Pages

Thursday 1 July 2004

Al Risala | July 2004 (الرسالہ،جولائی)

2

- واردھا کا سفر


واردھا کا سفر

واردھا (مہاراشٹر) میں ایک گاندھیائی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ مشہور صنعت کار جمنا لال بجاج کی یادگار میں تقریباً ۱۵ سال پہلے قائم کیا گیا۔ اس ادارہ کا نام یہ ہے:
Institute of Gandhian Studies (Gopuri)
اس ادارہ کے تحت ۲۳ نومبر سے ۲۷ نومبر کو ایک کانفرنس ہوئی جس میں پانچ بڑے مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ ہر مذہب پر بحث و گفتگو کے لئے ایک پورا دن مخصوص کیا گیا تھا۔ راقم الحروف کو اس کانفرنس میں اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے بلایا گیا تھا۔ اس سفر کی روداد مختصر طور پر یہاں درج کی جاتی ہے۔
پچھلے دن (۲۱ نومبر) کو جمعہ کا دن تھا۔ میں نے جمعہ کی نماز نظام الدین میں تبلیغی مرکز کی مسجد میں پڑھی۔ اس مسجد میں تقریباً سو سال پہلے تبلیغی تحریک شروع کی گئی تھی۔ اس وقت یہ ایک چھوٹی سی مسجد کی حیثیت رکھتی تھی۔ ۱۹۴۷ تک یہی ڈھانچہ باقی رہا۔ مگر ۱۹۴۷ کے بعد اس میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ اب یہاں مسجد اور تبلیغی مرکز اور کاشف العلوم کی صورت میں ایک وسیع کامپلکس تعمیر ہوچکا ہے۔ میں نے مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھ کر اوپر کی منزل میں نماڑ پڑھی۔ گیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک تبلیغی بزرگ سے میں نے پوچھا کہ اس کی کتنی منزلیں ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ بیسمنٹ کو لے کر چھ منزل۔ (واضح ہو کہ ۱۹۴۷ میں یہ چھ منزلہ عمارت سرے سے موجود ہی نہ تھی)
اس طرح کے ہزاروں مسلم ادارے ہیں جو ملک کے مختلف حصوں میں قائم ہیں۔ آزادی کے بعد ہر ادارے نے زبردست ترقی کی ہے۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی مدرسہ یا مسجد یا دینی ادارہ ایسا نہیں جس نے آزاد ہندستان میں غیر معمولی ترقی نہ کی ہو۔ لیکن اس عظیم ترقیاتی واقعہ کو مسلمانوں کے اخباروں میں یا ان کے جلسوں اور تقریروں میں کبھی بتایا نہیں گیا۔ اس کے برعکس ہمارے تمام رہنمائوں اور دانشوروں نے جس خودساختہ واقعہ کی خبر دی وہ صرف یہ تھی کہ ہندستان کے مسلمان تباہ وبرباد ہورہے ہیں۔
۱۹۴۷ سے لے کر اب تک مسلمانوں کے نااہل رہنما مسلمانوں کو یہ بتاتے رہے ہیں کہ ہندستان میں وہ معاشی تباہ حالی کا شکار ہیں۔ میں نے باقاعدہ جائزہ کے تحت بار بار مسلمانوں کو بتانے کی کوشش کی کہ یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کی معاشی حالت ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں آج بہت زیادہ بہتر ہوچکی ہے۔ یہ بات جس طرح شہروں کے بارہ میں درست ہے اُسی طرح وہ دیہاتوں کے بارہ میں بھی درست ہے۔
مثلاً میرا آبائی گائوں بڈہریا (مشرقی یوپی) ۱۹۴۷ میں ایک انتہائی پچھڑا ہوا گائوں سمجھا جاتا تھا۔ پہلے اس گائوں میں زیادہ تر کچے مکانات تھے۔ آج وہاں زیادہ تر پکے مکانات ہیں۔ آج وہاں سڑک، بجلی، ٹیلی فون، پبلک ٹرانسپورٹ جیسی سہولتیں موجود ہیں۔ جب کہ ۱۹۴۷ میں ان کا کوئی وجود نہ تھا۔ آج اس گائوں میں دینی مدرسہ کے علاوہ ایک معیاری اسکول قائم ہوچکا ہے جب کہ ۱۹۴۷ میں اسکول کے نام سے کوئی چیز یہاں نہیں پائی جاتی تھی، وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح میں نے آزادی سے پہلے کی دہلی کو بھی دیکھا ہے اور اب میں ۱۹۶۷ سے دلّی میں رہتا ہوں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ۱۹۴۷ کے وقت دہلی کے مسلمانوں کا جو حال تھا اُس کے مقابلہ میں آج یہاں مسلمان معاشی اعتبار سے تقریباً سو گنا زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔ یہ ترقی اتنی نمایاں ہے کہ ہر جگہ اُس کو پختہ مکانوں کی کثرت، موٹر کاروں کی بھیڑ اور موبائل ٹیلی فون جیسی چیزوں کی صورت میں ہر مسلم علاقہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ میں سے کئی افراد نے میری اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ وہ ایسا کرتے ہیں کہ ملکی معیشت میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان فرق کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کو لے کر میرے نقطۂ نظر کی تردید کرتے ہیں۔ یہ وہی غلط طریقہ ہے جس کو قرآن میں تلک اذا قسمۃ ضیزیٰ (النجم ۲۲) کہا گیا ہے۔ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ مسلمانوں نے ہندوؤں یا دوسری قوموں کے مقابلہ میں زیادہ معاشی ترقی کی ہے۔ میرے تقابل کا تعلق مسلمانوں کی خود اپنی معاشی حالت سے ہے۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ ۱۹۴۷ میں مسلمانوں کی خود اپنی جو معاشی حالت تھی اس کے مقابلہ میں آج اُن کی اپنی معاشی حالت بہت زیادہ بہتر ہے۔ حتیٰ کہ خود میرے ناقدین اگر دیکھیں تو خود ان کے اپنے خاندان کی معاشی حالت جو ۱۹۴۷ میں تھی آج وہ اُ س سے بہت زیادہ بہتر دکھائی دے گی۔
اصل یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ زمانی تبدیلی کا معاملہ ہے۔ صنعتی دور کے بعد آج ہم معاشی انفجار (economic explosion) کی حالت میں جی رہے ہیں۔ ایسے زمانہ میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی گروہ ترقی سے محروم رہے۔ مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے تباہ حال بتانا یہ ایک خلاف زمانہ بیان (anachronic statement) ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ ہر طرف دھواں دھار برسات ہورہی ہے لیکن مسلمانوں کے کھیت سوکھے پڑے ہیں۔ ہندو کے مقابلہ میں مسلمانوں کی ترقی کا تعلق ذاتی لیاقت سے ہے۔ مگر مذکورہ قسم کی ترقی خود زمانی اسباب کے تحت اُنہیں اپنے آپ ملتی رہے گی۔
مجھے حال میں ایک تنظیم کی طرف سے دعوت نامہ ملا تھا جس نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ کو دہلی میں ایک سیمینار منعقد کیا۔ اس کا مقصد دعوت نامہ میں یہ بتایا گیا تھا کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (OIC) میں ۵۷ ملک ہیں۔ اس کے علاوہ تین اسٹیٹ ہیں جن کو اس تنظیم میں آبزرور کی حیثیت دی گئی ہے۔ مگر ہندستان اس تنظیم کا ممبر نہیں۔ جب کہ ہندستان میں مسلمان انڈونیشیا کے بعد سب سے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود ہندستان کو اس تنظیم میں ممبر یا آبزرور کی حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔ دعوت نامہ میں بتایا گیا تھا کہ یہ انکار بنیادی طور پر پاکستان کی مخالفانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
This denial is primarily engineered by Pakistan
مذکورہ تنظیم کے ایک ذمہ دار جو ۱۱ دسمبر کو میرے پاس دعوت نامہ لے کر آئے تھے ان سے میں نے کہا کہ اگرچہ میں آپ کی کانفرنس میں شریک نہ ہوسکوں گا لیکن اس معاملہ میں میری جو رائے ہے وہ آپ کو بتا رہا ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ او آئی سی میں ہندستان کی عدم شمولیت کا سبب اصلاً پاکستان کی دشمنی نہیں ہے بلکہ خود ہندستان کے مسلم لیڈروں کی ناعاقبت اندیشانہ دوستی ہے۔ وہ نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے دنیا بھر میں یہ خبر پھیلا رہے ہیں کہ ہندستان کے مسلمان خود اپنے ملک میں منفعل آوازوں (Passive voices) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اس ملک میں خود اہل ملک کی طرف سے بے قیمت بنا دئے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں او آئی سی ہندستان کو مسلمان کے حوالے سے کیوں اپنا ممبر بنائے گا۔
ہندستان کے مسلمان اگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کے حوالے سے ہندستان او آئی سی کا ایک ممبر بنے تو مسلمانوں کو سب سے پہلے خود اپنے ذہن میں ہندستان کو ایک باعزت مقام دینا ہوگا۔ انھیں دنیا کو بتانا ہوگا کہ ہندستان ان کا اپنا ملک ہے۔ وہ یہاں کے باعزت شہری ہیں۔ ملک کے نظام میں ان کو برابر کا درجہ حاصل ہے۔ وہ ملک کے اسی طرح نمائندہ ہیں جس طرح بقیہ لوگ اس ملک کے نمائندہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں سب سے پہلے مسلمانوں کے حوالہ سے ہندستان کی تصویر درست کرنی ہوگی۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ مسلمانوں کے حوالہ سے ہندستان او آئی سی کا ممبر بننے کا اہل دکھائی دے۔
دہلی اور سیوا گرام کے درمیان ۱۱۷۱ کیلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ سفر جی ٹی اکسپرس کے ذریعہ طے ہوا۔ ۲۲ نومبر ۲۰۰۳ کی شام کو ۷ بجے دہلی سے روانگی ہوئی اور اگلے دن ۲۳ نومبر کی دوپہر کو ڈیڑھ بجے ہماری گاڑی سیواگرام پہنچی۔ گرینڈٹرنک اکسپرس کا نظام برٹش دور میں قائم ہوا تھا۔ یہ ایک علامت ہے کہ انگریز ہندستان میں کس طرح جدید دور کی چیزیں لے آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر انگریز ہندستان میں نہ آتے تو ہندستان ابھی کم از کم ۱۰۰ سال پیچھے ہوتا۔ انگریزوں کا یہاں آنا ایک اعتبار سے بیرونی قوم کا یہاں آنا تھا۔ مگر دوسرے اعتبار سے وہ تاریخ کے نئے دور کا یہاں آنا تھا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے وہ متعصبانہ سوچ ہے۔ کسی فرد یا قوم کے لئے اگر آپ کے اندر متعصبانہ سوچ آجائے تو آپ اس کے بارے میں صحیح رائے نہیں قائم کرسکتے۔ یہی معاملہ انگریزوں یا نو آبادیاتی طاقتوں کے ساتھ ہوا۔ برٹش اقتدار کے دو سو سال کے درمیان ہمارے جو رہنما اٹھے وہ سب کے سب ردّ عمل کی نفسیات کے تحت اٹھے۔ اس لئے ان کی سوچ ابتدا ہی سے متعصبانہ سوچ بن گئی۔ چنانچہ وہ اس دور کے مثبت پہلوئوں کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
مجھے اللہ کی خصوصی توفیق سے یہ نعمت ملی کہ میں متعصبانہ سوچ اور منفی الفاظ کے جنگل کے درمیان جدید مغربی تہذیب کی اصل نوعیت کو سمجھ سکا۔ میرے علم کے مطابق، ہمارے جدید رہنمائوں میں یا تو سرسید احمد خاں جیسے مرعوبانہ ذہن کے لوگ پیدا ہوئے یا سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے لوگ پیدا ہوئے جو اپنی رد عمل کی نفسیات کی بنا پر مثبت پہلو سے جدید تہذیب کی اصل نوعیت کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن میں یہود کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے دور میں یہود کے لئے ذلت مقدر کردی گئی ہے۔ اب انھیں قیام حیات یا تو حبل اللہ کی بنیادپر ملے گا یا حبل الناس کی بنیاد پر (آل عمران ۱۱۲) یہ صرف یہود کی بات نہیں یہ دراصل حامل کتاب قوم کے بارے میں خدا کا قانون ہے جس کو یہاں یہود کی مثال کے ذریعہ بتایا گیا ہے۔
میں نے کہا کہ آج کل مسلمانوں کا تقریباً ہر جگہ یہی حال ہورہا ہے۔ اب مسلمان کہیں بھی خود اپنی قوت کے بل پر قائم نہیں ہیں بلکہ وہ دوسری قوموں کے عطیہ پر قائم ہیں۔ کسی بھی ملک میں مسلمانوں کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں۔
یہ بات صرف سیاسی اعتبار سے درست نہیں ہے بلکہ وہ وسیع تر معنوں میں درست ہے۔ مثلاً مسلمان آج ہر جگہ معاشی خوش حالی کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ یہ معاشی خوش حالی تمام تر جدید صنعتی انقلاب کا نتیجہ ہے جو مغربی قوموں کے ذریعہ دنیا میں آیا ہے۔ ہندستان سے لے کر امریکا تک کروڑوں مسلمان جمہوریت، آزادی اور سیکولرزم کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب چیزیں بھی مسلمانوں کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ وہ غیر مسلم قوموں کا عطیہ ہیں، وغیرہ۔
گرینڈ ٹرنک اکسپرس میں میرا ٹکٹ اے سی فرسٹ (AC I) کے لئے تھا۔ اے سی فرسٹ ہندستانی ریلوے میں سب سے اعلیٰ درجہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں آرام و راحت کی ہر چیز موجود تھی مگر اس میں میرا سفر مسلسل طور پر بے آرامی میں طے ہوا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کہ میں ایک خوبصورت قید خانہ میں بند کردیا گیا ہوں۔
اس بے آرامی کا سبب یہ تھا کہ ہمارے کیبن کی کھڑکیوں میں جو شیشہ لگاہوا تھا وہ ہلکا رنگین تھا۔ اس بنا پر میں باہر کے مناظر کو صاف طور پر دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ریل کا سفر عام طور پر ایمان افروز قدرتی مناظر کے درمیان ہوتا ہے۔ ہمارا یہ پورا سفر کھیتوں اور جنگلوں اور پہاڑوں کے درمیان ہورہا تھا۔ کھڑکی کے باہر دور تک سرسبز مناظر پھیلے ہوئے تھے۔ قدرت کے سرسبز مناظر کو دیکھنا میرے لئے ایک خدائی تجربہ (divine experience) ہوتا ہے۔ یہ میری محبوب ترین چیز ہے۔ مگر کھڑکی کے رنگین شیشہ نے مجھے اس محبوب چیز سے محروم کر رکھا تھا۔ اس محرومی نے میرے لئے اس قیمتی سفر کو روحانی اعتبار سے بے لطف بنادیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہندستان میں یہ بد ذوقی کہاں سے آئی۔ مغربی ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں کی ٹرینوں کی کھڑکیوں میں بڑے بڑے شیشے بالکل صاف وشفاف رنگ کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ مسافر باہر کے مناظر کو بالکل صاف طور پر دیکھتا رہتا ہے، مجھے اسی بنا پر ٹرین کا سفر پسند ہے مگر رنگین شیشوں کے کلچر نے میرے لئے ہندستان میں ٹرین کے سفر کو ایسا سفر بنادیا جس میں میرا جسم تو سفر کرتا رہا مگر اسی کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میرے روحانی سفر پر روک لگا دی گئی ہو۔
۲۲ نومبر کے اخبارات میں دہلی میں دیکھ نہیں سکا تھا۔ چنانچہ اسے اپنے ساتھ رکھ لیا تھا کہ راستہ میں دیکھوں گا۔ اپنے ہم سفر سے پڑھوا کر ان کو سنتا رہا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (۲۲نومبر ۲۰۰۳) کے صفحہ اول پر اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کوفی عنان کا یہ قول چھپا ہوا تھا— ٹررزم کے ذریعہ کسی صحیح مقصد کی طرف پیش رفت نہیں ہوسکتی:
No just cause can be advanced by terrorism.
