Pages

Tuesday 2 February 2010

Al Risala | February 2010 (الرسالہ،فروری)

2

-نماز کلچر

3

- قیامت قریب آچکی

4

- توکّل کیا ہے

5

- خوفِ خدا کی اہمیت

6

- قرآن کی دو آیتیں

8

- دوسرا اخراج قریب آگیا

10

- فتنۂ دُہیماء

16

- غیر حقیقت پسندانہ سوچ

17

- قیامت کی ایک علامت

18

- ہٹلر ممّی

19

- غلطی کا اعتراف

20

- معکوس تربیت

21

- بات بنانا

22

- اختلاف اور اتحاد

23

- اسلام کے نام پر غیر اسلام

30

- کاغذی تحریر

31

- سائنس کی گواہی

32

- بریک اِن ہسٹری

33

- جھونک اسپرٹ

34

- ایک اچھی مثال

35

- چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ

36

- سوال وجواب

44

- خبر نامہ اسلامی مرکز — 200


نماز کلچر

قرآن کی سورہ نمبر 74 میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میںاہلِ جہنم سے پوچھا جائے گا کہ تم لوگوں کو کس چیز نے جہنم میں ڈالا، وہ کہیں گے کہ ہم نماز ادا کرنے والوں میں سے نہ تھے: قالوا لم نک من المصلّین (المدثر: 43 ) اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معروف معنوں میں وہ پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ ایسا سمجھنا نماز کی تصغیر ہے۔ اِس قول کا مطلب دراصل یہ ہے کہ ہم آدابِ نماز کی پیروی کرنے والے نہ تھے، ہم نے دنیا میں نماز کلچر کو اختیار نہیں کیا تھا۔
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ نماز کلچر کیا ہے۔ نماز کلچر سے مراد ہے قلبِ خاشع کے ساتھ زندگی گزارنا (المؤمنون: 2 )، وقت کی پابندی (النساء: 103 ) ، فحشاء اور منکر سے رکنا (العنکبوت: 45 )، اجتماعی زندگی گزارنا (البقرۃ: 43 )، صابرانہ مزاج کے ساتھ دنیا میں رہنا (البقرۃ: 153)، قربانی کی اسپرٹ کا حامل ہونا (الکوثر:2 )، سہو کی نفسیات سے بچنا (الماعون: 5 )، یادِ الٰہی میں جینا (طٰہٰ:14 )، اپنے معاملات کا نگراں بن جانا (المعارج:34 )، مستقل مزاج ہونا (المعارج: 23)، پاکیزگی کے ساتھ رہنا (المائدۃ:6 )، مرکز رُخی زندگی گزارنا (البقرۃ:143 )، وغیرہ۔
اِسی طرح حدیث کے مطابق، کئی چیزیں ہیں جو نماز کے جز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً نماز کے آخر میں سلام پھیرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصلی کے دل میں دوسروں کے لیے امن اور سلامتی کا جذبہ ہو۔ یہ تمام چیزیں معنوی اعتبار سے بلا شبہہ اجزائِ صلاۃ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِن کے مجموعے کو آدابِ نماز یا نماز کلچر کہاجاسکتا ہے۔
حقیقی نماز وہ ہے جو مصلی کے اندر اِن تمام صفات کو پیدا کرے۔ جو آدمی اِس طرح نماز ادا کرے کہ یہ تمام چیزیں اس کی زندگی کا جز بن جائیں، وہی حقیقی معنی میں مصلی ہے، اور ایسے ہی مصلی آخرت میں خدا کی ابدی جنت میں داخل کئے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

قیامت قریب آچکی

ایک روایت اسماء بنت یزید کی سندسے حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ یہ ایک لمبی حدیث ہے۔ اس کا پورا متن مشکاۃ المصابیح کی حدیث نمبر 5491 کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔ اِس روایت میں اُن نشانیوں کی پیشین گوئی کی گئی ہے جو قیامت سے قبل ظاہر ہونے والی ہیں۔ اُن میں سے ایک نشانی کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ بین یدیہ ثلاث سنین: سنۃ تمسک السماء فیہا ثلُث قَطْرہا، والأرض ثلث نباتہا۔ والثانیۃ: تمسک السماء ثلثَی قطرہا، والأرض ثلثَی نباتہا۔ والثالثۃ: تمسک السماء قطرہا کلَّہ، والأرض نباتہا کلّہ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 19926؛ مسند أحمد، رقم الحدیث: 26298 )
یعنی قیامت سے پہلے دجال کے زمانے میں تین دور پیش آئیں گے— پہلا دور جب کہ آسمان ایک تہائی بارش کو روک دے گا، اور زمین اپنی ایک تہائی پیداوار کو روک دے گی۔ اور دوسرے دور میں آسمان اپنی دوتہائی بارش کو روک دے گا، اور زمین اپنی دو تہائی پیداوار کو روک دے گی۔ اور تیسرے دور میں آسمان اپنی ساری بارش کو روک دے گا، اور زمین اپنی ساری پیداوار کو روک دے گی۔
واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں یہ پیغمبرانہ پیشین گوئی بالکل ظاہر ہوچکی ہے۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پانی کے منجمد ذخیرے (گلیشئر وغیرہ) پگھل کر بہہ رہے ہیں اور دریاؤں کے راستے سمندر میں جاکر وہ دوبارہ ناقابلِ استعمال کھاری پانی بن رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخر تک تقریباً ایک تہائی پانی اِس طرح بہہ چکا تھا۔ اب اکیسویں صدی میں دوسرا تہائی پانی تقریبابہہ چکا ہے اور اب آئندہ اس کا تیسرا تہائی پانی بہہ کر ختم ہوجانے والا ہے۔ اس کے اثر سے نباتات اور حیوانات بھی بتدریج معدوم ہورہے ہیں۔ پیغمبرانہ پیشین گوئی کے مطابق، یہ گویا کہ قیامت کا فائنل الارم ہے۔ تقریباً یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اب قیامت بہت زیادہ قریب آچکی ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ انسان جاگے اور اپنی اصلاح کرے، اِس سے پہلے کہ توبہ کے تمام دروازے بند ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

توکّل کیا ہے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے توکل کے بارے میں پوچھا۔ اُس نے کہا: یا رسول اللہ، أعقِلُہَا وأتوکّل أوأُطلقہا وأتوکل، قال: أعقلْہا وتوکل (الترمذی، کتاب القیامۃ) یعنی اے خدا کے رسول، کیا میں اپنے اونٹ کو باندھ دوں اور توکل کروں یا میں اس کو چھوڑ دوں اور توکل کروں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے اونٹ کو باندھو اور پھر توکل کرو۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ توکل کیا ہے۔ حقیقی توکل یہ ہے کہ آدمی بقدرِ امکان اسباب کو فراہم کرے اور بقیہ کے لیے اللہ پر بھروسہ کرے۔ ایک طرف وہ اپنی کوشش میں کمی نہ کرے اور دوسری طرف وہ بھروسہ رکھے کہ اِس دنیا میں کسی کام کی تکمیل اللہ کی مدد کے بغیر نہیںہوسکتی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو عربی زبان کی ایک مثل میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: السعی منّی، والإتمامُ من اللہ (کوشش میری طرف سے اور تکمیل اللہ کی طرف سے)۔
اصل یہ ہے کہ اِ س دنیا میں ہر کام کے لیے انسان کو خود کوشش کرنا پڑتا ہے، انسان کو خود منصوبہ بنانا پڑتا ہے، انسان کو خود اپنے وسائل کو منظم طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے، اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے انسان کو خود حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا پڑتا ہے، انسان کو خود یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بھر پور طورپر زیر عمل لائے۔ انسان اگر اپنے حصے کا کام نہ کرے تو مطلوب انجام تک پہنچنا کبھی اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اِس دنیا میں کسی بھی کام کو کرنے کے لیے انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر تمام تر خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ ہر معاملے میں کوشش انسان کی طرف سے ہوتی ہے اور انفراسٹرکچر کی فراہمی خدا کی طرف سے۔ اِسی انفراسٹرکچر کا تعلق توکل سے ہے۔ گویا کہ ہر معاملے میں انسان کا حصہ پچاس فی صد ہوتا ہے، اور خدا کا حصہ پچاس فی صد— اِسی بات کو مذکورہ حدیث میں اِس طرح کہا گیا ہے کہ اپنے اونٹ کو باندھو اور پھر خدا کی ذات پر بھروسہ کرو۔
واپس اوپر جائیں

