Pages

Wednesday 1 May 2019

Al Risala | May 2019 (الرسالہ،مئی)

4

-معرفت حق

5

- خدا کی معرفت

6

- افضل ایمان

7

- حبّ شدید صرف اللہ سے

8

- حمد خداوندی

9

- توحید کا مقام

10

- ذکر کثیر کیا ہے

11

- سجدہ ذریعۂ قربت

12

- انسان کے لیے سبق

13

- شکر کا آئٹم

14

- ایمان بالغیب

15

- ایمان باللہ

16

- اقشعرار کیا ہے

17

- اسمِ اعظم

19

- جنت، جنت

20

- جنت کس کے لیے

21

- خالق اور مخلوق

22

- خدا اور انسان

23

- خدا کا وجود

24

- انسان کی تخلیق

26

- ایمان کا ذائقہ

28

- خدا کی پہچان

30

- خدا کی دریافت

35

- عجز کا اصول

37

- خوف کی نفسیات

38

- حکمت کا سر چشمہ

39

- فوق الفطری حکم

41

- عارف انسان

43

- معرفت کا سفر

44

- مومن کون

45

- مسخر کائنات

45

- پرزنس آف گاڈ

47

- تخلیق میں تنوع

48

- ربانی شخصیت

49

- اللہ کا تخلیقی منصوبہ

50

- زندہ شخصیت


معرفت حق

قرآن میں ایک گروہ کے قبول اسلام کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ ۔ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی اور جب انھوں نےاس کلام کو سنا، جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھے کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
قرآن کیا ہے۔ قرآن فطرت انسانی کا بیان ہے۔ جو لوگ اس فطرت کو زندہ رکھیں، جو حق کے متلاشی ہوں، جو تخلیق خداوندی میں غور کرنے والے ہوں، ان کی فطرت زندہ فطرت ہوتی ہے۔ وہ جب اللہ کے کلام کو سنتے ہیں، تو وہ ان کو اپنے دل کی آواز معلوم ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے کلام میں اپنے فطرت کی آواز سن لیتے ہیں۔ ان کو اللہ کا کلام اپنی فطرت کا کاؤنٹر پارٹ (counterpart) نظر آتا ہے۔ اللہ کا کلام ان کے لیے سچائی کی دریافت بن جاتا ہے۔ معرفت کے اس تجربے کا ذکر قرآن کی ایک اور آیت میں اس طرح کیا گیاہے۔
اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔ اس کی روشنی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق اس میں ایک چراغ ہے۔ چراغ ایک شیشہ کے اندر ہے۔ شیشہ ایسا ہے جیسے ایک چمک دار تارہ۔ وہ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ اس کا تیل ایسا ہے گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی وہ خود بخود جل اٹھے گا۔ روشنی کے اوپر روشنی۔ اللہ اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے (24:35) - سچائی کی اسی دریافت کا نام معرفت ہے۔ جو لوگ اس معرفت پر کھڑے ہوجائیں ، وہ اللہ کے مومن بندے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی معرفت

انسان پیدائشی طور پر ایک متلاشی (seeker)انسان ہے۔ اس کی تلاش کا اصل مرکز صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے خالق کو دریافت کرنا۔ انسان جب اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اور اپنے آس پاس کی دنیا کو دیکھتا ہے تو ہر طرف اس کو تخلیق کے کرشمے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے اندر فطری طور پر یہ سوچ جاگ اٹھتی ہے کہ میرا اور اس دنیا کا خالق کون ہے، اور اس سے میرا تعلق کیا ہے۔
آپ ایک کھلے میدان میں کھڑے ہوں تو آپ کو بے شمار چیزیں دکھائی دیں گی۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اوپر سورج چمک رہا ہے، چاروں طرف آپ کے لیےہرے بھرے درخت اُگے ہوئے ہیں۔ آپ کو مسلسل طور پر آکسیجن سپلائی کیا جارہا ہے، جو آپ کے لیے زندگی بخش سانس کا ذریعہ ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دریاؤں اور سمندروں میں آپ کے لیےپانی کے بھاری ذخیرے موجود ہیں۔ آپ کو نظر آئے گا کہ زمین (soil) آپ کے لیے بڑی مقدار میں اناج اور پھل اُگارہے ہیں۔ آپ دریافت کریں گے کہ پوری یونیورس آپ کے لیے ایک کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe) ہے، وغیرہ۔
غور و فکر کے ذریعے آپ جانیں گے کہ اس دنیا میں کوئی ہے، جو دینے والا (giver) ہے۔ سارے انسان اس کے مقابلے میں لینے والے (taker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسان کے اپنے وجود سے لے کر باہر کی پوری دنیا تک ہر چیز آپ کو اسی حقیقت کی گواہی دیتی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ معرفت کا آغاز ہے۔ اس طرح کے تجربے کے دوران آخر کار آپ اللہ رب العالمین کو دریافت کرتے ہیں۔ یہ دریافت آپ کے وجود کا سب سے بڑا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ دریافت آپ کے لیےماسٹر اسٹروک ثابت ہوتی ہے۔یہ دریافت آپ کی سوچ کو بدل دیتی ہے۔ آپ کے اندر پورے معنوں میں خدا رخی فکر پیدا ہوتی ہے۔ آپ کی ہر بات میں اللہ کی محبت اور اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ آپ کے اندر ایک نیا ذہن جاگ اٹھتا ہے، جس کو عارفانہ ذہن کہتے ہیں -اسی کا نام معرفت خداوندی ہے۔
واپس اوپر جائیں

افضل ایمان

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَفْضَلَ الْإِیمَانِ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّ اللَّہَ مَعَکَ حَیْثُمَا کُنْتُ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 8796)۔ یعنی عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بیشک افضل ایمان یہ ہے کہ تم یہ جانو کہ یقیناً اللہ تمھارے ساتھ ہے، تم جہاں بھی ہو۔
اس حدیث میں علم کا لفظ آیا ہے۔ یہاں علم سے مراد معرفت ہے۔ ایسی معرفت کسی انسان کو کیسے حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس ایمان کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، جو آدمی کو دریافت (discovery) کے ذریعے حاصل ہوا ہو۔ جب ایک آدمی غور و فکر کی زندگی اختیار کرتا ہے۔ وہ دنیا میں اس طرح زندگی گزارتا ہے کہ اللہ کی تخلیقات میں برابر سوچتا رہتا ہے۔ اس کا ایمان صرف عقیدہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس کے لیے تدبر (contemplation) بن جاتاہے۔اس تدبرسے اس کو برابر تخلیقات میں اللہ کے وہ کرشمے دریافت ہوتے رہتے ہیں، جن کو قرآن میں آلاء اللہ کہا گیا ہے۔یہی وہ دریافتیں ہیں، جو ایک مومن انسان کو عارف انسان بنادیتی ہے۔
اس معرفت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ اللہ کی یاد میں جینے لگتا ہے۔ اس کو ہر لمحہ اللہ کی موجودگی (presence) کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ برابر اللہ کے ساتھ ہے، اور اللہ اس کے ساتھ ہے۔ افضل ایمان کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اللہ کےنزدیک مطلوب ایمان۔ اللہ کا مطلوب ایمان یہ نہیں ہے کہ آدمی تلفظ کے صحت کے ساتھ کلمہ کے الفاظ کو اپنی زبان سے ادا کرلے۔ بلکہ اللہ کا مطلوب ایمان یہ ہے کہ آدمی ایمان کی معنوی حقیقت میں جینے لگے۔ ایمان اس کے لیے حدیث کے الفاظ میں ذائقہ (taste)بن جائے (صحیح مسلم، حدیث نمبر34)۔ ایمان اس کے لیے غذا کا درجہ حاصل کرلے۔ ایمان اس کے لیے روحانی توانائی (spiritual energy) کی حیثیت اختیار کرلے۔
واپس اوپر جائیں

حبّ شدید صرف اللہ سے

قرآن میں مومن کا یہ معیار بتایا گیا ہے کہ مومن وہ ہے، جس کو اللہ رب العالمین سے حب شدید کا تعلق قائم ہوجائے:(ترجمہ) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر (equal) ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہیے۔ اور جو اہل ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں (2:165)۔ یہ حب شدید اس طرح پیدا نہیں ہوتا کہ آدمی صحت مخارج کے ساتھ کلمہ پڑھ لے۔ بلکہ حب شدید معرفت شدید کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔ آدمی جب اللہ رب العالمین کو اس طرح دریافت کرے کہ اس کے اندر اپنے رب سے نہایت گہرا تعلق پیدا ہوجائے۔ اس کے اندر اللہ کے سوا کسی اور سے گہرا قلبی تعلق باقی نہ رہے۔ اس کو صرف اللہ سے محبت ہو، اور صرف اللہ سے خوف ہو۔ اسی گہرے تعلق باللہ کا نام حب شدید ہے۔
حب شدید کیا ہے، اس کا تجربہ مجھے ایک واقعہ سے ہوا۔ میں ایک صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ نارمل انداز میں مجھ سے بات کر رہے تھے۔ اس وقت ان کے بیٹے کا ٹیلیفون آگیا، جو باہر کے ملک میں رہتا تھا۔ باپ کی حیثیت سے ان کو اپنے بیٹے سے نہایت گہرا تعلق تھا۔ جب انھوں نے ٹیلیفون اٹھایا ، اور بیٹے سے بات کرنے لگے تو میں نے دیکھا کہ وہ بار بار’’ہاں میرے بیٹے، ہاں میرے بیٹے‘‘ کہہ رہے تھے۔ اس وقت وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ شدت جذبات کے تحت وہ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے ہیں، اور کھڑے ہوکر اپنے بیٹے سے بات کرنے لگے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت وہ صرف اپنے بیٹے کو جانتے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ ان کے سوا کوئی اور بھی ان کے پاس موجود ہے۔ محبت کا یہی وہ درجہ ہے، جس کو حضرت مسیح نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے- خداوند اپنے خدا سے، اپنے سارے دل، اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ:
You shall love the Lord your God with all your heart, and with all your soul, and with all your mind. (Matthew 22:37)
واپس اوپر جائیں

حمد خداوندی

قرآن کی پہلی آیت یہ ہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:1)۔ یعنی سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو جو نعمتیں (blessings)دی ہیں، ان کے جواب میں انسان سے کیا رسپانس مطلوب ہے۔ یہ حمد کا رسپانس ہے۔ حمد کا مطلب شکر اور تعریف کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ مگر انسانی استعمال کے اعتبار سے شاید زیادہ بامعنی لفظ ہےاعتراف (acknowledgement)۔ یعنی ان نعمتوں کو دریافت کرنا، اور دل کے سچے جذبہ کے ساتھ ان کا اعتراف کرنا۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان سے شکر یا تعریف کا لفظ بول دیا جائے۔ اعتراف کا آغاز دریافت (discovery) سے ہوتا ہے۔ پہلے انسان ان نعمتوں کو دریافت کرتا ہے، اس کے بعد اس کے دل میں اعتراف کا جذبہ امڈتا ہے، اور پھر ان وفور جذبات کا اظہار مختلف الفاظ کی صورت میں بے ساختہ طور پر اس کی زبان سے نکل پڑتا ہے۔ گویا شکر وہ ہے، جس کے اندر گہرے جذبات کا طوفان شامل ہو۔ شکر وہ ہے، جو دل کو تڑپادے، جو آنسوؤں کی صورت میں امڈ پڑے۔ شکر وہ ہے، جس کے اندر انسان کی پوری شخصیت شامل ہوجائے۔
شکر یہ نہیں ہے کہ زبان سے کچھ الفاظ بول دیے جائیں۔ شکر گہرے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ ایک شاعر نے ایک گہرے جذبے کا ذکر کرنا چاہا، تو اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:
اس بات کے کہنے کو کہاں سے جگر آئے
حقیقت یہ ہے کہ سچا اعتراف وہ ہے، جس کے احساس سے آدمی کا دل پھٹنے لگے، جس کو بیان کرنے کے لیے انسان کی ڈکشنری کے الفاظ ناکافی نظر آئیں۔ سچا اعتراف انسان کی پوری شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔سچے اعتراف میں آنکھ کے آنسو، اور زبان کے الفاظ اس طرح ایک دوسرے میں شامل ہوجاتے ہیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

توحید کا مقام

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا شَاءَ اللہُ وَشِئْتَ۔قَالَ:جَعَلْتَ لِلَّہِ نِدًّا بَلْ مَا شَاءَ اللہُ وَحْدَہُ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 13005)۔ یعنی ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، جو اللہ چاہے اور جوآپ چاہیں۔ یہ سن کر آپ نے کہا: کیا تو نے مجھے اللہ کے برابر کردیا۔ بلکہ جو اللہ اکیلا چاہے۔
ند کا معنی ہے برابر (equal)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی ہستی کسی ادنی پہلو سے بھی اس کے ہمسر نہیں ہوسکتی۔ جو آدمی اللہ کی غیر مشترک عظمت کا حقیقی شعور رکھتا ہو، وہ اس معاملے میں اتنا زیادہ حساس ہوگا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو ضمیر (pronoun)کی شکل میں بھی برابر کرنا گوارا نہیں کرسکتا۔ قرآن کی مختلف آیتوں میں اللہ کی عظمت کا بیان ہوا ہے، مثال کے طور پر آیۃ الکرسی (البقرۃ، 2:255) ۔ آپ آیۃ الکرسی کو سمجھ کر پڑھیں تو آپ کا دل دہل اٹھے گا۔ مثلاً اللہ کی عظمت کے بارے میں آیۃ الکرسی کے ان الفاظ کو پڑھیے -وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ:
His throne extends over the heavens and the earth.
زمین و آسمان ناقابل قیاس حد تک وسیع ہے۔ اس عظیم کائنات کو اللہ رب العالمین ہر لمحہ سنبھالے ہوئے ہے۔اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یَسْأَلُہُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِی شَأْنٍ(55:29)۔ یعنی اسی سے مانگتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ہر روز اس کا ایک کام ہے۔
یہ معاملہ عقل کو چکرانے (mind-boggling)کی حد تک عظیم ہے۔ ایک اردو شاعر نے 1857 ء میں دلی کی بربادی کویاد کرتے ہوئے یہ کہا تھا:
اس بات کو کہنے کے لیے کہاں سے جگر آئے
اللہ رب العالمین کی عظمت کے بارے میں یہ بات بے شمار گنا حد تک بڑی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذکر کثیر کیا ہے

قرآن کی کئی آیتوں میں کہا گیا ہے کہ اللہ کا ذکر کثیر کرو۔ مثلا یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّہَ ذِکْرًا کَثِیرًا (33:41)۔ یعنی اے ایمان والو، اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔ اللہ کے ذکر کثیرکا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان سے بار بار اللہ اللہ دہراؤ، یا بار بار زبان سے اس طرح کے الفاظ بولو کہ الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاءاللہ، وغیرہ۔
اللہ کے ذکر کثیر کا مطلب مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب معنوی اعتبار سے اللہ بار بار عارفانہ رسپانس (realized response) دینا ہے۔ یہ معرفت کا ایک کلمہ ہے، نہ کہ حروف تہجی کے کچھ کلمات کی لفظی تکرار۔ ایک حدیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ، عائشہ آپ کے بارے میں فرماتی ہیں:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ اللہَ عَلَى کُلِّ أَحْیَانِہِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 373)۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر موقع (occasion) پر آپ کو اللہ کی یاد آئے۔ ہر تجربہ آپ کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرینس بن جائے، جس کو لے کر آپ اللہ کو بار بار یاد کرتے رہیں۔ ذکر اللہ کی معرفت کی بنیاد پر زبان سے جاری ہونے والا ایک کلمہ ہے، وہ الفاظ کی تکرارنہیں ۔
مثلاً آپ رات کو بستر پر گئے، اور آپ کو نیند آگئی ۔ اس وقت آپ کو یہ یاد آیا کہ اللہ نے نیند کی صورت میں کیسی عجیب نعمت عطا کی ہے کہ دن بھر کی تکان کے بعد انسان سوجاتا ہے، اور پھر وہ صبح کو تازہ دم ہوکر اٹھتا ہے۔ اسی طرح رات کے وقت آپ کو اندھیرے کا تجربہ ہوا ، پھر صبح ہوئی ، اور دوبارہ روشن سورج نکل آیا۔ اس وقت آپ کو یاد آیا کہ اللہ نے سورج کی شکل میں کتنی بڑی نعمت انسان کو دی ہے۔ ذکر کثیر در اصل ذہنی ارتقا (intellectual development) کا نتیجہ ہے۔ اگر آپ کا ذہن ایک عارفانہ ذہن (realized mind) ہوتو زندگی کا ہر تجربہ آپ کو اللہ کی یاد دلائے گا، اور آپ اللہ کا اعتراف مختلف عارفانہ ذہن کے ساتھ کرتے رہیں گے۔ یہی ہے اللہ کا ذکر کثیر۔
واپس اوپر جائیں

سجدہ ذریعۂ قربت

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (96:19)۔ یعنی ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مان اور سجدہ کر اور قریب ہوجا۔ قرآن کی اس آیت میں سجدہ سے مراد اس کا فارم نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ سجدہ ہے، جو سجدہ کی اسپرٹ سے بھرا ہوا ہو۔ سجدہ ایک علامتی فعل ہے۔ سجدہ کسی بندہ کی طرف سے اس بات کی علامت ہے کہ وہ آخری حد تک یکسو ہو کر اللہ کو یاد کرنے والا بن گیا ہے۔ اس نے آخری حد تک اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ سجدہ اس بات کا عملی عزم ہے کہ بندہ اپنی یکسوئی میں کسی بھی بات سے ڈسٹریکٹ ہونے والا نہیں۔
لا تطعہ (اس کی اطاعت نہ کرو)- یہاں اطاعت کا لفظ شدتِّ اظہارکے معنی میں ہے۔ وہ بندہ کے اس عزم کو بتاتا ہے کہ بندہ اس حد تک یکسو ہو چکا ہے کہ اللہ کے معاملے میں کوئی شیطانی وسوسہ یا کسی انسان کی غوغا آرائی اس کو ڈسٹریکٹ کرنے والی نہیں ۔ اس کی سوچ اللہ والی سوچ ہوگی۔ اس کے جذبات اللہ والے جذبات ہوں گے۔ اس کا رخ اللہ کی طرف ہوگا۔ اس کی تمنائیں اللہ کے لیے وقف ہوں گی۔ وہ سوچے گاتو اللہ کے لیے سوچے گا، اور کرے گا تو اللہ کے لیےکرے گا۔ سجدہ سپردگی (submission) کی علامت ہے۔ کسی کے آگے سر زمین پر رکھنا اس بات کا اظہار ہے کہ آدمی نے پوری طرح اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیا ہے ۔سر زمین پر رکھنے کے بعد آدمی کے پاس کوئی چیز حوالہ کرنے کے لیے باقی نہیں رہتی۔
جب آدمی اپنا سر زمین پر رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے سپردگی اور سرینڈر (surrender) کے معاملے میں کامل یکسوئی کا اظہار ہوتا ہے۔ سجدہ اس بات کی علامت ہے کہ بندہ نے انسانوں سے اپنی سوچ کو ہٹا لیا ہے۔ اس نے پورے معنوں میں خدا رخی زندگی (God-oriented life) اختیار کر لی ہے۔ اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی ڈسٹریکشن کی بات کو یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ اس کو خدا رخی زندگی سے ہٹائے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کے لیے سبق

قرآن میں ایک بات ان الفاظ میں آئی ہے:بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (75:14-15)۔ یعنی بلکہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے ، چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اس انداز میں ہوئی ہے کہ اگر وہ عذر (excuse) کا شکار نہ ہو، تو وہ خود اپنی تخلیق پرغور کرکے بڑی بڑی باتیں سیکھ سکتا ہے۔ اس کی زندگی خود ایک لائبریری ہے۔ اپنے مطالعہ سے خود وہ اپنے لیے بڑے بڑے سبق دریافت کرسکتا ہے۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر6227)۔ یعنی انسان کو وہ صلاحیتیں بہت ہی چھوٹے پیمانے پر دی گئی ہیں، جو صفات بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اللہ رب العالمین کی ہیں۔
انسان جب اس کائنات کو دیکھتاہے ، تو اس کو یہ نظرآتا ہے کہ پوری کائنات نہایت منصوبہ بند انداز میں چل رہی ہے۔ سورج ہمیشہ ٹھیک اپنےوقت پر نکلتا ہے، اور متعین وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پوری کائنات زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چل رہی ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے انتظام میں ہمیشہ نقائص موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر اس معاملے کا مطالعہ تقابلی انداز میں کرے، تو وہ خود اپنے مطالعہ کے ذریعے خدائے برتر کے وجود کو دریافت کرلے گا۔ یہ دریافت اس کو یہ کہنے پر مجبور کردے گی:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ(14:10)۔اگر آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ قرآن و حدیث کی باتوں کو اپنے الفاظ میں ڈھال سکے، تو اس کی دریافت اس کے لیے ری ڈسکوری بن جاتی ہے۔ وہ مذکور باتوں کو زیادہ موثر انداز میں دریافت کرنے لگتا ہے۔ مثلاً قرآن میں آیاہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: اس نے تم کو ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا (14:34)۔ اگر آپ کے پاس اپنے مطالعے کے مطابق، یہ لفظ موجود ہو کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے، جو ہیومن فرینڈلی دنیا ہے۔ اس کا احساسِ شکر بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

شکر کا آئٹم

تقریباً تیرہ بلین سال پہلے سولر سسٹم وجود میں آیا۔ اس وقت زمین کے اوپر صرف گیس تھی۔ پھر گیس کے ذریعے پانی بنا۔ پانی کا فارمولا H2 O ہے، یعنی اس زمین میں ایسے مالیکیول رکھ دیئے گئے، جس میں ہائڈروجن کے دو ایٹم ہوتےتھے، اور آکسیجن کا ایک ایٹم۔ اس طرح زمین کے اوپر پانی وجود میں آیا۔ یہ پانی بڑے پیمانے پر سمندر کی گہرائیوں میں جمع ہوگیا۔ ابتدامیں نیچر نے اس پانی میں حفاظت ( preservation) کے طور پر نمک (salt) شامل کیا ۔ یہ نمک آمیزپانی براہ راست طور پر انسان کے لیے قابل استعمال نہ تھا۔ پھر زمین کے اوپرسورج کی حرارت اور پانی کے تعامل سے حیرت انگیز طور پر بارش کا انتظام ہوا۔ فطری طور پر نمک کا وزن زیادہ تھا، اور پانی کا وزن کم۔ چنانچہ پانی جب سورج کی حرارت سے بھاپ بنا، تو فطری قانون کے تحت نمک الگ ہوگیا،ا ور پانی الگ۔ پھر یہ ڈیسالینیٹڈ پانی (desalinated water) ہلکا ہونے کی بنا پر فضا میں بلند ہوا، اور پھر آخر کار فطرت کے قانون کے مطابق وہ پانی بارش بن کر زمین پر برسا۔ اس پانی نے زمین کو سیراب کیا، اور چشموں اور دریاؤں کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔
فطرت کے نظام کے تحت یہ ایک سائکل (cycle) ہے، جو مسلسل طور پر جاری ہے۔ پانی کا یہی نظام ہے، جس نے زمین کو انسان کے لیے حیات بخش سیارہ بنا کر رکھا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو انسان زمین کے اوپر زندہ سماج نہ بنا سکے۔ زمین پر تہذیب کی تشکیل پانی کے بغیر ناممکن ہو جائے۔ اس پورے عمل پر غور کیا جائے ،تو اس میں حکمت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں، جو انسان کے لیے مائنڈ باگلنگ ظاہرہ (mind-boggling phenomena) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدیم زمانے کا انسان ان حقیقتوں سے بے خبر تھا، مگر اب سائنسی مطالعے کے ذریعے یہ حقیقتیں انسان کے علم میں آگئی ہیں۔ ان حقیقتوں کو جاننا انسان کے اتھاہ خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ غالباً یہی وہ عظیم حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا (16:18) ۔
واپس اوپر جائیں

ایمان بالغیب

اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے: الم ،ذَلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ ہُدًى لِلْمُتَّقِینَ ۔ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ (2:1-3)۔ یعنی الم، یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ راہ دکھاتی ہے ڈر رکھنے والوں کو، جو یقین کرتے ہیں بن دیکھے۔
اس آیت میں ایمان بالغیب سے مراد بلائنڈ فیتھ (blind faith) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایمان جو مطالعہ اور غور و فکر کے نتیجے میں مومن کے اندر بطور واقعہ وجود میں آئے۔ایمان ابتدائی طور پر ایک حقیقت کو ماننے کا نام ہے۔انسان جب اس حقیقت کو مان لے تو فطری طو رپر اس کے اندر ایک پراسس شروع ہوجاتا ہے۔ جب ایک انسان اللہ کے وجود کو مان لے، تو فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں ہر ممکن ذریعے سے مطالعہ اور تحقیق شروع کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے، جس کو دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے، جب کہ مومن کا لفظی اقرار اس کی پوری ہستی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔
اللہ کے بارے میں اس کی دریافت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ گویا کہ اس کو دیکھنے لگتا ہے(أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ) صحیح البخاری، حدیث نمبر50 ۔ بظاہر نہ دیکھتے ہوئے بھی وہ اس پر دیکھنے کی مانند یقین کرنے لگتا ہے۔ قرآن کی ایک آیت سے اس معاملے کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ (وہ کہہ اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا(3:191) ۔ اس آیت کو دیکھیے، ایک سچے انسان کے لیے غور و فکر کے بعد یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ ’’کہہ اٹھتے ہیں‘‘، لیکن قرآن میں ’’کہہ اٹھتے ہیں‘‘ کو حذف کردیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بعد ان کے اندر غور وفکر کا جو گہرا پراسس جاری ہوتا، وہ نتیجے تک پہنچتے پہنچتے اتنا شدید ہوتا ہے کہ گویا وہ چیخ اٹھتے ہیں:رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا ۔
واپس اوپر جائیں

ایمان باللہ

اللہ پر ایمان اللہ کی معرفت سے شروع ہوتا ہے، یعنی اللہ رب العالمین کی شعوری دریافت سے ۔ یہ حقیقت قرآن کی آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ (5:83)۔ یعنی اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
ایمان قبول کرنے کے بعد جب کوئی انسان اللہ رب العالمین کو شعوری دریافت کے درجے میں پاتا ہے، تو اس کے بعد اس کے اندر ایک ذہنی عمل (intellectual process) شروع ہوجاتا ہے۔ اس عمل کا حوالہ قرآن میں ان الفاظ میں دیا گیا ہے:أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ۔ تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (14:24-25)۔ یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمۂ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت پر اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے۔ اور اللہ لوگوں کے لئے مثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب کسی انسان کو دریافت (discovery)کے درجے میں ایمان ملتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ایک پراسس جاری ہوجاتا ہے، وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ ہر تجربے اور مشاہدے کو اپنی شخصیت کے ارتقا کا جزء بنا سکے۔ اس طرح یہ عمل (process) جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی شخصیت ایک ربانی شخصیت بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اقشعرار کیا ہے

قرآن کی ایک آیت میں مومن کی صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَابًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُدَى اللَّہِ یَہْدِی بِہِ مَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ (39:23)۔ یعنی اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے۔ ایک ایسی کتاب آپس میں ملتی جلتی، بار بار دہرائی ہوئی، اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے۔ اس سے وہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
اقشعرار کا مطلب ہے شدت تاثر کے تحت جسم پر کپکپی (shivering)کا طاری ہوجانا۔ یہ کیفیت ایک عام کیفیت ہے۔ مومن کے لیے ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ اللہ کے خوف سے اس کے اندر شدید تاثر پیدا ہو۔ اس وقت عام فطری قانون کے تحت اس کے جسم پر کپکپی کی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ اس سے دل کے اندر نرمی پیدا ہوجائے گی۔ آدمی زیادہ قبولیت کے جذبے کے تحت اللہ کی باتیں سننے لگے گا۔اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر اقشعرار کی یہ کیفیت نہ پیدا ہو، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں قساوت کی کمزوری پیدا ہوچکی ہے۔ وہ اللہ کی پکڑ کی باتیں سننے کے بعد بھی سخت دل بنا رہتا ہے۔
اس آیت کے آخری جزء کا ترجمہ یہ ہے: یہ اللہ کی ہدایت ہے۔اس سے اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ قصداً کسی کو ہدایت دیتا ہے، اور کسی کو نہیں دیتا ہے۔ بلکہ ایسا انسان کی اپنی طرف سے ہوتا ہے، جو انسان سوچے اور نصیحت کو پکڑے، وہ ضرور ہدایت پائے گا، اور جو آدمی سوچ اور نصیحت سے خالی ہو، وہ اس کیفیت سے بھی خالی رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

اسمِ اعظم

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَقُولُ: اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللَّہُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَقَدْ سَأَلَ اللَّہَ بِاسْمِہِ الْأَعْظَمِ، الَّذِی إِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3857)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا، اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، کیوں کہ تو ہی اللہ ہے، اکیلا، ہر ایک کی ضرورتوں کو پوری کرنے والا، جس نے کسی کو پیدا نہیں کیا، اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا، اور اس کے برابر کوئی نہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اس نے اللہ کو اس کے اسم اعظم کے ساتھ پکارا ہے، جس کے ذریعے سے جب مانگا جائے توو ہ عطا کرے،ا ور جب دعا کی جائے تو قبول ہو۔
یہ کون سی دعا ہے۔ یہ دعا رٹے ہوئے الفاظ کی تکرار نہیں ہے، نہ اس کا کوئی ’’رسمی نصاب‘‘ ہے۔ یہ دعا کی وہ قسم ہے جس میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔ جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین اور آسمان بھی نہ کرسکیں۔ جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کردیتا ہے کہ ’’مانگنے والا‘‘ اور ’’دینے والا‘‘ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب کہ دعا ،محض لغت کا ایک لفظ نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے۔ اُس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوجاتے ہیں۔ قادرِ مطلق ،عاجزِ مطلق کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے۔
یہ زبان وہ ہے، جس کو انگریزی کے حوالے سے لینگویج آف انڈراسٹیٹمنٹ (language of understatement) کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اردو کے انشاء پردازوں کی زبان لینگویج آف اووراسٹیٹمنٹ (language of overstatement) کہی جاسکتی ہے۔وہ لوگ جو اردو زبان میں پلے بڑھے ہوں، جن کا اسلوب اردو زبان کے ماحول میں بنا ہو، وہ لینگویج آف انڈرسٹیٹمنٹ بولنے کے لیے نااہل ہوتے ہیں۔
لینگویج آف اوورا سٹیٹمنٹ کا معاملہ سادہ معاملہ نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں جو مزاج بنتا ہے، وہ کبر خفی (hidden arrogance)کا مزاج کہا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگ اس کےلیے نااہل ہوجاتے ہیں کہ وہ اسم اعظم کی زبان بولیں، اور اسم اعظم کے لب و لہجہ میں سوچیں۔ پروفیسر ہمایون کبیر نے انڈیا ونس فریڈم (India Wins Freedom)کے مقدمے میں بجا طور پر لکھا ہے کہ انگریزی زبان بنیادی طور پر لینگویج آف انڈر اسٹیٹمنٹ ہے:
English, on the other hand, is essentially a language of understatement.
اس کے مقابلے میں اردو زبان لینگویج آف اوور اسٹیٹمنٹ ہے۔ جو لوگ اردو زبان کے ماحول میں رہتے ہوں، وہ اس فرق کو سمجھنے کے لیے تقریباً نا اہل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً غالباً 1940 کی بات ہے، اس وقت میں ایک مدرسے میں پڑھتا تھا۔ یہ آزادی کی جدو جہد کا زمانہ تھا۔ ہمارے مدرسے کے ایک بڑے استاد نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے کہا: انگریز ساری دنیا کا مکھن کھا گئے۔ جو لوگ اس طرح کی زبان کو لکھیں یا پڑھیں، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر کبر خفی کا شکار بن جاتے ہیں۔ وہ باتوں کو ایز اٹ از (as it is) سمجھنے کے لیے نااہل ہوجاتے ہیں۔ اردو زبان کا یہ ایک عام مسئلہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اردو ریڈر شپ میں عام طور پر حقیقت پسندی کا مزاج موجود نہیں ہوتا۔اردو ریڈر شپ کی یہ کمزوری ہے کہ وہ صرف ہائی پروفائل (high profile)کے اسلوب کو جانتی ہے، لو پروفائل (low profile)کے اسلوب کو وہ سرے سے جانتی ہی نہیں۔ حالاں کہ ہائی پروفائل لوگوں کے اندر جذباتی مزاج پیدا کرتا ہے، اور جذباتی مزاج کامیابی تک پہنچنے کے لیے مستقل رکاوٹ ہے۔
اس معاملے کا بہت گہرا تعلق دعا سے ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی جو لینگویج آف اوور سٹیٹمنٹ سے مانوس ہو، وہ عجز کی نفسیات سے خالی ہوجائے گا، وہ عجز کی زبان میں دعا کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ ایسا آدمی ہائی پروفائل میں بولے گا، اور ہائی پروفائل میں سوچے گا،اور ہائی پروفائل اور عجز کا شعور دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

جنت، جنت

جنت رب العالمین کا پڑوس ہے (التحریم،66:11)۔جنت ان لوگوں کے لیے ہے، جو دنیا میں خداوند رب العالمین کی یاد میں جینے والے ہوں، وہی لوگ ابدی جنت میں بسائے جائیں گے۔جہاں ان کو خداوندِ رب العالمین کی قربت حاصل ہوگی۔ جو لوگ منفی سوچ (negative thinking) میں جینے والے ہوں، وہ دنیا میں بھی خداوند رب العالمین کی قربت سے محروم رہیں گے، اور آخرت میں بھی۔
موجودہ دنیا تربیت گاہ ہے، اور آخرت کی دنیا تربیت یافتہ لوگوں کا مقام۔ جنت میں صرف منتخب افراد رہائش کا درجہ پائیں گے۔ وہ لوگ جو دنیا کی زندگی میں اپنے آپ کو اس قابل ثابت کریں کہ وہ منظم زندگی گزارنا جانتے ہیں، جن کے اندر قابلِ پیشین گوئی کردار موجود ہے۔ جنت میں ان لوگوں کو داخلہ ملے گا، جو اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ ان کے اندر تخلیقی (creative)صلاحیت موجود ہے، جو یہ ثابت کریں کہ وہ آزادی کے باوجود ذمے دارانہ زندگی (disciplined life) کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنت ان لوگوں کے لیے ہے، جو پورے معنی میں باشعور ہوں، جو پورے معنیٰ میں بے مسئلہ انسان ہوں، جو اپنے اندر سیلف کنٹرول (self-control) کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
جنت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے :حَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت حسنِ رفاقت (excellent companionship) کی دنیا ہے۔ دنیا میں اسی کا امتحان ہورہا ہے۔ یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون شخص ہے، جو اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اس کے اندر سیلف ڈسپلن کی صفت اعلی درجے میں پائی جاتی ہے، جو کسی کے دباؤ کے بغیر دوسروں کے لیے بہترین ہمسایہ بن کر رہنے والا ہے۔ جس آدمی کے اندر حسن رفاقت کی صفت ہو، جو کسی دباؤ کے بغیر سیلف ڈسپلن کے ساتھ ہر حال میں رہ سکتا ہو، ایسے ہی لوگ ہیں، جو جنت میں داخلے کے لیے منتخب کیے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کس کے لیے

ایک حدیث رسول میں طالب جنت کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں:مَا رَأَیْتُ... مِثْل الجَنَّةِ نَامَ طَالِبُہَا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2601)۔ یعنی میں نے نہیں دیکھا، جنت جیسی چیز، جس کا طالب سورہا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جنت اس کے لیے ہے، جو سراپا طالب جنت بن جائے۔ جو جنت کی حقیقت کو اتنی زیادہ گہرائی کے ساتھ دریافت کرے کہ جنت اس کا انتظار بن جائے۔ وہ جنت کی یاد میں سوئے، اور جنت کی یاد میں جاگے۔ جس کا احساس یہ بن جائے کہ اللہ نے اگر اس کو جنت نہ دی تو اس کا حال کیا ہوگا۔ اگر وہ آخرت میں جنت سے محروم ہوجائے، تو اس کا کتنا زیادہ برا حال ہوجائے گا۔ اس کے لیے زندگی کتنی بڑی مصیبت بن جائے گی۔
جنت کا طالب وہ ہے، جو جنت کو دیکھے بغیر جنت کو دیکھنے لگے۔ جو جنت کو پانے سے پہلے جنت کا طالب حقیقی بن جائے۔ طالبِ جنت کی تصویر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کی گئی ہے: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (47:6)۔ یعنی اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اس نے انھیں پہچان کرا دی ہے۔ اس آیت میں جنت کی معرفت کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مگر وہ مومن کی صفت ہے۔ مومن وہ ہے، جو جنت کو اس طرح دریافت کرے کہ جنت اس کا شوق بن جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنت کیا ہے، اس سے لوگوں کو پیشگی طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صاحب ایمان جنت کے بارے میں اپنی معرفت کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ جنت اس کے لیے پیشگی طور پر ایک معلوم چیز بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت ایک ایسا مطلوب ہے، جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے طالبِ جنت کا مثنی (counterpart) ہے۔ وہ فطری طور پر انسان کا ایک معلوم مسکن ہے۔ گویا کہ جنت انسان کے لیے ہے، اور انسان جنت کے لیے۔ لیکن جنت کا شوق جنت کے حصول کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ضروری تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

خالق اور مخلوق

تخلیق (creation)کا وجود خالق (Creator)کے وجود کا ثبوت ہے۔ انسان اگرچہ براہ راست طو رپر خالق کو نہیں دیکھتا، لیکن بالواسطہ طو رپر وہ ہر لمحہ خالق کو دیکھ رہا ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز اپنے خالق کی ریمائنڈر (reminder) ہے۔ ہر چیز، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، خاموش زبان میں کہہ رہی ہے کہ ایک خالق ہے، جس نے مجھ کو وجود بخشا ہے۔ میرا ہونا، اپنے آپ میں خالق کے ہونے کا ثبوت (proof) ہے۔
انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) لیتا رہتا ہے۔ انسان جب کسی چیز کو بار بار دیکھتا ہے، تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اس کے لیے موجود ہے۔ انسان اپنی اس کمزوری کی بنا پر خالق کے وجود(existence of Creator) کو ایک زندہ وجود کا درجہ نہیں دے پاتا۔ خالق کو بظاہر مانتے ہوئے بھی، وہ اس کو زندہ یقین کی حیثیت سے اختیار نہیں کرپاتا۔ اس کمی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ خدا کو وہ اپنی زندگی میں سپریم کنسرن (supreme concern) کی حیثیت سے شامل نہیں کرپاتا۔
اس کمزوری کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ بظاہر اگرچہ وہ خدا کو مانتا ہے، لیکن اس کی روزمرہ کی زندگی اس طرح گزرتی ہے کہ جیسے خدا اس کی زندگی میں صرف ایک بے روح ضمیمہ (spiritless appendix) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے خدا کو ماننا بھی ایسا ہی ہے، جیسے کہ خدا کا نہ ماننا۔ اپنڈکس کا آپریشن کردیا جائے تو اس کے بعد بھی انسان بدستور ویسا ہی باقی رہتا ہے، جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ اس کے لیے خدا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔خالق کو زندہ یقین کی حیثیت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا، اپنے آپ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے ایک مسلسل قسم کا تھنکنگ پراسس درکار ہے۔ نان اسٹاپ تھنکنگ پراسس (non-stop thinking) کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی شخص کی زندگی میں خالق ایک زندہ ہستی کے طور پر شامل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

خدا اور انسان

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ دھیرے دھیرے زبان سیکھتا ہے ۔ اس طرح وہ یہ شعور حاصل کرتا ہے کہ وہ ایک انسان ہے۔ اسی حقیقت کو زیادہ فلسفیانہ انداز میں فرانسیسی مفکر ، ڈیکارٹ (1596) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے — میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore, I exist
یہ ذاتی شعور کے ذریعہ اپنے وجود کا یقین ہے۔ اس کے بعد آدمی ایک سیارہ (planet earth) پر زندگی گزارتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے یہ یقین حاصل کرتا ہے کہ میرا ایک وطن ہے، جو زمین پر واقع ہے۔ آدمی کو جس طرح یہ مبنی بر مشاہدہ یقین اپنی ذات کے بارے میں ہوتا ہے، اسی طرح اس کو اپنے وطن ، زمین کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔
یہ شعوری ارتقا کا ایک معاملہ ہے۔ یہ شعوری ارتقا جس طرح آدمی کو اپنے وجود کا یقین دیتا ہے۔ اسی طرح وہ اس کو یہ یقین دیتا ہے کہ یہاں ایک زمین ہے، جس میں وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ آباد ہے۔ اس زمین میں لائف سپورٹ سسٹم کے تمام آئٹم موجود ہیں۔ شعور کا یہ فطری ارتقا پھر اس درجہ کو پہنچتا ہے کہ آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ جس طرح میرا ایک وجود ہے، اسی طرح میرے خالق کا بھی یقینی طور پر ایک وجود ہے۔ انسان جب خالق کے وجود کو دریافت کرلے تو اس کو بقیہ تمام چیزوں کی توجیہہ (explanation) مل جاتی ہے۔ اور اگر وہ خالق کے وجود سے بے خبر رہے تو اس کے لیے ہر چیز غیر توجیہہ شدہ (unexplained) بنی رہتی ہے۔
اس کے بعد آدمی قرآن میں یہ پڑھتا ہے کہ اہل جنت کو جب اگلے دور حیات میں جنت ملے گی تو وہ کہیں گے کہ یہ جنت تو ہمارے لیے زمین کے متشابہ جنت ہے (البقرۃ، 2:25) ۔ یہ ایک فطری دریافت کا معاملہ ہے۔ یہ فطری پراسس (natural process) ہے جو آدمی کو ہر قابل دریافت چیز کی ڈسکوری تک پہنچادیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا وجود

خدا کی دریافت انسان کے لیے معرفت کا آغاز ہے۔ جو شخص اللہ رب العالمین کو دریافت کرلے، اس نے تمام حقیقتوں کو دریافت کرلیا، اوراس نے حقیقت کے سرے کو پالیا۔خدا کی دریافت کے بغیر ہر چیز غیر دریافت شدہ بنی رہتی ہے۔ خدا کی دریافت کرنے کے بعد ہر چیز دریافت شدہ بن جاتی ہے۔ خدا کو دریافت کرتے ہی انسان کو وہ شاہ کلید (master key) مل جاتی ہے، جس کے بعد اس کے لیے ہر چیز کو دریافت کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ خدا کو دریافت کرتے ہی اس کے ذہن کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں، یہاں تک کہ کوئی دروازہ اس پر بند نہیں رہتا۔
خدا کی دریافت کسی انسان کے لیے اتنا ہی آسان ہے، جتنا خود اپنی دریافت۔ اسی لیے کہا گیا ہے :مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ (حلیۃ الاولیاء، 10/208)۔ یعنی جس نے اپنے آپ کو دریافت کیا، اس نے اپنے خدا کو دریافت کرلیا۔اس قول کو ایک حدیث پر غور کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ عَلَى صُورَتِہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227)۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔
اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے اندر جو صفات رب کی سطح پر ہیں، وہی صفات بندے کے اندر انسان (مخلوق)کی سطح پر رکھی گئی ہیں۔ اس بنا پر یہ ممکن ہے کہ آدمی ایک سے دوسرے کو سمجھے۔ وہ اپنی معرفت حاصل کرکے اللہ رب العالمین کی معرفت تک پہنچ جائے۔ اگر آدمی ایسا کرے تو اس کے لیے اللہ کی یاد ، اللہ سے دعا کرنا، اللہ کا تصور قائم کرنا، آسان ہوجائے گا۔
مثلاً انسان اپنے ساتھ کسی کی شرکت کو پسند نہیں کرتا۔ اس کو غیرت آتی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی انسان اس کا شریک بن جائے۔ اس تجربے سے انسان کو یہ سبق لینا چاہیے کہ اللہ رب العالمین بدرجہا زیادہ اس صفت کا حامل ہوگا۔ انسان اگر سنجیدہ ہوتو یہ اصول اس کے لیے خدا کی معرفت میں بہت زیادہ مددگار بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

علم فلکیات (astronomy) کے موضوع پر ہر زبان میں بڑی تعداد میں کتابیں موجود ہیں۔ آپ فلکیات کے موضوع پر کوئی کتاب پڑھیے، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کائنات (universe) ناقابل قیاس حد تک بڑی کائنات ہے۔ وہ متحرک ستاروں اور سیاروں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات نہایت عظیم ہونے کے باوجود ایک بے خطا کائنات (flawless universe) ہے۔ کائنات ریاضیاتی صحت (mathematical precision)کے اصول پر قائم ہے۔ کائنات کی اس حقیقت کا حوالہ خود قرآن میں ایک ناقابل انکارحقیقت کے طور پر کیا گیا ہے (الملک، 67:3-4)۔
اس کے بعد آپ انسانی دنیا کو دیکھیے، تو آپ کو دونوں دنیاؤں میں ایک عجیب فرق دکھائی دے گا۔ انسانی دنیا برعکس طور پر مصائب (suffering) سے بھری ہوئی ہے۔ یہ مصائب اتنے زیادہ عام ہیں کہ ہر عورت اور ہر مرد کو اپنی زندگی میں اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس فرق پر غور کرتے ہوئے، مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ یہ واقعہ غالباً 1972 کا ہے، جب کہ میں نے احمد آباد کا ایک سفر کیا تھا۔ ’احمد آباد کا سفر‘ کے عنوان سے یہ واقعہ الجمعیۃ ویکلی میں شایع ہوچکا ہے۔
اس سفر کے دوران میری ملاقات ایک نوجوان انجینئر سے ہوئی۔ اس نے جلد ہی شہر احمد آباد میں ایک فیکٹری لگائی تھی۔ یہ فیکٹری بظاہر نہایت اعلیٰ معیار پر قائم کی گئی تھی۔ نوجوان نے اپنی فیکٹری کے مختلف حصوں کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ہماری فیکٹری جدید معیار پر قائم کی گئی ہے۔ مگر ابھی تک ہمارے پاس کوئی کوالیفائڈ مینیجر نہیں ۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اس نے یہ جملہ کہا —اپنی تو لیمیٹیشنس (limitations)آجاتی ہیں مینیجمنٹ سائڈ پر۔
اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے میری زبان پر یہ جملہ آگیا کہ کیا خدانخواستہ خالق کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، کیا خالق کی لیمیٹیشنس آجاتی ہیں انسان کی سائڈ پر۔اس سوال پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا ۔ کیوں کہ خود قرآن کے مطابق، انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نے احسن تقویم (التین،95:4) کے ساتھ پیدا کیا۔ خالق کائنات نےانسان کے لیے اعلیٰ ترین انجام مقدر کیا ہے، یعنی ابدی جنتوں میں داخلے کا انعام ۔
اس پہلو پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آیا کہ انسان کے ساتھ جو پوری کائنات سے الگ معاملہ کیا گیا ہے، یعنی مصیبت (البقرۃ،2:156) کا معاملہ۔ وہ انسان کی بہتری کے لیے کیا گیا ہے۔ انسان کی زندگی ایک سفر ہے، دنیا سے جنت کا سفر۔ یہ سفر انسان کے لیے ایک تربیتی سفر ہے۔ انسان کے لیے اس سفر کے دوران ایک تربیتی کورس مقدر کیا گیا ہے۔ انسان کے لیے یہ مقدر کیا گیا ہے کہ وہ اس تربیتی کورس سے کامیاب ہوکر نکلے۔ تاکہ جب اس کا یہ تربیتی دور ختم ہو تو وہ اپنے آپ کو جنت کے گیٹ پر کھڑا ہوا پائے۔
انسان کے بارے میں خالق کے اس تخلیقی نقشہ (creation plan) کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی ساری توجہ اپنی زندگی کے اس پہلو پر مرتکز کردے۔ وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے کہ وہ اپنے آپ کو ایک تربیت یافتہ انسان بنانے میں کامیاب ہوسکے۔ قرآن میں اس حقیقت کو بار بار بتایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تین آیتیں یہ ہیں:وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ ۔ إِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیدٌ۔ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ (50:15-18)۔ یعنی اور ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں ان باتوں کو جو اس کے دل میں آتی ہیں ۔ اور ہم رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ۔جب دو لینے والے لیتے رہتے ہیں جو کہ دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہیں ۔ کوئی لفظ وہ نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگراں موجود ہے۔
جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat) ہے۔ جنت انسان کا فطری مسکن ہے۔ جنت وہ مقام ہے جہاں انسان کو ہر اعتبار سے کامل فل فل منٹ (fulfillment)ملے گا۔ جنت ہی وہ مقام ہے جس کو پانے کے لیے ہر مرد و عورت کو عمل کرنا چاہیے (الصافات، 37:61)۔
واپس اوپر جائیں

ایمان کا ذائقہ

کسی کھانے کی چیز کو آپ اپنے ہاتھ میں لیں، تو آپ کو اس کا کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوگا۔ لیکن جب کھانے کی اسی چیز کو آپ اپنے منھ میں ڈالتے ہیں تو آپ کو مختلف قسم کے خوشگوارذائقے محسوس ہوتے ہیں، مثلاً کھٹا، میٹھا، نمکین وغیرہ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زبان میں چھوٹے چھوٹے ذائقہ خانے (taste buds) ہوتے ہیں۔ جب کوئی ذائقہ خانہ اس کے مزاج کی چیز کا تجربہ کرتا ہے تو انسان فوراً اس کے ذائقے کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ ذائقہ خانے فطری طور پر کسی کی زبان میں کم ہوتے ہیں، اور کسی کی زبان میں زیادہ۔ چنانچہ ان ذائقہ خانوں کی تعداد تقریباً دو ہزار سے لے کر دس ہزار تک شمار کی گئی ہے۔یہ ذائقہ خانے استعمال کرنے کی بنا پر زندہ (alive) رہتے ہیں۔ لیکن جب ان کو استعمال نہ کیا جائے تو یہ کند (dul) ہوجاتےہیں۔
یہ مادی ذائقہ کا معاملہ ہے۔ اسی طرح انسان کے اندر زیادہ اعلیٰ درجے کے روحانی ذائقہ خانے (spiritual taste buds) بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے اس روحانی ذائقہ خانے کو استعمال کریں اور اس کو ڈیولپ کرتےرہیں، وہ روحانی ذائقوں کو بھی اسی طرح زیادہ لطیف انداز میں محسوس کریں گے، جس طرح کوئی شخص مادی ذائقے کو محسوس کرتا ہے۔ مثلاً اللہ سے محبت یا اللہ سے تعلق ایک ذائقہ ہے۔ اس ذائقے کے بہت سے درجے ہیں۔ جو آدمی ان ذائقوں کو ڈیولپ کرے، اور ان کو محفوظ رکھے تو وہ ہر ربانی آئٹم کے تجربے پر اس کا ذائقہ پاتا رہے گا۔ یہ روحانی ذائقہ خانے تعداد میں کم بھی ہوسکتے ہیں، اور اتنے زیادہ بھی کہ ان کا شمار کرنا ناممکن ہوجائےگا۔مادی ذائقہ خانے ہوں یا روحانی ذائقہ خانے دونوں ڈیولپ کرنے سے زندہ رہتے ہیں، اور اگر ان کو ڈیولپ نہ کیا جائے تو وہ کند ہوجاتے ہیں۔
یہی وہ حقیقت ہے، جو ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں آئی ہے:ذَاقَ طَعْمَ الْإِیمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللہِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 34)۔ یعنی اس نے ایمان کا ذائقہ چکھا، جو اللہ کو رب مان کر راضی ہوا، اور اسلام کو دین مان کر، اور محمد کو نبی مان کر۔
ان ذائقوں کی شدت مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص کو کھانے کی کوئی اچھی چیز ملے تو اس کو کھاکر وہ بہت زیادہ خوش ہوجائے گا، اس کی زبان سے واؤ (wow) یا ونڈرفل (wonderful) جیسے الفاظ نکل پڑتے ہیں۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ اسپریچول ذائقے کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ سے تعلق کا اعلی تجربہ ہو، تو اس قسم کا اعلیٰ تجربہ پیش آئے گا، جس کو قرآن کی مختلف آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ً إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلَى رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ (8:2)۔ یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ آیت ہے: الَّذِینَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ (4:173)۔ یعنی جن سے لوگوں نے کہا کہ بلاشبہ لوگوں نے تمہارے خلاف بڑی طاقت جمع کرلی ہے اس سے ڈرو، لیکن اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
انسان کی شخصیت میں شاید سب سے زیادہ خالص (pure) چیز آنسو ہے۔ آنسو ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں۔ انسانی جسم میں ہاضمے کا جو پیچیدہ عمل ہوتا ہے، اس سے انسان کے جسم میں جو مختلف قسم کی رقیق اشیا پیدا ہوتی ہیں، ان میں سب سے زیادہ لطیف چیز آنسو ہیں۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان محبت خداوندی کے کسی لطیف ذائقے کو محسوس کرتا ہے تو وہ محبت کے آنسو کی شکل میں اس کی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے۔ اس ظاہرے کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ (5:83)۔یعنی جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوںسے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی پہچان

خدا کو پہچاننے کے بہت سے پہلو ہیں۔ اگر کوئی خدا کو پہچاننا چاہے، تو ان پہلوؤں سے خدا کو دریافت کرسکتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ فطرت کے نظام کا تقابل انسانی نظام سے کیا جائے۔
محمّد بن الحسن الفتال (وفات 508ھ) ایک مشہور عالم ہیں، ان کی ایک مشہور کتاب ہے، اس کا نام ہے روضة الواعظین۔ انھوں نے اس کتاب میں علی ابن ابی طالب کے حوالے سے ان کا ایک قول نقل کیا ہے:قال أبو جعفر :قام رجل، فقال: یا أمیر المؤمنین بماذا عرفت ربک؟ قال:بفسخ العزائم ومنع الہمة لما ان ہممت بأمر فحال بینی وبین ہمتی، وعزمت فخالف القضاء عزمی، علمت أن المدبر غیری (روضۃ الواعظین، صفحہ نمبر 30)۔ یعنی ابوجعفر نے کہا: ایک آدمی کھڑا ہوا، اس نے پوچھا: اے امیر المومنین، آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا۔ علی نے کہا: پختہ عزم کے ٹوٹنے ، اور ارادے کےناتمام رہنے سے۔ میں نے ایک کام کرنے کا ارادہ کیا توکوئی میرے اور میرے ارادے کے درمیان حائل ہوگیا۔ میں نے ایک عزم کیا، تو تقدیر میرے عزم کے خلاف گئی۔ اس سے میں نے یہ جانا کہ تدبیر کرنے والا میرے علاوہ کوئی اور ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے رب کو پہچانا اپنے منصوبوں کے ٹوٹنے سے۔اس بات کو آج کل کی زبان میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تقابل (comparison) کے اصول کو اپلائی کرکے اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ یعنی خدا کے منصوبے جو فطرت (nature) میں کام کر رہے ہیں، ان کا تقابل انسان کے منصوبوں سے کیا جائے۔ اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ رب العالمین کے منصوبے زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ (zero-defect management) کی سطح پر جاری ہیں۔ اس کے برعکس، انسان کے منصوبے سب کے سب کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ موجودہ زمانے میں یہ دریافت ہوئی کہ فطرت (nature) کے تمام منصوبے زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کی سطح پر چل رہے ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں کوشش کی گئی کہ انسان کی صنعت بھی زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چلائی جائے۔ لیکن اس معاملے میں کامل ناکامی ہوئی۔ یہ معاملہ انسان کی نگرانی میں چلنے والے بڑے سے بڑے آرگنائزیشن سے لے کر انفرادی سطح پر جاری تمام منصوبو ں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے دفتر میں کچھ لوگ ملاقات کے لیے آئے۔ ان کے لیے چائے منگائی گئی۔ چائے پینے کے بعد چائے کے تمام برتن ایک ٹرے(tray)میں رکھ دیے گئے۔ یہ ٹرے میز کے ایک طرف رکھی ہوئی تھی۔ کسی وجہ سے پوری ٹرے فرش پر گر پڑی۔ ٹرے میں موجود ٹی سیٹ کے تقریبا دو درجن آئٹم تھے۔ سب کے سب نیچے گر کر ٹوٹ گئے۔اس تجربے کو آپ ایک اصول کے تحت لائیے:
In comparison that you understand
رب العالمین بیشمار چیزوں کو مینج کررہا ہے۔ لیکن کہیں بھی کوئی نقص نہیں، آتا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ (67:3-4)۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔اس خدائی مینجمنٹ کے مقابلے میں انسانی کوششوں کو دیکھئے۔انسان جب ایسا کرتا ہے تو وہ بہت ساری چیزوں کو کھودیتا۔ اب انسان غور کرے گا تو اس کو یہ دریافت ہوگا کہ اس کائنات کا بہت بڑا حی و قیوم خدا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
خدا مشاہدہ (observation) میں نہیں آتا مگر خدا تجربہ کے اعتبار سے ضرور ایک معلوم حقیقت ہے۔ انسان کے اندر اگر حقیقت پسندانہ مزاج ہو تو بلا شبہ وہ خدا کے وجود کا اقرار کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی دریافت

انسان کی تاریخ میں غالباً ایک ایسا واقعہ ہے، جو سب سے بڑی حقیقت ہونے کے باوجود عملاً ایک غیر دریافت شدہ حقیقت (missing discovery) بن گیا۔ انسان نے خدا کی تخلیق کو دریافت کیا، لیکن انسان خود خالق کو دریافت کرنے میں ناکام رہا۔ بظاہر خدا (God) اہل مذاہب کا سب سے بڑا موضوع (subject) رہا۔ لیکن اہل مذاہب کے یہاں خدا فنی (technical)بحثوں کا موضوع بن گیا۔ اہل مذاہب عملاً خدا کو ایک حی و قیوم (the Living, the All-Sustaining) خدا کے طور پر دریافت کرنے میں ناکام رہے۔
اہل مذاہب نے خدا کو اقراری ایمان کا حصہ تو بنایا، لیکن وہ ایسے خدا کو دریافت نہ کرسکے، جو ان کے لیے حبّ شدید اور خوف شدید کا ذریعہ (source) بن جائے۔ اللہ رب العالمین نے پانچ سو سال پہلے طبیعی سائنس (physical science)کو وجود بخشا۔ سائنس اس معاملے میں ایک تائیدی علم کی حیثیت سے ابھرا۔ سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے تائیدی ڈیٹا (supporting data) کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن اہل مذاہب اس حقیقت کو دریافت نہ کرسکے۔ انھوں نے سائنس کو مذہب کا ایک شعبہ سمجھنے کے بجائے، میتھمیٹکس کا ایک شعبہ سمجھا، اور اس کو سیکولر علم کے خانے میں ڈال دیا۔
مذہب انسان کو خدا کا عقیدہ دیتا ہے۔ لیکن خدا کو کامل معنوں میں ایک زندہ حقیقت بنانے میں سائنس کے علوم ایک مددگار علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آدمی صحیح ذہن کے ساتھ سائنس کو پڑھےتو سائنس اس کے مذہبی ادراک میں اضافہ کرنے کا سبب بن جائے گا۔جو لوگ اس معاملے میں تجربہ کرنا چاہتے ہیں، ان سے میں کہوں گا کہ پہلے آپ مذہبی کتابوںکا مطالعہ کرکے اپنے اندر خدا کا عقیدہ پیدا کیجیے، اس کے بعد آپ حسب ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجیے:
The Evidence of God in an Expanding Universe, by John Clover Monsma, published by G.P. Putnam's Sons
(اردو ترجمہ:’خدا موجود ہے‘، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشر، نئی دہلی)
God Arises, by Maulana Wahiduddin Khan, published by Goodword Books, New Delhi (’ مذہب اور جدید چیلنج‘:اردو ترجمہ)
فطرت کا قانون
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ(7:188)۔ یعنی کہو، میں مالک نہیں اپنی جان کے بھلے کا اور نہ برے کا مگر جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔
قرآن کی یہ آیت بظاہر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کررہی ہے۔ لیکن وہ اپنے عمومی انطباق کے اعتبار سے ساری انسانی تاریخ پر محیط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں فائدہ اور نقصان کا تعلق بہت زیادہ مستقبل بینی سے ہے۔ اگر آدمی مستقبل کو جانے تو وہ بڑے بڑے فائدے حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن مستقبل کو نہ جاننے کی بنا پر انسان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔یہ معاملہ عام انسانی زندگی کا معاملہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ آیت پوری انسانی تاریخ کو بیان کررہی ہے۔
یہاں ایک تقابل کے ذریعے بہت بڑی حکمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات کی ایسی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا، جس میں اس کو نقصان نہ پیش آئے۔ انسان کی ہر منصوبہ بندی میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے، اس لیے انسان کو بار بار نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس، کائنات کا معاملہ ہے۔ کائنات اللہ رب العالمین کی تخلیق ہے۔ کائنات میں ہر لمحہ بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں۔ مثلاً سورج روزانہ اپنے مقررہ وقت پر نکلتا ہے۔ حتیٰ کہ شمسی نظام کا ایسا المنک (almanac) بنایا جاتا ہے، جو ہزاروں سال کی مدت تک ٹھیک ٹھیک نقشہ پیشگی طور پر بتاتا ہو۔ اس کے برعکس، انسان کسی بھی حال میں اس قسم کی بے عیب منصوبہ بندی (zero-defect management)پر قادر نہیں۔ یہ تقابل اللہ رب العالمین کے وجود کا ایک بین ثبوت ہے۔ایک طرف انسان کا معاملہ ہے کہ وہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ پر قادر نہیں، دوسری طرف خالق کائنات نے زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام مسلسل طور پر کائنات میں قائم کررکھا ہے۔تقابل کا اصول (تعرف الاشیاء باضدادہا) کو اپلائی کیجیے تو اس سے آپ کی معرفت رب میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔
زیرو ڈیفکٹ کائنات
سیکنڈ ورلڈ وار (1939-1945) کے زمانے میں ایک تصور پیدا ہوا، جس کو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کہا جاتا ہے۔اس موضوع پر بہت سے آرٹکل اور بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ جلد ہی یہ تصور ترقی یافتہ ملکوں میں تیزی سے پھیل گیا۔کئی ملکوں، مثلا ًامریکا اور جاپان، وغیرہ میں اس تصور کو بڑے پیمانے پرعمل میں لانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن لمبے تجربے کے بعد یہ مان لیا گیا کہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا تصور ناقابل حصول ہے۔اس موضوع پر انٹرنیٹ میں کافی مواد موجود ہے۔ آپ نمونے کے طور پر حسب ذیل آرٹکل پڑھ سکتے ہیں:
The Concept of Zero Defects in Quality Management by Chandana Das (www.simplilearn.com)
دور جدید میں صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں میں بڑے پیمانے پر یہ کوشش کی گئی کہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ قائم کیا جائے۔ اس موضوع پر بڑی تعداد میں ریسرچ ہوئی اور کتابیں لکھی گئیں۔بیسویں صدی کے تقریباً پورے دور میں یہ کام جاری رہا۔ مگر اس مقصد میں مکمل ناکامی ہوئی۔ حالاں کہ دورِ جدید کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ مثلاً امریکا اور جاپان وغیرہ۔ دوسری طرف عین اسی وقت دور جدید کے سائنسی مطالعے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ فطرت کا نظام، مثلاً ستاروں اور سیاروں کی گردش ،وغیرہ، انتہائی حد تک بے خطا انداز میں قائم ہیں۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ کل ٹھیک ٹھیک کس وقت سورج نکلے گا، اور کس وقت ٹھیک وہ غروب ہوگا، تو آپ آج ہی اس کو نہایت درست انداز میں معلوم کرسکتے ہیں۔
ایک طرف یہ تجربہ ہے کہ انسانی دنیا میں زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا تصور مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے، اور دوسری طرف انسان کے سوا جو مادی دنیا ہے، اس میں یہ تصور کامل طور پر موجود ہے۔ مثلاً اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ 15 اپریل 2025 کو سورج کب طلوع ہوگا، اور کب غروب ہوگا تو پیشگی طور پر آپ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ 15 اپریل کو دہلی میں سورج کے طلوع اور غروب کا وقت حسب ذیل ہوگا:
طلوع آفتاب (Sun rise) 05:56
غروب آفتاب (Sun set) 18:46
سورج کے طلوع و غروب کےبارے میں یہ وقت اسی صحت (accuracy) کے ساتھ ساری دنیا کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پوری مادی دنیاکا نظام کامل صحت کے ساتھ چل رہا ہے۔ مادی دنیا کی سائنس کو اسٹرانومی ، فزکس، کیمسٹری، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس مادی دنیا کا ریکاڑد ہزاروں سال پہلے، اور ہزاروں سال بعد تک معلوم کیا جاسکتا ہے، اور کسی ادنی فرق کے بغیر وہ یہی رہے گا۔ اس دنیا کے بارے میں اب تک کوئی فرق ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔
آپ غور کیجیے کہ وہ مادی دنیا جو براہ راست خالق کے مینجمنٹ کے تحت چل رہی ہے، وہ شروع سے اب تک اسی زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر قائم ہے۔ اس کے مقابلے میں انسان کی دنیا میں ، انسان جو منصوبہ بناتا ہے، مثلاً انڈسٹری کی دنیا ، وہاں انتہائی کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔ یعنی ایک طرف اسپیس میں ڈیوائن مینجمنٹ کو دیکھیے، جو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر مسلسل چل رہا ہے۔ دوسری طرف ہیومن مینجمنٹ کو دیکھیے۔ اس دوسری دنیا میں تقریباً ایک صدی کی مسلسل کوشش کے باوجودد زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔اس معاملے میں اگر آپ کو ہیومن مینجمنٹ کا تجربہ جاننا ہو، تو آپ انٹرنیٹ پر موجود اس مضمون کو پڑھیے:
Zero Defects, a term coined by Mr. Philip Crosby in his book "Absolutes of Quality Management" has emerged as a popular and highly-regarded concept in quality management—so much so that Six Sigma is adopting it as one of its major theories. Unfortunately, the concept has also faced a fair degree of criticism, with some arguing that a state of zero defects simply cannot exist. Others have worked hard to prove the naysayers wrong, pointing out that “zero defects” in quality management doesn’t literally mean perfection, but rather refers to a state where waste is eliminated and defects are reduced. It means ensuring the highest quality standards in projects. What Do We Mean by Zero Defects: From a literal standpoint, it’s pretty obvious that attaining zero defects is technically not possible in any sizable or complex manufacturing project. (www.simplilearn.com. accessed on 13.03.19)
اب اس دو طرفہ تجربے کے اوپر مشہور فارمولے کو منطبق (apply) کیجیے کہ چیزیں اپنے ضد سے سمجھ میں آتی ہیں(تعرف الاشیاء باضدادہا):
in comparison that you understand
قرآن کی مختلف آیتوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کی دنیا میں انسان جو نظام بناتا ہے، اور انسان کے باہر بقیہ کائنات میں جو نظام ہے، دونوں میں تقابل (comparison)کرکے دیکھو۔ یہ تقابلی مطالعہ(comparative study) بتائے گا کہ دونوں دنیاؤں میں بنیادی فرق ہے۔ انسان کی دنیا میں انسان جو نظام بناتا ہے، اس میں ساری کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ یہ مان لیا گیا کہ انسان کی دنیا میں اس تصور کا حصول ممکن نہیں۔ دوسری طرف خدا کی قائم کردہ مادی دنیا میں یہ تصور پوری تاریخ میں انتہائی صحت (accuracy) کے ساتھ قائم ہے۔
اس فرق پر جب مذکورہ فارمولا کو منطبق کیا جائے تو خود انسانی تجربے کے مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کائنات کا مالک ایک برتر ہستی ہے، یعنی اللہ رب العالمین۔ انسان کی دنیا اور فزیکل سائنس (exact sciences) کی دنیا میں جو فرق ہے، وہ فرق خدا کے وجود کا ایک قطعی ثبوت ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ (67:3-4) ۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔
اسی طرح ایک آیت یہ ہے: أَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوجٍ (50:6)۔ یعنی کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا، ہم نے کیسا اس کو بنایا اور اس کو رونق دی اور اس میں کوئی رخنہ نہیں۔ موجودہ زمانے میں کائنات کے بے خطا نظام کی یہ دریافت اللہ رب العالمین کی ایک صفت کو ثابت شدہ بنا رہی ہے۔ اور وہ ہے: لَا تَأْخُذُہُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ (2:255)۔ یعنی اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
قرآن میں ہے کہ پیغمبر موسیٰ نے خدا کو دیکھنا چاہا،لیکن اپنی محدودیت کی بنا پر وہ خدا کو دیکھ نہیں سکے (الاعراف، 7:143)۔ اس واقعے پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان خدا کی ذات کو دیکھ نہیں سکتا۔ البتہ وہ اس کی صفات کا تجربہ کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسا ن اللہ کی تخلیق پر غور کرے، تو وہ تخلیق کا علم حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی خدا کی تخلیق کے ذریعے خدا کے وجود کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔ اس میں خدا کی معرفت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کی صفات کا مطالعہ کرکے خدا تک پہنچے۔ انسان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ خدا کی ذات کا براہ راست مطالعہ کرکے وہ خدا کا عارف بن جائے۔ فلاسفہ اور صوفیا ، دونوں نے یہ غلطی کی کہ انھوں نے خدا کا براہ راست مطالعہ کرکے خدا کو جاننا چاہا۔ مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔سائنس نے خدا کے مطالعے کا بالواسطہ طریقہ اختیار کیا، اور اس میں کامیابی حاصل کی۔مثلاً بگ بینگ (Big Bang) کے مطالعے کے ذریعے یہ دریافت کرنا کہ کائنات تقریباً تیرہ بلین سال پہلے وجود میں آئی، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

عجز کا اصول

عجز کا مطلب لفظی اعتبار سے بے طاقتی (helplessness) ہے۔ لیکن اسلام میں عجز کا مطلب اس سے زیادہ ہے۔ اسلام کے مطابق، عجز ایک مثبت قدر (positive value) کانام ہے۔ عجز ایک اعلیٰ دریافت ہے، جو ایمان کے بعد کسی شخص کو حاصل ہوتا ہے۔خالق کی اعلیٰ صفت یہ ہے کہ وہ قادر مطلق ہستی (all-powerful being) ہے۔ اس کے مقابلے میں عجز بندے کی صفتِ حقیقی کا نام ہے۔ بندہ جب خالق کے مقابلے میں اپنی حقیقی حالت کو دریافت کرتا ہے، تو اسی کا دوسرا نام عجز ہے۔
عجز سب سے بڑی عبادت ہے۔ عجز عبادت کا مغز (essence) ہے۔ عجز انسان کی خودشناسی کا اعلیٰ درجہ ہے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی اپنی حقیقتِ واقعی کو دریافت کرلے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی خالق کے مقابلے میں اپنی حیثیتِ اصلی کا شعور حاصل کرلے۔عجز کمزوری کا نام نہیں ہے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ سے باخبر ہوجائے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی مین کٹ ٹو سائز (man cut to size)بن جائے۔عجز عبدیت کی تکمیل ہے۔ عجز خدا سے قربت کی آخری حالت ہے۔ عجز خدا شناسی کا اعلیٰ درجہ ہے۔ عجز بے طاقتی کا ظاہرہ نہیں، بلکہ عجز خدا سے قربت کا ایک ظاہرہ ہے۔
قرآن میں مومن کی ایک صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)۔ یعنی وہ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔ اس آیت میں ڈرنے کا مطلب معروف معنی میں ڈرنا نہیں ہے، بلکہ اللہ کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنانا ہے۔ جب کوئی شخص اللہ کو اپنا سول کنسرن بنا لے، تو اس کے بعد انسان کی جو داخلی حالت ہوتی ہے، اسی کانام عجز ہے۔ عجز کو محسوس کیا جاسکتا ہے، لیکن عجز کا خارجی مظاہرہ شاید ممکن نہیں۔ عجز کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کو انووک (invoke)کرنے والا ہے۔ کیوں کہ عجز اپنی آخری حد پر پہنچ کر سفارش بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خوف کی نفسیات

بیسویں صدی عیسوی مسلم دنیا کے لیے تحریکوں کی صدی (century of milli activities) ہے۔ اس پوری صدی کے اندر مسلم دنیا کے ہر حصے میں کوئی نہ کوئی بڑا مسلم رہنما سرگرم عمل نظر آتا ہے۔ ان تحریکوں کا خلاصہ کیا جائے تو سب کا قدر مشترک ایک ہوگا۔ وہ ہے خوف کی نفسیات۔ ہر مسلم رہنما کسی نہ کسی دشمن کے خوف کو لے کر مسلمانوں کو اس کے خلاف عمل پر ابھاررہا ہے۔کہیں نو آبادیاتی طاقتوں کے خلاف، کہیں اسرائیل کے خلاف، کہیں ہندو اکثریت کے خلاف، کہیں ظالم قوم کے خلاف، کہیں مغربی طاقتوں کے خلاف، کہیں صہیونیت کے خلاف، وغیرہ۔
یہ ایک عام تجربہ ہے کہ لوگوں کو محبت انسانی کے اوپر اٹھایا جائے تو کبھی ایسی تحریک کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس، جو لیڈر لوگوں کو خوف کی نفسیات پر ابھارے، اس کے جھنڈے کے نیچے بےشمار لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنے خالق و منعم کا خوف پیدائشی طور پر موجود ہے۔ انسان فطری طور پر اس احساس میں جیتا ہے کہ جس خالق نے ہم کو تمام نعمتیں دی ہیں، اگر وہ ان نعمتوں کو چھین لے تو ہمارا کیا انجام ہوگا۔ یہ نفسیات انسان کے اندر خالق کی نسبت سے رکھی گئی ہے۔ مگر غیر دانش مند لیڈر اپنے انٹرسٹ کے لیے اس نفسیات کو مفروضہ انسانی دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانی تاریخ ایک عظیم نقصان سے دو چار ہورہی ہے۔ خوف کی نفسیات جو انسان کے اندر خدا کی نسبت سے رکھی گئی تھی، وہ انسان کی نسبت سے استعمال ہونے لگی۔ جس نفسیات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان کے اندر خدا رخی مزاج بنے، وہ انسان کے خلاف منفی مزاج پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔
انسان خالق سے ڈرے تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر یہ نفسیات جاگتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسان دوست آدمی بنائے۔ اس کے برعکس، جب یہ نفسیات انسان کی نسبت سے استعمال ہونے لگے تو ہر آدمی دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت کا سر چشمہ

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تقویٰ علم یعنی حکمت کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے۔ اس کی حقیقت ایک حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: رَأسُ الحِکمَة مَخافَةُ اللَّہِ عز وجل (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730) ۔ یعنی حکمت کا سرا ، اللہ کا خوف ہے۔
خوف خدا کیا ہے! خوف خدا در اصل یہ ہے کہ آدمی کو اللہ رب العالمین کی دریافت اس طرح ہوجائے کہ اس کو برابر خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ ہونے لگے۔ جس آدمی کو اپنی زندگی میں اس طرح کا زندہ تجربہ ہونے لگے، وہ مسلسل طور پر اس احساس میں جینے لگتا ہے کہ خدا اس سے پوری طرح باخبر ہے، اور وہ انسان کے تمام قول و فعل کا حساب لے گا۔
جو آدمی اس طرح موجودگی ٔرب کے احساس میں جینے لگے، اس کے لیے یہ ناممکن ہوجاتاہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں بے خوفی کی زندگی گزارے۔ وہ ہر قول اور فعل سے پہلے ہمیشہ یہ سوچے گا کہ کیا میں اللہ رب العالمین کے سامنے اپنے اس قول و فعل کے لیے مبرر (justification) دے پاؤں گا۔ کیا اللہ اپنے علم کی روشنی میں مجھ کو درست قرار دے گا، یا ایسا ہوگا کہ اللہ مجھ کو پوچھے گا کہ تم نے ایسا کیوں کہا ، تم ایسا کیوں بولے، تم نے ایسا فعل کیوں انجام دیا، وغیرہ۔ یہ احساس آدمی کو خود اپنے اوپر نگراں بنا دے گا۔دوسرے خواہ اس سے پوچھیں یا نہ پوچھیں، وہ خود اپنے آپ سے پوچھے گا کہ تم نے ایساکیوں کہا، تم نے ایسا کیوں کیا۔ جب آدمی کے اندر ایسی حساسیت جاگ اٹھے تو اس کے اندر خود بخود موضوعی سوچ (objective thinking) پیداہوجاتی ہے، وہ وہی بولتا ہے، جو اس کو بولنا چاہیے، وہ وہی کرتا ہے، جو اس کو کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

فوق الفطری حکم

قرآن میں ایک فطری قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (12:40)۔ یعنی حکم صرف اللہ کے لئے ہے۔ اس نے آرڈر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ مگر بہت لوگ نہیں جانتے۔
اس آیت میں حکم کا لفظ بطور خبر (information) ہے، جب کہ عبادت کا لفظ بطور انشاء ہے۔ خبر کا مطلب ہے،کسی ہونےوالے واقعہ کے بارے میں انفارمیشن دینا،اطلاع کرنا، اور انشاء کا مطلب ہے، کسی بات کے کرنے یا نہ کرنے کا مطالبہ کرنایاحکم دینا ۔اس آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ کائنات میں حکم یعنی الفطری اقتدار (supernatural sovereignty) صرف اللہ کا ہے، اور وہ بالفعل ازل سے ابد تک قائم ہے، اوربحیثیت مقتدر اعلیٰ ا س کا امر یہ ہے کہ انسان صرف اسی کی عبادت کرے، اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرے۔قرآن کی اس آیت سے حکومت الٰہیہ کا نظریہ نکالنا سر تا سر بے بنیاد ہے۔ یہ خبر کو انشاء بنانے کے ہم معنی ہے۔ ایسا کرنا مذموم تفسیر بالرائے کی ذیل میں آتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ اللہ کا حکم ساری کائنات میں بالفعل قائم ہے، نہ کہ انسان اس کو قائم کرے۔یہ معاملہ خبر کا معاملہ ہے، نہ کہ انشاء کا معاملہ۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ اس کی دریافت اتنی زیادہ گہری ہو کہ وہ أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر50) کا کیس بن جائے۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا کہ تم ا س کو دیکھ رہے ہو۔ بات صرف عبادت کی حد تک نہ ہو، بلکہ وہ اپنی پوری زندگی اسی میں جینے لگے۔ اس کا جینا، اور اس کا مرنا، سب کا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہوجائے۔ وہ ہر چیز میں اللہ کو دیکھے، وہ ہر چیز میں اللہ کی کار فرمائی کا مشاہدہ کرے، وہ اس طرح کامل معنوں میں اللہ کا عبد بن جائے، جیسے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے لیے اللہ کا معاملہ صرف رسمی عقیدہ کا معاملہ نہ رہے، بلکہ اللہ اس کے لیےایک زندہ عقیدہ کا معاملہ بن جائے، جیسا کہ آیت الکرسی میں بیان کیا گیا ہے۔ آیت الکرسی ایک لمبی آیت ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
اﷲ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے والا۔ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ تھکتا نہیں ان کے تھامنے سے۔ اور وہی ہے بلند مرتبہ، بڑا۔
اللہ کی دریافت انسان کے لیے ویسے ہی ایک حقیقت ہے، جیسے کہ کسی سائنسی حقیقت کو دریافت کرنا۔ مثلاً انسان جب آسمان کی طرف دیکھتا ہے، اور وہ پاتا ہے کہ کہکشائیں (galaxies)، اور سورج ، چاند اور پورا شمسی نظام (solar system) نہایت صحت (accuracy) کے ساتھ چل رہا ہے۔ صبح کو سورج کا نکلنا، اور شام کو سورج کا ڈوبنا انتہائی صحت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ملین اور بلین سال کے اندر بھی اس میں کوئی فرق نہیں آتا ۔ وہ دریافت کرتا ہے کہ کائنات مسلسل طور پر پھیل رہی ہے۔
چاروں طرف اس کا یہ پھیلنا (expansion)انتہائی صحت (precision) کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ متحرک ملکی وے (Milky Way)کے حاشیہ پر پورا شمسی نظام اس طرح قائم ہے کہ شمسی نظام بھی حرکت میں ہے، اور کہکشاں بھی حرکت میں ہے، اور یہ پورا واقعہ حد درجہ صحت کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ملین اور بلین سال کے اندر بھی اس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس طرح کے متحرک نظامات خلا (space) کے اندر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر ایک مسلسل طور پر بے حد تیز رفتار حرکت کی حالت میں ہے۔ مگر ان میں کبھی کوئی ادنیٰ درجہ کا ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ یہ پورا نظام انتہائی صحت کے ساتھ متحرک ہے۔
واپس اوپر جائیں

عارف انسان

قرآن میں ایک واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ، وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی اور جب انھوں نے اس کلام کوسنا جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوبہہ پڑے، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔
یہ واقعہ ایک مسیحی گروپ کا ہے، جو پیغمبر اسلام سے ملنے کے لیے حبش سے مدینہ آئے تھے۔ اس مثال کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام الٰہی کا سننا ،ان کے لیے ایک گہراروحانی تجربہ (spiritual experience) بن گیا۔ اس روحانی تجربے کی کچھ علامتیں یہ ہیں - (1) گہرے تاثر کے ساتھ کلام اللہ کو سننا۔ (2) اس کے ذریعہ وحی الٰہی کی پہچان ہوجانا۔ (3)اس کو سننے کے بعد آنکھوں سے آنسو جاری ہونا۔ (4) معرفت کے زیر اثر یہ کہہ اٹھنا کہ خدایا ہم نے اس حق کو قبول کیا۔ (5)سننے کے بعد دل سے اس کی تصدیق کرنے والے بن جانا ۔ (6)کسی چیز کو قبول حق کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دینا۔ (7) کلام اللہ کو سنتے ہی یہ طلب پیدا ہوجانا کہ وہ اس گروہ میں شامل ہوجائیں، جنھوں نے اس کلام کو سن کر فوراً مثبت رسپانس (positive response) دیا۔ اس تاثر کا تعلق یکساں طور پرسماعت قرآن سے بھی ہے، اور مطالعہ قرآن سے بھی۔
یہ تمام علامتیں ایک لفظ میں معرفت قرآن کی علامتیں ہیں۔ اصل یہ ہے کہ قرآن پورا کا پورا فطرت کی زبان میں ہے۔ قرآن ہر آدمی کے لیے اس کی فطرت کا مثنیٰ (counterpart) ہے۔ قرآن کا سننا ہر آدمی کے لیے اس کی داخلی شہادت بن جاتا ہے۔ خاص طور پر جو لوگ اپنی فطرت کو زندہ رکھیں، ان کے لیے تو قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس کو پڑھتے یا سنتے ہی انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی فطرت میں چھپی ہوئی روشنی اچانک روشن ہوگئی ۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُورٌ (24:35)۔ یعنی اس کا تیل ایسا ہے گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی وہ خود بخود جل اٹھے گا۔
اس فطری مطابقت کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جس آدمی کو قرآن کی سچی معرفت ہوجائے، اس کے لیے قرآن معرفت حق (realization of truth)کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی سوئی ہوئی فطرت بیدار ہوجاتی ہے۔ اس کے اندر ایک نئی ربانی شخصیت کی تعمیر شروع ہوجاتی ہے۔ یہ تعمیر شخصیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ساری کائنات اس کے لیے رزق ربانی کا دسترخوان بن جاتی ہے۔
قرآن میں اس نوعیت کے حوالے کثرت سے موجود ہیں۔ ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس انسان کی زندگی میں قرآن اس طرح داخل ہوکہ اس کی فطرت کے تمام دروازے کھل جائیں، اس کی دماغ کی تمام کھڑکیاں خدائی الہامات (divine inspiration) کوبے روک ٹوک وصول کرنے لگیں۔ ایسا انسان ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ قرآن اس کے لیے ہوجاتا ہے، اور وہ قرآن کے لیے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ عربی زبان میں فنی مہارت پیدا کریں، اور پھرمفروضہ علوم قرآن کے عالم بن جائیں تو آپ کو فہم قرآن حاصل ہو۔ بلکہ فہم قرآن یہ ہے کہ قرآن آپ کو اتنی گہرائی کے ساتھ متاثر کرے کہ آپ کی فطرت کی کھڑکیاں کھل جائیں۔ آپ قرآن کو ساری کائنات میں پڑھنے لگیں۔ جس طرح پھولوں میں شہد کی مکھی کے لیے نکٹر ہوتا ہے، اسی طرح مومن کے لیے ساری دنیا میں حق کا نکٹر (nectar of truth) موجود ہے۔ قرآن جب کسی انسان کو اس طرح متاثر کرے کہ کائنات میں چھپے ہوئے حق کے نکٹر اس کو ملنے لگیں، تو اس کے بعد اس کے اندر ایک نئی شخصیت بننے لگتی ہے، ربانی شخصیت، جس کو جنت کے ابدی باغوں میں جگہ دی جائے۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کا سفر

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: لو عرفتم اللہ حق معرفتہ لمشیتم على البحور، ولزالت بدعائکم الجبال، ولو خفتم اللہ حق مخافتہ لعلمتم العلم الذی لیس معہ جہل، ولکن لم یبلغ ذلک أحدا، قیل:یا رسول اللہ ولا أنت؟ قال:ولا أنا، اللہ عز وجل أعظم من أن یبلغ أحد أمرہ کلہ (کنزالعمال، حدیث نمبر 5893)۔ یعنی اگر تم اللہ کی معرفت حاصل کرلو، جیسا کہ اس کی معرفت کا حق ہے، تو ضرور تم سمندروں میں چلنے لگو گے، اور تمھاری دعا سے پہاڑ زائل ہوجائے گا، اور اگر تم اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، تو ضرور تمھیں وہ علم حاصل ہوجائے گا، جس کے ساتھ کوئی جہل نہ ہو، لیکن کوئی اس تک نہیں پہنچا۔ کہا گیا: آپ بھی نہیں اے خدا کے رسول، آپ نے کہا: نہیں، میں بھی نہیں۔ اللہ تعالی اس سے بہت عظیم ہے کہ کوئی اس کے تمام معاملات تک پہنچ جائے۔
مذکورہ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ کوئی پراسرار بات نہیں ہے۔ وہ دراصل ایک اہم حقیقت کو بتارہی ہے۔ وہ یہ کہ انسان کو جو عقل دی گئی ہے، وہ صرف زمان ومکان (time and space) کے اندر سوچ سکتی ہے اور زمان ومکان کے اندر واقع چیزوں کو جان سکتی ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زمان ومکان سے ماورا (beyond space and time) ہے۔
یہ انسان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ انسان کی عقل اگر چہ زمان ومکان کے اندر کام کرتی ہے، لیکن اس سے مطلوب ہےکہ وہ زمان ومکان سے ماورا حقیقت کو دریافت کرے اور اُس پر ایمان لائے۔ اِسی دریافت کے لیے انسان کو وہ صلاحیت دی گئی ہے جس کو تصوراتی فکر (conceptual thinking) کہاجاتا ہے۔ اِس دریافت تک پہنچنے ہی کا نام اعلی معرفت ہے۔ جو انسان اپنے ’تصوراتی فکر، کو بھر پور طورپر استعمال کرے اور زمان ومکان کے ماورا حقیقت کو شعوری طورپر دریافت کرے، وہی وہ عارف انسان ہے جس کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

مومن کون

مومن کی صفت قرآن میں یہ بتائی گئی ہے:وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)۔ یعنی مومن وہ ہے جس کی معرفت اس کو بہت زیادہ اللہ سے ڈرنے والا بنا دے۔ مومن آخری حد تک ایک حساس انسان (sensitive person) ہوتا ہے۔ مومن کی بڑھی ہوئی حساسیت اس کو اس سے روکتی ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جو سنجیدہ (sincere) انسان کا کام نہ ہو۔ جو اصول پسندی کے معیار پر پورا نہ اترے۔
مومن اگر کوئی وعدہ کرلے تو اس کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک وہ اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے۔ مومن کی وجہ سے اگر کسی کا کچھ خرچ ہوا ہے تو مومن کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک اس خرچ کی تلافی نہ ہوجائے۔ مومن کی زبان سے اگر کوئی غلط بات نکل جائے تو اس وقت تک اس کو نیند نہیں آتی جب تک وہ اپنی غلطی کا کھلا اعلان نہ کردے۔ مومن اگر انسانوں کی رعایت سے کوئی بے حقیقت بات کہہ دے تو اس وقت تک وہ تڑپتا رہتا ہے، جب تک وہ اس سے رجوع کرکے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے مبرر (justified) نہ بنالے۔
مومن کی تعریف قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلَى رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ (8:2)۔ یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
مومن کون ہے۔ مومن وہ ہے جس کو اللہ رب العالمین کی معرفت ڈسکوری کے درجہ میں حاصل ہوجائے۔ جو اس طرح اللہ کو ماننے والا بن جائے، جیسے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ جس کی شخصیت پورے معنوں میں خدا رخی شخصیت (God-oriented personality) بن جائے، جو ہر لمحہ اس حقیقت کو یاد رکھے :یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (83:6)۔
واپس اوپر جائیں

مسخر کائنات

قرآن میں دو درجن سے زیادہ آیتیں ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ زمین و آسمان کو اللہ نے انسان کے لیے مسخر کردیا ہے۔مسخر کرنے کا مطلب ہے تابع کردینا، یا سبجکٹ (subject)بنا دینا۔ زمین و آسمان کا مطلب ہے کائنات۔ کائنات کوانسان کے لیے مسخر کردینا، انسان کے اوپر خالق کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی تسخیر کی وجہ سے پوری کائنات کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe) بنی ہوئی ہے۔
اس تسخیرکے دو پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جس کو فوق الفطری سطح پر تابع بنانا کہا جاسکتا ہے۔ یعنی انسان کی مرضی کے بغیر اپنے آپ کائنات کے تمام اجزاء کا انسان کی خدمت میں لگا رہنا۔ اس کائنات میں کوئی چیز انسان کی دشمن نہیں، کائنات کی ہر چیز انسان کے موافق بنی ہوئی ہے۔ انسان کی مرضی کے بغیر ہر چیز انسان کی خدمت کررہی ہے۔
تسخیر کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نےکائنا ت کو معلوم فطری قوانین کا تابع بنا دیا ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان فطرت کے ان قوانین کو دریافت کرے، اور ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے۔ مثلاً بجلی کے قانون کو دریافت کرکے بجلی کو اپنے لیے مفید بنانا۔ ہوائی جہاز کے قانون کو دریافت کرکے ہوائی جہاز کو اپنی سواری کے لیے استعمال کرنا، وغیرہ۔
کائنات ناقابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ کائنات کی عظمت خالق کی عظمت کا ایک تعارف ہے۔ انسان کو اگر اس عظمت کی معرفت ہوجائے، تو وہ کامل معنوں میں سبمیشن (submission) کی زندگی اختیارکرلے گا۔ انسان کے لیے ناممکن ہوجائے گا کہ وہ زمین پر سرکشی کا طریقہ اختیارکرے۔ انسان فساد کا طریقہ چھوڑ کر کامل معنوں میں اطاعت الٰہی کی زندگی اختیار کرلے گا۔ اسی زندگی کا شرعی نام تقویٰ کی زندگی ہے۔ ایسے ہی متقیوں کے لیے آخرت میں ابدی جنت کی خوشخبری ہے۔
واپس اوپر جائیں

پرزنس آف گاڈ

کوفی انّان (1938-2018) اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل تھے۔ 18اگست کو 80 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا ۔ ان کی موت پر مختلف لوگوں نے تبصرہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے موجودہ سکریٹری جنرل مسٹر انتونیو گو ٹیرش نے ان کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا — بہت سے پہلوؤں سے کوفی انّان (اپنے آپ میں ) اقوام متحدہ تھے:
In many ways, Kofi Annan was the United Nations. (The Times of India, New Delhi, Aug 19, 2018, p. 20)
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوفی انّان کی پرسنالٹی ایک ٹاورنگ (towering)پرسنالٹی تھی۔ وہ جب اقوام متحدہ میں ہوتے تھے، تو ان کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پوری اقوام متحدہ ان سے بھری ہوئی ہے۔ اس ریمارک کو میں نے پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ بات زیادہ درست طور پر اللہ رب العالمین کے لیے صادق آتی ہے۔
صبح کے وقت جب آپ کسی کھلی جگہ پر ہوں، اور کھلے آسمان میں کائنات کے منظر کو دیکھیں ، توواضح طور پر معلوم ہوگا کہ ساری کائنات خدا کی عظمت سے بھری ہوئی ہے۔اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُودًا (17:78)۔ یعنی بیشک فجر کی قرأت مشہود ہوتی ہے۔ یہی بات قرآن کی ایک اور آیت میںقیامت کی نسبت سے ان الفاظ میں آئی ہے:وَمَا قَدَرُوا اللَّہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہ(39:67)۔جب انسان کو اللہ رب العالمین کی حقیقی معنوں میں دریافت ہوتی ہے، اس وقت انسان کو پرزنس آف گاڈ (presence of God) کا احساس ہونے لگتا ہے۔اسی حقیقت کی طرف حدیث جبریل میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 50)۔یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، اور اگر تم نہیں دیکھتے ہو تو وہ تم کو دیکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیق میں تنوع

قرآن میں مختلف مقامات پر انسان کی تخلیق کا قصہ بیان ہوا ہے۔ ان میں سے ایک جزء کا ترجمہ یہ ہے: جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ پھر جب میں اس کو درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ پس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ مگر ابلیس کہ اس نے گھمنڈ کیا اور وہ انکار کرنے والوں میں سے ہوگیا۔ اللہ نےفرمایا کہ اے ابلیس، کس چیز نے تجھ کو روک دیا کہ تو اس کو سجدہ کرے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ یہ تو نے تکبر کیا یا تو بڑے درجہ والوں میں سے ہے۔ اس نے کہا کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے، اور اس کو مٹی سے۔ (38:71-76)
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ ابلیس نے اپنی افضلیت کا دعویٰ خود اپنی زبان سے کیا تھا۔ اس کے برعکس، انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی افضلیت کا بیان خود خالق نے اپنی زبان سے کیا ہے۔ ابلیس کی بات خود ساختہ دعویٰ کی ہے۔ جب کہ انسان کی افضلیت کا اعلان خود خالق کائنات نے کیا ہے۔اللہ اور ابلیس کے درمیان اس مکالمے سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ انھیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ کا جو منصوبہ ترقی کے بارے میں ہے، وہ اختلاف (diversity)سے تعلق رکھتا ہے، نہ کہ یکسانیت سے۔ جہاں یکسانیت ہوگی، وہاں ارتقا رک جائے گا، اور جہاں اختلاف پایا جائے، وہاں ارتقا جاری رہے گا۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو تنوع پسند ہے۔ یکسانیت اللہ کو پسند نہیں۔ اگر یکسانیت اللہ کو پسند ہوتی تو فرشتہ، جنات اور انسان سب کو اللہ یکساں بنا دیتا۔ سب کی سوچ، سب کا ذوق، سب کا عمل ، بالکل ایک طرح کا ہوجاتا۔ مگر اس دنیا کے خالق کو تنوع پسند ہے، نہ کہ یکسانیت۔ یہ فطرت کا قانو ن ہے، اور فطرت کے قانون میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔اسی فطری حقیقت کو اردو کے مشہور شاعر ذوق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن اے ذوؔق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
واپس اوپر جائیں

ربانی شخصیت

قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے:کُونُوا رَبَّانِیِّینَ (3:79)۔ یعنی رب والے بنو۔ اس سے مراد وہ انسان ہے جس کی شخصیت کی تعمیر اللہ رب العالمین کی معرفت کی بنیاد پر ہوئی ہو۔ جو اللہ رب العالمین میں جینے والا انسان ہو۔ علی ابن طالب نے ربانی کا مطلب بتاتے ہوئے کہا: ہم الذین یغذّون الناس بالحکمة، ویربّونہم علیہا (زاد المسیر، 1/298)۔ یعنی ربانی وہ لوگ ہیں جو انسانوں کو حکمت کی غذا دیں،اور حکمت کی بنیاد پر لوگوں کی تربیت کریں۔
ربانی سے مراد رب والا انسان (man of God) ہے۔ یعنی وہ انسان جس کے اندر پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد تلاش کی اسپرٹ جاگے۔ وہ غور و فکر کے ذریعہ اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ اس کی دریافت اتنی گہری ہوکہ وہی اس کی شخصیت بن جائے۔ وہ رب العالمین کی یاد میں جینے لگے۔ وہ رب العالمین کی یاد کو لے کر جاگے، اور رب العالمین کی یاد کو لے کر سوئے۔ اس کی دریافت اس کی شخصیت میں اتنی گہرائی کے ساتھ شامل ہوجائے کہ وہ اللہ رب العالمین سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا بن جائے، اور اللہ رب العالمین سے سب سے زیادہ اندیشہ کرنے والا بن جائے۔ اس کی یہ کیفیت اتنا زیادہ بڑھے کہ اللہ رب العالمین اس کا واحد کنسرن (sole concern) بن جائے۔
ربانی انسان کا یقین رب العالمین کے لیے اتنا بڑھ جاتا ہے کہ رب العالمین سے اس کی سرگوشیاں (whisper) ہونے لگتی ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:یُنَاجِی رَبَّہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 413)۔ یعنی وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ یہ سرگوشی دوطرفہ ہوتی ہے۔ یعنی وہ اپنے رب کے ذکر اور دعا میں مشغول ہوتا ہے، اور رب کی طرف سے انسپریشن (inspiration) کی زبان میں جواب آنے لگتا ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (2:186)۔ربانی انسان در اصل اعلیٰ درجے کا عارف انسان ہوتاہے، یعنی صاحب معرفت انسان۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کا تخلیقی منصوبہ

اللہ رب العالمین جو کائنات کا خالق ہے، اس نے ہر چیز کو اعلیٰ منصوبے کے تحت بنایا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:صُنْعَ اللَّہِ الَّذِی أَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ (27:88)۔ یعنی یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کوکامل خوبی کے ساتھ بنایاہے:
Such is the work of God, Who has created all things in perfect order .
پیڑ پودے سے لے کر سائفن (siphon) اور کمپیوٹر تک ہر چیز اسی اعلیٰ منصوبہ بندی کی مثال ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی جزئی یا کلی طور پر ان اعلیٰ تخلیقات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس واقعے کا تقاضا ہے کہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ شکر ِ خداوندی کا ظاہرہ پایا جائے۔ لیکن شاید یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ اس کمی کا سبب یہ ہے کہ سورج، چاند اور ستارے (مخلوقات) بظاہر دکھائی دیتے ہیں، لیکن خالق (Creator) محسوس انداز میں دکھائی نہیں دیتا۔اس ظاہرے کی بنا پر انسان نے یہ فرض کرلیا کہ جو چیز مشاہدے میں آئے، وہ اپنا وجود رکھتی ہیں، اور جو چیزمشاہدے میں نہ آئے، اس کا کوئی وجود بھی نہیں۔مگر جدید زمانے میں سائنسی مطالعہ نے بتایا ہے کہ جو چیزیں بظاہر دکھائی دیتی ہیں، وہ بھی گہرے تجزیہ کی سطح پر غیر مشہود بن جاتی ہیں۔ اس حقیقت کو مشہور سائنس داں سر آرتھر ایڈنگٹن اور دوسرے مصنفین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ مثلا ًملاحظہ ہوسر آرتھر ایڈنگٹن کی کتاب:
Science and the Unseen World, Macmillan [US], 1929.
موجودہ زمانے میں تخلیق (nature) کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ یہ ساری معلومات گویا کہ شکر کے آئٹم ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ نئی معلومات نے شکر خداوندی میں اضافہ نہیں کیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ چیزوں کو مادی معنی میں لے لیتے ہیں، ان واقعات میں معرفت کا جو نکٹر (nectar) ہے، اس کو دریافت کرنے میں وہ ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ شہد کی مکھی جانتی ہے کہ ا س کو باغ کے پھولوں سے نکٹر (nectar) لینا ہے۔ مگر انسان اس راز سے بے خبر ہے۔
واپس اوپر جائیں

زندہ شخصیت

ایک بزرگ کا قول ہے:من عاش للہ لایموت ابدا۔ یعنی جس نے اللہ کے لیے زندگی گزاری ، وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ قول ایک عارف انسان کا قول ہے۔ اس قول کے پہلے حصے میں عیش کا لفظ حقیقی معنی میں آیا ہے۔ا س کے دوسرے حصے میں موت کا لفظ تمثیل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو انسان اللہ کی یاد میں جینے لگے، اس کو ایک ابدی رزق مل جاتا ہے۔ اس کو ہمیشہ کے لیے ایک زندہ شخصیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کا دل و دماغ کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کے دن بھی زندہ دن ہوتے ہیں، اور اس کی راتیں بھی زندہ راتیں۔اس کے برعکس جو شخص اللہ کی یاد میں نہ جیے، وہ گویا ایک مردہ انسان ہے، وہ زندگی کی حقیقی نعمت سے آشنا نہیں۔
زندگی اور موت کے معاملے میں انسان کے لیے صرف ایک آپشن ہے۔ وہ یہ کہ وہ خالق کے فیصلے پر راضی ہوجائے۔ خالق کے فیصلے پر راضی نہ ہونا، ایک ایسے آپشن کی طرف بھاگنا ہے، جو کسی کے لیے قابلِ حصول ہی نہیں ۔ اس معاملے میں خالق کے فیصلے پر راضی ہونا کیا ہے، اور خالق کے فیصلے کے خلاف بھاگنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کا منصوبہ خالق کے نقشے کے مطابق بنائے۔ وہ خالق کے نقشے پر پورا اترنے کی کوشش کرے۔ اس کے برعکس، اگر انسان خود اپنے بنائے ہوئے نقشے پر چلنا چاہے ، تو وہ ناممکن کی طرف دوڑنے کے ہم معنی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس معاملے میں حقیقت پسند بنے، وہ ہرگز حقیقت کے خلاف چلنے کی کوشش نہ کرے۔
اس دنیا کا جو خالق ہے، وہی اس کا مالک بھی ہے۔ دنیا پر سارا اختیار خالق کا ہے۔ اس دنیا میں کامیابی اس کے لیے ہے، جو خالق کے فیصلے پر راضی ہوجائے، جو انسان خالق کے فیصلے کو چھوڑ کر اپنے راستے پر چلنا چاہے، اس کے لیے بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔ خالق کے فیصلے پر راضی ہونے کا مطلب ہے— آخرت رخی زندگی (Akhirat-oriented life) گزارنا۔ اس کے برعکس، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی مرضی کی طرف دوڑے، مگر ایسی دوڑ انسان کو کہیں پہنچانے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں