Pages

Wednesday 1 November 2006

Al Risala | November 2006 (الرسالہ،نومبر)

2

- نزولِ قرآن کا مہینہ

5

- زندگی کا مقصد

14

- قانونِ حیات

17

- قرآن اور امنِ عالم

21

- دولت کا مسئلہ

23

- مسلمان مسئلہ کیوں بن گیے

32

- ایک عظیم ایمانی صفت

35

- دعوہ ایمپائر

37

- فرق نہ سمجھنا

39

- انسانی اتحاد

41

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۶


نزولِ قرآن کا مہینہ

رمضان کا مہینہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ قرآن میں ارشادہوا ہے کہ— رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کی ہدایت بناکر اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کے کھلے دلائل کے ساتھ ، پس جو کوئی تم میں سے اس مہینہ میں موجودہو وہ اس کے روزے رکھے (شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدی للناس و بینات من الہدی والفرقان فمن شہد منکم الشہرفلیصمہ) البقرہ ۱۸۵
اس آیت سے رمضان میں روزہ کی سالانہ عبادت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی قمری مہینہ میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔ قرآن جیسی الہامی کتاب کاانسان کو دیا جانا بلاشبہہ انسان کے اوپر بہت بڑا نعام تھا۔اس انعام کی شکر گزاری یہی تھی کہ اس مہینہ کو خصوصی طورپر اللہ کے ذکر اور اللہ کی عبادت میں گزارا جائے۔
یہاں قرآن کی تین خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اول یہ کہ وہ لوگوں کے لیے رہنمائی ہے۔ قرآن ایک خدائی گائڈ بک ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کس طرح رہے کہ اس کو حقیقی کامیابی حاصل ہو۔
اس سلسلہ میں ایک بہت بنیادی بات یہ بتائی گئی کہ موجودہ دنیا نہ تو اہانت کی جگہ ہے اور نہ اکرام کی جگہ۔ یہاں کسی کو اگر سامان حیات کم ملے تو اس کو احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی کو زیادہ ملے تو اس کے لیے بھی درست نہیں کہ وہ احساس برتری میں مبتلا ہوجائے۔ یہ دنیا حقیقتاًآزمائش کا مقام ہے۔ یہاں کی ہر حالت امتحان کی حالت ہے۔ اس لیے آدمی کی نظر اس پر ہونی چاہیے کہ اس نے اپنے ملے ہوئے حالات میں کیسا رد عمل پیش کیا ، نہ یہ کہ وہ دیکھنے لگے کہ خود حالات مادی معنوں میں کیسے تھے اور کیسے نہیں تھے۔
دوسری خصوصیت قرآن کی یہ ہے کہ اس میں جو ہدایت دی گئی ہے وہ ایسے واضح دلائل کے ساتھ دی گئی ہے جو عقل انسانی کے عین مطابق ہے۔ قرآن مجرد حکم نامہ نہیں ہے، اسی کے ساتھ اس میںاعلیٰ سطح پر عقلی اطمینان کا سامان بھی موجود ہے۔
مثال کے طورپر قرآن میںقاتل کے لیے قصاص کی سزا کا حکم دیاگیا ہے۔ یعنی مجرم کے ساتھ وہی معاملہ کرنا جس کا ارتکاب اس نے دوسرے انسان کے ساتھ کیا ہے۔ یہ حکم بظاہر سخت تھا۔ چنانچہ اس کے بعد اس کی عقلی توجیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب (البقرہ ۱۷۹) یعنی ایک قاتل کو مارنا بہت سے لوگوں کو زندگی دینا ہے۔ کیوں کہ اس طرح تم پورے معاشرہ کو بچا لیتے ہو۔
قرآن کی تیسری خصوصیت یہ بتائی کہ وہ فرقان ہے۔ یعنی وہ حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا خدائی معیار (criterion)ہے۔ وہ جھوٹ کی ملاوٹ سے پاک کرکے، سچ کو اس کے اصلی روپ میں پیش کرتا ہے۔
اس کی ایک مثال موسی علیہ السلام کا ید بضاء کا معاملہ ہے۔ بائبل میں اس کے بارہ میں یہودی عالموں نے لکھ دیا تھا کہ موسی نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا۔ اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا (خروج ۴:۶) یہ ایک خدا ئی معجزہ کی نہایت غلط تصویر تھی۔
چنانچہ قرآن میں اس کا ذکر کیا گیا تو اُس کو اِس طرح واضح کردیاگیا: واضمم یدک الی جناحک تخرج بیضاء من غیر سوء آیۃ اخری(طہ ۲۲) قرآن میں ید بیضاء کے ساتھ غیر سوء کی قید لگاکر اس لغو الزام کو دور کردیا گیا کہ حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی سفیدی کسی بیماری کے سبب سے تھی بلکہ وہ آپ کی نبوت کے حق میں اللہ کی ایک عظیم نشانی تھی۔
نزول قرآن کے مہینہ میں روزہ رکھنے کا حکم دینے کا مقصد یہ ہے کہ خصوصی اہتمام کے ساتھ اس کتاب کو پکڑا جائے۔ اس مہینہ کو تمسک بالقرآن کا مہینہ بنا دیاجائے۔
روزہ دراصل یکسوئی کا ایک خصوصی طریقہ ہے۔ روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ تمام غیر متعلق چیزوں سے کٹ کر آدمی ایک حقیقت اعلیٰ سے جڑ جائے۔ روزہ میں کھانا اور پانی چھوڑ دینا اس بات کی علامت ہے کہ بندہ اپنی بنیادی ضرورتوں تک کو بھول کر ہمہ تن قرآن اور صاحب قرآن کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔
رمضان کے مہینہ میں روزہ رکھ کر آدمی اپنے اندر روحانی طلب پیدا کرتا ہے۔ وہ قرآن میں غور کرکے اس سے اپنے لیے روحانی غذا لیتا ہے۔ وہ اللہ کے ذکر اور اللہ کی عبادت میں اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ خدا کی ہدایت ابتداء ً رمضان کے مہینہ میں اتری تھی، اب دوبارہ وہ قمری کیلنڈر کے اسی مہینہ میں مومن کے قلب میں اترتی ہے۔ خوش نصیب ہے وہ آدمی جو رمضان کے مہینہ کو اس ربانی طریقہ پر گزارے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کا مقصد

۱۱ مارچ ۲۰۰۶ کو شام کی فلائٹ سے میں حیدر آباد سے دہلی آرہا تھا۔ میرے ساتھ سی۔پی۔ایس ٹیم کے کئی اور افراد شامل تھے۔ اِس جہاز میں ایک خاتون نیہا بٹوارا (Neha Batwara) بھی سفر کررہی تھیں۔ ہماری ٹیم کے لوگ جہاز کے اندر مسافروں کے درمیان دعوہ ورک کررہے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے مز نیہا سے بھی بات کی اور انھیں دعوتی پمفلٹ دیے۔ یہ خاتون دہلی ائر پورٹ پر اُتر کر اپنے وطن اَلور چلی گئیں۔ بعد کو حیدرآباد سے ان کا ایک خط مورخہ ۲۸ مارچ بذریعے ای میل موصول ہوا۔ وہ خط حسب ذیل تھا:
Respected Maulana!
I am Neha, working in an MNC for some people, it cannot be better than to get a job in top MNC just after graduation. But believe me, I am in search of a more purposeful life. That's why I am writing to you.
I met Priya Malik, Khalid Ansari and Sadia Khan on a flight to Delhi and could apparently see the difference your guidance has made to their lives.
Maulana, I know we have been created by God, and we all have a purpose here to fulfill on earth, which, if done, will be more satisfying than getting heaven after death.
The point where I am lacking is to know the purpose for which I have been sent here. I could not come to your class in Delhi, because my family was against going to some spiritual classes. You understand.
I will be grateful to you for the whole of my life if you could help me in any way. I am currently in Hyderabad.
Regards
Neha Batwara, Software Engg. MIEL
Hyderabad, Ext. 3355, Tel. 040-23308090
یہ خط سادہ طورپر صرف ایک خاتون کا خط نہیں ہے، بلکہ وہ ہر رُوح کی پکار ہے۔ یہ خط گویا ہر عورت اور مرد کے دل کی ترجمانی ہے۔ ہر انسان ایک بامقصد زندگی (purposeful life) کی تلاش میں ہے۔ یہ ہر انسان کی فطرت کی آواز ہے۔ لیکن لوگ یہ چاہتے ہیں کہ یہ بامقصد زندگی ان کو پوری طرح موت سے پہلے کے دورِ حیات میں مل جائے۔ موت کے بعد کے دورِ حیات کا نہ اُن کو شعور ہے اور نہ وہ اس کا انتظار کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اِس سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ آدمی اس بامقصد زندگی کو کہاں حاصل کرناچاہتا ہے۔ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں یا خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں ۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد اس کو خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں حاصل کرنا ہے۔ کیوں کہ خود اپنی بنائی ہوئی دنیا اُس کے لیے سِرے سے موجود ہی نہیں۔
ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات ہے کہ آدمی سب سے پہلے یہ جانے کہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا کے قوانین کیا ہیں اور اس کے بنانے والے نے کس تخلیقی منصوبے کے تحت اس کو بنایا ہے۔ کیوں کہ اس کی مطابقت کے بغیر وہ کسی بھی حال میں اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتا۔
اگر آپ کے پاس ایک اچھی کار ہو اور اس کو آپ سڑک پر دَوڑانا چاہیں تو آپ کو سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ جس ملک میںآپ اپنی گاڑی دوڑانا چاہتے ہیں وہاں لفٹ ہینڈ ڈرائیو(left-hand drive) کا اصول ہے یا رائٹ ہینڈ ڈرائیو(right-hand drive) کا۔ کامیاب سفر کے لیے اِس بات کو جاننا ضروری ہے۔ اگر آپ ایسا کریں کہ لفٹ ہینڈ ڈرائیو کے ملک میں اپنی گاڑی دائیں طرف دَوڑانے لگیں، یا رائٹ ہینڈ ڈرائیو کے ملک میں اپنی گاڑی بائیں طرف دوڑانے لگیں تو دونوں حالتوں میں آپ کامیاب سفر سے محروم رہ جائیں گے۔
یہی معاملہ زندگی کے وسیع تر سفر کا بھی ہے۔ انسان اپنی زندگی کا وسیع تر سفر کسی خلا میں یا خود اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں کرتا۔ وہ اپنا یہ سفر خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں کرتا ہے۔ اِس لیے ہر عورت اور مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کو سمجھے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو ناکامی سے نہیں بچا سکتا۔
خود انسان کا اپنا تجربہ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ ہر انسان کا یہ مسئلہ ہے کہ اس کو پیاس لگتی ہے۔ وہ اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہے۔ مگر یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر انسان اپنی پیاس بجھانے کے لیے پانی کو استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ پانی کے سوا کسی اور چیز سے وہ اپنی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اِسی طرح انسان کو بھوک لگتی ہے۔ بھوک کے معاملے میں بھی انسان یہی کرتا ہے کہ وہ فطرت کی فراہم کردہ غذا کے ذریعے اپنی بھوک مٹائے۔ ہر انسان کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر انسان آکسیجن لینے کے لیے اُسی نظام کو استعمال کرتا ہے جو اس کے باہر فطرت نے قائم کیا ہے۔ یہی تمام دوسری ضرورتوں کا معاملہ ہے۔
ٹھیک یہی معاملہ مقصدِ حیات کا بھی ہے۔ مقصدِ حیات کے معاملے میں بھی انسان کو اپنے خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو جاننا ہے۔ اِس معاملے میں کوئی دوسرا متبادل، انسان کے لیے نہیں۔
قرآن خالقِ فطرت کی کتاب ہے۔ قرآن میں اِس سوال کا جواب اس کی سورہ نمبر ۱۰۳ میں دیاگیا ہے۔ قرآن کا یہ جواب اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ ہے:
History is a witness that man is in loss, except those who follow the course of life set by the Creator.
اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ خالق نے انسان کی زندگی کو دو دَوروں میںتقسیم کیا ہے—قبل از موت دَور، اور بعد از موت دَور۔ موت سے پہلے کا دَور عمل کرنے کا دَور ہے اور موت کے بعد کا دَور عمل کا انجام پانے کا دَور۔ جو کچھ موت کے بعد ملنے والا ہے وہ موت سے پہلے نہیں مل سکتا۔ جو کچھ موت سے پہلے کرنا ہے اس کو کرنے کا موقع موت کے بعد باقی نہیں رہے گا۔
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان لامحدود خواہشوں (unlimited desires)کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ڈیزائر ہر ایک کو بہت محبوب ہوتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک شخص بھی اپنی اِن خواہشوں کی تکمیل نہ کرسکا۔ مختلف انسانوں نے اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے ساری عمر محنت کیا۔ بظاہر انھوں نے بڑی بڑی کامیابی حاصل کی۔ مگرہر ایک اِس حسرت کے ساتھ مرا کہ وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل نہ کرسکا۔ آج کی دنیا میں وہ جس خوشی کو پانا چاہتا تھا اس کو پانے میں وہ ناکام رہا۔
دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں جوڑا(pair) کا اصول قائم ہے۔ یہاں ہر چیز اپنا جوڑا رکھتی ہے۔ ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنے وجود کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ اصول عالمی سطح پر قائم ہے۔ زمین سے لے کر اسپیس تک ہر جگہ یہی نظام رائج ہے— نگیٹیو پارٹکل کا جوڑا پازیٹیو پارٹکل، نباتات میں میل سیکس اور فی میل سیکس، حیوانات میں مؤنث حیوان اور مذکر حیوان، انسان میں عورت اور مرد، وغیرہ۔
جوڑا یا زَوجین کا نظام تمام مخلوق میں عالمی سطح پر قائم ہے۔ اِس وسیع اور کامل نظام میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ انسانی خواہشات کا ہے۔ ہر انسان خواہشات کا گہرا احساس لے کر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ہر انسان اپنی اِن خواہشات کی تکمیل کیے بغیر مرجاتا ہے۔ دنیا میں خواہش ہے مگر اس کا جوڑا، تکمیلِ خواہش یہاں موجود نہیں۔
یہ سوال اس دنیا میں آنے والے ہر عورت اور مرد کا سوال ہے۔ ہر پیدا ہونے والا اِس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے سوال کا تشفی بخش جوا ب پائے وہ حسرت کے ساتھ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
امریکی مشنری بلی گرہم(Billy Graham) نے لکھا ہے کہ ایک بار اس کے پاس امریکا کے ایک عمر رسیدہ دولت مند کاارجنٹ مسیج آیا۔ بلی گراہم اپنے پروگرام کو ملتوی کرکے فوراً روانہ ہوگیے۔ وہ امریکی دولت مند کے گھر پہنچا تو اس کو ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ وہاں اس کی ملاقات امریکی دولت مند سے ہوئی۔ امریکی دولت مند نے کسی تمہید کے بغیر کہا:
You see, I am an old man. Life has lost all meaning. I am going to take a fateful leap into the unknown. Young man can you give me a ray of hope.
بلی گرہم کے پاس اِس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب نہ تھا۔ امریکی دولت مند جواب سے محرومی کا احساس لے کر مرگیا۔ خود بلی گرہم کا یہ حال ہوا کہ تازہ اطلاع کے مطابق، وہ شدید حادثے کا شکار ہو کر معذوری کی حالت میں بستر پر پڑا ہوا ہے، اور اپنے آخری انجام کے طورپر موت کا انتظار کررہا ہے۔
یہی معاملہ اِس دنیا میں ہر عورت اور مرد کا ہے۔ ہر ایک اپنی زندگی کا مقصد جاننا چاہتا ہے۔ ہر ایک، ایک پُر مسرت زندگی کی تلاش میں ہے۔ ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اس کو ایسی زندگی ملے جس میں اس کو پوری طرح فُل فلمینٹ(fulfillment)حاصل ہو۔ مگر ہر ایک کا انجام صرف ناکامی پر ختم ہورہا ہے۔واقعات بتاتے ہیںکہ ہر عورت اور مرد نے یہ سمجھا کہ دنیا کے مادّی سازوسامان ہی اصل ہیں۔ ہر ایک نے مادی سازوسامان اکھٹا کرکے اس کے ذریعے فل فلمینٹ کی زندگی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مگر کسی استثنا کے بغیر ایک شخص کو بھی مطلوب فل فلمینٹ حاصل نہ ہوسکا۔
ایسی حالت میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اِس ناکام تجربے کو دہرایا جاتا رہے۔ اب اِس معاملے میں اصل مسئلہ نظرثانی (reassessment) کا ہے۔ اب اصل کام یہ ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچا جائے کہ دنیا کی قابلِ حصول مادّی چیزوں میں تو ثابت شدہ طورپر فل فلمینٹ کا سامان موجود نہیں۔ ایسی حالت میں پھر یہ سامان کہاں ہے۔ جب انسانی خواہش کا تسلسل جاری ہے تو یہ ماننا ہوگا کہ وہ ایک حقیقی چیز ہے، اور جب وہ ایک حقیقی چیز ہے تو یقینا اس کی تکمیل کا سامان بھی کائنات میں ہونا چاہیے۔
اِس معاملے کو سفر کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کوئی شخص جب سفر کرتا ہے، خواہ وہ ٹرین سے سفر کرے یا ہوائی جہاز سے، اس کے سفر کے دو مرحلے ہوتے ہیں۔ ایک ، وہ جب کہ وہ حالتِ سفر میں ہوتا ہے۔ دوسرا وہ جب کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ کامیاب سفر کے لیے ضروری ہے کہ مسافر دونوں حالتوں کے فرق کو سمجھے۔ جو مسافر اِس فرق کو نہ جانے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوجائے گا اور غیر ضروری پریشانی میں مبتلا ہوکر اپنی عقل کھو بیٹھے گا۔
صحیح مسافر وہ ہے جو سفر کو سفر سمجھے، وہ سفر کو منزل کی حیثیت نہ دے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ سفر کے دَوران وہ سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں جو منزل پر پہنچ کر حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن ہر مسافر اِس کو گوارا کرتا ہے۔ کیوںکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ سفر کی حالت ایک وقتی حالت ہے۔ آخر کار اس کا سفر ختم ہوگا اور وہ اپنی مطلوب منزل پر پہنچ جائے گا۔ منزل پر پہنچنے کے بعد اس کو وہ سب کچھ مل جائے گا جس کو وہ چاہتا تھا لیکن سفر کے دَوران وہ اُن کو حاصل نہ کرسکا۔
ہماری موجودہ زندگی بے حد مختصر مدت کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا مختصر مدت کے لیے ہونا خود اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دَورانِ سفر کی حالت ہے، وہ منزل پر پہنچنے سے پہلے کا لمحہ ہے۔ اِس بنا پر یہ ممکن نہیں کہ موجودہ مختصر زندگی میں ہم وہ تمام چیزیں پالیں جن کو ہم پانا چاہتے ہیں۔ یہ چیزیں بلا شبہہ ہم کو ملیں گی لیکن وہ منزل پر پہنچ کر ملیں گی، سفر کے درمیانی مرحلے میں وہ ہرگز ہم کو ملنے والی نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، ہماری زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے— موت سے پہلے کا مرحلہ اور موت کے بعد کا مرحلہ۔ موت سے پہلے کا مرحلہ گویا حالتِ سفر کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلہ گویا منزل پر پہنچنے کا مرحلہ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو جاننا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہر انسان کی زندگی کو بامعنیٰ بناتی ہے، جو ہر عورت اور مرد کو اُس مقصد سے متعارف کرتی ہے جو اس کی زندگی کو پوری طرح بامعنیٰ بنادے جو اس کو اطمینان کا سرمایہ عطا کرے۔
زندگی کی یہ توجیہہ اِس سوال سے جُڑی ہوئی ہے کہ موت کے بعد دوبارہ انسان زندہ ہوتا ہے۔ کیا موت کے بعد بھی اسی طرح زندگی ہے جس طرح موت سے پہلے ہم زندگی کا تجربہ کررہے ہیں۔ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ اِس سوال کا جواب ہم عین اُسی سائنسی طریقے کے ذریعے جان سکتے ہیں جس سائنسی طریقے سے دوسری حقیقتوں کو جانا جاتا ہے۔
حقیقتوں کو جاننے کے معاملے میں سائنٹفک متھڈ کیا ہے۔ وہ یہ نہیں ہے کہ جس بات کو جاننا ہے وہ اپنی کامل صورت میں سائنس داں کے سامنے آجائے۔ اگر یہ شرط ہوتو ساری حقیقتیں سائنسی طورپر غیر معلوم رہ جائیں ۔ علم کی ترقی رُک جائے۔ حقائق کی نسبت سے انسان ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں پڑا رہے۔ کیوں کہ کوئی بھی حقیقت اِس طرح علم میں نہیں آتی کہ وہ پہاڑ کی طرح مشہود چیز کے طور پر سامنے آجائے۔
اِس کے بجائے جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مطالعے کہ دَوران سائنس داں کے سامنے ایک سُراغ (clue) آتا ہے۔ اِس سُراغ پر غور کرکے وہ ایک ایسی حقیقت تک پہنچتا ہے جو پہلے اس کو معلوم نہ تھی۔ اِس دنیا میں ہر حقیقت سراغ کی سطح پر دریافت ہوتی ہے۔ اِس دنیا میں سراغ ہی تمام حقیقتوں کی دریافت کی کنجی ہے۔
مثلاً سائنس میں اِس کو بطور حقیقت مان لیا گیا ہے کہ تیرہ بلین سال پہلے بِگ بینگ کا واقعہ پیش آیا۔ اِسی طرح سائنس میں یہ مان لیا گیا ہے کہ زمین پر حیاتیاتی ارتقا کا واقعہ ہوا۔ اسی طرح سائنس میں یہ مان لیا گیا ہے کہ ہماری کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات (expanding universe) ہے، وغیرہ۔
اِس قسم کی حقیقتیں جو آج مسلّم حقیقت بن چکی ہیں وہ اِس طرح حقیقت نہیں بنیں کہ انسان نے اس کو مشاہداتی سطح پر دیکھ لیا۔ اِس کے بجائے جو کچھ ہوا وہ صرف یہ تھا کہ ایک سراغ انسان کے علم میںآیا۔ پھر اِس سراغ پر غور کرکے انسانی علم ایک بڑی حقیقت تک پہنچا۔ یہ بڑی حقیقت اگر چہ دکھائی نہیں دے رہی تھی مگر وہ موجود تھی۔ اس کی موجودگی کو بطور ایک واقعہ کے تسلیم کرلیا گیا۔ اگر چہ اِس سلسلے میں سُراغ کے سوا کوئی اور چیز انسان کے مشاہدے میں نہیں آئی تھی۔
یہی معاملہ موت کے بعد زندگی کا یا اگلے دَورِ حیات کا ہے۔ اگلے دَور حیات کے بارے میں بھی واضح سُراغ (clue) موجود ہیں۔ سراغ پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو وہ ہمیں اِس یقین تک پہنچاتے ہیں کہ موت کے بعد بھی زندگی ہے۔ موت کے بعد بھی اِسی طرح ایک اور مرحلۂ حیات ہے جو لازمی طورپر ہر ایک کے سامنے پیش آئے گا۔
وہ سر اغ کیا ہے۔ مثلاً انسان کا جسم بے شمار خلیوں(cells) پر مبنی ہے۔ یہ خلیّے ہر وقت ٹوٹتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا نظامِ ہضم یہ کام کرتا ہے کہ جو کچھ ہم کھاتے ہیں وہ خلیّوں کی صورت اختیارکر لیتا ہے۔ ہمارا نظام ہضم گویا خلیہ ساز فیکٹری ہے۔ اِس نظام کے تحت یہ ہوتا ہے کہ عملاً تقریباً ہر دس سال میں ہمار ا پورا جسم بدل جاتا ہے۔ نیے خلیوں کے ساتھ مکمل طورپر ایک نیا جسم وجود میں آجاتا ہے۔
گویا کہ ہمارے جسم پر بار بار ’’موت‘‘ طاری ہوتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا ذہنی وجود نہیںمرا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ذہنی وجود ہی انسان کا اصل وجود ہے۔ یہ ذہنی وجو بظاہر جسمانی موت کے باوجود یکساں طورپر باقی رہتا ہے۔ یہ ایک سراغ ہے جو بتاتا ہے کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ابدی مخلوق ہے۔ اس کے ابدی وجود کا تھوڑا سا حصہ قبل ازموت مرحلۂ حیات میں ہے، اور اس کا بقیہ پورا حصہ بعد ازموت مرحلۂ حیات میں۔
اِسی طرح اِس معاملے کا ایک سُراغ یہ ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طورپر عدل (justice) کا تصور پایا جاتا ہے۔ انسان اپنے فطری ذہن کے تحت، یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عدل قائم ہو۔ یعنی اچھا عمل کرنے والوں کو اچھا انجام ملے اور بُرا عمل کرنے والوں کو بُرا انجام ملے۔ اِس سرغ کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو انسانی ذہن اِس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ موجودہ مرحلۂ حیات چوں کہ اپنی مدت کے اعتبار سے نہایت ناکافی ہے اس لیے بعد کے مرحلۂ حیات میںعدل کے تقاضے کی تکمیل ہو۔ بعد کے مرحلۂ حیات میں ہر انسان کو اس کے کیے کے مطابق، جزا یا سزا ملے۔
اِسی طرح اِس معاملے کا ایک سراغ یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپر معیاری دنیا (perfect world) چاہتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا کی محدودیت (limitations) کی بنا پر یہاں مطلوب معیاری دنیا بن نہیں پاتی۔ اِس سراغ پر غور کرتے ہوئے انسانی ذہن اِس دریافت تک پہنچتا ہے کہ جو معیاری دنیا قبل ازموت مرحلۂ حیات میں محدود حالات کی بنا پر حاصل نہ ہوسکی وہ بعد از موت مرحلۂ حیات میں اپنی مطلو ب معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
اِسی طرح اِس معاملے میں ایک سراغ یہ ہے کہ انسان استثنائی طورپر ایک ایسی مخلوق ہے جو کَل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ کسی بھی دوسرے حیوان یا غیر حیوان کے اندر کل کا تصور موجود نہیں۔ اِس سراغ کو لے کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ موجودہ محدود حالات میں آدمی اپنی جس مطلوب دنیا کو نہیں پاتا اس کو وہ موت کے بعد آنے والے لا محدود مرحلۂ حیات میں پالے گا۔ یہ دنیا وہ ہوگی جہاں آدمی اپنے لیے پوری طرح فُل فلمینٹ کا تجربہ کرسکے گا۔
موت کے بعد معیاری دنیا بننا ویسا ہی ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جیسا کہ دوسرے ثابت شدہ واقعات۔ تاہم مستقبل کی اِس معیاری دنیا میںہر ایک کو خود بخود جگہ نہیں مل جائے گی بلکہ صرف وہ عورت اور مرد اِس معیاری دنیا میں جگہ پائیں گے جو موت کے پہلے کی اِس دنیا میں اس کا استحقاق ثابت کرسکیں۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ ہر انعام مستحقین کو ملتا ہے۔ غیر مستحقین کے لیے کبھی کوئی بڑا انعام مقدر نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے اپنے آپ کو اس معیاری دنیا کا مستحق بنانے کا فارمولا کیا ہے۔ وہ فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے روح کی تطہیر (purification of soul) ۔
جو آدمی مستقبل کی اس معیاری دنیا میں اپنے لیے جگہ حاصل کرنا چاہتا ہو اس کو آج کی اِس دنیا میں یہ ثبوت دینا ہے کہ اس نے دکھائی دینے والی دنیا (seen world) میں نہ دکھائی دینے والی دنیا (unseen world) کو اپنی بصیرت سے جانا۔ اس نے کنفیوژن کے جنگل میں سچائی کو دریافت کیا۔ اس نے منفی تجربات کے ماحول میں اپنے آپ کو مثبت رویّے پر قائم رکھا۔ اس نے اپنے آپ کو حیوانی سطح سے اوپر اٹھایا اور انسانیت کی اعلیٰ سطح پر کھڑا کیا۔ اس نے اپنے آپ کو بے اعترافی، بددیانتی، سرکشی، خود غرضی، خواہش پرستی اور انانیت جیسی پست صفات سے بچایا۔ جو پورے دل اور جان کے ساتھ جنت کا طالب بنا۔ خلاصہ یہ کہ جس نے خدا رُخی زندگی(God-oriented life) کو پوری طرح اختیار کیا۔
یہ صفات رکھنے والے عورت اور مرد خلاصہ ٔ انسانیت ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جومستقبل کی معیاری دنیا میںبسائے جانے کے لیے منتخب کیے جائیں گے۔ جو لوگ اس معیارپر پورے نہ اتریں ان کو رد کرکے کائناتی کوڑا خانے میں ڈال دیا جائے گا۔ جہاں وہ ہمیشہ کے لیے حسرت کی زندگی گذاریں گے۔ وہ کبھی اِس ذلّت اور حسرت کی زندگی سے نجات نہ پاسکیں گے۔
واپس اوپر جائیں

قانونِ حیات

قرآن کی سورہ نمبر دو میں زندگی کا ایک قانون ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ بإذن اللہ واللہ مع الصابرین۔ یعنی کتنے ہی چھوٹے گروہ بڑے گروہ پر غالب آئے ہیں، اللہ کے اِذن سے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرہ: ۲۴۹)
قرآن کی اِس آیت میں اِذن سے مراد فطرت کا قانون (law of nature) ہے۔ یہ قانون، خالق فطرت نے قائم کیا ہے۔ اس لیے اُس کی حیثیت ایک حتمی قانون کی ہے۔ اس کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ یہ قانون اُسی طرح عمل کرتا ہے جس طرح رات کے بعد دن کا آنا، اور دن کے بعد رات کا آنا۔
فطرت کا یہ قانون تاریخ میں بار بار واقعہ بنا ہے۔ بار بار ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ ایک کثیر گروہ پر غالب آیا ہے۔ مثلاً دَورِ اول میں مکّہ کے مسلمان جو مقابلۃً قلیل تعداد میں تھے وہ اپنے حریف پر غالب آئے جو مقابلۃً ان سے بہت زیادہ تھے۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں امریکا میں وہاں کے تاریکین وطن (emigrants)وہاں کے مقامی باشندوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی کررہے ہیں۔ حالاں کہ تارکین وطن کم ہیں اور مقامی باشندے تعداد میں ان سے زیادہ ہیں، وغیرہ۔
اِس تاریخی ظاہرہ (phenomenon) پر موجودہ زمانے میں کافی مطالعہ کیا گیا ہے، اور واقعات کو لے کر اصول اخذ کیے گیے ہیں۔ اِس موضوع پر چھپنے والی کتابوں میں سے ایک کتاب وہ ے جو برطانی مؤرخ ٹائن بی (وفات : ۱۹۵۴) نے طویل مطالعے کے بعد تیار کی ہے۔ اس کا نام تاریخ کا مطالعہ ہے:
A Study of History, by Arnold Joseph Toynbee
اِس تاریخی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ جب بھی کسی علاقے میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں دوگروہ ہوں۔ ایک تعداد میں کم ہو اور دوسرا تعدادمیں زیادہ ہو۔ ایسے مقام پر خود فطری اسباب کے تحت، دونوں گروہوں کے درمیان دو مختلف قسم کا عمل (process) جاری ہوجاتا ہے۔ اقلیتی گروہ اپنے کو دفاعی پوزیشن میں محسوس کرتا ہے اِس لیے اس کے اندر یہ جذبہ اُبھرتا ہے کہ وہ اپنے حریف اکثریتی گروہ سے زیادہ محنت کرے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ محنت کرکے ہی وہ اپنے بقا (survival) کا انتظام کرسکتا ہے۔ دوسری طرف اکثریتی گروہ کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ عددی اعتبار سے فریقِ ثانی کے مقابلے میں برتر ہے اس لیے اس کا مستقبل محفوظ ہے۔ اس کو کسی کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ اِس بے جا خود اعتمادی کی بنیاد پر اکثریتی گروہ کے اندر عمل کا جذبہ کمزور پڑجاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ تمام حالات میری موافقت میں ہیں، میں کم عمل کرکے بھی زیادہ فائدہ حاصل کرسکتا ہوں۔
دونوں گروہوں کے درمیان اِس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں کے اندر خاموشی کے ساتھ دو مختلف عمل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ایک گروہ کے لیے ترقی کا ضامن بن جاتا ہے، اور دوسرے گروہ کے لیے تنزلی کا ضامن۔ فطرت کے قانون کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ دن بدن تخلیقی اقلیت(creative minority) بننے لگتی ہے۔ اس کے برعکس، اکثریتی گروہ دن بدن غیر تخلیقی اکثریت(uncreative majority) بننے لگتی ہے۔ یہ عمل بلا اعلان خاموشی کے ساتھ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اکثریتی گروہ پر اقلیتی گروہ کے غلبے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
قرآن کے مطابق، فطرت کا یہ قانون جس بنیادی اصول پر مبنی ہے وہ صبر (patience) ہے۔ صبر کوئی پسپائی نہیں، بلکہ وہ قانونِ فطرت سے ہم آہنگی اور منصوبہ بند عمل کا نام ہے۔ مذکورہ صورتِ حال میں ایسا ہوتا ہے کہ اکثریتی گروہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کو صبر کی ضرورت نہیں ۔ اس کی عددی برتری اس کے لیے ہر چیز کا بدل ہے۔ لیکن اقلیتی گروہ کے افرادکے اندر اِس سے مختلف سوچ بنتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کے لیے صرف ایک انتخاب ہے اور وہ صبر ہے۔ اِس طرح اقلیتی گروہ کے لیے صبر ایک جبری انتخاب (compulsive choice) بن جاتا ہے۔
اس طرح حالات کا دباؤ اقلیتی طبقے کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں صبر کی پالیسی اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ وہ صبر کی روش کو ایک مجبوری کے تحت اختیار کرتا ہے لیکن صبر فطرت کا ایک عمومی قانون ہے۔ صبر کا طریقہ ہر حال میں مفید ہوتا ہے خواہ اس کو آزادانہ طور پر اختیار کیا جائے یا مجبورانہ طورپر، ٹھیک اسی طرح جیسے ٹانک کوئی شخص آزادانہ طورپر استعمال کرے یا مجبورانہ طورپر، ہر حال میں وہ اس کی صحت کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
جب ایسا ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ صبر کی پالیسی پر قائم رہتا ہے تو فطرت کے نظام کے تحت، اس کے اندر کئی صفات پیدا ہوجاتی ہیں جو اس کی ترقی اور کامیابی کے لیے ضمانت کا کام کرتی ہیں۔
۱۔ موجودہ دنیا میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں یا اشتعال انگیزی کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں صبر کی روش کا مطلب عملاً یہ ہوتا ہے کہ ناخوش گواریوں کے باوجود اعتدال پر قائم رہنا، اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہونا، منفی اسباب کے باوجود مثبت روش پر قائم رہنا، اِسی کا نام صبر ہے۔ اِس اعتبار سے صبر کی پالیسی اقلیتی افراد کے لوگوں کو اُس چیز کا حامل بنا دیتی ہے جس کو بلند فکری (high thinking) کہا جاتا ہے۔ اِن لوگوں کے اندر اعلیٰ اخلاقیات کی پرورش ہوتی ہے۔ ان کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس کو منصوبہ بند انداز میں کام کرنا کہا جاتا ہے۔ وہ شکایت اور احتجاج کو چھوڑ کر خود اپنے امکانات (potentials) کو بروئے کار لانے پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔ اِس طرح صبر کی پالیسی اقلیتی گروہ کو تخلیقی گروہ بنانے کا سبب بن جاتی ہے۔
۲۔ صبر کی پالیسی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ کا وقت بے فائدہ کاموں میں استعمال ہونے سے بچ جاتا ہے۔ ان کا وقت اور ان کی توجہ زیادہ سے زیادہ تعمیری کاموں میں استعمال ہونے لگتی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ داخلی استحکام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اپنی نسلوں کی تعلیم، اپنے اداروں کی تنظیم، اپنے افراد کی تربیت، اقتصادی شعبوں میں زیادہ سے زیادہ مصروف ہونا، بے نتیجہ کاموں کو چھوڑ کر نتیجہ خیز (result-oriented) کاموں میں اپنے آپ کو لگانا، یہ گویا ان کا گروہی کلچر بن جاتا ہے۔
۳۔ اقلیتی گروہ کے اندر یہ تمام صفات فطری اسباب کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ یہ صفات اِس بات کی ضامن بن جاتی ہیں کہ وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود ان لوگوں سے آگے بڑھ جائیں جو عددی اعتبار سے اکثریت کا درجہ رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