یہ نہایت درست بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ متشددانہ طریق کار ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتاہے۔ وہ ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں جن مقامات پر متشددانہ طریق کار چلا یا جارہا ہے اس کی مثال اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے بالکل کافی ہے۔ پھر بھی کیوں ایسا ہے کہ لوگ اس کو سمجھ نہیں پاتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ ہمیشہ واقعہ کا نصف آخر دیکھ کر رائے بناتے ہیں۔ وہ اس کے نصف اول کو شامل کرکے اپنی رائے نہیں بناتے۔ قرآن کے الفاظ میں، یہ تطفیف ہے، اور تطفیف خدا کے دین میں جائز نہیں۔ یعنی ایک ٹررسٹ گروہ نے بم پھینک کر یا خود کش بمباری کرکے فریق ثانی کو جو نقصان پہنچایا اس کا وہ ذکر نہیں کرتے۔ البتہ فریق ثانی نے جوابی طور پر جو متشددانہ کارروائی کی اس کا وہ خوب چرچا کرتے ہیں۔ یہی یکطرفہ روش ہے جس نے لوگوں کو حقیقت پسندانہ سوچ سے محروم کردیا ہے ۔
یہ سطریں میں ٹرین میں ۲۳ نومبر کو صبح دس بجے لکھ رہا تھا۔ عین اسی وقت بیتول (Betul) کا ریلوے اسٹیشن سامنے سے گزرا۔ وہاں ٹرین چند منٹ کے لئے رکی۔ یہ ریلوے اسٹیشن دیکھ کر ۱۹۴۷ سے پہلے کا زمانہ یاد آیا جب کہ محمد علی جوہر بیتول کے جیل میں نظر بند کئے گئے تھے اور پھر وہاں سے رہا ہوئے۔ اور پھر بیتول کی نسبت سے اخباروں اور جلسوں میں کافی چرچا ہوا تھا۔ بیتول جیل کی اس نظر بندی کا تعلق ٹررزم سے تو نہ تھا، لیکن وہ سیاسی اکسٹریمزم ضرور تھی۔ اور جیسا کہ معلوم ہے، اس قربانی کا کوئی بھی فائدہ نہ ملت کو حاصل ہوا، نہ ملک کو۔ بیتول ریاست مدھیہ پردیش میں واقع ہے۔ یہاں یہ گوند (Gond) سلطنت کا مرکز تھا اور یہاں چودھویں صدی کی تاریخی عمارتوں کے کھنڈر بھی موجود ہیں۔
اخبار کے صفحہ اول پر جو خبریں تھیں ان میں سے ایک خبر کا عنوان یہ تھا— مہاراشٹر کی ایک مسجد میں بم دھماکہ سے ۳۵ آدمی زخمی:
35 hurt in mosque blast in Maharashtra
خبر میں بتایا گیا تھا کہ اس بم دھماکے کے بعد غصہ میں بھرے ہوئے مجمع نے دکانوں اور سواریوں کو جلانا شروع کردیا۔
یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا حال عام طور پر یہ ہے کہ انھوں نے برداشت کی صفت کھودی ہے۔ وہ معمولی سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں اور لڑنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ کسی مسئلہ کو صبر و تحمل کے ساتھ لینا اور پرامن طریق کار کے ذریعہ اس کو حل کرنا جیسے مسلمانوں کو آتا ہی نہیں۔
مسلمانوں کے اس مزاج کی تمام تر ذمہ داری ان کے دانشوروں اور رہنمائوں پر ہے۔ ان لوگوں نے انتہائی غلط طور پر یہ کیا کہ مسلمانوں کے اندر فخر کی نفسیات پیدا کردی۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے جوش کے ساتھ کہا تھا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے اسلام میں اپنے فخر کو دوبارہ دریافت کیا ہے:
Muslims have rediscovered their pride in Islam.
اسی فخر کی نفسیات کا نتیجہ ہے کہ مسلمان اپنے خلاف معمولی سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں کیوںکہ وہ اپنے فخر پسندانہ مزاج کی بنا پر تحمل و برداشت کو اپنی بے عزتی سمجھ لیتے ہیں۔ وہ ہر معاملہ کو عزت اور بے عزتی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ نفسیات عین وہی ہے جس کو قرآن میں حمیت جاہلیہ کہا گیا ہے۔
پربھنی کی جس مسجد میں مذکورہ دھماکہ ہوا اس کا نام محمدی مسجد بتایا گیا ہے۔ مگر بم دھماکہ کے بعد جس رد عمل کا مظاہرہ کیا گیا وہ سراسر محمدی کردار کے خلاف تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معروف سنت یہ ہے کہ ہر واقعہ کی تحقیق کی جائے (الحجرات ۶)۔ تحقیق کے بغیر کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ محض مشتعل ہوکر کوئی جوابی کارروائی نہ کی جائے بلکہ جو کچھ کیا جائے وہ نتائج کو سامنے رکھ کر سوچے سمجھے انداز میں کیا جائے۔ لوگوں کے ساتھ معافی اور درگذر کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ مسئلہ کو خاموش تدبیر کے ذریعہ حل کیا جائے، نہ کہ ہنگامہ آرائی کے ذریعہ۔ مگر یہ کیسی عجیب صورت حال ہے کہ نام لینے کے لیے تو لوگ محمدپر فخر کرتے ہیں مگر وہ محمدؐ کی سنت کو اختیار نہیں کرتے۔
ٹائمس آف انڈیا کا ایڈیٹوریل ٹررزم کے موضوع پر تھا۔ اس کی نسبت سے اس کے آغاز میں برٹش فارن سکریٹری مسٹر جیک سٹرا (Jack Straw) کا ایک قول نقل کیا گیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ ہم جوکہ مہذب دنیا کی نمائندگی کرتے ہیں، ایک عالمی خطرہ کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمیں اس خطرہ کا سامنا عالمی انداز میں کرنا چاہئے:
We who represent the civilized world are facing a global threat and we have to deal with it in a global way.
موجودہ زمانہ میں امریکا کے خلاف نفرت اور تشدد کا جو مسئلہ پیدا ہوا اس کا سبب اصلاً تہذیب کی نمائندگی نہیں ہے بلکہ اپنی تہذیب کو متشددانہ طور پر رائج کرنا ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک فریق اگر ایسے طریق کار سے تشدد کا عنصر نکال دے تو اپنے آپ یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ اس کی ایک مثال جاپان کی صورت میں آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانہ میں جاپان نے پہلے تشدد کیا، اس کے بعد وہ خود جوابی تشدد کا شکار ہوا۔ مگر جنگ کے بعد جاپان نے معکوس عمل (reverse course) کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر اپنی طرف سے تشدد کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد وہاں تشدد بھی ختم ہوگیا۔
ہندستان ٹائمس (۲۲ نومبر ۲۰۰۳) کے صفحہ ۱۳ پر ایک رپورٹ کے ساتھ ایک مسجد کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ یہ لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد کی تصویر تھی۔ تصویر میں دکھائی دے رہا تھا کہ بڑی تعداد میں مسلمان سجدے کی حالت میں زمین پر اپنا سر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ جمعۃ الوداع کی نماز کا منظر تھا۔ یہ تصویر یہاں شائع کی جارہی ہے۔
مسجد کی یہ تصویر دیکھ کر مجھے ایک بات یاد آئی۔ لکھنؤ ایک بڑا شہر ہے۔ مسلمان کافی تعداد میں یہاں رہتے ہیں۔ مگر لکھنؤ میں غالبا شیعہ روایات کی بنا پر جامع مسجد کے نام سے کوئی مسجد نہیں ہے۔ مسلمانوں نے کئی بار کوشش کی کہ لکھنؤ میں ایک بڑی جامع مسجد تعمیر کی جائے۔ اس تحریک میں مولانا علی میاں جیسے ممتاز لوگ بھی شریک تھے مگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔
دسمبر ۱۹۹۲ سے پہلے جب کہ لکھنؤ کے قریب واقع بابری مسجد کا ہنگامہ جاری تھا اور حالات غیریقینی صورت اختیار کئے ہوئے تھے۔ اس وقت یوپی کے چیف منسٹر اور دوسرے ہندو لیڈروں نے یہ پیش کش کی کہ اگر مسلمان بابری مسجد کے ری لوکیشن (relocation) پر راضی ہوجائیں تو ہم ان کے لیے موجودہ مسجد سے بہت زیادہ بڑی مسجد دوسری جگہ پر بنادیں گے۔ اور اس سلسلہ میں ان کا بھر پور تعاون کریں گے۔ اس وقت بعض اعتدال پسند افراد نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کریں کہ وہ لکھنؤ میں ایک بڑی جامع مسجد اور اسلامک سنٹر تعمیر کرلیں۔ مگر اس وقت مسلم رہنما اتنے جوش میں تھے کہ انھوں نے اس قسم کی تجویز پر سوچنے سے انکار کردیا۔
اب جیسا کہ معلوم ہے، ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کے بعد حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ ۶ دسمبر سے یہاں اس معاملہ پر یہ انگریزی قول صادق آتا تھا —لوہے پر ہتھوڑا اس وقت مارو جب کہ وہ گرم ہو:
Strike the iron when it is hot
میں نے بابری مسجد کو ۱۹۴۷ سے پہلے اس وقت بھی دیکھا ہے جب کہ وہ ایک بھاری بھرکم سنگی تعمیر کی صورت میں کھڑی تھی اور ۱۹۹۲ کے بعد بھی دیکھا ہے جب کہ وہ ایک عارضی مندر (make-shift mandir) میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اب وہاں ماضی کا کوئی بھی نشان موجود نہیں۔ چنانچہ دو سال پہلے جب میں ایودھیا گیا تھا تو ایک شخص نے مسلمانوں کے دعوے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت ہے۔ یہاں کا مشہور فارمولا یہ ہے: قبضہ سچا دعویٰ جھوٹا۔
ہماری کیبن میں ایک خاتون اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ یہ بھوپال کی نیلو فر خاں تھیں۔ وہ بھوپال کی ایک رئیس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں اور آج کل گارمنٹ کابزنس کر رہی ہیں۔ ان کواور ان کی والدہ کو ہم نے اپنے یہاں کے چھپے ہوئے دو انگریزی پمفلٹ Spirituality in Islam پڑھنے کے لئے دئے۔ ان کی ماں نے یہ پمفلٹ پورا پڑھ ڈالا۔ مگر نیلو فر خاں نے چند منٹ پمفلٹ کو دیکھا اس کے بعد اس کو الگ رکھ دیا اور پھر انگریزی کی ایک موٹی کتاب نکالی۔ یہ ایک ناول تھا جس کا نام ایڈن تھا۔ وہ اس ناول کو دیر تک پڑھتی رہیں۔ بوڑھی خاتون نے اپنی عمر ۷۵ سال بتائی۔ میں نے کہا کہ میں آپ سے سینئر ہوں اور میر عمر ہجری کلینڈر کے لحاظ سے ۸۰ سال سے زیادہ ہورہی ہے۔ اس پر انھیں تعجب ہوا۔ مذکورہ خاتون کمزور دکھائی دے رہی تھیں۔ مگر میں اللہ کے فضل سے بظاہر بالکل متعدل حالت میں تھا۔ چنانچہ خاتون نے میرے بارے میں کہا کہ آپ کے اوپر عمر کا کوئی اثر نہیں۔ آپ آج بھی پوری طرح مستعد (agile) نظر آتے ہیں۔
خاتون نے میری نقل و حرکت کو دیکھ کر اپنی بیٹی سے کہا—یہ بڑھاپے کی اس عمر میں بھی کتنے پھُرتیلے ہیں:
He is so fragile in this old age.
حدیث میں آتا ہے کہ نظر لگنا برحق ہے (العین حق) نظر لگنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آدمی نے بُری نیت سے ایسا کہا ہو۔ مخلص آدمی کی بھی نظر لگ سکتی ہے۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ کہنے والا جب اس قسم کا کوئی جُملہ کہے تو وہ اس کے ساتھ ماشاء اللہ یا اس مفہوم کا کوئی اور جملہ ضرور شامل کرے۔ بغیر اس اضافہ کے اگر کوئی جملہ بولا جائے تو اُس سے نظر لگنے کا امکان باقی رہے گا۔ نظر اصلاً حاسدانہ جملہ پر لگتی ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اندر سے حاسد نہ ہو اور وہ ایسا جملہ بولے جو بظاہر حاسدانہ ہو تب بھی اس کا امکان رہے گا کہ اُس کی نظر لگ جائے۔
ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ اب مسلمانوں میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ اب ان کے اندر تشدد کا مزاج ختم ہورہا ہے اور اب وہ امن کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بات صحیح ہے مگر اسلامی نقطۂ نظر سے وہ بہت زیادہ اہم نہیں۔ اس لئے کہ اسلام کے نزدیک اُس امن پسندی کی اہمیت ہے جس کو ایک اصولی موقف (principled behaviour) کے طور پر اختیار کیا جائے۔ جو موقف حالات کے دبائو کے تحت پیدا ہو وہ ابن الوقتی (expediency) ہے۔ ایسی روش سے مسلمانوں کو مادی فائدہ تو ہوسکتا ہے مگر اس کی کوئی اسلامی قدر و قیمت نہیں۔ اس معاملہ کی ایک مثال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگ آج کل امن کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر انگریزی ہفت روزہ ریڈینس (۴؍اکتوبر ۲۰۰۳) میں موجودہ امیر جماعت کی ایک تقریر چھپی ہے۔ اس تقریر میں وہ کہتے ہیں کہ انتقامی طرز کی ذہنیت اور بندوق اور تشدد مسلم امت کا کوئی مسئلہ حل کرنے والی نہیں:
He said the revenge type mentality and gun and terror are not going to solve any issue of the Muslim Ummah (P.26)
یہ ایک ادھوری بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پچاس سال سے جماعت اسلامی ان تمام متشددانہ واقعات کو جہاد بتاتی رہی ہے جو مختلف علاقوں کے مسلمان اسلام کے نام پر کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کا نام نہاد میڈیا (بشمول ریڈینس) ان تمام واقعات کی تبریر (justification) میں مشغول رہا ہے۔ اب اگر جماعت اسلامی (یا اس طرح کے دوسرے لوگ) امن کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں یہ اعلان کرنا پڑے گا کہ لمبے مدت سے وہ جس چیز کو جہاد بتاتے رہے وہ جہاد نہیں تھا بلکہ وہ فساد تھا۔ جب تک وہ اپنی پچھلی غلطی کا کھلا اعتراف نہ کریں انہیں امن پسندی کا کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ اس معاملہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کئے بغیر خاموشی سے اپنی پالیسی بدلنا اور امن کی باتیں کرنا قرآن کی اس آیت کا مصداق ہے: یحبون ان یحمدوابما لم یفعلوا۔ یعنی وہ ایسی چیز کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں جس کے وہ مستحق نہیں۔
۲۳ نومبر کو ۲ بجے ہماری گاڑی سیوا گرام ریلوے اسٹیشن پر پہنچی۔ یہاں پلیٹ فارم پر مس کالرا اور ڈاکٹر جوزف موجود تھے۔ مس کالرا میکسکو سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان سے میں نے ان کا پورا نام پوچھا تو انھوں نے ایک کاغذ پر اپنا نام لکھ کردیا جو پوری ایک سطر پر پھیلا ہوا تھا۔
مس کالرا گاندھین فلاسفی کے مطالعہ کے لئے یہاں آئی تھیں۔ ان سے میں نے پوچھا کہ آپ میکسکو سے انڈیا آئی ہیں۔ آپ نے دونوں ملکوں میں کیا فرق دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی فرق صرف زبان کا ہے۔ باقی دوسری چیزوں میں دونوں ملکوں میں کافی یکسانیت نظر آتی ہے۔
سیوا گرام کا ریلوے اسٹیشن ایک چھوٹا ریلوے اسٹیشن ہے مگر وہ کافی خوبصورت اور صاف ستھرا نظر آیا۔ ہر طرف ہریالی اور درخت نظر آرہے تھے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں گاندھی سنٹر کی وجہ سے فارنر کافی آتے ہیں۔ اس بنا پر اس کی حیثیت ایک ٹورسٹ سنٹر جیسی ہوگئی ہے۔ اسٹیشن سے نکل کر ہماری گاڑی آگے روانہ ہوئی تو دوبارہ ایک خوبصورت منظر ہمارے سامنے تھا۔ واردھا ضلع میں سیواگرام واقع ہے۔ یہاں گوپوری کے نام سے ایک خوبصورت گائوں بسایا گیا ہے۔ صاف ستھری سڑکوں کے کنارے، صاف ستھرے مکانات جگہ جگہ نظر آئے۔ مکان کے چاروں طرف کھلی زمینیں تھیں جن میں درخت اور پودے اگے ہوئے تھے۔ اس قسم کا ’’گائوں‘‘ مجھے پہلی بار یہاں دکھائی دیا۔ ہماری گاڑی چلتی ہوئی وہاں پہنچی جہاں وہ ادارہ قائم ہے جس نے اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ اس ادارے کا نام و پتہ یہ ہے:
Institute of Gandhian Studies, Gopuri, 442114 (Wardha)
Tel. 07152-243585, 240315
یہاں مجھے انسٹی ٹیوٹ کے گسٹ ہائوس (کمرہ نمبر ۱۲) میں ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ گسٹ ہائوس میرے ذوق کے عین مطابق تھا۔ وہ نہایت سادہ اور اسی کے ساتھ نہایت صاف ستھرا تھا۔ وہ اس لحاظ سے بنایا گیا تھا کہ ہوا اوردھوپ پوری طرح ملتی رہے۔ اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی سرسبز دنیا اس کی خصوصیت میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ یہاں کسی قسم کا شور نہ تھا۔ البتہ کبھی کبھی چڑیوں کی آواز قدرتی نغمہ کے طور پر سنائی دیتی تھی۔
۲۳ نومبر کی صبح کے سشن میں مشہور سوشل ریفارمر جسٹس چندرشیکھر دھرم ادھکاری (Justice Chandrashekhar S. Dharmadhikari) کا افتتاحی لکچر تھا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں امن اور مذہبی ہم آہنگی کے سوال پر روشنی ڈالی۔
انھوں نے امن کو مذہب کا خلاصہ بتایا۔ تقریر کے بعد اُ ن سے کھانے کی میز پر مزید گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہندوازم امن کا مذہب ہے اور اسلام جہاد کا مذہب۔ مگر یہ تأثر سرتا سر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام مکمل طور پر امن کا مذہب ہے۔ میں نے کہا کہ اسلام کانشانہ یہ ہے کہ لوگ خدا کو پہچانیں۔ لوگوں کے اندر خدا کی معرفت آئے۔ لوگ اس طرح خدا کی عبادت کریں جیسے کہ وہ اُس کو دیکھ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہی اسلام کااصل نشانہ ہے۔ اور اس قسم کا نشانہ صرف فکری اور روحانی کوششوں کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وہ پوری طرح پُر امن جدو جہد کا طالب ہے۔ متشددانہ جدوجہد کا اس نشانہ سے کوئی تعلق نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ متشددانہ طریق کار اس قسم کے ربّانی مقصد کے حصول میں ایک رکاوٹ ہے، وہ کسی بھی درجہ میں اُس کے لیے مفید نہیں۔ اُنہوں نے اس بات کو بہت غور سے سُنا اور اپنی گہری پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اُن کو اسلام کے مزید مطالعہ کے لیے ایک انگریزی کتاب بھی دی گئی۔
۲۳ نومبر کو دوپہر بعد کے سشن میں فلسفہ کے پروفیسر ڈاکٹر ایس اے اپادھیائے کی تقریر تھی۔ وہ ایک معمر آدمی ہیں۔ انھوں نے ہندو فلاسفی کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ ان کی سفید لمبی داڑھی کو دیکھ کر مجھے سرسید کی داڑھی یاد آئی۔ اس قسم کی داڑھی مدن موہن مالویہ کی بھی تھی جو سرسید کے ہم عصر تھے۔ اس پر مشہور مزاحیہ شاعر اکبر الٰہ آبادی نے اپنا یہ شعر کہا تھا:
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
ڈاکٹر موصوف نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں ان کا خلاصہ یہ تھا۔ امن کا راز وحدانیت کے تصور میں ہے۔ میری مراد جذباتی وحدانیت سے ہے نہ کہ جسمانی وحدانیت سے۔ امن صرف اس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے کہ دوسرے کی اقدار کو سمجھا جائے اور اس کو مانا جائے۔
Peace lies in ultimate oneness, emotional oneness not physical oneness. It can be achieved by understanding the values of others.
پروفسیراپادھیائے کا کمرہ میرے کمرہ سے ملا ہوا تھا۔ چنانچہ ان سے کئی بار ملاقات ہوئی۔ ایک ملاقات کے دوران میں نے کہا کہ ہندو مفکرین اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہندو نظریہ کے مطابق، ادوئت واد امن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کیوںکہ اس میں ادوئی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ میں نے کہا کہ ادوئت واد کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور انسان دونوں ایک ہی حقیقت کے مظاہر ہیں۔ مگر ہم جو سماجی امن چاہتے ہیں اس کا تعلق انسان اور انسان کے درمیان اتحاد سے ہے، نہ کہ خدا اور انسان کے درمیان اتحاد سے۔ ادوئت واد کا تصور ایک الٰہیاتی فلسفہ ہے، اس کا انسانوں کے درمیان امن کے قیام سے کوئی تعلق نہیں۔ انسانوں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے ہمیں انسانی مساوات کا نظریہ درکار ہے، نہ کہ انسان اور خدا کے درمیان یگانگت کا نظریہ۔
۲۳ نومبر کی شام کا کھانا یہاں کے گسٹ ہائوس میں کھایا گیا۔ کھانا میرے ذوق کے عین مطابق تھا۔ نہایت سادہ اور نہایت صاف ستھرا۔ روغن اور مسالہ سے بالکل پاک اور قرآنی اصطلاح میں ’طعام واحد‘ کا نمونہ۔ کھانے کے دوران کانفرنس کے شرکاء سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ہندو طریقہ میں کھانا شروع کرتے ہوئے کیا پڑھا جاتا ہے۔ یہ کچھ سنسکرت کے الفاظ تھے جس کا مضمون انھوں نے یہ بتایا:
I am the gastric fire, staying in every human body. I am associated with ingoing and outgoing breath; I digest all the four types of food.
اسلام میں ایسے موقع پر جس چیز کی تلقین کی گئی ہے وہ سادہ طور پر صرف یہ ہے کہ آدمی یہ کہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم اور کھانا ختم کرنے کے بعد کہے: الحمد للّٰہ الذی اطعمنی و سقانی وجعلنی من المسلمین۔
یہاں کے پرسکون ماحول میں رات کو اچھی نیند آئی۔ ۲۴نو مبر کی صبح کو ۵ بجے بستر سے اٹھا اور وضو کرکے فجر کی نماز ادا کی۔ دعا میں یہ الفاظ زبان پر آئے۔ اللہم انت الصاحب فی السفر وانت الخلیفۃ فی الاہل۔
اس کے بعد چہل قدمی کے لئے باہر نکلا۔ چاروں طرف نہایت سرسبز دنیا پھیلی ہوئی تھی۔ سکون کا ماحول تھا جس میں کبھی کبھی صرف چڑیوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ اس پر فضا اور پر سکون ماحول میں ایک گھنٹہ سے زیادہ دیر تک ٹہلتا رہا۔ میرے لئے اس قسم کی چہل قدمی بیک وقت دو چیزوں کا سبب ہوتی ہے۔ جسمانی ورزش اور روحانی انسپریشن۔ فطرت پر غور کرتے ہوئے میرے ذہن میں کائنات کا وہ پورا نقشہ آگیا جو فلکیاتی سائنس نے دریافت کیا ہے۔ سرسبز زمین کا استثنائی کرہ، سورج کے گرد سیاروں کی گردش کا ایک حیرت انگیز نظام، اس شمسی نظام کی وسیع تر کہکشاں میں گردش، پھر ایک بلین کہکشائوں کا لا تعداد ستاروں کے ساتھ وسیع خلا میں گردش کرنا۔ اس قسم کی باتیں سوچتے ہوئے میری زبان سے نکلا—خدایا تو کتنا عظیم ہے۔ خدایا تو اپنی بے پایاں قدرت سے میری نصرت فرما۔
صبح کے وقت جب میں انسٹی ٹیوٹ کے وسیع کیمپس میں ٹہل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ تھوڑی دیر کے بعد اور بھی کچھ لوگ نکل کر باہر آئے اور وہاں ٹہلنے لگے۔ مگر ہر ایک مکمل طور پر خاموش تھا۔ ہر ایک میرے پاس سے خاموشی کے ساتھ گزرتا رہا۔ یہی صبح کی چہل قدمی کا صحیح طریقہ ہے۔ صبح کی چہل قدمی کا لازمی جزء خاموشی ہے۔خاموشی کوئی سادہ چیز نہیں۔ مومن کے لیے خاموشی خدا سے ہم کلام ہونے کا لمحہ ہے۔ (یناجی ربہ) فطرت کے مناظر کے ماحول میں آدمی پر یہی لمحات گذرنے چاہئیں۔ ایسے ماحول میں اگر آپ دوسرے لوگوں سے بات کرتے رہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ خدا کی دنیا میں پہنچ کر بھی خدا سے قریب نہ ہوسکے، آپ اب بھی انسانوں ہی سے جڑے ہوئے ہیں، آپ اب بھی انسانوں میں جی رہے ہیں۔ آپ خدا میں جینے والے نہیں بنے۔
۲۳ نومبر کے ٹائمس آف انڈیا (بمبئی ایڈیشن) میں اس کے پہلے صفحہ پر ایک نمایاں تصویر چھپی ہوئی تھی۔ تصویر میں دکھائی دے رہا تھا کہ ادھیڑ عمر کی ایک برقعہ پوش عورت نے قرآن کی تلاوت کی اور پھر اس کو بند کرکے دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے لگی۔ اس کے پاس بیٹھا ہوا تقریباً چار سال کا ایک بچہ مخصوص انداز میں اس کو دیکھ رہا ہے۔اس تصویر کے نیچے یہ کیپشن درج تھا:
A child watches his aunt pray during the Ramazan fast at powai on Sunday.
اس قسم کی تصویریں مثلاً قوالی کی محفلیں، عید میلاد النبی کا جلوس،تعزیہ کا جلوس وغیرہ اکثر میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ قرآن یا دعا کی اسپرٹ کبھی میڈیا میںنہیں آتی۔ البتہ کچھ ظاہری چیزیں ضرور اُس میں بار بار نمایاں ہوتی رہتی ہیں۔ ایسا کیوں۔ اس پر غور کرتے ہوئے ایک بات سمجھ میں آئی۔ موجودہ زمانہ ایک اعتبار سے کیمرہ کا زمانہ ہے۔ کیمرہ اور رنگین چھپائی نے صحافت میں ایک نئی کشش پیدا کردی ہے۔ ہر اخبار کا حسن اسی کیمرہ اور رنگین چھپائی پر منحصر ہے۔ مگر کیمرہ ایک ایسا آلہ ہے جو داخلی اسپرٹ کی تصویر کشی نہیں کرسکتا۔ وہ صرف ظاہری چیزوں ہی کی تصویر کشی کرسکتا ہے۔ اس بنا پر عملاً یہ ہوا ہے کہ اسلام کاکلچرل پہلو ہر طرف نمایاں ہورہا ہے۔ اور اسلام کا معنوی پہلو کہیں بھی نمایاں نہیں کیا جارہا ہے۔ حالاںکہ اسلام کے کلچرل پہلو کی اہمیت صرف اضافی ہے اور اس کے معنوی پہلو کی اہمیت حقیقی۔ اس کا نتیجہ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ہوا ہے کہ لوگوں کی نظر میں اسلامی زندگی کا خارجی یا ظاہری پہلو اہم بن گیا ہے اور اسلام کا داخلی پہلو عملاً غیر اہم ہوکر رہ گیا ہے۔
یہی معاملہ موجودہ زمانہ میں مسلم اداروں کا بھی ہوا ہے۔ جس ادارہ یا جماعت کے پاس ایسے درودیوار ہوں جو کیمرہ کی نگاہ میں آسکتے ہوں تو ایسے ادارے اپنی تصویروں کے ذریعہ لوگوں کو اہم معلوم ہونے لگتے ہیں اور جن اداروں کے پاس کیمرہ کی پکڑ میں آنے والی شاندار بلڈنگیں نہیں ہیں وہ عوام کی توجہ کا مرکز نہیں بنتے، خواہ وہاں حقیقت کے اعتبار سے کتنا ہی زیادہ بڑا کام ہورہا ہو۔
ایک پروفیسر صاحب اسٹیج پر آئے۔ انھوں نے انگریزی میں ایک خوبصورت تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ سچائی کو پانے کے لئے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ناقابل مفاہمت سنجیدگی (uncompromising sincerity) ہے۔ لوگ عام طور پر یہ کرتے ہیں کہ وہ کہیں نہ کہیں دوسری چیزوں سے مفاہمت کرتے ہیں۔ اس لئے وہ سچائی کو دریافت کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
مگر اس خوبصورت تقریر کے بعد جب وہ کھانے کی میز پر آئے تو یہاں بالکل برعکس منظر تھا۔ کھانے کی میز پر کئی تعلیم یافتہ لوگ اکھٹا تھے۔ مگر میں نے دیکھا کہ مذکورہ پروفیسر اور ان کی بیوی نے کسی اور کوبولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ یہ دونوں بلند آواز سے بولتے اور بات بات پر قہقہہ لگاتے۔ کھانے کی میز ان دونوں کی وجہ سے شور کی میز بن گئی۔ مزید یہ کہ ان کی باتوں کا موضوع کوئی علمی بات نہ تھی بلکہ وہ بالکل سرسری قسم کی باتیں تھیں۔ مثلاً ایک سفر میں جب یہ شوہر اور بیوی ریلوے اسٹیشن پر آئے تو وہ غلطی سے دوسری گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اس طرح کے مختلف تجربات کو بیان کرکے میاں اور بیوی قہقہہ لگاتے رہے۔ ان کا یہ قہقہہ اس وقت ختم ہوا جب کہ وہ کھانے سے فراغت کے بعد وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے۔ اس منظر کو دیکھ کر مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سمجھ میں آئی۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: انما اخاف علی امتی کل منافق یتکلم بالحکمۃ ویعمل بالجور۔ یعنی مجھے سب سے زیادہ اندیشہ اس منافق انسان سے ہے جو حکمت کی بات کرے مگر اُس کا عمل اُس کے خلاف ہو۔
اس حدیث میں جس انسان کا ذکر کیا گیا ہے وہ انسان مسلمانوں کے اندر بھی پائے جاتے ہیں اور غیر مسلموں کے اندر بھی۔ میرے تجربہ کے مطابق، اس روش کے سب سے بڑے مصداق وہ لوگ ہیں جن کو موجودہ زمانہ میں دانشور (intellectuals) کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں جو ترقیاں ہوئی ہیں اُن میں سے ایک ترقی یہ ہے کہ لوگ خوبصورت الفاظ بولنے کے ماہر بن گئے ہیں۔ ان لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں نہ درد ہوتا ہے اور نہ سنجیدگی۔ مگر وہ ایسی خوبصورت باتیں کرتے ہیں جن کو سننے والے دلچسپی کے ساتھ سنیں، اور نشر کرنے والے دلچسپی کے ساتھ اُن کو نشر کریں۔
ایک پروفیسر صاحب نے امن کی اہمیت پر تقریر کرتے ہوئے ایک عجیب بات کہی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سارے جہان میں امن ہو—آسمان میں امن، جانوروں میں امن، پیڑ پودوں میں امن اور خود امن میں امن:
We want the sky to be peaceful, the animal to be peaceful, the plants to be peaceful. We want even peace to be peaceful.
شاید تقریر کی یہی قسم ہے جس کو تقریر برائے تقریر کہا گیا ہے۔ اُن کی اس تقریر میں الفاظ کی دھوم تو تھی مگر معنوی اعتبار سے اس کا کوئی مفہوم نکالنا مشکل تھا۔
۲۴ نومبر کی صبح کو ناشتہ کی میز پر کئی ہندو اسکالرس سے ملاقات ہوئی۔ ناشتہ حسب معمول نہایت سادہ اور صاف ستھرا تھا۔
ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ مگر جو چیز غیر فطری ہے وہ یہ ہے کہ اختلاف منفی ذہنیت میں تبدیل ہوجائے اور ایک کو دوسرے سے دور کردے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ چھوٹے بچے آپس میں کھیلتے ہیں تو بار بار ان کے درمیان وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو ہم اختلاف (difference) کہتے ہیں۔ مگر اختلاف کے باوجود ان کے باہمی تعلق میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بچے فطرت کے سفیر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اختلاف میں کوئی حرج نہیں۔ حرج کی بات یہ ہے کہ اختلاف آگے بڑھ کر غصہ بن جائے۔ اختلاف اس وقت تک ایک جائز انسانی فعل ہے جب تک وہ صرف اختلاف رہے۔ مگر اس وقت وہ ایک شیطانی فعل بن جاتا ہے جب کہ اختلاف مزید بڑھ کر غصہ اور نفرت کی صورت اختیار کرلے۔
۲۴ نومبر کی صبح کے سشن میں ڈاکٹر نتین ویاس (Nitin Vyas) کا لکچر تھا۔ ان کا تعلق بڑودہ سے تھا۔ انھوں نے بدھ ازم کا فلسفہ بیان کیا۔ ان کی تقریر کا خلاصہ جو میری سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ بدھا کی خاص توجہ انسان کے مصائب (suffering) پر تھی۔ بدھا کا اصل موضوع انسان تھا۔ انھوں نے بتایا کہ بدھا کی توجہ کا مرکز انسان تھا نہ کہ کوئی فوق الفطری وجود:
Buddha’s concern was merely man rather than any kind of supernatural being.
ان کی تقریر میں غور سے سنتا رہا پھر میں نے سوچا کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ گوتم بدھ کو پیغمبر بتاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ گوتم بدھ دراصل ذو الکفل کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ مگر بظاہر یہ نظریہ ناقابل فہم معلوم ہوتا ہے۔ گوتم بدھ کی اہمیت اس اعتبار سے یقینا قابل قدر ہے کہ انھوں نے اخلاقی اقدار (moral values) کو پوری وضاحت اور پوری اہمیت کے ساتھ بیان کیا۔ مگر جہاں تک پیغمبری کی بات ہے وہ کم از کم موجودہ صورت میں ناقابل فہم ہے۔ پیغمبر کی ساری حیثیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کا نمائندہ ہے۔ خدا کے تصور کے بغیر پیغمبر کا تصور ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں گوتم بدھ اگر پیغمبر تھے تو کسی نہ کسی صورت میں ان کے یہاں خدا کا تصور ملنا چاہئے تھا۔ پیغمبر کی صورت میں یہ ناممکن تھا کہ وہ ایک بے خدا مذہب (godless religion) کے بانی بن جائیں۔
موجودہ گاندھین انسٹی ٹیوٹ میں ایک سادہ مگر خوبصورت ہال بنا ہوا ہے۔ وہاں میں پہنچا تو گیٹ کے باہر جوتے اور چپل نہایت ترتیب کے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ اس مقصد کے لئے وہاں کوئی نگراں نہیں تھا۔ آنے والے مرد یا عورت خود ہی اپنے جوتے اتار کر ترتیب کے ساتھ رکھتے اوراندر داخل ہوجاتے۔ سامعین میں بیشتر لوگ نوجوان تھے مگر کہیں بھی شور یا قہقہہ یا زور زور سے بولنے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ حتّٰی کہ ایک صاحب اپنا بچہ لائے تھے جو غالباً چار یا پانچ سال کا تھا۔ اجتماع گاہ میں یہ بچہ اپنے ماں باپ کے ساتھ تھا۔ اندر باہربھی آتا جاتا لیکن اس کی بھی آواز سنائی نہیں دی۔ حقیقت یہ ہے کہ گاندھین انسٹی ٹیوٹ پورا کا پورا سائلنس کلچر (silence culture) کا نمونہ نظر آتا ہے۔ یہاں کے فطری ماحول میں درخت اگر غیر متحرک سکوت کا نمونہ تھے تو یہاں کے مرد اور عورت متحرک سکوت کا نمونہ۔
یہاں کا ہال جس میں اجتماع کی نشستیں ہوئیں اس کی ایک چیز خاص طور پر مجھے پسند آئی۔ اس کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ چاروں طرف سے دھوپ اور ہوا اس میں داخل ہورہی تھی۔ عام دستور یہ ہے کہ ہال میں ائر کنڈیشنر لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس ائر کنڈیشننگ کی قیمت یہ ہوتی ہے کہ ہال کو چاروں طرف سے بند کردیا جاتا ہے۔ یہ ہال اس قسم کے مصنوعی اہتمام سے پاک تھا۔ وہ گویا فطرت کے ماحول میں فطری انداز پر بنا ہوا ایک خوبصورت کھلا ہوا ہال تھا۔ وہ اپنے آپ میں ایک خاموش پیغام تھا۔ یہ پیغام کہ فطرت کے اُسلوب پر زندگی گزارو اور زندگی میں سچا سکون حاصل کرو۔
۲۴ نومبر کو دوپہر سے پہلے کے سشن میں وقفہ کے بعد دوبارہ ڈاکٹر نیتن ویاس کی تقریر جاری رہی۔ تقریر کے دوران انھوں نے ایک بات یہ کہی کہ جین ازم اور بدھ ازم دونوں اہنسا وادی ہیں۔ دونوں پر امن مذہب کی حیثیت رکھتے ہیں:
Jainism & Buddhism both are against violence. Both are peaceful religion.
اس کو سننے کے بعد میں نے غور کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جب بھی امن پسند مذاہب کی فہرست بنائی جاتی ہے تو اس میں اسلام کا نام شامل نہیں کیا جاتا۔ جب کہ اسلام میرے مطالعہ کے مطابق، سب سے بڑا امن پسند مذہب ہے۔
اس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ دوسرے مذہبی نظام عدم تشدد کی تلقین مطلق معنوں میں کرتے ہیں جو غیر فطری ہے اورناممکن ہے۔ جب کہ اسلام بھی عدم تشدد کا مذہب ہے مگر وہ فطری حدود میں عدم تشدد کی بات کرتا ہے، نہ کہ غیر فطری حدود میں جو کہ سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اس بنا پر لوگوں کو ایک قسم کے مذہبی نظام میں مصنوعی خوش نمائی دکھائی دیتی ہے جب کہ دوسرے قسم کے مذہبی نظام میں اُنہیں یہ کہنے کاموقع مل جاتا ہے کہ وہ اگرچہ امن کا پیغام دیتا ہے لیکن اس کا پیغام امن مطلق معنوں میں نہیں ہے۔
حالاںکہ یہ صرف ایک کہنے کی بات ہے۔ کیوں کہ مطلق اہنسا کا نظریہ صرف نظریہ ہے، وہ عملاً قابل اختیار ہی نہیں۔موجودہ دنیا کو انسان نے نہیں بنایا ہے بلکہ اُس کا بنانے والا خدا ہے۔ اس لیے اس دنیا میں وہی اُصول قابلِ عمل ہے جو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق ہو۔ جو اُصول تخلیقی نقشہ سے مطابقت نہ کرے وہ موجودہ دنیا میں قابلِ عمل ہی نہیں۔ اس لیے وہ درست بھی نہیں۔
یہ نظریہ دراصل ماقبل سائنس دور (pre-scientific era) کی پیداوار ہے۔ پچھلے زمانہ میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ زندگی صرف انسان اور حیوان میں ہوتی ہے۔ اس لیے اُس نے مذکورہ نظریہ بنالیا۔ اب سائنس نے بتایا ہے کہ زندگی ہر چیز میں ہے۔ پانی، دودھ، سبزی، پھل، یہاں تک کہ ہوا میں بھی ناقابلِ مشاہدہ زندگی موجود ہے۔ کوئی آدمی جب بھی ان چیزوں کا استعمال کرتا ہے تو وہ بہت سی زندگیوں کو ہلاک کرتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص موجودہ دنیا میں زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ ایسی حالت میں مطلق اہنسا کا نظریہ مان کر کوئی شخص اپنے آپ کو زندگی سے محروم تو کرسکتا ہے مگر وہ اس دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اسلام کا نظریہ ہی قابلِ عمل نظریہ ہے۔ کیوںکہ وہ ضرورت کے اُصول پر مبنی ہے۔ مطلق اہنسا کا نظریہ ایک مفروضہ پر مبنی ہے اس لیے وہ قابلِ عمل ہی نہیں۔
