Pages

Thursday 1 June 2017

Al Risala | June 2017 (الرسالہ، جون)

1

-رمضان کا مہینہ شکر کا مہینہ

2

- اعتکاف کا مہینہ

3

- ہزار مہینے کے برابر

4

- یہ قرآن کی فضیلت نہیں

5

- قرآن کی تفسیر

6

- قرآن، کتاب مہجور

7

- اعلی معرفت

8

- اللہ کے ننانوے نام

9

- عطیات خداوندی

10

- اللہ کے محبوب بندے

11

- مومن قوی، مومن ضعیف

12

- اپنی تعمیر آپ

13

- انسان کی تخلیق

14

- جنت کس کے لیے

15

- جنت انسان کا ہیبیٹاٹ

16

- استعداد بڑھایے

17

- ابلیس کا طریقہ

18

- انسان اللہ کا امین

19

- موت کا مثبت تصور

20

- ری ایکشن کا کلچر

21

- دعوت سے بے خبری

22

- اجتہادی خطا کا معاملہ

23

- اصل مسئلہ

24

- بقدر استطاعت کا اصول

25

- دلیل کے بغیر

26

- مصیبت کا قانون

27

- ہر چیز ہر ایک کے لیے

28

- منفی سوچ نہیں

29

- چلو یہ بھی ٹھیک ہے

30

- غلطی کو سنبھالنا

31

- خبرنامہ اسلامی مرکز


رمضان کا مہینہ شکر کا مہینہ

رمضان کا مہینہ روزہ (fasting)کا مہینہ ہے۔ رمضان کے بارے میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا، ہدایت ہے لوگوں کے لئے اور کھلی نشانیاں راستہ کی اور حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے، وہ اس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اس کی گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، وہ تمہارے ساتھ سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ کی بڑائی کرو اس پر کہ اس نے تم کو راہ بتائی اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔ (البقرۃ 185:)۔
رمضان میں روزہ رکھنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کے لیے شکر کا رمائنڈر ہے۔ انسان کو ایک ضرورت مند مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کے لیے ہر لمحہ کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے— کھانا، پانی، ہوا، آکسیجن، روشنی، وغیرہ ۔ اسی کے ساتھ انسان کے لیے ضرورت ہے کہ اس کی دنیا اس کے لیے فرینڈلی دنیا (friendly world) ہو۔ یہ تمام چیزیں انسان کو ہر لمحہ اور ہر روز ملتی رہتی ہیں۔ مگر انسان ان کا شکر نہیں کرتا۔ کیوں کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ لیتا رہتا ہے۔ انسان کے اسی مزاج کی بنا پر ضرورت ہے کہ اس کے لیے ایک خصوصی رمائنڈر ہو، جو اس کو اس معاملے میں سالانہ یاددہانی کا کام کرے، اور اس کو بار بار غفلت سے جگاتا رہے۔
رمضان کی سالانہ روزہ داری کا یہی مقصد ہے۔ رمضان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر نعمتوں کے اعتراف کی اسپرٹ جگائی جائے۔ غذا کا ترک اس اعتبار سے ایک علامتی ترک ہے۔ روزہ کے ذریعہ انسان کو وقتی طور پر بھوک اور پیاس کا تجربہ کرایا جاتا ہے۔تاکہ وہ تمام خدائی عطیات کو یاد کرے۔ وہ سوچے کہ اگر یہ عطیات مجھ کو حاصل نہ ہوں تو میرا کیا حال ہوگا، اور پھر وہ اللہ کے معطی (giver) ہونے کا اعتراف کرے۔ وہ اللہ کی بڑائی کو دریافت کے درجے میں معلوم کرلے۔
واپس اوپر جائیں

اعتکاف کا مہینہ

رمضان کا مہینہ روزے کا مہینہ ہے۔ رمضان میں اہل ایمان پورے مہینہ ہر دن روزہ رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ رمضان کا مہینہ اعتکاف کا مہینہ ہے۔ متعین اعتکاف اگرچہ چند دنوں کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن غیر متعین اعتکاف پورے مہینہ جاری رہتا ہے۔ اعتکاف کی دو صورتیں ہیں، جسمانی اعتکاف اور فکری اعتکاف۔ جسمانی اعتکاف میں آدمی اپنے آپ کو الگ کرکے مسجد میں معتکف ہوجاتاہے۔ تاکہ وہ زیادہ یکسوئی کے ساتھ عبادت کرے، اور زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرے۔
اسی کے ساتھ اعتکاف کی ایک اور صورت ہے جس کو فکری اعتکاف (intellectual etikaf) کہا جاسکتا ہے۔ یہ اعتکاف ہر وقت اور ہر جگہ جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف میں آدمی اپنا زیادہ وقت تفکر اور تدبر میں گزارتا ہے۔ وہ دین کی باتوں میں غور کرتا ہے، اور اپنے آس پاس کی دنیا سے دینی سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ روحانی اعتکاف (spiritual etikaf) میں مشغول رہتا ہے۔
اصطلاحی طور پر اعتکاف وہی ہے جو مسجد میں کیا جاتا ہے۔ لیکن جب آدمی روزہ داری کی زندگی گزارتا ہے تو فطری طور پر اس کے اندر روزہ دارانہ سوچ پیدا ہوتی ہے۔ وہ اللہ والی سوچ میں مشغول رہتا ہے۔ دین کی باتیں اس کے ذہن میں گھومتی رہتی ہیں۔ وہ آخرت سے متعلق باتوں کے بارے میں غور وفکر کرتا رہتا ہے۔ یہ ذہنی اعتکاف ہے۔
اعتکاف کی یہ دوسری صورت اگرچہ قانونی اعتبار سےروزے کا حصہ نہیں ہے، لیکن وہ بلاشبہ روزہ دارانہ زندگی کا فطری حصہ ہے۔ جب آدمی ماہ رمضان میں روزہ دارانہ زندگی گزارتا ہے تو بار بار اس کا مائنڈ اس موضوع پر ٹریگر (trigger) ہوتا رہتا ہے۔ معروف روزہ داری اگر اس کے روزے کا قانونی حصہ ہوتی ہے تو یہ دوسری روزہ داری اس کے روزے کا فطری حصہ بن جاتی ہے۔ایک کی اہمیت اگر فارمل اعتبار سےہے تو دوسرے کی اہمیت غیر فارمل اعتبار سے۔
واپس اوپر جائیں

ہزار مہینے کے برابر

قرآن کی سورہ نمبر 97 میں لیلۃالقدر کا ذکر ہے جو ہر سال رمضان کے مہینے میں آتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس مبارک رات میںاللہ رب العالمین کے فرشتے بڑی تعداد میںاللہ کے خصوصی منصوبہ کے تحت زمین پر اترتے ہیں۔ یہاں تک کہ فرشتوں کی کثرت کی بنا پرلیلة القدر کی رات امن کی رات (night of peace) بن جاتی ہے۔
اس سورہ میں رات کا لفظ انسان کی نسبت سے آیا ہے۔ یعنی وہ انسان جس کو اس رات کا فیض حاصل ہوجائے،جو لوگ اپنی ذہنی بیداری کی بنا پر اس رات کو پہچانیں، اور اس سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں، ان کے اندر مبنی بر سلام شخصیت بنے گی۔ ایسے لوگ مکمل معنوں میں امن پسند انسان (peaceful person) بن جائیں گے۔ ان کے اندر کامل معنوں میں پر امن سوچ (peaceful thinking) پیدا ہوجائے گی۔ اس رات کوملنے والی یہ پر امن غذا (peaceful food) جس کو حقیقی معنوں میں حاصل ہوجائے ، اس کے لیےوہ ہزار ماہ کی مدت تک کافی ہوجائے گی۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنی ساری عمر کے لیے ایک پرامن انسان (peaceful person) بن جائے گا۔
پر امن انسان بننا کوئی سادہ بات نہیں ۔ پر امن انسان بننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جس کا دل منفی سوچ (negative thoughts) سے خالی ہو، وہ انسان جس کے اندر کامل معنوں میں تواضع (modesty) ہو، وہ انسان جو ہر قسم کے ڈسٹریکشن (distraction)سے بچا ہوا ہو، وہ انسان جو اپنی روحانی بلندی کی بنا پر اعلی حقائق میں جینے والا بن گیا ہو۔
امن پسند انسان سے مراد وہ انسان ہے جس کے لیے قرآن میں نفس مطمئن (89:27) اور قلب سلیم(26:89) جیسے الفاظ آئے ہیں۔ پرامن انسان وہ ہے جس کا دل غیر اللہ کی فکر سے خالی ہوجائے، جس کے دماغ میں اللہ کی نسبت سے کوئی کنفیوزن (confusion) باقی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

یہ قرآن کی فضیلت نہیں

ایک عالم نے قرآن پرایک مضمون شائع کیا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:وَلَا رَطْبٍ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ (انعام59:)۔ یعنی کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جو روشن کتاب (قرآن کریم) میں موجود نہ ہو۔ اس آیت کریمہ سے پتا چلا کہ زمین و آسمان کی ساری موجودات، بحر و بر، شجر و حجر، جمادات و نباتات، جن و انس، خاک کے ذرے، پانی کے قطرے، حیوانات اور دیگر مخلوقات، الغرض عالم کی پست و بالا کی جس چیز کا تصور کر لیجیے، قرآن نے صرف دو لفظ ’’ولا رطب و لا یابس‘‘ کہہ کر کائنات کے ایک ایک ذرے کا احاطہ کرلیا ہے اور ان سب چیزوں کا علم قرآن میں موجود ہے۔
یہ قرآن کا صحیح تعارف نہیں ہے۔ قرآن کوئی انسائیکلوپیڈیائی معلومات کی کتاب نہیں، قرآن ربانی ہدایت کی کتاب ہے۔ قرآن زندگی کی حقیقت کو بتاتا ہے۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ ہم دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ آخرت میں اللہ ہمارے لیے ابدی جنت میںداخلے کا فیصلہ فرمائے۔
قرآن معرفت کی کتاب ہے، وہ معلومات (information)کی کتاب نہیں۔ قرآن میں معلوماتی باتوں کا ذکر بھی ہے، لیکن وہ ہدایت ربانی کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ مجرد معلومات دینے کے لیے۔ مثلاً انسان کے جسم پر کتنے بال ہیں ، یہ ایک معلوماتی نوعیت کی چیز ہے۔ اس کو قرآن میں نہیں بتایا گیا ہے۔ البتہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کا جسم نہایت بامعنی جسم ہے۔ اس کی صورت گری نہایت حکمت کے انداز میں کی گئی ہے۔ انسان اگر اپنے جسم کی ساخت پر غور کرے تو وہ خالق کو اور تخلیق کی حکمت کو دریافت کرے گا، جو اس کے ایمان میں اضافہ کا سبب بن جائے گا۔ قرآن کی فضیلت خود قرآن کے مقصد تنزیل کے اعتبار سے معلوم ہوتی ہے، نہ کہ کسی انسان کے خودساختہ معیار کے اعتبار سے، اور قرآن کا معیار یہ ہے کہ اس پر ہدایت ربانی کے اعتبار سے غور کیا جائے، قرآن میں تدبر کے ذریعے کلمات اللہ اور آلاءاللہ کی معرفت حاصل کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی تفسیر

قرآن کی تفسیر میں کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں۔ عام طریقہ یہ ہے کہ ان مفسرین کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے طبقے میں صحابہ کی تفسیریں ہیں۔ مثلاً عبداللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن مسعود، وغیرہ۔ دوسرے طبقہ میں تابعین کی تفسیریں ہیں۔ مثلاً عکرمہ اور مجاہد، وغیرہ۔ تیسرے طبقے میں وہ لوگ جنھوں نے صحابہ و تابعین کے اقوال کو جمع کیا، مثلاً عبد الرزاق،اور سفیان بن عیینہ وغیرہ۔ چوتھے طبقہ میں وہ لوگ ہیں جنھوں نے صحابہ و تابعین کے اقوال پر اپنی توجیہہ اور ترجیح اور استنباط کو شامل کیا۔ مثلاً ابن جریر طبری،وغیرہ۔پانچویں طبقہ میں ان لوگوں کو شمار کیا گیا ہے ، جو قرآن کی تفسیر میں لغوی فوائد اور وجوہ اعراب کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً ابو اسحاق الزجاج اور ابو جعفر النحاس ،و غیرہ۔ چھٹے طبقہ میں وہ مفسرین آتےہیں جو کسی خاص علم میں شغف رکھتے تھے، اور اسی کے مطابق انھوں نےاپنی تفسیریں لکھی ہیں۔ مثلاً ابو حیان الاندلسی کی تفسیر البحر المحیط، جو نحوی قواعد کے اعتبار سے لکھی گئی ہے،اورابوبکر الجصاص کی احکام القرآن جس میں فقہی اعتبار سے آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ ساتویں طبقہ میں دور جدید کے مفسرین کو شمارکیا جاسکتا ہے۔ مثلاً محمد عبدہ، رشید رضا ، اور سید قطب ،وغیرہ۔
مفسرین کے طبقات کی یہ تقسیم عملا ًدرست ہے، لیکن وہ بعد کے زمانے میں قائم کی گئی ہے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، اس میں صراحت کے ساتھ صرف ایک ہی طبقہ کا ذکر کیا گیا ہے، اور وہ قرآن میں تدبر اور تفکر کرنے والے لوگ ہیں۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ تاہم ظاہر ہے کہ یہ تدبر آزادانہ تدبر نہیںہوگا، بلکہ وہ اس معاملے میںتمام معتبر مآخذ اور معتبر شخصیتوں کو شامل کرکے کیا جائے گا۔ مطالعہ قرآن کا مقصد صرف فنی تقاضے کو پورا کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ قاری کے اپنے ذہن کا جزء بن جائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے:بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُورِ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ (29:49)۔
واپس اوپر جائیں

