Pages

Friday 1 August 2014

Al Risala | August 2014 (الرسالہ،اگست)


خصوصی شمارہ ۔ قرآن و حدیث
قرآن: کتابِ

قرآن کا مقصدِ نزول کیاہے- اس کا جواب قرآن کی ایک ابتدائی آیت میں موجود ہے- سورہ البقرہ کی پہلی آیت یہ ہے: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ (2:2)یعنی یہ الکتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں-
قرآن کی اِس آیت میںکتاب کے ساتھ ’الف لام‘ استعمال ہواہے، عربی قاعدہ کے مطابق، یہاں الکتاب میں (الف لام) عہد کا ہے، یعنی اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ یہ وہی کتابِ معہود (Promised Book) ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت جس رہنما کتاب کا تقاضا کررہی تھی، قرآن وہی رہنما کتاب ہے- انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے جن سوالات کا جواب چاہتا تھا، اُن سوالات کا جواب اِس کتاب میں دیاگیا ہے- قرآن میں ’’فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى ‘‘ (2:38) کے الفاظ میں اِسی کتابِ ہدایت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے-
اصل یہ ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے، ایک متلاشی ِ حق حیوان ہے- ہر انسان شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کا مقصدِ حیات (purpose of life) کیا ہے- زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے- انسان کے لیے ابدی سعادت کی صراطِ مستقیم کیا ہے- ہر عورت اور مرد کے دل میں یہ سوالات ہوتے ہیں، خواہ وہ اپنی زبان سے اِس کا اظہار کرے یا نہ کرے-
اللہ تعالی نے انسانیت کے آغاز ہی سے اِس کا انتظام کیا- بار بار تاریخ میں ایسے پیغمبر آئے جو اِس سلسلے میں انسان کو اللہ کا کلام پہنچاتے رہے- لیکن پچھلے پیغمبروں کے ذریعے جو کلامِ الہی انسان کے پاس اللہ نے بھیجا تھا، بعد کو وہ اپنی اصل صورت میں محفوظ نہ رہا- اس کے بعد اللہ نے یہ کیا کہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں اس نے اپنی آخری کتاب قرآن نازل فرمائی اور یہ بھی فیصلہ کردیاکہ یہ کتاب قیامت تک اپنی اصل حالت میں محفوظ رہے، تاکہ دوبارہ کسی نئے پیغمبر یا نئی کتاب کی ضرورت پیش نہ آئے-
قرآن کو ابدی کتاب ہدایت کی حیثیت سے محفوظ کرنا کوئی سادہ بات نہ تھی- اس کے لیے ضروری تھا کہ ایسی جامع منصوبہ بندی کی جائے جو اسباب کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کلّی معنوں میں قرآن کی ابدی حفاظت کی ضامن بن جائے- اگر قرآن کامل معنوں میں محفوظ نہ رہے تو انسان کے لیے اس کی اہمیت مشتبہ ہوجائے گی-
1- اِس مقصد کے لیے پہلی ضرورت یہ تھی کہ عربی زبان جو کہ قرآن کی زبان ہے، وہ قیامت تک ایک زندہ زبان (living language) کی حیثیت سے باقی رہے- چناں چہ عربی زبان کے حق میں یہ واقعہ پوری طرح پیش آیا- زبانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ چند سو سال کے بعد زبان اتنا زیادہ بدل جاتی ہے کہ بعد کے لوگ قدیم زبان کو سمجھ نہیں پاتے، مگر عربی زبان تمام معلوم زبانوں میں ایک استثنا (exception) کی حیثیت رکھتی ہے- نزولِ قرآن کے زمانے میں جو عربی زبان رائج تھی اور جس میں قرآن اتارا گیا، وہ عربی زبان آج بھی اپنی اصل صورت میں محفوظ ہے- عربی زبان کی گریمراور اس کی لغات آج بھی وہی ہیں جو پہلے تھیں- علم الالسنہ کے ماہرین نے تسلیم کیا ہے کہ عربی زبان کی یہ صفت تمام زبانوں میں ایک استثنا ہے- چوں کہ اللہ تعالی کو قرآن کو محفوظ رکھنا تھا، اِس لیے اُس نے ایسے اسباب پیداکیے کہ قرآن کی زبان بھی کامل طورپر محفوظ رہے- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوراقم الحروف کی کتاب ’’پیغمبر انقلاب‘‘، صفحہ: 169-181)-
2- یہی معاملہ قرآن کے متن (text) کا ہے- اِس معاملے میں بھی اللہ نے ایسے اسباب پیدا کیے کہ قرآن عربی کا متن کسی ادنی تغیر کے بغیر پوری طرح محفوظ رہے- خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے میں تمام صحابہ کے اتفاق سے زید بن ثابت انصاری نے قرآن کا جو مکتوب نسخہ (written version)تیار کیا تھا، بعد کے زمانے میں قرآن کے جو نسخے تیار کیے گئے، وہ اِسی اولین نسخے کی کامل نقل تھے- حفاظتِ متن کا یہ سلسلہ اعلی اہتمام کے ساتھ تاریخ میں مسلسل جاری رہا، یہاں تک کہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ آگیا- آج قرآن کے مطبوعہ نسخے دنیا بھر میں بے شمار مدرسوں، مسجدوں، گھروں اور لائبریریوں میں موجود ہیں- یہ سب مطبوعہ نسخے زید بن ثابت انصاری کے اولین نسخے کی کامل نقل ہوتے ہیں- محققین (scholars)نے لمبی تحقیق کے بعد اعتراف کیا ہے کہ قرآن کے متن میں ایک آیوٹا(iota)کے بقدر بھی تبدیلی نہیں ہوئی-
اللہ تعالی نے حفاظتِ قرآن کا یہ اہتمام اِس لیے کیا کیوں کہ اگر قرآن کے متن میں ادنی تغیر ہوجائے تو لوگوں کی نظر میں قرآن کا استناد (credibility) مشتبہ ہوجائے گی-
3- اِسی طرح اللہ تعالی نے قرآن کے ساتھ ایک اور خصوصی معاملہ کیا اور وہ تھا قرآن کی تاریخ کا تحفظ- قرآن کی تاریخ ہر جزئی اور کلی اعتبار سےپوری طرح محفوظ ہے- اِس پر عربی زبان میں باقاعدہ کتابیںموجود ہیں- قرآن کی یہ تاریخ اتنی مکمل صورت میں لکھی گئی ہے کہ آج جو شخص اِن کتابوں کو پڑھے، وہ پوری طرح جان لے گا کہ قرآن کی حفاظت کا تاریخی اہتمام کس طرح کیاگیا ہے-
4- یہی معاملہ قرآن کے معنی اور مفہوم کا ہے- مسلم اہلِ علم نے کثرت سے قرآن کی تفسیریں لکھیں اور قرآن سے متعلق علوم پر کتابیں تیار کیں- اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ قرآن کی آیتوں کے معنی پوری طرح معلوم اور محقَّق ہوگئے- یہ واقعہ بھی قرآن کی حفاظت کا ایک حصہ ہے- قرآن کے الفاظ جس طرح محفوظ کیے گئے، اُسی طرح قرآن کے الفاظ کے معانی بھی محفوظ کیے جاتے رہے- اگرایسا نہ ہوتا تو محفوظ متن کی موجودگی میں بھی قرآن ایک ناقابلِ فہم مجموعہ بن جاتا- لوگ قرآن کے عربی الفاظ کو پڑھتے، لیکن وہقرآن کے معنی ومفہوم سے بے خبر رہتے-
مثال کے طورپر قرآن کی پہلی سورہ میں دین (1:4) کا لفظ آیاہے- اِسی طرح قرآن کی سورہ یوسف میں بھی دین (12:76) کا لفظ آیا ہے- دونوں جگہ لفظ ایک ہے، مگر دونوں جگہ لفظ کے معنی مختلف ہیں، اور یہ فرق تواتر کے ذریعے پوری تاریخ میں منتقل ہوتا رہا، یہاں تک کہ وہ آج کے لوگوں تک پہنچ گیا، وغیرہ-
قرآن کے معنی کا یہ تحفظ بہت ضروری تھا-اگر یہ تحفظ موجود نہ ہوتا تو قرآن کے معانی کو سمجھنے میں بہت زیادہ اختلافات ہوتے- یہاں تک کہ یہ بھی ممکن تھاکہ قرآن کا عربی متن موجود ہو، اِس کے باوجود قرآن ایک ناقابلِ فہم کتاب بن جائے-
قرآن اور فیصلہ الہی
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اِس کتاب کے لیے اللہ نے مقدر کردیا ہے کہ اِس میں باطل نہ اس کے آگے سے داخل ہوسکتا ہے اور نہ اِس کے پیچھے سے- یہ خدا ئے حکیم اور حمید کی طرف سے اتارا گیا ہے-(41:42)
اِس آیت میں آگے (before) سے مراد قرآن کے الفاظ ہیں اور پیچھے(behind) سے مراد ان الفاظ کے معانی- اِس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں نہ کوئی لفظی تبدیلی (change in words) ممکن ہے اور نہ کوئی معنوی تبدیلی (change in meaning)- قرآن کے تحفظ کے بارے میں اِس فیصلہ الہی کا تقاضا ہے کہ قرآن اول دن سے لے کر قیامت تک ان دونوں پہلوؤں کے اعتبارسے، کامل طورپر انٹیکٹ(intact)رہے- کسی ادنی وقفہ (gap)کے بغیر قرآن کی یہ محفوظیت مسلسل طور پر باقی رہے-
یہ بات قرآن کے لفظ اور معنی دونوں کے اعتبار سے، یکساں طورپر مطلوب ہے- قرآن کا لفظ جس طرح تاریخ میں کسی انقطاع کے بغیر منتقل ہورہا ہے، اُسی طرح اس کا مفہوم بھی تاریخ میں کسی انقطاع کے بغیر کامل صحت کے ساتھ منتقل ہونا چاہیے- اگر ایسا نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نعوذ باللہ قرآن کے بارے میں اللہ کا منصوبہ مکمل نہ ہوسکا، جو کہ بلا شبہہ ناممکن ہے-
قرآن بظاہر ایک کتاب ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک فیصلۂ خداوندی ہے- قرآن اللہ اور بندے کے درمیان برہان (4:174) ہے- برہان کا مطلب حجت ہے- دوسرے الفاظ میں، قرآن ایک مستند دستاویز(authoritative document) ہے-
قرآن میں پیشگی طورپر یہ بتادیاگیا ہے کہ انسان سے اللہ کو کیا مطلوب ہے اور کس بنیاد پر انسان کے لیے ابدی عذاب یا ابدی انعام کا فیصلہ ہونے والا ہے- قرآن کی اِس نوعیت کا تقاضا ہے کہ قرآن اپنے لفظ اور اپنے معنی دونوں اعتبار سے، کامل طورپر محفوظ رہے- قرآن کی یہ محفوظیت کسی جنگل میں یا کسی پہاڑ پر نہیں ہوسکتی- قرآن کی محفوظیت لازمی طورپر انسانوں کے درمیان ہوگی- ایسی حالت میں قرآن کی لفظی اور معنوی حفاظت کا معیار وہی ہوگا جو دوسری کسی انسانی کتاب کا ہوسکتا ہے اور علمی تاریخ کےمطابق، وہ معیار یہ ہے کہ کتاب کے الفاظ اور اس کے معانی کا استعمال انسانوں کی ایک بڑی جماعت کے درمیان نسل درنسل (generation after generation) جاری رہے، تاریخ کے کسی بھی لمحے میں لوگوں کے درمیان ان کا تسلسل نہ ٹوٹے-
تعبیروتفسیریا تحریف
قرآن کا عربی متن (text) محفوظ حالت میں ہرجگہ موجود ہے- کسی بھی صاحبِ علم آدمی کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ آبجکٹیو(objective) انداز میں مطالعہ کرکے قرآن کے معنی میں نئے پہلوؤں کی نشان دہی کرے- قرآن کی بنیادی تعلیم ایک ہے اور وہ ہمیشہ ایک رہے گی، لیکن قرآن کی آیتوں میں نئے پہلوؤں کی دریافت ہمیشہ جاری رہے گی، جیساکہ خود حدیث میں قرآن کے بارے میں آیا ہے: لا تنقضی عجائبہ (سنن الترمذی، رقم الحدیث:2906) یعنی قرآن کے عجائب (wonders)کبھی ختم نہ ہوں گے-
لیکن اِس مطالعہ قرآن کی دو صورتیں ہیں — ایک ہے، تعبیر (interpretation)کا طریقہ اور دوسرا ہے، تحریف (distortion)کا طریقہ- قرآن میں نئی تعبیرات کی گنجائش ہمیشہ باقی رہے گی، لیکن تحریف کی گنجائش یقینی طورپر نہیں- اِس معاملے کی مزید وضاحت کے لیے یہاں کچھ مثالیں نقل کی جاتی ہیں-
مثال کے طورپر قرآن میں اہلِ جہنم کے بارے میں آیا ہے کہ: قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ (74:43)- قرآن کی اِس آیت میں ’مصلین‘ کا لفظ آیا ہے، لیکن یہاں صلوة کی عملی صورت کا ذکر نہیںہے، اب اگر کوئی شخص کہے کہ یہاں ’مصلین‘ سے مراد پابندی کے ساتھ نماز اداکرنے والے لوگ ہیں تو یہ ایک جائز تعبیر وتفسیر ہوگی- لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اِس آیت میں ’مصلین‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سماجی تنظیم (social organization) میں شامل تھے، تو یہ آیت کی ایک محرَّف (distorted) تشریح ہوگی جو علمی طورپر قابلِ قبول نہیں ہو سکتی-
اِس معاملے کی ایک اور مثال لیجئے- قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْہَا وَزِیْنَةً ۭ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (16:8) یعنی خدا نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے، تاکہ تم اُن پر سوار ہو اور زینت کے لیے بھی، اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے-
قرآن کی اِس آیت میں انسان کے بری سفر اور بحری سفر کا ذکر ہے- اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ’ویخلق ما لاتعلمون‘ کے الفاظ میں ہوائی سفر کا ذکر ہے جس کی ٹکنالوجی بوقتِ نزولِ قرآن نیچر میں موجود تھی اور بعد کو انسان اِس مخفی ٹکنالوجی کو دریافت کرکے ہوائی جہاز بنانے والا تھا اور برّی اور بحری سفر کے علاوہ ہوائی سفر کا بھی اس میں اضافہ کرنے والا تھا- اگر کوئی شخص قرآن کی اِس آیت کی یہ تفسیر کرے تو وہ ایک جائز تفسیر ہوگی- لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ’ویخلق ما لا تعلمون‘ کے الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی ایک اور آتشی مخلوق ہے جو ستاروں کی دنیا میں رہتی ہے تو یہ بلاشبہہ ایک بے بنیاد تعبیر وتفسیر ہوگی جو علمی طورپر ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتی-
تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کے بارے میں اللہ کا یہ فیصلہ پوری طرح واقعہ بنا- یہی وجہ ہے کہ نزولِ قرآن کےچودہ سو سال بعد آج بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے درمیان قرآن کے الفاظ اور اس کے معانی دونوں اُسی طرح معلوم اور مالوف ہیں جیساکہ وہ نزولِ قرآن کے وقت تھے- اِس درمیان میں نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ غیر مسلم اہلِ علم نے قرآن کا گہرا مطالعہ کیا اور غیرمشتبہ طورپر اس کو سمجھتے رہے- قرآن کے بارے میں لوگوں کی اِس معرفت (understanding)کی تصدیق انسانوں کے ذریعے براہِ راست بھی کی جاسکتی ہے، اِس کے علاوہ قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی بے شمار کتابیں دنیا بھر کے کتب خانوں میں موجود ہیں، اِن کتابوں کا مطالعہ بھی قرآن کے بارے میں مذکورہ حقیقت کی بالواسطہ تصدیق کرتاہے-
قرآن اور لسانیات
زبان (language) انسان کی ایک امتیازی صفت ہے- تمام حیوانات میں انسان واحد مخلوق ہے جو سوچتا ہے اور پھر اپنی سوچ کو نطق (speech) کی صورت میں بیان کرتا ہے- نطق کی اِس صلاحیت کا اظہار ہمیشہ الفاظ کے ذریعے ہوتا ہے، مگر الفاظ کوئی جامد (static) چیزنہیں- جس طرح انسان کے اندر فکر کا عمل (thought process) ہمیشہ ارتقا کرتا رہتا ہے، اِسی طرح زبان میں بھی ہمیشہ ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے- فکر اور زبان دونوں یکساں طورپر ارتقا پذیر حقیقتیں ہیں، نہ کہ جامد حقیقتیں-
مثال کے طورپر قدیم زمانے میں انسان نے جنگلوں میں ایک حیوان کو دریافت کیا جو کہ انسانی سواری کے لیےنہایت موزوں تھا- انسان نے اپنی زبان میں اس کوگھوڑا (horse) کا نام دیا- اس کے بعد دھیرے دھیرے ارتقا ہوااور گھوڑے کے ساتھ گاڑی کا تصور شامل ہوا- اب ایک نئی سواری وجود میں آئی جس کو گھوڑا گاڑی (horse cart)کہا جانے لگا- اِس طرح گھوڑے کے لفظ میں ایک استعمالی اضافہ ہوا- اس کے بعد انیسویں صدی میں مزید ترقی ہوئی اور انسان نے بھاپ کی طاقت (steam power) کو دریافت کیا- اب بھاپ کی طاقت کو بتانے کے لیے گھوڑے کے لفظ کا ایک نیا استعمال وجود میں آیا جس کو ہارس پاور (horse power) کہاجاتا ہے- اِن تینوں الفاظ میں ایک مشترک مفہوم پایا جاتا ہے- اِس کے باوجود تینوں کے معنی الگ الگ ہیں، اور یہ الگ الگ مفہوم انسانوں کے درمیان اِن الفاظ کے استعمال سے تدریجی طورپر بنا ہے-
یہی ہر زبان کا معاملہ ہے- ہر زبان میں لفظ کے اصلی مفہوم کے ساتھ ہمیشہ اس کے استعمالی مفاہیم پائے جاتے ہیں، اور یہ استعمالی مفہوم اہلِ زبان کے درمیان اُن کے مسلسل لکھنے اور بولنے سے زبان کا حصہ بنتے ہیں- اہلِ زبان کے درمیان کسی انقطاع کے بغیرجاری اِس عمل کو لسانی تواتر (linguistic continuation) کہاجاتاہے-
دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی یہی عمل پایا جاتا ہے- مثال کے طورپر عربی زبان کا ایک لفظ زکا، یزکو ہے- اس لفظ کا ابتدائی مفہوم بڑھنا (to flourish)ہے- اِس لحاظ سے یہ لفظ جمود کی ضد ہے- پہلے یہ لفظ اپنے ابتدائی مفہوم میں استعمال ہوتا تھا، لیکن اسلام میں جب مال کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کی تعلیم آئی تو معنوی قربت کی بنا پر اِس کے لیے ’زکوة‘ کی اصطلاح اختیار کی گئی- کیوں کہ اسلام کا تصور یہ ہے کہ انفاق کا مطلب صرف خرچ نہیں، بلکہ اِس سے مال میں اضافہ ہوتا ہے، وہ مال میں برکت کا ذریعہ ہے-
اِسی طرح اسلام میں ایک اور تعلیم آئی جس کا مقصد یہ تھا کہ انسان کے اندر روحانی ارتقا (spiritual development) لایا جائے، انسان کی فطرت میں چھپے ہوئےروحانی امکان کو انفولڈ (unfold) کیا جائے- اِس مفہوم کے لیے بھی قریب تر لفظ یہی تھا- چناںچہ اِس عمل کو تزکیہ کہاگیا- اِس مفہوم کے اعتبار سے تزکیہ کا لفظ اسلام کا ایک اصطلاحی لفظ بن گیا اور اِس معنی میں وہ لوگوں کے درمیان استعمال ہونے لگا- تقریر اور تحریر کے متواتر استعمال سے تزکیہ کا یہ اصطلاحی مفہوم پوری طرح معلوم اور متعین ہوگیا، حتی کہ اب اہلِ زبان اور اہلِ علم کے درمیان اِس لفظ کے اصطلاحی مفہوم پر کوئی اشتباہ موجود نہیں-
یہی مثال پورے قرآن پر صادق آتی ہے- قرآن کا متن عربی زبان میں ہے- قرآن میں کُل 114 سورتیں ہیں- قرآن میں استعمال ہونے والے عربی الفاظ کی تعداد 86430 شمار کی گئی ہے- یہ الفاظ کہیں اپنے اصلی معنی کے اعتبار سے ہیں اور کہیں استعمالی معنی کے اعتبار سے اور کہیں قرآن کی اپنی اصطلاح کے اعتبار سے- قرآن کے عربی الفاظ کے یہ تمام مفاہیم تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، یہ مفاہیم غیر مشتبہ طورپر معلوم ہیں- چودہ سو سال کی مدت میں اہلِ زبان اور اہلِ علم کے درمیان متواتر استعمال کے نتیجے میں اِن الفاظ کا مفہوم غیرمشتبہ طور پر متعین ہوگیا ہے- اب اگر کوئی شخص قرآنی الفاظ کے اِن ثابت شدہ استعمالی مفاہیم کو نہ مانے،تو اس کا کیس علم کا کیس نہیں، بلکہ اس کا کیس ایک بدیہی امر کے انکار کا کیس ہے اور ایسے انکار کی علم اللسان کے اعتبار سے بلا شبہہ کوئی قیمت نہیں-
زبان اور اس کا استعمال
زبان (language)کیا ہے- زبان ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان تبادلہ خیال کا ذریعہ ہے-زبان کا بنیادی عمل خیالات کا اظہار (expression of thought) ہے- (E.B:/10/643)
ہر زبان ابتداء ً صرف بول چال کی زبان (dialect)ہوتی ہے، پھر استعمال کے دوران دھیرے دھیرے وہ لکھنے کی زبان بنتی ہے- مثلاً انگریزی زبان ہزار سال پہلے صرف بول چال کی زبان تھی- اس کے بعد وہ ترقی کرکے لکھنے کی زبان بنی- ابتدا میں انگریزی زبان کے الفاظ کی تعداد بہت کم تھی، جب کہ اکیسویں صدی میں انگریزی زبان کے الفاظ کی تعداد بڑھتے بڑھتے ایک ملین سے زیادہ ہو چکی ہے-
کسی زبان میں الفاظ کا اضافہ بنیادی طورپر دو طریقے سے ہوتاہے- ایک ہے خارجی کلچر کے اختلاط سے زبان کے الفاظ میں اضافہ ہونا- مثلاً کیلنڈر (calendar) اصلاً لاتینی زبان کا لفظ (calendarium) تھا- اس کے بعد وہ انگریزی میں شامل ہو کر انگریزی زبان کا حصہ بن گیا- الفاظ کا یہ اضافہ ہر زبان میں ہوتا ہے اور وہ مسلسل طور پر جاری رہتا ہے-
زبان میں الفاظ کے اضافے کا دوسرا طریقہ وہ ہے جو استعمال (usage) کے ذریعے ہوتا ہے- تقریباً ہر لفظ کے معنی میں استعمال کے ذریعے اضافہ ہوتا رہتا ہے- یہ عمل ہر زبان میں ہوتا ہے- کسی بھی زبان کی ڈکشنری کو دیکھ کر یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح الفاظ کے مفہوم میں اضافے کا یہ عمل جاری رہتاہے- کسی لفظ کے ابتدائی معنی کو لغوی معنی کہا جاتا ہے اور اس کے اضافہ شدہ معنی کو استعمالی معنی- لفظ کے معنی میں استعمال کی بنا پر اضافے کی ایک صورت وہ ہے جس کو اصطلاح (term) کہاجاتا ہے- ہر زبان میں یہ اصول رائج ہے- اِس پر باقاعدہ ڈکشنریاں بنائی گئی ہیں جن میں الفاظ کے اصل معنی کے ساتھ اس کے اصطلاحی معنی بھی بتائے جاتے ہیں-
مثال کے طورپر انگریزی زبان میں ایک لفظ گیس (gas) ہے- لفظ گیس کا ابتدائی مفہوم انتشار(chaos) تھا- بعد کو یہ لفظ اصطلاح بن کر گیس کے موجودہ کیمیاوی معنی میںاستعمال ہونے لگا- گیس کی یہ اصطلاح سترھویں صدی عیسوی میں بنی- بلجیم کے ایک سائنس داںوان ہیل مانٹ نے گیس کے لفظ کو کیمسٹری کی ایک اصطلاح کے طورپر استعمال کیا:
“Gas” formed in the 17th century by the Belgian chemist and physician Jan Baptist Van Helmont (1577-1644) as a technical term in chemistry. (EB:10/652)
اِسی طرح لفظ کے استعمالی معنی کی ایک مثال وہ ہے جس کو مجازی معنی (metaphor) کہاجاتا ہے- الفاظ کو مجازی معنی میں استعمال کرنے کا طریقہ ہر زبان میں کثرت سے رائج ہے- کوئی لفظ جب مجازی معنی میں استعمال ہو تو لفظ اگر چہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے وہی رہتا ہے، لیکن باعتبارِ استعمال اس کے معنی بدل جاتے ہیں- مثلاً ایک بہادر آدمی کو اگریہ کہاجائے کہ تم شیر ہو تو شیر کا لفظ اگر چہ وہی رہے گا، لیکن اس کے معنی میں ایک نیا مفہوم شامل ہوجائے گا- اب وہ لفظ اپنے اصلی معنی کے بجائے اپنے مجازی معنی کے اعتبار سے مراد ہوگا-
اِس معاملےکی ایک مثال فرانسیسی فلاسفر روسو (Jean Jacques Rousseau) کی کتاب ہے- اِس کتاب کا فرانسیسی نام یہ تھا— کنٹراٹ سوشیال(Contrat Social) - یہ کتاب فرانسیسی زبان میں 1762 میں شائع ہوئی- اس کے بعد اس کا ترجمہ انگریزی زبان میں اِس نام سے کیا گیا— سوشل کنٹریکٹ (Social Contract) - روسو کی یہ کتاب حسب ذیل جملے سے شروع ہوتی ہے— انسان آزاد پیدا ہوا تھا، مگر میں اس کو زنجیروں میں دیکھتا ہوں:
Man was born free, but I see him in chains.
اِس جملے میں زنجیر (chain) کا لفظ اپنے اصلی معنی کے اعتبار سے استعمال نہیں ہوا ہے، بلکہ وہ اپنے مجازی معنی کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے- اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں روسو کے لفظ کو مجازی معنی کے اعتبار سے نہیں لوں گا، بلکہ میں اس کو اس کے لغوی معنی کے اعتبار سے لوں گا، تو روسو کا یہ جملہ بالکل بے معنی ہو جائے گا- کیوں کہ روسو کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انسان حقیقی معنوں میں لوہے کی زنجیروں میں بندھا ہوا ہے- روسو نے اِس لفظ کو مجازی معنی میں استعمال کیا تھا، یعنی سیاسی زنجیریا سیاسی بندھن کے معنی میں-
اصطلاح سازی کا یہ طریقہ ہر زبان میں بلا اختلاف رائج ہے- ہر زبان میں ہر موضوع پر بے شمار اصطلاحات وضع ہوئی ہیں جو مسلسل طورپر کتابوں میں استعمال ہوتی ہیں- علم کی ترقیاں اصطلاح سازی کے اِسی اصول پر قائم ہیں- ہر موضوع کی کتابیں اِس قسم کی اصطلاحات سے بھری ہوئی ہوتی ہیں- اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں لفظ کے اصطلاحی معنی کو نہیں، بلکہ ہر لفظ کو اس کے ابتدائی لغوی معنی میں لوں گا تو علمی ترقی کا خاتمہ ہوجائے گااور کتب خانوں میں جمع شدہ کتابیں عملاً ناقابلِ فہم دستاویز بن کر رہ جائیں گی-
مثال کے طورپر جرمن سائنس داںمیکس پلانک (Max Planck)نے طبیعیات میں ایک نظریہ دریافت کیا- اِس نظریے کو کوانٹم تھیوری (Quantum Theory) کہاجاتا ہے- کوانٹم تھیوری کا مطلب یہ ہے کہ انرجی کا عمل مسلسل انداز میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ غیر مسلسل انداز میں ہوتا ہے:
Quantum Theory: The theory that energy is not absorbed nor radiated continuously but discoutinuously in definite units called quanta.
اب اگر کوئی شخص یہ کرے کہ وہ کوانٹم تھیوری کی ترکیب کو اس کے اصطلاحی معنی میں نہ لے، بلکہ وہ ’’کوانٹم‘‘ کے لفظ کو اس کے ابتدائی لغوی معنی (مقدار) میں لے کر اس پر بحث کرے تو اس کی ساری بحث آخری حد تک غیر علمی ہوگی- اور اگر اس کے اصول کو مان لیا جائے تو کوانٹم تھیوری کے موضوع پر لکھی ہوئی تمام کتابیں ایک ناقابلِ فہم دستاویز بن کر رہ جائیں گی-
زبان کے معاملے میں یہی اصول ہر شعبہ علم میں رائج ہے- اسلام میں بھی اس کو اِسی اعتبار سے استعمال کیاگیا ہے- قرآن میں بہت سے الفاظ ہیں جو بطور اصطلاح استعمال ہوئے ہیں، یعنی ایک مفہوم بتانے کے لیے کسی قریبی لفظ کو اختیار کرنا- مثلاً صلوة، صوم، زکوة، حج، وغیرہ- اِن الفاظ کا ایک ابتدائی لغوی مفہوم ہے، لیکن قرآن میں اس کو اصطلاحی معنی کے اعتبار سے استعمال کیاگیا ہے- یہ اصطلاحی مفہوم تاریخ میں مسلسل طور پر جاری رہا- اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ اِن الفاظ کو وہ اس کے معروف اصطلاحی معنی کے برعکس صرف اس کے لغوی معنی میں لے اور پھر اس کا خود ساختہ مفہوم بتا کر اس پر بحث شروع کردے تو اس کی ساری بحث بلا شبہہ بے بنیاد(baseless) قرار پائے گی- اِس قسم کی بحث کی کوئی قیمت نہ علمی اعتبار سے ہوگی اور نہ اسلامی اعتبار سے-
زبان اور معنی کا تاریخی تواتر
ہر زبان کا یہ اصول ہے کہ اس کے الفاظ کے معنی اہلِ زبان کے استعمال سے متعین ہوتے ہیں- مجلسوں میں، تعلیم گاہوں میں، غرض ہرجگہ لمبی مدت تک اُن کا استعمال جاری رہتا ہے اور اُس پر ڈکشنریاں بھی لکھی جاتی ہیں- اِس طرح لمبی مدت کے عمل کے بعد اہلِ زبان اور اہلِ علم کے درمیان الفاظ کے مفاہیم مسلّمہ طورپر متعین ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ زبان جاننے والوں کے درمیان الفاظ کے مفاہیم پر کوئی شبہہ باقی نہیں رہتا- یہی ہر زبان میں ہوتا ہے اور یہی معاملہ اسلام میں بھی پیش آیا ہے-
قرآن ساتویں صدی کے ربع اول میں عربی زبان میں اترا- عربی زبان اُس وقت ایک تحریری زبان بن چکی تھی- اُس وقت سے اب تک عربی زبان ایک زندہ زبان کے طورپر زمین کے ایک بڑے رقبے میں رائج ہے-
قرآن نے جن الفاظ کو لغوی یا اصطلاحی معنی میں استعمال کیا تھا، وہ رسول کے معاصرین کے درمیان بڑے پیمانے پر اُسی مفہوم میں دہرائے جاتے رہے- اس کے بعدایک بڑی انسانی آبادی میں نسل در نسل برابر یہ سلسلہ جاری رہا- مسلم معاشرے کے علاوہ، مسجدوں میں اور مدرسوں میں اور اداروں میں بڑے پیمانے پر اِن اصطلاحات کا مسلسل چرچا ہوتا رہا- اِن پر کثرت سے کتابیں اور ڈکشنریاں لکھی گئیں- اِس عمل(process)کو علمی زبان میں تواتر کہا جاتاہے- اِس تواتر (continuation) نے قرآن کے الفاظ اور اس کی اصطلاحات کو غیر مشتبہ طورپر ایک بڑے انسانی گروہ کے درمیان معلوم اور مسلّم بنادیا-
اِس معاملےکو تاریخی تواتر(historical continuation) کہاجاسکتا ہے- یہی تاریخی تواتر ہر زبان کے کتب خانے کو علوم کا مستند ماخذ بنائے ہوئے ہے- یہی تاریخی تواتر قرآن کے مفاہیم کو سمجھنے کے لیے بھی پوری طرح موجود ہے- جو اصول دوسرے علمی شعبوںکی کتابوں کو ناقابلِ انکار حقیقت کا درجہ دئے ہوئے ہے، وہی اصول قرآن اور اس کے الفاظ واصطلاحات کو بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت کا درجہ عطا کرتا ہے-
اِس معاملے میں جو لوگ قرآن کے الفاظ واصطلاحات پر شک کریں، وہ صرف قرآن کے الفاظ واصطلاحات پر شک نہیں کررہے ہیں، بلکہ وہ علوم کی پوری تاریخ کو عملاً منسوخ قرار دے رہے ہیں، اور اِس قسم کی منسوخی کے بارے میں بجا طورپر کہاجاسکتا ہے کہ بلاشبہہ وہ بداہةً ہی قابل رد ہے- (Prima facie it stands rejected)
اِسی طرح انگریزی زبان کا ایک لفظ ایوالو (evolve) ہے جو لاتینی زبان سے آیا ہے- اِس لفظ کا ابتدائی مطلب کھولنا(unfolding) ہے- یہ لفظ ابتداء ً اِسی مفہوم میں استعمال ہوتا تھا- اِس کے بعد انیسویں صدی میں برٹش سائنس داں چارلس ڈارون (وفات: 1882) نے اپنا ایک حیاتیاتی نظریہ بنایا جس کو اب عام طورپر نظریہ ارتقا(theory of evolution) کہاجاتا ہے- ڈارون کے بعد ایولوشن (evolution) کا لفظ ایک مخصوص حیاتی نظریہ کے معنی میں استعمال ہونے لگا- اب اِس لفظ کا اصطلاحی مطلب یہ ہوگیا کہ تمام انواعِ حیات ایک ہی نوع میں عضویاتی ارتقا کے ذریعے لمبی مدت کے دوران وجود میں آئی ہیں:
Evolution: The theory, now generally accepted, that all species of plants and animals developed from earlier forms by hereditary transmission of slight variations in successive generations.
ایولوشن (evolution) کے لفظ کا یہ اصطلاحی مفہوم اب اہلِ علم کے درمیان ایک معروف اور مسلّم مفہوم بن چکا ہے- اِس کا سبب لمبی مدت تک لفظ کے اِس اصطلاحی مفہوم کا استعمال ہے- لمبی مدت کے دوران جس طرح لفظ ’’ایولوشن‘‘ تاریخ میں نسل درنسل سفر کررہا تھا، اُسی طرح لفظ کا یہ مفہوم بھی لفظ کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا-
اِس دوران لفظ میں اور اس کے مفہوم میں کبھی جدائی نہیں ہوئی- یہی وجہ ہے کہ چارلس ڈارون کے زمانے میں اِس لفظ کا جو مفہوم لوگوں نے سمجھا تھا، اِس لفظ کو پڑھ کر یا سن کر عین وہی مفہوم آج کے لوگ بھی سمجھتے ہیں جو ڈارون کے ہم عصر لوگوں نے سمجھا تھا- ’’ایولوشن‘‘ کا یہ اصطلاحی مفہوم اب اتنا زیادہ مسلّم (establish) ہوچکا ہے کہ اگر کوئی شخص ڈارون یا اس کے بعد کے حیاتیاتی مفکرین کی کسی کتاب میں ’’ایولوشن‘‘ کا لفظ پڑھے اور اس کو قدیم لغوی معنی میں لے کر یہ کہے کہ اس کا مطلب صرف کھولنا (unfolding)ہے، تو یہ بات اتنی زیادہ مضحکہ خیز (ridiculous) ہوگی کہ کوئی صاحبِ علم اس کا جواب دینے کوصرف اپنے وقت کا ضیاع سمجھے گا-
زبان اور تسلسل
تسلسل ہر زبان کا لازمی حصہ ہے- تسلسل کے بغیر زبان کی مثال ایسی ہوجائے گی جیسے کھدائی (excavation) کے ذریعے دریافت کی ہوئی پتھر کی ایک تختی (slab)جس پر کسی معدوم زبان کی ایک عبارت لکھی ہوئی ہو، لیکن آج کوئی شخص اس کو سمجھ نہ سکے- کیوں کہ پتھر کی اِس تختی اور آج کے انسان کے درمیان طویل تاریخی بُعد (historical gap)واقع ہے- ایک طویل زمانے تک لوگوں کے درمیان اِس حجری زبان (stone language) کو لکھنے اور بولنے کا عمل جاری نہ رہا - اِس طرح اِس زمانی بعد کی بنا پر یہ حجری زبان لوگوں کے لیے ناقابلِ فہم بن گئی-
مثال کے طورپر دستورِ ہند(Constitution of India) کو ڈاکٹر امبیڈکر اور ان کے ساتھیوں نے لکھا، پھر اِس دستور کا متن (text) کتاب کی صورت میں چھاپا گیا، پھر انڈیا کی دستور ساز اسمبلی میں اُس پر بحث ومباحثہ ہوا- اس کے بعد سے لے کر اب تک انڈیا کے سپریم کورٹ کے ججوں اور وکیلوں اور قانون کے طلباکے درمیان وہ بار بار زیر بحث آیا، پھر دستور کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں اور مقالات لکھے جاتے رہے- اِس طرح انڈیا کی آزادی (1947) سے اب تک دستورِ ہند کے مندرجات مسلسل طورپر لوگوں کے درمیان چرچا کا موضوع بنے ہوئے ہیں- یہی وہ تسلسل ہے جو دستورِ ہند کو ایک قابلِ فہم قانونی دستاویز بنائے ہوئے ہے- اگر تسلسل کی اِس تاریخ کو حذف کردیا جائے تو دستور ہند ایک ناقابلِ فہم دستاویز بن کر رہ جائے گا، حتی کہ اس کی قانونی اہمیت ہی ختم ہوجائے گی-
ہر زبان الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے- الفاظ کے دو پہلو ہیں- ایک ہے اس کی آواز یا تلفظ اور دوسرا پہلو ہے اس کی معنویت- اِن دونوں پہلوؤں کے زندہ رہنے سے کوئی زبان زندہ رہتی ہے- مثلاً انگریزی زبان کا ایک لفظ اینف(enough) ہے- اس کے معنی کافی کے ہیں- اینف کا تلفظ بھی صوتی تسلسل (continuation of meaning) کے ذریعے ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچ رہا ہے- اِسی طرح اینف کا مفہوم بھی معنوی تسلسل (continuation of meaning)کے ذریعے ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچ رہا ہے- یہی نسل درنسل تسلسل(continuation) وہ چیز ہے جو زبان کے تلفظ اور اس کے معنی دونوں کو تاریخ میں اپنی اصل ابتدائی صورت میں محفوظ کیے ہوئے ہے-
تسلسل یا تواتر(continuation) کا یہ تاریخی اصول جس طرح دوسری زبانوں کی کتابوں پر صادق آتا ہے، ٹھیک اُسی طرح وہ قرآن کی زبان کے بارے میں بھی درست ہے- قرآن کی زبان بھی معنی اور تلفظ دونوں اعتبار سے تاریخ میں نسل درنسل سفر کررہی ہے- یہ تاریخی تسلسل (historical continuation)تقریباً ڈیڑھ ہزار سال سے لوگوں کے درمیان کسی انقطاع (discontinuity) کے بغیر جاری ہے- اِس تاریخی تسلسل نے قرآن کو کامل معنوں میں ایک محفوظ اور قابلِ فہم کتاب بنا دیا ہے- یہ ایک ثابت شدہ تاریخی واقعہ ہے- جو لوگ اِس واقعے کو نہ مانیں، وہ خود اپنے کیس کو مشتبہ بنا رہے ہیں، نہ کہ قرآن میں استعمال ہونے والے الفاظ واصطلاحات کو-
زبان کی تاریخ
انسان کی تعریف (definition) یہ کی جاتی ہے کہ اس کے اندر تصوراتی فکر (conceptual thinking) کی صلاحیت ہے-چناںچہ انسان کے ذہن میں پہلے کسی چیز کا تصور آتا ہے، اس کے بعد اس کے لیے الفاظ وضع ہوتے ہیں- مثلاً پہاڑ کو دیکھ کر پہاڑ جیسی چیز کا تصور پہلے آیا، اس کے بعد اِس فطری ظاہرے کو بتانے کے لیے پہاڑ (mountain) کا لفظ وضع ہوا- ایسا نہیں ہےکہ پہاڑ کا لفظ پہلے وضع ہوا ہو اور اس کے بعد انسان نے پہاڑ کو دریافت کرکے اُس کو ’’پہاڑ‘‘ کا نام دیا ہو-
یہی معاملہ اُن تعبیری الفاظ کا ہے جو قرآن میں استعمال کیے گئے ہیں- مثلاً انسان کے ذہن میں مسجد کا تصور (concept) پہلے آیا، اس کے بعد عبادت کے لیے بننے والی عمارت کو مسجد کہاجانے لگا- اِسی طرح انسانی ذہن میں (صلوة) کا تصور پہلے آیا، اس کے بعد عبادت کی ایک مقرر صورت کو صلوة کہاجانے لگا- اِس کے بعد یہ ہوا کہ بہت سے لوگ مقرر اوقات میں اجتماعی طورپر کھلے مقامات پر اعلان کے ساتھ اقامتِ صلوة کا فریضہ انجام دینے لگے- اِس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوا کہ نماز کی عبادت تمام لوگوں کے لیے اُسی طرح معلوم اور معروف واقعہ بن گئی جس طرح اِس نوعیت کی دوسری تمام اجتماعی روایات ایک معروف واقعہ بنی ہوئی ہیں-
زبان کسی خلا (vacuum) میں سفرنہیں کرتی، زبان ہمیشہ تاریخ میں سفر کرتی ہے- جس طرح انسان تاریخ میں سفر کرتا ہے، اُسی طرح انسان کی زبان بھی تاریخ میں سفر کرتی ہے- زبان کی تاریخ زبان کو ایک قابلِ فہم تسلسل بناتی ہے- اگر کوئی شخص یہ کرے کہ وہ زبان کو اس کی تاریخ سے الگ کرکے اس کا مطالعہ کرے تو یقینی طورپر وہ غلطی کرے گا- وہ نہ تاریخ کو درست طورپر سمجھ سکے گا اور نہ زبان کو-
چند مثالیں
قرآن کی آیتوں کو سمجھنے کے لیے صحیح طریقہ صرف یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں میں جو الفاظ لغوی معنی میں آئے ہیں، اُن کو لغوی معنی میں لیاجائے اور جو الفاظ استعمالی مفہوم میں آئے ہیں، اُن کو اُن کے استعمالی مفہوم میں لیا جائے، خواہ وہ مجاز کے مفہوم میں ہوں یا اصطلاحی مفہوم میں یا کسی اور مفہوم میں- الفاظ کا یہ مفہوم ان کے استعمالی تواتر سے معلوم ہوگا، نہ کہ صرف ڈکشنری کے آزادانہ استعمال سے- الفاظ کا یہ استعمالی مفہوم لوگوں کے درمیان نسل درنسل کے تاریخی تواتر سے متعین ہوگیا ہے- الفاظ کا یہ استعمالی مفہوم آج بھی اہلِ علم کے درمیان تمام اسلامی اداروں میں غیرمشتبہ طورپر رائج ہے- الفاظ کا یہ اصطلاحی مفہوم ہزاروں کتابوں میں مسلسل طورپر ریکارڈ ہوتا چلا آرہا ہے- اِن کتابوں سے اصلاً وہ کتابیں مراد ہیں جو عربی زبان میں لکھی گئی ہیں- یہ علمی کتابیں پہلے مخطوطات اور مطبوعات کی صورت میں کتب خانوں میں تھیں، اب وہ انٹرنیٹ کی صورت میں ہر جگہ آن لائن موجود ہیں اور اب اس پر مزید اضافہ یہ ہوا ہے کہ یہ ڈیجیٹل فارمٹ (digital format) میں ہرجگہ آن لائن اور آف لائن موجود ہیں-
