Pages

Monday 1 December 2003

Al Risala | December 2003 (الرسالہ،دسمبر)

2

- اسلام اور دوسرے مذاہب

8

- دارالاسلام، دارالحرب

12

- اختلاف کو حل کرنے کی تدبیر

17

- دعوت عام کی ذمہ داری

19

- قومیت کا مسئلہ

23

- کفر اور کافر کا مسئلہ

38

- ایک خط

40

- خبر نامہ اسلام مرکز


اسلام اور دوسرے مذاہب

اسلام اور دوسرے مذہبوں کے درمیان یہ فرق نہیں ہے کہ اسلام افضل دین ہے اور دوسرے مذاہب غیر افضل دین یا اسلام کامل دین ہے اور دوسرے مذاہب غیر کامل دین ۔اسلام اور دوسرے مذہبوں میں یہ ارتقائی فرق بھی نہیں ہے کہ اسلام مذہب کی اعلیٰ صورت (higher form) ہے اور دوسرے مذاہب اس کی ادنیٰ صورت (lower form) ۔ اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان اس قسم کی تقسیم سراسر بے بنیاد ہے۔ اس کا ماخذ نہ قرآن و حدیث میںہے اور نہ تاریخی ریکارڈمیں۔
اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان اصلی فرق یہ ہے کہ اسلام ایک محفوظ مذہب ہے اور دوسرے مذاہب غیر محفوظ مذہب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سائنٹفک ریکارڈ کے مطابق، اسلام کو تاریخی اعتباریت (historical credibility) حاصل ہے۔ جب کہ دوسرے مذاہب میں سے کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جس کو تاریخی اعتباریت کا درجہ حاصل ہو۔
اسلام اور دوسرے مذہبوں کا یہ فرق کسی پر اسرار عقیدہ پر قائم نہیں ہے بلکہ وہ خالص علمی طور پر قابل فہم ہے۔ وہ ایک واضح موضوعی حقیقت (objective fact) پر مبنی ہے۔اس معاملہ کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے۔ قرآن میں پچھلی الہامی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: بما استحفظوا من کتاب اللہ (المائدۃ۔۴۴) یعنی پچھلی کتابوں کے حاملین پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت کریں۔
For to them, was entrusted the protection of Allah’s Book.
قرآن کی اس آیت میںاستحفاظ کا لفظ آیا ہے۔ استحفاظ باب استفعال سے ہے۔ عربی قاعدہ کے مطابق، با ب استفعال میں طلب کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے استحفاظ کا مطلب ہے، حفاظت چاہنا یا حفاظت طلب کرنا۔ عربی میں کہا جاتا ہے، استحفظ مالا۔ مال محفوظ رکھنے کو کہنا (سألہ أن یحفظہ)
اس وضاحت کے مطابق، مذکورہ قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی آسمانی کتابیں جن لوگوں کے اوپر اتاری گئیں ان سے کہا گیا تھا کہ ان کو خود ان کتابوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اُن کو انہیں نہ صرف پڑھنا ہے بلکہ ان کو محفوظ بھی رکھنا ہے۔
اس کے برعکس، جہاں قرآن کا ذکر ہے وہاں اس سے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے: انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر۔ ۹) یعنی اللہ نے قرآن کو اتارا ہے اور اللہ ہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے۔
It was We who revealed the Quran, and We will certainly preserve it.
اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں بنیادی فرق کیا تھا۔ وہ فرق یہ تھا کہ پچھلی آسمانی کتابوں کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری انسان کے اوپر تھی جب کہ قرآن کی حفاظت کا کام خود خدا نے اپنے ذمہ لے لیا۔ گویا قرآن اور اس سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں جو فرق تھا وہ تعلیمات کے اعتبار سے نہ تھا بلکہ یہ فرق حفاظت کی ذمہ داری کے اعتبارسے تھا۔
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ فرق کا یہ معاملہ کوئی پر اسرار معاملہ نہیں بلکہ وہ ایک معلوم تاریخی معاملہ ہے۔ اس کو خالص سائنٹفک مطالعہ کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ حفاظتِ کتاب کے اعتبار سے تاریخ کے دو دو رہیں۔ پہلا دور وہ ہے جب کہ کسی پیغام کی حفاظت کا معاملہ زیادہ ترانسان کے اوپر منحصر ہوتاتھا۔ کوئی پیغام عملاً انسان کی یاد داشت میں موجود رہتا تھا۔ انسان اگر اس کو بھول جائے یا وہ مرجائے تو اس کے ساتھ پیغام بھی معدوم ہوجاتا تھا۔ مزید یہ کہ انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق ہے۔ وہ اس پر قادر ہے کہ اس کے پاس جو پیغام ہے اس کو اس کی اصلی حالت پر باقی رکھے یا وہ اس کو بدل ڈالے۔
اس قدیم دور کو انسانی دور حفاظت کہا جاسکتا ہے، یعنی وہ دور جب کہ حفاظت کا کام تمام تر انسان کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا۔ قرآن سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں بنیادی طورپر اسی انسانی حفاظت کے دور میں آئیں۔ یہ عملی طور پر حفاظت کا ایک غیر یقینی ذریعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہ سکیں۔ انسان نے قصداً یا بلا قصد پچھلی تمام آسمانی کتابوں کو غیر محفوظ بنا دیا۔
پیغام کی حفاظت کا دوسرا دور وہ ہے جس کو میکنیکل حفاظت کا دور کہا جاسکتا ہے۔ یہ دور وہ ہے جب کہ کسی پیغام کی حفاظت کا کام زندہ انسان کے ہاتھ سے نکل کر جامد مادہ کے دائرہ میںآگیا۔ یعنی وہ دور جب کہ پیغام کو کاغذ پر لکھا جانے لگا اور چھاپ کر اس کی ہو بہو نقلیں (copies) انسانی حافظہ سے باہر تیار کی جانے لگیں۔ اس دوسرے دور میں پہنچ کر اس پیغام کی حفاظت کا معاملہ تغیر پذیر انسان کے تابع نہ رہابلکہ وہ غیر تغیر پذیر مادہ کے ہاتھ میں آگیا۔
قرآن اسی دوسرے دور حفاظت میں آیا۔ مذکورہ آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ یہ دوسرا دور جن فطری اسباب کے تحت ممکن ہوا ہے وہ تمام اسباب براہ راست طور پر خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس دوسرے دو ر کو خدا کی طرف منسوب کرکے کہاگیا کہ خدا خود قرآن کی حفاظت کرنے والا ہے۔
اس بات کو تاریخ کی اصطلاح میں کہنا ہو تو اُس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کتابوں کی حفاظت کے دور میں آیا۔ اس کے مقابلہ میں دوسری آسمانی کتابیںاُس دور میں آئیں جب کہ کتابوں کی حفاظت کے لیے ابھی تک کوئی یقینی انتظام موجود نہ تھا۔ دور کایہی وہ فرق ہے جس کوقرآن میں مخصوص خدائی اسلوب میں اُن دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے جن کو اوپر نقل کیا گیا۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابت(writing) کا کام قبل مسیح دور میں شروع ہوا ۔اس زمانہ میں سادہ چیزوں پر لکھنے کا رواج تھا۔ مصر میں ایک پودا پایا جاتا تھا جس کا یونانی نام پیپرس (papuros) تھا۔ اس پودے کے اندر باریک پرت (layer) ہوتی تھی۔ اس پرت کو نکال کر عرصہ تک اس کو کاغذ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ اسی لیے کاغذکا نام پیپر (paper) پڑ گیا۔
دوسری صدی عیسوی میں چین میں لکڑی وغیرہ سے کاغذ بنایا جانے لگا۔ یہ کاغذ تاجروں کے ذریعہ مسلم دنیا میں آنے لگا۔ کاغذ بنانے کا فن ۷۵۱ میں سمرقند میں پہنچا اور ۷۹۳ میں بغداد میں ہارون رشید کے زمانہ میں پہلی بار کاغذ بنایا گیا۔ اس کے بعد کاغذ یہاں سے یوروپ تک پہنچا:
The art of paper making reached Samarkand, in central Asia in 751; and in 793 the first paper was made in Baghdad during the time of Harun-ar-Rashid, with the golden age of Islamic culture, that brought paper making to the frontiers of Europe. (13/966)
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی ۶۱۰ میں مکہ میں اتری اور ۶۳۲ء تک نجماً نجماً جاری رہی، جب کہ مدینہ میںآپ کی وفات ہوئی۔ ۲۳ سال کی اس مدت میں یہ طریقہ تھا کہ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ فرشتہ کے ذریعہ آپ تک پہنچتا، آپ اور آپ کے اصحاب اُس کو یاد کرلیتے۔ اُس زمانہ میں کثرت استعمال کی بنا پر لوگوں کے حافظے بہت اچھے ہوا کرتے تھے، اس لیے نازل شدہ حصۂ قرآن کو یاد کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ اسی کے ساتھ اُترنے کے بعد فوراً ہی اُس کو جھلّی وغیرہ پر لکھ لیاجاتا تھا۔
ڈاکٹر موریس بُکائی نے اس دو طرفہ طریقہ کو ڈبل چیکنگ کا طریقہ (double checking system) بتایا ہے۔ یعنی حافظہ کا تقابل تحریر سے کیا جائے اور تحریر کا تقابل حافظہ سے کیا جائے۔ اس طرح ایک کو دوسرے سے چیک کرتے ہوئے اُس کی صحت کا تیقن حاصل کیا جائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لا تکتبوا عنی غیر القرآن۔ یعنی تم لوگ صرف قرآن کو لکھو، تم میرے اپنے کلام کو نہ لکھو۔ پیغمبر اسلام کی یہ ہدایت صرف مذکورہ ۲۳ سال کے لیے تھی جب کہ قرآن اُتر رہا تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ قرآن اور کلامِ رسول دونوں ایک دوسرے میں مل نہ جائیں۔ آخری زمانہ میں جب کہ قرآن کا نزول تقریباً مکمل ہوگیا تو آپ نے کلامِ رسول کو لکھنے کی اجازت دے دی اور فرمایا: قیدوالعلم بالکتابۃ(علم کو تحریر کے ذریعہ محفوظ کرو)۔پیغمبر اسلام ﷺکی وفات ہوئی تو پورا قرآن ہزاروں لوگوں کے حافظوں میں محفوظ ہوچکا تھا۔ اسی کے ساتھ مدینہ میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے جھلّی اور دوسری چیزوں پر پورے قرآن کو لکھ لیا۔
خلیفۂ اول ابو بکر صدیق نے اپنے زمانہ میں اس معاملہ میںایک اور کام کیا۔ اُس وقت زید بن ثابت انصاری موجود تھے جو کاتبِ وحی بھی تھے اور پورے قرآن کے اچھے حافظ بھی۔ اُنہوں نے زیدبن ثابت انصاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کی یاد داشت اور تحریری ذخیرہ کی مدد سے مکمل قرآن لکھیں۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک مہم کے طورپر کتابتِ قرآن کے کام کو شروع کیا اور اُس کو تکمیل تک پہنچایا۔ یہ کتابت غالباً قدیم زمانہ کے کاغذ پر کی گئی تـھی۔ یہ کاغذ وہی تھا جس کو مصر میں پیپرس (Papuros) نامی پودے کی فطری پرت (layer) کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا۔
زید بن ثابت انصاری نے کتابت کی تکمیل کے بعد اُس کے اوراق کو یکجا کرکے اُس کی جلد بنائی۔ یہ گویا مجلّد قرآن کا پہلا نسخہ تھا جو اپنی شکل کے اعتبار سے چوکور تھا۔چنانچہ اُس کو رَبعہ کہا جاتا تھا۔ خلیفہ اول نے قرآن کے اس نسخہ کو زوجۂ رسول حضرت حفصہ کے گھر پر رکھوا دیا۔ خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کا زمانہ آیا تو اُس وقت تک کاغذ اور بھی زیادہ عام ہوچکا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمان نے زید بن ثابت انصاری کے نسخہ کو لے کر اُس کی کئی نقلیں تیار کرائیں اور اُن نقلوں کو بڑے بڑے شہروں میں بھیج دیا تاکہ عمومی استفادہ کے لیے اُن کو شہر کی جامع مسجد میں رکھ دیا جائے۔
اس کے بعد کئی سو سال تک مسلم دنیا میں دو طریقے رائج رہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں میں قرآن کو حفظ کرنے کا عمومی رواج ہوگیا۔ نسل در نسل ایسے لوگ کثرت سے پیدا ہوتے رہے جن کو پورا قرآن اچھی طرح یاد تھا۔ اسی کے ساتھ قرآن کے عثمانی نسخہ کو لے کر لوگ اُس کی نقلیں تیار کرتے رہے۔ اس طرح قرآن کی نقلیں قدیم زمانہ کے کاغذ پر تیار ہو کر کثیر تعدادمیں گھر گھر پہنچ گئیں۔
اسی کے ساتھ قرآن کی حفاظت اور صحتِ تلاوت کے لیے دوسرے کئی کام مختلف لوگوں کے ذریعہ انجام پائے۔ مثلاً بنو امیہ کے زمانہ میں قرآن کی آیتوں پر اعراب لگائے گئے اور حروف پرنقطے لکھے گئے۔ یہ کام زیادہ تر حجاج بن یوسف کے ذریعہ انجام پایا۔ اس کے بعد عباسی خلافت کے زمانہ میں طرزِ کتابت میں مزید ترقی ہوئی اور خطِّ کوفی ایجاد ہوا۔ اس ایجاد نے قرآن کی کتابت میں حُسن کا پہلو پیدا کردیا۔ یہ کام زیادہ تر ابن مُقلہ کے ذریعہ انجام پایا۔
اس طرح قرآن کی کتابت اور حفاظت کا سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اٹھارویں صدی کا زمانہ آگیا۔ اس زمانہ میں اہلِ یورپ نے پرنٹنگ پریس ایجاد کیا۔ نپولین بونا پارٹ ۱۷۹۸میں مصر میں داخل ہوا۔نپولین پہلا شخص تھا جو مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس لے آیا۔ اُس وقت تک زیادہ بہتر قسم کا کاغذ عام ہوچکا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ قرآن پہلی بار پرنٹنگ پریس کے ذریعہ چھاپا گیا۔ اس کے بعد ساری مسلم دنیا میں قرآن کو چھاپنے کاعمل شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ اب یہ حالت ہے کہ تمام دنیا میں مسلمانوں کے گھر، مسجدیں اور مدرسے اور کتب خانے اور بازار قرآن کے مطبوعہ نسخوں سے بھر گئے ہیں۔ اس طرح اب قرآن کی حفاظت کا کام آخری طورپر مکمل ہوچکا ہے۔
قرآن مکمل طور پر ایک محفوظ کتاب ہے، یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس کا اعتراف عام طور پر اہل علم نے کیا ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں صرف ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے مشہور مذہبی لیڈر سوامی وویکا نند فروری ۱۸۹۱میں الور آئے۔ وہاں ہندو اور مسلمان دونوں نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے ایک مسلم عالم سے کہا کہ قرآن کی ایک امتیازی صفت یہ ہے کہ آج بھی وہ اسی اصل حالت میں موجود ہے جیسا کہ وہ گیارہ سو سال پہلے تھا۔ اس کتاب نے اپنی خالص حیثیت کوپوری طرح محفوظ رکھا ہے وہ کسی بھی ملاوٹ سے پوری طرح پاک ہے:
In Alwar, where Swamiji arrived one morning in the beginning of February 1891, he was cordially received by Hindus and Moslems alike. To a Moslem scholar he said: ‘There is one thing very remarkable about the Qur’an. Even to this day it exists as it was recorded eleven hundred years ago. The book has retained its original purity and is free from interpolation’.
Vivekananda: A Biography
by Swami Nikhilananda
Advaita Ashram, Calcutta, 2001, p. 102
واپس اوپر جائیں

دار الاسلام، دار الحرب

دار الاسلام اور دار الحرب کی اصطلاح زمانہ نبوت کے ڈیڑھ سو سال بعد عباسی دور میں بنی۔ یہ الفاظ قرآن اور حدیث میں استعمال نہیں ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ دونوں اصطلاحیں مبتدعانہ اصطلاحیں تھیں۔ ان کو قرآنی اصطلاح یا مسنون اصطلاح نہیں کہا جاسکتا۔
فقہاء کے نزدیک دار الاسلام سے مراد وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کو اسلام پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو۔ دار الحرب سے مراد وہ ملک ہے جو مسلمانوں کے لیے معاند ملک کی حیثیت رکھتا ہو، جس سے مسلمان امکانی طورپر جنگ (potentially at war) کی حالت میں ہوں۔ یہ دونوں اصطلاحیں ذاتی قیاس کے تحت بنائی گئیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ اتنی اہم اصطلاح خالص قرآن کی روشنی میں بنائی جائے۔
اس نظر سے قرآن کو دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ دو قسم کے علاقوں کے اس فرق کو بتانے کے لیے زیادہ درست الفاظ دوسرے ہیں۔ اور وہ دارالخوف اور دار الامن کے الفاظ ہیں۔ اس رائے کا مأخذ قرآن کی وہ آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں اقتدار دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اقتدار دیا تھا۔ اور ان کے لیے ان کے دین کو جما دے گا جس کو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن کی حالت سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی بھی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔ (النور۔۵۵)
قرآن کی اس آیت کے مطابق، دور اول کے مسلمان اپنے ابتدائی دو رمیں خوف کی حالت میں تھے۔ پھر اللہ نے ان کو امن کی حالت میں پہنچا دیا۔ یعنی وہ پہلے دار الخوف میں رہ رہے ـتھے، پھر اللہ نے ان کو دار الامن عطا فرمایا۔
وسیع تر تقسیم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دار الخوف سے مراد بنیادی طورپر وہ زمانہ ہے جس کو سیرت کی کتابوں میں مکی دور کہا جاتا ہے اور دار الامن سے مراد بنیادی طورپر وہ زمانہ ہے جس کو سیرت کی کتابوں میں مدنی دور کہا گیا ہے۔
گویا کہ وہ چیز جس کو بعد کے فقہاء نے دار الحرب سے تعبیر کیا، اس کو قرآن میں دار الخوف کہا گیا تھا۔ اس طرح ان فقہاء نے جس حالت کو دار الاسلام سے تعبیر کیا، اس کے لیے قرآن میں دارالامن کا لفظ استعمال کیا گیا۔
مذکورہ حالت اسلام کے ظہور کے تقریباً بیس سال بعد تک رہی۔ اُس کے بعد خدا کی مزید عنایت ہوئی۔ پیغمبر اسلام کے آخری زمانہ میں وہ اہم اعلان کیاگیا جو قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں موجود ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے:
آج انکار کرنے والے لوگ تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پس تم اُن سے نہ ڈرو، اور تم صرف مجھ سے ڈرو۔آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ (المائدہ ۳)
قرآن کی یہ آیت اس بات کا ایک خدائی اعلان ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل کے بعد دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا ہے جس نے ہمیشہ کے لیے اس امکان کو ختم کردیا ہے کہ زمین کا کوئی حصہ اہلِ اسلام کے لیے دوبارہ دار الخوف بن جائے۔ اب قیامت تک کے لیے اہل اسلام امن کے دو رمیں داخل ہوچکے ہیں۔ اب ساری دنیا میں اہلِ اسلام کے لیے ایک ایسا دور آچکا ہے جس میں اُن کے لیے خشیت انسانی کا مسئلہ باقی نہیں رہا۔ اب انسانی تاریخ خشیت الٰہی کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ گویا اب ساری دنیا ہمیشہ کے لیے دار الامن ہے، اب وہ اہل اسلام کے لیے کبھی دارا لخوف بننے والی نہیں۔ اب اہل اسلام کا کام یہ ہے کہ وہ حاصل شدہ مواقع کو استعمال کریں، نہ کہ وہ مفروضہ خوف کے نام پر اہل عالَم سے بے فائدہ لڑائی چھیڑ دیں۔
اب مسلمانوں کو یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ دار الاسلام یا دار الامن قائم کرنے کے نام پر غیر مسلم قوموں سے لڑائی کریں۔ اس کے برعکس اب اہل اسلام کو یہ کرنا ہے کہ وہ ہر حال میں دار الامن کے محافظ بنے رہیں۔ اب مسلمانوں کو اُس نادانی سے بچنا ہے جس کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
عن حذیفۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا ینبغی لمسلم ان یذل نفسہ، قیل و کیف یذل نفسہ قال یتعرض من البلاء لما لا یطیق (مسند احمد ، ۵؍۴۰۵)
حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کسی مسلم کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ خود اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ پوچھا گیا کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرے گا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ایک ایسی بلا سے تعرض کرے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق ، دنیا کا ہر ملک اب اہلِ اسلام کے لیے دار الامن بن چکا ہے۔ دار الامن سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پُرامن دینی عمل کے مواقع موجود ہوں۔ اب جب کہ خُدا نے تمام دنیا کو مسلمانوں کے لیے دار الامن بنا دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اہلِ اسلام کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنا ملّی اور دینی عمل مکمل طورپر امن کے حدود میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ اب اُن کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ پُر امن طریقِ کار کو چھوڑ کر پُر تشدد طریقِ کار اختیار کریں۔
پُر امن طریقِ کار کی یہ فرضیت صحیح البخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے کہا: ما خیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین الا اختار ایسرہما(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ مشکل طریقہ کو چھوڑ کر آسان طریقہ اختیار فرماتے)۔
اس حدیث کے مطابق، پُر تشدد طریقِ کار ایک مشکل طریقِ کار ہے اور پُر امن طریقِ کار ایک آسان طریقِ کار۔ اب سنّت رسول کی پیروی میں اہلِ اسلام کو یہ کرنا ہے کہ وہ پُر تشدد طریقِ کار سے مکمل طورپر بچیں، اور پُر امن طریقِ کار پر سختی کے ساتھ کار بند رہتے ہوئے اپنا دینی اور ملّی مقصد حاصل کریں۔ اب پُر تشدد طریقِ کار کواستعمال کرنا سنتِ رسول کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور جو لوگ سنّتِ رسول کی خلاف ورزی کریں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات حتمی طورپر واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو دوسری قوموں کی طرف سے جس متشددانہ سلوک کا تجربہ ہورہا ہے وہ دوسری قوموں کے ظلم کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اُس کا سبب تمام تر یہ ہے کہ مسلمانوں نے سنتِ رسول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کیا کہ اُنہوں نے پُر امن طریقِ کار کو چھوڑ کر پُر تشدد طریقِ کار کو اختیار کر لیا۔ اب وہ جس ہلاکت کا تجربہ کررہے ہیں اُس کا سبب خود اُن کا مسنون طریقِ کار سے انحراف ہے، نہ کہ کسی مفروضہ دشمن کی طرف سے سازش یا ظلم کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کو حل کرنے کی تدبیر

قدیم زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ الحرب انفٰی للحرب (جنگ کا توڑ جنگ ہے) یہ فکر ہزاروں برس سے انسان کے اندر چلا آرہا تھا۔ بد قسمتی سے یہی فکر تاریخی تسلسل کے نتیجہ میں خود مسلمانوں میں کسی نہ کسی طورپر جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت سے لے کر اب تک کی مسلم تاریخ میں اس کے نمونے پھیلے ہوئے ہیں۔ ۱۹۴۸ میں فلسطین کا مسئلہ پیدا ہوا جو عملاً پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ اس وقت بھی تمام مسلم ذہن اسی ڈھنگ پر سوچنے لگے۔ اس سوچ کی نمائندگی ایک عرب شاعر کے شعر میں ان الفاظ میں ملتی ہے:
ہاتِ صلاح الدین ثانیۃ فینا جددی حطین أو شبہ حطینا
اقبال اپنے علم اور ذہانت کے باوجود اس فکر سے اوپر نہ اُٹھ سکے۔ ان کا پورا کلام کسی نہ کسی طورپر اسی فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ مثال کے طورپر ان کا یہ شعر پڑھئے۔
گفتند جہانِ ما آیا بتو می سازد گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن
اسلام اس معاملہ میں انقلابی تبدیلی کا پیغام تھا۔ جنگ کیوں ہوتی ہے۔جنگ ہمیشہ اختلافات کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ لوگ اختلاف کو صرف مٹانا جانتے تھے، اس لیے وہ فوراً فریقِ ثانی سے لڑ جاتے تھے۔ اسلام نے اس معاملہ میں ایک نئے اُصول کو رواج دیا۔ قرآن میں یہ اُصول ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: الصلح خیر (النساء ۱۲۸)
اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ صلح بہتر ہے۔ صلح کیا ہے۔ صلح یہ ہے کہ اختلاف کو مٹانے پر زور نہ دیا جائے بلکہ اختلاف کو گوارہ کرتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ گویا اس کا مطلب ہے، اختلاف کے باوجود اتحاد۔ اس فارمولے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Art of difference management
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی تدبیر کا عملی نمونہ ہے۔ مثال کے طورپر آپ نے قدیم مکہ میں ۶۱۰ء میں دعوتِ توحید کا مشن شروع کیا۔ اس وقت توحید کے نقطۂ نظر سے مکہ میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ تھا کہ توحید کے گھر (کعبہ) میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ مگر اس وقت قرآن میں اس مفہوم کی کوئی آیت نہیں اتری: طَہِّر الکعبۃ من الأصنام (کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)بلکہ اس کے بجائے قرآن میں یہ آیت اتری کہ : وثیابک فطہر(اپنے اخلاق کو درست کرو)
اس قرآنی اُصول پر عمل کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے یہ کیا کہ آپ نے مکہ کے تیرہ سالہ قیام کے زمانہ میں کبھی بتوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ لوگوں کو توحید کا پیغام دینے کی پر امن جدوجہد شروع کردی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں اس قسم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ انہی میں سے ایک نمایاں واقعہ صلح حدیبیہ ۶۲۸ء کا ہے۔ یہ صلح گویا ڈیفرنس مینجمنٹ(difference management) کی ایک کامیاب مثال تھی جو انسانی تاریخ میں غالباً پہلی بار نہایت کامیابی کے ساتھ قائم کی گئی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سخت انتباہ دیا تھا کہ اختلاف خواہ کتنا ہی بڑا ہو وہ ہرحال میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو حل کرے۔ کسی بھی حال میں وہ ایسا نہ کرے کہ اتحاد کے نام پر اختلاف کو مٹانے کی کوشش کرے۔ حدیث کے مجموعوں میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے اس قسم کی روایتیں آئی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے بعد امراء اور حکام کے اندر بگاڑ آئے گا مگر تم ہرگز ان سے ٹکراؤ نہ کرنا۔ تم ظلم کے باوجود ان کا حق ادا کرنا اور اپنے حق کے لیے اللہ سے دعا کرنا(ادوا الیہم حقہم واسئلوا اللہ حقکم)
اس معاملہ میں ایک حدیث وہ ہے جو ابوداؤد، الترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں آئی ہے۔ یہ ایک لمبی روایت ہے، اس کا آخری حصہ یہ ہے:
وإنی لا أخاف علی أمتی إلا الأئمۃ المضلین فإذا وضع السیف فی امتی لم یرفع عنہم إلی یوم القیامۃ (مسند احمد ۴؍۱۲۳) یعنی مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ اندیشہ گمراہ کن لیڈروں سے ہے او رجب تلوار میری امت میں داخل ہوگی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی۔
اس حدیث کا مطلب در اصل یہ ہے کہ امت میں جب اختلافات پیدا ہوں گے تو نا اہل لیڈر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو رفع نہ کرسکیں گے بلکہ وہ اختلاف کو دور کرنے کے نام پر لڑائی چھیڑ دیں گے اور جب ایک بار امت میں دین کے نام پر لڑائی کی روایت قائم ہوگئی تو اجتماعی نفسیات کی بنا پر وہ قیامت تک جاری رہے گی۔
حدیث کی یہ پیشین گوئی بد قسمتی سے امت کی بعد کی تاریخ کے بارے میں درست ثابت ہوئی۔ امت کے اندر وضع سیف کا یہ معاملہ خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کی شہادت کے ساتھ شر وع ہوا۔ پھر اس کے بعد وہ اس طرح مسلسل جاری ہو گیا کہ امت کی ہزار سالہ تاریخ میں وہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ خلیفہ چہارم اور دمِ عثمان کے نام پر اُٹھنے والوں کے درمیان جنگ، حسین اور یزید کے درمیان جنگ، بنوامیہ اور بنو عباس کے درمیان جنگ، سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ، مغلوں اور غیر مغلوں کے درمیان جنگ، اسی طرح موجودہ زمانہ میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان جنگ، وغیرہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اختلاف امتی رحمۃ (میری امت کا اختلاف رحمت ہے) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف (difference) خدا کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ فطرت کا ایک لازمی جزء ہے اس لیے اختلاف کبھی زندگی سے ختم نہیں ہوتا۔ امت کے اصحاب علم و معرفت اس راز کو سمجھیں گے اور اختلاف کو مٹانے کے بجائے اختلاف کے ساتھ جینے کی کوشش کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ ڈیفرنس مینجمنٹ کے اصول پر اس مسئلہ کو حل کریں گے۔ اس طرح سنت کی پیروی کی صورت میں اختلاف امت محمدی کے لیے رحمت بن جائے گا۔ اختلاف کے ہوتے ہوئے وہ ترقی کا پر امن سفر کامیابی کے ساتھ طے کر سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دوسری بہت سی سنتیں ہیں اسی طرح وہ چیز بھی ایک سنت رسول ہے جس کو ہم نے آرٹ آف ڈیفرنس مینجمنٹ کا نام دیا ہے۔ اس اُصول کا تعلق اسلام کے تمام پہلوؤں سے ہے، کوئی بھی پہلو اس سے خالی نہیں۔
مثال کے طورپر فقہی اختلافات جو ہزار سال سے اب تک ٹکراؤ کا سبب بنے ہوئے ہیں ان کے معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا سادہ اُصول یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ یہ اختلافات توسع پر مبنی ہیں،نہ کہ تعددپر۔ ان میں سے جس طریقہ کی بھی پیروی کی جائے وہ درست ہوگا(بایہم اقتدیتم اہتدیتم)
اسی طرح علی اور معاویہ کا معاملہ یا یہ سوال کہ چاروں خلفاء کے درمیان تفضیل کی بحث۔ اس قسم کے معاملات میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق (application) یہ ہے کہ اس کو خدا کے حوالہ کردیا جائے اور ہر فرقہ اپنی آج کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مشغول ہوجائے۔
موجودہ زمانہ میں اکثر مسلم ملکوں میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان تباہ کن ٹکراؤ جاری ہے۔ اس معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا انطباق یہ ہے کہ اسلام پسند جماعتیں حکومت کے دائرہ میں براہ راست مداخلت کا طریقہ چھوڑ دیں ۔ وہ غیر حکومتی دائرہ ، مثلاً تعلیم اور اصلاح اور دعوت کے شعبوں میں، اپنی کوششیں صرف کریں۔
موجودہ زمانہ میںہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان لیڈر یا مسلم گروہ مختلف ملکوں میں کسی نہ کسی قومی یا ملّی مقصد کے حوالہ سے غیر مسلم حکومتوں سے متشددانہ ٹکراؤ کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہیں۔ مثلاً فلسطین اور کشمیر او رچیچنیا اور فلپائن ،وغیرہ میں۔ ان مقامات پر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق یہ ہے کہ ہر قسم کے تشدد کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے اور صرف مسلّمہ پرامن طریق کار کی پابندی کرتے ہوئے اپنی تحریک چلائی جائے۔
قرآن کی آیت: الصلح خیر(النساء ۱۲۸) بتاتی ہے کہ ڈیفرنس مینجمنٹ کا مذکورہ طریقہ مطلق طورپر خیر کا سببہے۔ وہ ہر حال میں قابل عمل ہے۔ یہ طریقہ صرف اس وقت ناقابل عمل بن جاتا ہے جب کہ مسلمان تشدد کا آغاز کرکے فضا کو بگاڑدیں۔ تشدد کا آغاز لازمی طورپر جوابی تشدد پیدا کرے گا اور پر امن طریق کار کو اختیار کرنا ممکن نہ رہے گا۔ اگر مسلمان یہ غلطی کریں کہ تشدد کا آغاز کرکے وہ صورت حال کو بگاڑ دیں تو خود انہیں کو دوبارہ صورت حال کو نارمل بنانے کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے تشدد کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں تا کہ وہ موافق فضا پیدا ہو جس میں ڈیفرنس مینجمنٹ پر عمل کرنا ممکن ہو جائے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ مذکورہ اصول فطرت ہی کا ایک اصول ہے جس کو اسلام میں اختیار کیا گیاہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں لازماً ایک اور دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوں۔ ایک اور دوسرے کے درمیان مختلف اعتبار سے اتنا زیادہ فرق پایا جاتا ہے کہ ہر انسان کو مسٹر ڈیفرنس کہنا صحیح ہوگا۔ اس دنیا میں ہر سماج فرق و اختلاف والا سماج ہے۔ یہ فرق و اختلاف چونکہ خود فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے اس لیے اس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔
ایسی حالت میںقابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ فرق کے ساتھ نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے نہ کہ فرق کو مٹانے کا۔
It requires difference management rather than eliminating the difference.
فطرت کے اس اصول کا تعلق مذہبی معاملہ سے بھی ہے اور سیکولر معاملہ سے بھی۔ اس دنیا میں کوئی بھی نظام مذہبی ہو یا غیر مذہبی، کامیاب طورپر وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو ڈیفرنس مینجمنٹ کا آرٹ جانتے ہوں۔ فرق و اختلاف کو مٹانا تشدد پیدا کرتا ہے اور فرق و اختلاف کو مینج کرنا امن اور ہم آہنگی کا سبب بنتا ہے۔
فرق و اختلاف کوئی بُرائی نہیں، وہ ترقی کا زینہ ہے۔ فرق و اختلاف سے اجتماعی زندگی میں چیلنج پیدا ہوتا ہے۔ اور چیلنج کا سامنا کرنا ہی اس دنیا میں ہر قسم کی ترقی کا واحد راز ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتِ عام کی ذمہ داری

بیان کیا جاتا ہے کہ پچھلے انبیاء مقامی آبادیوں کے لیے آئے۔ وہ جس قوم میں پیدا ہوئے وہی قوم اُن کی دعوت کامیدان ہوتی تھی۔ مگر پیغمبر آخر الزماں ﷺکے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہ تھا اس لیے آپ ساری دنیا کے لیے داعی اور منذر بنا کر بھیجے گیے(الفرقان ۱)۔ اسی لیے پیغمبراسلام کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین(الانبیاء ۱۰۷) یعنی ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
یہ بات اہل اسلام کے لیے فخر یا فضیلت کی بات نہیں ہے بلکہ وہ ایک سنگین ذمہ داری کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پیغمبروں کی امتوں کی دعوتی ذمہ داری اگر مقامی دائرہ تک محدود رہتی تھی تو امتِ محمدی کی ذمہ داری سارے عالم تک پھیلی ہوئی ہے۔ اُمّت محمدی کا اُمّت محمدی ہونا صرف اُس وقت متحقّق ہو سکتا ہے جب کہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے اوپر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کرے۔ اس دعوتی عمل کے بغیر اُس کا اُمتِ محمدی ہونا ہی مشتبہ ہے (المائدۃ ۶۷)
مزید یہ کہ اس دعوتی ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُمت کے لوگ تمام دنیا میں مسلم وار تحریکیں چلائیں بلکہ اُنہیں لازمی طورپر غیر مسلم وار تحریکیں چلانا ہے۔ مسلم وار تحریک یا ملت وار تحریک امت کا داخلی مسئلہ ہے جب کہ غیر مسلم وار تحریک، خارجی معنوں میں اُمّت کی لازمی ذمہ داری ہے۔
علمائے اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعوت کے بغیر جہاد نہیں۔ ابن رشد نے الفصل الرابع فی شرط الحرب کے تحت لکھا ہے: فاما شرط الحرب فہو بلوغ الدعوۃ باتفاق، اعنی انہ لا یجوز حرابتہم حتی یکونوا قد بلغتھم الدعوۃ، وذلک شیٔ مجتمع علیہ من المسلمین لقولہ تعالیٰ:وما کنا معذبین حتی نبعث رسولاً (بدایۃ المجتہد۱؍۳۸۶) یعنی جنگ کی شرط متفقہ طورپر یہ ہے کہ ان لوگوں تک دعوت پہنچ چکی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے اس وقت تک جنگ جائز نہیں جب تک کہ انہیں دعوت نہ پہنچ جائے۔
اس معیارکی روشنی میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ پچھلے تقریباً تین سو سال سے مسلم رہنما جہاد کے نام پر غیر قوموں سے جو لڑائیاں لڑ رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی جہاد نہیں۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کے بغیر لڑی گئیں۔ مثلاً شاہ ولی اللہ دہلوی کی (بالواسطہ) جنگ مراٹھوں سے، شہیدین کی جنگ سکھوں سے، علمائے ہندکی جنگ انگریزوں سے، عربوں کی جنگ اسرائیلیوں سے، پاکستانیوں اور کشمیریوں کی جنگ ہندوؤں سے، فلپائنی مسلمانوں کی جنگ وہاں کے عیسائیوں سے، چیچن مسلمانوں کی جنگ روسیوں سے، وغیرہ۔
یہ اور موجودہ زمانہ کی دوسری لڑائیاں جو مسلم رہنما لڑتے رہے یا لڑ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی جہاد فی سبیل اللہ نہیں۔ کیوں کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کی شرط کے بغیر شروع کردی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی یہ تمام لڑائیاں حبط اعمال کا شکار ہوگئیں۔ مسلمانوں کی یک طرفہ تباہی کے سوا ان کا اور کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔
کسی غیر مسلم قوم کے خلاف جہاد(بمعنٰی قتال) چھیڑنے کے لیے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں پر ملک و مال کے اعتبار سے کوئی نقصان پہنچایا ہو۔ ایسے کسی مسئلہ کے حل کے لیے پر امن تدبیر ہے نہ کہ متشددانہ جنگ۔ غیر مسلموں کے سلسلہ میں مسلمانوں کی اول و آخر ذمہ داری دعوت و تبلیغ ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) صرف مخصوص اور متعین شرطوں ہی پر جائز ہے، اور موجودہ زمانہ میں یہ شرطیں کسی بھی مقام کے مسلمانوں کے حق میں موجود نہیں۔
کسی قوم کے خلاف دعوت کے بغیر جہاد چھیڑنانہایت سنگین ذمہ داری ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے صرف یہ کیا تھا کہ دعوت کی تکمیل سے پہلے انہوں نے اپنی مدعو قوم سے ہجرت کا معاملہ کیا۔ اب وہ لوگ جنہوں نے سرے سے دعوت کا عمل ہی نہ کیا ہو اور پھر صرف مادّی نزاع کی بنا پر اپنی مدعو قوم کے خلاف مسلّح جنگ چھیڑ دیں، اُن کا معاملہ حضرت یونس کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں کتنا زیادہ سنگین ہوگا، اس کا تصور بھی لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
واپس اوپر جائیں