قرآن، کتاب مہجور

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آٗئی ہے: وَقَالَ الرَّسُولُ یَارَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا (25:30)۔ رسول کہے گا کہ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑی ہوئی کتاب بنا دیا۔
قرآن کو کتاب مہجور (abandoned book) بنانے کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد کے زمانے میں امت ایسا کرے گی کہ وہ قرآن کو کسی اندھیرے گوشے میں ڈال دے، اور وہ اس سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ امت خواہ اپنے دور زوال میں ہو تب بھی اس کے لیے ایسا کرنا بالکل ناممکن ہے۔ قرآن بعد کے زمانے میں امت کا فخر (pride) بن جاتا ہے۔ پھر کیسے کوئی امت ایسا کرسکتی ہے کہ وہ قرآن کو اپنے لیے ایک چھوڑی ہوئی کتاب بنادے۔
اصل یہ ہے کہ حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ صرف زمانے کے اعتبار سے نہیں ، بلکہ روز و شب کے اعتبار سے بھی۔ مثلا ًبنو قریظہ کی روایت (صحیح البخاری، حدیث نمبر946) کے مطابق چند گھنٹوں کے اندر بھی حالات بدل سکتے ہیں، اور نئے اجتہاد کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس لیے قرآن کو کتاب ہدایت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ امت کے علماءاور رہنماء اجتہاد کی صلاحیت کے حامل ہوں۔ وہ ہر نئی صورت حال میں قرآن کی تطبیق نو (reapplication) تیار کرسکیں۔ وہ قرآن کی ابدی تعلیمات کی وقتی تفسیر دریافت کرتے رہیں۔
اس معاملہ میں صحیح تطبیق کےلیے ضروری ہے کہ آدمی وقت کے حالات کا نہایت صحیح اندازہ کرسکے۔ اگر وہ اپنی غیر حقیقت پسندانہ فکر کی بنا پر موافق صورت حال کو اپنے لیے مخالف صورت حال سمجھ لے۔ تو وہ بدلے ہوئے حالات میںقرآن کی صحیح تطبیق دریافت کرنے میں ناکام رہے گا۔ وہ کسی حکم کا ایسا مفہوم سمجھ لے گا، جس کا کوئی تعلق قرآن سے نہ ہوگا۔ اس بنا پر قرآن کی درست تطبیق کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر درست فکر موجود ہو۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ معرفت

معرفت الٰہی کا اعلی درجہ وہ ہے جو مبنی بر حکمت معرفت (wisdom-based realization) ہو۔ یہ معرفت کی وہ قسم ہے جو ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے، جنھوں نے اپنے آپ کو اعلی درجے کے ذہنی ارتقا (intellectual development) پر پہنچایا ہو۔ عبد اللہ ابن رواحۃ (وفات8:ھ) اسی قسم کے ایک صحابی تھے۔ ان کے بارے میں ایک روایت حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے:عن أنس بن مالک، قال:کان عبد اللہ بن رواحة إذا لقی الرجل من أصحابہ، یقول:تعال نؤمن بربنا ساعة، فقال ذات یوم لرجل، فغضب الرجل، فجاء إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللہ، ألا ترى إلى ابن رواحة یرغّب عن إیمانک إلى إیمان ساعة؟ فقال النبی صلى اللہ علیہ وسلم: یرحم اللہ ابن رواحة، إنہ یحب المجالس التی تتباہى بہا الملائکة (مسند احمد، حدیث نمبر13796)۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ عبداللہ بن رواحہ ایسا کرتے تھے کہ جب وہ کسی صحابی سے ملتے تو وہ اس سے کہتے کہ آؤ، تھوڑی دیر اپنے رب پر ایمان لے آئیں، ایک دن انہوں نے یہی بات ایک آدمی سے کہی تو وہ غصہ ہوگیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر اس نے کہاکہ یا رسول اللہ ، کیا آپ ابن رواحہ کو نہیں دیکھتےکہ وہ لوگوں کو آپ پر ایمان لانے کے بجائے تھوڑی دیر کے لئے ایمان کی طرف بلاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ابن رواحہ پر رحم کرے، وہ ان مجلسوں کو پسند کرتے ہیں جن پر فرشتے رشک کرتے ہیں۔
یہ مبنی بر حکمت معرفت کی ایک مثال ہے۔ معلوم ریکارڈ کے مطابق بعد کے زمانے میں غالباًاس قسم کی معرفت کا تصور باقی نہ رہا۔اس کے بجائے ایک اور تصور رائج ہوگیاجس کو مبنی بر قلب تصور کہا جاسکتا ہے۔ اس دوسرے قسم کے معرفت کی ایک مثال محی الدین ابن عربی (وفات 638ھـ ) کی ہے۔ اس موضوع پر ان کا ایک شعر یہ ہے: العبد عبد وان ترقى والرب رب وان تنزل۔ بندہ بندہ ہے، اگرچہ وہ اوپر چڑھے۔ اور رب رب ہے، اگرچہ وہ نیچے اترے۔
اس قسم کی ایک اور مثال ابن قیم الجوزیة (وفات 751: ھـ)کی ہے۔ انھوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے: وَقَالَ تَعَالَى {لَیْسَ کمثلہ شَیْء} فَہَذَا من الْمثل الْأَعْلَى وہو مستو على قلب الْمُؤمن فہو عرْشہ (الفوائد، بیروت، 1973 ، صفحہ 27) ۔ اللہ نے فرمایا: اس کے مانند کوئی چیز نہیں(الشوری: 11)۔ اس لیے یہ ایک اعلی مثال کا معاملہ ہے۔ اور وہ مستوی ہے مومن کے قلب پر، پس مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے۔
موجودہ زمانے میں سائنسی دریافتوں نے مبنی بر حکمت معرفت کے دائرے کو بہت زیادہ وسیع کردیا ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس نے جس نیچرل ورلڈ (natural world) کو دریافت کیا ہے، وہ پورا کا پورا گویا مبنی بر حکمت معرفت کی تفسیر ہے۔ ان دریافتوں نے موجودہ زمانے میں انسان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ زیادہ بڑے پیمانے پر اعلی معرفت والا ایمان حاصل کرے۔
موجودہ زمانے میں سائنس کا ایک نیا موضوع (subject) وجود میں آیا ہے۔ اس کو انٹلجنٹ یونیورس (intelligent universe) کہا جاتا ہے۔ انٹلجنٹ یونیورس کے بارے میں سائنس کی نئی دریافتوں نے ساری کائنات کو معرفت اعلی کی کائنات بنا دیا ہے۔ اس موضوع پر موجودہ زمانے میں اہل علم نے کافی لکھا ہے۔ بطور مثال چند کتابیں یہ ہیں:
The Intelligent Universe, by Fred Hoyel (1984)
The Intelligent Universe: A Cybernetic Philosophy, by David Blythe Foster (1975)
The Intelligent Universe by James N. Gardner (2007)
Intelligent Universe: The Light-Second Code and the Golden Ratio, by Hristo Smolenov (2016)
اس موضوع پر کثیر تعداد میں مقالات اور کتابیں موجودہ زمانے میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان تمام کتابوں اور مقالات کا موضوع بلااعلان رب العالمین کی معرفت ہے۔ ایک عربی ٹائٹل کے مطابق ان کو اللہ یتجلی فی عصر العلم کہا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کے ننانوے نام

حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے ننانوےنام ہیں(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2677)۔ سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر 3861)میں ان ننانوے ناموں کو شمار کرکے بتایا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ان ناموں کا احصا کرے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اس حدیث کا مطلب عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ننانوے ناموں کو یاد کرلیا جائے، اور تسبیح پر ان کا شمار جاری رکھا جائے۔ تو اس عمل سے آدمی جنت میں داخل ہوگا۔ مگر یہ عمل ننانوے نام کا ایک مصغر مفہوم (کمترمفہوم)ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہاںنام (اسماء) سے مراد صفات (attributes)ہیں۔ مزید یہ کہ ننانوے سے مراد گنتی نہیں ہے، بلکہ اس سےمراد یہ ہے کہ اللہ کی بے شمار صفتیں ہیں۔ ذکر سے مراو ورد نہیں ہے، بلکہ باربار زندہ شعور کے ساتھ اللہ کو یادکرنا ہے۔ یہ بار بار کی یاد کس طرح ہوتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اللہ کی آیات (نشانیوں )کو دریافت کرنا، اور ان کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا کر برابر اللہ کی یاد کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہنا۔ مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِیفَتِہ (13:13) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہو، وہ جب بجلی کی گرج (thunder) کو سنے گا، تو وہ اس کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرنس بن جائے گی۔ وہ اس کو لے کر خالق کی عظمت کو یاد کرے گا۔ اس کے اندر خالق کے لیے خوف اور محبت کا چشمہ جاری ہوجائے گا۔
ننانوے نام کا مطلب وہی ہے جس کو قرآن میں دوسرے مقامات پر آیات کہا گیا ہے۔ یعنی کائنات میں اللہ کی بے شمار نشانیاں(signs) پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ نشانیاں ایک عارف انسان کے لیے اللہ کو یاد کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اس وقت وہ بے اختیارانہ طور پر اللہ کی یاد اور اس کی حمد میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اس عمل سے اس کی شخصیت میں ربانی ارتقا ہوتا رہتا ہے، اور ربانی معرفت کے اعتبار سے یہی ارتقا یافتہ شخصیت وہ ہے جس کو ابدی جنت میں داخلہ ملے گا۔
واپس اوپر جائیں

عطیات خداوندی

ایک طویل حدیث رسول مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:وکلکم فقیر إلا من أغنیت فسلونی أرزقکم (سنن الترمذی، حدیث نمبر2495)۔ یعنی اے میرے بندو، تم سب کے سب محتاج ہو مگر وہ جس کو میں عطا کروں،اس لیے تم مجھ سے مانگو میں تم کو رزق عطا کروں گا۔
اس حدیث رسول کا تعلق صرف غریب اور امیر سے نہیں ہے، بلکہ انسان کی تمام ضرورتوں سے ہے۔ انسان ایک ضرورت مند مخلوق ہے۔ اس کی بے شمار ضرورتیں ہیں۔ لیکن کسی بھی ضرورت کو وہ خود پورا نہیں کرسکتا۔ وہ اپنی ہر ضرورت کے لیے محتاج ہے کہ خالق اس کو مسلسل طور پر پورا کرے۔ اگر خالق کی طرف سے اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام نہ ہو تو انسان کا حال یہ ہوگا کہ وہ ضرورت مند تو ہوگا لیکن وہ اپنی کسی بھی ضرورت کو خود سے پورا کرنے پر قادر نہ ہوگا۔ یہ پہلو انسان کے لیےایک ایسا پہلو ہے کہ وہ ہر وقت دعا اور شکر میں مشغول ر ہے۔
مثلا ً انسان کے پاس آنکھیں ہیں، لیکن آنکھ سے دیکھنے کے لیے اس کو روشنی کی ضرورت ہے، اور روشنی خالق کی طرف سے مسلسل دی جارہی ہے، تب وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی آنکھ سے ہر چیز کو دیکھے۔ انسان کے پاس کان ہے، لیکن سننے کے لیے اس کو ہوا کی ضرورت ہے، اور ہوا کا مسلسل انتظام خالق کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انسان کے پاس نظام ہضم ہے، لیکن غذا کی فراہمی خالق کی طرف سے کی جارہی ہے، ورنہ انسان نظام ہضم کے باوجود بھوکا پڑا رہے گا۔ انسان کے جسم میں 78 آرگن (organs) ہیں، جو انسان کو مسلسل طورپر زندہ رکھتے ہیں، مگر ان آرگن کو متحرک رکھنے کا انتظام صرف خالق کی طرف سے کیا جاتا ہے،ورنہ انسان زندہ اور صحت مند نہ رہے، وغیرہ۔
یہ فہرست اتنی ہی وسیع ہے، جتنا کہ کائنات وسیع ہے۔ انسان اگر ان خدائی انتظامات کے بارے میں سوچے تو وہ ہر لمحہ شکر خداوندی میں غر ق رہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی ذکر خداوندی سے غافل نہ ہو،وہ الَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہ (2:165)کا مصداق بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کے محبوب بندے

پیغمبروں کی تاریخ کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (3:146)۔ یعنی اور بہت سے نبی گزرے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے قتال کیا، پھر جو مصیبتیں ان کو اللہ کی راہ میں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ ہمت ہارے نہ کمزور پڑے، اور نہ عاجز ہوئے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس آیت میں قتال اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے، بلکہ اپنے استعمالی معنی میں ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو پر امن جہاد (peaceful struggle) کہا جاتا ہے۔ قرآن سےیہ ثابت نہیں کہ دوسرے نبیوں نے قتال کیا۔ اس لیے یہاں قتال کو اس کے لفظی معنی میں لینا درست نہ ہوگا۔ بلکہ اس سے مراد پیغمبرانہ مشن کی راہ میں مجاہدہ کبیر ہے۔
آیت میں تین الفاظ آئے ہیں: وہن، ضعف، اور استکانت۔ یہ تینوں الفاظ قریب المعنی ہیں۔ تینوں الفاظ کا خلاصہ ایک ہے۔ یعنی دینی مشن کی راہ میں مشکلات کے باوجود اپنا حوصلہ باقی رکھنا۔ یہاں تین لفظ تاکید کے لیے آئے ہیں۔ جیسا کہ علم المعانی کا اصول ہےکہ ایک معنی پر دلالت کرنے والے مختلف الفاظ کا ذکرمبالغہ و تاکید(تاکیداً و مبالغۃً) کے لیےہوتا ہے۔ (دیکھیے: المزھر فی علوم اللغۃ للسیوطی، 1/318)
قرآن کی مذکورہ آیت میں وہن ، ضعف، استکانت بظاہر تین الفاظ ہیں۔ مگر تینوں قریب المعنی ہیں، اور یہاں الفاظ کی یہ تکرار برائے تاکید ہے۔ یعنی وہ اہل ایمان اللہ کو محبوب ہوتے ہیں جو دینی مشن کا کام اس طرح انجام دیں کہ ہر حال میں وہ استقامت پر قائم رہیں۔ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ان کے ارادے میں تزلزل پیدا نہ کرے۔ کوئی بھی پیش آنے والا واقعہ ان کے حوصلہ میں کمی کرنے والا ثابت نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

مومن قوی، مومن ضعیف

ایک حدیث رسول ہے:المؤمن القوی، خیر وأحب إلى اللہ من المؤمن الضعیف، وفی کل خیر (صحیح مسلم، حدیث نمبر2664)۔ یعنی طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کے مقابلے میں بہتر اور زیادہ محبوب ہے، اور ہر ایک کےلیے خیر ہے۔
انسان پیدائشی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں، طاقت ور اور کمزور۔ اس لیے اہل ایمان میں بھی دو قسم کے افراد ہوسکتے ہیں۔ تاہم جس طرح طاقت ور مومن کے لیے خیر ہے، یعنی وہ زیادہ بڑے کام کرسکتا ہے۔ اسی طرح کمزور مومن کے لیے بھی خیر ہے۔ بشرطیکہ اس کے اندر سچی ایمانی اسپرٹ پائی جائے۔طاقت ور مومن کے لیے خیر یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کی بنا پر دین کے لیے زیادہ بڑے بڑے کام کرسکتا ہے۔ لیکن اللہ کا عطیہ یہیں تک محدود نہیں۔ اللہ کا عطیہ اتنا وسیع ہے کہ کمزور مومن اگر استحقاق پیدا کرے تو وہ بھی اعلیٰ خیر تک پہنچ سکتا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اگرسچی اسپرٹ ہوتو کمزور مومن کچھ مزید صفات کا حامل ہوجاتا ہے۔ مثلا کمزور مومن میں تواضع (modesty)زیادہ ہوتی ہے۔ کمزور مومن دعا اور ذکر میں زیادہ مشغول ہوتا ہے۔ کمزور مومن اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اس کے دل سے اپنے عجز کی بنا پر ایسی دعائیں نکلیں جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہوں۔ اس قسم کے اسباب کمزور مومن کی روحانیت میں اضافہ کردیتے ہیں۔ طاقت ور مومن اگر جسمانی اعتبار سے قوی ہوتا ہے تو کمزور مومن اپنی روحانیت کے اعتبارسے قوی بن جاتا ہے۔
طاقت ور مومن کے لیے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی فخر (pride) میں مبتلا ہوجائے۔ لیکن کمزور مومن اس اعتبار سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ اپنے عجز کی بنا پر زیادہ سے زیادہ متواضع (modest) بن جاتا ہے۔ اس طرح کمزور مومن اپنی کمزوری کے باوجود اس بات کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اللہ اس کے عجز کی تلافی کے لیے اس کو اپنی خصوصی رحمت عطا فرمائے۔
واپس اوپر جائیں

اپنی تعمیر آپ

قرآن میں ایک نفسیاتی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15) ۔ یعنی بلکہ انسان خود اپنے آپ سے خوب باخبر ہے۔ چاہے وہ کتنے ہی عذرات پیش کرے۔ قرآن کی اس آیت میں ایک نفسیاتی حقیقت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ نفسیاتی حقیقت ہر انسان کے لیے ایک حجت داخلی کی حیثیت رکھتی ہے۔
انسان بظاہر دوسرے حیوانات کی طرح ایک حیوان ہے۔ مگر انسان کے اندر ایک صفت ایسی ہے جو اس کے لیےغیر مشترک صفت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ صفت صرف انسان کے اندر پائی جاتی ہے، کسی اور حیوان کے اندر نہیں۔ ایگو (ego) کی صفت انسان اور دوسرے تمام حیوانات میںغیر مشترک طور پر پائی جاتی ہے، کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ مگر ایک اضافی صفت ہے جو صرف انسان کو دی گئی ہے۔ یہ صفت کسی بھی حیوان کے اندر مطلق طور پر موجود نہیں۔ یہ ہے ضمیر (conscience) کی صفت۔ یعنی سیلف (self)کے ساتھ اینٹی سیلف (anti-self)کی صفت۔
یہ فرق بتاتا ہے کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایک سیلف میڈ مین (self-made man) بنے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنی نگرانی خود کرے۔ وہ اپنے اندر سیلف کرکشن (self-correction) کا پراسس (process) جاری کرے۔ وہ تعمیر خویش کا نمونہ بن جائے۔
انسان کو اس کے خالق نے مکسچر آف اپوزٹس (mixture of opposites) بنایا ہے۔ یہ انسان کے اوپر اس کے خالق کا احسانِ عظیم ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ انسان سیلف ڈسکوری (self-discovery) کی سطح پر کھڑا ہو۔ وہ اپنی غلطی کو خود دریافت کرکے اس کی اصلاح کرتا رہے۔ خدا کی کتاب اور کائنات کی نشانیاں بلاشبہ انسان کے لیے مددگار ہیں۔ اسی کے ساتھ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کوخود اپنے عمل سے جنت کے لیے ایک مستحق امیدوار (deserving candidate)بنائے۔
انسان کے لیے اللہ نے جنت کو مقدر کیا ہے۔ جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat) ہے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں پوری ہوں گی، جہاں انسان کو مکمل معنوں میں فل فلمنٹ (fulfilment)حاصل ہوگا۔ اس قسم کی جنت بلاشبہ انسان کے لیے خالق کا سب سے بڑا عطیہ ہے۔
انسا ن کےاوپر خالق کا مزید احسان یہ ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان کو جنت یہ کہہ کر دی جائے کہ تم کو جنت بطور استحقاق دی جارہی ہے۔ اگر چہ دینے والا پھر بھی خالق ہوگا۔ خالق کے بغیر انسان اس دنیا میں کوئی بھی چیز حاصل نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ خالق کی خصوصی عنایت ہے کہ وہ انسان کو جنت یہ کہہ کر دے کہ تم نے اپنے عمل سے اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کیا ہے ، اس لیے تم کو جنت دی جارہی ہے۔ اب تم اس میں ابدی طور پر عذر اور خوف سے محفوظ ہوکر قیام کرو۔
اس سلسلے میں ایک حدیث کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ وہ حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: والذی نفسی بیدہ لو لم تذنبوا لذہب اللہ بکم، ولجاء بقوم یذنبون، فیستغفرون اللہ فیغفر لہم (صحیح مسلم، حدیث نمبر2749)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تم کو ہٹا دے گا اور ایسی قوم کو لائے گا جو گناہ کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ انہیں معاف فرما دے گا۔
اس حدیث میں گناہ اور مغفرت کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں زیادہ اہم بات کیا ہے۔ وہ گناہ کے اور مغفرت کے درمیان جاری ہونے والا نفسیاتی عمل (psychological process) ہے۔ جب انسان کو ئی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے ایگو کا فعل ہوتا ہے۔ مگر عین اسی وقت انسان کی دوسری صفت ضمیر جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے اندر شدید ندامت کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔ اس طرح انسان کے اندر ایک داخلی اسٹرگل (struggle) جاری ہوجاتا ہے۔ یعنی ایگو اور ضمیر یا سیلف اور اینٹی سیلف کے درمیان داخلی اسٹرگل۔ اس داخلی اسٹرگل کے ذریعہ انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج کرتی ہے۔ یہ شخصیت احساسِ خطا کے بغیر بن نہیں سکتی۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

قرآن کی ایک سورہ کا نام التین ہے ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: گواہ ہے تین اور زیتون ۔ اور طورسینا ۔ اور یہ بلد امین ۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ تو اب کیا ہے جس سے تم جزاء و سزاکو جھٹلا تے ہو۔ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں۔
التین ، زیتون، طور سینین اور بلد امین، یہ چاروں علاقے چار پیغمبر وں کے مقامات عمل تھے۔التین کا تعلق حضرت نوح سے ہے، زیتون کا تعلق حضرت مسیح سے ، طور کا تعلق حضرت موسی سے ، اور بلد امین (مکہ) کا تعلق پیغمبر اسلام سے ۔ ان پیغمبروں نے انسان کو بتایا کہ اللہ رب العالمین کا نقشۂ تخلیق کیا ہے۔ اور اس کے مطابق اللہ انسان سے کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ خالق نے انسان کو احسن تقویم (best form) میں پیدا کیا۔ پھر اس کو اسفل سافلین (کمترین حالت) میں ڈال دیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اس کی تخلیق کے مطابق جو ہیبیٹاٹ (habitat) مطلوب ہے، اس دنیا میں وہ ہیبیٹاٹ انسان کو نہیں دیا گیا، بلکہ ایک ایسی دنیا میں اس کو بسایا گیا جو انسان کے لیے مطلوب ہیبیٹاٹ نہیں تھا۔ موجودہ دنیا انسان کو عام تقسیم کے اصول پر کسی استحقاق کے بغیر ملی ہے۔ مگر ہیبیٹاٹ صرف اس انسان کو ملے گا، جو موجودہ دنیا میں اپنے کردار سے اس کا استحقاق ثابت کرے۔
اس فرق کی بنا پر موجودہ دنیا میں انسان کا یہ حال ہے کہ وہ ہمیشہ غیر مطمئن رہتا ہے۔ کوئی بھی چیز اس کو سکون نہیںدیتی۔ کیوں کہ جس چیز سےاس کو سکون مل سکتا ہے، وہ اس کا ہیبیٹاٹ ہے، جو کہ موجودہ دنیا میں اس کو دیا ہی نہیں گیا۔ یہی موجودہ دنیا میں انسان کا اصل مسئلہ ہے۔ اس کی ایک مادی مثال مچھلی ہے۔ مچھلی کی ساخت دوسرے حیوانات سے مختلف ہوتی ہے۔ تمام حیوانات کی زندگی کے لیے آکسیجن ضروری ہے، تمام حیوانات ہوا سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔ لیکن مچھلی کی ساخت مختلف ہے۔مچھلی صرف پانی میں تحلیل شدہ آکسیجن (dissolved oxygen) سے آکسیجن حاصل کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مچھلی پانی کے باہر تڑپتی رہتی ہے، وہاں ہوا موجود ہوتی ہے، لیکن وہاں اس کے لیے تحلیل شدہ آکسیجن موجود نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پانی مچھلی کا ہیبیٹاٹ ہے۔ مچھلی اپنے ہیبیٹاٹ میں سکون کے ساتھ رہتی ہے۔ لیکن ہیبیٹاٹ کے باہر وہ بے چین ہوجاتی ہے۔ انسان کی یہی وہ حالت ہے جس کو ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کا ہیبیٹاٹ جنت ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو جنت حاصل نہیں رہتی ، اس لیے یہاں وہ بے چین رہتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی اس حالت پر غور کرے۔ وہ غور و فکر کے ذریعہ اپنے ہیبیٹاٹ (جنت) کو دریافت کرے۔ اور پھر جنت کے مطابق عمل کرکے عالم آخرت میں اپنے ہیبیٹاٹ (جنت) کو پائے، اور وہاں ابدی خوشی کی زندگی گزارے۔
إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا سے مراد یہی ہے۔ یہاں ایمان سے مراد یہ ہے کہ آدمی پیغمبر کی رہنمائی پر تدبر کرے۔ وہ پیغمبر کی رہنمائی کے ذریعہ اللہ کے تخلیقی نقشہ کو جانے۔ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایمانی دریافت کے مطابق اپنی زندگی کا درست نقشہ بنائے، وہ اپنی عملی زندگی کو ایمانی دریافت کے مطابق تعمیرکرے۔الیس اللہ باحکم الحاکمین کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ وہ انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کرے، اور پھر اس کو ابدی طور پر اسفل سافلین میں ڈال دے۔ تخلیق کے اندر پائی جانے والی اعلیٰ درجے کی معنویت انسان کے لیے اس انجام کی تردید کرتی ہے۔ اس پہلو پر غور کرکے انسان یہ دریافت کرتا ہے کہ انسان کے لیے پیدائشی طور پر یہ مقدر ہے کہ اس کو اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ ملے۔ لیکن یہ مطلوب ہیبیٹاٹ عمل صالح کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ انسان کو اس کی تخلیق تو اپنے آپ مل گئی۔ لیکن انسان کو اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ اپنے آپ ملنے والا نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان اور عمل صالح کی شرط کو پورا کرکے یہ ثابت کرے کہ وہ واقعۃً اس انعام کا اہل ہے۔ انسان کو اس کا وجود تخلیق کے ذریعہ اپنے آپ مل گیا، لیکن انسان کو اس کا ہیبیٹاٹ (جنت) اپنے آپ نہیں ملے گی، بلکہ جنت اس کو اس وقت ملے گی، جب کہ دنیا کی زندگی میں اپنے عمل سے وہ اپنے آپ کو جنت کا اہل ثابت کردے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کس کے لیے

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جنت فارم (form) جیسی کچھ چیزوں پر منحصر ہے۔ مثلاً مسلمان کے گھر میں پیدا ہوجانا، شناخت (identity)جیسی کچھ چیزوں پر پورا اترنا، کچھ ظاہری اعمال کی پابندی کرنا، زندگی میں کم از کم ایک بار صلاۃ التسبیح پڑھنا، اسلاف کے طریقے کا پیرو ہونا،حتی کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ’’کافروں‘‘ کو قتل کرنا جنت کا یقینی ٹکٹ ہے،وغیرہ۔
مگر صحیح بات یہ ہے کہ جنت میں داخلہ کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ تزکیہ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آٰیا ہے:جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَذَلِکَ جَزَاءُ مَنْ تَزَکَّى (20:76)۔ یعنی ان کے لئے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جو پاکیزگی اختیار کرے۔
تزکیہ کا لفظی مطلب پاکیزگی (purification)ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جنتی صفات کے ساتھ اپنی شخصیت کی تعمیر کرنا۔ قرآن و سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں وہ شخص جائے گا جس کے اندر غش (کینہ) نہ ہو، جس کے اندر کبر کا مزاج نہ ہو، جو تشدد کی نفسیات سے پاک ہو، جس کے دل میں ہر ایک کے لیے صرف سلامتی کے جذبات ہوں، جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو، جو اللہ رب العالمین کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنائے، جو اعلی اخلاقیات کا مالک ہو، جو لوگوں کو معاف کردینے والا ہو،جو دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جس کو خود وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے،جو انسان عامہ کا خیر خواہ ہو، وغیرہ۔
ان صفات کے مجموعے کا نام ربانی صفت ہے۔ جنت کے لیے وہی عورتیں اور مرد منتخب کیے جائیں گے جو ان ربانی صفات کے حامل ہوں۔ جنت ان لوگوں کا معاشرہ ہوگا جو خلق عظیم (القلم4:) کے مالک ہوں۔ جنت اسی قسم کی اعلی صفت رکھنے والوں کا اعلی معاشرہ ہے۔ جنت میں وہی افراد داخل کیے جائیں گے جو ان اعلی صفات کے حامل ہوں۔
واپس اوپر جائیں

جنت انسان کا ہیبیٹاٹ

قرآن کی سورہ التین آیات 4-5 میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا۔ پھر اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا۔ اسفل سافلین کا لفظی مطلب ہےسب سے نیچے (lowest of the low)۔ یہ بات کسی پر اسرار معنی میں نہیں ہے۔ اس سے مراد وہی واقعہ ہے، جو عملاً انسان کے ساتھ پیش آیا ہے۔ یعنی خالق نے انسان کو پیدا کیا، اور اس کے بعد اس کو موجودہ زمین (planet earth) پر بسا دیا۔
مگر انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کے لیے یہ زمین ہمیشہ مصیبت کی دنیا (البقرۃ 156:) ثابت ہوئی ۔ اس دنیا میں کوئی بھی شخص خواہ وہ صاحب سامان ہو یا بے سرو سامان اس کو کبھی خوشی کی زندگی حاصل نہیں ہوتی۔ ہر عورت اور ہرمرد اس دنیا میں عملاً ماہی بے آب کی زندگی گزارتے ہیں اور اسی حال میں مرجاتے ہیں۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس دنیا میں تمام مخلوقات کو ان کا ھیبیٹاٹ (habitat) ملا ہوا ہے۔ لیکن انسان کو اس کا ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ گویا کہ انسان اُس مچھلی کی مانند ہے جس کے لیے یہ مقدر ہو کہ وہ پانی کے باہر پیدا ہوگی، اور پانی کے بغیر تڑپتے تڑپتے مرجائے۔ مگر خالق کی جو صفات کمال اس دنیا میں ظاہر ہوئی ہیں، اس کے لحاظ سے یہ بات ناقابل قیاس ہے کہ انسان کی زندگی اس قسم کے المناک انجام پر ختم ہوجائے۔
اب ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ ہمارے گرد و پیش جو کائنات ہے، وہ بہت ہی وسیع کائنات ہے۔ اس وسیع کائنات کے بارے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے :بڑا بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتا ہے۔ اور وہ زبردست ہے،بخشنے والا ہے۔جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے،پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی فطور (flaw) نظر آتا ہے۔پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمھاری طرف واپس آجائے گی۔(67:1-4)۔
قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ وسیع کائنات میں کسی بھی قسم کا فطور نہیں۔ فطور کا مطلب ہے نقص (flaw)۔ مگر خود قرآن کے بیان کے مطابق، اس بے نقص کائنات (flawless universe)میں ایک اسپاٹ ایسا ہے جہاں نقص کی حالت موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان کو اس کا فطری ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں کسی انسان کو کبھی فل فلمینٹ (fulfilment) نہیں ملتا۔ بے خطا کائنات میں اس قسم کا تضاد پایا جانا ممکن نہیں۔ ضروری ہے کہ اس سوال کا کوئی بامعنی جواب قرآن میں موجودہو۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی تمام مخلوقات میں انسان ایک استثناء (exception)ہے۔اس بنا پر خالق نے انسان کے ساتھ ایک استثنائی معاملہ کیا ہے۔ وہ یہ کہ انسان کی زندگی کو دو دور میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک، قبل از موت دور اور دوسرا ،بعد از موت دور۔ قبل از موت دور انسان کے لیے تیاری کا دور (preparatory period) ہے۔ اس کےمقابلے میں دوسرا دور بعد از موت دور ہے۔ قبل از موت دور عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں بعد از موت دور ابدی دور ہے۔ یہ ابدی دور انسان کے لیے اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ ہوگا۔
اس ہیبیٹاٹ میں انسان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہے(فصلت31:)۔ یہ چاہنا انسان کی خواہش (desire) کے اعتبار سے بھی ہوگا اور انسان کے فکری تقاضے (intellectual requirement) کے اعتبار سے بھی۔یہاں انسان کی تمام خواہشیں پوری ہوں گی۔ مزید یہ کہ یہاں انسان کو اس کی فکری سرگرمیوں کے لیے لامحدود مواقع حاصل ہوں گے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ قرآن کی ان آیات میں کیا گیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے کلمات کبھی ختم نہ ہوں گے، خواہ اس کو لکھنے کے لیے تمام پیڑوں کو قلم بنادیا جائے، اور اس کو لکھنے کے لیے موجودہ سمندروں سے بھی زیادہ سمندروں کی سیاہی بنا دی جائے(الکہف : 109،لقمان: 27)۔
اس ابدی جنت یا دوسرے الفاظ میں اس ہیبیٹاٹ میں جگہ پانے کے لیے قرآن میں جو شرط بتائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان موجودہ امتحان کی دنیا سے گزرتے ہوئے، اپنے آپ کو احسن العمل (الملک2:) ثابت کرے۔ موجودہ دنیا اس انداز سے بنائی گئی ہے کہ یہاں آدمی کو ہر قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ دنیا کے اس پہلو کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح آیا ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اﷲ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں ۔ (2:155-157)۔
انسان کے ساتھ موجودہ دنیا میں جو ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں، وہ اس کی تربیت کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ واقعات اس لیے ہیں تاکہ انسان ہر صورتِ حال کا مثبت رسپانس (positive response) دے۔ اور اس طرح اپنے آپ کو ابدی جنت میں داخلے کے لیے اس کا اہل (competent) ثابت کرے۔ اہلیت کے اسی معاملے کو قرآن میں ایمان اور عمل صالح (التین6:) کہا گیا ہے۔
تاہم اللہ رب العالمین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے حق میں ارحم الراحمین ہے۔ اس معاملے کو ایک حدیث قدسی میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ غلبت رحمتی علی غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر3194)۔ یعنی میری رحمت میرے غضب کے اوپر غالب ہے۔
اللہ کی رحمت کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ کے یہاں سائل کو بھی حقدار کا درجہ دیا گیا ہے(الذاریات19:، المعارج25:) ۔ اور ظاہر ہے کہ جب اللہ نے انسان کے لیے اس قسم کا اصول مقرر کیا ہے کہ سوال کرنے والے کے ساتھ بھی حقدار جیسا معاملہ کرو تو یقینی ہے کہ خود اللہ کی سنت بھی یہی ہوگی کہ اس کے یہاں کوئی سائل محروم نہ رہے۔ بشرطیکہ وہ حقیقی معنی میں سائل ہو۔
اس معاملے کی ایک عملی مثال قرآن میں تقسیم وراثت کی آیت میں اس طرح ملتی ہے:وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْیَتَامَى وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُمْ مِنْہُ وَقُولُوا لَہُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا (4:8)۔ یعنی اور اگر تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور محتاج آجائیں تو اس میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان سے ہمدردی کی بات کہو۔
اللہ کا کوئی بندہ قرآن کی اس آیت کو پڑھے، اور روتے ہوئے اللہ سے یہ کہے کہ خدایا، تونے انسانو ں کو یہ حکم دیا ہے کہ تقسیم وراثت کے وقت کوئی غیر مستحق اگر وہاں آجائے تو اس کو محروم نہ کرو ، بلکہ اس کو بھی ایک حصہ ادا کرو۔ خدایا، بندوں کے لیے جب تونے یہ اصول مقرر فرمایا ہے تو اس معاملے میں بے شمار گنا اعلی درجے میں تو اس صفت کا حامل ہوگا۔ میں اپنے عمل کے اعتبار سے ایک غیر مستحق انسان ہوں ، لیکن سوال کے اعتبار سے میں اپنے آپ کو جنت کا سوال کرنے والوں کی لائن میں کھڑا کررہاہوں۔ تو مجھ کو جنت سے محروم نہ فرما۔ اگر کوئی اللہ کا بندہ سچے دل کے ساتھ اس قسم کی دعا کرے تو یقینی ہے کہ اللہ کی رحمت سے اس کی دعا قبولیت کا درجہ پائے گی۔
قرآن میں جنت کا ذکر کرتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ (3:133)۔ یعنی دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان اور زمین ہیں۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے۔ قرآن کی اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنتی انسانوں کے لیے ان کا جو ابدی ھیبیٹاٹ بنے گا، اس کے امکانات کتنے زیادہ ہوں گے۔ وہ گویا اپنے آپ میں پوری کائنا ت ہوگا۔ اہل جنت کی اس دنیا کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔ خَالِدِینَ فِیہَا لَا یَبْغُونَ عَنْہَا حِوَلًا ۔ قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا (18:107-109)۔ یعنی بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیا، ان کے لئے فردوس کے باغوں کی مہمانی ہے۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ وہاں سے کبھی نکلنا نہ چاہیں گے۔ کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لئے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔
جنت میں ایک طرف اہل جنت کی تمام مادی خواہشوں کی تکمیل کا سامان ہوگا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (41:31) یعنی اور تمہارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کا تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو جومادی نعمتیں ملی ہیں، وہ آخرت میں مزیداضافہ کے ساتھ انتہائی اعلیٰ صورت میں حاصل ہوں گی۔
مزید یہ کہ انسان کی ذہنی اور فکری سرگرمیوں کے لیے وہاں ایک ایسی وسیع دنیا ہوگی جس کی حدیں کبھی ختم نہ ہوں۔ اہل جنت کے لیےوہاں یہ موقع ہوگا کہ وہ اپنی فکری سرگرمیوں (intellectual activities) کو انتہائی تخلیقی انداز میں ابدی طور پر جاری رکھے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہمیشہ ہر ایک کے لیے ناموافق حالات موجود رہیں گے، تاکہ امتحان کے تقاضے کو پورا کیا جاسکے۔ خدائی تخلیق کے مطابق، معیاری دنیا موت کے بعد صرف جنت میں بنے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کو اگلے دورِ حیات میں بننے والی معیاری دنیا (جنت)میں داخلہ مل سکے۔ موجودہ دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانے کی کوشش کرنا گویا جنت کو موجودہ دنیا ہی میں تعمیر کرنا ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق، سرے سے ممکن ہی نہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
واپس اوپر جائیں

استعداد بڑھایے

الرسالہ مشن سے جو لوگ وابستہ ہیں، ان کو ایک کام یہ کرنا ہے کہ وہ دعوت کے اعتبار سے اپنی استعداد کو بڑھائیں۔ مشن سے وابستہ ہونے کے وقت ان کی جو استعداد تھی، اسی پر قانع نہ ہو جائیں۔ مثلاً عربی جاننے والے ہیں، عربی بولنے میں اپنی استعداد کو بڑھائیں، اور جو انگریزی جاننے والے ہیں ، وہ انگریزی بولنے میں اپنی استعداد کو بڑھائیں۔
اس کوشش کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کا دائرہ ربط (contact area) بڑھ جائے گا۔ وہ ملاقاتوں میں یا اجتماعات میں اپنی بات کو زیادہ موثر (effective) انداز میں پیش کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ استعداد بڑھانا ، اپنی قوتِ کارکردگی کو بڑھانا ہے، جو کہ کسی صاحب مشن کے لیے بہت ضروری ہے۔یہ کوشش فطری طور پر ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہوگی۔ وہ داعی کو تخلیقی داعی (creative dayee) بنانے والا ثابت ہوگا۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کو جن دعاؤں کی تلقین کی گئی ، ان میں سے ایک دعا یہ ہے:وَقُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا (20:114)۔ یعنی اور کہو کہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ کر۔
اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی دعاؤںمیں اس دعا کو شامل کرو کہ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا ۔ بلکہ یہ ایک منصوبہ بندی کی بات ہے۔ اس اعتبار سے اس کا تعلق صرف پیغمبر سے نہیں ہے، بلکہ اسلام کے ہر داعی سے ہے۔ ہر داعی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے علم کو بڑھائے۔ وہ اپنی داعیانہ استطاعت میں اضافہ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دعوت کے لیے زیادہ سے زیادہ اہل بنائے۔
داعی اور مدعو کا معاملہ صرف دعوت پہنچانے کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے۔ داعی جب دعوت کو اپنا نشانہ بناتاہے، اس کے بعد اس کو یہ بھی کرنا ہے کہ وہ دعوتی کام کو منصوبہ بند انداز میں کرے۔ وہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ موثر داعی بنانے کی کوشش کرے۔
زید ابن ثابت انصاری رسول اللہ کے کاتب (secretary) تھے۔ ان کے بارے میں المسعودی نے لکھا ہے : وزید بن ثابت الأنصاری ... یکتب إلى الملوک ویجیب بحضرة النبی صلّى اللہ علیہ وسلّم وکان یترجم للنّبیّ صلّى اللہ علیہ وسلّم بالفارسیة والرومیّة والقبطیة والحبشیة، تعلم ذلک بالمدینة من أہل ہذہ الألسن(التنبیہ والإشراف للمسعودی، قاہرہ، صفحہ 246) ۔ یعنی زید ابن ثابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بادشاہوں کے نام خط لکھا کرتے تھے، اور ان کے خطوط کا جواب دیتے تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیےفارسی، رومی، قبطی، حبشی زبان سے ترجمہ کیا کرتے تھے۔ انھوں نے مدینہ میں اہل زبان سے یہ زبانیں سیکھی تھیں۔ اس کے علاوہ مسند احمد (حدیث نمبر21587)وغیرہ ،کی روایت کے مطابق انھوں نے یہودیوں کی زبان بھی سیکھی تھی۔
اس طرح ان کو چھ زبانیں آتی تھیں۔ عربی کے علاوہ فارسی، رومی، قبطی، حبشی اور سریانی ۔ داعی کے لیے زیادہ زبانیں جاننے کی ضرورت موجودہ زمانے میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن (communication) اور دوسرے اسباب سے لوگوں کا ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانا بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ مختلف سطح پرلوگوں کے درمیان تعلقات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیاہے۔ دعوت کے نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے زبان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جو لوگ موجودہ زمانے میں دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بہت زیادہ توجہ دیں۔ تاکہ وہ دعوت کا کام بہت زیادہ مفید انداز میں انجام دے سکیں۔
یہ بات صرف زبان کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ موجودہ زمانے میں اس میں نئے پہلووں کا اضافہ ہواہے۔ مثلا کمپیوٹر، جو گویا کہ مشینی زبان کا ایک آلہ ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ کمپیوٹر کو سیکھیں، اور کمپیوٹر کے ذریعہ جو دعوت کے نئے مواقع حاصل ہوئے ہیں، اس کو اویل (avail) کریں۔ موجودہ زمانے میں کمپیوٹر صرف ایک چیز کا نام نہیں ہے۔ کمپیوٹر گویا ایک عالمی یونیورسٹی کا گیٹ وے (gateway) ہے۔ یہ عظیم نعمت ہے، اور اس نعمت کا شکر، یہ ہے کہ لوگ اس کو زیادہ سے زیادہ دعوت دین کے لیے استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں

ابلیس کا طریقہ

ابلیس جنا ت کا سردار تھا۔ قرآن و حدیث میں ابلیس کو برے کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، اور اس کو لعنت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اہل ایمان ابلیس سے پناہ کی دعا کرتے رہیں۔ابلیس کا جر م کیا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے اللہ کے تخلیقی نقشہ (creation plan of God) کو اللہ کی نظر سے نہیں دیکھا ، بلکہ خود اپنی نظر سے دیکھا۔ اس تخلیقی نقشے میں کیا حکمتیں شامل ہیں، اس پر اس نے غور نہیں کیا، بلکہ صرف ایک بات کو لے کر اس کا دشمن بن گیا کہ اس تخلیقی نقشے میں اس کے اپنے خیال کے مطابق اس کو کم درجہ دیا گیا ہے، اور آدم کو زیادہ بڑا درجہ (الاعراف12:)۔
یہ ابلیس کا طرز فکر ہے۔ اس طرز فکر سے انسان کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو منفی سوچ (negative thinking) کہا جاتا ہے۔ انسان اگر زندگی کے نظام کو خدائی نقشے کے مطابق سوچے تو اس کے اندر مثبت سوچ پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر وہ زندگی کو صرف اپنے اعتبار سے سوچے تو وہ ہمیشہ منفی سوچ میں مبتلا رہے گا۔ کیوں کہ کہیں نہ کہیں اس کو نظر آئے گا کہ اس کے اپنے خیال کے مطابق اس کا جو درجہ ہے، وہ درجہ اس کو نہیں ملا۔ ایسے انسان کو یہ احساس ہمیشہ رہے گا، خواہ نظام کتنا ہی زیادہ درست کیوں نہ ہو۔
ابلیس کی غلطی یہ تھی کہ وہ منفی سوچ میں مبتلا ہوگیا، اور اتھاریٹی کے خلاف جھنڈا لے کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے برعکس ملکوتی طرز فکر یہ ہے کہ آدمی کے حصے میں جو کچھ آیا ہے، وہ اس پر راضی رہے، اور یہ سمجھے کہ یہی اس کے لیے بہتر تھا (الخیر فیما وقع)۔ ایسا آدمی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر دھیان دے گا۔ اس طرح وہ درست راستے پر رہے گا۔اس ملکوتی طرز فکرکےمقابلے میں دوسرا شخص وہ ہے، جو اتھاریٹی کے خلاف تحریک چلائے۔ ایسا شخص بلاشبہ غلط راستے پر ہے۔پہلا انسان سماج میں خیر لائے گا، اور دوسرا انسان صرف فساد کا سبب بنے گا۔
واپس اوپر جائیں

انسان اللہ کا امین

قرآن کی ایک آیت وہ ہے جس کو آیتِ امانت کہا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا (33:72)۔ یعنی ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔
امانت کا مطلب ٹرسٹ (trust) ہے۔ یعنی اپنی ایک چیز کو بطور امانت کسی دوسرے کو دینا۔ یہاں امانت سے مراد ہے اللہ کی طرف سے دیا ہوا اختیار۔ گویا اللہ نے اپنی صفتِ اختیار کا ایک شمہ (iota)انسان کو دے دیا ہے۔ مگر یہ عطیہ بطور ذمہ داری ہے۔ یہ عطیہ بطور ٹسٹ (test) ہے۔ یعنی انسان اگر اس اختیار کو آزادانہ اختیار بنائے تو اس کی پکڑ ہوگی، لیکن اگر پابند اختیار بنائے تو اس پر اس کو انعام ملے گا۔گویا کہ یہ ایک خود عائدکردہ پابندی (self-imposed discipline) کا معاملہ ہے۔ آدمی اپنی عقل کو استعمال کرکے سب سے پہلے یہ کرتا ہے کہ وہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کا عملی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود اختیار کردہ ذمہ داری کا کیس بن جاتا ہے۔ اس طرح انسان یہ ثبوت دیتا ہے کہ وہ اعلیٰ شعور اور اعلیٰ کردار کا حامل ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی انسان کو جنت میں داخلے کے قابل بناتی ہے۔
اس عطیہ کے باوجود انسان، انسان رہتا ہے۔ اس سے غلطی کا صدور ہوجاتاہے۔ یہاں انسان کی معرفت اس کو متنبہ کرتی ہے۔ وہ شعوری طور پر دریافت کرتا ہے کہ وہ امانت کے معاملے میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام رہا۔ یہاں اس کے اندر توبہ (repentance) کا احساس جاگتا ہے۔ وہ دوبارہ اپنے حقیقی مقام کی طرف لوٹتا ہے۔ اس طرح وہ دوبارہ رب العالمین کے لیے قابل قبول بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا مثبت تصور

تخلیق کے قانون کے مطابق، موت ہر عورت اور ہر مرد پر آتی ہے۔ موت کیا ہے۔ موت یہ ہے کہ آدمی موجودہ دنیا سے مکمل طور پر جدا ہوجائے، اور اس دنیا میں پہنچ جائے جس کو آخرت کہا جاتا ہے۔یہ آخرت کی دنیا کیا ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی دنیا ہے۔ وہاں وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّہِ (الانفطار16:) کا اصول رائج ہے۔ موجودہ دنیا بھی اللہ کے حکم کے تحت ہے۔ لیکن یہاں سب کچھ غیب میں ہو رہا ہے۔ آخرت وہ جگہ ہے، جہاں اللہ کی ہستی ایک مشہود ہستی بن جائے گی۔ جہاں بندہ براہ راست طور پر اپنے رب کے سامنے اپنے آپ کو پائے گا۔
اللہ کا تصور یہ ہے کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ وہ تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو مرنا ہے، اور مرنے کے بعد اس کوایک ایسے سفر کی طرف جانا ہے، جہاں اس کی ملاقات اللہ رب العالمین سے ہونے والی ہے، جہاں بندہ اپنے آپ کو معبود کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا۔ جب معبود رحمان و رحیم ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اور رب کی یہ ملاقات یقیناً ایک پُرامید ملاقات ہوگی۔ یہاں بندہ اپنے رب کی طرف سے وہ چیز پائے گا، جس کی امید وہ ایک مہربان رب سے کیے ہوئے تھا۔
ایک حدیث قدسی میں آیا ہے:أنا عند ظن عبدی بی (مسند احمد، حدیث نمبر 9076)۔ یعنی میںبندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ رب العالمین ایک رحیم و کریم رب ہے، اس کی مہربانیاں ہر مخلوق کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ ایسا انسان ضرور یہ بھی مانے گا کہ جب اس کی ملاقات اللہ سے ہوگی تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسے رب کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا، جو تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔بندے کا یہ احساس اس کو ضرور یہ یقین دے گا کہ میرا رب ایک مہربان رب ہے، وہ ضرور میرے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرے گا۔ یہ یقین کسی بندے کے لیے اس کی موت کو ایک مثبت موت بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ری ایکشن کلچر

مادی دنیا کے قوانین میں سے ایک وہ ہے جس کو نیوٹن کی طرف منسوب کرکے، نیوٹنز تھرڈ لا کہا جاتا ہے:
Newton’s third law is: For every action, there is an equal and opposite reaction.
اصل میں یہ قانون تو فطرت کا قانون ہے۔مگر نیوٹن نے پہلی بار اس کو دریافت کیا تھا، اس لیے وہ نیوٹن کی طرف منسوب ہوگیا۔اس تیسرے قانون کا تعلق مٹیریل ورلڈ سے ہے۔یعنی مٹیریل ورلڈ میں ایسا ہوتا ہے۔مگر ہیومن ورلڈ میں ایموشن (emotion) شامل ہو جاتا ہے، اس لیے انسانی دنیا میں ہر ری ایکشن ری ایکشن پلس بن جاتا ہے۔یعنی ایموشن کی بنیاد پر ری ایکشن کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔غالباً یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّةً(8:25)۔یعنی اور ڈرو اس فتنہ سے جو خاص انھیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جن مقامات پر تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔ وہاں کچھ نوجوانوں نے پتھر پھینکا تھا، وہ ان کی غلطی ہوسکتی ہے۔ مگر جب فریق ثانی نے جوابی کارروائی کی تو انھوں نے ایسے لوگوں کو بھی مارڈالا جو اس میں براہ راست شریک نہ تھے۔مگر یہ سوچ درست سوچ نہیں۔ قرآن کے الفاظ میں ردعمل ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔چناں چہ صرف ظالم اس کی زد میں نہیں آتے، بلکہ غیر ظالم بھی ضرور اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مادی دنیا میں ردعمل ہمیشہ عمل کے برابر ہوتا ہے، لیکن انسانی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ انسانی دنیا میں جب ردعمل کا واقعہ ہو گا تو وہ ہمیشہ ابتدائی عمل سے زیادہ ہوگا۔ اس لیے عمل کرنے والوں کو اس معاملے میں عمل سے پہلے بہت زیادہ سوچنا چاہیے۔ اقدام کے بعد جب نتیجہ سامنے آجائے اس وقت شکایت کی بولی بولنا، ایسا کلام ہے جو خواہ گرامر کے لحاظ سے درست ہو، لیکن حقیقت کے لحاظ سے وہ بلاشبہ سر تا سر بے معنی ہو تا ہے۔
بیل کو اگر آپ ایک پتھر ماریں تو اس کے بعد یہ شکایت بے معنی ہے کہ میں نے تو صرف ایک پتھر مارا تھا، بیل نے میرے اوپر دو سینگوں سے کیوں حملہ کردیا۔یا آپ یہ کہیں کہ ہم نے تو کچھ دستی بم پھینکے تھے، پھر فریق ثانی نے ہوائی بمباری کیوں کرڈالی، وغیرہ۔فطرت کے قانون کے مطابق اجتماعی زندگی میں شکایت (complain) بے معنی ہے۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو شکایت کا لفظ صرف ڈکشنری میں پایا جاتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ حقیقت کی دنیا اصلاً ایک بے شکایت دنیا ہے۔ شکایت اس وقت شروع ہوتی ہے جب کہ کوئی شخص ایک غلطی کرے، اور غلطی کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہرانے کے بجائے، اس کاذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے لگے۔
خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں شکایت کا کوئی مقام نہیں ۔ شکایت صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ اگر آپ کو کسی سے شکایت پیدا ہوتی ہے تو خود اپنے اندر اس کا سبب ڈھونڈیے، اور ساری توجہ اپنی اصلاح پر لگایے۔ اپنی اصلاح کرکے آپ مفروضہ شکایت کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ شکایت کے موقعہ پر آدمی کو چاہیے کہ وہ حسن تدبیر کا طریقہ اختیار کرے۔ شکایت سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ شکایت عملاً صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔
رد عمل (reaction) ہمیشہ کسی عمل کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ آپ کے عمل کے بعد دوسرے فریق کی طرف سے جو ردّعمل سامنے آئے، اس پر شکایت کرنا، بے فائدہ ہے۔ کوئی دوسرا آدمی آپ کی شکایت سے اپنے آپ کو ردّ عمل سے روکنے والا نہیں۔ رد عمل سے بچنے کا طریقہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی طرف سے کوئی ایسا عمل نہ کریں، جس کا نتیجہ دوسروں کی طرف سے ردعمل کی صورت میں سامنے آئے۔آپ اپنی طرف سے پتھر نہ ماریں تو دوسروں کی طرف سے گولی بھی آنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت سے بے خبری

ماہنامہ ترجمان القرآن میں ایک واقعہ ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:’’غازی علم الدین شہید‘‘ (1908-1929) نے [شانِ رسالتؐ میں گستاخی پر مبنی کتاب کے ناشر] راج پال کو قتل (6 اپریل 1929ء) کیا توعلامہ محمد اقبال نے رشک کے ساتھ فرمایا:’’اسیں گلاں کر دے رہے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔ (ہم باتیں کرتے رہ گئے، اور ایک بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)۔‘‘ـماہنامہ ترجمان القرآن ، دسمبر 2010 (عنوان: توہین رسالت کا مقدمہ)۔
اس واقعہ کوعام طور پر پسندیدگی کے انداز میں نقل کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ ایک قابل نقد بات ہے۔اقبال نے اس واقعہ کو سن کو جو کچھ کہا وہ اسلامی بات نہ تھی۔ صحیح یہ تھا کہ اقبال کہتے کہ اس مسلمان نے ڈبل غلطی کی۔ ایک یہ کہ اس نے خود ہی مذکورہ آدمی کو سزا دی۔ حالاں کہ اسلام میں سزا دینا صرف قائم شدہ عدالت کا کام ہے۔ اس کی دوسری غلطی یہ تھی کہ اس نے مذکورہ غیر مسلم کو مجرم کے روپ میں دیکھا، حالاں کہ اسلام کے مطابق اس کی حیثیت ایک مدعو انسان کی تھی۔ مذکورہ مسلم نوجوان کو چاہیے تھا کہ وہ اس آدمی کے لیے دعا کرے، وہ اس سے ملاقات کرکے گفتگو کرے، وہ اس کو سیرت کی کتابیں پڑھنے کے لیے دے ۔
اس معاملے میں صحیح اسلامی موقف کو سمجھنے کے لیےایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں اپنی مشرکہ ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا۔ میں نے ایک دن انہیں دعوت دی تو اس نے رسول اللہ کے بارے میں مجھے ناپسندیدہ بات سنائی ۔ میں رسول اللہ کے پاس روتے ہوئے پہنچا،اورکہا اے اللہ کے رسول ، میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا، مگر وہ قبول نہیں کرتی تھی۔ میں نے آج انہیں دعوت دی تو اس نے آپ کے بارے ناپسندیدہ بات کی، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری ماں کو ہدایت دے۔ رسول اللہ نے دعا کی، اے اللہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے ۔ چناں چہ ابو ہریرہ کی ماں نے اسلام قبول کرلیا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر1895)
واپس اوپر جائیں

اجتہادی خطا کا معاملہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ یہود کی تمام سنتوں کو اختیار کر لیں گے:لیأتین على أمتی ما أتى على بنی إسرائیل حذو النعل بالنعل(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2641)۔ اس حدیث میں یہود کا حوالہ محض تاریخی مثال کے طور پر آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ جب بھی کسی امت کی بعد کی نسلوں میں زوال کا دور آتا ہے تو اس کے اندر مشترک قسم کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ صفات قدیم زمانہ میں یہود (امت موسیٰ )کے اندر پیدا ہوئیں۔ یہی چیزیں بعد کے زمانہ میں مسلمان (امت محمد) کے اندر پیدا ہونے والی تھیں۔ اس لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور انتباہ (warning) پیشگی طور پر امت مسلمہ کے بارے میں یہ بات کہی۔
زوال کے زمانہ میں پچھلی قوموں کے اندر جو خرابیاں پیدا ہوئیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّہِ (9:31)۔ یعنی انھوں نے اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا۔
قرآن کی اس آیت میں اتخاذ رب کا لفظ شدت اظہار کے معنی میں آیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں یہود ی علماء و مشائخ نے بظاہر حسن نیت کے ساتھ اپنے ذاتی اجتہاد کے تحت کچھ طریقے اپنے دین میں اختیار کیے۔ یہودی علماء اور یہودی مشائخ کے یہ طریقے بعد کے زمانے میں مقدس بن گیے، اور یہود کی بعد کی نسلوں نے اس کو اس طرح اختیارکر لیا جیسے کہ وہ شریعت موسیٰ کا حصہ ہوں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: عن أبی موسیٰ الاشعری، قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:إن بنی إسرائیل کتبوا کتابا، فاتبعوہ، وترکوا التوراة (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر5548)۔بنی اسرائیل (یہود) نے کتاب لکھی ، پھر اس کی پیروی کی ، اور تورات کو چھوڑ دیا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں امت مسلمہ کے اندر بھی عملاً ایسا ہی ہوا۔ کچھ مسائل میں امت کے اکابر نے ذاتی اجتہاد کے تحت ایک طریقہ اختیار کیا، اور بعد کے زمانے میں امت کے لوگوں نے اس کو مقدس بنا کر اس کو شریعت محمدی کا حصہ سمجھ لیا۔ حالاں کہ بعد کے علماء کا یہ فرض تھا کہ وہ کھلے طور پر یہ اعلان کریں کہ یہ ہمارے اکابر کا ذاتی اجتہاد تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے اجتہاد میں کسی بھی شخص سے خطا ہوسکتی ہے۔ یہ ان لوگوں کی اجتہادی خطا تھی، اب ہم ان کو تاریخ ماضی کے خانہ میں ڈالتے ہیں، اور شریعت کے اصل حکم کی طرف واپس آتے ہیں۔ یہاں اس سلسلہ میں چند مثالیں دی جاتی ہیں:
1 - ان میں سے ایک تطلیقاتِ ثلاثہ کا مسئلہ ہے۔ اسلام میں نکاح کی حیثیت اصل (basic principle)کی ہے، اور طلاق کی حیثیت ایک نادر استثناء (rare exception) کی ۔ مزید یہ کہ طلاق کا ایک مقرر طریقہ (prescribed method) ہے۔ یہ طریقہ قرآن (البقرۃ 229:) میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے۔
رسول اللہ اور اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے میں امت کے اندر یہی طریقہ رائج رہا۔ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں فراوانی (affluence) کا دور آیا۔ اس کے نتیجہ میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایسے واقعات پیش آئے جب کہ لوگوں نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیا۔ عمر فاروق نے اس رجحان پر روک لگانے کے لیے یہ کیا کہ کچھ افراد کو بلاکر کوڑے مارے، اور ساتھ ہی تین طلاق کو واقع کرکے زوجین کے درمیان تفریق کرادی۔
خلیفہ ٔ ثانی عمر فاروق نے یہ طریقہ حکمِ حاکم (executive order) کے طور پر اختیارکیا تھا۔ حکمِ حاکم کا اختیار بلاشبہ جائز ہے، لیکن اس کی حیثیت وقتی ہوگی۔جہاں تک طلاق کے شرعی حکم کا تعلق ہے، وہ وہی رہے گا جو قرآن (البقرۃ229:)میں مذکور ہے۔کسی حاکم کو شریعت کے قانون کو بدلنے کا حق نہیں۔ خلیفۂ ثانی نے اپنے زمانے میں جو طریقہ اختیار کیا تھا، بعد کے علماء کے لیے ضروری تھا کہ وہ اعلان کریں کہ یہ ایک وقتی حکم تھا۔ اس سے شریعت کا مسئلہ نہیں بدلتا۔ لیکن اس کے بجائے علماء نے یہ کیا کہ خلیفۂ ثانی کے اس فیصلہ کو ایک مستقل شرعی حکم بنا کر اسلامی فقہ میں شامل کردیا۔ یہ بلاشبہ ایک غلطی تھی، اور اب فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ علماء اس غلطی کی تصحیح کریں، اور یہ اعلان کریں کہ اب طلاق کا وہی طریقہ عملاً باقی رہے گا، جو قرآن میں مذکور ہے۔ اس کے خلاف جو فتاویٰ دیے گیے ، وہ سب کے سب منسوخ قرار پائیں گے۔
2 - یہی معاملہ جزیہ کا تھا۔ جزیہ کا ذکر بلاشبہ قرآن میں موجود ہے۔ مگر وہ اسلام کے ابتدائی دور میں کچھ مخصوص گروہوں کے لیے وقتی طور پر بطور تعزیری ٹیکس (Punitive tax) اختیار کیا گیا تھا، وہ عام شرعی حکم نہ تھا کہ بعد کے زمانے میں بھی اس پر عمل کیا جائے۔ بعد کے زمانے میں اورنگ زیب جیسے جن مسلم سلاطین نے اس کو دوبارہ نافذ کیا، وہ ان کی اجتہادی خطا تھی۔ اب علماء کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ مسلم حکومتوں میں جزیہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا، بلکہ جنرل ٹیکس (general taxation) کا طریقہ اختیار کیا جائے گا جو کہ دوسرے تمام ملکوں میں رائج ہے۔
3 - یہی معاملہ شاتم رسول کی سزا کا ہے۔ مسلم فقہاء نے عام طور پر اتفاق کرلیا ہے کہ شتم رسول ایک قابل دست اندازی جرم (cognizable offence) ہے۔ایسے شخص کو بطور حد قتل کیا جائے گا : قال ابن المنذر: أجمع عوام أہل العلم على أن حد من سب النبی صلى اللہ علیہ وسلم القتل ( الصارم المسلول على شاتم الرسول، ابن تیمیہ، صفحہ 3)۔ یعنی اکثر اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کیا، اس کی حد قتل ہے۔ اس مسئلہ میں اگرچہ بڑے بڑے علماء کے نام ہیں، لیکن یہ مسئلہ بلاشبہ ایک اجتہادی خطا کا مسئلہ ہے۔ اب علماء اسلام پر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ اعلان کریں کہ شاتم رسول کے قتل کا مسئلہ شرعی مسئلہ نہ تھا، وہ اجتہادی خطا کا مسئلہ تھا۔ اب ہم اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہیں۔ جس انسان کو شاتم رسول قرار دیا جاتا ہے، وہ زیادہ درست طور پر مدعو ہوتا ہے، اور مدعو کے لیے نصیحت اور دعوت ہے، نہ کہ قتل۔
4 - یہی معاملہ جہاد بالسیف کا ہے۔ قرآن میں جہاد بالسیف یا قتال کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس حکم کی ایک حد تھی۔ وہ کوئی ابدی حکم نہ تھا، جیسا کہ خود قرآن کی آیت سے واضح ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ (2:193)۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق قتال کا حکم فتنہ کے ختم ہونے تک ہے۔ فتنہ ختم ہو جائے تو اس کے بعد قتال بھی ختم۔ فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے ۔ قدیم زمانہ میں فتنہ کا کلچر عام طور پر موجود تھا۔ لیکن موجودہ زمانہ میں خود یونیورسل نارم (universal norm) کے مطابق اس مذہبی فتنہ کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس لیے اب فتنہ کے نام پر جنگ کا کوئی جواز نہیں۔ ایسی حالت میں موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے جہاد بالسیف کا فتویٰ دیا، وہ سب کا سب اجتہادی خطا کا کیس تھا۔ افریقہ میں فرانس کے خلاف، ایشیا میں برٹش کے خلاف، فلسطین میں یہود کے خلاف، وغیرہ ۔ اس قسم کے تمام فتاویٰ بلاشبہ اجتہادی خطا کے کیس تھے۔ اب فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ علماء اس غلطی کا عمومی اعلان کریں۔ اس سے کم درجہ کی کوئی چیز اس معاملہ میں قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
موجودہ زمانہ میں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں اصلاح (reform) کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ مگر یہ صرف غلط فہمی کی بنا پر ہے۔ اس سلسلہ میں جو مثالیں دی جاتی ہیں، ان کا تعلق خود اسلام سے نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کے اپنے اضافہ سے ہے۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اپنے اضافے سے اسلام کو پاک کرنے کی ضرورت۔ خود اسلام میں اصلاح یا نظر ثانی کی ضرورت اس سے ثابت نہیں ہوتی۔ (فکر اسلامی)
٭ ٭ ٭
روزہ — اطاعتِ الٰہی کی مشق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر معاملہ میں اسی طرح خدا کے حکم کی پابندی کریں گے جس طرح رمضان میں کھانے پینے کے معاملے میں کرتے ہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
واپس اوپر جائیں

اصل مسئلہ

ایک تعلیم یافتہ مسلمان کا مضمون نظر سے گزرا۔ انھوں نے ہندوستان میں مسلمان اور سیاست کے موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ملکی سیاست میں ان کی بے وزنی ہے، جس کے بعض اسباب خارجی ہیں، تو بعض اسباب داخلی بھی ہیں۔ خارجی اسباب میں مثلاً ہندتو وادی قوتیں، قومی و علاقائی سیکولر پارٹیوں کا عملی رویہ، فسادات، اب تک مرکز میں بر سر اقتدار مختلف سیاسی پارٹیوں کی ظالمانہ پالیسیاں ،وغیرہ ہیں، جنھوں نے مسلمانوں کو بے وقعت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ عام طور پر یہی زبان بولتا ہے۔ یہ لوگ اعلان کرتے ہیں کہ مسلمان اس زمانے میں بے وقعت ہوگیے ہیں۔ اس کا سبب ان کے نزدیک اغیار کی ظالمانہ پالیسی ہے۔ یہ رائے موجودہ زمانہ میں اتنی عام ہے کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس رائے پر مسلمانوںکا اجماع ہے۔ مگر یہ اجماع سر تا سر بے بنیاد ہے۔ اس نظریے کی غلطی اسی سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ قرآن کی صراحت کے سراسر خلاف ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے :وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ إِنَّکَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ (3:26)۔ یعنی اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کرے۔ اور خیر صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
مذکورہ آیت اور قرآن و حدیث کے دوسرے نصوص کے مطابق مسلمانوں کو چاہیے کہ جب بھی وہ کسی ’’ظلم‘‘ کے تجربے سے دوچار ہوں تو وہ ہمیشہ اس کا سبب خود اپنے اندر تلاش کریں۔ وہ یقین کریں کہ ان پر جو کچھ گزر رہا ہے وہ صرف ان کی اپنی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ ایسا کوئی خارجی ظلم حقیقت میں کہیں موجود نہیں۔اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ داخلی اصلاح کے ذریعہ خود اپنی کوتاہی کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کے بجائے دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی مہم چلانا، بلاشبہ غیر حقیقی ہے۔ اس سے ہرگز صورتِ حال بدلنے والی نہیں۔یہی اسلام کا تقاضا ہے، اور یہی عقل کا تقاضا بھی۔
واپس اوپر جائیں

بقدر استطاعت کا اصول

اسلام میں جو احکام ہیں ، وہ سب کے سب بقدر استطاعت پر مبنی ہیں۔ یعنی ایک شخص کی ذمہ داری صرف اسی کی ہے جو اس کے بس میں ہو۔ جو چیز اس کے بس میں نہ ہو، اس کی ذمہ داری بھی اس پر نہیں۔
اجتماعی معاملات میں اس اصول کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی صورت حال ایسی نظر آتی ہے، جو اس کے نزدیک قابل اصلاح ہے تو ایسے آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عملی اقدام سے اپنے کام کا آغاز کرے۔ بلکہ یہ کرنا ہوگا کہ وہ حالات کوغیر جانب دارانہ انداز میں سمجھے، اور پھر اپنی طاقت کا غیر جذباتی طور پر اندازہ کرے۔ اس بے لاگ اندازہ کے بعد وہ یہ سوچے کہ اس موقع پر اگر میں عملی اقدام کروں تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اگر اس کی یہ رائے ہو کہ وہ اپنے اقدام سے مثبت نتیجہ پیدا کرسکتا ہے تو اس کے لیے عملی اقدام کرنا جائز ہوگا، اور اگر مثبت نتیجہ مشتبہ ہو تو ایسی حالت میں اس کو ہرگز عملی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ عملی اقدام کے بعد درمیان میں اگر اس کو محسوس ہو کہ اس کا اقدام مثبت عملی نتیجہ پیدا کرنے میں ناکام ہور ہا ہے تو فوراً اس کو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے پیچھے لوٹنا چاہیے۔ اس کے بعد اس کے لیے دو آپشن ہے۔ یا تو وہ اپنے آپ کو اقدام کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے، بالکل خاموش ہوجائے یا اگر اس کو غیر جذباتی اندازہ کے بعد یہ محسوس ہو کہ اس کی منصوبہ بندی (planning) غلط تھی، اور اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ دوبارہ کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکتا ہے، تب اس کے لیے جائز ہوگا کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میںاپنی کوشش کا دوبارہ آغاز کرے۔ نماز کی ادائیگی کا معاملہ ہو تو ہر آدمی آزاد ہے کہ وہ وقت آنے پر نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے، لیکن اجتماعی زندگی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصول یہ ہے کہ بے نتیجہ عمل سے بہتر ہے کہ آدمی کوئی عمل ہی نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

دلیل کے بغیر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے: من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا أو لیصمت(صحیح البخاری، حدیث نمبر6018)۔ یعنی جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، تو اس کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے۔
عربی زبان میں خیر کے معنی بھلائی کے ہوتے ہیں۔ قول کی نسبت سے یہاں اس کا مطلب مدلل بات (reason-based word) ہے۔ اس حدیث کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے۔ اجتماعی زندگی میں آدمی جب کسی کے بارے میں کوئی بات کہے تو وہ صرف بیانیہ انداز میں نہ ہو، اور نہ مدح اور ذم کے انداز میں، بلکہ مبنی بر ثبوت ہونا چاہیے۔ کہنے والے کے پاس اپنی بات کے لیے اگر ثابت شدہ دلیل (established proof) ہے، تو اس کو بولنے کا حق ہے، ورنہ ضروری ہے کہ وہ چپ رہے۔
اس معاملے میں آدمی کے پاس آپشن (option) بولنے یا نہ بولنے کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ صحیح آپشن یہ ہے کہ آدمی بولے تو دلیل کے ساتھ بولے، ورنہ وہ چپ رہے۔ دلیل ایسی ہونی چاہے جو ٹھوس دلیل ہو۔ دلیل وہ ہے جو خارجی طور پر ثابت ہوتی ہو۔ جو بات صرف کہنے والے کے اپنے ذہن کی بات ہو، وہ دلیل نہیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دلیل وہ ہے جو طرفین کے درمیان ثابت شدہ ہو۔ جو بات آدمی کے اپنے خیال کے مطابق اہم ہو، لیکن علم کے معیار پر وہ پوری نہ اترے، وہ دلیل نہیں ہے۔
دلیل کی زبان میں بولنا، قائل کے لیے بھی مفید ہے، اور سامع کے لیے بھی۔ سامع کے لیے اس لیے کہ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہو، اور اس پر غور کرے، اور قائل کے لیےاس لیے کہ وہ جب دلیل کے انداز میں بولے گا تو یہ اس کے اپنے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت کا قانون

قرآن کی ایک آیت میں ابتلا (test) کا قانون بتایا گیا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو (البقرۃ 155:)۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان پر کوئی نہ کوئی مصیبت آئے گی۔ لیکن یہ مصیبت شَیْء یا کچھ (something)کی صورت میں ہوگی۔ اس آیت میں شیء (کچھ) کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس بات کو اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو یہ ہوگا کہ انسان کے اوپرجو مصیبت آئے گی، وہ اس کی ہلاکت کے لیے نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس کی اصلاح و تربیت کے لیے ہوگی۔
اصل یہ ہے کہ مسائل دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو کچلنے والا مسئلہ (crippling problem) کہا جائے گا، اور دوسرا وہ جس کو نہ کچلنے والا مسئلہ (non-crippling problem) کہا جائے گا۔ اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق انسان پر جو مصیبت یا مسئلہ پیش آتا ہے، وہ نہ کچلنے والا مسئلہ ہوتا ہے، نہ کہ کچلنے والا مسئلہ۔ نہ کچلنے والا مسئلہ آدمی کے لیے ایک تجربہ ہوتا ہے۔ وہ آدمی کی تربیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس سے آدمی کو سیکھ (learning) حاصل ہوتی ہے۔ اس سے آدمی کی شخصیت میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے مسئلے میں مبتلا ہونے سے آدمی کی عقل میںاضافہ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، کچلنے والے مسئلہ کی صورت میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اس کا تحمل نہیں کرپاتا۔وہ شدید قسم کی مایوسی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی عقل کام نہیں کرتی۔ وہ حالات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ اللہ کی طرف سے آنے والی مصیبت چوں کہ انسان کی تربیت کے لیے ہوتی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ نہ کچلنے والے مسئلہ کی صورت میںا ٓتی ہے، نہ کہ کچلنے والے مسئلہ کی صورت میں۔ اس لیے اس ابتلاء کو اللہ کی رحمت کا معاملہ سمجھنا چاہیے، نہ کہ زحمت کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

ہر چیز ہر ایک کے لیے

9 اپریل 2017 کونئی دہلی کے انگریزی اخبار ، دی ٹائمس آف انڈیا(اسپیکنگ ٹری ایڈیشن) میں راقم الحروف کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اس کا عنوان ہے، جمہوریت سب کے لیے :
Democracy is for all
یہ بات صرف جمہوریت کے لیے نہیں ہے، بلکہ پورے دور (age)کے لیے ہے۔ موجودہ دور ایک نیا دور ہے۔ اس دور میں قدیم طرز کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اب دنیا میں کوئی مراعات یافتہ طبقہ (privileged class)نہیں۔ اب ہر موقع ہر ایک کے لیے کھل گیا ہے۔ اب ہر آدمی اپنے حوصلے کے مطابق جس میدان میں چاہے اپنی قسمت آزمائی کرسکتا ہے۔ اب کسی شعبہ پر کسی طبقے کی اجارہ داری (monopoly) نہیں۔ تاہم ایک شرط ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کو اپنی کوشش امن (peace) کے دائرے میں کرنا چاہیے۔ تشدد کا دائرہ کسی کے لیے بھی کھلا ہوا نہیں ہے۔ جب تک آپ پرامن رہیں، کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ تشدد کا طریقہ اختیار کریں تو دنیا میں کوئی آپ کی حمایت کرنے والا نہیں ہوگا۔
اس نئے ظاہرہ نے تعلیم کی اہمیت بہت زیادہ بڑھادی ہے۔ ہر قسم کے تعلیمی ادارے ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر کھل گیے ہیں۔ یہ ادارے آپ کی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں، اور پھر آپ کی تعلیمی لیاقت کا امتحان لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کی لیاقت (competence) کے مطابق آپ کو ڈگری دیتے ہیں۔ یہی تعلیمی ڈگریاں موجودہ زمانے میں آدمی کی پروفیشنل پہچان بن گئی ہیں۔ اب ہر انسا ن کو اس کی تعلیمی ڈگری کی حیثیت سے جانچا جاتا ہے، اور اسی کے مطابق اس کو مواقع دیے جاتے ہیں۔ تعلیم کا یہ دروازہ ہر مرد اور ہر عورت کے لیے کھلا ہوا ہے۔ اب ہر ایک کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے کر اس کا سرٹیفکٹ یا ڈگری حاصل کرے۔ یہ ڈگری ساری دنیا میں اس کے لیے کار آمد بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

منفی سوچ نہیں

اگر کسی بات پر آپ کے اندر منفی سوچ پیدا ہوجائے، تو فورا ًاس کو اپنے اندر سے ختم کردیجیے۔ منفی سوچ کی نفسیات یہ ہے کہ اگر ایک بار آپ کے اندر کسی بات پر منفی سوچ پیدا ہوجائے تو وہ برابر جاری رہے گی۔ یہاں تک کہ وہ آپ کی کنڈیشننگ کا حصہ بن جائے گی۔ منفی سوچ کو یا تو ابھی ختم کرنا ہے، اور اگر ابھی اس کو ختم نہ کریں تو پھر وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں ۔
انسان کے ذہن میں ہر وقت ٹرین آف تھاٹ (train of thought) چلتا رہتا ہے۔ وہ نان اسٹاپ طور پر خود بخود چلتا ہے۔ ٹرین آف تھاٹ کو روکنا ممکن نہیں ۔ آپ صرف یہ کرسکتے ہیں کہ آپ اپنے ذہن میں منفی آئٹم نہ ڈالیں یا اگر کوئی منفی آئٹم پڑ گیا ہے تو فوراً اس کو نکال دیں۔ اگر آپ نے فوراً اس کو نہیں نکالا تو وہ مزید پختہ ہوتا چلا جائے گا۔ وہ آپ کی طبیعت ثانیہ (second nature) بن جائے گا۔
منفی سوچ کوئی سادہ بات نہیں۔ منفی سوچ آپ کے اندر تمام اچھی باتوں کے ڈیولپمنٹ کو روک دیتی ہے۔ اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ چیزوں کو منفی زاویے سے سوچنے کےعادی ہوجاتے ہیں۔ آپ کے اندر مثبت سوچ کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ آپ تخلیقی سوچ (creative thinking) کے قابل نہیں رہتے، اور سب سے زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ منفی سوچ والا آدمی فرشتوں کی صحبت سے محروم ہوجاتا ہے۔
موجودہ دنیا میں بار بار ایسے اسباب پیش آتے ہیں، جو آدمی کو منفی سوچ میں مبتلا کردیں۔ ایسا ہونا بالکل فطری بات ہے۔ آپ ایسا ہونے کو روک نہیں سکتے۔ البتہ آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ منفی سوچ کو یاد کے خانے سے نکال کر فراموشی کے خانے میں ڈال دیں۔ آپ منفی بات کو اپنی کنڈیشننگ (conditioning) کےپراسس میں شامل ہونے سے دور رکھیں۔آپ منفی سوچ کو اپنی شخصیت (personality) کا مستقل حصہ نہ بننے دیں۔
واپس اوپر جائیں

چلو یہ بھی ٹھیک ہے

امریکا کے سفر میں ایک بار مجھے چند دن کے لیے ایک صاحب کے یہاں ٹھہرنے کا موقع ملا۔ یہ مسٹر صغیر اسلم ہیں جو کیلیفورنیا میں رہتے ہیں۔میں نے دیکھا کہ مسٹر صغیر اسلم عام لوگوں کے برعکس ہمیشہ ٹنشن سے خالی (tension-free) رہتے ہیں۔ اس کا راز ان کا ایک سمپل فارمولا تھا۔ جب بھی ان سے کوئی اختلاف کی بات کرتا تو وہ فوراً وہ کہہ دیتے کہ چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ خود مجھ کو بھی اس کا تجربہ ہوا۔ ایک دن میں نے مسٹر صغیر اسلم سے کہا کہ کل صبح سائٹ سی اِنگ (sight seeing) کے لیے چلیں گے۔ انھوں نے اتفاق کیا۔
اگلی صبح کو وہ تیار ہوکر میرے کمرے میں آگیے، اور چلنے کے لیے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ اِس وقت میرا کہیں جانے کا موڈ نہیں ہے، پھر دیکھیں گے۔ اس کے بعد انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا، معتدل انداز میں صرف یہ جواب دیا: چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔حالاں کہ مسٹر صغیر اسلم ایک مصروف آدمی ہیں، اور اپنے کئی پروگرام کو موقوف کرکے انھوں نے میرے ساتھ چلنے کا وقت نکالا تھا۔
اجتماعی زندگی کے لیے یہ بہترین قابل عمل فارمولا ہے۔ گھر کے اندر کی زندگی ہو یا گھر کے باہر کی زندگی، ہر جگہ لوگوں کے درمیان بار بار اختلافی مسائل پیش آتے ہیں۔ ایسے موقعے پر حالات کو دوبارہ معتدل کرنے کے لیے سب سے اچھا عملی فارمولا یہ ہے کہ آپ فریق ثانی سے ٹکراؤ نہ کریں۔ بحث کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ صحیح کیا ہے، اور غلط کیا۔ بلکہ فوراً یہ کہہ دیں: چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔اجتماعی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ کیا درست ہے، اور کیا نادرست۔ ایسی حالت میں پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وقت کو بچایا جائے۔ غیر مفید بحث میں وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ کہہ کر بات کو ختم کردیا جائے کہ : چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ایسے موقعے کے لیے یہ بہترین پریکٹکل فارمولا ہے۔ اس فارمولے پر عمل کرنے کی صورت میں وقت بھی بچتا ہے، اور غیر ضروری بحث و مباحثہ کی نوبت نہیں آتی۔
واپس اوپر جائیں

غلطی کو سنبھالنا

ایک مرتبہ میں ٹیکسی پر سفر کررہا تھا۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کتنے سال سے ٹیکسی چلا رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ تقریباً بیس سال سے ۔ میں نے پوچھا کہ اس مدت میں ، کیا آپ کی ٹیکسی کے ساتھ کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے دوبارہ پوچھا کہ ایکسیڈنٹ نہ ہونے کا راز کیا ہے۔ اس نے کہا— دوسرے کی غلطی کو سنبھالنا۔ اس نے مزید کہا کہ جب میں روڈ پر چل رہا ہوں ، اور میں دیکھتا ہوں کہ دوسرا ڈرائیور غلطی کررہا ہے تو میں ایسا نہیں کرتا کہ ہارن بجانا شروع کردوں۔ بلکہ میں یہ سوچتا ہوں کہ اس کی غلطی کو میں کس طرح سنبھالوں۔ میرا طریقہ یہ نہیں ہے کہ میں ہارن بجا کر دوسرے کی غلطی کا اعلان کروں ، بلکہ میرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی عقل کو استعمال کرکے یہ جانوں کہ اس غلطی کے انجام سے بچنے کی تدبیر کیا ہے۔
یہ صرف ٹیکسی ڈرائیور کی بات نہیں ، بلکہ وہ زندگی کا ایک کامیاب اصول ہے۔ لوگ عام طور پر کام یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسرے کی غلطی بتاتے رہیں۔ وہ دوسرے کی غلطی کو لے کر اس کے خلاف پروٹسٹ کرنا شروع کردیں۔ مگر یہ کوئی کام نہیں ، بلکہ وہ صرف رد عمل (reaction) ہے۔ اس دنیا میں مثبت عمل سے کام بنتا ہے، نہ کہ رد عمل سے۔
ردّ عمل کا طریقہ یہ بتاتا ہے کہ آدمی کے پاس صحیح سوچ (right thinking) نہیںہے۔ وہ صرف یہ جانتا ہے کہ جس کو وہ بطور خود غلط کرتا ہوا پائے، اس کے خلاف وہ احتجاج کرنا شروع کردے۔ ایسے انسان کا ہاتھ صرف ہارن پر ہوتا ہے۔ دوسرا انسان وہ ہے جو ہمیشہ اپنی عقل کو بیدار رکھتا ہے۔ وہ اپنے ذہن کی قوت کو استعمال کرکے دریافت کرتا ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے، اور کسی مزید بگاڑ کے بغیر اس کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ احتجاج (protest) ہر آدمی کرسکتا ہے، لیکن دانش مند آدمی وہ ہے جو مثبت سوچ کے تحت صورتِ حال کا جائزہ لے، اور پیدا شدہ مسئلے کا حقیقی حل دریافت کرے۔ غلطی کو درست کرنا اصل کام ہے، نہ کہ غلطی کے خلاف شور کرنا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 252

پنجابی ترجمہ قرآن: گڈورڈ بکس کے تحت شائع ہونے والے تراجم قرآن کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ ہے پنجابی زبان میں قرآن کا ترجمہ۔ یہ ترجمہ پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کے ایک ریسرچ اسکالر اوربہت بڑے سکھ گرو نے پروفیسر محمد حبیب کی زیر نگرانی کیا ہے۔ جلد ہی یہ ترجمہ بھی شائع ہوجائے گا۔
امید کی کرن: پاکستان میں الرسالہ مشن کا کام دھیرے دھیرے پھیل رہا ہے۔ اس کے تحت اب ترجمہ قرآن کی تقسیم کا کام بھی شروع ہوگیا ہے،اورپاکستان میں موجود ملک و بیرون ملک کے لوگوں کو قرآن دیا جاتاہے۔ بیرون ملک میں خاص طور سے چین کے لوگوں میں تقسیم قرآن کا عمل بہت اچھے طریقے سے چل رہا ہے۔ واٹس ایپ (9999944119) اور فیس بک کے ذریعہ صدر اسلامی مرکز کو سننے والوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے ہے۔22 تا 24 اپریل 2017 اسلام آباد کے پاک چائنہ سینٹر میں منعقد بک فیرٔ میں کافی تعداد میں لوگوں الرسالہ مشن کے اسٹال سے صدر اسلامی مرکز کی کتابیں حاصل کیں۔ پاکستان میں الرسالہ مشن کے تحت دعوتی کام کرنے کے خواہش مند حضرات اس نمبر پر رابطہ قائم کرسکتے ہیں:مسٹر طارق بدر، 3334856560۔
■ بنگلہ دیش سے ملی خبر کے مطابق مسٹر صالح فواد صدر اسلامی مرکز کے مضامین اور آرٹیکل کو مقامی بنگلہ زبان میں ترجمہ کرکے شائع کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’شتم رسول کا مسئلہ‘ کو بنگلہ زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب بنگلہ دیش میں بہت مقبول ہوئی ، اور بہت جلد اس کا پہلا اسٹاک ختم ہوگیا۔
دنیا امن کی تلاش میں: روزنامہ انقلاب اردو نیوز پیپر(بہار ایڈیشن)نے سینٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹیو اسٹڈیز ( بہار و جھارکھنڈ)کے تعاون سے ایک مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کا عنوان تھا:’’امن کا عالمی بحران‘‘ ۔ اس مہم کے تحت منعقد ہونے والے ورکشاپ کیلئے بہار کے مختلف اہل علم اور علماء کا انتخاب کیا گیا ہے، جن میں ایک حافظ ابوالحکم محمد دانیال (صدر سینیٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹو اسٹڈیز)بھی ہیں۔اس مہم کے تحت سات ورکشاپ پٹنہ اور اُس کے اطراف کے مختلف اسکولوں،کالجوں اور کانفرنس ہال میں منعقد ہوئے۔جن مقامات پر یہ پروگرام ہوئے ، وہ یہ ہیں1:دسمبر 2016بمقام ہولی ویژن اسکول(سمن پورہ ،پٹنہ)،8دسمبر2016 بمقام اے این کالج(پٹنہ )،11دسمبر2016 بمقام بہار اردو اکادمی(اشوک راجپتھ، پٹنہ)، 27 دسمبر 2016بمقام مدر انٹرنیشنل اسکول(پھلواری شریف، پٹنہ) ، 6جنوری2017 بمقام خانقاہ منعمیہ(پٹنہ سٹی) ، 6فروری2017بمقام الحراء اسکول(شاہ گنج، پٹنہ) ،12 فروری 2017 بمقام بہار اردو اکادمی(اشوک راجپتھ،پٹنہ)۔ان تمام ورکشاپ میں دیگر لوگوں کے ساتھ جناب حافظ دانیال صاحب نے اس موضوع پر خطبات پیش کئے اورسوالوں کے جوابات دئے جسے حاضرین نے بہت پسند کیا۔ تمام پروگرام کے بعد سبھی شرکاء کوقرآن کے ترجمے ،سیرت پر کتابیں اور دوسرے لٹریچر بطور گفٹ دیے۔لوگوں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ اسپریچول تحفہ کو قبول کیا۔
قرآن بطور گفٹ: تلکا مانجھی یونیورسٹی، بھاگلپور میں 20.01.17 کو یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹررما شنکر دوبے اور پرووائس چانسلرڈاکٹر اودھ کشور رائے کو ان کے عہدے کی میعاد مکمل ہونے کے موقع پر یونیورسٹی کے دو پروفیسران، محسن علی انجم (سابق ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ، بنگلہ زبان)، اور رفیق الحسن (ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ، میتھمیٹکس، ایس ایم کالج، بھاگل پور) نے صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن گفٹ کیا۔ (اظہر مبارک، بھاگلپور)
داعی کا انتظار: امیٹی یونیورسٹی، نوئیڈا نے 16-18 مارچ 2017 کو زندگی کی معنویت (Meaning of Life) کے عنوان سے ایک سہ روزہ پروگرام کا انتظام کیا تھا۔ 17 مارچ کو سی پی ایس اٹرنیشنل دہلی کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے اس میں شرکت کی، اور ایک لکچر دیا۔ اس موقع پر شرکاء اور آڈینس کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔نیز یونیورسٹی کی لائبریری کے لیے الرسالہ مشن کی کتابوں کا ایک سیٹ بطور تحفہ دیا گیا۔
تعلیم و دعوت ساتھ ساتھ : راجوڑی (جموں) میں مسٹر فاروق مضطر صاحب کی نگرانی میں الرسالہ مشن کا کام بہت کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی کئی کتابوں کو اپنے تعلیمی این جی او، ہمالیہ ایجوکیشن مشن کے تحت چل رہے اداروں میں بطور نصاب شامل کیا ہے۔ 4 مارچ 2017کو اس ادارے نے نیشنل ریڈ کراس میلہ میں ایک اسٹال بک کیا اور آنے والے لوگوں کو قرآن و دیگر دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف مناسبتوں سے ہمالیہ ایجوکیشن مشن کے تحت صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کو تقسیم کیا جاتا ہے۔
انٹرفیتھ ہارمنی ایک اہم ضرورت: ربائی ڈیوڈ روزن (Rabbi David Rosen) عالمی سطح پر پیس اور انٹرفیتھ ہارمنی کے لیے کام کرنے والی شخصیت ہیں۔ 28 فروری 2017 کو انھوں نے اپنے ہندوستانی نمائندہ، مسٹر ارجن ہرداس کے ساتھ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ اور امن کے تعلق سے گفتگو کی۔ ربائی روزن اس سے پہلے بھی صدر اسلامی مرکز سے مل چکے ہیں، اور الرسالہ مشن کے کاموں سے بہت متاثر ہیں۔دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ اسرائیل میں انھوں نےاپنےطالب علموں کو بتایا کہ آپ کا انگریزی ترجمہ قرآن بہت اچھا ہے، اسے پڑھنا چاہیے۔ آخر میں دونوں مہمانوں کو بطور تحفہ انگریزی ترجمہ قرآن اور پیس و اسپریچوالٹی کے موضوع پر دوسری کتابیں دی گئیں۔
ریاست کا سربراہ آپ کا مدعو: وانمباڑی (تامل ناڈو) میں تامل لٹریری فنکشن کے موقع پر پانڈیچری کے چیف منسٹر وی نارائن سوامی اور ان کے ساتھیوں کو سی پی ایس (تامل ناڈو)کی ٹیم نےانگلش اور تامل ترجمہ قرآن بطور ہدیہ پیش کیا۔ یہ فنکشن 26 فروری 2017 کو منعقد ہوا تھا۔
افریقہ میں دعوت: گھانا سے ملی خبر کے مطابق، وہاں ڈاکٹر عبد اللہ لوگوں کے درمیان دعوتی کام کررہے ہیں۔ وہ لوگوں میں صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔
قرآن ہر ایک کے لیے:سی پی ایس دہلی کے مسٹر فراز اور مسٹر وکرانت 16 اپریل 2017 کو انڈیا ہیبیٹاٹ سینٹر (نئی دہلی) میں ترجمہ قرآن کی کچھ کاپیاں لے کر گیے تاکہ وہاں ہونے والے کسی پروگرام میں ان کو تقسیم کیا جاسکے۔ ان کے پاس ترجمہ قرآن کے تقریباً پچاس نسخے تھے۔ ان تمام کاپیوں کو وہاں لوگوں نے ہاتھوںہاتھ لے لیا۔ ایک لیڈی نے پوچھا کہ کیا کوئی عورت قرآن پڑھ سکتی ہے۔ ان سے مسٹر فراز نے کہا ، ہاں پڑھ سکتی ہے۔ تو انھوں نے اپنا واقعہ بتایا کہ وہ بنگال کی رہنے والی ہیں۔ ایک مرتبہ ان کی خواہش ہوئی کہ وہ قرآن پڑھیں۔ تو انھوں نے مسلمانوں سے کہا کہ مجھے قرآن دیجیے ، مگر کسی نے ان کو قرآن نہیں دیا تھا۔ اس سے وہ یہ سمجھ گئی تھیں کہ کوئی عورت قرآن نہیں پڑھ سکتی ۔ مگر دہلی میں قرآن حاصل کرکے وہ بہت خوش ہوئیں، اور شکریہ ادا کیا۔
مدعو آپ کا مددگار: جودھپور کے ایک صاحب ہیں، مسٹر رمیش چندر جین ۔ انھیں معلوم ہوا کہ سی پی ایس انٹرنیشنل سے ہندی کا ترجمۂ قرآن ملتا ہے۔ انھوں نے یہ قرآن یہاں سے حاصل کیا۔ اس کے بعد ان کے ایک دوست نے ان کے پاس قرآن دیکھا، وہ ان کے پاس سے لیا، تو انھوں نے دوبارہ منگوایا۔ پھر ایک مسلمان نے ان کے پاس دیکھا تو ان سے درخواست کی کہ ہمیں بھی منگوادیں۔ انھوں نے دوبارہ ہم سے درخواست کی کہ آپ ہمیں ہندی قرآن کے پانچ نسخے بھیج دیں۔ اس مسلم بھائی کی طرف سے اگر پیسے کی ضرورت ہوگی تو میں ادا کروں گا۔ سی پی ایس دہلی نے انھیں ہندی ترجمۂ قرآن کے پانچ نسخے بطور ہدیہ روانہ کردیے ہیں۔
ہر ایک آپ کا دوست ہے: سی پی ایس انٹرنیشنل کے مخلص معاون فادر وکٹر ایڈون نے ارول کڈل (چنئی) میں ایک پروگرام کیا تھا۔ اس پروگرام میں سی پی ایس چنئی کے مولانا سید اقبال احمد عمری، مولانا خطیب اسرار الحسن عمری اورجناب کلو ندیم صاحبان نے شرکت کی۔ مولانا سید اقبال عمری صاحب نے قرآن کی تلاوت کی اور سی پی ایس اور صدر اسلامی مرکز کے بارے میں ایک پاور پائنٹ پرزینٹیشن پیش کیا۔ کلو ندیم احمد صاحب نے ’و اٹ از اسلام‘ کے موضوع پر تقریر کی، اورمولانا اسرار صاحب نے سوالات کے جواب دیے۔ فادر وکٹر نے پروگرام کے آخر میں سی پی ایس کا شکریہ ادا کیا۔ یہ پروگرام 27 فروری 2017 کو منعقد ہوا تھا۔
ایج آف گلوبل دعوہ: آئی آئی سی (IIC) دہلی میں امریکا کے ایک اسکول فلپس اکسیٹر اکیڈمی کے طلباء اور اساتذہ کے ایک گروپ کوسی پی ایس دہلی کی ممبر مس ماریہ خان نے خطاب کیا۔ اس خطاب کا موضوع ’اسلام اور صنفی مسائل‘ تھا۔ مس ماریہ خان نےاس موضوع پر طلبہ سے خطاب کیا اور سوالات کے جواب بھی دئے۔ اس پروگرام کے لیے ان کو مشہور بدھسٹ رہنما مسٹر شانتم سیٹھ نے مدعو کیا تھا۔یہ پروگرام 5مارچ 2017 کو منعقد ہوا تھا۔ پروگرام کے بعد تمام لوگوں کو ترجمۂ قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
دعوت کے مواقع: سی پی ایس کی ناگپور۔کامپٹی ٹیم نے 18 مارچ 2017 کو ایک شادی کی تقریب میں دعوہ اسٹال لگایا تھا۔ شادی میں شریک ہونے والوں کی کثیر تعداد کو اسپریچول گفٹ دیا گیا۔ تمام لوگوں کی جانب سے بہت صحت مند اور حوصلہ افزا رد عمل سامنے آیا۔ ٹائمس آف انڈیا کے مقامی رپورٹر مسٹر سرفراز احمد بہت متاثر ہوئے، اور کہا کہ برادران وطن کے درمیان اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کا یہ ایک انوکھا طریقہ ہے، آئندہ آپ جب بھی اس طرح کا پروگرام بنائیں تو مجھے مطلع کریں میں اپنے ڈائریکٹر سے مل کر ٹائمس آف انڈیا میں اس پر ایک اسٹوری شائع کرنا چاہتا ہوں۔
کالج میں دعوت : سینٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹو اسٹڈیز (بہار)کے سمستی پور اور دلسنگھ سرائے کی ٹیم نے20 مارچ 2017کو سی ایچ اسکول (سمستی پور) اور پی ٹی ای سی کالج (رامپور،بہار)میں اساتذہ اور طلبا کے درمیان قرآن اور دینی لٹریچر تقسیم کیا اور کالج کی لائبریری میں قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر رکھنے کی اجازت حاصل کی۔ اسپریچول گفٹ کو حاصل کرکے لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا،اور کہا: آج لوگوں کو اسلام کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں ہیں،آپ لوگ قرآن اور یہ کتابیں تقسیم کرکے بہت اچھا کر رہے ہیں۔حاجی محمد ادریس،مولانا شعیب ،محمد شاہجہاں اور محمد ناصر نے اس کام میں حصہ لیا تھا۔
دعوتی سیاحت: سینٹر فار پیس اینڈ آبجکٹو اسٹڈیز (بہار و جھارکھنڈ )نے 18 اور 19 مارچ کوبہار کے تین مقامات ارریہ ،پورنیہ اور کشن گنج(بہادر گنج)کا دعوتی سفر کیا۔سفر کا مقصد دعوتی مواقع کو استعمال کرنا تھا۔18 مارچ کودھمدھاہا(پورنیہ)میں ایک مندر کیمپس میں’’اسلام اور پیس‘‘ کے عنوان سےپروگرام ہوا۔پروگرام کے بعد لوگوں کو قرآن اور سیرت پرکتابیں دی گئیں۔لوگوں نے پروگرام کو بہت پسند کیا۔19مارچ کو بہادری گنج کے رسل ہائی اسکول میں پروگرام’’اسلام اور دہشت گردی‘‘ کے عنوان سے ہوا۔پروگرام کے بعد لوگوں میں قرآن و دیگر لٹریچر تقسیم کیا گیا۔دونوں پروگرام میں حافظ ابوالحکم محمد دانیال نے خطاب کیا اور لوگوں کے سوالوں کے جوابات دئے۔پروگرام کو شرکاء نے کافی پسند کیا۔19 مارچ کو ظہر سے عصر کے بیچ سینٹر فار پیس اینڈ آبجکٹو اسٹڈیز کے پٹنہ،ارریہ،بہادرگنج اور کشن گنج کے ممبران نے میٹنگ کی اور مستقبل کا دعوتی پروگرام بنایا۔اس دعوتی دورے میں ششی کانت نامی ایک صاحب نے اپنا تاثرات دیتے ہوئے کہاکہ میں سن 79 سے مختلف چیزوں کو پڑھ رہا ہوں،مگر میں اب تک سچائی کی تلاش میں تھا،آپ کی باتوں کو سن کر ایسا لگتا ہےکہ میری تپسیا پوری ہوئی۔اس دعوتی سفر میں حافظ ابوالحکم محمد دانیال (صدر سینٹر فار پیس اینڈ آبجکٹو اسٹڈیز)محمد ثناء اللہ (پٹنہ), مسٹر امت کمار(پٹنہ)،محمد مشتاق،انل کمار(پٹنہ)،ڈاکٹر کمال(ارریہ)،محمد وسیم(cpg,کشن گنج)اشفاق عالم اور ڈاکٹر محمد فیروز(بہادر گنج)شامل تھے۔
ذیل میں کچھ تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
■ محترم المقام مولانا صاحب، السلام علیکم، خدا آپ کو صحت اور عافیت سے رکھے، آمین۔ میں آپ کا خطاب سنتا رہتا ہوں، ایک اتوارکی تقریر میںنے سنی۔ اس میں آپ نے موجودہ یونیورس کو جنت کا ابتدائی تعارف بتایا ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ ونڈر فل ہے۔ (ندیم عادل، حیدر آباد)
■ شتم رسول کا مسئلہ، کتاب سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ بہت شاندار لکھا ہے آپ نے، اللہ آپ کی عمر میں اضافہ کرے۔میں نگینہ (بجنور) میں رہتا ہوں۔ جناب مہتاب صاحب (دھام پور) کے ذریعے الرسالہ اور دوسری کتابیںمل جاتی ہیں۔ میں غیر مسلموں میں اسپرٹ آف اسلام تقسیم کرتاہوں جس کو وہ بہت پسند کرتے ہیں۔ 18مارچ 2017 کو میں نے ڈاکٹر انل کمار کو فروری 2017 کا اسپرٹ آف اسلام کا شمارہ دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے، اور کہا کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا۔ میرے پاس بہت مسلم مریض آتے ہیں لیکن انھوں نے کبھی بھی اسلام کے بارے میں مجھ کو کچھ بھی بتانے کی کوشش نہیں کی۔انھوں نے مجھ کوقرآن بھی لانے کے لیے کہا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ اگلی بار قرآن لے کر آؤں گا۔ (مولانا مظہر جمیل، بجنور، یوپی)
■ Dear Sir, peace be upon you and to all the people around you! I am extremely delighted to receive a personal copy of the Holy Quran in English and I want to express thanks to you and to all who have made great effort to send it to me. I also appreciate the good work your organization is doing for the good of society by spreading the word of God among all and telling them what Islam is all about. Peace is what we all require, and in any conflicts personal dialogue with each other is a better solution. I would like to quote George Bernard Shaw, “Now that we have learned to fly in the air like birds and dive in the sea like fish, only one thing remains to learn to live on earth like humans.” Sir, if in near future you come up with any spiritual reading material, I would be happy to receive a complimentary copy of it. Thanks to you once again. Warm Regards. (Lawrence Chettri)
واپس اوپر جائیں