Pages

Monday 1 August 2005

Al Risala | August 2005 (الرسالہ،اگست)

3

- اجتماعِ بھوپال


اجتماعِ بھوپال

بھوپال ایک تاریخی شہر ہے۔ وہ ہندستان کے وسط میں واقع ہے۔ ایک افغانی سردار دوست محمد خاں نے ۱۷۲۳ میں بھوپال کی بنیاد ڈالی۔ یہاں مختلف اہم مقامات ہیں۔ اُن میں سے ایک تاج المساجد ہے جو انیسویں صدی میں بنائی گئی۔ بھوپال یونیورسٹی ۱۹۷۰ میں قائم ہوئی۔
ڈاکٹر حمید اللہ ندوی بھوپال یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں ریڈر ہیں۔ وہ تحریک الرسالہ کے سینئر ترین ممبر ہیں۔ کئی سال سے ان کا اصرار تھا کہ بھوپال میںتحریک الرسالہ کا اجتماع رکھا جائے۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ ۱۱۔۱۲۔۱۳ مارچ ۲۰۰۵ کو یہ اجتماع منعقد کیا جائے۔ تاہم میں نے یہ تاکید کر دی کہ اس اجتماع کا عام اعلان نہ کیا جائے بلکہ محدود طورپر کچھ منتخب افر اد کو اس کی اطلاع دی جائے۔ تاکہ وہ ایک بڑے جلسہ کی حیثیت اختیار نہ کرے۔
اس پروگرام کے مطابق، بھوپال کا سفر ہوا۔ ۱۱ مارچ ۲۰۰۵کو جٹ ایرویز کی فلائٹ کے ذریعہ روانگی ہوئی اور ۱۴ مارچ کو دوبارہ جٹ ایرویز کی فلائٹ کے ذریعہ واپسی ہوئی۔ میرے ساتھ سفر میں جو لوگ شریک تھے ان کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر محمد اسلم خاں، دیش بھگت جی، محمد خالد انصاری، ڈاکٹر محمد اقبال پردھان، رجت ملہوترہ، نغمہ صدیقی، عصمت خاں، اُستتھی ملہوترا، ڈاکٹر فریدہ خانم، سعدیہ خان، منجو ورمانی۔ پریا ملک۔
۱۱ مارچ کو ۲ بجے میرے ساتھ جانے والے لوگ ہمارے آفس میں اکھٹا ہوگئے۔ مجھ کو لے کر کل تعداد ۱۳ تھی۔ سب سے پہلے میں نے انہیں برکت کے طورپر ایک چیز پیش کی۔
میرے بیگ میں ایک ڈبہ تھا۔ اس کے اندر بھُنا ہوا چنا تھا۔ اس چنے کے ساتھ گُڑ ملا ہوا تھا۔ اُس کو ’’گُڑ چنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ میں نے سب لوگوں کو یہ چنا پیش کرتے ہوئے کہا : یہ پرشاد ہے۔ مگر وہ سادہ پرشاد نہیں۔ بلکہ وہ پرشاد پلس ہے۔ یعنی اس چنے کے ساتھ میری دعائیں شامل ہیں۔
ایک مسلمان نے کہا کہ آپ اس کو پرشاد کیوں کہتے ہیں، آپ اس کو تبرک کیوں نہیں کہتے۔ میںنے کہا کہ میرا مِشن لوگوں کے درمیان دوئی کو مٹانا ہے اور دوئی کو مٹانا وسیع المشربی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ میں نے کہا کہ صوفیاء کا مشن بھی دوئی کو مٹانا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے یہی کیا کہ اُنہوں نے کئی لفظ دوسروں کی مذہبی روایات سے لیے اور ان کو اپنے یہاں رائج کردیا۔ صوفیا کے اس لبرل مسلک کی وجہ سے ان کو استہزاء کا موضوع بنایا گیا۔ ایک اُردو شاعر نے اسی صورت حال کو مبالغہ کے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:
میر کے دین ومذہب کی کیا پوچھ رہے ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اس کے بعد لوگوں کے مشورہ سے محمد خالد انصاری کو اس قافلہ کا امیر اور نغمہ صدیقی کو نائب امیر مقرر کیا گیا۔ اس سلسلہ میں میں نے امارت کے مسئلہ کی مختصر وضاحت کی۔
حدیث میں سفر کے بارہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے: اذا خرج ثلاثۃ فی سفر فلیؤمروا احدہم(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، باب فی القوم یسافرون یؤمرون احدہم) یعنی جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو اپنا امیر بنا لیں۔ یہ بے حد اہم تعلیم ہے۔ اسلام میں ہر حال میں اجتماعیت مطلوب ہے۔ نماز میں اجتماعیت، سفر میں اجتماعیت، ادارہ میں اجتماعیت، حکومتی نظام میں اجتماعیت، وغیرہ۔
اس اجتماعیت کو قائم کرنے کی صورت یہ ہے کہ جب بھی کئی لوگ کسی کام میں اکھٹا ہوں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو امیر بنالیں۔ اس امارت کو کامیابی کے ساتھ چلانے کی دو خاص شرطیں ہیں۔ امیر کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ امارت کو ایک ذمہ داری سمجھے، نہ کہ کوئی اعزاز۔ اسی طرح مامورین یا ماتحت افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اطاعت کے جذبہ کے تحت امیر کی ماتحتی قبول کرلیں۔ امیر سے اگر اُنہیں کوئی اختلاف یا شکایت پیدا ہو تب بھی اس کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اپنی اطاعت کو جاری رکھیں۔ امیر کی اطاعت کو کسی قسم کی مجبوری نہ سمجھیں بلکہ اس کو عبادت سمجھتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ نبھائیں۔
اس کے بعد دو گاڑیوں میں ہمارا قافلہ ائر پورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ اس دنیا میں تمام چیزیں سفر کرتی ہیں۔ حیوانات بھی اور غیر حیوانات بھی۔ مگر یہ صرف انسان کی استثنائی صفت ہے کہ وہ سواری پر سفر کرتا ہے۔ انسان کے سوا اس وسیع کائنات پر کوئی دوسری چیز نہیں جو اپنے سفر کے لیے سواری کو استعمال کرے۔ انسان کے ساتھ خدا کا یہ معاملہ ایسا ہے کہ ہمارے سینہ کو شکر کے جذبات سے بھرجانا چاہیے۔ پھر میں نے کہا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولقد کرمنا بنی آدم وحملناہم فی البّر والبحر (الإسراء ۷۰) یعنی اللہ نے انسان کو عزت دی اور اس کو خشکی اور تری میں سفر کرنے کے لیے سواریاں عطا کیں۔ اس آیت میں بظاہر اگر چہ صرف خشکی اور تری کی سواریوں کا ذکر ہے مگر تبعاً اس میں فضائی سواریاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح قرآن میں دعائیہ انداز میں آیا ہے: سبحان الذی سخرلنا ہذا وماکنا لہ مقرنین (الزخرف ۱۳)۔
قرآن کی یہ آیت سادہ معنوں میں صرف آدابِ سفر کو نہیں بتاتی بلکہ وہ بتاتی ہے کہ انسان کو کن ربانی احساسات کے ساتھ سفر کرنا چاہیے۔ قرآن وحدیث میں مختلف مواقع کے لیے جو دعائیں آئی ہیں وہ بطور آداب (etiquettes) نہیں ہیں بلکہ وہ روح دین کو بتاتی ہیں۔ مثلاً مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کے وقت اللہم افتح لی ابواب رحمتک اور اللہم انی اسألک من فضلک کہنا صرف آداب مسجد نہیں ہے بلکہ یہ کلمات ان مواقع کے لیے ایمانی احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ مومن کی قلبی حالت کا لفظی اظہار ہیں۔
ہمارا قافلہ دہلی کی سڑکوں سے گزرتا ہوا ائر پورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ قافلہ کا ہر ممبر اپنے اندر ایک نیا جوش محسوس کررہا ہے۔ وہ ہر چیز کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کہ وہ اس کو پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔ انسان کے ساتھ جب تبدیلی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کی شخصیت کو نئے تجربات سے دوچار کرتا ہے۔ پھر میں نے لوگوں کو بتایا کہ اسلام میں سفر کی خاص اہمیت ہے۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن میں سفر کو اسلامائز کیا گیا ہے۔
قرآن میں مومن مردوں کے لیے السائحون (التوبہ ۱۱۲) کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح مومن عورتوں کو قرآن میں السائحات (التحریم ۵) کہا گیا ہے۔ یعنی سفر کرنے والے مرد اور سفر کرنے والی عورتیں۔
اس سے مراد مجرد سفر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صاحبِ ایمان کا سفر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ السائحون اور السائحات سے مراد وہ مومنین اور مومنات ہیں جن کا سفر ان کی ربانی سوچ کی بنا پر معرفت کا سفر بن جائے۔ سفر کے دوران جو تخلیقی مشاہدات اُن کے سامنے آئیں، وہ اُن کے مومنانہ ذہن کی بنا پر اُن کے لیے معرفتِ حق میںڈھلتے چلے جائیں۔ وہ مخلوق میں خالق کا جلوہ دیکھیں۔ وہ فطرت کے مظاہر میں خالق کے کرشموں کا ادراک کریں۔ اسی حقیقت کو ایک عربی شاعر ابوالعتاہیہ نے اس طرح بیان کیا ہے:
وفی کل شیٔ لہ آیۃ تدل علی أنہ واحد
اس معاملہ کو ایک فارسی شاعر نے مزید وضاحت کے ساتھ اس طرح نظم کیا ہے:
برگ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار
ہر ورقے دفترے است معرفت کردگار
اس طرح بات کرتے ہوئے ہم لوگ ائر پورٹ پہنچے۔ یہاں میں نے لوگوں کو ایک سبق آموز بات یاد دلائی۔ میںنے کہا کہ اس سفر میں مجھ کو اور میری لڑکی فریدہ کو چھوڑ کر کل گیارہ مرد اور عورتیں ہیں۔ یہ تعداد بہت معنٰی خیز ہے۔ مماثلت کے انداز میں اس کے اندر ایک اہم سبق پایا جاتا ہے۔ اگر آپ انجیل کو پڑھیں تو آپ پائیں گے کہ آخر وقت میں حضرت مسیح کے ساتھ (مسیح اور مریم کو چھوڑ کر) گیارہ افراد تھے۔ انہی گیارہ افراد نے مسیح کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلایا۔ اس سلسلہ میں انجیل کا اقتباس یہ ہے:
پھر وہ اُن گیارہ کو بھی جب کھانا کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اوراُس نے ان کی بے اعتقادی اور سخت دلی پر ان کو ملامت کی۔ کیوں کہ جنہوں نے اُس کے جی اُٹھنے کے بعد اُسے دیکھا تھا اُنہوں نے اُن کا یقین نہ کیا تھا۔ اور اُس نے ان سے کہا کہ تم تمام دنیا میں جاکر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔ جو ایمان لائے اور بپتسمہ لے وہ نجات پائے گا اور جو ایمان نہ لائے وہ مجرم ٹھہرایا جائے گا۔ اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بدروحوں کو نکالیں گے۔ نئی نئی زبانیں بولیں گے۔ سانپوں کو اٹھالیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے تو انہیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔ وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہوجائیں گے (مرقس، ۱۶: ۱۴۔۱۸)
عجیب بات ہے کہ اس تاریخی سفر میں میرے ساتھ میری لڑکی کو چھوڑ کر کُل گیارہ افراد تھے۔ یہ گیارہ افراد در اصل علامتی انداز میں نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ الرسالہ مشن اب اللہ کے فضل سے ایک عالمی مشن بن چکا ہے۔ دنیا کے اکثر حصوں میں اس سے وابستہ افراد موجودہیں۔ میرے اندازے کے مطابق، ان کی تعداد گیارہ ہزار سے کم نہ ہوگی۔یہ عالمی حلقہ اب اللہ کے فضل سے ایک طاقتور حلقہ بن چکا ہے۔ مزید یہ کہ اس کی پشت پر ایک طاقتور لٹریچر وجود میں آچکا ہے۔ یہ حلقہ اور یہ لٹریچر انشاء اللہ اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ مشن مسلسل جاری رہے۔
بھوپال کے لیے میرا پہلا سفر غالباً ۴۰ سال پہلے ہوا تھا۔ اس وقت میں ٹرین کے ذریعہ تنہا بھوپال گیا تھا۔ اب میں بھوپال جارہا ہوں تو ہمارا سفر ایک قافلہ کی صورت میں ہورہا ہے جس میں مجھ کو لے کر تیرہ آدمی ہوائی جہاز کے ذریعہ بھوپال جارہے ہیں۔
یہ واقعہ علامتی طورپر ہمارے مشن کی رفتار ترقی کو بتارہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۴۰ سال میں یہ مشن کہاں سے کہاں تک پہنچا ہے۔ تاریخ کا تجربہ ہے کہ کوئی جاندار مشن کبھی درمیان میں نہیں ٹھہرتا۔ وہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے مشن کے ساتھ انشاء اللہ یہی تاریخ دہرائی جائے گی۔ جیسا کہ لوگ جانتے ہیں، اس دوران میں ہمارے مشن کو نقصان پہنچانے کے لیے بڑی بڑی مخالفانہ کوششیں کی گئیں۔ مگر یہ کوششیں ناکام رہیں اورمشن آگے بڑھتا رہا، وہ ایک دن کے لیے بھی نہیں رکا۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی مشن جب رکتا ہے تو وہ کسی خارجی رکاوٹ کی بنا پر نہیں رکتا۔ ایسا ہمیشہ خود مشن کی داخلی کمزوری کی بنا پر ہوتا ہے۔ جو مشن جذباتیت یا رومانیت کے زیر اثر اٹھایا جائے وہ کبھی دیر تک قائم نہیں رہتا۔ لیکن جو مشن حقائق فطرت کی بنا پر اٹھایا جائے وہ ایک سیل رواں کی مانند ہوتا ہے۔ کوئی چٹان بھی اس کا راستہ روکنے والی نہیں۔
راستہ میں مختلف سوالات پر گفتگو جاری رہی۔ ایک سوال یہ تھا کہ عورت کا درجہ اسلام میں کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میںنے قرآن کے حوالہ سے کچھ باتیں کہیں۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وللرجال علیہن درجۃ (البقرۃ ۲۲۸) اسی طرح فرمایا: الرجال قوامون علی النساء (النساء ۳۴) قرآن کی ان آیتوں کی تشریح کچھ لوگ اس طرح کرتے ہیں گویا کہ اسلام میں مرد کو حاکم کا درجہ دیا گیا ہے اور عورت کو محکوم کا درجہ۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ یہ بات بجائے خود درست ہے کہ دونوں جنسوں کے درمیان فرق رکھا گیا ہے۔ مگر اس فرق کی بنیاد امتیاز نہیں ہے بلکہ صرف انتظام ہے۔ یہ انتظامی تقسیم ہے نہ کہ امتیازی تفریق۔
یہ ایک انسانی ضرورت ہے کہ اجتماعی سرگرمیوں کو ایک ناظم کی ماتحتی میں انجام دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اجتماعی ادارہ میں ایک باس (Boss) ہوتا ہے۔ اس باس کی حیثیت انتظام کار کی ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو پورے ادارہ میں انارکی پھیل جائے اور کام کو منظم طورپر انجام دینا ممکن نہ رہے۔ اسی طرح خاندانی ادارہ میں مرد کو انتظام کار کا درجہ دیا گیا ہے۔ تاہم وہ مطلق نہیں ہے۔ بوقتِ ضرورت عورت بھی انتظامِ کار بن سکتی ہے۔
ایک ساتھی نے کیوٹی وی (Q.T.V.) کے بارہ میں میری رائے پوچھی۔ میں نے کہا کہ پچھلے ایک مہینہ کے دوران میںنے کیو ٹی وی کو مسلسل دیکھا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کیوٹی وی چو بیس گھنٹہ آتا ہے۔ اس لیے آپ رات دن میں کسی بھی وقت اُس کو دیکھ سکتے ہیں۔مگر میری رائے کیو ٹی وی کے بارہ میں اچھی نہیں۔ میں نے کہا کہ ٹی وی کے دوسرے چینل اگر سیکولر انٹرٹینمنٹ کے اصول پر چلائے جارہے ہیں تو کیو ٹی وی ریلیجس انٹرٹینمنٹ کے اصول پر چلایا جارہا ہے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات جو میںنے محسوس کی وہ یہ ہے کہ کیو ٹی وی اسلام کی ایک کمتر صورت (reduced form) کو پیش کرتا ہے۔ اس کو برابر دیکھنے والا شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھے گا کہ اسلام کچھ رسوم (rituals)اور کچھ آداب (etiquettes) کا مجموعہ ہے۔ ایک اور چیز جو کیوٹی وی میں شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ درگاہی کلچر کو اس میں اس طرح نمایاں طورپر مسلسل دکھایا جاتا ہے جیسے کہ وہ اسلام کا ایک اہم حصہ ہو۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ درگاہی کلچر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کیو ٹی وی کے سارے پروگرام مسلم اورینٹڈ(Muslim Oriented) ہوتے ہیں۔ حالاں کہ قرآن کا پیغام مکمل طورپر انسان اورینٹیڈ(Insan Oriented) ہوتا ہے۔ گویا کہ کیو ٹی وی اسلام کو ایک کمیونل کلچر کے طورپر پیش کررہا ہے نہ کہ یونیورسل کلچر کے طورپر۔
دہلی سے بھوپال کا سفر جٹ ایرویز کے ذریعہ ہوا۔ جٹ ایرویز ایک پرائیویٹ ایرویز ہے۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں اس کو سب سے بڑی کمپنی بتایاجاتا ہے۔انڈیا میں جب سے پرائیویٹ کمپنیاں آئی ہیں، ہوائی سفر کا معیار کافی بہتر ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے صرف ایک سرکاری کمپنی تھی۔ اس وقت ہوائی سفر میں مقابلہ کا ماحول نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مقابلہ ترقی کی لازمی شرط ہے۔ مقابلہ (competition) نہیں تو ترقی بھی نہیں۔
عجیب بات ہے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جو لیڈر اُبھرے، دونوں ہی بظاہراس حقیقت سے بے خبر تھے۔ دونوں ہی نے مقابلہ کے بجائے تحفظ (protection) کے اصول کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا۔ دونوں میں فرق صرف یہ تھا کہ کانگریس کے لیڈر سیکولر تحفظ کی بات کرتے تھے اور مسلم لیگ کے لیڈر ملّی تحفظ کی اصطلاح میں سوچ رہے تھے۔ کانگریسی لیڈروں نے آزاد انڈیا میں اقتصادی تحفظ کے نام پر بیرونی ملکوں کو ہندستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔ مثلاً کارسازی کی صنعت میں ایمبیسیڈر کار کے سوا کسی بیرونی کمپنی کو نہ کار بنانے کی اجازت تھی اور نہ کار کو امپورٹ کرنے کی اجازت۔ اس پالیسی کا نتیجہ ملک کو اقتصادی پچھڑے پن کی صورت میں ملا۔
اسی طرح مسلم لیگ کے لیڈروں نے پاکستان کے نام سے مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ خطہ بنایاتاکہ وہ مسلمانوں کو بیرونی اثرات سے پاک رکھ سکیں۔ یہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ترقی کا راز تحفظ اور علیٰحدگی میں نہیں بلکہ مقابلہ اور انٹریکشن میں ہے۔ اس غیر فطری پالیسی کا نتیجہ صرف یہ ہوا کہ پاکستان دنیا کے نقشہ میں صرف ایک پچھڑا ہوا ملک بن کر رہ گیا۔
جہاز کے اندر مختلف اخبارات مطالعہ کے لیے موجود تھے۔ یہاں بعض اخبارات سے کچھ سبق آموز خبروں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
ٹائمس آف انڈیا (۱۱ مارچ ۲۰۰۵) کے صفحہ اول پر ایک خبر کی تعجب خیز سرخی یہ تھی: دلائی لامہ نے تبتیوں سے کہا کہ وہ آزاد تبت کو بھول جائیں: چین ہمارے مستقبل کے لیے سب سے بہتر ہے:
Dalai Lama tells his folk to forget free Tibet: China best for our future.
خبر میں بتایا گیا تھا کہ تبتیوں کی اپرائزنگ (uprising) کی ۴۶ ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے انہوںنے کہا ہے کہ تبتی آزاد تبت کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں اور چین تبتیوں کی ترقی اور مستقبل کے لیے سب سے اچھا ملک ہے:
The Dalai Lama told Tibetians to give up their dream of an independent Tibet, saying he believed “China is best for Tibetan's progress and future”. (p. 1)
پچھلے ۴۵ سال سے تبتی لوگ چین کے خلاف باغیانہ تحریک چلائے ہوئے تھے۔ ہندستان کے تعاون سے دلائی لاما نے دھرم شالہ میں اپنی جلاوطن حکومت (government-in-exile) بنا لی تھی۔ تبتیوں کا نعرہ تھا کہ تبت ہمارا ملک ہے اور ہم اس کو چین سے آزاد کرائیں گے اور وہاں اپنا قومی جھنڈا لہرائیں گے۔ اس باغیانہ تحریک کے نتیجہ میں تبتیوں کو بے شمار نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم تبتی لیڈر شپ کی یہ بات قابل تعریف ہے کہ اس نے معاملہ کا از سرِ نو جائزہ لیا اور حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ چین سے لڑائی کو ختم کردیں اور چین کے سیاسی ڈھانچہ میں اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔ دلائی لامہ نے کہا کہ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم درمیانی راستہ اختیار کریں گے:
We remain fully committed to the middle way approach of not seeking independence for Tibet and are willing to remain within the People's Republic of China.
یہ خبر بہت سبق آموز ہے۔ اس خبر کو پڑھ کر میںنے سوچا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان بھی مختلف مقامات پر ٹھیک اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ وہ بہت سے ملکوں میںانصاف اور اپنے حقوق کے نام پر متشددانہ جدوجہدچھیڑے ہوئے ہیں اور اس کو جہاد بتاتے ہیں۔ مگر لمبی مدت تک جان ومال کی قربانی دینے کے باوجود وہ مثبت معنوں میں کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اُن کے خود ساختہ جہاد کے نتیجہ میں اُنہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
بدھسٹ لیڈر کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ مگر نصف صدی کے ناکام تجربہ کو دیکھ کر انہوں نے اپنی رائے بدلی اور تمام اندیشوںکو نظر انداز کرتے ہوئے کھلے طور پر اعلان کیا کہ اب ہم ٹکراؤ کا طریقہ ختم کرکے مصالحت کا طریقہ اختیار کریں گے۔ تاکہ اپنی قوم کو مزید تباہی سے بچائیں اور ممکن دائرہ میں اپنی ترقی کا نیا دور شروع کرسکیں۔ مگر مسلم لیڈروں میں سے کوئی بھی اس دانش مندانہ سیاست کا ثبوت نہ دے سکا۔ وہ اپنی تباہ کن جنگ کو اس آخری حد تک لے گئے کہ خود کُش بمباری کرکے اپنی تباہی میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔
اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان مسلم لیڈروں نے خود ساختہ طورپر ایک نظریہ ایجاد کیا ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان لڑائی میں مارے جائیں تو یہ ان کے لیے کوئی نقصان کی بات نہیں۔ کیوں کہ وہ مرتے ہی سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ یہ بلا شبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ مگر مسلم نوجوانوں کے ذہن میں یہ مفروضہ اس طرح بھر دیا گیا ہے کہ اب وہ پَروانوں کی طرح جنگ کی آگ میں کود رہے ہیں۔ اگر چہ پیشگی طورپر انہیں معلوم ہے کہ اس اقدام کا نتیجہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ میرے نزدیک یہ بلاشبہہ خسر الدنیا والآخرۃ کا مصداق ہے۔
ہندستان ٹائمس (۱۱ مارچ ۲۰۰۵) کے صفحہ ۹ کی ایک خبر کا عنوان یہ تھا— کلکتہ ائرپورٹ کو انٹرنیشنل معیار پر بنانے کے لیے جاپان کی پیش کش:
Japan offers to build airport
خبر میں بتایا گیا تھا کہ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندستان کے ائر پورٹوں کو بین اقوامی معیار پر لانا ضروری ہے۔ یہ کام پچھلے کئی برسوں سے خاموشی کے ساتھ ہورہا ہے۔ دہلی کی شاندار مٹرو (Metro) کو مکمل طورپر جاپان نے بنایا ہے۔ دہلی کی ایک اچھی سڑک جو آشرم سے نوئیڈا جاتی ہے وہ بھی جاپان کی بنائی ہوئی ہے۔ بیرونی مدد سے اس طرح کے کام پورے انڈیا میں خاموشی کے ساتھ ہورہے ہیں۔
اس خبر کو پڑھ کر میں نے سوچا کہ یہی کام ۱۹۴۷ سے پہلے انگریز اس ملک میں کررہے تھے۔ وہ ملک کے ہر شعبہ کو جدید معیار پر ترقی دے رہے تھے۔ نوآبادیاتی دور میں ترقی کا یہ کام انگلستان کے بعد سب سے زیادہ انڈیا میں ہورہا تھا۔ مگر اس وقت ہمارے سیاسی لیڈروں نے اس کو اقتصادی غلامی سے تعبیر کیا۔ اب یہی اقتصادی غلامی زیادہ بڑے پیمانہ پر دوبارہ اس ملک میں جاری ہے۔ مگر اب اس کو بین اقوامی تعاون کا نام دے دیا گیا ہے۔
جٹ ایرویز کے فلائٹ میگزین کا نام جٹ ونگس (Jetwings) ہے۔ اس کا شمارہ مارچ ۲۰۰۵ دیکھنے کا موقع ملا۔ اس شمارہ میں رنگین تصویروں کے ساتھ ایک مضمون شامل تھا۔ رائٹر کا نام سونتا کٹاریا (Sonita Kataria) تھا۔ اس مضمون میں ایک پہاڑی سفر کی روداد درج تھی۔ اس کا عنوان یہ تھا۔ بلندیوں پر چڑھنے کی مہم:
Adventure in altitude
اس مضمون میں کُلو (Kullu) کی پہاڑیوں میں سفر کا ذکر تھا۔ کُلو ہمالیہ کے کوہستانی سلسلہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ سرسبز وادیوں اور اونچے نیچے راستوںمیں واقع ہے۔ اس کوہستانی سلسلہ میں سفر بظاہرایک پُر مشقت سفر ہے۔ مضمون نگار کو ان پُر مشقت مراحل سے گذرنا پڑا۔ مگر مضمون نگار نے لکھا ہے کہ اس سفر میں ایک کے بعد ایک فتح یابی کا احساس ہوتا رہا اور یہ احساس مجھے برابر آگے بڑھاتا رہا۔ مجھے برابر خوشی کا غیر معمولی احساس ہوتا رہا:
But there was a sense of achievement that kept me going. At the end of the trek, I had a tremendous feeling of joy and accomplishment. (p. 84)
زندگی کے سفر میں یہی احساس کسی عورت یا مردکا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اگر آدمی حال کے بجائے مستقبل پر نظر رکھے تو اُس کو بار بار یہ احساس ہوتا رہے گا کہ میں نے ایک منزل اور طے کرلی۔ میں کامیابی کی منزل کی طرف کچھ اور آگے بڑھا۔ یہ احساس اس کی ہمت بڑھاتا رہے گا۔ وہ اس قابل ہو جائے گا کہ وہ درمیان میں رُکے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔
پرواز شروع سے آخر تک ہموار تھی۔ دہلی سے بھوپال تک کی یہ مسافت ڈیڑھ گھنٹہ میں طے ہوئی۔ سروس ہر اعتبار سے اطمینان بخش تھی۔ البتہ بھوپال ایر پورٹ پر لینڈنگ زیادہ اچھی نہ تھی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کہ جہاز اچانک زمین پر گر پڑا ہو۔
جہاز میں ایک بڑے انگریزی اخبار کے ایک جرنلسٹ بھی سوار تھے۔ ایر پورٹ پر جہاز کی رَف لینڈنگ پر اُنہیں غصہ آگیا۔ وہ کسی جھجھک کے بغیر جہاز کے پائلٹ کے پاس گئے اور اُس سے جرأـت مندانہ انداز میں پوچھ گچھ کی۔ گفتگو کے وقت ایک ایرہاسٹس وہاں کھڑی ہوئی تھی۔ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اصل یہ ہے کہ آج صبح ان کا جھگڑا اپنی گرل فرینڈ سے ہوگیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد پائلٹ خاموش نہ رہ سکا۔ اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہاں، آج میرا ذہن کسی قدر منتشر (upset) تھا۔ اس بنا پر ایسا ہوا۔ اُس نے مذکورہ جرنلسٹ سے اس پر معافی مانگی۔موجودہ زمانہ میں جرأتمندی کے لیے انگریزی جاننا ضروری ہے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جدید تہذیب نے کیسے کیسے پیچیدہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں یہ بات عام ہوگئی ہے کہ کوئی مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اس کی ایک گرل فرینڈ ہوتی ہے۔ اس گرل فرینڈ سے اس کا اکثر جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر آدمی جب زندگی کے میدان میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے باہر آتا ہے تو وہ معتدل حالت میں نہیں ہوتا۔ یہ صورت حال اکثر اجتماعی زندگی میں فساد کا باعث بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وفادار خاندانی تعلق کوئی سادہ چیز نہیں۔اُس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ گھر کے اندر ازدواجی مسرت، بچوں کی صحیح تربیت، زندگی کے فرائض کی حسن ادائیگی، مثبت طرز فکر، قومی زندگی کی تعمیر، تمام چیزوں سے اس کا رشتہ جڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندانی زندگی اگر صحیح اخلاقی اصول پر قائم ہو تو اُس سے پوری زندگی درست ہوتی ہے اور اگر خاندانی زندگی میں اخلاقی بگاڑ آجائے تو پوری زندگی بگڑ کر رہ جائے گی۔
ایر پورٹ پر بھوپال کے ساتھی موجود تھے، مثلاً ڈاکٹر حمید اللہ ندوی، راجیندر سنگھ، ڈاکٹر گوتم، مولانا محمد صدیق قاسمی، وغیرہ۔
ایر پورٹ سے روانہ ہو کر ہم لوگ ڈاکٹر حمید اللہ ندوی کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ یہاں کئی لوگ اکٹھا ہوگئے تھے۔ ان سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میںنے کہا کہ ہندستان میں سیاسی بگاڑ کا اصل سبب تعلیم میں پچھڑا پن ہے۔ انڈیا میں آزادی کے بعد ڈیموکریسی آئی ہے۔ ڈیموکریسی کو بہتر طورپر چلانے کے لیے تعلیم یافتہ سماج ضروری ہے۔ جن سیاسی پارٹیوں کو ووٹ لینا ہے وہ مجبور ہیں کہ عوام کے معیار فہم کے مطابق وہ ان سے بات کریں۔ ہندستان میں سطحی سیاست اسی لیے رائج ہوگئی ہے کہ یہاں کے و وٹر اپنی تعلیمی پسماندگی کی بنا پر گہری باتیں نہیں سمجھ سکتے۔ صرف سطحی باتیں ہی انہیں اپیل کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان میں سطحی قسم کی الیکشنی سیاست رائج ہوگئی ہے۔ یہ سیاست بلا شبہہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس سیاست کو ختم کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ عوام کو ایجوکیٹ کرکے اُن کی ذہنی سطح کو بلند کیا جائے۔ اس کے بعد یہ سطحی سیاست اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔
شام کو راج ٹی وی کا عملہ آگیا۔ انہوں نے ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انہوں نے مسلم مسائل کے ضمن میں بہت سے سوالات کئے۔
ایک سوال یہ تھا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بابری مسجد کوڈھائے جانے کے ذمہ دار سابق کانگریسی پرائم منسٹر نرسمہاراؤ ہیں۔ میںنے کہا کہ یہ بات واقعاتی طورپر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نرسمہا راؤ نے اپنے زمانۂ وزارت میں ایک بہت اہم کام انجام دیا تھا۔ ۱۹۹۱ء میں انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک قانون پاس کرایا۔ اس کا نام ’’عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون‘‘ (Places of Worship Act 1991) تھا۔ اس قانون میں یہ طے کیا گیا تھا کہ ہندستان کی تمام عبادت گاہیں اپنی ۱۹۴۷ء کی حالت پر برقرار رکھی جائیں گی، البتہ اس میں یہ درج تھا کہ باستثناء بابری مسجد (Excluding Babri Masjid) ۔ اس جملہ کی بناء پر کچھ لوگ بھڑک اٹھے اور نرسمہاراؤ کو مسلم دشمن سمجھ لیا، حالاں کہ یہ بالکل غلط تھا۔ اس وقت بابری مسجد کا کیس عدالت میں زیر سماعت تھا، ایسی حالت میں یہ ممکن نہ تھا کہ بابری مسجد کے لیے قانون بنایا جائے۔ چنانچہ قانون میں یہ درج کیا گیا کہ بابری مسجد کے معاملہ میں عدالت جو فیصلہ دے گی اس کو نافذ کرنے کے لیے حکومت پابند ہوگی۔ دستورو قانون سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص کہے گا کہ یہ بالکل درست تھا۔ مگر جذباتی افرادنے معاملہ کو سمجھے بغیر اس کی مخالفت شروع کردی۔ اس بناء پر وہ اس قانونی امکان سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
۱۱ مارچ کو عشاء کی نماز کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم کے جلسہ میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ یہاں میںنے طلبہ واساتذہ کے درمیان ایک تقریر کی۔ میںنے قاری محمد قاسم صاحب انصاری کی تلاوت کردہ آیات کو موضوع بنایا۔
انہوں نے اپنی قرأت میں یہ آیت تلاوت کی تھی ’’والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس‘‘ غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے۔ میںنے کہاکہ اس قرآنی آیت میں ’’الکاظمین الغیظ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، نہ کہ ’’الفاقدین الغیظ‘‘ کے الفاظ۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے یہاں انسان کی پکڑ اس پر نہیں ہے کہ اس کو غصہ آجائے، بلکہ پکڑ اس بات پر ہے کہ اسے جب غصہ آیا تو اس نے اپنے غصہ پر کنٹرول نہیںکیا۔
دوسری بات میں نے یہ کہی کہ مدارس میںاس کی ضرورت نہیں کہ وہاں کا نصاب بدلا جائے یا سائنس یا انگریزی پڑھائی جائے۔ میرے نزدیک سیکولر تعلیم اور مذہبی تعلیم دونوں کا نظام الگ الگ ہونا ہی زیادہ صحیح اور مفید ہے۔پھر میں نے کہا کہ موجودہ حالت میں مدارس سے بڑے بڑے فائدے حاصل ہورہے ہیں، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ ہندستان میںاردو زبان زیادہ تر مدارس ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۶ء کی ایک مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن کی قرأت و تجوید جو مدارس میں سکھائی جاتی ہے وہ اسلام کی ایک عظیم خدمت ہے۔ واقعہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’سفرنامہ جلد اول صفحہ ۱۷۔۱۸‘‘
۱۲ مارچ کی صبح ہوئی تو فجر کی نماز کے بعد لوگ اس کمرہ میں جمع ہوگئے جہاں میرے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ دیر تک دینی موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ قرآن کے بارہ میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کل ترتیب وار درسِ قرآن کا طریقہ رائج ہوگیا ہے۔ یہ طریقہ بجائے خود درست ہے۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، درسِ قرآن کو ترتیب نزولی کے اُصول پرچلایا جائے تو وہ زیادہ مفید ہوگا۔ یعنی حالات کے مطابق، قرآن کے منتخب حصوں کی تشریح وتفسیر۔ تاہم مارکیٹنگ کے اعتبار سے سلسلہ وار درسِ قرآن ہی زیادہ مفید ہے۔
پھر میں نے سورہ العصر اور سورہ التین کی روشنی میں ایک درس دیا۔ میں نے کہا کہ والعصر ان الانسان لفی خسر کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ زمانہ کی قسم، انسان بے شک گھاٹے میں ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہاں زمانہ(time) سے مراد انسانی تاریخ ہے۔ یعنی تاریخ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے:
History is a witness that man is in loss.
اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ تمام انسانوں کا کیس گھاٹے کا کیس ہے۔ کامیاب انسان صرف وہ ہے جو ایمان اور عمل صالح کا ذخیرہ اپنے لیے جمع کرے۔
ماضی اور حال کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہر انسان آخر کار احساسِ خسران میں مرتا ہے۔ کوئی شخص دولت کماتا ہے، کوئی عزت حاصل کرتا ہے، کوئی سیاسی اقتدار پر قبضہ کرتا ہے، کوئی لیڈر بن کر ابھرتا ہے، لیکن ہر شخص اپنی مطلوب منزل پر پہنچنے سے پہلے مرجاتا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں خوشیوں کی ایک دنیا بسی ہوئی ہے۔ وہ اس کو پانے کے لیے اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے۔ مگر ہر آدمی کا خاتمہ آخر کار اس احساس کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب دنیا کو نہ پاسکا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کی خواہشیں لا محدود ہیں۔ مگر موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ اس محدود اور غیر معیاری دنیا میں لامحدود قسم کی معیاری خوشی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ طالب اور مطلوب کے درمیان یہی فرق خسران کا اصل سبب ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انسان کی مطلوب دنیا موت کے بعد کے دور حیات میں رکھ دی گئی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کی تیاری کرے۔ تاکہ جس مطلوب زندگی کو وہ موت سے پہلے نہ پاسکا اس کو وہ موت کے بعد کے عالَم میں پالے۔
ایک صاحب نے ۱۸ صفحات کا ایک پمفلٹ دکھایا۔ اس کا نام تھا—سچائی کی دریافت: (Exploring the Truth) ۔ یہ پمفلٹ ایک عرب ملک کی طرف سے سیاحوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے چھاپا گیا تھا۔ ایک صاحب نے یہ پمفلٹ پڑھ کر سنایا۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانہ میں غیر مسلموں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے اس قسم کے بہت سے پمفلٹ چھاپے گئے ہیں مگر یہ کتابیں آج کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ایسی کتابیں کچھ روایتی مسلمانوں کو پسند آسکتی ہیں مگر جدید ذہن کی نسبت سے وہ بالکل بے فائدہ ہیں۔
اس کتاب کا پہلا عنوان تھا: مسلمان ہونے کے فوائد (Benefits of Becoming a Muslim)۔ یہ دعوت کی زبان نہیں۔ یہ کتاب غیر ملکی سیاحوں میںتقسیم کرنے کے لیے چھاپی گئی ہے۔ ان غیر ملکی سیاحوں کا یہ مسئلہ نہیں کہ وہ مسلم گروہ میں شامل ہونے کے فوائد جاننا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر سچائی کے متلاشی ہیں۔ وہ روحانیت کی تلاش میں ہیں۔ اسی قسم کی باتیں ان کو اپیل کرسکتی ہیں۔ ان لوگوں کے لیے اس طرزِ خطاب میں کوئی کشش نہیں کہ تم مسلمان ہوجاؤ تو تم کو یہ فوائد حاصل ہوں گے۔
پوری کتاب اس قسم کے غیر فطری انداز میں لکھی گئی ہے۔ موجودہ صورت میں وہ صرف کچھ روایتی مسلمانوںکو پسند آسکتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ غیر مسلموں کے اعتبارسے کوئی قابلِ مطالعہ کتاب نہیں۔
یہ کتاب بظاہر اسلام کی عمومی دعوت کے لیے لکھی گئی تھی۔ مگر وہ شروع سے آخر تک صرف مسلم ذہن کی نمائندگی کررہی تھی۔ اس کو پڑھ کر ایک پیدائشی مسلمان تو خوش ہوسکتا تھا مگر عام انسان کے لیے اس میں کو ئی اپیل نہ تھی۔ میرا تجربہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم اہل قلم صرف ایسی کتابیں لکھ سکتے ہیں جو مسلم ذہن کو اپیل کریں۔ اپنے قومی ذہن کی بنا پر وہ اس کے لیے نااہل بن چکے ہیں کہ وہ ایسی کتاب تیار کریں جو عام انسان کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو۔
۱۲ مارچ کو بھوپال کی یونیورسٹی میں خطاب کا پروگرام تھا۔ اس خطاب کا عنوان یہ تھا: امنِ عالم میں بھارت کا رول۔ یونیورسٹی کے ہال میں طلبہ اور اساتذہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دوسرے کئی حضرات نے شرکت کی۔
میںنے اپنی مفصل تقریر میں بتایا کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امن عالم کے معاملہ میں انڈیا کا رول بہت اہم ہے۔ مہاتما گاندھی انڈیا کے مشہور ترین لیڈر تھے۔ ۱۹۱۹ میں انہوں نے انڈیا کی جدوجہد آزادی کی قیادت سنبھالی۔ اس سے پہلے انڈیا اور ساری دنیا میں لوگوں کو سیاسی جدوجہد کا ایک ہی طریقہ معلوم تھا اور وہ پُر تشدد جدوجہد تھا۔ مہاتما گاندھی نے انڈیا کی جدوجہد آزادی کو نئی شکل دی۔ انہوں نے اس کو مکمل طورپر پُر امن طریقِ کار کی بنیاد پر قائم کیا۔ انڈیا کے تمام لیڈروں، بشمول مسلم لیڈروں نے، مہاتما گاندھی کا ساتھ دیا۔ یہ مہم کامیاب رہی۔ یہاں تک کہ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو انڈیا مزید خون بہائے بغیر آزاد ہوگیا۔
انڈیا میں پُر امن طریقِ کار کے اس کامیاب تجربہ کا اثر عالمی سیاست پر پڑا۔ مختلف ملکوں کے لیڈروں نے اس کو اختیار کرلیا۔ مثلاً ساؤتھ افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا، امریکا کے سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ، وغیرہ۔ میں نے مزید بتایا کہ پُر امن طریقِ کار کا یہ اصول اسلام میں بہت پہلے بتایا جاچکا تھا۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ان اللہ یعطی علی الرفق مالا یعطی علی العنف( صحیح مسلم)۔ یعنی اللہ رفق پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ عنف پر نہیں دیتا۔
God grants to non-violence what he does not grant to violence.
۱۲ مارچ کی شام کو دو قسطوں میں طویل نشست ہوئی۔ اس نشست کا عنوان یہ تھا: تحریک الرسالہ منزل بہ منزل۔ اس نشست میں میں نے تفصیل کے ساتھ الرسالہ مشن کے ماضی اور حال کو بیان کیا۔ اس پوری تقریر کی باقاعدہ طورپر آڈیو ریکارڈنگ ہوئی تاکہ اس کے کیسیٹ تیار کیے جاسکیں۔
میںنے اس تفصیلی تقریر میں جو کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ الرسالہ مشن میری زندگی سے مکمل طورپر جُڑا ہوا ہے۔ اس لیے اس کی وضاحت کے لیے مجھے کچھ اپنے بارے میں بتانا ہوگا۔ میںنے کہا کہ میرے نزدیک الرسالہ مشن ۱۹۳۸ سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت میرے گھر کا جو ماحول تھا اُس کے لحاظ سے مجھے انگریزی تعلیم کی طرف جانا چاہیے تھا۔ مگر میرے چچا صوفی عبد المجید خاں (وفات ۱۹۴۸) نے اصرار کرکے میرا داخلہ عربی مدرسہ میںکرایا۔ اُنہوں نے شروع سے آخر تک تمام اخراجات کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ میںایک عربی درسگاہ میں تعلیم حاصل کروں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عربی درسگاہ میں تعلیم کے بغیر میرے لیے یہ ناممکن تھا کہ میں الرسالہ مشن جیسی دینی تحریک چلا سکوں۔ اس معاملہ کو میں نے مدرسہ کی کئی مثالوں سے واضح کیا۔ مدرسہ کے بارہ میں مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب ،دین و شریعت، باب دینی مدارس۔
موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما تقریباً سب کے سب کسی وقتی ردعمل کے تحت اُبھرے ہیں۔ مگر مدرسہ کے تحت میری تعلیم کا یہ نتیجہ ہوا کہ میری سوچ حالات کے رد عمل کے زیر اثر نہیں بنی بلکہ خود مذہبِ اسلام کی مثبت تعلیم کے تحت بنی۔ اُس زمانہ کی تحریکوں میں سے کسی بھی تحریک سے میں متاثر نہیں ہوسکا۔ میرا ذہن تمام تر قرآن اور حدیث اور سیرت کی روشنی میں بنتا رہا۔
میں نے کہا کہ اپنی پچھلی زندگی میں میں کئی مسلم جماعتوں سے محدود مدت کے لیے وابستہ رہا ہوں۔ مگر میری یہ وابستگی تنظیمی اعتبار سے تھی، وہ فکری یا نظریاتی اعتبار سے نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ایک پیدائشی داعی ہوں۔ آج میری جو سوچ ہے، میری وہی سوچ ابتدائی دور سے میرے اندر موجود رہی ہے۔ مثلاً میں ۱۹۴۸ میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوا۔ مگر یہ وابستگی زیادہ تر تنظیمی وابستگی تھی۔میرا فکر اُس وقت بھی وہی تھا جو بعد کو الرسالہ کے صفحات میں نمایاں ہوا۔
اس کا ایک ثبوت میری کتاب ’’قرآن کا مطلوب انسان ‘‘میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں جو مضامین ہیں وہ سب کے سب اُس زمانہ میں لکھے گئے اور شائع ہوئے جب کہ میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ تھا۔ کوئی بھی شخص جو اس کتاب کو پڑھے وہ پائے گا کہ جو ذہن آج الرسالہ کے صفحات میں نظر آتا ہے، ٹھیک وہی ذہن ان قدیم مضامین کو لکھتے وقت میرے اندر پایا جاتا تھا۔
مثال کے طورپرقرآن کا مطلوب انسان میںایک مضمون ’’دعوت اسلامی کے کارکنوں کی ذمہ داریاں‘‘ شامل ہے۔ یہ تحریر جماعت اسلامی کے ترجمان سہ روزہ دعوت کے شمارہ ۵ ستمبر ۱۹۵۵ میں شائع ہوئی تھی۔ کوئی آدمی اِس مضمون کو پڑھے اور اس کے بعد وہ اس کے پچاس سال بعد چھپنے والے اُس مضمون کو پڑھے جو الرسالہ دسمبر ۲۰۰۴ میں اس عنوان کے تحت چھپا ہے: ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا، قاری محسوس کرے گا کہ لکھنے والے کا ذہن پچاس سال بعد بھی وہی ہے جو کہ پچاس سال پہلے اُس کا تھا۔
یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میری تعلیم ایک ایسے عربی مدرسہ میں ہوئی جہاں پورا قرآن بطور نصاب پڑھایا جاتا تھا۔ اس بنا پر فطری طور پر ایسا ہوا کہ میرا ذہن ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلہ کا حل قرآن سے اخذ کرنے لگا۔ میری ذہنی ساخت کے مطابق، کوئی اور چیز میرے فکر کا ماخذ نہ بن سکی۔
یہ عربی درسگاہ مدرسۃ الاصلاح تھی۔ ا س مدرسہ کے بانی مولانا حمید الدین فراہی نے اس کا نصاب قرآن کی بنیادپر وضع کیا تھا۔ مگر اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ اس میں مولانا حمید الدین فراہی کا تفسیری اُصول شامل ہوگیا۔ مولانا فراہی کا ماننا تھا کہ نظم، فہم قرآن کی کلید ہے۔ چنانچہ مدرسہ میں قرآن کی تعلیم ’’نظام القرآن‘‘ کے اصول پر دی جاتی تھی۔ ابتداء ً میں بھی اس سے متاثر ہوا۔ مگر بعد کو میرے ذہن نے اس کو رد کردیا۔
اس تعلیم کے نتیجہ میں میرے اندر فکری طورپر قرآنی شاکلہ بنا۔ میں تمام معاملات کو قرآن کی روشنی میں دیکھنے لگا۔ ہر مسئلہ کا جواب قرآن میں تلاش کرنے لگا۔ مسلمانوں کے لیے راہ عمل کیا ہو، اس سوال کا جواب قرآن میں ڈھونڈھنے لگا۔ مدرسہ کی تعلیم کا یہ بلا شبہہ بہت بڑا فائدہ تھا جو مجھ کو اپنی ابتدائی عمر میں حاصل ہوگیا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے تو مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے لوگ صرف ایک ہی بات لکھنا اور بولنا جانتے تھے اور وہ یہ کہ حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر اُس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا لفظی ہنگامہ کھڑا کرنا۔ میں نے بتایا کہ اس مسئلہ کا یقینی حل قرآن میں بتایا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اس معاملہ میں صبر اور تقویٰ کی روش اختیار کریں، اس کے بعد دوسروں کی سازش انہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی (آل عمران ۱۲۰) اسی اصول کو اختیار کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ اب ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا تقریباً خاتمہ ہوگیا ہے۔
میں نے مزید کہا کہ کسی کے لیے بھی مدرسہ کی تعلیم کافی نہیں ہوسکتی۔ رسمی تعلیم کسی کو معلومات دے سکتی ہے۔ مگر ایک اور چیز ہے جو مدرسہ کی تعلیم سے نہیں ملتی ۔ وہ ہمیشہ ذاتی مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ یہ منطقی تجزیہ (logical analysis) ہے۔ تجزیہ اور تحلیل کے ذریعہ آدمی حاصل شدہ معلومات کو با معنٰی بناتا ہے۔ تجزیہ کی صلاحیت کے بغیر معلومات کا فائدہ بہت کم ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امیر شکیب ارسلان کی کتاب لما ذا تاخر المسلمون و تقدم غیرہم کو میں نے مدرسہ کے زمانہ میں پڑھا تھا۔ مگر اس کتاب میں کیا کمی ہے، اس کو میں اُس وقت دریافت نہ کرسکا۔ بہت دنوں کے بعد حال میں میں نے اس کتاب کو دوبارہ پڑھا۔ اب میں نے جانا کہ یہ کتاب اپنے شاندار ٹائٹل کے باوجود ایک سطحی کتاب ہے۔ اس کی زبان یقینا بہت عمدہ ہے۔ مگر وہ حقیقی معنویت سے خالی ہے۔
حالیہ مطالعہ کے بعد میںنے غور کیا کہ اس کتاب میںمسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے تقدم اور تاخر کا ایک ہی معیار تسلیم کیاگیا ہے، اور وہ سیاسی اور مادی ہے۔ مصنف دونوں گروہ کو اسی ایک کسوٹی پر جانچ رہے ہیں۔ حالاں کہ یہ مفروضہ غلط ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے لوگ ایک طرف مسلمانوں کو خیر الأمم اور أفضل الأمم بتاتے ہیں اور دوسری طرف وہ ان کو اُسی معیار سے جانچنے لگتے ہیں جو دوسری قوموں کے نزدیک ترقی اور تنزل کا معیار ہے۔ جب کہ دونوں کا معیار ایک نہیں ہوسکتا۔
الرسالہ مشن کے بارہ میں جو تفصیلات میںنے بتائیں اُس سے حاضرین بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ ہم کو یہ معلوم نہ تھا کہ الرسالہ مشن کے سلسلہ میں آپ کو اتنے سنگین مراحل سے گذرنا پڑا ہے۔ اس تقریر کو دو کیسٹ میں ریکارڈ کیا گیا تھا مگر وہ مکمل نہ ہوسکا۔اس سلسلہ میں تیسرے کیسٹ کی ریکارڈنگ ابھی باقی ہے۔ انشاء اللہ کسی اور موقع پر اس سلسلہ کا تیسرا کیسٹ تیار کیا جائے گا۔ اس کے بعد تینوں کیسٹ کی نقلیں تیار کی جائیںگی تاکہ مختلف مقامات کے لوگ اس کو حاصل کرسکیں۔
ایک مجلس میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ تاریخ کا ایک دردناک تجربہ یہ ہے کہ پوری تاریخ میں کبھی مثبت معنوں میں کوئی زیادہ بڑا اور گہرا کام نہ ہوسکا۔ اس عموم میں صرف ایک ہی استثناء ہے اور وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ آپ کے ذریعہ مسلمہ طورپر ایک عظیم انقلاب برپا ہوا، ایک ایسا انقلاب جو اپنے مثبت نتائج کے اعتبار سے نہ آپ سے پہلے پیش آیا اور نہ آپ کے بعد۔
مسلمان عام طورپر اس معاملہ کو فضیلت اور تقدس کی اصطلاحوں میں سوچتے ہیں۔ اس لیے اس واقعہ کے سبق آموز پہلو کو وہ سمجھ نہیں پاتے۔ میرے مطالعہ اور تجربہ کے مطابق کسی مشن کی حقیقی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے افراد کی ایک ٹیم حاصل ہوجائے۔ مگر تاریخ میں بار بار ایسا ہوا کہ ایک شخص نے ایک دور رس مشن شروع کیا۔ ابتداء میں اعلیٰ صلاحیت والے لوگ اس مشن سے جڑے مگر جلد ہی وہ اس سے الگ ہوگئے۔میرے تجربہ کے مطابق، اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ صلاحیت کے افراد کے اندر جلد ہی یہ سوچ آجاتی ہے کہ ہم دوسرے کا ضمیمہ کیوں بنیں۔ کیوں نہ ہم خود اپنا ایک مستقل مشن کھڑا کریں۔ یہی واقعہ تاریخ کے تمام صاحب مشن افراد کے ساتھ پیش آیاہے۔
خود الرسالہ مشن کے بارے میں بھی میرا تجربہ یہی ہے۔ ابتدائی زمانہ میں کم ازکم ایک درجن ایسے افراد ہمارے ساتھ جڑے جو نہایت اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔ مگر بعد کو ان سب نے یہ کیا کہ ہم سے کٹ کر اپنی علیٰحدہ دنیا بنانے کی کوشش کی۔ ان میں سے کچھ نے خاموشی کے ساتھ اپنا الگ کام شروع کردیا اور کچھ نے الگ کام کے ساتھ ہماری مخالفت کو بھی ضروری سمجھا، شاید اس لیے کہ وہ اپنی علیٰحدگی کو جائز ثابت کرسکیں۔ تاہم ہمارے کئی ساتھی ایسے ہیں جو اعلیٰ صلاحیت کے باوجود ہمارے ساتھ مسلسل جڑے رہے۔ انہی میں سے ایک نام بھوپال کے ڈاکٹر محمد حمید اللہ ندوی کا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ میں نے درسِ قرآن کا ایک کیسٹ سُنا۔ اُس میںقرآن کی یہ آیت آئی: یا ایہا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط (النساء ۱۳۵) اُنہوں نے کہا کہ اس کیسٹ میں قرآن کی اس آیت کی تشریح یہ کی گئی تھی کہ اے ایمان والو، تم قسط کو قائم و نافذ کرنے والے بنو۔ ساری دنیا میں قسط اور عدل کا نظام قائم کرو۔ اس مقصد کے لیے جنگ کی ضرورت پیش آئے تو تم کو جنگ کرکے ساری دنیا میں قسط کا نظام برپا کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیا آیت کی یہ تشریح درست ہے۔
میں نے کہا کہ یہ ایک بے بنیادتشریح ہے۔ اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔ قوامین بالقسط کا مطلب، خود قسط کی پیروی کرنا ہے، نہ کہ خارجی دنیا میں قسط کا نظام نافذ کرنا۔ اس قسم کی تفسیروں سے نہایت غلط ذہن بنتا ہے۔ قرآن کے مطالعہ یا درس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر خود احتسابی کا مزاج بنے۔ وہ اصلاحِ خویش کے عمل میں مصروف ہوجائے۔ مگر مذکورہ قسم کے درسِ قرآن سے اُلٹی سوچ بنتی ہے۔ اس سے لوگوں کے اندر سیاسی اور خارجی ذہن بنتا ہے، نہ کہ داخلی ذہن، جو کہ اصلاً مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ عربی زبان میں دو لفظ الگ الگ ہیں، قائم اور مقیم۔ قائم کا لفظ لازم کا صیغہ ہے اور مقیم کا لفظ متعدی کا صیغہ۔ اس آیت میں قوّام کا لفظ قائم کامبالغہ ہے، وہ مقیم کا مبالغہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو، تم خوب خوب قسط پر قائم ہوجاؤ، اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ قسط کی پیروی کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم قسط کو زمین پر نافذ کرنے والے بنو۔ میرے نزدیک اس قسم کی تفسیر نحوی انحراف کا واقعہ ہے۔ قرآن میں اس قسم کا نحوی انحراف سخت جسارت کی بات ہے۔ میں نے اپنے مطالعہ میں اس قسم کا نحوی انحراف صرف اردو تفسیروں میں پایا ہے۔ قدیم عربی تفسیروں میں نہیں۔ البتہ سید قطب کی فی ظلال القرآن میں ایسے نحوی انحراف کی مثالیں موجود ہیں۔
کچھ لوگوں سے مسلم صحافت کے بارہ میں بات ہوئی۔ میں نے کہا کہ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانانِ ہند کے درمیان جو ملّی صحافت پیدا ہوئی اس کو لکھنؤ کے ایک سابق روزنامہ قائد نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا تھا کہ ہندستان کی مسلم صحافت احتجاجی صحافت ہے (۱۹۶۷) بد قسمتی سے مسلم صحافت کا یہ انداز ابھی تک جاری ہے۔ حالاں کہ اب حالات اتنے زیادہ بدل چکے ہیں کہ اب ایسی صحافت کا ہندستان میں کوئی مستقبل نہیں۔
میں نے اُسی زمانہ میں لکھا تھا کہ مسلمانوں کی احتجاجی صحافت صرف اُس وقت تک چلے گی جب تک مسلمان بے خبری کے دَو رمیں جی رہے ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ انڈیا مسلمانوں کے لیے عظیم مواقع (opportunities) کا ملک ہے۔ مگر نام نہاد رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجہ میں وہ انڈیا کو اپنے لیے ایک پرابلم کنٹری سمجھ رہے ہیں۔ جس دن ایسا ہوگا کہ مسلمان انڈیا کو امکانات کے ملک کی حیثیت سے دریافت کریں گے اُسی دن شکایت اور احتجاج پر مبنی صحافت اور سیاست ختم ہوجائے گی۔
یہ دور اب انڈیا میں خاموشی کے ساتھ آچکا ہے۔ اب انڈیا کے مسلمان جان چکے ہیں کہ یہاں ان کے لیے ترقی کے بھرپور مواقع موجود ہیں، حتیٰ کہ اس سے بھی زیادہ جتنا کہ پاکستان اور دوسرے مسلم ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اب انڈیاکا مسلمان تیزی سے تعلیم و ترقی کے راستہ پر سرگرمِ سفر ہوگیا ہے۔ اب اس ملک میں قدیم طرز کی احتجاجی سیاست کامیاب ہونے والی نہیں۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ نہایت ذہین تھے اور رسمی تعلیم کے علاوہ انہوں نے اسلامیات کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ لوگ اسلام کو فائنل مذہب بتاتے ہیں۔ مگر مجھے تو اسلام ایک دُشوار گذار جنگل معلوم ہوتا ہے جس سے گذر کر اپنی منزل تک پہنچنا سخت دشوار ہو۔
اُنہوں نے کہا کہ قرآن بلا شبہہ ایک محفوظ کتاب ہے۔ مگر قرآن میں صرف اُصولی تعلیمات ہیں۔ اس بنا پر قرآن میں ایک سے زیادہ تعبیر (interpretation) کی گنجائش ہوگئی ہے۔ حدیث کے ذخیرہ میں ضعیف اور موضوع احادیث شامل ہوگئی ہیں۔ کتب صحاح بھی اس سے پاک نہیں۔ سیرت کو عملاً مغازی کی داستان بنا دیاگیا ہے۔ اسلامی تاریخ بھی سیاسی واقعات کی تاریخ بنی ہوئی ہے۔ فقہ بھی اختلافی بحثوں کا مجموعہ ہے۔ کتب عقائد بھی اختلافات سے خالی نہیں۔ ایسی حالت میں ایک طالب علم کے لیے یہ سمجھنامشکل ہوگیا ہے کہ اسلام حقیقت میںکیا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کی یہ بات بطور واقعہ ایک حد تک درست ہے۔ مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہ کوئی نقص کی بات نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تقلیدی اسلام مطلوب نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو وہ انسان مطلوب ہے جو اسلام کو ایک ڈسکوری کے طورپر دریافت کرے۔ اس کو قرآن میں معرفتِ حق (المائدہ ۸۳) کہا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایمان باللہ وہ ہے جو کسی کو معرفت کی سطح پر ملے، نہ کہ محض تقلید کی سطح پر۔
اسلام کی موجودہ صورت ہی کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک آدمی کے اندر غور و فکر کا عمل اُبھرے۔ وہ گہرے مطالعہ اور تجزیہ کے مراحل سے دوچار ہو۔ وہ ابہام کی وادیوں سے گذرے۔ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی تلاش کو یافت بنائے۔ وہ شک کے پردوں کو پھاڑ کر یقین کا مقام حاصل کرے۔ وہ اپنی بصیرت کو اس حد تک بیدار کرے کہ وہ نہ دکھائی دینے والے عالم کو دیکھنے لگے۔ وہ خدا کا اس طرح پرستار بن جائے جیسے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ وہ افکار کے جنگل میں روشنی کے مینار کو پالے۔ اسی کا نام عارفانہ ایمان ہے، اور خدا کو عارفانہ ایمان مطلوب ہے، نہ کہ مقلدانہ ایمان۔
میں نے کہا کہ قرآن کی سورہ نمبر ۳ میں ارشاد ہوا ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اُٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (آل عمران ۱۹۰۔۱۹۱)۔
اس قرآنی بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی غور وفکر کے ذریعہ سچائی تک پہنچتا ہے۔ اگر سچائی کو پانے کے لیے غوروفکر کی ضرورت نہ ہوتی تو قرآن کو ایک مینول (manual) کے روپ میں اتارا جاتا۔ اس میں ریاضیات کی زبان میں کچھ قانونی احکام ہوتے۔ آدمی کسی ذہنی کاوش کے بغیر سادہ طورپر صرف اس کو پڑھ کر جان لیتا۔
مگر اس قسم کا رسمیاتی ایمان خداکو مطلوب ہی نہیں۔ ایسا ایمان کسی روبوٹ جیسی مخلوق کا ہوسکتا ہے۔ مگر وہ انسان جیسی مخلوق کے لیے نہیں ہوسکتا۔انسان ایک زندہ اور صاحب فکر ہستی ہے۔ ایسے انسان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ اپنی فکر ی صلاحیت کو متحرک کرکے حقیقت کو پائے۔اس طرح کی تلاش کے بعد جو حقیقت آدمی کوملے وہ اس کی پوری ہستی میں شامل ہوجاتی ہے۔ جب کہ مینول یا آداب (etiquette) جیسا ایمان آدمی کے وجود کا صرف ایک خارجی ضمیمہ ہوتا ہے۔ ایسا بے روح ضمیمہ خدا کو مطلوب نہیں۔
۱۲ مارچ کو ایک خصوصی پروگرام تھا۔ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر کی دعوت پر میں اُن کی سرکاری رہائش گاہ پر گیا۔ میرے ساتھ پندرہ افراد تھے۔ تعداد کو محدود رکھنا تھا اس لیے کئی ساتھی اس میں نہ جاسکے۔ اُن میں سے دو کے نام یہ ہیں: استتھی ملہوترہ اور منجو ورمانی۔جب میں چیف منسٹر کی رہائش گاہ سے واپس آیا تو معلوم ہوا کہ دونوں خواتین بہت غم زدہ ہیں اور اس محرومی پر رو رہی ہیں۔
میںنے دونوں کو بلایا اور کہا کہ آپ کا یہ منفی تاثر ہمارے مشن کی اسپرٹ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارا مشن یہ ہے کہ ہر منفی تجربہ کو مثبت سوچ میں تبدیل کیا جائے۔ میںنے کہا کہ آپ اپنی سوچ کو بدلیے۔ اس معاملہ میں آپ اس طرح سوچئے کہ اس موقع پر دوسروں کو اگر شرکت (participation) کا موقع ملا تو آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ قربانی (sacrifice) کا ثبوت دے کر زیادہ بڑے انعام کے مستحق بن سکیں۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور دونوں خواتین محرومی کے احساس کو بھلا کر یافت کے احساس سے خوش ہوگئیں۔
سوال و جواب
بھوپال کے اجتماع کے موقع پر بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں مسلم بھی تھے اور غیر مسلم بھی۔ ان ملاقاتوں کے درمیان لوگوں نے مختلف قسم کے سوالات کیے۔ اس سوال و جواب کی مختصر روداد یہاں نقل کی جاتی ہے۔
۱۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ بعد کے دور کے مسلم علماء نے جو باتیں کہی ہیں، ان کی ایک قسم وہ ہے جو نص قطعی پر مبنی ہو۔ کوئی عالم جب ایک ایسی بات کہے جو قرآن وحدیث کے ثابت شدہ حوالوں پر مبنی ہو تو ایسی رائے پر کسی کو تنقید کا حق نہیں۔ مثلاً ایک عالم اگر یہ کہتا ہے کہ نماز اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رُکن ہے تو اس پر کوئی شخص تنقید کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ کیوں کہ یہ رائے ایک معلوم نص پر مبنی ہے۔
رائے کی دوسری قسم وہ ہے جو قرآن و حدیث پر اضافہ کے ہم معنٰی ہو۔ مثلاً دار الکفر، دار الحرب اور دار الاسلام کی اصطلاحیں مقرر کرنا۔ ایسی رائے شرعی اصطلاح کے مطابق ایک اجتہاد ہے۔ اجتہاد کے بارے میں شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ مجتہد کا اجتہاد صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی (المجتہد یخطیٔ ویصیب) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو رائے اجتہاد کی نوعیت رکھتی ہو اس کے بارے میں ہر ایک کو حق ہے کہ وہ اس کو جانچ کر دیکھے کہ و ہ عالم کا صحیح اجتہاد ہے یا غلط اجتہاد۔ گویا جہاں اجتہاد آیا وہاں اس سے اختلاف کرنا ممکن ہوگیا۔ ایسی حالت میں کسی عالم کی اجتہادی رائے پر علمی تنقید کرنا یقینی طور پر جائز ہے۔ جو لوگ ایسی تنقید کو بُرا سمجھیں وہ خود شرعی اعتبار سے ایک غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں۔
۲۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ میںاسلامی ریاست کے قیام کا مخالف نہیں ہوں۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ ریاست سے پہلے ہمیشہ افرادِ ریاست کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ دراصل افراد ہیں جو کسی نظریاتی ریاست کو قائم کرتے ہیں۔ اسلامی ریاست کاغذ سے نکل کر زمین پر قائم نہیں ہوتی۔
آج بھی دنیا میں مسلمانوں کی ۵۷ ریاستیں ہیں۔ ان میں وہ ریاستیں بھی موجود ہیں جو اسلامی ریاست کے نام ہی پر قائم کی گئیں۔ مگر جیساکہ معلوم ہے، ا ن میں سے کوئی بھی ریاست حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست نہیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے کسی ریاست کو کامیاب قومی ریاست بھی نہیں کہا جاسکتا، جیسا کہ سنگاپور یا جاپان کو کامیاب قومی ریاست کہا جاتا ہے۔
اسلامی ریاست بلا شبہہ ایک مطلوب چیز ہے۔ مگر اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے فکری عمل کے ذریعہ اسلامی افراد تیار کیے جائیں۔ اس کے بعد غیر سیاسی تحریک کے ذریعہ اسلامی معاشرہ بنایا جائے۔ اس کے بعد وہ وقت آئے گا جب کہ اسلامی ریاست کسی زمینی خطہ میں قائم ہو۔ اسلامی ریاست کے نام پر جنگجویانہ تقریر یں کرنا یا قائم شدہ حکومتوں کے خلاف سیاسی ہنگامے کھڑے کرنا بلا شبہہ ایک مجرمانہ فعل ہے، وہ کسی درجہ میں بھی اسلامی ریاست کی طرف کوئی اقدام نہیں۔
۱۹۴۷ میں جب پاکستان بنا تو وہاں کے ایک مسلم رہنما نے کہا تھا کہ : پاکستان اسلام کے نام الاٹ ہوچکا ہے۔ اُنہوں نے اس مفروضہ کی بنیاد پر پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے دھواں دھار تحریک شروع کردی۔ مگر آخر میں یہ معلوم ہوا کہ پاکستان اسلام کے نام الاٹ نہیں ہوا تھا بلکہ وہ صرف ایک بگڑی ہوئی مسلم قوم کے نام الاٹ ہوا تھا۔ یہ تلخ تجربہ کافی ہے کہ اب دوبارہ اس نام نہاد اسلامی سیاست کو نہ دہرایا جائے۔
۳۔ ایک اور سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کو ہر قسم کے اعلیٰ مواقع حاصل ہیں۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، یہاں شاید کوئی ایک بھی مسلمان نہیں جو اس کو ایک نعمت سمجھے اور اس پر خدا کا شکر ادا کرے۔ ۱۹۴۷ کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے صرف بے بنیاد شکایتوں کا دفتر کھولے ہوئے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ناشکری کا ایک واقعہ ہے۔ بدقسمتی سے ناشکری کے اس ناروا فعل میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیکولر د ونوں قسم کے لوگ مبتلا ہیں۔
میں نے کہا کہ ہندستان کے ایک مسلم اسپیکر نے ملی موضوعات پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے آخرمیں ایک ہندو نے سوال کیا کہ آپ لوگ کیوں ہم کو کافر کہتے ہیں، حالاں کہ کافر ایک ڈیروگیٹری (derogatory) لفظ ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مسلم مقرر نے کہا کہ ہمارے نزدیک جو شخص مسلم نہیں وہ کافر ہے۔ کافر کا لفظ نان مسلم کے ہم معنٰی ہے۔ آپ اسلام قبول کرکے مسلم بن جائیں تو ہم آپ کو کافر نہیں کہیں گے۔
یہ بلا شبہہ ایک غلط جواب ہے۔ اس کی غلطی اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی ہندو مقرر ہندوازم پر تقریر کرے اور پھر ایک پاکستانی مسلمان اُس سے کہے کہ آپ لوگ مسلمانوں کو ملچھ کیوں سمجھتے ہیں اور ہندو مقرر اس کے جواب میں یہ کہے کہ ہمارے نزدیک جو شخص ہندونہیں وہ ملچھ ہے، آپ لوگ اپنا مذہب بدل کر ہندو بن جائیں تو ہم آپ کو ملچھ نہیں کہیں گے۔ اگر پاکستان کا کوئی ہندو پبلک اسٹیج پر اس طرح بولے تو اس کو اُسی وقت قتل کردیا جائے گا۔ اس کے برعکس ہندستان کے مذکورہ مسلم مقرر بدستور امن کے ساتھ ہندستان میں رہ رہے ہیں۔ ان کی تقریر کے ویڈیو کیسیٹ جگہ جگہ دیکھے اور سنے جارہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندستان مسلمانوں کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے۔ تاہم مذکورہ قسم کا واقعہ ہندستان کی آزادی کو مِس یوز (misuse) کرنے کے ہم معنٰی ہے۔ ایسا فعل شریعت کے خلاف بھی ہے اور عقل کے خلاف بھی۔
۴۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں کئی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزی زبان میں اسلام پر کتابیں لکھیں۔ مثلاً جسٹس امیر علی اور پروفیسر مجیب، وغیرہ۔ مگر ان لوگوں نے اسلام کی مرعوبانہ تشریح کی۔ وہ اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پیش نہ کرسکے۔
مثلاً جسٹس امیر علی نے اپنی کتاب اسپرٹ آف اسلام میں تعدد ازواج کی توجیہہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن کی اس تعلیم کو قدیم قبائلی رواج کی روشنی میں دیکھنا چاہیے، کیوں کہ اس وقت تعدد ازواج کا عام رواج تھا اور اس کو بُرا نہیں مانا جاتا تھا۔ مگر یہ توجیہہ درست نہیں۔ اس قسم کی توجیہات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام قدیم زمانہ کے لیے تھا۔ موجودہ زمانہ میں اسلام قابلِ عمل نہیں۔
۵۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میںنے کہا کہ آج کل سوشل ورک اور کمیونٹی ورک وغیرہ کا بہت چرچا ہے مگر اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق یہ سوچ درست نہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: کہو کہ اگر تمہارے با پ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا قبیلہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، یہ سب تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمان لوگوں کو راستہ نہیں دیتا (التوبہ ۲۴)
اس آیت کے مطابق، انسانی تعلق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے قلبی تعلق (loving relationship) اور دوسرا ہے عملی تعلق (working relationship) خدا کے نقشۂ تخلیق کے مطابق، دلی محبت کا تعلق صرف خالق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ کوئی انسان خالق کے سوا کسی اور سے اگر دلی تعلق قائم کرتا ہے تو وہ خالق کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ ایسا آدمی خدا کی رحمت سے محروم کردیا جائے گا۔ البتہ جہاں تک عملی تعلق یا ضرورت کے تحت تعلق کی بات ہے، وہ کسی بھی غیر خدا کے ساتھ ہوسکتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کمیونٹی ورک، فیملی لائف، ملی خدمت، قومی تعلق، سوشل ورک وغیرہ اگر ضرورت کے دائرہ میںکئے جائیں تو وہ خدا کی شریعت میں جائز قرار پائیں گے مگر ایسے کام کی حیثیت سکنڈری ہوگی نہ کہ پرائمری۔لیکن اگر انہی چیزوں کو سب کچھ بنا دیا جائے، آدمی کا ذہن انہی کاموں کے لیے سوچے، اس کا وقت اور پیسہ انہی کاموں پر خرچ ہو، وہ انہی باتوں کا چرچا کرے، وہ انہی باتوں کے لیے تحریکیں چلائے تو خدا کے نزدیک وہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ یہی وہ سرگرمیاں ہیں جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ ان کو بہت اچھا کام سمجھتے ہیں مگر خدا کے یہاں وہ حبط اعمال کے خانہ میں ڈال دئے جائیں گے۔
۶۔ ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ قرآن میں ایک مقام پر پچھلے پیغمبروں کا ذکر کرتے ہوئے پیغمبر اسلام سے کہاگیا ہے کہ : اولٰئک الذین ہدی اللہ فبہداہم اقتدہ (الأنعام ۹۰) ۔ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔
قرآن کی اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کے اعتبار سے تمام پیغمبروں کا درجہ برابر ہے۔ ہر پیغمبر یکساں طورپر قابل اتباع ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مختلف پیغمبر مختلف حالات میں پیدا ہوئے۔ ہر پیغمبر کی زندگی یہ بتاتی ہے کہ ان حالات میں دین خداوندی کی پیروی کا طریقہ کیا ہے۔ پیغمبروں کے درمیان فرق کرنا اس حکمتِ الٰہیہ کی تردید ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جب بھی ایسا ہو کہ کسی پیغمبر کے زمانہ میں جو حالات تھے وہی حالات دوبارہ پیش آئیں تو بعد کے لوگوں کے لیے سابقہ پیغمبرکے طریقہ کی پیروی عین اسلام قرار پائے گی۔ یہ دراصل حالات کے فرق کا معاملہ ہے نہ کہ پیغمبروں کے درمیان فرق کا معاملہ۔
اس اُصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قابل عمل نہ رہے گی۔ مثلاً اگر یہ مانا جائے کہ فتح مکہ کے بعد کا دور نبوت تکمیلی دورِ نبوت ہے اور فتح مکہ سے پہلے کا دورِ نبوت غیر تکمیلی دورِ نبوت، تو پچھلے دور کے تمام پیغمبرانہ نمونے منسوخ قرار پائیں گے۔
مثلاً مکہ کے ابتدائی زمانہ میں چھپ کر نماز پڑھنا یا خفیہ دعوت دینا، کعبہ میں بتوں کی موجودگی سے تعرض نہ کرتے ہوئے دعوت کا کام کرنا، مخالفینِ قریش کے ظلم کو سہنا مگر اُن سے ٹکراؤ نہ کرنا، مکہ میں جنگی چیلنج سے اعراض کرتے ہوئے خاموشی سے مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جانا، طائف کے مشرک سرداروں سے پناہ طلب کرنا، ہجرت کے سفر میںدشمنوں کے خوف سے غارِ ثور میں چھپنا، مدینہ کے ابتدائی دور میں یہود کے ساتھ مصالحت کا معاملہ کرنا، وغیرہ۔ اس قسم کے تمام پیغمبرانہ واقعات بلا شبہہ اسلامی زندگی کے مطلوب نمونے ہیں۔ مگر فتح مکہ کے بعد کے زمانہ کو اعلیٰ زمانہ قرار دینے کی صورت میں یہ تمام نمونے منسوخ قرار پائیں گے اور ان نمونوں کی حکمت اہلِ اسلام کے لیے ناقابلِ فہم بن جائے گی۔ اسلام میں اصل چیز یہ ہے کہ مختلف حالات میں اہلِ ایمان نے کیا رسپانس دیا۔ اس لحاظ سے مکی دور اور مدنی دور دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ دونوں ہی دوروں میں قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اہل ایمان اپنے حالات کے اعتبار سے وہ رسپانس دے سکیں جو اس وقت ان سے مطلوب تھا۔
۷۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ بیسویں صدی پوری تاریخ انسانی کی ایک استثنائی صدی تھی۔ اس صدی میں جدید افکار اپنے عروج پر پہنچ گئے۔ اس صدی میں دو انتہائی بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ برطانیہ میں برٹرینڈ رسل اور انڈیا میں ڈاکٹر رادھا کرشنن۔ دونوں کا زمانہ تقریباً ایک ہے۔ برٹرینڈ رسل کی وفات ۱۹۷۰ میں ہوئی اور ڈاکٹر رادھا کرشنن کی وفات ۱۹۷۵ میں۔ دونوں نے لمبی عمر پائی۔ برٹرینڈ رسل نے الحاد کو ایک منظم فکر کی حیثیت دی، اور رادھا کرشنن نے شرک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔
یہ دونوں مفکرین بلا شبہہ غلط سوچ کا شکار ہوئے۔ برٹرینڈ رسل نے الحاد کے لیے فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے اگر کائنات کو بنایا ہے تو خدا کو کس نے بنایا۔ مگر سائنسی حقائق، خاص طورپر بِگ بینگ کی دریافت، نے اس دلیل کو غیر سائنسی ثابت کردیا۔ ان دریافتوں کے بعد اب انسان کے لیے بے خدا کائنات اور باخدا کائنات کے درمیان چوائس نہیں رہا ہے بلکہ اب جو چوائس ہے وہ با خدا کائنات یا غیر موجود کائنات میں ہے۔ جدید دریافتوں کے بعد ہم علمی طورپر بے خدا کائنات کا چوائس نہیں لے سکتے۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم با خدا کائنات کا انتخاب کریں:
Now the choice is not between universe with God and universe without God. The real choice is between universe with God or no universe at all. Since we cannot opt for the second choice, we are compelled to opt for the first choice, that is universe with God.
۸۔ مذکورہ سوال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ بیسویں صدی میں مذہبی نقطۂ نظر سے بڑا دماغ وہ تھا جس کو ڈاکٹر رادھا کرشنن کہا جاتا ہے۔ رادھا کرشنن نے شرک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اُن کے افکار کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جب خدا کی پرستش کے لیے بُت کو سامنے رکھتے ہیں تو وہ اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم خود بُت کو خدا سمجھتے ہیں۔ بُت کو علامتی طورپر سامنے رکھنا صرف ذہنی ارتکاز (concentration) کے لیے ہوتا ہے۔
یہ توجیہہ بلا شبہہ غیر علمی اور غیر منطقی ہے۔ یہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان نہ دکھائی دینے والی حقیقت کو ذہنی طور پر فوکس نہیں کرسکتا۔ حالاں کہ واقعہ اس کے برعکس ہے۔انسان کی سب سے بڑی صفت تصوراتی فکر (conceptual thinking) ہے۔ اسی صلاحیت کو استعمال کرکے انسان نے تمام بڑی بڑی حقیقتوں کو دریافت کیا ہے۔ حتیٰ کہ خود رادھا کرشنن نے اسی انسانی صلاحیت کوا ستعمال کرکے اپنا مذکورہ فلسفہ بنایاہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی اس صلاحیت کو خدا کی پرستش کے معاملہ میں استعمال نہ کرسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ بُت کو سامنے رکھ کر خدا کی پرستش کرنا خدا کی تصغیر ہے۔ یہ پرستش کی ایک کمتر صورت (reduced form) ہے۔ عبادت کے عمل کو کچھ رسمیات (rituals) کا درجہ دینا ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہوگی کہ انسان دوسری اعلیٰ حقیقتوں کو تو اپنی تصوراتی تفکیر کے ذریعہ حاصل کرے۔ مگر خدا سے عبادتی تعلق کے لیے وہ اپنی تصوراتی فکر کی صلاحیت کو استعمال کرنے میں ناکام رہے۔
۹۔ مذکورہ مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ یہ ایک نہایت عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی میں الحاد کو ایسے اعلیٰ ذہن ملے جنہوں نے الحادکو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح اس صدی میںایسے اعلیٰ ذہن ملے جنہوں نے شرک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کے لیے غیر معمولی کوشش کی۔ یہی کام موجودہ زمانہ میں توحید کے نظریہ کے بارہ میں ہونا چاہیے۔ مگر میرے مطالعہ کے مطابق، کوئی بھی بڑا ذہن ایسا نہیں اُبھرا جو توحید کے نظریہ کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کا اہم کام انجام دے۔
یہ واقعہ ہے کہ بیسویں صدی میں توحید پرستوں کے حلقہ میں نہایت بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ مثلاً سید جمال الدین افغانی، ڈاکٹر محمد اقبال، مولانا ابو الکلام آزاد، وغیرہ۔ مگر ان دماغوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیت کو دوسرے غیر متعلق کاموں میں ضائع کیا۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہ کرسکا کہ وہ اپنی اعلیٰ صلاحیت کو برٹرینڈ رسل اور رادھا کرشنن کی سطح پر توحید کے نظریہ کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے کے لیے استعمال کرے۔
سید جمال الدین افغانی نہایت اعلیٰ صلاحیت کے آدمی تھے۔ مگر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بے فائدہ سیاست میں ضائع کردیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد ایک عبقری انسان تھے۔ مگر وہ بھی اپنی اعلیٰ صلاحیت کو وقتی سیاست میں ضائع کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ دنیا سے چلے گے۔
ڈاکٹر محمد اقبال نے اس موضوع پر کچھ خطبات دیے جن کا مجموعہ تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ (Reconstruction of Religious Thought in Islam) کے نام سے چھپا۔ مگر کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس معاملہ میں غلط فکری کا شکار ہوکر رہ گئے۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ توحید کے حق میں اعلیٰ فکری استدلال فراہم کریں۔ مگر انہوں نے توحید کو وحدتِ وجود (monism) کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔ حالاں کہ وحدتِ وجود ایک منحرف عقیدہ ہے نہ کہ توحید کا پیغمبرانہ نظریہ۔
۱۰۔ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ الرسالہ مشن اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت درجنوں کی تعداد میں جو کتابیں اُردو، عربی، انگریزی، وغیرہ زبانوں میں چھاپی گئی ہیں وہ در اصل توحید کے نظریہ کو عصری اُسلوب اور عصری دلائل کی صورت میں پیش کرنا ہے تاکہ توحید کی صداقت کو ازسرِ نو وقت کے معیار ذہنی پر مدلل کیا جاسکے، اور اس کو وقت کے انسان کے لیے قابل فہم بنایا جاسکے۔
ایک صاحب جو بھوپال کے اجتماع میں شریک ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ میں آپ کے سفرنامے پڑھتا تھا، مگر مجھے ابھی تک ان سفرناموں کی اہمیت سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ آپ کے بھوپال کے سفر میں شریک ہوکر میں نے یہ جانا کہ آپ کا سفر عام سفروں سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اس میں اتنے زیادہ فائدے ہیں جو کسی سفر نامہ میں نہیں آسکتے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کے ہر سفر میں شرکت کروں تاکہ آپ کے سفروں سے پورا پورا فائدہ حاصل کرسکوں۔ میںنے کہا کہ عملی طورپرایسا ممکن نہیں۔ اس کے بجائے آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کریں کہ سطور کے ساتھ آپ بین السطور کو پڑھ سکیں۔ اگر آپ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرلیں تو انشاء اللہ ہر سفر نامہ کو پڑھنے سے آپ کو وہی فائدہ ہوگا جو بھوپال کے سفر میں شرکت کی وجہ سے آپ کو حاصل ہوا ہے۔
۱۲ مارچ کی شام کو نماز عشاء کے بعد میری رہائش گاہ پر کئی ہندو لیڈر اور جرنلسٹ آگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو مقامی طورپر کٹروادی (hardliners) کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے جب گفتگو شروع کی تو آغاز میں اُن کے لہجے میں کسی قدر تلخی تھی۔ مگر جب میں نے گفتگو شروع کی تو جلد ہی اُن کی تلخی ختم ہوگئی اور بالکل معتدل ماحول میں ساری گفتگو ہوتی رہی۔ آخر میں وہ لوگ اس طرح رخصت ہوئے کہ لوگوں کے بیان کے مطابق، ان کی آنکھوں میں خوشی اور اطمینان کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔
گفتگو کے دوران ایک بنیادی بات میں نے یہ کہی کہ آپ لوگوں کی ساری غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ آپ مسلمان اور اسلام کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ آپ مسلمانوں کے عمل کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کہ وہی اسلام ہو۔ حالاں کہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کو یہ جاننا ہو کہ گیتا کی تعلیم کیا ہے تو اس کے لیے آپ گیتا کو پڑھیں گے۔ آپ ایسا نہیں کریں گے کہ ہندوؤں کو دیکھ کر یہ رائے بنالیں کہ اسی کا نام گیتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہمارے ملک کا ایک دستور ہے۔ یہاں بھی آپ ایسا نہیں کریں گے کہ ملک کے لوگوں کو دیکھیں اور یہ مان لیں کہ اسی کا نام دستور ہے۔ میںنے کہا کہ اسی طرح آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ مسلمان جو کچھ کریں اُسی کو آپ اسلام کی تعلیم سمجھ لیں۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اسلام اور مسلمان میں فرق کریں۔ آپ مسلمانوں کو اسلام کی روشنی میں دیکھیں نہ کہ اسلام کو مسلمانوں کی روشنی میں:
You have to differentiate between Islam and Muslims.
You have to judge Muslims in the light of Islamic teachings and not vice versa.
۱۳ مارچ کی صبح کو نماز فجر کے بعد حسب معمول بہت سے لوگ میری رہائش گاہ پر آگئے۔ یہاں دیر تک مختلف قسم کے دینی اور ملّی موضوعات پر بات ہوتی رہی۔ ایک صاحب نے کہا کہ آپ اکثر غیر مسلموںمیں دعوت کی بات کرتے ہیں۔ ابھی تو خود مسلمانوں کی اصلاح نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کے اندر بہت زیادہ خرابیاں موجود ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کریں اور اس کے بعد غیر مسلموں میں اسلامی دعوت پہنچانے کی کوشش کریں۔
میںنے کہا کہ بہت سے لوگ اس طرح کی بات کرتے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے اس مسئلہ پر گہرائی کے ساتھ غور نہیںکیا۔ اصل یہ ہے کہ پچھلے دوسو سال کے درمیان مسلمانوں کے اندر دو سو سے بھی زیادہ تحریکیں اُٹھی ہیں۔ یہ تمام کی تمام تحریکیں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے اُٹھائی گئیں۔ اس پوری مدت میںکوئی بھی ایسی قابلِ ذکر تحریک نہیںجو حقیقی معنوں میں غیر مسلموں میں دعوتِ اسلام کے لیے اُٹھائی گئی ہو۔ غالباً ہمارا مشن پہلا مشن ہے جو غیر مسلموں کے درمیان باقاعدہ طورپر اسلام کی دعوت پہنچانے کا کام کررہا ہے۔
مگر مختلف گروہوں کی دو سو سالہ کوشش کے باوجود مسلمانوں کی مطلوب اصلاح نہ ہوسکی۔ایسی حالت میں سوچنے کی اصل بات وہ نہیں ہے جو آپ فرمارہے ہیں بلکہ سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ غیر معمولی کوشش کے باوجود مسلمانوں کی اصلاح کیوں نہ ہوسکی۔ گویا کہ اصل مسئلہ مسلمانوں کی اصلاح کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کا نتیجہ نہ ملنے کا ہے۔
اصل یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، موجودہ مسلمانوں کی حیثیت ایک زوال یافتہ قوم کی ہوچکی ہے۔ جب کوئی قوم زوال کے درجہ میں پہنچ جائے تو صرف داخلی کوشش اس کی اصلاح کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ پُرانے خون (old blood)میں نیا خون (new blood) داخل کیا جائے۔ یعنی تبلیغ و دعوت کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر دوسری قوموں کے افراد بڑی تعداد میں شامل کیے جائیں۔ موجودہ مسلمانوں کو دوبارہ ایک زندہ قوم بنانے کی یہی واحد تدبیر ہے۔بندپانی میں خوشبو ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بند پانی میں جاری پانی کا دھاراداخل کردیجئے، اس کے بعد بند پانی اپنے آپ سیلاب کی صورت اختیار کرلے گا۔
بھوپال میں ملّا رموزی سنسکرتی بھون کے نام سے ایک بڑا ادارہ قائم ہے۔ ۱۳ مارچ کو ۱۱ بجے دن میں الرسالہ اکیڈمی کے زیر اہتمام اس کے وسیع ہال میں ایک پبلک جلسہ ہوا۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے۔ اس میںخطاب کا موضوع یہ تھا: کثیر المذاہب معاشرہ، مسائل اور حل۔
اس موضوع پر میںنے اسلام کی روشنی میںایک مفصل تقریر کی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ دنیا تنوع کے اصول پر قائم ہے۔ اس اُصول کا تعلق جس طرح دوسری چیزوں سے ہے اُسی طرح اس کا تعلق مذہب سے بھی ہے۔ لوگ پیدائشی طورپر مختلف ذوق کے ہوتے ہیں۔ اس لیے فطری طور پر ہر سماج میں مختلف مذاہب موجود رہیں گے۔ مذاہب کے اس تنوع کو ہمیں اسی مثبت ذہن کے تحت لینا چاہیے جس کا اظہار ذوق دہلوی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے:
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
میںنے کہا کہ مذاہب کے تنوع کو ختم کرنے کی کوشش جب بھی کی گئی وہ ناکام ہوئی۔ مثال کے طورپر دوسری عالمی جنگ کے بعدامریکا میںامریکی بنانے (Americanisation) کی تحریک شروع کی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ امریکی معاشرہ میںمذہب اور کلچر کے فرق کو ختم کرکے یکساں سماج بنایاجائے۔ مگر یہ تحریک مکمل طورپر ناکام ہوگئی۔ امریکا میںہر مذہب کو قبول کرلیا گیا۔ میںنے دیکھا ہے کہ وہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہر مذہب کو یکساں طورپر آزادی دی جاتی ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ کسی مذہب کے لوگ اپنی مذہبی روایات سے جُڑ کر زیادہ اچھا کام کرتے ہیں۔ اگر ان کو ان کی مذہبی روایات سے اکھاڑ دیا جائے تووہ سماج کے زیادہ بہتر کارکُن نہیںبنتے۔
اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد کناڈا میںیونی کلچرلزم کی تحریک چلائی گئی۔ مگر آخر کار وہ ناکام ہوئی اور اس کے بجائے ملٹی کلچرلزم کے اصول کو وہاں باقاعدہ طورپر اختیار کرلیا گیا۔
یہ ایک تفصیلی تقریر تھی۔ میں نے ا س تقریر میں اسلامی تعلیمات کو بیان کیا۔ لوگوں نے بہت دلچسپی کے ساتھ پوری تقریر کو سُنا۔ پروگرام کے خاتمہ پر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو خاتون مِز شکنتلا نے کہا—اگر اسلام وہی ہے جو مولانا صاحب نے اپنی اسپیچ میںبتایا ہے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں:
If it is Islam then where is the problem.
۱۳ مارچ کی شام کو خواتین کا ایک اجتماع کیا گیا۔ میںنے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمارے پروگر ام میں یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ خواتین کا اجتماع الگ سے کیا جاتا ہے۔ مگر مجھ کو یہ طریقہ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ میرے نزدیک مرد اور عورت د ونوں کا اجتماع ایک ساتھ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اسلام کی تعلیمات صنفی فرق پر مبنی نہیںہیں۔ دونوں ہی صنفوں کے لیے اسلام کی تعلیم یکساں ہے۔ جزئی نوعیت کے بعض مسائل ضرور الگ ہیں مگر یہ مسائل انتہائی جزئی ہیں۔ ورنہ جہاں تک اسلام کی اصل دعوت کا تعلق ہے، وہ دونوں صنفوں کے لیے یکساں ہے۔
ایک بات میںنے یہ کہی کہ آج کل خاندانی زندگی کا بگاڑ عام ہے۔ میرے نزدیک اس کا سبب صرف بے شعوری ہے۔ اصل یہ ہے کہ عورت جب اپنے میکے میں ہوتی ہے تو وہ خونی رشتہ داروں کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ سسرال میں جاتی ہے تو وہاں اس کو ایسے لوگوں کے درمیان رہنا پڑتا ہے جن سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیںہوتا۔ لڑکی اگر اس فرق کو شعوری طورپر جان لے تو اس کی شادی ہر حال میں کامیاب رہے گی۔ اس سلسلہ میںسب سے زیادہ ذمہ داری ماں باپ کی ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ ایک کامیاب زندگی کا راز یہ نہیں ہے کہ گھر میں زیادہ آمدنی ہو اور ہر قسم کے سازوسامان کا ڈھیر گھر کے اندر موجود ہو۔ بلکہ پُر سکون زندگی کا راز یہ ہے کہ لوگ سادگی کی اہمیت کوجان لیں۔
ایک بات میں نے یہ کہی کہ کامیاب ازدواجی زندگی کا سب سے بڑا راز میرے نزدیک یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے فکری رفیق (intellectual partner) بن جائیں۔ آج کل ماں باپ یہ سوچتے ہیں کہ شادی ایسی ہو جس میں دونوں مل کر زیادہ آمدنی کرسکیں۔ مثلاً عورت اور مرد دونو ں ڈاکٹر ہوں ۔ مگر میرے نزدیک یہ کامیاب شادی کی پہچان نہیں۔ کامیاب شادی وہ ہے جس میں عورت اورمرد دونوں ایک دوسرے کے فکری شریک اور معاون بن جائیں۔ دونوں آپس میں تبادلۂ خیال کے ذریعہ اپنا فکری ارتقاء کرتے رہیں۔
آخری خطاب
میں ایک پیدائشی داعی ہوں۔ دعوت ہمیشہ سے میرا نشانہ رہا ہے۔ ۱۹۵۰ میں جب کہ ابھی میں پختہ عمر کو نہیں پہنچا تھا، میںنے قر آن کے ایک لفظ کو لے کر، من أنصاری إلی اللّٰہ کے نام سے ایک ادارہ بنایا۔ پھر اس کام کے لیے ادارۂ اشاعتِ اسلام کا نام اختیار کیا۔ اُس وقت میںاپنی فیملی کے ساتھ اعظم گڑھ میں رہتا تھا۔ اُس زمانہ میں میں نے کئی چھوٹی کتابیں شائع کی تھیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا نام یہ تھا: نئے عہد کے دروازہ پر (On the Threshold of a New Era) ۔
میرا دعوتی سفر مختلف صورتوں میں مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ ۱۹۷۶ میں میں نے دہلی سے ماہنامہ الرسالہ جاری کیا اور اسلامک سنٹر قائم کرکے اس کے تحت دعوتی کتابوں کی اشاعت شروع کی۔ اب خدا کے فضل سے ان دعوتی کتابوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ کتابیں مختلف ملکی اور عالمی زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔ وہ جدید وسائلِ ابلاغ کے تحت ساری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔
لمبے مطالعہ اور تجربہ کے بعد میں نے یہ سمجھا ہے کہ دعوتِ حق کا صحیح طریقہ وہ ہے جو انفرادی اپروچ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ یعنی ایک ایک فرد کو بدلنا، ایک ایک ذہن کے اوپر ڈی کنڈیشننگ اور ری انجینئرنگ کا عمل کرنا۔ میرے مطالعہ کے مطابق، یہی پیغمبروں کا طریقہ ہے۔ اس طریقِ کار کے دو مستند تاریخی نمونے ہیں۔ ایک کو مسیحی ماڈل اور دوسرے کو محمدی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
کسی تحریک کے دوطریقے ہوتے ہیں۔ ایک ہے، عوام کو خطاب کرنا، اور دوسرا ہے، افراد کو خطاب کرنا۔ عوام سے خطاب کرنے کے لیے تحریک کو ایک عوامی اشو لینا پڑتا ہے، یعنی ایسا اِشو جس کے بارے میں پہلے سے عوام کے اندر شدید جذبات موجود ہوں۔ مثلاً بر صغیر ہند میں ۱۹۴۷ سے پہلے مہاتما گاندھی کا بیرونی راج کے خلاف عوام کو پُکارنا۔ یا محمد علی جناح کا ہندو خطرہ کے خلاف مسلمانوں کو موبیلائز کرنا۔
اس طرح کی عوامی تحریک میں یہ ہوتا ہے کہ بہت جلد لیڈر کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے۔ مگر ایسی کسی تحریک کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔ ایسی تحریک تخریبِ غیر کے لیے تو مفید ہوتی ہے مگر وہ تعمیر خویش کے لیے بالکل مفید نہیں ہوتی۔
تحریک کا دوسرا طریقہ وہ ہے جو انفرادی اپر وچ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس دوسرے طریقہ میں سارا فوکس فرد کی اصلاح پر دیا جاتا ہے۔ اس کا نشانہ افراد سے چل کر عوام تک پہنچنا ہوتا ہے، نہ کہ عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے افراد کو اپنے قبضہ میں لینا۔
کسی مشن کے لیے کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک وہ جس کو سیاسی ماڈل کہا جاسکتا ہے اور دوسرا وہ جس کو روحانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔ دونوں ہی کا مائنس پائنٹ اور پلس پائنٹ ہے۔
سیاسی ماڈل میں کراؤڈ کو ایڈریس کیا جاتا ہے۔ اس میں ہمیشہ کسی ایسے منفی اشو کو لیا جاتا ہے جو خارجی ہو۔ کیوں کہ کوئی خارجی اشو ہی کراؤڈ کا اشو بن سکتا ہے۔ سیاسی ماڈل کا پلس پائنٹ یہ ہے کہ اس میں بہت جلد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو جاتی ہے۔ لیکن سیاسی ماڈل کا مائنس پائنٹ یہ ہے کہ اس میں individual ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ اس لیے اس میں فرد کی تعمیر ممکن نہیں ہوتی۔کمیاتی اعتبار سے مشن بہت بڑا دکھائی دیتا ہے لیکن کیفیاتی اعتبار سے وہ بالکل nill ہوتا ہے۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا ماڈل روحانی ماڈل ہے۔ روحانی ماڈل میں فردکے ذہن کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے نہ کہ کسی کراؤڈ کو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روحانی ماڈل کے تحت بھیڑ اکھٹا نہیں ہوتی۔ البتہ اس میں فرد کی تعمیر گہرائی کے ساتھ ہوتی ہے۔ مشن سے وابستہ ایک ایک فرد prepared mind اور purified soul بن جاتا ہے۔روحانی ماڈل کو انٹٹی کے اعتبار سے بظاہر کم دکھائی دیتا ہے۔ مگر کوالٹی کے اعتبار سے وہ بہت عظیم ہوتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ سیاسی ماڈل صرف تخریبی واقعہ وجود میں لاتا ہے۔ جب کہ روحانی ماڈل تعمیری واقعہ کو وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے۔ الرسالہ مشن میں سیاسی ماڈل کو اختیار نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس میں روحانی ماڈل کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں ساری کوشش اس بات کی کی گئی ہے کہ ایک ایک فرد کا ذہن بنایا جائے۔ تیار افراد کی ایک ٹیم بنائی جائے۔ ایسے افراد جن میں سے ہر شخص ایک طرف سنجیدہ ہو اور دوسری طرف وہ آرٹ آف تھنکنگ کو بخوبی طور پر جانتا ہو۔الرسالہ مشن کا فطری کورس یہ ہے کہ افراد کی ایک مضبوط ٹیم بنے اور پھر یہ ٹیم مشن کے پیغام کو وسیع تر انسانیت تک پہنچا دے۔
مشہور سیرت نگار محمد بن اسحاق (وفات: ۱۵۱ھ۔۷۶۸ء) نے ایک روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرۃ الحدیبیہ (۶۲۳ء) کی ادائیگی کے بعد، اپنے منتخب اصحاب کو خطاب کیا۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’اللہ نے مجھے سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، پس تم میرے بارے میں اختلاف نہ کرو، جیسا کہ حواریوں نے عیسیٰ بن مریم سے اختلاف کیا۔ آپ کے اصحاب نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول! حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا؟ آپ نے فرمایا کہ: عیسیٰ بن مریم نے اُنہیں اس چیز کی طرف بلایاجس کی طرف میں نے تمہیں بلایا ہے۔ پس جس کو اُنہوں نے قریب کے علاقے کی طرف بھیجا تو وہ اس پر راضی ہوگیا اور اس کو مان لیا۔ اور جس کو انہوں نے دور کے علاقے کی طرف بھیجا تو وہ اس کو پسند نہیں آیا اور اُس نے گرانی محسوس کی۔ عیسیٰ بن مریم نے اللہ سے اس کی شکایت کی۔ تو جن لوگوںکو ناگواری ہوئی اُن کا حال یہ ہوا کہ اُن میں سے ہر ایک اس قوم کی زبان بولنے لگا جس کی طرف اس کوجانے کے لیے کہاگیا تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے کچھ قاصد بھیجے اور ان کو بادشاہوں کے نام مکتوب لکھ کر دیا۔ اس میں ان بادشاہوں کو اسلام کی طرف بُلایا گیا تھا۔(سیرۃ النبی لابن ہشام، الجزء الرابع، ۲۷۸۔۲۷۹)
مذکورہ روایت میںحضرت مسیح کے جس واقعہ کا ذکر ہے، اُس کا ذکر قرآن میں بھی اجمالی طور پر آیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے مدد گار بنو،جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا: کون اللہ کے واسطے میرا مددگار ہوتا ہے۔ حواریوں نے کہا: ہم ہیں اللہ کے مددگار! پس بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی، ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی۔ پس وہ غالب ہوگئے۔ (الصف ۱۴)
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح الحدیبیہ کے بعد اطرافِ عرب کے تقریباً ایک درجن حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھے اور اُنہیں اپنے سفیروں کے ساتھ متعلقہ حکمرانوں کی طرف روانہ کیا۔ ان حکمرانوں میں سے کچھ نے آپ کے مکتوب کا مثبت جواب دیا اور کچھ نے ان کو پڑھنے کے بعد منفی رویّہ اختیار کیا۔ اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے (ملاحظہ ہو، سیرت ابن کثیر، جلد ۳)
اس روایت سے دعوتی تحریک کا پیغمبرانہ ماڈل معلوم ہوتا ہے۔ یعنی دعوتی مہم کا تین مرحلوں سے گذر کر اپنی تکمیلی منزل تک پہنچنا۔
۱۔ بندۂ خدا پر حقیقت کا کھلنا، اس کا سچائی کو مکمل طورپر دریافت کرنا۔ اس طرح ایک عارف یا باخبر انسان کا وجود میں آنا۔
۲۔ پھر یہ انسان دوسرے کاموں کے علاوہ یہ کرتا ہے کہ وہ غیر معمولی جدوجہد کے ذریعہ افراد کی ایک ٹیم بناتا ہے۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو حقیقت کا شعوری ادراک رکھتے ہیں۔ ان کے اندر مشنری اسپرٹ کمال درجے میں موجود ہوتی ہے۔ وہ گویا عارفینِ حق کا منتخب کردہ ہوتا ہے۔
۳۔ اس کے بعد یہ ٹیم اس پیغام کو لے کر آگے بڑھتی ہے اور کمیونیکیشن کے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اُس کو تمام انسانوں تک پہنچا دیتی ہے۔
سہ گانہ مرحلے کی یہی ترتیب فطری ترتیب ہے۔ مسیحی ماڈل اور محمدی ماڈل دونوں اسی کی تائید کرتے ہیں۔ حضرت مسیح کے زمانہ میں اسی ترتیب سے کام ہوا۔ اور پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں بھی یہی تاریخ دوہرائی گئی۔ یعنی ایک فرد سے کام کا آغاز، اور پھر ایک ٹیم کا بننا، اس کے بعد دعوت کی عمومی توسیع۔ یہ ترتیب دعوتی کام کی فطری ترتیب ہے۔ اس لیے یہی ترتیب بعد کے زمانہ میں بھی اس کام کے لیے باقی رہے گی۔
الرسالہ مشن کے مستقبل کے بارے میں میں اکثر سوچتا تھا۔ ۱۲؍ مئی ۲۰۰۵ کی صبح کو میں اس موضوع پر غور وفکر کررہا تھا کہ اچانک مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ یہ دعوتی مشن بھی اسی فطری ترتیب کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ عمل فطرت کے زیر اثر پہلے سے جاری تھا۔ مگر مئی ۲۰۰۵ میں اس واقعہ کو میں نے شعوری طورپر دریافت کیا۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، میںنے اپنا دعوتی مشن ۱۹۵۰ء میں شروع کیا تھا، اس کے بعد وہ مختلف مراحل سے گذرتا رہا۔ تحریر و تقریر کے ایک مسلسل عمل کی صورت میں وہ برابر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اس تحریک کی پشت پر ایک طاقت ور لٹریچر تیار ہوگیا۔ یہ لٹریچر اسلام کے تمام پہلوؤں کو عصری اسلوب میں بیان کرنے والا تھا۔
اس کے بعد تیسرا تاریخ ساز واقعہ یہ ہوا کہ جنوری ۲۰۰۱ ء میں ہمارے دہلی کے دفتر میں اسپریچول کلاس کے نام سے ہفتہ وار اجتماع کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان ہفتے وار اجتماعات کے دوران خدا کی غیر معمولی نصرت ظاہر ہوئی۔چند سال کی مدت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک مضبوط ٹیم تیار ہوگئی۔ ان میں سے ہر شخص دعوتی اسپرٹ سے بھرا ہوا تھا اور عمل کا بے پناہ جذبہ اپنے اندر رکھتا تھا۔
۲۰۰۵ میں یہ تاریخ یہاں تک پہنچ چکی ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہونا چاہیے اس کا عمل بھی خدا کی خصوصی نصرت سے شروع ہوچکا ہے۔ یعنی دعوتِ حق کی اشاعت و توسیع۔ مجھے یقین ہے کہ یہ عمل رُکنے والا نہیں۔ خدا کی نصرت اس بات کی ضامن ہے کہ یہ عمل رُکے بغیر مسلسل جاری رہے یہاںتک کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے۔
مذکورہ حدیث پرغور کیجئے تو اس معاملہ کا ایک عملی پہلو سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ جب مذکورہ تقسیم کے مطابق، ایک ٹیم وجود میں آجائے تو اس کے بعد دعوت کی توسیع واشاعت ایک یقینی امر بن جاتی ہے۔ اس کے بعد ممکن طورپر صرف ایک چیز ہے جو اس عمل کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکے، اور وہ حدیث کے الفاظ میں اختلاف کا معاملہ ہے۔باہمی اختلاف ایسی بُری چیز ہے جو پورے نقشے کو تباہ کرسکتا ہے۔ ٹیم بن جانے کے بعد باہمی اختلاف کے سوا کوئی بھی چیز نہیں جو اس دعوتی سیلاب کو اس کی منزل تک پہنچنے سے روک سکے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ فکر کا اختلاف ایک فطری امرہے۔ ہر انسانی مجموعے میں یہ ہوتا ہے کہ اس کے افراد کے درمیان فکری اختلافات ظہور میں آتے ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فکری اختلاف کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اُس فن کو نہ جانتے ہوں، جس کو ’’آرٹ آف ڈفرینس مینیجمنٹ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ کسی بھی ٹیم میں رائے کا اختلاف پیدا ہونا لازمی ہے۔ البتہ ٹیم کے افراد کوذہنی طورپر اتنا زیادہ پختہ ہونا چاہیے کہ وہ رائے کے اختلاف اور عملی ٹکراؤ میں فرق کرنا جانیں۔ وہ اختلاف کے باوجود متحد ہو کر اپنا کام جاری رکھیں۔ رائے کا اختلاف ایک صحت مند علامت ہے۔ کیوں کہ وہ ڈائیلاگ کا سبب بنتا ہے اور ڈائیلاگ فکری ارتقاء کا ذریعہ ہے۔
الرسالہ مشن کے تحت جو پُر امن دعوت کا کام کرنا ہے وہ بنیادی طورپر اشاعتِ کتب کا کام ہے۔ یہ کام سب سے پہلے انگریزی کتابوں کی اشاعت سے ہوگا۔ کیوں کہ آج دنیا کی آبادی کا ۶۰ فیصد حصہ انگریزی زبان بولتا اور سمجھتا ہے۔ اس کے بعد حالات کے مطابق یہ کام دوسری زبانوں تک وسیع ہوگا۔ نظریاتی اشاعت کے اس کام کے بنیادی طورپر چند اجزاء ہیں:
۱۔ قرآن کا صحیح انگریزی ترجمہ کم قیمت پر ساری دنیا میں پھیلانا (قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ خدا کے فضل سے الرسالہ مشن کے تحت زیر تیاری ہے)۔
۲۔ الرسالہ مشن کی مطبوعہ کتابوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا۔ مثلاً:God Arises ، تذکیرالقرآن، مطالعہ سیرت، مطالعہ حدیث ،وغیرہ وغیرہ۔
۳۔ چھوٹے چھوٹے دعوتی پمفلٹ، مثلاً ان سرچ آف گاڈ، کریشن پلان آف گاڈ وغیرہ جو کئی درجن کی تعداد میں چھپ چکے ہیں، ان کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا، یہاں تک کہ وہ تمام تعلیم یافتہ انسانوں تک پہنچ جائیں۔
الرسالہ مشن مکمل طور پر ایک غیر سیاسی مشن ہے۔ اس کا مقصد کوئی اقتدار قائم کرنا نہیں ہے بلکہ صرف خدا کے پیغام کو پُرامن طورپر اور فکری طورپر تمام انسانوں تک پہنچانا ہے اور لوگوں کو خدا کے کریشن پلان سے دلائل کی زبان میں با خبر کرنا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو سمجھیں اور صحیح رخ پر اپنے مستقبل کا نقشہ بنائیں۔ دعوت الی اللہ کا یہ فکری مشن خدا کا سب سے زیادہ مطلوب مشن ہے۔ اس مشن میں خدا کی نصرت ہمیشہ یقینی ہوتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ خدا کی نصرت کا وعدہ اس مشن پر پورا ہوگا۔ اور وہ وقت آئے گا جب کہ تمام انسانوں تک خدا کا وہ پیغام پہنچ جائے گا جس کے پہنچنے کا ساری کائنات کو انتظار ہے۔دعوت الی اللہ کے کام سے زیادہ بڑا کوئی اور کام نہیں اور خدا کی مدد حاصل کرنے کے لیے دعوت الی اللہ سے زیادہ اور کوئی یقینی ضمانت نہیں۔ یہ خدا کا ابدی قانون ہے۔ اور وہ وقت دور نہیں جب کہ خدا کا یہ وعدہ اپنی کامل صورت میں پورا ہوجائے۔
میں نے اپنی کتاب پیغمبر انقلاب میں لکھا تھا کہ اسلام کے دور اول میں جو لوگ توحید کا انقلاب لائے وہ ایسے لوگ تھے جن پر پچھلی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ اب دوبارہ اسی طرح ایک نیا عصابہ (گروہ) درکار ہے جس پر پچھلی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔ جو اپنے شعور کے اعتبار سے پچھلی ہزار سالہ تاریخ کا وارث ہو۔ جو اپنے کردار کے اعتبار سے ان امکانات کو واقعہ بنانے کا اٹل ارادہ اپنے اندر لیے ہوئے ہو، جو سنجیدہ فیصلے کی اس حد پر پہنچا ہوا ہو جہاں پہنچ کر آدمی اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے پوری طرح وابستہ رہے۔ کوئی بھی خارجی واقعہ اس کو اس کے نشانہ سے ہٹانے والا ثابت نہ ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے کاگ میں اپنا کاگ ملائیں گے اور بالآخر یقینی کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے (صفحہ ۲۰۴) ۔
میری دعا ہے کہ الرسالہ مشن سے وابستہ ہونے والے لوگ اس کا مصداق ثابت ہوں۔
۱۴ مارچ کی صبح کو بھوپال سے دہلی کے لیے واپسی تھی۔ صبح کو نمازِ فجر کے بعد ایک نشست ہوئی جس میں میں نے لوگوں کو کچھ آخری نصیحتیں کیں۔ ایک بات میں نے یہ کہی کہ آپ میں سے ہر شخص کو وَن مین، ٹو مشن(one man, two mission) کی مثال بننا ہے۔ آپ میں سے ہر ایک کو اپنے وقت اور طاقت کا ایک حصہ معاشی کاموں میں لگانا ہے اور اس کا دوسرا حصہ دعوتی مشن کے لیے وقف کرنا ہے۔ یہ دونوں کام یکساں طورپر ضروری ہیں اور ہر ایک کو اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔
میںنے کہا کہ دعوتی عمل کے لیے کوئی لگا بندھا پروگرام نہیںہوتا۔ دعوتی عمل دراصل ایسے افراد کا طالب ہے جن کے اندر دعوت کا گہرا جذبہ پیدا ہوچکا ہو۔ یہ جذبہ یااسپرٹ اپنے آپ پروگر ام بنا لیتا ہے۔ قرآن پورے معنوں میں ایک دعوتی کتاب ہے۔ مگر قرآن میں کہیں بھی وہ چیز نہیں بتائی گئی ہے جس کو دعوتی پروگرام کہا جاتا ہے۔ اس کے بجائے قرآن میں یہ کیا گیا ہے کہ مختلف اندازسے دعوت کی روح جگائی گئی۔ اسی دعوتی روح کا یہ نتیجہ تھا کہ دور اول کے اہل ایمان نے اتنا بڑا دعوتی عمل کیا کہ زمین کے ایک بڑے حصہ میں اسلام پھیل گیا۔ دور اول میں جو عظیم دعوتی عمل ہوا اس کی پُشت پر کوئی لگا بندھا دعوتی پروگر ام نہ تھا بلکہ دعوتی اسپرٹ تھی جو ان لوگوں کو مسلسل متحرک کیے ہوئے تھی۔
بھوپال کے اجتماعات میں کتابوں کا بُک اسٹال رکھاگیا تھا۔ لوگوں نے کتابوں میں بہت دلچسپی لی۔ بیشتر کتابیں لوگوں نے خرید کر حاصل کیں اور کچھ کتابیں لوگوں کے درمیان تقسیم کردی گئیں۔ بُک اسٹال کا طریقہ بہت مفید طریقہ ہے۔ اس کو ہر اجتماع کے موقع پر استعمال کرنا چاہیے۔
بھوپال کے قیام کے دوران یہاں کے اخبارات اور ٹی وی کے مختلف چینل نے انٹرویوکیے۔ ہر انٹرویو کے موقع پر لوگوں کی کافی بھیڑ اکھٹا رہتی تھی۔ لوگوں کا تأثر یہ تھا کہ ہر انٹرویو کافی کامیاب رہا۔ یہ انٹرویو تفصیل کے ساتھ اخباروں میں چھپے اور ٹی وی چینلوں میںدکھائے گئے۔
۱۴ مارچ کی صبح کو ہم لوگ روانہ ہو کر بھوپال ایر پورٹ پہنچے۔ یہاں کافی لوگ پہنچانے کے لیے آگئے تھے۔ اُن سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ایک صاحب نے آج کے اخبارات دکھائے۔ ان اخبارات میں میرے خطابات کی رپورٹیں شائع ہوئی تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ زمانہ کیسا عجیب زمانہ ہے۔ قدیم زمانہ میں اگر آپ کوئی مشن لے کر اُٹھیں تو اس کی پبلسٹی آپ کو خود کرنی پڑتی تھی۔ آپ کے سوا کوئی دوسرا ادارہ اس کام کے لیے موجود نہ تھا۔ آج یہ حال ہے کہ آپ ایک مشن چلائیں تو آپ کو خود اُس کی پبلسٹی کرنے کی ضرورت نہیں۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا آپ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہر جگہ موجودرہتا ہے ۔ آپ سے کوئی قیمت لیے بغیر وہ آپ کے پیغام کو عمومی طورپر پھیلانے میںلگ جاتا ہے۔ ایسا ادارہ پہلے زمانہ میں موجود نہ تھا۔
ایر پورٹ کے مراحل سے گذر کر ہم لوگ جٹ ایرویز کے جہاز میں داخل ہوئے۔ جہاز ٹھیک وقت پر بھوپال سے روانہ ہوا۔ ڈاکٹر اقبال پردھان نے کہا کہ ہم جہاز کے اندر بھی دعوہ ورک کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے اور دوسرے ساتھیوں نے مسافروں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں انگریزی کے پمفلٹ مطالعہ کے لیے دیے۔ لوگوں نے نہایت دلچسپی کے ساتھ اس کو قبول کیا۔
جہاز کے اندر انگریزی روزنامہ ایشین ایج کا شمارہ ۱۴ مارچ ۲۰۰۵ دیکھا۔ اس میںایک رپورٹ کے تحت بتایاگیا تھا کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں کانووکیشن ایڈریس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے پاکستان کے معتدل طبقہ کا انتہا پسندانہ طاقتوں کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے۔ اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا میں پائیدار امن قائم ہوسکے:
He urged moderates in Pakistan to unite against extremist forces to remove “misperceptions” about Islam in the world. Misperceptions about Islam need to be removed through the strategy of enlightened moderation for durable and lasting peace in the world. (p. 5)
مسلم ملکوں کے خلاف امریکا کے تباہ کن آپریشن کے بعد تمام دنیا کے مسلمانوں کی رائے بدل گئی ہے۔ اب دنیا بھر کے مسلمان امن کی باتیں کررہے ہیں۔ حالاں کہ ایک وقت تھا جب کہ ساری مسلم دنیا میں راقم الحروف تنہا امن کی بات کررہا تھا۔ بقیہ تمام لکھنے اور بولنے والے تقریباً بلا استثناء متشددانہ جہاد کی باتیں کررہے تھے۔ عرب دنیا کا پریس الجہاد ہوالحل الوحید جیسے نعروں سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور بر صغیر ہند کے مسلمان لڑا دے ممولے کو شہباز سے کا رجزیہ ترانہ گا رہے تھے۔ مگر اب یہ لوگ ہر جگہ امن کے علم بردار بنے ہوئے ہیں۔
میرے نزدیک یہ عین وہی روش ہے جس کو قرآن میں انا کنا معکم (العنکبوت ۱۰) کے الفاظ میں بتایا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو امن پسندی کا کریڈٹ صرف اُسی وقت مل سکتا ہے جب کہ وہ اعلان کے ساتھ یہ کہیں کہ اس سے پہلے ہم دیوانے تھے کہ ہم نے جنگ پسندی کی پالیسی اختیار کی۔ اب ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے امن کے راستہ پر چلنا چاہتے ہیں۔ غلطی کا اعتراف کیے بغیر ان لوگوں کو امن پسندی کا کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ اعتراف کے بغیر اس قسم کی باتیں ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا (آل عمران ۱۸۸) کا مصداق ہیں۔
مسلم دنیا میں ’’کاروانِ امن‘‘ کے اس نئے رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے بھوپال کے حاجی محمد ادریس صاحب نے کہا کہ یہ واقعہ مجھے بنی اسرائیل کے اس واقعہ سے مشابہ نظر آتا ہے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے: اور جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اٹھایا گویا کہ وہ سائبان ہے۔ اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ اُن پر آپڑے گا۔ پکڑو اس چیز کو جو ہم نے تم کو دی ہے مضبوطی سے، اور یاد رکھو جو اس میں ہے تاکہ تم بچو (الاعراف ۱۷۱) حاجی محمد ادریس صاحب نے کہا کہ مسلم دنیا میں امریکا کی جارحانہ مداخلت اسی قسم کا ایک واقعہ تھی۔ خدانے امریکا کے فوجی پہاڑ کو مسلمانوں کے اوپر مسلط کرکے کہا کہ الرسالہ کے پیغام امن کو مانو ورنہ یہ پہاڑ تمہارے اوپر گرا دیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کا رویہ بدل گیا۔
۱۴ مارچ ۲۰۰۵ کی دوپہر کو ہمارا جہاز دہلی ایرپورٹ پر اُترا۔ لینڈنگ نہایت ہموار تھی۔ جہاز سے نکل کر ہم لوگ ایر پورٹ میں داخل ہوئے۔ انڈیا میں بہت دنوں سے یہ چرچا ہے کہ ایرپورٹ کو ورلڈ کلاس ایر پورٹ بنایا جائے۔ مگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا۔ میرے نزدیک اس معاملہ میںاصل رکاوٹ کرپشن ہے۔ گورنمنٹ ایر پورٹ اور اس قسم کے دوسرے اداروں کی تعمیر پر بہت زیادہ رقم خرچ کرتی ہے۔ مگر مطلوب نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ گورنمنٹ اس مقصد کے لیے جو رقم مختص کرتی ہے اس کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔
میرے نزدیک انڈیا میں اصل مسئلہ عالمی معیار کی تعمیر نہیں ہے بلکہ ملک سے کرپشن کو دور کرنا ہے۔ انڈیا میں کرپشن اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ غالباً اب کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گوشہ اس سے خالی نہیں۔ ہرنئی حکومت بڑے بڑے وعدے کرتی ہے۔ مگر کرپشن میںکوئی کمی نہیں آتی۔
دہلی ایر پورٹ پر جو لوگ آئے تھے ان میں مسٹر نودیپ کپور بھی تھے۔ وہ ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندان میں ۱۳۰ سال سے کتابوں کا بزنس ہورہا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پہلے مجھے اپنے بزنس میں کافی ٹنشن رہتا تھا۔ مگر اب میں نے آپ کی صحبت کے نتیجہ میں یہ کیا کہ قناعت کو اپنا اُصول بنا لیا ہے۔ جب سے میںنے ایسا کیا ہے میرا ٹنشن بھی ختم ہوگیا ہے۔ اب میں سکون کی زندگی گزار رہا ہوں۔
بھوپال کے اجتماع میں شریک ہونے والوں میں سے ایک سعدیہ خان بھی تھیں۔ اجتماع سے واپسی کے بعد اُن سے اُن کا تأثر پوچھا گیا۔ اُنہوں نے کئی باتیںبتائیں۔ اُن میں سے ایک یہ تھی کہ میں کالج میں پڑھتی ہوں۔ مجھے گھر اور کار اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ پہلے میں دوسری لڑکیوں کی طرح سمجھتی تھی کہ یہ سہولتیں انجوائے کرنے کے لیے ہیں۔ مگر اب میں یہ سوچنے لگی ہوں کہ یہ چیزیں دراصل سپورٹ سسٹم ہیں۔ ان کو خدا نے مجھے اس لیے دیا ہے کہ میں ان کو ذریعہ کے طورپر استعمال کروں اور اپنی زندگی کو اعلیٰ مقصد میںلگاؤں۔
بھوپال کے اجتماع میں میںنے اپنی تقریروں میں یہ بات نہیں کہی تھی۔ پھر سعدیہ خان کے ذہن میںیہ بات کہاںسے آئی۔ اس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ اگر آپ کسی کے ذہن کو مثبت رخ پر متحرک کردیں تو اس کے بعد اس کے ذہن کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ وہ گہرائی کے ساتھ سوچنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی باتوں کو دریافت کرلیتا ہے جو کہنے والے نے اُس سے نہیں کہی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے دماغ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ انسان کے اندر تبدیلی لانے کا راز یہ ہے کہ اس کے اندر سوچنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ انسان کے ذہن میں امکانی طورپر تمام باتیں موجود ہیں۔ مگر عام طورپر وہ سوئی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں۔ مصلح کا کام یہ ہے کہ وہ اس سوئے ہوئے ذہن کو جگا دے۔ اس کے بعدیہ بیدارمسافر اپنے آپ زندگی کی راہوں میں رواں دواں ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں