Pages

Tuesday 4 September 2018

Al Risala | October 2018 (الرسالہ،اکتوبر)

4

-شخصیت کی تعمیر

5

- انسان کی عبدیت

6

- معرفت کا کلمہ

9

- جنت کا معاملہ

10

- رزق کا معاملہ

11

- حکومتِ الٰہیہ یا حکومتِ انسانیہ

12

- حکم صرف اللہ کا

13

- خدا اور انسان

14

- معرفتِ الٰہی

15

- امت کی حالت زار

16

- امت میں قتال

19

- صلح پہلا آپشن

20

- تقویٰ بقدر استطاعت

22

- والرجز فاھجر

23

- دنیا اور آخرت

24

- ایمان کے بعد ایمان

26

- خدا کی دریافت

28

- منصوبۂ تخلیق

29

- مصیبت کیوں

30

- داعی کی اسپرٹ

31

- علما کا مقام

32

- قناعت کا سبق

33

- مشورے کی اہمیت

34

- موت کی یاد

35

- زندگی کے قیمتی سال

36

- باہمی انحصار کا دور

37

- غیر عملی نشانہ

38

- ظلم یا چیلنج

39

- دینی شناخت

40

- فطرت کو موقع دو

41

- غصے کا ظاہرہ

42

- شادی شدہ زندگی

43

- عذر کیا ہے

44

- پانے میں کھونا

45

- تخلیقی مشورہ

46

- خبرنامہ اسلامی مر کز


شخصیت کی تعمیر

انسان فطرت کا ایک اعلیٰ عطیہ ہے۔انسان کے اندر ہر قسم کی اعلیٰ صلاحیت فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔ لیکن انسان کے اندر جو صلاحیت ہے، وہ پوٹنشل (potential) کے روپ میں ہے۔ اس پوٹنشل کو ایکچول (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ انسان کی اس پیدائشی نوعیت کو سمجھنے کے لیے قرآن کی ان دو آیتوں کا مطالعہ کیجیے: أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ۔ تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (14:24-25) ۔ یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمۂ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کی یہ آیت تمثیل کی زبان میں بتارہی ہے کہ انسانی شخصیت کی تعمیر کا اصول کیا ہے۔ اس آیت میں شجرۂ طیبہ سے مراد صحت مند پودا (healthy plant) ہے۔ صحت مند پودے کو جب زمین میں نصب کردیا جائے تو وہ فوراً زمین اور فضا سے اپنی غذا لینا شروع کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک پورا درخت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ ایک انسانی وجود کا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے، وہ ایک بالقوۃ انسان کی مانند ہوتا ہے۔ پھر وہ اپنے ماحول سے ہر قسم کی غذا لینا شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بڑھتے بڑھتے ایک پورا انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر وہ تمام عملی اور اخلاقی صفات پیدا ہوجاتی ہیں، جو اس کو اس زمین پر ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے درکار ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ زمین پر موجود تمام امکانات کو اپنے لیے استعمال کرے، اور اپنے آپ کو اللہ کا مطلوب انسان بنائے۔ وہ یہ ہےکہ عملی زندگی میں ہر موقعے پر وہ مطلوب رسپانس (required response) دے، جس کے لیے اس کے خالق نے اس کو موجودہ دنیا میں بھیجا ہے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی عبدیت

قرآن کی سورہ بنی اسرائیل میں واقعۂ اسراء کا ذکر کرتے ہوئے آیا ہے :سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِہِ (17:1)۔ یعنی پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے عبد کو۔ عبد کا مطلب معروف مفہوم کے مطابق غلام (slave) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب عارف باللہ (realized person)ہے۔ یعنی وہ انسان جو معرفت کا سفر طے کرتے ہوئے اپنے آپ کو معرفت کے اعلیٰ درجے تک پہنچائے۔ یہ کسی شخص کا ذہنی اور روحانی سفر ہے۔ یہ معرفت کے سفر کا وہ درجہ ہے، جب کہ انسان اپنے آپ کو انٹلکچول دریافت (intellectual discovery) کے درجے تک پہنچاتا ہے، اور اپنے رب سے قربت کا مقام حاصل کرتا ہے۔
یہ ایک واقعہ ہے کہ اللہ رب العالمین انسان کا خالق ہے۔ اللہ رب العالمین نے انسان کو بہترین تخلیق کے ساتھ پیدا کیا۔ اللہ رب العالمین نے انسان کے لیے ایک ایسی کائنات بنائی، جو پورے معنوں میں کسٹم میڈ (custom-made) یونیورس ہے۔انسان کو ایک ایسی دنیا عطا کی، جہاں وہ لامحدود حد تک اپنے ارتقا کا سفر جاری رکھ سکے۔ اس حقیقت کے ادراک کے بعد جو شکر گزار بندہ بنتا ہے، اسی کا نام عبد ہے۔ عبدیت اس بات کا نام ہے کہ انسان اپنی حقیقت اور اپنے رب کی حقیقت کو معرفت کے درجے میں پالے۔ یہ پانا اتنا مؤثر ہو کہ اس کی شخصیت معرفت رب میں ڈھل جائے۔
عبدیت کسی انسان کے لیے درجۂ کمال تک پہنچنے کا نام ہے۔ اسی طرح رب اس دریافت کا نام ہے کہ انسان اپنے رب کو خالق اور محسن کی حیثیت سے درجۂ شعور میں دریافت کرے۔ عبد، انسانی شعور کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کا نام ہے، اور رب کی معرفت خالق کی ہستی کا کامل درجے میں ادراک کرنے کا نام ہے۔ عبد اور رب کے درجے کو سمجھنے کے لیے غلام اور آقا کے الفاظ ناکافی ہیں۔ یہ معرفت کی ڈکشنری کے الفاظ ہیں۔ ان کو صرف عارفانہ ذہن کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کا کلمہ

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ یہاں اس کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے: عبد اللہ بن عمرو ابن العاص روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:اللہ قیامت کے دن میری امت کے ایک فرد کو تمام مخلوق کے سامنے لائے گا، پھر اس کے (اعما ل کا )ننانوے رجسٹر (ایک روایت میں ہے : جس میں اس کی خطائیں ہوں گی)،اس کے سامنے کھولا جائے گا، ہر رجسٹر انتہائےنظر کے مثل ہوگا ( فَیَنْشُرُ عَلَیْہِ تِسْعَةً وَتِسْعِینَ سِجِلًّا کُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ البَصَر)، پھر اللہ پوچھے گا: کیا تم ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو ؟کیا اعمال لکھنے والے محافظ فرشتوں نے کچھ ظلم کیاہے، وہ کہے گا :نہیں، اے رب۔ پھر اللہ کہےگا :کیا تمھارے پاس اس کا کوئی عذر ہے (ایک روایت میں ہے : یا کوئی نیکی ہے، وہ آدمی متحیر ہوجائے گا، اور) کہے گا: نہیں، اے رب۔ پھرا للہ کہے گا:(ایک روایت میں ہے: ہم اپنے پاس تمھاری نیکیاں نہیں دیکھتے ہیں)،لیکن ہمارے پاس تمھاری ایک نیکی ہے اور آج کے دن تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا ( وَإِنَّہُ لَا ظُلْمَ عَلَیْکَ الْیَوْمَ)، پھر ایک بطاقہ (کارڈ)نکالا جائے گا(ایک روایت میںہے: انگلی کے بقدر)، جس میںہوگا:أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ۔ اللہ کہے گا: اس کو وزن کرو۔ بندہ کہے گا :اے رب،اس کارڈ کی کیا حیثیت ہے، ان رجسٹروں کے مقابلے میں( یَا رَبِّ مَا ہَذِہِ الْبِطَاقَةُ، مَعَ ہَذِہِ السِّجِلَّات)؟ کہا جائے گا کہ آج کے دن تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا، اور پھر تمام رجسٹروں کو ایک پلڑے میںرکھ دیا جائے گا،اور اس کارڈ کو دوسرے پلڑے میں، تمام رجسٹرہلکے ہوجائیں گے، اور کارڈ والاپلڑابھاری ہوجائے گا۔ بیشک اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں (فَلاَ یَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللہِ شَیْءٌ) ۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2639؛ مسند احمد، حدیث نمبر 6994؛ المجالسۃ وجواہر العلم، حدیث نمبر 2295؛ الشریعۃ للآجری، حدیث نمبر 902؛ المعجم الکبیر للطبرانی، 13/19/30)
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اس آدمی کے پاس ایک بطاقہ ہوگا، جس میں لکھا ہوگا: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہ ُ ۔ یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ یہ کلمہ اتنا زیادہ بھاری ہوگا کہ اس کی خطاؤں کا ڈھیر اس کے مقابلے میں کم ہوجائے گا، اور یہ کلمہ بھاری ہوجائے گا۔
مذکورہ حدیث کی مزید وضاحت ایک اور روایت پر غور کرنے سےہوتی ہے۔اس طویل روایت کے متعلق جزء کا ترجمہ یہ ہے:ابوہریرہ سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے کہا کہ میرا جوتا لے کر یہاں سے باہر جاؤ، اور جو شخص تمھیں دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہوا ملے، اس کو جنت کی بشارت دے دو ( فَمَنْ لَقِیتَ مِنْ وَرَاءِ ہَذَا الْحَائِطَ یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہُ، فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّة) ۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں جوتا لے کر باہر نکلا تو میری ملاقات سب سے پہلے عمر (ابن الخطاب) ہوئی۔ عمر نے کہا: اے ابوہریرہ ! تمھارے ہاتھ میں یہ جوتے کیسے ہیں ؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول کے جوتے ہیں۔ آپ نے مجھے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ عمر نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر زور سے مارا، جس سے میںزمین پر گرپڑا۔ عمر نے کہا: اے ابوہریرہ ! لوٹ جاؤ۔ میں لوٹ کر رسول اللہ کے پاس پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر بھی آپہنچے۔ رسول اللہ نے کہا: اے ابوہریرہ ! کیا بات ہے ؟ میں نے کہا: میری ملاقات عمر سے ہوئی، اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو بتایا۔ انہوں نے میرے سینے پر زور سے مارا، جس سے میں زمین پر گرپڑا ،اور اس نے کہا:واپس جاؤ۔ رسول اللہ نے کہا: اے عمر،تم نے ایسا کیوں کیا ؟ عمر نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! کیا آپ نے ابوہریرہ کو اپنے دونوں جوتے دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔ آپ نے کہا: ہاں ! عمر نے کہا: آپ ایسا نہ کریں، میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اسی پر بھروسہ نہ کرلیں۔ اُن کو چھوڑ دیجیے،عمل کرنے کے لیے(فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّی أَخْشَى أَنْ یَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَیْہَا، فَخَلِّہِمْ یَعْمَلُون)۔ رسول اللہ نے کہا: لوگوں کو چھوڑدو(فَخَلِّہِمْ)۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر31۔
دونوں روایتوں پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ بطاقے میں جس کلمۂ شہادت کا ذکر ہے، وہ باعتبار الفاظ نہیں ہے، بلکہ وہ باعتبارِ معنی ہے۔ شہادت کا کلمہ باعتبارِ حقیقت بلاشبہ اتنا زیادہ بھاری ہے کہ اس کی وجہ سے پہاڑ پھٹ پڑا، اور پیغمبرموسٰی بیہوش ہوکر گرپڑے (الاعراف، 7:143)۔
مذکورہ روایت میں کسی انسان کا جو بطاقہ نکلا تھا، وہ غالباً معرفت کا بطاقہ تھا۔ اس انسان سےاگرچہ بڑی تعداد میں خطائیں سرزد ہوئی تھیں، لیکن اس پر کوئی وقت ایسا گزرا، جب کہ اس کے اوپر نہایت شدت کے ساتھ خطا کا احساس طاری ہوا۔اس وقت شہادتِ حق کا اعتراف اس کی زبان سے اتنی زیادہ طاقت کے ساتھ نکلا، جو اس کی تمام خطاؤں پر بھاری ہوگیا۔ خطاؤں کے شدید احساس سے اس کا سینہ پھٹ پڑا۔ شہادت کا اعتراف اس کی زبان سے سیلاب بن کر نکل پڑا، جس سے زمین و آسمان دہل اٹھیں۔ غالباً اس کی وہ کیفیت ہوئی ہوگی، جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلَى رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ (8:2)۔ یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ یہی وہ بطاقہ ہے، جس کا ذکر اوپر کی روایت میں آیا ہے۔ بطاقہ (کارڈ )کا واقعہ غالباً اسی حقیقت کا ایک ڈیمانسٹریشن (demonstration)ہوگا۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
جنت کی دنیا میں انسان کامل آزادی کے ساتھ رہے گا، لیکن وہ اتنا زیادہ پختہ اور اتنا زیادہ با شعور ہوگا کہ وہ کسی بھی حال میںاپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔ وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ڈسپلن میں رہے گا۔یہی وہ انسان ہے جس کے سلیکشن کے لیے موجودہ زمینی سیّارہ بنایا گیا۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا معاملہ

علامہ ابن القیم کا ایک قول ہے:فإِنَّہُ لَا نَعِیمَ لَہُ وَلَا لَذَّةَ، وَلَا ابْتِہَاجَ، وَلَا کَمَالَ، إِلَّا بِمَعْرِفَةِ اللَّہِ وَمَحَبَّتِہِ، وَالطُّمَأْنِینَةِ بِذِکْرِہِ، وَالْفَرَحِ وَالِابْتِہَاجِ بِقُرْبِہِ، وَالشَّوْقِ إِلَى لِقَائِہِ، فَہَذِہِ جَنَّتُہُ الْعَاجِلَةُ، کَمَا أَنَّہُ لَا نَعِیمَ لَہُ فِی الْآخِرَةِ، وَلَا فَوْزَ إِلَّا بِجِوَارِہِ فِی دَارِ النَّعِیمِ فِی الْجَنَّةِ الْآجِلَةِ، فَلَہُ جَنَّتَانِ لَا یَدْخُلُ الثَّانِیَةَ مِنْہُمَا إِنْ لَمْ یَدْخُلِ الْأُولَى۔وَسَمِعْتُ شَیْخَ الْإِسْلَامِ ابْنَ تَیْمِیَّةَ قَدَّسَ اللَّہُ رُوحَہُ یَقُولُ: إِنَّ فِی الدُّنْیَا جَنَّةً مَنْ لَمْ یَدْخُلْہَا لَمْ یَدْخُلْ جَنَّةَ الْآخِرَةِ(مدارج السالکین،جلد 1، صفحہ 452)۔ میر ا سوال یہ ہے کہ کیا جو لوگ جنۃ العاجلہ ، یعنی دنیا کی جنت کو پائے، اس کے لیے یقینی ہے کہ وہ آخرت کی جنت بھی پائے گا۔(حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تامل ناڈو)
میرے نزدیک یہ ایک مشکل سوال ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ بظاہر ایک درست بات معلوم ہوتی ہے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو اس معاملے کی ایک مختلف تصویر سامنےآتی ہے، اور وہ یہ کہ جنت کے معاملے میں شک کا معاملہ شاید کبھی ختم نہیں ہوگا، جب تک کہ انسان جنت میں عملاً داخل نہ ہوجائے۔ کیوں کہ ایک حدیث ِ رسول ہےکہ تم میں سے کسی کو ہر گز اس کا عمل نجات نہیں دلا سکتا( لَنْ یُنَجِّیَ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہ)۔ لوگوں نے کہا: آپ بھی نہیں، اے خداکے رسول۔ آپ نے کہا: میں بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ نے مجھے اپنی رحمت سے ڈھانک لیا ہے، تو خود کوسیدھے راستے پر رکھو، میانہ روی اختیار کرو، صبح و شام کی عبادت کرو، اور رات کے کچھ حصے میں۔ میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی۔ تم مراد کو پہنچ جاؤگے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6463) ۔
یہ معاملہ ایک بے حد نازک معاملہ ہے، چنانچہ میں نے اپنی ایک کتاب میں اس طرح لکھا ہے: یہ محبت اور خوف کا ایک ایسا مقام ہے، جس میں آدمی جس سے ڈرتا ہے، اسی کی طرف بھاگتا ہے، جس سے چھننے کا خطرہ محسوس کرتا ہے، اسی سے پانے کی بھی امید رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا اضطراب ہے، جو سراپااطمینان ہے، اور ایسا اطمینان ہے، جو سراپا اضطراب ہے۔
واپس اوپر جائیں

رزق کا معاملہ

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ (31:34)۔ یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ اسی بات کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَلْقَى فِی رُوعِیَ أَنَّ أَحَدًا مِنْکُمْ لَنْ یَخْرُجَ مِنَ الدُّنْیَا حَتَّى یَسْتَکْمِلَ رِزْقَہُ، فَاتَّقُوا اللَّہَ أَیُّہَا النَّاسُ، وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر2136) ۔ یعنی جبریل نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم میں سے کوئی اس دنیا سے ہرگز نہیں جاسکتا، یہاں تک کہ وہ اپنے رزق کو مکمل کردے، اے لوگو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اور طلب میں خوبصورتی پیدا کرو۔
قرآن کی اس آیت اور اس حدیثِ رسول کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی معاش کا معاملہ خالق کی طرف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ انسان کے باپ کی طرف سے۔ موجودہ زمانہ اس معاملے کا ایک مظاہرہ (demonstration) ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر جگہ یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ باپ اندھا دھند کماتا ہے۔ اس کا یہ کمانا، اور گھر بنانا ، اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے بچے اس کے اندر آرام کی زندگی گزاریں۔ لیکن ہر ایک کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ باپ کی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا، ان کو نصیب نہیں ہوتا۔ وہ عملاً اس دنیا میں جیتا اور مرتا ہے، جو اس نے خود بنائی تھی۔ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو صرف ایک نسل میں زندگی کا سارا نقشہ بدل جاتا ہے۔ باپ نے کچھ چاہا تھا، اور عملاً کچھ اور ہوا۔
اس عام تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ رازق بننے کی کوشش کرے۔ باپ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو زندگی کا شعور دے۔وہ اپنی اولاد کو رازِ حیات بتائے۔ وہ اپنی اولاد کو خالق کا تخلیقی نقشہ بتائے، نہ یہ کہ یہ وہ خود خالق کی سیٹ پر بیٹھ جائے۔ باپ کچھ بھی کرے، لیکن عملاً وہی ہوگا، جو خالق نے مقدر کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکومتِ الٰہیہ یا حکومتِ انسانیہ

اگر آپ دنیا میں حکومت ِ الٰہیہ قائم کرنے کی تحریک چلائیں، تو اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ حکومت الٰہیہ نہیں ہوگی، بلکہ وہ حکومتِ الٰہیہ کے نام پر انسانی حکومت قائم کرنے کی تحریک ہوگی۔ یہ دنیا پوری کی پوری حکومت ِ الٰہیہ کی دنیا ہے۔ قرآن میں بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ زمین و آسمان کا خالق صرف ایک اللہ ہے، اور اسی کے ہاتھ میں پوری کائنات کا اقتدار ہے۔
اس قسم کی ایک آیت وہ ہے، جس کو آیت الکرسی (البقرۃ، 2:255)کہا جاتا ہے۔ آیت الکرسی گویا اسی حاکم مطلق کاشاہانہ منشور ہے۔ اس منشور میں کائنات کے مقتدرِ اعلی کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے :وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضُ (2:255)۔ یعنی اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے:
His throne extends over the heavens and the earth.
یہ کائنات پوری کی پوری حکومتِ الٰہیہ کی کائنات ہے۔ پورے زمین و آسمان میں اسی ایک اللہ کی حکومت ہے۔ اس حکومت میں کوئی اس کا شریک نہیں۔انسان کے لیے جائز حکومت کی صرف ایک صورت ہے ۔ وہ یہ کہ وہ محدود معنٰی میں انتظامیہ (administration) ہو، نہ کہ معروف سیاسی تصور کے مطابق، ایک بااقتدار حکومت۔
دنیا میں انسان کو اگر حکومت ملتی ہے، تو وہ بطور امتحان (test) ہے۔ دنیا میں اگر کوئی انسانی حکومت قائم ہوتی ہے ، تو وہ بطور ٹیسٹ ہے(الانعام، 6:165)۔ یہ امتحانی دور صرف قیامت تک کے لیے ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی حکومتِ انسانی کے اس دور کو ختم کردے گا۔ اس حقیقت کا اعلان ایک حدیث میں کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: قیامت کے دن اللہ زمین کو مٹھی میں لے لے گا، اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر کہے گا، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2787)۔
واپس اوپر جائیں

حکم صرف اللہ کا

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ (12:40)۔ یعنی اقتدار صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ قرآن کی اس آیت میں جس حکم کا ذکر ہے، وہ ایک عبادتی حکم ہے، وہ کوئی سیاسی حکم نہیں ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی حکومت بزور ساری دنیا میں قائم کرو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو کامل معنوں میں اللہ کا عبادت گزار بناؤ۔
قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک فرد دنیا میں کس طرح رہے۔ اللہ کی عبادت گزاری کا عمل اللہ کی معرفت سے شروع ہوتا ہے۔ انسان پہلے غور و فکر کے ذریعے اللہ رب العالمین کو معرفت کے درجے میں دریافت (discover) کرتا ہے۔ وہ مخلوقات کی دنیا میں خالق کی کارفرمائی کا شعوری علم حاصل کرتا ہے۔ وہ اپنے وجود سے لے کر خارجی دنیا تک ہر جگہ خالق کی کارفرمائی کو دیکھتا ہے۔ وہ دریافت کرتا ہے کہ اس دنیا میں وہ محکوم ہے، وہ حاکم نہیں ہے۔ اس کے لیے حقیقت پسند رویہ صرف سبمیشن (submission) ہے، یعنی وہ اپنے آپ کو اللہ رب العالمین کے سامنے سرینڈر (surrender)کرے۔ وہ بظاہر با اختیار ہونے کے باوجود اللہ کے سامنے بے اختیار ہوکر جھک جائے۔
اسی کا نام معرفت ہے۔دینِ خداوندی کا آغاز معرفت سے ہوتا ہے۔ انسان پہلے اپنی عقل کو استعمال کرکے اللہ رب العالمین کو دریافت کرتا ہے، اور اس کے بعد اس کے تقاضے کے طور پر وہ اللہ رب العالمین کا تابعدار بنتا ہے۔ اس کی سوچ ،اس کا شعور، اس کے جذبات، سب اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں۔ وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والا بن جاتا ہے۔ اس کا سول کنسرن (sole concern) صرف اللہ رب العالمین بن جاتا ہے۔ جب کوئی شخص اس طرح عبادت کلچر میں ڈھل جائے، تو وہی وہ انسان ہے، جس کو قرآن میں ربانی انسان کہا گیاہے (آل عمران، 3:79)۔
واپس اوپر جائیں

خدا اور انسان

تخلیق کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ تخلیق کے واقعات ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں، لیکن خالق مکمل طور پر ناقابلِ مشاہدہ ہے۔انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے خالق کی تلاش میں رہتا ہے، جس طرح کوئی بچہ اپنی گم شدہ ماں کی تلاش میں رہتا ہے۔ لیکن ساری عمر تلاش کرنے کے باوجود انسان اپنے خالق سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کو جانتا ہے، لیکن وہ اپنے خالق کو نہیں جانتا ۔ اس حقیقت کوفانی بدایونی (1879-1961) نے اس عارفانہ شعر میں بیان کیا ہے:
مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا کوئی میں وہ مہماں ہوں، جسے میزباں نہیں ملتا
انسان اگر اپنے خالق کو دیکھ لے، تو وہ اپنے خالق کو اس سے زیادہ مانے گا، جتنا وہ اپنے ماں باپ کو مانتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ غالباً خالق چاہتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو ایک سرپرائز (surprise) دے۔ وہ اچانک اپنے بندے کے سامنے ظاہر ہو۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو ایک ناقابلِ بیان استعجاب (sense of awe) کا تجربہ کرائے۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو سب سے بڑی خوشی کا تحفہ دے۔ وہ چاہتا ہے کہ بندہ جب اپنے خدا کو پائے تو وہ اس کے لیے سادہ طور پر صرف پانا نہ ہو، بلکہ وہ اس کے لیے حیرت ناک خوشی کا ایک ایسا تجربہ ہو، جس کو کسی انسان نے نہ دیکھا، اور نہ سنا، اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کا تصور گزرا۔
تاہم یہ پر استعجاب تجربہ صرف اس انسان کے حصے میں آئے گا، جو اپنے رب کا سچا متلاشی بنا ہو۔جس کا جینا اور مرنا اپنے رب کے لیے ہو۔جس کی راتیں اور دن اس کی یاد میں بسر ہوں، اور اس کے انتظار میں گزرے ہوں۔ جس نے خدا کو اس طرح تلاش کیا، جس طرح کوئی چھوٹا بچہ اپنی ماں کو اس وقت تلاش کرتا ہے، جب کہ وہ کسی بھیڑ میں اس سے بچھڑ گئی ہو۔ خدا کو پانے کی خوشی اس انسان کے لیے مقدر ہے، جو موجودہ دنیا میں حقیقی معنوں میں خدا کا متلاشی (seeker) بن کر رہا ہے۔ جو لوگ خدا کی یاد میں تڑپے ہوں، وہی وہ لوگ ہیں، جو خدا کو پانے کی خوشی میں حصے دار بنیں گے۔
واپس اوپر جائیں

معرفتِ الٰہی

معرفت کیا ہے۔ معرفت یہ ہے کہ ایک انسان غور و فکر کے ذریعے یہ جان لے کہ اس دنیا کا ایک خالق (Creator) ہے۔ وہ خالق ایک زندہ ہستی ہے۔ وہ کائنات میں اسی طرح موجود ہے، جس طرح سورج ایک روشن حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ اس دریافت کے مطابق، خدا صرف ایک عقیدہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ وہ ایک صاحبِ اقتدار ہستی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےکہ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض (2:255):
His throne extends over the heavens and the earth
مومن (believer) کے اندر خدا کا وجود اس طرح ایک زندہ حقیقت کے طور پر ہونا چاہیے کہ خدا کے تصور سے اس کی وہ حالت ہوجائے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا(8:2)۔ یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں :
True believers are those whose hearts tremble with awe at the mention of God, and whose faith grows stronger as they listen to His revelations.
انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو ایک زندہ وجود کے طور پر پاتا ہے۔ اسی طرح اس کو زیادہ برتر معنوں میں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہاں اسی طرح ایک اورزیادہ برتر ہستی موجود ہے۔ اس کو زندہ خدا کا اتنا زیادہ یقین ہونا چاہیے کہ اس کو بالفرض اپنے آپ پر شک ہو، تو ہو، لیکن اللہ رب العالمین کے وجود پر ادنی درجے میں بھی اس کے اندر کوئی شک پایا نہ جائے۔ اس کو اس بات کازندہ یقین ہو کہ وہ ہر لمحہ اللہ کی پکڑ میں ہے۔ یہ یقین و ایمان کسی کو غور و فکر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یقین کے لیےکوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

امت کی حالت ِزار

آج کل تمام دنیا میں مسلمانوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کی حالت ِزار کو بیان کرتے ہیں، اورپھر یہ اعلان کرتے ہیں کہ فلاں دشمنِ اسلام طاقت اس کی ذمہ دار ہے۔ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے تقریباً سب کے سب یہی بولی بولتے ہیں اور یہی بات لکھتے ہیں۔ حالت ِزار کا یہ تصور اگر درست ہے تو قرآن و سنت کے مطابق، مسلم مقرر اور محرر کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ یہ دریافت کریں کہ امتِ مسلمہ سے خدا کی نصرت کیوں اٹھ گئی۔ اس معاملے میں کسی دشمن کا انکشاف کرنا، یقینی طور پر خلافِ اسلام فعل ہے۔
اس نقطۂ نظر کی تائیدمیں بہت سےواضح نصوص موجود ہیں۔ مثلاً قرآن کی اس آیت پر غور کیجیے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ (5:105)۔ یعنی اے ایمان والو، تم پر لازم ہے کہ تم اپنی فکر کرو ۔ کوئی گمراہ ہوا تو اس سے تمہارا کچھ نقصان نہیں اگر تم ہدایت پر ہو۔اس آیت کے مطابق مسلمانوں کو چاہیے کہ جب بھی ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اس کا سبب خود اپنے اندر تلاش کریں، کسی دوسرے پر اپنے مسئلے کی ذمہ داری ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔
یہ رب العالمین کی قائم کردہ فطرت کا اٹل قانون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سبب ہمیشہ آدمی کے اندر ہوتا ہے، نہ کہ اس کے باہر۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ اپنے باہر سبب ڈھونڈ کر اس کو برا بتائیںیا اس کے خلاف لڑائی چھیڑیں، تو ایسا طریقہ ان کو کوئی فائدہ دینے والا نہیں۔ کیوں کہ اصل سبب تو اندر ہے، اور وہ باہر کے کسی مفروضہ دشمن پر ساری ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ یہ طریقہ خداکی دنیا میں کبھی کارآمد ہونے والا نہیں۔
تشخیص (diagnosis) اگر صحیح ہو تو اس کی بنیاد پر کی ہوئی تجویز (prescription) مفید ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر تشخیص درست نہ ہو تو اس کی بنیاد پر جو تجویز کی جائے گی، وہ بھی بے اثر ثابت ہوگی۔ یہ ایک اٹل اصول ہے، اور اس اصول میں کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

امت میں قتال

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں میں سے ایک پیشین گوئی یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر قتال کا کلچر جاری ہوجائےگا، اور قتال کا یہ کلچر قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِی أُمَّتِی لَمْ یُرْفَعْ عَنْہَا إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4252)۔یعنی جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی۔
امت کے بارے میں یہ حدیث ایک پیشین گوئی کے طور پر آئی ہے۔ اس لحاظ سے امتِ مسلمہ کے بعد کے تاریخی واقعات کی بنیاد پر اس حدیث کی تشریح کی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ بات کہی ، اس وقت اس کا مصداق موجود نہ تھا۔ یہ مصداق آپ کے بعد امت کے اندر پیدا ہوا۔ اس لیے اس حدیث کی تشریح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ امت کے بعد کے زمانے میں اس کا مصداق تلاش کیا جائے، اور پھر اس کی روشنی میں اس حدیث کی شرح کی جائے۔
اب دیکھیے کہ قرآن میں قتال کا حکم کس سیاق (context) میں آیا ہے۔ یہ بات قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (8:39)۔ یعنی اور ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔قرآن کی اس آیت میں قتال کا حکم بھی ہے، اور یہ بھی ہے کہ یہ قتال کب تک جاری رکھنا ہے۔ اس آیت میں فتنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فتنہ کا لفظی مطلب ہے، سونے کو آگ میں ڈال کر تپانا ۔ اسی سے اس لفظ کو ستانے کے مفہوم میں استعمال کیا جانے لگا۔ قرآن کی اس آیت میں فتنہ کا لفظ مذہبی ایذا رسانی (religious persecution)کے معنی میں آیا ہے۔
پیغمبرِ اسلام سے پہلے دنیا میں مذہبی رواداری (religious tolerance) کا وجود نہ تھا۔ اس زمانے میں غالب گروہ کے خلاف مذہب اختیار کرنے والے کو مذہبی ایذا رسانی کا شکار بنایا جاتاتھا۔ یہ کلچر خالق کے تخلیقی نقشے (creation plan) کے خلاف تھا۔ چنانچہ رسول اور اصحابِ رسول کو یہ حکم دیا گیا کہ مذہبی ایذا رسانی (فتنہ) کے خلاف جنگ کرکے اس کو ختم کردو۔ تاکہ تخلیقی نقشہ کے مطابق دنیا میںمذہبی آزادی کا دور آجائے۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اول کا زمانہ ہے۔ اس وقت جب رسول نے مذہبِ توحید کا مشن شروع کیا تو وہ لوگ آپ کے خلاف ہوگئے، جو مذہبِ شرک پر قائم تھے۔ انھوں نے آپ کے خلاف تشدد اور جنگ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس طرح دونوں گروہوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا، جو آخر کار یہاں تک پہنچا کہ مذہبی ایذا رسانی کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ ساتویں صدی عیسوی سے اب تک کی تاریخ بتاتی ہےکہ مذہب کے نام پر ایذا رسانی کا دور اس طرح ختم ہوا کہ وہ دوبارہ عمومی کلچر کے طور پر دنیا میں رائج نہ ہوسکا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں قتال (جنگ) کا حکم ایک عارضی(temporary) سبب سے تھا۔ جب یہ سبب ختم ہوجائے تو قتال کا حکم بھی عملاً موقوف ہوجائے گا۔ یہی اسلام کی تاریخ میں پیش آیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ، ماضی کے تسلسل کے تحت جنگ کی صورت پیش آئی ۔ مگر جنگ کا یہ حکم عارضی تھا۔ قرآن کے الفاظ میں جب محاربین اپنا اوزار رکھ دیں(محمد، 47:4)، تو جنگ کا خاتمہ ہوگیا، اور اس کے بعد وہ اصل کام شروع ہوگیا جو اسلام کا مستقل حکم تھا، یعنی دعوت الی اللہ۔ اس کے بعد انیسویں صدی کا زمانہ جب شروع ہوا تو یہ زمانہ حقیقت میں جنگ سے بیزاری اور مذہبی آزادی کو بطور نارم (norm)ماننے کا زمانہ تھا، مگر مسلمانوں نے دوبارہ ایک جنگ شروع کردی۔ بظاہر یہی وہ جنگ ہے جس کا اشارہ بطور پیشین گوئی مذکورہ بالا حدیث ِرسول میں کیا گیا تھا۔ اور اس پیشین گوئی کے مطابق، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کا خاتمہ ہونے والا نہیں۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے اور خود دنیا کا خاتمہ ہوجائے۔
امت میں یہ دوسرے دور کا جو قتال وجود میں آیا، اس کاکوئی تعلق قرآن کے حکمِ قتال (الانفال، 8:39) سے نہیں ہے۔ یہ خود ساختہ نظریے کے تحت وجود میں آیا ہے۔ قرآن میں قتال کا حکم ختمِ فتنہ (الانفال ، 8:39) کے لیے تھا۔ اس کے برعکس، بعد کے زمانے میں جو قتال امت میں جاری ہوا، وہ مسلم رہنماؤں کے بیان کے مطابق ختم اعدا(to finish the enemies) کے لیے ہے۔ مگر ختم اعدا کے لیے جنگ کرنے کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ۔
قرآن کی صراحت کے مطابق، عداوت جنگ کا اشو نہیں ہے، بلکہ وہ دعوت کا اشو ہے۔ مسلمانوں کو اگر کوئی شخص یا گروہ بظاہر دشمن دکھائی دے تو اس سے وہ لڑائی نہیں چھیڑ سکتے۔ ان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس پر پرامن انداز میں دعوت الی اللہ کا کام کریں۔یہ حکم قرآن کی ایک آیت سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
موجودہ زمانے میں مسلمان دشمنانِ اسلام کے نام سے جو مسلّح جنگ چھیڑے ہوئے ہیں، وہ ہرگز قرآن یا اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کے اپنے خودساختہ جواز (self-styled justification) کی بنیاد پر ہے۔ یہ لوگ قرآن و حدیث کی غلط تشریح کے ذریعے اس کو درست ثابت کررہے ہیں۔ یہ طریقہ غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے۔
اسی غلط توجیہات کی بنیاد پر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان متشددانہ کوششوں کا انجام بالکل برعکس صورت میںنکل رہا ہے۔ مسلمان مسلسل طور پر ذلت آمیز شکست کا تجربہ کررہے ہیں۔ ان کوششوں کا بے نتیجہ ہونا، بلکہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں۔ کیوں کہ قرآن میں بار بار یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر تم اللہ کے راستے میں کوشش کروگے تو تمہاری کوشش اللہ کی نصرت سے ضرور کامیاب ہوگی۔ اس یقین دہانی کے باوجود مسلمانوں کا ناکام ہونا، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ غلطی پر ہیں، اور غلطی کرنے والے کے لیے توبہ ہے، نہ کہ اپنی غلطی کو مزید جاری رکھنا۔
واپس اوپر جائیں

صلح پہلا آپشن

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّہُ سَیَکُونُ بَعْدِی اخْتِلافٌ، أَوْ أَمْرٌ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُونَ السِّلْمَ، فَافْعَلْ (مسند احمد، حدیث نمبر695)۔یعنی علی ابن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعدعنقریب امت میں اختلافات ہوں گے،یا کچھ معاملات پیش آئیں گے۔ اگر تمہارے لیے ممکن ہو کہ تم صلح کو اختیار کرو، تو ضرور ایسا کرو۔
اس حدیث ِرسول میں بتایا گیا ہے کہ جب اختلاف پیدا ہو تو اس وقت دانش مند آدمی کے لیے پہلا آپشن (option) کیا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ فریقِ ثانی کی شرطوں کو قبول کرتے ہوئے اس سے صلح کرلی جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی اختلافات کبھی معیار (ideal) کی بنیاد پر طے نہیں ہوتے۔ اختلاف کے معاملے میں انتخاب (option) دو بہتر کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ چھوٹے شر (lesser evil)اور بڑے شر (greater evil)کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر آدمی چھوٹے شر پر راضی نہ ہو تو اس کے بعد اس کو جس چیز پر راضی ہونا پڑتا ہے، وہ بڑا شر ہے۔اسی کو حضرت عمر نے خیر الشرین کہا ہے۔
دانش مند آدمی وہ ہےجو صلح کو بڑی چیز سمجھے، نہ کہ اپنے مفروضہ آئڈیل کو ۔ آدمی کو جاننا چاہیے کہ اجتماعی معاملات میں ہمیشہ صرف ایک چیز قابلِ عمل (workable) ہوتی ہے، اور وہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) ہے، نہ کہ آئڈیل وزڈم (ideal wisdom)۔ آئڈیل وزڈم وہ ہے جو اعلیٰ اصول کے مطابق درست نظر آئے۔ اس کے برعکس پریکٹکل وزڈم وہ ہے، جو عملی طور پر قابل حصول ہو۔ موجودہ دنیا میں ہر انسان کو آزادی حاصل ہے، مگر آئڈیل وزڈم اس دنیا میں قابلِ حصول نہیں ، بلکہ اس دنیا میں جو چیز قابلِ حصول ہے، وہ صرف پریکٹکل وزڈم ہے۔ اسی حقیقت کو جاننے کا نام دانش مندی ہے، اور اس حقیقت سے بے خبری کا نام بے دانشی۔
واپس اوپر جائیں

تقویٰ بقدرِ استطاعت

قرآن کی ایک آیت کا ایک جزءیہ ہے: فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ(64:16)۔ یعنی پس تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، جہاں تک ہوسکے۔ اتقوا للہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بطور حکم اللہ سے ڈرو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے بنو۔تفکر و تدبر کے ذریعے اپنے ذہن کو اس طرح تیار کرو کہ وہ بطور مزاج اللہ سے اندیشہ رکھنے والا بن جائے۔ تقویٰ کسی آدمی کے اندر تربیت کے ذریعے آتا ہے، تقویٰ کوئی ایسی چیز نہیں ، جو خود بخود آدمی کے اندر بطور عطیہ موجود ہو۔ اس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے غورکیجیے تو آیت کا مطلب یہ سمجھ میں آئے گا کہ اپنے آپ کو تقویٰ کے لیے تیار کرو۔ اپنی سوچ کو متّقیانہ سوچ بناؤ۔ اپنے مزاج کو متقیانہ مزاج بناؤ۔ اپنے آپ کو تربیت دے کر ایسا بناؤ کہ تم ہر صورتِ حال میں مثبت رسپانس (positive response) دینے والے بن سکو۔ تقویٰ ایک حاصل کردہ صفت ہے، تقویٰ کوئی ایسی صفت نہیں، جو انسان کو اپنے آپ مل جائے۔
مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت یہ ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (5:8)۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قوم آپ کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کرے تو ایسے موقعے پر عدل کی روش پر قائم رہنا، یہ تقویٰ ہے۔ اس قسم کا تقویٰ کب پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ آدمی کا ذہن اتنا زیادہ تربیت یافتہ ہو کہ وہ ایسا نہ کرے کہ پیش آنے والے واقعے پر بھڑک اٹھے، بلکہ وہ اپنے آپ کو ردّعمل سے بچائے، وہ بے لاگ (objective) انداز میں سوچے کہ میرے ساتھ جو کیا گیا ہے، وہ جوابی کارروائی (retaliation) کی بنا پر تو نہیں۔ اگر ایسا ہے تو ایک متقی انسان خود اپنے آپ کو ذمے دار ٹھہرائے گا۔ وہ سوچے گا کہ آئندہ مجھے ایسی روش سے اپنے آپ کو بچانا ہے، جو فریقِ مخالف کے اندر جوابی ذہن پیدا کرےکہ وہ انتقامی ذہن کے ساتھ میرے خلاف کارروائی کرنے لگے۔ اس لیے مجھے ایسا نہیں کرناہے کہ میں جوابی ذہن کے تحت بھڑک اٹھوں، اور جو غلطی میری ہے، اس کا الزام دوسرے کو دینا شروع کردوں۔
یہ تقویٰ یا متقیانہ روش ہے۔ اس قسم کا تقویٰ کسی آدمی کے اندر فوری طور پر ایک بٹن دباکر پیدا نہیں ہوتا۔انسان کو اپنے آپ کو تربیت دے کر اس قسم کی متقیانہ روش کے لیے تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے آیت کا یہ لفظ کہ متقیانہ روش پر قائم رہو، کا مطلب یہ ہے کہ متقیانہ روش کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو۔ اپنے ذہن کو منفی ذہن بننے سے بچاؤ، اپنے ذہن میں شکایتی نفسیات پیدا نہ ہونے دو۔ عقلی غور و فکر کے ذریعے اس حقیقت کو دریافت کرو کہ جو معاملہ پیش آتا ہے، وہ یک طرفہ سبب سے نہیں پیش آتا۔ اس کا سبب ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ اس لیے تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اپنی جانب کی غلطی سے خود کو بچائے۔ گویا تقویٰ محاسبۂ خویش کا ایک مثبت نتیجہ ہے۔
تقویٰ اس طرح اچانک نہیں پیدا ہوتا کہ اب تک آپ کا ذہن ایک سوئچ (switch) کے تحت کام کررہا تھا،اب آپ اپنی انگلی کے ذریعے دوسرے سوئچ کو دبادیں ، اور آپ کے اندر متقیانہ روش پیدا ہوجائے۔ تقوی ایک تھنکنگ پراسس (thinking process) کا نتیجہ ہے۔ جس آدمی نے اپنے اندر یہ پراسس جاری نہ کیا ہو، اس کے اندر تقویٰ بھی پیدا نہیں ہوگا۔
فاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُم کا مطلب یہ ہے — اخلاص کے ساتھ تم جتنا زیادہ اپنے آپ کو تقویٰ کے لیے تیار کرو گے، اللہ تعالی اس کو قبول فرمائے گا، اور مزید کی توفیق دے گا۔ تقویٰ کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ تقویٰ ایک ارتقا پذیر صفت ہے۔ تقویٰ ایک درخت کی مانند ہے۔ تقویٰ کا درخت آدمی خود اپنے اندر لگاتا ہے۔ اس کے بعد اخلاص کے بقدر مزید اس کو توفیق حاصل ہوتی ہے، اور پھر اللہ کی توفیق سے یہ درخت بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کا معاملہ وہ ہوجاتا ہے، جوقرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ۔تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (14:24-25)۔ وہ ہر وقت پر اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے— اس کا مطلب یہ ہے کہ جس درجے کی متقیانہ شخصیت ، اسی درجے کا متقیانہ کردار۔
واپس اوپر جائیں