مثال کے طورپر قرآن میں ’صلوة‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- صلوة کا لفظ قرآن کی ایک اصطلاح ہے- صلوة سے مراد وہ مخصوص عبادت ہے جو اسلام میں اہلِ ایمان کے لیے مقرر کی گئی ہے(4:103)- صلوة کا یہ مفہوم تاریخی تواتر سے غیر مشتبہ طورپر اب ایک معلوم واقعہ بن چکا ہے- اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ صلوة کو اس کے اصطلاحی معنی میں بطور عبادت نہیں لے گا، بلکہ وہ صلوة کو اس کے لغوی معنی کے اعتبار سے لے گا، یعنی اِس معنی میں کہ صلوة سے مراد مخصوص عبادت نہیں، بلکہ صلوة کا مطلب ہے: اتباعِ دین ، تو قرآن کے لفظ کی ایسی تفسیر بلاشبہہ ناقابل قبول ہوگی- علمی اصولوں کے اعتبار سے، اُس کا کوئی وزن نہ ہوگا-
اِسی طرح مثال کے طورپرقرآن میں ’حج‘ کا لفظ معروف سالانہ عبادت کے لیے استعمال ہوا ہے- رسول اور اصحاب رسول کے زمانے سے لے کر اب تک علمی اور تاریخی تواتر کے اعتبار سے حج کے اِس مفہوم میں کوئی شک نہیں- اب اگر کوئی شخص یہ کرے کہ وہ حج کو اس کے معروف اصطلاحی معنی سے ہٹا کر اس کے لغوی معنی میں لے اور یہ دعوی کرے کہ حج کا مطلب حجت کرنا ہے، یعنی دلائل کے ساتھ امت کے مسائل پر باہم ڈسکشن کرنا- اِس قسم کی تفسیر بلا شبہہ قابلِ رد ہوگی، کیوں کہ وہ مسلّمہ علمی اصولوں کے خلاف ہے-
اِسی طرح ’صوم‘ کی مثال لیجئے- صوم عربی زبان کا ایک لفظ ہے- ابتدائی معنی کے اعتبار سے، صوم کا مطلب رکنا (abstinence)ہے- اسلام میں جب رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا فرض کیا گیا تو روزے کے لیے ایک اصطلاحی لفظ وضع کیا گیا- یہ اصطلاحی لفظ صوم تھا- صوم کا لفظ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے اِس مفہوم کے لیے ایک قریب تر لفظ تھا- ابتدائی معنی کے لحاظ سے صوم کا لفظ صرف رکنا تھا، لیکن جب صوم کو بطور اصطلاح استعمال کیا گیا تو اس کے معنی یہ ہوگئے کہ رمضان کے مہینے میں دن کے اوقات (from dawn to dusk) میں کھانے پینے جیسی چیزوں سے رکے رہنا- اب اسلام میں صوم کا لفظ ایک متعین عبادتی اصطلاح کے لیے استعمال ہوتا ہے-
رسول اور اصحاب رسول کے زمانے سے لے کر اب تک اہلِ اسلام کے درمیان نسل درنسل صوم کا لفظ اپنے اِسی اصطلاحی مفہوم میں رائج رہا- اسلام کے متعلق ہزاروں کتابوں میں صوم کا لفظ اِسی اصطلاحی معنی میں استعمال کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ صوم کا لفظ اپنے عبادتی اصطلاح کے مفہوم میں ایک معلوم اور مسلّم لفظ بن گیا- اب اگر کوئی شخص یہ کرے کہ چودہ سو سالہ تاریخی تسلسل کو نظر انداز کرکے وہ صرف لغت کے ذریعے صوم کے لفظ کا معنی متعین کرے تو یہ بلاشبہہ ایک ناقابلِ تسلیم فعل ہوگا- علم کے تمام معروف طریقے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے-
زبان کا تلفظ اور اس کامفہوم
زبان خواہ کوئی بھی ہو، اس کے کسی لفظ کا تلفظ (pronunciation) اور اس کا مفہوم (meaning)دونوں سماعی ہیں، نہ کہ قیاسی، یعنی اہلِ زبان کے درمیان لمبی مدت تک زبان کے الفاظ اپنے تلفظ اور اپنے مفہوم دونوں کے اعتبار سے استعمال ہوتے رہتے ہیں- اِس طرح نسل در نسل استعمال کے تسلسل سے زبان کے الفاظ کا تلفظ اور ان کا مفہوم دونوں غیر مشتبہ طورپر متعین ہوجاتے ہیں- الفاظ کا یہ تلفظ اور ان کا یہ مفہوم کسی عقلی منطق پر قائم نہیں ہوتا، بلکہ وہ تمام تر اہلِ زبان کے درمیان استعمال کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے-
مثال کے طورپر انگریزی زبان میں مچھلی کو فش (fish) کہاجاتا ہے- اِس لفظ کا یہ تلفظ اہلِ زبان کے درمیان صدیوں کے استعمال کے نتیجے میں پوری طرح معلوم اورمتعین ہوگیا ہے- لیکن برٹش رائٹر برنارڈ شاہ (وفات: 1950 ) نےکہا کہ میں فش کا تلفظ گھوٹی (ghoti) کروں گا- اس کی منطق یہ تھی کہ انگریزی زبان میں کبھی ایف(F)کا حرف جی (G) کی آواز دیتا ہے- اِسی طرح آئی (I) کا حرف کبھی او (O) کی آواز دیتا ہے- اسی طرح ایس ایچ (Sh) کبھی ٹی (T) کی آواز دیتا ہے- مگر اہلِ زبان نے برنارڈ شا(Bernard Shaw) کی اِس بات کو کوئی اہمیت نہ دی- انھوں نے برنارڈ شا کی بات کو صرف ایک جوک (joke) کہہ کر نظرانداز کردیا-
اِسی طرح مہاتما گاندھی (وفات: 1948) نے ہندو دھرم کی مقدس کتاب بھاگود گیتا (Bhagwad Gita) کی شرح لکھی- اِس میں انھوں نےبتایا کہ بھاگود گیتا میں مہابھارت کا جو قصہ ہے، وہ خارجی معنوں میں کسی حقیقی جنگ کا قصہ نہیں ہے، بلکہ وہ داخلی معنوں میں ایک روحانی جنگ (spiritual war)کا قصہ ہے- لیکن جیسا کہ معلوم ہے، کسی ہندو اسکالر نے اِس شرح کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کو مہاتما گاندھی کا صرف ایک ذاتی خیال کہہ کر نظر انداز کردیا-
یہی معاملہ قرآن کا ہے- قرآن کی زبان عربی ہے- قرآن ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں اترا- رسول اور اصحابِ رسول کی کوشش سے پورے عرب نے قرآن کے دین کو قبول کرلیا- اِس کے بعد مسلسل دعوت وتبلیغ کی کوشش جاری رہی، یہاں تک کہ ایشیا اور افریقہ کے درمیان وہ وسیع خطہ وجود میں آیا جس کو عرب دنیا (Arab World) کہا جاتا ہے-
عرب دنیا میں عمومی طورپر اور عرب دنیا کے باہر خصوصی طورپر، قرآن اپنی عربی زبان میں پڑھا جانے لگا- لوگوں نے قرآن کوحفظ کیا، قرآن کی ڈکشنریاں تیار کیں، قرآن کی تفسیریں لکھیں، قرآن سے متعلق علوم پر بے شمار کتابیں عربی زبان میں تیارکیگئیں، یہاںتک قرآن پر مبنی عربی کتابوں کا ایک وسیع اسلامی کتب خانہ وجود میں آگیا-عربی زبان کا یہ استعمال اور اہلِ زبان کے درمیان اس کا چرچا ایک تاریخی عمل تھا جو کہ ہزار سال سے بھی زیادہ مدت تک جاری رہا-
اب یہ تاریخ اکیسویں صدی میں پہنچ چکی ہے- زبان کے تمام معلوم قوانین کے مطابق، اب قرآن میں استعمال ہونے والے عربی الفاظ ہر اعتبار سے معلوم اور محقَّق (established) ہوچکے ہیں، الفاظ کے تلفظ کے اعتبار سے بھی اور اس کے معنی کے اعتبار سے بھی- اب اگر کوئی شخص قرآن میں استعمال ہونے والی زبان کو اس کے معروف معنی سے ہٹا کر کسی نئے معنی میں استعمال کرے تو اس کا یہ فعل بلا شبہہ ایک مضحکہ خیز (ridiculous) فعل ہوگا- وہ ہرگز اِس قابل نہیں ہوگا کہ اس پر کوئی سنجیدہ توجہ دی جائے-
مثلاً قرآن میں ایمان اور اسلام کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں- اہلِ زبان کے درمیان ایمان واسلام کا دینی مفہوم غیر مشتبہ طور پر معلوم اور متعین ہے- اب اگر کوئی شخص ایمان واسلام کے مذہبی اطلاق (religious connotation) کا انکار کرے اور کہے کہ ایمان واسلام کا مطلب امن (peace) ہے، اور وہ یہ دعوی کرے کہ ایمان واسلام دراصل امن کے معنی میں ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ دنیامیں پر امن سماج (peaceful society) قائم کی جائے تو اس کو ایک غیر سنجیدہ خیال کہہ کررد کردیا جائے گا- اسلام بلاشبہہ امن (peace) چاہتا ہے، لیکن ایمان واسلام کے الفاظ کی حیثیت خالص دینی اصطلاح کی ہے-
ان اصطلاحوں کے مفہوم کو مذکورہ انداز میں بدلنا ایمان واسلام کے سیکولرائزیشن کے ہم معنی ہوگا جو بداہةً ہی قابلِ رد ہے- اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ رب کا مطلب ربوبیت کا نظام یا سوشلسٹ سسٹم (socialist system)ہے تو اِس قسم کی بات کو ہرگز سنجیدہ طورپر نہیں لیا جاسکتا-کیوں کہ رب کا مفہوم زبان کے استعمال کی طویل تاریخ کے نتیجے میں حتمی طورپر معلوم اور متعین ہوچکا ہے-
لفظ اور معنی کا تواتر
ہر لفظ کا ایک مفہوم ہوتا ہے- یہ مفہوم لفظ کے ساتھ اس کے لاینفک جُز (inseparable part) کے طورپر شامل رہتا ہے- جس طرح لفظ تاریخ میں سفر کرتاہے، اُسی طرح اس کا مفہوم بھی ساتھ ساتھ سفر کرتا رہتاہے- یہی وجہ ہے کہ زبان ہر دور کے لوگوں کے لیے باہم قابلِ فہم وسیلہ (mutually understandable means)بنی رہتی ہے- اگر لفظ اور معنی کے درمیان خلا (gap) واقع ہوجائے تو انسانوں کے درمیان بامعنی تبادلہ خیال (meaningful exchange) ختم ہوجائے گا اور انسانی بستیاں عملاً گونگے لوگوں کی بستیاں بن جائیں گی-
اِس معاملے کو عام طورپر اہلِ علم نے بیان کیا ہے- چناں چہ شاہ اسماعیل شہید دہلوی اپنی کتاب ’’عبقات‘‘ میں اِس نقطہ نظر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: لا یخفى على من لہ أدنى ممارسة بأسالیب الکلام أن ہذا القول ناش عن جہل متراکم، إذ وضع الألفاظ لمعانیہا من المتواترات (عبقة: 5، بحوالہ ’’میزان‘‘، جاوید احمد غامدی، صفحہ: 33) یعنی اسالیبِ کلام پر جس شخص کو کچھ بھی ممارست حاصل ہے، اُس سے یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ یہ نقطہ نظر (کہ لفظ اپنے معنی کے ساتھ متواتر نہیں ہوتا) سرتاسر جہالت ہے- اِس لیے کہ لفظ کا اپنے معنی کے لیے وضع ہونا ایک ایسا عمل ہے جو تواتر پر مبنی ہے-
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجئے- عربی زبان کا ایک لفظ ’أخ‘ ہے- یہ لفظ اپنے ابتدائی لغوی مفہوم کے لحاظ سے، سگے بھائی (blood brother) کے لئے استعمال ہوتا ہے، مگر اِسی کے ساتھ اِس کا ایک استعاراتی مفہوم (metaphorical meaning) بھی ہے، یعنی کسی کو غیر خونی رشتے کے باوجود اظہارِ تعلق کے لیے بھائی کہنا- ’أخ‘ کا یہ استعاراتی مفہوم بھی قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے اور اب تک مسلسل طور پر وہ اُسی طرح لوگوں کے درمیان بولا اور سمجھا جاتاہے-
عرب میں ظہور اسلام سے قبل کا جو زمانہ تھا، اس کو جاہلیت کا زمانہ کہاجاتا ہے، یعنی حقیقت سے بے خبری کا زمانہ- ابو تمام الطائی (وفات: 231ھ) نے قدیم دور کے عرب شعرا کے کلام کا ایک منتخب مجموعہ تیار کیا تھا جو بعد کو ’’دیوان الحماسة‘‘ کے نام سے شائع ہوا- اِس مجموعے میں جاہلی دور کے ایک تغلبی شاعر عمیر بن شُییم بن عمروالقطامی (وفات: 130ھ) کے کچھ اشعار نقل کیے گئےہیں- ان میں سے ایک شعر یہ ہے:
وأحیانا على بکر أخینا إذا ما لم نجد إلا أخانا
(اور کبھی ہم اپنے بھائی بنو بکر سے لڑ جاتے ہیں- جب ہم اپنے بھائی کے سوا کسی اور کو نہیں پاتے)
عرب شاعر کے اِس شعر میں ’أخ‘ کا لفظ اپنے ابتدائی مفہوم میں نہیں ہے، یعنی وہ سگے بھائیوں کے لیے استعمال نہیں ہوا ہے- اِس شعر میں یہ لفظ اپنے استعاراتی مفہوم میں استعمال ہوا ہے- شاعر نے جب یہ لفظ اپنے شعر میں اس کے استعاراتی مفہوم میں استعمال کیا، اُس وقت یہ لفظ اپنے اِس مفہوم کے لحاظ سے ایک معروف لفظ بن چکا تھا، اِس لیے کسی کو اس کے سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئی-
پھر ہجرت نبوی (622ء) کے بعد قرآن میں انصار ومہاجرین کے بارے میں یہ آیت اتری: وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ اِخْوَانًا(3:103)- قرآن کی اِس آیت میں ’’اخوان‘‘ (بھائی) کا لفظ اپنے ابتدائی لغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ اپنے استعاراتی معنی میں ہے- چوں کہ یہ لفظ اپنے اِس استعاراتی مفہوم میں نسل درنسل استعمال کی بنا پر لوگوں کے لیے پوری طرح قابل فہم بنا ہوا تھا، اِس لیے جب یہ آیت اتری تو لوگوں نے بلا اشتباہ اِس لفظ کو اس کے استعاراتی معنی میں لیا، نہ کہ اس کے ابتدائی لغوی معنی میں-
اِسی طرح 1928 میں شیخ حسن البنا کی قیادت میں مصر میں عربوں کی ایک تنظیم بنی- اِس کا نام ’’الإخوان المسلمون‘‘ رکھا گیا- تنظیم کے اِس نام میں ’’الإخوان‘‘ کا لفظ اپنے ابتدائی لغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے استعاراتی معنی میں ہے، یعنی سگے بھائیوں کے معنی میں نہیں، بلکہ اسلامی بھائیوں کے معنی میں-اب اگر کوئی شخص یہ کرے کہ وہ الاخوان المسلمون کے نام کو اس کے ابتدائی لغوی معنی میں لے اور یہ کہے کہ یہ سگے بھائیوں (blood brothers) کی ایک تنظیم ہے، تو اس کی یہ بات بلا شبہہ ایک غیر علمی بات ہوگئی- کوئی بھی ذی علم آدمی اس کو اہمیت نہیں دے گا اور نہ وہ اِس کی ضرورت سمجھے گا کہ اس کا جواب دیا جائے— یہی معاملہ تمام مستعمل عربی الفاظ کا ہے-
قولِ بلیغ میں کلام
قرآن میں اسلوبِ دعوت کو بتاتے ہوئے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَقُلْ لَّھُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا (4:63) یعنی تم اُن سے ایسی بات کہو جو اُن کے دلوں میں اتر نے والی ہو:
And speak to them in such terms as will address their minds.
اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کےپیغام کو اِس طرح پہنچانا مطلوب ہے کہ وہ لوگوں کے ذہن کو ایڈریس کرے- قرآن کی دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قولِ بلیغ کے اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اللہ نے قرآن کو عربی مبین (26:195) کی زبان میں اتارا- عربی مبین کی زبان کیا ہے، یہ وہی چیز ہے جس کو وضوح (clarity) کہا جاتا ہے، یعنی ایسی زبان میں جس کے اندر کامل وضوح ہو اور اِس بنا پر وہ لوگوں کے لیے پوری طرح قابلِ فہم ہو-
کوئی زبان سننے یا پڑھنے والوں کے لیے قابلِ فہم کس طرح بنتی ہے- ایسا لمبی مدت کے بعد ہوتا ہے- کوئی زبان اچانک نہیں بنتی- زبان ہمیشہ دھیرے دھیرے وجود میں آتی ہے- بہت سے لوگ لمبی مدت تک اس کو لکھتے اور بولتے رہتے ہیں- اِس طرح زبان میں ایک معنوی تسلسل قائم ہو جاتا ہے- یہی معنوی تسلسل وہ چیز ہے جو لوگوں کے لیے کسی زبان کو قابلِ فہم بناتا ہے- مثلاً قدیم دور کی کچھ زبانیں اب عملاً معدوم (instinct)ہوگئی ہیں- لکھنے اور بولنے والوں کے درمیان اِن زبانوں کا تسلسل باقی نہیں رہا- اِس بنا پر اِن زبانوں میں وضوح کی صفت موجود نہیں- کھدائی (excavation) کے دوران اِن قدیم زبانوں کے کچھ کتبے (slabs) دریافت ہوئے ہیں، مگر اِن کتبوں پر لکھی ہوئی قدیم زبانیں آج کے انسان کے لیے قابل فہم نہیں- قدیم زبانوں کے صرف کچھ ماہرین (experts) ہیں جو اِن کتبوں کو پڑھ کر اس کا مطلب بتاتے ہیں-
مثال کے طورپر قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا ایک واقعہ اِن الفاظ میں بیان ہوا ہے: وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ(5:83)یعنی جب وہ اُس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اِس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا-
قرآن کو سن کر مذکورہ افراد پر یہ غیر معمولی تاثر اِس لیے ہوا کہ وہ ایک ایسی زبان میں تھا جو اُن کے لیے پوری طرح معلوم زبان تھی- پیدا ہونے کے بعد سے مسلسل طورپر وہ اِس زبان کو سنتے چلے آرہے تھے- اِس بنا پر اِس زبان میں کہی ہوئی بات اُن کے لیے پوری طرح ایک واضح کلام کی حیثیت رکھتی تھی- اگر زبان میں وضوح کی صفت موجود نہ ہوتی تو اس کو سننا اُن کو غیر معمولی طورپر متاثر بھی نہیں کرسکتا تھا-
زبان میں معنوی تسلسل کا یہ معاملہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ کسی بھی عذر کی بنا پر اس میں تبدیلی کو قبول نہیں کیا جاتا، کیوں کہ ہر تبدیلی وضوح کو متاثر کرے گی- زبان کے الفاظ میں ان کے معانی کا تسلسل اتنا ہی زیاد اہم ہے جتنا کہ خود زبان اہم ہے- زبانوں کے الفاظ کا تلفظ اگرمحفوظ نہ رہے تو ان الفاظ کی درست ادائیگی ممکن نہ ہوگی- اِسی طرح زبانوں کے الفاظ کا معنوی تسلسل اگر باقی نہ رہے تو زبان ایک قابلِ فہم زبان کی حیثیت سے اپنا وجود ختم کردے گی-
مثال کے طورپر تمام زبانوں میں کیفیت کو دل سے منسوب کیا جاتا ہے- مثلاً انگریزی میں کہاجاتا ہے کہ — دل کی پوری آمادگی کے ساتھ (wholeheartedly)- موجودہ زمانے میں سائنس کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ہر قسم کی کیفیات کا مرکز دماغ (mind) ہے- دل کا تعلق صرف گردشِ خون (circulation of blood)سے ہے-
اِس تحقیق کے باوجود زبان میں یہ تبدیلی نہیں کی گئی کہ ’ہول ہارٹڈلی‘ کے بجائے ہول مائنڈڈلی (wholemindedly) کہاجانے لگے- کیوں کہ اِس سے زبان کا معنوی تسلسل متاثر ہورہا تھا اور زبان کے معنوی تسلسل کے متاثر ہونے کا مطلب یہ تھا کہ لکھنے اورپڑھنے والوں کے لیے زبان کے وضوح کی صفت باقی نہ رہے- اِس لیے معنوی تسلسل کے پہلو کی رعایت کی گئی اور زبان کے استعمال کے اعتبار سے اس کو باقی رکھا گیا- حالاں کہ علمِ تشریح الاعضا(anatomy) میں اب دل (heart) کا مطالعہ صرف اِس حیثیت سے کیا جاتا ہے کہ وہ گردشِ خون کو قائم رکھنے کا ذریعہ ہے-
اِسی طرح دنیا کی تمام زبانوں میں چاند کی روشنی (moonlight) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، حالاں کہ جدید فلکیات کے مطالعے سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ چاند میں اپنی کوئی روشنی نہیں- رات کے وقت چاند کے اوپر جو روشنی دکھائی دیتی ہے، وہ دراصل چاند کی سطح پر سورج کی روشنی کے انعکاس (reflection) کی بنا پر ہے- اس دریافت کے باوجود تمام زبانوں میں اب بھی چاند کی روشنی (moonlight) کا لفظ استعمال ہوتا ہے- ایسا نہیں ہوا کہ اِس تحقیق کے بعد اِس ظاہرے کے لیے ’مون لائٹ‘ کے لفظ کو متروک قرار دے دیا جائے اور اس کی جگہ اس کو سن لائٹ ریفلیکٹڈ بائی مون (sunlight reflected by moon) کہاجانے لگے- ایسا اِس لیے ہوا کہ اِس معاملے میں لفظ کو بدلنا صرف اِس قیمت پر ہوتا کہ لفظ کا معنوی تسلسل ٹوٹ جائے اور زبان میں وضوح کی صفت باقی نہ رہے-
یہی معاملہ قرآن کا بھی ہے جو عربی مبین کی زبان میں اترا ہے- عربی زبان بھی اُسی طرح لفظی اور معنوی تسلسل کے ذریعے بنی ہے جس طرح دوسری زبانیں بنی ہیں- انسانوں کی ایک بڑی جماعت لمبی مدت تک عربی زبان بولتی اور لکھتی رہی- اِس طرح لوگوں کے اندر نسل درنسل یہ لسانی عمل جاری رہا، یہاں تک کہ لفظی اور معنوی تسلسل کے نتیجے میں عربی زبان آخری حد تک ایک معلوم اور متعین زبان بن گئی- یہی وجہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں جب قرآن عربی زبان میں اترا تو فوراً ہی اس نے سننے والوں کے ذہن کو ایڈریس کیا- انسانوں کی بڑی تعداد نہ صرف قرآن پر ایمان لائی، بلکہ اس نے عربی زبان بھی سیکھی، تاکہ وہ قرآن کو اس کی اصل زبان میں سمجھ سکے-
اسلام سے پہلے عربی زبان عرب میں موجود تھی، لیکن اُس وقت وہ زیادہ تر ایک قبائلی زبان کی حیثیت رکھتی تھی- جلد ہی اِن تمام قبائل نے اسلام قبول کرلیا- اس کے بعد انھوں نے بڑے پیمانے پر عربی زبان کی خدمت کی- انھوں نے عربی زبان کے لغات تیار کیے، انھوں نے عربی زبان کو بول چال کے دائرے سے نکال کر لکھنے کی زبان بنا دیا- انھوں نے قرآن کے استعمالات اور قرآن کی اصطلاحات کو پوری طرح اخذ کیا- اُن پر کتابیں تیار کیں- اِس طرح زمین کے بڑے رقبے میں قرآن اور اس کی زبان کا چرچا وسیع پیمانے پر جاری ہوگیا- یہ عمل ہزار سال سے زیادہ مدت تک جاری رہا، یہاں تک کہ قرآن کا ہر بیان پوری طرح ایک ثابت شدہ بیان بن گیا- قرآن کی زبان، قرآن کے استعمالات، قرآن کی اصلاحیں کروڑوں لوگوں کے درمیان غیر مشتبہ طورپر مسلمہ حقیقت قرار پاگئیں-
اب ہزار سال سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد جو لوگ قرآن کی زبان، اس کے استعمالات اور اس کی اصطلاحات کو دوبارہ نیا مفہوم دینا چاہیں، تو یہ بلا شبہہ ناقابلِ قبول ہوگا- یہ ایک ایسا فعل ہوگا جس کا جواز نہ اسلام میں ہے اور نہ علم میں ہے اور نہ لسانیات میں- وہ صرف اِس قابل ہے کہ اس کو بے اصل قرار دے کر مکمل طورپر رد کردیا جائے-
غیر علمی طریقِ مطالعہ
جن لوگوں نے قرآن فہمی کے بارے میں مذکورہ موقف اختیار کیا ہے، وہ کوئی سادہ بات نہیں- اِس موقف کا تعلق براہِ راست طورپر لسانیات (linguistics) سے ہے- یہ موقف اپنے وسیع پہلو (extended implication) کے اعتبار سے، اِس معاملے میں عالمی طورپر مسلّمہ اصول (universally accepted norm) سے ٹکراتا ہے- وہ علمی مطالعہ (scientific study) کے معروف طریقے کی نفی کے ہم معنی ہے-
مطالعہ (study) انسانی سرگرمیوں میں سے ایک نہایت اہم سرگرمی ہے، مگر مطالعہ کسی ذہنی انارکی (intellectual anarchy) کا نام نہیں، بلکہ مطالعہ حقیقی معنوں میں وہ ہے جس میں انسانی ذہن کا منظم استعمال (disciplined exercise) کیا جائے- علمی مطالعے کا ایک معلوم اور ثابت شدہ فریم ورک ہے- جو مطالعہ اِس فریم ورک کی پابندی کے ساتھ کیا جائے، وہ مطالعہ ہے اور جس مطالعے میں اِس تسلیم شدہ فریم ورک کو نظر انداز کردیا جائے، وہ مطالعہ نہیں ہے، بلکہ یقینی طورپر وہ ایک ایسی غیر علمی روش ہے جس کو ذہنی انارکی کے سوا کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا-
علمی مطالعہ ہمیشہ سے ایک سنجیدہ عمل سمجھا جاتا رہا ہے- موجودہ زمانے میں اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے- اب مطالعے کا علم (science of study) ایک مستقل موضوع بن چکا ہے- اِس موضوع پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں ہیں- اِس موضوع کو علمیات یا نظریة المعرفہ (epistemology) کہاجاتا ہے-
قرآن مذہبیات (الہیات) کے موضوع پر ایک معروف کتاب ہے- مطالعہ کتب کا جو طریقہ دوسری کتابوں کے لیے استعمال کیا جاتاہے، عین وہی طریقہ یقینی طورپر قرآن کے مطالعے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا- جو لوگ اِس مسلّمہ طریقے کو چھوڑ کر بطور خود کوئی دوسرا طریقہ اختیار کریں تو یہ طریقہ اہلِ علم کے درمیان کبھی قبولیت کا درجہ نہیں پاسکتا- اِس معاملے میں کوئی خود ساختہ طریقِ مطالعہ (self-invented method of study) ہرگز قابلِ قبول نہیں-
اہلِ قرآن کا کیس
یہ چند مثالیں ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو ’’اہلِ قرآن‘‘ کہا جاتا ہے، ان کا کیس علمی اعتبار سے کتنا زیادہ بے بنیاد (baseless) ہے- یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم قرآن کو مانیں گے، لیکن ہم قرآن کا مفہوم صرف ڈکشنری کے ذریعے طے کریںگے، نہ کہ اُس تشریح کے ذریعے جو اہلِ اسلام کے درمیان رسول اور اصحاب رسول کے زمانے سے لے کر اب تک تواتر کی بنا پر رائج ہیں- اِس قسم کی بات بلاشبہہ آخری حد تک غیر علمی ہے- یہ اصول نہ صرف قرآن کو سمجھنے میں مانع ہے، بلکہ وہ دنیا کی کسی بھی کتاب کو سمجھنے کے لیے یقینی طورپر مانع کی حیثیت رکھتا ہے-
مثال کے طورپر ہر ملک میں اساسی قانون کی ایک تحریری دستاویز ہوتی ہے جس کو کانسٹی ٹیوشن (constitution) کہاجاتا ہے- کانسٹی ٹیوشن کی یہ اصطلاح ایک معروف اصطلاح ہے جس کو ساری دنیا میں اس کے اصطلاحی معنی کے اعتبار سے تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن جہاں تک لغوی مفہوم کا تعلق ہے، کانسٹی ٹیوشن کے معنی ساخت (structure) کے ہوتے ہیں- اب اگر کوئی شخص کانسٹی ٹیوشن کے لغوی مفہوم کو لے لے اور اس کی روشنی میں وہ مختلف ملکوں کے آئینی دستاویزات کا مفہوم متعین کرے تو یقینی طورپر وہ غلطی کرے گا اور اس کی تشریحات بلا شبہہ قابل رد قرار پائیں گی-
کسی کتاب کے مطالعے کے لیے یہی واحد درست طریقِ مطالعہ ہے- جو لوگ اِس طریقِ مطالعہ کو نہ مانیں، وہ دوسری کتابوں کو سمجھنے سے بھی قاصر رہیں گے اور ایسے لوگ قرآن کو سمجھنے سے بھی یقینی طورپر محروم ہوجائیں گے- ایسے لوگوں کا کیس علمی مطالعے کا کیس نہیں ہے، بلکہ وہ صرف فکری بھٹکاؤ کا کیس ہے- اِس کی کوئی اہمیت نہ علمی اعتبار سے ہوگی اور نہ اسلامی اعتبار سے-
قرآن یا انکارِ قرآن
ایسی حالت میں کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ ہم قرآن کو صرف قرآن کے ذریعے سمجھیں گے، حدیث اور تاریخ اور دور اول کے علما کی تشریحات کو الگ کرکے ہم قرآن کا مطالعہ کریں گے- اِسی طرح ان کایہ کہنا کہ قرآن میں آئے ہوئے جن الفاظ کو اصطلاح (terms) کے مفہوم میں لیا جانے لگا ہے، وہ سب قرآن کو سمجھنے میں رکاوٹ ہیں- مثلاً صلوة، صوم، زکوة اور حج، وغیرہ- اُن کا کہنا ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ کو ان کے اصطلاحی معنوں میں نہیں، بلکہ ان کے لغوی معنی کے اعتبار سے لیں گے اور خالص لغوی انداز میں ان کا مفہوم متعین کریںگے-
یہ نظریہ آخری حد تک غیر علمی نظریہ ہے- اِس قسم کے نظریے کو لے کر دنیا کی کوئی کتاب سمجھی نہیں جاسکتی- اسکالر شپ کا کوئی بھی اصول اس نظریے کی حمایت نہیں کرتا- یہ نظریہ صرف کچھ ایسے لوگوں کی ذہنی پیداوار ہے جو غالباً نہ علم کے حدود کو سمجھتے اور نہ وہ لسانیات (linguistics)کے اصول سے کوئی واقفیت رکھتے ہیں- حقیقت یہ ہےکہ قرآن فہمی کا فریم ورک بھی وہی ہے جو دوسری علمی کتابوں کو سمجھنے کے لئے مسلّمہ طورپر استعمال ہوتا ہے- اہلِ قرآن کا جو موقف ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے مکمل طورپر ایک غیر علمی موقف ہے، نہ کہ کوئی علمی موقف- مسلّمہ علمی اصولوں میں سے کوئی بھی اصول اس نقطہ نظر کی حمایت نہیںکرتا-اِس قسم کی انفرادیت علم کے میدان میں بلاشبہہ قابل رد ہے-
اللہ اور رسول کی اطاعت
قرآن میں ایک سے زیادہ مقام پر بار بار حکم دیاگیا ہے کہ اے ایمان والو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو- اِس سلسلے میں ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (4:59)-
اِس طرح کی آیتوں سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ اطاعت کے معاملے میں اللہ اور رسول کے درمیان تفریق جائز نہیں- یہ صحیح ہے کہ اصلاً جو چیز مطلوب ہے، وہ اللہ کی اطاعت ہے، لیکن یہ ایک عملی حقیقت ہے کہ خود اللہ کی اطاعت کی درست ادائیگی کے لیے رسول کی اطاعت لازمی طورپر ضروری ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی ایک آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ(4:64)یعنی ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے، اِسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے- اِسی طرح قرآن میں ارشاد ہوا ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ(4:80) یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی-