قرآن اور امنِ عالم

امن کی تعریف، عدم جنگ(absence of war) سے کی جاتی ہے۔ مگر یہ امن کی منفی تعریف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امن ایک مثبت قدر کا نام ہے۔ ہر قسم کی تعمیری سرگرمی کے لیے ضروری ہے کہ سماج میں امن کی حالت قائم ہو۔ امن کے بغیر کسی صحت مند سماج کا قیام ممکن نہیں۔
امن کا تصور دنیا میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے۔ اِس شعبۂ مطالعہ کے لیے ایک مخصوص اصطلاح بھی وضع کی گئی ہے، جس کو پیسفزم(Pacifism) کہاجاتا ہے۔ پیسفزم کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ حتی کہ اِس موضوع پر ایک مستقل انسائکلو پیڈیا چھپی ہے، جس کا نام یہ ہے:
An Encyclopaedia of Pacifism (1937)
تاہم قدیم زمانے میں امن کا تصور یہ تھا کہ وہ ایک ایسی حالت ہے جس کو کوئی حکومت اپنی طاقت کے زور پر قائم کرتی ہے۔ چنانچہ رومن امپائر کے عہد میں پیکس رومانا(Pax Romana) کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ رومی اقتدار کے تحت قائم کیا ہوا امن۔ موجودہ زمانے میں جب امریکا کو سپرپاور کی حیثیت حاصل ہوئی تو پیکس امریکانا(Pax Americana) کا لفظ بولا جانے لگا۔ یعنی امریکا کے صنعتی دبدبے کے تحت قائم کیا جانے والا امن۔ امن کے معاملے میں اسلام نے جو فارمولا دیا ہے اس کو اِسی طرح پیکس اسلامیکا(Pax Islamica) کہا جاسکتا ہے۔
مہاتما گاندھی کو اِس باب میں ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ انھوںنے ہتھیار کے استعمال کے بغیر انڈیا کو سیاسی آزادی دلائی۔ چنانچہ اِس موضوع کو لے کر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً:
Mahatma Gandhi's Ideas, by C.F. Andrews.
Gandhi's Notions of Satyagraha, by Hannah Arendt.
مگر اس معاملے میں گاندھی کا کارنامہ ایک ادھوری نوعیت کا کارنامہ ہے۔ گاندھی نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ہتھیار کا استعمال نہیں کیا۔ مگر انھوںنے دوسرا کام یہ کیا کہ عوامی مظاہروں اور سول نافرمانی (civil disobedience) جیسے انتہا پسندانہ طریقوں کو اپنے مقصد کے لیے بھر پور طور پر استعمال کیا۔ اِس طریقِ کار کا منفی نتیجہ یہ ہوا کہ ہندستان سے انگریزوں کاسیاسی اقتدار تو ختم ہوا لیکن اسی کے ساتھ ملک میں نراج کا دَور دورہ ہوگیا۔ قانون شکنی کا مزاج عام ہوگیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کی روایات ٹوٹ گئیں،وغیرہ۔ چنانچہ ۱۹۴۷ میں جو آزاد ہندستان بنا، وہ ایک ایسا ملک تھا جو امریکی پروفیسر گال بریتھ کے الفاظ میں حقیقی جمہوریت سے زیادہ ایک فنکشننگ انارکی(functioning anarchy)کے ہم معنی تھا۔
اصل یہ ہے کہ امن کے قیام کے لیے سب سے پہلے امن کا ایک قابل عمل فارمولا درکار ہے۔ ایک ایسا فارمولا جو لوگوں کی آزادی کو منسوخ کیے بغیر زیر عمل لایا جاسکے۔ جو موجود روایات کو توڑے بغیر امن کی حالت قائم کرے۔ جس کے ذریعے سماج میں کوئی نیا بگاڑ لائے بغیر امن کا حصول ممکن ہوسکے۔ امن کے لیے اِس قسم کا فارمولا پہلی بار قرآن میں پیش کیا گیا، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زیرِ عمل لاکر اس کا ایک باقاعدہ نمونہ تاریخ میں قائم کردیا۔
پیکس رومانا، اور پیکس امریکانا کو اگر سیاسی امن کہا جائے تو قرآن کے اصولِ امن کو اصلاحی امن کا نام دینا درست ہوگا۔ قرآن کا امن فارمولا اِس بات کو ممکن بناتا ہے کہ جبر اور بگاڑجیسی کوئی خرابی پیدا کیے بغیر امن کی حالت قائم کی جاسکے، یعنی وہ حالت جس میں ہر قسم کی تعمیری سرگرمیاں قابلِ عمل ہوجائیں۔
قر آن کے اِس امن فارمولے کو بتانے کے لیے میں نے اپنی کتاب اسلام ری ڈسکورڈ (Islam Rediscovered) میںایک اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ اصطلاح پازیٹیو اسٹیٹس کوازم (positive statusquoism) ہے۔ یعنی حالتِ موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرنا، اور اس کے ہوتے ہوئے عین اُسی وقت جو امکانات(opportunities) پائے جارہے ہیں، ان کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔ یہ ایک کامیاب فارمولا ہے جس کو قرآن میں انّ مع العسر یسرا کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ یعنی مسائل کے ساتھ ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں، اس لیے مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو:
Ignore the problems, avail the opportunities.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے حقیقی معنوں میں امن کا سماج قائم کیا۔ اس سماج کے قیام میں پوری طرح مذکورہ قرآنی فارمولے کو استعمال کیاگیا تھا۔ پیغمبر اسلام کی زندگی گویا کہ امن کے اِس قرآنی فارمولے کی ایک عملی تفسیر ہے۔ آپ کی زندگی کے مطالعے سے ہم جان سکتے ہیں کہ یہ قرآنی فارمولا کس طرح زیر عمل لایا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم مکّہ میں ۶۱۰ عیسوی میں اپنی دعوتِ توحید کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکّہ میںآپ کے لیے ایک سنگین مسئلہ تھا۔ آپ کا مشن یہ تھا کہ آپ کعبہ کو دوبارہ توحید کے عالمی مرکز کی حیثیت سے بحال کریں۔ مگر عملی صورتِ حال یہ تھی کہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئـے تھے۔ اگر آپ ایسا کرتے کہ ’’بت شکنی‘‘سے اپنے کام کا آغاز کرتے تو اس کا انجام یہ ہوتاکہ آپ کی بُت شکنی عملاً امن شکنی کے ہم معنی بن جاتی۔ اِس قسم کی کوشش کے نتیجے میں جوچیز ظہور میں آتی وہ سماجی فساد ہوتانہ کہ سماجی امن۔ آپ نے قرآنی حکمت کے مطابق،اِس معاملے میں ڈی لنکنگ پالیسی (de-linking policy) اختیار کی۔ یعنی بُت کی موجودگی کے مسئلے کو بَروقت نظر انداز کرنا، اور بتوں کے باوجود آپ کے لیے وہاں کام کے جو مواقع موجود ہیں، اُن کو استعمال کرنا۔
کعبہ کے تین سو ساٹھ بت در اصل مختلف عرب قبائل میںپوجے جانے والے بت تھے۔ چنانچہ اِن قبائل کے افراد اپنے بتوں کی زیارت کے لیے برابر وہاں آتے رہـتے تھے۔ اِسی طرح خود اہلِ مکّہ کے لیے بھی کعبہ ایک مرکزِ اجتماع بنا ہوا تھا۔ جہاں وہ روزانہ اکھٹا ہوتے اور اپنے رواج کے مطابق، وہاں اپنے مذہبی مراسم ادا کرتے۔ اِس طرح کعبہ فطری طورپر ایک مقامِ اجتماع بن گیا۔
کعبہ میںرکھے ہوئے بُت بظاہر پیغمبر اسلام کے لیے ایک مسئلہ تھے، لیکن کعبہ کے صحن میں لوگوںکے اجتماع نے اِس مقام کو گویا کہ عربوں کی نیشنل اسمبلی کا درجہ دے دیا تھا۔ آپ نے کعبہ کے اِس دوگونہ پہلو کو سمجھا، اور بصیرتِ قرآنی سے کام لیتے ہوئے یہ کیا کہ آپ نے بتوں کی موجودگی کو وقتی طور پر نظر انداز کیا، اور انسانوں کی موجودگی کو اپنی دعوت کے لیے مقامِ خطاب کے طورپر استعمال کیا۔ چنانچہ آپ پُرامن طور پر وہاں جاتے اور لوگوں کو قرآن کے حصے پڑھ کر سُناتے۔ اِس طرح قرآن کا پیغام کسی ٹکراؤ کے بغیر خاموشی کے ساتھ عرب قبائل میں پہنچنے لگا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک پُرامن پیغام رسانی کا یہ مشن چلاتے رہے۔ قریش نے دیکھا کہ لوگ آپ کے کلام سے متاثر ہو کر آپ کے دین میں داخل ہورہے ہیں، اِس لیے وہ آپ کے مخالف ہوگیے۔ یہ مخالفت اتنی زیادہ بڑھی کہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سب مل کر آپ کو قتل کرڈالیں، اور اس طرح آپ کے مؤحّدانہ مشن کو ختم کردیں۔یہ ایک سنگین صورت تھی۔ آپ نے پیشگی طورپر اس کا اندازہ کرلیا اور مکّہ میں قیام کے زمانے ہی میں اپنے دو ساتھیوں کو مکّہ سے تین سو میل دور واقع شہر مدینہ بھیج دیا۔ یہ لوگ وہاں جاکر توحید کی پُرامن تبلیغ کرنے لگے۔ اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے ۔ اِس لیے اُن کو مُقری کہاجانے لگا، یعنی پڑھ کر سنانے والا۔ اِس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ کے لوگ تیزی سے اسلام قبول کرنے لگے۔ یہاں تک کہ مدینہ کے ہر گھر میں اسلام داخل ہوگیا۔
اس تجربے سے اندازہ ہوا کہ مدینہ کے حالات مکّہ کے حالات سے مختلف ہیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے فیصلہ کیا کہ وہ مکّہ والوں سے متشدّدانہ ٹکراؤکی نوبت نہ آنے دیں۔ اِس کے بعد آپ یک طرفہ فیصلے کے تحت، مکّہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔ اِس واقعہ کو اسلام کی تاریخ میں ہجرت کہا جاتا ہے۔ ہجرت کا مطلب ہے—تشدد کے مقام کو چھوڑ کر ایسی جگہ چلے جانا جہاں پُر امن طورپر کام کرنے کے مواقع پائے جاتے ہوں۔
پیغمبر اسلام نے پُر امن عمل کا یہی طریقہ اپنی پوری زندگی میں اختیار کیا۔ ہجرت کے بعد قریش نے آپ کے خلاف جنگی کارروائی شروع کی تو آپ ہر قیمت پر اس سے اعراض کرتے رہے۔ چند بار صرف اُس وقت محدودطور پر دفاعی جنگ کی نوبت آئی جب کہ فریقِ مخالف کے جارحانہ اقدام نے آپ کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ آخر میں آپ نے خود اپنی طرف سے مخالف قبیلہ قریش سے امن کی بات چیت شروع کی۔ وہ لوگ ضد پر اُترآئے تو آپ نے اُن کی شرطوں کو یک طرفہ طورپر منظور کرتے ہوئے اُن سے ناجنگ معاہدہ(no war pact) کرلیا۔ اِس معاہدے کا خلاصہ یہ تھا کہ—دونوں فریق اپنے اپنے دائرے میں امن پر قائم رہیں گے اور دوسرے کے خلاف وہ کوئی متشددانہ کارروائی نہیںکریں گے— اِس معاملے کی تفصیل راقم الحروف کی کتاب ’ امنِ عالم‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

