Pages

Thursday 1 April 2021

Al Risala | April 2021 (الرسالہ،اپریل)

4

-سجدۂ اعتراف

5

- تخلیقی عمل

6

- شاہ کلید

7

- صدیقی اسپرٹ

8

- برتر اخلاق

10

- کوئی مصیبت ، مصیبت نہیں

11

- خیر کثیر

12

- ہر حال میں بہتر

13

- خواتین کا رول

14

- ہاجرہ کلچر

16

- شاک ٹریٹمنٹ

17

- حقیقتِ انسانی کی دریافت

19

- صحت مند تنقید

20

- ری ایکشن، رسپانس

21

- صحیح طرزِ فکر

22

- ہائی پروفائل، لو پروفائل

23

- کامیابی کا فارمولا

24

- چیلنج کا مقابلہ

25

- عافیت کا راز

26

- فیمینزم اور دعوت

28

- مسلم دنیا کی تحریکیں

29

- ایک ملاقات

35

- سوال و جواب

39

- خبرنامہ اسلامی مرکز

48

- اعلان


سجدۂ اعتراف

اللہ تعالی نے جب آدم کو پیدا کیا تو فرشتوں اور ابلیس کو یہ حکم دیا کہ وہ اس کے آگے سجدہ کریں۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَى وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِینَ (2:34)۔ یعنی جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور وہ منکروں میں سے ہوگیا۔
یہاں سجدہ کا مطلب سجدۂ اعتراف ہے، یعنی حقیقتِ واقعہ کو قبول کرنا۔ ایک طرف فرشتے ہیں، جو انسان کو اعتراف کا سبق دے رہے ہیں، اور دوسری طرف ابلیس ہے، جو انسان کو أَنَا خَیْرٌ مِنْہُ (میں اس سے بہتر ہوں)کی سوچ کے ذریعے عدم اعتراف کا سبق دے رہا ہے۔آدم کے واقعے میں سجدہ دراصل ایک حقیقت کا اعتراف (acknowledgement) تھا، یعنی اب ایک نئی مخلوق انسان کو، منصوبہ تخلیق کے مطابق، سینٹرل حیثیت حاصل ہوگی۔فرشتہ اور ابلیس دونوں کواسی حقیقت کے اعتراف کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کو فرشتوں نے مان لیا، لیکن ابلیس نے ماننے سے انکار کردیا۔
اس میں انسان کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ وہ اس دنیا میں اعتراف کی صفت کو اپنائے ۔ اس دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے ہر انسان کبھی نہ کبھی ایک "آدم" سے دو چار ہوتا ہے۔اس وقت خدا حال کی زبان میں ہم سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ اس "آدم" کا اعتراف کرو۔دوسرے الفاظ میں، آئڈیل کو ترک کرو اور پریکٹکل وزڈم کو اختیار کرو۔ اب جو فرشتوں کا طریقہ اختیار کرے، وہ خدا کا سچا بندہ ہے، وہ صحیح روش والا انسان ہے۔اس کے برعکس، جو ابلیس کا طریقہ اختیار کرے، اور تواضع کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ خدا کا سچا بندہ نہیں ہے ، وہ درست راستے سے دور انسان ہے۔ اعتراف یا بے اعترافی، دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا۔آخرت میں انسان سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے زندگی میں حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کیا یا تم نے بے اعترافی کی زندگی گزاری— اعتراف پر انعام ہے اور بےاعترافی پر شدید پکڑ۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی عمل

انگریزی کا ایک قول ہے— جس انسان نےکبھی غلطی نہیں کی ، اس نے کبھی نیا کام نہیں کیا:
A person who never made a mistake never tried anything new. 
نیا کام سے مراد ہے تخلیقی(creative) کام۔ اصل یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان جو کام بھی کرتا ہے، اس میں غلطی کا امکان رہتا ہے۔ جتنا بڑا کام اتنا زیادہ غلطی کا امکان۔ یہ امکان اس وقت مزید بڑھ جاتاہے، جب کہ وہ اجتہادی عمل ہو، یعنی تخلیقی (creative) عمل۔ ایسی صورت میں انسان کے لیے غلطی کے باوجود پرامید ہونے کا امکان اللہ نے باقی رکھا ہے۔
اللہ نے اس بات کا اعلان قرآن کی اس آیت میں کیا ہے قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کی اس آیت میں مایوسی سے بچنےکی تعلیم دی گئی ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمھارے پچھلے لمحات کسی غلطی کی وجہ برباد ہوجائیں تو یہ نہ سمجھو کہ تمھاری زندگی میں فل اسٹاپ آگیا۔ نہیں، زندگی میں ہمیشہ کاما (،)لگا رہتا ہے۔ زندگی میں پوٹنشل اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ اس میں کبھی فل اسٹاپ کی نوبت نہیں آتی، ہمیشہ کاما لگا رہتا ہے۔یعنی کسی انسان کے لیے کسی بھی حال میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ، اس کی زندگی کا اگلا امکان ابھی باقی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آنے والا موقع پچھلے موقع سے زیادہ اہم ہو۔ اس لیے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کو اویل کرنا چاہیے۔
کوئی انسان، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس دنیا میں جب آتا ہے، تو وہ لامحدود امکان (unlimited potential) لے کر آتا ہے۔ انسان کو صرف اس اِمکان کو پہچاننا ہے ۔ پہچاننے کے بعد اس کے امکانا ت فطرت کے زور پر ان فولڈ (unfold) ہونے لگتے ہیں، اور یہ سلسلہ تاعمر جاری رہتا ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

شاہ کلید

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: أَنَّ رَجُلاً أَتَى إِلَى رَسُولِ اللَّہِ صلى اللہ علیہ وسلم فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ، عَلِّمْنِی کَلِمَاتٍ أَعِیشُ بِہِنَّ، وَلاَ تُکْثِرْ عَلَیَّ فَأَنْسَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ:لاَ تَغْضَبْ(موطا امام مالک، حدیث نمبر 1891) ۔ یعنی ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے کہا: اے خدا کے رسول، مجھے کوئی بات سکھائیے، جس کے مطابق میں زندگی گزاروں ،اور مجھے زیادہ مت بتائیے کہ میں بھول جاؤں، رسول اللہ نے کہا: غصہ نہ کرو۔
غصہ نہ کرو کا مطلب ہے غصہ کو کنٹرول کرو۔یہ ایک حکمت (wisdom) کی بات ہے۔ غصہ نہ کرنا، زندگی کی شاہ کلید (master key) ہے۔ جس انسان نے غصہ کو کنٹرول کرنے کا آرٹ سیکھ لیا، اس نےکامیاب زندگی کا راز پالیا۔ غصہ ، دوسرے الفاظ میں ری ایکشن (reaction) کے تحت سوچنے کا نام ہے۔ اگر آپ اپنے خلاف کوئی بات سنیں، اور آپ کو غصہ آجائے تو آپ نے اس کی بات پر ری ایکٹ (react)کیا۔ اس کے برعکس، اگر آپ اپنے خلاف کوئی بات سنیں، اور آپ کو غصہ نہ آئے تو آپ نے اس کی بات کا مثبت جواب (positive response) دیا۔ اس دنیا میں منفی جواب (negative reaction) کا نام ناکامی ہے، اور مثبت جواب کا نام کامیابی ہے۔
انسان کا ذہن ایک مکمل ذہن ہے۔ غصہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے ذہن (mind) کو منفی ہونے سے بچایا،ذہن کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھا،آپ نے اپنے ذہن کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے پوٹنشل (potential) کو مکمل طور پر استعمال کرے، اور ذہن کے امکانات کو مکمل طور پر استعمال کرنے ہی کا نام کامیابی ہے۔ ایسا ذہن آپ کے لیے ماسٹر مائنڈ بن جاتا ہے۔ وہ آپ کو ہر موقع پر صحیح ترین رہنمائی دیتا ہے۔اس کے برعکس، اگر آپ کسی کی بات پر غصہ ہوگئے تو آپ نے خود اپنے ذہن کو محدود کردیا۔ آپ نے ذہن کو ایسا بنا دیا کہ وہ دوسرے کے کہنے کے اعتبار سے سوچے، نہ کہ خود اپنے ذہن کے اعتبار سے سوچے۔
واپس اوپر جائیں

صدیقی اسپرٹ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد11 ہجری میںمدینہ میں ابو بکر صدیق کی خلافت کا واقعہ ہے۔ اس وقت عرب کے کچھ قبائل نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا۔ یہ سادہ طور پر منعِ زکاۃ کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ اسٹیٹ سے بغاوت کا کیس تھا۔اس لیےخلیفہ اَوّل ابوبکر صدیق نے بہت شدید انداز میں اس کیس کو ہینڈل کیا۔چنانچہ مدینہ میں اس تعلق سے مشورہ ہوا۔خلیفہ اول ابوبکرنےاس موقع پر ایک فیصلہ کن تقریر کی، اس میں انھوں نے یہ تاریخی جملہ کہا إِنَّہُ قَدِ انْقَطَعَ الْوَحْیُ وَتَمَّ الدِّینُ أَیَنْقُصُ وَأَنا حَیّ؟ رَوَاہُ رزین (مشکاۃ المصابیح ، حدیث نمبر6034)۔ یعنی وحی بند ہوچکی ہے، اور دین مکمل ہوگیا ہے، کیا اس میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔
یہ جملہ کوئی سادہ جملہ نہیں تھا، بلکہ وہ ایک اسپرٹ کا اظہار تھا، جو ہر سچے مومن کے اندر ہونا چاہیے۔ وہ یہ کہ کبھی ایسا موقع آتا ہے کہ دین کے معاملے میں کرائسس کی نوبت آجاتی ہے۔ اس وقت ایک مرد مومن کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ایسے نازک موقع پرمرد مومن کو اس کی عارفانہ اسپرٹ اس پر ابھارے گی کہ وہ پورے عزم کے ساتھ یہ جملہ بولے— کیا دین میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں موجود ہوں۔ یہ قول اگر کسی مرد مومن کے دل کی گہرائی سے نکلے تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ فضا بدل جاتی ہے، اور اہل اسلام کی گاڑی دوبارہ پٹری پر چلنا شروع ہوجاتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ لوگوں کے لیے اپنی جان، اپنا خاندان، اپنی جائداد، اپنے معاشی مفادات سب سے قیمتی ہوتے ہیں۔ انھیں چیزوں کو ایک انسان سب سے زیاہ اہم سمجھتا ہے۔ ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں وہ ان کو ترجیح دیتا ہے اور اپنا سب کچھ اس کے لیے نثار کردیتا ہے۔اس کے برعکس، جس کے اندر ایمان اور معرفت کی اسپرٹ پیدا ہوجائےاس کی زندگی ایمان کی بنیاد پر قائم ہوجاتی ہے۔ اللہ کا خوف و محبت ، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ ، وغیرہ اس کے اندر اتنا بڑھا ہوا ہو کہ ہر دوسری چیز اس کو کمتر لگے۔ یہی صدیقی اسپرٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

برتر اخلاق

اعلی اخلاق وہ ہے جو برتر اخلاق ہو۔ یعنی ہر حال میں اچھے اخلاق پر قائم رہنا، خواہ دوسروں کی طرف سے برے اخلاق کا تجربہ پیش آرہا ہو۔ اعلی اخلاق دوسروں کے رد عمل کی بنیاد پر نہیں بنتا ،بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولی معیاروں کے تحت بنتا ہے۔ اسلام میں اخلاق ایک عبادت ہے، وہ کوئی جوابی انسانی رویہ نہیں۔ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے : لَا تَکُونُوا إِمَّعَةً، تَقُولُونَ:إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا، وَلَکِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَکُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَا تَظْلِمُوا (سنن الترمذی، حدیث نمبر2007)۔ یعنی تم لوگ اِمَّعَۃْ نہ بنو۔ یعنی یہ طرزِ عمل کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریںگے۔ اور اگر وہ ہمارے ساتھ ظلم کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے۔ بلکہ تم اپنے آپ کواس کے لیے آمادہ کرو کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ براسلوک کریں تب بھی ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے ۔
اسلام میں عبادت کا ریوارڈ کیفیات کے اضافہ کے ساتھ بڑھ جاتاہے۔ اسی طرح جب کوئی آدمی دوسروں کی طرف سے برے سلوک کا تجربہ پیش آنے کے باوجود ان کے ساتھ اچھے سلوک پر قائم رہے تواس کا ریوارڈ بھی بڑھ جائے گا۔ کیوں کہ وہ جذبات کی قربانی کی سطح پر جاکر حسنِ اخلاق کے اصول پر قائم رہا۔ جذبات کی قربانی دوسرے الفاظ میں اپنے ایگو کی قربانی ہے، اور ایگو کی قربانی بہت بڑی قربانی ہے۔
معتدل حالات میں حسنِ اخلاق اگر سادہ طورپرسماجی آداب (manners) کی حیثیت رکھتاہے تو غیرمعتدل حالات میں حسنِ اخلاق اعلیٰ درجہ کی عبادت بن جاتاہے۔ معتدل حالات میں جو خوش اخلاقی برتی جاتی ہے، وہ انسانی شخصیت کے ارتقا میں کچھ مدد گار نہیں ہوتی۔ لیکن جب ایک آدمی غیرمعتدل حالات میں دوسروں کے برے رویہ سے غیر متاثر رہ کر حسنِ اخلاق پر قائم رہے تو اس کی یہ روش اس کی شخصیت کے ارتقا کا ذریعہ بن جائے گی۔
حسنِ اخلاق کے سلسلے میں بائبل (متی، :22‏39) میں ہےکہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ(Love your neighbour as yourself)۔ ایک انسان کے لیے اخلاق کا سب سے بڑا موقع اس کے پڑوسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ پڑوسی کسی انسان کا سب سے قریبی ساتھی ہے۔ گھر کے افراد کے بعد کسی انسان کا سابقہ سب سے پہلے جن لوگوں سے پیش آتا ہے، وہ اس کے پڑوسی ہیں۔ پڑوسی کو خوش رکھنا، اس سے اچھا تعلق قائم کرنا، سچے انسان کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ پڑوسی خواہ اپنے مذہب کا ہو یا غیر مذہب کا، خواہ اپنی قوم کا ہو یا دوسری قوم کا، وہ ہر حال میں قابل لحاظ ہے۔ ہر حال میں اس کا وہ حق ادا کیا جائے گا جو انسانیت کا تقاضا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ، وَاللَّہِ لاَ یُؤْمِنُ قِیلَ:وَمَنْ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: الَّذِی لاَ یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَایِقَہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6016)۔یعنی خدا کی قسم وہ مومن نہیںہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔ پوچھا گیا کون اے خدا کے رسول؟ آپ نے کہا جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو۔
اس حدیث کے مطابق، کوئی مسلمان اگر اپنے پڑوسی کو ستائے۔ وہ اس طرح رہے کہ اس کے پڑوسی کو اس سے تکلیف پہنچے تو ایسے مسلمان کا ایمان و اسلام ہی مشتبہ ہوجائے گا۔ پڑوسی کے سلسلہ میں جو خدائی احکام ہیںاس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سچے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کی یک طرفہ طور پر رعایت کرے۔ وہ پڑوسی کے رویہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوشش کرے۔کسی آدمی کی انسانیت اور اس کے دینی جذبہ کی پہلی کسوٹی اس کا پڑوسی ہے۔ پڑوسی اس بات کی پہچان ہے کہ آدمی کے اندر انسانی جذبہ ہے یا نہیں ۔
کسی آدمی کا پڑوسی اس سے خوش ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آدمی صحیح آدمی ہے، اور اگر اس سے اس کا پڑوسی ناخوش ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ آدمی صحیح نہیں۔اچھا پڑوسی بننا خود آدمی کے اچھے انسان ہونے کا ثبوت ہے۔ ایسے ہی انسان کو خدا اپنی رحمتوں میں حصہ دار بنائے گا۔
واپس اوپر جائیں

کوئی مصیبت ، مصیبت نہیں

غزوۂ احد 3 ھ میں پیش آیا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ غزوہ احد کے ذیل میں کتابوں میں بہت سے واقعات آئے ہیں، ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے: مَرَّ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةِ مِنْ بَنِی دِینَارٍ، وَقَدْ أُصِیبَ زَوْجُہَا وَأَخُوہَا وَأَبُوہَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأُحُدٍ، فَلَمَّا نُعُوا لَہَا، قَالَتْ:فَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا :خَیْرًا یَا أُمَّ فُلَانٍ، ہُوَ بِحَمْدِ اللَّہِ کَمَا تُحِبِّینَ، قَالَتْ:أَرُونِیہِ حَتَّى أَنْظُرَ إلَیْہِ؟ قَالَ:فَأُشِیرَ لَہَا إلَیْہِ، حَتَّى إذَا رَأَتْہُ قَالَتْ:کُلُّ مُصِیبَةٍ بَعْدَکَ جَلَلٌ!(سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 99) ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے قبیلہ بنو دینار کی ایک عورت کے پاس سے گزرے، جس کے شوہر اور بھائی ، اور باپ احد کے دن رسول اللہ کی طرف سے قتل ہو گئے تھے۔ جب اس عورت کو ان لوگوں کے موت کی خبر پہنچی تو اس نے کہا: رسول اللہ کا کیا ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ الحمد للہ، وہ اچھے ہیں اے ام فلاں، جیسا کہ تم پسند کرتی ہو۔ اس عورت نے کہا: مجھے دکھاؤ، تاکہ میں آپ کو دیکھ لوں۔ لوگوں نے اس عورت کو آپ کی طرف اشارہ کیا، یہاں تک کہ اس نے آپ کو دیکھا، اور کہا: آپ کے بعد ہر مصیبت چھوٹی ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو چاہیے کہ وہ کسی مصیبت کو بڑا درجہ نہ دے۔ اگر اس کی زندگی میں کچھ مصیبتیں پیش آئیں تو اس کو دیکھناچاہیے کہ وہ مصیبت چھوٹی ہے یا بڑی، یعنی اس کی مصیبت کریپلنگ (crippling) ہے یا نان کریپلنگ (non-crippling)۔ اگر وہ کریپلنگ مصیبت سے بچا ہوا ہے، اور اس کو صرف نان کریپلنگ مصیبت پیش آئی ہے تو اس کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور آہ و واویلا چھوڑ دینا چاہیے۔
اس دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ یہی واحد فارمولا ہے، جس کے ذریعے کوئی شخص اپنے کو بچا سکتا ہے، اور زندگی کو اپنے لیے قابلِ برداشت بنا سکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خیر کثیر

قرآن میںزوجین کے تعلق سے ایک نصیحت کو ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَى أَنْ تَکْرَہُوا شَیْئًا وَیَجْعَلَ اللَّہُ فِیہِ خَیْرًا کَثِیرًا (4:19)۔ یعنی تم ان کے ساتھ اچھی طرح رہو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں تمہارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
یہ رہنمائی صرف زوجین کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ زندگی کا اصول ہے۔کیسے ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ جو انسان کے لیے ناپسندیدہ واقعہ ہو، وہ اس کے لیے خیر کثیر کا ذریعہ بن جائے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے، جو مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنا جانتے ہوں۔ آیت میں یہ بات ازدواجی پارٹنر کے بارے میں کہی گئی ہے۔یعنی لائف پارٹنر کےناپسندیدہ پہلو کو اگنور کرکے اس کے پسندیدہ پہلو کو اویل کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آدمی کی شادی ہو، اور اس کو ناپسندیدہ یا مس میچ لائف پارٹنر مل جائے تو وہ اس کے لیے خیر کثیر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
وہ اس طرح کہ خواہ میچنگ پارٹنر ہوں یا مس میچ پارٹنر دونوں اللہ کی تخلیق ہیں۔ اگر آدمی کو مس میچ لائف پارٹنر مل جائے، اور وہ اس کو رضائے الٰہی سمجھ کر دل سے قبول کرلے تواللہ اس کے لیے ایک ایسے خیر کثیر کا فیصلہ کردیتا ہے، جو کسی میچنگ پارٹنر سے بھی زیادہ اہم ہو۔ خدا کے پاس میچنگ پارٹنر سے بہت زیادہ عظیم خیر کی صورتیں ہیں۔ مفسر القرطبی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ابو محمد بن ابی زید دین، علم اور معرفت میں بڑا مرتبہ رکھتے تھے۔ لیکن ان کی بیوی بڑی بدسلوک تھی، اور بدزبان بھی۔ شیخ صاحب سے اس بارے میںپوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی، اپنی معرفت دی ،اور میرے اوپردوسری دنیوی نعمتیں مکمل کی ہیں۔ہوسکتا شاید میرے کسی گناہ کی سزا اس صورت میں دی گئی ہو ،مجھے اندیشہ ہے کہ میں اس کو جدا کروں تو مجھ پر اس سے سخت سزا اور عقوبت نازل ہو (تفسیر القرطبی، جلد5، صفحہ98)۔
واپس اوپر جائیں

ہر حال میں بہتر

لوگ اکثر شادی کے معاملے میں معیار پسند ہوجاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو ایک ایسی خاتون ملے جو ان کے مزاج کے مطابق ہو،جو ان کا میچ (match) ہو۔ مگر یہ درست رویہ نہیں ۔ صحابیٔ رسول ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:لَا یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْہَا آخَرَ أَوْ قَالَ:غَیْرَہُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1469)۔ یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے، اگر اس کو اس کی ایک بات ناپسند ہو تو اس کے اندر دوسری بات ہوگی جو اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہ رہنمائی صرف شوہر کو نہیں ہے، بلکہ اس کی مخاطب بیوی بھی ہے۔
خالق نے دنیا کو اس ڈھنگ پر پیدا کیا ہے کہ اس میں ہر اعتبار سے خیر ہے۔ حتی کہ جو بظاہر برے پہلو ہیں، غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی خیر کا پہلو ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ نے نکاح کیا، اور ایک بظاہر غیر مطلوب عورت مل گئی، تب بھی اس میں خیر ہے۔ مثلاً اس غیر مطلوب خاتون کو آپ مطلوب خاتون بنالیں تو آپ کا یہ عمل آپ کے لیے اسم اعظم کے ساتھ دعا کا پوائنٹ آف ریفرنس بن جاتا ہے ۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ خدا یا، میں نے اس غیر مطلوب خاتون کو دل سے قبول کیا۔میں اس مس میچڈ لائف پارٹنر (mismatched life-partner)کے ساتھ نارمل طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوں۔خدایا،اس کی بنا پر آپ میرے لیے خیر کثیر کا فیصلہ کردے۔ اس خاتون کے غیر مطلوب پہلو کے بدلے مجھے ایک بہتر بدل دے دے۔ مثلاً اچھی اولاد، وغیرہ۔تو ایسی دعا اس کے لیے اسمِ اعظم کے ساتھ کی گئی دعا بن جائے گی۔
اس کے برعکس، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر آپ کو آپ کا میچ مل جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اس کے ساتھ تفریحی موضوعات پر باتیں کریں گے، گہرے موضوعات پر ڈسکشن اس کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ گویا وہ خاتون آپ کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ نہیں بنے گی، ذہنی جمود کا ذریعہ بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

خواتین کا رول

قدیم زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ بیوی کا رول یہ ہے کہ وہ گھر کو سنبھالے، اور بچوں کی تربیت کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے میں بیوی کا رول بدل گیا ہے۔ اب بیوی کا ایک اہم رول یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کی ارننگ ممبر (earning member) بنے۔ وہ معاشی اعتبار سے اپنے شوہر کی معاون بنے۔ اس کا اشارہ ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میںملتا ہے۔ راوی کہتے ہیں: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَیَأْتِیَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَنْفَعُ فِیہِ إِلَّا الدِّینَارُ وَالدِّرْہَمُ(مسند احمد، حدیث نمبر 17201) یعنی میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: لوگوں پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا، جس میں دینار اور درہم ہی فائدہ دے گا۔
اس حدیث میں غالباً یہ اشارہ ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ عورت کو اپنے شوہر کے لیے معاشی مددگار بننا پڑے گا۔ موجودہ زمانہ بظاہر یہی زمانہ معلوم ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں زندگی گزارنے کے لیے مال کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ عورتوں کے لیے کمائی کے نئے مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ مثلا ٹیچنگ کے میدان میں عورتوں کو بہت آسانی سے باعزت کام مل جاتاہے۔ دین دار مسلمانوں کو اس امکان سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
خواتین کے معاملے میں اگر یہ تعلیمی شعور موجود ہو، اور بچپن سے ان کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جائے تو بہت آسانی سے ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ شادی کی عمر تک بی ایڈ اور ایم ایڈ بن چکی ہوں، یا کوئی اور پروفیشنل ڈگری حاصل کرچکی ہوں۔ اس معاملے میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں۔ والدین کی زیادہ توجہ دینی تعلیم کے لیے ہوتی ہے، لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ دینی تعلیم کو گھریلو تعلیم کا حصہ سمجھا جائے، اور ڈگری والی تعلیم کو پروفیشنل تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے۔ تاریخ سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اسلام کے دورِ اول میں صحابیات معاشی کام انجام دے کر اپنے شوہروں کی مدد کرتی تھیں۔مثلاً ام المؤمنین خدیجہ، عبد اللہ بن مسعود کی بیوی زینب ، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ہاجرہ کلچر

فرنچ رائٹر الفانسو دی لامارٹین (Alphonse de Lamartine, 1790-1869) کا مشہور قول ہے کہ ہر بڑے آغاز سے پہلے ایک عورت کا رول ہے
There is a woman at the beginning of all great things
تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ قول سب سے زیادہ حضرت ہاجرہ کے اوپر صادق آتا ہے۔ حضرت ہاجرہ سے پہلے دنیا میں نیچر ورشپ کا دور تھا۔حضرت ہاجرہ کے ذریعے انسانی تاریخ میںایک پراسس جاری کیا گیا جس کا نقطۂ انتہا (culmination) پیغمبر اسلام اور اصحابِ رسول کا ظہور تھا، جن کے ذریعے دنیا میں بتدریج سائنٹفک تھنکنگ وجود میں آئی۔اس کا اعتراف فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے ان الفاظ میں کیا ہےکہ اسلام نے زمین کا نقشہ بدل دیا، تاریخ کے روایتی نظام کو ختم کردیا گیا:
(Islam) changed the face of the Globe...the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne, A History of Europe, London, 1958, p 46)
اصل یہ ہے کہ آج ہم جن سائنسی دریافتوں کو استعمال کررہے ہیں، وہ نیچر(فطرت) میں ہمیشہ سے موجود تھی۔مگر اس کو ایکچولائز (actualize) کرنے کے لیے ضروری تھا کہ نیچر میں چھپے ہوئے فطرت کے خزانوں کو بذریعہ تحقیق (investigation) دریافت کیا جائے۔ قدیم زمانے میں نیچرورشپ کے مزاج کی بنا پر انسان کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ نیچر کی تحقیق کرے، اور نیچر میں چھپے ہوئے خزانے کو دریافت کرکے ٹکنالوجی اور صنعت کے دور کو دنیا میں لائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ جس چیز کو پرستش کا موضوع (object of worship) بنائے ہوئے ہوں، اس کو آپ تحقیق کا موضوع (object of investigation) نہیں بنا سکتے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر مقدس چیزوں سے چھیڑ چھاڑ کی جائے تو اس پر بلا نازل ہوگی۔
خالق نے دنیا کے اندر یہ طریقہ رکھا تھا کہ اس نے کچھ چیزوں کو زمین کے اوپر براہ راست طور پر پیدا کیا۔ مثلاً حیوانی طاقت۔ اسی کے ساتھ کچھ اور چیزیں نیچر کے اندر چھپا کررکھ دیں، مثلاً بجلی اور کمیونی کیشن اور کمپیوٹر ،وغیرہ۔ برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975) نے کہا ہے کہ نیچرورشپ کی بنا پر انسان نے کبھی نیچر کو تحقیق کا موضوع بنانے کی طرف توجہ نہیں دی۔ قدیم زمانے میں نیچر ورشپ اتنی عام تھی کہ پیدا ہونے والے لوگ نیچر ورشپ کے کلچر میں کنڈیشنڈ ہوجاتے تھے۔
اب ضرورت تھی کہ ایک نسل ایسی پیدا کی جائے، جو نیچر ورشپ کی کنڈیشننگ سے بچی ہوئی ہو۔ ایک نئی قوم جو اپنی فطرت پر قائم ہو۔اس مقصد کے لیے پیغمبر ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ کو عرب کے صحرا (desert)میں آباد کیا۔ اس طرح ایک خاتون ہاجرہ کی قربانی سے ایک نئی نسل پیدا ہوئی، جو نیچرورشپ کی کنڈیشننگ سے بچی ہوئی تھی۔یہاں تک کہ ساتویں صدی عیسوی میں اسی نسل میں رسول اور اصحابِ رسول پیدا ہوئے۔ یہ اہل توحید تھے، وہ نیچر ورشپ کرنے والے نہیں تھے۔پھران کو دنیا میں غالب قوم کی حیثیت حاصل ہوگئی۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ نیچر کو موضوعِ تحقیق بنایا گیا، جو اَب تک انسان کے لیے صرف موضوعِ پرستش بنی ہوئی تھی۔ یہ نیچر ورشپ اس وقت پوری طرح مغلوب ہوگئی، جب کہ سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ نیچر عامل نہیں ہے، بلکہ وہ معمول ہے۔یعنی نیچر کسی بڑی طاقت کے کنٹرول میں ہے، اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔ اس تحقیق نے نیچر کو معبودیت کے مقام سے ابدی طور پر ہٹادیا۔(تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب اسلام دورِ جدید کا خالق)
لیکن دوبارہ ایسا ہوا ہے کہ ٹکنالوجی کی دریافت کے نتیجے میں مواقع بہت زیادہ کھل گئے ہیں۔مادی فائدے کے اعتبار سے امکانات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیںکہ ہر آدمی تک اس کی رسائی ہو گئی ہے۔ اب ہر آدمی بڑی بڑی ترقی کا خواب دیکھتا ہے، اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فتنے نے ہر آدمی کو مادہ پرست بنادیا ہے۔ موجودہ دور میں خواتین کو ایک نیا رول ادا کرنا ہے۔ وہ یہ کہ نیچر ورشپ سے آزاد ہوکر انسان مادہ پرستی کی طرف چلا گیا، اب وقت آگیا ہے کہ خواتین ایک ایسی نسل تیار کریں، جو دنیا کو مادہ پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لے جائے۔ یہ دوسرا دور عملا ًشروع ہوچکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خواتین اس کو تکمیل تک پہنچائیں گی، اور دنیا کو مادہ پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔
واپس اوپر جائیں

شاک ٹریٹمنٹ

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ زندگی کانظام اس طرح بنا ہے کہ آدمی کو ہمیشہ طرح طرح کے صدمات (shocks) پیش آتے ہیں(البقرۃ، 2:155) ۔ یہ صدمات بظاہر منفی ہوتے ہیں، لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ مثبت سبق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ انسان کی سرگرمیوں کو صحیح رخ (right direction) دیتے ہیں۔ برٹش سائنسداں آئزک نیوٹن (1642-1727) سیب کے باغ میں ایک پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ اس دوران اوپر سے سیب کا ایک پھل گرا، اور نیوٹن کے سر سے ٹکرا گیا۔ بظاہر یہ تکلیف کا واقعہ تھا۔ لیکن اس واقعہ نے نیوٹن کو سوچنے پر مجبور کیا کہ سیب نیچے کیوں گرا، وہ اوپر کیوں نہیں گیا۔ اس سوچ نے نیوٹن کو اس دریافت تک پہنچایا کہ زمین میں قوتِ کشش (gravitational pull) ہے، جو بے شمار پہلوؤں سے انسان کے لیے نفع بخش ہے۔ سیب کے گرنے کے اس واقعہ کو ایک نام دینا ہو تو یہ ہوگا - ایپل شاک (apple shock)۔
اس طرح انسان کے ساتھ جو سبق آموز واقعات پیش آتے ہیں، وہ کسی نہ کسی صدمہ کے ذریعہ پیش آتے ہیں۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ انسان کو صدمات کے ذریعہ سبق آموز تجربہ کرایا جائے۔ یہ طریقِ کار بظاہر تکلیف کا طریقہ ہے، لیکن وہ انسان کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کےلیے یہاں اس قسم کےچند عمومی تجربات کا ذکر کیا جاتا ہے:
(1) فلڈ شاک (flood shock) (2) بھونچال شاک (quake shock)
(3) ڈیتھ شاک (death shock) (4) اولڈ ایج شاک (old age shock)
(5) کووڈ 19شاک (covid-19 shock)، وغیرہ۔
یہ تجربات انسان کو یہ یاد دلاتے ہیںکہ وہ اس دنیا کا ماسٹر نہیں ہے۔ اس دنیا میں اس کو متواضع (modest)انسان بن کر رہنا چاہیے تاکہ وہ ان تجربات سےسبق حاصل کرنے والا بنے۔
واپس اوپر جائیں

حقیقتِ انسانی کی دریافت

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ ایک ضعیف بچہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ ضُعف انسان کی اصل حالت کو بتاتا ہے،یعنی انسان اپنی حقیقت کے اعتبار سےعاجزِ مطلق (all-powerless) ہے۔ لیکن اس دورِ ضُعف میں انسان کو زندہ شعور حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے بچپن کے دور میں انسان اپنی حالتِ ضُعف (powerlessness)کو شعوری طور پر دریافت نہیں کرپاتا ۔ اس کے بعد انسان کے اوپر جوانی کا دور آتا ہے۔ جوانی کے دور میں انسان کو شعور کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس وقت وہ اپنے شعور کو استعمال نہیں کرپاتا کہ وہ اپنے عجز کو دریافت کرسکے۔ اس لیے زندہ شعور کے باوجود وہ حالتِ ضُعف سے بے خبر رہتا ہے۔ یہ صرف بڑھاپے کا دور ہے، جب کہ انسان اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ حالتِ ضُعف کا ادراک کرسکے۔
بڑھاپے کی عمر کیا ہے۔ ایک لفظ میں بڑھاپا عجز (powerlessness)کا تجربہ ہے۔ بڑھاپا کئی پہلوؤں سےزندگی کا ایک سخت ترین مرحلہ ہے۔ ایک وجہ تو یہی ہے کہ آدمی طبعی زندگی کے آخری ایام میں ہوتا ہے، اورموت سےبہت قریب ہوجاتا ہے۔دوسری وجہ ،تیزی کے ساتھ جسمانی قوت کا جاتے رہنا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی بڑھاپے کا دور انسان کی زندگی کا سب سے زیادہ قیمتی دور ہے۔یہ دور کسی انسان کے لیےاس کی اصل حقیقت کاجبری ادراک ہے۔ بڑھاپے سے پہلے انسان اپنے پہلےدو اَدوار (بچپن اور جوانی)کو پانے کے باوجود غفلت کی وجہ سے کھوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے دورِ طفولیت (childhood)یا اپنے دور جوانی میں اپنی حقیقتِ واقعی کا ادراک کرسکے۔
انسان کا خالق یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی حقیقت کو جانے ۔ وہ اسی ادراک کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ لیکن ہر انسان یہ غلطی کرتا ہے کہ وہ اپنے بچپن اور اپنی جوانی کے دور میں اپنی حقیقتِ واقعی کو دریافت کرنے سے بے خبر رہتا ہے۔ اس لیے خالق کی یہ منشا ہوتی ہے کہ وہ بڑھاپے کے دور میں انسان کوعجز کا احساس دلائے ، یعنی یہ کہ وہ اللہ رب العالمین کے مقابلے میں ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کے لیے اس زمین پر صحیح روش صرف یہ ہے کہ وہ اپنے عجز کو جانے، اور احساسِ عجز کی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ بوڑھے انسانوں کا گویا یہ مشن ہے کہ وہ غیر بوڑھوں کو اس حقیقتِ انسانی سے باخبر کرے۔
اللہ رب العالمین کی دریافت کےبعد انسان کے لیے سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اپنے عجز کو دریافت کرے۔ حقیقتِ انسانی کی دریافت اپنی عجز کی دریافت کا دوسرا نام ہے۔ وہی انسان اپنی حقیقت کو دریافت کرتا ہے، جو اپنے عجز کو دریافت کرسکے۔قرآن میں کئی آیتیں ایسی ہیں، جن کی منشا یہ ہے کہ انسان کو حقیقت کی دریافت کرائی جائے (الفتح، 48:11)۔ یہ حقیقت کہ انسان عاجز مطلق ہے، اور خداوند رب العالمین قادرِ مطلق (all-powerful)۔ اسی حقیقت کا شعوری ادراک معرفت (realization)کی اصل ہے۔
معرفت کی اصل حقیقت عجز ہے۔ کوئی انسان جب خداکی معرفت حاصل کرتاہے تو وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ انسان خدا کے مقابلے میں عاجز مطلق ہے ۔اس وقت وہ قدرتِ خداوندی کے مقابلے میں عجزِ انسانی کی دوسری حد (extent) بناتا ہے۔ یہی دریافت معرفت کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے۔ عبدیت کی اسی دریافت پر کسی کے لیے جنت کا تحقُق ہوتا ہے۔ جو انسان اس دریافت سے محروم رہ جائے، اس کے لیے اندیشہ ہے کہ وہ جنت سے بھی محروم رہ جائے۔
خالق کے تخلیقی نقشےکے مطابق، یہ ضروری ہے کہ انسان بچپن اور جوانی کے ابتدائی ادوار سے گزر کر بڑھاپے کی عمرکو پہنچے۔ خالق نے مقدر کیا ہے کہ جو لوگ بڑھاپے کے دور تک پہنچیں، وہ جاننے والے کی حیثیت سے ان لوگوں کے معلم بن جائیں ، جو زندگی کے اس آخری دور تک ابھی نہیں پہنچے۔ وہ ان لوگوں کو باخبر کریں، جو اس حقیقت کو جاننے سے محروم رہے۔ یہ تیسرے دور تک پہنچنے والے لوگ گویا انسانیت کے معلم ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کو اس حقیقت سے باخبر کریں، جو زندگی کے اس آخری دور تک نہیں پہنچ سکے۔
واپس اوپر جائیں

صحت مند تنقید

تنقید (criticism) کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے تجزیہ (analysis)، اور دوسرا ہے مجرد رائے زنی (remark)۔ اگر آپ کو کسی کی بات سے اختلاف ہو ، تو ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ خالص علمی انداز میں اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر یہ متعین کریں کہ اس کی بات میں کون سی رائے آپ کے نزدیک درست نہیں۔ پھر اس نادرست بات کو متعین کریں، اور پھر یہ بتائیں کہ اس کی بات کیوں درست نہیں ہے۔
مثلاً آپ اسرائیل کے کیس کو فلسطین پر ناجائز قبضے کا کیس سمجھتے ہیں تو اپنی مخالفت کو غیرجانب دارانہ انداز میں متعین کریں، اور پھر شریعت یا عقل کے معیار پر اس کو جانچ کر بتائیں کہ اس کی کون سی بات ہے، جو شریعت یا عقل کے معیار پر غلط قرار پاتی ہے۔ پھر اتنا ہی کافی نہیں ہے، آپ کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ اسرائیل کے اپنے بیان کے مطابق ، اس کا کیس کیا ہے۔ وہ کیوں اپنے آپ کو درست سمجھتا ہے، اور پھر دونوں پہلوؤں کا تجزیہ کرکے آپ یہ متعین کریں کہ شریعت یا عقل کی میزان پر اس کا نقطۂ نظر کیا ہے۔جیسے قرآن کی ایک متعلق آیت یہ ہے: یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ اللَّہُ لَکُمْ (5:21)۔ یعنی اے میری قوم، اس پاک زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، بظاہر ارضِ مقدس (فلسطین) امتِ موسیٰ ، بنی اسرائیل کا حق ہے۔قرآن کے ظاہر الفاظ سے واضح طور پر یہ بات نکلتی ہے۔اب اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا کچھ اور مطلب ہے، تو آپ کو خود قرآن سے اس کا مدلل حوالہ بتانا چاہیے۔ مثلا ًاگر آپ یہ کہیں کہ قرآن کی یہ آیت اب ایک منسوخ آیت ہے تو صرف آپ کا کہنا کافی نہ ہوگا ۔آپ کو قواعدِ شریعت کے مطابق یہ بتانا ہوگا کہ یہ آیت کس آیت سے منسوخ ہے۔ ورنہ آپ کا بیان ایک غلط بیان قرار پائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ری ایکشن، رسپانس

اگر کوئی آدمی کسی کی غلطی بتائے، یا اس کی تنقید کرے، تو عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ اس پر لوگ ری ایکٹ (react)کرتے ہیں، وہ اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یا وہ اس کو غلط ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس طرح کے معاملے میں ری ایکشن کا طریقہ بہت زیادہ عام ہے۔مگر اس قسم کے معاملے میں یہ ری ایکشن کا طریقہ صحیح نہیں۔
صحیح رویہ یہ ہے کہ آدمی اپنی صفائی پیش کرنے کے بجائے سوچنا شروع کردے۔ وہ کہنے والے کی بات کو ایک قابلِ غور مسئلہ کے طور پر لے، نہ کہ محض اعتراض کے طور پر۔ جو آدمی آپ کی کسی بات پر تنقید کرتا ہے، وہ آپ کو سوچنے کا ایک پوائنٹ دیتا ہے۔ وہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ اس کی بات پر غور و فکر کریں، اور پھر اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔ آپ اس کو تجربہ (experience) کے خانے میں ڈالیں۔ آپ اس کی بات کو ایک حریف کی بات نہ سمجھیں، بلکہ سادہ طور پر ایک انسان کی بات سمجھیں۔ آپ اس کی بات سے کچھ سیکھ (learning) لینے کی کوشش کریں۔
دوسرے کی بات کو اگر آپ مثبت (positive) طور پر لیں، تو اس سے آپ کو غور و فکر کا ایک میدان ملے گا، وہ آپ کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس کے برعکس، اگر آپ اس کی بات کو منفی (negative) انداز سے لیں تو آپ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کے ذہن میں سوچنے کا عمل جاری نہیں ہوگا۔
زندگی ایک سفر ہے، زندگی کو ایک مثبت تجربہ (positive experience) بنائیے۔ آپ ہر ایک سے کچھ سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ایک سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے تھے(کان یتعلم من کل احد )۔ ایسا صرف اس وقت ہوسکتا ہے، جب کہ آپ مثبت ذہن کے ساتھ جینے کا آرٹ سیکھ لیں۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

صحیح طرزِ فکر حکیمانہ طرز فکر کی ایک اعلی قسم ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں جیتے ہیں، یا صبح وشام گزارتے ہیں، اس میں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ مخلوط (mixed)حالت میں ہیں۔ اس بنا پر بظاہر چیزوں کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہوجاتاہے۔ چیزوں کے بارے میں صحیح رائے اس وقت قائم ہوتی ہے، جب کہ آپ چیزوں کو الگ الگ کرکے دیکھ سکیں۔ اس تجزیاتی مطالعے کے بغیر آدمی کے اندر صحتِ فکرپیدا نہیں ہوسکتی، وہ مبنی بر واقعہ سوچ کا حامل نہیں بن سکتا۔
مثلاً ایک شخص اپنے بارے میں یا اپنی کمیونٹی کے بارے میں یہی کہے گا کہ ہمارے اوپر ظلم ہورہا ہے۔ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ تمھارے باپ دادا کا جو اسٹینڈرڈ تھا، کیا تمھارا اسٹینڈرڈ اس سے کم ہے۔ وہ جواب دے گا کہ نہیں اس سے تو بہت اچھا ہے۔ مثلاً میرے باپ دادا بائیسکل پر سفر کرتے تھے، آج میں کار پر سفر کرتاہوں۔ میرے دادا کے زمانے میں بچے معمولی مدرسے میں پڑھتے تھے، آج وہ شہر کے ایک اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ میرے دادا کچے گھر میں رہتے تھے، آج میں اور میرے بچے پکے گھر میں رہ رہے ہیں، وغیرہ۔ اب اگر آپ اس سے پوچھیں کہ جب تمھاری فیملی کا اسٹینڈرڈ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے، تو ظلم کہاں ہورہا ہے۔ اب وہ حیران ہوجائے گا، اور کہے گا کہ میں نے اس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا۔
اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ اصل مسئلہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے۔ لوگوں کے اندر صحیح طرز فکر (right thinking)نہیں ہے۔ اس لیے لوگ شکایت میں جی رہے ہیں، حالاں کہ انھیں شکر میں جینا چاہیے۔ صحیح طرزِ فکر تجزیاتی فکر کا نام ہے۔ اگر آپ کے اندرڈی ٹیچڈ تھنکنگ (detached thinking)ہو، اگر آپ تجزیاتی انداز میں سوچنا جانتے ہوں تو آپ درست طرزِ فکر کے حامل بن سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہائی پروفائل، لو پروفائل

کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے ہائی پروفائل (high profile) کے انداز میں کام کرنا، اور دوسرا ہے لو پروفائل (low profile) کے انداز میں کام کرنا۔ ہائی پروفائل کا انداز ہمیشہ مایوسی اور شکایت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، لو پروفائل کا انداز ہمیشہ امید اور حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ ہائی پروفائل بے نتیجہ شو ر وغل پر ختم ہوتا ہے، اور لو پروفائل کامیابی کا نیا راستہ کھولنے والا ہے۔ لو پروفائل کے طریقے میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے اور احتساب کرنے کا موقع موجود رہتا ہے۔ اس کے برعکس، ہائی پروفائل کے طریقے میں سوچنے اور احتساب کرنے کا موقع موجود نہیں رہتا۔ ہائی پروفائل کا مطلب ہے— کام اس طریقے سے کرنا کہ لوگوں میں چرچا ہونے لگے
attracting a lot of attention and interest from the public and newspapers, television, etc.
اس کے برعکس، لو پروفائل کا مطلب ہے— ایسا طریقہ جس میں زیادہ شہرت نہ ہو، اور کام خاموشی کے ساتھ کیا جائے
the activities or behaviour not attracting much attention or interest from the public, newspapers, television, etc.
لو پروفائل میں کام کرنے کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ آدمی دوسروںکے لیے چیلنج نہیں بنتا۔ ہر آدمی اپنے دائرے میں اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ اس وجہ سے وہ بغیر کسی ٹکراؤ کے اپنے مقصد کو حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے برعکس، ہائی پروفائل میں یہ ہوتاہے کہ دوسرے لوگ آپ کو اپنے لیے چیلنج سمجھ لیتے ہیں، اور غیر ضروری طور پر آپ کو اپنا حریف (rival) سمجھنے لگتے ہیں۔ لو پروفائل میں آدمی اپنے عمل کا آغاز ممکن سے کرتاہے۔ اس کے برعکس، ہائی پروفائل میں آدمی ممکن اور غیر ممکن کا فرق نہیں کرتا۔ وہ اپنے حوصلہ کے مطابق ہر طرح کے حالات میں کود پڑتا ہے۔ وہ اس مشہور انگریزی مثل کے مصداق ہوتا ہےکہ نادان انسان وہاں چلا جاتا ہے، جہاں داخل ہونے سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں :
fools rush in where angels fear to tread
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا فارمولا

اپنے گزرے ہوئے کل کو بھلاؤ، اور اپنے آج کو لے کر زندگی کی ری پلاننگ کرو، یہی کامیاب زندگی کا واحد فارمولا ہے۔شاید ہر انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ زیادہ بولتا ہے، اور کم سوچتا ہے۔ یہ عادت بچپن سے شروع ہوتی ہے ، اور دھیرے دھیرے لوگ اپنی اس عادت میں اتنے زیادہ کنڈیشنڈ ہوجاتے ہیں کہ ان کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ وہ ایک غلط عادت میںمبتلا ہوگئے ہیں۔ اسی عادت کی بنا پر ہر انسان کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی سب سے زیادہ قیمتی صلاحیت کو سب سے کم استعمال کرتا ہے۔ یہ صلاحیت غور و فکر (contemplation) کی صلاحیت ہے۔ غور و فکر کی صلاحیت ہر آدمی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ مگر یہی وہ سرمایہ ہے، جس کو شاید ہر آدمی سب سے کم استعمال کرتا ہے۔
غور و فکر کی صلاحیت کو استعمال کرنے سے آدمی کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development)) ہوتا ہے۔ آدمی کی تخلیقیت (creativity) میں اضافہ ہوتا ہے۔ آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے دماغ کے بند گوشوں کو کھولے۔ وہ اپنی زندگی کے اندھیرے سفر کو اجالے کا سفر بنا سکے۔
کامیابی کا فارمولا(formula) کوئی پراسرار فارمولا نہیں ہے۔ یہ تمام تر مبنی بر فطرت (nature-based) فارمولا ہے۔ لوگ عام طور پر فطرت کے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ یہی لوگوں کا اصل مسئلہ ہے۔ فطرت کے مقرر راستے کی طرف واپس آئیے، فطرت کے راستے کی طرف دوبارہ اپنا سفر شروع کردیجیے، اور پھر آپ کا سفر کامیابی کی منزل کی طرف جاری ہو جائے گا۔
کامیابی کا سفر سب سے پہلے درست آغاز (right beginning) کا سفر ہے۔ دوسری ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی بار بار اپنا محاسبہ کرتا رہے۔ درست آغاز اور محاسبہ کے بغیر سفر کرنے والے کے لیے یہی مقدر ہے کہ وہ ناکام ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

چیلنج کا مقابلہ

دنیا میں کوئی انسان اکیلا نہیں ہے۔ بلکہ یہاں بہت سے انسان آباد ہیں۔ ہر ایک کا نشانہ الگ ہے۔ ہر ایک کی سوچ مختلف ہے۔ ہر ایک آزاد ہے کہ وہ اپنے لیے جس منزل کا چاہے انتخاب کرے۔زندگی کی اس نوعیت نےانسانی سماج کو ایک ایسی دنیا بنا دیا ہے، جہاں مسابقت اور چیلنج کا ایک سمندر ہے۔ یہاں مسلسل طور پر افراد اور قوموں کے درمیان مسابقت (competition) جاری رہتی ہے۔ ہر آدمی مجبور ہے کہ وہ اس سمندر کو پار کرکے اپنے آپ کو ساحل تک پہنچائے۔ جو اس راز کو نہ جانے، وہ اس سمندر میں عملاً غرق ہوجائے گا۔ اس کو زندگی کے تجربے سے شکایت کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ جو آدمی زندگی کی اس نوعیت کو جانے، اوراپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی کی مطلوب پلاننگ کرسکے، وہ ضرور کامیابی کے ساحل تک پہنچے گا۔ اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ اس کے برعکس، شکایت اس بات کا اعلان ہے کہ آدمی درست پلاننگ میں ناکام رہا۔
زندگی کے بارے میں یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو چوائس ہے، وہ دوسروں سے لڑنا نہیں ہے، بلکہ دوسروں سے ایڈجسٹ کرتے ہوئےاپنے معاملات کو مینج (manage) کرنا ہے۔ اس دنیا میں کامیابی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی (reality based planning)کا نام ہے، اور ناکامی یہ ہے کہ آدمی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی میں فیل ہوجائے۔
انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ پرامن انداز میں پیش آمدہ چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے سفر طے کرے۔ وہ مواقع (opportunities) کو دریافت کرکے منصوبہ بند انداز میں ان کو اویل (avail) کرنے کی کوشش کرے۔زندگی ناکامی کے واقعات کے ایک تسلسل کا نام ہے۔ کامیاب وہ ہے، جو اپنی ناکامی کو اپنی کامیابی میں کنورٹ (convert)کرسکے۔ یہ زندگی کا سب سے بڑا راز ہے۔ کامیاب وہ ہے، جو اس راز کو جانے، اور اس کو جانتے ہوئے اپنی زندگی کی پلاننگ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

عافیت کا راز

پر عافیت زندگی کا راز صرف ایک ہے— آدمی حقیقت پسند (realist) بن جائے۔ اس معاملے میں یہی ایک ورکیبل فارمولا (workable formula)ہے، دوسرا کوئی فارمولا ورکیبل ہی نہیں۔آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ زندگی کے معاملے میں کچھ امیدیں قائم کرلیتا ہے، کبھی دنیا سے اور کبھی اپنے تعلق والوں سے اورکبھی سماج سے۔ یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں۔ جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو وہ اپنے اندر شکایت کا مزاج بنا لیتا ہے۔ یہ معاملہ حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
ہمارے یہاں ایک بزرگ تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بل تو اپنا بل۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی زندگی کا حقیقت پسندانہ فارمولا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طاقت سے جو کچھ کرسکے اس پر بھروسہ کرے۔ جو چیز اس کی ذاتی طاقت سے باہر ہو، اس پر اپنی دیوار کھڑی نہ کرے۔ اسی حقیقت کو دریافت کرنے کا نام پر عافیت زندگی ہے۔ یہ اصول خاندانی زندگی کے لیے بھی ہے، اور سماجی زندگی کے لیے بھی، حتی کہ قومی زندگی کے لیے بھی۔ اگرچہ کلی معنوں میں حقیقت پسند بننا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن یہ تو ممکن ہے کہ جب آدمی کے اندازے پورے نہ ہوں، تو وہ برداشت کا طریقہ اختیار کرے، وہ شکایت کا طریقہ اختیار نہ کرے۔
جب آدمی کسی کے ساتھ کوئی معاملہ کرتا ہے تو وہ کچھ امیدوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مشہور مثل کے مطابق عمل کرے— نیکی کر دریا میں ڈال۔ اگر آپ کسی سے کوئی اچھا سلوک کریں، تو تقریباً ننانوے فیصد کیسوں میں فریق ثانی آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اترے گا۔ اس لیے عافیت کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے میں آدمی یہ اصول اختیار کرے کہ یا تو وہ کسی کے ساتھ کوئی سلوک ہی نہ کرےِ ، یا وہ ایسا کرے کہ سلوک کرتے ہی اس کو بھلادے۔
ایسا انسان دراصل صابر انسان ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کا مزاج ہو، وہ کریم انسان ہوگا، یعنی شریف اور سنجیدہ انسان ، وہ اعلیٰ سوچ کا مالک ہوگا، وہ بدلہ لینے کے بجائے معاف کرنے کو بہتر سمجھے گا، وہ ردعمل (reaction) کی نفسیات سے خالی ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

فیمینزم اور دعوت

قدیم زمانے سے عورتوں کے تعلق سے یہ رواج تھا کہ ان کو دبا کر رکھا جاتا تھا۔ موجودہ زمانے میں ، انیسویں صدی سے حقوقِ نسواں کی تحریک شروع ہوئی، جس کو فیمینزم (feminism) کا نام دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ عورتوں کو سماجی مساوات اور قانونی تحفّظ فراہم کرنا۔ اس میںمساوات، حقِ میراث، آزادیٔ رائے، خودکفیلی، آزاد خیالی، گھریلو تشدد سےتحفظ وغیرہ شامل ہیں ۔
حقوقِ نسواںکی تحریک ابتدا میںمحدود مطالبات کے لیے چلی تھی، لیکن بالآخر وہ خواتین کے عمومی آزادی کی تحریک بن گئی۔ اب جو آزادیٔ نسواں کا دور آیا تو عورتوں کو لگا کہ ہمارے لیے بھی پوری آزادی کے ساتھ کام کا موقع پیدا ہوا ہے۔ اس سے ایک ماحول بنا۔ اس ماحول کو عام طور پر مسلمانوں نے پسندیدگی کے ساتھ نہیں دیکھا۔ حالاں کہ اس تحریک میں بظاہر نقصان ہے تو اس میں فائدے کا پہلو بھی موجود ہے۔ آزادیٔ نسواں کے اس ماحول سے ہماری ٹیم کے لوگ بھی فائدہ اٹھارہے ہیں۔ ہمارے دعوتی مشن کو اس سے فائدہ مل رہا ہے۔ مثلاً دہلی میں ایک پروگرام میں ہماری ٹیم شرکت کرنے گئی، اور ساتھ میں ترجمۂ قرآن بھی لے گئی تاکہ وہ وہاں اس کو لوگوں کے درمیان تقسیم کرے۔ تاکہ لوگ براہ راست خدا کے پیغام کو پڑھیں۔ اس پروگرام میں انڈیا کے ایک سینٹرل منسٹر بھی آئے ہوئے تھے۔ جب وہ باہر نکلے تو اس کے ارد گرد بہت بھیڑ اکٹھی ہوگئی۔ اس موقع پر ہماری ٹیم کے لوگوں کے لیے ان کو قرآن کا ترجمہ دینے کی بظاہرکوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس وقت ایک خاتون، مس سعدیہ خان دوڑ کر ان کے پاس گئیں، اور زور سے آواز لگایا، سر! یہ سن کر وہ منسٹر جُو اَب کار میں بیٹھنے جارہے تھے، ایک خاتون کی آواز سن کو کر رک گئے، اور شکریہ کے ساتھ ان سے قرآن کا ترجمہ لیا، اور کار میں سوار ہوکر چلے گئے۔
یہ دعوتی موقع صرف ایک خاتون کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ جدید دور میں ایک نارم (norm)بنا ہے، یعنی لیڈیز فرسٹ ۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرے تو اس کو غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔ اسی نارم (norm)کے تحت وہ منسٹر رک گیا ، اور ایک خاتون سےترجمۂ قرآن لیا، جس صنف کو قدیم زمانے میں بے حقیقت سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں یہ مانا جاتا ہے کہ عورتوں کو ایمپاور کرنا کسی بھی ملک کے تمام گوشوں کی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے:
Women’s empowerment is the most crucial point to be noted for the overall development of a country.
اسی طرح ایک خاتون کا واقعہ ہے، جب وہ شادی کے بعد اپنے سسرال گئیں تو ان کو وہاں بہت ستایا گیا۔ اس سے ان کو اپنے بارے میں یہ تصور پیدا ہوگیا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتی ہیں ۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے ملاقات کی، اور ان کو یہ سمجھایا کہ وہ دعوت الی اللہ کا کام کرسکتی ہیں۔ دھیرے دھیرے ان کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ وہ دعوت کا کام کرسکتی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے سی پی ایس کی لیڈیز کے ساتھ مل کر دعوتی پلیٹ فارم قائم کیا۔ اس گروپ میں تمام دنیا کی سی پی ایس لیڈیز موجود ہیں، وہ دعوتی کام کو نئے انداز میں اور بہت ہی منظم طریقے سے کررہی ہیں۔
ایک اورخاتون اپنا تاثر ان الفاظ میں لکھتی ہیں مجھے ہر بار یہ ریلائز ہوتا ہے کہ میںنےاس (سی پی ایس لیڈیز) گروپ کو جوائن کرکے اپنے اوپر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ کیوںکہ اس سے پہلے میں بہت زیادہ اسٹریس میں تھی، اور سائکالوجسٹ سے کنسلٹ کرنا چاہتی تھی، مگر یہ گروپ میرے لیے اللہ کی طرف سے ایک رہنمائی ہے۔ اس سے میں بہت کچھ سیکھ رہی ہوں، میرا اسٹریس بھی ختم ہوگیا ہے، اور امید کرتی ہوں کہ میری پرسنالٹی نکھرے گی، ان شاء اللہ ( مز راضیہ خان، غازی آباد) ۔
فیمینزم کے دور میں عورتوں کے ذریعے دعوت کا کام اس حدیث کا وسیع تر انطباق ہے، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کی ہے لَتَرَیَنَّ الظَّعِینَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِیرَةِ، حَتَّى تَطُوفَ بِالکَعْبَةِ لاَ تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللّہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3595)۔ یعنی تم ضرور دیکھو گے کہ اونٹ پر سوار ایک عورت حیرہ سے (تنہا) آئے گی، یہاں تک کہ کعبہ کا طواف کرے گی، اس کو صرف اللہ کا ڈر ہوگا۔ اس واقعے میں سبق ہے کہ مسلمان اپنے ماضی (past)کی بنیاد پر اپنی خواتین کومیدانِ عمل سے دور نہ رکھیں، بلکہ حال (present) میں خواتین کےلیے موجود عملی مواقع کی بنیاد پران کے لیے دینی اور دعوتی عمل کی پلاننگ کریں۔
واپس اوپر جائیں

مسلم دنیا کی تحریکیں

انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مسلم دنیا میں بہت سی تحریکیں اٹھیں۔یہ بظاہر بہت بڑی بڑی تحریکیںتھی۔ مثلاً فلسطین کی تحریک اورحکومتِ الٰہیہ کی تحریک، وغیرہ۔ ان تحریکوںکی ہنگامہ آرائی پوری دنیا میں سنائی دی۔ مگر نتیجے کے اعتبار سے یہ تمام تحریکیں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئیں۔ ان کا کوئی مثبت نتیجہ مسلم قوم کو حاصل نہ ہوسکا۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان تحریکوں کے بانیوں نے زمانی تقاضوں کو سمجھے بغیر اپنا عمل شروع کردیا۔ یعنی ظاہری حالات کو دیکھ کر وہ بطور ردعمل اٹھ کھڑے ہوئے اور ہنگامہ آرائی کرنے کو کام سمجھ لیا۔ حالاں کہ کام یہ تھا کہ نئے حالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھ کر نتیجہ خیز انداز میں عمل کا منصوبہ بنایا جائے۔ مگر ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔
مثلاًایک مسلم رہنما نے لکھا ہے کہ مسلم امت کی کمزوری جذبۂ قربانی کی کمی ہے۔عام طور پر مسلم رہنما مسلم قوم کی ناکامی پر ایسا تبصرہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ دورِ جدید کی پوری مسلم تاریخ قربانی اور جہاد بمعنی قتال کی تاریخ ہے۔ مسلم رہنما ایسا تبصرہ اس لیے کرتے ہیں۔ کیوں کہ نتیجہ نہیں نکل رہا ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کا واقعہ بھی نہیں ہو رہاہے۔ جب کہ مسلم قوم کی جانب سے ہر لمحہ کسی نہ کسی مقام پر ایسی قربانی کا عمل پیش آتار ہتا ہے۔ مگر یہ قربانی زمانی حالات کو سمجھے بغیر بطور ردعمل دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے اس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا ، نہ کہ عملاً قربانی کے واقعے کا پیش نہ آنا۔
موجودہ زمانے میں جو تبدیلی ہوئی ہے، اس سے تمام چیزوں کا معیار بدل گیا ہے۔ مثلاً پچھلے دور میں اوزار لوہار کی بھٹی میں تیار کیے جاتے تھے۔ اب اوزار مشین کے ذریعے تیار کیے جاتے ہیں۔پہلے زمانے میں علم برائے علم کا رواج تھا۔ موجودہ زمانے میں ساری اہمیت پروفیشنل ایجوکیشن کی ہوگئی ہے۔ قدیم زمانے میں کتابیں ہاتھ سے لکھ کر تیار کی جاتی تھیں، موجودہ زمانے میں کتابیں کمپیوٹر سے تیار کرکے پریس میں چھاپی جاتی ہیں، وغیرہ۔ اسی زمانی فرق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ سب کی سب باعتبارِ نتیجہ لا حاصل ہوکر رہ گئیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک ملاقات

[ ماہنامہ صراط مستقیم انٹرنیشنل، پاکستان کے لیے دیا گیا مولانا وحید الدین خاں صاحب کا انٹرویو]
س:تاریخ پیدائش اور خاندانی پسِ منظر؟
ج میری پیدائش سرکاری ریکارڈ کے مطابق، یکم جنوری 1925 کو اعظم گڑھ (اترپردیش )کے ایک گاؤں بڈھریا میں ہوئی۔میرے جد اعلیٰ کا نام حسن خاں تھا۔ وہ ریاست سوات (Swat)کے رہنے والے تھے۔ سوات چترال میں واقع ہے، جو اُس زمانہ میں افغانستان کا حصہ تھا۔ اب یہ پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ حسن خاں کے ایک اور بھائی تھے جن کا نام حسین خاں تھا۔ دونوں بھائیوں کے درمیان کسی بات پر نزاع پیدا ہو گیا۔ چنانچہ حسن خاں اپنے بھائی حسین خاں سے نہ صرف علیٰحدہ ہو گئے، بلکہ اُنھوں نے سوات سے ہجرت بھی کر ڈالی، اورانڈیا کے ایک صوبہ اترپردیش کے علاقے جون پور میں پہنچ گئے۔ اس وقت یہاں سلطان خاں کی حکومت تھی۔ پہلے ہمارا خاندان جون پور میں بسا، پھر کچھ لوگ اعظم گڑھ کے علاقے میں جاکر بس گئے۔ یہیں میری پیدائش ہوئی۔
س:تعلیمی مراحل؟
جبچپن میں میرا حال یہ تھا کہ اکثر میں گھر سے نکل کر کھیتوں اور باغوں کی طرف چلا جا تا تھا۔ گاؤں کے باہر ندی پر ایک پل تھا ۔ میں وہاں جا کر بیٹھ جا تا، اور دیر تک دریا کی روانی اور کائنات کے مناظر کو دیکھتا رہتا تھا۔فطرت کو دیکھنا میرا پسندیدہ کام تھا۔ کچھ شعور ہوا تو ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک مکتب میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد 1938 میں عربی تعلیم کے لیے میں نے مدرسۃ الاصلاح( سرائے میر، اعظم گڑھ) میں داخلہ لیا۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد جب میں نے دیکھا کہ میں سماج میں ارریلیونٹ ہوں ، یعنی میری تعلیم اس لائق نہیں جو مجھے موجودہ سماج میں مفید بناسکےتو میں نے دوبارہ تفاسیر و حدیث وغیرہ کا مطالعہ کیا ، انگریزی زبان سیکھی، پھر سیکولر علوم اورسائنس وغیرہ کا مطالعہ کیا۔ اس طرح میں نے زمانی شعور حاصل کیا، اور پورے یقین کے ساتھ اسلام کو از سرنو دریافت کیا۔
س:فہم قرآن کے بنیادی اصول؟
جڈی کنڈیشنڈ مائنڈ کے ساتھ قرآن میں تدبر کرنا، اور تقوی کے ساتھ اللہ سے دعا کرنا۔
س:کھانے اور پہننے میں کیا پسند ہے؟
ج لائف اسٹائل کےمعاملے میں میرا اصول یہ ہے— سادہ زندگی، اونچی سوچ
simple living, high thinking
س:ہندوستان میں اسلام کی دعوت اور اس پر عمل کتنا دشوار ہے؟
ج آج کے دور میں کسی بھی ملک میں دعوت کا کام مشکل نہیں ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ پیس فل انداز میں حکمت کے ساتھ دعوت کا کام کیا جائے۔
س:ایک داعی کو کن اَوصاف سے متصف ہونا چاہیے؟
ج داعی کے دل میں مدعو کے لیے مکمل طور پر خیرخواہی (نصح) کا جذبہ ہونا چاہیے۔مدعو کی کوئی بھی اشتعال انگیز بات داعی کو خیر خواہی کے جذبے سے دور نہ کرے۔
س:حقوق مسلم کےلیے آپ کی جدو جہد کی چند جھلکیاں؟
ج میں نے مسلمانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ حقوق طلبی کی مہم ترک کریں، اور لوگوں کے لیے نافع (giver) بن کر زندگی گزاریں۔ حدیث کے الفاظ میں ،وہ الید العلیا بنیں، الید السفلیٰ نہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1427)۔یعنی وہ دینے والے (giver) بنیں، نہ کہ لینے والے۔
س:غیر مسلم کس کس رکاوٹ کی وجہ سے نعمتِ اسلام سے محروم ہیں؟
جدعوت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود مسلمان ہیں۔ مسلم مفکرین کی یہ غلطی ہے کہ انھوں نے سیاسی میدان میں مغلوب ہونے کی وجہ سے جدید فکر یا جدید تہذیب کو اسلام کا مخالف سمجھ لیا۔ اس بنا پر ان کے اور جدید ذہن کے درمیان غیر ضروری ٹکراؤ پیدا ہوگیا ہے۔چنانچہ موجودہ دور میں دعوت کا کام نارمل انداز میں جاری نہیں ہے۔میری ان کو نصیحت ہے کہ وہ جدید فکر کے خلاف اپنی منفی مہم بند کردیں۔ اس کے بعد غیر مسلموں کے درمیان دعوت کا کام بالکل فطری انداز میں جاری ہوجائے گا۔
س:فرقہ وارانہ تشدد (مذہبی ، مسلکی، سیاسی، لسانی وغیرہ) کے اسباب و وجوہات ؟
جاختلاف کو مینج کرنے کا فقدان۔ اختلاف (difference) کے معاملے میں ہمیشہ دو طریقے ہوتے ہیں— غلو کا طریقہ اور ٹالرنس کا طریقہ۔ غلو کا طریقہ یہ ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ مختلف مسالک فکر کے درمیان ایک ہی طریقہ صحیح ہے، دوسرے تمام طریقے غلط ہیں، ان کو ختم ہوجانا چاہیے۔اس کے برعکس،دوسرا طریقہ رواداری یا وسعتِ نظری کا طریقہ ہے، یعنی یہ سمجھنا کہ جو اختلاف ہے، وہ تنوع (diversity)کا معاملہ ہے۔ جس کا عملی فارمولا اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— ایک کی پیروی ، سب کا احترام :
follow one, respect all
س: فرقہ وارانہ تشدد کی فضا کو ختم کرنے کے لیے کون کیا کردار ادا کرے؟
جنفرت کی فضا کو ختم کرنے کا صرف ایک اصول ہے، یک طرفہ طور پر صلح کرلینا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا۔
س:پوری دنیا میں ’’مسلمان ہی مظلوم‘‘ کیوں ہیں؟
جمسلمان مظلوم نہیں ہیں، وہ اپنی غیر حکیمانہ پلاننگ کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل کی پریکٹکل وزڈم کی بنیاد پر ری پلاننگ کریں۔
س: دینی مدارس کی اصلاح کے لیے کیا تجاویز دیں گے؟
جحدیث کے الفاظ میں، وہ بصیر زمانہ بنیں(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ بصیر زمانہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ مدارس زمانے کے مطابق، اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی (right planning) کر یں۔ زمانے سے باخبری کے بغیر اسلامی عمل کی درست منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی ہے۔ اس بنا پر اہلِ مدارس کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات سے پوری طرح باخبر ہوں، ورنہ ان کی سرگرمیاں بے نتیجہ ہوکر رہ جائیں گی۔مثلاًہم ایسے زمانے میں ہیں جو امن کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں صرف پر امن منصوبہ بندی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی آج کے زمانے سے بے خبر ہو، اور وہ امن کے زمانے میں جنگ کی تیاری کرے، اور پھر اپنے زمانے کے لوگوں کے خلاف لڑائی چھیڑ دے تو بلاشبہ اس کا منصوبہ غلط ہوجائے گا۔اپنے جان و مال کو قربان کرنے کے باوجود وہ کوئی مثبت نتیجہ (positive result) حاصل نہ کرسکے گا۔ مدارس کے تعلق سے مزید تفصیل میری کتاب "علما ءاور دورِ جدید"، اور" دین و شریعت" میں دیکھی جاسکتی ہے۔
س: آپ بصیرِ زمانہ بننے پر بہت زور دیتے ہیں، کیا آپ سے پہلے کسی عالم نے ایسا کہا ہے؟
ج قدیم علما کے یہاں اس کی مثالیں ملتی ہے۔ مثلاً وہب بن منبہ (وفات 114ھ) نے کہا ہے کہ آل داؤد کی حکمتوں میں ایک یہ ہے  حَقٌّ عَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ عَارِفًا بِزَمَانِہ ِ(الصمت وآداب اللسان لابن أبی الدنیا، اثر نمبر 31)۔ یعنی عقلمند انسان(wise person) پر لازم ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ اسی طرح ابن الحاجب الکردی المالکی (وفات646ھ) کا قول ہے وَمِنْ شِیَمِ الْعَالِمِ أَنْ یَکُونَ عَارِفاً بِزَمَانِہِ (جامع الأمہات لابن الحاجب ، صفحہ575)۔ یعنی عالم کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ یہی بات ابن عبد البر (وفات 463ھ) نے بھی اپنی کتاب الکافی فی فقہ أہل المدینة (جلد2،صفحہ1132)میں لکھی ہے۔ابن کثیر (وفات774ھ) نےاپنے استاد برہان الدین الفزاری کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے عَارِفًا بِزَمَانِہِ (البدایۃ والنہایۃ، جلد14، صفحہ 167)۔ یعنی وہ اپنے زمانے سے باخبر عالم تھے۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب درالمختار (صفحہ 95)میں اس تعلق سےایک بامعنی قول ان الفاظ میں آیاہے مَنْ لَمْ یَکُنْ عَالِمًا بِأَہْلِ زَمَانِہِ فَہُوَ جَاہِلٌ(جو اپنے زمانے کا عالم نہ ہو، وہ جاہل ہے)۔مشہور حنفی فقیہ ابن عابدین شامی (وفات 1889)نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں لکھاہے وَمَنْ لَمْ یَدْرِ بِعُرْفِ أَہْلِ زَمَانِہِ فَہُوَ جَاہِلٌ (الرد المختار، جلد3، صفحہ724)۔یعنی جو اپنے زمانے والوں کے ٹریڈیشن سے بے خبر ہو، وہ جاہل ہے۔ تو میں نے جو بات کہی ہے ، وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ میں نے جدید اسلوب میں وہی بات دہرائی ہے، جو قدیم علما کہتے رہے ہیں۔
س96سالہ زندگی کے تجربات کی روشنی میں ہم جاننا چاہیں گے کہ ایک فرد کو کن اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے؟
جپرابلم کو اگنور کرنا اورمواقع کو دریافت کرکے منصوبہ بند طریقے سے اس کو اویل کرنا۔
س:کبھی پاکستان کا دورہ کیا… اگر نہیں تو کیا خواہش ہے؟
جمیں نے پاکستان کا تین مرتبہ سفر کیا ہے۔ ان میں ایک سفر تقسیم سے پہلے 1945 میں ہوا تھا۔ اس کے بعد دوسرا سفر 1971 میں ہوا، پھر تیسرا سفر 1985 میں ہوا۔ ان کی تفصیل میری کتاب سفر نامہ غیر ملکی اسفار جلد اول میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً میں پاکستان کے تعلق سے مضامین بھی لکھتا رہا ہوں۔ اس وقت ہمارے مشن سے تعلق رکھنے والی ایک ٹیم بھی پاکستان میں موجود ہے، جو وہاں ہمارے دعوتی مشن کو یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔
س: اُمت مسلمہ کو نشاۃ ثانیہ کے سفر میں کس مرحلہ میںدیکھتے ہیں؟
جمسلم مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ جدید فکر (modern thought) ان کے خلاف ایک چیلنج ہے۔ مگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس چیز کو جدید فکر کہا جاتا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام مخالف نہیں ہے، وہ عین موافقِ اسلام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ذہن اور جدید تہذیب پوری کی پوری اسلام کے موافق ہے۔ حقیقت کےاعتبار سے دیکھیے تو اسلام اور جدید فکر میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ فکرِ جدید کو بدلنے کا نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی سوچ کو بدلنے کا ہے۔ اس کے بعد کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔ مسلمانوں کا مزاج ہے ہر نئی چیز کے خلاف ہوجانا۔ مثلاً جب کلونیلزم کا دور آیا تو وہ اس کے خلاف ہوگئے۔ اسی مزاج نے اصل مسئلہ پیدا کیا ہے۔ اس ذہنیت کو بدلنا ہے۔
س:امت مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار اور مقام کیسے حاصل کر سکتی ہے؟
جان کو پانچ پوائنٹ فارمولا اختیار کرنا چاہیے۔وہ پانچ پوائنٹ فارمولادرج ذیل ہے:
(1) معرفتِ خداوندی (realization of God)
(2) مثبت سوچ (positive thinking)
(3) دعوت الی اللہ
(4)نفرت (hate) کا کلی خاتمہ، منفی سوچ کا کلی خاتمہ، مغرب کو اسلام کا دشمن سمجھنے کے بجائے اس کو اسلام مؤید سمجھنا۔
(5) سیاسی ٹارگٹ کے بجائے آخرت رخی زندگی کواپنا ٹارگٹ بنانا۔
س:اہل ِپاکستان کے نام…محبت بھرا پیغام؟
جوہ قرآن کی اس آیت کواپنے لیے رہنما آیت کی حیثیت سے اختیار کرلیں:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
اس آیت کے مطابق، کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا ابدی دشمن نہیں ہے، پیدائشی طور پر ہر انسان امکانی دوست (potential friend) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں اہل پاکستا ن کی منصوبہ بندی یہ ہونا چاہیے کہ وہ بالقوۃ (potential) دوست کو ، قرآن کی رہنمائی کے مطابق، بالفعل (actual) دوست بنانے کا طریقہ اختیار کرے۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی (وفات 1810)اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں : وقیل معناہ لا تستوى الحسنة فى جزئیاتہا ولا تستوى السیّئة فى جزئیاتہا بل بعضہا فوق بعض فى الحسن والسوء فاذا اعترضک من بعض أعدائک سیّئة فادفعہا بأحسن الحسنات کما لو أساء إلیک رجل فالحسنة ان تعفو عنہ والتی احسن ان تحسن الیہ (تفسیر المظہری، جلد8، صفحہ 296)۔ یعنی بعض علما نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ نیکیاں سب ایک درجہ کی نہیں ہوتی ہیں، اسی طرح برائیوں کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی دشمن کوئی بدی کرے تو اس کے مقابلہ میں بہترین اعلیٰ درجہ کی نیکی سے کام کیا جائے ۔مثلاً کسی نے اگر تمہارے ساتھ بدسلوکی کی ہو تو درگذر کرنا چاہیے ۔ لیکن اعلی نیکی یہ ہے کہ برائی کے بدلے دشمن سے بہترین سلوک کیا جائے — بد اخلاقی کے جواب میں حسن اخلاق بلاشبہ سب سے اعلیٰ اخلاق ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
قرآن کی ایک آیت ہے أَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِنْ أُولَئِکُمْ أَمْ لَکُمْ بَرَاءَةٌ فِی الزُّبُرِ (54:43)۔ یعنی کیا تمہارے منکر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لیے آسمانی کتابوں میں معافی لکھ دی گئی ہے۔ اس آیت میں کس چیز کی براءۃ کی طرف اشارہ ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
جواب
قرآن کی اس آیت میں وقتی ریفرنس کے اعتبار سے قدیم مکہ کے قریش کو خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی گئی ہے۔ اصولی اعتبار سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی گروہ مستثنیٰ گروہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہر ایک کا معاملہ یکساں ہے۔ یعنی ہر ایک کو ایک ہی معیار پر جانچا جائے گا۔ ہر ایک سے ایک ہی اصول کی روشنی میں معاملہ کیا جائے گا۔ نہ پیدائشی اعتبار سے کسی کا معاملہ دوسروں سے مختلف ہے، اور نہ ایسا ہے کہ قرآن کے سوا جو دوسری آسمانی کتابیں اللہ نے اتاری ہیں، ان میں کسی گروہ کے بارے میں یہ اعلان ہے کہ ان کا کیس ایک مستثنیٰ کیس ہے۔ وہ بھی خدا کے مواخذہ کے قانون کے تحت ہیں، جس طرح دوسرے تمام لوگ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے، ان میں پیغمبر اسلام کا انکار کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔ مگر انہوں نے اس سے نصیحت نہ لی۔ یہی تمام قوموں کا حال ہے۔ کھلی نشانیوں کے باوجود ہر قوم اپنے آپ کو محفوظ اور مستثنیٰ قوم سمجھ لیتی ہے۔ ہر قوم دوبارہ وہی سرکشی کرتی ہے، جواس سے پہلے والی قوموں نے کی ، اور اس کے نتیجہ میں وہ خدائی عذاب کی مستحق ہوگئیں۔
کسی قوم کا اپنے آپ کو خد اکا محبوب خیال کرلینا سراسر باطل خیال ہے۔ خدا کے یہاں فرد فرد کا حساب ہونا ہے ،نہ کہ قوم قوم کا۔ ہر آدمی جو کچھ کرے گا اسی کے مطابق وہ خدا کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ہر آدمی اللہ کی نظر میں بس ایک انسان ہے، خواہ وہ ایک قوم سے تعلق رکھتا ہو یادوسری قوم سے۔ ہر آدمی کے مستقبل کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا جائے گا کہ امتحان کی دنیا میں اس نے کس قسم کی کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔ جنت کسی کا قومی وطن نہیں، اور جہنم کسی کا قومی جیل خانہ نہیں۔ اللہ کے فیصلہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے ایسے افراد اٹھاتا ہے، جو لوگوں کو زندگی کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ ان کو جہنم آگاہ کریں اور جنت کی خوش خبری دیں۔ خدا کے اسی بشیر ونذیر کا ساتھ دے کر آدمی خدا کو پاتا ہے، نہ کہ کسی اور طریقے سے۔
سوال
قرآن کی ایک آیت ہے:وَإِنْ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ (4:159)۔ یعنی اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے۔ اس آیت میں بِہِ ضمیر کا مرجع کس کی طرف ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، ممبئی)
جواب
مذکورہ آیت میں پہلی ضمیر کا مرجع قرآن ( کی بیان کردہ حقیقت) ہے، اور دوسری ضمیر کا مرجع افراد اہل کتاب ۔ اس لحاظ سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب کا ہر فرد اپنی موت سے پہلے اس معاملے میں قرآن کی بیان کردہ حقیقت کو یقین کے ساتھ مان لیتا ہے۔ یعنی منصوبۂ تخلیق کی حقیقت کو مان لیتا ہے، اگرچہ وہ اسلام اور قرآن کا نام نہ لے۔ اصل یہ ہے کہ انسان اپنی آخری عمر میں پہنچ کر مین کٹ ٹوسائز (man cut to size)بن جاتا ہے۔ اس وقت وہ یہ ریلائز (realize) کرنے لگتا ہے کہ وہ اس دنیا میں عاجز مطلق ہے۔ یہ واقعہ مخصوص طور پر اہلِ کتاب سے متعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک عام قانون ہے جس کا اطلاق اہل کتاب پر بھی ہوتا ہے۔
عبد اللہ بن عباس (وفات 68ھ)کے شاگرد عکرمہ تابعی (وفات 105ھ)اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ کوئی یہودی یا عیسائی نہیں مرے گا یہاں تک کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے (لَا یَمُوتُ النَّصْرَانِیُّ وَلَا الْیَہُودِیُّ حَتَّى یُؤْمِنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّہُ علیہ وسلّم ) تفسیر طبری،جلد9، صفحہ386۔
یہود و نصاری کے پاس آسمانی علم تھا ایسے لوگ یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتے تھے کہ پیغمبر عربی کی دعوت خالص خدائی دعوت ہے۔ مگر پیغمبر عربی کو ماننا اور ان کے مشن میں اپنا مال اور اپنی زندگی لگانا ان کو دنیوی مصلحتوں کے خلاف نظر آتا تھا۔ اس بنا پر انہوں نے آپ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ مگر جب موت آدمی کے سامنے آتی ہے تو اس قسم کی تمام مصلحتیں باطل ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہیں۔ اس وقت آدمی کے ذہن سے تمام مصنوعی پردے ہٹ جاتے ہیں اور حق اپنی کھلی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔ موت کے دروازے پر پہنچ کر آدمی اس چیز کا اقرار کرلیتا ہے جس کو وہ موت سے پہلے ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ مگر اس وقت کے اقرار کی اللہ کی نظر میں کوئی قیمت نہیں۔
یہ بات جو یہاں اہلِ کتاب کی نسبت سے کہی گئی ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہر انسان کی نسبت سے ہے۔ اللہ کے قانون کے مطابق، ہر انسان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ اپنی موت سے کچھ لمحہ پہلے ذہنی اعتبار سےموجودہ دنیا سے منقطع ہوجا تا ہے، اس کو آخرت کی حقیقتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ وقت وہی ہوتا ہے جس کو حدیث میں غرغرہ (مسند احمد، حدیث نمبر6160)کہا گیا ہے۔ یہی واقعہ ہر اہلِ کتاب کے ساتھ موت کے وقت پیش آئے گا۔ یعنی جس حقیقت کو وہ موت سے پہلے کے دور میں ماننے کے لیے تیار نہ تھا، موت کے وقت ، جب کہ موت کا فرشتہ اس کے پاس آچکا ہوگا، اس پر حقیقتِ واقعہ منکشف ہوجائے گا۔ اگر چہ وہ اس انکشاف کا اعلان دنیا والوں کے سامنے نہ کرسکےگا ، لیکن خود اپنے علم کے مطابق، وہ اس کو بخوبی طور پر جان لے گا۔
یہودیوں میں چند لوگ، عبداللہ بن سلام وغیرہ، پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور آپ کا ساتھ دیا۔ جو لوگ دین میں انسانی اضافوں سے گزر کر اصل آسمانی دین سے آشنا ہوتے ہیں، جو عصبیت اور تقلید اور مفاد پرستی کی ذہنیت سے آزاد ہوتے ہیں ان کو سچائی سمجھنے اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ وہ ہر قسم کے ذہنی خول سے باہر آ کر سچائی کو دیکھ لیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی جنتوں میں داخل کیے جائیں گے۔
سوال
میرا تعلق پاکستان سے ہے، میرا سوال یہ ہے کہ میں شادی شدہ ہوں، اور اپنے سسرال میں رہتی ہوں۔ میری شادی شدہ زندگی میں کچھ مسائل ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب سسرال کا کوئی فرد آپ کے لیے پرابلم پرسن (problem person) بن جائے، وہ مختلف طریقے سے آپ کو پریشان کرنے لگے، لیکن آپ کا شوہر اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہ کرے تو ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے۔ براہِ کرم آپ اس کا جواب دیں۔ (مز نادیہ اسلم)
جواب
چوں کہ آپ نے کوئی متعین مثال نہیں دی ہے، جس سے معاملے کی نوعیت سمجھ میں آئے۔ اس لیے میں جنرل صورتِ حال کے مطابق، اس کا جواب دوں گا۔ اس قسم کے مسئلے کا حل میرے تجربے کے مطابق، صرف ایک ہے، اور وہ ہے، یک طرفہ صبر۔ اس فارمولے کے سوا کوئی اور فارمولا اس معاملے میں قابلِ عمل نہیں ہے۔ شادی شدہ زندگی کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ شادی عام طور پر نان بلڈ ریلیشن شپ (non-blood relationship)کے درمیان ہوتی ہے۔
شوہر کو اپنے خونی رشتے داروں سے ایموشنل تعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح بیوی کو بھی اپنے خونی رشتہ داروں سے ایموشنل تعلق ہوتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد شوہر اور بیوی، جو پہلے الگ الگ تھے، یکجا ہوکر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ یکجائی دو متضادتعلق کے درمیان ہوتی ہے۔ اس بنا پر شادی کے بعد دونوں فریقین کے درمیان اختلافات کا ہونا بالکل فطری ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ دونوں فریق اس فطری حقیقت کو جانیں، اور اپنے آپ کو پہلے سے اس صورت ِ حال کے لیے تیار کرلیں، جس کو میں دو متضاد کے درمیان ہم آہنگی کہوں گا۔دو متضاد کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا فارمولا ایک لفظ میں صرف ایڈجسٹ منٹ ہے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا اور کوئی قابلِ عمل حل نہیں۔ آپ کے لیے یہ مشورہ ہے کہ آپ میری کتاب خاندانی زندگی (انگریزی ورزن Family Life)کا مطالعہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 274

■ انڈین پلورزم فاؤنڈیشن کولکاتا کی جانب سے 21 ستمبر 2020 کو ایک آن لائن پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ پروگرام کا عنوان تھاوباکے دور میں امن کی تلاش (Search for Peace in the Pandemic )۔ اس پروگرام کو برٹش ہائی کمیشن کولکاتا نے سپورٹ کیا تھا۔ اس پروگرام کو مختلف مذاہب کے نمائندوں نے خطاب کیا تھا۔ اسلام کی نمائندگی مز ماریہ خان ، ممبر سی پی ایس انٹرنیشنل دہلی نے کی تھی۔ مز ماریہ خان کا خطاب کافی پسند کیا گیا۔
■ پدم وبھوشن انڈین گورنمنٹ کا دوسرا بڑا شہری اعزاز ہے جو سول میدان میں خدمات کے لیے دیا جاتا ہے۔ 2021 میں جن لوگوں گورنمنٹ آف انڈیا کی جانب سے پدم وبھوشن ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے، ان میں صدر اسلامی مرکز بھی ہیں۔یہ ایوارڈ صدر اسلامی مرکز کو اسپریچوالٹی کے میدان میں ان کی خدمات کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ سی پی ایس انٹرنیشنل فیملی اور ان کے خیرخواہوں کے لیے یقیناً بوسٹ (boost)کی حیثیت رکھتا ہے تاکہ وہ مزید دلجمعی کے ساتھ دعوت اور تزکیہ کا کام پرامن طریقے سے کریں۔

■سی پی ایس لیڈیز کے ذریعے خواتین کے درمیان دعوتی کام کیا جارہا ہے۔ اس تعلق سے سی پی ایس خواتین کا ایک ویبینار17 جنوری 2021 کو منعقد ہوا تھا۔ اس میں دعوتی امور پر گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر فریدہ خانم(نئی دہلی)، ڈاکٹر نجمہ صدیقی(نئی دہلی)، مزفہمیدہ خان (فیض آباد)، مز کوثر اظہار (امریکا) اور ڈاکٹر سفینہ تبسم(سہارن پور، یوپی) نے اس پروگرام کو خطاب کیا۔ مز شبینہ علی(کولکاتا) نے اس پروگرام کو ماڈریٹ کیا تھا۔ اس پروگرام میں یہ طے کیا گیا کہ اب ہر ماہ اسی طرح ایک ویبینار کیا جائے گا، اور دعوتی کام کو آگے بڑھایا جائے گا۔ خواتین نے یہ بھی کہ طے کیا ہے کہ ہر ہفتے ایک آن لائن قرآن کلاس منعقد کی جائے گی، جس کو مز فاطمہ سارہ(بنگلورو) کنڈکٹ کریں گی۔پھر اس کے بعد پہلا قرآن کلاس 31 جنوری 2021 کو منعقد ہوا ، اور ہر ہفتے برابر یہ کلاس جاری ہے۔ اس گروپ سے جڑنے کے بعدجو تبدیلی آئی ہے، اس سلسلے میں چند خواتین ممبروں نے ذیل کے تاثر دیے ہیں
1۔ خواتین کا یہ گروپ میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔یہ گروپ ہمارے لیے آئینہ ہے۔ ہم سب کو اپنی اصلاح میں مدد کرتا ہے۔ (ڈاکٹر سفینہ تبسم، سہارنپور)
2۔ اگر میں اِس لیڈیز گروپ میں نہیں ہوتی تو مجھے اپنی غلطی پر غور کرنا، اور اپنا احتساب کرنا کبھی نہیں آتا (مز شبانہ خاتون، کلکتہ)
3۔ مولانا کی کتابیں میں بہت دنوں سے پڑھتی ہوں۔ لیکن جب اس گروپ میں مولانا کی ٹیچنگس اور ان کی تحریوں پر ڈسکشن ہوا اس نے میری زندگی کے لیے boosterکا کام کیا۔ اللہ تعالی مولاناکو صحت اور زندگی دے۔(مز فہمیدہ خان، فیض آباد، یوپی)
4. After joining this group, I am learning many things at a time today, I am completing 2 months and these 2 months are a complete change for my soul. (Ms Shivani Syed, Delhi)
5. Alhamdulillah! God made arrangement for me to learn through Maulana's team. This group is a blessing for all of us. (Ms. Shah Bano, USA)
6. Thank God for this group which is helping us realize our mistakes. (Dr Naghma Siddiqi, Gurgaon)

■سی پی ایس مشن کی آئڈیالوجی کو اس سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف انداز سے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتےرہتے ہیں۔ مثلاًڈاکٹر قاسم ندیم صاحب( پاکستان) صدراسلامی مرکز کی تفسیر تذکیر القرآن کو سوال و جواب کے انداز میں لوگوں تک پہنچارہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیسے کیسے مخفی طریقوں سے سی پی ایس انٹرنیشنل کے کام کو آگے بڑھا رہا ہے، اس کا اندازہ مجھے اس میسج سے ہوا جو پنجاب کے ایک چھوٹے شہر سے مجھے موصول ہوا ہے۔ وہ میسج یہ ہے "السلام علیکم سر!کیا میں اپنے کنٹیکٹس اور گروپس میں اس میسج کو سینڈ کر سکتا ہوں،اور کیا آخر میں اپنے ادارے کا نام اور ایڈریس لکھ سکتا ہوں کیوں کہ اپنے گاؤں میں میں نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا ہے۔"میںنے اس کو اجازت دے دی، اور یہ لکھا بالکل آپ اس کو استعمال کر کے دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھیں، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔ قرآن کا پیغام ہمارے پاس لوگوں کی امانت ہے۔اسے ہر زبان میں سارے انسانوں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
صدر اسلامی کو ساری دنیا میںپڑھا اور سناجاتا ہے۔اس سلسلے میں ذیل میں چند افراد کے تاثر دیے جارہے ہیں
■ مولانا صاحب کی ذکر کردہ باتوں میں سب سے زیادہ متاثر کن بات جو مجھے لگی ،وہ حدیبیہ کی صلح اور یوسف علیہ السلام کاواقعہ ہے۔ یعنی بغیر کسی نزاع کے مشرک بادشاہ سے عہدے کی درخواست کرنا اور لوگوں کی فلاح کے کام کرنا۔یہ فلاح کاپہلو دین کا اہم ترین پہلو ہے جسے آج کل موضوع نہیں بنایا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری امت ذہنی اور فکری غلام بنی ہوئی ہے، ان اقوام کی جو غیر نزاعی اعتبار سے کام کرتے ہیں۔حدیبیہ کی صلح سے یہ سبق ملتا ہے کہ بغیر کسی اعتراض کے فریق ثانی کے ساتھ یک طرفہ صلح کرو، تاکہ دعوت کا موقع مل سکے۔(ڈاکٹر فوزیہ انور، کراچی)
■ مولانا صاحب کے اس جملے نے میری زندگی بدل دی— ہر روز انسانوں کی موت اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ اس دنیا میں بظاہر کامیاب آدمی کی خوشی اتنی ہی بے حقیقت ہے جتنا کہ کا بظاہر ناکام آدمی کا غم۔ (دانیال طاہر، کراچی)
■ مولانا صاحب کو اب تک جتنا پڑھ پایا ہوں،ان میں سب سے بڑی بات یہ سمجھ میں آئی ہے کہ زندگی میں ہر بات اورہر کام میں مثبت ذہن کا پہلو اولین ترجیح رہے اور رد عمل کی نفسیات سے حتی الا مکان بچا جائے۔ مولانا نے زندگی میں ہر بات میں بھڑک جانے کو تمام مسائل کی وجہ بتایا ہے ،اور صبر و تقویٰ کواس کا حل۔ الحمد للّٰہ ، یہ اصول زندگی میں بہت حوصلہ عطا کرتا ہے (شجاعت علی، لندن)
■ مولانا وحید الدین خان کی کتاب "اللہ اکبر"بہت عمدہ کتاب ہے۔ یہ آپ کو خدا کے وجود اور اس پر یقین سے لے کر انسانی تخلیق کے حقیقی مقاصد تک لے جائے گی۔یہ کتاب" بندے" میں" بندگی" کے احساس کو اجاگر کرتی ہے، اور اس کو مقصدِ تخلیق سے آگاہ کرتی ہے۔(محمد مجاہد اشرف ،پنجاب یونیورسٹی لاہور )
■ رب کی توفیق سے میں نے مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کافی کتابوں کا صرف مطالعہ ہی نہیں کیا، بلکہ انہیں بار بار پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی ،جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مولانا صرف ایک عالم دین ہی نہیں بلکہ دورِ جدید کے ایک محقق ، مجدد اور مفسر ہونے کے ساتھ ایک بہترین سائکالوجسٹ بھی ہیں۔مولانا کی کوئی بھی کتاب ہو، اس کا ایک ایک لفظ آپ کے دل و دماغ سے خود بخود ہی تصدیق ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ کو یوں لگتا ہے کہ شاید یہ آپ ہی کے دل کی بات تھی، جو مولانا نے لکھی ہے۔ مولانا ایک ایسا سرمایہ ہیں کہ جن کے لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ شاید ہی ایسا کوئی دوسرا شخص صدیوں تک ہمیں مل سکے ۔ مولانا کی کتابوں میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ ملی وہ یہ کہ خدا کی دنیا میں خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزار لو ۔ اس سے تمھیں خدا مل جائے گا ،اور جب خدا مل گیا تو سب کچھ مل گیا ۔میرا یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے کہ اگر میں مولانا کو نہ پڑھتا تو شاید آج میں اس دنیا میں نہ ہوتا۔ مولانا کی کتابوں نے مجھے ایک نئی زندگی دی ، مجھے جینے کا ایک انو کھا ڈھنگ دیا ، میرے سامنے زندگی کی حقیقت کو بیان کیا، مجھے خدا سے ملنے کا راستہ دکھایا ۔ مولانا کی کتابوں نے مجھے میری اہمیت بتائی ، میری آنکھوں کے سامنے سے فریب کے پردے اٹھادیے۔ مجھے یہ سکھایا کہ میری زندگی ایک بامعنی زندگی ہے۔ میں دنیا میں بامقصد زندگی گزارنے کے لیے بھیجا گیا ہوں، نہ کہ بے مقصد۔مولانا اور مولانا کی پوری ٹیم میری ہر دعا میں شامل ہے۔ (ابراہیم ،لاہور)
■ مولانا صاحب کو میں نے اسٹڈی کیا ہے۔ مجھے ہر وقت مولانا کے لٹریچر سے امیداورصبر کی غذا حاصل ہوئی ہے۔ میرے خیال میں کامیاب زندگی گزارنے کےلیے یہی دو اصول کافی ہیں۔ (محمّد داؤد سوراب، بلوچستان)

■مولانا صاحب کی کتابوں نے میری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔ یہاں ان میں سے چند باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔1۔میں منفی (negative) سے مثبت (positive) ہوگیا ہوں۔2۔ میرامزاج داعیانہ ہوگیا ہے۔ 3۔سائنس کی ہر ایجاد میرےایمان میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہے۔ 4۔غیر مسلم قوم سے نفرت اب محبت میں بدل گئی ہے۔دوسرے الفاظ میں، مولانا کی کتابوں سے پہلے میں بے شعور (immature) تھا اب میچور (mature) ہوگیا ہوں۔ (گل رحمان، لکی مروت، پختونخوا‎)
■ مولانا صاحب کی تحریروں اور تقریروں سے میرا تعلق تین سال سے ہے۔ مولانا میں ایک کمال یہ ہے کہ ان کی جو بھی تحریریں ہیں وہ موجودہ دور کے مطابق انسان کی عقل میں صحیح فٹ آتی ہیں۔الحمداللہ، زندگی کا مقصد سمجھ میں آگیا ہے، میرے اندر سےانا(ego) اور ضد اور حسد ختم ہوا ہے۔ میں نے یہ سیکھا ہے اپنے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ فطرت کے قانون کو بہت قریب سے جانا ہے جس کی وجہ سے حقیقت کے قریب ہوا ہوں۔ (عرفان رحمان،رحیم یار خان، پاکستان)
■ مولانا کی کتابوں کی سب سے بڑی خوبی اس سائنسی دور میں سائنسی اپروچ ہے۔ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں موجودہ ذہن کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں، اور مدلل اور سادہ انداز میں لکھتے ہیں۔مولانا کی کتابیں عالم و طالب، عام و خاص، سائنس دان و آرٹسٹ الغرض سب کے لیے یکساں مفید ہیں۔"مذہب اور سائنس" جیسی کتاب میں مولانا کے مطالعہ پر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی نظر دینی علوم کے ساتھ ساتھ مغربی علوم پر بھی بہت گہری ہے۔ اس کتاب میں مولانا نے جس طرح منکرِ خداسائنس دانوں اور دیگر مفکرین کی غلطیاںواضح کرکے بیان کی ہیں، یقیناً قابلِ داد ہیں۔(حفیظ الرحمٰن،بونیر ،خیبر پختونخوا)
■ میں مولانا کی کتاب "دین کامل" پڑھ رہا ہوں۔ ابتدائی پندرہ صفحات پڑھ کر میرا دل نرم ہوا۔ کچھ جملے ایسے ہیں جو میرے دماغ کو ہٹ (hit)کرتے ہیں۔ مثلاً ایک عنوان ہے ’’مثل صحابہ ایمان‘‘( صفحہ 13)۔اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مثلِ صحابہ ایمان کیا ہے، اور مثلِ یہود ایمان کیا۔ یہ تقابل بہت عجیب ہے۔ مثلِ صحابہ ایمان کیا ہے؟ یہ مثلِ یہود ایمان جاننے سے سمجھ میں آیا۔ اسی طرح ایک جملہ ہے"ایک ایمان وہ ہے جو بس جامد عقیدہ ہو، جو آدمی کے ذہنی اسٹور میں بہت سی چیزوں میں سے ایک چیز کے طور پر پڑا ہوا ہو۔ وہ آدمی کی زندگی کا کل نہ ہو بلکہ وہ اس کا صرف ایک جز ہو۔"میرا تجربہ یہ ہے کہ مولانا کی کتابیں پڑھتے رہنے سے اصل چیز پر فوکس بنتا ہے، اور دوسرے علما کی کتابیں پڑھنے سے ایسا نہیں ہوتا۔(مولانا عبد الباسط عمری، گلبرگہ، کرناٹک)
■ سچ تو یہ ہے اگر میں نے مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں نہ پڑ ھی ہوتی، اور ڈائریکٹ برٹرینڈ رسل اور کارل مارکس یا چارلس ڈارون، وغیرہ کی کتابیں پڑھنا شروع کردیتا تو میرے لیے صورتِ حال بہت مختلف اور نقصان دہ ہوسکتی تھی۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ مجھے مولانا کا تعارف وقت پر ہوگیا ۔ مولانا صاحب ہمارے لیے حقیقت میں ایک بہت بڑا سرمایہ ہیں، ورنہ جو نام نہاد علما آج ہیں، ان سے کسی ذی شعور آدمی کو سیکھنے اور سمجھنے کوکچھ نہیں ملتا ہے۔ میرے احساسات کو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں، جو ان کو پڑھ چکے ہیں ۔اللہ تعالی مولانا کو صحت اور تندرستی کے ساتھ رکھے آمین ۔(عطا المومن فیصل آباد پاکستان )
ثجن چند شخصیات نے مجھ پر سب سے گہرا اثر ڈالا ہے، ان میں ایک نام مولانا وحید الدین خان صاحب کا ہے۔ بہت کم ایسا ہوا کہ مولانا نے کسی مسئلہ پر اپنی رائے دی ہو، اور مجھے اس سے اختلاف ہواہو۔ بلکہ سچ کہوں تو مرزا غالب کے الفاظ میں—
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
میری تعلیم پہلے کالج میں ہوئی ، پھر میں نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ جدید تعلیم کی بنا پر کئی ایسے سماجی مسائل تھے، جن میں روایتی طبقے کی رائے مجھے کبھی سمجھ میںنہیں آئی۔ لیکن دین کا حوالہ ہونے کی وجہ سے میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا ۔ اس کے بعد جب مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتابیں پڑھی، اور ان کی رائے جاننے کا موقع ملا تو دین کو نئے پہلوسے دیکھنےکا موقع ملا،اوردینی احکام کو سمجھنے کی نئی راہیں کھلیں۔ یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ موجودہ دور میں دین کو قابل فہم اور قابل عمل بنانے میں مولانا کی تحریروں نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ اللہ مولانا وحید الدین خان صاحب کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور امت پر ان کے سائے کو تادیر سلامت رکھے آمین ثم آمین۔(عمران صدیقی ندوی، ممبئی)
■ معرفتِ رب،دعوتِ حق،حکمتِ حیات پر مشتمل مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں دورِ جدید میں علما کی اپنی عارفانہ اور داعیانہ زندگی کے لیے ایک انمول خزانہ ہیں۔ یہ فکری زندگی کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ایک عالم دین کی حیثیت سے میرا تجربہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں مدارس کے فارغین جدید عالمی اپروچ سے بے خبر ہوتے ہیں۔وہ ان کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دورِ جدید کے تعلق سے ان کا رویہ اس عربی مقولہ کا مصداق ہے: من جہل شیئًا عاداہ (جو کسی چیز سے بے خبر ہو، وہ اس سے دشمنی کرتا ہے)۔حالاں کہ جدید کلچر میں جہاں بظاہر ناپسندیدگی کا پہلو ہے، وہیں بہت سی باتیں عین اسلام کے موافق ہیں۔ بلکہ موافقِ اسلام باتیں زیادہ ہیں۔ اپنے زمانے کو جاننا اور اس کے مطابق رہنمائی دینا ابتداء سے علما کا طریقہ رہا ہے۔اس سلسلے میں ابن عابدین کا ایک بامعنی قول ان الفاظ میں آیاہے:مَنْ جَہِلَ بِأَہْلِ زَمَانِہِ فَہُوَ جَاہِلٌ(مجموعہ رسائل ابن عابدین، صفحہ 131)۔ یعنی جواپنے زمانے سے لاعلم رہا، پس وہ جاہل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے زمانے کو جانے بغیر اسلام کی طرف صحیح رہنمائی نہیں کی جاسکتی ہے۔ موجودہ دور میں اگر کسی کے دل میں اسلام کی صحیح نمائندگی کرنے کی تمنا ہو، اور اس تعلق سے اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنا چاہتا ہے تو موجودہ دور میں ایک صدی پر محیط تجربات پانے والے عالم دین، داعی ، زمانہ شناس انسان کی علمی تحقیقات اور ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ انھوں نے اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کیا ہے۔ جدید دور کے رجحان کے اعتبار سے اسلام کو دینِ رحمت اور دینِ امن کے طور پر مولانا نے واضح کیا ہے۔
اس کے برعکس، عام مسلم اہلِ علم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جنگ کے فضائل کو جانتے ہیں مگر امن کے فوائد سے ناواقف ہیں۔ حالاں کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے دور میں جنگی بہادری دکھانا اور جنگ کو ایمان وعقیدے کی طرح مذہب کا ابدی جزء بتانے کی کوشش کرنا نادانی ، اور اپنے نقصان میں مزید اضافہ کرنا ہے۔یہ جدید دور کے مواقع سے بے خبری کا اعلان ہے۔ پرامن زندگی اور پرامن اقدام ہی اسلام کا مطلوب ہے۔ کیوں کہ اسلام ایک آئڈیا لوجی ہے، اور آئڈیالوجی صرف امن کے حالات میں سمجھی اور سمجھائی جاسکتی ہے۔ مولانا کی تحریروں سے اسلام کی پرامن تصویر واضح ہوتی ہے۔ گویا مولانا کی تحریروں کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے انسان کو جو چیز دی ہے وہ یہ ہے — آخرت کی کامیابی کے لیے نظریۂ توحید اور دنیا میں جینے کے لیے نظریۂ امن۔ یہ کانسپٹ اس حدیث کا خلاصہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جنت میں سب سے زیادہ دو چیزوں کی وجہ سے انسان جائے گا، تقویٰ اور حسن اخلاق(تَقْوَى اللَّہِ وَحُسْنُ الخُلُقِ)جامع الترمذی، حدیث نمبر 2004۔ مولانا سید اقبال احمد عمری ،عمرآباد، تامل ناڈو۔
■ آج کل میں مولانا وحیدالدین خاں صاحب کے سفرناموں کا مطالعہ کررہا ہوں۔میرا خیال یہ ہے کہ مولانا کے سفر ناموں میں زیادہ علمی اور مبنی بر حکمت مواد موجود ہے۔ اس بنا پر سفر نامہ کوپڑھنے میں زیادہ وقت بھی لگتا ہے۔ کیوں کہ اس میں نوٹ کرنے والی باتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ اسلام کے متعلق مختلف قسم کے سوالات واعتراضات اسی طرح مختلف اہل علم کے غیراسلامی اور اسلامی نظریات کی بھی سفر نامہ میں وضاحت ہوتی ہے۔مزید یہ کہ مولانا کے سفر نامے پُر حکمت ہوتے ہیں۔ مولانا ہر واقعہ سے کوئی اسلامی ذہن بنانے والا نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔ یہ خصوصی صلاحیت اور ملکہ، میرے علم کے مطابق، مولانا کی طرح کسی اور کو حاصل نہیں۔ دوسرے علمائے کرام کے سفر ناموں کا بھی میں نے مطالعہ کیا ہے۔ وہ نیوز پیپر کی طرح ہوتے ہیں، ان سے کوئی ٹیک اوے نہیں ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی کتابیں پڑھنے کے بعد دوسروں کی کتابیں ہر اعتبار سے مولانا کی کتابوں کے بالمقابل غیر معیاری نظر آتی ہیں۔ (مولانا جمیل مظہر بجنوری، ممبئی)
■ اودھیش کمارجی (پیدائش 1931)، گاندھی پیس فاؤنڈیشن، نئی دہلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اسپرٹ آف اسلام کے ریگولر قاری ہیں۔ کچھ ماہ سے ان کو یہ میگزین نہیں مل پا رہی تھی، کیوں کہ اسپرٹ آف اسلام اب صرف آن لائن شائع ہورہا ہے۔ ان کی دلچسپی کے پیش نظر سی پی ایس دہلی نے ان کو اسپرٹ آف اسلام کی فوٹوکاپی بھیجی، اور کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو مولانا کی باتیں بہت زیادہ پسند ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انھوں نے کہا کہ صرف پسند کی بات نہیں ہے، مولانا صاحب کی باتیں مجھے نراشا سے آشا کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان کی کتابیں میرے اندر اُرجا (energy)پیدا کرتی ہیں۔
■ Key learning from Maulana’s books is deconditioning of oneself. It helps in unbiased approach in the various affairs of life. (Mr. Mehar Elahi, Lahore, Pakistan)
■ Every word of Maulana’s writing is purified and has extreme maturity. His sole aim of writing is to create positivity and aim for higher objectives. (Mr. Akhtar Butt, Lahore, Pakistan)
■ I am a student of biology. I believe when a person is really in need of real advice, Allah introduces him to someone who can really help him in his journey. Maulana Wahiduddin Khan is really a mentor for me. When I was striving hard to find my purpose, I read Maulana’s Raaz-e Hayat. This book really inspired me. Then I started looking at this world with a purpose. Maulana’s vision is an inspiration for millions. May Allah bless him with great wisdom and knowledge. May Allah accept his work and give him eternal peace and health. Also, this group is a source of daily reminders with the provision of short tafsir and videos. (Ms. Hamna Junaid, Pakistan)
■ It was the November of 2017. I was on my way to Jammu to attend a friend’s wedding. I had stopped in Delhi for a day. Little did I know then that the one day I chose to stay in Delhi would change the course of my life in such a deep and meaningful way. I remember walking into the study and meeting room of none other than the esteemed Maulana Wahiduddin Khan. He was seated at the other end of the room. I took a deep breath, conscious that I was meeting in person a giant from the tradition of "my other". I had no knowledge of Islam then. Not really the religious type, I decided consciously that I would keep the meeting brief and try my best to understand the celebrated scholar with my limited intellect. "Tell me more about you Miss Jana." He invited me softly as if sensing my nervousness. Dumbstruck that Maulana would be interested in knowing me as a person, I became conscious of the beginning of the dialogue. "I am here to listen Maulana." I mumbled. "The way you have your arm placed tells me that you have a big heart young lady." I suddenly became aware of the way I was sitting. I was waiting like a child to listen to a story from someone from my grandparents’ generation. My heart was indeed opening up with curiosity. A dialogue which I had expected to be as brief as 15 mins given Maulana’s busy schedule turned out to be a life changing 1.5 hours. The aged scholar channelled wisdom so relevant to my life at that moment that I found myself stunned at how he could have known what I needed without any knowledge of my context or even my background. Maulana’s wisdom laid the foundation of my passion for inter-religious dialogue. That one dialogue led to a rare and cherished relationship that I built with the entire team of CPS over the years. From the Kolkata Book Fair to the Parliament of World’s Religions, conferences and zoom calls to take Maulana’s message to more and more people as I built my network, the relationship with my other has only deepened with time. This gratitude note is to acknowledge the man whose vision led me to challenge my own and reshape it to work for a more inclusive future. (Ms. Sohini Jana, Kolkata)
■ When I was in Intermediate Part-1, there was a poem "Night Mail" by W.H Auden in our course of English, and now when I've become a lecturer in English, the same poem is there. Why I'm mentioning this poem is because of the fact that I hadn't been able to understand the metaphorical and hidden meaning of the poem so far. Last night I read Maulana Wahiduddin Khan's short essay "مقصد زندگی" in which he has talked commendably about the purpose of life by using a metaphor of the train. Now as soon as colleges reopen and classes start, I'm determined to teach my students this poem in a quite different way, with a new and purposeful explanation. Last but not the least, Maulana Wahiduddin Khan's books are an ocean in themselves where one could quench one's thirst for knowledge. Each and every word used by him in his books is pregnant with wisdom and spirituality. (Muhammad Waqas Azeem, Sialkot)
■ The biggest contribution of Maulana is the translation of the Quran. This helps every human being irrespective of religious or nonreligious background understand the divine message without difficulty. His translation is understandable which appeals to the conscience of a human being and addresses his mind. (Mr Aslam Baig, Mumbai)
■ Respected sir, I am an officer in Allahabad High Court, and a big fan of Maulana Wahiduddin Khan. I have been reading Al-Risala, in addition to numerous books written by him. In course I happened to peruse a book Tajdeed e Deen written by Maulana. I was extremely impressed by his approach and feel a deep urge and need to translate this book into Hindi. I humbly seek your kind permission to do the same as I have almost equal command on Hindi, English and Urdu languages and have worked as a translator also for around 10 years. (Dr Mohd Shahab, Allahabad)
■ I have 4 servants and one driver, out of which 2 are Muslim. One of them can read English , he was following the Quran that was gifted by you. It is a proper utilization. I have already read it. (Dr Shrismistha Gupta, Kolkatta)
■ I am in Pakistan. I went to my village about 7 hours away from Lahore, surrounded by beautiful mountains. We have a wonderful youth there. I shared Maulana's teachings with him. His response was unbelievable. I had some books and magazines with me, but Tariq Sb sent us more books. Now we're going to have two libraries in two different villages. They were waiting for this treasure. Please ask Maulana to pray for them. May Allah help us all. Ameen. (Ms. Gulzeba Ahmad, Lahore)
■ Sister Farida, I'm a serving inmate at the Windhoek Correctional Facility in Namibia. Firstly, I am humbly knocking on your esteemed office door regarding the above mentioned reference. Secondly, I want to thank you for your free monthly magazines "Spirit of Islam". These books are so interesting that I can't put them down! It's teaching me things that I needed to understand in the Qur'an. I believe that these books are the most convincing soul-winning tool. You will always be in our daily prayers. (Idris Haingura, Namibia)
■ I love this book (Islam and World Peace by Maulana Wahiduddin Khan)! I just finished reading this entire book today and it took me only two weeks to finish it. Masha Allah! This wonderful book contains a wealth of wisdom from the Holy Quran and Hadith/Sunnah which verifies that Islam is Not a religion of violence and that it is actually a religion of peace. As sincere loyal Muslims, our main focus should be to educate and reform individuals by influencing them to grow intellectually and spiritually, and to bring about a revolution within their hearts and minds. Targeting a community as a whole to make a change will lead to failure. We must target the hearts and minds of individuals, which is the key to changing the world, which will eventually lead to a positive successful change in communities, countries, and Nations globally. We must avoid confrontation at all cost and focus on enforcing and maintaining the culture and ideology of peace. Nothing can be accomplished with violence which only leads to destruction of lives and resources. Peace is the only way to success. (Ms Francine, USA)
■ I love this book (Woman between Islam and Western Society by Maulana Wahiduddin Khan). I just completed reading it. Took me two weeks to finish. This book provides wisdom and educational facts that verify that Islam has never declared that women are inferior to men, and that Islam only proves a fact that Allah has created females with a biological difference. Due to this biological difference, this is the reason why particular activities and types of jobs have been declared appropriate for males only and other jobs and activities for females only. God had chosen and blessed the Prophet Muhammad and his companions with the wisdom, talents, power, and gifts to bring about an intellectual revolution. This awesome book contains scientific facts from scholars that verify that the biological nature, that women are different from men in genes and thought process. Nature automatically cast females as the weaker, more delicate sex and men as the stronger sex. This explains why Nature makes different demands upon males and females as a convenient division of labor. Any deviation from Nature always results in punishment from Allah and mankind will always reap the terrible consequences violating the laws of nature! There are very few cases of divorce, children born out of wedlock, teen pregnancy, fornication, adultery, and AIDS in Muslim countries. These type of horrible problems are rare or non-existent in Muslim countries. But here in the United States of America, there is a terrible plague of billions of these immoral cases. This proves that Islam does not treat women as inferior, but grants women a high status in life while acknowledging her different biological makeup and that she is created equal with man, but must be treated differently (delicately) in regard to the division of labor, etc. (Ms Francine, USA)
واپس اوپر جائیں

اعلان

انسانیت کی تعمیر میں عورت کا ایک اہم رول ہے۔ مگر پوری تاریخ میں عورتوں کو انڈر یوٹیلائز ڈ (underutilized)کیا گیا ہے۔ مولاناوحید الدین خاں صاحب نےاسلامی تاریخ میں حضرت ہاجرہ اور دوسری خواتین کے رول کو دریافت کیا، اور اس کو ایکسپلین کرکے عورتوں کو ترغیب دی کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں، اور اپنے potential کو ایکچولائز (actualize)کرکے وہ تاریخ دہرائیں، جو تاریخ اُن خواتین نے بنائی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے قرآن و سنت اور تاریخ کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں، جیسے ’’عورت معمارِ انسانیت‘‘ ، ’’خاتون اسلام‘‘ ۔ اب ان کی رہنمائی میں سی پی ایس لیڈیز نے ایک دعوتی گروپ شروع کیا جس کا نام ہے
CPS Ladies International
اس گروپ میں انڈیا اور انڈیا کے باہر کی خواتین شامل ہیں۔ یہاں وہ اسلام کے مختلف پہلوؤں پراپنی ضرورت کے اعتبار سے ڈسکشن کرتی ہیں، جس سے ان کو دین کی گہری معرفت (deeper realization)حاصل ہوتی ہے، اور ان کا انٹلکچول ڈولپمنٹ ہوتا ہے۔یہ گروپ 29 اکتوبر 2020 کو شروع ہوا، اور اتنے کم وقت میں خواتین نے جو فیڈ بیک دیا، وہ بہت ہی حیرت انگیز (amazing) ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئی۔ انھوں نے اس گروپ کو جوائن کرکے حقیقی اسلام کو سمجھا ہے ۔ اس سے پہلے ان کے نزدیک اسلام کا مطلب کچھ سماجی رسوم تھا، نہ کہ وہ اسلام جو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعےبھیجا ہے۔
اب ہم لوگوں نے آن لائن قرآن کلاس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت ہماری ہفتہ وار آن لائن قرآن کلاس شروع ہوچکی ہے۔اس سے ہمیں قرآن کے پیغام کو تذکیری اعتبار سےسمجھنے اور عملی زندگی میں اپنانے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ نے چاہا تو یہ گروپ جدید سائنسی دور میں ہاجرہ کلچر کے اِحیا (revive) کا ذریعہ بنے گا، یعنی بےمثال جدوجہدکے ذریعے خدائی دین کو جدید معیار پر ثابت شدہ بنانا۔
سی پی ایس لیڈیز انٹرنیشنل سےاگر کوئی خاتون جڑنا چاہتی ہیں تواس ای میل یا واٹس ایپ پر اپنا نام اور نمبر بھیجیں:
fahmidakhan245@gmail.com
واٹس ایپ 09453215285
واپس اوپر جائیں