Pages

Tuesday 1 December 2015

Al Risala | December 2015 (الرسالہ،دسمبر)

4

-ذالک الکتاب

5

- قرآن اور انسان

6

- امن کی تلاش

7

- جنت والے

8

- مومن کی صفات

9

- قتل اور زندگی

10

- عقل سے محرومی کا دور

11

- دوہرا انعام

12

- دعوت کے دو پہلو

13

- امت مسلمہ کا فائنل رول

16

- کائنات میں خدا کی گواہی

26

- آزاد کشمیر یا برباد کشمیر

28

- برکت کا مطلب

29

- جنگ، اسلام میں

34

- بڑا اجر

35

- غلطی کا اعتراف

36

- پیغمبر کی نصیحت

37

- اختلاط کی اہمیت

38

- رحمتِ الٰہی سے محرومی

39

- فساد فی الارض

40

- عبادت، دعوت

41

- شیطان کا طریقہ

42

- زد میں آنے سے بچیے

43

- اعتراف، بے اعترافی

44

- زحمت میں رحمت

45

- تیار ذہن

46

- سوال و جواب


ذٰلک الکتاب

قرآن کی سورہ نمبر 2 کے شروع میں یہ آیت آئی ہے:ذَلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہ ِ ہُدًى لِلْمُتَّقِینَ ِ (2:2)یعنی یہ الکتاب ہے، جس میں کوئی شک نہیں، راہ دکھاتی ہے ڈر رکھنے والوں کو۔ یہاں الکتاب کا لفظ قرآن کے لیے آیا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں الکتاب کا تعلق پچھلی سورہ الفاتحہ کے اس دعائیہ کلمہ سے ہے: اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ (ہم کو صراط مستقیم [straight path]کی ہدایت دے)۔ یہ دعا دراصل انسانی فطرت کی پکار ہے۔ انسانی فطرت اپنی خاموش زبان میں اپنے رب سے کہتی ہے کہ اے رب، ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت دے۔ اور رب العالمین اس کے جواب میں اپنے پیغمبر کے ذریعے قرآن اتارتا ہے۔ یہ قرآن وہی کتابِ ہدایت ہے جس کی طلب انسان نے اپنی فطرت کی زبان میں کی تھی۔
قرآن کے بارے میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29) یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں ۔ قرآن بلاشبہ ایک نصیحت کی کتاب ہے۔ لیکن قرآن سے نصیحت اس انسان کو ملتی ہے جو اپنے لُب (عقل) کو استعمال کرتے ہوئے قرآن کی آیتوں پر تدبر کرے۔
تدبر کا فائدہ یہ ہے کہ قرآن میں بتائی ہوئی بات انسان کے لیے خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) بن جاتی ہے۔ آدمی کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی بات کو اس وقت پوری طرح اپناتا ہے جب کہ وہ اس کے لیے اپنی دریافت کی ہوئی بات بن جائے۔ یہی فائدہ قرآن میں تدبر سے حاصل ہوتا ہے۔ تدبر سے پہلے کوئی بات دور کی بات ہوتی ہے۔ لیکن تدبر کے بعد وہ بات اپنی بات بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن اور انسان

آسمان کے نیچے قرآن واحد محفوظ کتاب ہے، جو انسان کے لیے یہ جاننے کا مستند ماخذ (authentic source) ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ وہ اپنے لیے کس طرح ابدی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ قرآن کے نزول کے بعد خالق نے تاریخ میں ایک پراسس جاری کیا، جس کے نتیجے میںپرنٹنگ پریس،کمیو نی کیشن اور دوسری چیزیں وجود میں آئیں، اور یہ ممکن ہو گیا کہ قرآن دنیا کے ہر انسان تک پہنچے ۔بیسویں صدی کا آغاز اس پراسس کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا۔ مگر عین اسی وقت ایک سنگین قسم کی غلط رہنمائی وجود میں آئی، جس نے قرآن اور انسان کے درمیان ایک آڑ (buffer) قائم کردیا۔
یہ غلط رہنمائی قرآن کی سیاسی تعبیر تھی جو عملا متشددانہ تعبیر (violent interpretation) کے ہم معنی بن گئی۔ قرآن کی یہ سیاسی تعبیر عرب اور غیر عرب مسلمانوں میں اتنی زیادہ عام ہوئی کہ تقریبا ہر مسلمان متشددانہ سوچ میں مبتلا ہوگیا۔ کوئی منفعل تشدد (passive violence) کے معنی میں اور کوئی فعال تشدد (active violence) کے معنی میں۔ اب اگرچہ قرآن ہر آدمی کے لیے قابلِ حصول بن گیا ہے لیکن لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن تشدد کی کتاب ہے، اس لیے انھیں قرآن پڑھنے کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔
ان حالات میں سب سے بڑی ضرورت یہ بن گئی ہے کہ قرآن کے متشددانہ تصویر (violent image) کو بدلا جائے۔لوگوں کو بتایا جائے کہ قرآن امن کی کتاب ہے، نہ کہ تشدد کی کتاب ۔ یہ امیج بلڈنگ (image-building) کا مسئلہ ہے۔ آج ضرورت ہے کہ قرآن کی امیج بلڈنگ کے کام کو ترجیحی بنیاد پر انجام دیا جائے۔ جب تک یہ کام نہ ہو گا، لوگ قرآن کو نارمل ذہن کے ساتھ نہیں پڑھیں گے۔ وہ عین اسی کتاب سے بے خبر رہیں گے، جوواحد رہنما کتاب کی حیثیت سے ان کی پہلی ضرورت ہے، جو ان کو وہ مقصدِ حیات بتاتی ہے جس کے بغیر ان کی زندگی نامکمل ہے۔
واپس اوپر جائیں

امن کی تلاش

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں توحید کا مشن شروع کیا۔اس وقت قریش کے لوگ شرک کی حمایت میںاپوزیشن کا رول ادا کرنے لگے۔ اس درمیان مختلف قسم کے واقعات پیش آئے۔ آخر کار ہجرت کے چھٹےسال پیغمبر اسلام نے قریش سےقیامِ امن کی بات چیت شروع کی ۔ اس گفت و شنید میں آپ نے جو کچھ کہا، ان میں سے ایک بات یہ تھی: یا ویح قریش، لقد أکلتہم الحرب، ماذا علیہم لو خلوا بینی وبین سائر الناس (مسند احمد، حدیث نمبر 18910)۔یعنی افسوس ہے قریش پر، ان کو جنگ کھاگئی، ان کا کیا نقصان ہے، اگر وہ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں۔
اس قول کا پس منظر یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں قبائلی دور تھا۔ اس دور میں قبائل کے درمیان مسلسل لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ اسلام آیا تو قریش کی ضد کی بنا پر دوبارہ لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ عرب کے لوگ اس صورتِ حال سےپریشان تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح عرب میں امن قائم ہوجائے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتِ حال کا اندازہ کیا اور گفت و شنید کے بعدفریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طور پر مانتے ہوئے ان سے امن سمجھوتہ کر لیا، جومعاہدۂ حدیبیہ کے نام سے مشہورہے۔ امن قائم ہونے کے بعد رسول اور اصحابِ رسول کو موقع ملا کہ وہ آزادانہ طور پر لوگوں کے درمیان توحید کا مشن جاری کرسکیں۔ پیغمبر اسلام نے ایک طرف عرب کے قبائل کے درمیان وفود بھیجے، دوسری طرف عرب کے باہر جو حکومتیں قائم تھیں، ان کو دعوتی خطوط روانہ کیے۔ یہ ایک پرامن دعوتی جدو جہد تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف چند سال کے اندر اسلام پورے عرب میں پھیل گیا۔
یہی صورتِ حال موجودہ زمانے میں پیدا ہوگئی ہے۔ دنیا کے لوگ جنگوں سے اکتاچکے ہیں۔ وہ امن چاہتے ہیں۔ مسلمان اگر اس موقع کو پہچانیں، اور امن قائم کرکےلوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچائیں تو عین ممکن ہے کہ تاریخ دوبارہ اپنے آپ کو دہرائے۔
واپس اوپر جائیں

جنت والے

قرآن کی سورہ الرعد میں بتایا گیاہے کہ جو لوگ جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیں گے، ان کے ساتھ خصوصی اعزاز کا معاملہ کیا جائے گا- اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ(13:24) یعنی (فرشتے اہلِ جنت سے کہیں گے کہ) تم لوگوں پر سلامتی ہو اس صبر کے بدلے جوتم نے کیا، پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر-
قرآن کی اس آیت میں سلام سے مراد السلام علیکم کہنا نہیں ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ فر شتے اہلِ جنت کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دیںگے- ان کو اس بات کی خوش خبری دیں گے کہ دنیا میں تمھارے اعمال کو اللہ نے قبول فرمایا اور یہاں تمھارے لئے ابدی جنت کو مقدر کردیا- اب تم بے خوف ہوکر یہاں رہو- یہ نیا دورِ حیات تم کو مبارک ہو-
صبر (patience) کوئی سلبی صفت نہیں ہے- صبر ایک اعلیٰ درجے کی مثبت (positive) صفت ہے- صبر یہ ہے کہ آدمی موجودہ دنیا میں اس طرح رہے کہ وہ اللہ کے تخلیقی نظام پر پوری طرح راضی ہو- دنیا میں جو کچھ پیش آئے، اس کو اللہ کے تخلیقی نظام کا نتیجہ سمجھے، نہ کہ کسی انسان کا پیدا کیا ہوا مسئلہ-ایسا آدمی دنیا کے مختلف احوال کے درمیان اس طرح رہے گا کہ اس کا ذہن شکایت اور احتجاج سے مکمل طور پر خالی ہوگا، وہ ہر صورتِ حال کو اپنے لئے امتحان کا پرچہ سمجھے گا، وہ ہر صورتِ حال میں کامل اعتدال کو باقی رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے گا-
اسی سلسلۂ کلام میں صبر کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں:اور جنھوں نے اپنے رب کی رضا کے لئے صبر کیا(13:22)- یہاں رضائے رب کسی مبہم معنی میں نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے منصوبۂ خداوندی کو سمجھا، اور کسی تحفظ کے بغیر اس کو تسلیم کرلیا- اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو چھوڑ کر اللہ کی پسند اور ناپسند کو اصل سمجھا اور اس پر پوری طرح راضی ہوگئے- اسی حقیقت کو دوسرے مقام پر النفس المطمئنة (89:27)سے تعبیر کیا گیا ہے-
واپس اوپر جائیں

مومن کی صفات

قرآن کے مطابق، مومن کی بنیادی صفات دو ہیں— اللہ سے حُبّ شدید (2:165) اور اللہ سے خشیت شدید (9:18)۔ مومن کی دوسری تمام صفات انھیں دو صفتوں کے مختلف پہلو ہیں۔ کوئی انسان جب اللہ رب العالمین کو دریافت کرتا ہے تو اس کے اندر فطری طور پر یہ دو اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ دونوں صفتیں جب گہرائی کے ساتھ زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں تو اس سے وہ شخصیت بنتی ہے جس کو مومن کی شخصیت کہا جاتا ہے۔
ایک انسان جب اللہ کی عظیم نعمتوں (great blessings) کا شعور حاصل کرتا ہے تو اس کے نتیجے کے طور پر اس کے اندر وہ صفت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں اللہ سے حُبّ شدید کہا گیا ہے۔ اسی طرح انسان جب اپنے عجز اور اپنی عبدیت کو شعوری طور پر دریافت کرتا ہے تو اس سے وہ صفت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں خشیت شدید یا خوفِ شدید کہا گیا ہے۔
ایمان کی یہ دونوں صفات دراصل معرفت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ معرفت جتنی اعلیٰ درجے کی ہوگی، اتنی ہی اعلی درجے کی صفات آدمی کے اندر پیدا ہوں گی۔ انسان کے اند رکوئی بھی صفت ایک علاحدہ ضمیمہ کے طور پر پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ داخلی شعور کا ایک خارجی اظہار ہوتا ہے۔ ہر ایمانی صفت کے پیچھے گہرے معنوں میں تدبر اور تفکر موجود رہتا ہے۔
ایمانی معرفت کوئی قانونی بات نہیں۔ کسی کو قانونی احکام بتانے سے اس کے اندر معرفت پیدا نہیں ہوگی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو پہلے مطالعہ کرنے والااور غور وفکر کرنے والا بنایا جائے۔ جب ایسا ہوگا تو اس کے بعد کسی انسان کے اندر وہ اعلی صفت پیدا ہوگی جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔
یہی سچے مومن کو پہچاننے کا واحد معیار ہے۔ یہ معیار جس انسان کے اندر پایا جائے، وہی انسان سچا مومن ہے۔ اور جس انسان کے اندر یہ دونوں صفات نہ پائی جائیں، وہ اللہ کے نزدیک سچا مومن نہیں ، خواہ ظاہر پسند انسانوں کو وہ کتنا ہی بڑا آدمی دکھائی دیتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

قتل اور زندگی

قرآن میں بتایا گیاہے کہ ایک انسان کو مارنا سارےانسانوں کو مارڈالنے کے برابر ہے، اور ایک انسان کو زندگی دینا سارے انسانوں کو زندگی دینے کے برابر ہے (5:32)۔
اس معاملے کی اتنی زیادہ سنگینی (seriousness) کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے براہِ راست طورپر اللہ رب العالمین کا معاملہ ہے۔ اگر چہ بظاہر وہ انسان کا معاملہ دکھائی دیتاہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو مارنا خداکے تخلیقی نقشہ میں مداخلت (intervene)کرنا ہے۔ ایک شخص کو اس نعمت سےمحروم کرنا ہے کہ وہ اپنی عمر پوری کرے اور خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق اس کے لئے جو رول (role) مقدر ہے، اس رول کو وہ اداکرنے سے محروم ہوجائے۔ اس کے برعکس، جب ایک شخص کو زندہ رہنے دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو یہ موقع دیاگیا کہ وہ اپنی پوری عمر زندہ رہے اور خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق دنیا میں اپنا مقرر رول ادا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قتل اور زندگی دونوں براہِ راست طورپر خالق کا معاملہ بن جاتے ہیں۔
آدمی اگر اس معاملے کی سنگینی کو سمجھے تو وہ کبھی کسی کو قتل کرنے کی جرأت نہ کرے۔وہ انسان کو قتل کرنے سے اسی طرح ڈرے، جس طرح کوئی شخص آگ کے الاؤ کو دیکھتے ہوئے اس میں کودنے سے ڈرتا ہے۔
انسان خدا کی سب سے زیادہ اعلی مخلوق ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے (38:75) ۔اس بات کو اگر دنیوی زبان میں کہا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے خالق کاسب سے زیادہ نفیس آرٹ (finest art) ہے۔کوئی آرٹسٹ اس کو برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی شخص اس کے آرٹ ورک پر ہتھوڑا چلا کر اس کو توڑ دے۔ خالق کائنات اس سے بے شمار گُنا زیادہ اس کو ناپسند کرے گا کہ اس کے پیدا کیے ہوئے ایک انسان کو کوئی شخص ہلاک کردے۔
واپس اوپر جائیں

عقل سے محرومی کا دور

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ سنن ابن ماجہ کے الفاظ یہ ہیں: إن بین یدی الساعة لہرجا، قال: قلت: یا رسول اللہ، ما الہرج؟ قال: القتل ، فقال بعض المسلمین: یا رسول اللہ، إنا نقتل الآن فی العام الواحد من المشرکین کذا وکذا، فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:لیس بقتل المشرکین، ولکن یقتل بعضکم بعضا، حتى یقتل الرجل جارہ، وابن عمہ وذا قرابتہ ، فقال بعض القوم: یا رسول اللہ، ومعنا عقولنا ذلک الیوم؟ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: لا، تنزع عقول أکثر ذلک الزمان، ویخلف لہ ہباء من الناس لا عقول لہم۔ (حدیث نمبر: 3959) یعنی بے شک قیامت سے پہلے ہرج کا زمانہ ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا ، اے اللہ کے رسول ہرج کیا ہے، آپ نے فرمایا کہ قتل۔ مسلمانوں میں سے بعض نے کہا، اے اللہ کے رسول، اِس وقت ایک سال میں مشرکین میں سے اتنے اتنے کو ہم قتل کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری مراد مشرکین کے قتل سے نہیں ہے۔ بلکہ تم میں سے بعض بعض کو قتل کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو قتل کرے گا، اور اپنے چچا کے بیٹے کو ،اور اپنے رشتہ داروں کو۔پھر لوگوں میں سے بعض نے کہا اے اللہ کے رسول، کیا ان دنوں ہمارے ساتھ عقل ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس زمانے کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی، لوگ غبار کی طرح باقی رہیں گے، ان کو عقل نہ ہوگی۔
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمانوں کی عقلیں چھن جائیں گی۔ اس کی ایک علامت یہ ہوگی کہ وہ خود اپنی قوم کے لوگوں کو قتل کریں گے۔ عقل چھن جانے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت باقی نہ رہے گی کہ وہ واقعات کی صحیح توجیہہ کریں۔ چناں چہ غلط توجیہہ کے ذریعے وہ اپنے دشمن کو اپنا دوست سمجھیں گے، اور اپنے دوست کو اپنا دشمن قرار دیں گے۔ اسی غلط توجیہہ کو حدیث میں عقل چھننے سے تعبیر کیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

دوہرا انعام

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جو معاصر لوگ ایمان لائے ان میں سے ایک وہ تھے جو دین شرک پر قائم تھے۔ رسول اللہ سے پیغامِ حق سننے کے بعد انھوں نے دین شرک کو چھوڑا، اور دینِ توحید کو انھوں نے اختیار کیا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جس کا تعلق مدینہ سے تھا۔ یہ اہل کتاب (یہود)تھے۔ یعنی پچھلے پیغمبر حضرت موسیٰ کو ماننے والے۔ ان کا ایمان گویا دین خداوندی پر دوبارہ ایمان لانا تھا۔
پہلا ایمان ان کو اپنے ماحول میں وراثت کے طور پر ملا تھا۔ گویا کہ وہ پیدائشی مسلم (Muslim by birth)تھے۔ اس کے بعد جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی،اور انھوں نے آپ کو بحیثیت پیغمبر کے پہچانا اور آپ پر ایمان لائے تو گویا کہ انھوں نے دین خداوندی کو ازسرِ نو دریافت (rediscover) کیا۔ وہ پیغمبر ِ اسلام پر ایمان لائے تو وہ گویا کہ مسلم بائی چوائس (Muslim by choice) بنے۔ انھوں نے دینِ حق کی معرفت دوبارہ حاصل کی ۔ ان کے ایمان کا یہی اضافی پہلو ہے جس کی بنا پر وہ دوہرا اجر کے مستحق قرار پائے۔
جو دین آدمی کو پیدائشی طور پر ملے اس کے لیے اس کو کوئی جدو جہد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ لیکن ایک شخص جب دریافت نو (rediscovery) کے طور پر اللہ کے دین کو پائے تو یہ اس کے لیے ہمیشہ ایک فکری جہاد (intellectual Jihad) کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد وہ اپنے بارے میں تخلیقی سوچ (creative thinking) کا ثبوت دیتا ہے، وہ رواجی ایمان سے اوپر اٹھ کر شعوری ایمان کا درجہ پاتا ہے۔ ایمان کا تعلق معرفت سے ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو پہلے سے حضرت موسیٰ پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ یہ ان کی پہلی معرفت تھی۔ اس کے بعد جب وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انھوں نے گویا اپنے ایمان کے بارے میں معرفت ثانی کا ثبوت دیا۔ اس لیے وہ دوہرے اجر کے مستحق قرار پائے۔پہلی معرفت اگر ان کو خود بخود وراثۃً ملی تھی تو دوسری معرفت انھوں نے شعوری طور پر ایک فکری جدو جہد کے بعد حاصل کی۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کے دو پہلو

دعوت ایک منصوبہ بندعمل ہے۔ دعوت کا کام عملا ماس لیول (mass level) پر کیا جاتا ہے۔ لیکن دعوت کے کام کا نتیجہ ہمیشہ فرد کی سطح (individual level) پر نکلتا ہے۔ داعی کو چاہیے کہ ان دونوں پہلوؤں کے بارے میں وہ پوری طرح باشعور ہو۔ ورنہ وہ دعوت کا کام درست طور پر انجام نہ دے سکے گا۔
قرآن میں بتا یا گیا ہے کہ جس انسان کے اندر خیر ہوتا ہے، اس کو اللہ کی طرف سے قبولِ حق کی توفیق حاصل ہوتی ہے (8:23)۔ یہاں خیر سے مراد تلاشِ حق کی اسپرٹ ہے۔ تلاشِ حق کی اسپرٹ ایک فرد کا داخلی معاملہ ہے۔ صرف اللہ کو معلوم ہے کہ کس فرد کے اندر یہ خیر موجود ہے۔ داعی کو اس حقیقت کا علم ہونا ممکن نہیں۔ اس لیے داعی کا کام یہ ہے کہ وہ ہر شخص کو اپنا نشانہ بنائے۔ وہ عمومی طور پر لوگوں کو حق کا پیغام پہنچائے۔ اللہ جس فرد کے اندر خیر دیکھے گا اس کو وہ قبولِ حق کی توفیق دے دے گا۔ دعوت دینا داعی کا معاملہ ہے، اور دعوت کو قبول کرنے کی توفیق دینا اللہ کا معاملہ ہے۔
اگر آدمی کا ذہن یہ ہو کہ جتنے لوگوں تک اس نے دعوت پہنچائی ہے ان سب کو چاہیے کہ وہ دعوت کو قبول کرلیں تو بہت جلد وہ مایوسی میں مبتلا ہوجائے گا۔ داعی کو چاہیے کہ وہ اپنی ڈیوٹی پر نظر رکھے، اور دعوت کو قبول کرنے کا معاملہ مدعو کے اوپر چھوڑ دے۔ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے یقین کی صفت لازمی طور پر ضروری ہے۔ اور یقین کی صفت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے، جب کہ داعی مذکورہ حقیقت کو شعوری طور پر جانے اور اس کو وہ ہمیشہ یاد رکھے۔ دعوت کا کام اللہ کا کام ہے، اور اللہ پر اعتماد کی طاقت کے ذریعے ہی اس کو انجام دیا جاسکتا ہے۔دعوت کے عمل کی لازمی شرط یہ ہے کہ داعی کے اندر مکمل طور پر مثبت ذہن پایا جائے۔مدعو کے خلاف اس کے دل میں کسی قسم کی شکایت موجود نہ ہو۔ دعوت کا کام ہمیشہ انسانی خیر خواہی کے جذبے کے تحت انجام پاتا ہے۔ اور انسانی خیرخواہی اللہ پر اعتماد کے بغیر پیدا ہونا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

امت مسلمہ کا فائنل رول

قرآن کی سورہ نمبر 25 میں یہ آیت آئی ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (الفرقان: 1)یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان (قرآن)اتارا تاکہ وہ سارے عالم کے لئے خبر دار کرنے والابنے۔
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ اس وقت پیشین گوئی (prediction) کی زبان میں یہ اعلان کیا گیا کہ قرآن سارے عالم میں پھیلے گا، یہاں تک کہ اس کا پیغام زمین پر بسنے والےہر مرد اور ہرعورت تک پہنچ جائے گا۔
یہی بات حدیث رسول میںاس طرح بیان کی گئی ہے: عن المقداد بن الأسود عن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول:لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر، ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام، بعز عزیز أو ذل ذلیل(مسند احمد، حدیث نمبر 23814) مقداد بن اسود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت کے ساتھ، ذلت والے کو ذلت کے ساتھ ۔ (یعنی اسلام کا پیغام ماننے والوں تک بھی اورنہ ماننے والوں تک بھی )۔
یہ حدیث رسول پیشگی خبر کی زبان میں یہ بتارہی ہے کہ آخری دور میں امت کا فائنل رول کیا ہوگا۔ وہ رول یہ ہوگا کہ امت اپنے زمانے کے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے کلام (word of God) کو دنیا کے ہرگوشے میں پہنچادے، یہاں تک کہ کوئی عورت یا مرد اس سے بے خبر نہ رہے۔
اس حدیث میں کلمۃ الاسلام سے مراد قرآن ہے۔ قرآن کو ہر انسان تک پہنچانا کسی پر اسرار طریقے پر نہیں ہوگا، بلکہ وہ دوسرے واقعات کی طرح اسباب کے ذریعے ہوگا۔ بعد کے دور میں ایسے اسباب انسان کے دسترس میں آئیں گے جن کو استعمال کرکے امت خدا کی کتاب کو تمام انسانوں تک پہنچادے ۔
قرآن کو سارے عالم تک پہنچانا ایک ایسا کام ہے جو امت مسلمہ محض اپنی طاقت سے نہیں کرسکتی۔ اس لیے اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینیج (manage)کیا کہ دوسری قومیں بھی اس تاریخی کام میں تائیدی رول (supporting role) ادا کریں۔ یہی بات حدیث رسول میں اس طرح بیان کی گئی ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے بھی کرے گا۔ اس حدیث میں فاجر انسان سے مراد سیکولر انسان ہے۔ یعنی مستقبل میں ایسے لوگ اٹھیں گے جو بظاہر اپنے مادی مقاصد کے لیے اسباب پیدا کریں گے، مگر یہ اسباب عملاً اہل دین کے لیے سپورٹر بن جائیں گے۔
اس حدیث میں سیکولر موید (secular supporter) سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ایک واقعہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک مادی تہذیب ہے۔ اس نے اپنے مادی مقاصد کے لیے بہت سے نئے اسباب پیدا کیے۔ مگر یہ اسباب عملاً قرآن کی عالمی اشاعت کا ذریعہ بن گئے۔
مغربی تہذیب نے پہلی بار دنیا کے جغرافیہ کو پوری طرح ایک معلوم واقعہ بنا دیا۔ مذہبی آزادی موجودہ زمانے میں انسان کا ایک مسلمہ حق (accepted right) بن گئی۔ موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس اور الیکٹرانک کمیو نی کیشن جیسی چیزیں وجود میں آئیں جن کے ذریعے پہلی بار عالمی ابلاغ (global communication)ممکن ہوگیا۔ لائبریری کلچر آخری حد تک عام ہوگیا ہے۔ سیاحت (tourism) کا ظاہرہ وجود میں آیا، جس کی صورت میں گویا مدعو خود داعی کے دروازے تک پہنچ گیا۔ لوگوں میں کھلا پن (openness)کا مزاج پیدا ہوا، جس کی بنا پر لوگ غیر متعصبانہ انداز میں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنے لگے، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کے اسباب اہل دین کے لیے تائید (support) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اہل دین ان کو استعمال کرکے قرآن کے اعلان اور پیغمبر ِ اسلام کی پیشین گوئی کو واقعہ بنادیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اہل دین اٹھیں اور قرآن کو تمام انسانوں تک پہنچا دیں تاکہ انسان اس خدائی ہدایت سے رہنمائی لے کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکے۔
اکیسویں صدی میں قرآن کی عالمی تبلیغ آخری حد تک ممکن ہوچکی ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانے کی شرط صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کردے۔ وہ پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے، تمام قوموں تک قرآن کا پیغام پہنچادے۔
ہر انسان پیدائشی طور پر حق کا متلاشی ہے۔ ہر انسان اپنی فطرت کے زور پر حق کا طالب بنا ہوا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی غلط سوچ کے تحت نفرت اور تشدد کے کلچر میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس کلچر نے داعی اور مدعو کے درمیان دوری کا ماحول قائم کردیا ہے۔ امت مسلمہ پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر نفرت اور تشدد کے موجودہ کلچر کو ختم کردے، اور پوری طرح امن کا ماحول قائم کردے۔ اس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوگا کہ قرآن کا پیغام ہر جگہ پہنچنے لگے گا۔
آج امت مسلمہ کو یہ کرنا ہے کہ وہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو ختم کرکے امن کلچر کو اپنائے، اور دعوت کی پر امن پلاننگ (peaceful planning)کرے، اور خالص پرامن انداز میں سارے عالم تک اللہ کے پیغام کو پہنچادے۔ یہی امت مسلمہ کا فائنل رول ہوگا۔ اسی رول کی ادائیگی کے نتیجے میں امت مسلمہ کو دوبارہ وہ سرفرازی حاصل ہوگی جس کا تاریخ کو انتظار ہے۔
دعوت کی اس عالمی مہم کے لیے دوسرے معروف طریقوں کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ خالص مثبت ذہن کے تحت اعلیٰ معیار کا ایک ٹی وی اسٹیشن قائم کیا جائے۔ اس کے ذریعے تمام بڑی بڑی زبانوں میں دعوتی پروگرام نشر کیے جائیں۔ یہ کام مکمل طور پر پر امن دعوت کے تصور کے تحت کیا جائے۔ اس میں نہ مسلمانوں کی مفروضہ مظلومیت کی داستان کا ذکر ہو اور نہ مسلم فخر کا تذکرہ کیا جائے۔ اس ٹی وی کی نشریات تمام تر دعوت الی اللہ کے اصول پر مبنی ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی نشریات لازمی طور پر عصرحاضر کے اسلوب میں ہوں تاکہ وہ آج کے انسان کے ذہن کو ایڈریس کرسکیں۔جدید ٹکنالوجی نے اس بات کو پوری طرح ممکن بنا دیا ہے کہ خدا وندِ رب العالمین کا پیغام ہر گھر میں اور ہر انسان تک پہنچ جائے۔ عالمی دعوت کا یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے: ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔
واپس اوپر جائیں