دولت کا مسئلہ

امریکا کے انتہائی دولت مند لوگوں کے بارے میں ایک جائزہ شائع کیا گیا ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’چاندی کے چمچہ سے محروم بچے‘‘(Off with Silver Spoon) ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ:
امریکا میں دولت ایک بیماری بن رہی ہے جس کو افلوئنزا (Affluenza) کا نام دیاگیاہے۔ وہاں کے دولت مند لوگ اس بیماری سے چھٹکارا پانے کی تلاش میں ہیں۔ ایک حالیہ مطالعہ کے مطابق، پانچ دولت مندوں میں سے ایک، اپنے بچوں کے لیے وراثت کو محدود کررہے ہیں تاکہ زندگی کی ہر چیز انھیں چاندی کی ٹرے میں رکھی ہوئی نہ مل جائے۔
اس سلسلے میں جن دولتمندوں کے نام دئے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: بِل گیٹس، ٹیڈٹرنر، ہالی وڈ ہیروئن جیمی لی کرٹس اور کیتھرین زیٹا جونس وغیرہ۔ یہ سب لوگ ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ ان کے بچے اَفلوئنزا کی بیماری سے محفوظ رہیں۔ یعنی زیادہ دولت سے جڑے ہوئے اخلاقی، جذباتی اور عملی مسائل۔
بل گیٹس کی بیوی ملینڈا (Melinda) کہتی ہیںکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے مصنوعی بڑائی کے خول میں ایک بے مقصد زندگی گزاریں۔ بچوں کا نقصان خیراتی کاموں کے لیے نفع بن گیا ہے۔ چنانچہ کثیر دولت رکھنے والے اِن والدین نے مجموعی طورپر بارہ ارب پونڈ خیراتی کاموں کے لیے دئے ہیں:
Off with Silver Spoon
Protection from 'affluenza' is what American millionaires and billionaires are seeking now. According to a recent study, about one in five among them are limiting their children's legacies to assure that they don't get everything in life on a silver platter. From Bill Gates, media baron Ted Turner, to Hollywood stars Jamie Lee Curtis and Catherine Zeta-Jones, they are all taking steps to ensure that their children do not fall victim to affluenza— the moral, emotional and practical problems associated with having to much money. Says Bill Gates' wife, Melinda: “We don’t want our kids to lead a paranoid, pointless life.” And the kids’ loss is charity’s gain. Fo these super-rich parents have donated a total of £12 billion in charity. Life Positive Monthly, New Delhi, April 2002 (p. 86)
جو لوگ دولت سے محروم ہیں، وہ دولت کو ایک نعمت سمجھتے ہیں، لیکن جب کوئی شخص دولت کو پالیتا ہے تو دولت کا تجربہ اس کے پچھلے احساس کو بدل دیتا ہے۔ اب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر بے دولت ہونا ایک مسئلہ ہے تو دولت مند بننا بھی ایک مسئلہ ہے، بلکہ شاید شدید تر مسئلہ۔
ایک شخص جو ابتدا میں غریب تھا، بعد کو اس کے پاس کافی دولت آگئی۔ اس کے ماضی کے ایک دوست نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ جب سے تمھارے پاس دولت آئی ہے، تم کافی بدل گیے ہو۔ دولت مند آدمی نے اپنے دوست سے کہا—میرے اوپر دولت کی بجلی گری ہے، یہی میرا مسئلہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر دولت ملنے سے پہلے آدمی کو اس کا تجربہ ہوجائے تو کبھی کوئی شخص دولت کی تمنا نہ کرے۔ وہ دولت کا حریص بننے کے بجائے قناعت کی زندگی کو اپنے لیے بہتر سمجھے۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان مسئلہ کیوں بن گیے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیثیں محفوظ حالت میں ہم تک پہنچی ہیں اُن میں سے کچھ حدیثیں وہ ہیں جن میں آپ نے اپنی امت کو مستقبل کے کچھ فتنوں سے پیشگی طورپر خبر دار کیا ہے۔ اس قسم کی حدیثوں میں سے ایک حدیث وہ ہے جس میںآپ نے فرمایا: واذا وضع السیف فی امتی لم یرفع منہا إلی یوم القیامۃ (ابو داؤد، کتاب الفتن، الترمذی ،کتاب الفتن، ابن ماجہ، کتاب الفتن، مسند احمد) یعنی میری امت کے اندر جب تلوار داخل ہوگی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اُٹھائی نہ جائے گی۔
سیف (تلوار) تشدد کی علامت ہے۔ اس قولِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اندر جب ایک بار متشددانہ طریقہ داخل کردیا جائے تو پھر وہ نسل در نسل جاری رہے گا۔ حتیٰ کہ اگر اس رجحان کو بدلنے کی خصوصی کوشش نہ کی گئی تو عین ممکن ہے کہ وہ برابر امت کے اندر جاری رہے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام کی پیشین گوئی بالکل لفظی طورپر درست ثابت ہوتی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، خلیفۂ ثالث عثمان بن عفان کے آخری زمانہ میں سیف، بالفاظ دیگر، متشددانہ طریق کار امت مسلمہ کے اندر داخل ہوا، اس کے بعد پھر وہ کبھی ختم نہ ہوسکا۔ اِس وقت سے لے کر آج تک پوری امت کا یہ حال ہے کہ اُس کے کچھ افراد اگر عملی تشدد میں مشغول ہیں تو اس کے کچھ افراد فکری تشدد میں ۔ کچھ لوگ اگر اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف گن اٹھائے ہوئے ہیں تو دوسرے لوگ براہِ راست یابالواسطہ طورپر اس کی تصدیق اور تبریر کرنے میں مشغول ہیں۔
اصل یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، اُس وقت عرب میں اور ساری دنیا میں مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) کا زمانہ تھا۔ مروجہ مذہب کے لوگ جب بھی دیکھتے کہ کوئی فرد یا گروہ اُن سے الگ کوئی مذہب اختیار کررہا ہے تو وہ اُس کے سخت مخالف بن جاتے۔ مذہبی رواداری (religious tolerance) جو موجودہ زمانے میں دکھائی دیتی ہے، اس زمانہ میں اس کا سرے سے کہیں وجود نہ تھا۔
یہی زمانی رُکاوٹ ہے جس کا سامنا پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں کو پیش آیا۔ لوگ پیغمبر اور آپ کے اصحاب کے ساتھ جارحیت کی حد تک ناروا داری کا معاملہ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کو اور آپ کے اصحاب کو اپنے وطن مکہ سے نکل جانے پر مجبور کردیا۔ اس وقت قرآن میں یہ حکم دیاگیا کہ: وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ (البقرہ ۱۹۳)
اس آیت میں فتنہ سے مراد یہی مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مذہب کے جائز معاملہ میں تمھارے خلاف تشدد کررہے ہیں اور جارحیت کی حد تک جاکرتمھارے خلاف رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں، اُن سے دفاعی جنگ لڑو، یہاں تک کہ مذہبی جبر(فتنہ) کی حالت ختم ہوجائے اور مذہبی آزادی کی حالت قائم ہوجائے۔ مذہبی جبر یا مذہبی ایذارسانی اپنے آپ میں ایک جارحانہ فعل ہے، اور دوسری جارحیت کی طرح، اس جارحیت کے خلاف جو جنگ کی جائے وہ بھی دفاعی جنگ ہے۔
پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے یہی مدافعانہ جنگ کی۔ یہ گویا ایک قسم کا وقتی آپریشن تھا۔ یہ آپریشن بہترین تربیت یافتہ انسانوں کے ذریعہ کیاگیا، اور یہ آپریشن اصحاب رسول کی اگلی ہی نسل میں تقریباً مکمل ہوگیا۔
جیسا کہ معلوم ہے، یہ آپریشن ہجرت مدینہ کے بعد شروع ہوا ،پہلے عرب میںاور اس کے بعد ایرانی سلطنت اور بازنطینی سلطنت کے دائرہ میں۔ یہ آپریشن پیغمبر اسلام کے زمانہ میں شروع ہوا اورخلیفۂ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں وہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ یہ پورا کام خدا کی خصوصی مدد سے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا بڑا آپریشن صرف پچیس سال کے مختصر عرصہ میں مکمل ہوگیا۔ قتال فتنہ کی آیت کا یہ مفہوم دوسرے نصوص کے علاوہ، عبد اللہ بن عمرکی تشریح سے ثابت ہے، جو صحیح البخاری میںایک سے زیادہ مقامات پر آئی ہے۔
خلافت راشدہ کے بعد جب بنوامیّہ کی سلطنت شروع ہوئی تو عبد اللہ بن زبیر نے اس کے خلاف خروج کیا۔ اس کے نتیجہ میںعبد اللہ ابن زبیر اور بنو امیہ کے گورنر حجاج بن یوسف کے درمیان جنگ پیش آئی۔ عبداللہ بن عمر ایک سینئر صحابی کی حیثیت سے مکہ میں موجود تھے، مگر اُنھوں نے اس جنگ میںشرکت نہیں کی۔ عبداللہ بن زبیر کے کچھ ساتھی عبد اللہ بن عمر کے پاس گئے اور اس جنگ میں اُنھیں شرکت کی دعوت دی۔ اُن لوگوں نے قرآن کی آیت قتال فتنہ (الانفال ۳۹) کا حوالہ دے کر کہا کہ ہماری یہ جنگ قرآن کے اس حکم کے تحت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو۔ فتنہ کے خلاف جنگ سے مراد مذہبی تشدد کے خلاف جنگ تھی۔ ہم نے لڑ کر اس فتنہ کو ختم کردیا۔اب تم لڑ رہے ہو تاکہ جو فتنہ ختم ہوچکا ہے وہ دوبارہ نئے نام کے ساتھ لوٹ آئے (فتح الباری، جلد ۸، صفحہ ۳۲، ۱۶۰)
تاہم حضرت عبد اللہ بن عمر کے اس احتجاج کے باوجود امت کے اندر تشدد کا طریقہ جاری رہا، یہاں تک کہ وہ امت کی پوری تاریخ پر پھیل گیا۔ قتال فتنہ کے حکم سے مراد دراصل یہ تھا کہ مذہبی تشدد کے دور کو ختم کرکے مذہبی آزادی کا دور لایا جائے۔ مگر بعد کے دور میں اُس کو سیاسی معنی میں لے لیا گیا۔ اب اس کا مطلب یہ ہوگیا کہ دوسری قوموں کے اقتدار کو ختم کر کے مسلمانوں کا اقتدار دنیا میں قائم کیا جائے۔ یہ قرآنی حکم کے معاملے میں ایک انحراف تھا، تاہم یہ انحراف عمل میں آیا، حتی کہ وہ پوری مسلم تاریخ پر چھاگیا۔
سیاسی حوصلہ مندوں کو یہ نظریہ بہت موافق نظر آتا تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے بہت جلد پورے زور کے ساتھ اس کو پکڑ لیا۔ یہ رجحان اتنا زیادہ بڑھا کہ اسلام عملاً کِشور کُشائی اور ملک گیری کا ایک مذہب بن گیا اور اسی کے ساتھ تشدد کا بھی۔ کیوں کہ کشور کُشائی اور ملک گیری کی مہم تشدد کے بغیر چلائی نہیں جاسکتی۔ سیاسی حوصلہ مندوں کے اس عمل میں چند چیزوں سے خصوصی نظریاتی مدد ملی۔ اس طرح اُنھیں اپنی عملی سیاست کے لیے نظریاتی جواز بھی حاصل ہوگیا۔
ایک یہ کہ قدیم زمانہ کے رواج کے مطابق، اسلام کی تاریخ سیاسی نمونہ پر لکھی گئی۔ خلافت عباسیہ سے لے کر بعد کے زمانہ تک جتنی بھی تاریخیں لکھی گئیں، وہ سب کی سب قدیم پیٹرن پر لکھی گئیں۔ قدیم پیٹرن میں جنگ و فتح اور سیاسی معرکہ آرائیوں کو سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا اور انھیںکوتاریخ کی کتابوں میں ریکارڈ کیاجاتا تھا۔
ان سیاسی حوصلہ مندوں کو جن چیزوں سے نظریاتی تائید ملی، اُن میں سے ایک، تاریخ نویسی کا یہ قدیم طریقہ تھا۔ یہ تمام تاریخیں حقیقتاً مسلم بادشاہوں کی تاریخیں تھیں۔ اُن کی قائم کردہ ہر سلطنت خاندانی خلافت (dynasty) تھی۔ مگر ان تاریخوںکو ’’اسلامی تاریخ‘‘ کا نام دے دیاگیا۔ اس طرح مسلم خاندانوں کی یہ حکومتیں اسلامی حکومتیں قرار پائیں۔
اس سلسلہ میں دوسری نظریاتی تائید فقہ سے حاصل ہوئی۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ فقہ عباسی سلطنت کے دورمیں مرتب ہوئی۔ اس میں وقت کے رجحان کے مطابق، نہ کہ قرآن اور سنت کی تعلیم کے مطابق، ساری دنیا کو دو علاقوں میں تقسیم کردیاگیا، دار الاسلام اور دار الحرب۔
دار الاسلام سے مراد وہ زمینی علاقے تھے جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم تھی۔ اور دار الحرب سے مراد وہ علاقے تھے جہاں مسلمانوں کی حکومت ’’ابھی‘‘ قائم نہیں ہوئی۔ یہ فرض کر لیاگیا کہ یہ تمام غیر مسلم علاقے گویا امکانی طورپر مسلمانوں سے حالت جنگ (potentially at war) میں ہیں، اس لیے ان کو دار الحرب کا نام دے دیا گیا۔
دار الحرب اور دار الکفر کی اصطلاحیں بلا شبہہ اجتہادی ہیں، وہ کسی نصّ صریح پر مبنی نہیں۔ جن لوگوں نے اپنے اجتہاد سے یہ اصطلاحیں وضع کیں وہ ایک حدیث کے مطابق، اس پر یقینا اجتہادی خطا کا اجر پائیں گے، مگر ان کو درست اجتہاد کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بلاد کی تقسیم کے لئے صحیح طورپر دو ہی ابدی اصطلاحیں ہیں، دارالدعوہ، اور دارالاسلام۔ جہاں اسلام کا حکم قائم ہو جائے وہ دارالاسلام ہے اور جہاں ایسا نہ ہو وہ دار الدعوہ ہے۔ ان کے سوا کوئی تیسری اور چوتھی اصطلاح اسلام کی تعلیم کے مطابق نہیں۔
اس معاملہ میں دور اول کو لیجئے۔ نبوت کے ابتدائی زمانہ میں مکہ اور مدینہ اور دوسرے تمام علاقے ایک ہی قسم سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سب کے سب دار الدعوہ تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میںاسلام کا اقتدار قائم ہوگیا تو اس کے بعد مدینہ دار الاسلام بن گیا اور دوسرے علاقے، بشمول مکہ، دارالدعوہ کی حیثیت سے قائم رہے۔ اسی طرح عرب کے باہر کے ملکوں کی حیثیت بھی دارالدعوہ کی تھی۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ملکوں کے حکمرانوں کو دعوتی مکاتیب روانہ کئے۔
بلاد کی اس تقسیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دارالاسلام کے علاوہ جو علاقے ہیںان کو بھی سیاسی معنوں میں دار الاسلام بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس قسم کا نظریہ سراسر بے بنیاد ہے۔ دیگر علاقوں کے لیے اہلِ اسلام کی ذمہ داری صرف دعوت ہے، اول بھی اور آخر بھی۔ پر امن دعوت کے سوا کسی بھی قسم کی دوسری کارروائی اہل اسلام کے لیے جائز نہیں۔
فقہ کی کتابوں میں،اور دوسرے موضوعات کی کتابوں میں عام طور پر بلاد الکفر اور بلاد الکفار کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ اسلوب یقینی طورپر درست نہیں۔ غیر مسلم ملکوں کا ذکر ان کے اپنے معروف نام کے ساتھ کیا جانا چاہئے نہ کہ بلاد الکفر یا بلاد الکفار کے الفاظ میں۔ اس طرح کے معاملات میں ہمیں خود ساختہ طریقہ اپنانے کے بجائے انٹرنیشنل آداب کو اپناناچاہیے۔ اس سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ ہر انسان کی جو فطرت ہے وہی خود اسلام بھی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر انسان امکانی طورپر مسلم ہے:
Every human being is potentially Muslim.
ایسی حالت میں ہمارا نقطۂ نظر دوسرے انسانوں کے بارے میں وہی ہونا چاہئے جوخود مسلمانوں کے بارے میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ سارے انسان امکانی طورپر مسلم ہی ہیں۔ اسلام کی پوری تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے۔
اسی طرح دشمن اور دوست کی تقسیم بھی عمومی طور پر درست نہیں۔ ایک گروہ اگر یکطرفہ طورپر اہل اسلام پر حملہ کردے تو ایسی حالت میں اہل اسلام وقتی طورپر دفاع کی ذمہ داری کو پورا کریں گے۔ مگر بظاہر زیادتیوں کے باوجود ،کسی گروہ کو مستقل طورپر دشمن سمجھ لینا درست نہیں۔ قرآن کے مطابق، اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ اپنے دشمن کو بھی امکانی طورپر اپنا دوست سمجھیں، وہ یکطرفہ حسن اخلاق کے ذریعہ اپنے دشمن کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں(حٰم السجدہ ۳۴)
ہجرت کے بعد مدینہ جب دارالاسلام بن گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مکہ دارالکفر یا دار الحرب ہوگیا۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مدینہ اگر بالفعل دار الاسلام تھا تو مکہ بالقوہ دار الاسلام، جیسا کہ بعد کی تاریخ سے ثابت ہوا۔ بلاد کی تقسیم کے بارے میں یہی صحیح اسلامی نقطۂ نظر ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ بلاد کی یہ تقسیم مکمل طورپر غیر سیاسی معنوں میں ہے نہ کہ سیاسی معنوں میں۔ دوسرے اسباب کے علاوہ یہ دو اسباب، فقہ اور تاریخ، گویا اس مسلم سیاست کے لیے نظریاتی تائید کے ہم معنی بن گئے۔
انیسویں صدی کے آخر میں قدیم طرز کی مسلم سلطنتوں کا دور ختم ہوگیا۔ حالات کی اس تبدیلی کے بعد، مسلم دنیا میں یہ ذہن پیدا ہونا چاہیے تھا،انھیں اب نیے حالات کے مطابق، ازسرِ نو اپنی تیاری کرنا ہے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ عین اُس وقت مسلمانوں میں وہ گروہ پیدا ہوا جس کو عام طورپر انقلابی مفکرین کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے قدیم جارحانہ سیاست کے حق میں ایک اور نظریاتی تائید فراہم کردی۔یہ اسلام کی سیاسی تشریح تھی۔ ان لوگوں نے قرآنی آیتوں کی نام نہاد انقلابی تشریح کرکے بتایا کہ اسلام کا مقصد ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کرنا ہے۔ کسی مسلمان کا اسلام اُس وقت تک مکمل ہی نہیں، جب تک وہ ایسا نہ کرے کہ یا تو اسلام کی حکومت بالفعل قائم کردے یا اسی راہ میں وہ اپنے آپ کو قربان کردے۔
اس جدید تشریح نے مذکورہ قسم کی غلطی کو عملی انحراف سے بڑھا کر عقیدہ کا درجہ دے دیا اور اس طرح سیاسی تشدد کو یہ حیثیت دے دی کہ وہ کسی مسلمان کے لیے جنت کا سب سے زیادہ یقینی ٹکٹ ہے، اسلام کے نام پر تشدد کرنے والے مرد اور عورت سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔
فارسی کی ایک مثل ہے کہ پدرم سلطان بود۔ میرا باپ بادشاہ تھا۔ مذکور تفصیلات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ مسلمانوں کی ہزار سال کی تاریخ کا خلاصہ دو جملوں میں یہ ہے کہ دورِبادشاہت میں مسلمان اس احساس میں جی رہے تھے کہ پدرم سطان است،اور دور بادشاہت کے خاتمہ کے بعد اب وہ اس احساس میں جی رہے ہیں کہ پدرم سطان بود۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دور میں وہ دوسری قوموں سے اس لیے لڑ رہے تھے کہ وہ ان کی حاکمانہ حیثیت کو تسلیم کریں، اور اب اس لیے لڑرہے ہیں کہ وہ اُن کی کھوئی ہوئی حاکمانہ حیثیت کو اُن سے واپس لیں۔ یہی دو جملوں میں ہزار سالہ مسلم تاریخ کا خلاصہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب فتنہ کاخاتمہ ہوا، دوسرے لفظوں میں یہ کہ جب مذہبی تشدد کا دور ختم ہوا اور مذہبی آزادی کا دور شروع ہوا تو اب ضرورت تھی کہ امن کے نظریہ پر اسلام کی پُرامن آئڈیالوجی کو واضح کیا جائے۔ یہ بتایا جائے کہ اسلام کاتشدد سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کا اصل کنسرن صرف مذہبی آزادی کی حالت کا قائم ہونا ہے،اور وہ اب پوری طرح قائم ہوچکی ہے۔ اس لیے اب کرنے کا کام یہ ہے کہ مذہبی آزادی کو استعمال کرکے دعوت وتعمیر کے کام کی پُرامن منصوبہ بندی کی جائے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔
میرے علم کے مطابق، خلافت راشدہ کے بعد صرف دو مسلم شخصیتیں ہیں جنھوںنے اس راز کو سمجھا اور اس کا اعلان کیا۔ ایک، عبداللہ بن عمرصحابی، اور دوسرے،عمر بن عبدالعزیز تابعی۔ مگر یہ نظریہ عمومی قبولیت حاصل نہ کرسکا۔ وہ ایک انفرادی اظہار خیا ل بن کر رہ گیا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر نے ابن زبیر کے زمانہ میں جو بات کہی تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ قرآن میں فتنہ سے مراد مذہبی تشدد تھا، وہ اب ختم ہوگیا ۔ اس لیے اب کسی اور چیز کو فتنہ بتا کر اس کے خلاف لڑائی چھیڑنا عملاً فتنہ کو نئے عنوان سے واپس لانے کا سبب بن جائے گا۔ یعنی آپ غیر اسلامی سیاست کو ختم کرنے کے نام پر حکمراں سے جنگ چھیڑیں گے۔ چونکہ آپ کی یہ جنگ اسلام کے نام پر ہوگی اس لیے حاکم آپ کی تشریح کے مطابق، اسلام کو اپنا حریف سمجھ لے گا اور غیر ضروری طورپر یہ کرے گا کہ جو لوگ اسلام کے نام پر تحریک اٹھائیں، اُنھیں اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھ کر وہ انھیں کچل دے۔ اس طرح فتنہ کی حالت نئے عنوان کے ساتھ دوبارہ تاریخ میں واپس آجائے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کو پانچواں خلیفۂ راشدکہا جاتا ہے۔ اُن کے زمانے میں عمومی طور پر امن کی حالت قائم ہوگئی تھی۔ چنانچہ غیر مسلم قومیں کثرت سے اسلام میں داخل ہونے لگیں۔ اُس وقت اُن کے ایک گورنر نے کہا کہ اسلام کی یہ توسیع اگر اسی طرح جاری رہی تو خراج کی رقم بہت کم ہوجائے گی اور ہمارا بیت المال خالی ہوجائے گا۔حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا: ویحک ان محمداً بعث ہادیاً ولم یبعث جابیاً۔
اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تباہ کن کردار موجودہ زمانہ کے نام نہاد انقلابی مفکرین نے ادا کیا ہے۔ اُنھوں نے اسلام کی خود ساختہ تشریح کرکے مسلمانوں کو بتایا کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے۔ اور اس مکمل سیاسی نظام کو عملاً نافذ کیے بغیر اُن کے اسلام کی تکمیل نہیں ہوگی۔ یہ غلط تشریح بعض اسباب سے ساری دنیا میں پھیل گئی۔ اب مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ مجنونانہ طورپر ساری دنیا سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ اُن کے درمیان ایسے انتہاپسند علماء پیدا ہوگیے ہیں جو اس معاملہ میں خود کُش بم باری کو استشہاد (طلب شہادت) قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مفروضہ دشمن کو مارنے کے لیے تم خود کُش بم باری کی حد تک جاسکتے ہو اور اس طرح اپنی جنت کو یقینی بنا سکتے ہو۔
قرآن میں جہاد کا لفظ پُر امن جدوجہد کے معنی میں ہے۔ بعض اوقات جہاد کے لفظ کو توسیعی معنیٰ میں قتال یا پُر تشدد طریق کار کے لیے استعمال کیا گیا ۔ مگر بعد کے زمانہ میں جہاد کوعملاً قتال کا ہم معنیٰ بنا دگیا اور اُس کو عملی طورپر پُر تشدد طریق کار کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا، جو کہ بلاشبہہ غلط تھا۔
صوفیا اسلام کے اسی پُر امن طریق کار کے نمائندے تھے۔ اُنھوں نے ساری دنیا میں بڑے بڑے دعوتی کام کئے۔ مگر پوری تاریخ میں جہاد (بمعنی قتال) کا تصور اتنا غالب تھا کہ صوفیاء کے طریقہ کو فراریت (escapism)کے ہم معنی سمجھا گیا۔ صوفیاء کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ پُر امن طریق کار کو ایک مکمل آئڈیالوجی کے طورپر مدلّل اور مفصل کرکے پیش کریں۔ اس لیے علمی اعتبار سے صوفیاء فراریت کے درجہ میں رہے، وہ اسلام کی مین اسٹریم کے نمائندہ نہ بن سکے۔
قرآن کے مطابق، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قتال سے مراد متشددانہ طریقِ کار ہے اور جہاد سے مراد پُر امن طریقِ کار۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ جہاد کو قتال کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس طرح جہاد کے حوالہ سے پُر امن طریقِ کار کا تصور تاریخ سے عملی طور پر حذف ہوگیا۔
موجودہ دنیا مسابقت کے اصول پر چل رہی ہے۔ یہاں ہمیشہ ایک اور دوسرے کے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں آدمی کے لیے صرف دو ممکن انتخاب ہے۔ ایک، حالتِ موجودہ (status quo) کو مان لینا۔ اور دوسرے، اگر وہ ماننا نہیں چاہتا تو دوسری صورت یہ ہے کہ مکمل طورپر پُر امن دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری کرنا۔ ان دو کے سوا جوصورت ہے وہ صرف مزید تباہی کی صورتیں ہیں، وہ یقینی طورپر کامیابی کی صورت نہیں۔
آج سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ جہاد بالقرآن کے اصول کو عام کیا جائے۔ یعنی اسلام کو ایک پُرامن آئڈیا لوجی کے طورپر دنیا کے سامنے لایا جائے۔ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام کا نشانہ اقتدار نہیں ہے، بلکہ دعوت ہے۔ اسلام میں دشمن سے لڑنا نہیں ہے بلکہ دشمن کو اپنا دوست بنانا ہے۔
اس مقصد کا تقاضا ہے کہ ایک طرف صبر کے ذریعہ مسلمانوں اور غیر مسلموں، بالفاظ دیگر، داعی اور مدعو کے درمیان معتدل فضا قائم کی جائے۔ اور دوسری طرف پُر امن دعوتی عمل کو لوگوں کے درمیان مؤثر طورپر چلایا جائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک عظیم ایمانی صفت

ایمان کیا ہے، ایمان نام ہے خدا کو اس کی عظمتوں کے ساتھ دریافت کرنے کا۔ خدا کی عظمتوں کو دریافت کرنا، دوسرے اعتبار سے خوداپنے بے عظمت ہونے کو دریافت کرنا ہے۔ یہ دریافت آدمی کے اندر کامل تواضع(modesty) کی صفت پیدا کرتی ہے۔
تواضع کے فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو پورے معنوں میں علم کا طالب بنا دیتی ہے۔ اس دنیا میں سب سے بڑا جاننے والا وہ ہے جو اس احساس میں جینے لگے کہ میں نہیں جانتا۔ تواضع آدمی کے اندر یہی صفت پیدا کرتی ہے۔ تواضع آدمی کو اس قابل بنادیتی ہے کہ اس کا علمی سفر کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل (process) کبھی ختم نہ ہو۔
خلیفۂ ثانی عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ایک سے علم حاصل کرتے تھے(کان یتعلم من کل احد) دوسرے لفظوں میں یہ کہ عمر فاروق کے اندر اضافۂ علم کا عمل (learning process) مسلسل جاری رہتا تھا، وہ کبھی بند نہیں ہوتا تھا۔
ایساکیوں ہوتا تھا۔ اس کا ایک عام طریقہ یہ تھا کہ عمر فاروق جب کسی سے ملتے تھے تو اپنی بات سنانے سے زیادہ وہ اس کی بات سننے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ ہر ایک سے سوال کرکے اس کے تجربات اور معلومات سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
یہ اضافۂ علم صرف اس لیے ممکن ہوتا تھا کہ وہ ایک بے حد متواضع آدمی تھے۔ وہ اپنی بڑائی میں جینے کے بجائے حق کی بڑائی میں جیتے تھے۔ اس نفسیات نے ان کو ابدی طورپر ایک طالب (seeker) بنا دیا تھا۔
حضرت عمر فاروق کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کسی وجہ سے ان کے کسی فیصلہ میں غلطی ہوجاتی تھی تو خواہ وہ غلطی کتنی ہی چھوٹی ہو وہ فوراً اس کو قبول کر لیتے اور کھلے طورپر انتہائی شدت کے ساتھ یہ کہہ پڑتے کہ —لولافلانٌ لہلک عمر (اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا)
اپنی غلطی کا اعتراف، مومن کے لئے عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ مومنانہ مزاج یہ ہے کہ کوئی چھوٹی غلطی ہو تب بھی وہ انتہائی الفاظ میں اس کا عتراف کرے۔ مومن اعتراف خطا کو عبادت سمجھتا ہے، اس لیے وہ اس سلسلہ میں کسی ادنیٰ کمی کو بھی گوارہ کرنے کے لیے تیار نہیںہوتا۔
واحد چیز جو غلطی کے اعتراف میں رکاوٹ بنتی ہے وہ کبر ہے۔ مومن کبر خفی اور کبر جلی دونوں سے پاک ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی چیز اس کے لیے اپنی غلطی کے اعتراف میں رکاوٹ نہیں بنتی۔مومن کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ —اپنی غلطی کا فوراً اعتراف کرو، خواہ اس کے نتیجہ میں تم دوسروں کی نظر میں چھوٹے بن جاؤ۔
عمر فاروق کے اسوہ سے مزید یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں مومن کی حسّاسیت اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ غلطی تو درکنار وہ شبہِ غلطی پر بھی تڑپ اٹھتا ہے اور کھلے لفظوں میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کرلیتا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں لوگ نکاح میں عورتوں کے مہر زیادہ باندھنے لگے۔ عمرفاروق نے ایک بار اپنے خطبہ میں لوگوں کے سامنے کہا کہ زیادہ مہر باندھنا اسلامی طریقہ کے خلاف ہے۔ تم لوگ ایسا نہ کرو۔ اگر کوئی شخص زیادہ مہر باندھے گا تو میں فاضل رقم ضبط کرکے اس کو بیت المال میں داخل کردوں گا۔ اس پر ایک بوڑھی عورت اٹھی اور اس نے کہا کہ اے عمر، تم کو ایسا کہنے کا کیا حق ہے، جب کہ خدا نے فرمایا ہے کہ اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اس کو بہت سا مال دے چکے ہو تو تم اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ (وإن أردتم استبدال زوجٍ مکان زوجٍ واٰتیتم إحداہنّ قنطاراً فلا تأخذوا منہ شیئا، النساء ۲۰)
بوڑھی خاتون کا یہ حوالہ خالص منطقی اعتبار سے درست نہ تھا۔ کیوں اس آیت میں قنطار (مال کثیر) سے مراد مہر کے علاوہ مال ہے نہ کہ بوقت نکاح دی ہوئی مہر۔ مگر حضرت عمر کی حسّاسیت نے اس پہلو کو نظر انداز کردیا۔ یہ اگر چہ ان کی غلطی نہ تھی بلکہ یہ ایک شبہِ غلطی کا معاملہ تھا۔ اس کے باوجود اپنی متواضعانہ نفسیات کی بنا پر وہ منبر سے اتر پڑے اور کہا: کل الناس أفقہ منک یا عمر حتی العجائز( تمام لوگ ، اے عمر، تجھ سے زیادہ جانتے ہیں حتی کہ بوڑھیاں بھی)۔ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: أصابت امرأۃ وأخطأ رجل(ایک عورت نے صحیح کہا اور عمر نے غلطی کی)۔
مومن کے لیے اپنی غلطی کا اعتراف در اصل اعلیٰ ترین عبادت کے ہم معنی ہوتا ہے۔ وہ اپنے کو خطاوار مان کر خدا کے بے خطا ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ وہ اپنے کو چھوٹا بتا کر اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ بڑائی تو صرف ایک خدا کا حق ہے، کسی انسان کے لیے کوئی بڑائی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا کوئی موقع مومن کے لیے ایک نادر موقع ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنی عبودیت کا ثبوت دے کر خدا کی قربت حاصل کرے۔ یہ مومن کے لیے ایک ایسے عمل کا موقع ہے جس سے زیادہ اور قیمتی موقع کوئی نہیں۔
معمولی حالات میں اپنی عبودیت کا اظہار بھی اگر چہ ایک اجرکا کام ہے، مگر وہ موقع جب کہ عبودیت کا اعتراف اپنی انا کو کچلنے کی قیمت پر ہو، وہ ایک ایسا انوکھا عمل ہے جس سے بڑا عمل اس زمین اور آسمان کے اندر کوئی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوہ ایمپائر

لکشمی نواس متّل ۱۹۵۰ میں راجستھان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لندن میں اسٹیل انڈسٹری شروع کی۔ اِس میدان میں انھوں نے بہت ترقی کی، یہاں تک کہ اب ان کی متّل انڈسٹری (Arcelor Mittal) دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل انڈسٹری بن گئی ہے۔ انھوں نے اِس میدان میں ساری دنیا میں نمبر ایک پوزیشن حال کرلی۔
لکشمی متّل نے دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا کو انٹرویو دیا ہے جو اخبار کے شمارہ ۲ جولائی ۲۰۰۶ میں شائع ہوا ہے۔ اِس انٹرویو کا عنوان یہ ہے:
Mittal has a message for India: Go ahead and conquer the world.
میں نے اس رپورٹ کواخبار میں پڑھا تو اچانک میرے ذہن میں آیا کہ کیا وجہ ہے کہ مادّی انڈسٹری کے میدان میں ایک آدمی اِس قسم کی بڑی بڑی بات بولتا ہے لیکن مذہب کے میدان میں کسی کے پاس بولنے کے لیے اس قسم کے الفاظ نہیں۔ حالاں کہ مذہب کے اندر دلوں کو جیتنے کی طاقت ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
Go ahead and conqure the people of the world.
اِس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میںآیا کہ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ آج مذہب کے نام سے لوگوں کو صرف اس کی ایک کم تر صورت(reduced form) لوگوں کے سامنے ہے۔ مثلاً مسٹر لکشمی متل، اسٹیل کو ایک عالمی انڈسٹری کا موضوع سمجھتے ہیں۔ جب کہ مذہب کا تصور ان کے ذہن میں یہ ہے کہ کچھ توہماتی عقائد کو مان لیا جائے، اور کچھ بے روح رسموں کو وقتی طورپر ادا کرلیا جائے۔ اس قسم کے کم تر مذہب کے لیے کسی کے دل میں یہ جذبہ نہیں ابھر سکتا کہ وہ اس کو لے کر اٹھے اور عالمی سطح پر کوئی فاتحانہ کارنامہ انجام دے سکے۔
اِس معاملے میںمسلمانوں کا حال بھی دوسروں سے کچھ مختلف نہیں۔ مسلمان جس اسلام کو اعتقادی طورپر مانتے ہیں وہ مکمل طورپر ایک محفوظ دین ہے۔ وہ تمام انسانوں کے دلوں کی آواز ہے۔ وہ ہر انسان کی روحانی تلاش کا جواب ہے۔ وہ انسان کے لیے جنت کا دروازہ کھولنے والا ہے۔ اِس میں ذہنی انقلاب کا پورا سامان موجود ہے۔ اسلام کی یہی خصوصیات ہیں جس کی بنا پر پیغمبر اسلام نے ساتویں صدی عیسوی میںاپنے عرب مخاطبین سے کہا تھا:
کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم (البدایۃ والنہایۃ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۳) یعنی میں تم سے صرف ایک بات کا مطالبہ کرتا ہوں، اگر تم اس کو مان لو تو تم سارے عرب کے مالک بن جاؤگے اور عجم تمھاری اطاعت کریںگے۔
مگر آج کے مسلمان ایسا نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر بالفرض وہ ان الفاظ کو دہرائیں تو سننے والا اس کو کوئی اہمیت نہیں دے گا۔ کیوں کہ آج اسلام کے نام سے جو مذہب لوگوں کے سامنے ہے وہ اُسی طرح ایک بگڑا ہوا مذہب ہے جس طرح دوسرے اہل مذاہب نے اپنے مذہب کو بگاڑ رکھا ہے۔ مسلمانوں کے پاس عملاً جو اسلام ہے، وہ اسلام ایک کم تر فارم (reduced form) ہے۔ یہ کم تردرجے کا اسلام نہ تو خود مسلمانوں میں کوئی جوشِ عمل پیدا کرسکتا ہے، اورنہ اِس قابلِ ہے کہ اس کو اہلِ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور وہ اس سے متأثر ہوکراس کو اپنا دین بنا لیں۔
واپس اوپر جائیں

فرق نہ سمجھنا

ایک دن کا واقعہ ہے۔ میں شہر سے دورایک کھُلے مقام پر بیٹھا ہوا تھا۔ صبح سویرے کا وقت تھا۔ چاروں طرف سرسبز مناظر تھے۔ تازہ اور خالص ہوا کے نرم جھونکے آرہے تھے۔ اس بے آمیز ہوا میں سانس لینا نہایت خوش گوار معلوم ہورہا تھا۔ میرے اوپر ایک سرور کی کیفیت طاری تھی۔ مجھے شبلی نعمانی کا ایک شعر یاد آیا جس کو انھوں نے اسی قسم کے فکری ماحول سے متاثر ہو کر کہا تھا:
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے باد پیمائی
اُس وقت میرے ساتھ یونیورسٹی کے ایک استاذ وہاںموجودتھے۔ میں نے کہا کہ جس دنیا میں اتنی خوشگوار ہوا موجودہو وہاں کسی کو شراب پینے کی کیا ضرورت۔ میری بات سُن کر اُنھوں نے کہا: کیا معلوم، وہ لوگ دونوں چیزیں لے رہے ہوں۔
میں نے کہا کہ آپ کا یہ جُملہ گریمر کے لحاظ سے درست ہے،مگر وہ معنی کے اعتبار سے درست نہیں۔ میںنے کہا کہ آپ نے شراب اور ہوا دونوں کو برابر قرار دے دیا۔ حالاں کہ ہوا ایک صحت مند انتخاب (healthy option) ہے۔ جب کہ شراب ایک مہلک چیز ہے، وہ سرے سے کوئی صحت مند انتخاب (option)ہی نہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اس دنیا میں ایسی چیزیں موجود ہوں جو کسی نقصان کے بغیر آپ کو سرور دے سکتی ہیں تو ایسی چیزمیں سرور تلاش کرنے کی کیا ضرورت جس میں اگر بالفرض کوئی وقتی سرور ہو تب بھی وہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ آدمی کی صحت کو تباہ کردے۔
اکثر حالات میں فکری غلطی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز اور دوسری چیز میں فرق نہیں کرپاتا۔ وہ صحت مند مشغولیت اور مضر مشغولیت میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے دونوں کو برابر کا درجہ دے دیتا ہے، اور مضر چیز میں بھی اُسی طرح مشغول ہوجاتا ہے جس طرح اُسے صحت مند چیز میں مشغول ہونا چاہیے۔ وہ اُس وقت تک متنبہ نہیں ہوتا جب تک اُس کے غلط انتخاب کا بُرا نتیجہ آخری طورپر اس کے سامنے نہ آجائے۔
ایک دوسری مثال سے اس معاملے کو سمجھیے۔ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے ایک اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے یہ اعتراض نقل کیا ہے کہ اسلام ایک کامل اور مکمل نظام حیات ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ پچھلے چودہ سو سال کی مدّت میں بہت کم لمحات ایسے آئے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اسلامی نظام عملاً دنیا میں قائم ہوا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ناقابلِ عمل نظام ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں اُن کا کہنا یہ ہے کہ دوسرے نظام مثلاً اشتراکی نظام بھی عملاً کبھی کامل صورت میں قائم نہ ہوسکا۔ اس سلسلہ میں وہ اشتراکیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اس نظریہ کے علم برداروں نے زبردست جدوجہد کی اور جان ومال کی ہر قربانی دی۔ حالانکہ وہ غیر طبقاتی معاشرہ جس کی خوش خبری کارل مارکس نے دی تھی، نہ پہلے کبھی دنیا میں وجود میںآیا اور نہ کمیونسٹ انقلاب پر تقریباً سو سال گزر جانے کے بعد کہیں قائم ہوا، بلکہ عوام، زار کی شہنشاہیت سے نکل کر انتہائی بے رحم آمریت کے پنجے میں گرفتار ہوگئے‘‘۔ (ماہنامہ میثاق، اپریل ۲۰۰۲، صفحہ ۷۸)
یہ ایک غلط تقابل ہے۔ اشتر اکیت ایک غیر فطری نظام ہے اس لیے وہ نہ قائم ہوا اور نہ کبھی وہ قائم ہوسکتا ہے۔ اُس کے قائم نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ عملی طور پر اُس کا قائم ہونا ممکن ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام ایک فطری نظام ہے، وہ مکمل طورپر قابلِ عمل ہے۔ مگر معترض کی غلطی یہ ہے کہ وہ اس کو ایک غلط معیار(criterion) سے جانچ رہے ہیں۔
صحیح یہ ہے کہ اسلام کا نشانہ فرد ہے، نہ کہ سیاسی اور اجتماعی نظام۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ فردِ انسانی کے اندر اللہ کا خوف اور اللہ کی محبت پیدا کی جائے تاکہ وہ قول و عمل میںاللہ کی منشاء کے مطابق، زندگی گزارے۔ سیاسی اور اجتماعی نظام اسلامی مشن کا براہِ راست نشانہ نہیں۔ اس لیے اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا معیار انفرادی زندگی ہے، نہ کہ اجتماعی اور سیاسی نظام۔
واپس اوپر جائیں

انسانی اتحاد

انسانی اتحاد ہزاروں سال سے اعلیٰ ترین دماغوں کا خواب رہا ہے۔ تمام اصلاح پسند لوگ ہمیشہ یہ سوچتے رہے ہیں کہ مختلف انسانی گروہوں میں کس طرح اتحاد اور یگانگت پیدا کی جائے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ کوششیں نہ صرف عملی نتیجہ پیداکرنے میں ناکام رہیں بلکہ اس مقصد کے لیے کوئی قابلِ عمل فارمولا بھی اب تک وضع نہ کیا جاسکا۔
اس ناکامی کا سبب یہ ہے کہ تقریباً تمام اہلِ دماغ اس معاملہ میں غیر عملی طرزِ فکر کا شکار رہے ہیں۔ مختلف مفکرین اور مصلحین اس معاملہ میں جو کچھ کہتے رہے ہیں، وہ بعض ظاہری یا جزئی فرق کے ساتھ صرف ایک ہے۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ انسانوں کے درمیان مختلف قسم کے فرق پائے جاتے ہیں،خاص طورپر مذہبی فرق۔ انھوںنے کہا کہ یہ فرق کسی حقیقی اختلاف پر مبنی نہیں ہیں۔ بلکہ وہ صرف تنوع کو بتاتے ہیں۔ یعنی ایک واحد حقیقت کا مختلف صورتوں میں ظاہر ہونا۔
یہ نظریہ کبھی بھی مختلف لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر قابل قبول نہ ہوسکا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف مذہبوں میں فرق کا پایا جانا، حقیقی اختلاف کی بنا پر ہے نہ کہ تنوع کی بنا پر۔ مثال کے طورپر کچھ لوگ خدا کو ایک مستقل اور باشعور ہستی کے طورپر مانتے ہیں۔ اور کچھ دوسرے لوگوں کے نزدیک خدا کا لفظ محض ایک علامتی قدر(symbolic value) کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک اس کا کوئی حقیقی یا مستقل وجود نہیں ہے۔ یہ دو انتہائی متضاد نظریات ہیں جن کوکسی بھی طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
انسانی اتحاد کا صحیح اور ممکن فارمولا یہ ہے— ایک کو ماننا اور دوسرے کا احترام کرنا:
Follow one and respect all.
یہ فطرت کا ایک اصول ہے جس پر انسانی زندگی کا پورا نظام چل رہا ہے۔ بقیہ تمام معاملات میں ہمارا طریقہ یہی ہے۔ایسی حالت میں عقل اور فکر کا یہ تقاضا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں بھی اسی اصول کو اختیار کر لیا جائے۔
انسانی اتحاد کا اوّل الذکرفارمولا بظاہر اپنے اندر ایک سماجی قدر(social value) رکھتا ہے مگر بالفرض وہ حاصل ہوجائے تب بھی وہ ایک اور عظیم تر چیز کی نفی کی قیمت پر حاصل ہوگا، اور وہ سچائی ہے۔ ہر انسان کی یہ فطر ی اور لازمی ضرورت ہے کہ اس کو یہ یقین ہو کہ میںنے سچائی کو پالیا ہے، میں سچائی پر کھڑا ہوا ہوں۔ یہ کسی فرد کے لیے اس کا اعلیٰ ترین اثاثہ ہے۔ یہ موجودہ دنیا میں کسی فرد کے لیے پُراعتماد زندگی کی ضمانت ہے۔ مگر مذکورہ قسم کا فارمولا انسان سے اس کا یہ فکری اثاثہ چھین لیتا ہے۔
جو معاشرہ اوّل الذکرفارمولے کی بنیاد پر بنے اس کے افراد صرف مادی حیوان کے مانند زندگی گزاریں گے۔ ان کا عقیدہ اپنے اندر صرف اضافی قدر(relative value) رکھنے والا ہوگا۔ ان کی اخلاقیات کی حیثیت صرف سماجی آداب(social manners) کی ہوگی۔ فوری خوشی (immediate pleasure) حاصل کرنے کے سوا ان کی زندگی کا کوئی اور مقصد نہ ہوگا۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محور مادی ضرورتیں ہوں گی نہ کہ اعلیٰ آئڈیل۔ ان کی زندگی میں کوئی معرفت (discovery) نہ ہوگی جس کو انھوںنے تلاش کے بعد پایا ہو اور جو انھیںیہ احساس عطا کرے کہ انھوں نے اس حقیقت اعلیٰ کو پالیا ہے جس کو ان کی روح تلاش کررہی تھی۔
اتحاد انسانی کا اوّل الذکرفارمولا صرف ایک سوشل فارمولا ہے۔وہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ایک اسکیم ہے۔ مگر یہ اسکیم کسی سماج میںاس قیمت پر قائم ہوتی ہے کہ اس کے افراد میں ذہنی ارتقاء (intellectual development) کا عمل رک جائے۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز 176

۱۔ شانتی گری آشرم(انسٹی ٹیوشن ایریا، نئی دہلی) میں ۶ مئی ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں بطور چیف گیسٹ بلایا گیا تھا۔ انھوںنے اپنی تقریر میں امن کی اہمیت کو بتایا، اور یہ بتایا کہ اسلام میں امن پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے۔ اِس پروگرام میں زیادہ تر تعلیم یافتہ ہندو شریک ہوئے۔ ان میں اکثریت کیرالا والوں کی تھی۔ اس میں سی پی ایس ٹیم کے افراد بھی شریک ہوئے۔ تقریر کے بعد انھوں نے حاضرین سے اسلام کے موضوع پر گفتگو کی۔ اس کے علاوہ اسلامی بروشر اور اسلامی پمفلٹ بھی انھیں مطالعے کے لیے دئے گئے۔
۲۔ لائف پازٹیو(نئی دہلی) کی طرف سے انڈیا ہیبی ٹٹ سنٹر کے ہال میں ۲۴ مئی ۲۰۰۶کو ایک سیمنارہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ ہر مذہب کے نمائندے کے لیے مشترک ٹاپک یہ تھا—آپ کے مذہب میں اسپریچولٹی کا تصور کیا ہے۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے اسلام اور روحانیت کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ روحانیت کا ہم معنیٰ لفظ اسلام میں الربّانیۃ ہے، یعنی خدارخی زندگی۔ تقریرمیں بتایا گیا کہ اسلام میں روحانیت کوئی پُر اسرار چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق روز مرّہ کی زندگی سے ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں روحانی اور انسانی اقدار کے ساتھ زندگی گذارنا، یہی اسلامک اسپریچویلٹی ہے۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کی ٹیم بھی اس پروگرام میں شریک ہوئی۔انھوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور دعوتی پمفلٹ لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیے۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق کے ساتھ لیا۔
۳۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۵ مئی ۲۰۰۶ کو ایک اجتماع ہوا۔ اس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز کو یہاں خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ ان کی تقریر کا موضوع یہ تھا:
Human Values in Islam
اِس موضوع پر انھوں نے ۴۵ منٹ تقریر کی۔ اس کے بعد سوال اور جواب کا پروگرام ہوا۔ لوگوں کے بیان کے مطابق، یہ پروگرام کافی کامیاب رہا۔ سی پی ایس کی ٹیم نے بھی اس موقع پر یہاں شرکت کی اور دعوتی بروشر اور پمفلٹ لوگوں کے درمیان تقسیم کیے۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا اور اس سے اپنی دلچسپی ظاہر کی۔
۴۔ اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) کی طرف سے ایک آل انڈیا پروگرام ہوا۔ اس میں ایس آئی او کے منتخب افراد شریک ہوئے۔ یہ ایک ہفتے کا پروگرام تھا۔ اس کی کارروائی ہمدرد پبلک اسکول (نئی دہلی) میں ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ انھوںنے یکم جون ۲۰۰۶ کو وہاں کے ہال میںایک تقریر کی اس تقریر کا موضوع یہ تھا:
How to Realize God
تقریرکے بعد سوال اور جواب کا پروگرام تھا۔ اس پروگرام میں سی پی ایس کی ٹیم کے افراد نے بھی شرکت کی، اور طلبا کے درمیان دعوہ بروشر تقسیم کیے۔ طلباء نے اس کو شوق کے ساتھ لیا اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
۵۔ گلوبل ایکسپوزیشن اینڈ مینیجمنٹ سروس پرائیویٹ لمیٹڈ (نیپال) گذشتہ ۹ برس سے نیپال کی راجدھانی کاٹھمنڈو میں ’نیپال بک فئر‘‘ کا اہتمام کررہا ہے۔ ۲ جون تا ۱۰ جون ۲۰۰۶ء اس کا دسواں بک فئر تھا۔ اِس دسویں بک فئر میں پہلی بارگڈ ورڈ بُکس نئی دہلی (Goodword Books) کی طرف سے وہاں اسلامی بک اسٹال لگایا گیا۔ لوگوں نے کافی دلچسپی لی۔ اور قرآن کے نسخے اور دیگر اسلامی کتابیں خریدیں۔ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے والوں کو صدر اسلامی مرکز کی دعوتی کتابیں اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے بر وشر دیے گیے۔ نیپال کے وزیر تعلیم نے بھی اس بک اسٹال کا معائنہ کیا،اور بک فئر میں اسلامی کتابوں کی موجودگی پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ انھیں ترجمۂ قرآن (انگریزی) کا ایک نسخہ اور سی پی ایس کے بر وشر اور کچھ مزید دعوتی کتابیں دی گئیں، جن کو انھوں نے ادب اور احترام کے ساتھ قبول کیا۔
۶ ۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۱۵ جون ۲۰۰۶ کو لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت ایک انٹرویو نشر کیاگیا۔ اس کے اینکر مسٹر پنکج تھے، اور جواب دینے والوں میں صدر اسلامی مرکز اور مسٹر پربھاش جوشی۔ موضوع یہ تھا کہ عبادت گاہوں میںکیا خواتین جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ خواتین کا درجہ عمومی طورپر اسلام میں کیا ہے۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کا جواب دیاگیا۔
۷۔ انگریزی روزنامہ دکن ہیرالڈ(Deccan Herald) کے چیف کرسپانڈنٹ مسٹر او۔پی۔ورما (مقیم دہلی) نے ۱۹ جون ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو رکارڈ کیا۔ وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کا موضوع دوستی (friendship) ہے۔ وہ اِس کتاب میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تمام مذاہب کی تعلیم ایک ہے، اس لیے تمام مذاہب کے درمیان دوستی عین فطری ہے۔ جواب میں ایک بات یہ کہی گئی کہ مذاہب میں یکسانیت یا عدم یکسانیت فلسفۂ مذہب کا موضوع ہے، دوستی کے مسئلے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے لوگ ہی ایک دوسرے سے نہیں لڑتے، بلکہ خود ایک مذہب کے لوگ آپس میں لڑتے ہیں۔ مثال کے طورپر مہابھارت کی لڑائی میں دونوں فریق ہندو تھے، اس کے باوجود وہ آپس میں لڑے۔ اسی طرح پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کا مذہب ایک ہے لیکن ۱۹۷۱ میں دونوں کے درمیان سخت لڑائی ہوئی۔ اس لیے دوستی کا صحیح فارمولا یہ نہیں ہے کہ مذہبوں کے درمیان مین کارڈ(main card) ایک بتایا جائے، بلکہ اس کا فارمولا باہمی احترام ہے یعنی:
Follow one and respect all.
۸۔ دہلی کے ہندی روزنامہ ہندستان کے نمائندہ مسٹر فضلِ غفران نے ۲۰ جون ۲۰۰۶ کو اپنے اخبار کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع ’’مسلم سماج اور مسلم مسائل‘‘ تھا۔ اس سلسلے میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کی وضاحت کی گئی۔
۹۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر(نئی دہلی) میں ۲۸ جون ۲۰۰۶ء کو ایک اجتماع ہوا۔ اس میں کیندریہ ودّیالیہ کے تمام اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ وہاں انھوں نے ’’بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام‘‘ کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ آخر میں سوال اور جواب ہوا۔ یہ پروگرام ایک گھنٹہ رہا۔ حاضرین نے سوال کیا کہ آپ جو افرادتیار کررہے ہیںوہ کس طرح کے لوگ ہیں۔ وہاں ہماری ٹیم کچھ لوگ موجود تھے۔ لوگوں کی فرمائش پر مسٹر رجت ملہوترا اور سعدیہ خان نے اس سلسلے میں اپنا تجربہ بتایا۔ اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان سی پی ایس کے دعوہ پملفٹ اور بروشر تقسیم کیے گئے۔
۱۰۔ سنٹر فار کلچر رسورسز اینڈ ٹریننگ (CCRT) کے تحت نئی دہلی میں ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ یہ ڈسکشن یونی سیف بلڈنگ(UNICEF) کے ہال میں ۳ جولائی ۲۰۰۶ کو ہوا۔ امریکا کے پروفیسروں کی ایک ٹیم انڈیا آئی تھی ۔ انھیں کی درخواست پر یہ پروگرام منعقد کیا گیا۔ صدر اسلامی مرکز نے ان کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ وہاں انھوں نے اسلام اور ہندستان کے موضوع پر ایک تقریر کی اور سوالات کے جوابات دئے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میںہوا۔
۱۱ ۔ نیو ورلڈ موومنٹ(نئی دہلی) کے زیر اہتمام ۴ جولائی ۲۰۰۴ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ایک سیمنار ہوا۔ اس کے صدر سوامی اوم پورن سوتنتر تھے۔ ا س میں دہلی اور دہلی کے باہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک تھے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Integrated Model of Development
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوںنے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ صحیح طورپر اس کا عنوان یہ ہونا چاہیے:
Spiritual Model of Integrated Development
حدیث رسول کی روشنی میں انھوں نے بتایا کہ اختلاف زندگی کی ایک حقیقت ہے اس لئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ امن کے اصول پر قائم رہتے ہوئے زندگی کا نقشہ بنایا جائے۔
۱۲۔ ۱۱جولائی ۲۰۰۶ کو ای ٹی وی(نئی دہلی) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کی گفتگو کی ویڈیو رکارڈنگ کی۔ سوالات کا تعلق، پاپولیشن ڈے سے تھا۔ جواب کے دوران بتایا گیا کہ پاپولیشن کنٹرول کاتعلق، فتاویٰ سے نہیںہے۔ اس کا تعلق، نیشنل پالیسی سے ہے۔ اِس معاملے میں حکومت جو پالیسی بنائے گی وہی مسلمانوں کی پالیسی بھی ہوگی۔ ان کی پالیسی اس سے الگ نہ ہوگی۔
۱۳۔ ترکی کا ایک ادارہ ہے اس کا نام یہ ہے:
Inter-civilizational Inter-cultural Dialogue for Understanding and Peace
اس کی شاخ انڈیا میں انسل بھون (نئی دہلی) میں قائم ہے۔ اس کے پریزیڈنٹ مسٹر بلند(Bulent Cantmur) ۱۱ جولائی ۲۰۰۶ کو اپنی ٹی وی ٹیم کے ساتھ مرکز میںآئے۔اور صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی انٹرویو کی ویڈیو رکارڈنگ کی۔ سوالات کا تعلق، عالمی اسلامی تحریکیں، عالمی امن، مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی وغیرہ سے تھا۔ ان موضوعات پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو ہوتی رہی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ موجودہ زمانے کا سکولرنظام، عین وہی چیز ہے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں معاہدۂ حدیبیہ کی شکل میں پیش آیا تھا۔ یعنی ٹکراؤ کو اوائڈکرکے مواقع کو استعمال کرنا۔
۱۴۔ چینل ۷۔ٹی وی (نوئیڈا) کے اسپیشل کرسپانڈنٹ مسٹر آشیش جوشی نے ۱۸ جولائی ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوال کا تعلق، اس مسئلے سے تھا کہ کیااردو تعلیم مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ نہیں۔اردو اب مسلمانوں کی کلچرل زبان بن چکی ہے۔ مسلم کلچر کے تحفظ کے لیے بلا شبہہ اس کی اہمیت ہے۔ لیکن تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر وقت کا شعور پیداہو۔ وہ وسیع تر ذہن کے ساتھ اپنے معاملات کو سمجھیں اور اس کی مؤثر منصوبہ بندی کریں۔ اِس مقصد کے لیے ماڈرن ایجوکیشن کی ضرورت ہے۔ ماڈرن ایوکیشن کے بغیر مسلمان کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔
۱۵۔ جَن مت ٹی وی (نئی دہلی ) کے کرسپانڈنٹ مسٹر سید مجیب امام نے ۱۹ جولائی ۲۰۰۶ کو اپنے ٹی وی کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق اردو اسکول سے تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ مرکزی گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جس ایریا میں مسلمان بارہ فیصد ہیں وہاں اردو میڈیم اسکول کھولے جائیں۔ کیا یہ مسلمانوں کا اپیزمنٹ (appeasement) ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اپیزمنٹ ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ پولٹکل زبان میں بولنا ہمارا طریقہ نہیں۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ ان کو ماڈرن ایجوکیشن میں لایا جائے۔ جس میں وہ پچھڑ گئے ہیں۔
۱۶۔ نئی دہلی کے انگریزی ماہ نامہ لائف پازیٹیو (Life Positive) کی نمائندہ مز جمنا (Jamuna Rangachari) نے ۲۸ جولائی صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا تعلق، زیادہ تر، اسلام اور اسلامی تعلیمات سے تھا۔ جو باتیں بتائی گئیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اسلام کی ابتدائی تین جنریشن صحیح اسلامی طریقے پر رہے گی۔ اِن تین جنریشن کو قُرونِ ثلاثہ یا قرونِ مشہود لہا بالخیر کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ان تین کے بعد مسلمانوں میں بگاڑ آجائے گا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ آج اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ وہی ہیں جن کا تعلق ابتدائی تین نسلوں کے بعد سے ہے۔ اگر آپ کو یہ سمجھنا ہے کہ اسلام کیا ہے، تو آپ ابتدائی تین نسلوں کو دیکھیے۔ یعنی دورِ رسالت، دور صحابہ، دورِ تابعین۔ بعد کے زمانے کو لے کر اسلام کے بارے میں رائے بنانا درست نہیں۔
۱۷۔ نئی دہلی کے این ڈی ٹی وی(NDTV) کی اسپیشل کرسپانڈنٹ اور اینکر مز نغمہ سحر نے ۳؍اگست ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، اِس مسئلے سے تھا کہ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد ہندستانی مسلمانوں کی حالت کیا ہے۔ جواب میں بتایاگیا کہ ہندستان کے مسلمان اِس ملک میں بہت ترقی کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ ستّاون مسلم ملکوں سے بھی زیادہ۔ مسلمانوں کی ترقیاتی سرگرمیوں کی رپورٹ میڈیا میں نہیں آتی۔ اِس لیے وہ لوگ اس کو بہت کم جانتے ہیں جن کے لیے خبریں جانے کا ذریعہ صرف میڈیا ہے۔
۱۸۔ آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۳؍ اگست ۲۰۰۶ کی شام کو نرمل دیش پانڈے، وغیرہ نے شرکت کی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز بھی اس میں شریک ہوئے۔ ڈسکشن کا موضوع آزادی اور قومی اتحاد تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے پچھلے ساٹھ سال کے دوران ہونے والے اپنے تجربات بیان کیے۔ انھوں نے بتایا کہ مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد، ہندستان کی قومی روایت میں شامل ہے۔
۱۹۔ مولانا شمس الدین ندوی بھوپالی تین مہینے (مئی، جون، جولائی ۲۰۰۶) کے لیے جاپان گئے تھے۔ وہاں ان کا قیام تویاما(Toyama) میں تھا۔ یہ شہر ٹوکیو سے پانچ سو کلومیٹر دور واقع ہے۔ ۳؍اگست ۲۰۰۶ کو نئی دہلی میں ان سے ملاقات ہوئی۔ مولانا شمس الدین ندوی نے بتایا کہ جاپان میں انھوں نے مختلف لوگوں کے درمیان الرسالہ مشن کا تعارف کرایا۔ ان کے ذریعہ سے الرسالہ مشن کی کتابوں کا دو مکمل سیٹ جاپان پہنچا ہے۔ اس طرح انشاء اللہ جاپان میں الرسالہ مشن کی اشاعت جاری رہے گی۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان، شاہد اعوان جو جاپان میں تجارت کرتے ہیں۔ انھوںنے ’’انسان کی منزل‘‘نامی کتاب پڑھ کر کہا کہ اس کتاب کو پڑھ کر کوئی بھی منکر، خدا کے وجود کا قائل ہوجائے گا۔ اس میں مولانا نے خدا کا نام ذکر کئے بغیر خدا کا مکمل تعارف پیش کردیا ہے‘‘۔مولانا شمس الدین ندوی نے جاپان میں قیام کے دوران ’’تذکیر القرآن ‘‘کے ذریعے وہاں کے لوگوں کے درمیان درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا۔
۲۰۔ ایک نئی کتاب تیار ہو کر پریس میں زیر طبع ہے۔ اس کا نام’’ہندــپاک ڈائری‘‘ ہے۔ یہ کتاب گویا برّ صغیر ہند کی سو سالہ تاریخ کا ایک مختصر جائزہ ہے۔ یہ کتاب ۲۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ انشاء اللہ یہ کتاب بہت جلد شائع ہو کر منظر عام پر آجائے گی۔
واپس اوپر جائیں