یہی بات ایک روایت میں بیان کی گئی ہے- اِس سلسلے میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: لا ألفین أحدکم متکأ على أریکتہ، یأتیہ الأمر من أمری مما أمرتُ بہ أو نہیت عنہ، فیقول لاندری، ما وجدنا فی کتاب اللہ اتبعناہ (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 2663) یعنی تم میں سے کوئی شخص ایسا نہ کرے کہ وہ اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے ہو، اس کے پاس میرے حکموں میںسے کوئی حکم آئے جس میں میں نے کسی بات کوکرنے کا حکم دیا ہو اور کسی بات سے منع کیا ہو، پھر وہ کہے کہ ہم نہیں جانتے، ہم نے اللہ کی کتاب میں جو پایا، اس کی ہم نے پیروی کی-
قرآن کی مذکورہ آیت اور اِس حدیث رسول میں جو بات کہی گئی ہے، وہ نہایت سنگین بات ہے- یہ مستقبل کے اُس فتنے کی طرف اشارہ ہے جب کہ امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں، لیکن ہم حدیث رسول کو نہیں مانتے- اِس سے مراد واضح طورپر وہی لوگ ہیں جن کو موجودہ زمانے میں منکرین حدیث یا اہلِ قرآن کہاجاتا ہے-
اصل یہ ہے کہ دین اگر صرف انفرادی دین کا نام ہو تو دین کو عملاً ترک کرنے کے بعد بھی آدمی اپنے اِس ترک کو چھپا سکتا ہے- وہ لوگوں کو یہ تاثر دے سکتا ہے کہ وہ دین پر قائم ہے- لیکن جب دین ایک انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین (institutionalized religion) بن جائے تو اِس قسم کی پوزیشن اختیار کرنا ناممکن ہوجاتا ہے- اب دین کا ایک باقاعدہ اجتماعی فارم بننے کی وجہ سے ایسا ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی شخص دینی نظام کا حصہ ہے تب بھی لوگ اُس کو جان لیتے ہیں اور اگر وہ دینی نظام کا حصہ نہیں ہے تب بھی لوگ اُس سے باخبر ہوجاتےہیں-
حقیقت یہ ہے کہ دین کا انسٹی ٹیوشنلائزیشن اِس امر میں مانع ہے کہ کوئی شخص دین سے کٹ جائے، اس کے باوجود وہ انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین یا بالفاظ دیگر مسلم معاشرے کا مقبول حصہ بنا رہے اور اس کے معاشرتی فوائد (social interest) میں کوئی فرق واقع نہ ہو- یہ شعوری یا غیر شعوری طورپر عملاً وہی پالیسی ہے جس کو کور اَپ(cover-up) پالیسی کہاجاتا ہے، جو حدیث کے انکار کے نام پر عملاً خود دین کے انکار کے ہم معنی ہے-
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم قرآن کو مانیں گے، لیکن ہم حدیث کو نہیں مانیں گے، وہ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ وہ دین کی ذمے داریوں سے جدابھی ہوجائیں اور اسی کے ساتھ وہ مسلم معاشرے کا حصہ بھی بنے رہیں، تاکہ ان کے دنیوی مفادات(worldly benefits) بدستور محفوظ رہیں- مگر یہ کوئی سادہ بات نہیں- اِس طرح کی روش اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک بلا اعلان ارتداد (undeclared apostasy) یا جائز کردہ ارتداد (justified apostasy) ہے- جو لوگ ایسی روش اختیار کریں، وہ بلاشبہہ ایک سنگین رسک (risk) لے رہے ہیں- ان کے لیے شدید طورپر یہ خطرہ ہے کہ ان کا کیس دنیا میں برہان سے محرومی کا کیس بن جائے اور آخرت میں اللہ کی ابدی رحمت سے محرومی کا کیس-
اسلام ایک محفوظ دین
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (15:9) یعنی بے شک ہم نے الذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں- اِسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ ۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ ۭتَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ (41:42) یعنی اِس میں نہ باطل اس کے آگے سے آسکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے- یہ حکیم اور حمید کی طرف سے نازل کیا گیا ہے-
اِن آیتوں میں جس حفاظت کا ذکر ہے، اُس سے مراد براہِ راست طور پر قرآن ہے، لیکن بالواسطہ طورپر اُس سے مراد وہ پورا دین ِ اسلام ہے جس پر اللہ نے اپنی رضامندی (5:3) کا اعلان کیا ہے- یہ محفوظ دین دنیا میں لوگوں کے لیے ہدایتِ الہی کا مستند ماخذ ہے اور آخرت کے اعتبار سے وہ لوگوں کے اوپر اللہ کی حجت ہے-
اب یہ سوال ہے کہ یہ دین کس طرح ایک محفوظ دین بنا- یہ واقعہ معجزاتی طورپر نہیں ہوا، بلکہ وہ اسباب کے دائرے میں اُسی طرح وقوع میں آیا جس طرح اس عالمِ اسباب میں دوسری تمام باتیں وقوع میں آتی ہیں- اِس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ اللہ نے حفاظتِ دین کے اِس کام کو اسباب کے دائرے میں انجام دیا، اور اس کی عملی صورت یہ تھی کہ اللہ نے اسلام کو ایک انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین (institutionalized religion)کی حیثیت دے دی- اِس سے پہلے دین ِاسلام کی حیثیت صرف ایک نظری صداقت کی تھی، لیکن انسٹی ٹیوشنلائزیشن (institutionalization) کے بعد یہ ہوا کہ دین ِاسلام کے ساتھ ایک مزید صفت جمع ہوگئی، یعنی اجتماعی سطح پر دین ِاسلام کو مسلسل طورپر ایک مظاہراتی (demonstrable) چیز بنا دینا- یہ تقریباً وہی چیز ہے جس کو تاریخی زبان میں عملی تواتر کہاجاتا ہے-
دین کو انسٹی ٹیوشن کی صورت دینے کے لیے ایک ضروری چیز درکار تھی، اور وہ تھی اہلِ ایمان کی بڑی تعداد جو زمین کے وسیع رقبے میں پھیلی ہوئی ہو- اِس طرح یہ ہوتا ہے کہ دین ِ اسلام ہر دن لوگوں کے سامنے ایک قابلِ مشاہدہ چیز کی حیثیت سے مسلسل طورپر آتا رہتا ہے، یہاں تک کہ دین کی عملی صورت بھی اُسی طرح ثابت شدہ بن جاتی ہے جس طرح اس کی نظری صورت ہے-دین کی نظری صورت کتابوں میں محفوظ ہے اور دین کا فارم عملی تواتر یا انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین کی صورت میں لوگوں کے لیے قابلِ مشاہدہ بنا ہوا ہے-
دین ِ اسلام کو ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوشن کی صورت دینا اِس لیے ممکن ہوا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں ماس کنورزن(mass conversion) ہوا، لوگوں کی بڑی تعداد اسلام قبول کرکے دین اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئی- اِس طرح زمین کے بڑے رقبے میں مسلسل طورپر یہ اجتماعی واقعہ پیش آنے لگا کہ لوگ مختلف صورتوں میں قرآن کو یکساں طورپر پڑھ رہے ہیں، بے شمار مسجدوں میں بیک وقت ایک ہی پیٹرن پر اذان کی آوازیں بلند ہورہی ہیں اور ایک ہی پیٹرن پر مسلسل اجتماعی صورت میں نمازیں ادا کی جارہی ہیں، ایک مقررمہینہ (رمضان) میں ہر جگہ لوگ ایک ہی انداز میں روزے رکھ رہے ہیں، ایک ہی مقرر تاریخ میں بڑی تعداد میں لوگ دنیا کے مختلف مقامات سے آکر مکہ میں اجتماعی طورپرحج کے مناسک ادا کررہے ہیں- اِسی طرح بے شمارمدرسوں میں روزانہ ایک ہی نہج پر بڑی تعداد میں لوگ قرآن اور حدیث کا چرچا کررہے ہیں، وغیرہ-
یہی مطلب ہے دین ِ اسلام کو انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین بنانےکا- جب دین ِاسلام اِس طرح مسلسل طورپر ایک قابلِ مظاہرہ چیز بن جائے تو اُس وقت اس کی ہیئت ایک ایسے عملی واقعہ کی ہوجاتی ہے جس کا انکار ممکن نہ ہو- نظری چیزوں میں انسان کے لیے اقرار وانکار کا آپشن (option) موجود رہتا ہے، لیکن جو نظریہ عملی صورت میں ڈھل کر قابلِ مشاہدہ بن جائے، اُس سے انکار اتنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے جتنا کہ سورج کے نکلنے کے بعد سورج کا انکار-
یہی وجہ ہے کہ واضعینِ حدیث نے اسلام کے اُس ثابت شدہ ورزن (established version) پر کوئی حدیث وضع نہیں کی جو کہ بڑی تعداد کے اجتماعی عمل (عملی تواتر) کے ذریعے ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوشن کی صورت اختیار کرچکا تھا- مثلاً کوئی موضوع حدیث ایسی نہیں ہے جو یہ بتائے کہ قرآن کی آیت الحمد للہ رب العالمین اصل میں الشکر للہ رب العالمین کے الفاظ میں اتری تھی- اِسی طرح کوئی موضوع حدیث اِس مفہوم کی نہیں ہے کہ سورہ الاخلاص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’قل‘ کے بغیر صرف ’ہوا للہ أحد‘ کی صورت میں پڑھا، وغیرہ-
یہی معاملہ انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین کے دوسرے پہلوؤں کا ہے- مثلاً کوئی موضوع حدیث اِس مفہوم کی نہیں ہے جس میں یہ بتایا گیاہو کہ فجر کی نماز تین رکعت ہے اور مغرب کی نماز دو رکعت- اِسی طرح کوئی موضوع روایت ایسی نہیں ہے جو یہ بتائے کہ روزہ رکھنے کا مہینہ رمضان نہیں ہے، بلکہ رجب ہے، یا یہ کہ حج کی ادائیگی کا مہینہ ذوالحجہ نہیں ہے، بلکہ محرم ہے، وغیرہ- حدیث کی مستند کتابوں مثلاً موطا امام مالک اور صحیح البخاری میں جو روایتیں ہیں، عام طورپر وہ سب انسٹی ٹیوشنلائزڈ اسلام کی موافقت میں ہیں، اِس کے خلاف نہیں-
جیسا کہ معلوم ہے، وضعِ حدیث کا واقعہ عملاً ظہور اسلام کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد پیش آیا- اُس وقت تک انسٹی ٹیوشنلائزڈ اسلام اپنے تمام پہلوؤں کے اعتبار سے تشکیل پاچکا تھا- اُس کا ہر پہلو اجتماعی سطح پر ایک مسلّمہ واقعہ بن چکا تھا- اِس لیے واضعین حدیث نے جو حدیثیں وضع کیں، وہ دین کے اُس مجموعے کے بارے میں نہ تھیں جو کہ اب انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین بن چکا تھا، بلکہ وہ اس کے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں تھیں- مثلاً قرآن کے متن کے بارے میں کوئی موضوع حدیث موجود نہیں،البتہ فضائل قرآن کے باب میں موضوع روایتیں پائی جاتی ہیں- اِسی طرح پنج وقتہ نماز کو اِس سے کم یا زیادہ بتانے کے لیے کوئی موضوع روایت موجود نہیں، البتہ نماز کے فضائل کے بارے میں موضوع روایتیں موجود ہیں- اِسی طرح ماہِ رمضان کے روزے کی فرضیت کے خلاف کوئی موضوع روایت موجود نہیں، البتہ روزے کے فضائل کے بارے میں موضوع روایتیں موجود ہیں، وغیرہ-
اسلام کی تاریخ میں بعد کے زمانے میں اس طرح کی جو حدیثیں وضع کی گئیں، ان کا مقصد تشویق (motivation) تھا، یعنی کسی عمل کے بڑے بڑے فائدے بتا کر لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرنا- اسلام میں وضع کا یہ طریقہ مسیحی قوموں کی مضاہاة (9:30) کے طورپر پیدا ہوا- مسیحیت میں سینٹ پال کے زمانے میں یہ طریقہ رائج ہوا کہ لوگوں کو مسیحیت کی طرف راغب کرنے کے لیے جھوٹی باتیں وضع کی جائیں-(Romans 3:7-8)- اِس طریقے کو بعد کی مسیحی روایات میں مقدس فریب (Pious Fraud) کہاجاتا ہے- برسبیلِ مضاہاة یہ مسیحی طریقہ مسلمانوں میں رائج ہوا- یہ طریقہ زیادہ تر مسیحی نو مسلموں کے ذریعے اسلام میں داخل ہوا-
موضوع روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے- لیکن وہ اسلام کے لیے کوئی خطرہ نہیں، کیوں کہ دورِ اول کے محدثین نے کسی حدیث کو قبول کرنے یا رد کرنے کے لیے نہایت محکم اصول بنادئے ہیں جن کو اصولِ علمِ حدیث کہا جاتا ہے- علمِ حدیث ایک مستقل موضوع ہے- یہ علم اتنا زیادہ محکم اور منظم بن چکا ہے کہ اس کی روشنی میں کسی بھی روایت کو جانچ کر قطعیت کے ساتھ یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کون سی حدیث صحیح ہے اور کون سی حدیث موضوع- روایات کو جانچنے کا یہ کام مختلف محدثین نے انجام دیا ہے- موجودہ زمانے میں شیخ ناصرالدین البانی (وفات: 1999) اور دوسرے محقق علما نے طویل تحقیق کے بعد اِس کام کو نہایت مستند طورپر انجام دے دیا ہے-
اِسی طرح دوسرے اجزاءِ دین کا معاملہ ہے- دین کے جو اجزا انسٹی ٹیوشنلائزڈ اسلام کا حصہ بن چکے ـتھے، ان کے بارے میں کوئی موضوع روایت موجود نہیں، البتہ دوسرے پہلوؤں کے بارے میں کثرت سے موضوع روایتیں پائی جاتی ہیں- دوسرے الفاظ میں یہ کہ دین کا وہ حصہ جس کو سنتِ ثابتہ، بالفاظِ دیگر انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین کہاجاتا ہے ، وہ موضوع روایتوں سے یکسر خالی ہے- انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین کا حصہ بن جانے کی وجہ سے اِس میں کوئی کمی یا زیادتی کرنا ممکن نہ ہوسکا-البتہ دین کا وہ حصہ جس کا تعلق منفرد اقوال سے ہے، یعنی اُن اقوال سے جو اخبارِ آحاد (احادیث) کی کٹیگری میں آتے ہیں، اُس میں امکانی طورپر ہرقسم کی روایتیں پائی جاتی ہیں-
نجاتِ فرد، حفاظتِ دین
اسلام کے مطابق، نجات (salvation) کا معاملہ ایک مبنی برفرد معاملہ ہے- اسلام میں گروہی نجات کا کوئی تصور نہیں- دوسر ے الفاظ میں اِس کو پرسنلائزڈ مذہب (personalized religion) کہاجاسکتا ہے- اِس معاملے کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق حفاظتِ دین سے ہے- دین کی حفاظت انفرادی اسلام کے ذریعے نہیںہوسکتی- اِس کے لیے ضر ورت ہے کہ بڑے پیمانے پر اسلام کا ایک اجتماعی ڈھانچہ موجود ہو- اسلام کے اِس دوسرے پہلو کو انسٹی ٹیوشنلائزڈ مذہب (institutionalized religion) کہا جاسکتا ہے-
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجئے- صدقہ (charity) ابتدائی طورپر ایک انفرادی معاملہ ہے، یعنی ایک آدمی کا دوسرے آدمی کی مدد کرنا- صدقے کی اِس صورت کو انفرادی صدقہ (personal charity) کہا جائے گا- صدقے کی دوسری صورت وہ ہے جس کو اجتماعی سطح پر ادا کیا جائے اور اِس طرح بڑے پیمانے پر اس کا ایک نظام بن جائے- صدقے کی اِس دوسری صورت کو انسٹی ٹیوشنلائزڈ صدقہ (institutionalized charity) کہاجائے گا-
جیساکہ عرض کیاگیا، اسلام میں نجات ایک انفرادی واقعے کانام ہے، لیکن اِسی کے ساتھ اسلام کی ایک ضرورت یہ ہے کہ وہ تاریخ میں مکمل طورپر محفوظ ہوجائے، تاکہ قیامت تک کے لوگ اس کا عملی مشاہدہ کرتے رہیں- حفاظتِ دین کی اِس ضرورت کو اسلام میں اِس طرح حاصل کیاگیا کہ اسلام کے مختلف اداروں کے نظام کے ذریعے اس کو ایک انسٹی ٹیوشنلائزڈ دین (institutionalized religion) کی حیثیت دے دی گئی- یہی عملی نظام ہے جس نے دین ِ اسلام کو محفوظ کرکے اس کو لوگوں کے لیے ایک معروف اور مسلّم حقیقت بنا دیا ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنما الأعمال بالنیات )صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1) - اِس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دین میں جن اعمال کی تعلیم دی گئی ہے، ان کی قبولیت کا معیار نیت (intention)ہے، جو کہ انسان کی ایک داخلی کیفیت کا نام ہے- اِسی طرح حدیث میں آیا ہے: صلوا کما رأیتمونی أصلی(صحیح الجامع للألبانی، رقم الحدیث: 893) یعنی جس طرح تم نے مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اُسی طرح تم نماز پڑھو- اِسی طرح آپ نے فرمایا: خذوا عنی مناسککم (مسند احمد، رقم الحدیث: 3548) یعنی جس طرح تم نے مجھ کو حج کرتے ہوئے دیکھا، اسی طرح تم حج کرو-
اِسی طرح اِس مفہوم کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی اعمال کا ایک مقرر فارم ہے، یہ فارم لازمی طورپر دینی اعمال کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے، دونوں کو ایک دوسر ے سے جدا نہیں کیا جاسکتا- لیکن جہاں تک خدا کے یہاں اعمال کی قبولیت کا تعلق ہے، اس کا معاملہ عامل کے قلبی اخلاص پر مبنی ہے، جیساکہ قرآن میں آیا ہے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (22:37)-
اِسی بات کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح کہاجاسکتا ہے کہ نجات ایک انفرادی معاملہ ہے جس کا تعلق اصلاً آخرت سے ہے اور حفاظتِ دین ایک اجتماعی معاملہ ہے جو اصلاً موجودہ دنیا کا ایک ظاہرہے- کسی آدمی کی نجات کا تحقق صرف آخرت میں ہوگا- لیکن جہاں تک حفاظتِ دین کا معاملہ ہے، اس کی ضرورت موجودہ دنیا کی نسبت سے ہے- آخرت میں حفاظتِ دین کی ضرورت باقی نہ رہے گی-
بے روح اسلام
اہلِ قرآن کہلائے جانے والے لوگوں کا گروپ اگرچہ بظاہر قرآن اور اسلام کا نام لیتا ہے، لیکن غور کیجئے تو اُن کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں- ان کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ حقیقتاً بے روح اسلام(despiritualized Islam) کا ایک ورزن (version)تیار کررہے ہیں- وہ اسلام کا انکار کیے بغیر اسلام کی نفی کررہے ہیں-
دین اسلام کی بنیاد ایمان پرہے- ایمان سے مراد وہ معرفت ہے جو آدمی کے اندر اپنے خالق کے بارے میں یقین واعتماد کی کیفیت پیدا کرے، مگر اِن حضرات کا کہنا ہے کہ ایمان سے مراد امن ہے، یعنی دنیوی زندگی میں ایک پرامن معاشرہ (peaceful society) بنانا- ایمان کا یہ تصور نہ صرف غیر علمی ہے، بلکہ وہ انسان سے سب سے بڑی چیز چھین لینے والا ہے، اور وہ تعلق باللہ (communion with God)ہے-
اِسی طرح قرآن میں بار بار اللہ کے لیے رب کا لفظ استعمال ہوا ہے- رب کا عقیدہ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے جو انسان کے اندر وہ سب سے بڑی صفت پیدا کرتا ہے جس کو قرآن میں حمد کہاگیاہے- حمد اسپرٹ بلا شبہہ مومن کا سب سے بڑا سرمایہ ہے- لیکن اہلِ قرآن کا گروپ رب کے لفظ کی تعبیر زمین پر قائم کیے جانے والے نظامِ ربوبیت سے کرتا ہے جو کہ عملاً اشتراکی نظام کے ہم معنی ہے- یہ نظریہ مومن سے اس کے اُس عقیدے کو چھین لینے والا ہے جو کہ بلا شبہہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے-
اِسی طرح تقوی اور خشوع جیسے الفاظ کا معاملہ ہے- یہ الفاظ مومن کی اُس داخلی شخصیت کو بتاتے ہیں جس کو قرآن میں ربانیت (3:79) کہاگیا ہے- یہ اُس انسان کی اعلی ترین صفت ہے جس کو اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل ہوجائے- لیکن اہلِ قرآن کا گروپ اس قسم کے الفاظ کی یہ خود ساختہ تعبیر کرتاہے کہ اس سے مراد دنیوی زندگی میں خدا کے قانون کی خلاف ورزی کے برے نتائج سے بچنا ہے-
یہی معاملہ عبادات کا ہے- قرآن کے مطابق، صلوة ایک نہایت اہم عبادت ہے- صلوة انسان کو اللہ سے قریب کرنے والی ہے- انسان جب حالتِ صلوة میں ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتاہے کہ وہ اللہ کے پڑوس میں پہنچ گیاہے- لیکن اہلِ قرآن کا گروپ خود ساختہ طورپر یہ بتاتا ہے کہ صلوة کا مطلب دنیا کی زندگی میں اجتماعی قوانین کی پابندی ہے- اِس طرح یہ نظریہ بندے اور خدا کے درمیان اُس اعلی تعلق کو ختم کردیتا ہے جس کو قرآن میں حب شدید(2:165) کہاگیاہے-
اِسی طرح قرآن کے مطابق، بندے کی ایک عبادت صوم ہے- صوم کی اصل حقیقت یہ ہے کہ بندہ عمل کی زبان میں یہ بتاتا ہے کہ وہ اللہ کے لیے (for the sake of God) اپنی بنیادی ضرورت تک کو چھوڑ سکتا ہے- یہ بندے کی طرف سے اپنے رب کے لیے وفاداری کا آخری مظاہرہ ہے جو کہ بندے کے مقامِ عبدیت کو بہت زیادہ بڑھانے والا ہے- لیکن اہلِ قرآن کا گروپ روزہ (fasting) کے بجائے صوم کا مطلب یہ بتاتا ہے کہ اس سے مراد دنیوی زندگی میں قوانینِ خداوندی کی خلاف ورزی سے بچنا ہے- یہ خود ساختہ تعبیر مومن کو اُس عظیم روحانی تجربے سے محروم کرنے والی ہے جس کو قرآن میں دعاءِ قربت (2:186)کہاگیاہے-
یہی معاملہ دوسری عبادات کا ہے- اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے کچھ مسلم اہلِ فکر نے اسلام کی مبنی برنظام تعبیر (system-based interpretation) پیش کی، جب کہ اسلام کی ربانی تعبیر ہی اس کی صحیح تعبیر ہے- اہلِ قرآن گروپ کا کیس یہ ہے کہ وہ اسلام کی مبنی بر نظام تعبیر سے متاثر ہوا، اور اس میں اپنی طرف سے مزید اضافہ کرکے اس کے بگاڑ کو اس کی آخری حد تک پہنچا دیا-
قرآن کا اصل مدعا وہی ہے جس کو قرآن کی پہلی آیت میں بیان کیاگیا ہے، یعنی الحمد اللہ رب العالمین- یہی قرآن کی تعلیمات کا خلاصہ ہے- قرآن کا مدعا یہ ہے کہ انسان رب العالمین کو اس کی صفاتِ کمال کے ساتھ دریافت کرے، وہ ایک ربانی انسان بن جائے- اس کی شخصیت میں وہ انقلاب آئے جب کہ وہ پورے معنوں میں حمد اسپرٹ میں جینے لگے-
یہی قرآنی تعلیمات کا ماحصل (gist)ہے- جب ایک انسان کے اندر یہ صفت پیدا ہوتی ہے تو اس کے لازمی نتیجے کے طورپر اس کی زندگی میں تزکیہ کا عمل شروع ہوجاتاہے- وہ اللہ کی یاد میں جینے لگتا ہے، وہ اللہ کا عبادت گزار بندہ بن جاتا ہے- اس کے سوچنے اور اس کے بولنے پر اللہ کا رنگ چھا جاتا ہے، اس کے اخلاق اور اس کے معاملات اللہ کی مرضی کے تابع بن جاتے ہیں، اس کی پوری زندگی اس حقیقت کا اظہار بن جاتی ہے کہ اس کو اللہ کے سامنے اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے- قرآن کے الفاظ میں یہی ربانی انسان ہے، اور اِسی قسم کا انسان بنانا قرآن کا اصل نشانہ ہے-
عبادات کی اصولی حیثیت
جو لوگ ایساکرتے ہیں کہ وہ قرآن میں مذکور نماز اور دوسری عبادات کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو علمی اجماع اور عملی تواتر کے ذریعے ثابت شدہ تعبیر کے خلاف ہے، ان کے شعور یا لاشعور میں غالباً ایک تحفظ (reservation) موجود ہوتاہے- وہ دیکھتے ہیں کہ بے شمار مسلمان مسجدوں میں جمع ہو کر نمازیں ادا کررہے ہیں، لیکن اِن مسلمانوں کی زندگیوں میں اِس کا کوئی صالح نتیجہ دکھائی نہیں دیتا- اس لیے وہ عبادت کی دوسری دوسری تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں- مثلاً یہ کہ اقامتِ صلوة کا مطلب معروف نماز نہیں، بلکہ سوشل ورک ہے، وغیرہ-
یہ سوچ درست نہیں-اصل یہ ہے کہ اِس معاملے کو باعتبار حقیقت، صرف نظری اصول (theoretical criterion)کی بنیاد پر دیکھا جائے گا، نہ کہ عملی نتیجہ (practical result) کی بنیاد پر- اِس کا سبب انسان کی آزادی ہے- خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق، انسان کو اِس دنیا میں اختیار کی آزادی (freedom of choice) حاصل ہے- ایسی حالت میں انسان کو صرف اصول بتایا جاسکتا ہے- جہاں تک عمل کاتعلق ہے، وہ تمام تر انسان کے اپنے ارادہ (will) پر منحصر ہے- آدمی اگر چاہے گا تو وہ ایسی عبادت کرے گا جو مطلوب نتیجے کے مطابق ہو، اور اگر وہ نہ چاہے تو وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ وہ سرے سے عبادت نہ کرے، یایہ کہ وہ فارم (form) کے اعتبار سے بظاہر عبادت کرے، لیکن اس کی عبادت میں عبادت کی روح (spirit) شامل نہ ہو- اِس بنا پر عبادت کے معاملے میں صرف یہ ممکن ہے کہ اس کا اصل حکم بیان کیا جائے، نتیجے کو انسان کی آزادی کا معاملہ سمجھا جائے، نہ کہ خود عبادت کی اصولی حیثیت کا معاملہ-
پیغمبر کی اہمیت
ایک صاحب جو اہلِ قرآن کہلائے جانے والے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، ان سے میری گفتگو ہوئی- انھوں نے کہا —کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، لیکن قرآن کو درست طور پرسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کو دوسری تمام چیزوں سے الگ (detach) کرکے دیکھا جائے، تاریخ کو، حدیث کو، تفسیر کو، حتی کہ خود محمد کو بھی حذف کرکے دیکھا جائے، تب قرآن سمجھ میں آئے گا- انھوں نے کہا کہ قرآن کو صرف قرآن کے ذریعے سمجھنا ہے، نہ کہ کسی اور چیز کے ذریعے-
یہ بات بظاہر گریمر کے لحاظ سے درست ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ مکمل طورپر بے بنیاد ہے- حقیقت یہ ہے کہمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حذف کرنے کے بعد خود قرآن کو حذف کرنا پڑے گا، کیوں کہ قرآن ہمارے پاس براہِ راست نہیں آیا، بلکہ اُس انسان کے ذریعے آیا جس کا نام محمد بن عبد اللہ تھا، جو 570 میں مکہ میں پیدا ہوا اور 632 میں جس کی مدینے میںوفات ہوئی-اس انسان کی قبر اب بھی اس کی تاریخی یادگار کے طورپر مدینے میں موجود ہے- عرب میں پیدا ہونے والے اِس انسان نے جب کہا کہ یہ قرآن ہے جووحی کے ذریعے مجھ پر نازل ہوا ہے، اس کے بعد ہی قرآن قرآن بنا- اگر اس انسان نے ایسا نہ کہا ہوتا تو قرآن کو قرآن سمجھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی بنیاد ہی موجود نہ ہوتی- حقیقت یہ ہے کہ محمد بن عبد اللہ کو ماننا ہی ہم کو قرآن کو ماننے کے لیے نقطہ آغاز دیتا ہے- اِس معاملے میں اگر ہم محمد بن عبد اللہ کو حذف کریں تو اِس سے پہلے خود قرآن حذف ہوچکا ہوگا- ظاہر ہے کہ ہم اِس قسم کے قول کا تحمل نہیں کرسکتے-
پھر یہ بات محمد بن عبداللہ پر ختم نہیں ہوتی- سوال یہ ہے کہ محمد بن عبد اللہ کے ظہور کے چودہ سوسال بعد جو قرآن ہمارے پاس موجود ہے، وہ ہم کو کیسے ملا- وہ اِس طرح ملا کہ رسول کے اصحاب نے محمد بن عبد اللہ کی زندگی میں براہِ راست طورپر اُن سے قرآن کو سنا اور اس کو حفظ وکتابت کے ذریعےمحفوظ کردیا- اس کے بعد تابعین کے گروہ نے اصحابِ رسول سے اُس کو براہِ راست طورپر سنا اور پھر حفظ وکتابت کے ذریعے اس کو محفوظ کرلیا-یہی کام دوبارہ تبع تابعین کے گروہ نے کیا- اِس کے بعد یہی طریقہ مسلسل طورپر نسل درنسل جاری رہا اور اب تک جاری ہے- انیسویں صدی میں مزید یہ ہوا کہ قرآن کو پرنٹنگ پریس میں چھاپا گیا اور اس کے مطبوعہ نسخے ساری دنیا میں پھیلا دیے گئے-
قرآن کے معاملے میں اللہ کی حیثیت منزِّلِ کتاب کی ہے اور رسول کی حیثیت راویِ کتاب کی اور امت کی حیثیت ناشر ِ کتاب کی- یہ ایک طویل تاریخی سلسلہ ہے- اِس تاریخی سلسلے نے قرآن کو آخری حد تک محفوظ اور مستند کتاب بنا دیا ہے- مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی- اللہ نے محمد بن عبد اللہ کو قرآن کا مہبط بنایا- یہ بلاشبہہ روبوٹ(robot) جیسا کوئی معاملہ نہ تھا-
قرآن کے مطابق، اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ قرآن سارے انسانوں تک قابلِ فہم انداز میں پہنچے- اِس مصلحت کا یہ لازمی تقاضا تھا کہ اللہ ایسے انسان کو قرآن کا مہبط بنائے جو خود قرآن کو درست طورپر سمجھے اور اس کو درست طورپر دوسروں تک منتقل کرے-
اِس حکمت کے لازمی تقاضے کے طورپر سنت وجود میں آئی- سنت گویا صاحب ِقرآن کی زبان سے قرآن کی مستند تفہیم وتشریح ہے- جس طرح محمد بن عبد اللہ کو حذف کرنے سے قرآن حذف ہوجاتا ہے، اِسی طرح سنت کو حذف کرنے سے قرآن کی مستند تفہیم وتشریح حذف ہوجاتی ہے اور جب قرآن اور اس کی مستند شرح دونوں حذف ہوجائیں تو اس کے بعد علمی اعتبار سے، انسان کے پاس کوئی مستند بنیاد باقی نہیں رہتی جس پر وہ حقیقتِ حیات کو جاننے کے لیے اعتماد کرسکے-
تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ جس طرح قرآن ایک تسلسل کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، اُسی طرح قرآن کی پیغمبرانہ تفہیم وتشریح بھی سنت کی شکل میں ایک قابلِ اعتماد تسلسل کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے، خالص علمی اور تاریخی اعتبار سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں-
قرآن دین ِ اسلام کی واحد مستند کتاب ہے- لیکن قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں دین کے صرف اساسی اصول (fundamentals) بیان ہوئے ہیں- قرآن میں کسی بھی حکم کی تفصیل (detail) موجود نہیں- اِس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ احکامِ قرآن کی تفصیل بھی موجود ہو، کیوں کہ انسان جیسی مخلوق کے لیے کسی حکم کی تفصیل جانےبغیر اس پر عمل کرنا ممکن نہیں- سنت کی حیثیت قرآن کے احکام کی اِسی تفصیل اور تبیین کی ہے-
اِسی کے ساتھ یہ بھی ایک معلوم بات ہے کہ زمانہ بدلتا رہتا ہے- اِس لیے ہر دور میں نیے تقاضے سامنے آتے ہیں- یہ زمانی تقاضےاپنی نوعیت کے اعتبارسے ہمیشہ اضافی(relative) ہوتے ہیں، وہ حقیقی (real) نہیں ہوتے- اِس لیے بدلے ہوئے حالات میں نئی کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی- جو ضرورت ہوتی ہے، وہ صرف یہ کہ حالات کے مطابق، اصل کتاب کی تعلیمات کا دوبارہ انطباق(reapplication) تلاش کیا جائے- مہبطِ قرآن کے بعد یہ سلسلہ بعد کی تاریخ میں برابر جاری رہا اور اب بھی جاری ہے- البتہ پیغمبر کی تشریح اور بعد کے علما کی تشریح میں ایک اصولی فرق موجودہے،وہ یہ کہ پیغمبر کی تشریح کی حیثیت مستند تشریح کی ہوگی، جب کہ بعد کے علما کی تشریح کی حیثیت صرف اجتہادی تشریح کی-
قرآن اور پیغمبر
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو حذف (detach) کرکے قرآن کو سمجھیں گے وہ اپنے اِس قول سے صرف یہ بتارہے ہیں کہ وہ قرآن کی اسکیم سے مکمل طورپر بے خبر ہیں- پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی اسکیم کا ایک لازمی حصہ ہیں- پیغمبر کے بغیر قرآن کو سمجھنے کا دعوی کرنا بلاتشبیہہ ایسا ہی ہے جیسے البرٹ آئن سٹائن کو حذف کرکے نظریہ اضافیت (theory of relativity) کو سمجھنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح پیغمبر کے بغیر قرآن کو سمجھنا سرتاسر ناممکن ہے-
مثال کے طورپر قرآن میں بار بار اُن نبیوں کا حوالہ دیاگیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا میں آئے- یہ تمام پیغمبر جدید انسان کی نسبت سے، صرف ایک مذہبی عقیدہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی حیثیت تاریخی پیغمبر (historical prophet) کی نہیں- کیوں کہ مدوَّن تاریخ (recorded history) میں ان پیغمبروں کا حوالہ (reference) موجود نہیںہے-
قرآن کی دعوت میں مدعو کی نسبت سے، گویا یہ ایک خلا پایا جاتا تھا- یہاں مدعو کہہ سکتا تھا کہ قرآن جن پیغمبروں کا حوالہ دے کر اپنی بات پیش کرتا ہے، ان کا ریکارڈ مدون تاریخ میں موجود نہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مدعو کی اس بات کا محکم جواب ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی زندگی میں ایسے واقعات پیش آئے کہ آپ کی ذات اور آپ کا مشن مدون تاریخ کا حصہ بن گیا- ایک مستشرق (orientalist) نے اِس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:
Muhammad was born within the full light of history.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی وہ خاص حیثیت ہے جس کو قرآن میں مقامِ محمود (17:79) کا عنوان دیاگیا ہے- ’’مقامِ محمود‘‘ سے مراد تاریخی مقام یا تاریخی پیغمبر ہے- پیغمبر اسلام نبیوں کے سلسلے کی تاریخی تکمیل ہیں- محمود کا لفظی مطلب ہے: تعریف کیا ہوا یا اعتراف کیا ہوا- یہاں تاریخی پیغمبر سے مراد ہے— نبی ِمعتَرَف(historically acknowledged prophet)-
ایک حدیث رسول میں بتایاگیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی عظیم عمارت کا ایک ’لَبِنة‘ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:3535 ) ہیں- اِس کا مطلب یہ ہے کہ نبیوں کی طویل فہرست کے باوجود مدعو کی نسبت سے، بظاہر ایک کمی پائی جاتی تھی، وہ یہ کہ پچھلے انبیا اللہ کے سچے رسول ہونے کے باوجود مورخین کے ریکارڈ میں درج نہ ہوسکے- گویا خالص مورخانہ اعتبار سے، یہ انبیا صرف اعتقادی انبیا تھے، وہ تاریخی انبیا نہ تھے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن استثنائی طورپر ایک ایسا مشن تھا جو مورخین کے معیار کے مطابق، عالمی تاریخ میں ریکارڈ ہوگیا- اِس طرح پیغمبراسلام کے ذریعے استثنائی طورپر ایک تاریخی پیغمبر (historical prophet) وجود میں آیا- اِس طرح یہ ہوا کہ نہ صرف پیغمبر اسلام ایک تاریخی پیغمبر بن گئے، بلکہ آپ کے سوا دوسرے پیغمبروں کی حیثیت بھی اصولی طورپر تاریخی پیغمبر کی ہوگئی، پیغمبر اسلام اگر اِس تاریخی فہرست کا براہِ راست حصہ تھے تو دوسرے تمام پیغمبر اِس تاریخی فہرست کا بالواسطہ حصہ-
قرآن اور سنت ِ متواترہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو دین ہم کو ملا ہے، بنیادی طورپر اس کی دو قسمیں ہیں — قرآن اور سنتِ متواترہ- سنتِ متواترہ عملاً اُس دین ِ اسلام کا مستند حصہ بن چکی ہے جس کو ہم نے انسٹی ٹیوشنلائزڈ اسلام کہا ہے- یہ اُسی طرح قابلِ اتباع ہے، جس طرح قرآن کی آیات- سنتِ متواترہ کے سلسلے میں اب ہم کو صرف اتباع کرنا ہے، نہ کہ اُس پر بحث کرنا-
جہاں تک اخبارِ آحاد (احادیث) کا تعلق ہے، اُن کی نوعیت کسی قدر مختلف ہے- اخبارِ آحاد عملاً ظنی کے حکم میں ہیں، لیکن ظنی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ موضوع روایت کی طرح قابلِ رد ہیں- ظنی کا مطلب صرف یہ ہےکہ وہ تحقیقِ مزید کا موضوع (subject to rechecking) ہیں، اور جب تحقیق کے ذریعے اخبارِ آحاد کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے تو وہ بلاشبہہ دوسری صحیح احادیث کی طرح قابلِ اتباع ہوجائیں گی- اِس معاملے میں یہی جمہور کا مسلک ہے-(حدیث الآحاد حجة، یجب العمل بہ إذا صحّ، وعلى ہذا جمہور المسلمین)
عبادت اور عملی تواتر
قرآن میں بتایاگیا ہے کہ عبادت انسان کی تخلیق کا اصل مقصد ہے (51:56)- قرآن میں بار بار اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیاگیا ہے (2:21)- انسان سے جواصل چیز مطلوب ہے، وہ یہی عبادت ہے- اللہ معبود ہے اور انسان اس کا عابد- اِسی عبادتی تعلق کی درستگی پر دین کا مدار ہے-
عبادت کی اصل روح ایک ہے، اور وہ ہے اپنے آپ کو آخری حد تک جھکانا اور پست کرنا (أصل العبودیة: الخضوع والتذلل)- اِس روح عبادت کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا ہے- اِن میں سے ایک صلوة (نماز) ہے- صلوة کی اصل حقیقت خشوع (23:2) ہے- لیکن صلوة کا ظاہری فارم بھی اِس خشوع کا ایک لازمی حصہ ہے، جیسا کہ انسان کے وجود میں روح کے ساتھ جسم اس کی شخصیت کا ایک لازمی اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہوتا ہے-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ظاہر ہوا ہے جو کہتا ہے کہ پنج وقتہ نماز کا موجودہ نظام تدوین ِ حدیث کے بعد وجود میں آیا ہے- یہ نظریہ سرتاسر بے بنیاد ہے، تاریخ ہرگز اِس نظریے کی تائید نہیں کرتی- حقیقت یہ ہے کہ نماز کا موجودہ نظام اگر حدیث کی تدوین کے بعد قائم ہوتا تو وہ سرے سے قائم ہی نہ ہوتا- پنج وقتہ نمازوں کا موجودہ نظام اِسی وجہ سے قائم ہے کہ وہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باقاعدہ طورپر وجود میں آچکا تھا اور اس کے بعد وہ تاریخ میں بلا انقطاع مسلسل طورپر جاری رہا-
تاریخ کے مطابق، احادیث رسول کی جمع وتدوین عملاً تیسری صدی ہجری میں عباسی دور میں ہوئی- حدیث کی جمع وتدوین سے پہلے پنج وقتہ نمازوں کا نظام بن چکا تھا- لوگ مسجدوں میں روزانہ جماعت کے ساتھ مقرر اوقات پر نماز ادا کررہے تھے- نماز باجماعت کا یہ نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قائم ہوچکا تھا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: صلوا کما رأیتمونی أصلی ( صحیح الجامع للألبانی، رقم الحدیث: 893) -
یہ حدیث اپنی حقیقت کے اعتبار سے، صرف ایک امرِ رسول نہیں ہے، بلکہ وہ ایک امر فطرت ہے- نماز جیسی عبادت جس کا ایک فارم ہو، وہ دیکھے بغیر ہرگز ادا نہیں کی جاسکتی- ضروری ہے کہ اس کا ایک ماڈل موجود ہو جس کو دیکھ کر لوگ اُسی طرح اس کو دہراتے رہیں- اِس کے بعد جو واقعہ پیش آیا، وہ یہ تھا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجرت کے بعد مسجد کی تعمیر ہوئی اور اس میں نماز باجماعت قائم کی گئی- یہ واقعہ خود قرآن (9:108)سے ثابت ہے -
آپ کے صحابہ (ہم عصر اہلِ ایمان) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست طورپر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور اِسی نمونۂ رسول کے مطابق انھوں نے نمازیں ادا کیں- اس کے بعد اگلی نسل (تابعین) نے صحابہ کو دیکھا اور ان کے نمونے کے مطابق، انھوں نے نمازیں ادا کیں- اس کے بعد مسلمانوں کی تیسری نسل (تبع تابعین) نے تابعین کو دیکھا اور ان کے نمونے کے مطابق انھوں نے نماز ادا کی- اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا اور اگلی نسل کے لوگ پچھلی نسل کے لوگوں کو دیکھ کر بڑی تعداد میں اجتماعی طورپر مقرر اوقات میں نماز ادا کرتے رہے- یہ سلسلہ اب تک بلا انقطاع جاری ہے-
حقیقت یہ ہے کہ یہ کہنا کہ حدیثوں کی جمع وتدوین کے بعد نمازیں شروع ہوئیں، یہ ایک سرتاسربے بنیاد (baseless) بات ہے۔ نماز ایک عملی عبادت ہے، وہ صرف حدیثوں کو پڑھ کر ادا نہیں کی جاسکتی- حدیثوں کو پڑھ کر زیادہ سے زیادہ نماز کا ایک نظریاتی تصور (theoretical concept) بن سکتا ہے، مگر صرف نظریاتی تصور سے عملی عبادت ادا نہیں کی جاسکتی- نماز کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ایک عملی نمونہ (practical model)موجود ہو- یہ صحیح ہے کہ حدیثوں میں نماز کے طریقے اور آداب کا ذکر بطور اصول کیاگیا ہے، لیکن یہ نماز کا صرف ایک نظریاتی بیان (theoretical description) ہے-اور صرف نظریاتی بیان نماز کی عملی ادائیگی کے لئے کافی نہیں- بالفرض اگر حدیث کی جمع وتدوین سے پہلے نماز کا عملی نمونہ موجود نہ ہوتا اور لوگ حدیثوں کو پڑھ کر نماز ادا کرنا شروع کرتے تو ناممکن تھا کہ نماز کا کوئی واحد عملی نظام بن سکے- ایسی حالت میں عملی طورپر نماز کی اتنی زیادہ صورتیں ہوتیں کہ جتنے زیادہ آدمی اتنی ہی زیادہ نماز کی صورتیں- اِس طرح عبادت کا ایک جنگل تو وجود میں آسکتا تھا، لیکن عبادت کا ایک یکساں نظام (uniform system) قائم ہونا ہرگز ممکن نہ تھا-
خلاصۂ بحث
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن اپنے الفاظ کے اعتبار سے بھی محفوظ ہے اور اِسی طرح قرآن کے معنی اور مفہوم بھی پوری طرح محفوظ ہیں- حفاظت کا یہ معاملہ براہِ راست طورپر خدا کے فیصلے کے تحت ہوا ہے-
اب اگر اکیسویں صدی میں کوئی شخص اٹھے اور کہے کہ امت مسلمہ قرآن کے الفاظ کے جو معنی اب تک سمجھتی رہی ہے، وہ غلط ہے، یا مفسرین، قرآن کے الفاظ مثلاً صلوة اور زکوة اور حج، وغیرہ کے جو معنی بتاتے رہے ہیں، وہ درست نہیں، تو اِس قسم کا بیان کوئی سادہ بیان نہیں- وہ براہِ راست طورپر اللہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے ہم معنی ہے، وہ عملاًخود قرآن کی تردید ہے-
اِس دنیا میں اللہ نے ہر انسان کو آزادی دی ہے- اِس بنا پر ایک انسان یہ کرسکتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں قرآن کو نہیں مانتا، لیکن یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ وہ قرآن کو مانے اور پھر یہ کہے کہ قرآن کے معنی بعد کے زمانے میں بدل گئے-
قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ تعالی نے ایسا محکم انتظام کیا ہے کہ اس میں کوئی بھی شخص کسی قسم کی تبدیلی نہ کرسکے- دوسرے الفاظ میں یہ کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ تاریخ کے درمیان میں اٹھے اور قرآن کے معنوی تواتر کو توڑ دے- قرآن میں اِس قسم کی مداخلت (intervention) کا مطلب یہ ہوگا کہ بعد کی نسلوں کے لیے قرآن درست طورپر قابلِ فہم نہ رہے- اگر ایسا ہو تو اس کا مطلب نعوذ باللہ، یہ ہوگا کہ قرآن کی حفاظت کے بارے میں اللہ کا فیصلہ باطل قرار پاگیا، وہ پوری تاریخ میں جاری نہ رہ سکا-
قرآن کو ماننے یا نہ ماننے کا تعلق انسان کی شخصی آزادی سےہے، جس کا حق ہر ایک کو فطری طورپر حاصل ہے، لیکن قرآن کی تاریخی محفوظیت کا تعلق تمام تر علم سے ہے اور علم کے معاملے میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر ایک ایسا بیان دے جس کی تصدیق علم کے مسلّمہ اصولوں سے نہ ہوتی ہو-
پہلی بات کا تعلق انسان کی اپنی آزادی سے ہے- ہر انسان کو پیدائشی طورپر یہ حق دیاگیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے اور چاہے تو ذاتی دائرے میں وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے- لیکن جہاں تک علم کے اُن اصولوں کا تعلق ہے جو اپنی تاریخ کے نتیجے میں یونی ورسل نارم (universal norms) کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں، اُن میں کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اُن کو نہ مانے یا خود ساختہ طورپر وہ ان کا نیا مفہوم بیان کرے-POIU
ایک اور
واپس اوپر جائیں