کائنات میں خدا کی گواہی

زمین پر زندگی کے پائےجانے کے لیے اتنے مختلف حالات کی موجودگی ناگزیر ہے کہ ریاضیاتی طورپر یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ اپنے مخصوص تناسب میں محض اتفاقاً زمین کے اوپر اکٹھا ہوجائیں۔ اب اگر ایسے حالات پائے جاتے ہیںتو لازماً یہ ماننا ہوگا کہ فطرت میں کوئی ذی شعور رہنمائی موجود ہے جوان حالات کو پیدا کرنے کا سبب ہے۔
زمین اپنی جسامت کے اعتبار سے کائنات میں ایک ذرہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی مگر اس کے باوجود ہماری تمام معلوم دنیاؤں میں اہم ترین ہے۔ کیونکہ اس کے اوپر حیرت انگیز طور پر وہ حالات مہیا ہیں جو ہمارے علم کے مطابق اس وسیع کائنات میں کہیں نہیں پائے جاتے۔
سب سے پہلے زمین کی جسامت کو لیجئے۔ اگر اس کا حجم کم یا زیادہ ہوتا تو اس پر زندگی محال ہوجاتی۔ مثلاً یہ کرۂ زمین اگر چاند اتنا چھوٹا یعنی اس کا قطر موجودہ کی نسبت سے ¼ہوتا تو اس کی کشش ثقل، زمین کی موجودہ کشش کا 1/6 رہ جاتی۔ کشش کی اس کمی کا نتیجہ یہ ہوجاتا کہ وہ پانی اور ہوا کو اپنے اوپر روک نہ سکتی جیسا کہ جسامت کی اسی کمی کی وجہ سے چاند میں واقع ہوا ہے۔ چاند پر اِس وقت نہ تو پانی ہے اور نہ کوئی ہوائی کرہ۔ ہوا کا غلاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ رات کے وقت بے حد سرد ہوجاتا ہے اور دن کے وقت تنور کی مانند جلنے لگتا ہے۔ اسی طرح کم جسامت کی زمین کشش کی کمی کی وجہ سے پانی کی اس کثیر مقدار کو روک نہ سکتی جو زمین پرموسمی اعتدال کو باقی رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اسی بنا پر ایک سائنسداں نے اس کو عظیم توازنی پہیہ (great balance wheel) کا نام دیا ہے(Man Does not Stand Alone, p. 28)۔اور ہوا کا موجودہ غلاف اڑ کر فضا میں گم ہوجاتا تو اس کا حال یہ ہوتا کہ اس کی سطح پر درجہ حرارت چڑھتا تو انتہائی حد تک چڑھ جاتا اور گرتا تو انتہائی حد تک گر جاتا۔ اس کے برعکس اگر زمین کا قطر، موجودہ قطر کی نسبت سے دگنا ہوتا تو اس کی کشش ثقل بھی دگنی بڑھ جاتی۔ کشش کے اس اضافہ کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ہوا، جو اس وقت زمین کے اوپر پانچ سو میل کی بلندی تک پائی جاتی ہے، وہ کھنچ کر بہت نیچے تک سمٹ جاتی۔ اس کے دباؤ میں فی مربع انچ 15 تا 30 پونڈ کا اضافہ ہوجاتا جس کا ردِ عمل مختلف صورتوں میں زندگی کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوتا۔اور اگر زمین سورج سے اتنی بڑی ہوتی اور اس کی کثافت برقرار رہتی تو اس کی کشش ثقل ڈیڑ سوگنا بڑھ جاتی۔ ہوا کے غلاف کی دبازت گھٹ کر پانچ سو میل کے بجائے صرف چار میل رہ جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ہوا کا دباؤ ایک ٹن فی مربع انچ تک جاپہنچتا۔ اس غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے زندہ اجسام کا نشوونما ممکن نہ رہتا۔ ایک پونڈ وزنی جانور کا وزن ایک سو پچاس پونڈ ہوجاتا۔ انسان کا جسم گھٹ کر گلہری کے برابر ہوجاتا اور اس میں کسی قسم کی ذہنی زندگی ناممکن ہوجاتی۔ کیوں کہ انسانی ذہانت حاصل کرنے کے لیے بہت کثیر مقدار میں اعصابی ریشوں کی موجودگی ضروری ہے اور اس طرح کے پھیلےہوئے ریشوں کا نظام ایک خاص درجہ کی جسامت ہی میں پایا جاسکتا ہے۔
بظاہر ہم زمین کے اوپر ہیں مگرزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہم اس کے نیچے سر کے بل لٹکے ہوئے ہیں۔ زمین گویا فضا میںمعلق ایک گیند ہے جس کے چاروں طرف انسان بستے ہیں۔ کوئی شخص ہندستان کی زمین پر کھڑا ہو تو امریکا کے لوگ بالکل اس کے نیچے ہوں گے اور امریکا میں کھڑا ہو تو ہندستان اس کے نیچےہوگا۔ پھر زمین ٹھہری ہوئی نہیں ہے بلکہ ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے مسلسل گھوم رہی ہے۔ ایسی حالت میں زمین کی سطح پر ہمارا انجام وہی ہونا چاہیے جیسے سائیکل کے پہیے پر کنکریاں رکھ کر پہیے کو تیزی سے گھمادیا جائے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک خاص تناسب سے زمین کی کشش اور ہوا کا دباؤ ہم کو ٹھہرائے ہوئے ہے۔ زمین کے اندر غیر معمولی قوت کشش ہے جس کی وجہ سے وہ تمام چیزوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور اوپر سے ہوا کا مسلسل دباؤ پڑتا ہے۔ اس دو طرفہ عمل نے ہم کو زمین کے گولے پر چاروں طرف لٹکا رکھا ہے۔ ہوا کے ذریعہ جو دباؤ پڑتا ہے وہ جسم کے ہر ایک مربع انچ پر تقریباً ساڑھے سات سیر تک معلوم کیا گیا ہے۔ یعنی ایک اوسط آدمی کے سارے جسم پر تقریباً280 من کا دباؤ۔ آدمی اس وزن کو محسوس نہیں کرتا۔ کیونکہ ہوا جسم کے چاروں طرف ہے۔ دباؤ ہر طرف سے پڑتا ہے اسی لیے آدمی کو محسوس نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پانی میں غوطہ لگانے کی صورت میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ہوا جو مختلف گیسوں کے مخصوص مرکب کا نام ہے، اس کے بے شمار دیگر فائدے ہیں جن کا بیان کسی کتاب میں ممکن نہیں۔
نیوٹن اپنے مشاہدہ اور مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ تمام اجسام ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ مگر اجسام کیوں ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں۔ اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔ چنانچہ اس نے کہا کہ میں اس کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کرسکتا۔
وائٹ ہیڈ (A. N. Whitehead) اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے:
’’نیوٹن نے یہ کہہ کر ایک عظیم فلسفیانہ حقیقت کا اظہار کیاہے۔ کیونکہ فطرت اگر بے روح فطرت ہے تو وہ ہم کو توجیہہ نہیں دے سکتی۔ ویسے ہی جیسے مردہ آدمی کوئی واقعہ نہیں بتا سکتا۔ تمام عقلی اور منطقی توجیہات آخری طورپر ایک مقصدیت کا اظہار ہیں۔ جب کہ مردہ کائنات میں کسی مقصدیت کا تصور نہیں کیاجاسکتا‘‘۔(The Age of Analysis, p. 85)
وائٹ ہیڈ کےالفاظ کو آگے بڑھاتے ہوئے میں کہوں گا کہ کائنات اگر کسی صاحب شعور کے زیر انتظام نہیںہے تو اس کے اندر اتنی معنویت کیوں پائی جاتی ہے۔
زمین اپنے محور پر چوبیس گھنٹے میں ایک چکر پورا کرلیتی ہے۔ یا یوں کہیے کہ وہ اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہے۔ فرض کرو اس کی رفتار دو سو میل فی گھنٹہ ہو جائے اور یہ بالکل ممکن ہے، ایسی صورت میں ہمارے دن اور ہماری راتیں موجودہ دن اور رات کی نسبت سے دس گنا زیادہ لمبے ہوجائیں گے۔ گرمیوں کا سخت سورج ہر دن تمام نباتات کو جلادے گا۔ اور جو بچے گا وہ لمبی رات کی ٹھنڈک میں پالے کی نذر ہوجائے گا۔ سورج جو اس وقت ہمارے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے،اس کی سطح پر بارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ کا ٹمپریچر ہے اور زمین سے اس کا فاصلہ تقریباً نوکرور تیس لاکھ میل ہے۔ اور یہ فاصلہ حیرت انگیز طورپر مسلسل قائم ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اگر یہ فاصلہ گھٹ جائے، مثلاً سورج نصف کے بقدر قریب آجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیداہو کہ اس گرمی سے کاغذ جلنے لگے اور اگر موجودہ فاصلہ دگنا ہوجائے تو اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ زندگی باقی نہ رہے۔ یہی صورت اس وقت پیدا ہوگی جب موجودہ سورج کی جگہ کوئی دوسرا غیر معمولی ستارہ آجائے۔ مثلاً ایک بہت بڑا ستارہ ہے جس کی گرمی ہمارے سورج سے دس ہزار گنا زیادہ ہے۔ اگر وہ سورج کی جگہ ہوتا تو زمین کو آگ کی بھٹی بنا دیتا۔
زمین 23 درجہ کا زاویہ بناتی ہوئی فضا میں جھکی ہوئی ہے۔ یہ جھکاؤ ہمیں ہمارے موسم دیتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں زمین کا زیادہ سے زیادہ حصہ آبادکاری کے قابل ہوگیاہے اور مختلف قسم کی نباتات اور پیداوار حاصل ہوتی ہیں۔ اگر زمین اس طرح سے جھکی ہوئی نہ ہوتی تو قطبین پر ہمیشہ اندھیرا چھایا رہتا۔ سمندر کے بخارات شمال اور جنوب کی جانب سفر کرتے، اور زمین پر یا تو برف کے ڈھیر ہوتے یا صحرائی میدان۔ اس طرح کے اور بہت سے اثرات ہوتے جس کے نتیجے میں بغیر جھکی ہوئی زمین پر زندگی ناممکن ہوجاتی۔
یہ کس قدر ناقابل قیاس بات ہے کہ مادہ نے خود کو اپنے آپ اس قدر موزوں اور مناسب شکل میں منظم کرلیا۔
اگر سائنسدانوں کا قیاس صحیح ہے کہ زمین سورج سے ٹوٹ کر نکلی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء ً زمین کا درجہ حرارت وہی رہا ہوگا جو سورج کا ہے۔ یعنی بارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ۔ اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا ملنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک زمین کا درجہ حرارت گھٹ کر چار ہزار ڈگری پر نہ آجائے۔ اسی موقع پر دونوں گیسوں کے باہم ملنے سے پانی بنا۔ اس کے بعد کروروں سال تک زمین کی سطح اور اس کی فضا میں زبردست انقلابات ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ غالباً ایک بلین سال پہلے زمین اپنی موجودہ شکل میں تیار ہوئی۔ زمین کی فضا میں جو گیسیں تھیں ان کا ایک بڑا حصہ خلا میں چلا گیا، ایک حصہ نے پانی کے مرکب کی صورت اختیار کی، ایک حصہ زمین کی تمام چیزوں میں جذب ہوگیا اور ایک حصہ ہوا کی شکل میں ہماری فضا میں باقی رہ گیا جس کا بیشتر جزو آکسیجن اور نائٹروجن ہے۔ یہ ہوا اپنی کثافت کے اعتبار سے زمین کا تقریباً دس لاکھواں حصہ ہے — کیوں نہیں ایسا ہوا کہ تمام گیسیں جذب ہوجاتیں۔ یا کیوں ایسا نہیں ہوا کہ موجودہ نسبت سے ہوا کی مقدار زیادہ ہوتی۔ دونوں صورتوں میں انسان زندہ نہیں ہوسکتا تھا، یا اگر بڑھی ہوئی گیسوں کے ہزاروں پونڈ فی مربع انچ بوجھ کے نیچے زندگی پیدا بھی ہوتی تو یہ ناممکن تھا کہ وہ انسان کی شکل میں نشوونما پاسکے۔
زمین کی دوہری پرت اگر صرف دس فٹ موٹی ہوتی تو ہماری فضا میں آکسیجن کا وجود نہ ہوتا جس کے بغیر حیوانی زندگی ناممکن ہے۔ اسی طرح اگر سمندر کچھ فٹ اور گہرے ہوتے تو وہ کاربن ڈائی آکسائڈ اور آکسیجن کوجذب کرلیتے اور زمین کی سطح پر کسی قسم کی نباتات زندہ نہ رہ سکتیں۔ اگر زمین کے اوپر کی ہوائی فضا موجودہ کی نسبت سے لطیف ہوتی تو شہاب ثاقب جو ہر روز اوسطاً دوکرور کی تعداد میں اوپری فضا میں داخل ہوتے ہیں اور رات کے وقت ہم کو جلتے ہوئے دکھائی دیتےہیں وہ زمین کے ہر حصے میں گرتے۔ یہ شہابیے چھ سے چالیس میل تک فی سکنڈ کی رفتار سے سفر کرتے ہیں۔ وہ زمین کے اوپر ہر آتش پذیر مادے کو جلا دیتے اور سطح زمین کو چھلنی کردیتے۔ شہاب ثاقب بندوق کی گولی سے نوے گنا زیادہ رفتار سے آدمی جیسی مخلوق کو محض اپنی گرمی سے ٹکڑے کردیتی۔ مگر ہوائی کرہ اپنی نہایت موزوں دبازت کی وجہ سے ہم کو اس آتشیں بوچھار سے محفوظ رکھتا ہے۔ ہوائی کرہ ٹھیک اتنی کثافت رکھتا ہے کہ سورج کی کیمیاوی اہمیت رکھنے والی شعاعیں (actinic rays) اسی موزوں مقدار سے زمین پرپہنچتی ہیں جتنی نباتات کو اپنی زندگی کے لیے ضرورت ہے، جس سےمضر بیکٹیریا مرسکتے ہیں، جس سے وٹامن تیار ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
کمیت کا اس طرح عین ہماری ضرورتوں کے مطابق ہونا کس قدر عجیب ہے۔
زمین کی اوپری فضا چھ گیسوں کا مجموعہ ہے جس میں تقریباً 78 فیصدی نائٹروجن اور 21 فیصدی آکسیجن ہے۔ باقی گیسیں بہت خفیف تناسب میں پائی جاتی ہیں۔ اس فضا سے زمین کی سطح پر تقریباً پندرہ پونڈ فی مربع انچ کا دباؤ پڑتاہے جس میں آکسیجن کا حصہ تین پونڈ فی مربع انچ ہے۔ موجودہ آکسیجن کا بقیہ حصہ زمین کی تہوں میں جذب ہےاور وہ دنیا کے تمام پانی کا 8/10 حصہ بناتاہے۔ آکسیجن تمام خشکی کے جانوروں کے لیے سانس لینے کا ذریعہ ہے اور اس مقصد کے لیے اس کو فضا کے سوا کہیں اور سے حاصل نہیںکیا جاسکتا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتہائی متحرک گیسیں کس طرح آپس میں مرکب ہوئیں اور ٹھیک اس مقدار اور اس تناسب میں فضا کے اندر باقی رہ گئیں جو زندگی کے لیےضروری تھا۔ مثال کے طورپر آکسیجن اگر 21 فیصدی کے بجائے پچاس فیصدی یا اس سے مقدار میں فضا کا جزو ہوتا تو سطح زمین کی تمام چیزوں میں آتش پذیری کی صلاحیت اتنی بڑھ جاتی کہ ایک درخت میں آگ پکڑتے ہی سارا جنگل بھک سے اڑ جاتا۔ اسی طرح اس کا تناسب گھٹ کر دس فیصدی رہتا تو ممکن ہے زندگی صدیوں کے بعد اس سے ہم آہنگی اختیار کرلیتی۔ مگر انسانی تہذیب موجودہ شکل میں ترقی نہیں کرسکتی تھی۔ اور اگر آزاد آکسیجن بھی بقیہ آکسیجن کی طرح زمین کی چیزوں میں جذب ہوگئی ہوتی تو حیوانی زندگی سرے سے ناممکن ہوجاتی۔
آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ اور کاربن گیسیں الگ الگ اور مختلف شکلوں میں مرکب ہوکر حیات کے اہم ترین عناصر ہیں۔ یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر زندگی قائم ہے۔ اس کا ایک فی ارب بھی امکان نہیں ہے کہ وہ تمام ایک وقت میں کسی ایک سیارہ پر اس مخصوص تناسب کے ساتھ اکھٹا ہوجائیں۔ ایک عالم طبیعیات کے الفاظ میں:
Science has no explanation to offer for the facts, and to say it is accidental is to defy mathematics (p. 33)
یعنی سائنس کے پاس ان حقائق کی توجیہہ کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔ اور اس کو اتفاق کہنا ریاضیات سے کشتی لڑنے کے ہم معنی ہے۔
ہماری دنیا میں بے شمار ایسے واقعات موجود ہیں جن کی توجیہہ اس کے بغیر نہیں ہوسکتی کہ اس کی تخلیق میںایک برتر ذہانت کا دخل تسلیم کیاجائے۔
پانی کی مختلف نہایت اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ برف کی کثافت(density)پانی سے کم ہوتی ہے۔ پانی وہ واحد معلوم مادہ ہے جو جمنے کے بعد ہلکا ہوجاتا ہے۔ یہ چیز بقا ئے حیات کے لیے زبردست اہمیت رکھتی ہے۔اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ برف پانی کی سطح پر تیرتا رہتاہے اور دریاؤں، جھیلوں اور سمندروں کی تہہ میں بیٹھ نہیں جاتا۔ ورنہ آہستہ آہستہ سارا پانی ٹھوس اور منجمد ہوجائے۔ یہ پانی کی سطح پر ایک ایسی حاجب تہہ بن جاتا ہے کہ اس کے نیچے کا درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے اوپر ہی اوپر رہتا ہے۔ اس نادر خاصیت کی وجہ سے مچھلیاں اور دیگر آبی جانور زندہ رہتے ہیں۔ اس کے بعد جونہی موسم بہار آتا ہے برف فوراً پگھل جاتا ہے۔ اگر پانی میں یہ خاصیت نہ ہوتی تو خاص طورپر سرد ملکوں کے لوگوں کو بہت بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکا میں انڈوتھیا (Endothia) نام کی بیماری شاہ بلوط (Chestnut) کے درختوں پر حملہ آور ہوئی اور تیزی سے پھیلی تو بہت سے لوگوں نے جنگل کی چھتری میں شگاف دیکھ کر کہا ’’یہ شگاف اب پر نہیں ہوں گے‘‘۔ امریکی شاہ بلوط کی بالادستی کو ابھی تک کسی اور قسم کے اشجار نے نہیں چھینا تھا۔ اونچے درجے کی دیر پا عمارتی لکڑی اور اس طرح کے دوسرے فوائد اس کے لیے خاص تھے۔یہاں تک کہ 1900 ء میں ایشیا سے انڈوتھیا نام کی بیماری کا ورود ہوا۔ اس وقت تک یہ جنگلات کا بادشاہ خیال کیا جاتا تھا۔ مگر اب جنگلات میں یہ درخت ناپید ہوچکا ہے۔
لیکن جنگلات کے یہ شگاف جلد ہی پر ہوگئے۔ کچھ دوسرے درخت (Tulip Trees) اپنی نشوونما کے لیے شاید انھیں شگافوں کا انتظار کررہے تھے ۔ شگاف پیدا ہونے سے پہلے تک یہ درخت جنگلات کا معمولی جزو تھے اور شاذ ہی بڑھتے اور پھولتے تھے۔ لیکن اب شاہ بلوط کی عدم موجودگی کا کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔ کیونکہ اب دوسری قسم کے درخت پوری طرح ان کی جگہ لےچکے ہیں۔ یہ دوسرے درخت سال بھر میں ایک انچ محیط میںاور چھ فٹ لمبائی میں بڑھتے ہیں۔ اتنی تیزی کے ساتھ بڑھنے کے علاوہ بہترین لکڑی جو بالخصوص باریک تہوں کے کام آسکتی ہے، ان سے حاصل کی جاتی ہے۔
اسی صدی کا واقعہ ہے۔ ناگ پھنی کی ایک قسم آسٹریلیا میں کھیتوں کی باڑھ قائم کرنے کے لیے بوئی گئی ہے ۔ آسٹریلیا میں اس ناگ پھنی کا کوئی دشمن کیڑا نہیں تھا۔ چنانچہ وہ بہت تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ انگلینڈ کے برابر رقبہ پر چھاگئی۔ وہ شہروں اور دیہاتوں میںآبادی کے اندر گھس گئی ، کھیتوں کو ویران کردیا۔ اور زراعت کو ناممکن بنادیا۔ کوئی تدبیر بھی اس کے خلاف کارگر ثابت نہیں ہوتی تھی۔ ناگ پھنی آسٹریلیا کے اوپر ایک ایسی فوج کی طرح مسلط تھی جس کا اس کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا۔ بالآخر ماہرین حشرات الارض دنیا بھر میں اس کا علاج تلاش کرنے کے لیے نکلے۔ یہاں تک کہ ان کی رسائی ایک کیڑے تک ہوئی جو صرف ناگ پھنی کھا کر زندہ رہتا تھا۔ اس کے سوا اس کی کوئی خوراک نہیں تھی۔ وہ بہت تیزی سے اپنی نسل بڑھاتا تھا اور آسٹریلیا میں اس کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ اسی کیڑے نے آسٹریلیا میں ناگ پھنی کی ناقابلِ تسخیر فوج پر قابو پالیا اور اب وہاں سے اس مصیبت کا خاتمہ ہوگیا۔
قدرت کے نظام میں یہ ضبط وتوازن (checks and balances) کی عظیم تدبیریں کیا کسی شعوری منصوبے کے بغیر خود بخود وجود میں آجاتی ہیں۔
کائنات میں حیرت انگیز طورپر ریاضیاتی قطعیت پائی جاتی ہے۔ یہ جامد بے شعور مادہ جو ہمارے سامنے ہے، اس کا عمل غیر منظم اور بے ترتیب نہیں بلکہ وہ متعین قوانین کا پابند ہے۔ ’’پانی‘‘ کا لفظ خواہ دنیا کے جس خطہ میں اور جس وقت بھی بولا جائے، اس کا ایک ہی مطلب ہوگا— ایک ایسا مرکب جس میں 11.1 فی صد ہائیڈروجن اور 88.9 فی صد آکسیجن۔ ایک سائنسداں جب تجربہ گاہ میں داخل ہو کر پانی سے بھرے ہوئے ایک پیالے کو گرم کرتاہے تو وہ تھرمامیٹر کے بغیر یہ بتا سکتا ہے کہ پانی کا نقطۂ جوش 100 سنٹی گریڈ ہے جب تک ہوا کا دباؤ (atmospheric pressure) 760 ایم-ایم رہے۔ اگر ہوا کا دباؤ اس سے کم ہو تو اس حرارت کو لانے کے لیے کم طاقت درکار ہوگی جو پانی کے سالمات کو توڑ کر بخارات کی شکل دیتی ہے۔ اس طرح نقطۂ جوش سودرجہ سے کم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس اگر ہوا کا دباؤ 760ایم-ایم سے زیادہ ہو تو نقطۂ جوش بھی اسی لحاظ سے زیادہ ہوجائے گا۔ یہ تجربہ اتنی بار آزمایا گیا ہے کہ اس کو یقینی طورپر پہلے سے بتایا جاسکتا ہے کہ پانی کا نقطۂ جوش کیا ہے۔ اگر مادہ اور توانائی کے عمل میں یہ نظم اور ضابطہ نہ ہوتا تو سائنسی تحقیقات اور ایجادات کے لیےکوئی بنیاد نہ ہوتی۔ کیونکہ پھر اس دنیامیں محض اتفاقات کی حکمرانی ہوتی اور علمائے طبیعیات کے لیے یہ بتانا ممکن نہ رہتا کہ فلاں حالت میں فلاں طریق عمل کے دہرانے سے فلاں نتیجہ پیداہوگا۔
کیمیا کے میدان میں نووارد طالب علم سب سے پہلے جس چیز کا مشاہدہ کرتا ہے وہ عناصر میں نظم اور دَوریت ہے۔ سوسال پہلے ایک روسی ماہر کیمیا منڈلیف (Mendeleev) نے جوہری قدر کے لحاظ سے مختلف کیمیائی عناصر کو ترتیب دیا تھا جس کو دَوری نقشہ (periodic chart)کہا جاتا ہے۔ اس وقت تک موجودہ تمام عناصر دریافت نہیںہوئے تھے اس لیے اس کے نقشہ میں بہت سے عناصر کے خانے خالی تھے جو عین اندازے کے مطابق بعد کو پُر ہوگئے، ان نقشوں میں سارے عناصر جوہری نمبروں کے تحت اپنے اپنے مخصوص گروپوں میں درج کیے جاتے ہیں۔ جوہری نمبر سے مراد مثبت برقیوں (protons) کی وہ تعداد ہے جو ایٹم کے مرکز میں موجود ہوتی ہے۔ یہی تعداد ایک عنصر کے ایٹم اور دوسرے عنصر کے ایٹم میں فرق پیدا کردیتی ہے۔ ہائیڈروجن جو سب سے سادہ عنصر ہے، اس کے ایٹم کے مرکز میںایک پروٹون ہوتا ہے۔ ہیلیم میں دو اور لیتھیم میں تین۔ مختلف عناصر کی جدول تیار کرنا اسی لیے ممکن ہوسکا ہے کہ ان میں حیرت انگیز طورپر ایک ریاضیاتی اصول کار فرما ہے۔ نظم وترتیب کی اس سے بہتر مثال اورکیا ہو سکتی ہے کہ عنصر نمبر 101 کی شناخت محض اس کے 17 \پروٹونوں کے مطالعہ سے کرلی گئی۔ قدرت کی اس حیرت انگیز تنظیم کو ہم دوری اتفاق(periodic chance)نہیں کہتے بلکہ اس کو دوری ضابطہ (periodic law) کہتے ہیں۔ مگر نقشہ اور ضابطہ جو یقینی طور پر ناظم اور منصوبہ ساز کا تقاضا کرتے ہیں، اس کا انکار کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس اگر خدا کو نہ مانے تو وہ خود اپنی تحقیق کے ایک لازمی نتیجے کا انکار کرے گی۔
’’11 اگست 1999ء میں ایک سورج گرہن واقعہ ہوگا جو کارنوال (Cornwall)میں مکمل طورپر دیکھا جاسکے گا‘‘ — یہ محض ایک قیاسی پیشین گوئی نہیں ہے بلکہ علمائے فلکیات یقین رکھتے ہیں کہ نظام شمسی کے موجودہ گردشی نظام کے تحت اس گہن کا پیش آنا یقینی ہے۔ جب ہم آسمان میں نظر ڈالتے ہیں تو ہم لاتعداد ستاروں کو ایک نظام میں منسلک دیکھ کر حیران رہ جاتےہیں۔ ان گنت صدیوں سے اس فضائے بسیط میں جو عظیم گیندیں معلق ہیں وہ ایک ہی معین راستے پر گردش کرتی چلی جارہی ہیں۔ وہ اپنے مداروںمیں اس نظم کے ساتھ آتی اور جاتی ہیں کہ ان کے جائے وقوع اور ان کے درمیان ہونے والے واقعات کا صدیوں پیشتر بالکل صحیح طورپر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پانی کے ایک حقیر قطرے سے لے کر فضائے بسیط میں پھیلے ہوئے دور دراز ستاروں تک ایک فقید المثال نظم وضبط پایا جاتا ہے۔ ان کے عمل میں اس درجہ یکسانیت ہےکہ ہم اس بنیاد پر قوانین مرتب کرتے ہیں۔
نیوٹن کا نظریہ کشش فلکیاتی کروں کی گردش کی توجیہہ کرتاہے۔ اس کے نتیجے میںجے سی ایڈمس (J. C. Adams) اور لاویرے (U. Le Verrier) کو وہ بنیاد ملی جس سے وہ دیکھے بغیر ایک ایسے سیارے کے وجود کی پیشین گوئی کرسکیں جو اس وقت تک نامعلوم تھا۔ چنانچہ ستمبر1846ء کی ایک رات کو جب برلن آبزرویٹری کی دور بین کا رخ آسمان میں ان کے بتائے ہوئے مقام کی طرف کیاگیا تو فی الواقع نظر آیا کہ ایسا ایک سیارہ نظام شمسی میں موجود ہے جس کو اب ہم نیپچون (Neptune) کے نام سے جانتے ہیں۔
کس قدر ناقابل قیاس بات ہے کہ کائنات میں یہ ریاضیاتی قطعیت خود بخود قائم ہوگئی ہے۔
واپس اوپر جائیں

آزاد کشمیر یا برباد کشمیر

1947 کے بعد سے کشمیر میں آزادی کے نام پر علاحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ اس تحریک پر اب تقریباً ستر سال گزرچکے ہیں۔ اس نام نہاد آزادی کی تحریک سے کشمیریوں کواب تک عملاًصرف بربادی حاصل ہوئی۔ بالفرض اگر آزاد کشمیر بن جائے تو اس سے کشمیریوں کی بربادی میں صرف اضافہ ہوگا اور کچھ نہیں۔
کشمیر کے لیے ایک عبرت ناک مثال اریٹیریا (Eritrea) کی ہے۔ اریٹیریا پہلے ایتھوپیا کا ایک حصہ تھا۔ اریٹیریا کی آبادی میں تقریبا نصف مسلمان بستے ہیں۔ ان مسلمانوں نے آزاد اریٹیریا کے نام پر متشددانہ تحریک چلائی۔ اس میں بہت سے لوگ مارے گیے۔ آخرکار 1993 میں اقوامِ متحدہ (UNO) کے تحت ریفرینڈم ہوا۔ اس کے بعد اریٹیریا وجود میں آیا۔
مگر نتیجہ کیا ہوا۔ عملاً صرف یہ ہوا کہ اریٹیریا کے حالات اتنے زیادہ خراب ہوگیے کہ لوگ بھاگ کر باہر جانے لگے۔یہ واقعہ بظاہر مہاجرت ہے، مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ مایوسانہ فرار ہے۔ آن لائن انسائیکلوپیڈیا، وکی پیڈیا کے مطابق،اریٹیریا سے اس مہاجرت کا سبب ملک میں شدید غربت اور تشدد کا ماحول ہے:
Emigration from the country is occurring due to poverty and violence.
کینیا میں قائم شدہ آرگنائزیشن (The Regional Mixed Migration Secretariat [RMMS]) کے ایک سروے کے مطابق، اریٹیریا دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہے:
Eritrea is one of the poorest countries in the world.
یہ تجربہ کشمیریوں کے لیے ایک چشم کشا واقعہ ہے۔ کشمیر اگر بالفرض ایک آزاد ملک بن جائے تو یقینی طور پر اس کا انجام وہی ہوگا جو اریٹیریا کا ہوا ۔ یعنی آزاد کشمیر کے نام پر ایک برباد کشمیر کا وجود میں آنا۔کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں نتیجہ کو دیکھیں نہ کہ صرف لیڈروں کے خوب صورت نعرے کو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث موطا امام مالک،مسند احمد، سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ، اور صحیح ابن حبان، وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ سنن الترمذی کے الفاظ یہ ہیں: إن من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ ۔(حدیث نمبر 2318)یعنی بے شک اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ انسان اس چیز کو چھوڑ دے جس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ مشہور محدث ابوداؤد (وفات 275 ھ) نے اس حدیث کی شرح کے تحت لکھا ہے : یکفی الإنسان لدینہ أربعة أحادیث أحدہا قولہ صلى اللہ علیہ وسلم الأعمال بالنیات، والثانی قولہ من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ الخ۔ (معالم السنن، 4/365) یعنی انسان کو اپنے دین کے لیے چار احادیث کافی ہیں۔ ان میں سے ایک مذکورہ حدیث ہے۔ یعنی بے نتیجہ کام کو چھوڑ دینا۔
انسان اپنے ذہن کے تحت ایک کام شروع کرتا ہے۔ درمیان میں اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا منصوبہ غلط تھا، اس کا منصوبہ مطلوب نتیجہ پیدا کرنے والا نہ تھا۔ جب یہ حقیقت معلوم ہو تو سچے مسلمان کو چاہیے کہ وہ فوراً اپنے غلط اندازے کا اعتراف کرتے ہوئے اس عمل کو چھوڑدے۔اور تجربات کی روشنی میں اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ یہی طریقہ اسلام کے مطابق ہے ، اور یہی طریقہ دانش مندی کے مطابق۔
تقریبا ستر سال کا عمل اور اریٹیریا جیسے ملکوں کی مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کشمیریوں کی نام نہاد تحریکِ آزادی یقینی طور پر ایک بے نتیجہ تحریک ہے۔ ایسی حالت میں کشمیر کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اعلان کردیں کہ ماضی میں ہم نے غلطی کی ، اب ہم اپنے عمل کی تصحیح کرتے ہیں۔ یعنی کشمیر کے موجودہ ڈھانچے کو تسلیم کرتے ہوئے تعمیر و ترقی کا منصوبہ بنانا۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کا نشانہ آزاد کشمیر کے بجائے ترقی یافتہ کشمیر ہونا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

برکت کا مطلب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا۔ اصحاب رسول کے درمیان کسی معاملے میں اختلاف ہوگیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رائے کے حق میں اپنا فیصلہ دیا۔ حضرت عمر بن الخطاب نے اس موقع پر صحابہ سے کہا کہ اللہ نے اپنے رسول کی رائے میں برکت دی ہے(بارک اللہ فی رأی رسولہ)۔
اس طرح کی اور بھی حدیثیں ہیں جن میں برکت کا لفظ آیا ہے۔ برکت کا لفظ ایسے مواقع پر کسی پراسرار معنی میں نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ پوری طرح ایک معلوم معنی میں ہوتا ہے۔ یعنی اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک ایسے انسان کے بارے میں ہوتی ہے جو ہمیشہ غیر متعصبانہ رائے قائم کرتا ہے، جو ہمیشہ قرآن کی ہدایات پر غور کرتا رہتا ہے، جو ہمیشہ ذکر اور دعا میں مشغول رہتا ہے، جو منفی سوچ سے مکمل طور پر پاک ہے، وہ مکمل طور پر مثبت سوچ (positive thinking)والا انسان ہے، وہ ایک ایسا انسان ہے جو حالات میں گھرا ہوا نہیں ہے، وہ ہمیشہ حالات سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے قائم کرتا ہے، اس کی رائے وقتی تاثر کے تحت بننے والی رائے نہیں ہوتی، بلکہ وہ غیر متاثر ذہن کا نتیجہ ہوتی ہے۔
یہی وہ چیزیں ہیں جس نے رسول کی شخصیت بنائی تھی۔ رسول ایک پہلو سے اللہ کا نمائندہ تھا، اور دوسرے پہلو سے وہ انسان کے لیے ایک اسوہ (role model) کی حیثیت رکھتا تھا۔صحابیٔ رسول کے اس جملہ سے ہمیں یہی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر تم چاہتے ہوکہ تمھاری رائے درست رائے ہو توتفکر اور تدبر کے معاملے میں رسول اللہ کا طریقہ اختیار کرو۔ رسول اللہ کے نمونے کے مطابق اپنے ذہن کی تربیت کرو۔ رسول اللہ کےذہن کے مطابق اپنا ذہن بناؤ ۔رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ وسیع تر اعتبار سے اس قول میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اس طرح تدبرکرو جس طرح تم رسول کو تدبر کرتے ہوئے پاتے ہو۔ اگر تم ایسا کروگے تو تمھاری رائے اللہ کی توفیق سے درست رائے بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

جنگ، اسلام میں

اسلام کی آئڈیالوجی توحید ہے۔اسلام کی تمام تعلیمات در اصل توحید کے بنیادی تصور پر مبنی ہیں۔ اسلام کی دوسری تعلیم امن ہے۔ امن کی اہمیت عملی ضرورت کے اعتبار سے ہے۔ اسلام کا اصل مقصد اصلاحِ انسان ہے۔ اور اس قسم کے مقصد کو صرف امن کے حالات میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ امن معتدل حالات کا ذریعہ ہے۔ اور معتدل حالات عمل کو ممکن بنا دیتے ہیں۔
اسلام میں جنگ کوئی مستقل اصول نہیں، اسلام میں جنگ قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت پیش آنے والاایک وقتی عمل ہے، نہ کہ کسی ابدی اصول کے تحت کیا جانے والا مستقل عمل۔ اسلام میں جنگ کا حکم سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
1 - اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ۔ (8:39) اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔ یہ جنگ کی وہ قسم ہے جواسلام کے دورِ اول میں وقتی ضرورت کے تحت پیش آئی۔ اب یہ ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لیے اب ختم فتنہ کے نام پر جنگ کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ قدیم زمانے میں مذہبی آزادی (religious freedom)کو مسلمہ انسانی حق کی حیثیت حاصل نہ تھی، اب مذہبی آزادی ایک مسلمہ انسانی حق کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اب دنیا میں نہ فتنہ ہے، نہ فتنے کے نام پر جنگ کا کوئی جواز۔
قرآن کی اس آیت میں فتنہ سے مراد شرکِ جارح (aggressive shirk)ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو مذہبی جبر (religious persecution)کہا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے دنیا میں شخصی بادشاہت کا نظام قائم تھا۔ اس سیاسی نظام کے تحت مذہب کے معاملے میں انسان کے لیے کوئی آزادانہ چوائس (choice) موجود نہ تھا۔ اس زمانے کا اصول یہ تھا کہ جو حکومت کا مذہب، وہی عوام کا مذہب۔ مذہب حکومت سے وفاداری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ حکومت کے آفیشیل مذہب کے سوا کوئی اور مذہب اختیارکرنا، حکومت سے بغاوت کے ہم معنی تھا۔ اس لیے وہ جرم مستوجب سزا (cognizable offence) کی حیثیت رکھتا تھا۔
یہ صورتِ حال جو قدیم بادشاہت (kingship) کے تحت قائم تھی، وہ خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan of God)کے خلاف تھی۔ تخلیقی نقشہ کے مطابق ہر انسان کو پوری آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنے لیے جس مذہب کو چاہے اختیار کرے (18:29) ۔مگر بادشاہی نظام کے تحت مذہب انسان کے لیے ذاتی انتخاب کا مسئلہ نہ تھا بلکہ وہ جبر (compulsion)کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ یہ گویا خالق کے قائم کردہ تخلیقی نظام کو کالعدم (abolish) کرنے کے ہم معنی تھا۔ خالق کے نزدیک یہ ایک ناقابل قبول حالت تھی۔ چناں چہ اللہ نے رسول اور اصحابِ رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ اس فتنے کو بزور ختم کردیں۔ تاکہ خداکا منصوبہ اپنی اصل حالت پر قائم ہوجائے۔ یہی وہ خدائی منصوبہ ہے جس کا حکم اس آیت میں موجود ہے۔
یہ عمل (operation) پیغمبر اسلام کے زمانے میں شروع ہوا، اور خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کے زمانے میں وہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اس کے بعد ایک انقلابی عمل جاری ہوا جس کے نتیجے میں دنیا سے مذکورہ فتنہ کی حالت ختم ہوگئی۔ اس لیے اب اس مقصد کے لیے جنگ کی ضرورت عملا باقی نہیں رہی۔
اس معاملے کی وضاحت صحابیٔ رسول عبد اللہ ابن عمر (وفات: 73 ھ)کے ایک واقعے سے ہوتی ہے۔خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کی وفات سن 23 ھ میں ہوئی ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مسلم دنیا میں سیاسی انارکی کی صورت پیدا ہوگئی۔ اس زمانے میں عبد اللہ بن زبیر(وفات: 73 ھ) اور اموی حکوت کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ عبد اللہ بن عمر اس کے خلاف تھے، انھوں نے اس جنگ میں شرکت نہ کی۔ اس زمانے میں کچھ مسلمان آپ کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ اس جنگ میں کیوں شریک نہیں ہیں، حالاں کہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ فتنہ کے خلاف جنگ کرو (8:39) ۔ عبد اللہ ابن عمر نے جواب دیا کہ تمھاری جنگ کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن کی یہ آیت جس جنگ کے بارے میں تھی، اس جنگ کی ضرورت اب ختم ہوچکی ہے۔ اس موقع پر انھوں نے کہا : قد فعلنا على عہد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم (صحیح البخاری، حدیث نمبر4650) یعنی وہ جنگ ہم رسول اللہ کے زمانے میں کرچکے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ختم فتنہ کی جنگ ایک مخصوص حالت کی جنگ تھی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شروع ہوئی ۔ اور اس کے نتیجے میں مکہ سے مشرکین کا سماجی اور سیاسی غلبہ ختم ہوگیا۔یہ جنگ صحابہ کے زمانے میں مزید جاری رہی۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں وہ تکمیل تک پہنچ گئی۔ جب کہ ایک طرف ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور دوسری طرف بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد عملا دنیا میں مذہبی جبر کی جگہ مذہبی آزادی کا دور شروع ہوگیا۔ یہ عمل(process) مزید جاری رہا۔ یہاں تک کہ یورپ میں جمہوری انقلاب آنے کے بعد وہ آخری طور پر مکمل ہوگیا۔ اب نہ وہ فتنہ ہے، اور نہ اس فتنے کے نام پرکسی جنگ کی ضرورت ۔
2 - اس سلسلے میں قرآن کی دوسری آیت کے الفاظ یہ ہیں: فَمَا اسْتَقَامُوا لَکُمْ فَاسْتَقِیمُوا لَہُمْ (9:7) یعنی جب تک وہ تم سے سیدھے (پر امن)رہیں تم بھی ان سے سیدھے (پر امن) رہو۔ قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں دو قوموں کے درمیان کی اس صورتِ حال کا ذکر ہے جس کو صلح و جنگ کا معاملہ کہا جاتا ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دو قوموں کے درمیان صلح اور جنگ کا معاملہ بین اقوامی قانون کے تحت فیصل ہوگا، بین اقوامی معاہدات کے ذریعے جو اصول طے ہوجائیں، وہی اصول اہل اسلام کے لیے بھی قابل قبول ہوں گے۔ یعنی بین اقوامی قانون کے مطابق صلح اور بین اقوامی قانون کے مطابق جنگ۔ صلح و جنگ کے معاملے میں مسلمانوں کا کوئی الگ اصول نہ ہوگا۔ اس کو مزید تعین کی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ موجودہ زمانے میں اقوام متحدہ (United Nations)کو تمام قوموں نے باقاعدہ طور پر قبول کرلیا ہے۔ مسلمان بھی اس تنظیم کو دوسری قوموں کی طرح قبول کریں گے۔ وہ دوسری قوموں سے صلح و جنگ کے معاملات کو اقوام متحدہ کے تحت طے کریں گے نہ کہ اس سے آزاد ہوکر۔
حقیقت یہ ہے کہ قتال فتنہ کی آیت (8:39) میں قتالِ خاص کا ذکر ہے۔ اور اس کے مقابلے میں دوسری آیت (7:9) میں حالتِ عام کا ذکر ہے۔ حالت ِخاص کا دور ختم ہوچکا، اب ہم صرف حالت عام کے دور میں ہیں۔ حالتِ عام کے زمانے میں اہل اسلام بھی دوسری قوموں کی طرح عالمی نظام کے پابند ہوں گے۔ اقوام متحدہ (UN) کے تحت جو اصول تمام قوموں کے لیے قابلِ قبول ہوں، وہی اصول اہل اسلام کے لیے بھی قابل قبول ہوں گے۔
حدیث رسول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تنبیہہ امت مسلمہ کو پیشگی طور پر یہ خبر دی تھی کہ امت کے اندر بڑے پیمانے پر لڑائیاں ہوں گی۔ اس سلسلے میں ایک روایت یہ ہے: ألا وإنّی أخاف على أمتی الأئمةَ المضلین، وإذا وُضِع السیف فی أمتی لم یُرفع عنہا إلى یوم القیامة (مسند احمد، حدیث نمبر22452) یعنی سن لو، میں ڈرتا ہوں اپنی امت پر گمراہ کرنےوالے لیڈروں سے، اور میری امت میں جب لڑائی شروع ہوجائےگی، تو وہ قیامت تک ان سےختم نہیں ہو گی۔
اس مفہوم کی اور بھی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ یہاں یہ سوال ہے کہ رسول اللہ نے جو دین امت کو دیا تھا، وہ تو امن اور رحمت کا دین تھا۔ پھر کیوں ایسا ہوگا کہ امت مسلمہ بعد کے زمانے میں جنگ و قتال میں مشغول ہوجائے گی۔ اس کا جواب خود اس حدیث میں موجود ہے۔ ایسا خود امت کے لیڈروں کی غلط رہنمائی کی بنا پر ہوگا، جو امت مسلمہ کے اندر بعد کے زمانے میں پیدا ہوں گے، اور قرآن و حدیث کی خود ساختہ تاویل کرکےامت کو جنگ و قتال کے راستے پر ڈال دیں گے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت ہوگا جب کہ غلط تاویل و تشریح کے ذریعے جنگ کو عقیدہ کا مسئلہ بنادیا جائے گا۔ حقیقت کے اعتبار سے جنگ ایک وقتی ضرورت کا عمل ہے، جنگ کا اسلام کےاعتقادی نظام (belief system)سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ مگر بعد کے زمانے کے بھٹکے ہوئے لیڈر جنگ کو خود ساختہ تاویل کے ذریعے اسلام کے اعتقادی نظام کاحصہ بنادیں گے۔ یہی وہ چیز ہے جو جنگ کو امت کے لیے ایک مقدس عمل کی حیثیت دے دے گی جو کبھی ختم نہ ہو۔
جنگ کو اگر حقیقی ضرورت کی چیز سمجھا جائے تو اس کا معیار (criterion) نتیجہ (result) ہوگا۔ یعنی مثبت نتیجہ نکلے تو جنگ کی جائے گی، ورنہ جنگ بند کردی جائے گی۔ لیکن جب ایسا ہو کہ جنگ کو عقیدہ کا درجہ دے دیا جائے تو وہ ہر حال میں جاری رکھی جائے گی۔ خواہ دنیا میں اس کا کوئی نتیجہ نکلتا ہو یا نہ نکلتا ہو۔ کیوں کہ اب لڑنے والوں کا ذہن یہ ہوگا کہ اگر وہ لڑائی میں مارے جائیں تب بھی وہ کامیاب ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے مفروضہ کے مطابق یہ سمجھیں گے کہ مر کر وہ ’’مقتول فی سبیل اللہ‘‘ کا درجہ پائیں گے، اور موت کے بعد سیدھے جنت میں داخل ہوں گے۔
قرآن و حدیث کی مذکورہ تشریح سرتاسر بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں جنگ کا تعلق قانون ضرورت (law of necessity) سے ہے۔ جب ضرورت ختم تو لڑائی بھی ختم۔ اسلام کے اعتقادی نظام کی بنیاد صرف وہ چیزیں ہیں جن کو حدیث میں پانچ ارکان (ارکانِ خمسہ) کہا گیا ہے۔ اسلام کا اعتقادی نظام (belief system) ہمیشہ وہی رہے گا جو قرآن و حدیث میں بتادیا گیا، اس میں کوئی کمی یا اضافہ سرے سے جائز نہیں۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندراسلام کے نام پر جو تشدد کلچر جاری ہے، اس کا سبب یہی ہے۔ یہ گویاغلط تاویل کے ذریعے جائز کردہ تشدد (justified violence) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ خود کش بمباری (suicide bombing) کرکے قصداً اپنے کو ہلاک کرتے ہیں۔ کیوں کہ بطورِ خود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہلاک ہوتے ہی وہ فورا جنت میں پہنچ جائیں گے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو سَیف کلچر یا تشدد کلچر بڑے پیمانے پر جاری ہے، اس کو ختم کرنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اسلام میں جنگ کا تعلق اسلام کے اعتقادی نظام سے نہیں ہے۔ اس کا جواز وقتی طور پرصرف حقیقی ضرورت کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس لیے جنگ کو اس کے نتیجے کے اعتبار سے جانچا جائے گا، نہ کہ عقیدے کے اعتبار سے ۔اور جیسا کہ عرض کیا گیا اب جنگ مکمل طور ایک بے نتیجہ چیز بن چکی ہے۔
اقدام سے بہتر اقدام نہ کرنا ہے جب کہ اقدام کا نتیجہ
بد سے بد تر ثابت ہونے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں

بڑا اجر

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن اللہ إذا أحب قوما ابتلاہم، فمن رضی فلہ الرضا، ومن سخط فلہ السخط (سنن الترمذی، حدیث نمبر: 2396) یعنی بے شک بڑا اجر بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، اور اللہ جن لوگوں سے محبت کرتا ہے، ان کو وہ آزمائش میں ڈال دیتا ہے، تو جو راضی ہوگیا، اس کے لیے رضا مندی ہے، اور جو ناراض ہوگیا، اس کے لیے ناراضگی ہے۔
اس حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش ایمانی ترقی کا زینہ ہے۔ آزمائش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں ایک ہلچل پیدا ہوتی ہے، اس کی چھپی ہوئی صلاحیتیں جاگتی ہیں۔ اس سے انسان کو طرح طرح کے شاک (shock)کا تجربہ ہوتا ہے۔
ان ناخوشگوار تجربات کے دوران جو آدمی منفی نفسیات میں مبتلا ہوجائے،جو نفرت اور غصہ کا شکار ہوجائے، جو شکایت اور جھنجھلاہٹ میں جینے لگے، وہ آزمائش میں ناکام ہوگیا۔ ایسے انسان کو آزمائش سے کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس، جو انسان ذہنی بیداری کے ساتھ جیتا ہو، وہ آزمائش میں اعتدال پر قائم رہے گا،ناخوشگوار تجربہ کے باوجود وہ اپنی مثبت سوچ (positive thinking) کو باقی رکھے گا۔ یہی وہ انسان ہے جس نے آزمائش سے خیر کی غذا حاصل کی۔
آزمائش بظاہر کسی نہ کسی مصیبت کی شکل میں آتی ہے۔جو لوگ مصیبت سے گھبرا اٹھیں، ان کو آزمائش سے شکایت اور مایوسی کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا، لیکن جو لوگ آزمائش کو اللہ کے منصوبے کا جزء سمجھیں، وہ آزمائش کا استقبال مثبت ذہن کے ساتھ کریں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آزمائش، ان کے اجر میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔
اللہ کے یہاں انعامات کی کمی نہیں۔ لیکن کسی کو اللہ کا بڑا انعام ہمیشہ اس وقت ملتا ہے، جب کہ وہ اس کے لیے بڑا استحقاق پیدا کرے۔ بڑے استحقاق کا خلاصہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں اپنے آپ کو مثبت سوچ پر قائم رکھے۔ کوئی بھی واقعہ اس کی مثبت سوچ کو برہم کرنے والا نہ بنے۔
واپس اوپر جائیں

غلطی کا اعتراف

اگر کسی سے معاملہ کرتے ہوئے، آپ سے کوئی غلطی ہوجائے۔ اس کے بعد آپ شرمندہ ہوں، اور فوراً یہ کہہ دیں کہ بھائی صاحب، مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھ کو معاف کردیجیے:
Sorry, I was wrong !
اگر آپ ایسا کہیں۔ تو آپ کی طرف سے یہ غلطی پر معافی مانگنے کا معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے شخص کے لیےوہ اس کے ضمیر (conscience) کو جگانے کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اس کا ضمیر اس سے کہتا ہے کہ دوسرے شخص نے شرافت کا ثبوت دیا ہے۔ تم کو بھی اسی طرح شرافت کا ثبوت دینا چاہیے۔ وہ اگر اپنی غلطی کی معافی مانگ رہا ہے تو تم کو بھی اس کے ساتھ اسی درجے کا کوئی معاملہ کرنا چاہیے۔
غلطی کی معافی مانگنا بظاہر ایک پسپائی کا معاملہ ہے۔ لیکن انسانی نفسیات کے اعتبار سے وہ اقدام کا ایک معاملہ ہے۔ معافی مانگنے والااپنے شرافت کا ثبوت دے کر فریقِ ثانی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ شرافت کا ثبوت دے۔ تاکہ لوگوں کی نظر میں اور خود اپنی نظر میں وہ کم تر ثابت نہ ہو۔
غلطی کرنے کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا، معاملے کو بڑھاتا ہے۔ اس کے برعکس، غلطی کرنے کے بعد غلطی کا اعتراف کرنا معاملےکو ختم کردیتا ہے۔ ایک واقعہ جو انسانوں کے درمیان نفرت کا سبب بن سکتا تھا، وہ دونوں کو ایک دوسرے کا دوست بنا دیتا ہے۔ آدمی نے غلطی کرکے جو کچھ کھویا تھا، وہ غلطی کا اعتراف کر کے اس سے بہت زیادہ پالیتا ہے۔
غلطی کرنے کے بعد ، اپنی غلطی کی صفائی پیش کرنا یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ اس کی غلطی، غلطی نہیں تھی، صرف نادانی کاکام ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی غلطی کرنے کے بعد فورا اپنی غلطی کومان لے۔ فوراً اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا ایک موقع کو کھونے کے ہم معنی ہے، ایک ایسا موقعہ جو دوبارہ کبھی آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کی نصیحت

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: قال أنس بن مالک، قال لی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: یا بنی، إن قدرت أن تصبح وتمسی لیس فی قلبک غش لأحد فافعل(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2678)۔ انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا، اے میرے بیٹے، اگر تم اس پر قادر ہو کہ تم صبح کرو اور تم شام کرو اور تمھارے دل میں کسی شخص کے خلاف غش نہ ہو تو تم ضرور ایسا کرو۔
غش کا مطلب کینہ (malice) ہے۔ حدیث میں غش کا لفظ نکرہ ہے ۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ تمھارے دل میں کسی کے خلاف کسی قسم کا کوئی کینہ یا بغض نہ ہو۔ یہ مومن کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ سچا مومن وہ ہے جس کے دل میں کسی کے خلاف کسی بھی قسم کا کینہ موجود نہ ہو۔
ایک آدمی کے اندرکسی کے خلاف کینہ کب پیدا ہوتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی وجہ سے اس کے دل میں غصہ یا ناراضگی پیدا ہوجائے۔ کسی کے خلاف کینہ کبھی بلاسبب پیدا نہیں  ہوتا۔ کینہ جب بھی کسی کے دل میں آتا ہے تو ہمیشہ اس کے پاس اپنے کینے کے لیے ایک سبب موجود ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمھارے پاس اپنے کینے کے لیے کوئی سبب موجود ہو تب بھی تم کینہ نہ کرو۔
اس نصیحتِ رسول کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ اپنے ایمان کی شعوری حفاظت کرو۔ گویا زبان سے ایمان کا کلمہ دہرا دینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ مسلسل طور پر اس کی نگرانی کرنا ہے۔ تاکہ کوئی مخالفِ ایمان چیز آدمی کے دل میں داخل نہ ہو۔ کوئی ایسی سوچ اس کے اندر ڈیولپ نہ کرے جو اس کے ایمان کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ اگر آدمی اپنے ایمان کی شعوری نگرانی نہ کرے تو عین ممکن ہے کہ وہ کسی ایسی چیز میں مبتلا ہوجائے جو اس کے ایمان میں خلل ڈالنے والی ہو، جو اس کے لیے اس کی جنت کو مشتبہ بنادے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاط کی اہمیت

ایک حدیثِ رسول مسند احمد، سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ، الادب المفرد، وغیرہ کتابوں میں آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر على أذاہم، أعظم أجرا من الذی لا یخالط الناس ولا یصبر على أذاہم۔ (حدیث نمبر23098) یعنی وہ مومن جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، اس کا اجر اس سے زیادہ ہے جو لوگوں سے میل جول نہیں رکھتا، اور ان کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔اس حدیث میں اختلاط کا مطلب میل جول (interaction) ہے۔ ایک شارح حدیث نے اس کی شرح کرتے ہوئے کہا کہ إن الخلطة أفضل من العزلة (تحفۃ الاحوذی7/177) یعنی تنہائی کی زندگی کے مقابلے میں میل جول کی زندگی زیادہ افضل ہے۔ اختلاط کی زندگی کا افضل ہونا صرف اخلاق کے معنی میں نہیں ہے۔ اس سے زیادہ وہ شخصیت کی تعمیر (personality development) کے معنی میں ہے۔
یہ فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان کے اندر سنجیدگی ہو۔ اس کے اندر سوچنے اور نصیحت لینے کا مزاج ہو۔تو ہر اختلاط اس کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔لوگوں سے انٹرایکشن کے درمیان اس کو طرح طرح کے تجربات پیش آتے ہیں۔وہ لوگوں سے نئی نئی باتیں سیکھتا ہے۔ اختلاط کے دوران اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری اصلاح کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی معلومات سے اپنے علم میں اضافہ کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری محدودیت کو عالمی فکر میں تبدیل کرسکے۔انٹرایکشن کا یہ فائدہ اس انسان کو ملتا ہے جس کے اندر سیکھنے کا مزاج (spirit of learning) ہو۔ جوباتوں کو غیر متعصبانہ انداز میں دیکھ سکے۔ وہ جو کچھ سنے اس کو آبجکٹیو (objective) انداز میں میں لے، نہ کہ سبجکٹیو (subjective) انداز میں ۔ اس کے اندر اعتراف کا مادہ ہو۔ وہ کسی رائے کو سچائی کے اعتبار سے دیکھے، نہ یہ کہ وہ کس شخص کی رائے ہے۔ وہ پورے معنوں میں نفسِ مطمئنّہ (complex-free soul) کی حیثیت رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

رحمتِ الٰہی سے محرومی

صحیح البخاری میں ایک روایت ترجمہ باب: خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وہو لا یشعر کے تحت نقل کی گئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: عن عبادة بن الصامت، أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم خرج یخبر بلیلة القدر، فتلاحى رجلان من المسلمین فقال: إنی خرجت لأخبرکم بلیلة القدر، وإنہ تلاحى فلان وفلان، فرفعت۔ (حدیث نمبر 49) عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے کہ شب قدر کے بارے میں بتادیں، پھر مسلمانوں میں سے دو شخص آپس میں جھگڑنے لگے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نکلا تاکہ میں تم کو شب قدر کے بارے میں بتادوں، پھر فلاں اور فلاں آپس میں جھگڑنے لگے،تو اس کا علم اٹھالیا گیا۔
یہ حدیث صرف شب قدر کے بارے میں نہیں ہے بلکہ وہ مسلمانوں کے بارے میں اللہ کی ایک سنت کو بتا رہی ہے۔ وہ سنت یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد ہو تو ان پر اللہ کی رحمت اور نصرت نازل ہوگی۔ اس کی بنا پر وہ اپنی زندگی میں کامیاب رہیں گے۔ لیکن اگر مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑا کرنے میں مبتلا ہوں تو وہ رحمت بھی ان سے واپس چلی جائے گی جو ان کے لیے اللہ کی طرف سے مقدر کی گئی تھی۔
جھگڑا کیا ہے۔ وہ ایک سلسلۂ واقعات کا نام ہے۔پہلے رائے کا اختلاف پیدا ہوتا ہے،پھر وہ باہمی نفرت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد لوگوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر مزید بڑھ کر یہ ہوتا ہے کہ لوگ آپس میں باقاعدہ لڑنے لگتے ہیں۔ جب مسلمانوں کا حال یہ ہوجائے تو وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہوجاتے ہیں، نہ کہ اللہ کی رحمت کے مستحق۔
رائے کا اختلاف ایک فطری چیز ہے، لیکن رائے کے اختلاف کو قطع تعلق اور عناد تک پہنچادینا ، بلاشبہ ایک برائی ہے۔ وہ نہ صرف لوگوں کے درمیان باہمی اتحاد کو ختم کردیتی ہے، بلکہ اس کے بعد مثبت دینی کام کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فساد فی الارض

قرآن میں اہل نفاق کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (2:11) یعنی اور جب ان سے کہا جا تا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
قرآن کی اس آیت کا تعلق ظلم و تشدد جیسی چیزوںسے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ آیت مکہ میں نازل ہوتی، جہاں عملاً ایسا کیا جارہا تھا۔ یہ آیت مدینہ میں اتری، اور اس کو اہل نفاق کا عمل بتایا گیا۔ جیسا کہ معلوم ہےمدینہ کے منافقین ظلم اور تشدد جیسی کارروائی نہیں کر رہے تھے۔ تواس آیت میں وہی فعل مراد لیا جائے گا جو مدینہ کے منافقین عملا کر رہے تھے۔
اس پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں جس چیز کو فساد فی الارض بتایا گیا ہے اس سے مراداہل نفاق کی وہ منفی کار روائیاںہیں جو توحید کی تحریک کے خلاف وہ مدینہ میں چلارہے تھے۔ وہ لوگ بظاہر مسلمان تھے لیکن وہ اپنے ایمان میں مخلص نہ تھے۔ ان کو مسلمانوں سے بغض تھا، لیکن وہ دنیوی مفاد کے تحت مسلمانوں سے وابستہ ہو گیےتھے۔ ان کا اصل مقصود دنیوی مفاد تھا نہ کہ اخروی مفاد۔
جب انھوں نے دیکھا کہ مخلص مسلمان اسلام میں ترقی کررہے ہیں تو ان کو مخلص اہل ایمان سے حسد ہوگیا۔ وہ ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ وہ مخلص اہل ایمان کے کام کو کمتر کرکے دکھانے لگے۔ وہ ایسی باتیں کرنے لگے جس سے مخلص اہل ایمان کی تصویر (image) لوگوں کی نظروں میں خراب ہوجائے۔ اسی منافقانہ روش کو قرآن میں زمین میں فساد پھیلانا کہا گیا ہے۔
وہ سازشی انداز میں اہل ایمان کےخلاف معاندانہ کارروائی کرتے تھے۔ یعنی ان کو بدنام کرنا، ان کی تصویر بگاڑنا، ان کے کام کو گھٹا کر پیش کرنا،ان کےخلاف ایسی باتیں کہنا جس سے ان کے اندر آپسی نفرت پھیل جائے، لوگ ان کی طرف متوجہ ہونا چھوڑدیں۔ اہل انکار کا طریقہ کھلی دشمنی ہوتا ہے، اور اہل نفاق کا طریقہ چھپی دشمنی۔
واپس اوپر جائیں

عبادت، دعوت

اسلام میں نماز اور روزہ بھی عبادت ہے، اور دعوت الی اللہ کا کام بھی عبادت ہے۔ مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ نماز اور روزہ جیسا عمل کامل طور پر اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ اس میں انسان کی ساری توجہ ایک اللہ کی طرف ہوتی ہے۔ وہ اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے لگتا ہے، اور اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے لگتا ہے۔ یہی ان عبادات کا کمال ہے۔
دعوت الی اللہ بھی ایک عبادت ہے مگر یہاں ایک فرق ہے۔ دعوت کا عمل انسان کے اوپر کیا جاتا ہے۔ دعوت کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کا پیغام مدعو کے دل میں اتر جائے۔ مدعو اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے۔
دعوت کا معیارداخلی نیت کے اعتبار سے یہ ہے کہ وہ اللہ کے لیے ہو، لیکن ظاہر کے اعتبار سے داعی کی سرگرمیوں کا نشانہ انسان ہوتا ہے۔ اس لیے دعوت کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر انسان فرینڈلی (human-friendly) ہو۔ وہ یک طرفہ طور پر انسان کی خیرخواہی کے جذبے پر مبنی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام صبر کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اسی لیے دعوت کا حکم دیتے ہوئے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ۔ (7:74) داعی اپنے مدعو سے کسی شرط کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ داعی کو یک طرفہ طور پر خود یہ ذمہ داری لینا ہوتا ہے کہ داعی کی بات مدعوکے دل میں اتر جائے۔ داعی کے اندر اگر یک طرفہ خیر خواہی کا جذبہ نہ ہو تو وہ کبھی دعوت کا کام حقیقی طور پر انجام نہیں دے سکتا۔ قرآن میں داعی کو ناصح (7:68) کہا گیا ہے۔ ناصح کا مطلب خیرخواہ (well-wisher) ہے۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ طورپر مدعو کا خیر خواہ ہو۔ اس یک طرفہ خیر خواہی کے بغیر کوئی شخص اللہ کی نظر میں داعی کا مقام نہیں پا سکتا۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مدعو کی ہدایت کا حریص (9:128) بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

شیطان کا طریقہ

قرآن میں بار بار بتایا گیا ہے کہ انسان کا اصل دشمن شیطان ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ شیطان کے معاملے میں ہوشیار رہے۔ جس نے اپنے آپ کو شیطان کے فریب سے بچایا، وہی اللہ کی نظر میں کامیاب انسان ہے۔ شیطان کے بہکانے کا طریقہ کیا ہے۔ یہ طریقہ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے: وَشَارِکْہُمْ فِی الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْہُمْ ۔(17:64) اور مال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا، اور ان سے وعدہ کر۔
قرآن کی اس آیت میں مال اور اولاد کا لفظ علامتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے تمام معاملات میں اس کے ساتھ شامل ہوجا۔ وعدہ کا لفظ یہاں اَمانی کے مفہوم میں ہے۔ یعنی لوگوں کو خوش فہمی (wishful thinking) میں مبتلا کرنا۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے شیطان لوگوں کو راستے سے بھٹکا دیتا ہے۔
شیطان کے بہکانے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک خارجی شخص کی حیثیت سے لوگوں کے پاس آئے، لوگ اس سے باخبر ہوں کہ یہ شیطان ہے، پھر وہ لوگوں کو خارجی مشورہ کے ذریعے گمراہی میں ڈال دے۔ شیطان آدمی کے پاس ایک خارجی مشیر کی حیثیت سے نہیں آتا۔ بلکہ وہ انسان کے ذہن میں داخل ہوکراس کی سوچ کو متاثر کرکے اس کو ایسا بنادیتا ہے کہ وہ جو کچھ کریں ، اس طرح کریں جیسے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ خود اپنی سوچ کے تحت کررہے ہیں۔
مثلاً ایک شخص کو دوسرے شخص سے ایک ذاتی شکایت پیدا ہوئی ۔ اس وقت شیطان اس کی سوچ میں داخل ہوکر اس کو اس طرح متاثر کرتا ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کی سوچ ایک درست (genuine) سوچ ہے۔ یہی شیطانی تزئین ہے۔ اس وقت جو آدمی اس راز کو جان لے کہ میں شیطان کی مداخلت سے ایسا سوچنے لگا ہوں، اس نے اپنے آپ کو ہلاکت سے بچایا، اور جو آدمی اس طرح نہ سوچے، وہی وہ شخص ہے جو ہلاک ہوا۔
واپس اوپر جائیں

زد میں آنے سے بچیے

اگست 2015 کی 20 تاریخ تھی۔ صبح کا وقت تھا۔ مَیں دہلی میںاپنے آفس کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہاں ایک شیڈ ہےجس میں چھت کا پنکھا (ceiling fan) لگا ہوا ہے۔ اس وقت ایک کبوتر اڑتا ہوا وہاں آیا۔ وہ چلتے ہوئے پنکھے کے ساتھ ٹکرا گیا۔ وہ زخمی ہوکر گرپڑا، اورپھڑپھڑانے لگا، تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مرچکا ہے۔
اس منظر نے میرے ذہن کو جھنجھوڑ دیا۔ میں سوچنے لگا: کیا یہ پنکھا کبوتر کا دشمن ہے۔کیا اس پنکھے نے ظالمانہ طور پر اس کبوتر کا خون کیا ہے۔ میرے ذہن نے جواب دیا کہ نہیں۔ پنکھے کو معلوم ہی نہیں کہ اس کے چلنے سے کیا حادثہ پیش آیا۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ کبوتر چلتے ہوئے پنکھے کی زد میں آگیا۔ وہ فورا پنکھے سے ٹکرا گیا۔ وہ زخمی ہو کر گرا، اور چند منٹ کے اندر مرگیا۔ مزید سوچتے ہوئے میرے ذہن میں آیا کہ اس واقعے میں ہر ایک کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ وہ یہ کہ اپنے آپ کو دوسرے کی زد میں آنے سے بچاؤ۔ اور پھر تمھیں کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
یہ دنیا ایک متحرک دنیا ہے۔ یہاں ہر چیز مسلسل طور پر حرکت میں ہے۔ اسی طرح ہر انسان، اور ہر انسانی گروہ اپنی اپنی دوڑ لگا رہا ہے۔ یہ دوڑ بھاگ کسی کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص نادانی کرے، اور جانتے بوجھتے یا بغیر جانے ہوئےلوگوں کے دوڑ کی زد میں آجائے تو وہ اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا۔ اس لیے نہیں کہ دوسرا اس کو جان بوجھ کر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ بلکہ اس لیے کہ وہ اپنی نادانی سے اس کی دوڑ کی زد میں آگیا۔ یہی اس دنیا کا امتحان ہے۔ یہاں کوئی کسی کا دشمن نہیں۔ یہاں کوئی ظالم اور سازشی نہیں۔ آپ اگر دوسروں کے ظلم کو دریافت کرکے اس کے خلاف شکایت کریں تو اس کا ہرگز کوئی فائدہ نہیں۔ کیوں کہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ فطرت کے قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ فطرت کے قانون کو دریافت کریں، اور اپنی زندگی کا منصوبہ اس طرح بنائیں کہ آپ دوسروں کی زد میں آنے سے بچ جائیں۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راستہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

اعتراف، بے اعترافی

المتنبی (وفات : 965 )عربی زبان کا ایک نامور شاعرہے۔ اس کے اشعار حکمت اور فلسفۂ حیات کے لیے مشہور ہیں۔ المتنبی نے اپنے ایک شعر میں کہا— اگر تم شریف انسان سے عزت کا معاملہ کرو تو تم اس کے مالک بن جاؤگے، اور اگر تم کمینہ انسان کے ساتھ عزت کا معاملہ کرو تو وہ سرکشی کرے گا:
إذا أنت أکرمت الکریم ملکتہ وإن أنت أکرمت اللئیم تمردا
شریف آدمی کا مزاج حقیقت پسندی کا مزاج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے تو وہ جھک جائے گا، وہ اس کا بھرپور اعتراف کرے گا۔ اس کا حقیقت پسندی کا ذہن اُس کو اِس سے روکتا ہے کہ وہ کوئی ایسی بات کہے جو امر واقعہ کے خلاف ہو۔ شرافت اور اعتراف، دونوں ہمیشہ ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ شریف آدمی اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ اس کے ساتھ اگر کسی نے اچھا سلوک کیا ہے تو وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔
غیر شریف آدمی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ غیر شریف آدمی ایک خود پسند آدمی ہوتا ہے۔ وہ کام کا کریڈٹ خود لینا چاہتا ہے۔ اس مزاج کی بنا پر اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنا چھوٹا کام بڑا کام دکھائی دیتا ہے، اور دوسرے کا بڑا کام یا تو نظر نہیں آتا یا اصل سے کم نظر آتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ شریف آدمی زندہ قوم کا فرد ہوتاہے، اور غیر شریف آدمی زوال یافتہ قوم کا فرد۔ زندہ قوم کی صفات میں سے ایک اہم صفت حقیقتِ واقعہ کا اعتراف ہے۔ زندہ قوم کا فرد اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ ایک حقیقت کو جانے، اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ اس کے برعکس، زوال یافتہ قوم کا حال یہ ہوتا ہےکہ اس کے افراد حساسیت سے خالی ہوجاتے ہیں۔ وہ حقیقت کے مقابلے میں اپنے آپ کو زیادہ بڑا سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو زوال یافتہ قوم کے افراد کے اندر تمرد پیدا کردیتی ہے یعنی بے اعترافی کا مزاج ۔
واپس اوپر جائیں

زحمت میں رحمت

ایک امریکی خاتون مارگریٹ مشل( Margaret Munnerlyn Mitchell) کو ان کی زندگی میں کئی حادثات پیش آئے۔ ان کے پاؤں کی ہڈی میں شدید چوٹ آئی، جس کی وجہ سے وہ بستر پر پڑگئیں۔ ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی کام نہ رہا کہ وہ بستر پر لیٹے ہوئے کتابیں پڑھتی رہیں۔
کتابوں کے مطالعے کا سلسلہ لمبی مدت تک جاری رہا۔ ان کے شوہر ان کو کتابیں لاکر دیتے ، اور وہ برابر ان کو پڑھتی رہیں۔ اسی میں کئی سال گزر گئے۔ یہاں تک کہ ان کے گھر میں کتابوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اب ان کے شوہر نے کہا کہ تم کب تک کتابیںپڑھتی رہوگی، اب تمہیں لکھنا چاہیے۔ اس کے بعد مارگریٹ مشل نے ایک ناول لکھنا شروع کیا۔
اس طرح انھوں نے ایک ضخیم ناول تیار کیا، جس کا نام تھا: گان ودھ دا ونڈ (Gone with the Wind)۔ یہ ایک المیہ تھا۔ اس المناک کہانی کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ مصنفہ نے اپنی کتاب کے خاتمے پر جو الفاظ لکھے، وہ یہ تھے— آخر کار کل کا دن ایک اور دن ہوگا:
After all, tomorrow is another day
حالات نے مارگریٹ مشل کے دل کو ایک درد مند دل بنادیا۔ ان کے اندر گہری سوچ پیدا ہوگئی۔ وہ زندگی کے بارے میں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ سوچنے لگیں۔ خارجی سرگرمیوں کے خاتمے کے بنا پر، ان کی داخلی سوچ بہت گہری سوچ بن گئی۔ اس کا نتیجہ مذکورہ ناول کی صورت میں برآمد ہوا۔ ان کا یہ ناول بہت زیادہ مقبول ہوا۔ حتی کہ اس کا شمار دنیا کے ٹاپ کے ناولوں میں ہونے لگا۔
انسان کے ساتھ مصیبتیں آتی ہیں۔ لیکن انسان پتھر نہیں ہے۔ مصیبت اس کے ذہن کو متحرک کرتی ہے۔ اس کے دل کو حساس دل بنادیتی ہے۔ وہ زیادہ سوچنے والا بن جاتا ہے۔ وہ ایک کٹ ٹو سائز انسان بن جاتا ہے۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے کام کر ڈالتا ہے جو عام حالات میں وہ نہیں کرسکتا تھا۔ پہلے اگر وہ مین(man) تھا تو اب وہ سوپر مین(superman) بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تیار ذہن

سوال و جواب کے سلسلے میں اصل اہمیت تیار ذہن (prepared mind )کی ہے۔ ماہنامہ الرسالہ اپنے قاری کے اندر یہی تیار ذہن بناتا ہے، اور جب ذہن تیار ہو جائے تو اس کے بعد آدمی اس قابل ہو جاتا ہے کہ آسانی کے ساتھ وہ خود ہر سوال کا جواب معلوم کر سکے۔
کوئی شخص اپنے سوال کا جواب اس طرح معلوم نہیں کرسکتا کہ وہ ایک عالم سے سوال کرے، اور وہ عالم اس کو اس کے سوال کا جواب دے دے۔ بلکہ ضروری ہے کہ سائل اپنے آپ کو ایک تیار ذہن بنائے۔ وہ مطالعہ کرے، غور وفکر کرے، اور متعلق معلومات حاصل کرے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو ایک تیار ذہن بنائے گا۔ وہ اس قابل ہوجائے گا کہ جواب دینے والا جب اس کے سوال کا جواب دے تو وہ اس کے جواب کو بھر پور طور پر سمجھ لے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر جواب اپنے آپ میں ادھورا ہے۔ سائل اگر تیار ذہن ہو تو وہ جواب کی کمی کو اپنی طرف سے پورا کر لیتا ہے، اور پھر وہ جواب اس کے لیے ایک اطمینان بخش جواب بن جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر سوال کے بہت سے گوشے ہوتے ہیں۔ کوئی جواب ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ سوال کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر لے۔ یہی وجہ ہے کہ سائل کوعام طور پر ایک جواب سے تشفی نہیں ہوتی۔ جواب سننے کے بعد ، سائل کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کو اپنے سوال کا جواب نہیں ملا۔
اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ سائل اپنے سوال کو مکمل بنانے کی کوشش کرے، یا جواب دینے والا اپنے جواب کو اتنا مفصل بنائے کہ وہ ہر پہلو کا احاطہ کرلے۔ یہ ایک ناقابل عمل بات ہے۔ قابل عمل بات صرف یہ ہے کہ سائل ، سوال کرنے سے پہلے اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے تیار کرے۔ وہ جواب کی کمی خود پورا کرے، نہ کہ جواب دینے والے سے ایسی امید رکھے جو عملاً پوری ہونے والی نہیں۔ یہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
میں ماہنامہ الرسالہ کا ایک پابند قاری ہوں۔آپ کی تحریر ذہن کو کسی حد تک متاثر ضرور کرتی ہے۔ لیکن آپ کے متعلق میں تذبذب کا شکار ہوگیا ہوں۔ کیوں کہ آپ کی تصانیف میں تضاد ہے۔ آپ نے ماہنامہ الرسالہ شمارہ نمبر 436 (مارچ 2013)اور شمارہ نمبر 445 (دسمبر 2013)میں سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 21 کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے: تمھارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ کا، اور آخرت کے دن کا امیدوار ہو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرے۔ جب کہ آپ ہی کی تصنیف (اردو) ترجمۂ قرآن میں اس آیت کا ترجمہ اس طرح ہے : تمھارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ تھا، اس شخص کے لیے جو اللہ کا ااور آخرت کے دن کا امیدوار ہو، اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
الرسالہ میں آپ نے اللہ کے رسول میں نمونہ میں بہترین نمونہ ’’ہے‘‘ لکھا ہے، جب کہ ترجمۂ قرآن میں اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ’’تھا‘‘ لکھا ہے۔ آپ کے مطابق اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ تھا تو کیا ہمارے لیے اللہ کے رسول اب بہترین نمونہ نہیں رہے؟ اور اگر اللہ کے رسول بہترین رول ماڈل نہیں ہیں تو ہمیں کس کی پیروی کرنی چاہیے؟ یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے۔ الفاظ کی معمولی تبدیلی سے ایمان تبدیل ہوجاتا ہے۔ آپ کی تحریر میں یہ تضاد آپ کے ایمان پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ اگر یہ غلطی چھپائی کے دوران ہوئی ہے تو اس معاملے کی تحقیق کرکے آپ اس کتاب کی اشاعت روک دیں۔ اب تک یہ کتاب لاکھوں لوگوں کے درمیان پہنچ چکی ہے۔ آپ نے قرآن کو copyright free کیا ہے۔ اس طرح تو کوئی بھی شخص اس میں کوئی بھی تبدیلی کرکے اس کو شائع کرسکتا ہے۔ جب کہ کوئی بھی مصنف اپنی تصنیف کو copyright reserved رکھتا ہے۔ اور اگر آپ نے یہ غلطی جان بوجھ کرکی ہے تو میدانِ محشر میں آپ کن لوگوں کی صف میں کھڑے ہوں گے، اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اگر آپ نے اس غلطی کی اصلاح نہیں کی تو میں اس معاملہ کو مسلم علماء اور مسلم میڈیا کے سامنے پیش کروں گا۔اس لیے آپ اس معاملے کو فوری طور پر حل کریں، اور مجھے اس سے مطلع فرمائیں۔ (شیخ آصف، بلڈانہ، مہاراشٹر)
جواب
عربی زبان میں’’کا نَـ‘‘ کا لفظ وسیع معنی میں آتا ہے۔ کبھی ماضی کے معنی میں، جیسے وَکَانَ فِی الْمَدِینَةِ تِسْعَةُ رَہْطٍ (27:48)، اور کبھی حال کے معنی میں، جیسے کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(3:110)، اور کبھی مستقبل کے معنی میں، جیسے مَا کَانَ لَکُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَہَا (27:60)۔ تاہم ترجمہ کے اس فرق سے معنی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ چنانچہ قرآن کے اردو مترجمین نے دونوں ترجمے کیے ہیں۔ ہے کا ترجمہ بھی، اور تھا کا ترجمہ بھی۔ مثلا قرآن کی آیت لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیرًا (33:21) میں دونوں قسم کے ترجمے کیے گیے ہیں۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے اس آیت میں’’کا نَ‘‘ کا ترجمہ’’ہےـ‘‘ کے ساتھ کیا ہے اور شاہ عبد القادر صاحب اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نےاس آیت میں ’’کا نَـ‘‘ کا ترجمہ’’ـ تھا ‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔
آپ سے گزارش ہے کہ اس طرح کا سوال کرنے میں کبھی جلدی نہ کریں کیوں کہ حدیث میں آیا ہے : العجلۃ من الشیطان ۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر4058) اس معاملے میں آپ کو چاہیے تھا کہ آپ پہلے لغات اور تراجم کو دیکھ کر تحقیق کرتے۔ پھر اس کے بعد اپنا خط تحریر فرماتے۔ سوال و جواب کا یہ طریقہ احتیاط کے خلاف ہے۔
اسی طرح اس خط میں درج ہے کہ ’’آپ کی تحریر میں یہ تضاد آپ کے ایمان پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔‘‘ یہ جملہ لکھنے سے پہلے آپ کو اس حدیث پر غور کرنا چاہیے تھا جس میں آیا ہے : لا یرمی رجل رجلا بالفسق، ولا یرمیہ بالکفر إلا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک (مسند احمد، حدیث نمبر21571) ایک شخص جب بھی کسی پر دوسرے شخص پر فسق کا الزام لگاتا ہے، یا اس پر کفر کا الزام لگاتا ہےتو ضرور وہ خود اس کی طرف لوٹ آتا ہے، اگر دوسرا شخص ایسا نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں