Pages

Monday 1 July 2002

Al Risala | July 2002 (الرسالہ،جولائی)

2

- خصوصی شمارہ: فن تفکیر


فن تفکیر

Art of Thinking
تفکیر (thinking) انسان کے تمام اعمال میں سب سے بڑا عمل ہے۔ سچی تفکیر ایک اعلیٰ عبادت کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابو الدرداء صحابی کی وفات کے بعد اُن کی اہلیہ سے پوچھا گیا کہ ابوالدرداء کا افضل عمل کیا تھا۔ انہوں نے جواب دیا: التفکر والاعتبار (سوچنا اور عبرت پکڑنا)۔ اسی طرح ایک اور صحابی ابو ذر کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ سے پوچھا گیا کہ ابوذر کی خاص عبادت کیاتھی۔ اُنہوں نے جواب دیا: کان النہار أجمع خالیاً یتفکر ( وہ پورے دن تنہا سوچتے رہتے تھے)۔ حیاۃ الصحابۃ، ۲؍۶۲۷۔
سوچنے کا عمل ذہن (mind) کی سطح پر ہوتا ہے، اور انسانی وجود میں سب سے بڑی چیز یہی ذہن ہے۔ سوچنے کا عمل ذہنی ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ تمام بڑی بڑی باتیں سوچنے کے ذریعہ ہی دریافت ہوئی ہیں۔ سوچنا آدمی کو حیوانی سطح سے اٹھا کر انسانیت کی اعلیٰ سطح تک پہنچاتا ہے۔ سوچنے کے عمل کے ذریعہ ایک چیز اور دوسری چیز کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ سوچنے کے ذریعہ مشکلات کا حل دریافت ہوتا ہے۔ سوچنے کے ذریعہ چھپی ہوئی حقیقتیں انسان کے علم میںآتی ہیں۔ سوچنے کے ذریعہ آدمی یہ معلوم کرتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے مائنس پوائنٹ کو پلس پوائنٹ میں تبدیل کر سکے۔ سوچنا آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے عمل کی مؤثر منصوبہ بندی کرے، اور جو آدمی منصوبہ بند عمل کی صلاحیت رکھتا ہو وہ اس دنیا میں کبھی ناکام ہونے والا نہیں۔
سوچنا ہر آدمی کی پیدائشی صفت ہے۔ مگر صحیح طرزِ فکر(right thinking) صرف اُس شخص کے اندر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو شعوری طور پر اس کے لیے تیار کرے۔ صحیح طرز فکر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی پسند اور ناپسند سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھے جیسا کہ وہ ہیں، نہ کہ ویسا جیسا کہ وہ خود انہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ جانبدارانہ سوچ سے مکمل طورپرپاک ہو۔ وہ سوچنے کے نتیجہ کو ہر حال میں قبول کرنے کے لیے تیار ہو، خواہ وہ اُس کے موافق ہو یا اُس کے خلاف۔
علم بغیر معرفت
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: واتقوا اللہ و یعلّمکم اللہ (البقرہ ۲۸۲)۔ اس آیت میںعلم سے مراد فہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر اللہ کا تقویٰ ہوگا، اُس کا تقویٰ اُس کے اندر فہم دین پیدا کرے گا (تفسیر القرطبی ۳؍۴۰۶) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کے اندر معلومات ہو مگر اس کے اندر حقیقی فہم دین نہ ہو، کیونکہ فہم و بصیرت کا سرچشمہ تقویٰ ہے، نہ کہ صرف معلومات۔ اسی لیے حدیث میں یہ دعا آئی ہے کہ: اللھم إنی اعوذبک من علم لا ینفع (مسند احمد، الجزء الثانی، صفحہ ۱۶۷) یعنی اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے۔ موجودہ زمانہ میں پُر جوش مسلمانوں نے مختلف مقامات پر جہاد کے نام سے جو لڑائیاں چھیڑ رکھی ہیں اُن میں اُنہیں یک طرفہ طورپر تباہی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اب وہ شکست خوردہ نفسیات کے تحت خو دکش بمباری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کررہے ہیں۔ وہ اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر مفروضہ دشمن کے علاقوں میں داخل ہوتے ہیں اور بم دھماکہ کرکے جان بوجھ کر خود بھی ہلاک ہوتے ہیں اور کچھ دوسرے لوگوں کو بھی ہلاک کرتے ہیں۔ یہ واقعہ واضح طورپر خود کشی کا واقعہ ہے اور خود کشی کو اسلام میںحرام موت قرار دیا گیا ہے۔ مگر کچھ علماء نے اُس کو استشہاد (طلب شہادت ) کا نام دیتے ہوئے اُس کو جائز قرار دیا ہے۔اس سلسلہ میں دور صحابہ کے بعض واقعات سے استدلال کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ لوگ خلافت صدیقی کے ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہیں اور اُس کو اپنے نظریے کے حق میں ایک قطعی دلیل بتاتے ہیں۔ یہ واقعہ ایک صحابی البراء بن مالک خزرجی (وفات ۲۰ھ) کا ہے۔ اُن کا یہ واقعہ مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ کے زمانہ میں پیش آیا۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب اور اُس کے حامی اہل یمامہ کے ساتھ جنگ پیش آئی۔ یہ جنگ حضرت خالد کی سرداری میں ہوئی ـتھی۔ اس جنگ کے آخری مرحلہ میں ایسا ہوا کہ باغیوں کی یہ جماعت ایک فصیل بند باغ کے اندر داخل ہوگئی اور اُس کے مضبوط دروازہ کو اندر سے بند کر لیا۔ اُس وقت صحابہ کی جماعت میں البراء بن مالک بھی تھے جو اپنی بہادری کے لیے مشہور تھے۔ اُنہوں نے صحابہ سے کہا کہ تم لوگ مجھ کو ایک ڈھال پر بٹھاؤ اور ڈھال کو نیزوں کے ذریعہ اوپر اٹھاؤ ۔ اس طرح اٹھا کر مجھے دیوار کے اوپر تک پہنچادو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جب وہ دیوار کے اوپر پہنچے تو وہ وہاں سے کودکر نیچے اتر گئے۔ اندر کے لوگوں نے اُن پر حملہ کیا مگر وہ مقابلہ کرتے ہوئے باغ کے دروازہ تک پہنچ گئے اور اُس کو کھولنے میں کامیاب ہوگئے۔ دروازہ کھلتے ہی صحابہ کی جماعت اندر داخل ہوگئی اور مسیلمہ کے ساتھیوں سے لڑ کر انہیں مغلوب کر لیا۔
البراء بن مالک کا یہ اقدام ایک جوکھم کا اقدام تھا۔ اس میں جان کا خطرہ تھا۔ مگر البراء بن مالک کو باغی گروہ مارنے میںکامیاب نہ ہوسکا، وہ زندہ بچ کر باہر آگئے۔ اس واقعہ کے بعد وہ مزید آٹھ سال تک زندہ رہے اور پھر ۲۰ ھ میں اُن کی طبعی وفات ہوئی۔ (الکامل فی التاریخ لإبن اثیر ۲؍۳۶۴، البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر ۶؍ ۲۶۸، الأعلام للزرکلی ۲؍۴۷)۔
ان دونوں میںشَتّانَ ما بینھما (there is a great difference between the two) کا معاملہ ہے۔ البراء بن مالک نے جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر ایک اقدام کیا جس میں اُن کے لیے بیک وقت دونوں امکان تھاــــزندہ بچنے کا بھی اور مارے جانے کا بھی۔ اس کے برعکس موجودہ زمانہ میں اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر جو بم دھماکہ کیا جاتا ہے وہ یقینا جان بوجھ کر خود کشی کرنے کا معاملہ ہے۔ اس عمل کی تکمیل خود عامل کی موت پر منحصر ہے۔ ان دونوں کے درمیان واضح طورپر نوعی فرق پایا جاتا ہے۔ مگر اس فرق کو نہ جاننے کی وجہ سے دونوں کو ایک سمجھ لیا گیا اور ایک واقعہ جو واضح طورپر خود کُشی کا فعلتھا، اُس کو شہادت کا درجہ دے دیا گیا۔
یہ معرفت کے بغیر علم کی ایک مثال ہے۔ اگر آدمی کے پاس علم (بمعنیٰ معلومات) ہو، مگر اُس کے پاس معرفت والی بصیرت نہ ہو تو وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو نہیں سمجھے گا۔ وہ ایسی بات کہے گا جو اس کے اپنے نزدیک علم پر مبنی ہوگی، حالانکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف جہالت پر مبنی ہوگی، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
معرفت کے لیے بھی علم ضروری ہے مگر صاحبِ معرفت آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ ظاہری علم سے گذر کر باطنی حقیقتوں کو دیکھے۔ وہ معلومات کا تجزیہ وتحلیل کر سکے۔ وہ سُطور (lines) کے ساتھ بین السطور (between the lines) کو پڑھے۔ وہ واقعات کو صحیح زاویۂ نظر کے ساتھ دیکھ سکے۔ ایسا ہی آدمی صاحب معرفت آدمی ہے۔ اور جو آدمی صاحب معرفت ہو اُسی کے لیے اُس کا علم نفع بخش بن سکتا ہے۔ معرفت کے بغیر علم ایک گمراہی ہے، بلکہ شاید سب سے بڑی گمراہی ۔
زاویۂ نظر کا فرق
پیغمبر اسلام ﷺکے زمانہ میں پیش آنے والی ایک جنگ وہ ہے جس کوغزوۂ احد کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو ابتداء ً جیت ہوئی تھی مگر اس کے بعد اُن کی جیت شکست میں تبدیل ہوگئی۔ اس واقعہ پر قرآن میںاس طرح تبصرہ کیا گیا: اور اللہ نے تم سے اپنے وعدہ کو سچا کر دکھایا جب کہ تم اُن کو اللہ کے حکم سے قتل کررہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم کمزور پڑ گئے اور تم نے کام میں جھگڑا کیا اور تم نے نافرمانی کی جب کہ اللہ نے تم کو وہ چیز دکھا دی جو کہ تم چاہتے تھے۔ تم میں سے بعض دنیاچاہتے تھے اور تم میں سے بعض آخرت چاہتے تھے۔ پھر اللہ نے تمہارا رُخ اُن سے پھیر دیا تا کہ تمہاری آزمائش کرے اور اللہ نے تم کو معاف کر دیا اور اللہ ایمان والوں کے حق میں بڑا فضل والا ہے۔ (آل عمران ۱۵۲)
یہاں یہ سوال ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تھی، وہ زخم خوردہ تھے۔ مزید یہ کہ اُحد کی جنگ تمام تر مخالفین اسلام کی زیادتیوں کے نتیجہ میں پیش آئی تھی۔ وہ مخالفین کی جانب سے سراسر یک طرفہ حملہ کا معاملہ تھا۔ اس جنگ میں مسلمان مکمل طورپر بے قصور تھے اور مخالفین مکمل طورپر با قصور۔ اس کے باوجود ایسا کیوں ہوا کہ قرآن میں مخالفین کو بُرا بھلا کہنے کے بجائے صرف مسلمانوں کی اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کا انداز اختیار کیا گیا۔
اس کا سبب زاویۂ نظر کا فرق ہے۔ اس طرح کے معاملہ میں کلام کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اُس کا منطقی تجزیہ کیا جائے۔ منطقی انصاف کی روشنی میں دیکھا جائے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔ یہ طریقہ بظاہر منصفانہ معلوم ہوتا ہے مگر وہ سراسر بے فائدہ ہے۔ اس طرح کے معاملہ میں اصل اہمیت منطقی انصاف بیان کرنے کی نہیں ہے بلکہ مسئلہ کے حل کی عملی تدبیر ڈھونڈھنے کی ہے۔ اس طرح کے معاملہ میں ہونے والے نقصان کی تلافی عملی تدبیر سے ہوسکتی ہے، نہ کہ منطقی تجزیہ سے۔
قرآن نے اُحد کی جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہی عملی طریقہ اختیار کیا ہے۔ آخرت کی عدالت میں بلا شبہہ ظالموں کو اُن کا ظلم بتایا جائے گا اور اُس پر انہیں سزادی جائے گی۔ مگر دنیا میں اس طرح کے موقع پر کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ معاملہ کا عملی حل دریافت کیا جائے تاکہ اُس کے ذریعہ اپنی شکست کو دوبارہ فتح میں تبدیل کیا جاسکے۔
دو قسمی سوچ
سوچ کی ایک قسم وہ ہے جس کو نفسیات کی اصطلاح میں ثنائی یا دوقسمی سوچ (dichotomous thinking)کہا جاتا ہے۔ یعنی چیزوں کو بلیک اینڈ وہائٹ میں تقسیم کرکے سوچنا۔ یہ طریقہ اکثر اوقات ہلاکت کا باعث ہوتا ہے۔ آدمی کے پاس صرف دو معیار ہوتے ہیں، جب کہ وہاں تیسرا معیار بھی موجود ہوتا ہے۔ مگر آدمی اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر دو صورتوں میں بندھا رہتا ہے۔ وہ تیسری صورت سے بے خبری کی بنا پر اُس کو استعمال نہیں کر پاتا، جب کہ اسی تیسری صورت میں اس کی نجات چھپی ہوئی ہوتی ہے۔مثلاً ایک فرقہ کی طرف سے اس کا مذہبی جلوس نکلتا ہے۔ وہ نعرہ لگاتا ہوا دوسرے فرقہ کے محلّے سے گزرتا ہے۔ محلّے کے لوگ نعرہ کو اپنے خلاف سمجھ کر اُس پر مشتعل ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں دونوں فرقوں کے درمیان ٹکراؤ ہو جاتا ہے جو جان اور مال کے بھیانک نقصان پر ختم ہوتا ہے۔
اس مثال پر غور کیجئے ۔ محلّہ کے لوگ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر معاملہ کو صرف دو رُخ سے دیکھ پاتے ہیںــقابلِ اعتراض نعرہ کو گوارا کرنا یا اس کو بند کرنا۔ چونکہ نعرہ کو گوارا کرنا اُنہیں بزدلی اور بے عزتی معلوم ہوتی ہے اور نعرہ کو بند کرنا اُنہیں ایک بہادرانہ فعل نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ نعرہ کو بند کرنے کے لیے اقدام کرتے ہیں تاکہ اپنی مطلوب پسندیدہ چیز کو حاصل کرسکیں۔ مگر نعرہ کو برداشت نہ کرنے کا نتیجہ عملاً یہ نکلتا ہے کہ اُنہیں خونی فساد کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اس تباہی کا سبب دو قسمی طرز فکر ہے۔ اگر محلّے والے یہ جانیں کہ اُن کے لیے ایک تیسری ممکن صورت بھی ہے، اور وہ ہے نعرہ کو نظر انداز کرنا۔ اگر یہ لوگ اس تیسری صورت پر عمل کریں تو صرف پانچ منٹ کے بعد وہ دیکھیں گے کہ نعرہ لگانے والے اپنے راستہ پر آگے جاچکے ہیں اور اُن کے اشتعال انگیز نعرے فضا میں اس طرح گم ہوچکے ہیں جیسے کہ اُن کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔
دانش مند کی پہچان
ایک مغربی رائٹر ولیم رالف انگ(William Ralph Inge) نے لکھا ہے کہـــدانش مند آدمی وہ ہے جو چیزوں کی اضافی حیثیت کو جانے:
A wise man is he who knows the relative value of things.
چیزوں کی اضافی حیثیت کا مطلب سادہ طورپر یہ ہے کہ آدمی اپنے عمل کے نتیجہ کو جانے۔ عمل کے نتیجہ سے بے خبری اگر نادانی کا ثبوت ہے تو عمل کے نتیجہ سے باخبر ہونا دانش مندی کا ثبوت۔
ایک شخص کے دوست نے اُس کو دھوکہ دے کر ایک لاکھ روپیہ غصب کرلیا۔ اب اُس آدمی کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اُٹھی۔ اُس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے اس سابق دوست کو قتل کر ڈالے۔ اس آدمی کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو میں نے کہا کہ انتقام لینے سے پہلے سوچ لیجیے کہ انتقام کا بھی انتقام لیا جائے گا۔ آپ اپنے سابق دوست کو قتل کریں گے تو اُس کے بیٹے دوبارہ آپ کو قتل کریں گے۔ اس طرح دونوں خاندانوں میں دشمنی اور انتقام کا ایک سلسلہ قائم ہوجائے گا۔
میںنے کہا کہ آپ کی ایک غلطی نے آپ کے دوست کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ کے مال پر قبضہ کرلے۔ اب آپ کے لیے صحیح بات یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کو مانیں اور آئندہ کے لیے اُس کی اصلاح کرلیں۔ انتقام لینا اپنی ایک غلطی کو مسلسل تباہی کی صورت دینا ہے۔ اور انتقام نہ لینا غلطی کو ابتدائی درجہ ہی میں روک دینا ہے۔نادان آدمی صرف اپنے اقدام کو جانتا ہے اور دانش مند آدمی اسی کے ساتھ اپنے اقدام کے اضافی نتیجہ کو بھی۔
سیکنڈچانس
ایک شخص ایک کمپنی میں مینیجر تھا۔ کمپنی کے مالک سے اس مینیجر کا جھگڑا ہوگیا۔ یہ جھگڑا بڑھتا رہا۔ اس جھگڑے نے مینیجر کو سخت ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ سوچنے لگا کہ وہ خود کشی کرلے۔ مسئلہ کو ختم کرنے کے بجائے اُس نے یہ طے کیا کہ وہ خود اپنا خاتمہ کرلے اور اس طرح وہ اس مسئلہ سے نجات حاصل کرے۔
مجھ سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُن سے کہا کہ آپ خود کُشی کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کے لیے زندگی کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ پھر موت کا راستہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت۔ میں نے کہا کہ آپ نے بظاہر صرف فرسٹ چانس کو کھویا ہے، سیکنڈ چانس پھر بھی آپ کے لیے موجود ہے۔ آپ ایساکیجیے کہ اپنی جگہ بدل لیجیے۔ آپ کسی دوسرے شہر میں چلے جائیے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی صلاحیت کی بنا پر دوسرے شہر میں اپنے لیے اچھے مواقع پالیں گے۔ یہ مشورہ دینے کے بعد میں نے اُن کی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے: ’’باغ کا مالی کبھی باغ کے ایک پودے کواپنی جگہ سے اُکھاڑتا ہے، صرف اس لیے تاکہ وہ اُس کو دوسری زیادہ بہتر جگہ پر نصب کرے‘‘۔
انہوں نے میرا مشورہ مان لیا اور کمپنی سے استعفا دے کر ایک اور شہر میں چلے گئے۔ اب وہاں وہ کاروبار کررہے ہیں۔ پہلے کے مقابلہ میں اب وہ معاشی اعتبار سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔
ہر آدمی کی زندگی میں وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ کسی محرومی کا تجربہ کرتا ہے۔ جو لوگ محرومی کو صرف ایک محرومی سمجھیں وہ نئی کوشش کے ذریعہ اپنے آپ کو دوبارہ کامیاب کر لیتے ہیں۔ اور جو لوگ محرومی کو مستقل ناکامی سمجھ لیں وہ پست ہمت ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اُن کے اندر دوبارہ کوئی نیا عمل کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ یہ دونوں حالتیں آدمی کی اپنی سوچ پر منحصر ہیں۔ ایک قسم کی سوچ آدمی کو ناکام بنا دیتی ہے اور دوسری قسم کی سوچ اُس کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔
مشکل آسان ہوگئی
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دس ہزار سے زیادہ اصحاب کے ساتھ مکّہ سے طائف جارہے تھے۔ درمیان میں ایک پہاڑی راستہ آیا جو بظاہر کشادہ نہ تھا۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ راستہ کیسا ہے۔ لوگوں نے راستہ کو اس کی حیثیت ظاہری (face value) پر لیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تنگ راستہ ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دس ہزار سے زیادہ آدمیوں کا یہ قافلہ اس تنگ راستہ سے گذر نہیں سکے گا۔
آپ نے فرمایا کہ نہیں، یہ ہمارے لیے ایک کشادہ راستہ ہے۔ اور پھر آپ نے یہ تدبیر بتائی کہ تم لوگ مجمع کی صورت میں اس راستے سے گذرنا چاہتے ہو اس لیے تم کو یہ راستہ تنگ دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کہ بیک وقت پورے مجمع کو اُس سے گذارنا ہو تو وہ ہمارے لیے تنگ ہی ثابت ہوگا۔ اب تم ایسا کرو کہ آگے پیچھے ہو کر قطار بنا لو۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اب وہ آسانی کے ساتھ چلتے ہوئے اس راستہ سے گذر گئے۔ مجمع کی صورت میں جو راستہ تنگ دکھائی دے رہا تھا قطار کی صورت میں وہ ایک کشادہ راستہ بن گیا۔
یہ سوچ کا فرق ہے۔ اس دنیا میں سب کچھ سوچ پر منحصر ہے۔ غلط سوچ آسان کو مشکل بنا دیتی ہے اور صحیح سوچ مشکل کو آسان کر دیتی ہے۔ سوچ کے اس فرق کا تعلق زندگی کے چھوٹے معاملات سے بھی ہے اور بڑے معاملات سے بھی۔ اُس کا تعلق گھریلو مسائل سے بھی ہے اور قومی اور بین اقوامی مسائل سے بھی۔
غلط سوچ کا نقصان
۱۹۳۰میں الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ علامہ اقبال اس وقت لاہور میں رہتے تھے۔ وہ الٰہ آباد آئے اور اس اجلاس کی صدارت کی۔ اقبال نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہاکہ غیر منقسم ہندستان میں مسلمان اپنی شناخت کو محفوظ نہ رکھ سکیںگے اس لیے ہندستان جب آزاد ہو تو یہاں کے مسلم اکثریتی علاقہ میں ان کا علیٰحدہ مسلم لینڈ بنایا جائے ۔ یہ تجویز بعد کو پاکستان کے نام سے مسلمانوں میں مقبول ہوئی۔یہاں تک کہ ۱۹۴۷ میں بر صغیر ہندسے الگ ایک مسلم علاقہ پاکستان کے نام سے وجود میں آگیا۔
علیٰحدہ مسلم خطہ کا یہ تصور دوسرے مسلم مفکرین نے بھی اختیار کرلیا۔ اور اس تصور پر مبنی بہت سی تحریکیں دنیا کے مختلف حصوں میں وجودمیں آگئیں۔ ان تحریکوں کو ایک لفظ میں پاکستانائزیشن (Pakistanization) کہا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ جس ملک میں بھی کوئی ایسا سرحدی خطہ تھا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں پاکستانائزیشن کی یہ تحریک شدّت کے ساتھ ابھرآئی۔ ہر جگہ ایسے لیڈر پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی پر جوش تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ مسلمانوں میں علیٰحدگی پر مبنی جذباتی سیاست کو فروغ دیا۔ اس سلسلہ میں مثال کے طورپر برما، فلپائن، ابی سینیا، چین، یوگوسلاویا، وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔
یہ علاقائی مسلم لیڈر اپنے پاکستانائزیشن کے خیالی تصور میں دیوانگی کی حد تک پر جوش تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تفریقی سیاست کی تحریک کو پر امن طریقۂ کار تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کو مسلّح جدوجہد (armed struggle) کے دائرہ کی خونیں حد تک پہنچا دیا۔ پاکستانائزیشن کی یہ پر تشدد تحریکیں ہر جگہ ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ اس نے مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ کے سوا کچھ اور کارنامہ انجام نہیں دیا۔
پاکستانائزیشن کی یہ تباہ کن تحریک کیوں کر ساری مسلم دنیا میں مقبول ہوگئی۔ اس کا سبب اس دور کے مسلم رہنماؤں کی ایک خلاف زمانہ سوچ (anachronistic thinking) تھی۔ وہ زمانہ کی نئی تبدیلیوں کو سمجھ نہ سکے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ ساری دنیا ایک ہوکر گلوبلائزیشن (Globalisation)کے دور میں داخل ہورہی تھی، عین اسی زمانہ میں مسلم رہنماؤں نے زمانہ سے اپنی بے خبری کے نتیجہ میں پاکستانائزیشن کی صورت میں برعکس تحریکیں چلا دیں۔ یہ تحریکیں زمانی چٹان سے ٹکرانے کے ہم معنٰی تھیں۔ اس لئے اس قسم کی تحریکوں کا وہی منفی انجام ہوا جو اول دن سے ان کے لئے مقدر تھا۔
جدید زمانی تبدیلیوں نے پچھلے ہر دور سے زیادہ باہمی اختلاط (interaction) کی اہمیت بڑھا دی تھی۔ مگر مسلم لیڈر انتہائی نادانی کے ساتھ اس کے سراسر برعکس اپنی تحریکیں چلا رہے تھے۔ تاریخی تجربات آخری طورپر ثابت کرچکے تھے کہ ترقی کا لازمی ذریعہ چیلینج اور مسابقت (competition)ہے، مگر یہ مسلم لیڈر نہایت سرگرمی کے ساتھ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی دنیا بنانے میں مشغول تھے جہاں ان کے لیے نہ چیلینج ہو اور نہ مسابقت کا ماحول۔ جدید تبدیلیوں نے ترقی کے جو اعلیٰ مواقع کھولے تھے ان سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ وسیع مشترک عمل سے ہی بڑی ترقیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ مگر یہ مسلم لیڈر مسلمانوں کے لیے ایسا سیاسی جزیرہ بنانے کو اپنا کارنامہ سمجھ رہے تھے جہاں وہ مشترک کثیر بین اقوامی تعاون سے محروم ہو گئے ہوں۔
جدید کمیونی کیشن نے جغرافی علیٰحدگی کے تصور کو سراسر غیر ضروری قرار دے دیا تھا۔ مگر یہ مسلم لیڈر اس تبدیلی سے بے خبر ہو کر مضحکہ خیز حد تک بے فائدہ تحریکوں میں اپنا وقت اور مال ضائع کرتے رہے۔ زمانہ نے آزادی اور جمہوریت کی صورت میں ایک عظیم امکان کھولا تھا جو شخصی حکومت کے بجائے عمومی اشتراک طاقت (power sharing) کے اصول پر قائم تھا۔ مگران مسلم لیڈروں نے نہ اس امکان کو سمجھا اور نہ وہ اس کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
جدید تبدیلیوں نے ایک نیا موافق امکان کھولا تھا جس کو اداراتی دور (age of institutions) کہا جاسکتا ہے۔ قدیم شاہی زمانہ کے برعکس ، اب حکومت صر ف ایک منتظمہ (administration) کے محدود سیاسی دائرہ میں سمٹ آئی تھی۔ اس کے سوا ہزاروں نئے شعبے ایسے پیدا ہوگئے تھے جن میں ادارے (institutions) قائم کرکے حکومتی رتبہ سے بھی بڑا رتبہ حاصل کیا جاسکتا تھا، مثلاً تعلیم، اقتصادیات، میڈیا وغیرہ، وغیرہ۔ مگر یہ مسلم لیڈر شعوری طورپر اس جدید امکان سے باخبر ہی نہ تھے پھر وہ اس کو استعمال کس طرح کرتے۔
مثالوں سے استدلال
اکثر لوگ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے فرضی مثال دیا کرتے ہیں۔ مگراس قسم کا طریقہ ادب ہے، نہ کہ استدلال۔ کسی نے درست طورپر کہا ہے کہــــتمثیل کا طریقہ استدلال کا سب سے کمزور طریقہ ہے:
Analogy is the weakest form of argument.
مثلاً جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ہر مذہب نجات کا ذریعہ ہے، ہر مذہب یکساں طور پر خدا تک پہنچانے والا ہے۔ اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے یہ تمثیل دی جاتی ہے کہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایک بلڈنگ ہو تو پہاڑکے جس طرف سے بھی آدمی چڑھ کر اوپر جائے وہ آخر کار بلڈنگ تک پہنچ جائے گا۔ اسی طرح جس مذہبی طریقہ کی پیروی کی جائے وہ آخر کار آدمی کو ایک خدا تک پہنچا دے گا۔
علمی تجزیہ اس تمثیل کو بالکل غلط ثابت کرتا ہے۔ مثلا کلکتہ جانے والا ایک مسافر دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر ہو تو وہ دیکھے گا کہ وہاں درجنوں گاڑیاں مختلف پٹریوں پر کھڑی ہوئی ہیں۔ اب اگر وہ ایسا کرے کہ وہ مذکورہ فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی گاڑی پر بیٹھ جائے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ لازماً اُس کو کلکتہ پہنچا دے۔
تمثیلی استدلال کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ایک صورت حال میں بظاہر درست نظر آتا ہے، لیکن اگر صورت حال کو بدل دیا جائے تواُس کا سارا استدلال بے معنیٰ ہو جائے گا۔ چنانچہ مذکورہ تمثیلی استدلال پہاڑ کی چوٹی کے معاملہ میں بظاہر درست نظر آتا ہے مگر یہی تمثیلی استدلال ریلوے اسٹیشن کے معاملہ کی صورت میں غیر متعلق اور بے معنیٰ ہو کر رہ جاتا ہے۔
چھوٹا شَر
حضرت عمر فاروق کا ایک قول ان الفاظ میںنقل کیا گیا ہے: لیس العاقل الذی یعرف الخیر من الشر ولکنہ الذی یعرف خیر الشرین۔ (العبقریات الاسلامیہ ، ۵۰۵) عقل مند وہ نہیں ہے جو یہ جانے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے، بلکہ عقل مند وہ ہے جو یہ جانے کہ دو شر میں سے کون سا شر بہتر ہے۔
حضرت عمر فاروق کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کے پاس صرف دو فہرست ہو، ایک اُن چیزوں کی فہرست جو خیر ہیں، اور دوسری اُن چیزوں کی فہرست جوشر ہیں، ایسا آدمی عالم تو ہوسکتا ہے مگر وہ عاقل نہیںہوسکتا۔ عاقل یا دانش مند ہونے کے لیے آدمی کوایک اور چیز سے واقفیت ہونی چاہئے، اور وہ خیر الشرین ہے، یعنی دو شر میں سے بہتر شر۔ یہ جاننا کہ دوشر میں سے کون سا شَر نسبتاً کم نقصان والا ہے، یا چھوٹی برائی (lesser evil) کی حیثیت رکھتا ہے۔
مثلاً آپ کے گھر کے سامنے کچھ لوگ قابل اعتراض نعرے لگارہے ہوں تو ایک شر اُن کی یہ نعرہ بازی ہے۔ دوسرا امکانی شر یہ ہے کہ اگر آپ اُنہیں روکیں یا اُن سے نزاع کریں تو وہ مزید مشتعل ہو کر فساد برپا کریں گے اور جان و مال کا نقصان پہنچائیں گے۔ اب عقل مندآدمی وہ ہے جو ٹھنڈے ذہن سے سوچ کر یہ سمجھے کہ دونوں قسم کے شر میں سے کون سا شر بڑا ہے اور کون سا شر چھوٹا۔ اور پھر وہ چھوٹے شر کو برداشت کرلے تاکہ اُس کو بڑا شر برداشت نہ کرنا پڑے۔
عام آدمی معاملات میں صرف دو چیزوں کو جانتا ہیـــــخیر کے پہلو کو اور شر کے پہلو کو۔ مگر دانش مند آدمی وہ ہے جو شر کو دو قسموں میں تقسیم کرسکے، اور پھر دونوں میں سے جوشر مقابلۃً خیر یا بالفاظ دیگر، کم ضرر رساں ہو اُس کو گوارا کرلے تاکہ وہ زیادہ بڑے شر سے بچ سکے۔
تحمل کی طاقت
ایک شہر کے دو آدمیوں میں اَن بن تھی۔ ایک دن ایسا ہوا کہ دونوں کی ملاقات ایک سڑک پر ہوئی۔ مسٹر الف دیکھتے ہی مسٹر ب پر برس اُٹھے۔ اُن کے پاس جتنے سخت الفاظ تھے وہ سب اُنہوں نے مسٹر ب پر خر چ کر ڈالے۔ مسٹر ب خاموش ہو کر اُن کی بات سنتے رہے۔ مسٹر الف دیر تک بولنے کے بعد جب چُپ ہوئے تو مسٹر ب نے کسی ردّ عمل کے بغیر بالکل نارمل انداز میں مسٹر الف سے کہا: میرا خیال ہے کہ آپ تھک گئے ہیں، آئیے ریستوراں میں چل کر چائے پئیں۔ اس کے بعد دونوں قریب کے چائے خانہ میں گئے۔ چائے پیتے پیتے مسٹر الف کا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ آخر میں مسٹر الف نے مسٹر ب سے معافی مانگی اور یہ وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کبھی کسی کے ساتھ ایسا نہیں کریں گے۔
جب کوئی شخص اشتعال انگیز بات کرے تو عام طورپر سننے والا غصہ ہوجاتا ہے۔ وہ جوابی اشتعال کے ذریعہ اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر یہ طریقہ آگ کو آگ کے ذریعہ بجھانے کے ہم معنٰی ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آگ کو پانی کے ذریعہ بجھایا جائے۔ غُصہ کا جواب ضبط وتحمل کے ذریعہ دینے کی کوشش کی جائے۔تحمل صرف ایک اخلاقی صفت نہیں، اس سے بڑھ کر تحمل ایک طاقت و رتدبیر ہے۔ اشتعال کے جواب میں جب آپ غصہ ہو جائیںتو آپ اپنی سب سے بڑی صلاحیت، یعنی عقل کو کھو دیتے ہیں۔ آپ اس قابل نہیں رہتے کہ آپ اپنی عقل کو استعمال کرکے گہرائی کے ساتھ معاملہ کو سمجھیں اور زیادہ کار گر اندازمیں اپنا دفاع کریں۔ غضب ناک آدمی صرف منفی ردّ عمل کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ اس کے برعکس جوآدمی غصہ دلانے کے باوجود غصہ نہ ہو وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ غصہ کے جواب میں مثبت عمل کا ثبوت دے سکے، اور مثبت عمل بلا شبہہ منفی عمل کے مقابلہ میںہزارگنا زیادہ مؤثر اور کامیاب ہے۔
ذہنی سکون
موجودہ زمانہ کا شاید سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کسی بھی انسان کو ذہنی سکون حاصل نہیں۔ تقریباً ہر آدمی ذہنی تناؤ اور فکری الجھن میں مبتلا ہے۔ خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ سامان والا ہو یا بے سروسامان والا۔ پچھلے سال بنگلور کے ایک کمپیوٹر انجینئر کو اس کی ایک ایجاد پر امریکہ کی طرف سے 750 ملین ڈالر اچانک مل گئے۔ مگر اس غیر معمولی دولت نے اس کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کردیا۔ یہاں تک کہ صرف ایک سال کے اندر اس کا یہ حال ہوا کہ اس کی نیند ختم ہوگئی اور رات کے وقت وہ نیند کی گولیاں کھا کر سونے لگا۔ موجودہ دنیا کے بیشتر لوگوں کا حال کم وبیش یہی ہے، خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے۔
اس مسئلہ کا عام طور پر دو حل بتایا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ زیادہ سے زیادہ دولت کماؤ تاکہ زیادہ سے زیادہ راحت کے سامان حاصل کرسکو۔ مگر تجربہ واضح طورپر اس کی تردید کرتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے بے شمار دولت کمائی اور راحت اور آرام کے تمام سامان اپنے پاس اکٹھا کرلئے۔ مگر ان سب کے باوجود وہ سکون اور چین سے محروم رہے یہاں تک کہ وہ مرکر اس دنیا سے چلے گئے۔
اصل یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے معیار پسند (perfectionist)ہے۔ جب کہ موجودہ دنیا ہر اعتبار سے غیر معیاری (imperfect) ہے۔اس صورت حال نے انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک تضاد پیدا کردیا ہے۔ اسی تضاد کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی انسان ہر قسم کے دنیوی سامان کو حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ دنیا کی ہر چیز اس کو اپنے ذہنی معیار سے کم تر معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے وہ ان کو پاکر بھی مطمئن نہیںہوتا۔بظاہر راحت کے سامان کے درمیان بھی وہ ہمیشہ ایک قسم کے غیر شعوری عدم اطمینان میں مبتلا رہتا ہے۔ فطرت کا یہ قانون ثابت کرتا ہے کہ دنیوی راحت کے سامانوں میں ذہنی سکون تلاش کرنا ایک ایسا بے سود عمل ہے جو کبھی کار آمد بننے والا ہی نہیں۔
دوسرا حل وہ ہے جو خاص طور سے یوگا کے مبلّغین کی طرف سے بتایا جاتا ہے۔ ان لوگوںنے ملک کے اندر اور ملک کے باہر بہت سے میڈیٹیشن سینٹر قائم کئے ہیں۔ یہاںدھیان اور میڈیٹیشن کے ذریعہ لوگوں کو ذہنی سکون کی تربیت دی جاتی ہے۔ اُن کا طریقہ یہ ہے کہ مخصوص مراقبہ کے ذریعہ انسانی ذہن میں سوچ کے عمل کو معطّل کر دیا جائے تاکہ وہ پریشانی کو شعوری طور پر محسوس کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ مگر اس قسم کا ذہنی سکون حقیقتاً ذہنی تخدیر (mental anesthesia) کے ہم معنٰی ہے۔ یہ انسان کی اعلیٰ فکر ی صلاحیت کو کند کرکے اس کو بے حس حیوان کی سطح پر پہنچا دینا ہے۔ اس قسم کا ذہنی سکون، اگر بالفرض حاصل بھی ہو جائے تب بھی وہ یقینی طور پر غیر مطلوب چیز ہے۔ کیوں کہ جو چیز انسان کی اعلیٰ فکر ی صلاحیت کو دبا دے وہ گویا انسان کو کوما(coma) کی حالت میں پہنچانا ہے۔ ایسا ذہنی سکون انسانی موت ہے ،نہ کہ انسانی زندگی۔
میڈیٹیشن (meditation) کا یہ طریقہ فطرت کے نظام کی تردید ہے۔ فطرت نے انسان کو جو سب سے اعلیٰ چیز دی ہے وہ اس کا دماغ (mind) ہے ۔ فطرت کے نقشے کے مطابق، دماغ کے لئے پریشانیوں کا پیش آنا کوئی برائی کی بات نہیں۔ یہ دراصل زحمت میں رحمت (blessing in disguise) ہے۔ فطرت نے انسان کی ذہنی ترقی کے لئے شاک ٹریٹمنٹ کا طریقہ رکھا ہے۔ ایسی حالت میں شاک ٹریٹمنٹ کے عمل کو ختم کرنا انسان کے لیے اُس کی ذہنی ترقی کے دروازہ کو بند کرنا ہے۔ اس اعتبار سے یہ طریقہ فطرت کے نظام کے خلاف ہے اور جو چیز فطرت کے نظام کے خلاف ہو وہ اپنے آپ قابل رد ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ذہنی پریشانی(mental tension) کے مسئلہ کا حل ذہنی پریشانی کو ختم کرنا نہیںہے بلکہ اس کو مینیج (manage) کرنا ہے۔ فکری تدبیر کے ذریعہ اس کو اس طرح غیر مؤثر کر دینا ہے کہ وہ عملاً تو انسان کے لئے پیش آئے مگر وہ انسان کے ذہنی سکون کو برہم (disturb) نہ کرسکے۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ایک مثال لیجئے۔ دہلی میں ایک ۳۰ سالہ نوجوان ہیں جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر ہیں۔ ان کو وہاں ۷۵ ہزار روپیہ مہینہ ملتا ہے اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ مگر چونکہ ان کمپنیوں میں ہائر اینڈ فائر کا اصول ہے، اس لئے وہ ہمیشہ ذہنی پریشانی میں مبتلا رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہمیشہ سروس سے محرومی کا اندیشہ (fear of loosing job) ستاتا رہتا ہے، نہ دن کو سکون رہتا ہے اور نہ رات کو۔ میںنے انہیں سمجھایا اور کہا کہ میں آپ کو ایک فارمولا دیتا ہوں، اگر آپ اس کو پکڑ لیں تو آپ کا ذہنی سکون کبھی برہم ہونے والا نہیں ـــــــ ایک شخص آپ کا روز گار چھین سکتا ہے مگر وہ کبھی آپ کی قسمت کو آپ سے چھین نہیں سکتا:
One can take away your job. But no one has the power to take away your destiny.
مذکورہ نوجوان نے اس فارمولا کو پکڑ لیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ ملے اور انہوں نے کہا کہ اب مجھے پوری طرح ذہنی سکون حاصل ہوگیا ہے۔ اب میں اطمینان کے ساتھ سوتا ہوں اور اطمینان کے ساتھ دن گزارتا ہوں۔ اسی طرح ہر آدمی اپنی ذہنی پریشانی کو مینیج کرکے اس کو ڈیفیوز کر سکتا ہے۔ وہ ذہنی پریشانیوں کے باوجود ذہنی سکون کی زندگی حاصل کرسکتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہوا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دماغ اتھاہ صلاحیتوں کا خزانہ ہے۔ تمام ذہنی پریشانیوں کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرسکنا۔ اسی طرح تمام ذہنی پریشانیوں کا حل بھی صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروقت استعمال کرلینا۔
ایک بڑے شہر کے ایک تاجر ہیں۔ اُنہوں نے ایک سامان (production) تیار کیا۔ اس میں انہوں نے پچاس لاکھ روپئے لگا دئیے۔ سامان جب تیار ہوا تو اس کے بعد اچانک مارکیٹ میں اس کی مانگ ختم ہوگئی۔مجبوراً اُنہیں اپنے سامان کو گودام میں رکھ دینا پڑا۔ اس حادثہ کا اُن پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے۔ ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ راتوں کی نیند غائب ہوگئی۔ وہ اعصابی کمزوری کا شکار ہوگئے۔
اُن سے میری ملاقات ہوئی تو میںنے انہیں سمجھایا۔ میں نے کہا کہ آپ اس معاملہ کو صرف حال (present) کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ آپ اپنی اس سوچ کو بدلیے اور معاملہ کو مستقبل(future) کے اعتبار سے دیکھنا شروع کر دیجئے۔ آپ سادہ طورپر صرف اتنا کیجئے کہ اس معاملہ کو انتظار (wait and see)کے خانہ میں ڈال دیجئے۔ انہوں نے میری نصیحت پکڑ لی۔ اس کے تقریبًا دو سال بعد اُن کا خط آیا جس میں انہوں نے خوشی کے ساتھ لکھا تھا کہ میرا تمام سامان نفع کے ساتھ فروخت ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کا انحصار سوچنے کے طریقہ پر ہے۔ اگر آپ ایک طریقہ سے سوچیں تو آپ کا ذہن ایک ڈھنگ کا بنے گا اور اگر آپ دوسرے طریقہ سے سوچیں توآپ کا ذہن دوسرے ڈھنگ پر کام کرنے لگے گا۔ اس طرح ہر مایوسی کو اعتماد میں بدلا جاسکتا ہے اور ہر پست ہمتی کو بلند ہمتی میں۔
آئیڈیل یا پریکٹیکل
اکثر لوگ صرف اس لیے نقصان اٹھاتے ہیں کہ وہ آئیڈیل اور پریکٹیکل میںفرق نہیں کرتے۔ وہ چیزوں کو آئیڈیل کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور جب وہ اُن کے آئیڈیل پر پورا نہیں اُترتا تو وہ اُن کو رد کردیتے ہیں۔ مگر یہ سراسر نادانی کی بات ہے۔ موجودہ دنیا میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو آئیڈیل ملے۔ بیشتر حالات میں اس دنیا میں پریکٹیکل پر راضی ہونا پڑتا ہے۔ یہ کوئی کم ہمتی کی بات نہیں، یہ فطرت کا قانون ہے اوراس دنیا میں فطرت کے قانون کو قبول کرنا پڑتا ہے، نہ کہ اُس سے ٹکرانا۔ یہ اصول انفرادی زندگی کے لیے بھی کارآمد ہے اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی۔
اس معاملہ کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں جو نئے انقلابی تصورات دنیا میں رائج ہوئے اُن میں سے ایک وہ تھا جس کو سیکولرزم(secularism)کہا جاتا ہے۔ یہ نیا سیاسی نظریہ جب دنیا میں آیا تو موجودہ زمانہ کے اسلام پسند رہنماؤں نے اُس کو رد کردیا۔ اُنہوں نے کہا کہ سیکولرزم اسلام کے خلاف ہے، بلکہ وہ اسلام سے اصولی بغاوت ہے۔ اپنے اس ذہن کی بنا پر اُنہوں نے سیکولرزم کا ترجمہ لادینیت کیا۔ حالانکہ یہ ترجمہ ہر گز درست نہیں۔
موجودہ زمانہ میں مسلم ملکوں میں ہرجگہ مغربی طرز پر تعلیم پائے ہوئے لوگ حکومت کررہے تھے۔ وہ سیکولر نظامِ حکومت کے حامی تھے۔ اس بنا پر تمام اسلام پسندوں نے اُن کے خلاف نظری اور عملی جنگ چھیڑ دی۔ ہر مسلم ملک کے مسلمان سیکولر طبقہ اور اسلام پسند طبقہ میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف لڑنے لگے۔ اس بے فائدہ جنگ میں مسلمانوں کو اتنا زیادہ نقصان پہنچا جو پوری مسلم تاریخ میں شاید مسلمانوں کو نہیں پہنچا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سیکولرزم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں۔ سیکولرزم کا مطلب لامذہبیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میںغیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے۔ یہ ایک عملی تدبیر ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کا نظام چلایا جائے۔
یہ سیکولرزم اسلام اور اہل اسلام کے حق میں انتہائی مفید تھا۔ وہ لوگوں کو یہ موقع دے رہا تھا کہ مسلم اور غیر مسلم دونوں قسم کے ملکوں میں یکساں طورپر اسلام کے مقاصد کے لیے عمل کیا جاسکے۔ مدارس و مساجد کی تنظیم، تعمیری اداروں کا قیام، تعلیم و تربیت، دعوت و تبلیغ، اس قسم کے تمام شعبے مکمل طورپر اہل اسلام کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ وہ اُن کو استعمال کرکے ہر ملک میں اسلام کا ایمپائر بنا سکتے تھے۔ یہ ایمپائر اگر چہ غیر سیاسی ہوتا مگر وہ بالواسطہ انداز میں سیاسی نظام پر بھی اثر انداز ہوسکتا تھا۔
مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما سیکولرزم کو آئیڈیل کے معیار پر جانچ کر اُس کے دشمن بنے رہے۔ حالانکہ اگر وہ عملی (پریکٹیکل) بنیاد پر اُس کو دیکھتے تو وہ اُس کو خداکی ایک نعمت سمجھتے اور ایک عظیم موقع کی حیثیت سے اُس کو استعمال کرتے۔
اس معاملہ کا ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان ہے ۔ سیکولرزم کو لادینی اور طاغوتی نظریہ قرار دے کر اُس سے لڑنا سراسر غیر حقیقت پسندانہ تھا۔ وہ فطرت کے نظام کے خلاف تھا۔ وہ پریکٹکل بنیاد پر چلنے والی دنیا میں آئیڈیل بنیاد پر زندگی گذارنے کا غیر عملی پروگرام تھا۔ اس لیے وہ فطری طور پر ناکام ہوگیا۔ اب یہی لوگ عملًا ساری دنیا میں عین اُسی سیکولر نظام کے تحت پُر سکون زندگی گذاررہے ہیں جس کو انہوں نے اس سے پہلے غیر اسلامی قرار دے کر رد کر دیا تھا اور اس کے تحت زندگی گذارنے کو ناجائز بتایا تھا۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس سیکولرزم کو وہ اصولی طورپر اختیار نہ کرسکے تھے اُس کو اُنہوں نے منافقانہ طورپر اختیار کر لیا۔ دو عملی کی یہ روش بلا شبہہ تمام برائیوں میں سب سے زیادہ بڑی برائی ہے۔
مقصد کی حفاظت
قرآن کی سورہ نمبر ۲۲ میںارشاد ہوا ہے: اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک طریقہ مقرر کیا کہ وہ اس کی پیروی کرتے تھے۔ پس وہ اس معاملہ میںتم سے نزاع نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف بلاؤ۔ یقیناً تم سیدھے راستہ پر ہو۔ (الحج ۶۷)
وہ تم سے نزاع نہ کریں، کا مطلب یہ ہے کہ تم اُن کو نزاع کا موقع نہ دو۔فریقِ ثانی سے نزاع میں پڑنے کی قیمت یہ ہے کہ دعوت کا موضوع بدل جائے۔ اس کے برعکس نزاع سے اعراض کا یہ فائدہ ہے کہ دعوت کا اصل نکتہ دونوں کے درمیان زیرِ بحث رہے۔ داعی کے مفاد میں یہ ہے کہ امررب دونوں فریقوں کے درمیان مکالمہ(dialogue) کا موضوع ہو، نہ کہ امر غیر رب۔ باہمی مکالمہ کو اصل نکتہ سے ہٹنے نہ دینا داعی کے مفاد میں ہے اس لیے داعی کو یہ قیمت دینا ہے کہ وہ یک طرفہ اعراض کے ذریعہ اس موافق صورت حال کو برقرار رکھے۔
مولانا محمد الیاس صاحب (بانی تبلیغی جماعت) اپنی تحریک کے ابتدائی زمانہ میں میوات گئے۔ ایک دیہاتی اپنے کھیت کے کنارے کھڑا ہوا تھا۔ مولانا نے اُس سے کلمہ پڑھنے کے لیے کہا۔ یہ دیہاتی اس قسم کی بات سے مانوس نہ تھا۔ وہ غصہ ہوگیا اور مولانا کو ڈھکیل دیا۔ مولانا زمین پر گر پڑے۔ اس کے بعد مولانا خاموشی کے ساتھ دوبارہ اُٹھے اور کسی بھی شکایت کے بغیر اُنہوں نے دیہاتی سے کہا کہ میں بھی کلمہ پڑھتا ہوں اور تم بھی اُس کو دہراؤ۔
مولانا محمد الیاس صاحب کی یہ مثال مذکورہ معاملہ کو اچھی طرح واضح کرتی ہے۔ مولانا الیاس صاحب اگر مذکورہ دیہاتی کی غلط روش کی شکایت کرتے تو موضوعِ گفتگو بدل جاتا۔ اُنہوں نے اُس کی اس روش کو یکسر نظر انداز کیا تاکہ دونوں کے درمیان صرف دین ہی موضوع بحث رہے، کوئی غیرمتعلق چیز ا س میں حائل نہ ہوسکے۔
اس طرح کے معاملہ میں سوچنے کے دوطریقے ہیں۔ ایک یہ کہ فریقِ ثانی کی زیادتیوں کو اہمیت دینا اور اس کے خلاف شکایت و احتجاج کرنا۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فریقِ ثانی کی زیادتی کو نظر انداز کیاجائے اور اُس کو صبر واعراض کے خانہ میں ڈال دیا جائے۔ پہلی روش کا نقصان یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان موضوعِ بحث بدل جاتاہے۔ جب کہ دوسرے طریقہ کا فائدہ یہ ہے کہ موضوعِ بحث کا سلسلہ نہیں ٹوٹتا۔ اصل قابلِ بحث نکتہ ہی دونوں کے درمیان بلا انقطاع بحث کا موضوع بنا رہتا ہے۔
معاملہ برابر ہوگیا
دوسری عالمی جنگ میں امریکہ اور جاپان ایک دوسرے کے حریف تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ اس کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ امریکہ نے ۱۹۴۵ء میں جاپان کے اوپر دو ایٹم بم گرادیئے۔ اس کے نتیجہ میں جاپان کے دو صنعتی شہر تباہ ہوگئے۔ اس واقعہ نے عام جاپانیوں کو سخت غصہ کر دیا، وہ امریکہ سے انتقام کی باتیں کرنے لگے۔
یہ ایک بے حد نازک موقع تھا۔ جاپان اگر انتقام کے راستہ پر چلتا تو وہ اُس کے لیے صرف مزید تباہی کا سبب بنتا۔ مگراُس وقت جاپان کے رہنماؤں اور دانشوروں نے ایسی باتیں کیں جنہوں نے جاپانیوں کے ذہن کو منفی رُخ سے ہٹا کر مثبت رُخ پر ڈال دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ۱۹۴۵ میں اگر امریکہ نے ہمارے شہر (ہیرو شیما اور ناگاساکی) کو تباہ کیا ہے تو ہم بھی اس سے پہلے ۱۹۴۱ء میں اُن کے بحری مرکز پرل ہاربر کو تباہ کرچکے ہیں۔ اس طرح دونوں کے درمیان معاملہ برابر ہوگیا۔ اب تم اس کو بھُلا دو اور جاپان کی نئی تعمیر میں لگ جاؤ۔ اس متوازن سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جاپان چالیس سال کے اندر پہلے سے بھی زیادہ طاقتور مُلک بن گیا۔
جب بھی دو فریقوں کے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہوتی ہے تو ہر فریق کی سوچ یک طرفہ رُخ پر چلنے لگتی ہے۔ ہر فریق یک طرفہ طور پر صرف دوسرے فریق کی زیادتیوں کو یاد رکھتا ہے اوراُس کو بیان کرتا ہے۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی سوچ غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے حصہ کی زیادتی کو بھلا کر صرف دوسرے کے حصہ کی زیادتی کو یادرکھتے ہیں۔ سوچنے کا یہ طریقہ ہمیشہ تباہ کُن ثابت ہوتا ہے، افراد کے لیے بھی اور قوموں کے لیے بھی۔اس غیر متوازن طرز فکر کو قرآن میں تطفیف کہا گیا ہے اور اُس پر ویل کی خبر دی گئی ہے (المطففین ۱۔۶)۔ نزاعی معاملات میں غیر متوازن طرز فکر ہمیشہ تباہی کا سبب بنتاہے، اور متوازن طرزِ فکر ہمیشہ ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔
سیاق وسباق کی اہمیت
کسی بات پرکوصحیح طور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے سیاق (context) کو سامنے رکھا جائے۔ اس معاملہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر سیاق کو بدل دیاجائے تو سارا مفہوم ہی بدل جائے گا۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ایک مثال لیجئے۔ راقم الحروف کی کتاب تذکیر القرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب نے لکھا ہے:
’’مولانا وحید الدین کے نظریات سے اختلاف الگ بات ہے۔ اور مولانا کے اس نظریہ کو کہ ہندستانی مسلمان ہندستان میں بے مسائل (بے حقوق)ہوکر رہیں گے تو اُنہیں اس ملک میںامن نصیب ہوگا،ورنہ نہیںہوگا۔ اس نظریہ کو آنے والا مؤرخ پسپائی، ہزیمت اور بزدلی کے کون سے درجہ میں رکھے گا، یہ وہی جانیں۔‘‘ (علماء دیوبند کی تفسیری خدمات، صفحہ ۴۹)
اس تنقیدی ریمارک میں میری کوئی عبارت نقل نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ بطور خود کچھ الفاظ لکھ کر اُن کو میرا نظریہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ طریقہ سراسر غیر علمی ہے۔ اس اقتباس میں میرا جو نظریہ بتایا گیا ہے وہ میرا نظریہ ہی نہیں۔میرا کہنا یہ ہے کہ مسلمان اس ملک میں داعی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اوراُن کے مقابلہ میں برادرانِ وطن کی حیثیت مدعو کی ہے۔ یعنی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو رشتہ ہے وہ قومی حریف کا رشتہ نہیں ہے بلکہ وہ داعی اور مدعو کا رشتہ ہے۔
دو قوموں کے درمیان اگر حریف اور رقیب کا رشتہ ہو تو اسی کے مطابق اُن کے تعلقات قائم ہوں گے۔ ایسی حالت میں اگر ایک قوم دوسری قوم کے خلاف اپنے دنیوی حقوق کے لیے احتجاج اور مطالبہ کی مہم چلائے تو وہ بالکل درست ہوگی۔ مثلاً پسماندہ طبقہ کی طرف سے اونچی ذات کے لوگوں کے خلاف یا محنت کش طبقہ کی طرف سے سرمایہ دار طبقہ کے خلاف حقوق طلبی کی مہم۔ ایسے کسی گروہ کے لیے اس قسم کی مہم چلانے کا معیار اُن کے لیے صرف ملکی قانون اورملکی دستور ہے۔ اب چونکہ ملکی قانون اور ملکی دستور اس قسم کی مہم کی اجازت دیتا ہے اس لیے وہ اُن گروہوں کے لیے جائز مہم قرار پائے گی۔
مگر اہل اسلام کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اہلِ اسلام کے لیے صرف وہ مسلک درست ہے جو قرآن و سنت کے مطابق درست ہو۔ اور وہ مسلک غلط ہے جو قرآن و سنت سے غلط قرار پائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن و سنت کے معیار کے مطابق، اہل اسلام کی حیثیت داعی کی ہے اور بقیہ قوموں کی حیثیت مدعو کی۔ یہ تعلق بے حد نازک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل اسلام کی حیثیت دینے والے گروہ (giver group)کی ہے اور دوسری قوموں کی حیثیت لینے والے گروہ (taker group) کی ۔
داعی اور مدعو کے اس رشتہ کا تقاضہ ہے کہ اہلِ اسلام اپنے مسائل کے لیے احتجاج اور مطالبات کا طریقہ نہ اختیار کریں، کیوں کہ اس سے داعی اور مدعو کے درمیان دعوت کی معتدل فضا باقی نہیں رہتی۔ اس نازک رشتہ کا تقاضہ ہے کہ اہلِ اسلام اپنے مسائل کو خود اپنی کوشش سے حل کریں۔
اس وضاحت سے اندازہ ہوتا ہے کہ راقم الحروف نے جو بات دعوت کے سیاق میں کہی تھی اُس کو اُس کے سیاق سے ہٹا کر دوسرے غیر متعلق سیاق سے جوڑ دیا گیا۔ اس طرح کلام کا اصل منشاء بالکل بدل کر رہ گیا۔
حافظہ کا مسئلہ
ایک صاحب ہیں جو اپنے ماضی کی بعض تلخ یادوں کی وجہ سے سخت پریشان رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی وجہ سے اُن کی صحت خراب ہوگئی ہے۔ اُن کے سامنے میں نے ایک اُردو شاعر کا ایک شعر پڑھا۔ وہ شعر یہ تھا:
یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
انہوں نے اس شعر کو سنتے ہی کہا کہ بہت خوبصورت شعر ہے۔ اُن کا تبصرہ سن کر میں نے کہا کہ میرے نزدیک تو یہ بہت بد صورت شعر ہے۔ پھر میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حافظہ ایک عظیم نعمت ہے ۔ حافظہ ہی کی وجہ سے ہم چیزوں کو جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں۔ اگر یہ دعا ء قبول ہو جائے اور آدمی کا حافظہ ختم ہو جائے تو وہ بظاہر ایک انسان ہوگا مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ بھیڑ بکری سے بھی بدتر ہوجائے گا۔ میںکئی ایسے آدمیوں کو جانتا ہوں جن کا حافظہ بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے ختم ہوگیا تھا۔ اُن کا حال یہ ہوا کہ وہ نہ کچھ بول سکتے تھے اور نہ کسی کو پہچانتے تھے۔ وہ بے بسی کی حالت میں چند سال اسی طرح زندہ رہے اور پھر مر گئے۔
اس معاملہ میں سوچنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی حافظہ کو ختم کرنے کے بجائے حافظہ کی ناخوش گوار باتوں کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرے۔ وہ اُن کا تجزیہ کرکے انہیں اپنے لیے غیر مؤثر بنادے۔
مثلاً ایک شخص کے اوپر کسی آدمی کا قرض ہے۔ وہ قرض نہیں دے پارہا ہے اور اس بنا پر وہ غم میںگھل رہا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ قرض اور قرض کے غم کو ایک دوسرے سے الگ کردے۔ وہ قرض کی ادائیگی کی تدبیر کرے مگر وہ قرض کو اپنا غم نہ بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اس سے بچائے کہ قرض کے مسئلہ کے ساتھ ایک اور مسئلہ اُس کی زندگی میں شامل ہوجائے اور وہ ذہنی ٹینشن (mental tension) ہے۔ جب کہ ٹینشن کا مسئلہ بلا شبہہ قرض کے مسئلہ سے زیادہ شدید ہے۔ قرض کا مسئلہ اگر صرف مسئلہ ہے تو ٹینشن ایک قسم کی ذہنی خود کُشی۔ کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اس نادانی سے بچائے کہ وہ ایک چھوٹے مسئلہ کو اپنے لیے زیادہ بڑا مسئلہ بنا لے۔
قناعت، ترقی
اکثر خبریں آتی ہیں کہ فلاں بڑی کمپنی دیوالیہ ہوگئی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ پن (Bankruptcy) کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس کا سبب صرف ایک ہے، او ر وہ ہے اپنی طاقت سے زیادہ بڑی چھلانگ لگانا۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کمپنی کے پاس ذاتی سرمایہ صرف چندملین ڈالر ہے۔ مگر وہ ایک ایسے صنعتی کاروبار کا منصوبہ بناتی ہے جس کوقائم کرنے کے لیے کئی بلین ڈالر درکار ہیں۔ اب وہ بینک سے سودی قرض لیتی ہے۔ یہ قرض سود کے ساتھ قسطوں میںادا کیا جاتا ہے۔ اب اگر کمپنی کی آمدنی حسب اندازہ جاری رہے تو قرض کی قسطیں بھی ادا ہو تی رہیں گی۔ لیکن اگر کسی وجہ سے آمدنی میں خلل پڑ جائے تو کمپنی اس قابل نہ رہے گی کہ وہ قرض کی قسطوں کو ادا کرسکے۔ اسی توازن کے ٹوٹنے کا نام دیوالیہ پن ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر مادّہ پرست انسان کو کسی نہ کسی صورت میں پیش آتا ہے۔
یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ایک نہایت گہرا سبب ہے۔ ہر آدمی پیدائشی طورپر زیادہ کی طلب رکھتا ہے۔ اپنی طلب میں کسی حدپر رکنا انسانی مزاج کے خلاف ہے۔ یہی وہ فطری مزاج ہے جو مذکورہ مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ مادّی طرز فکر میں اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں۔ جو آدمی مادّی کامیابی کی اصطلاحوں میں سوچتا ہو وہ کبھی اس کمزوری سے بچ نہیں سکتا۔ اُس سے یہ کہنا کہ تم ایک مادّی حدپر رُک جاؤ، اُس کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ قابل عمل بھی نہیں۔
اس معاملہ میںقابلِ عمل فارمولہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے آخرت پسندانہ سوچ۔ آخرت پسندی کے مطابق، اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ آدمی دنیا میں بقدر ضرورت پر راضی ہوجائے اور آخرت میں بقدرِ شوق کا طلب گار ہو۔ یعنی دنیا میں ضرورت کو کافی سمجھنا ، اور زیادہ کی طلب کا رُخ آخرت کی طرف کر دینا۔ مختصر الفاظ میں، اس کا فارمولا یہ ہیـــــدنیا میںمحدود پر راضی ہونا اور لامحدود کو آخرت میں چاہنا۔
یک طرفہ ایڈجسٹمنٹ
جب بھی دو آدمیوں یا دو گروہوں کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہو تو ہر فریق کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے فریق سے اپنی بات منوائے، وہ دوسرے فریق سے اپنے مزعومہ حق کو وصول کرے۔ مگر یہ طریقہ سراسر غیر فطری ہے۔ اس طریقہ کا واحد انجام یہ ہے کہ وقتی مسئلہ ایک لامتناہی مسئلہ بن جائے۔ مزید یہ کہ اصل مسئلہ تو ختم نہ ہو اور نئے مسئلے پیدا ہوکر معاملہ کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنادیں۔
نزاعی مسئلہ کا کامیاب حل صرف ایک ہے۔ اور وہ یک طرفہ مفاہمت (unilateral adjustment) ہے۔ دونوں میں سے جو فریق پہلے یک طرفہ مفاہمت پر راضی ہوجائے وہی ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ اور جو فریق راضی نہ ہو اُس کو ہمیشہ یہ قیمت دینی پڑتی ہے کہ وہ معاملہ کے اُس خاتمہ پر ذلّت کے ساتھ راضی ہو جس پر ابتدائی مرحلہ میں عزّت کے ساتھ سمجھوتہ ہوسکتا تھا مگر اُس وقت اُس نے سمجھوتہ نہیںکیا۔
قرآن میں اس اُصول کو دو لفظ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: والصلح خیر (النساء ۱۲۸) یعنی صلح بہتر ہے:
Reconciliation is the best.
