Pages

Monday 1 February 2021

Al Risala | Februay 2021 (الرسالہ،فروری)

4

-قرآن کی دریافت

23

- قرآن اور بائبل

24

- ایک خط

26

- خواتین میں دعوت

28

- مقصد کی تلاش


قرآن کی دریافت

میری تاریخ پیدائش یکم جنوری 1925 ہے۔ میری باقاعدہ تعلیم ایک عربی مدرسہ میں ہوئی۔ اس مدرسے کے نصاب میں قرآن ایک مرکزی کتاب کی حیثیت سے شامل تھا۔مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میں نے چاہا کہ قرآن کا مزید تفصیلی مطالعہ کروں۔ اس وقت میں اعظم گڑھ میں رہتا تھا۔ وہاں کے ادارہ دار المصنفین میں ایک اچھا کتب خانہ تھا۔ اس کتب خانے میں تقریباً تمام عربی تفاسیر موجود تھیں۔ میں نے وہاں کے کتب خانے میں عربی تفاسیر کی مدد سے قرآن کا مزید مطالعہ شروع کیا۔ کئی برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس مطالعے سے میں نے جانا کہ قدیم عربی مفسرین کے نظریے کے مطابق، اہم اصول یہ ہے کہ آدمی ضروری فنون کے علاوہ قرآن کی آیتوں کا شان نزول یا سبب نزول جانے۔اس طرح قرآن فہمی کے لیے اہم بات شان نزول یا سبب نزول کا جاننا قرار پایا۔
قرآن فہمی کے لیے یہ شرط بظاہر نہایت اہم تھی۔ لیکن شعوری یا غیر شعوری طو رپر ہمیشہ میرے ذہن میں یہ خیال قائم رہا کہ شاید میں کوئی چیز مس (miss) کر رہا ہوں۔ جس کی وجہ سے قرآن کے زیادہ گہرے معانی تک پہنچنے میں میں کامیاب نہ ہوسکا۔ یہ بات میرے ذہن میں اس لیے آئی کہ قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں، جن میں زمین و آسمان کی آیات (نشانیوں) کا حوالہ ہے، اور یہ کہا گیا ہے کہ ان آیات پر غور کرو۔ مگر مجھے کوئی عربی کتاب ایسی نہیں ملی، جس میں صحیح طور پر زمین و آسمان کی آیتوں کا تدبر و تفکر پر مبنی تفسیری مطالعہ کیا گیا ہو۔ جب کہ قرآن میں متعدد ایسی آیتیں ہیں، جو قاری کو اس کائناتی مطالعہ کی طرف اہمیت کے ساتھ متوجہ کرتی ہیں۔اس سلسلے میں چند آیات کا ذکر آگے آرہا ہے۔
قرآن کا مطالعہ
قرآن معروف معنوں میں ایک مذہبی کتاب نہیں ہے،جس سے مذہبی رسوم (rituals) کی ادائیگی کا طریقہ معلوم کیا جائے۔ بلکہ وہ ایک ایسی کتاب ہے، جس میں پوری انسانی زندگی کے لیے فکری اعتبار سےرہنما تعلیمات دی گئی ہیں۔قرآن کا انداز عام انسانی کتابوں سے مختلف ہے۔ عام انسانی کتابوں کے لیے ریڈنگ (reading) کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن قرآن کے لیے یہ کرنا ہے کہ اس کا مطالعہ کرنے والا تذَکُّر وتدبر (ص،38:29) کا طریقہ اختیار کرے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن اپنے اسلوب کے اعتبار سے ربانی حکمت کا مجموعہ (collection of divine wisdom) ہے۔ قرآن میں بیان کردہ حقائق کو سمجھنے کے لیے اسی اصول کو اختیار کرنا چاہیے۔
فکری سفر
قرآن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے : وَلاَ تَنْقَضِی عَجَائِبُہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906)۔ یعنی اس کے عجائب (معانی) کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ قرآن کے معانی کے مختلف پہلو ہیں۔ اہل علم ان پر غور کرکے ہمیشہ اس کے نئے نئے پہلو دریافت کرتے رہیںگے ۔یہ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے۔ اگر قرآنی آیتوں کے صرف چند پہلو ہوتے تو قرآن ایک محدود کتاب بن جاتا۔ لیکن قرآن کی آیتوں کے لامحدود پہلو ہیں تو قرآن ایک ابدی کتاب بن گیا ہے، جیسا کہ اللہ رب العالمین کی ذات ایک ابدی ذات ہے۔
قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ قرآن کی آیتوں پر غور کرو۔ مثلاً: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن کی آیتوں میں یہ غور و فکر صرف فنی معنی میں نہیں ہے۔ یعنی یہ اس لیے نہیں ہے کہ قاری آیت کے الفاظ کو حل کرے، اس کے گریمر وغیرہ کو دریافت کرے۔ بلکہ وہ دراصل اس لیے ہے کہ قاری قرآن کی آیتوں میں چھپے ہوئے سبق (lesson) کو تدبر و تفکر کے ذریعے دریافت کرے۔
مثلاًقرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّہُ یُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّہَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ (29:20)۔ یعنی کہو کہ زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح خلق کو شروع کیا، پھر وہ اس کو دوبارہ اٹھائے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ قرآن کی اس آیت میں سفر سے مراد نتیجۂ سفر ہے، نہ کہ صورتِ سفر۔جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں ابومنصور الماتریدی نے لکھا ہے:زمین میں چلنے اوردیکھنے کے حکم کا مطلب جسمانی طور پر سفر کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے تخلیقات میں غور کرنا (أمر بإرسال الفکر فیہا)، مثلاً تخلیق کی ابتدا اورجو کچھ اس میں ہے، اس پر غور کرنا ،اور اس کا مطالعہ کرنا (تفسیر الماتریدی، جلد8، صفحہ 216)۔ مثلاً آپ نے ایک درخت کو دیکھا،اس سے آپ کا مائنڈ ٹریگر ہوا، آپ اس کے آغاز و انجام پر سوچنے لگے۔ آپ نے سوچا کہ زمین پر سوائل (soil) کیسے وجود میں آیا، زمین پر نباتات کی دنیا کیسے آباد ہوئی، انسان کی غذا اور دوسرے اسباب حیات کس طرح وجود میں آئے، وغیرہ۔ اس سوچ نے آپ کو نباتات (plant world) کی دنیا میں پہنچادیا۔پھر نباتات کے عالم کبیر (macro world)سے گزر کر آپ نباتا ت کے عالم صغیر (micro world)تک پہنچ گئے۔ نباتا ت کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام تک آپ نے ایک پوری دنیا کی سیر کرڈالی۔
کائنات کے اس فکری سفر کے ذریعے آپ نے بہت سے حقائق دریافت کیے۔آپ نے بہت سے چھپے، اور کھلے حقائق کو ازسر نو دریافت کیا، وغیرہ۔یہی وہ حقیقت ہے، جس کا حوالہ قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں دیا گیا ہے۔ یہی معرفت ہے۔ یعنی ان باتوںکو دریافت کرکے ان کو اپنے ذہن کی غذا بنانا۔یہی وہ چیز ہے، جس سے مومن کو معرفت کی غذا حاصل ہوتی ہے۔
قرآن عصر حاضر میں
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں نازل ہوا۔ لیکن قرآن کا خطاب قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں تک وسیع ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کی کچھ آیتیں اس میں وہ ہیں جو ساتویں صدی میں پوری طرح قابل فہم تھیں، لیکن قرآن کی کچھ آیتیں ایسی ہیں ، جو پیشین گوئی (prediction) کی زبان میں ہیں۔ یعنی یہ آیتیں نزول کے اعتبار سے ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہوئیں، لیکن خود قرآن میں ایسے اشارات موجود ہیں، جو بتاتے ہیں کہ یہ آیتیں صرف مستقبل میں پوری طرح قابل فہم ہوں گی۔ یعنی اپنے نزول کے اعتبار سے وہ ساتویں صدی عیسوی کی آیتیں ہیں۔لیکن اپنی معنویت کے اعتبار سے وہ بعد کے زمانے تک پھیلی ہوئی ہیں، اپنی تفسیر کے اعتبار سے وہ مستقبل میں پوری طرح قابل فہم ہوں گی۔ ان میں سے چند آیات یہ ہیں:
(1) سَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ فَتَعْرِفُونَہَا (27:93)۔ یعنی عنقریب وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے۔
(2) سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ قرآن حق ہے۔
(3) أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِہِ ثَمَرَاتٍ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُہَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ ۔ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ غَفُورٌ (35:27-28)۔ یعنی کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کر دیے، اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ، مختلف رنگوں کے ٹکڑے ہیں اور گہرے سیاہ بھی۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی مختلف رنگ کے ہیں۔ اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ بیشک اللہ زبردست ہے، بخشنے والا ہے۔
(4)فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً وَإِنَّ کَثِیرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ (10:92)۔یعنی پس آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے، اور بیشک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔
ایک مثال
قرآن کے ان حوالوں کی اہمیت اس وقت مجھے زیادہ اہمیت کے ساتھ سمجھ میں آئی، جب میں نے مندرجہ ذیل کتاب پڑھی:
The Bible, the Qur'an and Science: The Holy Scriptures Examined in the Light of Modern Knowledge, by Maurice Bucaille, Robert Laffont, 1982, pp. 269
یہ کتاب اصلاً فرانسیسی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد انگریزی، اور عربی وغیرہ متعدد زبانوں میں چھپ کر شائع ہوچکی ہے۔ اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ دو مغربی سائنسدانوں نے مصر جاکر فرعون کی لاش کو دریافت کیا، اور تحقیق کرکے ثابت کیا کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے، جو حضرت موسی کے زمانے میں سمندر میں غرق ہوا تھا۔ اس موضوع پر راقم الحروف نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب عظمت قرآن میں لکھا ہے۔ اس مقالے کا ایک جزء یہاں نقل کیا جاتا ہے:
تیرھویں صدی قبل مسیح (13th century BC) میں مصر میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کا نام مرنفتاح ( Merneptah) تھا۔ اس کا مقابلہ پیغمبر موسیٰ کے ساتھ پیش آیا۔ مگر قرآن بتاتا ہے کہ وہ پیغمبر موسیٰ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا۔ البتہ وہ خود بحر احمر (Red Sea) میں غرق ہوگیا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرعون کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً(10:92) ۔ یعنی پس آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے نشانی بنے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی موت کے بعد اس کی لاش نابود نہیں ہوئی، بلکہ وہ باقی رہی۔ بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ سمندر میں غرق ہونے کے بعد اس کی لاش سمندری جانور کھاجائے۔ جسم کی حیثیت سے اس کا وجود باقی نہ رہے۔ لیکن یہاں بتایا گیا کہ فرعون کا جسم بدستور موجود ہے، اور وہ بعد والوں کے لیے ایک عبرت کا نشان بنے گا۔ یہ واقعہ بعد کے لوگوں کے لیے مکمل طور پر ایک غیر معلوم واقعہ بن گیا۔ کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ فرعون کی لاش کہاں موجود ہے۔ تقریباً دو ہزار سال بعد قرآن عرب میں اترا۔ اس میں مذکورہ آیت شامل تھی۔ لیکن بوقت نزول کوئی مسلم یا غیر مسلم اس حقیقت کو جانتا نہ تھا۔ یہ حقیقت تاریخ کا ایک فراموش شدہ واقعہ بنا ہوا تھا۔
لیکن انیسویں صدی کے آخر میں سائنس کے ذریعہ یہ واقعہ پیش آیا کہ فرعون کی لاش دوبارہ انسان کے علم میں آگئی۔ قصہ یہ ہے کہ فرعون کے مرنے کے بعد آل فرعون نے اس کی لاش کو قدیم طریقے کے مطابق مومیائی کرکے محفوظ کردیا، اور اس کو اہرام مصر میں ایک تاریخی یادگار کے طور پر رکھ دیا۔ لیکن بعد کے زمانے میں کوئی بھی شخص اس حقیقت کو جانتا نہ تھا، نہ مصر کے اندر اور نہ مصر کے باہر۔
پروفیسروکٹر لاریٹ (Victor Loret) پہلا شخص ہے جس نے 1898 میں مصر کے ایک قدیم مقبرہ میں داخل ہو کر دریافت کیا کہ یہاں مذکورہ فرعون کی لاش ممی کی ہوئی موجود ہے۔ 8جولائی 1907کو الیٹ اسمتھ (Elliot Smith) نے اس لاش کے اوپر لپٹی ہوئی چادر کو ہٹایا۔ اس نے باقاعدہ سائنسی تحقیق کی، اور پھر 1912میں ایک کتاب شائع کی، جس کا نام ہے شاہی ممیاں(The Royal Mummies)۔ کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے ثابت ہوگیا کہ یہ ممی کی ہوئی لاش اسی فرعون کی ہے جو تین ہزار سال حضرت موسیٰ کے زمانے میں غرق کیا گیا تھا۔ ایک مغربی مفکر کے الفاظ میں:
His earthly remains were saved by the Will of God from destruction to become a sign to man, as it is written in the Quran.
فرعون کا مادی جسم خدا کی مرضی کے تحت برباد ہونے سے بچا لیا گیا تاکہ وہ انسان کے لیے ایک نشانی ہو، جیسا کہ قرآن میں لکھا ہوا ہے۔بائبل اور قرآن اور سائنس (The Bible, the Quran and Science) کے مصنف ڈاکٹر موریس بوکائی (Maurice Bucaille) نے 1975 میں فرعون کی اس لاش کا معائنہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی کتاب میں اس پر جو باب لکھا ہے، اس کا خاتمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
Those who seek among modern data for proof of the veracity of the Holy Scriptures will find a magnificent illustration of the verses of the Quran dealing with the Pharaoh’s body by visiting the Royal Mummies Room of the Egyptian Museum, Cairo!
وہ لوگ جو مقدس کتابوں کی سچائی کےلیے جدید ثبوت چاہتے ہیں، وہ قاہرہ کے مصری میوزیم میں شاہی ممیوں کے کمرے کو دیکھیں، وہاں وہ قرآن کی ان آیتوں کی شاندار تصدیق پالیں گے جو کہ فرعون کے جسم سے بحث کرتی ہے۔ (عظمت قرآن، صفحات 30-31)۔
قرآن کا موضوع
قرآن کے بارے میں ایک سوال یہ ہے کہ قرآن کا موضوع کیا ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن کا موضوع انسان ہے۔ یہ بات جزئی طور پر درست ہوسکتی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن کا موضوع اللہ رب العالمین کا منصوبہ تخلیق ہے۔یعنی قرآن کا موضوع انسان کو یہ بتانا ہے کہ وہ اپنے رب کو کس طرح دریافت کرے، اور اپنے رب سے وہ ربط کس طرح قائم کرے، جس کو صِلَۃُ العَبْدِ بِرَبِّہ یا تعلق باللہ کہا جاتا ہے۔اسی کا نام معرفت ہے۔ اس معرفت کے لیے قرآن میں اشارات موجود ہیں۔
انسان کا کام یہ ہے کہ وہ قرآن سے ان اشارات کو جانے، اور ان کو مفصل معنی میں دریافت کرے۔ یہ اسی عمل کا تسلسل ہے، جو پیغمبر اسلام اپنے اصحاب کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ ابوذرغفاری کہتے ہیں:تَرَکْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَا طَائِرٌ یُقَلِّبُ جَنَاحَیْہِ فِی الْہَوَاءِ، إِلَّا وَہُوَ یُذَکِّرُنَا مِنْہُ عِلْمًا، قَالَ:فَقَالَ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا بَقِیَ شَیْءٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ، ویُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلَّا وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1647)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جدا ہوئے، اس حال میں کہ کوئی چڑیابھی فضا میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے، اور آپ نے کہا:کوئی بھی چیز جو جنت سے قریب کرے یا آگ سے دور کرے، وہ تمھارے لیے بیان کردی گئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے پیدا ہونے کے بعد انسان کے لیے خدا کی دریافت کے بے شمار آئٹم ہوتے ہیں ، اس دریافت کے ذریعے انسان اپنے خالق کو پہچانتا ہے۔ وہ اس پہلو پر غور و فکر کرکے ایک عارف انسان بنتا ہے۔ مثلاً انسان اگر غور کرے تو وہ پائے گا کہ جب وہ ماں کے پیٹ میں تھا، اس وقت وہ خارجی دنیا سے کٹا ہوا تھا۔ مگر اس وقت بھی ماں کے پیٹ میں اس کی ضرورت کی تمام چیزوں کی سپلائی جاری تھی۔ اس دریافت سے انسان کے اندر اپنے خالق کے لیے شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
اس کے بعد جب انسان مزید غور کرتا ہے تو وہ دریافت کرتا ہے کہ پیدا ہوکر وہ جس دنیا میں آیا ہے،وہاں پر اس کے خالق نے ایک انوکھا نظام قائم کر رکھا ہے، یعنی لائف سپورٹ سسٹم ۔ اس دنیا میں ہر چیز اس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ انسان دوست ہے، نہ کہ انسان دشمن۔ ہر چیز کی تخلیق اس انداز میں ہوئی ہے کہ وہ انسان کے لیے نافع بنے، وہ انسان کے لیے نقصان دہ نہ بنے۔ مثلاً سورج کی روشنی فضا میں چھن کر آتی ہے، تاکہ وہ انسانوں کے لیے ضرر رساں نہ ہو۔اس طرح سورج زمین سے بہت ہی درست فاصلے پر ہے، تاکہ وہ انسان کے لیے صرف نفع بخش ہو، ضرر رساں نہ ہو، وغیرہ۔
پھر انسان جب مزید غور و فکر کرتا ہے، تو وہ اس دریافت تک پہنچتا ہے کہ یہ معاملہ کوئی محدود معاملہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے باہر جو یونیورس ہے، وہ پوری کی پوری کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe) ہے، یعنی انسان اور کائنات دونوں ایک دوسرے کے لیے مثَنّی (counterpart) ہیں۔ کائنات انسانی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے، جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (45:13)۔ یعنی اس نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔
انسان کے لیے سبق
قرآن کی سورہ الرحمن میں دو آیتیںان الفاظ میں آئی ہیں: کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَان۔ وَیَبْقَى وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ (55:26-27)۔ یعنی جو بھی زمین پر ہے، وہ فنا ہونے والا ہے، اور تیرے رب کی ذات باقی رہے گی، عظمت والی اور عزت والی۔ ایک شخص کی عمر 90 سال ہوچکی ہو، اور وہ پیچھے مڑ کر دنیا کو دیکھے، جس سے گزرتے ہوئے وہ 90سال کی عمر کو پہنچا ہے تو اس کو اپنے تصور کی دنیا میں دکھائی دے گا کہ اس کے پیچھے دور تک وفات پانے والے انسانوں کی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ یہ قبریں اتنی زیادہ ہوں گی کہ اس کی گنتی ختم ہوجائے گی، لیکن قبروں کی تعداد ختم نہ ہوگی۔ اس کو چشم تصور میں ایک ایسا منظر دکھائی دے گا، جس میں اس کے جیسے بے شمار لوگ کہہ رہے ہوں گےکہ مجھ کو دیکھو، ایک وقت تھا کہ میں بھی تمھاری طرح زمین پر چل پھر رہا تھا، آج صرف میری بھولی ہوئی یاد ہے، میں تم سے بہت دور ایک ایسی دنیا میں پہنچ چکا ہوں ، جہاں تم کوبھی ایک دن آنا ہے۔ تم کو چاہیے کہ تم سب سے زیادہ اس حقیقت پر غور کرو۔ دوسرے انسانوں کے انجام سے اپنے لیے سبق حاصل کرو۔
اس کے بعد اگر وہ آدمی اپنے تصور کی دنیا میں اللہ رب العالمین کو یاد کرے تو اس کو محسوس ہوگا کہ اللہ رب العالمین اپنے تمام جلال و کمال کے ساتھ ایک حی و قیوم ذات کی طرح موجود ہے۔ وہ ہر چیز سے بلند ہے۔ اس وقت اس کو قرآن کی یہ آیت یاد آئے گی: وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ (2:255)۔ یعنی اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے:
His throne extends over the heavens and the earth
اس حقیقت پر سوچتے ہوئے جب وہ قرآن کے مذکورہ الفاظ کو دہرائے گاتو اپنی بے چارگی، اور اللہ کی عظمت کو سوچ کر اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوجائے ۔ اس کو اللہ کی موجودگی (presence) کا اتنا شدید احساس ہوگا کہ وہ بے ساختہ طور پر سجدے میں گر پڑے گا۔
قرآن ایک عالمی کتاب
قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا۔ قرآن سادہ طور پر ایک کتاب نہیں، وہ انسانوں کے لیے ابدی ہدایت کی ایک عالمی کتاب ہے۔ چنانچہ قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں یہ اعلان کیا گیا تھا:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔
قرآن چونکہ تاریخ کے ابتدائی دور میں اترا تھا، اس لیے اپنے آپ اس کے اندر بہت سے تقاضے شامل تھے۔ مثلاً یہ کہ ابتدائی دور میں یہ مطلوب تھا کہ قرآن کے متن کو یاد کرکے اس کو محفوظ کیا جائے، تاکہ قرآن بعد کی نسلوں تک کامل حفاظت کے ساتھ پہنچ سکے۔ اسی طرح یہ بھی کہ کتابت کے فن کو ڈیولپ کیا جائے، کاغذ تیار کیا جائے، پرنٹنگ پریس وجود میں لایا جائے۔ قرآن کی زبان عربی کو اس طرح محفوظ کیا جائے کہ وہ قیامت تک قابل فہم زبان بنی رہے، قرآن کے اشارات کو تفصیل کی زبان میں بیان کیا جائے، قرآن سے متعلق علوم کو مدون کیا جائے، ایج آف کمیونی کیشن کو دنیا میں لایا جائے، دنیا میں مذہبی آزادی آئے، دنیا میںکشادہ دلی اور کھلا پن (openness) کا دور لایا جائے، قرآنی علوم کی بنیاد پر کتب خانہ وجود میں لایا جائے، قرآن کے ترجمے تمام زبانوں میں قابل فہم انداز میں تیار کیے جائیں، ایسے اسباب پیدا کیے جائیں کہ قرآن ساری دنیا میں قابلِ حصول بن جائے۔ یک طرفہ قربانی کے ذریعے امن کا دور (age of peace) لایا جائے، دنیا میں کامل معنوں میں مذہبی آزادی لائی جائے، لڑائی کے ماحول کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے، وغیرہ۔
ان تقاضوں کی تکمیل کے بغیر یہ ناممکن تھا کہ قرآن ہر دور میں پوری دنیا کے انسانوں کے لیے نذیر (ہدایت نامہ) بنا رہے۔ قرآن کے نزول کے بعد جو تاریخی ترقیاں (historical development) ہوئیں، ان کو قرآن کی تفسیر میں شامل کیا جاتا رہے، تاکہ قرآن ہمیشہ لوگوں کے لیےایک زندہ کتاب بنا رہے۔
قرآن کو ایک ابدی کتاب کی حیثیت سے زندہ کتاب بنائے رکھنے کے لیے اس قسم کے بہت سے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری تھا۔ یہ ایک ایسا کام تھا، جو نزول قرآن سے لے کر قیامت تک جاری رہے۔ امت محمدی جس کی حیثیت حامل قرآن کی تھی، وہ تنہا اس عالمی کام کو انجام نہیں دے سکتی تھی، اس لیے اللہ تعالی نے ایک عظیم منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ امت محمدی براہ راست طور پراس منصوبہ کے جاری رکھنے کی ذمے دار ہو۔ اسی کے ساتھ دنیا کی سیکولر قوموں کے لیے ایسے محرکات (incentives)پیدا کیے جائیں کہ وہ قرآن کے اس عالمی مشن کےلیے انفراسٹرکچرل سپورٹ (infrastructural support) بن جائیں۔
قرآن کی اس عالمی ذمے داری کا ذکر خود قرآن میں مختلف الفاظ میں آیا ہے۔ مثلاً قرآن کے متن کو محفوظ کرنا (الحجر، 15:9)، قرآن کو عالمی انذار کی کتاب بنانا (الفرقان، 25:1) ، آفاق و انفس کی ان آیات کو ظاہر کرنا، جو قرآن کی اعلیٰ تبیین کےلیے اللہ تعالیٰ نے پیشگی طور پر رکھ دیا تھا، وغیرہ وغیرہ (فصلت، 41:53)۔
محفوظ کتاب
قرآن ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں اترا۔ اس کا متن عربی زبان میں ہے۔ اسکالرس کا اتفاق ہے کہ قرآن آج بھی اپنی اصل عربی متن کے ساتھ اسی طرح محفوظ ہے، جس طرح وہ ساتویں صدی عیسوی میں تھا۔ مثلاً سر ولیم میور (1819-1905) ایک اعلی تعلیم یافتہ انگریز مستشرق تھا ، جو برٹش حکومت کے دور میں غیر منقسم ہندوستان کی ایک ریاست کا گورنر مقرر ہوا ۔ سر ولیم میور نے ایک کتاب لکھی ، جس کا نام ’’لائف آف محمد‘‘تھا ۔ یہ انگریزی کتاب 1866میں چار جلدوں میں شائع ہوئی۔ قرآن کے بارے میں ان کا ایک اقتباس یہ ہے:
There is probably in the world no other work which has remained twelve centuries with so pure a text...We may, upon the strongest presumption, affirm that every verse in the Quran is the genuine and unaltered composition of Muhammad himself.
قرآن کے نزول کے وقت مختلف باتوں کے علاوہ یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ (15:9)۔ یعنی یہ ذکر ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔یہ حفاظت صرف عربی متن کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ ایک جامع معنوں میں ہے۔ یعنی ہراعتبار سے حفاظت۔ قرآن کی یہ پیشین گوئی پوری طرح صحیح ثابت ہوئی ہے۔
مثلاً نزولِ قرآن کے وقت کی عربی زبان استثنائی طور پر آج بھی ایک قابل فہم زبان کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے۔ اسی طرح نزولِ قرآن کے وقت جو حالات تھے، وہ بھی سیرتِ رسول کی شکل میں آج تک محفوظ ہیں۔ نیز قرآن میں تاریخ کے جو حوالے دیے گئے تھے، وہ بعد کی تحقیق سے درست ثابت ہوئے۔ مثلاً فرعون کے غرق ہونے کے بعد اس کی لاش کا محفوظ ہونا(یونس، 10:92)۔
قرآن ایکسپلوزن
قرآن خدا کا آخری ہدایت نامہ (final guide book of God) ہے۔ نزولِ قرآن کی ابتدا میں اعلان کیا گیا تھا کہ قرآن اس لیے اترا ہے کہ وہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے نذیر(الفرقان، 25:1) بنے۔ نذیر کا مطلب ہے گائڈ بک (guide book) ۔ قرآن عالمی گائڈ بک اس معنی میں نہیں تھا کہ نزول قرآن کے بعد فورا ً وہ ساری دنیا میں خود بخود پھیل کر گائڈ بن جائے۔ خدا کا منصوبہ ہمیشہ تدریجی عمل (gradual process)کے طور پر ہوتا ہے۔ یہی خدائی قانون قرآن کے ساتھ بھی اختیار کیا گیا۔
قرآن کے اترتے ہی خدائی نظام کے تحت ایک عالمی پراسس جاری ہوا، جس کا نقطۂ انتہا (culmination)یہ تھا کہ ایک طرف قرآن محفوظ کتاب (preserved book) کی حیثیت اختیار کرلے، اور دوسری طرف انسانی دنیا میں وہ تمام اسباب مکمل صورت میں دستیاب ہوجائیں، جو قرآن کے عالمی ڈسٹری بیوشن کو ممکن بنادیں۔ تقریباً ہزار سال کے تاریخی عمل (historical process) کے بعد اکیسویں صدی میں یہ اپنی تکمیل تک پہنچا۔ اب اکیسویں صدی میں وہ تمام اسباب کامل صورت میں دستیاب ہوگئے، جو قرآن کی عالمی اشاعت یا عالمی ڈسٹری بیوشن کے لیے ضروری تھے۔
اسباب کے ڈیولپمنٹ کا منصوبہ اتنا بڑا تھا کہ صرف اہل ایمان اس کوروبعمل نہیں لاسکتے تھے۔ چنانچہ اللہ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ دنیا کے تمام انسان اس کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں تائید دین بذریعہ غیر اہل ایمان کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ صحیح البخاری (حدیث نمبر 3062) میں اس کے لیےتائید دین بذریعہ رجل فاجر (إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ)کے الفاظ آئے ہیں۔ اس حدیث میں فاجر سے مراد سیکولر لوگ ہیں۔ ایک اور روایت میں اس کو’’غیر اہل دین‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ھُمْ مِنْ أَھْلِہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ گویا اللہ رب العالمین نے ایسے حالات پیدا کیے کہ پوری عالم انسانیت اس عمل کی تکمیل میں مصروف ہوگئی۔ وہ تمام ترقیاں جن کو کمیونی کیشن کہا جاتاہے، وہ اسی کا نتیجہ ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس دور کو دورِ مواصلات (age of communication) کہا جاتا ہے۔
اہل کتاب سے استفادہ
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِی إِلَیْہِمْ فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (16:43)۔ یعنی اور ہم نے تم سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔اہل علم سے مراد مفسرین کے نزدیک اہل کتا ب ہیں۔’’پوچھ لو‘‘ کا مطلب مطلق معنی میں اہل کتاب کے پاس جاکر ان سے پوچھنا نہیں ہے، بلکہ توسیعی اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس علم و تحقیق کے میدان میں مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں، اس میں وہ اہل کتاب کی تحقیقات سے فائدہ اٹھائیں۔
مثلا ًیہ کہ قرآن میں بہت سی تاریخی حقیقتوں کا بیان ہے۔ پیغمبر نوح کی کشتی، پیغمبر ابراہیم ،پیغمبر موسیٰ (علیہم السلام( اور فرعون کا واقعہ، وغیرہ۔ یہ تاریخی حقیقتیں بائبل میں بھی مذکورہیں۔ دورِ جدید میں جو نئے سائنسی علوم وجود میں آئے ہیں، ان میں سے ایک علم الآثار (Archaeology) بھی ہے۔
آرکیا لوجی ایک ڈسپلن ہے، جس کے ذریعےماڈرن سائنسی اصول کی روشنی میں قدیم انسانی تاریخ، ثقافت اورمحفوظ رہ جانے والی باقیات (remnants) وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ کتابت کے آغاز سے قبل قدیم حجری دور میں جو تہذیبیں دنیا میں موجود تھیں، ان کی تاریخ و ثقافت سے آگاہی حاصل کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے، یعنی آثارِ قدیمہ کی تلاش ۔
چنانچہ موجودہ زمانے میں جہاں دیگر علاقوں میں آثار قدیمہ پر سائنسی اصول کی روشنی میں کام ہوا ہے، وہیں ان علاقوں میں بھی کا م ہوا ہے، جو بائبل یا قرآن میں مذکور تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلا کشتیٔ نوح کی ڈسکوری، حضرت ابراہیم کا مقام پیدائش اور مقام ہجرت، فرعون کی لاش ، وغیرہ۔ یہ کام زیادہ تر اہل کتاب، یہود اور کرسچن آرکیولوجسٹوں نے کیا ہے۔ اسی طرح جدید سائنسی تحقیقات جو خدا کے وجود کو ثابت کرتی ہیں، وہ بھی ان اہل کتاب نے دریافت کیے ہیں۔لیکن مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ اب مسلمان علما کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ان اہل کتاب کی تحقیقات سے فائدہ اٹھائیں، اور اپنے دین کو یقینِ مزید کی بنیاد فراہم کریں۔
امت محمدی کی ذمے داری
جہاں تک امت محمدی کی دینی اعتبار سے ذمے داریوں کا سوال ہے، وہ امت نے قدیم دور میں بخوبی طور پر انجام دیا ہے۔ لیکن دور جدید میں امت محمدی اس معاملے میں پیچھے رہ گئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جدید دور میں ایسے ڈیولپمنٹ وجود میں آئے، جو سیکولر قوموں کے لیے ایک محرک بن گئے ۔ اس محرک کی بنا پر وہ ان تمام اسباب کو وجود میں لائے،جن کو سائنس اور ٹکنالوجی کی دریافت کہا جاتا ہے۔ یہ اسباب اپنی حقیقت کے اعتبار سے قرآن کے منصوبہ کی عالمی تکمیل کے لیے انفراسٹرکچرل سپورٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔انفراسٹرکچرل سپورٹ کا یہ کام تقریباً تمام تر مغربی قوموں نے انجام دیا ہے۔ انھوں نے غیرمعمولی کوشش اور ریسرچ کے ذریعے ان تمام اسباب کو ڈیولپ کیا، جو اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے ضروری تھے۔
اسی کے ساتھ خالق کی جانب سے مزید یہ ہوا کہ اس نے عرب کی زمین کے نیچے پٹرول کے خزانے رکھ دیے۔ علم طبقات الارض کے ماہرین (geologist) اس کو جغرافی حادثہ (geological accident) کہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ عرب کی زمین کے نیچے پٹرول کے خزانے تخلیقِ خداوندی کا حصہ ہیں، جو اس لیے وجود میں آئے، تاکہ امت محمدی اس عظیم کام کی انجام دہی کے لیے ہر ممکن قیمت ادا کرسکے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اسی دور میں ایک حادثہ پیش آیا، جس کی خبر پیشگی طور پر پیغمبر اسلام  نے دے دی تھی۔یہ حادثہ فتنۂ دُہَیماء (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4242)، یعنی کامل اندھیرا (utter darkness) کا فتنہ تھا۔
اس فتنے کی بنا پر مسلمان کامل طور پر اس سے بے خبر ہوگئے کہ سیکولر قوموں نے اللہ کی توفیق سے وہ تمام اسباب پیدا کردیے ہیں، جن کو استعمال کرکے شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔فتنۂ دہیماء کے بارے میں جو حدیثیں آئی ہیں، ان کا گہرا مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ غالباًاس سے مراد نفرت مغرب (westophobia) کا فتنہ ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عالمی سطح پر ویسٹو فوبیا کا شکار ہوگئے۔ اس لیے وہ اس عظیم نعمت کو دریافت نہ کرسکے، تاکہ وہ اس کو دعوتی مواقع (opportunities) کے طور پر اَوِیل کرے۔
فتنۂ دہیماء یا ویسٹوفوبیا (westophobia) کے ظاہری اسباب کیا تھے۔ وہ یہ تھے کہ مغربی قوموں نے فطرت کے قوانین (natural laws) کو دریافت کیا، اور طاقت کے جدید خزانوں پر عملاً قابض ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں مغربی قوموں اور مسلمانوں کے درمیان ایک نئی کروسیڈس (Crusades) وجود میں آگئی۔ تاریخ میں اس کو کلونیل ازم (colonialism)کا نام دیا گیا ہے۔ اس’’کروسیڈس‘‘میں مغربی قوموں کو فتح حاصل ہوئی۔ انھوں نے ایشیا اور افریقہ ، حتی کہ یورپ کی مسلم سلطنتوں کو زیر کرلیا۔ مثلاً عثمانی ایمپائر، مغل ایمپائر، وغیرہ۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اس سیاسی محرومی کو برداشت نہ کرسکے، اور تقریباً تمام مسلمان مغرب کے خلاف نفرت یا تشدد میں مبتلا ہوگئے، جس کو ہم نے عمومی ویسٹوفوبیا کا نام دیا ہے۔
اس موقع پر مسلم رہنماؤں پر فرض کے درجے میں ضروری تھا کہ وہ مغربی تہذیب اور مغرب کے سیاسی غلبے کو الگ کرکے دیکھیں۔ مگر انھوں نے انتہائی بےخبری کی بنا پر دونوں کو ایک سمجھ لیا۔ مغربی تہذیب (western civilization)حدیث کی پیشین گوئی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر111)کے مطابق، اسلام کے لیے تائیدی تہذیب (supportive civilization) کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر مسلم رہنماؤں نے مغربی تہذیب کو مغربی استعمار (western colonialism) کے ہم معنی سمجھ لیا۔
قرآن کی اشاعت
اس درمیان اللہ نے اپنے کچھ بندوں کو توفیق دی کہ وہ قرآن کا ترجمہ ہر زبان میں تیار کریں ۔ ایسا ترجمہ جو لوگوں کے لیے قابل فہم زبان (understandable language) میں ہو،اور ان تراجم کا مطبوعہ شکل (printed format) میں اور ڈیجیٹل شکل (digital format) میں ایڈیشن تیار کرکے ہر قوم میں منظم طور پر پہنچانے کا عمل شروع کیا جائے۔ ہمارے ادارے کے ذریعے اللہ کے فضل سے قرآن کے ڈسٹری بیوشن کا کام برابر کیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام میجر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے، اوردنیا کے مختلف حصوںمیں برابراس کے ڈسٹری بیوشن کا کام جاری ہے۔
یہ ایک ایسا کام ہے، جو میرے مطالعے کے مطابق، امت مسلمہ کا نمبر ایک کام ہے۔ امت مسلمہ کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا کی تمام زبانوں میں قابلِ فہم ترجمہ (understandable translation) تیار کرے، اور اس کو اچھی طباعت کے ساتھ لوگوں تک پہنچائے۔ پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی آخری تقریر فرمائی۔ اس میں آپ نے ایک بڑے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا: کیا میں نے تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ لوگوں نے بلند آواز سے کہا کہ ہاں ہم گواہ ہیں کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ اس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا :اے اللہ تو گواہ رہ کہ میں نے لوگوں کو پہنچادیا ( أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا:نَعَمْ، قَالَ:اللہُمَّ اشْہَد)صحیح مسلم، حدیث نمبر 1679۔
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ (6:19)۔ یعنی اور مجھ پر یہ قرآن اترا ہے، تاکہ میں تم کو اس سےآگاہ کر وں، اور وہ بھی (آگاہ کریں)جن کو یہ قرآن پہنچے۔ اس ریفرنس سے معلوم ہوا کہ امت کی ذمے داری خدائی پیغام کو انسانوں تک پہنچانا ہے، اوربرابراس مشن میں لگے رہنا ہے۔ امت کی ذمے داری یہ نہیں ہے کہ وہ تمام لوگوں کو کلمہ پڑھوائے۔ پہنچانے کے بعد ذمے داری ان لوگوں کی ہوجاتی ہے، جن کو اللہ کا پیغام پہنچا ہے (یٰس، 36:7)۔ پہنچانے کے بعد امت کی ذمے داری نارمل حالات کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ اس کو لوگوں کے دلوں میں اتارنا(القصص، 28:56)۔
یہ امت کی مزید ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اور مدعو کے درمیان سننے اور سنانے کےماحول کو برقرار رکھیں(الانعام، 6:108)۔ اس معاملے میں امت کو شدت سے یہ اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کے اور دوسروں کے درمیان مدعو فرینڈلی (madu-friendly) ماحول برقرار رہے۔ امت یہ کام مطلوب درجے میں اس وقت کرسکتی ہے، جب کہ وہ مدعو سے نفرت مکمل طور پر چھوڑ دے، اللہ کے پیغام کو قابلِ فہم زبان میں مدعو تک پہنچائے۔ مدعو فرینڈلی بیہیویر (madu-friendly behaviour) کو قائم رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ پیغام کو پہنچانا۔ اس معاملے میں فقہ کا یہ مسلمہ اصول اپلائی ہوتا ہے:مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ دُونَہُ فَہُوَ وَاجِبٌ(الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی، جلد 1، صفحہ 125)۔ یعنی جس کے بغیر کوئی واجب چیز پوری نہ ہو، وہ واجب ہے۔
قرآن سے دعوت
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی اشاعت پورے دور میں قرآن کے ذریعے ہوئی۔ جو آدمی قرآن کو پڑھتا ہے، وہ پاتا ہے کہ قرآن مذہبی کتابوں میں ایک مختلف کتاب ( different book) ہے۔ قرآن ڈائریکٹ طور پر اللہ رب العالمین کی طرف سے انسان کو مخاطب کرتا ہے۔ مثلاً قرآن کا انداز کلام یہ ہوتا ہے کہ اے انسان، اے بنی آدم، وغیرہ۔ یہ ایک نہایت خصوصی انداز ہے۔ یہ انداز انسان کو متاثر کرتا ہے۔ وہ پاتا ہے کہ خدابراہ راست طور پر اس سے ہم کلام ہے۔ اسی طرح قرآن میں انسان کے مقصد حیات کے بارے میں بے حد تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ یہ اسلوبِ کلام صرف قرآن میں ملتا ہے۔
حتی کہ قرآن کی عربی زبان ایک معجزاتی زبان ہے۔ قرآن کی قرأت (recitation) اپنے آپ میں ایک بے حد موثر قرأت ہے۔ جو آدمی قرآن کی عربی زبان کو ایک قاری کے ذریعے سنتا ہے، وہ صرف سماعت کے ذریعے اس سے متاثر ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کا چشم دید واقعہ ہے۔ یہ واقعہ راقم الحروف کے سفرنامے میں شائع ہوچکا ہے۔ اس کا متعلق حصہ یہاں نقل کیا جاتاہے ۔ یہ واقعہ ایک انٹرنیشنل سیمینار کا ہے، جو لیبیا میں 1976میں منعقد ہوا تھا۔ اس کا عنوان تھا:ندوۃ الحوار الاسلامی المسیحی(اسلام اور عیسائیت کے درمیان ڈائیلاگ)۔ اس سیمینار کا خاتمہ انجیل اور قرآن کی تلاوت پر ہوا۔ دونوں تلاوتیں ایک عیسائی عالم نے کی۔ پہلے اس نے انجیل (متی باب 25) عربی میں پڑھی۔ پڑھنے والا پادری نہایت خوش الحان تھا، اور خالص عربی لہجے میں پڑھ رہا تھا۔ اس کے بعد اس پادری نے قرآن (سورہ البقرۃ اور سورہ العلق ) کی کچھ آیات پڑھیں۔ دونوں تلاوتیں اس نے تجوید اور قرأت کے تمام قواعد کے ساتھ کیں۔ قرآن کو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ شروع کیا، اور آخر میں صدق اللہ العظیم کہا۔
اصل انجیل بلاشبہ ایک خدائی کتاب تھی۔ مگر اس کا موجودہ عربی ترجمہ ظاہر ہے کہ انسان کے قلم سے ہے۔ اس کے برعکس، قرآن کی زبان الہامی زبان ہے۔ جب دونوں کتابوں کے حصے ایک دوسرے کے ساتھ پڑھے گئے، تو یہ گویا خاموش اعلان تھا کہ یہ انسانی کلام ہے، اور وہ خدائی کلام۔ انجیل کی قرأت میں ساری کوشش کے باوجود وہ عظمت پیدا نہ ہوسکی۔ اس کے برعکس، قرآن حیرت انگیز طور پر ایک عظیم کلام کی مانند ہال کے اندر گونج رہا تھا۔ اس کی مجرد سماعت ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ یہ ایک بلند تر خدائی کلام ہے، نہ کہ کوئی انسانی کلام۔
کانفرنس کی کارروائی ختم ہونے کے بعد تمام لوگ ایک بڑے ہال میں چائے پینے کے لیے جمع ہوئے۔ اس وقت کانفرنس کے آخری پروگرام کا اثر ابھی تمام لوگوں کے ذہنوں پر موجود تھا، جب کہ انجیل کی آواز پرقرآن کی آواز چھاگئی تھی، جیسے قرآن نے اس کو نگل لیا ہو۔اس وقت میں جس میز پر بیٹھا تھا، اتفاق سے اس کی دوسری جانب ایک نوجوان پادری تھے، جو ویٹیکن کے دوسرے وفد کے ساتھ آئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہیں، قرأت کے تاثر کے تحت (اس وقت )ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا ،ہاں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوراقم الحروف کا سفرنامہ غیر ملکی اسفار، جلد اول، صفحات 17-18) ۔
قرآن اور وضو
حدیث کی کتابوں میں ایک واقعہ اس طرح آیا ہے: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، کَانَ فِی قَوْمٍ وَہُمْ یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ. فَذَہَبَ لِحَاجَتِہِ، ثُمَّ رَجَعَ وَہُوَ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ. فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ:یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ. أَتَقْرَأُ وَلَسْتَ عَلَى وُضُوءٍ؟ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ:مَنْ أَفْتَاکَ بِہذَا؟ أَمُسَیْلِمَةُ؟ (موطا امام مالک، اثر نمبر 684)۔ محمدبن سیرین سے روایت ہے، عمر بن الخطاب لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ وہ لوگ قرآن پڑھ رہے تھے۔ عمر اپنی حاجت کے لیے اٹھے۔ پھر (قضائے حاجت کے بعد)واپس آئے اور قرآن پڑھنے لگے۔ تو ایک آدمی نے کہا: اے امیر المومنین، آپ (قرآن) پڑھتے ہیں، جب کہ آپ وضو سے نہیں ہیں۔ عمر نے ان سے کہا: کس نے تم کو یہ فتویٰ دیا ہے؟ کیا مسیلمہ (کذّاب)نے ؟
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ بالکل بے بنیاد ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے کوئی شرط نہیں ۔ کیوں کہ قرآن سب کے لیے ہے۔ ہدایت پائے ہوئے لوگوں کے لیے بھی، اور ہدایت کے طالب علموں کے لیے بھی۔ قرآن کے مطالعے کےلیے وضو کی شرط لگانا، ایک بے بنیاد شرط ہے۔ قرآن ہر حال میں پڑھا جاسکتا ہے، خواہ آدمی باوضو ہو، یا بے وضو۔ جس طرح حافظے سے قرآن کوپڑھنے کے لیے وضو کی شرط نہیں ہے، اسی طرح مصحف کو پڑھنے کے لیے بھی وضو کی شرط نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق کا یہ عمل اس معاملے میں ایک روشن حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے تدبر قرآن میں سورہ الواقعہ (56)کی آیت 79کے تحت درست طور پر لکھا ہے کہ جن فقہا نے قرآن کی زبانی تلاوت یا اس کو ہاتھ لگانے تک کے لیے بھی طہارت کی وہ شرطیں عائد کی ہیں جو نماز کے لیے ضروری ہیں ان کے اقوال غلو پر مبنی ہیں۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس وجہ سے وہ ہر پہلو سے لائق تکریم ہے، لیکن وہ ہمارے لیے ہر قدم پر حق و باطل اور خیر و شر کے جاننے کا ذریعہ اخذ و استنباط کا حوالہ اور استدلال کا مرکز بھی ہے۔ اگر اس کو ہاتھ لگانے یا اس کی کسی سورة یا آیت کی تلاوت کرنے یا حوالہ دینے کے لیے بھی آدمی کا طاہرو مطہر اور باوضو ہونا ضروری قرارپا جائے تو یہ ایک ایسی تکلیف مالا یطاق ہوگی جو دین فطرت کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس طرح کی غیر فطری پابندیاں عائد کرنے سے قرآن کی تعظیم کا وہی تصور پیدا ہوگا جس کی تعبیر سیدنا مسیح علیہ السلام نے یوں فرمائی ہے کہ تمہیں چراغ دیا گیا کہ ا س کو گھر میں بلند جگہ رکھو کہ سارے گھر میں روشنی پھیلے ،لیکن تم نے اس کو پیمانے کے نیچے ڈھانپ کر رکھا ہے۔
قرآن کا یہ استعمال ذاتی مطالعے کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے، اور تبلیغ و دعوت کے لیے بھی۔ دونوں صورتوں میں وضو کی کوئی شرط نہیں ہے۔ آدمی باوضو ہو، تب بھی درست ہے، اور آدمی بے وضو ہو، تب بھی درست ہے۔ اگر وضو کی شرط لگائی جائے تو غیر مسلموں کو بطور دعوت قرآن پڑھنے کے لیے دینا عملاً ناممکن ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

قرآن اور بائبل

مستشرقین (Orientalists) کے ایک طبقہ کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے بائبل اور قرآن دونوں کا مطالعہ کیا تو انھوں نے پایا کہ قرآن میں کئی چیزیں، خصوصا نبیوں کے حالات ایسے ہیں جو قرآن اور بائبل میں بظاہر مشترک ہیں۔ چوں کہ بائبل کا زمانہ قرآن سے پہلے کا زمانہ ہے۔ اس لیے ان مستشرقین نے یہ فرض کر لیا کہ قرآن کوئی مستقل کتاب نہیں، بلکہ وہ سابق کتاب بائبل سے ماخوذ ہے۔ایسی رائے رکھنے والے کچھ مستشرقین یہ ہیں:
Abraham Geiger, C C Torrey, Richard Bell, Torr Andre, Karl Ahrens, Wilhem Rodulph
مسلم اہل علم نے جب اس قسم کے مستشرقین کو پڑھا توانھوں نے رد عمل کے طور پر یہ کہنا شروع کیا کہ یہ مستشرقین متعصب ہیں۔ وہ اپنے اس متعصبانہ ذہن کی بنا پر چاہتے ہیں کہ قرآن کا درجہ گھٹائیں اور بائبل کا درجہ بڑھائیں۔ مگر مسلمانوں کا یہ رد عمل بھی اسی طرح خلاف واقعہ تھا، جس طرح مستشرقین کا یہ سمجھنا کہ قرآن صرف ایک ماخوذ کتاب ہے۔
اصل یہ ہے کہ اللہ نے جو انبیاء بھیجے ، وہ سب ایک ہی تعلیم کو لے کر آئے تھے۔ مگر قدیم زمانے میں کسی کلام کو محفوظ کرنے کا قابل اعتماد ذریعہ موجود نہ تھا۔ اس لیے پچھلی کتابیں صحت کے ساتھ محفوظ نہ رہ سکیں۔ اللہ نے ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں قرآن کواتارا۔ یہ گویاپچھلی آسمانی کتابوں کا تصحیح شدہ نسخہ (corrected version) تھا۔ اسی بنا پر قرآن کو مُھَیْمِنْ (المائدۃ 48:) کہا گیا ہے۔ یہی اس معاملے میں حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت بائبل اور قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو قاری کے لیے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ دونوں کے بارے میں منصفانہ رائے قائم کرسکے۔ہم کو چاہیے کہ ہم قرآن کے بارے میں جو رائے قائم کریں، وہ مبنی بر عدل ہو۔ اسی طرح بائبل کے بارے میں جو رائے قائم کریں وہ بھی مبنی بر عدل ہو۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

کل (16ستمبر 2020) کو ایک سلفی ساتھی سے فون پر گفتگو ہوئی۔ انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مولانا وحیدالدین خان صاحب سے جڑنے کے بعد آپ ایک بڑے حلقے سے کٹ گئے۔ پہلے آپ عبودیت کے داعی تھے، ایک مسلم تنظیم کا آپ کو سپورٹ حاصل تھا، آپ لوگوں کا ہر جگہ آناجانا تھا، جس سےلوگوں میں دعوتی بیداری پیدا ہوتی تھی، وغیرہ وغیرہ۔
میں نے کہا کہ بات افسوس کرنے کی یا کسی حلقے سے کٹنے کی نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ اپنی کمی کی اصلاح ہے، اور اتباعِ سُبُل کے بجائے صراطِ مستقیم (الانعام، 6:153)پر قائم رہنا ہے۔ رہا ہمارا دائرہ کار،تو وہ اپنےحقیقی مطلوب کے اعتبار سے بہت وسیع ہوگیا ہے۔ یعنی معرفت کے اعتبار سے ہمارا دائرہ کائناتی ہوگیا ہے، اور دعوت کے اعتبار سے اب وہ عالمی بن گیا ہے۔ اس حقیقت کو جدید دور کی نسبت سے مولانا نے واضح کیا ہے۔اس بات کو جاننے کے بعد ہر اعتبار سے ہمارا تعلق وسیع ہوگیا ہے۔ گویا اس وقت ہم کو مواقع کی لامحدود دنیا میسر ہے۔ یہ اللہ تعالی کا شکر ہے۔ جب کہ آپ جس حلقے کی بات کر رہے ہیں، اس میں معرفت کا عظیم تصور نہیں ہے، اور نہ ہی دعوت کی ذمےداری کا حقیقی منصوبہ ہے۔ یہی وہ کمی تھی ، جس کا ازالہ مطلوب تھا،اور یہ مطلوب ہمیں الرسالہ مشن کی شکل میں ملا ہے۔ لہٰذا ہمارا فیصلہ ہمارے ذاتی تلاش کی نسبت سے تھا، نہ کہ کسی جماعت کی نسبت سے ۔اب جس کے پاس اس بات کی اہمیت نہیں، ان کے ساتھ جڑنا گویا کائناتی معرفت اور عالمی دعوت سے کٹ جانا ہے، اورہم اس کا تحمل نہیں کرسکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات صحیح ہے کہ مولانا اخوانی اور انقلابی ذہن کے نہیں ہیں ،امن کی بات کرتے ہیں۔ ہندوستان کے پس منظر کے اعتبار سے یہ بات ٹھیک ہے۔ میں نے اس بات پر کہا کہ مولانا کا ایک اور حقیقی پہلو ہے، جس کے بارےمیں آپ نہیں جانتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ سلفی حضرات خصوصی طور پر توحید کی بات کرتے ہیں، مگر ہم عرصے سے یہ جانتے ہیں کہ ان کے یہاں توحید کے نام پر صرف فنی بحثیں ہوتی ہیں۔مگر خدا کی عظمت اور اس کی ربوبیت کا اظہار ، جو اِس دور میں بڑے پیمانے پر ہوا ہے، اس کا احساس کسی سلفی کونہیں ہے ۔وہ قدیم بحثوں میں ہی مصروف ہیں، اور ان جدید استدلال اورسائنسی حقائق سے بے خبر ہیں، جن کا تعلق ازدیاد ایمان اور اثبات توحید سے ہے۔ دور جدید میں مولانا نے اللہ تعالی کی عظمت و معرفت کو بطور خاص اپنے مطالعے کا موضوع بنایا ہے،اوراپنی کتابوں اور خطابات میں اس کو واضح کیا ہے۔ مگر آپ حضرات اس بات سے بے خبر ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ایک مرتبہ ایک بڑےسلفی عالم دین نے مولانا سے اختلاف کا سبب بتاتے ہوئے کہا تھا کہ جس شخص نے مسلمانوں کو خذلان (abandoned)میں مبتلا کیا، ہم اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔ مگر انھوں نے یہ نہیں جانا کہ ہم کو اس شخص کا ساتھ دینا چاہیے، جس نے دور جدید میں خدا کی عظمت کا اظہار کیا ہے ،اور اس کے اثبات کے لیے مذہب اور جدید چیلنج اور اس جیسی بہت سی تحریریں لکھی ہے، اسی طرح سیاسی منہج کی جگہ تعبدی منہج کو واضح کیا ہے،اور اس تعلق سے تعبیر کی غلطی جیسی کتاب لکھی۔انہوں نے ایسا کیوں نہیں کہا۔ کیونکہ ان کے پاس حقیقی مسئلہ عبودیت نہیں ہے، بلکہ قومیت حقیقی مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ عظمتِ رب کا نہیں ہے،بلکہ عظمت قوم کا ہے ۔باقی باتیں جن کے بارے میں سلفی حضرات کو اعتراض ہوسکتا ہے،وہ ذیلی باتیں ہیں، حقیقی نہیں۔اس کے بعد بات ختم ہوگئی۔
اس گفتگو سے میرا احساس یہ ہے کہ لوگ مولانا کے بارے میں ادھر ادھر کی بات کرتے ہیں مگر معرفت اور دعوت کو لیکر بات نہیں کرتے۔ صرف اپنے قومی مسائل کو لیکر رائے قائم کرتے ہیں۔ یہ،میرے خیال میں، پچھلی قوموں کی اتباع ہے۔ جب بھی کوئی مصلح حقیقی دین کی طرف بلاتا ہے تو لوگ اپنے قومی مفادات کی نسبت سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں، جب قوم کی پالیسیوں پر تنقید ہوتی ہے تو لوگ اس کو قوم کی بے عزتی سمجھتے ہیں، اور اس طریقے سے توحید اور دعوت کے بجائے قوم ان کا موضوع بن جاتا ہے۔(حافظ سید اقبال احمد عمری عمرآباد، تامل ناڈو)
اضافہ
اس مکتوب سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ الرسالہ اپنے قاری کے اندر کس قسم کا ذہن بنا تا ہے۔ قرآن میں آیا ہے :کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِی شَأْنٍ (55:29) ۔ یعنی ہر دن وہ ایک شان میں ہے ۔ اس آیت کا تقاضا ہے کہ ہر دن مومن کے لیے خدا کی عظمت کا ایک نیاپہلو دریافت ہو۔ اس وقت مومن یہ کہہ پڑے کہ یا للعجب! خدا کی عظمت کا ایک نیاپہلو جو اب تک میرے لیے نہیں کھلا تھا، آج وہ کھلا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خواتین میں دعوت

عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کام کے لیے کسی شخصیت کو اپنا ماڈل بنالیتے ہیں۔ مثلاً کوئی ابن تیمیہ کو اپنا ماڈل بنالیتا ہے اور کوئی غزالی کو اپنا ماڈل سمجھ لیتا ہے۔ اس کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے ماڈل کو معیاری ماڈل سمجھ لیتے ہیں۔پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا گول ان کے معیار کے مطابق اچیویبل (achievable) نہیں ہے تو وہ ناامیدی کا شکار ہوجاتے ہیں، اورشعوری یا غیرشعوری طور پر وہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کرسکتے۔
الرسالہ مشن نے اس معاملے میں ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔مز فہمیدہ خان (پیدائش 1964)ایک سیدھی سادی گھریلو خاتون ہیں۔ وہ فیض آباد میں رہتی ہیں،اور سی پی ایس کی ممبر ہیں۔وہ میری کتابوں کا مطالعہ کرتی ہیں، اورمیری تقریریں سنتی ہیں۔ کچھ دنوں کے لیے ان کا دلی آنا ہوا۔اس دوران انھوں نے میری سنڈے کلاسز اٹینڈ کیں۔ یہ ان کی زندگی کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اس کلاس کے بعد ان کو یہ احساس ہوا کہ وہ دعوت کا کام پوری طرح نہیں کر پارہی ہیں۔ ان کے اندر زبردست جذبہ پیدا ہوا کہ انھیں دعوت کے لیے اور کوشش کرنی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اللہ سے بہت زیادہ دعا کی۔اس کے بعدان کے ذہن ایک نیا آئیڈیا آیا۔انھوں نے سی پی ایس کی خواتین ممبرس سے مل کر ایک واٹس ایپ گروپ بنایا، جس میں انھوں  نے الرسالہ مشن کی آئڈیالوجی کے مطابق آپس میں ڈسکشن شروع کیا۔
اس خواتین واٹس ایپ گروپ میں نہ صرف انڈیا بلکہ انڈیا کے باہر کی خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ روزانہ آپس میں دین اور آدابِ زندگی کے تعلق سے پہلے ایک سوال رکھتی ہیں، جو ان کو روزمرہ کی زندگی میں پیش آیا ہو، یا جس پر ان کو clarity نہ ہو۔ پھر اس پر وہ آپس میں ڈسکشن کرتی ہیں۔ یہ ڈسکشن قرآن و حدیث اور الرسالہ کے مضامین پر بیس کرتا ہے، یا ذاتی تجربات پر ۔ اس سے ان کے بہت سے کنفیوزن دور ہوتے ہیں۔ اور دین کے بہت سے نئے نئے گوشے کھلتے ہیں، اور برابر ان کا انٹلکچول ڈیولپمنٹ ہوتا رہتا ہے۔مثلاً ڈاکٹر سفینہ تبسم (سہارن پور)نے یہ تاثر دیا:’’آج میں ڈسکشن میں زیادہ حصہ نہیں لے پائی، مگر سارے میسجز پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ آج کا میرا ٹیک اوے یہ ہے کہ میں اپنی اور اپنی فیملی میں ایجوکیشن اور انٹلکچول ڈیولپمنٹ پر فوکس کروں گی، اور اس کام کو اس طرح آگے بڑھاؤں گی کہ وہ اگلی نسل تک چلتا رہے۔‘‘
مز عارفہ نصیر ( دہلی)لکھتی ہیں:’’میں ہر دن بہت سی نئی باتیں سیکھتی ہوں، اور پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ میں جو کچھ سیکھتی ہوں اس کو پریکٹس میں بھی لا رہی ہوں۔ بعض دفعہ تو مولانا اور آپ سب لوگوں کے لیے اللہ سے رو رو کر دعائیں کرتی ہوں۔‘‘ مز راضیہ خان لکھتی ہیں:’’مولانا صاحب جیسے اسکالر سے اللہ نے لرننگ کا موقع دیا۔ ہر دن اس گروپ کے ذریعے مولانا صاحب کو سنتی یا پڑھتی ہوں۔پھر اس پر ڈسکشن ہوتا ہے، جس سے نئے نئے پوائنٹ سامنے آتے ہیں۔ اس سے ذہن کھلتا ہے، سنبھلنے اور اصلاح کرنے کا موقع ملتا ہے۔ میں نے جب سے یہ گروپ جوائن کیا ہے، میری ٹینشن کم ہوئی ہے۔‘‘ اس ’’سی پی ایس لیڈیزگروپ‘‘ میں پوری دنیا کی سو سے زیادہ خواتین شامل ہیں، جواس کے ذریعےاپنی معرفت کا دائرہ بڑھاتی ہیں، اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں کہ دعوت کے کام کو کیسے آگے بڑھایاجائے۔پھر اس کو اپنے تعلقات والی خواتین کے ساتھ شیئر (share)کرتی ہیں۔
یہ واقعہ جب میں نے سنا تو مجھے ایک حدیثِ رسول یاد آئی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پوری زمین کو میرے لیے، اور میری امت کے لیے مسجد اور پاک بنادیا گیا ہے(لِی وَلِأُمَّتِی مَسْجِدًا وَطَہُورًا)مسند احمد، حدیث نمبر 22137۔ توسیعی اعتبار سے اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب ایسا زمانہ آنے والا ہے، جب کہ میری امت کے لوگ جس طرح مسجد میں آزادی کے ساتھ عبادت کا کام کرتے ہیں، اسی طرح آزادی کے ساتھ دنیا میں ہر جگہ دعوت اور عباد ت کا کام کرسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ کی ورچول دنیا (virtual world)میں بھی، یعنی فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ ۔
سی پی ایس خواتین کا یہ کام بلاشبہ ایک قابلِ تعریف کام ہے۔ اس طرح خواتین موجودہ دور میں دینی مشن کو آگے بڑھاسکتی ہیں۔ میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں یہ سی پی ایس لیڈیز گروپ گلوبل لیول پر دعوت کا بہت بڑا کام کرے، اللہ ان کی کوششوں کو قبول کرے، اور ان کی حفاظت کرے، آمین۔
واپس اوپر جائیں

مقصد کی تلاش

اس عظیم کائنات کو دیکھتے ہی سب سے پہلا سوال جو ایک سنسیر(sincere) انسان کے ذہن میں آتا ہے، وہ یہ کہ اس کا بنانے والا کون ہے اور وہ کون ہے، جو اس عظیم کارخانے کو چلا رہا ہے۔ پچھلے زمانوں میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ بہت سی اَن دیکھی طاقتیںاس کائنات کی مالک ہیں۔ ایک بڑے خدا کے تحت بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا اس کا انتظام کررہے ہیں۔ اب بھی بہت سے لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ مگر علمی دنیا میں عام طورپر اب یہ نظریہ ترک کیا جاچکا ہے۔ آج یہ ایک مردہ نظریہ ہے ،نہ کہ زندہ نظریہ ۔موجودہ زمانے کے وہ لوگ جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں، اور جن کا خیال ہے کہ وہ جدید دور کے انسان ہیں۔ وہ شرک کے بجائے الحاد کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہےکہ کائنات کسی ذی شعور ہستی کی کارفرمائی نہیں ہے، بلکہ ایک اتفاقی حادثے کا نتیجہ ہے، اور جب کوئی واقعہ وجود میں آجائے تو اس کے سبب سے کچھ دوسرے واقعات بھی وجود میں آئیں گے۔ اس طرح اسباب و واقعات کا ایک لمبا سلسلہ قائم ہوجاتا ہے، اور یہی سلسلۂ اسباب ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے۔ اس توجیہہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔ ایک ،اتفاق اور دوسرا، قانونِ علّت (law of causation) ۔
یہ توجیہہ بتاتی ہے کہ اب سے تقریباً دو لاکھ ارب (دو سو ٹریلین) سال پہلے کائنات کا وجود نہ تھا۔ اس وقت ستارے تھے ،اور نہ سیارے، مگر فضا (space) میں مادہ موجود تھا۔ یہ مادہ اس وقت جمی ہوئی ٹھوس حالت میں نہ تھا۔ بلکہ اپنے ابتدائی ذرّے یعنی برقیے (electrons) اور پروٹونوں کی شکل میں پوری فضائے بسیط (vast space) میں یکساں طورپر پھیلا ہوا تھا۔ گویا انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرات کا ایک غبار تھا جس سے کائنات بھری ہوئی تھی۔ اس وقت مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا، اس میں کسی قسم کی حرکت نہ تھی۔ ریاضی کے نقطۂ نگاہ سے یہ توازن ایسا تھا کہ اگر اس میں کوئی ذرا سا بھی خلل(interruption) ڈال دے تو پھر یہ قائم نہیں رہ سکتا، یہ خلل بڑھتا ہی چلا جائے گا۔
اگر اس ابتدائی خلل کو مان لیجیے تو ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد کے تمام واقعات علم ریاضی کے ذریعے ثابت ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ مادے کے اس بادل میں خفیف سا خلل(minutest disruption) واقع ہوا، جیسے کسی حوض کے پانی کو کوئی ہاتھ ڈال کر ہلا دے۔ کائنات کی پرسکون دنیا میں یہ اضطراب کس نے پیدا کیا، اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ لیکن خلل ہوا اور یہ خلل بڑھتا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادہ سمٹ سمٹ کر مختلف جگہوں میں جمع ہونا شروع ہوگیا۔ یہی وہ جمع شدہ مادہ ہے، جن میں سے بعض کو ہم ستارہ، بعض کو سیارہ اور بعض کو نیبولا (nebula) کہتے ہیں۔کائنات کی یہ توجیہہ سائنس کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ توجیہہ نہایت کمزور توجیہہ ہے ، خود سائنس دانوں کو بھی اس پر کبھی شرحِ صدر حاصل نہ ہوسکا۔ یہ توجیہہ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ کائنات کو پہلی بار کس نے حرکت دی۔ مگر اس کے باوجود اٹھیسٹ لوگوں (atheists)کا دعوی ہے کہ انھوں نے کائنات کے محرّکِ اول کو معلوم کرلیا ہے، اور اس محرکِ اول کا نام ان کے نزدیک اتفاق ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب کائنات میں صرف غیر متحرک مادہ تھا، اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی تو یہ عجیب وغریب قسم کا اتفاق کہاں سے وجود میں آگیا، جس نے ساری کائنات کو حرکت دے دی۔ جس واقعہ کے اسباب نہ مادہ کے اندر موجود تھے ،اور نہ مادہ کے باہر۔ وہ واقعہ وجود میں آیا تو کیسے۔ اس توجیہہ کا یہ نہایت دل چسپ تضاد ہے کہ وہ ہر واقعے سے پہلے ایک واقعہ کا موجود ہونا ضروری قرار دیتی ہے، جو بعد کو ظاہر ہونے والے واقعہ کا سبب بن سکے۔ مگر اس توجیہہ کی ابتدا ایک ایسے  واقعے سے ہوتی ہے، جس سے پہلے اس کا سبب موجود نہیں۔ یہی وہ بے بنیاد مفروضہ ہے، جس پر کائنات کی اتفاقی پیدائش کے نظریے کی پوری عمارت کھڑی کردی گئی ہے۔
پھر یہ کائنات اگر محض اتفاق سے وجود میں آئی ہے تو کیا واقعات لازمی طورپر وہی رخ اختیار کرنے پر مجبور تھے، جو انھوں نے اختیار کیا۔ کیا اس کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا تھا۔ کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ ستارے آپس میں ٹکراکر تباہ ہوجائیں۔ مادہ میں حرکت پیدا ہونے کے بعد کیا یہ ضروری تھا کہ یہ محض حرکت نہ رہے، بلکہ ایک ارتقائی حرکت بن جائے، اور حیرت انگیز تسلسل کے ساتھ موجودہ کائنات کو وجود میں لانے کی طرف دوڑنا شروع کردے۔
آخر وہ کون سی منطق تھی، جس نے ستاروں کے وجود میں آتے ہی ان کو لامتناہی خلا میں نہایت باقاعدگی کے ساتھ پھرانا شروع کردیا ۔ پھر وہ کون سی منطق تھی، جس نے کائنات کے ایک بعید ترین گوشہ میں نظامِ شمسی کو وجود دیا۔ پھر وہ کونسی منطق تھی، جس سے ہمارے کرۂ ارض پر وہ عجیب وغریب تبدیلیاں ہوئیں، جن کی وجہ سے یہاں زندگی کا قیام ممکن ہوسکا،اور جن تبدیلیوں کا سراغ آج تک کائنات کی بے شمار دنیاؤں میں سے کسی ایک دنیا میں بھی معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔ پھر وہ کون سی منطق تھی، جو ایک خاص مرحلے پر بے جان مادہ سے جاندار مخلوق پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ کیا اس بات کی کوئی معقول توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ زمین پر زندگی کس طرح اور کیوں وجود میں آئی، اور کس قانون کے تحت مسلسل پیدا ہوتی چلی جارہی ہے۔
پھر وہ کون سی منطق تھی، جس نےکائنات کے ایک چھوٹے سے رقبے میں حیرت انگیز طورپر وہ تمام چیزیں پیدا کردیں، جو ہماری زندگی اور ہمارے تمدن کے لیے درکار تھیں، پھر وہ کون سی منطق ہے، جو ان حالات کو ہمارے لیے باقی رکھے ہوئے ہے۔ کیا محض ایک اتفاق کا پیش آجانا، اس بات کی کافی وجہ تھی کہ یہ سارے واقعات اس قدر حسنِ ترتیب کے ساتھ مسلسل پیش آتے چلے جائیں، اور اربوں اور کھربوں سال تک ان کا تسلسل جاری رہے، اور پھر بھی ان میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔ کیا اس بات کی کوئی واقعی توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ محض اتفاق سے پیش آنے والے واقعےمیں لز وم کی صفت کہاں سے آگئی، اور اتنے عجیب وغریب طریقے پر مسلسل ارتقا کرنے کا رجحان اس میں کہاں سے پیدا ہوگیا۔
یہ اس سوال کا جواب تھا کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی۔ اس کے بعد یہ سوال اٹھا کہ اس کا چلانے والا کون ہے۔ وہ کون ہے، جو اس عظیم کارخانے کو اس قدر منظم طریقے پر حرکت دے رہا ہے۔اس توجیہہ میں جس کو کائنات کا خالق قرار دیاگیاہے، اسی کو کائنات کاحاکم نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یہ توجیہہ عین اپنی ساخت کے اعتبار سے دو خدا چاہتی ہے۔ کیوں کہ حرکتِ اول کی توجیہہ کے لیے تو اتفاق کا نام لیا جاسکتا ہے، مگر اس کے بعد کی مسلسل حرکت کو کسی حال میں بھی اتفاق نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی توجیہہ کے لیے دوسرا خدا تلاش کرنا پڑے گا۔
اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اصولِ تعلیل (principle of causation)پیش کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حرکتِ اول کے بعد کائنات میں علت اور معلول کاایک سلسلہ قائم ہوگیا ، جس کے نتیجے میں ایک کے بعد ایک تمام واقعات پیش آتے چلے جارہےہیں۔ اسی طرح جیسے بچّے بہت سے اینٹیں کھڑی کرکے کنارے کی ایک اینٹ گرا دیتے ہیں تو اس کے بعد کی تمام اینٹیں خود بخود گرتی چلی جاتی ہیں۔ جو واقعہ ظہور میں آتا ہے، اس کا سبب کائنات کے باہر کہیں موجود نہیں ہے، بلکہ ناقابلِ تسخیر قوانین کے تحت حالات ماقبل کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے، اور یہ سابقہ حالات بھی اپنے سے پہلے واقعات کا لازمی نتیجہ تھے۔ اس طرح کائنات میں علّت اور معلول کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہوگیا ہے۔ حتى کہ جس صورت میں تاریخِ عالم کا آغاز ہوا، اس نے آئندہ سلسلۂ واقعات کا قطعی فیصلہ کردیا ہے۔ جب ابتدائی صورت ایک دفعہ متعین ہوگئی تو قدرت صرف ایک ہی طریقے سے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتی تھی۔ گویا کائنات جس روز پیدا ہوئی اس کی آئندہ تاریخ بھی اسی دن متعین ہوچکی ہے۔
اس اصول کو قدرت کا اساسی قانون مقرر کرنا سترہویں صدی کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ چنانچہ یہ تحریک شروع ہوئی کہ تمام کائنات کو ایک مشین ثابت کیا جائے۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یہ تحریک اپنے پورے عروج پر آگئی۔ یہ زمانہ سائنس داں انجینئروں کا تھا، جن کی دلی خواہش تھی کہ قدرت کے مشینی ماڈل بنائے جائیں۔ اسی زمانے میں جرمن ماہر طبیعات ہیلم ہولٹز (Helm Holtz [1821-1894]) نے کہا تھا کہ تمام قدرتی سائنس کا آخری مقصد اپنے آپ کو میکانکس میں منتقل کرلینا ہے۔ اگرچہ اس اصول کے مطابق کائنات کے تمام مظاہر کی تشریح کرنے میںابھی سائنسدانوں کو کامیابی نہیں ہوئی تھی، مگر ان کا یقین تھا کہ کائنات کی تشریح میکانکی پیرائے میں ہوسکتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ صرف تھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے، اور بالآخر تمام عالم ایک مکمل چلتی ہوئی مشین ثابت ہوجائے گا۔
ان باتوں کا انسانی زندگی سے تعلق صاف ظاہر تھا۔ اصولِ تعلیل کی ہر توسیع اور قدرت کی ہر کامیاب میکانکی تشریح نے انسانی اختیار اور ارادےپر یقین کرنا محال بنادیا۔ کیوں کہ اگر یہ اصول تمام قدرت پر حاوی ہے تو زندگی اس سے کیوں مستثنىٰ ہوسکتی ہے۔ اس طرزِ فکر کے نتیجے میں سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے میکانکی فلسفے وجود میں آئے۔ جب یہ دریافت ہوا کہ جاندار خلیہ (living cell) بھی بےجان مادہ کی طرح محض کیمیاوی جوہروں سے بنا ہے تو فوراً سوال پیداہوا کہ وہ خاص اجزاء جن سے ہمارے جسم ودماغ بنےہوئے ہیں، کیوں کر اصولِ تعلیل کے دائرے سے باہر ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ یہ گمان کیا گیا، بلکہ بڑے جوش کے ساتھ دعوی کردیا گیا کہ زندگی بھی ایک خالص مشین ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ نیوٹن ( Isaac Newton [1642-1727]) ، باخ (Johann Sebastian Bach [1685-1750]) اور مائیکل اینجلو (Michelangelo [1475-1564]) کے دماغ کسی پرنٹنگ مشین سے صرف پیچیدگی میں مختلف تھے ،اور ان کا کام صرف یہ تھا کہ بیرونی محرکات کا مکمل جواب دیں۔
مگر سائنس اس سخت اور غیر معتدل قسم کے اصولِ تعلیل(principle of causation) کی اب قائل نہیں ہے۔نظریۂ اضافیت اصول تعلیل کو دھوکے (elusion) کے لفظ سے یاد کرتا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر ہی میں سائنس پر یہ واضح ہوگیا تھا کہ کائنات کے بہت سے مظاہر، بالخصوص روشنی اور قوتِ کشش، میکانکی تشریح کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ یہ بحث ابھی جاری تھی کہ کیا ایسی مشین بنائی جاسکتی ہے، جو نیوٹن کے افکار، باخ کے جذبات اور مائیکل اینجلو کے خیالات کا اعادہ کرسکے۔ مگر سائنس دانوں کو بڑی تیزی سے یقین ہوتا جارہا تھا کہ شمع کی روشنی اور سیب کا گرنا کوئی مشین نہیں دہرا سکتی۔ قدیم سائنس نے بڑے وثوق سے اعلان کیا تھاکہ قدرت صرف ایک ہی راستہ اختیار کرسکتی ہے، جو اول روز سےعلت اور معلول کی مسلسل کڑی کے مطابق ابد تک کے لیے معین ہوچکا ہے۔ مگر بالآخر سائنس کو خود یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کائنات کا ماضی اس قدر اٹل طورپر اس کے مستقبل کا سبب نہیں ہے، جیسا کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا۔ موجودہ معلومات کی روشنی میں سائنس دانوں کی ایک بڑی اکثریت کا اب اس بات پر اتفاق ہے کہ علم کا دریا ہمیں ایک غیر میکانکی حقیقت (non-mechanical reality)کی طرف لیے جارہا ہے۔
کائنات کی پیدائش اور اس کی حرکت کے بارے میں یہ دونوں نظریے جو سائنسی ترقیوں کے ساتھ وجود میں آئے تھے، اب تک یقین کی دولت سے محروم ہیں۔ جدید تحقیقات ان کی بنیاد کو مضبوط نہیں بناتی، بلکہ اور کمزور کردیتی ہے۔ اس طرح گویا سائنس خود ہی اس نظریے کی تردید کررہی ہے، اب انسان دوبارہ اسی منزل پر پہنچ گیا ہے، جس کو چھوڑ کر اس نے اپنا نیا سفر شروع کیا تھا۔
معبود کی تلاش
یہ خالق کی تلاش کا مسئلہ تھا۔اس کے بعد دوسری چیز جو انسان جاننا چاہتا ہے وہ یہ کہ ’’میرا معبود کون ہے‘‘۔ اصل یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میںصریح طورپر ایک خلا(vacuum) محسوس کرتا ہے۔ مگروہ نہیں جانتاکہ وہ اس خلا کو کیسے پر کرے۔ یہی خلا کا احساس ہے جس کو میں نے ’’معبود کی تلاش‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ احساس دو پہلوؤں سے ہوتا ہے۔اپنے وجوداور باہر کی دنیا پر جب ہم غور کرتے ہیں تو دو نہایت شدید جذبات ہمارے اندر پیدا ہوتے ہیں۔پہلا، شکر اور احسان مندی کا اور دوسرا، کمزوری اور عجز کا۔
ہم اپنی زندگی کے جس گوشے میں بھی نظر ڈالتے ہیں، ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہماری زندگی کسی کے احسانات سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر دینے والے کے لیے ہمارے اندر بے پناہ جذبۂ شکر امنڈتا ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ اپنی بہترین عقیدتوں کو اپنے محسن پر قربان کرسکیں۔ یہ تلاش ہمارے لیے محض ایک فلسفیانہ نوعیت کی چیز نہیں ہے ،بلکہ ہماری نفسیات سے اس کاگہرا تعلق ہے۔ یہ سوال محض ایک خارجی مسئلہ کو حل کرنے کا سوال نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہماری ایک اندرونی طلب ہے، اور ہمارا پورا وجود اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے۔
غور کیجیے، کیاکوئی سنجیدہ آدمی اس حقیقت کو نظر انداز کرسکتا ہے کہ وہ کائنات میں ایک مستقل واقعے کی حیثیت سے موجود ہے ۔حالاں کہ اس میں اس کی اپنی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسے جسم میں پارہا ہے، جس سے بہتر جسم کا وہ تصور نہیں کرسکتا۔ حالاں کہ اس جسم کو اس نے خود نہیں بنایا ہے۔ اس کو ایسی عجیب وغریب قسم کی ذہنی قوتیں حاصل ہیں، جو کسی بھی دوسرے جاندار کو نہیں دی گئی ہیں۔ حالاں کہ ان قوتوں کو حاصل کرنے کے لیے اس نے کچھ بھی نہیں کیا ہے، اور نہ وہ کچھ کرسکتا ہے۔ ہمارا وجود ذاتی نہیں ہے، بلکہ عطیہ ہے۔ یہ عطیہ کس نے دیا ہے، انسانی فطرت اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے اس عظیم محسن کا شکر ادا کرسکے۔
پھر اپنے جسم کے باہر دیکھیے۔ دنیا میں ہم اس حال میں پیداہوتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ ہم کو کائنات کے اوپر کوئی اختیار حاصل ہے کہ ہم اس کو اپنی ضرورت کے مطابق بنا سکیں۔ ہماری ہزاروں ضرورتیں ہیں۔ مگر کسی ایک ضرورت کو بھی ہم خود سے پورا نہیں کرسکتے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں حیرت انگیز طور پر ہماری تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کیا گیاہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اپنے تمام سازوسامان کے ساتھ اس بات کی منتظر ہے کہ انسان پیدا ہو، اور وہ اس کی خدمت میں لگ جائے۔
مثال کے طورپر آواز کو لیجیے، جس کے ذریعے سے ہم اپنا خیال دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہمارے ذہن میں پیداہونے والے خیالات زبان کا ارتعاش (wave)بن کر دوسرے کے کان تک پہنچیں اور وہ ان کو قابلِ فہم آوازوں کی صورت میں سن سکے۔ اس کے لیے ہمارے اندر اور باہر بے شمار انتظامات کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک وہ درمیانی واسطہ ہے ،جس کو ہم ہوا کہتے ہیں۔ ہم جو الفاظ بولتے ہیں، وہ بے آواز لہروں (waves)کی صورت میں ہوا پر اسی طرح سفر کرتے ہیں، جس طرح پانی کی سطح پر موجیں پیدا ہوتی ہیں، اور بڑھتی چلی جاتی ہیں۔میرے منھ سے نکلی ہوئی آواز کے آپ تک پہنچنے کے لیے درمیان میں ہوا کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ درمیانی واسطہ نہ ہو تو آپ میرے ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھیں گے، مگر میری آواز نہ سنیں گے۔ مثال کے طورپر شیشے کےایک بند برتن کے اندر برقی گھنٹی رکھ کر اسے بجایا جائےتو اس کی آواز صاف سنائی دے گی۔ لیکن اگر اس کے اندر کی ہوا کو پوری طرح نکال دیاجائے ،اور اس کے بعد گھنٹی بجائی جائے تو آپ شیشہ کے اندر گھنٹی کو بجتا ہوا دیکھیں گے، مگر اس کی آواز بالکل سنائی نہ دے گی۔ کیوں کہ گھنٹی کے بجنے سے جو لہر پیدا ہوتی ہے، اس کو آپ کے کانوں تک پہنچانے کے لیے شیشے کے برتن میں ہوا موجود نہیں ہے۔
مگر یہ ذریعہ بھی ناکافی ہے۔ کیوں کہ ہوا کے ذریعے ہماری آواز پانچ سکنڈ میں صرف ایک میل کا فاصلہ طےکرتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہوا کا ذریعہ صرف قریبی ماحول میں گفتگو کے لیے کار آمد ہے، وہ ہماری آواز کو دور تک نہیں پہنچا سکتا۔ اگر آواز صرف ہوا کے ذریعہ پھیلتی تو اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ممکن نہ ہوتا۔ مگر قدرت نے اس کے لیے ہمیں ایک اور انتہائی تیز رفتار ذریعہ مہیا کیا ہے۔ یہ روشنی یا برقی رو ہے جس کی رفتار ایک سکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل ہے۔ وائرلیس(wireless)پیغامات میں اسی طریقے سے کام لیا جاتاہے۔ جب کوئی اسپیکر ریڈیو اسٹیشن میں لگے ہوئے مائکروفون کے قریب آواز نکالتا ہے تو مائکروفون آواز کو جذب کرکے اسے برقی رومیں تبدیل کردیتاہے، اور تار کے ذریعے اسی کو ٹرانس میٹر تک بھیج دیتاہے۔ٹرانسمیٹرآواز کے پہنچتے ہی فضا میں بہت ہی طاقت ور لہریں پیدا کردیتا ہے۔ اس طرح پانچ سکنڈ میں ایک میل چلنے والی آواز برقی لہروں میں تبدیل ہو کر ایک سکنڈ میں دو لاکھ میل کی رفتار حاصل کرلیتی ہے، اور لمحے بھر میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ یہی وائرلیس موجیں (wireless waves)ہیں، جن کو ہمارے ریڈیوسٹ کی آواز گیر مشین قبول کرکے بلند آواز میں ان کا اعادہ کردیتی ہے، اور پھر ہزاروں میل دور بولی ہوئی آواز کو ہم کسی تاخیر کے بغیر سننے لگتے ہیں۔اسی کی ایک ترقی یافتہ شکل موجودہ دور میں موبائل اور انٹرنیٹ کا سسٹم ہے۔ یہ ان بے شمار انتظامات میں سے ایک ہے ،جس کو میں نے بیان نہیں کیا ہے، بلکہ اس کا صرف نام لیا ہے۔ اگر اس کا اور دوسری چیزوں کا تفصیلی ذکر کیا جائے تو اس کے لیے کروروں صفحے درکار ہوں گے، اور پھر بھی ان کا بیان ختم نہ ہوگا۔
یہ عطیات جن سے ہر آن آدمی فائدہ اٹھارہا ہے، اور جن کے بغیر اس زمین پر انسانی زندگی اور تمدن کا کوئی تصور نہیںکیا جاسکتا۔ انسان جاننا چاہتا ہے کہ یہ سب کس نے اس کے لیے مہیا کیا ہے۔ ہر آن جب وہ کسی نعمت سے دوچار ہوتاہے تو اس کے دل میں بے پناہ جذبۂ شکر امنڈتا ہے، اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے محسن کو پائے اور اپنے آپ کو اس کے قدموں میں ڈال دے۔ محسن کے احسانات کو ماننا، اس کو اپنے دل کی گہرائیوں میں جگہ دینا، اور اس کی خدمت میں اپنے بہترین جذبات کو نذر کرنا یہ انسانی فطرت کا شریف ترین جذبہ ہے۔ ہر آدمی جو اپنی زندگی اورکائنات پر غور کرتاہے، اس کے اندر نہایت شدت سے یہ جذبہ ابھرتا ہے۔ پھر کیا اس جذبے کا کوئی جواب نہیں۔ کیا انسان اس کائنات کے اندر ایک یتیم بچہ ہے، جس کے اندر امنڈتے ہوئے جذبات محبت کی تسکین کے لیے کوئی ہستی موجود نہ ہو۔ کیا یہ ایک ایسی کائنات ہے، جہاں احسانات ہیں مگر محسن کا پتہ نہیں۔ جہاں جذبہ ہے، مگر جذبے کی تسکین کا کوئی ذریعہ نہیں۔
یہ معبود کی تلاش کا ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کے حالات فطری طورپر تقاضا کرتےہیں کہ کائنات کے اندر اس کا کوئی سہارا ہو۔ اگر ہم آنکھ کھول کر دیکھیں تو ہم اس دنیا میں ایک انتہائی عاجز اور بے بس مخلوق ہیں۔ ذرا اس اسپیس کا تصور کیجیے جس میںہماری یہ زمین سورج کے گرد چکر لگارہی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ زمین کی گولائی تقریباً 25 ہزار میل ہے۔ اور وہ ناچتے ہوئے لٹو کی مانند اپنے محور پر مسلسل اس طرح گھوم رہی ہے کہ ہر 24 گھنٹے میں ایک چکر پورا ہوجاتا ہے۔ گویا اس کی رفتار تقریباً ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے۔ اسی کے ساتھ وہ سورج کے چاروں طرف اٹھارہ کرور ساٹھ لاکھ میل کے لمبے دائرہ میں نہایت تیزی سے دوڑ رہی ہے۔
اتھاہ اسپیس میں اس قدر تیز دوڑتی ہوئی زمین پر ہمارا و جود قائم رکھنے کے لیے زمین کی رفتار کو ایک خاص اندازے کے مطابق رکھا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زمین کے اوپر انسان کی حالت ان کنکریوں کی مانند ہوجائے، جو کسی تیزی سے گھومتے ہوئے پہیے پر رکھ دیے گئے ہوں۔ اسی کے ساتھ مزید انتظام یہ ہے کہ زمین کی کشش ہم کو کھینچے ہوئے ہے، اور اوپر سے ہوا کا زبردست دباؤ پڑتا ہے۔ ہوا کے ذریعے جو دباؤ پڑرہا ہے ،وہ جسم کے ہر مربع انچ پر پندرہ پونڈ تک معلوم کیاگیا ہے، یعنی ایک اوسط آدمی کے سارے جسم پر تقریباً 280 من کا دباؤ۔ ان حیرت انگیز انتظامات نے ہم کو خلا میں مسلسل دوڑتی ہوئی زمین کے چاروں طرف قائم کر رکھا ہے۔
پھر ذرا سورج پر غور کیجیے۔ سورج کی جسامت آٹھ لاکھ 65 ہزار میل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری زمین سے دس لاکھ گنا بڑا ہے۔ یہ سورج آگ کا دہکتاہوا سمندر ہے، جس کے قریب کوئی بھی چیز ٹھوس حالت میں نہیں رہ سکتی۔ زمین اور سورج کے درمیان اس وقت تقریباً ساڑھے نو کرور میل کا فاصلہ ہے، اگر اس کے بجائے وہ اس کے نصف فاصلہ پر ہو تو سورج کی گرمی سے چیزیں جلنے لگیں، اور اگر وہ چاند کی جگہ یعنی دو لاکھ چالیس ہزار میل کے فاصلے پر آجائے تو زمین پگھل کر بخارات میں تبدیل ہوجائے۔ یہی سورج ہے، جس سے زمین پر زندگی کے تمام مظاہر قائم ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس کو ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے۔ اگر وہ دور چلا جائے تو زمین برف کی طرح جم جائے، اور قریب آجائے تو ہم سب لوگ جل بھن کر خاک ہوجائیں۔
پھر ذرا اس کائنات کی وسعت کو دیکھیے، اور اس قوتِ کشش پر غور کیجیے، جو اس عظیم کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ کائنات ایک بے انتہا وسیع کارخانہ ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ ماہرینِ فلکیات کے نزدیک یہ ہے کہ روشنی جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ ہے۔ اس کو کائنات کے گرد ایک چکر طے کرنے میں کئی ارب برس درکار ہوں گے۔ یہ نظام شمسی جس کے اندر ہماری زمین ہے، بظاہر بہت بڑا معلوم ہوتا ہے، مگر پوری کائنات کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ کائنات میں اس سے بہت بڑے بڑے بے شمار ستارے لامحدود وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں بہت سے ستارےاتنے بڑے ہیں کہ ہمارا پورا نظام شمسی اس کے اوپرایک چھوٹے بال کی طرح رکھا جاسکتا ہے۔ جو قوتِ کشش ان بے شمار دنیاؤں کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کی عظمت کا تصور اس سے کیجیے کہ سورج جس بے پناہ طاقت سے زمین کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے، اور اس کی وسیع ترین فضا میں گر کر برباد ہو جانے سے روکتا ہے، یہ غیر مرئی طاقت اس قدر قوی ہے کہ اگر اس مقصد کے لیے کسی مادی شے سے زمین کو باندھنا پڑتا تو جس طرح گھاس کی پتیاں زمین کو ڈھانکے ہوئے ہیں،اسی طرح دھاتی تاروں سے کرۂ ارض ڈھک جاتا۔
ہماری زندگی بالکلیہ ایسی طاقتوں کے رحم وکرم پر ہے، جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ انسان کی زندگی کے لیے دنیا میں جو انتظامات ہیں، اور جن کی موجودگی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا، وہ انتہائی اعلی پیمانے پر ہورہے ہیں۔ ان کو وجود میں لانے کے لیے اتنی غیر معمولی قوت تصرف درکار ہے کہ انسان خود سے انھیں وجود میں لانے کا تصور نہیں کرسکتا۔ موجودات کے لیے جو طریقِ عمل مقرر کیا گیا ہے، اس کا مقرر کرنا تو درکنار اس پر کنٹرول کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔وہ دیکھتا ہے کہ اگر کائنات کی غیر معمولی قوتیں میرے ساتھ ہم آہنگی نہ کریں تو میں زمین پر ٹھہر بھی نہیں سکتا، اس کے اوپر ایک متمدن زندگی کی تعمیر تو بہت دور کی بات ہے۔
ایسی ایک کائنات کے اندر جب انسان اپنے حقیر وجود کو دیکھتاہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے بھی زیادہ بے بس محسوس کرنے لگتاہے، جتنا کہ سمندر کی موجوں کے درمیان ایک چیونٹی اپنے آپ کو بچانے کی جدوجہد کررہی ہو۔ وہ بے اختیار چاہتا ہے کہ کوئی ہو،جو اس اتھاہ کائنات میں اس کا سہارا بن سکے۔ وہ ایک ایسی ہستی کی پناہ ڈھونڈھنا چاہتاہے، جو کائنات کی قوتوں سے بالا تر ہو، اور جس کی پناہ میں آجانے کے بعد وہ اپنے آپ کو محفوظ ومامون تصور کرسکے۔
اس جذبے کو معبود کی تلاش کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ معبود کی تلاش در اصل ایک فطری جذبہ ہے جس کا مطلب ایک ایسی ہستی کی تلاش ہے،جو آدمی کی محبت اور اس کے اعتماد کا مرکز بن سکے۔ انسان کے اندر تلاش کا یہ جذبہ جو ابھرتا ہے،اس کے اسباب انسانی نفسیات میں بہت گہرائی تک پھیلے ہوئے ہیں، وہ ایک ایسی ہستی کی تلاش میں ہے، جو ساری کائنات کو کنٹرول کرتی ہو۔ اس طلب کا جواب کسی جغرافیائی خطہ میں نہیں مل سکتا۔ یہ چیزیں ایک سماج کی تعمیر میں مدد دے سکتی ہیں۔ مگر وہ انسان کی تلاشِ معبود کے جذبے کی تسکین نہیں بن سکتیں۔ اس کے لیے ایک کائناتی وجود درکار ہے۔ انسان کو اپنی محبتوں کے مرکز کے لیے ایک ایسا وجود چاہیے، جس نے کائنات (universe) کو بنایا ہو۔ اپنے سہارے کے لیے اسے ایک ایسی طاقت کی تلاش ہے، جو کائنات کے اوپر با اختیارحکمراں ہو۔ جب تک انسان ایسے ایک وجود کو نہیں پائے گا، اس کا خلا (vacuum) بدستور باقی رہے گا، کوئی دوسری چیز اسے پُر (fill)کرنے والی نہیں بن سکتی۔
انجام کی تلاش
حقیقت کی تلاش کا تیسرا جزء اپنے انجام کی تلاش ہے۔ آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے، اور کہاں جائے گا۔ وہ اپنے اندر بہت سے حوصلے اور تمنائیں پاتا ہے، وہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ ان کی تسکین کس طرح ہوگی۔ وہ موجودہ محدود زندگی کے مقابلے میں ایک طویل تر زندگی چاہتا ہے، مگر نہیں جانتا کہ وہ اس کو کہاں پائے گا۔ اس کے اندر بہت سے اخلاقی اور انسانی احساسات (feelings) ہیں جو دنیامیں بری طرح پامال کیے جارہے ہیں۔ اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتاہے کہ کیا وہ اپنی پسندیدہ دنیا کو حاصل نہ کرسکے گا۔ یہ سوالات کس طرح انسان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، اور کائنات کا مطالعہ کس طرح اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتاہے، اس موقع پر اس کی تھوڑی سی تفصیل مناسب ہوگی۔
ماہرینِ حیاتیات کا خیال ہے کہ انسان اپنی موجودہ شکل میں تین لاکھ برس سے زمین پر موجود ہے۔ اس کے مقابلے میں کائنات کی عمر بہت زیادہ ہے، یعنی دو لاکھ ارب سال (200 ٹریلین سال)۔ اس سے پہلے کائنات برقی ذرات کے ایک غبار کی شکل میں تھی، پھر اس میں حرکت ہوئی، اور مادہ سمٹ سمٹ کر مختلف جگہوں میں جمع ہونا شروع ہوگیا۔ یہی وہ جمع شدہ مادہ ہے، جس کو ہم ستارے، سیارے ، اور نیبولا(nebula) کہتے ہیں۔ یہ مادی ٹکڑے گیس کے مہیب گولے کی شکل میں نامعلوم مدت تک فضا میں گردش کرتے رہے۔ تقریباً دو ارب سال پہلے ایساہوا کہ کائنات کاکوئی بڑا ستارہ فضا میں سفر کرتا ہوا آفتاب کے قریب آنکلا، جو اس وقت اب سے بہت بڑا تھا۔ جس طرح چاند کی کشش سے سمندر میں اونچی اونچی لہریں اٹھتی ہیں، اسی طرح اس دوسرے ستارے کی کشش سے ہمارے آفتاب پر ایک عظیم طوفان برپا ہوا، زبردست لہریں پیدا ہوئیں، جو رفتہ رفتہ نہایت بلند ہوئیں، اور قبل اس کے کہ وہ ستارہ آفتاب سے دور ہٹنا شروع ہو، اس کی قوتِ کشش اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ آفتاب کی ان زبردست گیسی لہروں کے کچھ حصے ٹوٹ کر ایک جھٹکے کے ساتھ دور فضا میں نکل گئے۔ یہی بعد کو ٹھنڈے ہو کر نظام شمسی میں سورج کے گرد چکر لگانے والے اجسام (objects) بنے۔ اس وقت یہ سب ٹکڑے سورج کے گرد گھوم رہےہیں، اور ان ہی میں سے ایک ہماری زمین ہے۔
زمین ابتدا میں ایک شعلے کی حالت میں سورج کے گرد گھوم رہی تھی۔ مگر پھر فضا میں مسلسل حرارت خارج کرنے کی وجہ سے ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی، یہ عمل کروروں برس ہوتا رہا یہاں تک کہ وہ بالکل سرد ہوگئی۔ مگر سورج کی گرمی اب بھی اس پر پڑ رہی تھی، جس کی وجہ سے بخارات اٹھنا شروع ہوئے، اور گھٹاؤں کی شکل میں اس کی فضا کے اوپر چھاگئے۔ پھر یہ بادل برسنا شروع ہوئے اور ساری زمین پانی سے بھر گئی۔ زمین کا اوپری حصہ اگرچہ ٹھنڈا ہوگیا تھا، مگر اس کا اندرونی حصہ اب بھی گرم تھا، جس کا نتیجہ یہ ہواکہ زمین سکڑنے لگی۔ اس کی وجہ سے زمین کے اندر کی گرم گیسوں پر دباؤ پڑا، اور وہ باہر نکلنے کے لیے بے قرار ہوگئیں۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد زمین پھٹنے لگی۔ جگہ جگہ بڑے بڑے شگاف پڑ گئے، اس طرح بحری طوفانوں، خوفناک زلزلوں اور آتش فشاں دھماکوں میں ہزاروں سال گزر گئے۔ ان ہی زلزلوں سے زمین کا کچھ حصہ اوپر ابھر آیا اور کچھ حصہ دب گیا۔ دبے ہوئے حصوں میں پانی بھر گیا اور وہ سمندر کہلائے، اور ابھرے ہوئے حصوں نے براعظم کی صورت اختیار کی۔ بعض اوقات یہ ابھار اس طرح واقع ہوا کہ بڑی بڑی اونچی باڑھیں سی بن گئیں، یہ دنیا کے پہلے پہاڑ تھے۔ماہرینِ ارضیات کا خیال ہے کہ ایک ارب 23 کرورسال ہوئے، جب پہلی بار زمین پر زندگی پیدا ہوئی۔ یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے، جو پانی کے کنارے وجود میں آئے۔ اس کے بعد مختلف قسم کے جانور پیدا ہوتے اور مرتے رہے۔ کئی ہزار سال تک زمین پر صرف جانور رہے۔ اس کے بعد سمندری پودے نمودار ہوئے اور خشکی پر بھی گھاس اُگنا شروع ہوئی۔ اس طرح لمبی مدت تک بے شمار واقعات ظہور میں آتے رہے، یہاں تک کہ انسانی زندگی کے لیے حالات سازگار ہوئے اور زمین پر انسان پیداہوا۔
اس نظریے کے مطابق، انسان کی ابتدا پچھلے تین لاکھ سال سے ہوئی ہے۔ یہ مدت بہت ہی کم ہے۔ وقت کے جو فاصلے کائنات نے طے کیے ہیں، ان کے مقابلے میں انسانی تاریخ پلک جھپکنے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔پھر اگر انسانیت کی اکائی کو لیجیے تو معلوم ہوگا کہ ایک انسان کی عمر کا اوسط سو سال سے بھی کم ہے۔ ایک طرف اس واقعے کو سامنے رکھیے، اور پھر اس حقیقت پر غور کیجیے کہ کائنات میںانسان سے بہتر کوئی وجود معلوم نہیں کیا جا سکا ہے۔ زمین وآسمان کی اربوں اور کھربوں سال کی گردش کے بعد جو بہترین مخلوق اس کائنات کے اندر وجود میں آئی ہے وہ انسان ہے۔مگر یہ حیرت انگیز انسان جو ساری دنیا پر فوقیت رکھتا ہے، جو تمام موجودات میں سب سے افضل ہے ،اس کی زندگی چند سال سے زیادہ نہیں۔ ہمارا وجود جن مادی اجزاء سے مرکب ہے، ان کی عمر تو اربوں اور کھربوں سال ہو، اور وہ ہمارے مرنے کے بعد بھی باقی رہ جائیں۔ مگر ان مادی اجزاء کی یکجائی سے جو اعلی ترین وجود بنتا ہے، وہ صرف سو برس زندہ رہے۔ جو کائنات کا حاصل (finest product) ہے ،وہ کائنات سے بھی کم عمر رکھتا ہے۔ تاریخ کے طویل ترین دور میں بے شمار واقعات کیا صرف اس لیے جمع ہوئے تھے کہ ایک انسان کو چند دنوں کے لیے پیدا کرکے ختم کردیاجائے۔
زمین پر آج جتنے انسان پائے جاتے ہیں ،اگر ان میں کا ہر آدمی چھ فٹ لمبا، ڈھائی فٹ چوڑا اور ایک فٹ موٹا ہو تو اس پوری آبادی کو بہ آسانی ایک ایسے صندوق میں بند کیا جاسکتا ہے، جو طول وعرض اور بلندی میںایک میل ہو۔ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے، مگر حقیقت یہی ہے۔ پھر اگر اس صندوق کو کسی سمندر کے کنارے لے جاکر ایک ہلکا سا دھکا دے دیں تو یہ صندوق پانی کی گہرائی میں جاگرے گا۔ صدیاں گزر جائیں گی، انسان کی نسل اپنے کفن میں لپٹی ہوئی ہمیشہ کے لیے پڑی رہے گی، دنیا کے ذہن سے یہ بھی محو ہوجائےگا کہ یہاں کبھی انسان کی قسم کی کوئی نسل آباد تھی۔ سمندر کی سطح پر اسی طرح بدستور طوفان آتے رہیں گے، سورج اسی طرح چمکتا رہے گا، کرۂ ارض اپنے محور پر بدستور چکر کرتا رہے گا، کائنات کی لامحدود وسعتوں میں پھیلی ہوئی بے شمار دنیائیں اتنے بڑے حادثے کو ایک معمولی واقعہ سے زیادہ اہمیت نہ دیں گی۔ کئی صدیوں کے بعد ایک اونچا سا مٹی کا ڈھیر زبان حال سے بتائے گا کہ یہ انسانی نسل کی قبر ہے، جہاں وہ صدیوں پہلے ایک چھوٹے سے صندوق میں دفن کی گئی تھی۔
کیا انسان کی قیمت بس اسی قدر ہے، مادہ کو کوٹیے، پیٹیے، جلایئے، کچھ بھی کیجیے، وہ ختم نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ مگر انسان جو مادہ سے برتر مخلوق ہے، کیا اس کے لیے بقا نہیں۔ یہ زندگی جو ساری کائنات کا خلاصہ ہے، کیا وہ اتنی بے حقیقت ہے کہ اتنی آسانی سے اسے ختم کیا جاسکتاہے۔ کیا انسانی زندگی کا منتہا (culmination) بس یہی ہے کہ وہ کائنات میں اپنے ننھے سے وطن میں چند دنوں کے لیے پیدا ہو، اور پھر فنا ہو کر رہ جائے۔ تمام انسانی علم اور ہماری کامرانیوں کے سارے واقعات ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں، اور کائنات اسی طرح باقی رہ جائے گویا انسانی نسل کی اس کے نزدیک کوئی حقیقت ہی نہیں تھی۔
اس سلسلے میں دوسری چیز جو صریح طورپر محسوس ہوتی ہے، وہ یہ کہ اگر زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے تو یہ ایک ایسی زندگی ہے، جس میں ہماری امنگوں کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ ہر انسان لامحدود مدت تک زندہ رہنا چاہتا ہے، کسی کو بھی موت پسند نہیں، مگر اس دنیامیں ہر پیدا ہونے والا جانتا ہے کہ وہ ایسی زندگی سے محروم ہے۔ آدمی خوشی حاصل کرنا چاہتا ہے، ہر آدمی کی یہ خواہش ہے کہ وہ دکھ درد اور ہر قسم کی تکلیفوں سے محفوظ رہ کر زندگی گزارے۔ مگر حقیقی معنوں میں کیا کوئی شخص بھی ایسی زندگی حاصل کرسکتاہے۔ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کو اپنے حوصلوں کی تکمیل کا آخری حد تک موقع ملے، وہ اپنی ساری تمناؤں کو عملی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر اس محدود دنیا میں وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ ہم جو کچھ چاہتےہیں، یہ کائنات اس کے لیے بالکل محدود معلوم ہوتی ہے، وہ ہر چند قدم کے بعد ہمارا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے، کائنات صرف ایک حد تک ہمارا ساتھ دیتی ہے، اس کے بعد ہم کو مایوس اور ناکام لوٹا دیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا انسان غلطی سے ایک ایسی کائنات میں بھٹک کر آگیا ہے، جو دراصل اس کے لیے نہیں بنائی گئی تھی، اور جو بظاہر زندگی اور اس کے متعلقات سے بالکل بے پروا ہے۔ کیا ہمارے تمام جذبات وخیالات اور ہماری تمام خواہشیں غیر حقیقی ہیں، جن کا واقعی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے تمام بہترین تخیلات کائنات کے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں، اور ہمارے ذہنوں میں بالکل الل ٹپ طریقے سے پیدا ہوگئے ہیں۔ وہ تمام احساسات جن کو لے کر انسانی نسل پچھلے ہزاروں سال سے پیدا ہورہی ہے، اور جن کو اپنے سینے میں لیے ہوئے وہ اس حال میں دفن ہوجاتی ہے کہ وہ انھیں حاصل نہ کرسکی، کیا ان احساسات کی کوئی منزل نہیں۔ کیا وہ انسانوں کے ذہن میں بس یونہی پیدا ہورہے ہیں، جن کے لیے نہ تو ماضی میں کوئی بنیاد موجود ہے، اور نہ مستقبل میں ان کا کوئی مقام ہے۔
ساری کائنات میں صرف انسان ایسا وجود ہے جو کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے اور اپنے آئندہ حالات کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض جانور مثلاً چیونٹیاں خوراک جمع کرتی ہیں، یا بیا (Baya) گھونسلے بناتا ہے۔ مگران کا یہ عمل غیر شعوری طورپر محض عادتاً ہوتاہے۔ان کی عقل اس کا فیصلہ نہیں کرتی کہ انھیں خوراک جمع کرکے رکھنا چاہیے تاکہ کل ان کے کام آسکےیا ایسا گھر بنانا چاہیے ،جو موسموں کے ردو بدل میں تکلیف سے بچائے۔ انسان اور دوسری مخلوقات کا یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ انسان کو تمام دوسری چیزوں سے زیادہ موقع ملنا چاہیے، جانوروں کے لیے زندگی صرف آج کی زندگی ہے، وہ زندگی کا کوئی کَل نہیں رکھتے، کیا اسی طرح انسانی زندگی کا بھی کوئی کل نہیں ہے۔ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے۔ کَل کا تصور جوانسان میں پایا جاتاہے، اس کا صریح تقاضا ہے کہ انسان کی زندگی اس سے کہیں زیادہ بڑی ہو جتنی آج اسے حاصل ہے۔ انسان ’’کل‘‘ چاہتا ہے مگر اس کو صرف ’’آج‘‘ دیا گیاہے۔
اسی طرح جب ہم سماجی زندگی کا مطالعہ کرتےہیں تو ہم کو ایک خلا(vacuum)کا زبردست احساس ہوتا ہے۔ ایک طرف مادی دنیا ہے، جو اپنی جگہ پر بالکل مکمل نظر آتی ہے۔ وہ ایک متعین قانون میں جکڑی ہوئی ہے، اوراس کی ہر چیز اپنے مقرر راستے پر چلی جارہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مادی دنیا ویسی ہی ہے، جیسی کہ اسےہونا چاہیے مگر انسانی دنیا کا حال اس سے مختلف ہے۔ یہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے جیسا کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔
ہم صریحی طورپر دیکھتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم کرتاہے،اور دونوں اس حال میں مرجاتے ہیں کہ ایک ظالم ہوتا ہے، اور دوسرا مظلوم۔ کیا ظالم کو اس کے ظلم کی سزا اور مظلوم کو اس کی مظلومیت کا بدلہ دیے بغیر دونوں کی زندگی کو مکمل کہا جاسکتاہے۔ایک شخص سچ بولتا ہے اور حق داروں کو ان کے حقوق ادا کرتاہے، جس کے نتیجے میں اس کی زندگی مشکل کی زندگی بن جاتی ہے، دوسرا شخص جھوٹ اور فریب سے کام لیتا ہے، اور لوگوں کو اکسپلائٹ کرتاہے۔اس کے نتیجے میں اس کی زندگی نہایت عیش وعشرت کی زندگی بن جاتی ہے۔ اگر یہ دنیااسی حال میں ختم ہوجائے تو کیا دونوں انسانوں کے اس مختلف انجام کی کوئی توجیہہ کی جاسکتی ہے۔ ایک قوم دوسری قوم پر ڈاکہ ڈالتی ہے، اور اس کے وسائل وذرائع پر قبضہ کرلیتی ہے۔ اس کے باوجود دنیامیں وہی قوم نیک نام رہتی ہے۔ کیوں کہ اس کے پاس نشر واشاعت کے ذرائع ہیں،اور دبی ہوئی قوم کی حالت سے دنیا نا واقف رہتی ہے۔ کیوں کہ اس کی آہ کےلیے دنیا کے کانوں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں، کیا ان دونوں کی صحیح حیثیت کبھی ظاہر نہیں ہوگی۔
دو اشخاص یا دو قوموں میں ایک مسئلے پر اختلاف ہوتا ہے، اور زبردست کش مکش تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ دونوں اپنے آپ کو برسرحق کہتےہیں،اور ایک دوسرے کو انتہائی بُرا ثابت کرتے ہیں۔ مگر دنیا میں ان کے مقدمے کا فیصلہ نہیںہوتا، کیا ایسی کوئی عدالت نہیں ہے، جو ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرسکے۔موجودہ دور کو ایٹمی دور کہاجاتاہے۔ لیکن اگر اس کو خود سری کا دور کہاجائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ آج کا انسان صرف اپنی رائے اور خواہش پر چلنا چاہتا ہے، خواہ اس کی رائے اور خواہش کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو۔ ہر شخص غلط کار ہے،مگر ہر شخص پوری قوت کے ساتھ آوازلگا کر اپنے کو صحیح ثابت کررہا ہے۔ اخبارات میں لیڈروں اور حکمرانوں کے بیانات دیکھیے۔ ہر ایک انتہائی جسارت کے ساتھ اپنے ظلم کو عین انصاف اور اپنی غلط کاریوں کو عین حق ثابت کرتاہوا نظر آئے گا۔ کیا اس فریب کا پردہ کبھی چاک ہونے والا نہیں ہے۔
یہ صورتِ حال واضح طورپر ظاہر کررہی ہے کہ یہ دنیا نامکمل ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے ایک ایسی دنیا چاہیے، جہاں ہر ایک کو اس کا صحیح مقام مل سکے۔مادی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کوئی خلا ہے ،اس کو پُر کرنے کے اسباب موجود ہیں۔ مادی دنیا میں کہیں کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا میں ایک زبردست خلا ہے۔ جس قدرت نے مادّی دنیا کو مکمل حالت میں ترقی دی ہے، کیا اس کے پاس انسانی دنیا کا خلا پر کرنے کا کوئی سامان نہیں ۔ ہمارا احساس بعض افعال کو اچھا اور بعض کو بُرا سمجھتاہے۔ہم کچھ باتوں کے متعلق چاہتے ہیں کہ اس کو ہونا چاہیے، اور کچھ باتوں کے متعلق چاہتےہیں کہ اس کو نہیں ہونا چاہیے۔ مگر ہماری فطری خواہش کے علی الرّغم وہ سب کچھ یہاں ہورہا ہے، جس کو انسانی فطرت برا سمجھتی ہے۔ انسان کے اندر اس طرح کے احساس کی موجودگی یہ معنی رکھتی ہے کہ کائنات کی تعمیر حق پر ہوئی ہے۔ یہاں باطل کے بجائے حق کو غالب آنا چاہیے۔ پھر کیا حق ظاہر نہیںہوگا۔ جو چیز مادی دنیا میں پوری ہورہی ہے، کیا وہ انسانی دنیا میں پوری نہیں ہوگی۔
یہی وہ سوالات ہیں، جن کے مجموعے کو میں نے اوپرانسانیت کے ’’ انجام کی تلاش‘‘ کہا ہے۔ ایک شخص جب ان حالات کو دیکھتاہے تو وہ سخت بے چینی میں مبتلا ہوجاتاہے۔ اس کے اندر نہایت شدت سے یہ احساس ابھرتا ہے کہ زندگی اگر یہی ہے، جو اس وقت نظر آرہی ہے تو یہ کس قدر لغو زندگی ہے۔ وہ ایک طرف دیکھتا ہے کہ انسانی زندگی کے لیے کائنات میں اس قدر اہتمام کیا گیا ہے۔ گویا سب کچھ صرف اسی کے لیےہے، دوسری طرف انسان کی زندگی اس قدر مختصر اور اتنی ناکام ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس سوال کے سلسلے میں آج لوگوں کا رجحان عام طور پر یہ ہے کہ اس قسم کے جھنجھٹ میں پڑنا فضول ہے۔ یہ سب فلسفیانہ سوالات ہیں، اور حقیقت پسندی یہ ہے کہ زندگی کا جو لمحہ تمھیں حاصل ہے اس کو پرمسرت بنانے کی کوشش کرو۔ آئندہ کیا ہوگا یا جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صحیح ہے یا غلط، اس کی فکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
اس جواب کے بارے میں کم از کم بات جو کہی جاسکتی ہے، وہ یہ کہ جو لوگ اس انداز میں سوچتے ہیں، انھوں نے ابھی انسانیت کے مقام کو نہیں پہچانا، وہ مجاز (illusion)کو حقیقت سمجھ لینا چاہتے ہیں۔ واقعات انھیں ابدی زندگی کا راز معلوم کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ مگر وہ چند روزہ زندگی پر قانع ہوگئے ہیں۔ انسانی نفسیات کا تقاضا ہے کہ اپنی امنگوں اور حوصلوں کی تکمیل کے لیے ایک وسیع تر دنیا کی تلاش کرے، مگر نادان انسان روشنی کے بجائے اس کے سایے (shadow) کو کافی سمجھ رہے ہیں۔ کائنات پکار رہی ہے کہ یہ دنیا تمہارے لیے نامکمل ہے، دوسری مکمل دنیا کی کھوج لگاؤ۔ مگر ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اسی نامکمل دنیا میںاپنی زندگی کی عمارت تعمیر کریں گے، ہم کو مکمل دنیا کی ضرورت نہیں۔ حالات کا صریح اشارہ ہے کہ زندگی کا ایک انجام آنا چاہیے۔ مگر یہ لوگ صرف آغاز کو لے کر بیٹھ گئے ہیں، اور انجام کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ حالاں کہ یہ اسی قسم کی ایک حماقت ہے، جو شتر مرغ کے متعلق مشہور ہے۔ اگر فی الواقع زندگی کا کوئی انجام ہے تو وہ آکر رہے گا، اور کسی کا اس سے غافل ہونا، اس کو روکنے کا سبب نہیں بن سکتا۔ البتہ ایسے لوگوں کے حق میں وہ ناکامی کا فیصلہ ضرور کرسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زندگی کو کُل زندگی سمجھنا، اور صرف آج کو پر مسرت بنانے کی کوشش کو اپنا مقصد بنا لینا بڑی کم ہمتی اور بے عقلی کی بات ہے۔ آدمی اگر اپنی زندگی اور کائنات پر تھوڑا سا بھی غور کرے تو اس نقطۂ نظر کی لغویت فوراً واضح ہو جاتی ہے۔ ایسا فیصلہ وہی کرسکتا ہے، جو حقیقتوں کی طرف سے آنکھ بند کرلے اور بالکل بے سمجھی بوجھی زندگی گزارنا شروع کردے۔
یہ ہیں وہ چند سوالات جو کائنات کو دیکھتے ہی نہایت شدت کے ساتھ ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں۔ اس کائنات کا ایک خالق ہونا چاہیے، مگر اس کے متعلق ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ اس کا ایک چلانے والا اوراس کو سنبھالنے والا ہونا چاہیے، مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے۔ ہم کسی کے احسانات سے ڈھکے ہوئے ہیں، اور مجسم شکر وسپاس بن کر اس ہستی کو ڈھونڈھنا چاہتے ہیں،جس کے آگے اپنی عقیدت کے جذبات کو نثار کرسکیں۔ مگر ایسا کوئی وجود ہمیں نظر نہیں آتا۔ ہم اس کائنات کےاندر انتہائی عجز اور بے بسی کے عالم میں ہیں۔ ہم کو ایک ایسی پناہ کی تلاش ہے، جہاں پہنچ کر ہم اپنے آپ کو محفوظ تصور کرسکیں۔ مگر ایسی کوئی پناہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود نہیں ہے۔ پھر جب ہم اپنی زندگی اور اپنی عمر کو دیکھتے ہیں تو کائنات کا یہ تضاد ہم کو ناقابل فہم معلوم ہوتاہے کہ کائنات کی عمر تو کھربوں سال ہو، اور انسان جو کائنات کا خلاصہ (finest product)ہے، اس کی عمر صرف چند سال۔ فطرت ہم کو بےشمار امنگوں اور حوصلوں سے معمور کرے، مگر دنیا کے اندر اس کی تسکین کا سامان فراہم نہ کرے۔پھر سب سے زیادہ سنگین تضاد وہ ہے، جو مادی دنیا اور انسانی دنیامیں پایا جاتاہے۔ مادی دنیا انتہائی طورپر مکمل ہے۔ اس میں کہیں خلا نظر نہیں آتا، مگر انسانی زندگی میں زبردست خلا ہے۔ انسان کی حالت ساری مخلوق سے بدتر نظر آتی ہے۔ ہماری بد قسمتی کی انتہا یہ ہے کہ اگر پٹرول کاکوئی نیا چشمہ دریافت ہو یا بھیڑ بکریوں کی نسل بڑھے تو اس سے انسان خوش ہوتا ہے۔ مگر ایک انسان دوسرے انسان کوبرداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
انسان کی نارسائی
یہ سوالات ہم کوچاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ وہ اندر سے بھی ابل رہے ہیں ،اور باہر سے بھی ہمیں گھیرے ہوئے ہیں، مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا جواب کیا ہے۔ یہ زندگی کی حقیقت معلوم کرنے کا سوال ہے، مگر کس قدر عجیب بات ہے کہ ہمیں زندگی تو مل گئی، مگر اس کی حقیقت ہمیں نہیں بتائی گئی ہے۔
اس حقیقت کی دریافت کے لیے جب ہم اپنی عقل اوراپنے تجربات کی طرف دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا صحیح اور قطعی جواب معلوم کرنا ہماری عقل اور ہمارے تجربے کے دائرے سے باہر ہے۔ اس سلسلے میں اب تک ہم نے جو رائیں قائم کی ہیں وہ اٹکل سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں۔ جس طرح ہماری نظر کا دائرہ محدود ہے، اور ہم ایک مخصوص جسامت سے چھوٹی چیز کا مشاہدہ نہیں کرسکتے، اور ایک مخصوص فاصلے سے آگے کے اجسام کو نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح کائنات کے متعلق ہمارا علم بھی ایک تنگ دائرے میں محدود ہے، جس کے آگے یا پیچھے کی ہمیں کوئی خبر نہیں۔ ہمارا علم نامکمل ہے، ہمارے حواس خمسہ(five senses) ناقص ہیں۔ ہم حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے۔ میدہ اور کالک کو اگر ملایا جائے تو بھورے خاکستری رنگ کا ایک سفوف سا بن جاتا ہے، لیکن اس سفوف کا باریک کیڑا جو سفوف کے ذروں ہی کے برابر ہوتاہے، اور صرف خوردبین کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے، وہ اس کو کچھ سیاہ اور کچھ سفید رنگ کی چٹان سمجھتا ہے، اس کے مشاہدے کے پیمانے میں خاکستری سفوف کوئی چیز نہیں۔
نوعِ انسانی کی زندگی اُس مدت کے مقابلے میں جب کہ یہ کرۂ ارض وجود میں آیا، اس قدر مختصر ہے کہ کسی شمار میں نہیں آتی، اور خود کرۂ ارض کائنات کے اتھاہ خلامیں ایک ذرے کے برابر بھی نہیں۔ ایسی صورت میں انسان کائنات کی حقیقت کے بارے میں جو خیال آرائی کرتاہے، اس کو اندھیرے میں ٹٹولنے سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہماری انتہائی لاعلمی فوراً ظاہر ہوجاتی ہے، جب ہم کائنات کی وسعت کا تصور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر آپ اس بات کو سامنے رکھیں کہ سورج، سائنس داں کے اندازے کے مطابق، 4.603 بلین سال سے موجود ہے۔ اس زمین کی عمر جس پر ہم بستے ہیں، سائنس داں کے اندازے کے مطابق، 4.543 بلین سال ہے، اور زمین پر زندگی کے آثار نمایاں ہوئے تین کرور سال گزر چکے ہیں۔ مگر اس کے مقابلے میں زمین پر ذی عقل انسان کی تاریخ چند ہزار سال سے زیادہ نہیں تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ چند ہزار سال کا زمانہ جس میں انسان نے اپنی معلومات فراہم کی ہیں، اس طویل زمانے کا ایک بہت حقیر (tiny)جزء ہے، جو کہ دراصل کائنات کے اسرار کو معلوم کرنے کے لیے درکار ہے۔ کائنات کے بے حدطویل ماضی اور نا معلوم مستقبل کے درمیان انسانی زندگی محض ایک لمحے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارا وجود ایک نہایت حقیر قسم کا درمیانی وجود ہے، جس کے آگے اور پیچھے کی ہمیں کوئی خبر نہیں۔ ہماری عقل کوعاجزی کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس کائنات کی وسعت لامحدود ہے، اور اس کو سمجھنے کے لیے ہماری عقل اور ہمارے تجربے بالکل ناکافی ہیں۔ ہم اپنی محدود صلاحیتوں کے ذریعے کبھی بھی اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ اب تک کی کوششوں کی ناکامی اس کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی ہے۔
اس طرح ہمارا علم اور ہمارا مطالعہ ہم کو ایک ایسے مقام پر لاکر چھوڑ دیتےہیں، جہاں ہمارے سامنے بہت سے سوالات ہیں۔ ایسے سوالات جو لازمی طور پر اپنا جواب چاہتےہیں۔ جن کے بغیر انسانی زندگی بالکل لغو اور بے کار نظر آتی ہے۔ مگر جب ہم ان پر سوچنے بیٹھتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے ذہن سے ان کا جواب معلوم نہیں کرسکتے۔ ہم کو وہ آنکھ ہی نہیں ملی جس سے حقیقت کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ اور وہ ذہن ہمیں حاصل نہیں ہے، جو براہِ راست حقیقت کا ادراک کرسکے۔
[یہ مضمون’’ حقیقت کی تلاش ‘‘کے نام سے شائع ہوچکا ہے، افادیت کے پیش نظر جزئی ترمیم کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہاہے]
واپس اوپر جائیں