۲۴ نومبر کو دوپہر کے کھانے کے بعد حسب معمول کھانا شرکاء کانفرنس کے ساتھ کھایا۔ کھانے کے دوران لوگوں سے مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ ایک صاحب نے مشہور قصہ کو دہراتے ہوئے کہا کہ گرونانک نے مکہ کا سفر کیا تھا اور وہاں کی مسجد میں گئے تھے۔ میںنے کہا کہ یہ قصہ سکھ لوگ ضرور بیان کرتے ہیں مگر مسلم ریکارڈ میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت گرونانک کوئی مشہور شخصیت نہیں بنے تھے اس لئے مسلم تاریخ میں اس کا تذکرہ ہونا ضروری نہیں۔ میں نے کہا کہ مگر دوسرا سوال یہ ہے کہ گرونانک کے اس سفر کا مقصد کیا تھا۔ کیوںکہ سکھ روایات میں بھی ایسا نہیں کہا گیا ہے کہ وہ حج کی ادائیگی کے لئے وہاں گئے تھے۔ اگر یہ مانا جائے کہ وہ حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے وہاں گئے تھے تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان تھے۔ اور اگر اس کو نہ مانا جائے تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان کے اس سفر کا مقصد کیا تھا۔ اگریہ سفر کوئی مذہبی سفر تھا تو اس تجربہ کا ذکر اُن کی لکھی ہوئی کتاب میں ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ ایسا نہیں۔ ایسی حالت میں یہی کہا جائے گا کہ سفر کا یہ قصہ محض ایک افسانہ ہے، نہ کہ کوئی واقعہ۔
۲۴ نومبر کی شام کو جب میں اپنے کمرہ میں تھا تو دو آدمی ملاقات کے لئے آئے۔ ان کے نام یہ تھے: افضال مصطفیٰ خاں (سول انجینئر) محمد اعجاز اعظمی۔ یہ دونوں واردھا میں رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو ٹی وی پر بار بار سنتے رہے ہیں اور آپ کی کچھ تحریریں بھی پڑھی ہیں۔ معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں تو ہم آپ سے ملنے کے لئے آگئے۔ انھوں نے ملت کی زبوں حالی کی بات کی۔ میں نے کہا کہ دوسروں کی شکایت کرنے سے کچھ فائدہ نہیں۔ آپ یہ فیصلہ کیجئے کہ خود آپ کو اس سلسلہ میں کیا کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ کام کا ایک طریقہ وہ ہے جس میں بہت جلد بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے۔ بظاہر دیکھنے میں وہ بڑا کام نظر آتا ہے مگر اس طرح کے کام کی کوئی اہمیت نہیں۔ مؤثر اور نتیجہ خیز کام صرف یہ ہے کہ فرد فرد کو خطاب کیا جائے۔ فرد فرد کے اندر ذہنی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح آدمی کا ذہن بنتا ہے۔ اور پھر جب زیادہ لوگوں کے ذہن بن جاتے ہیں تو وہ سماج بنتا ہے جس کو صالح سماج کہا جاتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس طرح کام کرنے میں تو بہت زیادہ دیر لگے گی۔ میں نے کہا کہ آپ جس عوامی طریقِ کار کو کام سمجھتے ہیں وہ تو کئی نسل سے مسلمانوں کے اندر جاری ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آج بھی آپ جیسے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ابھی کام کی ضرورت ہے۔ اگر عوامی طریقِ کار صحیح طریق کار ہوتا تو اب اس کا نتیجہ سامنے آجانا چاہیے تھا۔ مگر جب کہ ابھی بھی بے شمار ہنگاموں کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ دکھائی نہیں دیتا تو یہ مانناہوگا کہ جو کام کیا گیا وہ سِرے سے کام ہی نہ تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ آپ کے بارہ میں لوگ کہتے ہیں کہ آپ مسلم دشمن طاقتوں کے آلۂ کار ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اس الزام کا ثبوت کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ لوگ بتاتے ہیں کہ آپ اُن لوگوں کے جلسوں میں جاتے ہیں۔ اُن کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں۔ حالاںکہ مسلم دشمن طاقتوں سے ہم کو دور رہنا چاہئے۔
میں نے کہا کہ یہ الزام صرف غلط فہمی پر قائم ہے۔ چوںکہ موجودہ مسلمانوں میں دعوتی ذہن نہیں، وہ صرف قومی ذہن کے تحت سوچنا جانتے ہیں۔ اس لیے وہ ہمارے مِشن کو سمجھ نہیں پاتے۔ اصل یہ ہے کہ ہمارا مِشن دعوت الی اللہ کا مِشن ہے۔ ہم خدا کے پیغام کو خدا کے بندوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ’’مسلم وار تحریک‘‘ کے ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ مسلم وار تحریک کے ذریعہ مسلمانوں کی اصلاح کا کام ہوسکتا ہے، نہ کہ غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا کام۔
داعی ہر ایک کو انسان کی صورت میں دیکھتا ہے۔ وہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ انسانوں کو دوست اور دشمن کے الگ الگ خانوں میں تقسیم کرے۔ وہ کچھ لوگوں کو بطور خود مسلم دوست بتاکر اُن سے قریب ہو اور کچھ لوگوں کو بطور خود مسلم دشمن قرار دے کر اُن سے دور ہوجائے۔ چوںکہ موجودہ مسلمانوں کا ذہن دعوتی ذہن نہیں ہے اس لیے وہ مسلم وار تحریک کی اہمیت کو فوراً سمجھ لیتے ہیں۔ اگر اُن کے اندر دعوتی ذہن ہوتا تو وہ جان لیتے کہ اس مقصد کے لیے ہمیں ہندو وار تحریک، کرشچین وار تحریک، حتّٰی کہ یہودوار تحریک چلانا چاہیے۔ ہم نے اپنے مِشن کے تحت اسلام پر تعارفی لٹریچر بڑی تعداد میں چھاپا ہے۔ ہم اس لٹریچر کو غیر مسلموں تک پہنچانے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔ اس دعوتی کوشش کا ایک جزء یہ ہے کہ جب دوسرے مذہب کے لوگ کوئی پروگرام کرتے ہیں اور مجھ کو بلاتے ہیں تو میں وہاں جاتا ہوں اور موضوع کی نسبت سے وہاں اسلام کا تعارف پیش کرتا ہوں۔
یہاں میں نے جو تقریر کی ہے اُس کا ٹیپ موجود ہے۔ آپ اُس کو سنیے اور دیکھئے کہ میں نے یہاں کیا کہا ہے۔ حالاںکہ آپ جانتے ہیں کہ یہاں کے اجتماع میں سارے غیر مسلم لوگ تھے۔
ایک ہندو خاتون جو کانفرنس میں شریک تھیں انھوں نے کہا کہ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے۔ ان کا نام کوکِلّا اپادھیائے تھا۔ وہ پروفیسر ایس اے اپادھیائے کی بیوی تھیں۔ وہ بمبئی سے آئی تھیں (Tel. 23803811)
۲۴ نومبر کی شام کو وہ میرے کمرے میں آئیں۔ میں نے وضو کیا اور ان کے سامنے دو رکعت نماز بلند آواز سے پڑھی۔ وہ بہت غور سے اس کو دیکھتی رہیں اور اس سے کافی متاثر ہوئیں۔ انھوں نے اسلام پر کتابیں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ ان کوہمارے یہاں کی چھپی ہوئی چند انگریزی کتابیں دی گئیں۔ اسی طرح اور بھی کئی لوگوں کو کتابیں دی گئیں۔ مثلاً ڈاکٹر نتین ویاس جو بڑودہ یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ آف فلاسفی کے ہیڈ ہیں۔
۲۴ نومبر کی شام کو ڈاکٹر مودی سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی۔ وہ اس گاندھیائی ادارہ کے ڈائرکٹر ہیں۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ وہ گاندھی روایات کے مطابق، خود اپنے کاتے ہوئے سوت کا کپڑا پہنتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ روزانہ صبح کو ایک گھنٹہ سوت کاتنے کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح ایک مہینہ کے کاتے ہوئے اس سوت سے ان کا ایک جوڑا کپڑا (کرتا اور پاجامہ) تیار ہوجاتا ہے۔ انھوں نے اپنا ماڈرن طرز کا چرخا بھی دکھایا۔ وہ اپنا کاتا ہوا سوت کھادی بھنڈار میں دے دیتے ہیں اور وہاں سے انھیں بُنا ہوا کپڑا مل جاتا ہے۔ ڈاکٹر مودی نہایت سادہ زندگی گذارتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اُن کے گھر میں ضرورت کی چیزوں کے سوا کوئی اور چیز موجود نہ تھی۔ اُن کے گھر میں کوئی خادم بھی نہیں تھا۔ وہ اپنا ہر کام خود کرتے تھے۔ اُن کے بولنے کا انداز نرمی اور تواضع سے بھرا ہوا تھا۔ بڑائی کا کوئی احساس میں نے ان کے اندر نہیں پایا۔ اُن کے بیان کے مطابق، یہ گاندھیائی تعلیم کا نتیجہ تھا۔
مجھ کو نماز پڑھتے دیکھ کر ایک ہندو نے کہا کہ آپ لوگ مکہ مدینہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان چوںکہ اپنی عبادت کا مرکز مکہ مدینہ بنائے ہوئے ہیں، اس لئے ان کی وفاداری بھی مکہ مدینہ سے جڑی ہوئی ہے اور ان کے اندر حب الوطنی کا جذبہ صحیح معنوں میں پیدا نہیں ہونے پاتا۔ میں نے کہا کہ نماز کا قبلہ مکہ مدینہ یا عرب کا ملک نہیں ہے بلکہ کعبہ ہے جو کہ ایک اسٹرکچر ہے، نہ کہ جغرافی خطّہ۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہندستانی جغرافیہ کے بجائے عرب کے جغرافیہ کو اپنا قبلہ بنائے ہوئے ہیں۔ مگر یہ سرے سے جغرافی مسئلہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم نے چار ہزار سال پہلے پتھر کی ایک مسجد بنائی تھی جس کو کعبہ کہا جاتا ہے جو اب تک وہاں موجود ہے۔ یہی قدیم سنگی اسٹرکچر، نہ کہ کوئی جغرافی خطہ، مسلمانوں کا عبادتی قبلہ ہے۔
میں نے کہا کہ وفاداری ایک الگ چیز ہے اور عبادت اُس سے الگ دوسری چیز۔ وفاداری کا تعلق وطن سے ہوتا ہے اور عبادت کا تعلق خدا سے۔ وطن اور خدا دونوں ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں۔ بلکہ دونوں دو مختلف موضوع سے تعلق رکھتے ہیں۔ وطن وہ زمینی خطہ ہے جہاں کوئی شخص پیدا ہو اور وہاں زندگی گذارے۔ وطن سے محبت کا تعلق مذہب سے نہیںہے۔ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے جو ہر انسان کے اندر اپنے وطن کے لیے ہوتا ہے۔ ہندستان کے ہندو ہندستان سے وطنی محبت رکھتے ہیں مگر جن ہندوئوں کا تعلق دوسرے ملکوں سے ہے اُن کے دلو ںمیں ان دوسرے ملکوں کے لیے وطنی محبت پائی جاتی ہے۔ یہ ایک انسانی فطرت کا معاملہ ہے، اور اس معاملہ میں ہندو اور مسلمان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
عبادت خدا سے تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ خدا سے تعلق ایک برتر انسانی جذبہ ہے۔ اُس کا تعلق کسی ملک یا کسی زمینی خطہ سے نہیں۔ حتّٰی کہ ایک شخص چاند یا مریخ پر ہو تو وہاں بھی اُس کو خدا کی یاد آئے گی اور وہاں بھی وہ خدا کے آگے اپنا سر جھکانے کو اپنا مقدس فرض سمجھے گا۔ خدا نہ صرف کسی ملک سے بلکہ ساری زمین اور پوری کائنات سے بُلند ہے۔ کعبہ سے مسلمانوں کا جو تعلق ہے وہ الگ نوعیت کا ایک تعلق ہے، وطنی وفاداری سے اُس کو مشابہت نہیں دی جاسکتی۔
مشہور صحافی مسٹر خوشونت سنگھ ہندستان ٹائمس میں اپنا ایک ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ یہ بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ ہندستان ٹائمس کے شمارہ ۲۲ نومبر ۲۰۰۳ میں ان کا کالم اس عنوان کے ساتھ تھا:
Death as a house guest
اس میں انھوں نے بتایا تھا کہ ایک بار مشہور لیڈر مسٹر وی پی سنگھ ان کے گھر پر تھے۔ خوشونت سنگھ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ خدا میں عقیدہ رکھتے ہیں (Do you believe in God) انھوں نے جواب دیا کہ نہیں (I do not) مسٹر خوشونت سنگھ نے کہا کہ پھر آپ گڈ لک چارم (good luck charm) کے طور پر یہ انگوٹھی کیوں پہنے ہوئے ہیں۔ یہ تو وہی لوگ پہنتے ہیں جو اوپر والی طاقت کو مانتے ہیں۔ مسٹر وی پی سنگھ نے کہا کہ وہ تو میرے لڑکے نے دیا تھا اس لئے میں نے پہن لیا۔
میں نے اس واقعہ پر غور کیا تو مجھے یاد آیا کہ بہت سے لوگ جو خدا کے وجود کا اعتراف نہیں کرتے مگر وہ کسی نہ کسی طور پر ایسا عمل کرتے ہیں جس سے وہ امید رکھتے ہیں کہ انھیں کامیابی حاصل ہوگی۔ اصل یہ ہے کہ خدا کے انکار کے باوجود انسان مستقل طور پر احساس عجز (helplessness) کا شکار رہتا ہے۔ اسی احساس عجز کی تلافی کے لئے وہ اس قسم کی چیزیں کرنے لگتا ہے جس کا ایک نمونہ مذکورہ واقعہ میں دکھائی دیتا ہے۔
جہاں تک مذکورہ قسم کی انگوٹھی کا تعلق ہے، وہ صرف توہم پرستی (superstition) کا ایک معاملہ ہے۔ جولوگ خدا کو نہیں مانتے وہ خدا کے بدل کے طور پر کسی نہ کسی قسم کی توہم پرستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے عجز کی تلافی کے لیے توہم پرستانہ عقائد کا سہارا لے لیتے ہیں۔ خدا کا انکار کرکے وہ کسی غیر خدا کو اپنا خدا بنالیتے ہیں۔ یہی خدا کو نہ ماننے والوں کی عام حالت ہے۔
ایک تعلیم یافتہ مسلمان جو واردھا میں رہتے ہیں ملنے کے لئے آئے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے مختلف باتیں کیں۔ ایک بات یہ تھی کہ آج کل کے بچے بہت ہوشیار ہوتے ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ میرا چھ سال کا لڑکا شام کو بائیسکل لے کر نکلا۔ اندھیرا شروع ہوچکا تھا اس لئے میں نے بچے سے کہا کہ دیکھو سنبھال کر بائیسکل چلانا۔ کوئی ساتھ چلنے کے لئے کہے تو اس کے ساتھ مت چلے جانا۔ بچے نے جواب دیا کہ میں کوئی پاگل ہوں۔ وہ کوئی میرا دوست ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمھارے ہی دماغ کا اسکرو ڈھیلا ہوگیا ہے۔
یہ واقعہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ آج کل کے زمانہ میں کس طرح بڑوں کی عزت کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ چھ سال کے بچے نے جس انداز میں اپنے باپ کا جواب دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی نسل میں جو کلچر فروغ پارہا ہے وہ آزادی کے نام پر انارکی کا کلچر ہے۔
مذکورہ صاحب نے جب اپنے بیٹے کے بارہ میں یہ بات بتائی تو اُن کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے، نہ کہ درد کے آثار۔ گویا اُنہیں اس پر فخر تھا کہ میرا بیٹا اتنا زیادہ بولڈ ہے۔ موجودہ زمانہ کے ماں اور باپ اپنے بیٹے کی محبت میں اتنا زیادہ گرفتار ہوچکے ہیں کہ اُنہیں اپنے بیٹے کی ہر بات اچھی لگتی ہے۔ حالاںکہ اگر یہی بات ان کے بیٹے کے سوا کوئی اور کہے تو وہ فوراً غصہ ہوکر اُس سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ میرے نزدیک یہ بیٹے کی محبت نہیں ہے بلکہ وہ بیٹے کے ساتھ دشمنی ہے۔ یہ بیٹے کے مزاج کو بگاڑنا ہے۔ ظاہر ہے کہ بچہ جب بڑا ہوکر باہر کی دنیا میں جائے گا تو کوئی دوسرا شخص اُس کی اس قسم کی باتوںکو برداشت نہیں کرسکتا۔ اُس وقت اُس کو یا تو منافق بننا پڑے گا یا وہ لوگوں سے لڑبھڑ کر اپنے آپ کو تباہ کرلے گا۔
یہاں مختلف مقامات کے اسکالرس اور پروفیسرس آئے تھے۔ ان کی باتیں کانفرنس کے اجلاس میں سننے کو ملیں۔ تاہم ذاتی گفتگو کا موقع زیادہ تر کھانے اور چائے کی میز پر ہوتا تھا۔ مگر میرے جیسے آدمی کے لئے کسی گفتگو کو نتیجہ تک پہنچانا بہت مشکل تھا۔ اس لئے کہ یہ لوگ بار بار فرضی مثالوں کی زبان میں بات کرتے تھے۔ جب کہ میرے نزدیک فرضی مثال سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔ مثلاً دو ہندو پروفیسر سے میں نے کہا کہ عام طور پر ہندو اسکالرس کا کہنا ہے کہ ہندوازم ایک ابدی تلاش کا نام ہے۔ اس میں کوئی فل اسٹاپ نہیں۔ اس میں بس کاما ہی کاما ہے۔ میں نے پوچھا کہ ہر تلاش کی ایک منزل ہوتی ہے۔ پھر ہندوازم کی تلاش کی منزل کیوں اب تک نہیں آئی۔ جب کہ بتایا جاتا ہے کہ ہندوازم دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے۔ حتّٰی کہ ان کے مطابق ، نامعلوم مدت سے یہ تلاش جاری ہے۔ سچائی یقین چاہتی ہے اور یقین منزل کے بغیر کبھی نہیں آتا۔
انھوں نے اس کا جواب تمثیل کی زبان میں دیا۔ انھوں نے کہا کہ چڑیا آسمان میں اڑتی ہے۔ مگر وہ کبھی آسمان کی حد تک نہیں پہنچتی۔ وہ جس دائرہ میں اڑرہی ہے وہی گویا اس کی منزل ہے۔ یہ جواب بالکل غیر متعلق (irrelevant) ہے۔ اس لئے کہ میرا سوال فکر کے سفر کے بارے میں تھا۔ اور فکر کا سفر بلاروک جاری رہنے کی طاقت رکھتا ہے۔ جب کہ انھوں نے چڑیا کی مثال دی جو جسمانی سفر کی ایک مثال ہے۔ جسمانی سفر بلاشبہ محدود دائرہ میں جاری ہوتا ہے۔ مگر فکری سفر کا معاملہ اس سے مختلف ہے، وہ سارے کاماسے گزر کر فل اسٹاپ تک پہنچ سکتا ہے۔
۲۴ نومبر ۲۰۰۳ کا دن اسلام کے لئے خاص تھا۔ اس میں میں واحد اسپیکر تھا۔ پروگرام کی ترتیب اس طرح بنائی گئی کہ دوپہر سے پہلے کے سیشن میں میں نے اسلام پر ایک تعارفی تقریر کی جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ دوپہر بعد کا سشن سوال و جواب کے لئے رکھا گیا تھا۔ حاضرین کی طرف سے اسلام پر مختلف قسم کے سوالات کئے گئے جن کے میں نے جواب دئے۔
اپنی تقریر میں میں نے پہلے قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کا سادہ تعارف پیش کیا۔ اس کے بعد یہ بتایا کہ فنڈمنٹلزم وہی چیز ہے جس کو قرآن و حدیث میں غلو کہا گیا ہے۔ اور غلو (extremism) کو اسلام میں ہلاکت خیز برائی بتایا گیا ہے۔ اس کے بعد میں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اسلام کے مطابق، پر امن سماج بنانے کا فارمولا کیاہے۔
سوال و جواب کے سشن میں لوگوں نے کافی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا۔ بہت سے سوالات کئے گئے جن کا میں نے جواب دیا۔
ایک سوال یہ تھا کہ میڈیا کے مطابق، اسلامی مدرسوں میں ٹررزم کی تعلیم دی جاتی ہے اور وہاں ٹررسٹ تیار کئے جاتے ہیں۔ میں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں خودمدرسہ کاایک پروڈکٹ ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مدرسہ کا کوئی تعلق ٹررزم سے نہیں ہے۔ کم از کم انڈیا میں مجھے کوئی ایسا مدرسہ معلوم نہیں جہاں مدرسہ کے نظام کے تحت ٹررزم کی تعلیم دی جاتی ہو۔ مدرسہ میں کیسے لوگ تیار کئے جاتے ہیں، اس کا اندازہ مجھ کو دیکھ کر آپ کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ صرف مذہبی تعلیم کے لئے ہے۔ وہاں کے نصاب یا وہاں کے نظام کا کوئی بھی تعلق اس چیز سے نہیں جس کو آج کل ٹررزم کہا جاتا ہے۔
ایک نوجوان نے کہا کہ ہم نے کتاب میں پڑھا ہے کہ اسلام کے پیغمبر نے خود حملہ کیا اور لڑائی کی پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ایک امن پسند انسان تھے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ بات کس کتاب میں پڑھی ہے۔ وہ کسی کتاب کا نام نہ بتاسکے۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات واقعہ کے خلاف ہے۔ پیغمبر اسلام نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ خود کسی کے اوپر حملہ کریں۔ ان کی پالیسی ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ اگر فریق ثانی کی طرف سے جارحیت ہو تو اپنے بچائو کے لئے جنگ کی جاسکتی ہے۔ آپ نے دفاعی جنگ بھی اس وقت کی جب کہ اس کے سوا کوئی اور صورت باقی نہیں رہی تھی۔ مگر جہاں تک خود اپنی طرف سے حملہ کرنے کی بات ہے تو پیغمبر نے نہ ایسا کبھی کیا اور نہ انہوں نے اس کی تعلیم دی۔
میں نے اپنی تقریر میں آغازِ اسلام کی مختصر تاریخ بتائی۔ پیغمبر اسلام کے مکی دور اور مدنی دور کا تذکرہ کیا۔ قرآن اور حدیث سے متعارف کرنے کی کوشش کی۔ اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ پیش کیا۔ آخر میں میں نے کہا کہ اسلام کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اسلام اورمسلمانوں میں فرق کریں۔ آپ اسلام کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ ایسا ہرگز نہ کریں کہ مسلمان جو کچھ کرتے ہیں اُس کو دیکھ کر سمجھ لیں کہ اسی کا نام اسلام ہے۔
دوپہر بعد کا پروگرام سوال و جواب کے لیے تھا۔ اس میں شرکاء نے اپنے اپنے سوالات اسلام کے بارہ میں پیش کیے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ ایک سوال اور ایک جواب کے اُصول پر سختی سے کار بند ہیں۔ کسی نے بھی میرے جواب کے بعد دوبارہ سوال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان اپنے عقیدہ کے مطابق، ہندوئوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نارمل تعلقات کیسے قائم ہوسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق، ہندو یا دوسرے مذہبی گروہ کافر نہیں ہیں بلکہ وہ انسان ہیں۔ قرآن میں بار بار لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اے انسان، اور ائے انسانو، کے الفاظ آئے ہیں۔ پیغمبر کے اصحاب پیغمبر کی وفات کے بعد عرب کے باہر ایشیاء اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ ہرجگہ اُنھوں نے یہ کیا کہ وہاں کے باشندے خود اپنے آپ کو جو نام دیے ہوئے تھے وہی نام اصحابِ پیغمبر نے بھی اُنہیں دیا۔ مثلاً مسیحی کو مسیحی، یہود کو یہود، رومی کو رومی، مجوس کو مجوس، بدھسٹ (بوذا) کو بدھسٹ، وغیرہ۔
یہی اس معاملہ میں اسلام کا طریقہ ہے۔ ہندستان میں مختلف مذہبوں کے ماننے والے لوگ بستے ہیں۔ اسلام کے مطابق، مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہرگروہ کو اُسی نام سے پکاریں جو اُن کا اپنا اختیار کردہ نام ہے۔ مثلاً ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی، جینی، وغیرہ۔ مسلمانوں کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ ان گروہوں کو کافر کے لفظ سے پکاریں۔ یہی اس معاملہ میں اسلام کی تعلیم ہے۔
گاندھیائی سینٹر میں میری تقریر کے بعد جو سوالات ہوئے وہ زیادہ تر اسی قسم کے سوالات تھے جو دوسرے غیر مسلم اجتماعات میں کئے جاتے ہیں۔ مثلاً بابری مسجد، برقعہ، مدرسوں میں عسکری تربیت وغیرہ۔ اسی قسم کا تجربہ مجھے مسلمانوں کے اجتماعات میں بھی ہوا۔ مسلمانوں کے اجتماع میں جب میں تقریر کرتا ہوں اور اس کے بعد سوال کا وقفہ دیا جاتا ہے تو وہاں بھی زیادہ تر ایک ہی قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں۔ مثلاً بابری مسجد، فرقہ وارانہ فساد، بندے ماترم، مسلم پرسنل لا وغیرہ۔ میں نے سوچا کہ آخر لوگ یکساں قسم کے سوالات کیوں کرتے ہیں۔ میری سمجھ میں آیا کہ اس کا راز اخبارات ہیں۔ مسلمان اور غیر مسلم دونوں اخباروں کے ذریعہ اپنی رائے بناتے ہیں۔ اخباروں میں عام طور پر جو باتیں آتی رہتی ہیں وہی باتیں ان کے ذہن میں ہوتی ہیں اور انہی کے بارے میں وہ سوال کرتے ہیں۔ یہ طریقہ ذہنی ارتقاء کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
۲۵ نومبر کو دوپہر سے پہلے کے سشن میں ڈاکٹر ہمنت شاہ (Hemant Shah) کا لکچر تھا۔ انھوں نے جین ازم کے فلسفہ پر اپنا لکچر دیا۔ ان کے لکچر میں تقریر کم تھی اور معلومات زیادہ۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جین ازم کے مطابق، واحد مطلق علم یہ ہے کہ کوئی علم مطلق نہیں۔
According to Jainism, only absolute knowledge is that no knowledge is absolute.
سامی مذاہب کے فلاسفر اکثر ایسی ہی بات کرتے ہیں۔ یہ بات کہنے میں تو بہت اچھی ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ خوبصورت الفاظ کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ مذہب سچائی کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ تلاش صرف تلاش ہے تو ایسے مذہب یا ایسے فلسفۂ تلاش کی کیا ضرورت۔ پھر تو زیادہ بہتر یہ ہے کہ انسان کو چشمہ میں بہتے ہوئے تنکے کی طرح چھوڑ دیا جائے اور سرے سے یہ سوچا ہی نہ جائے کہ اس تنکے کی کوئی منزل ہے یا کوئی منزل ہی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی تلاش حق خود تلاش حق کی نفی ہے۔ کیوںکہ انسان سب سے زیادہ جس چیز کو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ میرے لئے سچائی کیا ہے۔ جب انسان اس سب سے زیادہ مطلوب بات کو نہ جان سکے تو خود انسانی وجود عملاً بے معنیٰ ہوجاتا ہے۔ پھر یہ بات ناقابل فہم بن جاتی ہے کہ دنیا میں انسان کے لئے مادی غذا تو بھرپور طور پر موجودہو مگر اس کی فکری اور روحانی غذا موجود نہ ہو جب کہ فکری اور روحانی غذا ہی انسان کا سب سے بڑا مطلوب ہے۔ انھوں نے ایک اور بات یہ کہی کہ سماج میں سارا جھگڑا اس کا ہے کہ آپ یہ مانیں کہ سچائی صرف آپ کے پاس ہے، دوسرے کے پاس نہیں۔ انھوں نے اس کے بجائے تعدد حقیقت (manyness of reality) کے نظریہ کی وکالت کی۔ انھوں نے کہا کہ جب ہم یہ مان لیں کہ دوسرا بھی برحق ہوسکتا ہے تو پھر جھگڑا کس بات کا ہوگا:
If you say that others may also be right then where is that jhagra.
مگر یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ تعددِ حقیقت پر عقیدہ رکھنے والے خود بھی آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ حتّٰی کہ ایک دوسرے کو گولی مار دیتے ہیں۔ یہ باہمی جھگڑا کورو اور پانڈو سے لے کر آج تک جاری ہے۔ تعدد حقیقت کا کوئی بھی پرچار اس جھگڑے کو ختم نہ کرسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ جھگڑا ہونے یا جھگڑا نہ ہونے کے اسباب دوسرے ہیں۔ تعدد حقیقت یا توحّد حقیقت کے نظریات سے اُس کا کوئی تعلق نہیں۔
۲۵ نومبر کو دوپہر بعد کے سشن میں ڈاکٹر ہیمنت شاہ کی تقریر تھی۔ انھوں نے جین ازم کے نقطۂ نظر سے خطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا وقفہ تھا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں یہ کہا تھا کہ پیس قائم کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز برداشت (restraint) ہے۔ برداشت کرنے والے کو پیس آف مائنڈ ملتا ہے جو کہ جین ازم میں انسانی ترقی کا اعلیٰ درجہ ہے۔
اس سلسلہ میں میں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ برداشت سے پیس حاصل ہوتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کوئی برداشت کیوں کر ے۔ برداشت میں کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ اور انسان چھوڑنے پر اسی وقت راضی ہوتا ہے جب کہ اس کو کوئی اس سے بڑی چیز مل رہی ہو۔ میں نے کہا کہ اسلام میں بھی صبر و برداشت کا اصول ہے۔ اسلام میں اس کا انعام یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے آدمی کو اِٹرنل پیراڈائز بطور انعام ملے گی۔ مگر آپ جس چیز کو انعام بتاتے ہیں وہ صرف پیس آف مائنڈ ہے۔ انسان کا نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ آدمی صرف پیس آف مائنڈ کے نام پر اپنے مادی حقوق کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔ اسلام ضبط (restraint) کی زندگی کا انعام جنت کی اٹرنل ورلڈ کی شکل میں دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں ضبط و تحمل کی تعلیم بھی ہے اور اسی کے ساتھ ضبط و تحمل کا محرک بھی۔ جب کہ دوسرے مذہبی یا غیر مذہبی نظاموں میں یہ ہے کہ وہ ضبط و تحمل کی تلقین تو کرتے ہیں مگر وہ اس کے لیے کوئی محرک (incentive) پیش نہیں کرپاتے۔ اورمحرک کے بغیر صرف تلقین کی عملی طور پر کوئی اہمیت نہیں۔
۲۶ نومبر کو عید الفطر کا دن تھا۔ برادرم انوار اسماعیل خاں کے ساتھ واردھا کی عیدگاہ میں عید کی نماز ادا کی۔ کافی مسلمان اکھٹا تھے۔ دہلی کے برعکس وہاں دھوپ کا موسم تھا۔ لوگوں نے اطمینان کے ساتھ تیز دھوپ کی حالت میں کھلے میدان میں نماز ادا کی اور نماز کے بعد سکون کے ساتھ اپنے گھروں کو چلے گئے۔
امام صاحب نے نماز اور خطبہ کے بعد لائوڈاسپیکر پر دعا کی۔ اس میں دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ الفاظ بھی شامل تھے: اللہم اہلک الکفرۃ والمشرکین (اے خدا، کافروں اور مشرکوں کو ہلاک کردے) پھر اسی دعا میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ خدایا، مسلمانوں اور ہندوئوں کے تعلقات کو بہتر بنا۔ گویا انھوں نے ایک طرف جن غیر مسلموں کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش ظاہر کی انھیں کے بارے میں یہ بددعا بھی کی کہ خدا انہیں ہلاک کردے۔ میں نے سوچا کہ یہ تضاد کیوں۔ میری سمجھ میں آیا کہ لوگ نہ پہلا جملہ کہنے میں زیادہ سنجیدہ ہیں اور نہ دوسرا جملہ کہنے میں۔ اسی بے شعوری کا نتیجہ تھا کہ ان کے کلام میں تضاد پیدا ہوگیا۔
نماز سے پہلے اپنی تقریر میں امام صاحب نے یہ بات کہی کہ واردھا میں نماز سے پہلے عید کی نماز صرف ایک جگہ ہوتی تھی۔ اب کچھ لوگوں نے ایسے حالات پیدا کئے کہ اس سال یہاں چھ جگہ عید کی نماز ہورہی ہے۔ انھوں نے ایسے اختلاف پسندلوگوں کے خلاف کئی ایسی حدیثیں سنائیں جن میں ان لوگوں کے خلاف سخت وعید کا انتباہ دیا گیا تھا۔ پھر امام صاحب نے کہا کہ اگر کچھ لوگوں کو مجھ سے اختلاف تھا تو انھیں چاہئے تھا کہ وہ مجھ سے مل کر معاملہ کی صفائی کریں نہ یہ کہ دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر نئی جماعتیں قائم کریں۔
میں نے سوچا کہ امام صاحب کو جن لوگوں سے شکایت ہوئی ان کے بارے میں تو وہ عمومی جلسہ میں لائوڈاسپیکر پر تقریر کر رہے ہیں اور جن لوگوں کو خود ان کی ذات سے شکایت ہے ان سے وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر ان سے مل کر خاموشی کے ساتھ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ جو لوگ اس طرح کے تضاد میں مبتلا ہوں اُن کی نہ تقریر کا کوئی فائدہ ہے اور نہ تحریر کا۔
اس کانفرنس میں ۲۴ نومبر کا دن اسلام کے لئے خاص کیا گیا تھا۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہوکر میں سیدھے اجتماع گاہ میںپہنچا۔ جسٹس سی ایس دھرم ادھکاری جو گاندھین انسٹی ٹیوٹ کے چئرمین ہیں اور بمبئی میں رہتے ہیں، وہ میری تقریر سننے کے لئے اپنا بمبئی کا پروگرام کینسل کرکے اپنی فیملی کے ساتھ رات کے وقت ناگپور پہنچے اور پھر صبح کے وقت گاندھیائی سینٹر میں آکر پروگرام میں شرکت کی۔ جسٹس ادھیکاری مہاراشٹر کی معروف شخصیت ہیں۔ وہ اپنی سادگی اور انصاف پسندی اور رواداری کے لئے مشہور ہیں۔ اس علاقہ میں عام طور پر اُن کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ سماجی فلاح کے کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ ۱۹۹۳ میں وہ ہماری اُس شانتی یاترا میں شامل تھے جس کا تفصیلی ذکر راقم الحروف کی کتاب اسفار ہند میں آیا ہے۔ یہاں اُن کے ساتھ ان کی بیوی کے علاوہ اُن کا ایک لڑکا بھی تھا۔ میں نے دیکھا کہ اُن کا لڑکا جو غالباً دس سال کی عمر کا ہوگا، وہ بھی جسٹس ادھیکاری کے مزاج میں بالکل ڈھلا ہوا تھا۔
۲۶ نومبر کی شام کو میں ونوبابھاوے کے آشرم (پونار) گیا۔ یہ سیواگرام کے قریب ۱۷ ایکڑ کے رقبہ میں واقع ہے۔ اس آشرم میں زیادہ تر خواتین تھیں جنھوں نے ساری زندگی مجرد رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں مردوں اور عورتوں کا ایک اجتماع ہوا۔اس میں مجھے خطاب کرنے کے لئے کہا گیا۔ میں نے روحانیت اور انسانی خدمت کے موضوع پر تقریباً آدھ گھنٹہ خطاب کیا۔
۲۷ نومبر کی صبح کو میں ڈاکٹر مودی کے ساتھ سیوا گرام گیا۔ یہ مہاتما گاندھی کا قائم کیا ہوا ادارہ ہے جو ۱۰۰ ایکڑ کے رقبہ میں قائم ہے۔ سیواگرام ایک گائوں ہے۔ گوپوری اسی علاقہ میں واقع ہے۔ پہلے یہ سیگائوں (Segaon) کے نام سے ایک چھوٹا گائوں تھا۔ مہاتما گاندھی نے اپنا ایک مثالی گائوں بنانے کے لئے اس کو چنا اور اس کا نام سیواگرام رکھا۔ ۱۹۳۶ میں گاندھی جی سابرمتی آشرم (احمد آباد) کو چھوڑ کر یہاں آگئے۔ سیواگرام کو انہوں نے آزادی ہند کی تحریک کا مرکز قرار دیا۔ یہاں ان کی کُٹی میں دوسرے سامانوں کے ساتھ قدیم انداز کا ایک ٹیلی فون رکھا ہوا ہے جس کے ذریعہ وہ باہر کے لوگوں سے بات کرتے تھے۔ یہاں انھوں نے اپنے تصور کے مطابق، ایک ماڈل کمیونٹی بنانے کی کوشش کی۔ اس ماڈل کمیونٹی کا آدرش سادہ اور بے غرض اور سروس کی زندگی اختیار کرنا تھا۔ اگرچہ اس قسم کے دوسرے منصوبوں کی طرح وہ گاندھی کا تصوراتی گائوں نہ بن سکا۔ مولانا ابوالکلام آزاد گاندھی کے مشن میں شریک تھے اور مولانا ظفر علی خاں مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔ ظفر علی خاں نے مولانا آزاد کے گاندھی سے تعلق کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک نظم لکھی تھی۔ اس کا ایک مصرع یہ تھا:
آئیں ابوالکلام جو وردھا سے گھوم کر
اب سیواگرام میں مہاتما گاندھی کے خوابوں کا ماڈل ولج یا ولج گورنمنٹ کا منظر تو دکھائی نہیں دیتا البتہ مہاتما گاندھی سے وابستگی کی وجہ سے اس کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ اس اعتبار سے اس کو دیکھنے کے لئے لوگ اکثر یہاں آتے رہتے ہیں۔
یہاں جگہ جگہ بہت سے کتبے لگے ہوئے تھے۔ ایک کتبہ میں مہاتما گاندھی کا یہ قول نقل کیا گیا تھا کہ کتابیں دماغ کے لئے صابن کی مانند ہیں:
Books act like soap for the mind
ایک جگہ بورڈ پر لکھا ہوا تھا کہ سات سماجی برائیاں ہیں۔ اُن میں سے چار یہ ہیں:
’’سیاست اصول کے بغیر، دولت عمل کے بغیر، ضمیر اخلاق کے بغیر، علم کردار کے بغیر‘‘
واردھا (گوپوری) میں قیام کے دوران عبدالسلام اکبانی صاحب سے چند بار ٹیلی فون پر بات ہوئی جو یہاں سے تقریباً بیس کیلو میٹر کے فاصلہ پر ناگپور میں رہتے ہیں۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق، ۲۷ نومبر کی شام کو یہاں سے روانہ ہوکر ناگپور پہنچا۔ ناگپور میں عام خطاب کا کوئی پروگرام نہ تھا۔ البتہ انفرادی اور اجتماعی صورت میں لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، مثلاً جسٹس ایم ایم قاضی صاحب اور ان کے ادارے کے لوگ، وغیرہ۔
ناگپور میں میرا قیام عبدالسلام اکبانی صاحب کے گھر پر تھا۔ وہ دعوت کا کام کرتے رہتے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ زبیدہ خاتون لمبے عرصہ سے خواتین میں دعوت و اصلاح کا کام کر رہی ہیں۔ ان کے ہفتہ وار اجتماعات میں خواتین بڑی تعداد میں شریک ہوتی ہیں۔ محترمہ زبیدہ خاتون سے میں نے پوچھا کہ خاندانی زندگی کو کامیاب بنانے کا راز کیا ہے۔ انھوں نے اس کا جواب صرف ایک لفظ میں دیا، اور وہ تھا —صبر۔
عبدالسلام اکبانی صاحب کے آفس میں اور اسی طرح جناب عبدالغفور پاریکھ صاحب کے آفس میں نشست کے انداز میں مختصر اجتماعات ہوئے۔ اس موقع پر میں نے مسلمانوں کے موجودہ حالات کی نسبت سے کچھ باتیں کہیں۔ ایک بات یہ تھی کہ موجودہ زمانہ میں ساری دنیا میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ شکایت اور احتجاج کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ موجودہ مسلمان دوسری قوموں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔ اس منفی نفسیات کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوت کا مزاج ختم ہوگیا۔ دعوت ایک ایسا عمل ہے جو محبت اور خیر خواہی کی نفسیات کے تحت ظاہر ہوتا ہے۔ نفرت کی نفسیات کے تحت کبھی دعوت کا عمل ظہور میں نہیں آتا۔
۲۸ نومبر کو جمعہ کا دن تھا۔ جمعہ کی نماز ناگپور کی ایک مسجد میں پڑھی۔ اس سفر کے دوران میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ مسل کھنچ جانے (muscle pull) کا واقعہ تھا۔ اس کی وجہ سے میرے کولہے میں کچھ تکلیف ہوگئی۔ معتدل انداز میں چلنا اور اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ چنانچہ میں نے مسجد میں کچھ نماز کھڑے ہوکر پڑھی اور کچھ نماز بیٹھ کر۔
مسجد میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے میری حالت دیکھ کر کہا: اب آپ چلنے پھرنے کے لئے لاٹھی استعمال کیجئے۔ یہ بظاہر خیر خواہی کا جملہ تھا مگر وہ میرے نزدیک بے حِسی کا جملہ تھا۔ مجھے ان کا یہ جملہ پسند نہیں آیا۔ اس قسم کی فرضی خیر خواہی ہمارے سماج میں عام ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اگر سچی خیر خواہی کرسکے تو کرے۔ اگر آدمی کے پاس صرف فرضی خیر خواہی کے الفاظ ہوں تو بہتر ہے کہ وہ چپ رہے۔ وہ اس حدیث رسول پر عمل کرے: من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیقل خیراً أو لیصمت۔ میرے پائوں کی مذکورہ تکلیف صرف ایک وقتی تکلیف تھی۔ چنانچہ اب خدا کے فضل سے میں پوری طرح نارمل ہوچکا ہوں۔
یہاں ایک صاحب نے میری تفسیر (تذکیر القرآن) پر عجیب و غریب تنقید کی۔ انھوں نے اس کو نہ صرف بے فائدہ بتایا بلکہ اس کو قرآن سے انحراف قرار دیا۔ اُن کے نزدیک قرآن کا صرف ترجمہ کیا جانا چاہیے۔ قرآن کی تفسیر لکھنا ان کے نزدیک درست نہیں۔ اس عجیب و غریب نظریہ کو میں خاموشی کے ساتھ سنتار ہا۔ میں نے قرآن کی تفسیر پہلی بار نہیں کی ہے۔ ہزار برس سے لوگ قرآن کی تفسیر کرتے رہے ہیں مگر انھوں نے صرف میرے اوپر تنقید کی اور دوسرے سینکڑوں مفسرین کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔دوسری بات یہ ہے کہ خود قرآن میں بار بار ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم قرآن میں تدبر کرو۔ تدبر ہمیشہ بین السطور کو پڑھنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ صرف سطور کو پڑھنے کے لئے۔ اصحاب رسول سے لے کر اب تک علماء امت کا یہ عمل رہا ہے کہ وہ اپنی گفتگو اور درس اور تقریر و تحریر میں قرآنی آیتوں کے بین السطور معانی کو بیان کرتے رہے ہیں۔ پھر اگر علماء امت کا یہ مسلسل عمل درست ہے تو میرا قرآن کی تفسیر لکھنا اور اس کو شائع کرنا کیوں غلط ہوجائے گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ: لا تنقضی عجائبہ (قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے)اس سے واضح طور پر صرف وہ بات مراد نہیں ہے جو ترجمہ کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ یقینی طور پر اس میں وہ باتیں بھی شامل ہیں جو ترجمہ سے براہ راست معلوم نہیں ہوتیں بلکہ غور و فکر کرکے اس سے مستنبط کی جاتی ہیں۔ اسی کا نام تفسیر ہے اور یہ تفسیر قرآن کی ہدایت کے مطابق بھی ہے اور حدیث کی تعلیمات کے مطابق بھی۔
ناگپور ضلع کے ایک صاحب نے میرے خلاف ایک کتاب چھاپی ہے۔ اس کا نام ہے— وحدانیت یا وحید خانیت۔ مذکورہ صاحب اس کتاب کو مفت پھیلا رہے ہیں۔ یہاں ایک صاحب نے اس کتاب کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ اس کتاب کا نام ہی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ غیر علمی ذہن کے تحت لکھی گئی ہے۔ کتاب کا یہ نام استہزاء اور تنابز بالالقاب کی ایک واضح مثال ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے اندر یہ مزاج اتنا عام ہوگیا ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ یہ طریقہ اسلام میں حرام ہے۔ اسلام میں سنجیدہ اور مدلل اختلاف یقینا جائز ہے مگر استہزاء اورتنابز بالالقاب یقینی طور پر اسلام میں جائز نہیں۔
مہاراشٹر کے سفر کے دوران ۲۷ نومبر ۲۰۰۳ کو میں ناگپور پہنچا تھا۔ ۲۹ نومبر کو دہلی کے لئے واپسی ہوئی۔ اس دوران کئی قیمتی قسم کے سبق آموز تجربے ہوئے۔ ان تجربات کی تفصیل اس سفرنامہ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ تاہم کچھ باتیں مختصر طور پر یہاں درج ہیں۔
عبدالسلام اکبانی صاحب کے ساتھ ناگپور شہر کے مختلف حصے بذریعہ کار گھوم کر دیکھے۔ میں نے اس سے پہلے بھی ناگپور دیکھا ہے مگر موجودہ مشاہدہ میں اندازہ ہوا کہ پچھلے چند سالوں میں ناگپور میں شہری اعتبار سے بہت سی ترقیاں ہوئی ہیں۔ وہاں کی سڑکیں چوڑی کی گئی ہیں۔ صفائی کا خصوصی اہتمام ہے۔ ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ انفراسٹرکچر (infrastructure) پہلے کے مقابلہ میں واضح طور پر بہتر ہوگیا ہے، وغیرہ۔ اس ترقیاتی کام سے ہر فرقہ کو غیر معمولی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ ترقی کے سلسلہ میں اصل اہمیت اچھے انفراسٹرکچر کی ہوتی ہے اور ناگپور کے لوگوں کو یہی چیزحاصل ہوئی ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ سارا کام ایک کمشنر نے انجام دیا ہے۔ اس نے نہایت حکمت کے ساتھ متعلقہ ذمہ داروں کو اپنے ساتھ لیا اور عوام کی تائید حاصل کی۔ اس کام کے لئے ورلڈ بینک سے مالیاتی امداد ملی تھی۔ اس طرح تین سال کی مدت میں ناگپور کا نقشہ بدل گیا۔ ضرورت ہے کہ ہندستان کے ہر شہر میں اسی طرح انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ یہی قومی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر ترقی کی طرف دوڑنا چاہتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اس کو کھلا راستہ فراہم کردیا جائے۔
کسی ملک کی ترقی کے لئے سب سے زیادہ اہم چیز اچھا انفراسٹرکچر ہے۔ بدقسمتی سے یہ ہوا کہ ۱۹۴۷ میں جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار آیا وہ انفراسٹرکچر کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے تعمیر نو کے لئے سب سے زیادہ اہمیت جس چیز کو دی وہ یہ تھا کہ ملک میں سماج واد قائم کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے جو تحریکیں چلائی گئیں ان کا انجام یہ ہوا کہ عوام حقوق طلب بن کر رہ گئے۔ ان میں محنت کے بجائے رعایت کا مزاج پیدا ہوگیا۔ وہ چاہنے لگے کہ حکومت انھیں روزگار دے۔ حکومت انھیں سستا سامان دے۔ کام کئے بغیر انھیں اچھی تنخواہ ملے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا سماج فرض شناس سماج نہ بن سکا، وہ بس حقوق شناس سماج بن کر رہ گیا۔
ہمارے ملک کے عوام کا یہ مزاج ترقی کے راستہ میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ حکومت اگر انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی کوشش کرے تو عوام اس کو اپنے خلاف ایک سازش سمجھ لیتے ہیں۔ کیوںکہ انھیں نظر آتا ہے کہ جب ایسا کیا جائے گا تو ان کے لئے سرکاری ملازمت کے مواقع کم ہوجائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو محنت پر بھروسہ کرنا چاہئے نہ کہ سرکاری ملازمتوں پر۔ اس کے سوا ترقی کی کوئی اور صورت نہیں۔
پچھلے سالوں میں ناگپور اور حیدرآباد میں شہری ترقی کا کام بہت زیادہ ہوا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ طرز کا جمہوری نظام اس قسم کی ترقی کے لئے ایک غیر ضروری رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ترقیاتی عمل میں ایسا ہوتا ہے کہ کم ازکم ابتدا میں ایک طبقہ کو فائدہ ہوتا ہے اور دوسرا طبقہ بظاہر محروم نظر آتا ہے۔ قدیم زمانہ میں بادشاہی نظام اس بات کی ضمانت ہوتا تھا کہ ’’محروم طبقہ‘‘ سر نہ اٹھائے اور ترقیاتی عمل برابر جاری رہے۔
مگر موجودہ جمہوری نظام میں ایسا نہیں ہوتا۔ چنانچہ ترقیاتی عمل کے دوران جب کوئی محروم طبقہ پیدا ہوتا ہے تو سستی لیڈری چاہنے والے لوگ محروم طبقہ کے نجات دہندہ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ محروم طبقہ کی اکثریت کو برسر اقتدار گروہ کے خلاف بھڑکا دیتے ہیں۔ اس طرح سماج میں ایک طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ترقی کا عمل ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان فرق کسی ظلم یا سازش کا نتیجہ نہیں۔ وہ فطرت کا ایک قانون ہے جو ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ حتّٰی کہ اگر محروم طبقہ کو منظم کرنے کی سیاست چلاکر ایسا کیا جائے کہ خود محروم طبقہ سماج میں جگہ پالے تو دوبارہ خود محروم لوگوںمیں دو طبقہ پیدا ہوجائے گا اور دوبارہ ایک اور دوسرے کے درمیان وہی اونچ نیچ پیدا ہوجائے گی جو اس انقلاب سے پہلے پائی جاتی تھی۔
فطرت کے نقشہ میں ایسے لازمی اسباب موجود ہیں جو ہمیشہ ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان فرق کی حالت پیدا کردیتے ہیں۔ یہ فرق کوئی برائی نہیں بلکہ وہ ایک خوبی کی چیز ہے۔ دراصل یہی فرق ہے جس سے ایک انسان اور دوسرے انسان یا ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے اندر چیلنج اور مسابقت کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس چیلنج اور مسابقت سے لوگوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں جاگتی ہیں۔ لوگ مسلسل طور پر متحرک ہوجاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ حال میں پیچھے تھے وہ مستقبل میں آگے ہوجاتے ہیں اور جو حال میں آگے نظر آتے تھے وہ مستقبل میں پیچھے ڈھکیل دئے جاتے ہیں۔ یہ زندگی کا فطری نظام ہے۔ اس نظام کو بدلنے کی کوشش ہمیشہ تباہ کن نتائج پیدا کرتی ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال وہ ہے جو اشتراکی دنیا (سوویت یونین) میں پیش آئی۔ جہاں ۷۵سال تک ہمالیائی کوششوں کے باوجود یہ ہوا کہ معاشی نابرابری تو ختم نہ ہوسکی البتہ سماج ناقابل بیان تباہی کا شکار ہوکر رہ گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ قابل بقا (sustainable) ترقیاتی عمل صرف ایک ایسے معاشرہ میں ظہور میں آسکتا ہے جو اتنا باشعور ہو کہ وہ اقتصادی فرق کی اس حکمت کو سمجھ سکے جو خالق نے اس کے اندر رکھی ہے۔ جو صرف حال کی بنیاد پر رائے قائم نہ کرے بلکہ وہ مستقبل کی بنیاد پر اپنی رائے بنائے۔ جو کل ملنے والی ترقی کے لئے آج کی بے ترقی پر صبر کرسکے۔ جو معاملات کو انسانیت عامہ کے نقطۂ نظر سے دیکھے نہ کہ محدود طور پر صرف اپنی ذات کے نقطۂ نظر سے۔
جمہوری نظام کے اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ تعلیم انسان کو باشعور بناتی ہے۔ اور باشعور آدمی اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ معاملات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھے، وہ استحصالی لیڈروں کے نعروں کے فریب میں نہ آئے ۔ وہ حقیقی اقتصادی منصوبہ اور جذباتی نعروں کے درمیان فرق کرسکے۔ وہ چیزوں کو ان کے ظاہر(face value) پر نہ لے بلکہ وہ ان کا تجزیہ و تحلیل کرکے گہری بنیادوں پر رائے قائم کرسکے۔
کسی سماج میں جب کوئی گہرا ترقیاتی عمل شروع کیا جائے تو فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس کا زیادہ فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جو پہلے سے تعلیم پائے ہوئے ہوں، جنھوں نے پہلے سے ادارے قائم کر رکھے ہوں، جن کے یہاں پہلے سے صحتمند روایتیں چلی آرہی ہوں۔ مگر یہ صرف ایک وقتی معاملہ ہوتا ہے۔ جب ترقی کا سفر آگے بڑھتا ہے تو فطرت کے عوامل ظاہر ہوتے ہیں جو مختلف طریقوں سے ترقی کے مواقع کو عام بنانا شروع کرتے ہیں۔ اس طرح جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ کھوئے ہوئے لوگ پانے لگتے ہیں اور جو لوگ پائے ہوئے ہوتے ہیں وہ کھونے والے بن جاتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ ترقیاتی عمل شروع کرنے کے ساتھ ہی سماج کو باشعور بنانے کا عمل بھی شروع کردیا جائے۔ اس کے بغیر کسی جمہوری سماج میں قابل بقا ترقی ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر بڑی ترقی صبر کی قیمت چاہتی ہے۔ خواہ فرد کی ترقی کا معاملہ ہو یا سماج کی ترقی کا معاملہ، ہر ایک کو صبر کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی فرد یا کوئی سماج کسی بڑی ترقی کی منزل تک پہنچ سکے۔
میں اس سے پہلے کئی بار ناگپور گیا ہوں۔ مگر ایک بات کا مجھے اب تک اندازہ نہ ہوسکا تھا۔ اس بار اس کو دیکھنے کاموقع ملا۔ وہ یہ کہ ناگپور میں وہاں کے مسلمانوں کاایک ایجوکیشنل ایمپائر موجود ہے۔ انجمن حامیٔ اسلام کے تحت قائم شدہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اس کا حصہ ہیں۔ اس انجمن کے موجودہ صدر جناب جسٹس ایم ایم قاضی ہیں۔ یہ سب چیزیں بلاشبہ خوشی کا باعث تھیں۔
ناگپور کی انجمن حامیٔ اسلام آزادی سے پہلے قائم ہوئی۔ اس انجمن کے پاس کافی زمینیں ہیں۔ مگر پہلے اس کے تحت زیادہ کام نہ ہوسکا تھا۔ پھر جسٹس ایم ایم قاضی اس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ جسٹس قاضی نہایت اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ انھوں نے اس انجمن کو پھر سے منظم کیا۔ اس کے کاموں کو زیادہ بہتر بنایا۔ یہاں نئے ادارے اور کالج قائم کئے۔ ان ترقیوں کے بعد اب وہ ایک قسم کا تعلیمی ایمپائر بن چکا ہے۔ اس کو میں نے دیکھا۔ آج کل وہاں ایک بہت بڑا انجینئرنگ کالج تعمیر ہورہا ہے۔
ایک اور قابل ذکر چیز جو میں نے اس سفر میں پائی وہ عبدالسلام اکبانی صاحب کی فیملی تھی۔ میں نے پایا کہ ان کی فیملی میں ساس اور بہو جیسے جھگڑے نہیں ہیں۔ ان کی فیملی ایک پرسکون فیملی ہے۔ ان کی اہلیہ سے میں نے پوچھا کہ کامیاب خاندانی زندگی کا راز کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ: صبر و برداشت۔ میں سمجھتا ہوں کہ کامیاب خاندانی زندگی گزارنے کے لئے یہی واحد کارگر فارمولا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں ساس اور بہو جیسے مسئلے پیدا ہوتے ہیں یا نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پیدا ہوتے ہیں مگر ہم یک طرفہ خاموشی سے اُس کو ختم کردیتے ہیں۔
ایک انگریزی تعلیم یافتہ خاتون سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی ازدواجی زندگی پرسکون نہیں۔ ان کے اور ان کے شوہر کے درمیان اکثر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ اس کی کوئی مثال بتائیے۔ انھوں نے بتایا کہ کل ایسا ہوا کہ میں اپنا کپڑا پریس کرنے لگی۔ اسی کمرہ میں ہمارے شوہر کا کمپیوٹر رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے کمپیوٹر میں مشغول تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ اس وقت میں اپنے کمپیوٹر پر کام کر رہاہوں تم دوسرے کمرہ میں جاکر اپنا کپڑا پریس کرلو۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ میرے اوپر اپنا حکم چلا رہے ہیں۔ وہ مجھ کو اپنا تابع بنالینا چاہتے ہیں۔ میں نے دوسرے کمرہ میں جانے سے انکار کردیا۔ اس پر دونوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔
میں نے خاتون سے کہا کہ اس واقعہ میں تمام تر آپ کی غلطی ہے۔ آپ کو دوسرے کمرہ میں جاکر پریس کرنا چاہئے تھا۔ انھو ںنے کہا کہ اگر میں اس طرح ہر موقع پر اپنے شوہر کی بات مانتی رہوں تو وہ مجھ کو ڈورمیٹ (doormat) بنادے گا۔ میں نے کہا کہ آپ کی یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ آپ انسانی نفسیات کو نہیں جانتیں۔ اس موقع پراگر آپ اپنے شوہر کی بات مان لیتیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آپ کے شوہر کے دل میں آپ کی عزت بڑھ جاتی۔ آپ دونوں کے درمیان تعلقات زیادہ خوشگوار ہوجاتے۔
زبیر احمد اکبانی ناگپور کے ٹمبر مرچنٹ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے کاروبار کو مینیجیبل لمٹ (انتظامی حد) کے اندر رکھیں۔انھوں نے بتایا کہ جب سے ہم نے یہ فیصلہ لیا ہے ہم کو ذہنی سکون بھی ملا ہے اور کاروباری ترقی بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فارمولا ہر کاروباری آدمی کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی ناکامی کا راز یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی حد کو نہیں جانتے۔ وہ اپنے کام کو اتنا زیادہ بڑھا لیتے ہیں جو ان کی مینجیبل لمٹ (manageable limit) سے باہر ہوتا ہے۔ یہ اُصول ہرجگہ مطلوب ہے، تجارتی معاملات میں بھی اور غیر تجارتی معاملات میں بھی۔
عبدالسلام اکبانی صاحب کے گھر پر میں نے دیکھا کہ ایک دیوار پر یہ قرآنی آیت لکھی ہوئی ہے:
ہٰذا من فضل ربی لیبلونی ئَ اشکر اَم اکفر (النحل ۴۰) میںنے دیکھا ہے کہ عام طور پر لوگ جب گھر بناتے ہیں تو وہ اپنے گھر پر اس آیت کا صرف ایک حصہ (ہٰذا من فضل ربی) لکھتے ہیں۔ مگر یہاں اس کے برعکس پوری آیت لکھی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ آیت کا صرف ایک حصہ لکھنا قرآن کے اصل مفہوم کو واضح نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق، گھر یا مادّی نفع جو اس دنیامیں کسی کو ملتا ہے وہ نوازش کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ جانچ کے طور پر ہوتا ہے۔ اس دنیا میں ہر مادی چیز امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اُس کے ذریعہ خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آدمی اُس کو پاکر خدا کا شکر گزار بنایا وہ سرکش ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان پر خدا کا یہ سب سے بڑا حق ہے کہ وہ ہر ملی ہوئی چیز کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اُس پر اُس کا شکر ادا کرے۔ جو آدمی دل سے خدا کا شکر ادا کرے وہ امتحان میں کامیاب ہوا اور جس کے دل میں شکر کا جذبہ نہیں اُمڈا وہ اپنے امتحان میں ناکام ہوگیا۔ میرے تجربہ کے مطابق، جناب عبدالسلام اکبانی صاحب کا گھر وہ گھر تھا جہاں میں نے لوگوں کی زبان پر شکر کا چرچا پایا۔ جہاں افرادِ خانہ کے اندر یہ زندہ شعور موجود تھا کہ اگر نہ ملے ہوئے کو پانا چاہتے ہو تو پہلے ملے ہوئے پر دینے والے کا شکر ادا کرو۔ شکر دراصل مزید عطیہ کے لیے استحقاق کی حیثیت رکھتا ہے۔
۲۹ نومبر ۲۰۰۳ کو ناگپور سے دہلی کے لیے روانگی ہوئی۔ یہ سفر آندھراپردیش ایکسپریس کے ذریعہ طے ہوا۔ میرے کَیبن میں ایک ریلوے افسر سفر کر رہے تھے۔ ابتدا میں وہ مجھ سے بالکل بے تعلق رہے۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایک مغرور آدمی ہیں۔ مگر جب اُنہوں نے مجھ کو قریب سے دیکھا اور میری چند باتیں سُنیں تو وہ بالکل بدل گئے اور مجھ سے نہایت تواضع کے ساتھ پیش آنے لگے۔ ۳۰نومبر کی صبح کو میں دہلی پہنچا۔
واپس اوپر جائیں