قرآن میںیہ آیت ازدواجی نزاع کے ذیل میں آئی ہے۔ مگر یہ ایک عمومی اُصول ہے، اوراس کاتعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، خواہ وہ انفرادی ہو یااجتماعی۔
صلح (reconciliation) کا اُلٹا لفظ جنگ ہے۔ جنگ کی نفسیات یہ ہے کہ ہر آدمی دوسرے کو زیر کرکے اپنا حق وصول کرنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس صُلح کا طریقہ دو اور لو (give and take) کے اُصول پر قائم ہے۔ اس دوسرے طریقہ میں ہر فریق یہ کوشش کرتا ہے کہ ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے اور پُرامن بات چیت کے ذریعہ دو طرفہ رضا مندی سے مسئلہ حل ہوجائے۔
جنگ کے طریقہ میں ہر فریق کی نظر موجود پرہوتی ہے۔ یعنی جو چیز سامنے موجود ہے اُس پر قبضہ کرنا۔ جو لوگ جنگ کی نفسیات کا شکار ہوں وہ موجود پر قبضہ کو جیت اور موجود کے کھونے کو ہار سمجھتے ہیں۔ مگر صُلح کی نفسیات والا انسان حال کے بجائے مستقبل کو دیکھتا ہے۔ اُس کی بصیرت اُس کو یہ بتاتی ہے کہ جو کچھ بروقت سامنے نظر آتا ہے، اُس سے بہت زیادہ وہ ہے جو اگر چہ بر وقت نظر نہیں آتا مگر دانش مندانہ عمل کے ذریعہ اُس کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جنگ پسند آدمی کی نظر حال میں اٹکی ہوئی ہوتی ہے اور صُلح پسند آدمی کی نظر مستقبل کی طرف متوجہ رہتی ہے۔ یہی مستقبل بینی تمام بڑی بڑی کامیابیوں کا واحد راز ہے۔
مشکل میں آسانی
قرآن کی سورہ نمبر ۹۴ میں فطرت کے ایک عالمگیر اُصول کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: فإن مع العسر یُسراً ، إن مع العسر یُسرا (الانشراح ۵۔۶) یعنی بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے:
With every hardship there is ease, with every hardship there is ease.
اس قرآنی آیت میںایک ایسی سوچ کی تعلیم دی گئی ہے جس کو بر تر انداز فکر (high thinking) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی مشکلات سے اوپر اُٹھ کر سوچنا۔اس کا مقصد آدمی کے اندر ایک ایسے طرز فکر کو پیدا کرناہے جو دشواریوں میں گھر کر نہ رہ جائے بلکہ دشواریوں سے باہر آکر سوچے۔ جو آدمی اس برتر سوچ کا ثبوت دے وہ بہت جلد دریافت کرے گا کہ جہاںبظاہر صرف مسائل دکھائی دے رہے تھے وہاں ایسے مواقع بھی موجود تھے جن سے نہ صرف مسائل کو حل کیا جائے بلکہ اپنی ناکامی کو دوبارہ کامیابی میں بدل لیا جائے۔
اس معاملہ کی بہت سی مثالیں ماضی اور حال میں موجود ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی میں وسط ایشیا کے وحشی قبائل جن کو منگول کہا جاتاہے، اپنی کوہستانی بستیوں سے نکلے اورعباسی سلطنت کو ختم کرکے سمرقند سے حلب تک تمام مسلم شہروں میں چھاگئے۔ اس واقعہ کو مؤرخ ابن اثیر نے ایک ایسی آفت بتایا ہے جو تاریخ میں کبھی پیش نہیں آئی اور نہ شاید دوبارہ پیش آئے۔
گویا اپنے ظاہر کے اعتبار سے یہ ایک عظیم عُسر (بہت بڑی مشکل) کا معاملہ تھا۔ مگر اس مشکل میں ایک آسان پہلو نکل آیا۔ وہ یہ کہ اس فوجی دراندازی کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ مدعو خود داعی کی آبادیوں میں داخل ہوگیا۔ اس کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ روزانہ مختلف صورتوں میں داعی اور مدعو کے درمیان اختلاط (enteraction)اور بحث و گفتگو (dialogue) ہونے لگا۔ یہ جنگ ابتداء میں قتل وخون دکھائی دیتی تھی مگر بعد کے مرحلہ میں وہ اسلام کو موضوع بحث بنانے کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ اس طرح ایک فطری نتیجہ کے طورپر مسلمانوں کی طرف سے منگولوں کے اوپر اسلامی دعوت کا عمل (process) جاری ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچاس سال کے اندر منگولوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئیــــــمنگولوں کے ساتھ اس جنگ میں بظاہر مسلمان ہارے تھے مگر عین اُسی وقت اسلام نے شاندار کامیابی حاصل کر لی۔
اسی تاریخی حقیقت کو ایک مغربی مؤرخ نے ان الفاظ میںادا کیا ہیـــــمسلمانوں کے مذہب نے وہاں کامیابی حاصل کر لی جہاں ان کے ہتھیار ناکام ہوچکے تھے:
The religion of Muslims have conqured where their arms had failed.
تعمیم کی غلطی
سوچ کی غلطی کی ایک صورت وہ ہے جس کو تعمیم (genralisation) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک استثنائی مثال کو لے کر اُس کو عمومی شکل دینا اور اُس سے کُلّی رائے بنانا۔ تعمیم کی غلطی اتنی زیادہ عام ہے کہ بہت کم لوگ اس سے بچے ہوئے نظر آئیں گے۔
مثلاً بائبل (نیا عہد نامہ) میں ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا: یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صُلح کرانے آیا ہوں۔ صُلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں:
“Donot think that I came to bring peace on earth. I did not come to bring peace but a sword.” (Matthew, 10:29)
حضرت مسیح کا یہ قول اُن کے پورے کلام میںایک استثناء کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُن کے زیادہ تر اقوال محبت اوراخلاق جیسی تعلیمات پر مبنی ہیں۔ ایسی حالت میں مذکورہ قول کو لے کر یہ کہنا کہ حضرت مسیح کا مشن تلوار چلوانا تھا، ایک استثناء کو عموم کا درجہ دینا ہوگا۔ یہ ایک غلط تعمیم ہو گی جو علمی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں۔
اسی قسم کی غلط تعمیم قرآن کے بارے میں بھی کی گئی ہے۔ قرآن سے قتال کی بعض آیتوں کو لے کر کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن جنگ و قتال کی کتاب ہے۔ حالانکہ یہ ایک کھلی ہوئی غلط تعمیم ہے۔ قرآن کی ننانوے فیصد سے زیادہ آیتیں وہ ہیں جو امن اور انسانیت جیسے مثبت موضوعات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک فیصد سے بھی کم آیتیں وہ ہیںجو کھُلی ہوئی جارحیت کی صورت میں دفاع کے احکام بتاتی ہیں۔ ایسی حالت میں چند آیتوں کو لے کر یہ کہنا کہ یہی قرآن کی عمومی تعلیم ہے، سراسر غلط ہے اور علمی اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔
تعمیم کی یہ فکری بُرائی ہمارے معاشرہ میں بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ لوگوں کا عام مزاج یہ ہے کہ جس آدمی سے وہ خوش ہوں گے اُس کی کچھ خوبیوں کو لے کر اُس کو مبالغہ آمیز انداز میں بیان کریں گے۔ وہ انہی چند خوبیوں کی بنیاد پر اپنے محبوب کی مکمل تصویر بنائیں گے۔ اس کے برعکس، جس آدمی سے وہ ناخوش ہوں اُس کی خوبیوں کو وہ نظر انداز کریں گے۔ وہ ڈھونڈ کر اُس کی کچھ برائیاں نکالیں گے اور ان برائیوں کو مبالغہ آمیز انداز میں بیان کرکے یہ تأثر دیں گے کہ یہی اُن کے مبغوض آدمی کی مکمل تصویر ہے۔
تعمیم کی یہ دونوں ہی صورتیں سراسر غلط ہیں۔ یہ طریقہ غیر علمی بھی ہے اوراخلاق اور انصاف کے خلاف بھی۔ جس معاشرہ میںتعمیم کا یہ طریقہ رائج ہو جائے وہاں ہر آدمی کی تصویر مصنوعی بن جائے گی۔ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں ایسی رائیں قائم کریں گے جن کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔
راقم الحروف کو بھی اپنے دعوتی مشن میںاس قسم کی غلط تعمیم کا تجربہ ہوا ہے۔ مثلاً کچھ لوگ میرے بارے میں یہ مشہور کرتے ہیں کہ اُن کو تو بس ایک بات اسلام میں ملی ہے، صلح حدیبیہ۔ حالانکہ یہ سراسر بے بنیاد بات ہے۔ میری دو سو سے زیادہ کتابیں ہیں اور ہزاروں سے زیادہ مقالات و مضامین چھپ چکے ہیں۔ کوئی شخص ان میں دیکھ سکتا ہے کہ میری ان تحریروں میں صلح حدیبیہ کی بات ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اسلام کی دوسری تعلیمات اور وقت کے مسائل کا اسلامی جواب جیسے مضامین سے میری تحریریں بھر ی ہوئی ہیں۔ مگر خود ساختہ تعمیم کے ذریعہ یہ غلط تأثر دیا جاتا ہے کہ مجھے تو سارے قرآن و حدیث میں صرف ایک چیز ملی ہے، صلح۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیںاُن کا معاملہ بلا شبہہ غیر علمی بھی ہے اور دیانت کے خلاف بھی۔
سبق لینا، نہ کہ سبق سکھانا
۱۹۴۷ سے ۱۹۷۱ تک بنگلہ دیش کا نام مشرقی پاکستان تھا۔ اس وقت وہ پاکستان کا مشرقی حصہ تھا۔ ۱۹۷۱ میں بنگلہ دیش کے لوگوں نے پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کردی۔ اس جنگ میں انڈیا نے بنگلہ دیشیوں کا ساتھ دیا۔ اس طرح انڈیا کی فوجی مدد کے ذریعہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش کے نام سے ایک مستقل ملک بن گیا۔اس واقعہ کے بعد پاکستان کے لیڈروں نے کہا کہ ہم انڈیا سے انتقام لیں گے۔ وہ انڈیا پر براہ راست حملہ نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کشمیر اور پنجاب میںاپنی خفیہ مدد کے ذریعہ پراکسی وار چھیڑ دی۔ یہ پراکسی وار صرف پاکستان کی مزید تباہی کا ذریعہ بنی۔
اس معاملہ میں پاکستان کے لیے سبق سکھانے کی پالیسی درست نہ تھی۔ اُس کے لیے زیادہ صحیح پالیسی سبق لینے کی تھی۔ پاکستان کو ۱۹۷۱ کے واقعہ سے یہ سبق لینا چاہئے تھا کہ بنگلہ دیش کا نام مشرقی پاکستان رکھ کر اس کو ایک ملک کی حیثیت سے پاکستان کا حصہ قرار دینا ایک غیر حقیقت پسندانہ سیاست تھی جو عملاً چلنے والی نہ تھی۔۱۹۷۱ میں بنگلہ دیش کی علیٰحدگی اپنی حقیقت کے اعتبار سے انڈیا کی مداخلت کا نتیجہ نہ تھی بلکہ وہ ایک غیر حقیقت پسندانہ سیاست کا فطر ی انجام تھا جو اپنے وقت پر پیش آیا۔ مگر پاکستانی لیڈروں کے ذہن میں سبق سکھانے کا تصور اتنا زیادہ چھایا ہوا تھا کہ اس واقعہ سے وہ اصل مطلوب سبق نہ لے سکے۔ چنانچہ اس کے بعد بھی وہ بار بار نہایت سنگین قسم کی غیر حقیقت پسندانہ سیاست میں مبتلا ہوئے اور اس کے بھیانک انجام سے دوچار ہوتے رہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان میں جنگجوؤں کی پرورش ہے جو انہوں نے ’’عظیم تر پاکستان‘‘ کے خیالی تصور کو واقعہ بنانے کے لئے کی۔ اگرچہ اس کا بھی فطری انجام یہی ہوا کہ پاکستان ہر اعتبار سے ایک دیوالیہ ملک بن کر رہ گیا۔
عملی طریقہ
ایک مسلمان طالب علم سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے سرکے بال منڈے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران اُنہوں نے بتایا کہ وہ جس مدرسے میں پڑھتے ہیں اُن کے ناظم نے اُن کے اور دوسرے طالب علموں کے سر کے بال منڈوادیئے ہیں۔ ناظم صاحب نے وجہ یہ بتائی کہ مجھ کو بڑے بڑے بال اچھے نہیں لگتے۔ میںنے پوچھا کہ جن طلبہ کے سر کے بال منڈوائے گئے اُنہوں نے کچھ احتجاج، وغیرہ کیا۔ مذکورہ طالب علم نے بتایا کہ نہیں۔ طلبہ نے اس کو بہت زیادہ برا مانا لیکن وہ اس پر خاموش رہے۔ اس لیے کہ اگر وہ احتجاج کرتے تو مدرسہ سے ان کا اخراج کر دیا جاتا۔
اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو ناظم صاحب کا طلبہ کے سر کے بال منڈوانا طلبہ کے لیے ایک اشتعال انگیز واقعہ تھا۔ مگر ان طلبہ نے ایسا نہیں کیا کہ وہ بال منڈوانے کے معاملہ کو اُصولی اور نظری معیار پر جانچیں۔ بلکہ وہ سب اس معاملہ میں عملی (پریکٹیکل) بن گئے۔ ایک معاملہ جو نظری بنیاد پر قابل قبول نہ تھا اُس کو انہوں نے عملی بنیاد پر قبول کرلیا۔
غور کیجیے تو ہر آدمی اپنی ذاتی زندگی میں یہی کرتا ہے۔ وہ معاملہ کے نظری پہلو پر اصرار نہ کرتے ہوئے بھی عملی بنیاد پر اُس کو ماننے کے لیے راضی ہوجاتا ہے۔ مگر انہی افراد کا حال یہ ہے کہ جب معاملہ قومی اور ملّی ہو تو وہ فوراً اُس کو نظری اور اُصولی اعتبار سے جانچنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ ایسانہیں کرتے کہ عملی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلہ کو ختم کردیں۔
لوگوں میں یہ تضاد کیوں ہے کہ وہ اپنے انفرادی معاملہ میں حقیقت پسند ہوتے ہیں اور جب ملّت کامعاملہ ہو تو وہ غیر حقیقت پسند بن جاتے ہیں۔ اس کا سبب لوگوں میں ذہنی بیداری کا نہ ہونا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی اُس کے نفع اور نقصان کو خود بھگت رہا ہوتا ہے، اس لیے وہ کسی سوچ کے بغیر صرف ذاتی تجربہ کی بنیاد پر صحیح رائے تک پہنچ جاتا ہے۔ ذاتی معاملہ میں رائے قائم کرنے کے لیے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ذاتی تجربہ کی تلخی اور شیرینی اُس کا رویہ متعین کرنے کے لیے کافی ہو جاتی ہے۔ یہ عین وہی معاملہ ہے جو ہر حیوان کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہر حیوان اپنے ذاتی معاملہ میںجان لیتا ہے کہ اُسے کیا کرنا چاہئے۔ مگر دوسرے کے معاملہ میں وہ اُس کو جان نہیںپاتا۔ کیوں کہ دوسرے کے معاملہ کو جاننے کے لیے فہم درکار ہے جو کہ حیوان میں نہیں ہوتی۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اُن کے درمیان کوئی ایسی تحریک نہیں اُٹھی جو اُن کے اندر ذہنی بیداری پیدا کرے۔ جو فن تفکیر (art of thinking) کے اصولوں کی روشنی میں اُن کی ذہنی تربیت کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی مسلم نسلیں فکری ارتقاء سے محروم ہیں۔ لوگ بس حیوانی سطح پر جی رہے ہیں، ذہنی ارتقاء یا فکری عمل (thinking process) کی اُنہیں خبر ہی نہیں۔
اقدام نتیجہ خیز ہونا چاہئے
بنی اسرائیل کے اندر پیش آنے والے واقعات میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے زمانہ میں پیش آیا۔ قرآن کے مطابق، ایسا ہوا کہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے اوپر حضرت ہارون کو ذمہ دار بنا کر کچھ دنوں کے لئے کوہ طور پر چلے گئے۔ اس دوران بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ہارون نے انہیں روکا مگر قوم کی طرف سے شدت دیکھ کر وہ اس معاملہ میں خاموش ہوگئے۔ مگر جب حضرت موسیٰ واپس آئے تو انہوں نے اس مصنوعی بچھڑے کو توڑ کر پھینک دیا اور مجرمین کو سزا دی (الاعراف، طہٰ)
یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے عمل میں یہ فرق کیوں تھا۔ کیا وجہ ہے کہ حضرت ہارون نے کھلے ہوئے شرک کے ایک معاملہ کو عملاً برداشت کیا جب کہ حضرت موسیٰ نے اس کو توڑ کر اور جلا کر ختم کردیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ہارون نے غور وفکر کے بعد یہ جانا کہ اگر وہ عملی اقدام کرتے ہیں تو ایک گروہ ان کا ساتھ دے گا اوردوسرا گروہ بچھڑا پوجنے والوں کے ساتھ رہے گا۔ اس طرح قوم دو گروہوں میں بٹ کر باہمی لڑائی شروع کردے گی، مگر حضرت موسیٰ کے عمل کی صورت میں یہ اندیشہ نہ تھا۔ حضرت موسیٰ کو قوم میں غالب حیثیت حاصل تھی۔ اس بنا پر یہ ممکن تھا کہ وہ قوم میںجس فیصلہ کو چاہیں نافذ کریں۔
اس واقعہ پر غور کرنے کے بعد یہ اصول ملتا ہے کہ عمل کو ہمیشہ نتیجہ رخی (result-oriented) ہونا چاہئے۔ اگر عملی اقدام نہیںکرنے سے نتیجہ مطلوب صورت میںنکلنے والا ہو تو عملی اقدام کیا جائے گا اور اگر یہ اندیشہ ہو کہ عملی اقدام سے حالات بگڑ جائیں گے اور ایک برائی کی جگہ دو برائی پیدا ہو جائے گی تو عملی اقدام نہ کیا جائے گا۔
ذہنی تناؤ
جدید صنعتی دور نے انسانی زندگی کو بعض نئی قسم کی پیچیدگیوں میںمبتلا کردیا ہے۔ یہ چیزیں ابتدائی درجہ میں ہمیشہ موجود تھیں مگر موجودہ انتہائی درجہ میں اُن کا تجربہ انسان کو پہلی بار ہوا ہے۔ انہی میں سے ایک نمایاں مسئلہ وہ ہے جس کو ذہنی تناؤ(mental tension) کہا جاتا ہے۔
پیس آف مائنڈ کے ڈسٹرب ہونے کا سبب زیادہ تر وہ چیز ہوتی ہے جس کو ٹینشن یا اسٹرس کہا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی بھی شخص کے لئے ٹینشن اور اسٹرس سے بچنا ممکن نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس معاملہ میں کیا کیا جائے۔ مگر میں کہوں گا کہ ٹنشن یا اسٹرس کوئی برائی (evil)نہیں۔ بلکہ وہ انسان کے لئے ایک نعمت (boon)کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیوں کہ اگر آدمی کے اندر منٹل ٹنشن نہ ہو تو اس کے اندر برین اسٹارمنگ نہیں ہوگی۔ اور اگر برین اسٹارمنگ نہ ہو تو مائنڈ کے اندر وہ سرگرمیاں (activiteis) پیدا نہیں ہوں گی جو اعلیٰ انٹلکچول ڈیولپمنٹکا واحد ذریعہ ہیں۔
میںسمجھتا ہوں کہ ٹینشن اور اسٹریس کا یہ کوئیصحت مند حل نہیں ہے کہ اس کو روکنے کی کوشش کی جائے یا اس کو مکمل طورپردبا دینیکی کوشش کی جائے۔ اس قسم کا حل ایک قسم کی ذہنی تخدیر (intellectual anaesthesia) ہے۔ ایسی تخدیر ذہنی ترقی کے عمل کو روک کر انسان کوحیوانی سطح پر لے جانے کے ہم معنٰی ہے۔
So the solution lies in managing the crisis/ tension and not in suppressing it.
معیار کا فرق
ایک صاحب نے میری تحریروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں۔ مگر آپ کی تحریروں میںتضاد پایا جاتا ہے۔ میںنے کہا کہ اس کی کوئی مثال دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے ایک طرف سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لوگ بلاشبہہ مخلص تھے۔ مگر اسی کے ساتھ آپ یہ لکھتے ہیں کہ ۱۸۳۱ء میںاُنہوں نے پنجاب میں جو جہاد کیا وہ ایک غیر دانش مندانہ اقدام تھا۔ ایک طرف آپ شہید ین کی تعریف کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ اُن کی تنقید کرتے ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں۔
میںنے کہا کہ یہ تضاد کی بات نہیں ہے بلکہ یہ فکری معیار کے فرق کی بات ہے۔ آپ لوگوں کا فکر ی معیار یہ ہے کہ آپ جن افراد کو اکابر کا درجہ دے دیں، اُن کے بارے میں آپ شعوری یا غیرشعوری طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ غلطی نہیں کرسکتے، اُنہوں نے جو کچھ کہا یا کیا وہ سب درست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے مزعومہ اکابر کے بارے میں اگر کوئی جزئی تنقید بھی کی جائے تو آپ لوگ بھڑک اُٹھتے ہیں۔ اپنے معیار کے مطابق، آپ اپنے اکابر کو صرف قابلِ تعریف سمجھتے ہیں، قابلِ تنقید نہیں۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا معیار وہ ہے جس کو علمی معیار کہا جاتاہے۔ علمی معیار پُر اسرار شخصی تقدس پر قائم نہیں ہوتا، وہ معلوم اور ثابت شدہ حقائق پر مبنی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمی معیار میں تحلیل اور تجزیہ کا طریقہ رائج ہے۔ علمی معیار کے مطابق، داخلی نیت ایک الگ چیز ہے اور خارجی عمل اُس سے مختلف دوسری چیز۔ یہ علمی معیار شریعت کے عین مطابق ہے۔ اسی بنا پر حدیث میں آیا ہے کہ اگر آدمی کی نیت درست ہو تو اجتہادی خطاء پر بھی اس کو ایک درجہ کا ثواب ملے گا (صحیح البخاری)
میرا طریقہ یہی علمی معیار والا طریقہ ہے۔ میں شخصی تقدّس کے نظریہ کو درست نہیں سمجھتا۔ میں شخصیتوں کا تجزیہ خالص حقائق کی روشنی میں کرتا ہوں۔ اس تجزیاتی طریقِ مطالعہ نے مجھے بتایا کہ سیداحمد شہید اور سید اسماعیل شہید بلا شبہہ مخلص لوگ تھے۔ مگر ۱۸۳۱ء میںاُنہوں نے پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خلاف جو مسلّح جہاد کیا، اس میں بیک وقت دو کمیاں شامل تھیںــــناقص تیار ی اور حالات سے بے خبری۔
سید اسماعیل شہید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب جہاد کا فیصلہ ہوا تو اُنہوں نے جہاد کی تیاری شروع کردی۔ اُس وقت وہ دہلی میں تھے۔ گرمی کے زمانہ میں وہ دہلی کی جامع مسجد کے پتھر کے فرش پر ننگے پاؤں چلتے ـتھے۔ اس کو وہ جہاد کی تیاری سمجھتے تھے۔ اُن کا یہ عمل اُن کے قلبی اخلاص کا ثبوت تو ضرور ہوسکتا ہے مگر اس کا کوئی تعلق مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج کے خلاف جنگ کی تیاری سے نہیں ۔ کیوں کہ اس جنگ میں جو چیز فیصلہ کن بننے والی تھی وہ فوجی طاقت تھی، نہ کہ ننگے پاؤں گرم پتھر پر چلنے کی مشق۔
انہی کمیوں کا یہ نتیجہ تھا کہ اُن کا یہ مسلّح جہاد صرف یک طرفہ تباہی پر ختم ہوا۔ کسی شخص کی نیت خواہ کتنا ہی زیادہ درست ہو، لیکن اگر وہ پتھر کوتوڑنے کے لیے اپنا سَر اُس سے ٹکرانے لگے تو یقینی طورپر حسنِ نیت کے باوجود اُس کا سَر ٹوٹ جائے گا۔ کیوں کہ پتھر کو ہتھوڑے سے توڑا جاسکتا ہے مگر سَر سے نہیں۔
بے بنیاد سوچ
انڈیا کے ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی قسم کی غلط سوچ میں مبتلا ہیں۔ دونوں ہی یکساں طورپر ایک فرضی یقین میں جی رہے ہیں۔ دونوں کے کیس کو مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
مسلم : اسلام سچا ہے، اس لیے میں بھی سچا ہوں۔
ہندو : ہر مذہب سچا ہے، اس لیے میں بھی سچا ہوں۔
یہ دونوں ہی قسم کی سوچ غلط مفروضات پر قائم ہے۔ غیر جانبدارانہ تجزیہ اُن کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس قسم کا یقین محض خوش عقیدگی کی بنیاد پر قائم ہے، وہ کسی حقیقی دلیل کی بنیاد پر قائم نہیں۔
اب مسلمان کے معاملہ کو لیجیے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ اسلام سچا اور برحق مذہب ہے۔ اسلام کا برحق مذہب ہونا اسی دنیا میں آج بھی ایک معلوم او رمسلّم حقیقت ہے۔ قرآن کی متعدد آیتیں اس کا ثبوت ہیں۔ مثلاً: ان الدین عنداللہ الإسلام (آل عمران ۱۹) اسی طرح فرمایا: ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ و ھو فی الآخرۃ من الخاسرین (آل عمران ۸۵) ۔اس طرح کی آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا سچّا اور برحق ہونا آج بھی ایک معلوم اور مسلّم حقیقت ہے۔
مگر جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے، اُن کی حیثیت اس اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ کوئی شخص جو اسلام کا دعویٰ کررہا ہے یا کوئی گروہ جو اپنے آپ کو اسلامی گروہ بتاتا ہے اُس کا اسلام صرف آخرت میں معتبر اور متحقّق ہوگا، موت سے پہلے کی دنیا میں نہیں۔ موجودہ دنیا میں آدمی کو اندیشہ اور اُمید کے درمیان جینا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ: الایمان بین الرجا ء والخوف۔
اب ہندوکے معاملہ کو لیجئے۔ یہ نظریہ کہ ہر مذہب سچاہے، ایک غیر علمی اور غیر منطقی نظریہ ہے۔ مذاہب کا تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کے درمیان بنیادی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کسی کے نزدیک خدا ایک ہے اور کسی کے نزدیک وہ متعدّد ہے۔ کوئی پرسنل گاڈ میں یقین رکھتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا ہے کہ خدا ایک سرایت کی ہوئی اسپرٹ (pervading spirit) ہے، جس کا کوئی علیٰحدہ تشخص نہیں۔ کوئی پیغمبری کو مانتاہے اور کوئی اوتارواد کواورکوئی ابنیتِ خدا کو، وغیرہ وغیرہ۔ مذاہب کے درمیان اس قسم کے بنیادی اختلافات موجود ہیں، ایسی حالت میں ہر مذہب کو یکساں بتانا ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے لیے کوئی علمی اور منطقی أساس موجود نہیں۔ مزید یہ کہ ’’ہر مذہب سچا ہے‘‘ کا نظریہ خود اپنی تردید آپ ہے۔ مذہب سچائی کا نمائندہ ہے۔ اور سچائی کبھی تعدد کو قبول نہیں کرتی۔ سچائی وہی ہے جوایک ہو، جو سچائی کئی ہو وہ سچائی بھی نہیں۔
مذہب کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کو یقین اوراعتماد عطا کرے۔ وہ اُس کے لیے جینے کا غیر متزلزل سہارا ہو۔ جو بحران کے لمحات میں اُس کے لیے بھروسہ بن سکے۔ یہ مقصد صرف ایک سچائی کے تصور سے پورا ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ آدمی صرف کسی ایک سچائی پر اپنے ذہن کو مرتکز کرسکتا ہے، نہ کہ کئی سچائیوں پر۔
بہت سی باتیں ایسی ہیں جو کہنے میں خوب صورت معلوم ہوتی ہیں، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ بے معنٰی ہوتی ہیں۔ وہ گریمر کے اعتبار سے درست مگر حقیقت کے اعتبار سے غلط۔
ذہنی ترقی میں رکاوٹ
دہلی کے ایک اُردو ماہنامہ میں دعوتِ اسلام کے موضوع پر ایک تبصرہ چھپا ہے۔ صاحب تحریر کا ایک پیراگراف یہ ہے ’’تحریک اسلامی کے ایک ممتاز، بلند پایہ رہنما نے بڑی اچھی بات کہی کہ موجودہ جدید جمہوری آزاد ہندستان میں ،دار الکفر اور دار الاسلام کی فقہی اصطلاحوں میں نہ پڑیے، یہ پورا ملک دار الدعوہ ہے اور یہ امت مسلمہ امت دعوت ہے۔ (زندگی نو، مارچ ۲۰۰۲ء صفحہ ۷۲)
اس عبارت میں مذکورہ رہنما کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ رہنما سے مراد کون صاحب ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہندستان کے بارے میں دار الدعوہ کا لفظ پہلی بار راقم الحروف نے استعمال کیا ۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ مجھ سے پہلے کسی نے ہندستان کو دار الدعوہ کہا ہو۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس سے پہلے مسلم رہنماؤں میں سے کسی نے ہندستان کو دار الکفر کہا، کسی نے دار الحرب کہا، کسی نے دار الطاغوت کہا، کسی نے دار الأمن کہا۔ مگر کوئی بھی شخص ہندستان کو دارالدعوہ نہ کہہ سکا تھا۔ ہندستان کے لیے دارالدعوہ کا لفظ پہلی بار میں نے استعمال کیا۔ اوراس کے حق میں شرعی دلائل فراہم کیے۔
اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ مضمون نگار کے نزدیک وہ کون شخص ہے جس نے یہ بتایا کہ ہندستان دار الدعوہ ہے۔ اگر وہ جانتے ہیں کہ یہ کام راقم الحروف نے کیا ہے، پھر بھی اُنہیں میرا نام لینا پسند نہیں تو یہ ایک قسم کی ذہنی بزدلی ہے۔ اور اگر وہ اپنے حلقہ کے کسی بزرگ کو فرضی طورپر یہ کریڈٹ دینا چاہتے ہیں تو یہ بدترین قسم کی گروہ پرستی ہے۔ دونوں حالتوں میں یہ حقائق پر مصلحت کو ترجیح دینا ہے۔ اس کے سوا اس کی کوئی اور توجیہہ ممکن نہیں۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اکثر لوگ اس قسم کی کمزوری میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کمزوری کا سب سے بڑا نقصان کسی دوسرے کو نہیں پہنچتا بلکہ خود اس شخص کو پہنچتا ہے جو ایسی کمزوری میں مبتلاہو۔اُس کو اپنی اس کمزوری کی یہ بھاری قیمت دینی پڑتی ہے کہ اُس کا ذہنی ارتقاء رُک جائے۔ اس قسم کی کمزوری آدمی کے ذہن کو بند ذہن بنا دیتی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بند ذہن کسی آدمی کے ذہنی اور فکری ارتقاء میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے۔
ذہنی ارتقاء کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ارتقاء یافتہ ذہن ہی کو وہ اعلیٰ چیز حاصل ہوتی ہے جس کو معرفت کہاگیا ہے۔ اور معرفت کا نہایت گہرا تعلق دینی فہم سے ہے۔ معرفت کے بغیر علم صرف معلومات ہے، اور معرفت کے ساتھ علم بصیرت کا خزانہ۔
امن کس لئے
امن کی تعریف اہل علم حضرات اس طرح کرتے ہیں کہ امن عدم جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ مگر وہ لوگ جو مختلف مقامات پر حق اور انصاف کے اصول کے نام پر جنگ چھیڑے ہوئے ہیں وہ اس تعریف کو نہیں مانتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ امن برائے امن کوئی چیز نہیں۔ اُن کے نزدیک امن وہ ہے جو امن مع انصاف(peace with justice) ہو،نہ کہ امن بغیر انصاف (peace whithout justice)
یہ سوچ ایک غیر حقیقی سوچ ہے۔ انصاف امن کا نتیجہ نہیں ہے۔ انصاف خود طالبِ انصاف کے عمل کا نتیجہ ہے۔ امن کے ذریعہ وہ معتدل حالات پیدا ہوتے ہیں جو مواقع کے استعمال کو ممکن بناتے ہیں۔ جنگ کی حالت مواقع(opportunities) کے استعمال میں رُکاوٹ ہے۔ امن کی حالت قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مواقع کی راہ سے یہ رکاوٹیں ختم ہو جائیں تاکہ اُن کو استعمال کرکے اپنا مطلوب حق یا اپنا مطلوب انصاف حاصل کیا جاسکے۔
اگر آدمی کی سوچ یہ ہو کہ وہ فریقِ ثانی سے امن کا معاملہ کرنے پر صرف اُس وقت راضی ہوگا جب کہ امن کے ساتھ ساتھ اُس کو انصاف مل رہا ہو، تو آدمی کو نہ کبھی امن ملے گااور نہ کبھی انصاف۔ ایسا امن اس دنیا میں کسی کے لیے ممکن ہی نہیں۔ یہ سوچ ایک غیر فطری چیز ہے جو اس دنیا میں کبھی نتیجہ خیز ہونے والی نہیں۔صحیح سوچ یہ ہے کہ امن کو مواقع عمل سے جوڑا جائے، نہ کہ حصولِ انصاف سے۔ امن کو فریقِ ثانی سے معاہدہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے مگر انصاف یا حق کسی کو صرف اپنے عمل سے ملتا ہے، نہ کہ کسی اور کے دینے سے۔
وقت کے پیچھے سوچنا
مارچ ۲۰۰۲ء میں مسئلۂ فلسطین کے حل کے بارے میں عرب ملکوں کے درمیان ایک نیا نظریہ ابھرا۔ وہ یہ کہ اسرائیل اگر ۱۹۶۷ کی حد پر واپس چلا جائے تو عرب ممالک اسرائیل کو باقاعدہ طور پر قبول کرلیں گے۔ ایک تعلیم یافتہ عرب نے ایک یہودی سے بات کرتے ہوئے اُس کے سامنے یہ تجویز رکھی۔ یہودی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ عزیز پڑوسی، تم نے بہت دیر کردی:
Dear Neighboure, you are too late.
عرب حضرات کی مذکورہ تجویز بہت اچھی ہے مگر یقینی طورپر وہ قابلِ عمل نہیں۔ یہ دراصل وقت کے پیچھے سوچنا ہے جو کہ عملی طورپر ناممکن ہے۔ ایک اُردو شاعر نے درست طورپر کہا ہے کہ:
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عربوں کے لیے فلسطین کے معاملہ میں جو چیز ۱۹۱۷ میں ممکن تھی وہ ۱۹۴۸میں ناممکن ہوچکی تھی۔ اسی طرح اُن کے لیے جو چیز ۱۹۴۸ء میں ممکن تھی وہ اُن کے لیے ۱۹۶۷ میں ممکن نہ رہی تھی۔ اسی طرح اُن کے لیے جو چیز ۱۹۶۷ میں ممکن ـتھی وہ اب ۲۰۰۲ میں اُن کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہ حقیقت خواہ کتنی ہی تلخ ہو مگر وہ ایک تاریخی حقیقت ہے، اور تاریخ کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں، نہ عربوں کے لیے اور نہ کسی دوسرے کے لیے۔
۲۰۰۲ء میں عربوں کے لیے فلسطین کے معاملہ میںجو چیز ممکن ہے وہ صرف ایک ہے۔اور وہ یہ ہے کہ غزّہ اور اریحاء کی صورت میں اُن کو جو چیز ملی ہے اُس کو قبول کرلیں۔ وہ اس حاصل شدہ خطّے پر اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اپنے پُرجوش رہنماؤں کی غیر حقیقت پسندانہ رہنمائی کے نتیجہ میں اُنہوں نے اس حاصل شدہ ٹکڑے کو بھی اپنے لیے مشتبہ بنا لیا ہے۔
عربوں کو جاننا چاہئے کہ وہ حماس اور انتفاضہ جیسی پُر تشدد تحریکوں کے بَل پر کوئی چیز حاصل نہیں کرسکتے۔ منفی عمل سے کبھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ حماس اور انتفاضہ جیسی تحریکیں حقیقت کے اعتبار سے تحریکیں نہیںہیں، وہ صرف جذباتی ردّعمل کا مظہر ہیں۔ اور حقائق کی اس دنیا میں سوچے سمجھے عمل کے ذریعہ کوئی نتیجہ نکلتا ہے، نہ کہ جذباتی اُبال کے ذریعہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کی بنیاد پر کبھی حال کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ حال کا فیصلہ ہمیشہ حال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تنسیخ تاریخی قانون ہے۔ اس میں کوئی استثناء کبھی ممکن نہیں، نہ ایک قوم کے لیے اور نہ کسی دوسری قوم کے لیے۔
بُرائی کی جڑ
اکثر لیڈر سوچ کی اس غلطی میں مُبتلا ہوجاتے ہیں کہ اُن کے زمانہ میں جولوگ سیاسی اقتدار پر قابض ہیں وہی تمام برائیوں کی جڑ ہیں۔ اگر اُن کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے تو تمام بُرائی ختم ہو جائے گی۔ یہ سوچ اپنے تجربہ میں بار بار غلط ثابت ہوئی ہے۔
مصر کی جماعت الإخوان المسلمون نے یہ سمجھا کہ شاہ فاروق کی حکومت ملک کی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اگر کسی طرح اس حکومت کا خاتمہ کردیا جائے تو اُس کے بعد ملک کا نظام ہر اعتبار سے درست ہوجائے گا۔ اس ذہن کے تحت اُنہوں نے مصر کے کچھ فوجی افسروں کے ساتھ مل کر شاہ فاروق کی حکومت کو ختم کر دیا اور اُنہیں ملک سے نکال دیا۔ مگراُس کے بعد جو کچھ ہوا وہ صرف یہ کہ حالا ت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوگئے۔
اسی طرح پاکستان کی جماعتِ اسلامی نے یہی غلطی مزید اضافہ کے ساتھ دہرائی۔ مثلاً صدر محمد ایوب خاں کی حکومت کے زمانہ میں انہوںنے یہ فرض کرلیا کہ ملک کی تمام خرابیوں کی جڑ ایوب خاں کی فوجی حکومت ہے۔ انہوں نے اس حکومت کے خلاف ہنگامہ خیز مہم شروع کی۔ یہاں تک کی صدر ایوب کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر ملکی حالات میں کوئی سدھار نہ ہوسکا۔ اس کے بعد دوبارہ یہی ہوا کہ انہوںنے فرض کر لیا کہ سابق پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ چنانچہ وہ دوسرے اسلام پسندوں کو ساتھ لے کر مسٹربھٹو کے سیاسی اقتدار کو اکھاڑنے میں مصروف ہوگئے۔ حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کی مدد سے مسٹر بھٹو کوپھانسی پر چڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر ملک کے حالات بدستور بگڑتے چلے گئے۔
’’برائی کی جڑ‘‘ کے نظریہ کا تجربہ موجودہ زمانہ میں بار بار دہرایا گیا ہے مگر ہر بار وہ مکمل طورپر ناکام ہوا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لیڈر بھی بار بار اس غلط فکری میں مبتلا ہوئے۔ مثلاً مہاتما گاندھی نے یہ سمجھا کہ برٹش راج ہندستان کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ اسی طرح جے پرکاش نرائن نے یہ سمجھا کہ کانگریسی راج ملک کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ مگر ہنگامہ خیز جدو جہد کے بعد جب برٹش راج اور پھر کانگریسی راج ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ ملک کے اصل حالات میں مطلوب تبدیلی نہ ہوسکی۔ پورن سوراج اور پورن کرانتی ملک کی اصل برائیوں (مثلاً کرپشن) میں جزئی اصلاح بھی نہ لا سکے، پورن سدھار کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کے بگاڑ کاتعلق سوچ سے ہے۔ اصلاح کاراز یہ ہے کہ انسانی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔ انسانی سوچ کو بدلے بغیر کوئی بھی اصلاح ممکن نہیں۔
سوچ کے بغیر
بہار کے ایک شہر میں ہندو۔ مسلم فساد ہوا۔ اس فساد میںمسلمانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ شہر کے مسلمانوں کی معاشیات تباہ ہو کر رہ گئی۔ اس شہر کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے میری ملاقات ہوئی۔ اُن سے میں نے پوچھا کہ آپ کے شہر میں یہ فساد کیوں ہوا۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہندوؤں کا ایک جلوس نکلا۔ مسلم محلہ میں پہنچ کر اُس نے مخالفانہ نعرہ لگانا شروع کیا۔ اس پر مسلمان بھڑک اُٹھے۔ کچھ مسلم نوجوانوں نے ’’ایک اسٹپ لیا‘‘۔ اس کے بعد دنگا شروع ہوگیا۔ وہ لوگ مسلم گھروں اور مسلم دکانوں کو جلانے اور لوٹنے لگے۔
میں نے پوچھا کہ آپ کہتے ہیں کہ مسلم نوجوانوں نے ایک اسٹپ لیا، یہ اسٹپ کیا تھا۔ اصرار کے بعد اُنہوں نے بتایا کہ نوجوانوں نے جلوس کے اوپر کچھ دستی بم پھینکے، اس کے بعد وہ لوگ مشتعل ہوکر تخریبی کارروائیاں کرنے لگے۔ پھر میں نے پوچھا کہ وہ نعرہ کیا تھا جس پر آپ لوگوں نے اسٹپ لیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ نعرہ یہ تھا: جے ماں کالی، مسلمان محلہ کرو خالی۔
گفتگو کے دوران اُنہوں نے کہا کہ اس قسم کے اشتعال انگیز منصوبہ کا جواب دینا تو ضروری تھا۔میں نے کہا کہ اس کو اشتعال انگیز منصوبہ نہ کہیے بلکہ ایک ایسا خیالی منصوبہ کہیے جو کبھی وجود میں آنے والا ہی نہیں۔ میںنے کہا کہ یہ بتائیے کہ نعرہ اور فساد کے بعد کیاآپ کا محلہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔ اُنہوں نے جوش کے ساتھ کہا کہ ہرگز نہیں، مسلمان آج بھی پہلے کی طرح اپنے محلہ میں موجود ہیں۔ میںنے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کا نعرہ ہوا میںتحلیل ہوگیا، وہ زمین پر واقعہ نہ بن سکا۔
میں نے اُن کی بات سن کر کہا کہ میرے بھائی، جو نعرہ اتنا کمزور تھا کہ خونیں فساد کرانے کے بعد بھی وہ محلہ کو مسلمانوں سے خالی نہ کراسکا ایسے کمزور نعرہ پر آپ کو بھڑکنے کی کیا ضرورت۔ ایسے نعرہ کا سادہ جواب قدیم مثل کے مطابق، یہ تھا: کتے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتا رہتا ہے۔
یہ ہے صحیح سوچ کا فقدان۔ صحیح سوچ لوگوں کو مکمل طورپر خونیں فساد سے بچا سکتی تھی، مگر غلط سوچ نے اُن کو ذلّت اور نقصان کی دو طرفہ تباہی میں مبتلا کر دیا۔ غلط سوچ آدمی کو بم کے اوپر بم مارنا سکھاتی ہے،اور صحیح سوچ اُس کو وہ تدبیر بتاتی ہے جس کے ذریعہ وہ بم کو ڈیفیوز (defuse)کر کے اُس کو غیرمؤثر بنادے۔
سیکنڈری پوزیشن
مسجد کی نماز با جماعت میںہر روز ایک سبق دیا جاتا ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ دس ہزار نمازیوں میں سے نو ہزار نو سو ننانوے نمازی جب مقتدی بن کر اپنے لیے ثانوی حیثیت (secondary position) کو قبول کرتے ہیں، اُس وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک شخص کی امامت میں نماز باجماعت ادا کی جاسکے۔ یہی فارمولا مسجد کے باہر کی زندگی کے لیے بھی مطلوب ہے۔ جس سماج یا گروہ کے اندر یہ مزاج نہ ہو وہاں نہ اتحاد قائم ہوگا او ر نہ کوئی ترقی ممکن ہوسکے گی۔ زندگی میں ثانوی حیثیت کو قبول کرنا کسی بھی ترقی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
ملّی یا اجتماعی زندگی کے لیے یہ مزاج انتہائی طورپر ضروری ہے۔ مگر یہ مزاج اپنے آپ پیدا نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے شعوری تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی قوم میں سب سے زیادہ اہمیت ایسی تحریک کی ہے جو لوگوں میںاس قسم کا مزاج پیدا کرے۔ شعور کی بیداری اصل کام کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی تعمیری تحریک کا نقطۂ آغاز شعور کی تربیت ہے، نہ کہ پُرجوش مظاہرہ یا عملی اقدام۔
میڈیا کلچر
موجودہ زمانہ میں لوگوں کی سوچ میں جو بگاڑ آیا ہے اُس کا غالباً سب سے بڑا سبب وہ جدید ظاہرہ ہے جس کو میڈیا کلچر کہا جاسکتا ہے۔ جدید میڈیا، خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، سب کا طریقہ یک طرفہ رپورٹنگ (one sided reporting) کا ہے۔ چونکہ عام لوگ خبروں کو میڈیا کے ذریعہ لیتے ہیں اس لیے لوگوں کی رائے ہر معاملہ میں ناقص ہوگئی ہے۔ وہ یک طرفہ سوچ کے تحت رائے قائم کرتے ہیں۔
اس یک طرفہ رپورٹنگ کا اُصول یہ ہے کہ بُری خبروں کو لو اور اچھی خبروں کو چھوڑ دو۔ میڈیا کی حیثیت ایک انڈسٹری کی ہے۔ اور انڈسٹری ہونے کے اعتبار سے اُس کے لیے یہی مفید طریقہ ہے کہ وہ کسی ملک یا سماج کی بُری خبروں کو نمایاں کرے۔ اور اچھی خبروں کو قابلِ تذکرہ نہ سمجھے۔ میڈیا کی اس روش نے عالمی سطح پر انسانی سوچ کو منفی بنا دیا ہے۔
اس معاملہ کی ایک دلچسپ مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔ میں اکثر بی بی سی لندن کی نشریات کو سنتا ہوں۔ ایک دن میں بی بی سی لندن کا ہندی پروگرام سن رہا تھا۔ اپنے طریقہ کے مطابق، انہوں نے آخر میں کچھ خطوط پڑھ کر سنائے۔ ایک خط ماریشش میں مقیم ایک ہندو کا تھا۔ اُس نے اپنے خط میں یہ شکایت کی تھی کہ آپ ہندی بولنے والے علاقہ کی خبریں نشر کرتے ہیں، ماریشش میں بھی بہت سے لوگ ہندی بولتے ہیں مگر آپ کبھی ماریشش کی کوئی خبر نہیں دیتے۔ بی بی سی لندن کے اناؤنسر نے ہنستے ہوئے اس خط کا جواب دیا۔ اُس نے کہا کہ میڈیا تو بُری خبروں کی رپورٹنگ کا نام ہے۔ آپ کے ملک میں سب اچھی خبریں ہوتی ہیں، اور اچھی خبر میڈیا کے نزدیک کوئی خبر نہیں:
Good news is no news.
یہ فطرت کے نظام کے خلاف ہے کہ دنیا میں صرف برائی ہی برائی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ خود نظامِ فطرت کے تحت دنیا میں اگر ایک فیصد برائی ہوتی ہے تو عین اُسی وقت ننّانوے فیصد اچھائی موجود رہتی ہے، خواہ براہ راست طورپر یا بالواسطہ طور پر۔ مگر میڈیا کبھی لوگوں کو اس واقعہ کی خبر نہیں دیتا کہ ہم جن برائیوں کی رپورٹ کررہے ہیں وہ پورے سماج کا ایک فیصد حصہ ہے، نہ کہ کُل حصہ۔
۱۹۴۷ء سے پہلے بر صغیر ہند کے اخبارات انگریزوں کے بارے میں صرف اُن کے ’’ظلم‘‘ کی خبریں دیتے تھے، انگریزی نظام کے مثبت پہلو اخباروں میں جگہ نہیں پاتے تھے۔ چنانچہ تمام ہندستانیوں کو انگریزوں سے نفرت ہو گئی۔ ۱۹۴۷ سے پہلے مسلم لیگ سے متاثر اخبارات یہاں کے ہندوؤں کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرتے تھے اور اُن کے بارے میں صرف منفی باتیں چھاپتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بر صغیر ہند کے مسلمانوں کی اکثریت یہاں کے ہندوؤں کے بارے میں بدظن ہوگئی۔ اسی طرح آج کل تمام دنیا کا مسلم میڈیا امریکہ کے مثبت پہلوؤں کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا، وہ اُس کے بارے میں صرف بُری باتوں کو مسلمانوں تک پہنچاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان امریکہ سے متنفر ہوگئے ہیں اوریہ سمجھنے لگے ہیں کہ امریکہ اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے۔
میڈیا کی حیثیت ایک انڈسٹری کی ہے۔ میڈیا کے اپنے تجارتی مصالح کی بنا پر یہ ممکن نہیں کہ وہ یک طرفہ رپورٹنگ کا طریقہ ختم کرے اور دو طرفہ رپورٹنگ کا طریقہ اپنے یہاں رائج کرے۔ اس مسئلہ کا عملی حل میڈیا کی شکایت کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنے ذہن کی اصلاح کرنا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم لوگوں کے اندر شعوری بیداری پیداکریں۔ ہم یہ کوشش کریں کہ لوگوں کے اندر تفکیر و تدبّر کی صحیح صلاحیت پیدا ہو تاکہ وہ میڈیا کی ناقص رپورٹنگ سے متاثر نہ ہوں، بلکہ خود تجزیہ کرکے معاملات کے بارے میں درست رائے قائم کریں۔
اس تجزیہ کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً جب آپ مسلم اخباروں میں یا مسلم رہنماؤں کی تقریروں میں یہ سُنیں کہ امریکہ اسلام کا دشمن ہے تو آپ اُس کا تجزیہ کریں۔ آپ یہ سوچیں کہ امریکہ جب ایک دشمن ملک ہے تو چھ ملین سے زیادہ مسلمان وہاں جاکر کیسے آرام کے ساتھ رہ رہے ہیں، حتی کہ اخبار کے ایڈیٹر یا اسٹیج کے مقرر کے خود اپنے رشتہ دار بھی۔ اسی طرح یہ کہ اگر امریکہ اسلام دشمن ہے تو وہاںہزاروں کی تعداد میں اسلامی ادارے کیوں قائم ہیں اور آزادی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ کیوں ایسا ہے کہ امریکہ میں ایسے شاندار اجتماعات ہوتے ہیں جو مُسلم ملکوں میں بھی نہیں ہوتے۔ اسی طرح یہ کہ اگر امریکہ اپنی اسلام دشمنی کی بنا پر فلسطین میں یہودیوں کی مدد کرتا ہے تو وہی امریکہ اسلامی ملک پاکستان کی مسلسل طورپر کیوں مدد کررہا ہے، وغیرہ۔
جب آپ مسلم اخباروں او ر مسلم رہنماؤں کی باتوں کا اس طرح تجزیہ کریں گے تو آپ یقینی طورپر جان لیں گے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ میڈیا کی فراہم کردہ ایک فیصد خبروں پر انحصار نہ کیجئے بلکہ اُس کے ساتھ بقیہ ننانوے فیصد خبروں کو بھی شامل کرکے دیکھئے اور پھر آپ کبھی رائے قائم کرنے کی غلطی میں مبتلا نہیں ہوں گے۔
اُلٹی سوچ
کوئی فرد یا گروہ تشدد کیوں کرتا ہے، اپنے کسی حق کے حصول کے لیے۔ مگر نتیجہ کے اعتبار سے یہ سوچ بالکل اُلٹی سوچ ہے۔ کیوں کہ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ تشدد کے ذریعہ ہم کھوتے ہیں اور امن کے ذریعہ ہم حاصل کرتے ہیں:
Through violence we lose, through peace we gain.
ہٹلر اوراسٹالن جیسے بہت سے ڈکٹیٹروں نے بہت بڑے پیمانہ پر تشدد کیا، اپنے خیال کے مطابق، اپنے مفروضہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے۔ مگر بلا استثناء ہر ایک کے تشدد کا انجام صرف تباہی کی صورت میں نکلا۔
یہی معاملہ خود مسلمانوں کا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مختلف علاقہ کے مسلمانوں نے بزعم خود انصاف کے لیے یا اپنے حقوق کے حصول کے لیے تشدد کا طریقہ اختیار کیا۔ مگر اس کا نتیجہ ہمیشہ برعکس صورت میں نکلا۔ تشدد کے آغاز میں وہ جہاں تھے، تشدد کے آخر میں وہ اُس سے بھی زیادہ پیچھے چلے گئے۔
اس کی ایک مثال فلسطین کا مسئلہ ہے۔ اعلان بالفور(Balfaur Declaration) کے تحت ۱۹۴۸ میں یہودیوں کو فلسطین کا ایک تہائی حصہ دیا گیا۔ اس کے مقابلہ میں عربوں کو فلسطین کا دو تہائی حصہ حاصل ہوا جس میں پورا یوروشلم بھی شامل تھا۔ مگر عربوں نے اس تقسیم کو قبول نہیں کیا اور اعلان کیا کہ ہم یہودیوں کو سمندر میں ڈھکیل دیں گے۔ عربوں کی یہ جدوجہد ابتداء ہی سے تشدد کے راستہ پر چل پڑی اورآج تک اسی راستہ پر چل رہی ہے۔ مگر بے پناہ جانی اور مالی قربانی کے باوجود اس کا نتیجہ عربوں کو صرف ذلت اور محرومی کی صورت میں ملا۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے کہ : إن اللّٰہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف (اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خدا نے اس دنیا کے لیے جو قانون مقرر کیا ہے اُس کے تحت یہاں کامیابی صرف پُر امن طریقِ کار میں لکھ دی گئی ہے، پُرتشدد طریقِ کار کے ذریعہ یہاں کسی کو کامیابی ملنے والی نہیں۔
ایک اور روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا: لا تتمنوا لقاء العدو واسئلوا اللّٰہ العافیۃ (دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت مانگو)۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ عداوت کے اسباب پیدا ہوں تو اُس کے مقابلہ میں تمہاری جوابی منصوبہ بندی امن کی بنیاد پر ہونی چاہئے، نہ کہ تشدد کی بنیاد پر۔
اصل یہ ہے کہ آدمی جب بھی تشدد کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو وہ جذبات سے مغلوب ہو کر ایسا کرتا ہے۔ وہ ضد اورانتقام کی نفسیات کے تحت تشدد کے راستہ پر چل پڑتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرے کہ اس قسم کے مواقع پر اپنے منفی جذبات کو قابو میں رکھے، وہ حقیقت پسندانہ انداز میں پورے معاملہ کا بے لاگ جائزہ لے کر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے تو وہ کبھی تشدد کا طریقہ اختیار نہیں کرے گا۔ وہ ہر حا ل میں امن کے حدود میں رہ کر اپنی کارروائی کرے گا۔ خواہ امن کا طریقہ اختیار کرنے میں ابتدائی طورپر اُس کو کچھ محرومی کو برداشت کرنا پڑے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پُر امن طریقہ اختیار کرنے میں بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ آدمی کو کچھ نقصان برداشت کرناپڑے گا۔ لیکن اگر اس کے اندر غیر متاثر سوچ ہو تو وہ اُس کو بتائے گی کہ تھوڑے نقصان کو برداشت کر لو تاکہ تمہیں بڑے نقصان کو برداشت نہ کرنا پڑے۔ جو کچھ کھویا جاچکا ہے اُس کو حاصل کرنے کی کوشش میں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ اب بھی حاصل ہے اُس کو بھی کھو دینا پڑے۔
اوپر اُٹھ کر سوچنا
جب ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان یا ایک قوم اور دوسری قوم کے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پید ا ہو تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ وقتی مسائل سے اُوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتے۔ سامنے کا نقصان، عزت کا سوال، اس قسم کی چیزیں آدمی کے ذہن پر اتنا زیادہ غالب آتی ہیں کہ اُس کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ نزاع سے الگ ہو کر سوچے اور زیادہ دور رس فیصلہ کر سکے۔
اسی کو تاہ فہمی کا یہ نتیجہ ہے کہ اکثر افراد اور اکثر قومیں کسی نہ کسی مسئلہ میں الجھی رہتی ہیں۔اُن کے وقت اور اُن کی طاقت کا ایک بڑا حصہ مستقل طورپر مسائل کے حل کے نام پر غیر مفید چیزوں میں ضائع ہوتا رہتا ہے۔ حالانکہ عقل مندی یہ ہے کہ اپنی پوری قوت کو صرف تعمیر و ترقی کے کام میں لگایا جائے۔
دانش مندی یہ ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہو تو فوری تقاضوں (considerations) کو نظر انداز کرکے مستقبل کے اعتبار سے جرأت مندانہ فیصلہ کیا جائے۔ مسئلہ پیدا ہونے کے بعد ساری توجہ مسئلہ کو ختم کرنے پر لگائی جائے۔ ہر فوری نقصان کو گوارا کرتے ہوئے مصالحت کر لی جائے۔
ایسے ہر موقع پر آپ کا نشانہ نزاع کو ختم کرنا ہونا چاہئے، نہ کہ خود مسئلہ کو ختم کرنا۔ آپ کو چاہئے کہ آپ مستقبل کو دیکھیں ،نہ کہ صرف حال کو۔ آپ کی نظر ملنے والے امکان پر ہونی چاہئے، نہ کہ کھوئے جانے والے نقصان پر۔ یہی اس دنیا میں ترقی کا واحد راز ہے۔
تنقید کوئی برائی نہیں
بہت سے لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ کام کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اُس میں تنقید کا انداز اختیار نہ کیا جائے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ غیر تنقیدی انداز عوام کی بھیڑ جمع کرنے کے لیے تو یقینا مفید ہے مگر وہ کسی گہرے اصلاحی کام کے لیے ہرگز مفید نہیں۔
تنقید کوئی برائی نہیں، تنقید ایک اعلیٰ نوعیت کا ذہنی عمل ہے۔ تنقید انسان کی فکری ترقی کے لیے ضروری ہے۔ جہاں تنقید نہیں وہاں فکری ترقی بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقید کو امرِ ممنوع (taboo) قرار دینے کا نتیجہ سادہ طورپر صرف یہ نہیں ہوگا کہ لوگوں کے درمیان بے تنقید حالت قائم ہوجائے ۔ بلکہ عملاً جو کچھ ہوگا وہ یہ کہ لوگ ذہنی جمود میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اُن کے درمیان سوچنے کا عمل (thinking process) رُک جائے گا۔ اور جس انسانی سماج میں سوچنے کا عمل رُک جائے وہ دھیرے دھیرے ایک ایسا سماج بن جائے گا جہاں لوگ جسمانی اعتبار سے بظاہر انسان دکھائی دیں گے، مگر اپنی عقل و فہم کے لحاظ سے وہ حیوانی سطح پر ہوں گے۔ وہ اعلیٰ فکری ترقی سے محروم ہو کر رہ جائیں گے، جب کہ اس دنیا میں اعلیٰ فکری ترقی ہی کسی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
بچوں کے لیے زیادہ بہتر تحفہ
جو لوگ زیادہ بڑی ترقی حاصل نہ کرسکیں وہ اکثر اس احساس میں مبتلارہتے ہیں کہ وہ کیا کریں کہ اُن کے بچے اُس معاشی کمی میں مبتلا نہ ہوں جس میں وہ خود مبتلا ہوئے۔ اس احساس کے تحت وہ ایک ایسی چھلانگ لگا دیتے ہیں جو نتیجہ کے اعتبار سے اُن کے لیے برعکس ثابت ہوتی ہے۔
یہ بچوں کے بارے میں سوچنے کا صحیح طریقہ نہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے صحیح فارمولا یہ ہے کہــــ اپنے لیے قناعت، اور بچوں کے لیے ترقی۔ یعنی حالات کے اعتبار سے آپ جس معاشی کامیابی تک پہنچے ہیں اُس پر قناعت کرتے ہوئے زندگی گزاریے۔ اس معاملہ کو بچوں کے اوپر چھوڑ دیجئے کہ وہ وسیع دنیا میں ہاتھ پاؤں ماریں اور اپنی محنت کے ذریعہ زیادہ ترقی حاصل کریں۔ آپ بچوں کے لیے صرف ابتدائی زینہ بننے پر قانع ہوجائیے۔ اگلے زینوں پرچڑھنا اور اوپر کی منزل تک پہنچنا یہ بچوں کے لیے چھوڑ دیجیے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی باپ کی طرف سے اپنے بچوں کے لیے سب سے بہتر عطیہ یہ نہیں ہے کہ وہ اُن کے لیے دولت کا ڈھیرچھوڑے۔ اس کے برعکس زیادہ بہتر عطیہ یہ ہے کہ وہ بچوں کو ایسے حالات دے سکے جو اُنہیں عمل پر اُبھارنے والے ہوں۔ بچوں کے اندر محنت کا جذبہ ہونا سب سے بڑا سرمایہ ہے، نہ کہ باپ کی طرف سے ملی ہوئی دولت۔ محنت کے بغیر جو دولت ملے وہ کوئی اچھی چیز نہیں۔ اس قسم کی دولت وہ چیز ہے جس کو ایزی منی(easy money) کہا جاتا ہے۔ اور یہ ایک ثابت شدہ واقعہ ہے کہ ایزی منی اُس کے پانے والے کو فائدہ کم پہنچاتی ہے اور نقصان زیادہ۔
اتحاد کا راز
کسی گروہ کے درمیان اتحاد کیسے قائم ہو۔ عام طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ اختلافکو مٹاؤ تاکہ باہمی اتحاد قائم ہو۔ اس نظریہ کے پیچھے جو سوچ ہے وہ یہ ہے کہــــجب اختلاف نہ ہوگا تو اپنے آپ اتحاد قائم ہوجائے گا۔ اس سوچ کے مطابق، اختلاف ہے تو اتحاد نہیں، اور جہاں اتحاد ہے وہاں اختلاف نہیں۔یہ سوچ سراسر بے بنیاد ہے۔ اس طرح کے فارمولے کے ذریعہ دنیا میں کبھی اتحاد قائم ہونے والا نہیں۔ اختلاف ایک فطری چیز ہے ۔ وہ ہر انسان کی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ایسی حالت میں اختلاف کو مٹانا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اس مقصد کے لیے صحیح اور قابل عمل فارمولا یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود متحد ہونے کا نام اتحاد ہے، نہ کہ اختلاف کے بغیر متحد ہونے کا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں ایسا ہونا ممکن ہی نہیں کہ لوگوں کے اختلافات کو اس طرح بلڈوز کر دیا جائے کہ اُن کا وجود ہی باقی نہ رہے۔
موجودہ دنیا میں اصلاح کا حقیقی فارمولا صرف وہ ہے جو انسانی فطرت کے مطابق ہو۔ جو فارمولا فطرت سے مطابقت نہ رکھتا ہو وہ قابلِ عمل بھی نہیں۔ اور جو چیز قابلِ عمل نہیں وہ مفید بھی نہیں۔
عُسر کے ساتھ یُسر
موجودہ دنیا کا نظام اُمید کے اصول پر قائم ہے۔ یہاں ہر رات کے بعد صبح آتی ہے۔ یہاں ہر عسر کے ساتھ ہمیشہ یُسر موجود رہتا ہے۔ یہاں ہر مسئلہ کے ساتھ مواقع کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر پرابلم کے ساتھ سلوشن کا موجود ہونا اس دنیا کا ایک اٹل اصول ہے جس میںکبھی فرق نہیں آتا۔
اگر کبھی ایسا ہو کہ مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہ آئے تو سمجھنا چاہئے کہ ہم جو فارمولا استعمال کر رہے ہیں وہ صورت حال کے مطابق نہیں۔ ایسی حالت میں نئے فارمولے کو استعمال کرنا چاہئے۔ یہی سنت رسول ہے۔جہاں جنگ کا فارمولا کار آمد نہ ہورہا ہو وہاں امن کا فارمولا استعمال کیجیے۔ جہاں براہ راست مقابلہ موثر نہ ہو رہا ہو وہاں بالواسطہ مقابلہ کا طریقہ اختیار کیجئے، وغیرہ۔
کامیاب ازدواجی زندگی
شوہر اور بیوی کے درمیان بہتر تعلق کی تعلیم دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وعاشروہن بالمعروف فإن کرہتموہن فعسی أن تکرہوا شیئاً و یجعل اللّٰہ فیہ خیراً کثیراً (النساء ۱۹) یعنی ان کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرو۔ اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہومگر اللہ نے اس میں تمہارے لئے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
یہ بات اپنی حقیقت کے اعتبار سے شوہر اور بیوی دونوں ہی کے لیے ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن معاشرت یا بہتر ازدواجی زندگی کا انحصار اس پر نہیں ہے کہ شوہر کو بالکل اپنی پسند کی بیوی مل جائے یا بیوی کو بالکل اپنی پسند کے مطابق شوہر مل جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ قانون فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز پسند کے خلاف زوج (spouse) کے ساتھ موافقت (adjustment) کرنا ہے، ناپسندیدگی میں پسند کا پہلو تلاش کرلینا ہے۔ مشہور سنگر محمد رفیع کا ایک گانا اتنا مقبول ہوا کہ وہ ہر ماں باپ کے دل کی دھڑکن بن گیا ۔ خود رفیع صاحب نے جب اس کو گایا تو وہ شدت تاثر سے روپڑے۔ اس گانے میں باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ اشعار کہتا ہے، جس میں سے ایک شعر یہ ہے:
بابل کی دعائیں لیتی جا
جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے
سسرال میں اتنا پیار ملے
یہ بات فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی لڑکے یا لڑکی کو اس طرح سکھ اور پیار نہیں مل سکتا۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے سکھ اور پیار کو زوجین کے لیے کامیاب زندگی کا معیار بتانا زوجین کے ساتھ نا انصافی ہے۔ کیوں کہ اس کے نتیجہ میں دونوں کے اندر غیر واقعی ذہن بنتا ہے، اور غیر واقعی ذہن کے ساتھ اس دنیا میں کامیاب زندگی کی تعمیر ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں