Pages

Saturday 1 July 2006

Al Risala | July 2006 (الرسالہ،جولائی)

2

- غلطی کا اعتراف

7

- مسلمان نیے دور میں

10

- سازش کا تصور

12

- کنزیومر کمیونٹی

14

- کیفیات، کمّیات

15

- صلاحیت کا کم تر استعمال

16

- میڈٹیشن(Meditation)

22

- سوال و جواب

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۵


غلطی کا اعتراف

میں نے ایک صاحب سے کہا کہ اگر کسی معاملے میں آپ دیکھیں کہ ننانوے فیصد غلطی فریقِ ثانی کی ہے اور صرف ایک فیصد غلطی آپ کی ہے تب بھی آپ یہ مان لیجئے کہ ساری غلطی آپ ہی کی ہے۔ آپ کھلے طورپر فریقِ ثانی سے کہہ دیجئے کہ آپ صحیح ہیں، میں ہی غلطی پر تھا:
You are right, I was worng.
اعتراف کی اِس روش کا فائدہ صرف یہ نہیںہے کہ نزاع فوری طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کا اس سے بھی زیادہ بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی یہ روش آپ کے ذہنی اور روحانی ارتقاء میں مددگار بنتی ہے۔
میرے تجربے کے مطابق، معروف قسم کی متصوّفانہ ورزشوں کا کوئی تعلق تزکیۂ روحانی سے نہیں۔ تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ اپنی غلطی کا کھلا اعتراف ہے۔ حضرت عمر کے اندر اپنی غلطی کے اعتراف کا مادہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ مبالغہ آمیز طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے تھے۔ مثلاً وہ کہتے کہ : لولا فلان لہلک عمر(اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا)۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑا تزکیہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر حقیقی تواضع کی صفت پیدا ہو۔ اس کے اندر سے کبر کا مزاج نکل جائے۔ غلطی کے اعتراف کا مزاج آدمی کے اندر یہی اعلیٰ صفت پیدا کرتا ہے۔ تزکیہ کا سب سے بڑا کورس یہی ہے۔
ایک صاحب سے گفتگو کے دوران میںنے اپنی کتاب ’’اسلامی زندگی‘‘ (صفحہ ۱۰) میں شائع شدہ خلیفۂ دوم عمر فاروق کے ایک قول کا حوالہ دیا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ کوئی بڑا کام کرنے کہ لیے اہل صرف وہ شخص ہوتا ہے جو مجموعۂ تضادات (mixture of opposites) ہو۔ مثلاً نہایت اعلیٰ ذہن کا حامل ہونے کے باوجودوہ آخری حد تک متواضع (modest) ہو۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ عالمِ حقائق (universe of facts) اتنا زیادہ وسیع ہے کہ کبھی کوئی شخص اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ مگر حقائق کا ادراک کرنے کے لیے صرف اعلیٰ ذہن کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ کامل تواضع لازمی طورپر ضروری ہے۔ کامل تواضع اس بات کی ضمانت ہے کہ اس کے لرننگ پراسس (learning process) پر کوئی فُل اسٹاپ نہ آئے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ کِبر، تعلّم (learning)کے عمل کو روک دیتا ہے۔ اِس کے برعکس،تواضع تعلّم کے عمل کو مسلسل طورپر جاری رکھتا ہے۔میں اپنے تجربے سے یہ سمجھتا ہوں کہ ذہنی ارتقاء کے لیے سب سے زیادہ ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی ہر لمحہ یہ کہنے کے لیے تیار ہو کہ میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
غلطی کو فوراً مان لینا، آدمی کے علم میںاضافہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج نہ ہو وہ ذہنی جمود کا شکار ہوجائے گا، اس کے اندر ذہنی ارتقاء کا سفر کبھی جاری نہیں رہ سکتا۔
اعتراف کے ذریعے فکری ارتقاء کا جاری رہنا کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ بلکہ وہ ایک معلوم بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کا دماغ مختلف معلومات کا جنگل ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی کنفیوژن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرکے دیکھ نہیں پاتا۔ یہ چیز آخر کار آدمی کو تشکیک تک لے جاتی ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ جب بھی مطالعہ یا ڈسکشن کے درمیان آدمی پر یہ واضح ہوکہ اس کے دماغ میں فلاں بات جو پڑی ہوئی ہے وہ غلط ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اسی وقت کھلے طورپر اس کو مان لے کہ میں اِس معاملے میں غلطی پر تھا۔ اسی کا نام اعتراف ہے۔
اِس اعتراف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ذہن میں کرکشن اور تصحیح کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ایک غلط بات جو اس کے ذہن میں صحیح بات کی حیثیت سے موجود تھی اب اس کا ذہن غلط مان کر اس کو غلطی کے خانے میں ڈال دیتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے وہ صحیح کے خانے میں پڑی ہوئی تھی۔ عام حالت میں یہ ہوتا ہے کہ صحیح آئٹم اور غلط آئٹم دونوں انسان کے دماغ میں ملے جُلے رہتے ہیں۔ غلطی ماننے کا مزاج یہ کرتا ہے کہ جو بات صحیح ثابت نہ ہو اس کو غلط کے خانے میں ڈالتا رہتا ہے، اِس طرح وہ اِس کنفیوژن سے باہر آجاتا ہے کہ وہ صحیح اور غلط میں فرق نہ کرے اور دونوں کو یکساں طورپر درست سمجھتا رہے۔
غلطی کو نہ ماننا کوئی سادہ بات نہیں۔ غلطی کو نہ ماننے کی نفسیات ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے کِبر کے مزاج کو توڑنا نہیں چاہتا۔ کبر دوسرے لفظوں میں خود پسندی کا نام ہے۔اپنی خود پسندی کی حفاظت میں آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ اِس طرح فرضی طورپر وہ اپنے آپ کو اِس جرم میں مبتلا رکھتا ہے کہ میں درست ہوں، میرے اندر کوئی غلطی نہیں۔ بظاہر آدمی اپنی اِس خود پسندی کی حفاظت کرکے خوش ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو بچا لیا۔ حالاں کہ وہ اپنے کو تباہی کے غار میں ڈال رہا ہوتا ہے۔ اپنے اِس عمل کی اس کو یہ بھیانک قیمت دینی پڑتی ہے کہ اس کا علمی اور روحانی ارتقاء رُک جائے اور وہ معرفت کے اعلیٰ تجربے سے محروم ہو کر رہ جائے۔
معرفت تواضع کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ تواضع نہیں تو معرفت بھی نہیں۔ اور سچی تواضع کی علامت یہ ہے کہ آدمی کسی تحفظِ ذہنی کے بغیر حق کا کھلا اعتراف کرے۔ وہ بے اعترافی کا تحمل نہ کرکے حق کے آگے ڈھہ پڑے۔ جو شخص سچائی کا اعتراف نہیں کرتا وہ عملاً اِس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ حق سے بلند ہے۔ سچائی اِس دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے۔ ایک شخص کے سامنے جب سچی دلیل آئے اور وہ اس کو نظر انداز کردے تو گویا اس نے خدا کو نظر انداز کردیا۔ ایسے لوگوں کے لیے خدا کے یہاں ابدی محرومی کے سوا اور کوئی انجام مقدر نہیں۔
قرآن میں آیا ہے: وقلیل من عبادی الشکور (السبا: ۱۳) یعنی میرے بندوںمیں بہت کم ہیں جو شکر کرنے والے ہیں۔شکر کیا ہے ۔ شکر در اصل وہ چیز ہے جس کو اعتراف (acknowledgement) کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعتراف سب سے بڑی عبادت ہے۔ ایک طرف خدا کی نعمتوں کا اعتراف اور دوسری طرف انسان کے مقابلے میں اعتراف۔ یہ دوچیزیں گویا دین کا خلاصہ ہیں۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ یا تو وہ اعتراف کے وقت اعتراف نہیں کرتے یا دل سے تو مان لیتے ہیں مگر زبان سے بول کر وہ اپنی غلطی کا اعتراف ضروری نہیں سمجھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ یہ سمجھنا کہ ہم نے دل سے تو مان لیا ہے زبان سے بولنے کی کیا ضروت ۔ یہ اپنی حققت کے اعتبار سے اعتراف نہیں ہے بلکہ منافقت ہے۔ جب آدمی قلبی اعتراف کے باوجود زبان سے کھُلے طورپر اس کا اظہار نہ کرے تو یہ بے اعترافی ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ بے اعترافی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی دوسروں کے سامنے یہ ظاہر نہیںکرنا چاہتا کہ وہ اِس معاملے میں بے خبر تھا۔
ٹھیک یہی نفسیات اُس انسان کی ہوتی ہے جو دل میں محسوس کرنے کے باوجود زبان سے بول کر اس کا اظہار نہ کرے۔ یہ نہ بولنا بھی اسی لیے ہوتا ہے کہ آدمی اپنی پوزیشن کو بچانا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اِس بات کو جان لیں کہ وہ اب تک بے خبری کا شکار تھا، یا اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے، یا اس نے ایسی کوئی غلطی کردی جس کی اُسے تصحیح کرنا چاہیے۔
آدمی جب معاملے کی وضاحت کے باوجود اعتراف نہیں کرتا تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرکے وہ اپنی پوزیشن کو گھٹا لے گا، دوسرے کے مقابلے میں اس کی برتری باقی نہ رہے گی۔ یہ نفسیات مکمل طورپر شیطانی نفسیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب شیطان کو حکم دیا کہ وہ آدم کے آگے جھُکے تو یہ اعتراف ہی کا ایک معاملہ تھا۔ مگر شیطان نے اِس اعتراف سے انکار کیا۔ اُس نے کہا کہ میں آدم سے برتر ہوں (أنا خیر منہ)۔
جب بھی کوئی آدمی بے اعترافی کا مظاہرہ کرے تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی بڑائی کے احساس میں جی رہا ہوتا ہے۔ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے وہ اعتراف نہیں کرتا۔ حتی کہ اگر اس کا دل یہ محسوس کرلے کہ اِس معاملے میں میں غلطی پر ہوں تب بھی وہ زبان سے اِس کا اظہار نہیں کرنا چاہتا تاکہ ظاہری طورپر اس کی پوزیشن برقرار رہے ۔ اس کی پوزیشن پر کوئی حرف نہ آئے۔
یہ بلا شبہہ بہت بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی سچائی کے لیے اپنے آپ کو جھُکا لے اُسی کو اس دنیا میں سرفرازی ملتی ہے، اور جو آدمی اپنے جھوٹے بچاؤ کے لیے کھُلے اعتراف سے پرہیز کرے وہ حقیقت کی نظر میں اپنے آپ کو نیچے گرالیتا ہے۔ حتی کہ خود اپنے ضمیر کے سامنے بھی وہ چھوٹا بن جاتا ہے۔
غلطی کا اعتراف ایک اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔ غلطی کا اعتراف دراصل اپنی تواضع کو ثابت شدہ بنانا ہے۔ جس شخص کے اندر غلطی کے اعتراف کا مزاج نہیں وہ یقینی طور پرتواضع سے بھی خالی ہوگا۔ اورتواضع کے بغیر کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ یا تو غلطی کا اعتراف نہیں کریں گے۔ یا اپنے دل کے اندر غلطی کو محسوس کرکے یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے غلطی کا اعتراف کرلیا۔ حالاں کہ غلطی کا ماننا وہی معتبر ہے جب کہ آدمی زبان سے بول کر اس کا کھُلااقرار کرے۔ دل میں غلطی کو محسوس کرنا اور زبان سے اس کا کھُلا اعتراف نہ کرنا منافقت کی علامت ہے۔ ضمیر ہر انسان کے اندر ہے، اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ منافق انسان بھی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے کہ اس معاملے میں مجھ سے غلطی ہوئی۔لیکن وہ زبان سے الفاظ کی صورت میں اس کا اظہار نہیں کرتا۔ اس کے برعکس، مؤمن کا طریقہ یہ ہے کہ جب اس کی غلطی اس پر واضح ہوجاتی ہے تو وہ فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے غلطی کی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق غلطی کے احساس کے بعد فوراً بول پڑتے تھے۔
مثلاً ایک بار انھوں نے کہاکہ : أصابت امرأۃ وأخطأ عمر، اور کُلُّ الناس أفقہ منک یا عمر( ایک عورت نے صحیح کہا، اور عمر نے غلطی کی۔ اے عمر، ہر آدمی تجھ سے زیادہ جانتا ہے) حقیقت یہ ہے کہ دل میں غلطی کو محسوس کرنا اور زبان سے بول کر اس کا اظہار نہ کرنا منافقانہ روش ہے۔ اور دل میں غلطی کا احساس پیدا ہوتے ہی زبان سے بول کر لفظوں میںاس کا کھُلا اعتراف کرنا مؤمنانہ روش۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان نئے دَور میں

امریکا میں مسلمان تقریباً ۷ ملین کی تعداد میں رہتے ہیں۔ ایک حالیہ اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ اِس وقت امریکا کی فی کس آمدنی ۳۴ ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ لیکن جہاں تک امریکی مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کی فی کس آمدنی ۴۲ ہزار ڈالر سالانہ ہے، یعنی دوسرے امریکیوں کے مقابلے میں تقریباً ۱۰ ہزار ڈالر زیادہ ۔
تقریباً یہی معاملہ ہندستان کا ہے۔ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمان ہندستان کے بارے میں منفی ذہنیت کا شکار تھے۔ مسلمان عام طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ہندستان ان کے لیے ایک پرابلم کنٹری ہے۔ لیکن مختلف واقعات کے نتیجے میں مسلمانوں کے اوپر شعوری یا غیر شعوری طور پریہ حقیقت کھلی کہ ہندستان میں مسلمانوں کے لیے ایسے مواقع موجود ہیں جو خود مسلم ملکوں میں بھی نہیں ہیں۔ اس کے بعد یہاں کے مسلمان تیزی سے ترقی کی دوڑ میں سرگرم ہوگیے۔ اب یہ حال ہے کہ ہندستان کا مسلمان نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ امریکا کی طرح ہندستان میں بھی مسلمان اقتصادی ترقی کے معاملے میں دوسری قوموں سے آگے بڑھ جائیں۔
ایسا کیوں ہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ ۵۷ مسلم ملکوں میں سے ہر ایک میں، کم و بیش، ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہے۔ ڈکٹیٹر شپ کا نظام ہمیشہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ جب کسی ملک میں ڈکٹیٹر شپ آتی ہے تو وہاں سے دو بنیادی چیزوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے—امن اور آزادی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی کے لیے امن اور آزادی دونوں لازمی طور پر ضروری ہیں— یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی بنا پر مسلمان مسلم ملکوں میں زیادہ ترقی نہ کرسکے۔
امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں مسلمانوں کا ترقی کے راستے میں سرگرم ہونا اِس لیے ہے کہ یہاں جمہوریت ہے۔ یہاں سیکولر ازم اور آزادی کا ماحول ہے۔ یہاں ہر ایک کے لیے کام کرنے کے مواقع یکساں طور پر موجود ہیں۔ اِس لیے امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں مسلمان کسی رکاوٹ کے بغیر ترقی کے راستے میں سرگرم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود اپنی فطرت کے زور پر ترقی کی راہوں میں دوڑنا چاہتا ہے۔ انسان کی ترقی کے لیے اِس کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں کہ اس کو تمام راہیں کُھلی ہوئی نظر آئیں۔ یہی معاملہ امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں ہوا۔
مسلم ملکوں میں ڈکٹیٹر شپ کیوںآئی۔ اِس کا سبب عام طورپر خود مسلم حکمرانوں کو سمجھتا جاتا ہے۔ مگر یہ بات یقینی طورپر غلط ہے۔ اِس ڈکٹیٹر شپ کا سبب تمام تر وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو اسلام پسند جماعتوںکے نام سے مشہور ہیں۔ اِن جماعتوں نے انتہائی بے دانشی کے ساتھ یہ کیا کہ نظامِ مصطفی اور قانونِ شریعت کے نفاذ کے نام پر اپنے ملکوں کے مسلم حکمرانوں کے خلاف انتہا پسندانہ تحریکیں شروع کردیں۔ یہ طریقہ مکمل طورپر وقت کے مصالح کے خلاف تھا۔ چنانچہ وہ الٹے نتیجے کا سبب بن گیا۔ یہی نام نہاد اسلام پسندانہ سیاست واحد سبب ہے جس کی وجہ سے مسلم ملکوں میں ہر جگہ ڈکٹیٹر شپ کا نظام قائم ہوگیا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے کی اسلام پسند تحریکیں کسی مثبت فکر کے تحت نہیں اٹھیں وہ صرف حالات کے ردّعمل کے تحت اٹھیں۔ یہ دراصل رد عمل کی تحریکیں تھیں جن کو غلط طور پر اسلامی تحریک کا نام دے دیا گیا۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں جب مغربی قومیں نئی طاقتوں کے ساتھ اُبھریں اور دھیرے دھیرے وہ پوری مسلم دنیا پر چھاگئیں۔ تہذیب اور سیاست دونوں اعتبار سے ان کا غلبہ مسلم دنیا پر قائم ہوگیا۔ یہاں تک کہ مغل سلطنت اور اسلامی سلطنت اور دوسری مسلم سلطنتیں یا تو ختم ہوگئیں یا مغلوب ہو کر رہ گئیں۔
یہ صورت حال پیش آنے کے بعد تمام دنیا کے مسلمانوں میں اس کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا۔ اس کے مقابلے میں مسلمان کوئی ایجابی موقف اختیار نہ کرسکے۔ اُن کے درمیان جو ذہن اُبھرا وہ یا تو ٹکراؤ کا ذہن تھا یا تحفّظات کا ذہن۔ اِس ذہن کے تحت، مسلمانوں نے جہاد کے نام پر ٹکراؤ شروع کردیا۔ کچھ لوگوں نے شریعت کے تحفظ کا نعرہ اختیار کیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ملّت کی شناخت خطرے میں ہے۔ اور وہ بطور خود ملت کی شناخت کی حفاظت میں مصروف ہوگیے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ جگہ جگہ مسلمانوں کا علاحدہ خطّہ بنانا چاہیے۔
اِس قسم کی تحفظاتی کوششوں پر اب تقریباً دو سو سال گذر چکے ہیں لیکن نتیجہ برعکس صورت میں ظاہر ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سوچ فطرت کے نظام کے خلاف تھی۔ فطرت کا نظام مسابقت (competition) کے اصول پر قائم ہے نہ کہ تحفّظ کے اصول پر۔ دنیا میں کبھی کسی گروہ کو تحفظ کے طریقے پر چل کر ترقی حاصل نہ ہوسکی۔
مسلم رہنماؤں نے مسلم حکومتوں کو اسلام کا ’’تحفظاتی قلعہ‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن اِس نام نہاد تحفظاتی قلعے میں مسلمان ترقی نہ کرسکے۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور ہندستان جیسے سیکولر ملکوں کو انھوں نے مسلم دشمن کا ٹائٹل دیا تھا مگر انھیں ’’دشمن‘‘ ملکوں میں مسلمان سب سے زیادہ ترقی کررہے ہیں۔ اِس لیے کہ مسلم ملکوں میں ہر جگہ نظریاتی انتہا پسندی کا ماحول ہے، اور نظریاتی انتہا پسندی کے ماحول میں ہمیشہ ٹکراؤ بڑھتا ہے نہ کہ ترقی۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور ہندستان جیسے ملکوں میں کھُلا ماحول پایا جاتا ہے۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ترقی کا عمل ہمیشہ کھلے ماحول میں جاری ہوتا ہے۔ نظریاتی انتہا پسندی کے ماحول میں ترقی کا عمل جاری ہونا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سازش کا تصور

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہاکہ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے دورِ زوال میں پہنچ چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کسی قو م پر زوال کیسے اور کب آتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ مسلمانوں کے کیس کو لیجئے۔ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کے بڑے خطّے میںحالتِ اقتدار میں رہے۔ نوآبادیاتی دور میں مغربی قوموں کا عروج ہوا، اس وقت مسلمان تہذیب اور سیاست دونوں میں مغربی قوموں کے مقابلے میں مغلوب ہوگیے۔ اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں میں احیاء نو کی تحریک شروع ہوئی۔
اُس دور کے مفکرین (شبلی نعمانی، محمد اقبال، ابوالکلام آزاد، سید جمال الدین افغانی، امیر شکیب ارسلان وغیرہ) نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کو یاد دلا کر ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس شاندار ماضی کو دوبارہ جدید تاریخ میں واپس لائیں۔ مگر یہ الٹی تدبیر تھی۔ اس کے نتیجے میں وہ مہلک نفسیات پیدا ہوئی جس کو ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِس نفسیات نے مسلمانوں کو فخر ماضی میں مبتلا کردیا۔ اور فخر کی نفسیات کسی حقیقی عمل کے لیے مستقل رُکاوٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس تدبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان دو طرفہ برائی میںمبتلا ہوگیے۔ اپنے بارے میں فخر کی نفسیات، اور دوسرے کے بارے میں نفرت کی نفسیات۔ اُس دور کے مصلحین نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا ہے وہ دوسری قوموں کی سازش کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا زوال خود اپنی کسی کوتاہی کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ دوسروں کی سازش کے نتیجے میں ہوا۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی۔ اس غلطی کانتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے احیاء نو کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ کرسکے۔
سازش کا نظریہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ جب بھی دو قوموں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے تو ہمیشہ بعض ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کو ’’سازش‘‘ کہاجاسکے۔ اس قسم کے واقعات ہمیشہ اور ہر قوم کی تاریخ میں موجود رہتے ہیں۔ خودمسلم تاریخ میں بھی اِس قسم کے انفرادی واقعات پائے جاتے رہے ہیں۔ مگر تجزیہ نگار کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کسی معاملے میں فیصلہ کن سبب (decisive factor)کیا ہے۔ کسی جُزئی واقعے کو لے کر اس کو جنر لائز کرنا اور اسی کو زیرِ بحث واقعے کا اصل سبب قرار دینا سخت غیر علمی بات ہے۔ اس قسم کے جزئی واقعات کو لے کر اگر رائے قائم کی جائے تو مسلمانوں کی فتوحات بھی ’’سازش‘‘ کا نتیجہ دکھائی دے گی۔
تبصرہ نگار کو چاہیے کہ وہ جُزئی واقعات کو نظر انداز کرکے اُن کلّی اسباب کو دریافت کرے جو زیر بحث واقعے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ پوری رائے غلط ہوجائے گی۔ مثال کے طورپر انگریز جب ہندستان میں آئے تو یہاں مسلم سلطنت قائم تھی۔ انگریزوں نے کامیابی کے ساتھ مسلم سلطنت کو ختم کیا اور انڈیا میں اپنا سیاسی اقتدار قائم کرلیا۔ اِس واقعے کو عام طور پر سازش کا نتیجہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ رُوہیلوں کا انگریز سے مغلوب ہونا، در اصل اودھ کے مسلم نواب کی غدّاری کی بنا پر ہوا۔ ایک مسلم شاعر نے کہا ہے:
نوّابِ اودھ نے جو یہ پاپڑ نہ ہوں بیلے
انگریز سے مغلوب نہ ہوسکتے روہیلے
اِس قسم کی باتیں تاریخ کے ناقص مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ انگریزکا ہندستان میں غلبہ اِس لیے ہوا کہ وہ جدید طاقتوں سے مسلّح ہو کر یہاں آئے تھے، ایسی طاقتیں جن کا توڑ اس وقت کے مسلمانوں کے پاس موجود نہ تھا۔ انگریز–مسلم تصادم کے دوران بعض جُزئی واقعات پیش آئے جیسا کہ ہر تصادم کے وقت پیش آتے ہیں۔ مگر ان واقعات کی حیثیت محض ضمنی ہے۔ ہندستان میں انگریزوں کی کامیابی کا راز اس قسم کا کوئی جزئی سبب نہ تھا۔ وہ مکمل طورپر ایک کلی سبب کے تحت پیش آیا، اور وہ دونوں کے درمیان طاقت کا عدم توازن تھا۔ اگر یہ جزئی واقعات نہ پیش آتے تب بھی انگریز یقینا کامیاب ہوتے۔
واپس اوپر جائیں

کنزیومر کمیونٹی

جب کسی مذہبی کمیونٹی پر سکیڑوں سا ل گذر جائیں، اور وہ عددی اعتبار سے ایک بڑی کمیونٹی بن جائے تو اس کی حیثیت ایک کنزیومر کمیونٹی کی ہوجاتی ہے۔ ۶۱۰ عیسوی میں پیغمبر اسلام اکیلے مومن تھے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ایک گروہ تیار ہوا جو عددی اعتبار سے ایک محدود گروہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس وقت جو گروہ بنا وہ کوئی کنزیومر گروہ نہ تھا۔ لیکن آج مسلمان ساری دنیا میں سات بلین ہوچکے ہیں۔ صرف ہندستان میں ان کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے۔
اس طرح آج کے مسلمان پورے معنوں میں ایک کنزیومر کمیونٹی بن چکے ہیں۔ ان کے درمیان ہر قسم کے تجارتی مواقع کھل گیے ہیں۔ تسبیح اور مصلّی ، اسلامی موبائل، اسلامی ٹی وی، اسلامی لٹریچر، اسلامی اجتماع اور اسلامی تحریک، اسلامی ادارہ اور اسلامی سروس، اسلامی سیاست اور اسلامی قیادت، اسلامی میڈیا اور اسلامی دفاع، اسلامی کمپیوٹر اور اسلامی انسائیکلوپیڈیا، اسلامی تقریر اور اسلامی تحریک، اسلامی نظام اور اسلامی بینکنگ حتی کہ زمزم اور کھجور، وغیرہ۔
اس قسم کی تمام چیزوں پر بظاہر اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک قسم کا سامانِ تجارت (commodity) ہیں۔ وہ لوگوں کے لیے اسی طرح مفید ہیں جس طرح عام تجارتی سرگرمیاں مفید ہوتی ہیں۔ اب اسلام کے نام پر وہ سارے مادّی فا ئدے حاصل ہورہے ہیں جو پہلے صرف عام تجارتوں کے ذریعے حاصل ہوتے تھے۔ میڈیا کی شان و شوکت نے ان فوائد میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔
غالباً یہی وہ صورتِ حال ہے جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے پیشگی طورپر خبر دے دی تھی۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: ویقال للرجل ما أعقلہ وما أظرفہ وما أجلدہ، وما فی قلبہ مثقال حبّۃ خردل من إیمان۔(فتح الباری بشرح صحیح البخاری، جلد: ۱۱، صفحہ: ۳۴۱) یعنی میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب کہ ایک شخص کی شان دار کارکردگی کو دیکھ کر کہا جائے گا کہ وہ کتنا زیادہ عقل والا ہے، وہ کتنا زیادہ ظرف والا ہے، وہ کتنا زبردست ہے۔ حالاں کہ اس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔
اِس حدیث پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ مذہب ایک پروفیشنل چیز بن جائے گا۔ لوگ اسلام کو پروفیشن یا کیریئر کے طورپر اختیار کریں گے۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ پروفیشنل کلام یا پروفیشنل سلوک ہمیشہ ظاہری طورپر زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک پروفیشنل سیلس مَین ہمیشہ عام انسانوں سے زیادہ، خوش گفتاری کا ثبوت دیتا ہے۔ حالاں کہ اس کے دل میں کوئی حقیقی جذبہ نہیں ہوتا۔یہ کنزیومر ایتھکس ہے۔ جب مسلم کمیونٹی ایک کنزیومر کمیونٹی بن جائے تو اس کے بعد اسی کردار والے لوگ پیدا ہوتے ہیں جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کیفیات،کمّیات

موجودہ زمانے میں بہت سی مسلم جماعتیں اور مسلم تنظیمیں وجود میں آئی ہیں۔ ان میں ایک اور دوسرے کے درمیان بہت سے فرق پائے جاتے ہیں۔ مگر ایک چیز سب میں مشترک ہے، اور وہ یہ کہ ہر ایک نے کسی نہ کسی پہلو سے اسلام کی کمّیاتی تعبیر کر رکھی ہے۔ کیفیات پر مبنی تعبیر کے بجائے کمّیات پر مبنی تعبیر میرے نزدیک سرتا سر گمراہی ہے۔ اس نے موجودہ زمانے میں زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
کیفیاتی تعبیر کی صورت میں آدمی ہمیشہ اپنی دین داری کے بارے میں شک میں مبتلا رہتا ہے۔ کیوں کہ کیفیات (تقویٰ، اور خشیّت) داخلی چیزیں ہیں، ان کو ناپا اور تولا نہیں جاسکتا۔ لیکن کمّیاتی تعبیرمیں دین داری ایک ایسی چیز بن جاتی ہے جس کو خارجی اعتبار سے ناپا اور تولا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی بے خوف ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے عمل کو ناپ تول میں ڈھال کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ جو عمل مجھے کرنا تھا وہ میں نے کردیا۔ کیفیت پر مبنی سوچ خدا کا خوف پیدا کرتی ہے اور کمّیت پر مبنی سوچ آدمی کے اندر فرضی یقین پیدا کرکے اس کو خدا سے بے خوف بنا دیتی ہے۔
اصحابِ رسول ہمیشہ لرزاں اور ترساں رہتے تھے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک، دین داخلی کیفیت کا نام تھا، اور داخلی کیفیت کو ناپ تول کی زبان میں معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان خدا سے بے خوف ہوگیے ہیں کیوں کہ وہ اپنے کمیاتی ذہن کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کرنا تھا وہ ہم نے کردیا۔ اب ہمارا معاملہ بالکل درست ہے۔
سیاست پر مبنی تعبیر، مسائل پر مبنی تعبیر، فضائل پر مبنی تعبیر، برکت پر مبنی تعبیر، وسیلے پر مبنی تعبیر، عشقِ رسول پر مبنی تعبیر، مظاہرِ شرک پر مبنی تعبیر، خیر امت پر مبنی تعبیر، وغیرہ۔
یہ تمام تعبیریں ظواہرِ دین پر مبنی تعبیریں ہیں۔ دین مسلّمہ طورپر داخلی حقیقت کا نام ہے۔ اس لیے ہر وہ تعبیرِ دین جو ظواہر یا فارم پر مبنی ہو وہ بلاشبہہ باطل قرار پائے گی، اور ظواہر دین پر چلنا خود ساختہ دین پر چلنا ہے نہ کہ خدا کے بھیجے ہوئے دین پر چلنا۔
واپس اوپر جائیں

صلاحیت کا کم تر استعمال

ایک گفتگو کے دَوران میں نے کہا کہ غالب کو اپنی زندگی میں کچھ ناخوشگوار تجربات پیش آئے۔ اِس پر اپنے ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوںنے کہا:
زندگی اپنی جب اِس طرح سے گذری غالب! ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
میںنے کہا کہ غالب زندگی کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ زندگی میں مشکلات کا پیش آنا اِس لیے تھا تاکہ غالب خدائے برتر کو یادکریں۔ وہ خدا سے تعلق قائم کرکے اپنے اندر اعلیٰ روحانی شخصیت کی تعمیر کریں۔ مگر انھوں نے مشکلات کے مقابلے میں صرف منفی تاثر لیا۔ حالاں کہ ضرورت تھی کہ وہ اس کو مثبت تاثر میں ڈھال دیں۔ اسی طرح غالب کا ایک اور شعر اِس طرح ہے:
رنج کا خوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
یہ بھی غالب کی ایک سنگین غلطی ہے۔ مشکل کا عادی ہو کر اس کو اپنے لیے قابلِ برداشت بنا لیناکوئی صحیح بات نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی مشکل کو اپنے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بنا سکے۔ وہ مشکل کو چیلنج کے روپ میں لے نہ کہ عادت کے روپ میں۔ غالب کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا کہ ان کو اپنے زمانے میں کوئی رہبر نہیں ملا جو ان کو صحیح سوچ دے، جو ان کی فکری رہنمائی کرے، جو اُن کو فکری ارتقاء کا راز بتائے۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ غالب اپنی اعلیٰ ذہانت کے باوجود صرف شاعر ہو کر رہ گیے۔ وہ سخن وری میں اپنا کمال دکھاتے رہے۔ حالاں کہ اپنی اعلیٰ ذہانت کی بنا پر وہ اِس قابل تھے کہ کوئی بڑا علمی اور فکری کارنامہ انجام دے سکیں۔ وہ شاعر کے بجائے مفکّربن سکیں۔ اور پھر انسان کو فکری رہنمائی عطا کریں۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ وہ اپنی صلاحیت کے صرف کم تر استعمال تک پہنچے، وہ لوگوں کو شاعرانہ اہتزاز سے زیادہ اور کچھ نہ دے سکے۔
کہا جاتا ہے کہ غالب نے الطاف حسین حالی سے کہا تھا کہ تم اگر شاعری نہیں کروگے تو اپنے آپ پر ظلم کروگے۔ میں سمجھتا ہوںکہ اِس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ غالب خود اپنے بارے میں یہ دریافت کریں کہ میںنے شاعری کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

میڈٹیشن(Meditation)

میڈٹیشن ایک مستقل ڈسپلن ہے۔ میڈٹیشن کا مقصد اسپریچول ڈیولپمنٹ ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا تعلق، فارمل ایجوکیشن سے ہے، اور اس کے مقابلے میں میڈٹیشن کا تعلق، انفارمل ایجوکیشن سے۔ میڈٹیشن یا اسپریچول ڈسپلن کے کئی طریقے ہیں اور وہ کسی نہ کسی صورت میں قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں۔
میرے تجربے کے مطابق، میڈٹیشن یا اسپریچول ڈسپلن کے دو بڑے اسکول ہیں۔ ایک وہ جو مراقبہ (Meditation) پَر مبنی ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ جو تفکّر (Contemplation) کی بنیاد پر قائم ہے۔پہلا اسکول مبنی بر قلب (heart-based) اسکول ہے، اور دوسرا اسکول مبنی بَر ذہن (mind-based) اسکول ۔ میں ذاتی طور پر تفکّر والے اسکول سے تعلق رکھتا ہوں۔
اسپریچویلٹی کا جو اسکول میڈٹیشن یا مراقبے پر قائم ہے اس کو مسلم تاریخ میں تصوف کہا جاتا ہے۔ تصوف میںبہت سی چیزیں ویدانتا سے لی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تصوف اور ویدانتامیں بہت زیادہ مشابہت ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گہرے طورپر متاثر ہوئے ہیں۔ اگر چہ ویدانتا کا ریفرنس پوائنٹ(reference point) وید ہے اور تصوف کا ریفرنس پوائنٹ قرآن ۔ لیکن اپنے مجموعی اسلوب کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں۔
مثلاً تصوف میں لطائفِ ستّہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ اصطلاح براہِ راست طورپر ہندو سسٹم سے لی گئی ہے۔ غالباً یہ تصور پہلے ہندو سسٹم میںآیا اور اس کے بعد مسلم صوفیوں نے اپنے لیے مفید سمجھ کر اس کو اختیار کرلیا۔
لطائف ستّہ کا مطلب صوفیا کے نزدیک، یہ ہے کہ انسان کے جسم میں چھ مقامات (points) ہیں۔ یہ مقامات روحانی احساسات کے مراکز ہیں۔ دھیان اور توجّہ سے ان پر مسلسل زور ڈالا جائے تو یہ روحانی مقامات کُھل جاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں پوری انسانی شخصیت کو روحانی غذا ملنے لگتی ہے۔ اس قسم کی پریکٹس اور بعض دوسری قسم کی پریکٹس ہیں جن پر عمل کرکے آدمی اپنی شخصیت کے مادّی پہلو کو دباتا ہے اور اپنی شخصیت کے روحانی پہلو کو بیدار کرتا ہے۔
میںاپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میںایک پیدائشی صوفی ہوں۔ میری پوری زندگی روحانی غور وفکر اور روحانی تجربات میں گذری ہے۔ میں لمبی مدت سے اِس مقصد کے لیے ایک ادارہ بھی چلا رہا ہوں۔ جس کا نام یہ ہے:
Center for Peace and Spirituality (CPS International)
لیکن میری روحانیت تمام تر ذہنی بیداری پر مبنی ہے۔ میں جس صوفی ازم کو مانتا ہوں اس کو تخلیقی صوفی ازم (creative sufism) کہا جاسکتا ہے۔
میرا ماننا یہ ہے کہ مبنی بَر قلب روحانیت، آدمی کو جس درجے تک پہنچاتی ہے وہ دراصل وجد (ecstasy) ہے۔مخصوص اعمال اور اشغال کے ذریعے آدمی کے اندر ایک خاص اہتزازی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کو روایتی صوفی، روحانی یافت کا نام دیتے ہیں۔
روحانیت کے جس مسلک کو میں مانتا ہوں اس کا تعلق، تمام تر فکری عمل سے ہے۔ یہ روحانیت اِس طرح آتی ہے کہ آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں کیا ہوں۔ میرے آس پاس کی دنیا کیا ہے۔ جس نے دنیا کو بنایا ہے اس کا وہ تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے جس کے تحت، اس نے انسان کو اور بقیہ کائنات کو بنایا ہے۔
روحانیت کا یہ سفر دراصل تلاشِ حقیقت کے جذبے کے تحت، شروع ہوتا ہے۔ یہاںتک کہ جب ایک متلاشی ٔ حق انسان سچائی کو دریافت کرلیتا ہے اور وہ خالق کے تخلیقی نقشے کو جان لیتا ہے تو اس کی زندگی ایک نئے دَور میںداخل ہوجاتی ہے۔ یہ دور وہ ہے جس کو روحانی اصولوں پر انسانی شخصیت کی تعمیر کا دور کہا جاسکتا ہے۔
یہ سفر مکمل طورپر ایک ذہنی سفر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ دنیا میں ہر عورت اور مرد ایک تجربے سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ منفی حوادث کا تجربہ ہے۔ چوں کہ موجودہ دنیا میںہر آدمی آزاد ہے۔ ہر آدمی کو موقع ہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے۔ اِس بنا پر باربار یہ صورت پیش آتی ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے دُکھ پہنچتا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان کی کسی کارروائی سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی ایسا ناخوش گوار تجربہ پیش آتا ہے جو اس کو مشتعل کردیتا ہے۔
ایک طبقے کے نزدیک ایسے حالات میں روحانیت کو باقی رکھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی انسانی بستی سے دُورکے ماحول میں رہنا شروع کردے جہاں کوئی چیز اس کو مشتعل کرنے والی نہ ہو۔ اِسی نقطۂ نظر کی ترجمانی امریکا سے چھپی ہوئی اُس کتاب میں کی گئی ہے جس کا نام یہ ہے:
A monk who sold his ferrari
میں جس روحانی مدرسۂ فکر کو مانتا ہوں وہ اِس سے مختلف ہے ۔ اِس دوسرے مدرسۂ فکر کے مطابق، آدمی کوچاہیے کہ وہ اپنے منفی تجربات کو کنورٹ کرکے ان کو مثبت تجربے کی شکل دے۔ وہ مادّی واقعات کو روحانی تجربے میں تبدیل کرسکے۔ وہ ایک غیر روحانی واقعے کو روحانی واقعے کی صورت دے دے۔
یہ وہی اصول ہے جس پر انسان کے باہر کی پوری مادّی دنیا قائم ہے۔ اِس اصول کو تبدیلی کا اصول(principle of conversion) کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر پانی کیا ہے، دو گیسیں جو اپنے آپ میں پانی نہیں ہیں وہ مل کر ایک اور چیز کی شکل اختیار کرتی ہیں جس کو ہم سیّال پانی کہتے ہیں۔ درخت کیا ہے، درخت در اصل غیر نباتاتی چیزوں کے کنورژن کا نتیجہ ہے۔
اسی کی ایک مثال گائے ہے۔ گائے اپنے جسم میں دودھ نہیں داخل کرتی۔ بلکہ وہ اپنے جسم کے اندر گھاس داخل کرتی ہے۔ پھر مخصوص نظام کے تحت، یہ گھاس کنورٹ ہو کر دودھ بن جاتی ہے۔ گویا کہ گائے ایک ایسی انڈسٹری ہے جو نان مِلک کو مِلک میں تبدیل کرتی ہے۔ اسی حقیقت کو ایک اردو شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے:
کل جو گھاس چری تھی بَن میں دودھ بنی وہ گائے کے تھن میں
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک بزرگ سے ملا۔ وہ کسی بات پر بزرگ سے غصہ ہوگیا۔ بزرگ اُس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آدمی اٹھا اور اپنے پاؤں سے بزرگ کے سینے پر مار دیا۔ یہ بزرگ کے لیے ایک منفی رد عمل کا واقعہ تھا۔ مگر انھوں نے اِس منفی واقعے کو ایک مثبت تجربے میں تبدیل کیا اور اس آدمی سے کہا میرے آہنی سینے سے تمہارے نرم پاؤں کو چوٹ تو نہیں لگی۔ (واضح ہو کہ یہ ایک قصہ ہے نہ کہ ایک واقعہ)۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جب کسی بندے کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرلے تو خدا اس کے گوشت کو ایک اور گوشت اور اس کے خون کو ایک اورخون بنا دیتا ہے۔
یہ تبدیلی فزیکل معنوں میں نہیںہوتی بلکہ وہ اسپریچول معنوں میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبتوں پر صبر وشکر کا رسپانس پیش کرنا آدمی کے لیے ایک روحانی تربیت بن جاتا ہے۔ یہ اس کو منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دشمنی کرنے والے انسان کے بجائے محبت کرنے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو پست سطح پر جینے والے انسان کے بجائے اونچی سطح پر جینے والا انسان بنا دیتا ہے۔ یہ اس کو دوطرفہ اخلاقیات (bilateral ethics) کے بجائے، یک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا حامل بنا دیتا ہے۔
اِس قسم کا روحانی انسان اعلیٰ فکری عمل کے ذریعے بنتا ہے۔ ایسا انسان بننے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے ذہن کی ری انجینئرنگ پر راضی ہوجائے۔ اِس مقصد کے لیے اپنی شخصیت کی توڑ پھوڑ کرنی پڑتی ہے۔ اپنی شخصیت کو پھر سے مولڈ کرنا پڑتا ہے۔ ایک انسان وہ ہے جو سماج کے اندر بنتا ہے، دوسرا انسان وہ ہے جو اسپریچویلٹی کے کارخانے میں بن کر تیار ہوتا ہے۔
جرمن فلسفی نٹشے نے ایک ترقی یافتہ انسان کو وجود میں لانے کا راز سیلف تھنکنگ کو بتایا تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقص سچائی ہے۔ پوری سچائی کی بات یہ ہے کہ ایک ترقی یافتہ انسان بننے کا راز اینٹی سیلف تھنکنگ میں چھپا ہوا ہے۔ اِس کا سب یہ ہے کہ ہر آدمی ایک معاشرے میں جیتا ہے۔ یہ معاشرہ ہر آن اس کے ذہن کی کنڈیشننگ کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مکمل طورپر ایک کنڈیشنڈ مائنڈ بن جاتا ہے۔ امریکی عالمِ نفسیات جے۔بی۔ واٹسن (J.B.Watson) نے غلطی سے اسی کنڈیشنڈ انسان کو اصل انسان سمجھ لیا ۔ حالاں کہ وہ ایک مصنوعی انسان ہوتا ہے نہ کہ اصل انسان۔
اسپریچول ڈیولپمنٹ کا عمل در اصل اسی کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ سے شروع ہوتا ہے۔ کوئی شخص جتنا زیادہ اپنے مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے گا اتنا ہی زیادہ وہ اسپریچول ڈیولپمنٹ کا مقصد حاصل کرے گا۔ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کے بغیر روحانی ترقی ممکن ہی نہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر ایک اسپریچول انسان ہی کے طورپر پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان پیدائشی طورپر مسٹر نیچر یا مسٹر اسپریچول ہوتا ہے۔ لیکن پیدا ہونے کے بعد وہ جس سوسائٹی میںرہتا ہے اس کے مطابق، اس کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ اِس بعد کی کنڈیشننگ کو ختم کرکے اپنے آپ کو دوبارہ اپنی پیدائشی حالت یا فطری حالت کی طرف لے جانے ہی کا دوسرا نام اسپریچویلٹی ہے۔ اسپریچول سائنس در اصل مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کا نام ہے۔ ڈی کنڈیشننگ نہیں تو اسپریچویلٹی بھی نہیں۔
اِس اعتبار سے انسانی دماغ کی مثال پیاز جیسی ہے۔ پیاز کے بیج میں ابتداء ًاس کا ایک چھوٹا سا مغز ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس مغز کے اوپر پرت چڑھنے لگتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری پرت دوسری کے بعد تیسری پرت، تیسری کے بعد چوتھی پرت۔ پرت چڑھنے کا یہ عمل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اندر کا مغز پوری طرح اِن خارجی پرتوں کے اندر ڈھک جاتا ہے۔ اب بظاہر صرف پرت دکھائی دیتی ہے۔ اندر کا مغز دکھائی نہیںدیتا۔
پیاز کے اندر کے مغز کو حاصل کرنے کے لیے اس کے اوپر کی تمام پرتیں ہٹانی پڑتی ہیں۔ اِسی طرح نیچر والے انسان کو دوبارہ سامنے لانے کے لیے اس کی کنڈیشننگ کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ کنڈیشننگ کا یہ عمل ویسا ہی ہے جیسا کہ پیاز کے اوپر کی پرت کوہٹانے کا عمل۔ اسپریچول سائنس کا پورا معاملہ پیاز کی اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔پیاز گویا اسپریچویلٹی کے معاملے کا ایک مادّی مظاہرہ ہے۔ پیاز انسان کو ایک مادی واقعے کے روپ میں بتارہی ہے کہ اس کو اپنے اندر روحانیت کی تعمیر کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
خدا نے اِس دنیا میں حصولِ کمال کے لیے اکتشافی طریقہ (discovery method) رکھا ہے، مادّی چیزوں کے لیے بھی اور انسان کے لیے بھی۔ مادی دنیا میں خدا نے بنابنایا اسٹیل (steel) نہیں رکھا بلکہ خام لوہا (ore) رکھا۔ انسان اِس خام لوہے کو زمین سے نکال کر اپنی فیکٹری میں لاتا ہے اور وہاں مخصوص عمل (process) سے گذار کر اس کو اسٹیل کی صورت دیتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ فطرت کسی کو بھی اسٹیل سپلائی نہیں کرتی۔ وہ صرف خام لوہا دیتی ہے۔ اب اسٹیل کے طالب کا اپنا کام ہے کہ وہ خام لوہے پر عمل کرکے اس کو اسٹیل بنائے۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ یہاں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ انسان کو روحانی پیکر کی صورت میں پیدا کردیا جائے۔ اس کے بجائے یہ ہوتا ہے کہ انسان پیدائشی طورپر ہر قسم کی روحانی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اب یہ خود انسان کا کام ہے کہ وہ اپنے اندر روحانی تشکیل کا عمل کرے۔ وہ اپنی تربیت کرکے اپنے آپ کو ایک کامل روحانی شخصیت میں ڈھال لے۔
روحانی انسان ایک خود تعمیر کردہ انسان کا نام ہے۔ روحانی انسان کسی پُر اسرار کرامت کے ذریعے نہیں بنتا، وہ ایک معلوم تربیتی عمل کے ذریعے بنتا ہے۔ یہ عمل تمام تر ذہنی سطح پر ہوتا ہے۔ کو ئی بھی پُر اسرار طریقہ روحانی انسان بنانے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
کیا Life Insurance ہم خرید سکتے ہیں ۔ میں نے جب ۱۹۸۷ میں اس کو خریدا تھا تب میں اسلام سے بہت واقف نہ تھا۔ اور اس زمانے میں مَیںجناب پرویز صاحب کی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ لیکن ان کی ساری کتابیں پڑھنے کے بعد بھی دل کو اطمینان نہیں ہوا۔ ادھر ۱۹۹۹ میں میں نے ایک بُک اسٹور میں آپ کی ایک کتاب دیکھی جس کا نام تھا سفر نامہ۔ غیر ملکی اسفار (۱) ۔ ویسے بھی انگریزی میں Travel Books پڑھا کرتا ہوں۔ جب میں نے آپ کی کتاب دیکھی تو دل میں ہوا کہ چلو دیکھیں (گستاخی معاف) مُلّا دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ جب میںنے آپ کی کتاب پڑھی تو مجھے آپ کی باتیں بڑی اچھی لگیں اور آپ کے خیالات پڑھتے پڑھتے دل نے کہا کہ مجھے جس انسان کی تلاش تھی وہ یہی انسان ہے۔ تب سے آج تک آپ کی بہت ساری کتابیں پڑھیں ، دل کو سکون ہوا۔ پھر سے کلمہ پڑھا اور خدا کو پالیا۔ (احمد اچھا، لندن)
جواب
لائف انشورنس کے بارے میں علماء کے فتوے آچکے ہیں، وہ سب کو معلوم ہیں۔ میں اِس قسم کے فتووں سے ایک بنیادی اختلاف رکھتا ہوں، وہ یہ کہ یہ فتوے عباسی دور میں پیدا ہونے والے مدارسِ فقہ کو شعوری یا غیر شعور ی طورپر ماڈل مانتے ہیں۔ اور اسی کو اسلام کا آخری نمونہ سمجھ کر فتوے دیئے جاتے ہیں۔ مگر اصولی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کو مکّی دور اور مدنی دور میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مکّی دور کی حیثیت اسلام کے ابتدائی دور کی ہے، اور مدنی دور کی حیثیت اسلام کے تکمیلی دَور کی۔ مگر یہ تصور مکمل طورپر غلط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مکّی دور اور مدنی دَور دونوں یکساں طورپر، اسلامی نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مکّی دَور اُس حالت کا ایک معیاری نمونہ ہے جب کہ اہلِ اسلام سیاسی اقتدار کی حالت میں نہ ہوں اور مدنی دور اُس حالت کا ایک معیاری نمونہ ہے جب کہ اہلِ اسلام سیاسی اقتدار کے مالک ہوں۔ یہ دونوں نمونے ہمیشہ کے لیے معیاری نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمان جب سیاسی اقتدار کے مالک نہ ہوں تو اُنھیں مکّی دَور سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے اور جب وہ سیاسی اقتدار کے مالک بن جائیں تو اُنھیں مدنی دَور سے رہنمائی لے کر اپنا نظام بنانا چاہیے۔ اگر چہ یہ تقسیم مطلق تقسیم نہیں ہے۔ کیوں کہ مکّی دَور میں بھی مدنی تقاضے شامل رہتے ہیں، اِسی طرح مدنی دور میں بھی مکّی تقاضے شامل رہتے ہیں۔
قرآن سے یہ ثابت ہے کہ سیاسی اقتدار کبھی کسی کو مستقل طورپر نہیں ملتا۔ سیاسی اقتدار ایک پرچۂ امتحان ہے اس لیے وہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، کبھی ایک گروہ کے پاس اور کبھی دوسرے گروہ کے پاس (تلک الأیام نداولہا بین الناس)۔ ایسی حالت میں عبّاسی دور میں بننے والا ماڈل ابدی طور پر اسلام کا معیاری ماڈل نہیں ہوسکتا۔ ماڈل ہمیشہ حالات کے تابع ہوگا نہ کہ کسی دَورِ حکومت کے تابع۔
واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں مسلمان ساری دنیا میں مکّی دَور جیسے حالات میں ہیں، مسلم اقلیت والے ملکوں ہی میں نہیں بلکہ مسلم اکثریت والے ملکوں میں بھی۔ یعنی جہاں مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم نہیں ہے وہاں بھی اور جہاں مسلمانوں کی سیاسی حکومت قائم ہے وہاں بھی، مسلم اقلیت والے ملکوں میں مقامی حالات کے اعتبار سے اور مسلم اکثریت والے ملکوں میں عالمی حالات کے اعتبار سے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں غیر مسلم قوموں کا سَیطرہ اتنے بڑے پیمانے پر قائم ہے کہ نام نہاد مسلم حکومتوں کے علاقے میں بھی مسلمان عملاً انھیں حالات میں ہیں جو کہ مکّی دور کے حالات تھے۔
ایسی حالت میں میرے نزدیک یہ اسلام کی تعمیل نہیں ہے کہ دَورِ اقتدار میں لکھی ہوئی کتابوں کے حوالے نکال کر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے فتوے دئے جائیں۔ یہ اسلام کو گویا مضحکہ بنانا ہے۔ کیوں کہ یہ یقینی ہے کہ غالب تہذیب کے تحت جو طریقے رائج ہو گیے ہیں وہ عالمی زور پر چلتے رہیں گے اور مفتی کا فتویٰ ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔
ایسی حالت میں میری رائے ہے کہ صحابی ٔ رسول وابصہ بن معبد والی حدیث پر عمل کیا جائے۔ وابصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِثم (گناہ) اور بِرّ (نیکی) کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: یا وابصۃ، استفتِ قلبک(مسند احمد، الدّارمی، کتاب البیوع) یعنی اے وابصہ، تم اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ ظاہرہے کہ رسول اللہ کا یہ جواب فاجر انسان کے لیے نہ تھا بلکہ صالح انسان کے لیے تھا۔ میری رائے ہے کہ جو شخص دین داری کی زندگی گذار رہا ہو، جس کے دل میں نیک نیتی ہو، جو آخرت میں اللہ کی پکڑ سے ڈرتا ہو اس کو ہر معاملے میں مفتی سے فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ چیزوں میں مسئلہ پوچھنا یقینا ضروری ہے مگر بہت سے امور ایسے ہیں جن میںآدمی کو اپنے قلب یا اپنے ضمیر کی رائے پر چلنا چاہیے۔
سوال
الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ کے صفحہ نمبر ۴۳ پر کشمیر کے عبد الرشید بٹ کے سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ—اصل بات یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد سے جوگہرا تعلق ہوتا ہے وہی تعلق آپ کو اپنے الرسالہ مشن سے بھی ہے۔ آپ کے اس جواب سے اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ بقیہ زندگی اسی مشن میں گزارنے کا تہیہ کرچکا ہوں۔ مجھے یقین ہوچلا ہے کہ جس تنظیم یا مشن سے صاحب مشن کو اَولاد جیسا گہرا لگاؤ ہو اُس مشن کو زوال نہیں۔
راقم الحروف سنٹر گورنمنٹ کے ریلوے محکمہ سے بطورO.S. ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ دونوں لڑکے وطن سے بہت دُور برسرِ روزگار ہیں اور اب وطن میں آکر بسنا نہیں چاہتے۔ میں اپنے وطن میں تنہائی کی زندگی سے اُکتا چکا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ اپنا ذاتی مکان کسی فلاحی تنظیم کے لیے وقف کردوں اور اپنی فیملی پینشن کسی ایسی بیوہ یا مطلقہ کے نام منسوب کردوں جو میرے بعد بھی اس مشن کو جاری رکھے ۔
تمنّا ہے تو بس شارق، تمنا آخری اپنی
جو گزرے، خدمتِ خلقت میں گزرے زندگی اپنی
اس بارے میں آپ کے پُر خلوص مشورے کا انتظار رہے گا۔ (شارق، آکولہ)
جواب
آپ نے دعوتی مشن کے لیے جو ارادہ کیا ہے وہ ایک قربانی کی بات ہے۔ اور قربانی کے جذبے کے اعتبار سے وہ بلاشبہہ قابل ثواب ہے۔ لیکن اسلام میں قربانی کا تصور حکمت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اسلام میں وہی قربانی مطلوب قربانی ہے جو اپنے مقصد کے اعتبار سے نتیجہ خیز ہو۔ بے نتیجہ قربانی اسلام میں نہیں۔
دعوت الی اللہ کا کام بلڈنگ کے ذریعے یا پیسے کے ذریعے نہیں ہوتا۔ دعوت الی اللہ کا کام جب بھی ہوتا ہے اسپرٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور اسپرٹ کوئی ایسی چیز نہیں جو منتقل کی جاسکے۔ آپ کے اندر جو دعوتی اسپرٹ پیدا ہوئی ہے وہ آپ کے اوپر اللہ کا ایک خصوصی انعام ہے۔ اِس اسپرٹ کو آپ بطور خود کسی بھی تدبیر سے کسی اور کے اندر منتقل نہیں کرسکتے۔ آپ کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی اِس دعوتی اسپرٹ کو اللہ کا انعام سمجھیں اور اس کو بھر پور طورپر استعمال کریں۔
آپ کے پاس جو مکان ہے یا آپ کو جو پنشن مل رہی ہے، اس کو آپ اپنے لیے خدا کی مدد سمجھیے۔ آپ یہ کیجئے کہ اپنے گھر میں ایک لائبریری قائم کیجئے اور جو ماہانہ رقم آپ کو ملتی ہے اس کو بقدر ضرورت اپنے اوپر خرچ کرنے کے بعد الرسالہ اور الرسالہ کی مطبوعات کو پھیلانے پر لگائیے۔ اپنے پیسے کو کسی اور کو دینے کے بجائے الرسالہ مشن کو پھیلانے میں لگائیے۔ جو لوگ الرسالہ خرید نہیں سکتے مگر وہ اس کو پڑھ سکتے ہیں، اُنھیں مفت الرسالہ پہنچائیے۔ اِس طرح اپنی پوری زندگی اِس مشن پر وقف کردیجئے۔ آپ کا وقت اورآپ کا پیسہ دونوں اس مشن کو فروغ دینے پر استعمال ہونا چاہیے۔ اپنا مکان اور اپنا پیسہ دوسروں کو دینا، میرے نزدیک کوئی حکیمانہ فیصلہ نہیں۔
سوال
۸؍اکتوبر ۲۰۰۵ کو پاکستان میں زلزلہ آیا۔ اِس سے بعض علاقوں میں شدید تباہی آ ئی۔ مثلاً اسلام آباد اور مظفر آباد (کشمیر) وغیرہ میں۔ اِس کے بعد یہاں کے مذہبی طبقے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ خدا کا ایک عذاب تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ عذاب اِس لیے آیا کہ پاکستان کے لوگوں نے یہاں ’’اسلامی نظام‘‘ قائم نہیں کیا۔ کسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسلامی اخلاقیات کو بہت پامال کیا جارہا تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ جھوٹ اور منافقت میں جی رہے تھے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا واقعی یہ خدا کا عذاب تھا۔ ( عبد اللطیف، کراچی)
جواب
میرے نزدیک زلزلے کے اِس واقعے کو عذاب کہنا درست نہیں۔ عذاب کا لفظ سزا کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور تکلیف کے لیے بھی۔ سزا کے مفہوم میں یہ عذاب نہ تھا۔ البتہ تکلیف کے مفہوم میں اس کو عذاب کہہ سکتے ہیں۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب یا تکلیف کی تین خاص صورتیں ہیں۔ ایک وہ جس کی حیثیت تنبیہہ یا وارننگ کی ہوتی ہے۔ اِس نوعیت کے عذاب کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فلولا إذ جائہم بأسنا تضرّعوا (الانعام: ۴۳) اِس نوعیت کے معاملے کو تنبیہی عذاب کہا جاسکتا ہے۔ یہ تنبیہات انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے آتی ہیں۔ ایسی تنبیہات ہمیشہ آتی رہی ہیں۔ موجودہ زمانے میں جو فرق ہوا ہے وہ صرف یہ کہ میڈیا کی وجہ سے بہت جلد عالمی طور پر لوگوں کو اس کا علم ہوجاتا ہے، جب کہ پچھلے زمانے میں ایسا واقعہ صرف ایک مقامی واقعہ بن کر رہ جاتا تھا۔
عذاب کی دوسری صورت وہ ہے جس کو قرآن میں دمّرناہم تدمیرا(الفرقان: ۳۶) کہاگیا ہے۔ اِس نوعیت کا عذاب ایک مخصوص گروہ کے لیے اُس وقت آتا ہے جب کہ اس کے پاس پیغمبر آئے اور وہ اتمامِ حجت کی حد تک اپنا پیغام اس کو پہنچا دے۔ یہ عذاب سزا اور ہلاکت کے معنیٰ میں ہوتا ہے۔ پیغمبری کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد اب اِس قسم کا عذاب کسی قوم پر آنے والا نہیں۔
عذاب کی تیسری صورت وہ ہے جس کے لیے قرآن میں اِس قسم کے الفاظ آئے ہیں: إن زلزلۃ الساعۃ شیٔ عظیم(الحج: ۱) یہ معاملہ اُس وقت پیش آئے گا جب کہ خدا موجودہ دنیا کو ختم کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ ایسا واقعہ صرف ایک بار پیش آئے گا، اور اس کا پیش آنا ابھی باقی ہے۔
سوال
الرسالہ کو عام کرنے میں مجھے بہت ہی صبر آزما حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں بعض جماعتوں نے اپنا پروپیگنڈا شروع کردیا ہے۔ اور وہ الرسالہ کے خلاف کتابیں پھیلارہے ہیں۔ شہر کے لوگ بھی دھیرے دھیرے جاننے لگے ہیں کہ میں الرسالہ پھیلاتا ہوں۔ اس لیے لوگوں نے میری مخالفت شروع کردی ہے۔ (شاہ عمران حسن، مونگیر)
جواب
آپ کو اللہ تعالیٰ نے سلیم الطبع بنایا ہے۔ اِسی کے ساتھ آپ کو یہ ہمت بھی دی ہے کہ آپ حالات کی ناموافقت کے باوجود الرسالہ مشن کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کی مدد فرمائے۔ اس سلسلے میں ایک حکمت کی بات یہ ہے کہ اقدام ہمیشہ بقدر تیاری ہونا چاہیے۔ آدمی جو مقصد حاصل کرنا چاہے اس کے مطابق، اس کے پاس ضروری تیاری ہونا چاہیے۔ پہلے تیاری اور اس کے بعد اقدام یہی کام کا فطری طریقہ ہے۔
سوال
میں ایم ۔اے ۔ انگریزی (M.A. English from IGNOU) کی طالبہ ہوں اور جنوری ۲۰۰۲ سے میں الرسالہ پڑھتی رہی ہوں۔ پہلی بار جب الرسالہ میرے ہاتھوں میںآیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور پڑھنے کے بعد حقیقت میں دل بہت خوش ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں الرسالہ سے فوراً متاثر ہوگئی۔ اس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ایسا لگا جیسے الرسالہ صرف دل کو ہی نہیں بلکہ روح کو بھی تسکین دیتا ہے۔ تب سے میں نہایت ہی پابندی کے ساتھ الرسالہ کا مطالعہ ہر ماہ کررہی ہوں۔ بے شک اس کے مطالعے سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بہت کچھ حاصل کیا ہے اور میں اس کا پورا کریڈٹ آپ کے نام کروں گی۔ بلا شبہہ آپ کی عظیم شخصیت کی بدولت ہی یہ سب کچھ ممکن ہوسکا۔
بے شک مجھے اس کے ذریعے اسلام کی حقیقت سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ مگر کچھ باتوں سے میں متفق نہیں ہوں۔ وہ یہ کہ ہر معاملے میں مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا۔تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ یہ مسلمانوں کی غلطی کا ثمرہ ونتیجہ ہے۔(رخشاں ہاشمی، مونگیر)
جواب
’’مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانا‘‘ ایک غیر متعلق بات ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اصل سوال یہ جاننے کا ہے کہ فطرت کا قانون کیا ہے۔ ہماری رائے فطرت کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ اپنے جذبات یا خواہشات کے مطابق۔ قرآن میں فطرت کا یہ قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم (الشوری: ۳۰)
قرآن کی یہ آیت حتمی الفاظ میں بتارہی ہے کہ لوگوں کے اوپر جو مصیبت آتی ہے وہ ان کے اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک او ر آیت میں فرمایا کہ: ان تصبروا وتتقوا لایضرکم کیدہم شیئاً (آلِ عمران: ۱۲۰) اِس دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں اصل مسئلہ ’’اغیار کی سازش‘‘ کی موجودگی نہیں ہے بلکہ خود مسلمانوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ یعنی اگر مسلمانوں میں صبر اور تقویٰ ہوگا تو وہ اَغیار کی سازش سے محضوظ رہیں گے اور اگر صبراور تقویٰ نہیں ہوگا تو وہ اغیار کی سازشوں کا شکار ہوجائیں گے۔
ان قرآنی آیات کے مطابق، آپ نے جن باتوں کے بارے میں اپنے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے، اس کا تعلق الرسالہ سے نہیں ہے بلکہ خود قرآن سے ہے۔ آپ کو اگر کہنا ہے تو یہ کہیے کہ مجھ کو قرآن کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ بات الرسالہ کی بات نہیں ہے بلکہ وہ خود قرآن کی بات ہے۔
مذکورہ قسم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ جب کوئی اُفتاد پڑے تو مسلمانوں کے اندر احتسابِ خویش (introspection) کا جذبہ جاگنا چاہیے۔ دوسروں کے خلاف احتجاج اور شکایت کرنا، سراسر قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
سوال
اپنی تشفی اور تفہیم (concept clearing) کے لیے اپنی ایک اُلجھن کے حل کے لیے آپ کی مدد چاہتا ہوں۔
اُلجھن— قرآن میں باربار خوفِ خدا کا ذکر آتا ہے۔ اور بندوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کا خوف ہمیشہ اپنے دل میں رکھیں۔ مومنین کی صفات کے تذکرے میں خصوصی طور پر آتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ مثلاً اتقوا ربکم واخشوا یعنی اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو اور اس سے ڈرو۔ (لقمان : ۳۳) اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم اللہ کے غضب سے ڈر کر اس کی عبادت کریں۔ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر اللہ سے خوف کھانے اور ڈرنے کو ہی مومن ہونے کے لیے لازم گردانا گیا ہے۔ جیسے:حقیقت یہ ہے کہ علم رکھنے والے ہی خدا سے ڈرتے ہیں (الفاطر: ۲۸) ،خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ، وغیرہ ۔(الاعراف : ۵۶)
دوسری طرف بظاہر بالکل متضاد طورپر اللہ جل شانہُ سے محبت کرنے کو بھی عین ایمان قرار دیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے مختلف issue میں بھی محبت الی اللہ کے بارے میں بارہا پڑھا۔
اُلجھن یہ ہے کہ ایک آدمی بیک وقت دو متضاد صفات کا حامل کیسے ہو۔ اللہ سے ڈرے بھی اور محبت بھی رکھے، کیسے؟ جس کسی سے محبت ہوتی ہے اس سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جس کا ڈر اور خوف دل میں بیٹھ جائے اس سے محبت کرنا فطرتاً ممکن ہی نہیں ہوتا۔ آدمی اس سے صرف ڈر سکتا ہے اور ڈر اور خوف کی وجہ سے اس کا اتباع کر بھی لے تو یہ محبت تو نہ ہوئی۔ (جنید جاذب بھٹی، کشمیر)
جواب
ایک شخص اپنی ماں سے محبت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک مؤمن خدا سے محبت کرتا ہے۔ بظاہر دونوں محبت کی صورتیں ہیں مگر دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ماں کے ساتھ محبت میں صرف ایک جذبہ کام کرتا ہے، وہ یہ کہ ماں اپنے بیٹے کے حق میں آخری حد تک شفیق ہے۔ یہاں تک کہ بیٹا اگر کوئی غلط کام کرے تب بھی ماں کی طرف سے اس کو شفقت ہی ملتی ہے، ماں کی محبت صرف محبت ہے، ماں کی محبت میں انصاف کا پہلو شامل نہیں۔ اس لیے بیٹا اپنی ماں سے صرف محبت کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماں کی نسبت سے ایسا کوئی سبب نہیں جو اس کو ماں سے ڈرنے پَر مجبور کرے۔
مگر خدا کا معاملہ ماں سے مختلف ہے۔ خدا اپنے بندوں کے حق میں شفیق بھی ہے، اور ساتھ ساتھ منصف بھی۔ خدا کے ساتھ محبت میں محاسبہ (accountability) کا پہلو جڑا ہوا ہے۔ انسان خدا سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ خدا نے اس کو اَن گنت نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ انسان کے سامنے یہ تصور بھی رہتا ہے کہ خدا منصف ہے۔ موت کے بعد ایک فیصلے کا دن (Day of judgement) آنے والا ہے۔ اُس دن خدا تمام انسانوں کو عالَمِ آخرت میں اکھٹا کرے گا۔ وہ ہر ایک کے عمل کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرے گا کہ کون اپنے عمل کے مطابق، جنت کا مستحق ہے اور کون اپنے عمل کے مطابق، جہنم کا مستحق۔
خدا کوئی خوف ناک چیز نہیں۔ خدا سے خوف، خدا کی خوف ناکی کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اِس تخلیقی نقشے کی بنا پر ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا میں جو نعمتیں ملی ہیں وہ بطور حق نہیں ملی ہیں، بلکہ وہ بطور امتحان ملی ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ نعمتوں کے ساتھ منعم کو یاد رکھے۔ وہ ایک ذمے دار انسان کی طرح یہ سوچے کہ میں آزاد نہیں ہوں کہ جو چاہوں کروں، بلکہ میں زیر امتحان ہوں۔ موت کے بعد وہ دن آنے والا ہے جب کہ قانونِ انصاف کے مطابق، میرے اعمال کا حساب لیاجائے، اور میرے اعمال کے مطابق، میرے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔
ماں اور خدا کا یہی فرق، دونوں کے معاملے کو ایک دوسرے سے الگ کردیتا ہے۔ ماں کسی انسان کے لیے صرف محبت کا موضوع بنتی ہے۔ ماں کی محبت کے ساتھ خوف شامل نہیں ہوتا۔ مگر خدا کے ساتھ محبت میں فطری طورپر خوف شامل ہوجاتا ہے۔ ایک طرف خدا کی رحمتوں کی بنا پر اس سے محبت، اور دوسری طرف زندگی کی امتحانی نوعیت کی بنا پر شدید اندیشہ۔ یہی وجہ ہے کہ ماں سے محبت صرف محبت ہوتی ہے، جب کہ خدا سے محبت میں خوف اور اندیشے کی کیفیت بھی شامل ہو جاتی ہے۔
سوال
الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ کا شمارہ پڑھا۔ اس کے صفحہ ۳۳ پر ’’اعلیٰ عبادت ‘‘کے عنوان کے تحت، ایک حدیث اس طرح پڑھنے کو ملی:’’ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم اعظم اجراً من الذی لایخالطہم ولایصبر علی اذاہم (ابن ماجہ کتاب الفتن، الترمذی کتاب القیامۃ، مسند احمد ۲؍۴۳) یعنی وہ مؤمن جو لوگوں کے ساتھ اختلاط کرتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے اس کا اجر اس مؤمن سے زیادہ بڑا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا‘‘۔
آپ نے اس حدیث کے صرف پہلے جزء پر روشنی ڈالی ہے جو کہ الرسالہ مشن سے بالکل مطابقت رکھتا ہے لیکن اس کے دوسرے جزء سے کہ —جو مؤمن لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ رکھے اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہ کرے، آپ نے صرفِ نظر فرمایا ہے۔ حالانکہ علمی تقاضا یہی تھا کہ حدیث کے دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔ اور دونوں باتیں عام قارئین الرسالہ کے سامنے بھی آجائیں۔ تاہم اگرچہ اس حدیث کے پہلے جزء سے ایک مؤمن کی نمایاں صفت یہی بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اختلاط رکھے گا اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرنے میں بہت بڑا درجہ حاصل کرے گا۔ لیکن اس کے دوسرے جزء سے یہ بات بھی تو واضح ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ رکھنے اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہ کرنے کی صورت میں بھی مؤمن اجر سے محروم نہیں رہے گا۔
اس طرح اس حدیث کا مجموعی طورپر یہی مفہوم سامنے آتا ہے کہ اول الذکر والے مؤمن کی بہ نسبت ثانی الذکر والے مؤمن کا طرز فکر وعمل اگر چہ کمتر و فروتر ضرور ہے مگر غلط یا شریعتِ اسلامی سے مختلف یا عند اللہ ثواب سے محرومی کا باعث نہیں ہے۔ نیز جو لوگ آپ کے صبر کے فلسفے سے اختلاف کرتے ہیں ان کا موقف مطلق طورپر اس حدیث کی روشنی میں غلط ٹھہرانا آسان نہیں معلوم ہوتا ہے۔ کیا آپ اس پر کوئی وضاحت کرنا چاہیں گے۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر)
جواب
آپ کا خط ملنے کے بعد میں نے الرسالہ ستمبر ۲۰۰۵ میں شائع شدہ مضمون (اعلیٰ عبادت) کو دوبارہ پڑھا۔ میرے نزدیک اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ علماء کا یہ عام طریقہ ہے کہ وہ کسی آیت یا حدیث کو لے کر اس کے چند پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں نہ کہ اس کے سارے پہلوؤں کی۔ مُدرّس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آیت یا حدیث کے سارے پہلوؤں کو بیان کرے، مگر داعی کا یہ طریقہ نہیں۔ داعی ہمیشہ دعوتی تقاضے کے تحت کچھ پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے۔ یہی ہر داعی کا طریقہ ہے۔
آپ نے اپنے خط میں یہ تاثر دیا ہے گویا کہ مذکورہ مضمون سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ’’ثانی الذکر مسلمان کا طریقہ غلط یا شریعتِ اسلامی سے مختلف ہے، اور عند اللہ ثواب سے محرومی کا باعث ہے‘‘۔ میں عرض کروں گا کہ میرے مطبوعہ مضمون میںایسی کوئی بات موجود نہیں۔ آپ کا یہ تبصرہ پڑھ کر مجھے اردو شاعر کایہ شعر یاد آیا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
سوال
میںتصوف کے موضوع پر کام کرنا چاہتا ہوں اور فرداور معاشرے کی تطہیر کے باب میں تصوف کے رول کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ تصوف کے بارے میں لوگوں نے الگ الگ خیالات ظاہر کیے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ کچھ لوگوں نے تو اسے چنیا بیگم کہا ہے۔ میںتصوف کو اس پس منظر میں دکھانا چاہتا ہوں کہ وہ فرد کی شخصیت سازی کے لیے از حد ضروری ہے۔ کیا مستند تاریخ سے ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ ماضی میں تصوف نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے اور تاریخ کی بڑی شخصیات کی زندگیوں میں ہلچل پیدا کی اور معاشرہ پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ آپ اس سلسلے میں کچھ رہنما کتابوں کی نشان دہی فرمائیں۔ خواہ وہ آپ کی کتاب ہوںیا کسی اور مصنف کی کتاب۔
پچھلے ڈھائی سالوں سے ایک غیر مسلم ڈاکٹر میرے رابطے میں ہیں ان کا ذہن اسلام سے قریب ہے۔ ایک بار انھوں نے خود مجھ سے فرمائش کی کہ آپ مجھے ہندی یا مراٹھی میں قرآن کا ترجمہ لا کردیں۔ میںنے انھیں مکتبہ اسلامی کا چھپا ہوا ترجمہ لاکر دے دیا۔ پھر خیال آیا کہ اسی کے ساتھ انھیں اسلامی موضوعات پر لٹریچر بھی پڑھاناچاہیے۔ ڈائریکٹ ترجمۂ قرآن پڑھانا شاید زیادہ مفید نہ ہو۔
آپ سے گزارش ہے کہ آپ کچھ ایسی کتابوں کے نام (فہرست) ارسال فرمادیں جو ڈاکٹر صاحب کے لیے مفید ہوں۔ خواہ وہ اسلامی مرکز کی کتابیں ہوں یا کسی اور ادارے کی۔ بس آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ وہ کتابیں ہندی یا انگریزی میں ہوں۔ اور شخص مذکور (ڈاکٹر صاحب) کے ذہن کو اپیل کرنے والی ہوں۔ (شفیق الایمان، رتنا گیری)
جواب
آپ کے خط کا براہِ راست جواب نہ دیتے ہوئے میں ایک اصولی بات کہوں گا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک موضوع لے کر اس کے بارے میں دوسروں سے سوال کرتے ہیں۔ حالاں کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ موضوع کا مطالعہ کرکے خود اپنے سوال کا جواب دریافت کیا جائے۔
مثلاً آپ تصوف کے سماجی رول پر کتاب لکھنا چاہتے ہیںتو خود آپ کو اپنے مطالعے سے اس کا مواد حاصل کرنا ہوگا۔ دوسروں سے اس موضوع پر سوال کرکے آپ کوئی قابل قدر کتاب نہیں لکھ سکتے۔
اسی طرح غیر مسلم کو اسلام کی کون سی کتاب پڑھائی جائے یہ پوچھنے کی بات نہیں ہے بلکہ خود دریافت کرنے کی بات ہے۔ آپ مذکورہ غیر مسلم سے بات چیت کرکے ان کے ذہن کو جاننے کی کوشش کریں۔ پھر آپ خود مختلف کتابوں کا مطالعہ کرکے یہ جانیں کہ کون سی کتاب مذکورہ غیر مسلم کے مائنڈ کو ایڈریس کرتی ہے۔
اصولی طورپر آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ آپ کا کام کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ فطرت کا نظام ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے حصے کا کھانا نہیں کھاسکتا۔ اسی طرح کوئی شخص دوسرے کے حصے کا ذہنی عمل بھی نہیں کرسکتا۔
سوال
میرا خیال ہے کہ مدرسے کے بچوں کو دینی تعلیم، اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کی تربیت کے ساتھ ساتھ انھیں ذریعۂ معاش میں کفیل بنانے کی بھی فکر کی جائے۔ بچوں کو مدرسے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُنھیں ہُنر بھی سکھائے جائیں۔ مدرسے میں دینی تعلیم کے ساتھ ان لڑکوں کو سلائی کی تربیت، ٹوپی بنانے کا ہنر، جائے نماز، لکڑی کے سامان تیار کرنے، لکڑی اور لوہے کے پائپ کے فرنیچر تیار کرنے کے ہنراور کشیدہ کاری کے کام بھی سکھائے جائیں، تاکہ جب یہ لڑکے مدرسے کی تعلیم سے فراغت پاکر دنیاوی زندگی میں قدم رکھیں تو اس لائق ہوسکیں کہ دین کی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی بھی سنوارنے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔
عام اسکول اورکالجوں میں بھی لڑکوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی Job oriented یعنی روزگار سے منسلک نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ان کی تعلیم چونکہ دنیاوی زندگی کے تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یعنی ان کے courses of studies میں ایسے ایسے سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں کہ وہ ملازمت کے ممکنہ امتحانات میں بیٹھ کر ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس کے برعکس، مدرسے کی تعلیمات میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ (محمد ابوالکلام، پھلواری شریف، پٹنہ)
جواب
اِس تجویز سے مجھے اصولی طورپر اتفاق ہے۔ آج کل عام مزاج یہ ہے کہ مدرسے کی تعلیم کے ساتھ کسی ہنر کو شامل کرنے کی بات کی جائے تو لوگ اُس کو پسند نہیں کرتے۔ کہا جاتاہے کہ اِس طرح کی پیوند کاری سے دینی تعلیم کو نقصان ہوگا۔ مگر یہ بات سراسر غلط ہے۔ اس کا ایک تجرباتی ثبوت یہ ہے کہ قدیم روایتی دَور میں مدارس کے تعلیمی نظام کے ساتھ عام طورپر خطّاطی یا جلد بندی اور طِب جیسے پروفیشنل کام کا شعبہ بھی موجود رہتا تھا۔ مگر ایسا نہیںہوا کہ اِس کی بنا پر تعلیم میں نقصان واقع ہوجائے۔ بلکہ تجربہ برعکس طورپر بتاتا ہے کہ پچھلے دَور میںمدارس سے بڑے بڑے علماء نکلے۔ جب کہ موجودہ زمانے میں مدارس سے اُس طرح کے بڑے بڑے علماء کی پیدائش تقریباً بند ہوگئی ہے۔
میری رائے یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کم ازکم دو چیزوں کی تعلیم وتربیت کو ہر مدرسے میں ضرور شامل کیا جائے۔ ایک ہے انگریزی زبان اور دوسری چیز ہے کمپیوٹر۔ مجھے یقین ہے کہ مروّجہ تعلیم میں کسی بھی قسم کا نقصان کیے بغیر ان دونوں چیزوں کو مدرسے کے تعلیمی نظام میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
سوال
میں ایک مسلم نوجوان ہوں۔ میں نے ایک دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے۔مسلم معاشرے کی موجودہ حالت کو دیکھ کر میرے اندر اصلاح کا جذبہ ابھرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے اندر اصلاح معاشرہ کا کام کروں۔ اِس مقصد کے لیے میں اصلاحی مضامین لکھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ پریس اور صحافت کا زمانہ ہے۔ آپ اِس معاملے میں مجھے اپنا مشورہ دیں اور رہنمائی فرمائیں۔ (ایک قاری الرسالہ، مہاراشٹر)
جواب
عرض یہ ہے کہ اصلاحی مضمون لکھنے کا کام کوئی سادہ کام نہیں۔ اس کے لیے خود اصلاح کے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔ متعلقہ موضوعات کا گہرا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کے دردمیں جینا پڑتا ہے جن لوگوں کے بارے میں آدمی اصلاحی مضمون لکھ رہا ہے۔ اصلاحی تحریر کوئی سائڈ بزنس یا پارٹ ٹائم جاب جیسا کام نہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ قرآن کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ معروف معنوں میں، یہ کوئی بر کت یا فضیلت کا کلمہ نہیں ہے، اور نہ وہ کوئی رسمی بول ہے۔ یہ زندگی کے ایک اصول کی طرف رہنمائی ہے۔ اِس میں یہ پیغام دیاگیا ہے کہ اپنا کام صحیح نقطۂ آغاز سے شروع کرو:
Begin your work from the right point of begining.
اصلاحِ معاشرہ کے کام کا آغاز خود اپنی تیاری سے شروع ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اپنے اندر تعمیری سوچ پیدا کی جائے۔ نفرت اور شکایت جیسے منفی جذبات کو مکمل طورپر ختم کردیا جائے۔ خارجی مطالبے کے بجائے داخلی تعمیر کو ساری اہمیت دی جائے۔ سیاسی طریقِ کار سے آخری حد تک پرہیز کیا جائے۔ جو کام کیا جائے وہ انسانی جذبے کے تحت کیا جائے نہ کہ قومی جذبے کے تحت۔ سب کچھ کرنے کے بعد بھی کسی سے معاوضے کی امید نہ رکھی جائے۔ کامیابی اور ناکامی کی پروا کیے بغیر اپنا کام مسلسل جاری رکھا جائے۔ یہی اصلاحِ معاشرہ کے کام کی شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کو پورا کیے بغیر اصلاحِ معاشرہ کا کام مؤثر طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ثانیہ مرزا کے لباس کے بارے میں خبر نامے کے تحت صفحہ ۴۷ پر آپ کا تبصرہ پڑھنے کو ملا تو اس مسئلے پر دوسرے علماء کے فتوے بے وزن و بے معنی محسوس ہوئے۔
آپ نے ثانیہ مرزا کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ بلاشبہہ درست ہے اور اس طرح کے سوالات کا اس کے سوا کوئی اور جواب نہیں ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے دوسرے علماء اور اہل دانش اس طرح کے نت نئے مسائل کے بارے میں مثبت اور تعمیری وفکری جواب دینے سے ہمیشہ قاصر اور ناکام رہتے ہیں اور نتیجۃً ان کے غیر متعلق جوابات سے ہمیشہ فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی سوال کا جواب سرے سے دینا جانتے ہی نہیں ہیں۔ (غلام نبی کشافی، کشمیر)
جواب
ہمارے مدارس میںافتاء نویسی کا باقاعدہ شعبہ ہوتا ہے اور اس کے تحت، فتوؤں کا جواب دینے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مگر افتاء نویسی کے اس شعبے میں ایک بنیادی کمی ہے۔ وہ یہ کہ اِس شعبے کے تحت، مسائلِ فتویٰ تو بتائے جاتے ہیں مگر حکمتِ فتویٰ نہیں بتائی جاتی ۔
حکمتِ فتویٰ سے میری مراد یہ ہے کہ مفتی کو یہ بتایا جائے کہ اس کو کب فتویٰ دینا ہے اور کب فتوے کی زبان استعمال نہیں کرناہے۔ مثلاً ایک شخص اگر خود اپنے لباس کے بارے میں فتویٰ پوچھے تو مفتی کو چاہیے کہ وہ اس کا جواب دے۔ لیکن اگر کوئی شخص ثانیہ مرزا کے بارے میں فتویٰ پوچھے، یا کسی امام کے وضع قطع کو لے کر فتویٰ پوچھے تو ایسے معاملے میں مفتی کو یہ جواب دینا چاہیے کہ تم جس کے بارے میں فتویٰ مانگ رہے ہو اس سے جاکر ملو اور اس کو تیار کرو کہ وہ خود اپنے بارے میں فتویٰ پوچھے۔ موجودہ شکل میں تمہارا طریقہ درست نہیں۔
اسی طرح ایک کیس اگر ملکی قانون کے تحت، فوج داری کا کیس ہو اور کوئی شخص اس کے بارے میں فتویٰ پوچھے تو مفتی کو یہ کہنا چاہیے کہ یہ ایک عدالتی معاملہ ہے۔ تم اِس بارے میں ہم سے فتویٰ مت پوچھو بلکہ اس معاملے میں عدالت سے رجوع کرو۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص ایک ایسے معاملے میں فتویٰ پوچھے جس میں یقینی ہو کہ مفتی کا فتویٰ مؤثر نہیں ہوگا۔ مثلاً کوکوکولا کو پینے یا نہ پینے کا مسئلہ، تو ایسے معاملے میں بھی مفتی کو فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ مفتی کو مولانا عبد الحق حقانی کی زبان میں یہ کہنا چاہیے کہ— میرا فتویٰ نہیں چلے گا’’کوکوکولا‘‘ چل جائے گا۔
میری قطعی رائے ہے کہ جو شخص قدیم فقہی کتابوں میں لکھے ہوئے مسائل کو جانے اور حالاتِ زمانہ کو نہ جانے، اس کے لیے فتویٰ دینا جائز نہیں۔
سوال
میں ۱۹۹۹ء میں بینک میں agriculture officer کے عہدے پر فائز ہوا تھا۔ دورانِ تعلیم الرسالہ کا مستقل قاری تھا لیکن ملازمت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ لیکن میں جب بھی گھر جاتا ہوں تو وہاں سے سارا الرسالہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہوں۔ کیوں کہ میرے والد محترم اس کے مستقل قاری ہیں۔ میری شادی ہوئے اب تقریباً چار سال ہونے جارہے ہیں۔ ایک لڑکا بھی ہے۔ لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ شادی ہونے کے اتنی مدّت کے بعد بھی ہم لوگوں میں خوشگوار ماحول نہیں بن سکا۔ شادی کے اوائل سے ہی جھگڑے ہوتے رہے۔ کئی بار ایسے حالات ہوئے کہ شاید ہم لوگوں کو الگ ہو جانا پڑے گا۔ لیکن میں ہمیشہ صبر اور تحمل سے کام لیتا رہا۔ اور اب بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے بہتر حالات کی امید یں لگائے ہوئے ہوں۔
شادی کے اوائل سے ہی میری بیوی میرے گھر والوں سے نفرت کرنے لگی۔ پھر میرے والدین اور میرے سسرال والوں کے درمیان نا اتفاقی بڑھتی گئی۔ فرزانہ میرے خاندان کی پہلی بہو تھی۔ اس لئے میرے والدین کو بھی بہت ساری توقعات تھیں۔ لیکن اس نے کسی بھی طرح adjust کرنے کی کوشش نہیںکی۔ پھر کچھ دن بعد وہ سسرال جانے سے منع کرنے لگی۔ جب کہ وہ میرے ساتھ پیلی بھیت میں رہتی تھی۔ ہم لوگ لمبے وقفے کے بعد گھر جاتے تھے۔ دو چار دن گھر میں مہمان کی طرح گذار کر پھر واپس پیلی بھیت آجانا تھا۔ دوران قیام ہم لوگ مہمان ہی رہتے تھے۔ لیکن فرزانہ نے کبھی بھی میرے بوڑھے والدین کو ایک کپ چائے بنا کر نہیں پلائی۔ جب کہ میں ہمیشہ اسے یہی سمجھاتا تھا کہ ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے آئے ہیں سب سے مل جل کر اور سب کو خوش کرکے واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن اس نے میری باتوں کو کبھی نہیں مانا۔ جس کی وجہ سے میں upset رہتا تھا۔ پھر ہم لوگوں کے درمیان اِنھیں گھریلو معاملات کو لے کر جھگڑے بھی ہوئے۔ حالانکہ وہ میرا خوب خیال رکھتی ہے۔ لیکن میرے گھر والوں سے اس کی نفرت میںاضافہ ہوتا گیا۔ پھر وہ کہنے لگی کہ آپ اپنے بھائیوںکو خرچ نہیں دیںگے۔ میں نے اس کی بات نہیں مانی۔ اب وہ کہہ رہی ہے کہ اب میں اپنے میکے ہی میں رہوں گی جب تک آپ اپنے فرائض سے چھٹکارا نہیں پالیں گے۔ میں عید کے موقع پر اسے گھر چھوڑ آیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر میں پھر اسے لینے گیا لیکن وہ آنے سے انکار کر گئی۔ میں ٹکٹ cancelکرکے واپس آگیا ہوں۔ میںنے صبر سے کام لے کر کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہیں کیا۔چپ چاپ واپس پیلی بھیت آچکا ہوں۔ لیکن یہاں آنے کے بعد طرح طرح کے سوالات میرے ذہن کو پریشان کئے ہوئے تھے۔ انھیں tensions کی وجہ سے فرزانہ بیمار رہنے لگی ہے۔ اس کے سر میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔ وہ گھنٹوں بے ہوش پڑی رہتی ہے۔ کافی علاج کرایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میری غلطی سے ہی حالات اتنے بگڑتے چلے گیے۔ یا پھر میرے گھر والوں کی کوئی کمی رہی۔ یا پھر میرے سسرال والوں نے اس کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔ حالاں کہ میرے گھر والوں نے اس کا بہت خیال رکھنے کی کوشش کی۔یہ بھی کبھی اتفاق نہیںہوا کہ میری بیوی اپنے سسرال میں جاکر رہی ہو۔ جہاں میری غیر موجودگی میں میرے گھر والوں نے اس کے ساتھ بد سلوکی کی ہو۔ وہ جب بھی سسرال گئی میرے ساتھ ہی گئی اور میرے ساتھ ہی واپس آگئی۔
جہاں تک میری ازدواجی زندگی کا سوال ہے میں نے اپنے جانتے ہوئے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی۔ ایک officer جن basic amenities کے ساتھ زندگی گذارتا ہے وہ ساری چیزیں دستیاب ہیں۔ میںاپنے بھائیوں کو صرف تین ہزار روپئے ماہانہ دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ میںاپنے گھر میں کچھ بھی نہیں دیتا ہوں۔ میری بہت خواہش تھی کہ میںاپنے والدین کو کچھ دنوں کے لئے لاؤں اور U.P. دکھا دوں۔ لیکن میں یہ خواہش کبھی ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کرسکا۔ کیوں کہ میںجانتا تھا کہ یہ میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی میرے گھر والوں کی خیریت دریافت نہیں کرتی ہے۔ جب کہ میرے گھر والے اکثر فون کر کے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ بات کرنے سے گریز کرتی ہے۔ (نازش ریحان، پیلی بھیت)
جواب
آپ کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ آپ جب ملازمت میں آئے تو آپ نے الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا۔ یہ آپ کی بہت بڑی غلطی تھی۔ الرسالہ، زندگی کی سائنس بتاتا ہے۔ الرسالہ، آرٹ آف لونگ (art of living)کا شعور دیتا ہے۔ الرسالہ، یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے مسائل کو کیسے مینیج کیا جائے۔ الرسالہ ایسی چیز نہیں ہے جس کو کچھ دن پڑھا جائے اور پھر اس کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ الرسالہ پوری زندگی کا کورس ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اب آپ دوبارہ الرسالہ پڑھنا شروع کردیں۔ اور پابندی کے ساتھ بلا ناغہ ہر ماہ پڑھیں۔
بیوی کے معاملے میں آپ کا نظریہ غیر فطری ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھ لیجئے کہ آپ کو خونی رشتے کی بنا پر اپنے والدین سے جو دلچسپی ہے وہ آپ کی بیوی کو کبھی نہیں ہوسکتی ہے۔کیوں کہ آپ کی بیوی کا خونی رشتہ آپ کے والدین سے نہیں ہے۔ آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ بیوی سے وہ امید نہ رکھیں جو فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ خوش گوار زندگی گذاریں تو بیوی جیسی ہے ویسی ہی اس کو قبول کرلیں اور پھر اس پر راضی ہوجائیے۔ اور اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو آپ مشترک خاندانی زندگی کو ختم کردیجئے، اور الگ گھر بنانا شروع کردیجئے۔
یاد رکھیے، زندگی حقیقت پسندی کا نام ہے۔ آپ اپنے جذبات کے مطابق، زندگی کا نقشہ نہیں بنا سکتے۔ زندگی کا نقشہ وہی رہے گا جو فطرت کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ آپ کی موجودہ شکایت آپ کے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ آپ اپنے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کو ختم کردیجئے اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
سوال
میرا لڑکا افسر ہے عرب میں رہتا ہے۔ بہت دیندار ہے۔ میں نے اپنے لڑکے کی شادی کی ہے۔ B.A. پاس بہو ہے۔ وہ لوگ بھی کھاتے پیتے خوش حال ہیں۔ ہم لوگ بہت ارمان سے بہو بیاہ کر لائے لیکن بہو کسی کو منہ نہیں لگاتی ہے۔ میں اور میرے گھر میں بہو کی بہت عزت ہوئی۔ کوئی روک ٹوک نہ کوئی دباؤ۔ جب میکے جانا چاہتی میں اسے بھیج دیتی۔ میں بلاتی تو وہ اپنی مرضی سے ہی آتی۔ شادی کو ۲ سال گذر گیے ہیں لیکن وہ سب سے الگ تھلگ رہتی ہے۔ میرے کسی رشتے دار کا فون آتا ہے تو بات نہیں کرتی۔ گھر کے کسی کام میں دلچسپی نہیںلیتی۔کبھی میں کوئی چیز بنانے کو کہتی تو کہتی ہے مجھے نہیں آتا ہے بنانا۔ بہو اچھی شکل وصورت کی ہے۔ میںنے کچھ نہیں کہا میں خودہی ہر کام کرلیتی۔ پھر بھی وہ میرے گھر خوش نہیں رہی۔ ہم لوگوں نے اور میرے بیٹے نے اسے ہر طرح کا سکھ دیا۔ ہر آدمی اس کے لیے کچھ سامان لاتا تاکہ وہ میرے گھر خوش رہے لیکن نہیں ۔ وہ کسی کو اپنا نہیں سمجھتی۔ نہ صبح میں ناشتہ بنانے کی فکر نہ کھانا بنانے کی۔ میرا بیٹا اسے عرب اپنے ساتھ لے گیا وہاں بھی اس کا وہی حال ہے۔ میرے بیٹے نے لکھا ہے کہ میں نے آرام کی ہر چیز گھر میں رکھ دی ہے کہ وہ خوش رہے لیکن اس کا یہاں دل نہیں لگتا۔ میرے بیٹے نے یہ بتایا کہ یہ میکے رہنا چاہتی ہے۔ مولانا صاحب مجھے اس مسئلے کا حل بتائیے۔ (ایک قاری الرسالہ)
جواب
زندگی میں ہمیشہ آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہوتا ہے۔ مگر آدمی اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ تیسرا چوائس لینا چاہتا ہے، جب کہ تیسرا چوائس اس کے لیے ممکن نہیںہوتا۔ شادی کا معاملہ بھی یہی ہے۔
اکثر ماںباپ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ڈھونڈ کر اچھی شکل و صورت والی بہو لاتے ہیں، اور پھر شادی کے بعد یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بہو اُن کی بات نہیں سُنتی۔ والدین کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اچھی شکل و صورت والی بہو کبھی ان کی بات نہیں سنے گی۔ اگر وہ بات سننے والی بہو چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ معمولی صورت والی بہو اپنے گھر میں لائیں۔ اِس معاملے میں کوئی اور چیز ان کے لیے قابلِ عمل نہیں۔
اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آتا ہے کہ دو چیزیں اس کے مزاج کو خراب کردیتی ہیں۔ ایک، اس کے ماں باپ، اور دوسرے، آئینہ۔ ایسی لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اور وہ اپنی سسرال میںآتی ہے تو یہ دونوں چیزیں اس کو بگاڑ چکی ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں لڑکے کے والدین کو چاہیے کہ وہ اگر اچھی شکل و صورت والی لڑکی کو اپنی بہو بناتے ہیں تو وہ اس سے کوئی امید نہ رکھیں۔ اور اگر وہ بہو کو اپنی امید کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ ایسی لڑکی کو اپنے گھر لائیں جو صورت کے اعتبار سے پُرکشش نہ ہو۔
اِس معاملے میں سب سے بُرا کردار لڑکی کے ماں باپ کا ہے۔ لڑکی کے ماں باپ عام طور پر یہ کرتے ہیں کہ وہ اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ بہت زیادہ لاڈ پیار (over-pampering) کا معاملہ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی جب شادی کے بعد اپنی سسرال میںجاتی ہے تو وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہاں بھی اپنے لیے لاڈ پیار والے سلوک کی امیدوار رہتی ہے۔ مگر فطری طورپر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اِس لیے اِس قسم کی لڑکیاں ہمیشہ پریشان رہتی ہیں۔ اِس پریشانی کو دور کرنے کے لیے وہ بھاگ کر اپنے میکے جاتی ہیں جو کہ صرف ان کی پریشانی میںاضافے کا باعث بنتا ہے۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ میکے والے اور سسرال والے دونوں حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں۔
سوال
پوجیہ مولانا صاحب کو عید کے مبارک موقعے پر میرا سلام قبول ہو۔ بہت عرصے سے آپ کے درشن کرنے کا موقع نہیں ملا۔ کئی سوال میرے ذہن میں گھوم رہے ہیں۔ کیا دھرتی پر کبھی ایسا بھی وقت آئے گا جب انسان کے بیچ میں بھائی بھائی کا رشتہ قائم ہو جائے گا۔ اگر ہاں، تو اس کو قائم کرنے میں آپ جیسے سنتوں، فقیروں کا کیا رول ہوگا۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آپ کو اس مقصد کے لیے کوئی بڑا initiative لینا چاہیے۔ کیوں کہ چھوٹے مو ٹے قدموں سے آج کے ماحول پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر آج ہی آپ نے اور آپ جیسے سنتوں نے positive دِشا میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا تو شایدکل حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
آپ سے عرض ہے کہ دنیا کے حالات کو سدھارنے کے لیے آپ historical initiative لیں تاکہ آنے والی پیڑھیوں کے لیے یہ دھرتی ایک محفوظ جگہ بن سکے۔ (سوامی اوم پورن سوتنتر، راجستھان)
جواب
آپ کے جذبات بہت قابلِ قدر ہیں۔ میں کہوں گا کہ میں CPS Internationalکے تحت، عین وہی کام کررہا ہوں جو آپ نے فرمایا۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بڑے بڑے کام کو کام سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ بڑے کام کا آغاز چھوٹے کام سے ہوتا ہے، بڑی چھلانگ کے ذریعے کسی بھی کام کا آغاز نہیں ہوتا۔ ہم نے اپنے ملک میںدیکھا ہے کہ کئی لوگوں نے بڑے بڑے اقدامات سے کام کا آغاز کیا۔ مثلاً مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، جَے پرکاش نرائن وغیرہ۔ مگر یہ بڑے بڑے اقدامات کوئی مثبت نتیجہ پیدا نہ کرسکے۔
اِن تجربات سے سبق لیتے ہوئے میںنے CPS International کے تحت، ایک کام کا آغاز کیا ہے۔ اس کام کا نشانہ بہت بڑا ہے۔ اوّلاً پورا ملک، اور پھر ساری دنیا۔ مگر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ہم نے اپنے کام کو چھوٹے آغاز کے ساتھ شروع کیا ہے۔ خدا کے فضل سے یہ کام دن بدن بڑھ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یقینا وہ دن آئے گا جب کہ یہ چھوٹا آغاز بڑے نتیجے تک پہنچے گا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۷۵

۱۔ نیشنل بک ٹرسٹ اور حکومت میزورم کے تعاون سے میزورم کی راجدھانی ایزول میں ایک بُک فئر لگائی گئی۔ وہ ۵مارچ سے ۱۱ مارچ ۲۰۰۶تک جاری رہی۔ اِس موقعے پر گُڈ ورڈ بُکس (نئی دہلی) کی طرف سے ایک بُک اسٹال لگایا گیا۔ مسٹر مصطفی عمری نے اس کو سر انجام دیا۔ انھوں نے بتایا کہ میزورم میں یہ پہلا اسلامی بُک اسٹال تھا۔ لوگوں نے کافی دلچسپی لی۔ خاص طورپر قرآن (انگریزی) کے تمام نسخے لوگوں نے حاصل کرلیے۔ ادارے کی دوسری اسلامی کتابیں بھی لوگوں نے کافی دلچسپی کے ساتھ خریدیں۔ میزورم کے گورنر بھی بُک اسٹال پر آئے اور انھوںنے اسلام کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔
۲۔ ۶ مارچ ۲۰۰۶ کو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر سُنیل نے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اُن کا سوال بنارس میں ایک مندر پر بم دھماکے کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے پوچھا کہ کسی عبادت گاہ پر بم دھماکے کے لیے اسلام میں کیا حکم ہے۔جواب میں بتایاگیا کہ اِس قسم کا بم دھماکہ ہر حال میں حرام ہے، خواہ وہ کسی مندر پر کیا جائے یاکہیں اور کیا جائے۔ اِس قسم کے بم دھماکوں میں بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں، اور بے قصور لوگوں کو مارنے کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جس نے ایک بھی بے قصور آدمی کو قتل کیا تو اس نے گویا کہ سارے ہی انسانوں کو قتل کر ڈالا۔ اس قسم کا متشددانہ فعل ہر حال میں قابلِ مذمت ہے۔ کوئی بھی عذر اس کو جائز ثابت نہیں کرتا۔ اختلاف یا شکایت کے موقع پر اسلام میں پُر امن حل کی تلقین کی گئی ہے۔ پُر تشدد کارروائی اسلام میں سرے سے جائز نہیں۔
۳۔ دور درشن (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر وریندر شرما نے ۸ مارچ ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع ۷ مارچ کو بنارس میں ہونے والا بم دھماکہ تھا جس میں ایک مندر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جوابات کے ذیل میں بتایا گیا کہ اِس قسم کا بم دھماکہ اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام کے مطابق، ہر عبادت گاہ قابلِ احترام ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ ہو۔ عبادت گاہ پر بم دھماکہ کرنا دہرا گناہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ہے عبادت گاہ پر متشددانہ حملہ کرنا اور دوسرا ہے بے قصور لوگوں کی جان لینا۔ یہ واقعہ ہر اعتبار سے سخت قابلِ مذمت ہے۔
۴۔ حبیب بھائی نے حیدرآباد (جُبلی ہِل) میں ایک دعوتی سنٹر بنایا ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے حیدرآباد کا سفر کیا۔ یہ سفر۹ مارچ سے ۱۱ مارچ ۲۰۰۶ کے درمیان ہوا۔ ان کے ساتھ سی پی ایس کے دس اور افراد اِس سفر میں شامل تھے۔ حیدر آباد میں عام ملاقاتوں کے علاوہ کئی باقاعدہ پروگرام ہوئے۔ حبیب بھائی کے سنٹر میں دعوتی کام کی اہمیت پر تفصیلی خطاب ہوا۔ پرگنا بھارتی کی طرف سے بھارتیہ وِدّیا بھون کے ہال میں ایک پروگرام کیا گیا جس کا موضوع تھا: بقائِ باہم اور اسلام:
Co-existance in Islam.
اِس موضوع پر تفصیلی خطاب ہوا۔ جامعہ دار الفرقان للبنات (سعید آباد) میںایک پروگرام ہوا جس کا موضوع تھا: خواتین کا درجہ اسلام میں۔ ایک پروگرام یونیورسٹی آف حیدرآباد میںتھا۔ یونیورسٹی کی ہال میں خطاب ہوا۔ اِس کا موضوع تھا: امن (Peace) ، وغیرہ۔ اِس سفر کی تفصیلی روداد انشاء اللہ سفر نامے کے تحت، الرسالہ میں شائع کر دی جائے گی۔
۵۔ ۱۹۔۲۲ مارچ ۲۰۰۶ کو اسپین کے شہر اشبیلیہ (Seville) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ یہ کانفرنس امن کے موضوع پر تھی۔ اِس میں مسلم اور یہود کے مذہبی پیشواؤں کو بلایا گیا تھا:
Second World Congress of Imams and Rabbis for Peace. Orgnized by the Hommes de Parole Foundation Svelle, Spain
اس کانفرنس میںصدر اسلامی مرکز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا دعوت نامہ مؤرخہ ۲۳ فروری ۲۰۰۶ مسز نائلہ(Nayla A. Khalek)کے دستخط سے ملا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی طرف سے کئی ٹیلی فون آئے۔ ان کے ایک نمائندہ بھی مرکز میں آئے۔ لیکن بعض وجوہ سے اس میں شرکت کے لیے سفر کا پروگرام نہ بن سکا۔ البتہ CPS کے کچھ انگریزی پمفلٹس اور مضامین ان کو بھیج دیے گئے۔ جو کہ امن کے موضوع سے متعلق تھے۔
۶۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۳ مارچ ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق موجودہ زمانے کی متشددانہ مسلم تنظیموں سے تھا۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ آج کل جس طرح اسلامی شخصیتوں یا اسلامی ناموں کو لے کر تنظیمیں بنائی جارہی ہیں وہ بدعت ہے۔ صحابہ نے کبھی اس قسم کی تنظیمیں نہیں بنائیں۔ ایک سوال کے جوا ب میں بتایا گیا کہ اسلام میں مسلح جہاد خالصۃً باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کا حق ہے۔ یہ غیر حکومتی تنظیموں کا حق نہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ امریکا نے مسلم ملکوں پر حملہ کیا تو اس سے غیر حکومتی تنظیموں کو یہ جواز نہیں ملتا کہ وہ امریکا کے خلاف متشددانہ جہاد شروع کردیں۔ اس طرح کی جارحیت کے مقابلے میں صرف مسلم حکومتوں کو سامنے آنا چاہیے نہ کہ غیر حکومتی تنظیموں کو۔
۷۔ پرگتی پیٹھ (نئی دہلی) ایک فلاحی تنظیم ہے۔ اس کے زیراہتمام ۲۵ مارچ ۲۰۰۶ کوایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار چنمئی (Chinmay) مشن کے آڈیٹوریم میں منعقد کیاگیا تھا۔ اس میں ڈاکٹر کرن سنگھ اور دوسرے مذہبوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
ٗٗWhat is religion?
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ انھوں نے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اس موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے مطابق، مذہب بنیادی طورپر دو قسم کی تعلیمات پر مشتمل ہے—خدا کی عبادت گذاری، اور انسان کے ساتھ امن اور خیر خواہی کے ساتھ رہنا۔
۸۔ نئی دہلی کے ٹی۔وی ایس۔ون چینل (S-1 Channel) کے تحت، ۲۵ مارچ ۲۰۰۶ کی شام کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اِس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے۔ اِس پروگرام کا عنوان یہ تھا—ہندو اور مسلم بھائی چارہ کیسے قائم ہو۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بھائی چارہ عملًا قائم ہے۔ اگر بھائی چارہ نہ ہو تو ملک میں بحران پیدا ہوجائے۔ آپ کسی مسلمان سے اس کے ہندو پڑوسی کے بارے میں پوچھئے تو وہ اس کے بارے میں اچھی رائے دے گا۔ اسی طرح آپ کسی ہندو سے اس کے مسلمان پڑوسی کے متلق پوچھئے تو ہ اس کے بارے میں اچھی رائے دے گا۔ یہ مسئلہ زیادہ تر میڈیا کا پیدا کردہ ہے۔ میڈیا اپنے مزاج کے مطابق، سنسنی خیز خبروں کو منتخب کرکے ان کو نمایاں کرتا ہے۔ مگر یہ ہندستانی سماج کی صحیح تصویر نہیں۔ بعض ناخوشگوار واقعات ضرورہوتے ہیںلیکن وہ ہر جگہ ہوتے ہیں حتی کہ مسلم ملکوں میں بھی۔ ان کی بنیاد پر کوئی عمومی رائے نہیں بنائی جاسکتی۔
۹۔ برٹش صحافی سر مارک تُلی (Mark Tully) نے ۴ ؍اپریل ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ وہ ریلیجس انڈراسٹینڈنگ پر انگریزی میں ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اِس موضوع پر اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ انھیں تفصیل کے ساتھ قرآن اور حدیث کی تعلیمات بتائی گئیں۔ انھیں بتایا گیا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان ہر حال میں معتدل تعلقات قائم رکھے جائیں، اور پُرامن ماحول کو برقرار رکھا جائے۔ کیوں کہ امن کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک مذہبی اختلاف کی بات ہے، اِس معاملے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنے مذہب پر پوری طرح قائم رہتے ہوئے دوسروں کے مذہب کا پورا احترام کیا جائے۔
۱۰۔ ہمدرد پبلک اسکول نئی دہلی) میں ۱۵؍ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔اس کا انعقاد اسکول کے ہال میں کیاگیا۔ تمام طلبا اور اساتذہ اس میں شریک ہوئے۔ جناب سید حامد صاحب (بانیٔ اسکول) بھی اس میں موجود تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر میں منتخب احادیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ زندگی کی تعمیر کے لیے پیغمبر اسلام نے کیا رہنما اصول دیے ہیں۔ یہ تقریر چالیس منٹ تک ہوئی۔ اِس موقع پر اسکول کے اساتذہ اور پرنسپل سے ملاقات ہوئی۔ طلبا اور اساتذہ نے خصوصی دل چسپی کا اظہار کیا۔ اِس پروگرام میں سی پی ایس کی ٹیم کے بھی کچھ افراد شریک ہوئے۔
۱۱۔ ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) میں ۱۴؍ اپریل ۲۰۰۶ کوسیرت النبی کے عنوان کے تحت ایک پروگرام ہوا۔ اس میں ڈاکٹر موسی رضا وغیرہ نے تقریر کی۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ وہ بھی اس میں شریک ہوئے اور سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اِس تقریر میں بتایا گیا کہ اسلام ہمیشہ امن کے حالات پسند کرتا ہے۔ کیوں کہ اسلام کا جو مشن ہے وہ صرف امن کے حالات میں حاصل ہوسکتا ہے۔ اسلام کامشن یہ ہے کہ لوگوں کو توحید کا پیغام پہنچایا جائے۔ لوگوں کے اندر جنت اور جہنم کا شعور پیدا کیا جائے۔ لوگوں کو خدا کے تخلیقی نقشے سے باخبر کیا جائے۔ یہ پروگرام یونیورسٹی کے ایک کنونشن سنٹر میں ہوا۔ اس موقع پر دوسرے حضرات کے علاوہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ڈاکٹر اوصاف علی بھی وہاں موجود تھے۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی ٹیم کے افراد شریک ہوئے۔ انھوںنے حاضرین کے درمیان دعوتی پمفلٹ اور بروشر تقسیم کیے۔ لوگوں نے نہایت شوق کے ساتھ ان کو پڑھا۔
۱۲۔ رابعہ گرلس پبلک اسکول (نئی دہلی) میں ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۶ کو سیرت النبی کے موضوع پر ایک جلسہ ہوا۔ اس میں تین مختلف اسکولوں کے ٹیچر اور اسٹوڈنٹ شریک ہوئے۔ شہر کے کچھ ممتاز افراد بھی اس میں شریک ہوئے۔ یہ جلسہ صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے رکھا گیاتھا۔ انھوں نے وہاں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ آخر میں سوال وجواب ہوا۔ تقریر سننے کے بعد کئی ہندو اور مسلم ٹیچروں نے کہا کہ آج ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام کا صحیح تعارف حاصل ہوا۔ اسکول کے مینیجر نے کہا کہ آپ کی تقریر عصری اسلوب میں ہونے کے ساتھ ساتھ بڑوں اور بچوں دونوں کے لیے یکساں طورپر بڑی مفید اور قابلِ فہم تھی۔
۱۳۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی (درہم) میں پروفیسر ہیں۔ ان کا تعلق، ڈپارٹمنٹ آف ریلیجس اسٹڈیز سے ہے۔ وہ ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک کیمرہ مین کے ساتھ دفتر میںآئے، اور صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ وہ یونیورسٹی کے ایک پروجیکٹ کے تحت، ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کا نام یہ ہے:
Inside Madrasas
ان کے سوالات کا تعلق مدرسے سے، مسلمانوں کے مسائل سے اور اسلام اور عصر حاضر سے تھا۔ یہ پورا انٹرویو انگریزی میں تھا۔ گفتگو کے دوران ایک بات یہ کہی گئی کہ مسلم مسائل پر تمام بولنے اور لکھنے والے دفاعی انداز اختیار کرتے ہیں۔ یعنی مسلمانوںکو ہر حال میں درست ثابت کرنا۔ یہ طریقہ سخت مہلک ہے۔ اس سے آپ کو یہ فائدہ تو مل سکتا ہے کہ آپ کو مسلمانوں کے درمیان مقبولیت حاصل ہوجائے۔ مگر اس کا یہ عظیم نقصان ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر احتساب کا ذہن نہیں پیدا کرتا۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر re-assesment کی تحریک اُٹھے۔ مگر دفاعی یا وکیلانہ انداز اِس عمل کو زندہ کرنے میں مستقل رکاوٹ ہے۔
۱۴۔ نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودی روڈ) میں ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں مختلف سَینک اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی۔ ان کو یہاں اِس موضوع پر بولنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا کہ اسلام میں بیسک ہیومن ویلوز کا تصور کیا ہے۔ انھوںنے آدھ گھنٹہ اس موضوع پر تقر یر کی۔ اس کے بعد پندرہ منٹ تک سوال اور جواب ہوا۔ انھوںنے اپنی تقریر میں اسلام میں حسب ذیل ہیومن ویلوز بتائے:
Peace, Love, Truth, Non-violence, Tolerance, Good conduct.
اِس پروگرام میں سی پی ایس (انٹرنیشنل) کی ٹیم کے افراد بھی شریک ہوئے۔ تقریر کے بعد انھوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے اُن سے اسلام کے موضوع پر باتیں کیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان اسلامی پمفلٹ اور اسلامی بروشر بھی تقسیم کیے گیے۔
۱۵۔ الرسالہ کے درج ذیل قدیم شمارے بقیمت درکار ہیں:
اکتوبر، نومبر، دسمبر ۱۹۷۶، جنوری، جون، ستمبر، اکتوبر، نومبر دسمبر ۱۹۷۷، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، جون، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر ۱۹۷۸، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، ستمبر ۱۹۷۹، اگست ، دسمبر ۱۹۸۰، فروری، مارچ، اپریل، مئی، نومبر ۱۹۸۱، فروری، مارچ، اپریل، مئی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر ۱۹۸۲، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، اگست، نومبر، ۱۹۸۳، جنوری، مارچ، اپریل، جون، جولائی، ستمبر، اکتوبر ۱۹۸۴، اگست، اکتوبر ۱۹۸۵، جون، اگست ۱۹۸۶، دسمبر ۱۹۸۸، اگست ۱۹۹۳۔
جن حضرات کے پاس الرسالہ کے مذکورہ شمارے برائے فروخت موجود ہوں وہ مطلوبہ قیمت کی وضاحت کے ساتھ درج ذیل پتے پر مطلع فرمائیں:
Shah Imran Hasan, Mahalla Dilawarpur, Ward No. 19, Kali Tazia Road, Distt. Munger, Bihar—811201
۱۶۔ الرسالہ کے قاریوں کی سہولت کی خاطر یہ کیا گیا ہے کہ الرسالہ کی قیمتیںگھٹا دی گئی ہیں۔ اب الرسالہ کی قیمتیں حسب ذیل ہوں گی—اندرونِ ملک سالانہ زرِ تعاون صرف ایک سو روپیہ، اوربیرونی ممالک کے لیے سالانہ زرِتعاون (ہوائی ڈاک سے) صرف$10 ۔
واپس اوپر جائیں