Pages

Thursday 1 October 2020

Al Risala | October 2020 (الرسالہ،اکتوبر)

4

-افضل ایمان

5

- اعلیٰ حمد

6

- توبہ کی اہمیت

7

- ہوم اسکول

8

- قتل خویش

9

- بااصول انسان

10

- رسول سے تعلق

11

- اوَّلیات، تفردات

12

- نبی منتظَر

13

- عیب خوانی، قصیدہ خوانی

14

- تزئین ِشیطان

16

- پیرویٔ اسلام، تنفیذِ اسلام

19

- دجال کون

23

- اسلامی جہاد

24

- تعلیم، قدیم اور جدید

26

- اسپرٹ آف انکوائری

28

- دین کی عصری تفہیم

29

- ایک واقعہ

30

- عورت کا مقام

31

- فیس بک ایک اسٹڈی کلب

32

- مواقع اویل کرنا

33

- مسائل نہیں

34

- شکایت نہیں

37

- سازش کا مسئلہ

38

- ضمیر، ایگو

42

- ایک سینئر سیٹیزن کی زبانی

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


افضل ایمان

عبد الرحمن ابن سابط (وفات 118ھ) تابعی ہیں۔ ان کا ایک قول ان الفاظ میں آیا ہےعَنِ ابْنِ سَابِطٍ، رِوَایَةً قَالَ:أَفْضَلُکُمْ إِیمَانًا أَفْضَلُکُمْ مَعْرِفَةً(الایمان للعدنی، اثر نمبر70)۔ یعنی ابن سابط کہتے ہیں کہ تم میں سے جو ایمان میں افضل ہے، وہ تم میں سے معرفت میں افضل ہے۔ خدا کی معرفت اہل ایمان کے لیے سب سے اہم ہے۔ کیوں کہ معرفت سے انسان کی خدا کے ساتھ انسیت (nearness) بڑھتی ہے، اور خدا اور بندے کے درمیان اجنبیت کا خاتمہ ہوتا ہے۔خدا سے اجنبیت خدا سے دوری کا سبب ہوتی ہے، اور خدا کی معرفت خدا سے قربت کا سبب ہے۔
معرفت کسی انسان کے اندر کیسے آتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کو براہ راست اس دنیا میں دیکھنا ممکن نہیں ۔ خدا کو بالواسطہ طور پر اس کی تخلیق کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے۔ معرفت کائناتی نشانیوں میں تدبر و تفکر کے ذریعے اندرونی پکار کا جواب پانے کا نام ہے۔ یعنی یہ کہ آپ کے ذہن میں وہ سوال پیدا ہو جو ہر انسان کے ذہن میں فطری طور پر پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً میں کون ہوں، میں اس دنیا میں کیوں آیا ہوں۔ مجھے اس دنیا میں کون لایا ہے۔ اس دنیا کو کون چلا رہا ہے۔ کون مجھے کسٹم میڈ طریقے سے ہر چیز مہیا کررہا ہے،وغیرہ۔ انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے اس قسم کے سوالات کا سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ کون ہستی ہے، جو ہمیں اور اس کائنات کو چلارہی ہے۔ ہم اس کو کیسے جان سکتے ہیں۔ یعنی کون میرا خالق ہے، اور اس سے ہم کیسے مل سکتے ہیں۔
یہی معرفت کی پہلی سیڑھی ہے۔ قرآن میں سچائی کے متلاشی (seeker of truth)کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ کائنات میں تدبر و تفکر کرکے خدا تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں (آل عمران، 3:190-194)۔ سچے ایمان والے کے اندر پہلی چیز جو آتی ہے، وہ اللہ رب العالمین کی معرفت ہے۔ اس کے بعد معرفت کےنتیجے میں بہت سی دوسری چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے تقویٰ، سنجیدگی (sincerity)، تواضع(modesty)، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ حمد

قرآن میںفرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم کی دعا کا ذکر ہوا ہے ۔دعا کے الفاظ یہ ہیں  رَبِّ ابْنِ لِی عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ (66:11)۔ یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے ۔ یہ دعا اللہ کی گہری دریافت سے نکلی ہوئی دعا ہے۔ جب آسیہ کو دنیا کی زندگی میں اعلیٰ حمد کا موقع نہیں مل سکا تو اس نے یہ دعا کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں معرفت کا جو اعلی کلچر رائج ہونا چاہیے تھا، وہ رائج نہ ہوسکا۔اب سوال یہ ہے کہ یہ اعلیٰ عارفانہ تہذیب کب قائم ہوگی۔ قرآن کے مطابق، یہ اعلیٰ عارفانہ تہذیب آخرت میں جنت کی دنیا میں قائم ہوگی۔یہ ان انسانوں کو ملے گی، جو دنیا کے اندر معرفتِ خداوندی کی کوشش کرتے رہے۔
اعلیٰ معرفت کیا ہے، اس کا ذکر قرآن میں دو مقامات پر آیا ہے۔سورہ الکہف میں یہ الفاظ آئے ہیں کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔ (18:109)۔سورہ لقمان میں اس طرح آیا ہے اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ بیشک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے(31:27)۔
ان دونوں آیات میں سمندر کے ختم ہونے کا ذکر موجودہ دنیا کے ریفرینس میں ہے۔ مگر آخرت کی جنت میں یہ محدودیت نہیں ہوگی۔ وہاں پر انسانوں کو لامحدود طور پر حمد اور معرفت کا موقع ملے گا۔ اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ جنت میں ان کا قول ہوگا  اے اللہ تو پاک ہے۔ اوروہ ملتے وقت ایک دوسرے کو سلامتی (کی دعا) دیں گے۔ اور ان کی آخری بات یہ ہوگی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب ہے سارے جہان کا(10:10)۔ یعنی اہل جنت کو ہرلمحہ لامحدود طور پر حمد کلچر میں جینے کا موقع ملے گا۔
واپس اوپر جائیں

توبہ کی اہمیت

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَہَبَ اللہُ بِکُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُونَ، فَیَسْتَغْفِرُونَ اللہَ فَیَغْفِرُ لَہُمْ(صحیح مسلم، حدیث نمبر2749)۔یعنی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں لےجائے گااور ایسی قوم لائے گا جو گناہ کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ انہیں معاف فرما دے۔
موجودہ دنیا اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں آدمی سے ضرور کوئی نہ کوئی غلطی صادر ہوجاتی ہے۔ اس غلطی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ فطری نظام کے تحت آدمی کے اندر غلطی کے بعد شرمندگی (repentance) کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے، اور اس معاملے میں اللہ سے مدد کا طالب ہو۔
اس طرح غلطی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ذاتی اصلاح (self correction) کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ آدمی کے اندر نئی فکر بیدار ہوتی ہے۔ اس کی سوچ مزید شدت کے ساتھ متحرک ہوجاتی ہے۔ اس طر ح آدمی کے اندر جو عمل (process)جاری ہوتا ہے، وہ اس کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ عمل اگر طاقت کے ساتھ باربار جاری رہے تو وہ آدمی کے لیے اعلیٰ ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔
معتدل حالات میں انسان کے اندر کوئی بڑی اصلاح نہیں ہوتی۔ بڑی اصلاح، یا بڑی سوچ کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو سخت قسم کا شاک (shock)لگے۔اس کے اندر برین اسٹارمنگ (brainstorming)آئے۔ آدمی کے اندر طاقت ور انداز میں محاسبہ کا مزاج پیدا ہو، اور یہی وہ چیزیں ہیں، جو غلطی کے بعد آدمی کے اندر جاگ اٹھتی ہیں۔ اس طرح غلطی انسان کے اندر اصلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہوم اسکول

حیدرآباد کی ایک فیملی کا واقعہ ہے۔وہ روایتی معنوں میں ایک مذہبی فیملی تھی۔ مگر ان کے گھر میں مذہب کا چرچا نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ اکثر اوقات ان کے گھر میں شکایت کی باتیں ہوا کرتی تھیں، جیسا کہ بیشتر گھروں میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ان کو ایک سینئر عالم دین نے مشورہ دیا کہ آپ شکایتی ذہن فوراًختم کردیجیے، اور اپنے گھر کو ہوم اسکول بنا لیجیے۔ جہاں پر آپ اپنی بیوی بچوں سمیت انگریزی زبان سیکھیے، اور مثبت طرز فکر کی کتابیں پڑھیے۔
انھوں نے ایسا ہی کیا۔ کچھ دنوں کے بعد ٹیلیفون پر انھوں نے اپنے حالات بتائے۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ ہوگیا ہے کہ ہمارے گھر میں ہر ایک کی زندگی بامعنی (meaningful) زندگی ہوگئی ہے۔ گھر کا ہرفرد (والدین اور بچے) اپنا اپنا رول سمجھنے لگا ہے۔ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس تعلق سے ایک تجربہ یہ ہوا کہ میں نے ایک اردو کتاب کو انگریزی میں سمجھنا چاہا تو اپنے بچوں سے اس کا ترجمہ کروایا۔بچوں نے پوری لگن کے ساتھ اس کا ترجمہ کیا۔ اس طرح مجھے انگریزی میں ترجمہ مل گیا، اور بچوں نے خدا کا منصوبۂ تخلیق سمجھ لیا۔ میری بیوی کہتی ہے کہ میری نظر میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ گھر کے بچے بھی اپنے رول کو سمجھیں۔ والدین کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ بچے ان کی بات نہیں مانتے ۔ مگر اس نئی شروعات سے بچوں میں ایک نیا رجحان دیکھنے کو ملا ہے، اپنے رول کو سمجھنے کا رجحان۔
اب ان کے گھر میں منفی باتوں اور شکایتی باتوں کا ماحول ختم ہو گیا ہے۔ اس کے بجائے مثبت موضوعات اور خدا کی معرفت کا چرچا ہونے لگا ہے۔ اس طرح ان کے گھر کا ماحول بدل گیا۔ بچوں نے نئے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرلیا۔ اس طرح ان لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوا، اور نفسیاتی طور پر تعمیری سوچ ان کے اندر آئی۔ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے قرآن کی اِس آیت کی توسیعی تطبیق ہے:وَاجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قِبْلَةً وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ(10:87)۔ یعنی اور اپنے ان گھروں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔
واپس اوپر جائیں

قتل خویش

دورِ قدیم کے یہود کا ایک واقعہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِہِ یَاقَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ (2:54)۔ یعنی اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم ، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔پس اپنے خالق کے آگے توبہ کرو، اور اپنےنفسوں کو قتل کرو۔ یہ تمہارے لیے تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے۔ تو اللہ نے تمہاری توبہ قبو ل کی۔ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں قدیم زمانے کے یہود کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے، جو خروج مصر کے بعد پیش آیا تھا۔ اس زمانے میں کچھ یہود نے شرک جلی کا ارتکاب کیا۔ اس پران کے پیغمبر موسیٰ نے کہا کہ تم لوگ اللہ کے آگے توبہ کرو، اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔آیت کے ان الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں توبہ قتل خویش کے معنی میں ہے۔ آیت یہ بھی بتاتی ہے کہ انھوں نے توبہ کی اور اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ ایسا ہونے کے بعد ان کو جسمانی طور پرقتل کرنا، شریعت کا تقاضا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہاں قتلِ نفس کا لفظ شدت توبہ کے معنی میں آیا ہے۔ یعنی ایسی توبہ جو نفسیاتی طور پر سیلف کیلنگ (self killing) کے ہم معنی بن جائے۔
بندہ پر جب گناہ کے بعد اس قسم کی شدید ندامت طاری ہو، اور وہ اس طرح اللہ کے سامنے گریہ و زاری کرے، جیسے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاک کرڈالے گا ۔ تو ایسی توبہ ہمیشہ گناہ سے معافی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس طرح کی شدید توبہ کے بعد کسی کو قتل کرنا، شریعت خداوندی کے مطابق نہیں۔ ایسی شدید توبہ کے بعد انسان ایک اعلیٰ درجے کا متقی بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ وہ زیادہ اعلیٰ درجے کا مومن بن جائے۔ اس کو جسمانی قتل کرکے ختم کرنا، حکمت خداوندی کے مطابق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بااصول انسان

با اصول انسان (man of principle) ایک جامع لفظ ہے۔ یہ لفظ زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ قدیم زمانے میں تقسیم کی زبان میں سوچنے کا طریقہ رائج تھا۔ مثلاً خدا کا حق، بندوں کا حق، پڑوسی کا حق، ازدواجی زندگی کا حق،وغیرہ۔ یہ سب تقسیمات موجودہ سائنسی دور میں اب ختم ہوچکی ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ اور دوسرے سائنس دانوں نے اس تصور کو ایک لفظ میں ا س طرح بیان کیا ہے— سنگل اسٹرنگ تھیوری۔
اسی طرح آدمی کو چاہیے کہ وہ بااصول انسان بن کر دنیا میں جیے۔ وہ کسی بھی معاملے میں بےاصولی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ بااصول زندگی ضرورت کا تقاضا نہیں ہے، بلکہ وہ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے۔ مثلا روڈ پر آپ اپنی گاڑی چلائیں، تو آپ کیپ رائٹ (keep right)یا کیپ لفٹ (keep left)کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ کیا ہے۔ یہ اصول پسندی کی بات ہے۔ اس معاملے میں اصول پسندی یہ ہے کہ آپ خود بھی روڈ پر چلیں، اور دوسروں کو بھی روڈ پر چلنے کا موقع دیں۔
اسی دو طرفہ تقاضے کی بنیاد پر ٹریفک کا اصول وضع ہوا ہے۔ ٹریفک کے اس اصول کا تعلق صرف روڈ سے نہیں ہے، بلکہ زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ حتی کہ اگر آپ ایک جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں،تو آپ چاہیں گے کہ آپ کی زندگی ٹکراؤ کی زندگی نہ ہو، بلکہ میل ملاپ کی زندگی ہو۔ اس مقصد کے لیے آپ یہ کریں گے کہ زندگی کا جو طریقہ خود اپنے لیے اختیار کریں گے، دوسروں کو بھی یہ موقع دیں گے کہ وہ بھی اس دو طرفہ زندگی کو اختیار کرکے کامیاب زندگی گزارے۔ اسی کانام بااصول زندگی ہے۔ زندگی کے اصول کو سمجھنے کے لیے آپ یہ کرسکتے ہیں کہ اس کو مختلف ذیلی کٹیگری میںتقسیم کرکے بیان کریں۔مثلاً سادگی، مثبت سوچ ، لرننگ، صبر، شکایات فری ہونا، وغیرہ۔
اصول ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔ بیان کرنے والے اس کو خانوں میں تقسیم کرکے بیان کرتے ہیں۔ یہ تقسیم سامع کی رعایت سے ہوتی ہے، نہ کہ اصل حقیقت کے اعتبار سے۔
واپس اوپر جائیں

رسول سے تعلق

رسول سے تعلق کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ (3:31)۔ یعنی کہو، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ قرآن کی اس آیت میں اتباعِ رسول کا مطلب رسول کو اپنا رہنما بنانا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ کے راستے پر چلنا چاہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول کے نمونے سے اپنے لیے رہنمائی حاصل کرے۔ اللہ کے راستے کا مسافر رسول کی رہنمائی سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔
رسول کا معاملہ ایک اعتبار سے یہ ہے کہ رسول، اللہ کا متلاشی تھا۔ پھر اس کو اللہ نے اپنا راستہ دکھایا۔ وحی کے ذریعہ رسول کو بتایا کہ اللہ کے راستے پر چلنے کا مستند طریقہ کیا ہے۔ رسول کا یہ نمونہ احادیث کی صورت میں مختلف کتابوں میں ریکارڈ ہوچکا ہے، اور وہ قیامت تک اللہ کے راستے کے مسافر کے لیے واحد مستند رہنما ہے۔
حدیث اور سنت کے مطالعے سے آدمی کو حکمت خداوندی کا علم ہوتا ہے۔ پھر جب آدمی اس حکمت کو عملاً اختیار کرتا ہے تو وہ اللہ کی رحمت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس کو ہر مرحلے میں اللہ کی نصرت ملنےلگتی ہے۔ وہ بھٹکے بغیر اللہ کے راستے پر چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ آخری منزل پر پہنچ جاتا ہے، جس کا دوسرا نام جنت ہے۔
رسول کا اتباع موجودہ زمانے میں اسی طرح مطلوب ہے، جس طرح وہ پہلے زمانے میں مطلوب تھا۔ تاہم رسول کے پیرو (follower)کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئے حالات کے اعتبار سے رسول کے نمونے کا انطباق نو (reapplication) دریافت کرے۔تاکہ وہ صحیح اسپرٹ کے ساتھ رسول کا متبع بن سکے۔ سچے طالب کے لیے اس قسم کا انطباق نو دریافت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اوَّلیات، تفردات

خلیفہ دوم عمر فاروق نے بعض چیزوں میں نئے فیصلے لیے۔ جن کی مثال ان سے پہلے مسلمانوں میں موجود نہ تھی۔ ان کے اس قسم کے فیصلوں کو اولیات عمر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ابن تیمیہ الحرانی نے کچھ امور میں ائمہ اربعہ کی رائے سے الگ فتویٰ دیا۔ ایسے فتاویٰ کو تفرداتِ ابن تیمیہ کہا جاتا ہے۔
اولیات یا تفردات کایہ لفظ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ایسے امور کو اجتہاد کہا جائے۔ اولیات اور تفردات جیسے الفاظ بولنے سے کوئی مسلمہ اصول نہیں ملتا، جس کی روشنی میں ان کے اوپر کوئی شرعی حکم لگایا جاسکے۔ اس کے برعکس، اگر ان امور کے لیے اجتہادِ عمر اور اجتہادِ ابن تیمیہ کی اصطلاح استعمال کی جائے تو ان کے بارے میں شرعی حکم لگانے کے لیے ہمیں ایک اصول مل جائے گا، وہ اجتہاد کا اصول ہے۔ حتیٰ کہ اگر مجتہد نے اجتہاد میں خطا کی ہو تب بھی ہمارے پاس ایک شرعی اصول ہوتا ہے جس کی روشنی میں ہم ان رایوں کو جان سکیں۔ اگر کوئی اجتہاد قرآن و سنت کے مطابق ہے تو اس کو صحیح اجتہاد کہا جائے گا، اور اگر وہ قرآن و سنت کے مطابق نہ ہو تو اس کو اجتہادی خطا کہا جائے گا، اور جیسا کہ معلوم ہے شریعت میں اجتہادی خطا پر بھی ایک ثواب ملتاہے۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں اجتہاد کا جو تصور قائم ہوا، وہ عملاً محدود فقہی اجتہاد کے ہم معنی تھا۔ ائمہ اربعہ جن کو مجتہد کہا جاتا ہے، وہ سب کے سب اسی معنی میں مجتہد تھے۔ ان میں سے ہر ایک جزئی مسئلہ میں مجتہد تھا، نہ کہ کلی مسئلہ میں۔
اسلام میں اجتہاد کی ایک ہی قسم ہے— مطلق اجتہاد ۔ مقید اجتہاد کی اصطلاحیں لوگوں نے بطور خود وضع کر لیں۔ ورنہ اجتہاد ایک ہے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ کبھی جزئی مسئلہ میں اجتہاد کیا جاتا ہے، اور کبھی کلی مسئلہ میں ۔ اجتہاد کوئی بدعت نہیں۔ اجتہاد یہ ہے کہ نئی صورت حال میں از سر نوحکم شرعی کو معلوم کرنا۔ اجتہاد کو اگر اولیات یا تفردات کا نام دیا جائے تو وہ عملاً ایک شخصی چیز بن جائے گا، نہ کہ شرعی حدود میں اجتہادی رائے قائم کرنے کی ایک مثال ۔
واپس اوپر جائیں

نبی منتظَر

یہود اپنی کتابوں کی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی منتظَر مانتے تھے، یعنی وہ نبی جو مستقبل میں آنے والا ہے۔ قرآن کی آیت : وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُون (2:89) کے تحت یہاں مفسرین کے حوالے نقل کیے جاتے ہیں۔وکانوا ینتظرون خروج النبیّ (بحر العلوم للسمرقندی، 1/49) کانوا ینتظرون نبیا (تفسیر المنار، 1/315)۔ یعنی وہ نبی کے ظاہر ہونے کا انتظار کررہے تھے۔دوسرے الفاظ میں، یہود کے لیے پیغمبر اسلام کی حیثیت نبی منتظر کی تھی۔ لیکن جب آپ آئے تو یہود نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا:فَلَمَّا جَاءَہُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہِ (2:89) ۔ یہ بات مخصوص طور پر قوم یہود کی نہیں ہے، بلکہ وہ عمومی معنی میں زوال یافتہ قوم کی نفسیات کو بتاتی ہے۔ اس معاملے میں یہود کا حوالہ ایک مثال کے طور پر ہے، نہ کہ اس معنی میں کہ اس قسم کا واقعہ صرف یہود کے ساتھ پیش آیا، کسی اور کے ساتھ ایسا پیش آنےوالا نہیں۔
خود مسلمانوں کے بارے میں یہ عین ممکن ہے کہ اپنے دورِ زوال میں وہ اُسی کے منکر ہوجائیں، جس کا وہ انتظار کرر ہے تھے، اور ان کو اس بات کا شعور بھی نہ ہو کہ ان کا یہ انکار قومِ یہود کی اتباع کے ہم معنی ہے۔ اصل یہ ہے کہ زوال یافتہ قوم ہمیشہ فرضی فخر (false pride) میں جینے والی بن جاتی ہے۔ ایسی قوم کے لیے اپنے گروہ کا آدمی تو قابل فہم ہوتا ہے، لیکن آدمی کا تعلق اگر دوسرے گروہ سے ہو تو وہ اپنی پُر فخر قومی نفسیات کی بنا پر اس کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، اور اس بنا پر وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں۔ زوال یافتہ قوم چیزوں کو میرٹ (merit) کی نسبت سے نہیں دیکھتی، بلکہ وہ اس کو خود اپنی نسبت سے دیکھتی ہے۔’’اپنی قوم‘‘ کا آدمی چوں کہ ان کے قومی فخر کی تصدیق کرنے والا دکھائی دیتا ہے، اس لیے وہ اس کو مان لیتے ہیں۔ لیکن دوسرے گروہ کا آدمی ان کو” غیر قوم“ کا آدمی دکھائی دیتاہے، جو ان کی قومی فخر کی تصدیق نہیں کرتا ۔ اس لیے وہ اس کا انکار کردیتے ہیں۔ اس طرح اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر وہ لوگوںکو دو گروہوں میں بانٹ دیتے ہیں— غیر قوم کا آدمی اور اپنی قوم کا آدمی۔
واپس اوپر جائیں

عیب خوانی، قصیدہ خوانی

مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے لوگ موجودہ زمانے میں صرف دو کلچر کو جانتے ہیں، عیب خوانی یا قصیدہ خوانی۔ اپنے مفروضہ اکابر، خواہ وہ زندہ ہوںیا مردہ،ان کے بارے میں صرف قصیدہ خوانی، اور دوسروں کے بارے میں صرف عیب خوانی۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں یہ کلچر اتنا عام ہے کہ شاید ہی اس میں کوئی استثنا پایا جائے۔تاہم نہ ان کی قصیدہ خوانی دلائل پر مبنی ہوتی ہے، اور نہ ان کی عیب خوانی دلائل کی زبان میں ہوتی ہے۔ وہ اپنوں کے بارے میں صرف تعریف کی زبان جانتے ہیں، اور دوسروں کے بارے میں صرف تنقیص کی زبان ۔
یہ امت کے دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ امت جب اپنے زمانۂ عروج میں ہو تو وہ ہر شخص کو میرٹ کے اعتبار سے جانچتی ہے۔ وہ ہر ایک کے بارے میں میرٹ کی بنیاد پر غیر متعصبانہ رائے قائم کرتی ہے۔ خواہ وہ اپنا ہو یا اپنے دائرے سے باہر کوئی شخص۔ مگر جب امت دورِ زوال میں پہنچ جائے تو اس وقت اس کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے اور غیر میں تقسیم کردیتی ہے۔ اپنوں کے بارے میں اس کے پاس صرف اچھے الفاظ ہوتے ہیں، اور غیروں کے بارے میں صرف برے الفاظ۔
جب امت میں انسانوں کو میرٹ (merit)پر جانچنے کا رواج ہو، تو سمجھیے کہ امت زندہ ہے، اور جب امت کے لکھنے اور بولنے والے لوگ لفظی مدح اورلفظی ذمّ کی زبان بولنے لگیں تو سمجھیے کہ امت مردہ ہوچکی ہے۔ جب امت پر یہ وقت آجائے تو کرنے کا صرف ایک کام باقی رہتا ہے۔ وہ ہے مبنی بر افراد اصلاح۔ امت جب زندہ ہو تو مبنی بر اجتماع انداز کا ر آمد ہوسکتا ہے، لیکن جب امت اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے تو اس وقت افراد کو تلاش کیجیے اور افراد کی اصلاح پر اپنے کام کو مرتکز کردیجیے۔اس کے سوا کوئی اور طریقہ ہرگز نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ امت کے دورِ زوال میں مبنی بر امت سیاسی یا سماجی انقلاب کے پروگرام بنائیں، وہ بلاشبہ فطرت کے قانون سے آخری حد تک ناواقف ہیں۔ ایسے مصلحین خود قابلِ اصلاح ہیں، وہ امت کے مصلح نہیں بن سکتے۔
واپس اوپر جائیں

تزئین ِشیطان

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ (15:39)۔ یعنی ابلیس نے کہا، اے میرے رب، جیسا تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے اسی طرح میں زمین میں ان کے لیے مزین کروں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گا۔یہ تزئین شیطان کیا ہے۔تزئین کا مطلب ہے سجانا، آراستہ کرنا، مزین کرنا(to beautify)۔
تزئینِ شیطان یہ ہے کہ وہ انسان کو ایک ایسے گول کی طرف لگادے، جس کا حصول ممکن نہ ہو۔ یعنی غیرمطلوب کام میں انسان کو الجھا دے۔ انسان اس کے پیچھے صرف اس سوچ کی بنیاد پر لگ جائے کہ وہ بہت اہم کام ہے۔ اگرچہ وہ نتیجہ خیز کام نہ ہو۔ اس کو آج کی زبان میں شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis)کہا جاسکتا ہے۔ یعنی جس پر زور دینا چاہیے، اس پر زور نہ دینا۔ اس کے بجائے اس پر زور دینا جو غیر مطلوب ہے یا جو قابلِ عمل نہ ہو۔ یہی شیطان کافریب ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔ آپ نے کہا یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّکُمْ لَنْ تَفْعَلُوا، وَلَنْ تُطِیقُوا کُلَّ مَا أُمِرْتُمْ بِہِ، وَلَکِنْ سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا(مسند احمد، حدیث نمبر 17856) ۔ یعنی اے لوگو ، تم ہرگز نہیں کرسکتے، اور نہ طاقت رکھتے ہو، وہ سب کچھ کرنےکا جس کا تم کو حکم دیا گیا ہے، اس لیے تم اعتدال پر قائم رہو، اور ہمیشہ اللہ سے اچھی امیدیں رکھو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام قابلِ حصول یا نتیجہ رخی ہے ، اس کو اختیار کرو، اور جوکام ناقابلِ حصول یا کاؤنٹر پروڈکٹیو ہو، اس کو اختیار نہ کرو۔ مثلاً دین کی اسپرٹ (تقویٰ ، محبت الٰہی، معرفتِ خداوندی ، اخلاق، وغیرہ)پر اگر زور دیا جائے تو اس سے اختلاف پیدا نہیں ہوتا ہے، لیکن فارم (آمین بالجہر، رفع الیدین، تراویح کی رکعتیں، وغیرہ)پر زور دیا جائے تو نزاع پیدا ہوتا ہے۔اس طرح حکومت الٰہیہ کے معاملے کو لیجیے۔ آپ فرد کی تربیت پر زور دیں تو یہ ممکن عمل ہے، لیکن اگر آپ اس کے برعکس یہ کریں کہ موجودہ حکومت کو غیر اسلامی قرار دے کر ایک اسلامی حکومت لانے کی کوشش کریںتو یہ ایسا عمل ہے، جس کا حصول ممکن نہیں۔ یہ دیکھنے میں بہ ظاہر اچھا لگتا ہے، لیکن یہ بے نتیجہ عمل ہے،اور آپس میں نزاع (conflict) پیدا کردیتا ہے۔
شیطان تزئین کا کام کس طرح کرتا ہے۔ اُس کا جواب ’اغوا‘ کے لفظ میں موجود ہے، جس کو ابلیس نے خدا کو چیلنج کرتے ہوئےاستعمال کیا تھا۔اغوا کا لفظی مطلب انحراف (deviation) ہے۔ یہی ابلیس کا طریقہ ہے، یعنی انسان کی توجہ کو پھیرنا (distraction) ۔ اِس کوشش میںاُس کا انحصار تزئین پر ہوتا ہے۔ مثلاً ابلیس نے اپنی تزئین کے ذریعے مسلمانوں کو غیر دعوتی کاموں کی طرف متوجہ کردیا، یعنی اسلامی حکومت کا حصول ، وغیرہ۔ اِس بنا پر دعوتی عمل مسلمانوں کی مین اسٹریم میں داخل نہ ہوسکا۔شیطان کی تزئین سے بچائو کا ذریعہ دانش مندی کے ساتھ پلاننگ کرنا ہے۔
دانش مندی کیا ہے۔دراصل فطرت کے قوانین کی پابندی کرنے کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کو متاثر ذہن (conditioned mind)کے ساتھ دیکھنے کے بجائےاس معاملے میں سوچنا اور تجزیہ کرنا، اس کے بعد کوئی عمل کرنا۔ یعنی دانش مند آدمی کسی بھی بات کو ایز اٹ از (as it is) نہیں قبول کرتا، بلکہ وہ اس کو دیکھتا ہے، اس میں غور و فکر کرتا ہے، معاملے کی اسکروٹنی (scrutiny) کرتا ہے، پھر وہ اس کو قبول کرتا ہے یا رد (reject)کرتا ہے۔اس بنا پر وہ اس قابل ہوجاتا ہےکہ وہ کسی کی فریب کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو غیر ضروری مسائل سے بچالیتا ہے۔
جو آدمی اس معنی میں دانش مند ہو،وہ ایک ناقابلِ تسخیر انسان بن جاتا ہے۔ وہ ان کمزوریوں سے پاک ہوتا ہے، جو کسی انسان کو کمزور شخصیت (weak personality) بنانے والی ہیں۔وہ جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو اس سے بچالیتا ہے کہ شیطان اس کو اپنی تزئینات کا شکار کرے، اور تباہی کے راستے پرچلا دے — عقل مند انسان وہ ہے، جو مسائل (problems) میں الجھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے امکان (opportunity) تلاش کرے، اور اس کو اویل (avail) کرے۔
واپس اوپر جائیں

پیرویٔ اسلام، تنفیذِ اسلام

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں امت کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا:کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر1874 )۔ یعنی میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، تم گمراہ نہ ہوگے، جب تک ان دونوں کو پکڑے رہو گے۔وہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔اس حدیث میں تمسک کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، تمسک کا مطلب ہے مضبوطی سے پکڑنا (holding fast)۔ یہ گریمر کی اصطلاح فعل لازم ( intransitive verb) ہے۔ یہی امت کے افراد کی اصل ذمے داری ہے۔ امت محمدی کے ہر فرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ دین کو دریافت کرے،وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعے اپنی معرفت میں اضافہ کرے، اور اس طرح اپنے آپ کو پوری طرح دین کا پیرو بنالے۔امت کے افراد جب تک تمسک بالکتاب والسنہ کے اس اصول کو پکڑے رہیں گے، وہ کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔یعنی خود اختیاری کے ساتھ اسلام پر عمل کرنا، اور دوسروں تک اسلام کو بطور دعوت پہنچانا (ہود، 11:88)۔
اس کے برعکس ، امت اس تعلیم کو لازم کے صیغہ ( intransitive form) میں لینے کے بجائے متعدی کے صیغہ (transitive form) میں لینے لگےتو اس کے بعدگمراہی کا آغاز ہو جائے گا۔ یعنی متمسک بنو کے بجائے بزور متمسک بناؤ ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دین کی پیروی اختیار کرو کا نظریہ لوگوں کو ہدایت پر قائم کرتا ہے، اور دین کی تنفیذ کرو کا نظریہ لوگوں کوہدایت کے راستے سے دور کر دیتا ہے۔موجودہ زمانے میں امت کے اندر جو تشدد پیدا ہوا، اس کا سبب یہی ہے۔
بیسویں صدی میں کچھ ایسے مسلم رہنما اٹھے جنھوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر ( political interpretation) پیش کی ۔ انھوں نے قرآن و سنت کی خود ساختہ تشریح کرکے یہ نظریہ بنایا کہ اسلام ایک مکمل نظام (complete system) ہے، اور امت کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اس نظام کو مکمل اعتبار سے زمین پر نافذ کرے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جو دین مبنی بر فرد دین تھا، اس کو مبنی بر نظام (system-based) بنادیا۔
مگر یہ سادہ بات نہ تھی۔ جب بھی آپ دین کو پیروی کے بجائے تنفیذ کا موضوع بنائیں گے تو فورًا تشدد شروع ہوجائے گا۔کیوںکہ تنفیذ (enforcement) کے لیے حکومتی ادارے کا ہونا ضروری ہے۔یہاں پہلے سے کچھ لوگ ہوں گے جو تنفیذ کے اداروں پر قابض ہوں گے۔ اب آپ کا ذہن یہ کہے گا کہ مجھے ان قابض افراد کو ہٹانا ہے، ان کو قوتِ نافذہ کے مقام سے ہٹائے بغیر میں اپنی پسند کا نظام نافذ نہیں کرسکتا۔یہاں سے حکومت کے خلاف نزاع شروع ہوگا۔ اسلام کی سیاسی تعبیر کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ امت کے لیے دنیا اپنے اور غیر (we and they) میں تقسیم ہوگئی۔اس طرح امت کے اندر دوسروں کو اپنا دشمن سمجھنے کا مزاج پیدا ہوا۔وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے۔
اسی طرح اسلام کی سیاسی تعبیر ایک نظریہ ہے، لیکن اس نظریے کی بنیاد پر جو مائنڈ سٹ (mindset) بنتا ہے، وہ عملاًایک متشددانہ مائنڈ سٹ ہوتا ہے۔چنانچہ اس مائنڈ سٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف جنگ شروع ہوگئی، اور جب جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو امت کے اندر نفرت کا ایک پورا جنگل اگ آیا۔فطری طور پر وہ اپنی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو شکست دینے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوگئے، خواہ جائز ہو یا ناجائز۔ اسی نفرت کا ایک ظاہرہ وہ ہے، جس کو خود کش بمباری (suicide bombing)کہا جاتا ہے۔ خودکش بمباری بلاشبہ ایک حرام فعل ہے، لیکن لوگوں نے اس کو استشہاد (طلب شہادت ) کا نام دے کر جائز کرلیا۔قرآن و سنت کے مطابق جو فعل جہنم میں لے جانے والا تھا، اس کو خودساختہ طور پر یہ حیثیت دے دی کہ وہ ان کو سیدھا جنت میں لے جانے والا ہے۔
موجودہ زمانے میں جو مسلم تشدد (Muslim militancy) پیدا ہوئی، وہ اسی سیاسی تعبیردین کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ موجودہ مسلم تشدد کو جوابی تشدد سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس کو ختم کرنے کے لیے جوابی آئڈیالوجی درکار ہے۔جوابی تشدد ان کو صرف ہلاک کر سکتا ہے، مگر اپنے مفروضہ عقیدے کے مطابق وہ یہ سمجھتے رہیں گے کہ وہ شہید ہوکر جنت میں جارہے ہیں۔ اس مفروضہ حقیقت کی بنا پر تشدد کے ذریعے اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے خاتمے کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طاقت ور دلیل کے ذریعے بتایا جائے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر ایک باطل تعبیر ہے۔ اسلام کی اصل تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ مسلم تشدد کو ختم کرنے کے لیے ایک نظریاتی مہم درکار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز اس کا خاتمہ کرنے والی نہیں۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دورِ آخر میں امت کے اندر ایک بے حد خطرناک فتنہ پیدا ہوگا، یہ دجالیت کا فتنہ ہوگا(مسند احمد، حدیث نمبر 16265)۔دجالیت سے مرادغالباً یہی پرفریب سیاسی تعبیرِ دین کا نظریہ ہے۔یعنی اس نظریے کو ایسے خوشنما الفاظ میں پیش کیا جائے گا کہ لوگ اس کو باطل سمجھنے سے عاجز رہیں گے۔ اسلام کو مکمل نظام کا خوبصورت نام دے کر لوگوں کو دھوکے میں ڈالاجائے۔لوگوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ اسلام ذاتی پیروی کا دین نہیں ہے، بلکہ وہ بزور نافذ کرنے کا دین ہے ۔ اس کو زمین پر مکمل معنوں میں نافذ کیا جائے۔اس طرح اسلام معرفت کا دین نہ رہا، بلکہ وہ جنگ اور تشددکا دین بن گیا۔یہی دجالیت ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلم تشدد کا اصل سبب یہی دجالیت ہے۔ اس تشدد کو صرف اس وقت ختم کیا جا سکتا ہے ، جب کہ لوگوں کو دلیل کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ مکمل نظام کا نظریہ ایک پرفریب نظریہ ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس نظریے کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوا کہ امت سے دعوت کا مزاج ختم ہوگیا۔ اصل دینی تصور کے مطابق امت مسلمہ داعی ہے اور دوسری قومیں مدعو ۔ اب داعی اور مدعو کے بجائے حریف اور دشمن کی نسبت قائم ہو گئی۔اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ امت کا اصل مشن دعوت الی اللہ عملاً حذف ہوگیا۔ کیوں کہ دعوت کے لیے نصح (خیرخواہی) کا ذہن درکار ہے۔ دشمنی اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

دجال کون

حدیث کی اکثر کتابوں میں آیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک شخص ظاہر ہوگا، جس کو حدیث میں دجال کہا گیا ہے(مسند احمد، حدیث نمبر 25089)۔ اسی کے ساتھ حدیثوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تیس ایسے لوگ آئیں گے جو دجال کذّاب ہوں گے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7121)۔ انگریزی میں دجال کو امپوسٹر (imposter) کہہ سکتے ہیں۔ دجال کا لفظ اگر چہ قرآن میں نہیں آیا ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے وہ قرآن میں موجود ہے۔ شیطان کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ تزئین کرتا ہے۔ اس لحاظ سے غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دجال قرآن کی زبان میں مُزَیِّن اکبر ہوگا۔
دجال امت مسلمہ کا ایک فرد ہوگا، لیکن وہ امت کے بعد کے زمانے میں آئے گا۔ گویا کہ تاریخی طور پر اس زمانے میں جب کہ امت زوال کا شکار ہوچکی ہوگی۔ زوال کے زمانے میں کسی امت کے اندر جو نفسیات بنتی ہے، وہ شکست خوردگی کی نفسیات (defeatist mentality) ہوتی ہے۔ یہ زمانہ وہ ہوتا ہے جب کہ امت اس قابل نہیں رہتی کہ وہ عملاً اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرسکے۔ اس وقت امت کے اندر ایسے افراد ابھرتے ہیں، جو امت کو فرضی فخر (false pride) کی غذا دیتے ہیں۔ ان کی دل فریب باتوں سے متاثر ہوکر امت یہ سمجھ لیتی ہے کہ وہ لوگ اس کے مخالفین کے مقابلے میں ڈیفنڈر (defender) کا رول ادا کررہے ہیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کے دورِ زوال میں جو شخص ڈیفنڈر کی حیثیت سے ابھرے گا۔ وہ حقیقی معنوں یا مثبت معنوں میں ڈیفنڈر کا رول ادا کرنے والا نہ ہوگا، بلکہ وہ صاحبِ دجل (deceiver) ہوگا۔ یعنی امت دھوکہ کھاکر اس کو اپنا ڈیفنڈر سمجھ لے گی۔حالاں کہ وہ ڈیفنڈر نہیں ہوگا، وہ ڈیسیور ہوگا۔اس کی پرسنالٹی استحصال (exploitation) پر مبنی پرسنالٹی ہوگی۔
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں امت کا ایک شخص ظاہر ہوگا، جو دجال کو قتل کرے گا۔ غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ قتل جسمانی قتل نہ ہوگا، بلکہ وہ نظریاتی قتل ہوگا۔ یعنی اس معنی میں کہ وہ شخص دلائل کے ذریعہ اکسپوز (expose) کرکے بتائے گا کہ یہ شخص ڈیفنڈر نہیں ہے، بلکہ وہ امپوسٹر (imposter)ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ دجال ایک نہیں ہوگا، بلکہ بڑے دجال سے پہلےتیس دجال ظاہر ہوں گے۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ دجال ایک انفرادی کردار نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایک تسلسل کا نقطۂ انتہا (culmination) ہوگا۔ دجال سے پہلے مختلف قسم کے افراد اٹھیں گے، جو گویا بڑے دجال کے لیے ابتدائی زمین تیار کریںگے۔ مثلاً پہلے مناظر (debater) قسم کے افراد ابھریں گے، اس کے بعد ایسے افراد ابھریں گے جن کو ملت اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ڈیفنڈر کا درجہ دے گی۔ آخر میں بڑا دجال ظاہر ہوگا، جس کو لوگ اپنا نجات دہندہ (saviour) سمجھیں گے۔
بڑا دجال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ذاتی اعتبار سے غیر معمولی شخصیت کا مالک ہوگا۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ًاس کے زمانے میں ایسے حالات اور وسائل پیدا ہوں گے ، جو اس کو موقع دیں گے کہ وہ عملاً بڑے دجال کا درجہ حاصل کرلے۔ مثلاً یہ کہ اس کے زمانے میں عالمی کمیونی کیشن وجود میں آجائے گا۔جیسا کہ ایک موقوف حدیث میں آیا ہے :یُنَادى بصَوْتٍ لَہُ یُسْمِعُ بِہِ مَا بَیْنَ الْخَافِقَیْنِ (کنزالعمال، حدیث نمبر 39709)۔ یعنی دجال اپنی ایک ایسی آواز سے پکارے گا، جو مشرق اور مغرب کے دونوں سروں کے درمیان سنائی دے گی۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عام انسان جیسا نہیں ہوگا، بلکہ وہ کوئی ہمالیائی شخصیت ہوگا ۔ بلکہ اس سے مراد امت کے زوال کی ایک حالت ہے۔ اپنے زوال کی بنا پر دجال کی باتیں امت کی نفسیات کو ایڈریس کریں گی۔ دجال کی مقبولیت اس بنا پر نہیں ہوگی کہ وہ جسمانی اعتبار سےکوئی غیر معمولی انسان ہوگا۔ بلکہ اس کا سبب امت کی زوال یافتہ نفسیات ہوگی۔ جو اپنے بگڑے ہوئے نفسیات کی بنا پر فرضی طور پر دجال کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لے گی۔
آخری زمانے کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک پیشین گوئی ان الفاظ میں آئی ہے :لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا یُقَالَ فِی الْأَرْضِ:اللہُ،اللہُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 148)۔ یعنی قیامت نہیں آئےگی، یہاں تک کہ زمین پر اللہ اللہ نہیں کہا جائے گا۔ اس سے مراد دنیا کی عام قومیں نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد امت مسلمہ ہے۔ اللہ اللہ نہ کہنے کا مطلب زبان سے دہرانا بند کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا امت مسلمہ کے لیے پرائم کنسرن کی حیثیت سے باقی نہیں رہے گا۔بلکہ دوسری دوسری چیزیں ان کے نزدیک پرائم کنسرن کی حیثیت اختیار کرلیں گی۔
اللہ سے حقیقی تعلق کا ختم ہونا ایک تاریخی عمل (historical process) کا معاملہ ہے۔ اسلام کے دورِ اول میں ایشیا اور افریقہ میںجب مسلمانوں کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم نہیں ہوئی تھیں، اس وقت مسلمانوں کا اعتماد صرف اللہ پر ہوتا تھا۔ اس کے بعد جب مسلمانوں کی سلطنتیں قائم ہوگئیں تو مسلمانوں کا اعتماد اللہ پر کمزور ہوگیا۔ اب وہ مسلم سلطنتوں پر شعوری یا غیر شعوری طور پر اعتماد کرنے لگے۔یہ شفٹ آف ایمفیسس کا معاملہ تھا، یعنی ٹرانسفر آف سیٹ فرام گاڈ ٹو مسلم پولٹکل پاور :
transfer of seat from God to Muslim political power
اس کے بعد انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب مغربی قوموں کو عروج حاصل ہوا، اور مغل ایمپائر اور ٹرکش ایمپائر جیسی مسلم سلطنتیں ختم ہوگئیں۔ اس کے بعدمسلمان عملاً مسلم امت کی صورت میں باقی رہے، جس کے سیاسی غلبے کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ سیاسی خلا کا نتیجہ یہ ہوا کہ خوف کی نفسیات مسلمانوں کے لیے بائنڈنگ فورس بن گئی۔ اب ان کا اعتماد صرف اپنی ملت پر قائم ہوگیا۔
اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے مسلمان زیادہ سے زیادہ اپنی ملت کی طرف مائل ہونے لگے۔ ان کے اندر شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ذہن بنا کہ ان کے لیے اب اعتماد کا ذریعہ ان کی اپنی ملت ہے۔ اس طرح مسلمان نفسیاتی اعتبار سے دوسری قوموں سے دور اور مسلمانوں سے قریب آنے لگے۔اس کے نتیجے میں فطری طور پر مسلمانوں کا یہ مزاج بنا کہ مسلم اور غیرمسلم کے اعتبار سے جو آدمی مسلمانوں کی یک طرفہ حمایت کرے، وہ ان کا اپنا آدمی ہے، اور جو مسلمانوں کی یک طرفہ حمایت نہ کرے، وہ عملاً ان کے مفروضہ دشمن کا ساتھی ہے۔
یہی وہ قومی فضا ہے جس میں دجال ابھرے گا۔ وہ مسلمانوں کی اس نفسیات کو فیڈ (feed) کرے گا۔ وہ تمام مسائل میں یک طرفہ طور پر غیر مسلم قوموں کو اور غیر مسلم میڈیا کو ذمہ دار ٹھہرائے گا، اور مسلمانوں کو یک طرفہ طور پر بے قصور ظاہر کرے گا۔ اس بنا پر مسلمان یہ سمجھیں گے کہ وہی ان کا حقیقی رہنماہے۔ وہی ان کے مفاد کی حٖفاظت کرنے والا ہے۔ یہ مزاج بڑھ کر یہاں تک پہنچے گا کہ وہ دجا ل کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیں گے۔
دجال کے فعل کو دجل (to deceive) کیوں کہا گیا ۔ کیوں کہ وہ اسلام کے نام پر مسلمانوں کو بھٹکائے گا۔ وہ اسلام کے نام پر غیر اسلام کو فروغ دے گا۔ دجال کی پوری سرگرمیوں کا مرکز یہ ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے مفروضہ دشمنوں کو عوامی زبان میں للکارے گا۔ وہ اسٹیج کے میدان میں بظاہر مفروضہ دشمنوں کو شکست دے گا۔ غلط طور پر مسلمانوںکو یہ باور کرائے گاکہ ہم نے تمھارے دشمنوں کو زیر کردیا ہے۔ مگر دجال کا یہ سارا معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام دشمنی کا معاملہ ہوگا۔ کیوں کہ اس کی باتیں مسلمانوںکی توجہ کو اللہ کے بجائے ، غیر اللہ کی طرف مائل کردیں گی۔
مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرنے والا وہ ہے، جس کی رہنمائی سے مسلمانوں میں اللہ پر یقین بڑھے۔ ان کے اندر اللہ کا تقویٰ پیدا ہو، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے بن جائیں۔ ان کو سب سے زیادہ شوق جنت کا ہو۔ ان کا سب سے زیادہ اہتمام آخرت کے لیے ہوجائے۔ وہ اپنی زندگی میں وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)کے مصداق بن جائیں۔ یعنی اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا۔
مگر دجال کی منفی (negative)باتوں سے فریب خوردہ ہو کر ان کا حال برعکس طور پر یہ بن جائے گا کہ وہ دوسری قوموں سے نفرت کرنے لگیں گے۔ دجال ان کے اندر سے انسانی خیرخواہی کا کلی خاتمہ کردے گا۔وہ دوسری قوموں کو اپنا دشمن اور سازشی سمجھنے لگیں گے۔ وہ غلط طور پر یہ فرض کرلیں گے کہ ان کے ہر مسئلے کی ذمہ دار دوسری قومیں ہیں۔اس طرح وہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں ان کے اندر دعوت الی اللہ کا ذہن بالکل ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ دعوت الی اللہ کی اسپرٹ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ مسلمانوں کے اندر عام انسان کے لیے یک طرفہ طور پر خیرخواہی کا جذبہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی جہاد

جہاد کا لفظی مطلب کوشش (struggle) ہے۔ اس کوشش کا تعلق کسی سسٹم سے نہیں۔ یعنی جہاد کا یہ نشانہ نہیں ہے کہ ایک سسٹم کو توڑ کر اس کی جگہ دوسرا سسٹم قائم کیا جائے۔بلکہ جہاد کا نشانہ انسان کی سوچ (way of thinking) بدلناہے (الفرقان، 25:52)، یعنی دنیا رخی طرز فکر کو بدل کر اس کی جگہ خدا رخی طرز فکر انسان کے اندر پیدا کرنا (آل عمران، 3:79)۔ جہا دکا نشانہ اسلامائزیشن آف سسٹم (Islamization of system) نہیں ہے ، بلکہ اسلامائزیشن آف فرد (Islamization of individual) ہے۔
زندگی کے نظام میں اصل اہمیت فرد کی ہے۔ جیسا فرد ویسا نظام۔ انسان جیسا سوچتا ہے ، ویسا ہی وہ بن جاتا ہے۔ سوچ کو بدلنے سے انسان بنتے ہیں، اور انسان کے بدلنے سے اجتماعی زندگی میں انقلاب آتا ہے۔ انقلاب کی ابتدا (beginning) فرد کی تبدیلی سےشروع ہوتی ہے، اور افراد کی تبدیلی سے سماج میں انقلاب آتا ہے۔
اصلاح کے نام پر سسٹم کے خلاف لڑائی کا مطلب ہے عملاً اتھاریٹی (authority)کے خلاف لڑائی ہے، اور اتھاریٹی کے خلاف لڑائی ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹو (counterproductive) ثابت ہوتی ہے۔ اتھاریٹی کے خلاف لڑائی صرف مسائل میں اضافہ کرتی ہے، وہ کسی مسئلے کو حل کرنے والی نہیں۔اس حقیقت کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:إِنَّ اللہَ رَفِیقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ، وَیُعْطِی عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِی عَلَى الْعُنْفِ، وَمَا لَا یُعْطِی عَلَى مَا سِوَاہُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر2593)۔ یعنی اللہ نرم ہے، وہ نرمی کو پسند کرتا ہے، اور وہ نرمی پروہ چیز دیتا ہے، جو وہ سختی پر نہیں دیتا، اور نہ وہ اس کے سوا کسی اور چیز پر دیتا ہے۔ یہ اللہ کا مقرر کیا ہوا فطرت کا قانون (law of nature)ہے۔ اس دنیا میں کوئی انسان یا گروہ اس قانون کی پیروی کرکے سب کچھ پاسکتا ہے۔ لیکن جو فرد یا گروہ اس قانون کی خلاف ورزی کرے، اس کو اس دنیا میں کچھ ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم، قدیم اور جدید

قدیم زمانے میں عام طورپر علم برائے علم کا رواج تھا۔ قدیم زمانے میں علم یا تعلیم کا رشتہ معاش سے کم اور زندگی سے زیادہ جڑا ہوا تھا۔ لوگ علم کی خاطر علم حاصل کیا کرتے تھے۔ قدیم زرعی دور میں معاش کا تعلق جسمانی محنت سے زیادہ تھا، اور دماغی محنت سے کم۔ اس صورت حال نے علم کو معاش کے بجائے زیادہ تر خود علم سے جوڑ رکھا تھا۔مگر جدید دور میں صورتِ حال بدل چکی ہے۔
قدیم زمانےمیں تعلیم اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے نہیں ہوتی تھی۔ لیکن موجودہ زمانے میں تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اپنے آپ کو وقت کے تقاضے کے مطابق تیار کیا جائے۔ تاکہ انسان ترقی کی دوڑ میں اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ قدیم زمانے میں تعلیم عملاً ایک جامد ڈسپلن کی حیثیت رکھتی تھی۔ موجودہ زمانے میں تعلیم ایک تخلیقی سرگرمی (creative activity) کا نام ہے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا تعلق کچھ محدود لوگوں سے ہوتا تھا۔قدیم دور میں تعلیم کا دائرہ سماج اور قبیلے تک محدود ہوا کرتا تھا، یعنی اپنے سماج یا قبیلے کی روایت کو مینٹین (maintain) کرنا ۔ موجودہ زمانے میں تعلیم کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہوگیا ہے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا نشانہ یہ نہیں ہوتا تھا کہ نئی نئی چیزوں کو دریافت کیا جائے،تاکہ تہذیب کے ارتقا میں ان کا استعمال ہو۔ موجودہ زمانے میں تعلیم ایک انقلابی عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔
جدید دور میں ساری دنیا تک تعلیم کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ ماڈرن ایجوکیشن کا مقصد ہے انسان کے اندر سائنس اور ٹکنالوجی کی صلاحیت ڈیولپ کرنا، اس کے اندر تخلیقیت (creativity) پیدا کرنا، تاکہ وہ دنیا کو کچھ نیا دے سکے۔قدیم دور میں تعلیم قیاس پر مبنی ہوا کرتی تھی، جس میں خیالی کہانیوں وغیرہ کے ذریعے بچوں میں سماجی اقدار و آداب منتقل کیے جاتے تھے۔ جدید دور سائنسی تجربات پر مبنی تعلیم کا دور ہے۔ آج خیالی کہانیوں اور مثالوں کے بجائے حقیقی واقعات و تجربات پر مبنی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے علم اور تعلیم کی اہمیت بے حد بنیادی ہوچکی ہے، سیکولر شعبوں میں بھی اور مذہبی شعبوں میں بھی۔تعلیم کی اِس اہمیت کا سبب موجودہ زمانے میں سائنس اور ٹکنالوجی کا فروغ ہے۔ٹکنالوجی کی ترقی نے قدیم روایتی دَور کو بالکل بدل دیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں سواری کا ذریعہ یہ تھا کہ جنگل میں خچر، گھوڑے اور اونٹ فطری طورپر بڑی تعداد میں موجود تھے۔ آدمی ان کو پکڑتا اور انھیں سواری اور باربرداری کے لیے استعمال کرتا۔ مگر آج سواری، مشینی سواریوں کا نام ہوگیا ہے، اور مشینی سواریاں علم کے بغیر نہ بنائی جاسکتی ہیں، اور نہ انھیں استعمال کیا جاسکتاہے۔
جدید دَور میں سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں تمام علوم کو از سرِ نو مدوَّن کیاگیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ آسمان کے ستارے اتنے ہی بڑے ہیں جتنے بڑے کہ وہ آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر موجودہ زمانے میں دور بینی مطالعے نے بتایا کہ آسمان کے ستارے بہت زیادہ بڑے ہیں، اور تعداد میں بھی وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جتنا کہ بہ ظاہر وہ دکھائی دیتے ہیں۔ اِس طرح موجودہ زمانے میں بے شمار نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ان نئی معلومات کی روشنی میں دنیا کو جاننے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ آج بے علم آدمی صرف ایک ناخواندہ انسان نہیں ہے، بلکہ وہ حقائق کی دنیا سے بے خبر انسان کی حیثیت رکھتا ہے۔
موجودہ زمانے میں تعلیم کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی تعلیم کو وقت کی ضرورت کے مطابق بنانا۔ تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ انسان کو وقت کی ضرورت سے مسلح کرنا۔ انسان کو اس قابل بنانا کہ وہ آج کے حالات کے مطابق، زندگی کی تعمیر کرسکے۔ زمانی تبدیلی سے باخبرہونازندگی کے عام معاملات کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ دین کو زمانے کی نسبت سے سمجھنے کے لیے بھی۔اس حقیقت کو طویل حدیث میں صحابی رسول ابوذر الغفاری کے حوالے سےان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَعَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)۔ یعنی دانش مند (مومن)کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔
واپس اوپر جائیں

اسپرٹ آف انکوائری

اسپرٹ آف انکوائری کیا ہے۔ یہ تجسس کا مزاج ہے
Spirit of enquiry is a persistent sense of curiosity.
اسپرٹ آف انکوائری کو میں نے ایک تجربے سے سمجھا ہے۔ یہ واقعہ میری طالب علمی کے دور کا ہے۔ میری تعلیم جامعۃ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ) میں ہوئی۔ میرے تفسیر کے استاد کا نام مولانا امین احسن اصلاحی تھا۔اسپرٹ آف انکوائری کا پہلا سبق مجھے میرے استادمولانا امین احسن اصلاحی سے ملا۔ ایک روز قرآن کی کلاس میں یہ آیت سامنے آئی:أَفَلَا یَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ کَیْفَ خُلِقَت (88:17)۔ یعنی کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا۔
استاذ نے اس موقع پر طلبہ سے پوچھا کہ اونٹ کا سُم (hoof) پھٹا ہوتا ہے یا جڑا ہوتا ہے۔ یعنی بیل کی مانند پھٹا ہوتا ہے یا گھوڑے کی مانندجڑاہوتا ہے۔ اس وقت ہماری جماعت میں تقریباً 20 طالب علم تھے۔ مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ اس کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک اٹکل بچو سے کبھی ایک جواب دیتا، اور کبھی دوسرا جواب۔
اس موقع پر استاد نے بتایا کہ تمھارے جوابات سے اندازہ ہو تاہے کہ تم لوگ اونٹ کے سم کی نوعیت نہیں جانتے۔ پھر انھوں نے مشہور تابعی عامربن شراحیل الشعبی (وفات 103 ھ) کا مقولہ سنایا:لَا أَدْرِی نِصْفُ الْعِلْمِ(سنن الدارمی، اثر نمبر 186)۔ یعنی’’میں نہیں جانتا ‘‘کہنا ،آدھا علم ہے۔ اس کی تشریح انھوں نے کی کہ اگر تم لوگ یہ جانتے کہ تم اونٹ کے سم کے بارے میں بے خبر ہو تو گویا کہ اس معاملہ میں تمھارے پاس آدھا علم ہوتا۔ کیوں کہ اپنی لاعلمی کو جاننے کے بعد تمھارے اندر یہ شوق پیدا ہوتا کہ تم اپنے علم کو مکمل کرنے کے لیے یہ معلوم کرو کہ اونٹ کے سم کیسے ہوتے ہیں۔ اگر لاادری (میں نہیں جانتا) کا شعور تمھارے اندر بیدار ہوتا تو اونٹ پر نظر پڑتے ہی تم اس کے سُم کو غور سے دیکھتے، اور پھر تم اس کے نہ جاننے کو جاننا بنا لیتے۔
مدرسہ کا یہ واقعہ میرے لیے اتنا موثر ثابت ہوا کہ یہ میرا عمومی مزاج بن گیا کہ میں ہر معاملے میں اپنی ناواقفیت کو جانوں، تاکہ میں اس کو واقفیت بنا سکوں۔ علمی تلاش کا یہ جذبہ مجھے ابتداء ً مدرسہ سے ملا تھا۔ بعد کو میں نے اس موضوع پر مغربی مصنفین کی کچھ کتابیں پڑھیں، مثلاً اسپرٹ آف انکوائری (spirit of enquiry)۔ ان سے معلوم ہوا کہ تجسس کا یہی جذبہ تمام علمی ترقیوں کی اصل بنیاد ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں نے سیب کو درخت سے گرتے دیکھا تھا۔ مگر اس معاملہ میں وہ اپنے ’’لا ادری‘‘ کو نہیں جانتے تھے، اس لیے وہ حقیقت سے بے خبر رہے۔ نیوٹن پہلا شخص ہے، جس نے اس معاملہ میں اپنے ’’لاادری‘‘ کو جانا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ’’ادری‘‘ کے درجہ تک پہنچ گیا۔ یعنی کششِ ثقل (gravitation) کو دریافت کیا۔
اس کے برعکس، ہمارے لوگوں کا معاملہ کیا ہے۔ وہ دور جدید کو نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے یہ اعلان کردیاکہ دور ِجدید اسلام کا مخالف ہے۔جب کہ انھیں کہنا یہ چاہیے تھاکہ لاادری ما ھوالعصر الجدید (میں نہیں جانتا کہ دورجدید کیا ہے )۔ اس کے بعد وہ اس قابل ہوتے کہ دور جدید کو جانیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جب انھوں نے دور جدید کو جانے بغیر یہ اقدام کیا کہ انھوں نے، اس ادری (میں جانتا ہوں) کلچر کی بنا پر، ہر چیز کو مخالفِ اسلام قرار دے دیا۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر وہ دور جدید میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے۔اس کے برعکس،راقم الحروف کا معاملہ یہ ہے کہ میں ہر چیز کو سب سے پہلے لاادری (میں نہیں جانتا ہوں)کے خانے میں ڈالتا ہوں۔ اس کے بعد موضوعی اعتبار سےیہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کہا تھا جب معلوم نہ ہو تو معلوم کرنا چاہیے ۔ یقیناً نہ جاننے کاعلاج دریافت کرنا ہے(أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِیِّ السُّؤَالُ)سنن ا بوداؤد، حدیث نمبر336۔ اسپرٹ آف انکوائری بہت زیادہ اہم ہے۔ گویا یہ اپنے نہ جاننے کو جاننا بنانے کا آرٹ ہے۔ یہ تمام انسانی ترقیوں کے لیے قوتِ محرکہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین کی عصری تفہیم

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے :وَعَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)۔ یعنی دانش مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ بصیرتِ زمانی کی یہ صفت زندگی کے عام معاملات کے لیے بھی ہے، اسی کے ساتھ دین کو زمانے کی نسبت سے سمجھنے کے لیے بھی۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مومنِ مجتہد کے لیے کہی گئی ہے۔ اجتہاد اہل اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اجتہاد کی خاص شرط کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مومن مجتہد قرآن و سنت کی گہری واقفیت کے ساتھ اپنے زمانے کے حالات سے بھی بخوبی طور پر واقف ہو۔ تاکہ وہ زمانے کے تقاضے کے مطابق اسلامی تعلیم کی نئی تشریح کرسکے۔ ایسی تشریح جس میں اسلام کی تعلیمات کی بھرپور طور پر تعمیل موجود ہو، اور اسی کے ساتھ اس میں زمانے کے حالات کےمطابق اہل اسلام کو درست رہنمائی حاصل ہوتی ہو۔
اجتہاد دوسرے الفاظ میں اسلام کی دانش مندانہ تعبیر ہے۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ وہ قرآن و سنت سے واقف ہو لیکن اس کے اندر دانش مندی کی صفت نہ ہو تو وہ دین کو درست طور پر نہیں سمجھے گا۔ وہ درست طو رپر لوگوں کو دینی رہنمائی نہ دےسکے گا۔وہ دین کو تطبیقی انداز (applied way) میں پیش نہ کرسکے گا۔
دین کی عصری تفہیم کا مطلب صرف یہ ہے کہ ابدی دین کو وقت کے اسلوب (idiom of the time) میں بیان کرنا۔ دینی متن کا ترجمہ اگر صرف ترجمہ ہے تو اس کی عصری تفہیم کا مطلب ترجمہ پلس (translation plus) ہے۔ یعنی سطور (lines) کے ساتھ بین السطور (between the lines) کا اضافہ۔ ایک اگر اکیڈمک ڈکشنری (academic dictionary)کی زبان میں ہے تو دوسرا عصری ڈکشنری کی زبان میں ۔
واپس اوپر جائیں

ایک واقعہ

جب میں لکھنؤ میں تھا، اس وقت میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ ان کانام تھا ڈاکٹر سمیع اللہ خاں۔ یہ ملاقات لکھنؤ میں گومتی کے پل پر ہوئی تھی۔ فلسفے میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کیا تھا، اور برٹرینڈ رسل پر ریسرچ کیا تھا۔ وہ اپنی تعلیم کے بعدملحد ہوچکے تھے۔ اس گفتگو کا موضوع خدا کا وجود تھا۔ یعنی یہ کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا خدا کو ثابت کرنے کے لیے آپ کے پاس کرائٹیرین کیا ہے۔ میری زبان سے نکلا، وہی کرائٹیرین (criterion)جو آپ کے پاس کوئی چیز ثابت کرنے کے لیے ہو۔ وہ آدمی بہت زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ وہ ایک جملے میں چپ ہوگیا۔ اس کے بعد میری اس سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔
میرے جواب کا جو پس منظر تھا، اس سے وہ بخوبی طور پر واقف تھے۔ وہ پس منظر یہ تھا کہ سائنس نے حقیقت کی دریافت کا ایک لمبا سفر کیا ہے۔ اس سفر کا موجودہ مقام وہ ہے، جس کو کوانٹم فزکس یا کوانٹم میکانکس کہا جاتاہے۔ کوانٹم فزکس جس آخری تحقیق پر پہنچی ہے، وہ یہ ہے کہ میٹر (matter) اپنے آخری تجزیے میں کمیت کے اعتبار سے غیر مرئی (invisible) ہوجاتا ہے۔ وہ اتنا زیادہ غیر مرئی ہوجاتا ہے کہ اس کے وجود کو نہ براہ راست دیکھا جاسکتا ہے، اور نہ ہی مائکرو اسکوپ کے ذریعے۔ اس کو صرف اس کے اثر (effect) کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ اس بنا پر اس کو امکان کی لہریں (waves of probability ) کا نام دیا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ قصہ صرف ایک انسان کا نہیں، یہ جدید دور کے تمام انسانوں کا ہے۔ آج کا انسان جس نے سائنس اور جدید دریافتوں کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات کو جان چکا ہے کہ جس دلیل کے ذریعے انسان میٹر تک پہنچتا ہے، ٹھیک اسی دلیل سے انسان خالق تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ بد قسمتی سے موجودہ زمانے میں اس معاملے میں نیگیٹو سوچ رکاوٹ بن گئی ہے۔ اگر نیگیٹو سوچ حائل نہ ہو تو جدید دور کا انسان وہی بات کہے گا، جو ڈاکٹر سمیع اللہ نے امکانی طو رپر کہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

عورت کا مقام

عام طو رپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام گھر سنبھالنا ہے۔ مرد کا درجہ قوّامیت کا درجہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مرد کمانے والا فرد ہے۔ اس اصول کا ماخذ قرآن کی یہ آیت ہے الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّہُ بَعْضَہُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ(344) ۔یعنی مرد، عورتوں کے اوپر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال خرچ کیے۔
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ عورت کے بارے میں یہ کوئی حتمی بات نہیں ہے۔ خود مذکورہ آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت کے اصل الفاظ یہ ہیں وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِم (اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال خرچ کیے)۔ اگراس آیت کا حتمی مفہوم ہوتا ہے تو الفاظ مختلف ہوناچاہیے تھا۔ مثلاً یہ کہ وبما ینفقون من اموالھم(اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیںیا کریں گے)۔ اس اسلوب کی بنا پر اس آیت میں تاویل کی گنجائش موجود ہے۔
آیت کے الفاظ پر غور کرنے کے بعد راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ جملہ(sentence) عورت کے بارے میں کسی حکم شرعی کو نہیں بتاتا ، بلکہ وہ صرف یہ بتاتا ہے کہ معاشرتی حالات کے لحاظ سے عورت کا سماج میں ایک کردار یہ بھی ہے۔ موجودہ زمانے میں معاشرتی اقدار بہت زیادہ بدل گئے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ ایک عملی ضرورت بن گئی ہے کہ شوہر کے ساتھ بیوی بھی کمانے والی فرد بن کر اپنا کردارادا کرے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں مہنگائی کی بنا پر یہ عام طور پر صورتِ حال ہے کہ مرد کی اکیلی کمائی گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ عورت بھی کمائی میں حصہ دار بنے۔ بما انفقو من اموالھم کے معاملے میں بقدر استطاعت عورت بھی مرد کی شریکِ حال بنے۔ سیکولر سوسائٹی میں یہ طریقہ عام طور پر رائج ہوچکا ہے۔ مسلم سماج میں اس طریقہ کو اگر اختیار کیا جائے تو اس میں بہ ظاہر کوئی قباحت نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

فیس بک ایک اسٹڈی کلب

موجودہ زمانے میں ذرائع ابلاغ کے بہت سے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک سوشل میڈیا ہے۔سوشل میڈیا الکٹرانک کمیونی کیشن اور سماجی رابطہ کا طریقہ ہے، جس کے ذریعے انسان انٹرنیٹ پر ایک کمیونٹی بناتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے وہ انفارمیشن، آئڈیا اور پرسنل پیغام، وغیرہ ایک دوسرے کے ساتھ ایکسنچ کرسکے۔ مثلاً فیس بک (Facebook) ، ٹوئٹر، وغیرہ۔
فیس بک مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے۔ اس کو 2004ء میں مارک زکربرگ(پیدائش 1984) نے اپنےدوستوں کے ساتھ مل کر امریکا میں لانچ کیا۔ ابتدا میں اس کا مقصد یونیورسٹی اور اسکول سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طالب علموںکو ایک دوسرے کے ساتھ تبادلۂ خیال کا موقع فراہم کرنا تھا۔ 2006ء میں اسے عام لوگوں کے لیے اوپن (open) کیا گیا۔
فیس بک اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک اسٹڈی کلب ہے۔فیس بک پر ایک انسان دوسرے انسان سے بطور دوست تعلق قائم کر سکتا ہے۔ تبادلۂ خیال کر سکتا ہے،اور دوسرے لوگوں کی سرگرمیوں کی اطلاعات موصول کر سکتا ہے۔ ان سب کے علاوہ وہ اپنی پسند اور دلچسپی کی بنیاد پر گروپ میں شامل ہو سکتا ہے، جو افراد، اسکول، کام کی جگہ، دلچسپیاں اور دوسرے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔یہ گویا دوسرے کی عقل اور تجربات کو اویل (avail) کرنے کا عمدہ پلیٹ فارم ہے۔ بلاشبہ وہ ایک ایسا ذریعہ ہے، جس سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ زمانے میں فیس بک کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن تعمیری مقصد کے لیے نہیں، بلکہ زیادہ تر نتیجے کے اعتبا ر سے تخریبی مقصد کے لیے۔ فیس بک کااستعمال عملاًفری ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو زیادہ تر وہ لوگ استعمال کررہے ہیں، جن کے اندر اعلیٰ ذوق نہیں ہوتا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں،لوگ فیس بک کا استعمال عموماً شکایت اوربے بنیاد یا غیر مصدقہ خبروں کو پھیلانے کے لیے کرتے ہیں۔ اس طر ح یہ ان کے لیے عملا ً غیر مفید بن گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مواقع اویل کرنا

قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:6)۔ یعنی بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اصل یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ دو مختلف قسم کی چیزیں موجود رہتی ہیں— مسائل (problems) اور مواقع ۔ جس طرح زندگی میں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں، اسی طرح زندگی میں ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں دانش مندی کا طریقہ یہ ہےکہ مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع (opportunities) کو استعمال کیا جائے۔ مسائل سے الجھنا، صرف اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے ، اور ضائع شدہ وقت دوبارہ ہاتھ آتا نہیں۔
مسائل اور مواقع کو میری زندگی کے تجربے سے سمجھا جاسکتا ہے۔نومبر 2000 کے پہلے ہفتے میں میرا بہار کےلیے سفر ہوا۔ اس سفر میں انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا کی خاتون نمائندہ سنجیدہ بانو نے انٹرویو لیاتھا۔ ان کا ایک سوال یہ تھا کہ آپ بھی ایک عالم ہیں، مگر روایتی علماء اور آپ کے درمیان فرق ہے، ایسا کیوں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ جہاں تک اسلام اور قرآن وحدیث کا تعلق ہے میرےاور ان کے درمیان عقیدہ وعمل کا کوئی اختلاف نہیں۔ اس اعتبار سے دونوں کا دین مکمل طورپر ایک ہے۔ میرے اور ان کے درمیان جو فرق ہے وہ نظریہ کا نہیں بلکہ طریق کار کا ہے۔
میرا معاملہ یہ ہے کہ میں نے مدرسہ میں عربی اور دینی تعلیم کے حصول کے بعد ذاتی محنت سے انگریزی پڑھی اور جدید علوم کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اس سے میں نے سمجھا کہ اسلام کی ابدی صداقت کو جدید اسلوب میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آج کے انسان کے لیے زیادہ قابل فہم ہوسکے۔ اس کے برعکس، دوسرے علما شکایت اور احتجاج میں لگے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اسلام کو عصری اسلوب میں پیش کرتا ہوں، دوسرے لوگ ایسا نہیں کرتے۔دوسرے الفاظ میں، میں نے مسائل کے درمیان مواقع کودیکھا، اور اس کے مطابق تیاری کی، جب کہ دوسرے لوگ مسائل میں الجھے رہے، اس لیے وہ جدید دور میں پیچھے رہ گئے۔
واپس اوپر جائیں

مسائل نہیں

موجودہ دنیا میں ہر انسان کے لیے مسائل (problems) بھی ہیں، اور اسی کے ساتھ مواقع (opportunities) بھی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل انسان کی پیداوار ہیں۔ اس کے مقابلے میں مواقع خالق کا عطیہ ہیں۔ آپ اس معاملے میں مثبت ذہن پیدا کیجیے، آپ یہ کیجیے کہ مسائل کو نظر انداز کیجیے اور مواقع کو تلاش کرکے ان کو اپنے لیے استعمال کیجیے، اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
مثال کے طور پر ہماری فضا میں ہوا موجود ہے، جو ہماری زندگی کے لیے بے حد مفید ہے۔ اسی کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں فضائی آلودگی (air pollution) بھی موجود ہے۔ ہوا خالق کا عطیہ ہے۔ اس کے مقابلے میں فضائی آلودگی انسان کا اضافہ۔ ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ فضائی آلودگی کو نظر انداز کرکے ہوا کو اپنے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح ہم کو چاہیے کہ ہم مسائل کو نظر انداز کریں، اور مواقع کو تلاش کرکے، ان کو اپنے حق میں استعمال کریں۔ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی ناموافق حالات سے بھری ہوئی ہے۔ کامیاب وہ ہے جو ناموافق حالات میں اپنے لیے موافق راستہ دریافت کرلے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ آپ کو ایسی زندگی مل جائے، جس میں ناموافق اسباب موجود نہ ہوں تو ایسی زندگی کا پانا بلاشبہ ناممکن ہے۔
ایسی حالت میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی شکایت اور احتجاج سے بچے، اور حقیقت پسندی کی زندگی اختیار کرے۔ شکایت اور احتجاج کا طریقہ صرف وقت کو ضائع کرنے کا طریقہ ہے۔ دانش مند آدمی وہ ہے جو اپنے وقت کو بھر پور طور پر استعمال کرے۔ وہ ناقابل حصول کو اگنور کرے، اور قابل حصول کو پانے کے لیے اپنی ساری قوت لگا دے۔
واپس اوپر جائیں

شکایت نہیں

امریکی مصنف مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ (The 100)میں تاریخ کے 100کامیاب ترین انسانوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کامیاب انسانوں میں اس نے پیغمبر اسلام کو پہلا مقام دیا ہے۔ اس کا ریزن کیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کون سا طریقہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے ان کو اتنی عظیم کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ کوئی پراسرار واقعہ نہیں۔ قرآن میں کئی مقام پر آیا ہے کہ خدا نے آپ کو کتاب اور حکمت کے ساتھ بھیجا ہے۔ کتاب سے مراد ہے اللہ کا کلام یعنی قرآن۔اور حکمت کا مطلب ہے پریکٹکل وزڈم۔دوسرے الفاظ میں، پیغمبر اسلام نے انسانوں کو دو چیزیں دی ہیں نظریاتی طور پر اللہ کی کتاب، اور عملی سطح پر حکمت ( practical wisdom) ۔ رسول اللہ کی کامیابی کا جو خاص راز ہے، وہ ہے پریکٹکل وزڈم ۔پریکٹکل وزڈم کا مطلب عملی پہلوؤں پر غور و فکر کرنا، اور عملی تقاضے جو ہیں، اس کو کنسیڈر (consider)کرکے آگے بڑھنا۔
مثلاً یہ کہ جب پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں اپنا توحید کا مشن شروع کیا تو بڑے پیمانے پر آپ کی مخالفت کی گئی۔ آپ کو مختلف قسم کے ناموں سے پکارا گیا— مجنون (دیوانہ)،مذمم ، وغیرہ۔ مگر آپ نے ان باتوں کا کوئی منفی اثر نہیں لیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی اُس کے خلاف احتجاج اور شکایت کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔
اس کے برعکس، آپ نے جو کیا، وہ یہ تھا کہ آپ نے مسائل کو اگنور کیا، اور مواقع پر فوکس کیا۔ مسائل کیا تھے، مثلاً مخالفین کی جانب سے آپ کو برے ناموں سے پکارا گیا۔ مگر آپ نے اس کا کوئی منفی نوٹس نہیں لیا۔پیغمبر اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہمیشہ منفی واقعات کے اندر مثبت پہلو تلاش کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک روایت حدیث کی کتابوں میں اس طرح آئی ہے، پیغمبر اسلام نے کہا :أَلاَ تَعْجَبُونَ کَیْفَ یَصْرِفُ اللَّہُ عَنِّی شَتْمَ قُرَیْشٍ وَلَعْنَہُمْ، یَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَیَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3533)۔ یعنی کیا تم کو یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ مجھ سے قریش کے سب وشتم اور لعنت کو کس طرح دور کررہا ہے ۔ مجھے وہ مذمم کہہ کر شتم کرتے ہیں، مذمم کہہ کر وہ مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں۔ حالانکہ میں تو محمد ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام کا طریقہ سب و شتم پر مشتعل ہونا نہیں ہے، اور نہ فریقِ مخالف کے خلاف شکایت اور احتجاج کرنا ہے۔ بلکہ اس سے اعراض کرنا ہے۔ یہ بلند اخلاقی کا معاملہ ہے، نہ کہ قانونی سزا کا معاملہ۔یہ اعلیٰ سوچ کی ایک انوکھی مثال ہے۔چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ممکن ہوا کہ آپ مسائل کے درمیان مواقع کو دیکھ سکیں، اور ان کو اویل کریں۔ اس کو کہتے ہیں— حالات سے اوپر اٹھ کر سوچنا۔
وہ مواقع کیا تھے۔ مثلاً یہ کہ قدیم کعبہ جو توحید کا سینٹر ہونے کے باوجود بتوں کا مرکز بن گیا تھا۔ یہ بات توحید کے پیغمبر کے لیے ناقابلِ برداشت تھی کہ وہ ایسا ہوتے ہوئے دیکھے، اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرے۔ مگر پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آپ نے ان بتوں کو کعبہ سے ہٹانے کی کوئی بات نہیں کی۔ اس کے برعکس، آپ نے حالات سے اوپر اٹھ کر عمل کیا۔ یعنی آپ نے گہرے مطالعے کے بعد سمجھا کہ جس کعبہ میں بت رکھے ہوئے ہیں، اسی بت کی وجہ سے پورے عرب سے روزانہ بڑی تعداد میں زائرین آتے ہیں، جو پوٹنشل آڈینس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر بتوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے، تو بت نہیں ہٹے گا، مگر نقصان یہ ہوگا کہ زائرین ، یعنی پوٹنشل آڈینس کا آنا بھی بند ہوجائے گا۔ اس کے برخلاف، جب بتوں کے خلاف ہنگامہ نہ کیا جائے تو زائرین ، یعنی آڈینس آئیں گے، جن کو آسانی سے اپنا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے یہی طریقہ اختیار کیا، اور سارا عرب آپ کے لیے توحید کا آڈینس بن گیا۔اس طرح آپ نے بتوں کے اجتماع کو مینج کرکے اس کو توحید کا آڈینس بنا دیا۔
اسی طرح یہ کہ پیغمبر اسلام نے اپنا مشن قدیم مکہ میں شروع کیا۔ وہاں آپ کی شدید مخالفت ہوئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے آپ کو الٹی میٹم دے دیا کہ آپ مکہ کو چھوڑ دیں، ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ ان حالات میں آپ نے مکہ کو چھوڑدیا، اور خاموشی کے ساتھ مدینہ آکر وہاں رہائش اختیارکرلی۔عام رواج کے مطابق کوئی شخص آسانی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتا، بلکہ اس فیصلہ کو بدلوانے کی ہر کوشش شروع کردیتا ہے۔ مگر پیغمبر اسلام نےقدیم مکہ کے سرداروں کے اس فیصلہ کو قبول کرلیا، اور خاموشی سے مدینہ آکر آباد ہوگئے۔اپنےنتیجے کے اعتبار سے دیکھیے تو یہ ایک نہایت حکیمانہ عمل تھا۔
ایسے حالات میں عام طور پر لوگ جوابی ذہن کے تحت سوچتے ہیں، اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پیغمبر اسلام نے مسائل پر احتجاج کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ملے ہوئے مواقع کو اویل کیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کا منصوبہ مکمل طور پر کامیاب رہا۔ آپ کا یہ طریقہ اتنا کامیاب ہوا کہ صرف دس سال کے اندر پہلے مکہ اور پھر سارا عرب آپ کے دائرے میں آگیا۔
یہ اسوۂ رسول ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ تمام دنیا کے مسلمان پیغمبر اسلام کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائےنفرت اور شکایت اور احتجاج کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ یہ نفسیات اتنا زیادہ عام ہے کہ مسلمانو ںکے ہر طبقہ، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں کے درمیان یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ مسلمانوںکا یہ منفی ذہن (negative mind) بظاہر دوسروں کے خلاف ہے۔ مگر عملی نتیجہ کے اعتبار سے خود اپنے خلاف ہے۔ ایسا انسان نفرت اور جھنجھلاہٹ میں جیے گا۔اس قسم کا مزاج انسان کے اندر تخلیقی صلاحیت میں رکاوٹ ہے۔میں نے 15 ستمبر 1997 میں ٹائمس آف انڈیا میں ایک مضمون لکھا تھا۔ جس کا موضوع تھا
Not By Grievances Alone: Indian Muslims’ Failure
تقریباً سوسال سے مسلمانوں کی جو سیاست رہی ہے، اس پر یہ ایک جامع تبصرہ ہے۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ رسول اللہ نے امت کو پریکٹکل وزڈم کا نمونہ دکھایا تھا۔ پریکٹکل وزڈم کا مطلب ہے، حالات کے خلاف احتجاج مت کرو، بلکہ حالات کو مینج کرکے موافق (favourable) بناؤ۔ لیکن امت اس نمونے پر چلی نہیں۔ اس لیے وہ مسائل میں پھنسی ہوئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

سازش کا مسئلہ

موجودہ زمانے میں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان اغیار کی سازش کا شکار ہیں۔ ان سازشوں کے نتیجے میں مسلمان ایک قسم کے محاصرہ (under siege)کی حالت میں ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے خلاف نئے نئے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان سازشوں کو جانیں اور ان کے خاتمے کے لیے جوابی کارروائی کے لیے موثر تدابیر اختیار کریں۔
سازش کی بات ایک بے بنیاد بات ہے۔ یہ فطرت کےقانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر انسان آزاد ہے۔ ابلیس بھی اپنی تمام فوجوں کے ساتھ آزاد ہے۔ ایسی حالت میں سازش کا خاتمہ عملاً ناممکن ہے۔ جب تمام لوگ خالق کے نظام کے تحت آزاد ہیں ، تو وہ اپنی آزادی کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے۔ اس کےنتیجے میں کسی گروہ کے لیے اگر مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیے کرنے کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ سازش کے خلاف احتجاج کرے۔اس کے لیے کرنے کا کام صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ اپنے آپ کو وہ اس طرح تیار کرے کہ وہ دوسروں کی سازش کا شکار نہ ہونے پائے۔ دوسروں کی سازش کا شکار نہ ہونا تو یقیناً ممکن ہے۔ لیکن یہ بات ناممکن ہےکہ اس دنیا میں سازش کا وجود ہی باقی نہ رہے۔یعنی دنیا سے کبھی سازش ختم نہیں ہوگی، آپ سازش سے بچنے کی کوشش کیجیے۔
سازش سے بچنے کا سب سے آسان نسخہ یہ ہےکہ اس کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے تمام کوشش اپنی تعمیر (self development) کے محاذ پر لگائی جائے۔ علم اور عمل کے تمام شعبوں میں اپنے آپ کو مستحکم بنایا جائے۔ سب ے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ملے ہوئے افراد کو ذہنی اعتبار سے اتنا زیادہ تیار کیا جائے کہ وہ ہر بات کا تجزیہ کرکے اس کو پہلے ہی مرحلے میں ڈیفیوز (defuse) کردے۔ سب سے پہلا مرحلہ فکر کا مرحلہ ہوتا ہے۔ فکر کے مرحلے پر اگر کسی چیز کو ختم کردیا جائے تو وہ عملاً بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

ضمیر، ایگو

دہلی کے جسولا ویہار کے علاقہ میں ایک تقریری پروگرام کے تحت جانا ہوا۔ نظام الدین سےاوکھلا ویہار تک کے اس سفر میں مندرجہ ذیل افراد میرے ساتھ تھے: برادرم محمد خالد ندوی، مسجد کے امام قاری محمد سمیع اللہ صاحب، اور واحد علی انجینئر صاحب ۔
10 جون 1998 کی شام کو میں اس مسجد میں پہنچا، جس کو عام طور پر جسولا ویہار کی مسجد کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اور نہ اس کے بارےمیں مجھے کوئی واقفیت تھی۔ عشاء کے وقت جب میں وہاں پہنچا تو یہ میرے لیے ایک غیر متوقع منظر تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ مسجد جس کا نام اقرأ مسجد ہے کسی آبادی میں نہیں ہے، بلکہ وہ ایک کھلی جگہ پر ہے۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہاں مسجد کے چاروں طرف مسلمانوں کی ایک بڑی کالونی تھی اس کالونی کے اندر انھوں نے مسجد بنائی تھی۔ مگر یہ کالونی غیر قانونی تھی اور دلی کے ماسٹر پلان کے خلاف بنائی گئی تھی۔ چنانچہ 1989 میں راجیوگاندھی کی حکومت کے زمانہ میں اس قسم کی دوسری بہت سی کالونیوں کی طرح اس کو بھی مکمل طور پر توڑ دیاگیا۔دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ڈی ڈی اے) کے عملہ نے بلڈوزر کے ذریعہ مسلمانوں کے ہزاروں مکانوں کو ڈھا دیا۔
آخر میں مسجد کی باری تھی مگر یہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ D.D.A. کا ایک ملازم جس کا نام پنڈت شرما تھا، وہ بلڈوزر کا آپریٹر تھا۔ اس نے مسجد کو بلڈوز کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے افسر نے سختی کے ساتھ حکم دیا ،مگر وہ راضی نہیں ہوا۔ افسر نے دھمکی دی کہ میں تم کو ملازمت سے برخواست کردوں گا۔پنڈت شرما نے کہا کہ آپ جو چاہیں کریں، مگر میں مسجد پر اپنا بلڈوزر نہیں چلا سکتا۔ چنانچہ پوری کالونی مکمل طورپر ڈھادی گئی۔ مگر یہ مسجد اکیلی عمارت کی حیثیت سے کھڑی رہی۔ ایک عرصہ تک یہ مسجد غیر آباد پڑی ہوئی تھی۔ اب قاری محمد سمیع اللہ صاحب نے اس کو آبادکیا ہے۔ انھوں نے اس کی نئی تعمیر کرکے وہاں ایک مدرسہ بھی قائم کردیا ہے، جس کا نام مدرسة الحراء ہے۔
ایک طرف جسولا ویہار کی یہ مسجد ہے جس کو توڑنے سے ہندو انکار کردیتا ہے، دوسری طرف ایودھیاکی مسجد ہے جس کو ہندو اقدام کرکے توڑ ڈالتاہے۔ یہ فرق کیوں۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ جسولاویہار کا ہندو ایک نارمل ہندو تھا۔ جب کہ ایودھیا کا ہندو ایک غیر نارمل ہندو تھا، جس کی انا کو نااہل مسلم لیڈروں نے اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے بھڑکا دیا تھا۔ گویا کہ جسولا ویہار کا ہندو اگر مسٹر ہندو تھا تو ایودھیا کا ہندو مسٹر ایگو تھا۔ سیکڑوں سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسٹر ہندو نے کبھی کسی مسجد کو نہیں توڑا۔ مگر جب مسٹر ہندو کو بھڑکاکر مسٹر ایگو بنا دیا جائے تو اس کے بعد وہ ہوگا، جو 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں پیش آیا۔
اجتماعی زندگی میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آپ دوسروں کی انا (ego) کو نہ بھڑکائیں۔ جس انسان کا ایگو بھڑکایا نہ گیا ہو وہ اپنے ضمیر کے تابع ہوتاہے ،اور جس انسان کا ایگو بھڑکا دیا جائے، وہ اپنے نفس امارہ (یوسف، 12:53)کے تابع بن جاتا ہے، اور جو انسان اپنی نفس امارہ کے تابع بن جائے،وہ گویا ایک حیوان ہے، اگرچہ بہ ظاہر وہ ایک انسان دکھائی دیتا ہو۔مذکورہ واقعہ گویا اس آیت کی تفسیر ہے، جس میں یہ کہا گیاہے کہ: اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو توان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (3:120)۔
اس آیت کے مطابق، اس دنیامیں اصل مسئلہ کید (سازش) کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ صبر کی غیر موجودگی ہے۔ اہل ایمان اگر صبر کی روش اختیار کریں تو ان کے لیے خداکی ضمانت ہے کہ ان کے خلاف سازش کرنے والوں کی سازش یقینی طورپر بے اثر ہو کر رہ جائے گی۔ البتہ اگر اہل ایمان بےصبری کی روش اختیار کریں تو سخت اندیشہ ہے کہ وہ فریقِ ثانی کی سازش کی زد میں آجائیں۔
مذکورہ دونوں مثالیں اس کا کھلاہوا نمونہ ہیں۔ ایودھیا کی مسجد کے معاملہ میں جذباتی لیڈروں کی رہنمائی میں مسلمانو ں نے غیر صابرانہ روش اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایودھیا کی مسجد کو کچھ مشتعل ہندوؤں نے توڑ دیا۔ اس کے برعکس، دہلی کی مسجد کے معاملہ میں کوئی جذباتی لیڈر اشتعال دلانے کے لیے موجود نہ تھا۔ یہاں فطرت نے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ چنانچہ انھوں نے صبر اور خاموشی کی روش اختیار کرلی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دہلی کی مسجد جہاں تھی وہیں بدستور قائم رہی، بلکہ سرکاری حکم کے باوجود ہندو نے اس کو توڑنے سے انکار کردیا۔
جسولا ویہار کی مسجد اور ایودھیا کی مسجد کا تقابل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں کلّی طورپر ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ تمثیل یا تقابل کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوتا کہ دونوں کے درمیان کلی یکسانیت پائی جائے۔تمثیل یا تقابل ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان جزئی مشابہت کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ کلی مشابہت کے اعتبار سے۔ جسولا ویہار کی مسجد اور ایودھیا کی مسجد کے درمیان جو تقابل کیا گیا ہے، وہ صرف ایک پہلو کے اعتبارسے ہے، اور وہ یہ ہے کہ دونوں مسجدوں کا معاملہ یکساں طورپر ہندو کے ساتھ پیش آتا ہے، مگر ایک ہندو مسجد کو توڑ ڈالتاہے اور دوسرا ہندو مسجد کو نہیں توڑتا۔
زندگی کے معاملات کو سمجھنے کے لیے تقابل (comparison)کا طریقہ نہایت اہم ہے۔ تقابل ہی سے زندگی کی زیادہ گہری حقیقتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ بشرطیکہ کہ تقابلی مطالعہ کرنے والا آدمی کھلے ذہن کے ساتھ یہ مطالعہ کرے۔ اور مطالعہ کا جو نتیجہ نکلے اس کو وہ بلا بحث مان لے، خواہ یہ نتیجہ اس کے خلاف ہو، اور خواہ یہ نتیجہ اس کے پورے نظریاتی ڈھانچہ کو ڈھا دینے والا ہو— کوئی آدمی جب ایک سچائی کا انکار کرتاہے تو وہ سمجھتاہے کہ میں ایک خارجی چیز کا انکار کررہا ہوں، حالانکہ وہ خود اپنا انکار کررہا ہوتا ہے، اگرچہ وہ اپنی نادانی کی بنا پر اس کو نہیں جانتا۔
ایک مثال
مشرقی یوپی کے ایک شہر کا واقعہ ہے۔ اس شہر میں ایک مسلمان نےاپنے لیے گھر بنایا۔مکان کے ساتھ ایک خالی زمین بھی ان کے پاس میں تھی۔ اُن کے پڑوس میں ایک ہندو ٹھیکہ دار تھا۔ اس ہندو ٹھیکہ دار کا دعوی تھا کہ یہ زمین اُس کی ہے۔ چنانچہ اُس نے شہر کے کٹر ہندوؤں سے مل کر انھیں بھڑکایا۔ یہاں تک کہ ایک دن ہندوؤں کی ایک بھیڑ گھر کے سامنے سڑک پر اکٹھا ہوگئی، اور نعرے لگانے لگی۔
مذکورہ مسلمان کے پاس اُس وقت دو بندوقیں تھی۔ مگر انھوں نے بندوق نہیں اٹھائی۔ وہ تنہا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل کر باہر آئے۔ انھوں نے نعرہ لگانے والی بھیڑ سے کچھ نہیں کہا۔ اُنھوں نے صرف یہ پوچھا کہ آپ کا لیڈر کون ہے۔ ایک صاحب جن کا نام مسٹر سونڈ تھا، آگے بڑھے اور کہا، وہ میں ہوں، بتائیے کہ آپ کو کیا کہنا ہے۔ مسلمان نے بھیڑ سےکہا کہ آپ لوگ یہاں ٹھہریے اور مسٹر سونڈ کو لے کر گھر کے اندر آگئے۔ اُن کو کمرہ میں لا کر اُنھیں کرسی پر بٹھا دیا۔
اس کے بعد مسلمان نے کہا کہ مسٹر سونڈ آپ لوگ کس سلسلہ میں یہاں آئے۔ مسٹر سونڈ نے غصہ میں کہا کہ آپ نے ایک ہندو بھائی کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے، ہم اسی کے لیے یہاں آئے ہیں۔ مسلمان نے نرمی کے ساتھ کہا کہ آپ جانتےہیں کہ زمین کاغذ پر ہوتی ہے۔ زمین کا فیصلہ کاغذ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ آپ ایسا کیجیے کہ میرے پاس جو کاغذات ہیں، ان کو لے لیجیے، اور ٹھیکہ دار صاحب کے پاس جو کاغذات ہیں ،اُن کو بھی لے لیجیے، اور پھر نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے گھر چلے جائیے۔ اس معاملہ میں میں آپ ہی کو جج بناتا ہوں۔ آپ کاغذات کو دیکھنے کے بعد جو بھی فیصلہ کردیں وہ مجھے بلا شرط منظور ہوگا۔
یہ سن کر مسٹر سونڈ بالکل نارمل ہوگئے۔ وہ غصہ کی حالت میں اندر گئے تھے، اور ہنستے ہوئے باہر نکلے۔ اُنھوں نے سڑک پر کھڑی ہوئی بھیڑ سے کہا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ میاں جی نےخود ہم کو جج بنا دیا ہے۔ اب ہم دونوں کے کاغذات دیکھ فیصلہ کریں گے۔ مسٹر سونڈ نے اس کے بعد گھر جاکر دونوں کے کاغذات کو دیکھا اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھا۔ چند دن کے بعد اُنھوں نے صدفی صد مسلمان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا۔
مذکورہ مسلمان اگر اپنی بندوق کو لے کر بھیڑ کے اوپر گولی چلاتے تو وہ بھیڑ کے نفس امارہ (انانیت) کو جگا دیتے۔ اور پھر یقینی طورپر سارا معاملہ مسلمان کے خلاف ہوجاتا۔ مگر جب انھوں نے گن(gun) کے بجائے معقولیت کو استعمال کیا تو اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا نفس لوّامہ (القیامۃ، 75:2) جاگ اٹھا ، نفس لوامہ یعنی ضمیر۔ اور جب ضمیر جاگ اٹھے تو اس کا فیصلہ ہمیشہ انصاف کے حق میں ہوتا ہے، ضمیر کبھی ظلم اور بے انصافی کا فیصلہ نہیں کرتا۔
واپس اوپر جائیں

ایک سینئر سیٹیزن کی زبانی

میری پیدائش یکم جنوری 1925ء کو یوپی میں ہوئی۔ میں برٹش انڈیا میں پیدا ہوا، اور اب اس کے ایک سینئر سیٹیزن کی حیثیت سے آزاد انڈیا میں پہنچ گیا ہوں۔ میری پیدائش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی، جو فریڈم فائٹر کی حیثیت رکھتا تھا۔ میرے بڑے بھائی اقبال احمدخاں سہیل (ایم اے، ایل ایل بی)ایڈوکیٹ (1884-1955) ایک شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا
غلط ہے یہ کہ فقط ہندوؤں کا لیڈر تھا
کہ تھا تمام جہاں بھر کا رہنما گاندھی
اقبال احمد خاں سہیل نے 1936 کے یوپی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا، اور الیکشن جیت کر یوپی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ اس کے بعد جب میں بڑا ہوا، تو مجھے سوامی وویکانندا (1863-1902) کی کتاب لیٹرس آف وویکانندا پڑھنے کو ملی۔ اس کتاب کے لیٹر نمبر 271 میں سوامی وویکانند نے اپنے ایک فرینڈ کو ایک خط مورخہ 10 جون 1898 ءمیں لکھا تھا۔ اس خط میں سوامی وویکانند نے آزاد انڈیا کے بارے میں اپنے ویزن کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا 
For our own motherland a junction of the two great systems, Hinduism and Islam—Vedanta brain and Islam body—is the only hope. I see in my mind’s eye the future perfect India rising out of this chaos and strife, glorious and invincible, with Vedanta brain and Islam body. (Letters of Swami Vivekananda, p. 427)
انھیں سہانی یادوں کے ساتھ میرے دن گزرتے رہے۔ میں اپنے دائرے میں آزادی کی سرگرمیوں میں شریک رہا۔ مثلاً میں نے آزادی سے پہلے مئو (یوپی)جاکر جواہر لال نہرو (1889-1964)کی تقریر سنی۔ مجھے یاد ہے کہ لوگ ٹرینوں اور بسوں کی چھت پر بیٹھ کر مئو پہنچے تھے۔ اسی طرح میں نے پھولپور (اعظم گڑھ)کے ایک جلسہ میں شریک ہوکر سبھاش چندر بوس (1897-1945) کی تقریر سنی۔جیسا کہ معلوم ہے کہ سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج 1942 میں بنائی تھی۔ ان کا نعرہ یہ تھا
Give me blood, I will give you freedom
اسی طرح میں نے ایک سوشلسٹ اجتماع (gathering) میں شریک ہوکر جے پرکاش نارائن (1902-1979) کی تقریر سنی۔یہ جلسہ اعظم گڑھ میں ہوا تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے جے پرکاش نارائن بعد کو لوک نائک کے خطاب سے مشہور ہوئے۔ اس طرح میری نوجوانی کے دن گزر رہے تھے۔ یہاں تک کہ 15اگست 1947ء کا دن آگیا۔ 15اگست 1947ء کی رات کو میں نے وہ تاریخی تقریر تو نہیں سنی، جس میں اس وقت کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن (1900-1979) نے رات کو 12 بج کر ایک منٹ پرآل انڈیا ریڈیو سے اعلان کیا تھا
Today India is free
میں وائسرائے کی تقریر کو ریڈیو پر تو نہیں سن سکا، لیکن بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اگلے دن صبح کو اخبار میں پڑھا۔ 15اگست 1947ء کو میں اعظم گڑھ میں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ رات کے وقت جب میں اپنی قیام گاہ سے باہر نکلا، اور شہر کی سڑکوں پر پہنچا تو میرے چاروں طرف خوشی کے دیے جل رہے تھے۔ پورا شہر روشنی میں ڈوبا ہوا تھا۔
اب وہ روشنی بجھ چکی ہے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب لوگ مل کرایک نئے دور کے آغاز کا دیا جلائیں— وہ ہے انڈیا کی نئی تعمیر کا دور۔ وہ دور جس کا خواب سوامی وویکانندا نے دیکھا تھا۔ وہ دور جس کی یاد میں مہاتما گاندھی نے اپنی جان دے دی۔ وہ دور جس کا آخری صفحہ لکھنے کے لیے شاید انڈیا کا مؤرخ انتظار کر رہا ہے۔
میں اب 90 پلس ہوچکا ہوں۔ لیکن میری امیدیں ابھی تک باقی ہیں۔ میرا معمول ہے کہ میں روزانہ صبح کو اپنے کمرے سے نکل کر باہر بیٹھ جاتا ہوں، اور صبح کے سورج کے نکلنے کا انتظار کرتا رہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ 15اگست پر ہونے والے ایک پروگرام میں مَیں نے کسی شاعر کی زبان سے سنا تھا
برج مِحن سے نکلا سورج روشن اپنا مستقبل ہے
میں روزانہ طلوع سورج (sunrise) کا منظر اس امید سے دیکھتا ہوں کہ شاید آج کی صبح وہی صبح ہو، جس کے اشتیاق میں ایک فریڈم فائٹر نے ایک کتاب لکھی تھی، جس کا ٹائٹل تھا روشن مستقبل۔میں ہر دن نکلنے والے سورج کا استقبال ان الفاظ میں کرتا ہوں— وہ صبح کبھی تو آئے گی، وہ صبح کبھی تو آئے گی۔
انڈیا نے پیس فل اسٹرگل (peaceful struggle) کے ذریعے اپنی تاریخی آزادی حاصل کی تھی۔ اب انڈیا کی تعمیر نو کا کام بھی صرف پیس فل ا سٹرگل کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے۔ انڈیا نے پیس فل اسٹرگل کے ذریعے آزادی حاصل کرکے ایک تاریخ بنائی تھی، اب دوبارہ وقت آگیا ہے کہ انڈیا کی تعمیر نو کا کام پیس فل اسٹرگل کے ذریعے انجام دیا جائے۔انڈیا کی طاقت پہلے بھی امن تھی، آج بھی امن(peace)ہے، اور آئندہ بھی امن ہی اس کی طاقت بنی رہے گی۔
15 اگست 2020 کو انڈیا نے اپنا چوہترواں (74th)یوم آزادی منایا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم آزاد انڈیا کی حیثیت سے اپنا رخ متعین کریں۔ یوم آزادی ہمارے لیے ٹرینڈ سیٹر(trend-setter) ہونا چاہیے۔ موجودہ سال، یعنی 2020 ء کو ہمیں ٹرینڈ سیٹر سال کے طور پر منانا چاہیے۔ سوچ سمجھ کر ہمیں آخری طور پر یہ طے کرنا چاہیے کہ آزاد نیشن کی حیثیت سے ہمارا نشانہ کیا ہے۔
سوامی وویکانندا نے یہ کہا تھا کہ انڈیا کے بارے میں ان کا خواب یہ ہے کہ آزادی کے بعد انڈیا اسپریچول سوپر پاور بن کر ابھرے۔ انڈیا پوٹنشل طور پر بلاشبہ اسپریچول سوپر پاور ہے۔ اس پوٹنشل کو ایکچول بنانے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ ہے جمہوری نظام کے تحت متحد ہوکر کوشش کرنا۔
میں 90 پلس ہوں، اس لحاظ سے مجھے زندگی کا لمبا تجربہ ہوا ہے۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کے ڈیولپمنٹ کے لیے صرف ایک ہی ماڈل ہے ، جو ورکیبل ماڈل ہے۔ وہ وہی فطری ماڈل ہے، جس کو امریکن ماڈل کہا جاسکتاہے۔ امریکن ماڈل فری کمپٹیشن پر بیس (base) کرتا ہے، یعنی ایسا ماحول پیدا کرنا، جس میں میرٹ کی بنیاد پر کسی کو ترقی حاصل ہو، نہ کہ فیور (favour) کی بنیاد پر۔ ترقی کے لیے اصل چیز کامپیٹیشن ہے، نہ کہ فیور۔ امریکا میں ہر میدان میں یہ اصول ہے کہ کمپیٹ یا پیرش (compete or perish)، یعنی مقابلہ کرو، یا ختم ہوجاؤ۔ عام زبان میں اس کو کرو یا مرو(do or die) کہاجاتا ہے۔
فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں کوئی گروہ فیور (favour) کے ذریعے ترقی نہیں کرسکتا۔ وہ صرف مقابلہ (competition) میں اپنے آپ کو اہل ثابت کرکے کامیاب ہوسکتا ہے۔یہ کمپٹیشن ہے، جوانسان کو مین (man)سے اٹھا کر سوپر مین (super-man) بناتی ہے۔ کیوں کہ خالق نے اس دنیا کوچیلنج - رسپانس (challenge-response) کے اصول پر بنایا ہے۔ فرد کی ترقی یا سماج کی ترقی کا راز یہ ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔اس کے سوا ہر دوسرا اصول انسان کا خود ساختہ اصول ہوگا، جو کبھی عمل میں آنے والا نہیں۔
یہی ماڈل نیچرل ماڈل ہے۔ کمپٹیشن کا ماڈل ماٹیویٹنگ ماڈل (motivating model) ہے۔ اس کے برعکس، نہرو نے رشین ماڈل کو اختیار کیا، جس کو وہ سوشلسٹ ماڈل کا نام دیتے تھے۔ مگر عملاً یہ ماڈل ڈی ماٹیویٹنگ ماڈل (demotivating model)ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس ماڈل کو اختیار کریں، جو ماٹیویشن پر مبنی ہے، اوراس ماڈل کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، جو عملا ڈی ماٹیویشن کا ماڈل بن جاتا ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم انڈیا کے ڈیولپمنٹ کی ری پلاننگ کریں۔
انڈیا میں امریکا کے سابق سفیر گالبریتھ ( John Kenneth Galbraith) نے ایک مرتبہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا— انڈیا ایک فنکشننگ انارکی ہے (India is a functioning anarchy)۔ میں اس بیان کوکریٹیسزم کے طور پر نہیں لیتا، بلکہ چیلنج کے طور پر لیتا ہوں، اور یہ دعا کرتا ہوں کہ انڈیا ایک آئڈیل ڈیموکریسی بنے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 273

سی پی ایس انٹرنیشنل کا مشن ہے تمام انسانوں کو ان کی قابل فہم زبان میں قرآن پہنچانا۔چنانچہ دنیا کےمختلف حصوں سے قرآن کا مطالعہ کرنے کے خواہش مند لوگ سی پی ایس انٹرنیشنل (www.cpsglobal.org) یا گڈورڈبکس (www.goodwordbooks.com) کی ویب سائٹ پر جاکر اپنے لیے قرآن کا ترجمہ آڈر کرتے ہیں۔ ان کو ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ بلاقیمت بھیجا جاتا ہے۔ ذیل میں ایسے کچھ تاثرات درج کیے جاتے ہے
— The Quran I have received is in good condition. I have also received new books from Goodword. I use these books to know about Islam. I like to read the Quran because it has a lot of spiritual values. Keep up the good work. Thank you. (Mr. Hariharan Raja, Mayiladuthurai, TN, India(
— I like reading the daily devotional book, Quranic Wisdom. It is full of interesting themes. And the translation of the Quran is very smooth to read, and easy to understand. (Mr. Iain Dixon, Manchester, UK)
— I just wanted to ask if there is already an Italian translation of Wahiduddin Khan’s English translation of the Quran? I had the chance to read the English translation of Wahiduddin Khan which was gifted to me in Istanbul, at the Yeni mosque, several years ago in 2011. It was one of the reasons why I then became Muslim. Unfortunately, of course this is my personal view, I don't think the current Italian translations of the Quran renders the same message which Wahiduddin Khan’s translation does. I think Italian translation of the Quran would be much needed because of the problems Muslims face in my country, and also for Muslims who can't read English and understand Quranic Arabic. If the Italian translation of Wahiduddin Khan’s English translation has not been done, are you planning to do it in the future? (An Italian reader)
— ڈاکٹر محمد اسلم خان (سی پی ایس انٹرنیشنل سہارن پور)کو میکسیکو یونیورسٹی کی جانب سے میڈیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کی اعزای ڈگری دی گئی تھی۔ یہ ڈگری ان کو 25 جنوری 2020 کو ہوٹل گرینڈ نیو دہلی میں منعقد پروگرام میں دی گئی۔ انڈیا سے 12 آدمیوں کو یہ اعزازی ڈگری دی گئی تھی۔اس موقع پر ساؤتھ افریقہ، صومالیہ، یوگینڈا، نائجیریا، اور بنگلہ دیش سے بھی تقریبا 400 لوگ آئے تھے۔ ان تمام کو ڈاکٹر محمد اسلم خان، اور ان کی ٹیم نے انگریزی ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔ تمام لوگوں نے خوشی کے ساتھ اسپریچول گفٹ قبول کیا۔
— پونا (مہاراشٹر) کے قریب ستارا ضلع میںایک مشہور ہل اسٹیشن ہے۔ اس کا نام مہابلیشور ہے۔یہ ہندوؤں کا مقدس مقام بھی ہے۔ وہاں پر 17 فروری 2020 کو ایک بک ایکسپو کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں عبدالصمد صاحب کے تعاون سے مسٹر اکبر حسین صاحب نے ایکسپو میں آنے والے تمام لوگوں کےمراٹھی ترجمہ قرآن اور دوسری مراٹھی کتابیں تقسیم کی۔ کتابوں کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ تھی کہ کتابیں فوراًختم ہوگئیں، پھر مسٹر اکبر حسین صاحب نے بعد میں آنے والوں کے نام اور ایڈریس لیے تاکہ وہ ان کو بعد میں قرآن کا ترجمہ اور کتابیں بھجوائیں گے۔
— On February 3, an interfaith dialogue was held at Indian Institute of Spirituality Bangalore. Three hours were assigned to Islam on the topic The Role of the Prophets: The Islamic Perspective. There was an audience of seventy people who were students and staff of the Theology department. Their profound questions at the end of the session were a proof of their intellectual level. God bless them all. The following verbal feedback was received in the concluding part of the session: “We are very grateful for this important clarification and clear explanation about Prophet Muhammad being a prophet of peace, and Islam being a religion of peace.” We also received the following email from the Dean of the Institute the next day: “Thank you Madam. It was a graceful time with you, and all were taken up by your inspiring talks and presence. It touched our hearts and challenged us to live as peace bearers. Thank you very much. Father Sibichen.” (Ms. Sarah Fathima, Bengaluru)
— CPS Mumbai Team’s New Zealand Dawah Trip (March 11-18, 2020): The Mumbai team comprising of three members, Ms. Husna Sajid Anwar, Mr. A R Shaikh and I, had travelled to New Zealand. We reached Christchurch on March 11 and returned on March 18. The team joined Mr. Khwaja Kaleemuddin who had arrived from the US the same day. It was his fourth trip after the tragedy that had occurred at Christchurch mosques on March 15, 2019. 10,000 copies of the Quran and Discover Islam booklets in English had already arrived in shrink-wrapped packets before our arrival and were ready for distribution (This was arranged by Mr. Kaleemuddin and Dr. Saniyasnain Khan). The CPS team met the NZIC (New Zealand Islamic Information Centre) team from Auckland at the Linwood mosque on March 12. They are also engaged in the distribution of Quran copies in various languages and other literature, mainly leaflets, prepared on different topics. The teams introduced themselves to one another. At the end, they enquired if we had the Quran in Hindi and Punjabi languages for distribution. Mr. Kaleemuddin said that he would arrange Quran copies for them in these languages at the earliest. The Friday prayer on March 13 was arranged in Horncastle Arena, an indoor stadium. Almost all the Muslims of Christchurch were present. Relatives of slain and injured persons gave speeches and emphasized that Islam taught love, mercy, compassion and forgiveness. They also expressed thanks to New Zealand government, especially the Prime Minister Jacinda Arden, and the people of the country for showing their solidarity and support during the hour of crisis, which was truly exceptional. We couldn’t distribute Quran there, as it wasn’t allowed. The Sunday program, the first anniversary of the tragic event, was held on March 15 in both the mosques. We divided ourselves into two teams so that Quran distribution could be done at both the mosques - Al-Noor and Linwood. Ms. Husna Sajid and Mr. A R Shaikh took responsibility of the distribution at the main mosque, Al-Noor, while I went to Linwood mosque. Mr. Kaleemuddin was overseeing the arrangement at both places and thus was frequenting between these two mosques. We saw open and clear sign of God’s help throughout this dawah trip. Two incidents are worth mentioning here. On March 14 when we were thinking how and where to arrange the literature for next day’s program, we saw a fully prepared nice tent right at the entrance of Al-Noor mosque’s gate. Mr. Kaleemuddin inquired from Br Murray Stirling, treasurer of the mosque, regarding permission for using the tent temporarily. He immediately contacted the person who had put up the tent and got the permission for our use on Saturday. But on Sunday also the tent’s owner didn’t turn up and we continued to use the tent for Quran distribution. This seemed as if the tent was put up especially for us to perform dawah. My wife, Husna Sajid, can barely speak English but with the grace of God she along with Mr. Shaikh distributed more than 400 copies of the Quran and other literature to visitors at the Al-Noor mosque. All visitors were English-speaking. The manner and enthusiasm with which CPS members interacted with visitors and gifted the Quran impressed members of other teams, for example, IERA from England and Voice of Islam from Auckland, both of whom later adopted the same method at the end of the day. We met a number of influential Muslims like Imams of both mosques, Chairman of the mosque trust, members of the mosque committees, etc. Tazkirul Quran along with other English books of Maulana were given to most of them. Some were given Urdu books and Al-Islam Yatahadda as well. Maulana Abdul Lateef, a Nigerian educated in Pakistan for nine years, is the Imam of Linwood mosque. He had helped in receiving and storing the Quran consignment. He expressed his plan to travel to various cities of New Zealand with the literature and inspiring the heads of mosques and Islamic centers for Quran distribution. He also agreed to spread Al-Risala and Spirit of Islam as well. We also availed the dawah opportunities during the journey by distributing Quran copies and literature to the airline staff who accepted the gift very happily. This trip was another proof of what Maulana has been saying repeatedly over the years that this is the age of dawah, and the entire globe is available for this. We just have to stand up and Allah will send His angles to do the rest. (Mr. Sajid Anwar, Mumbai)
— مولانا سے ملاقات کے بعد علم وفکر میں جو اضافہ ہوا ہے، اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے:دور جدید میں عقلی استدلال کامنہج معلوم ہوا۔اسلامی دعوت کے حق میں دور جدید کا رول اور اس کا استعمال۔ امن ہی مطلوب الٰہی ہے، جنگ ایک استثنائی عمل ہے۔ قرآن وحدیث کے تطبیقِ نو اور اس کی توسیعی تطبیق کا منہج معلوم ہوا۔’’میڈیٹیشن کے بجائے کائنات پر غور وفکر(contemplation) کرنے سے تزکیہ کا حصول ممکن ہے۔‘‘ اس کی وضاحت ملی۔ اشراط الساعۃ کے بارے میں تمثیلی ہونے کا علم ملا۔ تجدیدِ ایمان اور ازدیادِ ایمان کی اہمیت معلوم ہوئی۔ تجدیدِ دین کا مطلب دین کا تطبیق نو (reapplication of religion)ہے، نہ کہ کوئی نیادین لانا۔ شکایت فری زندگی مطلوب ہے۔ صبر بطور مجبوری نہیں، بلکہ بطور اصول اپنانا ہے۔ اسی طرح آپ نے ایک اہم رہنمائی یہ کی ہےکہ خدا کے مشن میں رہنا گویا ہر وقت خدا کو منھ دکھانے کا اظہار ہے ۔اگر داعی انا سے خالی (ego-free)نہ ہو تو وہ ایگو کا مشن لیے ہوئےہے، نہ کہ خدا کا مشن۔ خدا کے مشن میں خدا کو پرائمری پوزیشن حاصل ہے۔ ایگو کو پرائمری پوزیشن دینے کی سوچیں گے تو مشن سارا جیوپرڈائز ہوجائے گا۔ اس لیے جب ایگو کے حالات پیدا ہوں توخدا کے لیے پیچھے ہٹنا ہی ایگو کو کچلنا ہے۔اگر ایسا نہ کریں تو سارا معاملہ بگڑ جائے گا۔مولانا میں خدائی مشن کی خاطر اور خدا کو منھ دکھا نے لیے اپنے ایگو کو کچلتا ہوں۔ (مولانا سید اقبال احمدعمری، عمر آباد، تامل ناڈو، انڈیا)
— The book, Discovering God, explains the practical and mandatory aspects of spiritualism. I've learnt that realization of God/marifah is not optional, but mandatory for every person, for two reasons: to act according to Creator's plan and to be able to fulfil one's very purpose of life. It is beautifully written. Sometimes I found repetitions, but then good things need to be repeated to enhance retention. (Ms. Sarah Farooq)
— میں مولانا کی ڈائری سے روزانہ چند صفحات کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں ۔ یہ ڈائریاں مولانا کی شخصیت اور فکر دونوں کی آئینہ دار ہیں ۔ مولانا کی کتابوں کے مقابلے میں ان کی نوعیت مختلف ہے ۔ روزمرہ کے تجربات، مشاہدے، مطالعے اور مکالموں کے ذریعے حکمت و دانائی کی وسیع تر دنیا آباد کردینا مولانا کا وصفِ خاص ہے ۔مولانا کی تمام ڈائریوں کو اصل میں’’اوراق حکمت‘‘ کہنا چاہیے ۔ ان میں دانائی کی وہ بڑی بڑی باتیں پائی جاتی ہیں، جن کو حاصل کرنے کے لیے ایک سچا متلاشی اپنی عمر گنوا دیتا ہے ۔ بلا شبہ یہ ڈائریاں ہمارے اندر سلیقۂ فکر پیدا کرتی ہیں ۔ صحیح اور غلط کے فیصلہ کن تجزیے سے آشنا کراتی ہیں ۔یہ سنجیدگی پیدا کرتی ہیں ۔ کلی طور پر ہماری فکری ساخت کو تبدیل کردیتی ہیں ۔ سی،پی،ایس انٹرنیشنل کے تمام احباب کے لیے میں مولانا کی دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ ڈائریوں کے روزانہ مطالعے کو بھی ناگزیر سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ اس کی نظیر کہیں اور دیکھی نہیں جا سکتی۔(فیض قادری،کوئمبتور، انڈیا)
— محترم مولانا وحید الدین خان صاحب کی ضخیم کتاب ’’اسفار ہند‘‘ کے مطالعہ کے بعد تاثرات :(1) مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مولانا کے مکالمات اور واقعات پڑھ کر مولانا کی غیر معمولی ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے۔ (2) مولانا کی شخصیت ایک قرآنی شخصیت کے طور پر نظر آتی ہے ۔ آپ کا ذہن ہر وقت اور ہر سفر میں رب العزت کی قدرتوں کے مشاہدہ میں مصروف نظر آتا ہے۔(3) مسلمانوں کے تعلق سے مولانا نے سب سے اہم بات کتاب کے صفحہ نمبر 368 میں بیان کی ہے، جو ، میرے خیال میں،مولانا کی تعلیمات کے خلاصہ میں سے ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:’’ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ آپ ہمیشہ مسلم رہنمائوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟میں نے کہا میں مسلم رہنمائوں کا مخالف نہیں۔ البتہ کئی بار میں نے ان کی ترجیحات پر تنقید کی ہے۔ کیوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ اکثر وہ نان اشو (non-issue) کو اشو (issue)بنا لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ عام مسلمانوں کے لیے مایوسی اور ہلاکت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔تقسیم کے بعد انھوں نے کئی بار ایسا کیا ہے کہ ایک اشو کو اٹھایا اور مسلمانوں کو یہ تاثر دے کر بھڑکایا کہ یہ نہیں تو تمہارا وجود بھی نہیں۔ کبھی اردو، کبھی مسلم یونیورسٹی ، کبھی پرسنل لاء، کبھی ملی تشخص، کبھی نفقہ مطلقہ ، کبھی بابری مسجد، کبھی تطلیقات ثلاثہ۔میرے نزدیک مسلمانوں کی قسمت اس قسم کے مسائل سے وابستہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بابری مسجد کے ڈھائے جانے کے بعد مسلم ملت بھی ڈھ گئی ہوتی۔ اس قسم کی باتیں مسلمانوں کے ذہن کو بگاڑنے کے ہم معنی ہیں۔ہمارے لیے صحیح ترجیح یہ ہے— تعلیم اور اقتصادیات اور اخلاق۔ مسلم رہنمائوں کو چاہیے کہ وہ سارا زور ان ا صل مسائل پر دیں۔ مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی تدبیریں کریں۔ مسلمانوں کو اقتصادیات میں آگے لے آئیں۔ مسلمانوں کے اندر اعلی کردار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ سب جڑ والے کام ہیں۔‘‘(4) یہ کتاب علم اور حکمت سے لبریز ہے، جس کے مطالعے سے وقت کا زیاں نہیں ہو سکتا۔(5) ایک اور اہم بات یہ کہ محترم مولانا کا تعلق مسلمانوں کے علاوہ اعلی اور متوسط طبقہ کے ہندوئوں کے ساتھ رہا لیکن آپ نے کبھی نفرت کی باتیں نہیں کیں، جس کی وجہ سے ایک اعلیٰ مسلم رہنماکے طور پر آپ شناخت کی برقرار ہے۔ میری نظر میں محترم مولانا کی یہ علمی خدمات اعلی درجے کا باقی رہنے والا کام ہے۔(سید عمران علی کراچی، پاکستان)
واپس اوپر جائیں