والرُجز فاھجر

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا۔ آپ کا مشن مبنی بر توحید مشن تھا۔ آپ کا کام یہ تھا کہ آپ لوگوں کو بتائیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ اُس وقت عملی طور پر یہ صورت حال تھی کہ مکہ میں حضرت ابراہیم کا تعمیر کردہ کعبہ تھا، جو ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم نے یہ کعبہ تقریباً چار ہزار سال پہلے مکہ کے مقام پر بنایا تھا، لیکن بعد کومکہ کے لوگوںمیں بت پرستی آگئی۔ انھوں نے کعبہ کی عمارت میں بت رکھنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ کعبہ میں بتوں کی تعداد تقریباً تین سو ساٹھ ہوگئی۔
اسی کے ساتھ دوسری صورت حال یہ تھی کہ عرب کے مختلف حصوں سے لوگ کعبہ کی زیارت کے لیے برابر آتے رہتے تھے۔ کعبہ میں رکھے ہوئے تین سو ساٹھ بت در اصل مختلف قبائل کے بت تھے۔ اپنے بتوں کی زیارت کے لیے وہاں ہر دن عربوںکا مجمع اکٹھا ہوتا تھا۔ گویا کہ اس وقت ایک طرف کعبہ میں بتوں کی موجودگی کا مسئلہ تھا، اور دوسری طرف کعبہ کے پاس جمع ہونے والے لوگ تھے، جو رسول اللہ کے لیے عملاً فطری آڈینس (audience) کی حیثیت رکھتے تھے۔
یہ حالات تھے جب کہ قرآن میں سورہ المدثر نازل ہوئی۔ اس سورہ میں پیغمبر اسلام کو حکم دیا گیا کہ تم انذار (دعوت الی اللہ) کا کام کرو، اور جہاں تک کعبہ میں بتوں کی موجودگی کا معاملہ تھا، اس کے بارے میں یہ آیت اتری: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)یعنی اور گندگی کو چھوڑ دے۔
قرآن کی اس آیت میں فاھجر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں ھجر یھجُر کا مطلب اعراض (avoidance) ہے۔ یعنی نظر انداز کرنا۔ قرآن کی اس آیت میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکیمانہ طریقۂ کار (wise method) بتایا گیا کہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو عارضی طور پر نظر انداز کرو، اور ان کی وجہ سے کعبہ کے پاس جو مجمع اکٹھا ہوتا ہے ، اس کو اپنے لیے بطور آڈینس (audience) استعمال کرو۔
واپس اوپر جائیں

دنیا اور آخرت

انسان موجودہ دنیا میں پیدا ہوتاہے۔ یہاں وہ اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ مختلف تجربات کے دوران یہاں اس کی زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ان تجربات کے ذریعے شعوری یا غیر شعوری طورپر انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ یہی موجودہ دنیا حقیقی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کو محسوس ہوتاہے کہ آخرت کی دنیا تصوراتی دنیا (imaginary world) ہے۔دونوں دنیاؤں کے درمیان بظاہر اس فرق کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا تفکیری عمل (thinking process) موجودہ دنیا کے لیول پر جاری ہوجاتاہے۔ اس کی سوچ اور اس کی منصوبہ بندی میں عملاً آخرت کا کوئی مقام باقی نہیں رہتا۔
یہ انسان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وسیع تر انجام کے اعتبار سے صحیح یہ ہے کہ انسان کے اندر آخرت رخی سوچ (Akhirat-oriented thinking)بنے، نہ کہ دنیا رخی سوچ۔انسان کو اس معاملے میں بے راہ روی سے بچانے کے لئے فطرت نے یہ انتظام کیا ہے کہ موجودہ دنیا کو مسائل کی دنیا (دار الکبد) بنا دیا۔ یہ مسائل انسان کے لئے اسپیڈ بریکر (speed breaker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مسائل اس لئے ہیں کہ انسان موجودہ دنیا کو حقیقی دنیا نہ سمجھے، بلکہ آخرت کے اعتبار سےاپنی زندگی کی تعمیر کرے۔
زندگی کی یہی حقیقت ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیاہے:وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔ أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (2:155-157)۔ یعنی اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پیداوار کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایمان کے بعد ایمان

قرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَى رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَکْفُرْ بِاللَّہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا (4:136)۔ یعنی اے ایمان والو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے نازل کی۔ اور جو شخص انکار کرے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا تو وہ بہک کر دور جا پڑا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کو ایمان لانے کے بعد دوبارہ ایمان لانا ہے۔ ایک حدیثِ رسول میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے :قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جَدِّدُوا إِیمَانَکُمْ ، قِیلَ:یَا رَسُولَ اللہِ، وَکَیْفَ نُجَدِّدُ إِیمَانَنَا؟ قَالَ:أَکْثِرُوا مِنْ قَوْلِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ (مسند احمد،حدیث نمبر8710)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم لوگ اپنے ایمان کی تجدید کرو، پوچھا گیا: اے خدا کے رسول ہم اپنے ایمان کی تجدید کیسے کریں۔ آپ نے کہا: لا الہ الا اللہ کو زیادہ سے زیادہ ادا کرو۔
روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اجتماعی طور پر بیٹھ کر اپنے ایمان کا دوبارہ چرچا کرتے تھے۔اس معاملے پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ ایمان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چند قانونی الفاظ ہیں، ان کو اگر آدمی نے دہرادیا تو اس کو ایمان حاصل ہوگیا۔ بلکہ ایمان ایک ایسی حقیقت کا اقرار ہے، جس کی گہرائیاں کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: وَلاَ تَنْقَضِی عَجَائِبُہُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906)۔ یعنی اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔
اسی حقیقت کو قرآن میں دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:لِیَزْدَادُوا إِیمَانًا مَعَ إِیمَانِہِمْ (48:4)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان ابتدائی طور پر اقرار کا نام ہے۔ لیکن اپنے توسیعی معنی میں وہ مسلسل غور و فکر کا موضوع ہے۔ آدمی جب ایمان پر مسلسل غور فکر کرے، وہ ایمان کو تدبر کا موضوع بنائے تو اس کو بار بار اس معاملے میں نئی حقیقتوں کی ری ڈسکوری ہوتی رہتی ہے۔ وہ بیان کردہ ایمان کو ذاتی اعتبار سے اپنے لیے ری ڈسکوری بناتا ہے۔ اس طرح اس کا ایمان اس کے لیے ری ڈسکورڈ (rediscovered) ایمان بن جاتا ہے۔ یہ ری ڈسکورڈ ایمان ہی وہ چیز ہے جو مومن کے یقین کو بڑھاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا اقرار کامل یقین کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
ابتدائی طور پر ایمان ایک عمومی حقیقت کا اقرار ہے۔ لیکن ایمان کو ری ڈسکور کرنا، آدمی کے ایمان کو ایک نیا درجہ عطا کرتا ہے۔ ایسے آدمی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ جو ایمان اس کے لیے ابتدائی طو رپر محدود اقرار کے درجے میں تھا، وہ اس کے لیے لا محدود یقین کے ہم معنی بن جاتا ہے۔
ایمان جس آدمی کو حاصل ہوجائے، اس کے لیے اس کا ایمان ایک مسلسل غور و فکر کا موضوع بن جاتا ہے۔ ایمان اس کے ذہن کے لیے ایک ایسا طوفان بن جاتا ہے، جو مسلسل طو رپر اس کو تدبر کرنے والا بنادے۔ تدبر کے ذریعے ایما ن کے نئے نئے پہلو اس پر کھلتے ہیں، وہ بار بار اپنے ایمان کو دریافت کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے ایمان کی تجدید کرتا رہتا ہے۔ یہ عمل (process) برابر جاری رہتا ہے۔ اسی مسلسل ایمان کو قرآن میں ایماناً مع ایمانہم (الفتح،48:4) کےالفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ گویا ایمان کوئی جامد چیز نہیں ہے، بلکہ وہ اضافہ پذیر چیز ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
کسی آدمی نے حقیقی اسلام کو پایا ہے یا نہیں، اُس کا معیار صرف ایک ہے، اور وہ فکرِآخرت ہے۔ جس آدمی کا اسلام اُس کے اندر گہرے طورپر آخرت کی فکر پیدا کردے، اُسی نے فی الحقیقت اسلام کو پایا۔ جس آدمی کا اسلام اُس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو نہ دکھائے، اُس نے اسلام کو پایا ہی نہیں۔اُس نے کسی اور چیز کو پایا ہے اور غلطی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس نے اسلام کو پالیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی دریافت

جس دنیا کو ہم جانتے ہیں، اور جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، وہ دنیا اسپیس اور ٹائم (space and time) کی دنیا ہے۔ہماری تمام معلوم چیزیں اسی اسپیس اور ٹائم کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ہم تمام معلوم چیزوں کو اسپیس اور ٹائم کی بنیاد پر جانتے ہیں۔ مثلاً فلاں چیز یہاں ہے، اور فلاں چیز وہاں ہے۔ فلاں چیز مغرب میںہے، اور فلاں چیز مشرق میں ہے، وغیرہ۔ ہماری تمام معلوم کائنات اسی طرح اسپیس اور ٹائم کے حوالے سے ہماری دریافت کا حصہ بنتی ہے۔
ان تمام چیزوں میں جن کو ہم جانتے ہیں، یا جن کو ہم جاننا چاہتے ہیں، ان میں سے صرف ایک چیز استثناء کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ زمان و مکان سے سے ما ورا (beyond space and time) ہے۔یہ خدا ہے، جو کہ استثنا کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا کا یہی واحد استثنا ہونا، خدا کو سمجھنے ، اور اس کو یقین کرنے میں مانع ہے۔ خدا کا beyond space and time ہونا، انسان کے لیے خداپر یقین کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قدیم عقلیات میں اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جدید سائنسی عقلیات (scientific rationalism) میں پہلی بار اس کی بابت ایک امکان کی خبر ملی ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس نے قیاس کے درجے میں اس کی خبر دی ہے۔ آئنسٹین کا نظریہ جنرل تھَیری آف ریلیٹیوٹی(general theory of relativity) اسی سے تعلق رکھتا ہے۔
میٹر(matter) کی تلاش کے معاملے میں انسان جس آخری حد پر پہنچا ہے، وہ سب ایٹمک پارٹکل (subatomic particle) ہے۔ سب ایٹمک پارٹکل کی دریافت نے تھیَری آف نالج میں انقلابی تبدیلی کی ہے۔ اب علم کی دنیا میں یہ مان لیا گیا ہے کہ سب ایٹمک پارٹکل جو میٹر (matter) کی فائنل انٹٹی (entity) ہے، وہ براہ راست طور پر قابلِ دریافت نہیں ہے۔ ہم صرف اس کی بالواسطہ دریافت تک پہنچ سکتے ہیں، جو کہ ایفکٹ (effect) تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ ناقابلِ مشاہدہ سب ایٹمک پارٹیکل اپنی حرکت کے دوران ھیٹ (heat)پیدا کرتے ہیں۔ یہ ھیٹ میٹر کا وہ ایفکٹ ہے، جس کے ذریعے میٹر کا وجود دریافت ہوتا ہے۔ اسی طرح خالق (creator) کا ایفکٹ (effect) مخلوق (creation) ہے۔ یہاں بھی مخلوق (creation) کے ذریعے بالواسطہ طور پر خالق (creator) کی دریافت ہوتی ہے۔ اس دریافت سے تھیَری آف نالج میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ اب امکانیات (probability) کو نالج تک پہنچنے کا ایک مستند (authentic) ذریعہ مان لیا گیا ہے۔ اب یہ کہا جارہا ہے :
Probably there is this and that
مزید یہ کہ
Probability is less than certainty but more than perhaps.
اب خدا میں یقین کی بنیاد یہ ہے کہ آدمی اپنے مائنڈ کو اتنا زیادہ ارتقا یافتہ (develop) بنائے کہ وہ جب یہ کہے :
Probably there is a God
تو وہ اس قول کو اس حقیقت میں ڈھال سکے :
Certainly, there is a God
اب پرابیبلیٹی (probability)کو سرٹینٹی (certainty)کی زبان میں دریافت کرنا ہے، جو شخص پرابیبلیٹی کی زبان کوسرٹینٹی (certainty)میں ڈھال سکے، وہی صاحبِ یقین انسان ہے۔ کوئی انسان پرابیبلٹی کو سرٹینٹی (certainty)کے درجے میں کس طرح دریافت کرے، اس کا ذریعہ میتھڈ (method)کی تبدیلی نہیں ہے، بلکہ اس کا ذریعہ یہ ہے کہ آپ خود اپنے ذہن کو اتنا زیادہ ارتقا یافتہ بنائیں کہ آپ پرابیبلٹی کو یقین (certainty) کے درجے میں دریافت کریں۔ یہ خود اپنے مائنڈ کو ڈیولپمنٹ کا معاملہ ہے، نہ کہ میتھڈ میں تبدیلی کا معاملہ۔ یہ منطق (logic) کو ریڈ یفائن (redefine)کرنے کا معاملہ ہے، جو شخص منطق کو ریڈ یفائن کرسکے، وہ اپنے یقین کو بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ قدیم زمانہ یونانی لاجک کا زمانہ تھا، اور موجودہ زمانہ سائنٹفک لاجک کا زمانہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

منصوبۂ تخلیق

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے انسان کو بہترین ساخت کے ساتھ پیدا کیا ہے، پھر اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا(التین، 95:4-5)۔اس آیت کا مطلب وہی ہے، جو بائبل میں تمثیل کی زبان میں اس طرح آیا ہے: تم نے بہت سا بویا، پر تھوڑا کاٹا(حجی، 1:6)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی ساخت اور تخلیقی پلان میں فرق ہے۔ اس دنیا میں انسان زیادہ چاہے گا، مگر ا س کو کم ملے گا۔ انسان زیادہ کا منصوبہ بنائے گا، لیکن عملاً اس کو اپنے منصوبے سے کم ملےگا۔ انسان اجر غیر ممنون چاہے گا، لیکن اس کو صرف اجر ممنون ملے گا۔ انسان اپنی خواہش کے مطابق چاہے گا، لیکن وہ اس دنیا میں رازق کی تقسیم کے مطابق پائے گا۔ انسان اپنے حوصلے کے مطابق چاہے گا، لیکن اس کو خالق کے مقدرات کے مطابق حاصل ہوگا۔
چاہنے اور پانے میں یہ فرق کیوں ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ انسان سوچے ، وہ غور کرکے اس فرق کی حکمت کو دریافت کرے۔ انسان اگر ایسا کرے، تو وہ جانے گا کہ خالق کے نقشے کے مطابق دنیا کا ایک ’’آج‘‘ہے، اور اس کا ایک ’’کل‘‘ ہے۔ آج کی دنیا عمل کے لیے ہے، اور کل کی دنیا عمل کا انجام پانے کے لیے ہے۔ آج کی دنیا بونے کے لیے ہے، اور کل کی دنیا اس کا پھل کاٹنے کے لیے ہے۔
ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ خالق کے اس نقشۂ تخلیق کو جانے،اور اس کا اعتراف کرے کہ اس دنیا کو بنانے والا وہ نہیں ہے، بلکہ اس کو بنانے والا کوئی اور ہے۔ دنیا ہر حال میں خالق کے نقشے کے مطابق چلے گی، اس کے اپنے نقشے کے مطابق نہیں چل سکتی ،تو وہ اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ اس حقیقت کو جانے کہ وہ خدا کی دنیا میں جو کچھ پائے گا، خالق کی تقسیم کے مطابق پائے گا۔ انسان اگر خالق کے نقشے کو مان کر چلے، تو اس کے لیے کامیابی ہے، اور اگر وہ اس نقشے سے انحراف کرے، تو وہ ہرگز کامیاب ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت کیوں

قرآن کی کئی آیتیں ایسی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں انسان کو طرح طرح کی مصیبتیں پڑیں گی، طرح طرح کے مسائل پیش آئیں گے۔اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا کے خالق نے دنیا کو دار الکبد (البلد،90:4) کے طور پر بنایا ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے، جس سے کوئی شخص بچ نہیں سکتا۔ مصیبت (suffering) اس دنیا کی زندگی کا ایک لازمی حصہ (integral part) ہے۔ آخرت سے پہلے یہ حالت کبھی ختم ہونے والی نہیں۔
اس کاسبب یہ ہے کہ مشکلات کا تجربہ انسان کے اندر حساسیت (sensitivity) پیدا کرتا ہے، اور حساسیت انسان کے اندر اخذ (grasp) کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان کے اندر حساسیت نہ ہو، تو وہ حیوان کی مانند ہو کر رہ جائے گا۔ موجودہ دنیا ایک جنگل کی مانند ہے۔ اس دنیا میں انسان کو افکار کے جنگل کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ اس بنا پر اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کے اندر شدید حساسیت پیدا ہو، تاکہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرے۔ وہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق میں فرق کرکے ایک کو دوسرے سے الگ کرسکے۔ یہ تفریق بہت زیادہ اہم ہے۔ اسی تفریق (differentiation) سے انسان کے اندر عقلی ارتقا ہوتا ہے۔
اگر آدمی کے اندر حساسیت نہ ہو، تو وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق نہیں کرے گا۔ وہ حکمت (wisdom) کی دریافت سے محروم رہے گا۔ اس کی باتوں میں وضوح (clarity) نہیں ہوگا۔ اس کی سوچ الجھے ہوئے دھاگے کی مانند ہوگی۔اسی لیے رسول اللہ نے اس دعا کی تعلیم دی ہے : أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ(تفسیر الرازی، 1/119)۔ یعنی اے اللہ مجھے چیزوں کو ویسے ہی دکھا ، جیسا کہ وہ ہیں۔ایز اٹ از (as it is)دیکھنے کی یہ صلاحیت کسی کے اندر حساس ذہن کے بغیر پیدا نہیں ہوتی۔اس قسم کا ذہن پیدا ہونے کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ ناموافق تجربہ پیش آنے کی صورت میں انسان اپنے کو شکایتی ذہن سے بچاسکے۔
واپس اوپر جائیں

داعی کی اسپرٹ

سورہ الانعام ایک مکی سورہ ہے۔ مکی دور میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت مکہ کے لوگ مشرکانہ مذہب پر تھے، اور پیغمبرِ اسلام کا مذہب توحید پر مبنی تھا۔ اس بنا پر وہ لوگ ابتدا میں آپ کے مخالف بن گئے۔ ان حالات میں قرآن کی یہ آیت اتری:قُلْ أَغَیْرَ اللَّہِ أَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ (6:14)۔ یعنی کہو، کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو مددگار بناؤں جو کہ وجود میں لانے والا ہے آسمانوں اور زمین کا۔ اور وہ سب کو کھلاتا ہے اور اس کو کوئی نہیں کھلاتا۔ کہو مجھ کو حکم ملا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا بنوں۔
پیغمبرِ اسلام کا یہ کلمہ شک کا کلمہ نہیں تھا، بلکہ عزم کا کلمہ تھا۔ یہ اپنی دعوت میں یقین کا اضافہ تھا۔ قرآن کی یہ آیت مین آف مشن (man of mission) کی اسپرٹ کو بتارہی ہے۔ مین آف مشن کی اسپرٹ ہوتی ہے، آئی ول ڈو اٹ (I will do it)۔ دوسرے لفظو ں میں اس آیت کا مطلب یہ تھا — کوئی توحید پر نہ چلے تب بھی میں اس پر چلوں گا، کوئی توحید کو نہ اپنائے تب بھی میں اس کو اپناؤں گا، کوئی توحید پرست نہ بنے تب بھی میں اکیلا توحید پرست بنوں گا، کوئی اس مشن کے لیے نہ اٹھے تب بھی میں اس کے لیے اٹھوں گا۔
دعوت کا کام ہمیشہ داعی کے یقین پر مبنی ہوتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جو کام بھی کیا جائے، اس کے لیے ناقابلِ شکست یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ناقابلِ شکست یقین کے بغیر کوئی کام کامیابی کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ اس قسم کا جملہ ناقابلِ شکست یقین کا اظہار ہوتا ہے، اور داعی کے اندر ناقابلِ شکست یقین کا پایا جانا، دعوت کی کامیابی کا یقینی ذریعہ ہے۔ داعی ٔ وقت کی زبان سے اس قسم کا جملہ دوسرے الفاظ میں اسی عزم کا اظہار ہوتا ہے، جس کو آئی وِل ڈو اسپرٹ (I will do spirit) کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

علما کا مقام

علما کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِیَاءِ، إِنَّ الأَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِینَارًا وَلاَ دِرْہَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِہِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2682؛ سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 3641)۔ یعنی بیشک علما ابنیا کے وارث ہیں، انبیا نے دینار و درہم کی وراثت نہیں چھوڑی، بیشک انھوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے، پس جس نے اس کو لیا ، اس نے بڑا حصہ پایا۔
اس حدیث میں علما سے مراد سند یافتہ علما نہیں ہیں، بلکہ وہ افراد ہیں، جو حقیقی معنوں میں اہل علم کا درجہ رکھتے ہوں۔ جن کو معرفت کے درجے میں ایمان حاصل ہوا ہو، اور پھر کثرتِ مطالعہ کے ذریعے وہ اس درجے تک پہنچے ہوں، جس کو ایک مشہور قول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یک من علم را، دہ من عقل می باید ( ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے)۔ یعنی صاحبِ معرفت و بصیرت انسان۔ اس معنی میں جو لوگ اہلِ علم ہیں، وہ اپنے علم و معرفت کی بنا پر اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ دین کا صحیح فہم حاصل کریں، اور دین کو ہر زمانے میں مطلوب انداز میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔
اس حدیث میں عالم سے مراد پروفیشنل عالم نہیں ہے، بلکہ عالم سے مراد صاحبِ معرفت عالم ہے۔ یہ وہ علما ہیں، جن کو ان کے علم ِدین نے اس آیتِ قرآن کا مصداق بنا دیا ہو: وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (2:165)۔ یعنی جو ایمان لائے، وہ اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔اس سے مراد وہ اہلِِ علم ہیں، جن کے علم نے ان کا یہ حال کر دیا ہو کہ اللہ رب العالمین ان کا سب سے بڑا کنسرن بن گیا ہو۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جو صرف صاحبِ معلومات نہ ہوں، بلکہ گہرے معنی میں صاحبِ بصیرت بن چکے ہوں۔ اس سے مراد وہ عالم ہیں، جو لکھنے اور بولنے سے پہلے سجدے میں گر کر اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں: یَا مُعَلِّمَ إبْرَاہِیمَ عَلِّمْنِی (اعلام الموقعین لابن القیم، 4/198)۔
واپس اوپر جائیں

قناعت کا سبق

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین نے جب انسان اول، آدم اور ان کی بیوی کو پیدا کیا تو دونوںکو جنت میں بسا دیا۔ اس وقت اللہ نے جنت میں ایک درخت نامزد کردیا، اور کہا کہ اس درخت کے پاس نہ جانا اور اس کا پھل نہ کھانا۔مگر کچھ عرصے کے بعد دونوں میں اس کی رغبت پیدا ہوئی اور وہ ممنوعہ درخت (forbidden tree) کے پاس چلے گئے اور اس کا پھل کھالیا۔ اس کے بعد دونوںکو موجودہ دنیا (planet earth) پر بھیج دیا گیا۔ اس واقعے میں تمام انسانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ یہ واقعہ تمثیل کی زبان میں بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو صرف ’’کچھ‘‘ ملے گا ، اس کو ’’سب کچھ‘‘ نہیں مل سکتا۔ سب کچھ صرف اہلِ جنت کے لیے مقدر ہے۔ اسی اصول کا نام قناعت (contentment)ہے۔ اگر دیکھا جائے تو انسان ہر دور میں اس اصول سے غافل رہا ہے۔ وہ جزء کو پاتا ہے، اس کے باوجود وہ کُل کی طرف دوڑتا ہے۔
قناعت کا برعکس لفظ حرص (greed) ہے۔ خالق کے مقرر کردہ نقشے کے مطابق اس دنیا میں کسی آدمی کو یا کسی گروپ کو صرف جزء (part) مل سکتا ہے۔ جو آدمی یا گروپ کُل کی طرف دوڑے، وہ کبھی اپنے نشانے کو حاصل نہیں کرسکتا۔ حریص آدمی کے لیے اس دنیا میں صرف عدمِ آسودگی (discontentment) مقدر ہے۔ اس کے برعکس، قانع آدمی کے لیے اس دنیا میں آسودگی (contentment) مقدرہے۔ یہی فطرت کا قانون ہے۔ جو فرد یا گروہ فطرت کے اس قانون کو سمجھے، اور اس پر چلے، وہی اس دنیا میں کامیاب ہوگا۔ جو فطرت کے اس قانون کو نہ سمجھے، اور خود ساختہ نشانے کی طرف دوڑے، وہ خدا کی اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
جو آدمی قناعت کا طریقہ اختیارکرے، خدا کی پیدا کی ہوئی پوری دنیا اس کی مؤید (helper) بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ حرص کا طریقہ اختیار کریں، وہ گویا فطرت کے قانون سے لڑرہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے صرف یہی مقدر ہے کہ وہ اپنا نشانہ کبھی پورا نہ کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں

مشورے کی اہمیت

مشورے کی اہمیت کے بارے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: کَانَ أَبُو ہُرَیْرَةَ یَقُولُ:مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَکْثَرَ مُشَاوَرَةً لِأَصْحَابِہِ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4872)۔ یعنی ابوہریرہ کہا کرتے تھے کہ میں نے کسی کو نہیں پایا جو اپنے اصحاب سے اتنا زیادہ مشورہ کرتا ہو، جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔
مشورہ فطرت کا ایک حکیمانہ اصول ہے۔ مشورہ بظاہر دوسرے سے کیا جاتا ہے، لیکن نتیجےکے اعتبار سے مشورہ کا مطلب ہے، خود اپنے ذہن (mind) کے بند گوشوں کو کھولنا ہے۔ مشورہ کا مقصد اپنے ذہن کو متحرک (active) کرنا ہے۔ مشورہ کوئی یک طرفہ عمل نہیں ۔ مشورہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مشترک ڈسکشن (mutual discussion) ہے۔ مشورے کا مقصد اپنے سوچنے کے دائرے کو بڑھانا ہے۔ مشورہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اپنے آپ کو انفرادیت کے دائرے سے نکال کر آفاقیت کے دائرے میں لانا ہے۔ مشورہ ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔مشورہ اپنے تجربے میں دوسرے کے تجربے کو شامل کرنا ہے۔
مشورے کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ مشورے سے تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مشورہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ آدمی خول (cell) میں رہنے والا نہ بنے۔مشورہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ انفرادی عقل (individual wisdom) کے دائرے سے نکل کر عالمی عقل (universal wisdom) میں جینے والا بن جائے۔ خلیفہ ثانی عمر فاروق کے بارے میں آتا ہے : کان یتعلم من کل احد۔ یعنی وہ ہر ایک سے سیکھتے تھے۔ تعلم اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مشورہ ہے۔ اس روایت کو لفظ بدل کر اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کان یشاور من کل احد۔یعنی وہ ہر ایک سے مشورہ کرتے تھے۔ مشورے کا مطلب اپنی عقل میں دوسرے کی عقل کو شامل کرنا ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کی یاد

قرآن میں انسان کے بارے میں ایک سنگین حقیقت کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے:کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ(3:185)۔ اس حقیقت کے بارے میں حدیثِ رسول میں یہ الفاظ آئے ہیں:أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ، الْمَوْتَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258)یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے۔
ھادم اللذات کو اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ موت کی یاد سوپر ڈی کنڈیشننگ (super deconditioning) کا ذریعہ ہے۔ ہر آدمی ضرور اپنے ماحول کی کنڈیشننگ کا شکار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر عورت اور مردلازمی طور پر مسٹر کنڈیشنڈ یا مس کنڈیشنڈ بن جاتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔
اس عمومی کنڈیشننگ کی بنا پر ہر آدمی کی یہ ضرورت ہے کہ وہ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ ڈی کنڈیشننگ کا یہ عمل (process) عام حالت میں بہت سست ہوتا ہے۔ لیکن موت کا واقعہ ایک دھماکہ خیز واقعہ ہے ۔ آدمی کے اندر اگر موت کی سچی یاد پیدا ہوجائے تو ایک لمحے کے اندر اس کی کنڈیشننگ ٹوٹ جائے گی ۔ موت کی یاد آدمی کو ایک لمحے میں دوبارہ اس کی فطری حالت پر قائم کردیتی ہے۔ ایک لمحے میں آدمی پورے معنوں میں حقیقت پسند (realist) بن جاتا ہے۔ ایک لمحے میں آدمی ایسا ہوجاتا ہے کہ موت کا مسئلہ اس کا واحد کنسرن (sole concern) بن جائے۔
موت کی یاد ہر آدمی کے لیے ایک جبری مصلح کی حیثیت رکھتی ہے۔وہ آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنا مصلح آپ بن جائے۔ وہ انتہائی حد تک بے لاگ انداز میں اپنا محاسبہ کرنے لگے۔ وہ سب سے زیادہ اپنے آپ کو آخرت رخی شخصیت بنالے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کے قیمتی سال

آدمی کی اوسط عمر اس دنیا میں تقریباً ستر سال ہے۔ بڑھاپے کی عمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اولڈ از گولڈ(old is gold)۔ یہ قول لفظ بلفظ صحیح ہے۔ بڑھاپے کی عمر میں آدمی سب سے زیادہ اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے بعد والوں کے لیے اپنا بہترین (best) دوسروں کو دے سکے— زیادہ معلومات، زیادہ تجربہ، زیادہ دانش مندی، زندگی کی زیادہ بہتر پلاننگ۔یہ سنہری موقع ہر اس انسان کے لیے ہے، جس کی عمر زیادہ ہوجائے، بشرطیکہ وہ اس دنیا میں با اصول انسان (man of principle) بن کر زندگی گزارے:
(1) وہ صحت کے فطری اصول کا پابند ہو، تاکہ وہ اپنی عمر کے آخر دور تک دنیا میں قابلِ کار بنا رہے۔
(2) وہ سادہ زندگی گزارے، اوراپنے آپ کو اسراف سے بچائے۔
(3) وہ کسی حال میں اپنے آپ کو کسی غلط عادت میں مبتلا نہ ہونے دے۔
(4) وہ ہر حال میں مثبت سوچ (positive thinking) کا طریقہ اختیار کرے، حتی کہ وہ منفی تجربہ کو مثبت سبق میں تبدیل کرسکے۔
(5) وہ کسی سے امید نہ رکھے۔
(6) وہ اس دنیا میں دینے والا بن کر رہے، نہ کہ لینے والا۔
(7) وہ غصہ سے اس طرح بچے، جس طرح کوئی شخص اپنے آپ کو سانپ بچھوسے بچاتا ہے۔
(8) وہ سچے دل سے لوگوں کا خیرخواہ بنے۔
(9) اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے، تو وہ فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کرلے، ایسا ہرگز نہ کرے کہ اپنی غلطی کے لیے عذر (excuse) پیش کرنا شروع کردے۔
(10) وہ لوگوں کے درمیان ہمیشہ متواضع(modest) بن کر رہے۔
واپس اوپر جائیں

باہمی انحصار کا دور

موجودہ زمانہ ایک نیا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ایسے تقاضے وجود میں آئے ہیں، جو پہلے کبھی موجود نہ تھے۔ جو شخص موجودہ زمانے میں رہنمائی کا کام کرنا چاہے، اس کو سب سے پہلے یہ کرنا چاہیے کہ خالص موضوعی ذہن (objective mind) کے ساتھ مطالعہ کرکے نئے زمانے کو سمجھے ، اس کے بعد رہنمائی کا کام کرے۔ اس قسم کی تیاری کے بغیر جو لوگ رہنمائی کے منصب پر کھڑے ہوجائیں، وہ بلاشبہ لوگوں کو بھٹکانے کا کام کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان پر فرض ہے کہ وہ چپ رہیں، نہ کہ حقیقت سے واقفیت کے بغیر بولنا شروع کردیں۔
ان نئے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جو صنعتی انقلاب آیا ہے، اس نے اجتماعی زندگی میں ایک نیا دور پیدا کردیا ہے۔ اس دور کو ایک لفظ میں باہمی انحصار کا دور (age of interdependence) کہا جاسکتا ہے— لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ہے، تاجر کو کسٹمر کی ضرورت ہے، ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت ہے، میڈیا کو ویورس (viewers) کی ضرورت ہے، وغیرہ۔اس نئے تقاضے نے ایک نیا کلچر پیدا کیا ہے۔ اس نئے کلچر کو میوچول انٹرسٹ (mutual interest) کا کلچر کہہ سکتے ہیں۔ ہر ایک کو دوسرے کی ضرورت ہے، ہر ایک کاکام دوسرے پر اٹکا ہوا ہے۔
اس صورتِ حال نے موجودہ زمانے میں ایک نیا جبر (compulsion) پیدا کیا ہے۔ ہر ایک مجبور ہے کہ وہ پر امن طریقے سے رہے، ہر ایک مجبور ہے کہ وہ دوسرے کا احترام کرے۔تاکہ ہر ایک کو دوسرے سے اس کا فائدہ ملتا رہے۔مگر اس دور میں صرف مسلمان ہیں، جن کو ان کے نام نہاد لیڈروں نے اس حقیقت سے بے خبر بنا رکھا ہے۔ مثلاً مسلمانوں نے کشمیر میں ہنگامہ کرکے، وہاں سیب کا بزنس ختم کردیا، مصر میں مسلمانوں نے ہنگامہ کرکے وہاں سے سیاحت کا بزنس ختم کردیا، وغیرہ۔ موجودہ زمانے میں تشدد کی سیاست ایک کاؤنٹر پروڈکٹیو سیاست ہے، مگر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لیے وہ خلاف زمانہ حرکت (anachronistic culture) میں مبتلا ہیں۔
واپس اوپر جائیں

غیر عملی نشانہ

رشید کوثر فاروقی (ایم اے انگلش ) ایک باصلاحیت آدمی تھے۔ وہ شعر اور نثر دونوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ ان کا خاص ذوق ظلم کے خلاف احتجاج تھا۔ انڈیا میں جب ایمرجنسی (1975 to 1977) نافذ کی گئی تھی، تو وہ اس کے مخالف بن گئے۔ اس سلسلے میں ان کی ایک نظم اُس زمانے میں کافی مشہور ہوئی تھی۔ اُس کا ایک شعر یہ تھا:
دماغ بیچئےورنہ اتارلینگے یہ سر دلیل سوچ کہ ہر ظلم کو روا کہیے
رشید کوثر فاروقی اسی قسم کے انقلابی ، زیادہ صحیح الفاظ میں ریڈیکل خیالات میں جیتے رہے۔ یہاں تک کہ 74 سال کی عمر میں مایوسی کی حالت میں اپنے وطن سیتاپور میں 2007 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ آخری زمانے میں انھوں نے ایک نظم لکھی تھی، اس کا ایک شعر یہ تھا:
زیست کا راز کھلا گردش ایام کے بعد اِس کہانی کا تو آغاز تھا انجام کے بعد
ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔ انھوں نے جوش کے تحت اپنے لیے کچھ انقلابی نشانے بنائے۔ مگر آخری وقت میں اُن کو معلوم ہوا کہ ان کے نشانے غیر عملی اور ناقابل حصول تھے۔ اسی قسم کے ایک مسلم لیڈر نے آخری زمانے میں اپنے بارے میں کہا تھا:
وہ محروم تمنا کیوں نہ سوئے آسماں دیکھے کہ جو لمحہ بہ لمحہ اپنی کوشش رائیگاں دیکھے
یہ انجام اکثر ان لوگوں کا ہوا ہے، جو غیر معمولی صلاحیت کے حامل تھے ۔ مگر ان کے اندر غیرحقیقی سوچ پیدا ہوگئی۔ انھوں نے اپنے لیے ایسے نشانے بنائے، جو قانونِ فطرت کے تحت پورے ہونے والے نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ احساسِ ناکامی کے ساتھ دنیا سے چلے گئے۔ ایسے لوگوں کے لیے صحیح یہ تھا کہ وہ اپنی سوچ کی غلطی کا کھلا اعتراف کریں۔ تاکہ دوسروں کو ان کی زندگی سے سبق ملے۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ وہ سارا الزام دوسروں پر دیتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر دنیا کو جو کچھ وہ دے سکتے تھے، وہ اس کو نہ دے سکے۔
واپس اوپر جائیں

ظلم یا چیلنج

کچھ لوگ جوش کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’120، 130 کروڑ کی آبادی میں صرف 1 کروڑ ظلم کے خلاف کھڑے ہوجائیں، ممکن نہیں کہ ظلم باقی رہے‘‘— یہ بات صرف ایک خطابت (rhetoric) ہے، اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ زمانے میں جو شخصیتیں یا جماعتیں معروف ہیں، وہ اپنے جو کارنامے بیان کرتے ہیں، ان کا مجموعہ 1 کروڑ سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی ایک کروڑ آدمی آج بھی مفروضہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ پھر اس کا نتیجہ کہاں ہے۔ اصل یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم کا مفروضہ ہی غلط ہے۔آج کی دنیا میں نہ کوئی ظالم ہے، اور نہ کوئی مظلوم ہے۔ ہر آدمی کو عمل کرنے کا پورا موقع ملا ہوا ہے۔ جو لوگ اس مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، وہ اپنے کو مظلوم بتا کر یہ کہتے ہیں کہ ظالم لوگوں نے ہمیں پیچھے کردیا ہے۔ظالم اور مظلوم کا مفروضہ نااہل رہنماؤں کا پیدا کردہ ہے۔ جو لوگ نااہلی کے باوجود رہنمائی کے میدان میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ آسان یہ بات نظر آتی ہے کہ وہ ظلم و مظلومیت کا افسانہ گھڑیں، اور اس طرح ایک طبقہ کے درمیان کچھ شہرت (popularity) حاصل کریں۔
جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ مواقع کو دریافت کریں ، اور مواقع کو بتاکر لوگوں کی مثبت رہنمائی کریں۔ فطرت کے قانون کے مطابق،مسائل خواہ کتنے ہی زیادہ ہوں، مواقع ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ رہنما کا کام مواقع کی دریافت ہے۔ مسائل کا نام لے کر ان کے خلاف احتجاج کرنا کوئی کام نہیں۔ یہ رہنمائی کے نام پر لوگوں کو بھٹکانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حدیث میں یہ کہا گیاہے — کہنے کے قابل کوئی بات ہو تو کہو، ورنہ چپ رہو:مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر ذمہ داری کا احساس ہو گا، اس کا حال یہ ہوگا کہ کہنے کے قابل کوئی بات ہوگی تو وہ کہے گا، ورنہ وہ چپ رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

دینی شناخت

مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ ایک بات نہایت دھوم سے کہتا ہے۔ وہ ہے، مسلمانوں کی دینی شناخت کا تحفظ۔ اس معاملے کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دینی شناخت عملاً کلچرل شناخت کا دوسرا نام ہے۔ دینی شناخت کوئی قرآن و سنت کی اصطلاح نہیں ہے۔دینی شناخت اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلچرل شناخت کا نام ہے، اور مسلمانوں کی کوئی ایک کلچرل شناخت نہیں ہوسکتی۔ آپ اگر دنیا کا سفر کریں،اور ہر ملک کے مسلمانوں کا جائزہ لیں، تو ہر ملک کے مسلمانوں کی کلچرل پہچان الگ الگ ہوگی۔ شناخت (identity)کا تعلق فارم سے ہے، اور فارم کبھی ایک نہیں ہوسکتا۔
مسلمانوں کی نسبت سے جو مسئلہ ہے، وہ شناخت کا تحفظ نہیں ہے، بلکہ قرآن و سنت کا احیا (revival) ہے۔ مسلمانوں کی اصل ضرورت یہ ہے کہ ان کے اندر معرفت والا ایمان پیدا کیا جائے۔ ان کے اندر وہ ایمان پیدا کیا جائے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (2:165)۔ یعنی جو ایمان لائے، وہ اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ اسی طرح :وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)۔ یعنی وہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔
شناخت کا تصور فارم پر مبنی ہے۔ فارم کا تعلق دین سے نہیں ہوتا، بلکہ حالات سے ہوتا ہے۔ سماجی حالات اور جغرافی حالات،اس کا تعین کرتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں میں جس چیز کی کمی ہے، وہ فارم کی نہیں ہے، بلکہ ربانی اسپرٹ کی ہے۔ اسلام فارم پر مبنی کلچر نہیں ہے، بلکہ اسلام ربانی اسپرٹ پر مبنی دین کا نام ہے۔ آج ضرورت ربانی اسپرٹ کو زندہ کرنے کی ہے، نہ کہ فارم کو زندہ کرنا۔
ربانی اسپرٹ یہ ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے ڈرنے والے ہوں، وہ اللہ کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنائیں، وہ دینی اقدار (Islamic values) کو اختیار کریں، ان کے اندر قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) پایا جاتا ہو، ان کے افراد کے اندر امانت (honesty) ہو، ان کے اندر انسانوں کے لیے خیر خواہی پائی جاتی ہو۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کو موقع دو

ترقی کے ہر میدان میں عمل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ فطرت کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ فطرت کے راستے میں اگر رکاوٹ نہ ڈالی جائے تو ہر کام نہایت درست طریقے سے ہوگا۔ فرد کی ترقی یا سماج کی ترقی کا راز یہ ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ فطرت کا طریقہ یہ ہے— کم سے کم مداخلت، زیادہ سے زیادہ آزادی۔
مثلاً اگر بچے کے ساتھ لاڈ پیار نہ کیا جائے، تو بچہ ذاتی محرک کے تحت ہر کام اچھی طرح انجام دیتا رہے گا۔ سماجی عمل میں مداخلت نہ کی جائے تو سماج چیلنج - رسپانس (challenge-response) کے پراسس کے تحت اپنے آپ ترقی کرتا رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت سے بڑا کوئی معلم نہیں۔ فطرت سے بڑا کوئی منصوبہ ساز نہیں۔ جس طرح بہتا ہوا پانی اپنے آپ اپنا راستہ بنالیتا ہے، اسی طرح فطرت اپنے آپ ترقی کا راستہ تلاش کرلیتی ہے۔
فطرت (nature) خالق کی تربیت یافتہ رہنما ہے۔ فطرت کو پیدائشی طور پر معلوم ہے کہ اس کو کس طرح چیلنج کا سامنا کرنا ہے۔ اس کو کیا کرنا ہے، او ر کیا نہیں کرنا۔ فطرت کو معلوم ہے کہ مسائل کے درمیان کس طرح مواقع کو تلاش کرنا ہے، اور اس کو منصوبہ بند انداز میں کیسے اپنی موافقت میں اویل (avail) کرنا ہے۔ فطرت ایک خود کار معلم ہے۔ جس طرح جسم کے ’’ڈاکٹر‘‘کو معلوم ہے کہ اس کو جسم کا داخلی نظام کس طرح چلانا ہے، اسی طرح فطر ت کو معلوم ہے کہ خارجی مواقع کی تنظیم کرتے ہوئے کس طرح اس کو اپنے موافق استعمال کرنا ہے۔
کسی ملک کو ترقی کی طرف لے جانے کے لیے سرکاری پلاننگ کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آزادانہ ماحول کی ضرورت ہے۔ آزادانہ ماحول میں مسابقت (competition) کا رجحان اپنے آپ ملک کا رہنما بن جاتا ہے۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے سرکاری کنٹرول کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ ضرورت ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

غصے کا ظاہرہ

غصہ (anger) کیا ہے۔ غصہ دراصل جذباتی ہیجان کا دوسرا نام ہے، جو ذہن (mind) کو نہایت گہرائی کے ساتھ متحرک کرنے والا ہے:
Anger is an emotional outburst that triggers deeper parts of the mind.
انسان کا ذہن بے شمار صلاحیتوں کا مالک ہے، مگر عام حالت میں ذہن کے بیشتر حصے خوابیدہ حالت میں رہتے ہیں۔ غصہ آدمی کے ذہن کے تمام حصوں کو متحر ک اور بیدار کردیتا ہے۔ غصہ وقتی طور پر manکوsuper man بنا دیتا ہے۔ غصہ ور آدمی نارمل حالات کے مقابلے میں زیادہ سوچنے والا بن جاتا ہے۔ غصہ ایک ایسی حالت کا نام ہے، جیسے کوئی غیر متحرک بم اچانک پھٹ پڑے۔
غصہ کے وقت آدمی کے ذہن کے بہت سے گوشے کھل جاتے ہیں، جو عام حالت میں بند پڑے ہوئے تھے۔غصہ آدمی کے تجزیہ (analysis)کرنے کی صلاحیت کو بڑھا دیتا ہے۔ غصہ اپنی ذات میں کوئی برائی کی چیز نہیں۔ غصہ کے لیے یہ ضرورت نہیں کہ اس کو ختم کیا جائے، بلکہ غصہ کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ جب غصہ آئے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ غصہ کو چینلائز (channelize) کرنے کی کوشش کیجیے، یعنی غصہ کو تعمیری رخ کی طرف موڑ دیجیے۔
غصہ کو تعمیری رخ پر موڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ جب آپ کو غصہ آئے تو آپ چپ ہوجائیں۔ چپ ہوتے ہی اپنے آپ غصے کا رخ بدلنا شروع ہوجائے گا، اور پھر آپ کو یہ موقع مل جائے گاکہ آپ غصے کو تعمیری رخ دے دیں۔ غصے کے وقت ایک بے حد قیمتی چیز آدمی کے دماغ سے ریلیز ہوتی ہے۔ اس کو اینگر انرجی (anger energy)کہا جاتاہے۔ اینگرانرجی آپ کے جسم سے نکلنے والی سب سے بڑی طاقت کانام ہے۔ اینگر انرجی کو برباد ہونے سے بچائیے۔ اینگر انرجی کو صحیح رخ پر موڑ دیجیے۔ اینگر انرجی کو منضبط (controlled) انداز میں استعمال کیجیے،ا ور پھر غصہ آپ کے لیے ایک صحت مند ظاہرہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

شادی شدہ زندگی

تجربہ بتاتا ہے کہ اکثر شادی ، شادی کے بعد پرابلم شادی بن جاتی ہے۔ ایک صاحب نے کہا کہ میری شادی لو میرج تھی، مگر عملاً یہ ہوا کہ شادی سے پہلے میرا جہاز ہوا میں اڑ رہا تھا، اور شادی کے بعد میرا جہاز کریش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ یہ ظاہرہ اتنا زیادہ عام ہے کہ اس میں مشکل سے کوئی استثنا تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شادی سے پہلے انسان اپنے گھر میں خونی رشتے دار (blood relationship) کے درمیان ہوتا ہے۔ شادی کے بعد اچانک اس کو غیر خونی رشتے دار (non-blood relationship) کے درمیان زندگی گزارنا پڑتا ہے۔ لوگ عام طو رپر اس فرق کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرپاتے،اس لیے اختلافات پیدا ہوتے ہیں، جو کبھی کبھی بریک ڈاؤن (breakdown) کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔
خالق نے انسانی زندگی کو جس اصول پر بنایا ہے، اس میں یکسانیت (uniformity) نہیں ہے، بلکہ عدم ِیکسانیت (dis-uniformity) ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ وہ ہر جگہ اور ہمیشہ پایا جاتا ہے۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ دو مختلف انسان اپنی مختلف صلاحیتوں کو متحدہ طور پر استعمال کرکے زیادہ مفید انداز میں سماجی زندگی کا حصہ بنیں۔ اگر لوگ اس راز کو سمجھیں تو وہ اپنی افادیت کو ڈبل بنا لیں گے۔ وہ اپنی افادیت میں بہت زیادہ اضافہ کرلیں گے۔ وہ زندگی کی گاڑی کو زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ چلانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
فطرت کا یہ قانون دو مختلف صلاحیت کے انسانوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی مختلف صلاحیتوں کو مشترک طور پر استعمال کرکے اپنے آپ کو سماج کا زیادہ مفید عنصر بنا سکیں۔ وہ اپنی افادیت کو ملٹی پلائی (multiply) کرلیں۔اس معاملے میں مشہور انگریزی مقولہ صادق آتا ہے:
If everyone thinks alike, no one thinks very much.
یعنی ہر آدمی یکساں طور پر سوچے تو کوئی شخص زیادہ نہیں سوچے گا۔
واپس اوپر جائیں

عذر کیا ہے

عذر (excuse) کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب کوئی ضروری کام انجام نہ دے سکے، تو اپنی اس غلطی کا جواز (justification) بیان کرنے کے لیے اس کا کوئی ایسا سبب بیان کرے، جو صرف ایک کہنے کی بات ہو، اس کا کوئی حقیقی سبب نہ ہو۔ گویا عذر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہمیشہ ایک بے بنیاد سبب (false excuse) ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کبھی عذر سے خالی نہیں ہوسکتی۔ عذر زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس لیے عذر کبھی سچا عذر نہیں ہوتا۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ عذر کو عذر نہ بنائے، بلکہ منصوبہ بندی کے ذریعے عذر کو عملا غیر موثر بنادے۔
مثلا آپ کواپنے وعدے کے مطابق کہیں جانا تھا، اور پھر روانگی سے کچھ پہلے بارش شروع ہوجائے۔ اب ایک انسان وہ ہے جو بارش کو عذر بنا کر گھر میں بیٹھ جائے۔ ایسا آدمی ایک کمزور آدمی ہے۔ سچا انسان وہ ہے جو ایسے موقع پر مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ یاتو چھتری کا استعمال کرکے ٹھیک ٹائم پر اپنے وعدہ کے مقام پر پہنچے، اور اگر بالفرض وہ ایسا نہیں کرسکتا تو بارش ہونے کی صورت میں وہ فوراً صاحب ملاقات کو فون کرے، اور اس کو موجودہ صورتِ حال سے واقف کرائے۔
اس دنیا میں کوئی عذر حتمی عذر نہیں ہے۔ ہر عذر مینیجیبل عذر(manageable excuse) ہوتا ہے۔عذر انسان کے لیے عمل میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ ذہن کو زیادہ متحرک کرنے کا ایک موقع ہے۔ با اصول آدمی وہ ہے، جو عذر پیش آنے کی صورت میں اپنے ذہن کو استعمال کرکے مزید غور کرے۔ وہ عذر کو مینج (manage) کرکے اس کو حل کرنے کی تدبیر دریافت کرے۔ وہ عذر کو تدبیر ِکار کا مسئلہ سمجھے، نہ یہ کہ اس کو ناقابلِ حل مسئلہ سمجھ کر بے عملی کا طریقہ اختیار کرے۔ عذر نئی تدبیر کا طالب ہے، نہ کہ کام نہ کرنے کا بہانہ۔
واپس اوپر جائیں

کھونے میں پانا اور پانے میں کھونا

زندگی میں دو قسم کے واقعات پیش آتے ہیں۔ زندگی میں آدمی کچھ حاصل کرتا ہے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھودیتا ہے۔ دونوں قسم کے واقعات زندگی کا لازمی حصہ ہیں ۔کسی بھی شخص کی زندگی ان سے خالی نہیں ہوتی۔ جب آپ زندگی میں کچھ حاصل کرتے ہیں تو یہ یاتو آپ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتا ہے، یا کچھ اتفاقی واقعات آپ کے لیے مساعد (support)بن جاتے ہیں، اس لیے آپ کو کامیاب کردیتے ہیں۔جب آپ کامیاب ہوں تو یہ دریافت کیجیے کہ آپ کی کامیابی میں کن عوامل (factors)کا دخل ہے۔ ان عوامل کو اگر آپ دریافت کرسکیں تو آپ زندگی کی ایک حکمت (wisdom) کو دریافت کریں گے، جس کو آپ اپنی بعد کی زندگی میںبھی استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ عوامل ایک اعتبار سے فطری عوامل ہوتے ہیں، اور دوسرے اعتبار سے وہ زندگی کی حکمت کو بتاتے ہیں۔
یہی معاملہ کھونے کا ہے۔ جب آپ کھوتے ہیں، وہ سادہ معنوں میں کھونا نہیں ہوتا، بلکہ آپ کے لیے ایک تجربہ (experience) ہوتا ہے۔ کھونے کی صورت کو آپ تجربے میں ڈھال دیجیے۔ اس طرح کھونا بھی آپ کے لیے ایک اعتبار سے پانا بن جائے گا۔ زندگی کی حکمت اگر آپ کے لیے ایک ریڈی میڈ وزڈم ہے، تو تجربہ آپ کے لیے ایک ذخیرہ کیے ہوئے (stored) وزڈم کی حیثیت رکھتا ہے۔ زندگی ایک نازک آرٹ ہے۔ زندگی میں پانا بھی آپ کے لیے کھونا بن سکتا ہے، اور اسی طرح کھونا بھی آپ کے لیے پانا بن سکتا ہے۔ اگر آپ پانے کے واقعے میں وزڈم کا عنصر دریافت نہ کرسکیں، تو آپ نے کوئی بڑی چیز نہیں پائی۔ آپ زندگی کے حاشیے پر پہلے بھی تھے، اور اب بھی وہیں پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کھونے کے واقعے کو تجربے میں نہ ڈھال سکے تو آپ ڈبل محرومی کا شکار ہوگئے۔ ایک تو وہ جس کو آپ نے کھودیا، اور دوسرا وہ جس کو آپ کھونے کے باوجود پاسکتے تھے، اس کو بھی آپ پانے سے محروم رہے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی مشورہ

اگر آپ کسی کو اس کی کمی بتائیں ، تو آپ نے اس کو کچھ نہیں دیا ، بلکہ اس سے کچھ چھین لیا۔ اس کو آپ نے کمتری کے احساس میں مبتلا کردیا۔ اس کے بجائے، اگر آپ کی ملاقات کسی نوجوان سے ہو، اور آپ اس سے کہیں کہ زندگی میں ٹاپر (topper)بنو، تو آپ نے اس سے ایک اچھی بات کہی۔ لیکن آپ کا یہ قول کوئی تخلیقی مشورہ (creative advice) نہیں ہے۔ تخلیقی ایڈوائس وہ ہے، جو سننے والے کے اندر کوئی نیا داعیہ (incentive) پیدا کرے۔
مثلاً اگر آپ نوجوان سے یہ کہیں کہ تم ابھی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں ہو، تم کو چاہیے کہ تم سب سے پہلے اپنا مطالعہ کرکے یہ معلوم کرو کہ تمھارے اندر کون سی خاص صلاحیت ہے۔ کیوں کہ خالق جب ایک انسان کو پیدا کرتا ہے، تو وہ اس کو کوئی خاص صلاحیت عطا کرتا ہے، تاکہ وہ دنیا میں کوئی نادر (unique)کام انجام د ے سکے، ایسا کام جو کسی نے اب تک انجام نہیں دیا۔ جو آدمی اپنی اس صلاحیت کو دریافت کرے، وہ ضرور کامیاب ہوگا، کیوں کہ ایسا کرکے وہ اپنے خالق کی خصوصی مدد کا مستحق بن جاتا ہے۔ پھر اس خاص صلاحیت کے مطابق، اپنے عمل کی پلاننگ (planning) کرو۔ تمھارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تم اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچاؤ۔ کیوں کہ ڈسٹریکشن تم کو بھر پور پلاننگ سے محروم کردے گا۔ اگر کسی نوجوان کو یہ مشورہ دیں تو یہ ایک تخلیقی مشورہ ہوگا۔
تخلیقی مشورہ صرف مشورہ نہیں ہے، بلکہ وہ لائحۂ عمل بھی ہے۔ وہ آدمی کو صرف بتاتا نہیں ہے، بلکہ وہ آدمی کی مدد بھی کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیقی مشورہ وہ سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے، جو ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو دے سکتا ہے۔ کسی کو تخلیقی مشورہ دینا کوئی آسان کام نہیں۔ تخلیقی مشورہ وہی آدمی دے سکتا ہے، جو اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے تیار کرے، جو دوسرے انسان کا سچا خیرخواہ ہو، جو خود پہلے وہ کام کرے، جس کا مشورہ وہ دوسرے آدمی کو دے رہا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مر کز- 264

٭ سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت جو اہم کام ہو رہا ہے ، وہ ہے دنیا کے تمام انسانوں تک خدا کا پیغام ان کی قابلِ فہم زبانوں میں پہنچ جائے۔ اس سلسلے میں گڈ ورڈ بکس کی یہ کوشش رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ زبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع کیے جائیں۔ اب تک گڈ ورڈ بکس سے 20 سے زائد تراجم قرآن نیشنل و انٹرنیشنل زبانوں میں چھپ چکے ہیں۔ اب اس سلسلے میں ایک اورترجمہ شامل ہوچکا ہے۔ فلپینو زبان (Filipino language) میں قرآن کا ترجمہ چھپ چکا ہے۔فلپینو زبان فلپائن کی قومی زبان ہے۔نیز سنہالی زبان میں ترجمۂ قرآن حاصل ہوچکا ہے، اور جلد ہی اس کی چھپائی کا کام بھی شروع ہونے کی امید ہے۔ واضح ہو کہ سنہالی یا ‎‎سنہالا‎‎ زبان سری لنکا کی ایک اہم زبان ہے۔
٭  5 مئی 2018 کو مشہور رائٹر اور سابق صحافی مسٹر آسولڈ پریرا (Oswald Pereira) صدر اسلامی مرکز کو اپنی کتاب بطور تحفہ دینے کے لیے آئے۔ انھوںنے ایک کتاب ترتیب دی ہے،اس کتاب کا نام ہے How to Create Miracles in Our Daily Life ۔اس کتاب میں انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے چھ مضامین شائع کیے ہیں۔ یہ کتاب اسپریچوالٹی کے موضوع پر ہے۔
٭ 5 مئی 2018 کو انٹرنیشنل پیمانے پر امن اور روحانیت کے لیے کام کرر ہے تین لوگوں کا ایک گروپ صدر اسلامی مرکز سے ملنے کے لیے ان کے آفس نظام الدین ویسٹ میں آیا۔ ان تینوں کے نام یہ ہے: مز لکشمی مینن، مسٹر بین بولر (Ben Bowler) اور مز ینیی (Yanni)۔ یہ پیس اور اسپریچوالٹی کے معاملات میں سی پی ایس انٹرنیشنل کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی، اور آخر میں انھیں صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
٭ جناب عیاض احمد، سی پی ایس جمشید پور 31مئی 2018کو اطلاع دیتے ہیں کہ ٹیم ممبر جناب خالد صاحب (فاؤنڈر و صدر MSITI مینگو) نے سن رائز فاؤنڈیشن کی صدر مز دیپیکا موئترا کو ترجمۂ قرآن دیا۔ مز موئترا اسلام سے بہت متاثر ہیں، اور رمضان کے کچھ روزے بھی رکھتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کو بہت شانتی ملتی ہے۔اسی طرح 9 جون 2018 کو ایک دوسرے ٹیم ممبر مسٹر شہنواز قمر نے جمشید پور کی مشہور شاعرہ مسز نرملا ٹھاکر کو ترجمہ ٔ قرآن بطور رمضان گفٹ دیا۔ جسے انھوں نے بہت ہی خوشی اور شکریے کے ساتھ لیا۔
٭ جناب ڈاکٹر محمد اسلم خان صاحب کی اطلاع کے مطابق، 4 جون 2018کو سی پی ایس سہارن پور کی جانب سے مسٹر پون کمار (آئی اے ایس)، مسٹر راہل پانڈے (آئی اے ایس) کو صدر اسلامی مرکز کی کتاب، گاڈ ارائزز(God Arises) اور دوسری کتابیں بطور تحفہ دی گئیں۔ مسٹر پون کمار بذاتِ خود کئی کتابوں کے مصنف اورایک متلاشیٔ حق انسان ہیں۔
٭ خواجہ کلیم الدین صاحب (سی پی ایس امریکا) کی اطلاع کے مطابق 7 جون 2018 کو انھیں ایک چرچ میں دعوت دی گئی، تاکہ وہ وہاں موجود کرسچین سامعین کے ساتھ اسلام کے تعلق سے انٹرایکشن کریں۔ انھوں نے وہاں شرکت کی، اور تمام لوگوں سے تبادلۂ خیال کیا، اور تمام لوگوں کو صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتاب ، لیڈنگ اے اسپریچول لائف بطور گفٹ دیا۔ واضح ہو کہ وہاں سامعین کی تعداد 30 تھی۔
 ٭ ۸جون 2018 کو گڈورڈ بکس کے ڈائریکٹر اور سی پی ایس انٹرنیشنل ، نئی دہلی کے ٹرسٹی مسٹر ثانی اثنین خان نے سی پی ایس دہلی کی ممبر مز ماریہ خان کے ساتھ امریکن سفارت خانہ (نئی دہلی) میں منعقدہ افطار پارٹی میں شرکت کی، اور امریکی سفیر اور دیگر ڈپلومیٹ کو انگریزی ترجمہ قرآن بطور گفٹ دیا۔ جب سفارت خانے کے ذمے داران سے سی پی ایس انٹرنیشنل کی سرگرمیوں پر گفتگو ہوئی تووہ لوگ اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ آئندہ سال سے افطار پارٹی کے موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل (دہلی)کی ممبر مز ماریہ خان کو وہ رمضان کے موضوع پر تقریر کے لیے دعوت بھی دیں گے۔
٭ سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کے ممبران نے اس مرتبہ عید(2018) کی نماز پارلیمنٹ ہاؤس اسٹریٹ کی مسجد میں ادا کی، اور وہاں آنے والے تمام لوگوں کو ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی دیگرکتابیں بطور تحفہ دیں۔ جن لوگوں نے یہ تحفہ حاصل کیا، ان میں مسٹر غلام نبی آزاد، مسٹر شہنواز حسین، وغیرہ سیاسی لیڈران بھی شامل ہیں۔ واضح ہو کہ سی پی ایس انٹرنیشنل ہر سال عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقعے کو بطور دعوتی مواقع استعمال کرتی ہے، اور مسلمان و غیر مسلموں کے درمیان ترجمۂ قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کرتی ہے۔
٭ 16 جون 2018 کو سردار موہندر سنگھ (ڈائریکٹر بھائی ویر سنگھ ساہتیہ سدن، دہلی ) نے عید کی مبارک باد دینے کیے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ اس وقت ان کو پنجابی ترجمۂ قرآن اور دوسری کتابیں بطور تحفہ دی گئیں۔ سردار موہندر سنگھ نے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کے ریویو میں تعاون کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
٭ سی پی ایس امریکا کے متحرک ممبر ڈاکٹر وقار عالم صاحب نے رمضان کے موقع پر دعوت کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ انگریزی ترجمۂ قرآن کے ساتھ کچھ گفٹ آئٹم رکھ کر تمام یہود و کرسچین پڑوسیوں کو ان کے گھر جاکر یہ گفٹ دیا۔ تمام لوگوں نے بہت ہی خوشی اور شکریے کے ساتھ یہ گفٹ قبول کیا۔ کئی لوگوں نے ترجمہ قرآن دیکھ کر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا۔
٭Mr Cem Simsek ترکی کے ایک لائسنس یافتہ ٹورسٹ گائڈ ہیں۔ وہ استانبول میں گائڈ کا کام کرتے ہیں، اور پچھلے سات سالوں سے وہ اپنے ٹورسٹوں کے درمیان دعوتی کام بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے ٹورسٹوں کو اسلام کا تعارف کرواتے ہیں، اور ان کو ترجمۂ قرآن دیتے ہیں۔
٭ اسلامی مرکز کا مشن نہ صرف انڈیا میں پھیل رہا ہے، بلکہ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی الرسالہ مشن کو بڑے پیمانے پر پذیرائی مل رہی ہے۔ پاکستان کے مختلف ناشرین کتب صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کو شائع کر رہےہیں۔ان کے علاوہ سی پی ایس پاکستان کی صورت میں ایک مضبوط ٹیم وجود میں آچکی ہے، جس کے ذریعے اسلامی مرکز کی اردو میگزین، ماہنامہ الرسالہ اور انگلش میگزین اسپرٹ آف اسلام پاکستان میں چھاپی جاتی ہیں، اورپاکستان میں انھیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ صدر اسلامی مرکز کی کتابیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ان کے ذریعے اسلامی مرکز کا پیغام پاکستان کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔ذیل میں پاکستان کے چند قارئین کا تاثر دیا جا رہا ہے:
■ جناب طارق بدر صاحب (کو آرڈی نیٹر، سی پی ایس، پاکستان) لکھتے ہیں: پاکستان میں مختلف مقامات کا سفر کرنے کےبعد میں نے یہ جانا کہ مولانا کی فکر کی قبولیت ان کی ذاتی مقبولیت سے زیادہ ہے۔تقریباً تمام علمائے کرام ان سے واقف ہیں، اور ان کی تصانیف کا مطالعہکرچکے ہیں۔حتیٰ کہ آپ سے اختلاف کرنے والے علما بھی دین کے لیےآپ کی خدمات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتے ۔ہمارے پاس مولانا کی 20 مختلف عنوانات پر ایسی کتابیں ہیں جن کو جامعہ اشرفیہ (لاہور) پاکستان نے شائع کیا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان میں دیوبندی مکتبۂ فکر کا ایک بہت بڑا طباعتی ادارہ ہے۔ پچھلے سال انہوں نے 2000 کے قریب مولانا کی کتابیں ہمیں عطیہ کیں، جن میں ظہور اسلام، اسلام اور عصر حاضر، دین کی سیاسی تعبیر وغیرہ شامل ہیں۔ہمیں چاہیے کہ اس قسم کےمواقع سے فائدہ اٹھائیں، اور اس مشن کو آگے بڑھائیں۔
■ مولانا کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ فائدہ ہواہے کہ آخرت اور مابعد الموت کے بارے میں میرے اندر فکری بیداری پیدا ہوئی ہے، اور عمل کو شعوری انداز میں کرنے کی کوشش کرنے لگا ہوں۔ مولانا کی کتابوں سے میرے اندر وہ استعداد ہوگئی ہے، جس سے جدید تعلیم یافتہ حضرات میری باتوں کو سمجھ سکیں۔ جمعہ کے بیان میں ان مثالوں کو بیان کرنےسے لوگوں کےدلوں میں دین پر عمل کرنے کاشوق پیداہوگیا ہے۔ مجھے دعوت دینے کے طریقے آگئے ہیں،اورمسائل کو نظر انداز کرکے مواقع پہچاننے کا ذہن میرے اندر مولانا کی کتابوں سے آیا ہے۔ اس طرح کے بے شمار فائدے ہیں، جو میں نے حضرت کی کتابوں وتصنیفات کے مطالعے سے حاصل کی ہیں۔اللہ ہمیں مزید استفادہ کرنے کی توفیق دے (محمد صدیق، امام مسجد، کوئٹہ)
■ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔مجھے بچپن سے مذہبی لٹریچر کو پڑھنے کا شوق تھا۔میرے والد کا تعلق جماعتِ اسلامی سے تھا۔ میں نے بچپن میں جماعتِ اسلامی کے کسی میگزین میں پہلی مرتبہ مولانا کا نام تعبیر کی غلطی کے کتاب کے حوالے سے سنا تھا۔ لیکن اس وقت کتاب تک رسائی نہ ہوسکی۔2015 میں اس کتاب تک رسائی ہوئی۔ اس کتاب کے مطالعے نے مجھے بے حد متاثر کیا۔چنانچہ میں نے مولانا کی مزید کتابیں ڈاؤنلوڈ کیں، اور ان کا مطالعہ کیا،تو مجھے لگا کہ میں ایک نئی دنیا سے متعارف ہو گیا ہوں۔اس کے بعد میں نے مولانا کی انٹرنیٹ پر موجود تمام تقریروں کو ڈاؤنلوڈ کرکے سنا، جس سے مجھے کافی فائدہ ہوا۔اس وقت میں ابوظہبی میں Quran distributer ہوں، اوراپنے دوستوں کو مولانا کی کتابیں دے کر انھیں ان کا مطالعہ کرنے پر ابھارتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے لٹریچر نے میری زندگی کا رخ تبدیل کیا ۔میں پہلےسیاسی اسلام کاکو ماننے والا تھا، اب میں خود کو ایک داعی سمجھتا ہوں۔ اس کے علاوہ جو تبدیلیاں میرے اندر پیدا ہوئی ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں: (1)میں ایک شعوری مسلمان بن گیا ہوں۔ (2)میرے اندر غیر مسلم کے لیے خیرخواہی پیدا ہوئی ہے۔ (3)دعوت کی اسپرٹ پیدا ہوئی۔ (4)آخرت کی جواب دہی کا شدید احساس ۔ (5)میرے اندر صبر اور برداشت کا مادہ پیدا ہوا ہے۔ (6)معمولی لغزش کے بارے میں بھی میں بہت حساس ہوگیا ہوں۔ (7)تکبر کے بجائےتواضع کو اپنا چکاہوں۔ (8)نمازوں کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا۔ (9)دنیا سے بے رغبتی۔ (10)میرے اندر سے نفرت اور انتقام کا جذبہ حیرت انگیز حد تک کم ہوچکا ہے۔ (11)اور سب سے بڑھ کریہ کہ اب میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں بھی تدبر اور توسم کا طریقہ اختیار کرتا ہوں۔یہ تمام خصائص میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔اس لیے میں مولانا کا بہت احسان مند ہوں۔محمد عامر قریشی (کوھاٹ پاکستان)، مقیم حال ابو ظہبی۔
■ مولانا صاحب کی تعلیم میں ایک سبق بہت نمایاں ہے ۔ وہ یہ کہ معاملات کو گہرے تدبر ، غیر جانبدارانہ انداز میں ، اور سچائی کے ایک طالب علم کی طرح دیکھنا ، سننا اور پڑھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا صاحب کی تحریروں کی ریکارڈنگ کر کےلوگوں کے درمیان پھیلانے کی کوششیں کرتا ہوں تاکہ جس علم و حکمت سے مجھے فائدہ پہنچ رہا ہے، ان کو دوسرے لوگوں تک بھی آواز کی صورت میں منتقل کرسکوں ۔ (ڈاکٹر خالد سعید، کراچی)
■ مولانا ایک ایسے صوفی ہیں جنہوں نے اللہ سے قربت کا بہت ہی آسان راستہ بتایا ہے ، اس میں نہ ہی تصوف کی پیچیدگیاں ہیں اور نہ ہی کوئی ابہام۔ مولانا کے نظریے کی یہ خاص بات ہے کہ آپ صرف اور صرف توحید کے قائل ہیں۔ پیری مریدی سے نکل کر صرف اور صرف اللہ کی ذات سے مضبوط رشتہ قائم کرنا ، آپ کی تعلیم کا خاصہ ہے۔ (عبد الغفور کندی، کے پی کے)
■ مولانا کی باتیں حوصلہ افزا اور دل و دماغ کو تازگی بخشتی ہیں۔ ان کی ہر تحریر منفی جذبات کے خلاف اینٹی بائیوٹک کی طرح کام کرتی ہیں ۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین (احمد شاہ جمالی، ڈی جے خان)
■ اگر ہم اپنے ارد گرد موجود اسلامی سوچ(روایتی مذہبی سوچ) کا جائزہ لیں تو ایک منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر جگہ اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے دشمنی ہے، لیکن جب ہم مولانا کی تحریروں کو پڑھتے ہیں تو ایک positive احساس بیدار ہوتا ہے، جو بتاتا ہے کہ ہمارے لیے موجودہ زمانے میں کیا مواقع ہیں، اور ہمارےطرز عمل میں غلطی کیا ہے،جس کوہمیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا کی تحریریں فطری انداز میں کلام کرتی ہیں۔ میں جب کبھی مولاناکو پڑھتا ہوں، مجھے اپنے اندر ایک سکون محسوس ہوتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے مجھے میری کھوئی ہوئی کوئی چیزمل گئی یا میں نے اپنی تلاش کا حقیقی حل پا لیا۔ (فیصل عبد الرشید، کراچی)
■ کن الفاظ کے ساتھ مولانا وحیدالدین صاحب کا شکریہ ادا کیا جائے۔ بات اگر کی جائے ان کی تحریروں اور ان کے پیغامات کی تو لاجواب۔ مولانا تو اندھیرے میں امید کا چراغ اور مایوسی میں امید و حوصلہ دینے والے شخص ہیں۔ اگر ایک شخص زندگی کی بازی ہار بیٹھا ہو، اور وہ خودسوزی کے لے تیار ہو ، اس وقت مولانا صاحب کا ایک قول ایسےانسان کو زندگی کی امید دینے کے لیے کافی ہے۔مولاناہار کر جیتنے کا پیغام دیتے ہے ،میل جول اور اتفاق و بھائی چارےکا درس دیتے ہیں ۔خود اعتمادی کا بیج بوتے ہوئے اپنی ذات کی پہچان کرواتے ہیں۔اس عظیم انسان کے کام تاریخ میں ہمشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔ (شہزادہ بابل جان، کوئٹہ)
■ مولانا صاحب کی تحریروں کو پڑھنے سے پہلے میرے اندر بہت ہی زیادہ منفی سوچ موجود تھی، مولانا کو پڑھنے کے بعد میرے اندر بہت زیادہ بدلاؤ آیا ہے۔ منفی سوچ مثبت سوچ میں بدل چکی ہے۔ (حسن افضل، ملتان)
■   مولانا کی تحریر کا فوکس امن ہے ، شروع میں یہ بہت broad term محسوس ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ امن کی اہمیت ذاتی زندگی میں روشناس ہونا شروع ہوئی ۔ پھرپیغمبر اسلام کی زندگی کو جیسے مولانا نے لکھااس سے امن کا مطلب بہت clear ہوتا چلا گیا۔ صبر ، بردباری ، صاف دلی ، اللّہ کی بندگی ، اللّہ کی مخلوق کی خدمت ، اصل جہاد ہے۔ مولانا نے ان دینی اصطلاحات کے درست معنی کو سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ۔ جب سوچ کو درست سمت میں فوکس کر دیا جائے تو علم کے راستے خود کھلتے ہیں۔ مولانا نے سمت بھی دکھائی ہے،اور فوکس بھی رکھا ہے۔ اسی وجہ سے نظریات اور مقصد حیات اللّہ کے دین کے مطابق ڈھالنے میں بہت آسانی ہونے لگی۔ سکون سچ سے ملتا ہے۔ ایسے میں قران کا سچ اصل حقیقت سے بیان کر کے سکون کے متوالوں کو ایک راہ دکھا دی ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے ، مولانا کے ایک کتابی سٹال کے دوران انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں اسٹیج پر شور و غل سن کر ایک صاحب نے مجھے کہا کہ ان لوگوں نے مولانا کو نہیں پڑھا، اس لیے شور کر رہے ہیں ۔ اگر پڑھ لیں تو خاموش ہو جائیں گے۔ اس سے بڑا کیا change ہوگا کہ مولانا کی تحریر انسان کو بولنا نہیں، سکونِ خاموشی سکھاتی ہے۔ مولانا کی تحریروں اور لیکچرز سے میں اور میری اہلیہ نے اپنے آپسی ، دنیوی اور معرفتی معمولات کو بہت improve کیا ہے۔ جزاک اللّہ ۔ ( شاہد رانا، اسلام آباد)
واپس اوپر جائیں