قومیت کا مسئلہ

سید جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ میں پیدا ہوئے اور ۱۸۹۷ میں اُن کی وفات ہوئی۔ وہ اُس نظریہ کی ایک علامت ہیں جو ترکی کے سلطان عبدالحمید کی حمایت سے شروع ہوئی اور جس کو اتحادِاسلامی(پان اسلامزم) کہا جاتا ہے۔ سید جمال الدین افغانی کے زمانہ میں تقریباً پوری مسلم دنیا انگریزوں اور فرانسیسیوں کی سیاسی ماتحتی میں آگئی تھی۔ جمال الدین افغانی اس مغربی اقتدار کو ختم کرنے کے لیے اُٹھے ۔ اس مقصد کو طاقت دینے کے لیے اُنہوں نے اتحادِ اسلامی کا نظریہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ تمام دنیا کے مسلمان، خواہ وہ اکثریتی ملک میں ہوں یا اقلیتی ملک میں، وہ سب کے سب ایک واحداُمّت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ سب کے سب ایک ہی سیاسی وحدت میں بندھے ہوئے ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسی نظریہ کے مطابق کہا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک انٹرنیشنل پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آیت اللہ خمینی اور دوسرے رہنماؤں نے اس کو الأمّہ(Ummah) کا لفظ دیا جو بہت جلد تمام دنیا کے مسلمانوں میں مقبول ہوگیا۔ اسی نظریہ کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
یہ بین اقوامی نظریہ نو آبادیاتی دور میں حالات سے متصادم نہیں معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت دنیا کے بیشتر ملک عملاً ایک ہی سیاسی نظام کے تحت تھے۔ تقریباً تمام مسلمان اس ایک سیاسی نظام کے شہری شمار ہوتے تھے۔ مگر جب نو آبادیاتی نظام ٹوٹا اور نیشنلزم کا دور آیا تو بہت سی الگ الگ سیاسی وحدتیں بن گئیں۔ پہلے اگر ایک ایمپائر کی وفاداری کا مسئلہ تھا تو اب ایک سو قومی وحدتوں کی الگ الگ وفاداری کا مسئلہ سامنے آگیا:
Pan-Islamism was the dominant ideology of the Muslim world of the 19th century before the rise of Nationalism. (7:719)
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا نقشہ بدلا تو مسلمان فکری اعتبار سے ایک پیچیدہ صورت حال میں مبتلا ہوگئے۔ جو لوگ عالمی قومیت کے ڈھانچہ میں اپنی سیاسی شناخت بنائے ہوئے تھے، اب اُن کو مقامی قومیت کے ڈھانچے میں دوبارہ اپنی سیاسی شناخت کو تلاش کرنا پڑا۔ اس نازک وقت میں، میرے علم کے مطابق، پوری مسلم دنیا میں صرف ایک عالم تھا جس نے اس سوال کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کی۔ یہ مولانا سید حسین احمد مدنی(۱۹۵۷۔۱۸۷۹) تھے۔ اُنہوں نے ۱۹۴۷ سے پہلے کی ہنگامی سیاست کے زمانہ میں یہ جرأتمندانہ اعلان کیا کہ: فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک اجتہادی رہنمائی تھی۔ مگر بد قسمتی سے مولانا موصوف کی وفات کے بعد خود دیوبند کے علماء نے یہ اعلان کرکے اُس کو کالعدم کردیا کہ: حضرت نے اس سلسلہ میں جو فرمایا وہ صرف ایک خبر تھی، وہ انشا نہ تھی۔
یہ معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ یہ بے حد نازک معاملہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اس معاملہ میں انتہائی غیر جانبدارانہ انداز کے ساتھ غور کیا جائے۔ مذکورہ اعلان کردہ موقف کی صورت میں نظری یا اعتقادی پوزیشن یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی قومیت (Nationality) اسلام ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مسلمانوں کی سیاسی وفاداری مشترک طورپر اُن کے مذہب کے ساتھ وابستہ ہے۔ اب جب کہ ہر ملک میں نیشنلٹی کو وطن (home-land) کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے تو یہ نظریہ ہر جگہ مقامی تقاضوں سے متصادم ہوگیا ہے۔
مثلاً امریکا یا برطانیہ یا انڈیا میں جدید تصورِ قومیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کی سیاسی وفاداریاں صرف اپنے وطن کے ساتھ وابستہ ہوں، اُن کی کوئی خارج از وطن سیاسی وفاداری (extra-terrestrial loyalty) نہ ہو۔ جب کہ الأمّہ کا نظریہ برعکس طورپر یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کی وفاداریاں بین اقوامی اسلام کے ساتھ ہونی چاہئیں، نہ کہ ملکی وطنیت کے ساتھ۔ اس تضاد نے ساری دنیا کے ہر اُس ملک میں مسلمانوں کی نیشنل وفاداری کو مشتبہ کردیا ہے جہاں مسلمان ایک اقلیت کے طورپر رہتے ہیں۔
یہ ایک بے حد سنگین مسئلہ ہے۔ خالص نظری طور پر مسلمانوں کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہے۔ یا تو وہ اپنے اعلان کردہ موقف کے مطابق، یہ کہیں کہ ہم عالمی اسلامی قومیت کے فرد ہیں، ہم مقامی قومیت کے قائل نہیں۔ وہ اس موقف کو اختیار کریں اور پھر اُس کی ہر قیمت کو دل کی آمادگی کے ساتھ ادا کریں۔ مثلاً اگر کسی ملک میں اُن کی وطنی وفاداری کو مشتبہ سمجھ کر اُنہیں ملکی فوج میں نہ لیا جائے، اُنہیں وزارت خارجہ میں شامل نہ کیا جائے، اُنہیں سفیر کا عہدہ نہ ملے، ملک کی بین اقوامی نمائندگی کے فورم میں اُن کو جگہ نہ دی جائے، اُن کو اپنے ملک میں درجہ دوم کا شہری سمجھا جائے تو اُنہیں چاہئے کہ وہ اُسے اپنے عقیدہ کی فطری قیمت سمجھ کر اُس کو قبول کریں۔
مسلمانوں کے لیے دوسرا چوائس یہ ہے کہ وہ کھُلے طورپر یہ اعلان کریں کہ الأمّہ کا مذکورہ بین اقوامی نظریہ کچھ مسلم رہنماؤں کا ذاتی نظریہ تھا جو اُنہوں نے مخصوص حالات کے رد عمل میں اختیار کیا اور اُس کو غلط طورپر اسلام کا نام دے دیا۔ اب ہم اس نظریہ کو رد کرتے ہیں اور جیسا کہ مولانا حسین احمد مدنی نے اعلان کیا تھا، ہم اس رائے کو اختیار کرتے ہیں کہ عقیدہ اور مذہب کے اعتبار سے بلا شبہہ تمام دنیا کے مسلمان ہم مذہب ہیں مگر جہاں تک قومیت (nationality) کا تعلق ہے، ہر مسلمان کی قومیت وہی ہے جو اُس کا وطن ہے۔ قومیت کا تعلق وطن سے ہے، نہ کہ مذہب سے۔ یہ اعلان اگر مسلمانوں کی طرف سے کھلے طورپر کر دیا جائے تو مذکورہ تضاد ختم ہوجائے گا اور پھرکسی کو یہ موقع نہ ہوگا کہ وہ اُن کی وطنی وفاداری پر شک کرے۔
مسلمان اگر ان دونوں میں سے کوئی موقف اختیار نہ کریں بلکہ وہ یہ کریں کہ موقف کے بارے میںکھُلے اعلان کے بغیر وہ اپنے اپنے ملک کی مادّی تقسیم میں اپنا حصہ لینے لگیں تو یہ ایک منافقانہ روش ہوگی۔ یعنی اپنے نظری یا اعتقادی موقف میں تبدیلی کا اعلان کیے بغیر خاموشی کے ساتھ اپنے عملی موقف کو بدل لینا۔ اس قسم کی روش ایک افادی(utilitarian) روش قرار پائے گی، نہ کہ کوئی اصولی روش۔
اس طرح دوعملی کی روش اختیار کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے نقصانات بے حد سنگین ہیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے اندر سے بااصُول کردار کا مزاج ختم ہوجائے گا۔ اُن کا روحانی ارتقاء(spiritual development) رک جائے گا۔ اُن کے اندر فکری عمل (intellectual process) جاری نہ ہوسکے گا۔ اُن کی شخصیت ارتقائی منازل طے کرنے سے محروم ہوجائے گی۔ وہ اُس عظیم نعمت سے لذت نا آشنا ہوجائیں گے جس کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (الفتح ۴) کہا گیا ہے۔ اس صورت حال کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ جمود ذہنی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔ وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ علم و فکر کے اعتبار سے دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر پیغمبر کی امت کو خدا کی طرف سے الگ الگ شریعت اور منہاج دیا گیا(المائدہ ۴۸)۔ یہ بات بظاہر امت کے حوالے سے کہی گئی ہے، مگر وہ حقیقۃً زمانہ کی نسبت سے مقصود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے لوگوں کو ان کے زمانی حالات کی نسبت سے انہیں شریعت اور منہاج عطا کیا گیا۔ اسی لیے فقہ میں یہ متفقہ مسئلہ بنا ہے کہ: تتغیر الاحکام بتغیر الزمان والمکان (زمانہ اور مقام کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں)۔
تشریع الٰہی کا یہ اصول صرف پیغمبر اسلام سے پہلے کے لوگوں کے لیے نہیں تھا۔ بلکہ وہ پیغمبراسلام کے بعد آپ کی امت کے لیے بھی اسی طرح مطلوب ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پچھلی امتوں کو براہ راست پیغمبر کے ذریعہ اس تبدیلیٔ حکم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اور اب ختم نبوت کے بعد علماء کے اجتہاد کے ذریعہ تبدیلی ٔ حکم کا یہ کام انجام پائے گا۔
اس تشریعی اصول کے مطابق، بجا طورپر کہا جاسکتا ہے کہ قومیت (nationality) کے معاملہ میں موجودہ زمانہ میں جو تصور عالمی سطح پر رائج اور مسلّم ہوگیا ہے اس کی روشنی میں اجتہاد کرکے دوبارہ اس معاملہ میں شریعت کا موقف متعین کیا جائے گا۔ اور یہ موقف وہی ہے جس کا اعلان ۱۹۴۷ سے پہلے کے زمانہ میں مولانا سید حسین احمد مدنی نے کیا تھا۔
یہ شرعی موقف یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان عقیدہ اور مذہب کے اعتبار سے بلا شبہہ ایک عقیدہ اور ایک مذہب رکھتے ہیں مگر جہاں تک قومیت کا تعلق ہے وہ ملک کی نسبت سے متعین ہوگی۔ یعنی ہر ملک کے مسلمانوں کی قومیت وہی قرار پائے گی جو اس ملک کے دوسرے گروہوں کی ہے۔
واپس اوپر جائیں

کفر اور کافر کا مسئلہ

بیسویں صدی میں کمیونسٹ نظریہ بڑے پیمانہ پر ساری دنیا میں پھیلا۔ اس کے تحت انسانی سماج کو دو طبقوں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک محنت کش طبقہ (working class) اور دوسرا بورژوا طبقہ۔
بورژوا (bourgeois) ایک فرانسیسی لفظ ہے۔ یہ لفظ اپنے ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے متوسط طبقہ کے لیے بولا جاتا تھا۔ مگر مارکسی فلسفہ کے زیر اثر وہ ایک تحقیری (derogatory) لفظ بن گیا۔ اس نظریہ کے تحت سماج دو طبقوں میں بٹ گیا۔ ایک محنت کش طبقہ جو ہر اعتبار سے معصوم طبقہ کی حیثیت رکھتا تھا اور دوسرا بورژوا طبقہ جو مارکسی تصور کے مطابق، سرمایہ دار طبقہ (capitalist class) کے ہم معنٰی تھا اور جو مارکس کے مطابق، ہر قسم کی سماجی اور اقتصادی برائی کی جڑ تھا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ کافر کے لفظ کے ساتھ پیش آیا ہے۔ کافر کا لفظ ابتدائی طورپر صرف ایک سادہ مفہوم رکھتا تھا۔ لغوی اعتبار سے کافر کے معنٰی ہیں، انکار کرنے والا۔ مگر بعد کے زمانہ میں کافر کا لفظ ایک تحقیری لفظ (derogatory word) بن گیا۔ موجودہ زمانہ میں نظری اعتبار سے یہ غالباً مسلم اور غیر مسلم کے درمیان سب سے بڑا نزاعی مسئلہ ہے جس سے موجودہ زمانہ کے مسلمان دوچار ہیں۔ ایک مثال سے اس معاملہ کی وضاحت ہوگی۔ اقبال کا خاندان پہلے ایک برہمن خاندان تھا۔ بعد کو وہ لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے:
مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادۂ دانائے رمز روم و تبریز است
اس شعر میںبرہمن زادہ کا لفظ سننے والوں کو برا نہیں لگتا۔ ابتدائی مفہوم کے اعتبارسے برہمن زادہ اور کافر زادہ دونوں ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ لیکن اگر اقبال کے اس شعر کو بدل کر اس طرح کہا جائے:
کہ کافر زادۂ دانائے رمزروم و تبریز است
اگر شعر میں ایسی تبدیلی لائی جائے تو تمام اقبال پسند لوگ غصہ ہو جائیں گے۔ کیوں کہ برہمن ایک سادہ لفظ ہے جب کہ کافر استعمال کے اعتبارسے ایک تحقیری لفظ بن گیا ہے۔
کمیونسٹ اور بورژوا کی تقسیم نے بیسویں صدی میں غیر کمیونسٹ دنیا کو کمیونسٹ لوگوں سے متنفّر کردیا تھا۔ یہی معاملہ اب مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے مومن اورکافر کی تقسیم نے غیرمسلم دنیا کو مسلمانوں سے بیزار کردیا ہے۔ حتٰی کہ اب اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے لوگ یہ مانگ کرنے لگے ہیں کہ اسلام پر نظر ثانی کرو اور کافر کے لفظ کو اسلام کی لغت سے خارج کرو۔ جب تک اسلام میں یہ ریفارم نہ لایا جائے، مسلم اور غیر مسلم معتدل طورپر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
مگر تجربہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے انتہا پسند لوگوں کا نہیں ہے بلکہ اب وہ خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ آج کے صنعتی سماج میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ایک ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں تعلیم یافتہ مسلمان عام طورپر یہ محسوس کررہے ہیں کہ وہ ’’کافر‘‘ کے رواجی تصور کے ساتھ مشترک سماج میں معتدل طورپر نہیں رہ سکتے۔ وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اسلام نے موجودہ زمانہ میں اپنا ریلونس (relevance) کھو دیا ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اسلام کو لے کر وہ آج کے سماج میں عزت کے ساتھ کس طرح رہیں۔
دہلی میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ ان سے اکثر میری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری پیدائش اگرچہ مسلمان کے گھر میں ہوئی مگر اب اسلام پر میرا عقیدہ باقی نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا مذہب ڈیموکریسی (جمہوریت) ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام انسانیت کو مومن اور کافر کے دو نامساوی طبقوں میں بانٹتا ہے۔ جب کہ ڈیموکریسی سارے انسانوں کو برابر کا درجہ دیتی ہے۔انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا کہ میرے یہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوگا تو میںاس کے کان میں اذان نہیں دلواؤں گا بلکہ کسی پروفیسر کو بلاؤں گا جو بچہ کے کان میں کہے گا—ڈیموکریسی، ڈیموکریسی، ڈیمو کریسی۔
حقیقت یہ ہے کہ کافر کا مسئلہ صرف غیرمسلم لوگوں کامسئلہ نہیں۔ اب جدید سماج میں وہ بڑے پیمانہ پر خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے اور اس کے صحیح مفہوم کو سامنے لا یا جائے تاکہ اسلام لوگوں کو وقت کا مذہب معلوم ہو اور مسلم اور غیر مسلم دونوں جدید سماج میں معتدل طورپر دوسروں کے ساتھ رہ سکیں۔
گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ رواجی تصور میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کافر اور غیر مسلم دونوں ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ جو لوگ مسلمان نہیں وہ سب کے سب کافر ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک غلط تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافر کا لفظ غیر مسلم کے مترادف نہیں:
The word Kafir is not synonymous with non-Muslim.
داعی اور مدعو کارشتہ
شریعت کے اعتبار سے، مسلمان کی حیثیت داعی کی ہے اور غیر مسلم کی حیثیت مدعو کی۔ یہ رشتہ لازم کرتا ہے کہ داعی اپنے مدعو کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق قائم رکھے۔ کہا جاتا ہے کہ تاجر کو ہمیشہ کسٹمر فرینڈلی (customer friendly) ہونا چاہئے۔ اسی طرح داعی کا فارمولا یہ ہونا چاہئے کہ وہ ہمیشہ مدعو فرینڈلی ہو۔
Be always Mad‘u friendly.
مدعو کے حق میں داعی کے اندر خیر خواہانہ جذبات ہونے چاہئیں۔اگر داعی کے اندر مدعو کے لیے یہ مطلوب جذبات موجود ہوں تو وہ ہر گز اس کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ ایسے الفاظ بولے جس سے مدعو کے دل میں اُس کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے۔ حتیٰ کہ اگر وہ سچا داعی ہے تو اپنے دل میں بھی وہ ایسی بات نہیں سوچے گا۔ دعوت کا جذبہ نفرت کا قاتل ہے۔ داعی کا دل ایک درد مند دل ہوتا ہے۔ ایسے دل کے اندر محبت اور خیر خواہی کے سوا کوئی اور چیز پرورش نہیں پاسکتی۔
قدیم زمانہ میں آرین لوگ جب انڈیا میںآئے تو یہاں کے مقامی لوگوں کو انہوں نے ملچھ کہا۔ اسی طرح مسیحی علماء نے مسلمانوں کو اپنی کتابوں میں انفڈل (Infidels) لکھا۔ ملچھ اور انفڈل دونوں تحقیری الفاظ (derogatory words) ہیں۔ کہنے والا ان الفاظ کو بول کر خوش ہوتا ہے مگر جس کے بارے میں یہ لفظ بولا گیا ہے وہ اس کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جن میںکوئی تحقیری مفہوم (derogatory sense) نہ ہو بلکہ وہ سادہ طورپر صرف اظہار واقعہ کے ہم معنٰی ہو۔
بد قسمتی سے اس معاملہ میں مسلم علماء احتیاط کا پہلو اختیار نہ کرسکے۔وہ اپنی کتابوں میں اور قرآن کے ترجموں میںکافر کے لیے بے تکلف انفڈل کا لفظ استعمال کرنے لگے۔ مثال کے طورپر مولاناعبدالماجد دریابادی نے اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن میں قل یا ایہا الکافرن کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
Say thou: infidels (4:535)
در اصل مسلم علماء اور رہنماؤں کی اسی قسم کی غیر احتیاطی باتیں ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سخت تناؤ پیدا ہوگیا ہے جس کا نتیجہ مختلف ناخوشگوار صورتوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔
یہی غلطی قرآن کے اُردو اور فارسی مترجمین نے بھی کی ہے۔ قرآن کے بہت سے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ مگر غالباً صرف ایک مترجم (شاہ عبد القادر) کو چھوڑ کر تمام مترجمین نے اس معاملہ میں بے احتیاطی کا انداز اختیار کیا ہے۔ قل یاایہا الکافرون کے کچھ ترجمے یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
بگو اے کافراں (شاہ ولی اللہ)
کہہ اے کافرو (شاہ رفیع الدین)
آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے (اشرف علی تھانوی)
کہہ دو کہ اے کافرو (ابو الاعلیٰ مودودی)
کہہ دو، اے کافرو (امین احسن اصلاحی)
تو کہہ، ائے منکرو (شاہ عبدالقادر)
اس قرآنی آیت کے تحت اکثر مترجمین نے اسی قسم کے ترجمے کئے ہیں۔ اس آیت میں کافر کا ترجمہ درست نہیں۔ بالفرض وہ خالص لغوی اعتبار سے غلط نہ ہو تب بھی وہ دوسری قوموں کے لیے ایک قابل اعتراض لفظ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ترجمہ سے احتراز کیا جائے۔ پھر یہ صرف ترجمہ کی بات نہیں، اسی ترجمہ کی بنیاد پر ذہن بنتا ہے اور تقریر و تحریر میںاس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ترجمہ پوری ملت کی منفی ذہن سازی کا سبب بن جاتا ہے۔یہ ترجمہ ہم اور وہ (we and they) کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ اور اس قسم کا تقسیمی ذہن دعوتی اعتبار سے درست نہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا،غالباً ایک ہی عالم ہیں جنہوں نے قرآن کے ان الفاظ کا درست ترجمہ کیا ہے اور وہ شاہ عبد القادر دہلوی ہیں۔ شاہ عبد القادر صاحب کا اُردو ترجمہ تمام علماء کے نزدیک نہایت مستند مانا گیا ہے۔ انہوں نے مذکورہ آیت کا ترجمہ ’منکرو‘ کیا ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۹ میں قل یاایہا الکافرون (کہو کہ ائے منکرو) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ طرزِ خطاب پورے قرآن میں صرف ایک بار اسی ایک سورہ میں استعمال ہوا ہے۔ کافر یا کفّار یا کافرون کے الفاظ تو قرآن میںمتعدد بار آئے ہیں۔ مگر ایہا الکافرون جیسے متعین خطاب کی صورت میںاس کا استعمال قرآن میں کسی اور مقام پر نہیں ہوا ہے۔
مفسرین کی رائے کے مطابق، یہاںالکافرون میں الف لام عہد کا ہے۔ یعنی وہ ایک گروہ خاص کے لیے مشخّص طورپر آیا ہے، نہ کہ عمومی طورپر ہر اُس شخص کے لیے جو مسلم گروہ سے باہر ہو۔ ذیل میں کچھ مفسرین کے اقوال درج کیے جاتے ہیں:
(قل یٰایہا الکافرون) المخاطبون کفرۃ مخصوصون قد علم اللہ انہم لایؤمنون (تفسیر النسفی)
و عنی بالکافرین قوماً معینین لا جمیع الکافرین (تفسیر القرطبی)
خطاب لجماعۃ مخصوصۃ (تفسیر المظہری)
قل یٰایہا الکافرون ایک مخصوص خطاب ہے، اُس کو عمومی طورپراستعمال نہیںکیا جاسکتا۔ یعنی قل یٰایہا الکافرون سے مراد ہمیشہ کے لیے صرف قدیم منکرینِ قریش رہیں گے جو پیغمبراسلام کے معاصر تھے اور پیغمبرانہ اتمام حجت کے باوجود، جنہوں نے پیغمبر کی بات کو ماننے سے انکار کیا۔ زمانۂ نبوت کے بعد کے لوگوں کو ایہا الانسان کے لفظ سے خطاب کیا جائے گا، نہ کہ ایہا الکافرون کے لفظ سے۔ اب یہی انداز ِخطاب ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
کافر کا مفہوم
عربی زبان میں کفر کے معنٰی انکار کے ہیں اور کافرکا مطلب ہے، انکار کرنے والا۔ اسلام کے مطابق، کافر ایک کردار ہے، کافر کسی قوم کا اجتماعی لقب نہیں:
Kafir is an individual character rather than a group title of a certain race or community.
کافر وہ ہے جو منکر ہو (One who refuses to accept) ۔قرآن کے اُردو ترجموں میں سب سے زیادہ صحیح ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی کا مانا جاتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے ترجمۂ قرآن میں کافر کا ترجمہ منکر کے لفظ سے کیا ہے۔ یہی اس لفظ کا صحیح ترجمہ ہے۔ قرآن کے انگریزی مترجمین اکثر کافر کا ترجمہ اَن بلیور(unbeliever) کے لفظ سے کرتے ہیں۔ یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ اَن بلیور کا مطلب غیرمومن یا غیر معتقد ہوتاہے۔ جب کہ کافر کا مطلب صرف غیر معتقد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اتمام حجت کے باوجود ماننے سے انکار کرے۔
دور اوّل میں جب قرآن کی ابتدائی آیتیں اتریں تو ان میں پیغمبر کے مخاطبین کو کافر نہیں کہا گیا بلکہ ان کے لیے انسان جیسے الفاظ استعمال ہوئے۔ مثلاً قرآن میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا کہ: یا ایہا الرسول بلغ ما أنزل الیک من ربک…واللہ یعصمک من الناس۔اس آیتمیں دیکھئے۔ یہاں یعصمک من الناس(خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا) کے الفاظ آئے ہیں۔ایسا نہیںہوا کہ یہاں یعصمک من الکفار کا لفظ استعمال کیا جائے۔ قرآن میں کثرت سے اس طرح کی آیتیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ ہر گروہ کے لیے اصلاً انسان جیسا عمومی لفظ استعمال کیا جائے گا۔ کافر کا لفظ صرف ان افراد تک مخصوص رہے گا جن کے لیے خدا نے خود کافر کا لفظ استعمال کیا ہو۔ کافر کا لفظ ایک خدائی اعلان ہے، وہ انسان کا دیا ہوا خطاب نہیں۔
فعل اور فاعل کا فرق
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۹کی پہلی آیت یہ ہے: قل یاایہا الکافرون (الکافرون ۱) اس آیت میںالکافرون سے مراد قدیم مکّہ کے منکرین قریش ہیں۔ ان الفاظ میں قریش کے منکرین کے بارہ میں اتمام حجت کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ تم لوگ اللہ کی نظر میںکافر ہوچکے ہو۔ قرآن میںاس طرح تعین اور تشخص کی زبان میں کسی اور گروہ کے کافر ہونے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
قرآن میں دوسرے مقامات پر کفر اور کافر کے الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً فرمایا: فمنکم کافر ومنکم مومن(التغابن ۲)اسی طرح ارشاد ہوا ہے: فمنہم من آمن و منہم من کفر (البقرہ ۲۵۳) ان دوسری قسم کی آیتوں میںفعل کا ذکر ہے مگر مشخّص طورپر فاعل کا ذکر نہیں۔ یعنی یہ تو کہا گیاہے کہ فلاں فعل کا ارتکاب کفر ہے یافلاں فعل کا ارتکاب کرنے والا خدا کی نظر میں کافر بن جاتاہے۔ مگر ان دوسری قسم کی آیتوں میں ایسا نہیں کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کو مشخص اور متعین کرکے اُس کے بارہ میں یہ اعلان کیا جائے کہ فلاں فلاں گروہ کافر ہیں۔
قرآنی بیان میں اس فرق سے ایک اصول معلوم ہوتا ہے اور وہ اُصول یہ ہے کہ یہ کہنے کا حق ہر داعی کو ہے کہ فلاںفعل کا ارتکاب کفر ہے۔ مگر یہ حق کسی بھی داعی یا عالم کو نہیںکہ وہ مشخّص طورپر یہ اعلان کرے کہ فلاں گروہ یا فلاں قوم کافر ہے۔
ایک متوازی مثال سے اس معاملہ کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ : من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر۔ دوسری حدیث میںیہ الفاظ ہیں کہ بین العبد و بین الکفر ترک الصلاۃ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کرمسلسل نماز ترک کرے تو وہ شریعت کے مطابق، کافر ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کو لے کر کوئی مصلح اگر یہ کرے کہ وہ عمومی طور پر ترغیب و ترہیب کے انداز میں مسلمانوں کو نماز کی طرف متوجہ کرے اور ترک صلاۃکی وعید بتائے تو اُس کا ایسا کرنا بالکل جائز ہوگا۔ لیکن اگر کوئی مصلح ایسا کرے کہ وہ نماز نہ پڑھنے والے مسلمانوں کی نام بنام ایک فہرست تیار کرے اور اس فہرست کو لے کر مشخّص طورپر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں مسلمان ترک صلاۃ کی بناپرکافر ہو چکے ہیںتو اُس کا ایساکرنا بالکل غلط ہوگا۔
ٹھیک اسی طرح کوئی داعی یا مصلح قرآن کی آیتوں کو لے کر یہ مسئلہ بیان کرسکتا ہے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کا ارتکاب کرنے سے کوئی شخص اللہ کی نظر میں کافر ہو جاتا ہے۔ لیکن اُس کا ایسا کرنا اپنی حد سے تجاوز ہوگا کہ وہ غیر مسلم افراد یا گروہوں کے نام لے کر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں غیر مسلم لوگ کافرہیں۔
اس معاملہ میں فعل اور فاعل کے درمیان فرق کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کہ وہ مشخّص طورپر فاعل کا اعلان کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان صرف ایک بار قدیم منکرینِ قریش کے بارہ میں کیا ہے جن کے اوپر پیغمبر نے براہ راست اتمام حجت کیا تھا۔ بقیہ انسانوں کے بارہ میں وہ آخرت میں اعلان فرمائے گا۔ ہمارا کام صرف دعوت دینا ہے، نہ کہ لوگوں کے کافر ہونے کا اعلان کرنا۔
کریڈٹ کا مسئلہ
کافر یا منکر کا لفظ بیک وقت دو کردار سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک وہ جس نے کوئی بات پیش کی ہو۔ دوسرا وہ جس نے اس پیش کی ہوئی بات کا انکار کیا ہو۔ ان میں سے ایک کردار کو داعی کہہ سکتے ہیںدوسرے کردار کو مدعو کہہ سکتے ہیں۔
کافر ایک کردار ہے، کافر کسی گروہ کا قومی لقب نہیں۔ کسی گروہ کا کافر قرار پانا ایک بے حد غیرمعمولی واقعہ ہے۔ اس کا مطلب ایک کو انکار کی بنا پر ڈس کریڈٹ (discredit)کرنا اور دوسرے کو اس کے دعوتی عمل کی بنا پر کریڈٹ دینا ہے۔ کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ کا یہ معاملہ فتویٰ یا بیان کے ذریعہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ دعوتی محنت کا طالب ہے۔
اس دعوتی محنت کا معیار ی نمونہ پیغمبر اسلام کا تیرہ سالہ مکی دور ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ کے لوگوں میں دعوتی کام کا آغاز کیا تو آپ کے خطاب کے الفاظ یہ تھے: یا ایہا الانسان۔ اس طرح تیرہ سال لوگوں کو بحیثیت انسان خطاب کرنے کے بعد جب لوگ جان بوجھ کر انکار پر قائم رہے تو آخر میں قرآن کی یہ آیت اتری: قل یا ایہا الکافرون۔اُس وقت بھی یہ ایک براہِ راست خدائی اعلان تھا، نہ کہ خود پیغمبر کا اپنا خطاب۔
اس اصول کے مطابق، ہندستان کے ہندو یا دوسرے ملکوں کے غیر مسلم کی حیثیت اسلامی نقطۂ نظر سے صرف انسان کی ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی کافریا کفار نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ ہندوؤں اور موجودہ زمانہ کے دوسرے غیر مسلموں پر یہ ضروری شرط پوری نہیں ہوئی کہ انہیں مکّی معیار کی تیرہ سالہ دعوت دی جائے اور وہ پھر بھی انکار کریں۔ اسی طرح اُنہیں منکر قرار دینا بھی درست نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو نزاعات ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے بارے میں جو شکایتیں ہیں وہ سب کی سب قومی اور مادی ہیں۔ یہ تمام تر اسی طرح کے دنیاوی جھگڑے ہیں جو خود غیر مسلم گروہوں میں ایک دوسرے کے خلاف پیش آتے ہیں۔ اِن نزاعات کو کافر اور مسلم کے درمیان دینی نزاع نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کودو گروہوں کے درمیان دنیوی نزاع کہا جائے گا۔ ان قوموں پر اتمام حجت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان اُن سے ان دنیوی جھگڑوں کو یک طرفہ طورپر ختم کر دیں۔
کفر کا تحقق
کسی شخص کے بارے میں کب یہ متحقق (establish) ہوگا کہ وہ منکر یا انکار کرنے والا بن چکا ہے۔ اس سوال کا جواب خود قرآن میںموجود ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، قرآن کے نزول کا آغاز ۶۱۰ء میں مکہ میںہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے ذریعہ مکہ کے لوگوں تک توحید کی دعوت پہنچاتے رہے۔ اس دعوتی مہم میں آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اپنے مخاطبین کو کافر کہہ کر خطاب کریں۔اس دوران میںجو آیتیں اتریں ان سب میں انسان جیسے الفاظ تھے۔ آپ نے انہیں اپنی قوم کا حصہ قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا پیغام پہنچایا۔
دعوت کی یہ مہم آپ نے اس طرح چلائی کہ آپ گہرے طورپر ان کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ نے ان کی ایذاؤں پر یکطرفہ صبر کیا۔ آپ نے ان سے کسی بھی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ آپ نے ان سے کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے آپ کے اور ان کے درمیان مادّی نوعیت کی کوئی نزاع قائم ہو جائے۔ آپ یک طرفہ طورپر ہمیشہ اُن کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ کو ان کی طرف سے طرح طرح کی مصیبتیں پہنچیں مگر آپ ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتے رہے۔
دعوت کی یہ صبرآزما جدوجہد تیرہ سال تک چلتی رہی۔ تیرہ سال کے بعد بھی پیغمبر اسلام نے اپنی زبان سے ان کے لیے کبھی کافر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت اتری کہ : قل یا ایہا الکفرون (تم کہہ دو کہ اے انکار کرنے والو) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سال کی جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ مخاطبین کا انکار ثابت ہو جائے اور ان کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اے انکار کرنے والو۔ اس قسم کے دعوتی کورس سے پہلے کسی کو منکر یا کافر قرار دینا جائز نہیں۔اب جب کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سالہ جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ کسی کو کافر یا منکر قرار دیا جاسکے تو عام لوگوں کے لیے تو ایک سو تیرہ سال کی مدت بھی اس کام کے لیے ناکافی ہوگی۔
کفر کی اصطلاح
مکّی دور میں قرآن میں بعض ایسی آیتیں اُتریں جن کاتعلق بیرون عرب کے غیرمسلموں سے تھا۔ مثلاً قرآن کی سورہ نمبر ۳۰ کے آغاز میں رومیوں (عیسائیوں) کا ذکر ہے جو وقتی طورپر ایرانیوں سے مغلوب ہوگئے تھے۔ مگر آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ غلبت الکفار فی ادنی الارض (روم کے کفار جو مغلوب ہوگئے ہیں) بلکہ یہ فرمایا کہ غلبت الروم فی ادنی الارض (رومی جومغلوب ہوگئے ہیں)۔ اسی طرح سورہ نمبر ۱۰۵ میں یمن کے غیر مسلم حاکم ابرہہ کا ذکر ہے۔ مگر قرآن میں اُس کا ذکر یمن کے ایک کافر حکمراں کے طورپر نہیں کیا گیا بلکہ اصحابِ فیل کے لفظ سے اُس کا ذکر کیا گیا۔
قدیم مکّہ کے منکرین کے لیے قرآن میں کفر اورکافر کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا کہ اس کے بعد اُس زمانہ کے اہل اسلام تمام غیر مسلموں کو کافر کے لفظ سے پکارنے لگیں۔ مثلاً ہجرت کے بعد رسول اور آپ کے اصحاب مدینہ آئے تو انہوں نے یہاںکے لوگوں کو کافر کے لفظ سے خطاب نہیںکیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یثرب پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو جو پہلا خطاب کیا اس میںآپ نے انہیں اے لوگو(ایہا الناس، اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) کے لفظ سے خطاب کیا۔اسی طرح مدینہ کے باہر ملک کے اطراف میں بہت سے غیرمسلم قبیلے موجود تھے۔ مگر اُن کو بھی کافرانِ عرب یا کافر قبائل کا نام نہیں دیا گیا۔ بلکہ اُن کے معروف نام سے اُنہیں پکارا گیا۔ مثلاً اہلِ سقیف، اہل نجران، اہل بحرین، وغیرہ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دور اول میں اہل اسلام جب عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف مذہب کے ماننے والے لوگ آباد تھے۔ دو راول کے مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا کہ ان غیر مسلموں کو کافر کے نام سے پکاریں۔ اُنہوں نے ہر ایک کو اُس کے اپنے اختیار کردہ نام سے پکارا۔ مثلاً شام کے مسیحیوں کو مسیحی کہا، فلسطین کے یہودیوں کو یہودی کہا، ایران کے مجوسیوں کو مجوسی کہا، افغانستان کے بودھوں کو بودھ (بوذا) کہا، وغیرہ۔
اسی طرح دور اول کے یہ مسلمان جب ہندستان آئے تو یہاں بھی اُنہوں نے یہی کیا۔ اُنہوں نے یہاں کے لوگوں کو ہندو کہا جو سندھو کا عربی تلفظ ہے۔ ابو الریحان البیرونی (وفات ۱۰۴۸ء) نے ہندستان کا سفر کیا۔ اُس نے سنسکرت زبان سیکھی اور ہندستان کے بارہ میں ایک عربی کتاب تاریخ الہند لکھی۔ اُس میں وہ یہاں کے غیر مسلموں کو ہندو کہتا ہے، نہ کہ کافرانِ ہند۔
ہزا ر سال سے زیادہ مدت تک یہی رواج باقی رہا۔ اب بھی کثرت سے ہندستان اور پاکستان کے علاوہ بقیہ دنیا میں یہی رواج بالفعل قائم ہے۔ مسلمان امریکا اور یورپ کے مختلف ملکوں میں آباد ہیں۔ وہاں اُن کا سابقہ غیر مسلم قوموں سے پڑتا ہے۔ مگر ہر ایک کو وہ اُن کے اپنے اختیار کردہ نام سے پکارتے ہیں، وہ اُنہیں کافر یا کفار نہیں کہتے۔
چند تاریخی مثالیں
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، قرآن میں ایہا الکافرون کے انداز میں خطاب کی مثال صرف منکرین مکّہ کے لیے آئی ہے اور وہ بھی تیرہ سال کے پیغمبرانہ اتمام حجت کے بعد۔ منکرین مکہ کے سوا کسی اور کو اس طرح مشخّص انداز میں خطاب نہیں کیا گیا۔
پیغمبر اسلام ﷺنے جب مکہ میں دعوت کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں آپ نے اس طرح خطاب نہیں کیا کہ یا ایہا الکفار۔ بلکہ قرآن میں یہ آیت اُتری:یا ایہاالانسان ما غرّک بربک الکریم۔ ہجرت کے بعد صحیفۂ مدینہ کا ایک جملہ یہ تھا: للیہود دینہم و للمسلمین دینہم۔ ایسا نہیں ہوا کہ یہ لکھا جائے کہ للکفار دینہم وللمسلمین دینہم۔ فتح مکہ کے بعد عرب کے مشرک قبائل کے وفود رسول اللہ سے گفت وشنید کے لیے مدینہ آئے۔ مگر یہاں بھی خطاب کا انداز یہی تھا: مثلاً یمن کے لوگ مدینہ آئے تو آپ نے فرمایا کہ: اتاکم اہل الیمن۔ اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اتاکم کفار الیمن۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺنے اطرافِ عرب کے حکمرانوں کو دعوتی مکاتیب روانہ کیے تو اُن کا انداز بھی یہی تھا۔ مثلاً آپ نے رومی حکمراں کو جو خط لکھا اُس کا پہلا جملہ یہ تھا: من محمد بن عبد اللہ الی ہرقل عظیم الروم۔ اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں لکھا کہ الی ہرقل کافر الروم۔ حجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ان اللہ بعثنی کافۃ للناس فادّوا عنی۔ اس میں بھی آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان اللہ بعثنی کافۃ للکفار۔ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں صحابہ کی فوج ایران میں داخل ہوئی تو روایات کے مطابق، وہاں ایران کے غیر مسلم حکمراں کوخطاب کرتے ہوئے ایک صحابی نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا: لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ۔ اُنہوں نے ایسا نہیں کیا کہ یہ کہیں کہ لنخرج الکفار من عبادۃ الکفار الی عبادۃ اللہ۔
اس طرح دور اوّل کے مسلمان جب عرب سے نکل کر بیرونی ملکوںمیں پھیلے تو کسی بھی ملک میں اُنہوں نے لوگوں کو کافر یا کفار کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا بلکہ ہر قوم کو اُسی لفظ سے خطاب کیا جس لفظ کو اُس نے خود اختیار کر رکھا تھا۔ مثلاً مسیحی کو مسیحی، یہود کو یہود، مجوس کو مجوس، بَودھ کو بَودھ، وغیرہ۔
کافر کا تحقق اُس وقت ہوتا ہے جب کہ متعلقہ شخص کے اوپر کامل اتمامِ حجت کیا جاچکا ہو اور اس اتمام حجت کا ماڈل صرف ایک ہے۔ اور وہ پیغمبر اسلام کے دور میں مکّہ کی تیرہ سالہ دعوتی جدو جہد ہے۔ یہ تیرہ سالہ دعوتی عمل ہمیشہ کے لیے دعوت یا اتمام حجت کے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔مزید یہ کہ اتمامِ حجت کے بعد بھی متعین طورپر کسی کے کافر ہونے کا اعلان خدا کی طرف سے ہوگا، نہ کہ داعی کی طرف سے۔
قریش کی مثال
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سال پیدائش ۵۷۰ میں ایک بڑا واقعہ ہوا۔ یمن کے عیسائی حاکم ابرہہ نے ایک بڑی فوج کے ساتھ مکہ کی طرف اقدام کیا۔ اُس کا ارادہ تھا کہ وہ کعبہ کو ڈھادے۔ مگر اللہ کی خصوصی مدد کی بنا پر اُسے کامیابی نہیںملی۔ قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۵ میں اس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
۶۱۰ء میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو نزولِ قرآن کے اس ابتدائی زمانہ میں قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۶ اُتری۔ اس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: اس واسطے کہ قریش مانوس ہوئے، جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس۔ تو اُن کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے اُن کو بھوک میںکھانا دیا اور خوف سے اُن کو امن دیا۔ (قریش ۱۔۴)اس سورہ میں قریش کو صرف قریش کہاگیا، نہ کہ کفار یا کفارِ قریش۔
پیغمبر اسلام توحید کے داعی تھے۔ آپ نے مکّہ میںاپنی دعوت شروع کی تو مسلسل تیرہ سال تک اسی انداز میں لوگوں کو پکارتے رہے کہ اے قریش کے لوگو، اے انسانو، ائے میری قوم ۔ پُر امن دعوتی مہم کی اس پوری مدت میں آپ نے کبھی کافر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ فریقِ ثانی کی طرف سے ہر قسم کی زیادتیاں کی گئیں۔ لیکن اُن کے لیے آپ کی خیر خواہی کا جذبہ ختم نہیں ہوا۔ اُن کی ایذاؤں پر یک طرفہ صبر کرتے ہوئے آپ نے اپنی پُر امن دعوتی جدوجہد جاری رکھی۔ آخر کار تیرہ سال بعد قرآن میں سورہ نمبر ۱۰۹ اتری۔ اس میں پہلی بار خدا کی طرف سے ان الفاظ میں اعلان کیا گیا کہ: قل یٰایّہا الکفرون(کہہ دو کہ ائے انکار کرنے والو)
اس سے معلوم ہوا کہ کافر (منکر) کا لفظ ایک صفت کو بتاتا ہے، نہ کہ کسی قوم کو۔ اگر کافر سے مراد کوئی قوم ہوتی تو قرآن میں آیت کے الفاظ لایلٰف قریش کے بجائے لِایلٰف الکفار ہونا چاہئے تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کافر کا لفظ صفتِ انکار کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ قومی تعلق کوبتانے کے لیے۔ مزید یہ کہ اس بات کا تحقق کہ کسی کے اندر صفت انکار ہے یا نہیں، قیاس کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ حقیقی تجربہ کی بنیادپر ہوگا۔ اور وہ تجربہ یہ ہے کہ پیغمبر کی سطح پر کم ازکم تیرہ سال تک اعلیٰ ترین معیار کی دعوتی جدو جہد چلائی جائے۔اس کے بغیر خود پیغمبر کے زمانہ میں بھی کسی کو کافر کہنا درست نہیں۔
مناظرہ
بر صغیر ہند میں برٹش حکومت کے زمانہ میںاہل اسلام کے درمیان ایک مبتدعانہ رواج ظہورمیں آیا جس کو مناظرہ کہا جاتاہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دعوت کے بجائے مناظرہ بازی شروع ہوئی جس نے دونوں فرقوں کے درمیان غیر معتدل فضا پیدا کرنے کا کام کیا۔ مسلمان مناظر نے ہندو کے خلاف کتاب لکھی اور اُس کو ’کفر توڑ‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس کے بعد ہندو مناظر نے مسلمانوں کے خلاف کتاب لکھی جو ’کفر توڑکا بھانڈہ پھوڑ‘ کے نام سے شائع کی گئی۔
اسلام کاطریقہ دعوت ہے جو نصح (خیر خواہی) اور شفقت اور یک طرفہ صبر کے اُصول پر جاری ہوتا ہے۔ جب کہ مناظرہ (debate) کا مقصد فریقِ ثانی کو شکست دینا ہوتا ہے۔ مناظر کا نشانہ فریق ثانی کو ہرانا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس قسم کی زبان بولتا ہے کہ اُن کے اوپر بلڈوزر چلا دو:
Bulldoze them all.
اس سے دونوں گروہوں کے درمیان نفرت اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے جو طرح طرح کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
دار الدعوہ
دار الکفر یا بلاد الکفارکے الفاظ عباسی دور میں استعمال کیے گیے۔اس سے پہلے یہ اصطلاحیں اہل اسلام کے درمیان رائج نہ تھیں۔ میرے نزدیک یہ اضافہ درست نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ جو ملک اسلامی ملک ہواُس کو دارالاسلام کہا جائے اور بقیہ تمام ملکوں کو دار الدعوہ کہا جائے۔ دار الاسلام کے سوا ہر ملک دار الدعوہ ہے، خواہ وہ مسلمانوں کے حق میں بظاہر دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
قرآن میں پیغمبر اسلام کی نسبت سے ارشاد ہوا ہے: وہذا کتاب انزلنہ مبرک مصدق الذی بین یدیہ ولتنذر ام القری ومن حولہا (الانعام ۹۳)- یعنی یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے اُتاری ہے، برکت والی ہے، تصدیق کرنے والی اُن کی جو اس سے پہلے ہیں۔ اور تاکہ توڈرائے اُم القری کو اور اُس کے آس پاس والوں کو۔
قرآن کی اس آیت میں ام القری سے مراد مکہ ہے۔ جب یہ آیت اُتری، اُس وقت مکّہ غیر مسلموں کے قبضہ میں تھا۔ حتیٰ کہ کعبہ کو بتوںکا مرکزبنا دیاگیا تھا۔ مگر اس آیت میں قدیم مکّہ کو دار الکفر یا مدینۃ الکفرنہیںکہا گیا بلکہ أم القریٰ کہا گیا اور وہاں انذار، بالفاظ دیگر، دعوت کاحکم دیاگیا۔ اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ وہ تمام مقامات جہاں غیر مسلموں کا غلبہ ہو وہ اسلامی اصطلاح میں دار الدعوہیا دارالانذار قرار پائیں گے۔ ایسے کسی بھی مقام کے لیے دار الکفر یا بلاد الکفار جیسے الفاظ کا استعمال درست نہ ہوگا۔
کسی ملک کا حوالہ جب جغرافی اعتبار سے دینا ہو تو اُس کا ذکر اُس نام سے کیا جائے گا جس نام سے وہ عمومی طورپر معروف ہے۔ مثلاً سری لنکا کو سری لنکا اور جنوبی کوریا کو جنوبی کوریا۔ اور جب اہلِ اسلام کی ذمہ داری کے اعتبار سے کسی ملک کا حوالہ دینا ہو تو اُس کو دار الدعوہ کہا جائے گا۔ دار الدعوہ کا لفظ جغرافی تقسیم کو نہیں بتاتا بلکہ وہ اہلِ اسلام کی دعوتی ذمہ داری کو بتاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم جناب ہارون شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کل شام کو جناب عبد السلام اکبانی صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ جنوبی کوریا سے ۱۷ اگست کو آتے ہوئے میں ممبئی کے راستہ سے واپس ہوسکتا تھا۔ اس طرح مجھے آپ کی والدہ محترمہ کی آخری رسوم میںشریک ہونے کی سعادت مل جاتی۔ مگر شاید ایسا ہونا مقدر نہ تھا۔
اسلام کی ایک عجیب تعلیم دعا ہے۔ دعا کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اگر عملی اعتبار سے کوتاہی ہوجائے تو انسان کو چاہئے کہ وہ اُس کے حق میں نیک دعائیں کرے۔ میں دعا کے ساتھ آپ کے جذبات میں شریک ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ اُن کے ساتھ ہمارے لیے بھی جنت میں داخلہ کی صورت پیدا فرمائے۔
ماں بلاشبہہ ہر مرد وعورت کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر غالباً ماں کی سب سے زیادہ انوکھی اور امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ انسان کے لیے رحمتِ خداوندی کا ایک عملی تعارف ہے۔ خدا تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحیم ہے۔ عام حالات میں یہ ایک نظری عقیدہ ہے مگر ماں کی صورت میں خدا نے اپنی اس صفت کو پیشگی طورپر دکھا دیا ہے۔ ماں کی شفقت اور محبت میں ہر بندۂ خداکے لیے اس امید کا سامان موجود ہے کہ اُس کا خدا اُس کے ساتھ یک طرفہ طورپر رحمت کا معاملہ فرمائے گا، جیسا کہ ماں ہر حال میں اپنی اولاد کے ساتھ یک طرفہ طورپر رحمت کا معاملہ کرتی ہے۔
ماں کی وفات عام طورپر اس وقت ہوتی ہے جب کہ اس کی اولاد ابھی دنیا میں زندہ رہتی ہے۔ ماں کی وفات کا یہ پہلو اپنے اندر ایک اور اہم نصیحت رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ ماں دنیا سے رخصت ہو کر اپنے پس ماندگان کو بتاتی ہے کہ اسی طرح تمہیں بھی رخصت ہونا ہے۔ ماں اپنی عمر پوری کرکے یہ پیغام دیتی ہے کہ اے زندہ رہنے والو، یاد رکھو کہ تمہارا بھی کاؤنٹ ڈاؤن ہورہا ہے۔ اس طرح تمہیں بھی ایک دن اپنی موت سے دوچار ہونا ہے۔
یہ یاددہانی کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ سوتے ہوئے انسان کو جگانے کے ہم معنٰی ہے۔ یہ غیرمتحرک لوگوں کو حرکت میں لانے کا ذریعہ ہے۔ یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اے لوگو، اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ بھر پور طورپر استعمال کرو، اس سے پہلے کہ اپنے وقت کو استعمال کرنے کا موقع ہی ختم ہوجائے۔
قرآن کے مطابق، موت ہر پیدا ہونے والے کے لیے مقدر ہے۔ موت بلا شبہہ ہر انسان کے لیے سب سے بڑا حادثہ ہے۔ مگر خدا نے حیرت انگیز طورپر اس کو ہمارے لیے رحمت کا سبب بنا دیا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب موت کا تجربہ پیش آئے تو پسماندگان کو چاہئے کہ وہ صبر کا طریقہ اختیار کریں۔ صبر کرنے والوں کے لیے عظیم انعام کی بشارت ہے۔
اس طرح کے معاملہ میں صبر کرنا کیوں خدائی انعام کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ صبر در اصل خدا کے فیصلہ پر راضی ہونے کے ہم معنٰی ہے۔ بلاشبہہ کسی بندہ کے لیے یہ سب سے بڑی سعادت ہے کہ خدا اُس کے لیے ایک ناپسندیدہ چیز کا فیصلہ کرے اور وہ اُس کو خدا کی طرف سے سمجھ کر اُس پر دل سے راضی ہوجائے۔ اس قسم کی موت اپنے پسماندگان کے لیے اسی عظیم خدائی انعام کا ذریعہ ہے۔
یہ بھی خدا کی ایک عجیب رحمت ہے کہ جانے والا تو چلا گیا۔ اُس کو اپنے مقرر وقت پر جانا ہی تھا۔ مگر اس واقعہ میں خدا نے اپنی رحمت سے یہ ناقابلِ بیان حد تک قیمتی پہلو رکھ دیا کہ پسماندگان اگر اُس کو خدائی فیصلہ سمجھ کر اُس پر راضی ہوجائیں تو خدا اُن کی اس رضا مندی کی اس طرح قدر دانی کرے گا کہ جو چیز اُنہوں نے کھوئی ہے وہ مزید اضافہ کے ساتھ اُنہیں واپس مل جائے۔
موت کا واقعہ بظاہر ایک حادثہ ہے مگر اس دنیا میں ہر مائنس کے ساتھ پلس موجود ہوتا ہے۔ اور بلا شبہہ موت کا واقعہ اس عام قانون سے مستثنیٰ نہیں۔
نئی دہلی ۲۳ اگست ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۶۰

۱ ۱۰ فروری ۲۰۰۳ کو وگیان بھون (نئی دہلی) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کو بی جے پی کی یووا شاخ نے آرگنائز کیا تھا۔ اس کا موضوع تھا، ٹررزم۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور اسلام کے حوالہ سے بتایا کہ ٹررزم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ٹررزم انتہا پسندی کی ایک پیداوار ہے۔ وہ مذہب کی پیداوار نہیں۔
۲ ۱۰ فروری ۲۰۰۳ کو دور درشن کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ جدید دور میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام ابدی صداقتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے زمانہ میں خواہ کوئی بھی تبدیلی آئے اسلام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ وقتی مسائل میں اسلام نے انسان کوپوری رعایت دی ہے۔
۳ ۱۲ فروری ۲۰۰۳ کو نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انکسی ) میں ایک پروگرام ہوا۔ یہ ڈاکٹرمحمدیونس (مقیم کناڈا) کی کتاب Islam a Threat to Civilizations کے اجراء کے لیے تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں صدر کی حیثیت سے شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اسلام کسی بھی اعتبار سے تہذیب کے لیے یا انسانیت کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ اسلام دین رحمت ہے۔
۴ ۱۲ فروری ۲۰۰۳ کو اشوک ہوٹل (نئی دہلی) کے کنونشن ہال میں ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع تھا: What is Life ۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلامی نقطۂ نظر سے لائف کے سوال پر تقریر کی۔ لائف سائنسز کے بارہ میں انہوںنے کہا کہ انسانی علم اور تجربہ سے جو چیز حقیقی طورپر مفید ہو وہ اسلام میں بھی جائز قرار پائے گی۔
۵ راشٹریہ سہارا کے لیے ۱۲ جون ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا گیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی سیاسی جماعت بنانا ایک ناکام تجربہ کو دہرانے کے ہم معنٰی ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈروں نے مسلمانوں کی علیٰحدہ سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی مگر وہ سرتاسر ناکام رہی۔ اب مسلمانوں میںویسا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ایسی حالت میں اس قسم کی بات کہنا صرف اردو اخباروں کی ایک خبر ہے۔ اس سے زیادہ اس کی اور کوئی حقیقت نہیں۔ بنیادی کام مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانا ہے۔
۶ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۴ جون ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندستان میں مسلمانوں کا مستقبل ۵۷ مسلم ملکوں سے زیادہ روشن ہے۔ اس کا ایک اظہار یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا کاسب سے زیادہ دولت مند آدمی (عظیم ہاشم پریم جی)ہندستان میں ہے۔ پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد الکلام ہندستان میںہے، وغیرہ۔ اسلام کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ اسلام موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے میں ناکام ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں جو مسلم رہنما اٹھے وہ سب ردّ عمل کی نفسیات کا شکار تھے۔ انہوں نے ہر چیز کی تعبیر منفی انداز میں کی۔ اس بنا پر موجودہ مسلمانوں کی سوچ منفی ہو گئی۔ مثلاً انہوں نے جدید مغربی تہذیب کو زہر بتایا۔ انہوں نے سیکولرزم کو لادینیت کہا، انہوں نے ڈیماکریسی کو طاغوتی نظام بتایا۔انہوں نے وطنی قومیت کو ’’تازہ خدا‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے جدید انڈسٹر ی کو مسلم دشمن قوموں کا سازشی جال بتایا، وغیرہ۔ اس بنا پر مسلمان مثبت سوچ سے محروم ہوئے اور موجودہ دور کے جدید مواقع کو استعمال نہ کرسکے۔
۷ گڑگاؤں (ہریانہ) میں جنگلات کے درمیان کئی بڑے بڑے رزورٹ بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک واٹر بینک رزورٹ ہے۔ یہاں ۲۸۔۲۹ جون ۲۰۰۳ کو الرسالہ کے کچھ قارئین کا ایک تربیتی کیمپ کیا گیا۔ اس میں دہلی کے تقریباً دس افراد شریک ہوئے ۔ صدر اسلامی مرکزنے لوگوں کو تربیتی انداز میں دین کی حقیقت سمجھائی۔ اس کا آغاز کلمۂ شہادت کی اجتماعی ادائیگی سے ہوا۔ اس کے بعد مختلف مجلسوں میں ذکر، عبادت، توحید، نبوت، آخرت، تفکر و تدبر اور تزکیہ جیسے موضوعات پر تربیتی انداز میں وضاحت کی گئی۔ اس کے شرکاء سب کے سب انگریزی تعلیم یافتہ لوگ تھے۔
۸ نئی دہلی میں شکتی مٹھ (عقب قطب مینار) میں ایک فنکشن ہوا۔ یہ فنکشن کیلاش مان سروور یاترا کو رخصت کرنے کے لیے تھا۔اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے یکم جولائی ۲۰۰۳ کی شام کو اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ ہم سب کو اتحاد اور محبت کے ساتھ مل جُل کر رہنا چاہئے۔ اسی میں اپنی ترقی ہے اور اسی میں ملک کی ترقی بھی۔
۹ نئی دہلی کے اردو میگزین عالمی سہارا کے نمائندہ مسٹر فاروق نے ۲ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کی بابری مسجد سے تھا۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ زیادہ گمبھیر ہوچکا ہے، وہ عام قانون کے تحت حل نہیں ہوسکتا۔ اب وہ قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت حل ہوگا۔ پہلا کام یہ ہے کہ حالات کے اعتبار سے قابلِ عمل فریم ورک دریافت کیا جائے۔
۱۰ ۶؍جولائی ۲۰۰۳ کو انٹگری ٹی وی (Integri TV) کے ڈائرکٹر سویساچی جین (Savyasaachi Jain) اپنی T.V. ٹیم کے ساتھ دفتر میں آئے اور صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ اس کاموضوع مذہب اور روحانیت تھا۔ یہ ویڈیو انٹرویو دور درشن (نئی دہلی) کے لیے ریکارڈ کیا گیا۔ مذہب اور روحانیت کے ہر پہلو پر اظہار خیال کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو انتہا پسند لیڈروں نے اپنی غلط رہنمائی سے انہیں ترقی کے راستہ سے ہٹادیا ہے۔ تاہم اب مسلمان ان لیڈروں کو چھوڑ کر اسلام کی سچی تعلیمات کی طرف آرہے ہیں۔
۱۱ دور درشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۷ جولائی ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس میں نئی دہلی کے چار ممتاز افراد شریک تھے۔ یہ انگریزی میں تھا اور اس کا موضوع تھا ڈائیلاگ امنگ سویلائزیشن (Dialogue among Civilizations) اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ دور جدید میں ترقی کی ایک دوڑ شروع ہوئی۔ اس میں کچھ قومیں آگے بڑھ گئیں اور کچھ قومیں آگے نہ بڑھ سکیں۔ یہ کلیش کامسئلہ نہیں ہے بلکہ پچھڑے پن کا مسئلہ ہے۔ جو لوگ شکایت کرتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ اس کے بجائے وہ اپنے پچھڑے پن کو دور کریں۔
۱۲ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ جتندر شرما نے ۱۹ جولائی ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ہنٹنگٹن کی کتاب تہذیبوں کا تصادم (Clash of Civilizations) سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ کتاب کوئی علمی کتاب نہیں۔ وہ سنسنی خیز صحافت کا ایک نمونہ ہے۔ اس قسم کی کتابیں زیادہ تر تجارتی نقطۂ نظر سے لکھی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد نہ اصلاح ہوتا ہے اور نہ واقعات کا بیان۔
۱۳ ماہنامہ طوبیٰ (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ظلّ الرحمن نے ۲۳ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے ساتھ ماہنامہ طوبیٰ کے ایڈیٹر مولانا محمد ارشد المدنی بھی موجود تھے۔ یہ ایک تفصیلی سوالنامہ کا جواب تھا جس کاتعلق زیادہ تر مسلمانان عالم کے جدید مسائل سے تھا۔ یہ انٹرویو طوبیٰ کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۳ میں چھپ چکا ہے۔
۱۴ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کے نمائندہ موہوا چٹر جی(Mohua Chatterjee) اور آنندبازار پتریکا کی نمائندہ جینتا گھوشل (Jayanta Ghosal) نے مشترک طور پر ۲۴ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کاتعلق زیادہ تر بابری مسجد او ر اجودھیا کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ گفت و شنید کے ذریعہ طے نہیں ہوسکتا۔ اس کو طے کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس کے بارے میں واضح فیصلہ دے۔ پلیسز آف ورشپ ایکٹ۱۹۹۱ میں یہ کہا گیا تھا کہ انڈیا کی تمام مسجدوں کو ان کی ۱۹۴۷ کی حالت پر برقرار رکھا جائے گا، ماسوا بابری مسجد۔ بابری مسجد کا معاملہ کورٹ کے فیصلہ سے طے ہوگا۔ بتایا گیا کہ اس معاملہ میں دو بنیادی نکات ہیں۔ اول یہ کہ گورنمنٹ اس بات کی باقاعدہ یقین دہانی کرائے کہ دوسری کسی بھی مسجد کو چھیڑا نہیں جائے گا اور یہ کہ بابری مسجد کا مسئلہ کور ٹ کے ذریعہ طے ہوگا۔ اس معاملہ کے حل کا یہی واحد عملی طریقہ ہے۔یہ انٹرویو ٹائمس آف انڈیا کے شمارہ ۲۵ جولائی ۲۰۰۳ میں صفحہ ۷ پر شائع ہوا ہے۔
۱۵ ای ٹی وی (Enadu TV) کی ٹیم نے ۲۵ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ کامن سول کوڈ ایک غیر عملی نظریہ ہے۔ اس پر قانون سازی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قانون سازی کے بعد بھی موجودہ صورت حال عملاً اُسی طرح باقی رہے گی جس طرح بہت سے دوسرے معاملات میں قانون سازی کے بعد بھی باقی ہے۔ مثلاً جہیز کے خلاف ایکٹ اور سول میریج ایکٹ، وغیرہ۔
۱۶ گجراتی روزنامہ دیبیہ بھاسکر کے نامہ نگار مسٹر پرمود کمار نے ۳ اگست ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ کے مسئلہ سے تھا۔ جواب میںبتایا گیا کہ یہ ایک غیر فطری چیز ہے اور غیر دستوری بھی۔ کامن سول کوڈ پر عملاً اس سے پہلے قانون بن چکا ہے۔ یہ سِول میریج ایکٹ ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ سول میریج ایکٹ باقاعدہ قانون بننے کے باوجود ایک فیصد بھی عملاً رائج نہیں۔ پھر ایک اور قانون بنانے سے کیا فائدہ۔ یہ قانون بہرحال دستور کے تحت ہوگا اور دستور کے مطابق کامن سول کوڈ کو جبری طور پر لازم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا قانون بنے تو وہ سپریم کورٹ میں رد ہوجائے گا۔
۱۷ ہندی روزنامہ ویر ارجن (نئی دہلی) کے نمائندہ نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ کے مسئلہ سے تھا۔ یہ انٹرویو ویر ارجن کے شمارہ ۴ اگست ۲۰۰۳ کے صفحہ ۵ پر شائع ہوا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ کامن سول کوڈ کا نفاذ عملاً ممکن نہیں۔ ایسے مسئلہ پر قانون سازی کرنا جس کا نفاذ عملی طور پر ممکن نہ ہو وہ صرف قانون کا احترام ختم کرتا ہے۔ اس طرح کی قانون سازی ہندستان میںبار بار کی گئی ہے اور اس کا نتیجہ یہی ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کا احترام ختم ہوگیا ہے۔ مثال کے طورپر جہیز کے خلاف کئی قوانین بنائے گئے مگر وہ ایک فیصد بھی نافذ نہ ہوسکے۔ لوگ شادیوں میں نہایت اطمینان کے ساتھ بڑھ چڑھ کر جہیز دیتے ہیں جیسے کہ وہ سرے سے قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں۔
۱۸ پاکستان کا ایک خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:’’ ہم لوگ ایک عرصہ سے الرسالہ (بتوسُّط ’’تذکیر‘‘ لاہور) کے قاری ہیں۔ آپ کی فکر انگیز تحریروں نے ہمیں کامیابی اور پیش رفت کے حقیقی گُر ’’اِعراض‘‘ سے واقف کرایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لومۂ لائم سے بے پروا ہو کر سچ لکھنے پر اجر سے نوازیں۔ ہم قریب پانچ سال تک ’’تذکیر‘‘ لاہور (طابع و ناشر : محمد احسان صاحب تہامی) کے تیس پرچے منگواتے تھے، اب اِن شاء اللہ تعالیٰ ماہِ آئندہ مئی ۲۰۰۳ ء سے پچاس پرچے منگوانے لگیں گے۔ ہم سب لوگ آپ کے طرزِ فکر و تجزیہ کے مدّاح ہیں اور ایک دوسرے کی دست گیری کرکے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنے میں لگے ہیں۔ آپ کی گراں قدر کتابوں سے ہماری سوچ کی بہت اصلاح ہوئی ہے۔ آپ کی تازہ کتاب ’’دین و شریعت‘‘ تو ایک عہد ساز کتاب ہے‘‘۔ (محمد امتیاز اور احباب، راولپنڈی)
واپس اوپر جائیں