔
واپس اوپر جائیں

جدید اسلوب

جدید اسلوب کسی مبتدعانہ اسلوب کا نام نہیں ہے۔یہ دراصل وہی چیز ہے جس کو دیوبند کے مشہور عالمِ دین مولانا قاری محمد طیب قاسمی (وفات: 1983 ء) نے اپنے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا تھا — مسائل قدیم ہوں، دلائل جدید ہوں۔
جدید اسلوب صرف اسلوبِ کلام کی نسبت سے جدید ہوتا ہے، ورنہ جہاں تک اصل بات کا تعلق ہے، وہ اتنا ہی قدیم ہوتا ہے جتنا کہ قدیم اسلوب میں کہی ہوئی بات۔
مثال کے طورپر قرآن کی سورہ النساء میںآیا ہے کہ مرد عورتوں کے اوپر قوام ہیں (4: 34) ۔ قوّام کا ترجمہ عام طورپر حاکم یا محافظ (protector) جیسے الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ جدید طبقے کو یہ بات قابلِ اعتراض معلوم ہوتی ہے۔ وہ اپنے ’’تصورِ مساوات‘‘ کے مطابق، اِس کو سمجھ نہیں پاتا کہ کیوں مرد کو عورت کے اوپر قوام کا درجہ دیا جائے۔
اِس قسم کے کئی مردوں اور عورتوں سے میری گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ قوام کا مطلب وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں باس (boss) کہا جاتا ہے۔ باس ازم (bossism) کے اصول کو عملاً تمام لوگوں نے تسلیم کیا ہے۔ اسکول میں پرنسپل، یونی ورسٹی میں وائس چانسلر، کمپنی میں ڈائریکٹر، حکومت میں وزیر اعظم، وغیرہ سب کے سب اپنے ادارے کے باس ہوتے ہیں۔
باس (boss)کے بغیر کوئی بھی تنظیم یا ادارہ کامیابی کے ساتھ چلایا نہیں جاسکتا۔ گھر بھی ایک ادارہ ہے۔ یہاں بھی ایک باس کی ضرورت ہے۔ اِس گھریلو باس کو قرآن میں قوام کہا گیاہے۔ میری اِس بات کو سن کر ایسے تمام لوگ مطمئن ہوگئے۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید اسلوب کیا ہے۔ جدید اسلوب یہ ہے کہ اصل تعلیم میں کوئی تغیر کئے بغیر نئے الفاظ کے ذریعے اس کو جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم (understandable) بنایا جائے۔ یہ ایک زمانی ضرورت ہے۔ یہ زمانی ضر ورت ہر دور میں اور ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقیدے کی طاقت

خدا پر عقیدہ انسان کو اِس دنیا میں سب سے بڑا سہارا دیتا ہے۔ خدا پر عقیدہ، اعتماد (conviction) کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایک فارسی شاعر نے بجا طور پر کہا ہے:
دشمن اگر قوی است، نگہباں قوی تر است۔
یعنی مسئلہ اگر بڑا ہے تو مسئلے کو حل کرنے والا اُس سے بھی زیادہ بڑا ہے:
If the problem is strong, the problem solver is stronger.
موجودہ دنیا مسائل کی دنیا ہے۔ یہاں ہر عورت اور مرد کو بار بار مسائل پیش آتے ہیں۔بار بار ایسی صورتِ حال پیش آتی ہے جہاں آدمی اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگتا ہے۔
سفرِ حیات کے درمیان بار بار آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگے کا راستہ بند ہے۔ بار بار انسان اِس منفی احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ اس کے وسائل وذرائع کی آخری حد آگئی، خود اپنے بل پر اس کے لیے اب اپنے مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں رہا، وغیرہ۔
جس آدمی کا خدا پر عقیدہ نہ ہو، وہ ایسے موقع پر مایوسی (despair) کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ دل برداشتہ ہو کر بیٹھ جاتاہے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اب اس کے اندر آگے بڑھنے کی ہمت نہیں۔ ایسی حالت میں پہنچ کر آدمی ٹنشن (tension) میں جینے لگتا ہے، اور ٹنشن اپنے آپ میں ساری بیماریوں کی جڑ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹنشن سے زیادہ بڑا کوئی مسئلہ انسان کے لیے نہیں۔
لیکن جس آدمی کو خدا کے اوپر سچا یقین (conviction)ہو، وہ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ اُس کو ہر صورتِ حال میں یہ یقین رہتا ہے کہ اس کا خدا ضرور اس کی مدد کرے گا۔
ایسا آدمی کامل یقین (conviction)کے ساتھ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا خدا ضرور اس کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچالے گا، اس کا خدا اُس وقت بھی ضرور اس کا ساتھ دے گا جب کہ دوسرے لوگ اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہوں۔
واپس اوپر جائیں

اپنی ذات کی توسیع

ہر انسان سب سے زیادہ فکر مند اس بات کے لیے رہتا ہے کہ اس کا بیٹا زیادہ سے زیادہ ترقی کرے۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنے بیٹے کو اپنی ذات کی توسیع (expansion) سمجھتا ہے۔ وہ بیٹے کی ترقی میں اپنے تشنۂ تکمیل خواب (unfulfilled dream) کو پورا ہوتا ہوا دیکھتا ہے، وہ بیٹے کی بڑائی کو خود اپنی بڑائی کے ہم معنی سمجھتا ہے۔
یہ صرف بیٹے کا معاملہ نہیں، بلکہ یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کا بھی ہے۔ لوگ پر جوش طورپر اپنے اکابر (bigs) کی بڑائی بیان کرتے ہیں، کیوں کہ اکابر کی بڑائی میں اُنھیں اپنی بڑائی دکھائی دیتی ہے۔ لوگ اپنی قومی تاریخ کی عظمت بیان کرتے ہیں۔ اِس کا سبب بھی یہی ہے کہ اُنھیں اپنی قومی عظمت میں خود اپنی عظمت (glory) کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ لوگ اپنی فیملی کے عیب کو چھپاتے ہیں اور اس کی خوبی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، کیوں کہ انھیں اپنی فیملی کی بڑائی میں خود اپنی بڑائی دکھائی دیتی ہے، وغیرہ۔
یہ مزاج عین وہی چیز ہے جس کو شرکِ خفی کہا جاتا ہے۔ دین میں سب سے بُری چیز شرک ہے، یعنی اللہ کی ذات وصفات میں کسی اور کو شریک کرنا۔ مثلاً کسی کو اللہ کا بیٹا سمجھنا، یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے۔ اِسی طرح کسی کو ذاتی اختیار کا مالک سمجھنا، یہ اللہ کی صفات میں شرک کرنا ہے۔ یہ دونوں چیزیں یکساں طورپر ناقابلِ معافی جرم کی حیثیت رکھتی ہیں۔
شرکِ خفی کی ایک قسم وہ ہے جب کہ اللہ کے سوا کسی اور کو مستقل حیثیت سے بڑا سمجھ لیا جائے اور اس سے گہرا جذباتی تعلق قائم کرلیا جائے۔ اس کی بڑائی بیان کرکے آدمی خوش ہو اور اس کے خلاف تنقید سن کر وہ ناراض ہوجائے۔
کسی غیرخدا کے ساتھ اِس قسم کی جذباتی وابستگی بلا شبہہ شرکِ خفی کی حیثیت رکھتی ہے، اور شرکِ خفی اپنی شناعت کے اعتبار سے شرکِ جلی سے کم نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دریافت، دریافت، دریافت

جاپان کی ایک مثل ہے کہ — ہر دن کوئی نئی بات دریافت (discover) کرو، خواہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے کا نیا طریقہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مثل مادّی دریافتوں کے بارے میں ہے۔
یہی اصول زیادہ بڑے پیمانے پر معرفت (realization)اور روحانیت (spirituality)کے معاملے پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ روحانیت اور معرفت کوئی جامد چیز نہیں۔ وہ درخت کی مانند ایک مسلسل ترقی پذیرچیز (growing entity)ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں لامحدود صلاحیت موجود ہے۔ انسانی دماغ کے باہر جو حقائق کی دنیا (universe of facts) ہے، وہ بھی لامحدود ہے۔
ایسی حالت میں جو آدمی اپنے ذہن کو مسلسل طورپر بیدار رکھے ا ور یکسوئی کے ساتھ غور وفکر کرتا رہے، وہ ہر دن بلکہ ہر لمحہ نئی حقیقتوں کو دریافت کرتا رہے گا۔ اس کے لیے دریافتوں کا خزانہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
جس طرح مادی خوراک جسم کی غذا ہے، اُسی طرح روحانی دریافتیں معرفت کی غذا ہیں۔ مسلسل مادی خوراک جسم کی زندگی کی ضمانت ہے۔ اِس طرح مسلسل روحانی دریافتیں کسی انسان کے لیے معرفت اور روحانیت کی زندگی اور ارتقا کی ضمانت ہیں۔
یہ دریافت گویا کہ ایک فکری پراسس (intellectual process) ہے۔ اِس پراسس کو مسلسل طورپر جاری رکھنے کی شرطیں صرف دو ہیں — غور وفکر کرنا، اور اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچانا۔
جس آدمی کے اندر یہ دو چیزیں پائی جائیں، وہ ضرور دریافتوں والا انسان بن جائے گا۔ اس کے بعد کوئی بھی چیز اس کو نئی نئی دریافتوں تک پہنچنے سے روکنے والی نہیں۔
دریافت روح کی زندگی ہے، دریافت ذہن کے لیے ذریعۂ ارتقا ہے۔ دریافت کسی انسان کو مکمل انسان بناتی ہے۔ دریافت کے بغیر کوئی انسان ایسا ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
1 - ایک مرتبہ دہلی میں آپ کی مجلس میں میں نے یہ سوال کیا تھا کہ احادیث کے اخذو ترک میں آپ کا کیا اصول ہے، تو آپ نے بتایا تھا کہ اس معاملے میں میرا وہی اصول ہے جو محدثین کا اصول ہے۔ موضوع روایات کے تعلق سے آپ نے یہ کہا تھا کہ اس باب میں میں علامہ ابن الجوزی کا مسلک رکھتا ہوں، یعنی سختی کے ساتھ موضوع احادیث کو ترک کرنا۔ میںنے مزید پوچھا تھا کہ کیا بطور استشہاد موضوع احادیث لی جاسکتی ہیں، تو آپ نے سختی کے ساتھ منع کیا تھا۔
یہاں پوچھنا یہ ہے کہ آپ نے جامعہ دارالسلام، عمر آباد کے حالیہ دورہ (جون 2010 ) میں ایک دن ’’معرفت الہیہ‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے اس جملہ سے بات شروع کی تھی: کنتُ کنزاً مخفیاً فأحببتُ أن أعرف۔ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ اس کی سند میں کلام ہے، مگر اس کی اصل قرآن میں موجود ہے: وما خلقتُ الجنّ والإنس إلا لیعبدون (51: 56) أی لیعرفونی۔مجھے پہلے سے یہ علم تھا کہ یہ موضوع حدیث ہے، پھر میں نے آپ کی زبانی سنا تو دوبارہ اس کی تحقیق کی۔ تحقیق کے بعد جو بات میرے سامنے آئی ہے، اس کو یہاں میں بلا کم وکاست ذکر کر دیتا ہوں:
کنت کنزاً لا أعرف فأحببت أن أعرف فخلقت خلقاً فعرفتہم بی فعرفونی۔ قال ابن تیمیہ: إنہ لیس من کلام النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ولا یعرف لہ سند صحیح ولا ضعیف وتبعہ الزرکشی وشیخنا (ابن حجر) قالہ السخاوی فی کتابہ المقاصد الحسنۃ 1/174 ؛ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألبانی (1/156) : حدیث لا أصل لہ؛ تذکرۃ الموضوعات للفتنی (1/11)۔اس تحقیق سے معلوم ہوتاہے کہ اس حدیث کی کوئی سند ہی نہیں ہے جس بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف ۔ اس لیے اس میدان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ موضوع حدیث ہے۔ اب یہ معلوم کرنا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اور بھی قابلِ قبول سند ہے۔ اگر ہے تو معلوم کرائیے۔ ہو سکتا ہے آپ کثیر المطالعہ ہیں، کہیں آپ کی نظر سے یہ حدیث مقبول سند کے ساتھ گزری ہو۔ بڑی مہربانی ہوگی اگر معلوم کرادیں، یا اگر آپ کا مدعا سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو تو اس کی بھی وضاحت کردیں۔
2 - دوسری بات یہ پوچھنی ہے کہ آپ نے اپنی تفسیر تذکیر القرآن، سورہ اعراف آیت نمبر 166 میں یہود کے متعلق یہ لکھا ہے کہ ’’اللہ نے ان کو بندر بنادیا‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی صورت بندروں کی صورت ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اخلاق بندروں جیسا ہو گیا، ان کا دل اور ان کی سوچ انسانوں کے بجائے بندر جیسی ہوگئی (تذکیر القرآن، صفحہ 417 )۔ یہاں پر یہ پوچھنا ہے کہ یہ لوگ حیلہ جوئی کرکے حرام چیز کو حلال کرنے میں لگے ہوئے تھے اور حیلہ جوئی یا حرام چیز کو حلال کرنا کوئی انسانیت کا کام نہیں ہے۔ ایسی گری ہوئی حرکت وہی انجام دیتے ہیں جن کا ضمیر مرچکا ہو، جو بے حس ہوچکے ہوں اور یہ چیز خود بد اخلاقی کے دائرے میں آتی ہے۔ پھر ان کے اخلاق کاخراب ہوجانا کیا مطلب رکھتا ہے۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں۔
آپ اکثر یہ ذکر کرتے رہتے ہیں کہ تقریر ہویاتحریر یا کوئی بھی بحث، ہمارا انداز ’’علمی‘‘ نہیں ہوا کرتاہے۔ ’’علمی انداز‘‘ کیا چیز ہے۔ گزارش ہے کہ وہ ’’علمی انداز‘‘ کیا ہے، اس کی وضاحت فرمائیں، تاکہ ہم اس بنیاد پر اپنی تقریر وتحریر اور بحث وگفتگو کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اچھے سے اچھا بدلہ عطا فرمائے۔ (فرہاد احمد سلفی، عمر آباد،تمل ناڈو)
جواب
1 - ’’کنتُ کنزاً مخفیاً‘‘ کے مذکورہ قول کے متعلق میرا خیال ہے کہ اگرچہ بظاہر وہ حدیثِ قدسی کی زبان میں ہے، لیکن وہ سورہ الذاریات کی آیت 56 کی تشریح کے طورپر ہے اور آیت کی تشریح کی حیثیت سے وہ عبد اللہ بن عباس کی تفسیر کے مطابق ہے۔ میں ذاتی طورپر اس قول کو حدیث قدسی نہیں مانتا، البتہ اس کو میں ایک صحیح تشریحی قول مانتا ہوں۔ جن علماء نے اِس قول پر نکیر کی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اس کے اسلوب کو دیکھا جو حدیث قدسی کے انداز میں ہے۔ اسلوب کی بنا پر وہ یہ بحث کرنے لگے کہ اصولِ حدیث کے مطابق، وہ درست ہے یا نہیں۔ اگر یہ علماء اس کے اسلوب کو اضافی سمجھتے اور اس کو ایک شخص کے قول کی حیثیت سے لیتے تو غالباً اُن کو اِس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اسلوب کا یہ طریقہ ایک معروف طریقہ ہے۔ چوں کہ قرآن کی آیت متکلم کے اسلوب میں ہے، اس لیے اس کی تشریح کرنے والے نے بھی اپنی تشریح کو متکلم کے اسلوب میں بیان کیا۔ یہاں اسلوب کی حیثیت اضافی (relative) ہے، نہ کہ حقیقی(real) ۔ اگر اِس تشریح کے اسلوب کو بدل دیا جائے اور اس کو قول کے اسلوب میں بیان کیا جائے تو وہ قول یہ ہوگا: کان اللہ کنزاً مخفیا، فأحبّ أن یُعرف فخلق الخلق۔
2 - مسخ کے بارے میں جو بات تذکیر القرآن میں ہے، وہ میری انفرادی رائے نہیں ہے، بلکہ دوسرے علماء اور مفسرین نے بھی اس کی تشریح اِس انداز میں کی ہے، جیسا کہ تذکیر القرآن میں اس کا حوالہ موجود ہے۔ آپ نے جو اشکال ظاہر کیا ہے، وہ ایک غیر ضروری اشکال ہے۔ اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ آپ نے اس کو بالکل حتمی معنوں میں لے لیا۔ اِس طرح کی چیزیں کبھی حتمی معنیٰ میں نہیں ہوتیں۔ مثال کے طورپر قرآن میں کچھ لوگوں کے بارے میں آیا ہے کہ: ’’پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے، پس وہ پتھر کی مانند سخت ہوگئے یا اُس سے بھی زیادہ سخت‘‘(2: 74) ۔ اِس آیت کو اگر خالص منطقی معنیٰ میں لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ جس آدمی کا دل پـتھر کی مانند سخت ہوجائے تو اس کے بعد اس کے اندر خیر وشر کا احساس مٹ جائے گا، پھر اس کی پکڑ کس لیے۔ کسی بات کو اس طرح اس کی آخری منطقی حد (logical end) تک لے جاکر اس پر رائے قائم کرنا درست نہیں۔
3 - ’’علمی اسلوب‘‘ کا لفظ دراصل ’’سائنٹفک اسلوب‘‘ کا ترجمہ ہے۔ جدید سائنس سے پہلے استدلال کا علمی معیار مقرر نہیں ہوا تھا، مگر موجودہ زمانے میں علمی استدلال کا ایک واضح معیار مقرر ہوگیا ہے۔ مثلاً آپ کا ایک بیان اگر ایک ثابت شدہ بنیاد پر قائم ہو تو وہ ایک علمی بیان ہوگا، ورنہ وہ علمی بیان نہ ہوگا۔ اِس کی ایک معروف مثال یہ ہے کہ عباسی دور میں جب حدیثیں جمع کی گئیں تو معلوم ہوا کہ طریقہ عبادت کے بارے میں صحابہ کے درمیان کچھ فرق یا کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ کس فرق کو لیا جائے اور کس فرق کو نہ لیا جائے۔ یہاں علماء فقہ نے ترجیح (preference) کا اصول وضع کیا۔ یعنی ایک طریقے کو راجح اور دوسرے طریقے کو غیر مرجوح قرار دینا۔
یہ ایک غیر علمی طریقہ تھا، کیوں کہ اِس اصول کے حق میں ذاتی قیاس کے سوا کوئی ثابت شدہ بنیاد موجود نہ تھی۔ اِس کے برعکس، حدیث میںآیا ہے کہ : أصحابی کالنجوم، فبأیہم اقتدیتم اہتدیتم(کشف الخفاء، جلد 1، صفحہ 146)۔ اِس حدیث کی موجودگی میںصحیح طریقہ یہ تھا کہ تنوع یا توسع کا طریقہ اختیار کیا جاتا ، یعنی ایک صحابی کا طریقہ اختیار کرو تو وہ بھی درست، اور دوسرے صحابی کا طریقہ اختیار کرو تو وہ بھی درست۔ حدیثِ رسول سے واضح طور پر توسع کا طریقہ ثابت ہو رہا تھا، لیکن فقہاء نے بطورِ خود ترجیح کا طریقہ وضع کرلیا۔ توسع کا طریقہ علمی طریقہ ہے، کیوں کہ اس کے پیچھے ایک ثابت شدہ نقلی بنیاد موجود ہے۔ اِس کے برعکس، ترجیح کا طریقہ غیر علمی طریقہ ہے، کیوں کہ اس کے پیچھے اس قسم کی کوئی ثابت شدہ علمی بنیاد موجو د نہیں۔
علمی اسلوب کے معاملے کو اگر آپ زیادہ تفصیل کے ساتھ جاننا چاہتے ہیں تو زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ راقم الحروف کی کتابیں پڑھیں۔ ان شاء اللہ یہ مسئلہ آپ پر واضح ہو جائے گا۔
سوال
میں برسہا برس سے ماہ نامہ’’الرسالہ‘‘ خرید کر اپنی اوّلین فرصت میں اس کو پڑھتا ہوں۔ عرض یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل الرسالہ میں شائع شدہ آپ کی ایک تحریر نے مجھے اُلجھن میں ڈال دیا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا: ’’کسی مسئلہ کو حل نہ کرنا بھی ایک حل ہے۔ ‘‘ یہ کیا معمّہ ہے۔ خاکسار اس کی وضاحت کے لیے درخواست گزار ہے ۔ (ایم عبد الحکیم، حیدرآباد)
جواب
مذکورہ قول سے مراد وہی تدبیر ہے جس کو دوسرے الفاظ میں عملی حکمت (practical wisdom) کہاجاتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ سامنے آتا ہے تو فوری طورپر اس کا حل بھی موجود رہتا ہے۔ مثلاً ایک بس چھوٹ جانے کے بعد دوسری بس سے اپنا سفر جاری رکھنا۔ اِس طرح کے مواقع پر ضروری ہوتا ہے کہ مسئلے کا فوری طورپر ایک ممکن حل تلاش کیا جائے۔
لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور فوری طورپر اس کا حل موجود نہیں ہوتا۔ فوری طور پر کسی طریقے کو مسئلے کے حل کے نام پر اختیار کرنے میں شدید اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ حل نہ ہو اور مزید بہت سے مسائل پیدا ہوجائیں۔ ایسی حالت میں دانش مندی یہ ہوتی ہے کہ مسئلے کو علی حالہ چھوڑ دیا جائے اور ممکن دائرے میں اپنی کوشش جاری رکھی جائے۔ اِس دوسرے طریقے کا فائدہ فوری طورپر نہیں نکلتا، لیکن مستقبل کے مثبت نتائج بتاتے ہیں کہ یہی طریقہ زیادہ درست تھا۔ گویا کہ مذکورہ اصول سے مراد تدریجی عمل (gradual process) ہے ، نہ کہ سرے سے عمل نہ کرنا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 206

1 - نئی دہلی کے یو این آئی ٹیلی ویژن کی ٹیم نے 12 جون 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر عالم گیر تھے۔ انٹرویو کا موضوع یہ تھا کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن (Right to Education) کے قانون کا کتنا فائدہ ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ تعلیم کا معاملہ رائٹ ٹو ایجوکیشن جیسے قانون کا معاملہ نہیں۔ تعلیم کا معاملہ تمام تر ایجوکیشنل انفراسٹرکچر (educational infrastructure)کا معاملہ ہے۔ اگر ملک میں اچھا تعلیمی نظام ہو تو اپنے آپ تعلیم عام ہوجائے گی۔ یہ کام قانون کے ذریعہ ہونے والا نہیں۔
2 - جموں وکشمیر کے حلقہ الرسالہ سے وابستہ افراد، خاص طورپر مسٹر احمد شناس، مسٹر فاروق مضطر اور مسٹر حمید اللہ حمید (بیروہ، کشمیر) نے وہاں ’’القرآن مشن‘‘ کو لانچ کیا۔ اس سلسلے میں وہاں مختلف پروگرام کیے۔ اس پروگرام میں سہارن پور سے ڈاکٹر محمد اسلم خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شرکت کی۔ انھوں نے وہاں امن اور اسلام،اور دعوت الی اللہ کے موضوع پر کئی لیکچر دیے۔ یہاں پروگرام کی تاریخ اور مقام درج کیا جاتاہے:
ک 6 جون 2010، جموں وکشمیر یونی ورسٹی ک 8 جون 2010، اپنا گھر (بیروہ، کشمیر)
ک 9 جون 2010 ، لا ء ڈگری کالج، سری نگر ک 10 جون 2010 ، بیروہ گرلس ڈگری کالج
ک 10 جون 2010 دارالعلوم نور الحرمین (پٹن، کشمیر)
اِن پروگراموں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کے حلقے نے حاضرین کو دعوتی لٹریچر دیا۔ اسی طرح مختلف اداروں اور لائبریروں کو مطبوعات الرسالہ کا ایک ایک سیٹ دیاگیا۔
3 - سہارن پور (یوپی) کی سی پی ایس ٹیم نے مسٹر پی کے چوہان (Executive officer, Ministry of HRD) اور سوامی دیوانند کی دعوت پر 18جون 2010 اور 4جولائی 2010 کے درمیان ہری دوار کا سفر کیا۔ یہ ایک دعوتی سفر تھا۔ سوامی دیوانند جی آج کل تذکیر القرآن (ہندی) کا مطالعہ کررہے ہیں۔ انھوں نے سی پی ایس کے ممبران کا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ: CPS team is the super team of God realization
اس موقع پر حاضرین اور گروکل یونی ورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کودعوتی لٹریچر اور قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ دیاگیا جس کو انھوں نے بے حد شوق سے قبول کیا۔
4 - چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی (میرٹھ، یوپی) میں 26 جون 2010 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
Islam & Peace
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ وہاں انھوں نے یونی ورسٹی کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس میرٹھ کے حلقے کی طرف سے یونی ورسٹی کی مرکزی لائبریری میں صدر اسلامی مرکز کی تمام مطبوعات پر مشتمل ایک بک کارنر (book corner) قائم کیا گیا۔ یونی ورسٹی کے اندر سی پی
ایس کی طرف سے ایک اسٹال لگایا گیا۔ یہاں سے یونی ورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کو دعوتی لٹریچر کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیاگیا۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے میرٹھ کے حلقہ الرسالہ کے اجتماع میں مختلف خطابات کیے۔
5 - لیہہ (لداخ، جموں کشمیر) کے علاقے میں جولائی 2010 کے پہلے ہفتے میں الرسالہ مشن سے وابستہ کچھ مقامی افراد نے بڑے پیمانے پر وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم افراد اور ٹورسٹس کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ خاص طورپر ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ برائے مطالعہ دیاگیا۔
6 - امریکا میں صدر اسلامی مرکز کا ٹیلی کانفرنس کے ذریعے11 جولائی 2010 کی صبح کو ایک خطاب ہوا۔ اِس کا موضوع یہ تھا: Islam and world peace.۔اِس خطاب کو امریکا میں ٹیلی کانفرنس کے ذریعے سنا گیا۔ خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام تھا، مگر کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ بعد کو سامعین نے اِس موضوع پر باہم تبادلہ خیال کیا۔
7 -تحصیل نکور (سہارن پور) کے جین دھرم شالہ میں سی پی ایس سہارن پور کی ٹیم کی طرف سے 11 جولائی 2010 کو ایک دعوتی پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر حاضرین کے سامنے اسلام کا تعارف پیش کیا گیا اور حاضرین کو مطالعے کے لیے دعوتی لٹریچر اور قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِس موقع پر پروگرام میں سہارن پور کے تعلیم یافتہ غیر مسلموں اور اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی۔
8 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر اور تبّت ہاؤس (نئی دہلی) کی طرف سے 13 جولائی 2010 کو آئی آئی سی انیکسی (IIC Annexe) کے آڈی ٹوریم میں حسب ذیل موضوع پر ایک پروگرام ہوا:
Spiritual Ecology
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سی پی ایس کی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور ’’اسلام اور ماحولیات‘‘ کے موضوع پر انگریزی زبان میں 45 منٹ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر حاضرین کو ’’پرافٹ آف پیس‘‘ اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
9 - یکم اگست 2010 کو دوردرشن (نئی دہلی) کے انگریزی چینل پر ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ یہ پروگرام دور درشن کے آڈی ٹوریم میں کیا گیا۔ اِس میں ٹاپ کے لوگوں نے شرکت کی۔ یہ ڈسکشن ’’کشمیر اور دہشت گردی کا مسئلہ‘‘ کے موضوع پر تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے شرکا کو ’’پرافٹ آف پیس‘‘ اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
10 - بمبئی میں حلقہ الرسالہ سے وابستہ افراد کی ماہانہ میٹنگ ہر مہینہ کے پہلے اتوار کو تین بجے حسب ذیل مقام پر ہوتی ہے:
Glow Pharma, 302, A Wing,
Koldongri CHS, Parsi Wada Bus Stop
Sahar Road, Andheri, East Mumbai
میٹنگ سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے حسب ذیل ساتھیوں سے رابطہ قائم کریں:
ہارون شیخ: 9821590195 ، محبوب بھائی : 9619163993
11 - صدر اسلامی مرکز مولانا وحید الدین خاں صاحب کو ان کی قومی اور تعمیری خدمات پرراجیوگاندھی نیشنل سدبھاؤنا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ 20 اگست 2010کو کانگریس کمیٹی کی ایڈوائزری کمیٹی کی طرف سے دیاگیا۔اِس پروگرام کی تقریب نئی دہلی کے تین مورتی آڈی ٹوریم میں منعقد کی گئی۔ اس موقع پر کانگریس کے اعلیٰ ذمے داران موجود تھے — سونیا گاندھی، وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، ڈاکٹر کرن سنگھ، مسٹر موتی لال وورا، وغیرہ۔ اِس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کانگریس کی صدر مز سونیا گاندھی نے کہا کہ مولانا وحیدالدین خاں کا کام گاندھین اقدار کا سچا نمونہ ہے، جوانڈیا میں قومی یکجہتی اور امن وشانتی کے فروغ کے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں تفصیل سے مولانا کی شخصیت اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالی۔راجیوگاندھی نیشنل سدبھاؤنا ایوارڈ کمیٹی کے چیئر مین ڈاکٹر کرن سنگھ نے اپنی تقریر میں خاص طور پر مولانا کی دو مطبوعات —انگریزی ترجمہ قرآن اور پرافٹ آف پیس (The Prophet of Peace) کو اسٹیج سے حاضرین کو دکھاتے ہوئے اس کے بارے میں اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ مولانا ہمارے ملک کا بے حد قیمتی سرمایہ ہیں۔اِس موقع پر موجودہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے مولانا کے مشن اور ان کی شخصیت کا خصوصی طور پر تعارف پیش کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ —مولانا وحید الدین خاں صاحب کا کام ملک میںامن وآشتی اور قومی یکجہتی کی تعمیر کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔مولانا وحید الدین خاں صاحب ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں۔ وہ دنیا میں ’’ایمبیسڈر آف پیس ‘‘کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھوںنے مختلف موضوعات پر 200 سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ اِن کتابوں میں اسلام کی اصل تصویر پیش کی گئی ہے، یعنی ایسی تصویر جو امن اور یکجہتی کے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے۔ مولانانے دہشت گردی کے ظاہرہ کو ختم کرنے کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔ مولانا کی کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘، جو حال میں پنگوئن بکس (Penguin Books) سے شائع ہوئی ہے، وہ اس موضوع پر خصوصی اہمیت رکھتی ہے، وغیرہ۔
12- gratefully acknowledge the receipt of Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan. I am a great admirer of Maulana Wahiduddin Khan and the great work that he and his organization "CPS International" has been doing to spread the message of Quran in the right perspective.(Cdr. Ajai Bhalla (Retd.) Former Deputy Judge Advocate General, IAF, New Delhi)
13- How nice of you to gift me with this Quran. I always wanted to read the Quran. -Dr.A Gurudas MD Physician. President of Brahmo Samaj Bangalore.
14- This is the first time I have got this book in my hands. (Dr. Vijayalakshmi, Principal -City College Bangalore)
15-I read your book "Search of Truth" and I feel that this is a best book for the atheists. I just want to thank you for writing this book. Thank you very much. (Tushar Sharma, New Delhi)
16- Amit Samuel, Personal Secretary to Dalbir Singh (National Secretary- All India Congress Committee), was the person who coordinated Maulana's car for Teen Murti Bhawan and back. When he came to drop Maulana after the award function, he said to Maulana that: "I am a Christian and all I want to tell you Maulana Sahab is that if Jesus Christ would come today then he would look exactly like you. He further said that in my last 5 years of award coordination this is the first time I am impressed by anyone and that is you. Maulana put his hand on to his head and said that he greatly emphasizes the teachings of Jesus Christ in his speeches and writings. Amit Samuel was overwhelmed. (Rajat Malhotra, New Delhi)
واپس اوپر جائیں