خوفِ خدا کی اہمیت

ایمان خدا کی دریافت ہے۔ یہ دریافت آدمی کے اندر جو صفات پیدا کرتی ہے، اُن میں سے ایک اہم صفت وہ ہے جس کو خشوع اور تقویٰ اور خوف، وغیرہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی خدا کی پکڑ سے ڈرنا، آخرت میں خدا کے سامنے جواب دہی کو سوچ کر ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہنا، یہی سچے ایمان کی علامت ہے۔ سچا مومن صرف وہ انسان ہے جس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) خدا بن جائے، جس کی سوچ کا فوکس صرف ایک ہو، اور وہ ہے خوفِ خدا۔
موجودہ زمانے میں احیائِ ملت کے نام سے بہت سی بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، لیکن عملی اعتبار سے سب کی سب بے نتیجہ رہیں۔ اِس ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اِن تمام مسلم تحریکوں کا فوکس بدلا ہوا تھا— کسی کا فوکس اَغیار سے تحفظ تھا، کسی کا فوکس سیاسی اقتدار تھا، کسی کا فوکس فضائلِ اعمال تھا، کسی کا فوکس ظاہری فارم تھا، کسی کا فوکس ملّی شناخت تھا، وغیرہ، یہ تمام کے تمام بدلے ہوئے فوکس تھے۔ اِس لیے موجودہ زمانے کی تمام مسلم تحریکیں ، ظاہری دھوم کے باوجود، اپنے مطلوب نتیجے کے اعتبار سے سر تا سر ناکام رہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میںاصل فوکس خوفِ خدا ہے۔ خوفِ خدا تمام مثبت صفات (positive qualities) کا سرچشمہ ہے۔ خوفِ خدا سے آدمی کے اندر سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ خوفِ خدا آدمی کو متواضع (modest) بناتا ہے۔ خوفِ خدا آدمی کے اندر غلطی کے اعتراف کاجذبہ پیدا کرتا ہے۔ خوفِ خدا اصلاحِ خویش کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ خوفِ خدا انفرادی بڑائی کو ختم کرکے اتحاد پیدا کرتا ہے۔ خوفِ خدا آدمی کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ خوفِ خدا آدمی کے اندر قرآنی سوچ پیدا کرتا ہے۔ خوفِ خدا آدمی کو مجبور کرتاہے کہ وہ ہمیشہ اپنی موت کو یاد کرتا رہے۔ خوفِ خدا آدمی کو کبر اور انانیت کی نفسیات سے بچاتا ہے۔خوفِ خدا کی حیثیت، کیرم بورڈ کی اصطلاح کے مطابق، ماسٹر اسٹروک (master stroke) کی ہے جو آدمی کی پوری شخصیت کو مکمل طورپر بدل دیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کی دو آیتیں

سورہ النساء قرآن کی چوتھی سورہ ہے۔ اِس سورہ کا ابتدائی حصہ غزوۂ احد کے فوراً بعد پیش آنے والے حالات کی نسبت سے نازل ہوا۔ غزوۂ احد 6 شوال 3ہجری کو مدینے کی سرحد پر پیش آیا تھا۔ اِس غزوہ میں 70مسلمان مارے گئے تھے۔ اِس کے نتیجے میں قدیم مدینہ کے معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا، اور وہ تھا بیواؤں اور یتیموں کا مسئلہ۔ یتیموں کے باپ اپنے بعد مال اور جائداد چھوڑ گئے تھے۔ اب سوال تھا کہ یہ مال اور جائداد کس طرح یتیم بچوں کے درمیان منصفانہ طورپر تقسیم ہو۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ خواتین جو اپنے شوہروں سے محروم ہوگئی ہیں، معاشرے میں اُن کا بندوبست (settlement) کس طرح کیا جائے۔سورہ النساء کی آیت نمبر 2 میں، پہلے مسئلے کا حل بتایا گیا ہے۔اور اس کی آیت نمبر 3 میں دوسرے مسئلے کا حل بیان ہوا ہے۔ آیت نمبر 2 کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور یتیموں کا مال اُن کے حوالے کرو۔ اور برے مال کو اچھے مال سے نہ بدلو، اور اُن کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔ (النساء:2 )۔ یعنی یتیم بچوں کے مال اور جائداد کے بارے میں انصاف اور خیر خواہی کا طریقہ اختیار کرو، تاکہ اُن کا حق درست طورپر ان کو پہنچ جائے۔
دوسرے مسئلے کے حل کے بارے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وإن خفتم ألا تُقسطوا فی الیتامیٰ فانکحوا ما طاب لکم من النساء مَثنیٰ، وثُلٰث، ورُبٰع (النساء: 3)۔ یعنی اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکوگے، تو عورتوں میں سے حسب حال، دو دو، تین تین، چار چار عورتوں سے نکاح کرلو۔
اِس آیت میں ’خفتم‘ کا خطاب قدیم مدینے کے سماج سے ہے، اور ’فانکحوا‘کا خطاب قدیم مدینے کے افراد سے۔ غزوۂ احد کے بعد مدینے میں یتیموں کا جو مسئلہ پیدا ہوا تھا، ابتداء ً اس کا تعلق پورے سماج سے تھا۔ سماج کے مختلف گھروں میں یتیم لڑکے اور لڑکیاں موجود تھے۔ یہ مسئلہ پورے سماج پر پھیلا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اس مسئلے کو افراد کے انٹرسٹ سے وابستہ کردیا جائے۔ سماجی مسئلہ ہونے کی بنا پر، کوئی شخص اس کو اپنا ذاتی مسئلہ نہیں سمجھ سکتا تھا اور نہ فطری طور پر کسی کو اس سے ذاتی تعلق ہوسکتا تھا۔ اِسی صورتِ حال کی طرف قرآن میں ’خفتم‘کے لفظ کے ذریعے اشارہ کیاگیا ہے، یعنی فطری طورپر یہ اندیشہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال کے رہتے ہوئے یہ مسئلہ لوگوں کے لیے انفرادی دلچسپی کا مسئلہ نہ بنے اور یتیم بچوں کو غیر ضروری مسائل کا سامنا کرنا پڑے، جیسا کہ عام طورپر سماج میں دیکھا گیا ہے۔
اس مسئلے کا حل قرآن میں یہ بتایا گیا کہ مدینے کے مختلف افر اد اپنے حالات کے لحاظ سے، بیوہ خواتین سے نکاح کرلیں۔ جس شخص کے لیے دو نکاح ممکن ہو، وہ دو نکاح کرلے، اور جس شخص کے لیے تین نکاح ممکن ہو، وہ تین نکاح کرلے، اور جس شخص کے لیے چار نکاح ممکن ہو، وہ چار نکاح کرلے۔ اِس طرح یہ ہوگا کہ بیوہ خواتین کے بچوں کو دوبارہ باپ جیسی سرپرستی حاصل ہوجائے گی۔ بیوہ خواتین کے شوہروں کو اِن خواتین کی اولاد کے ساتھ ذاتی تعلق ہوجائے گا، وہ براہِ راست ان کی ذاتی نگرانی میں آجائیں گے۔ اِ س طرح یہ ہوگا کہ جو مسئلہ سماج کی سطح پر عمومی انداز میں پیدا ہوا ہے،وہ افراد کی سطح پر تقسیم ہو کر فطری انداز میں حل ہوجائے گا۔
سورہ النساء کی آیت نمبر 3 میں نکاح کا جو حکم بیان ہوا ہے، وہ کوئی عمومی حکم نہیں ہے، بلکہ وہ اُس ہنگامی صورتِ حال کی نسبت سے ہے جو کہ مدینہ میں جنگ احد کے بعد پیدا ہوگئی تھی۔ عام حالات میں نکاح کی فطری صورت یہ ہے کہ ایک شخص ایک خاتون سے نکاح کرے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا کا تخلیقی نظام عورت اور مرد کی تعداد میں ہمیشہ ایک توازن (equilibrium) قائم رکھتا ہے۔ اِس لیے قانونِ فطرت کے مطابق، غیر محدود تعدّدِ ازواج عملاًممکن ہی نہیں۔
تعدّد ازواج (polygamy) کا حکم قرآن کی صرف اِسی ایک آیت میں آیا ہے، جو کہ غزوۂ احد کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی نسبت سے اتری تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کئی عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم لوگوں کو تفریح (entertainment) کا موقع دینے کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اُس صورتِ حال کے لیے ہے، جب کہ سماج میںکسی حادثے کی بنا پر عورتیں سرپلس (surplus) ہوجائیں۔ قرآن میں یہ حکم بیواؤں اور یتیم بچوں کے مسئلے کے فطری بندوبست کے لیے ہے، جیسا کہ آیت کے سیاق سے واضح ہے۔
واپس اوپر جائیں

دوسرا اخراج قریب آگیا

بیسویں صدی عیسوی کے آخر تک صنعتی ترقی کو صرف ایک مثبت ظاہرہ کے روپ میں دیکھا جاتا تھا۔ اکیسویں صدی عیسوی میں معلوم ہوا کہ صنعتی ترقی کے ساتھ ایک سنگین قسم کا منفی پہلو موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو کاربن ایمیشن (carbon emission) کہا جاتا ہے۔
صنعتی ترقی اپنے ساتھ، صنعتی کثافت (industrial polution) کا مسئلہ لائی ہے۔ اِس کثافت کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ (global warming) کا واقعہ پیش آیا ہے،یعنی موسم میں بگاڑ (weather chaos) ، پانی کے ذخیروں کا پگھلنا، نازک حیوانات (fragile animals) کی موت، سمندر کے پانی کا آلودہ ہوجانا اور لائف سپورٹ سسٹم کا بگڑ جانا، وغیرہ۔
فطرت میں اِن تمام خرابیوں کی جڑ گلوبل وارمنگ ہے۔ اِس مسئلے پر ڈنمارک کی راجدھانی کوپن ہیگن میں 7-18 دسمبر 2009 کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر کے دو سو ملکوں کے ذمے داران شریک ہوئے۔ مگر یہ کانفرنس مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے اعلیٰ معیارِ زندگی کو ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتے تھے، اور زیر ترقی ممالک اعلیٰ معیارِ زندگی کی دوڑ میں کسی بھی حال میں کمی کرنے پر راضی نہ تھے۔
گلوبل وارمنگ کا اصل سبب لائف اسٹائل کا مسئلہ ہے۔ دنیا کے موجودہ ذرائع صرف یہ اجازت دیتے ہیں کہ انسان اپنی حقیقی ضرورت (real need) کے بقدر اس کو استعمال کرے، لیکن آج کے انسان کا نشانہ پُرتعیش لائف اسٹائل (luxurious life style) بن گیا ہے۔ انسان کا یہی غیرحقیقی گول ہے جس نے موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کا سنگین مسئلہ پیدا کیاہے۔ گلوبل وارمنگ گویا کہ فطرت کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ انسان کا یہ نشانہ موجودہ دنیا میں پورا ہونے والا نہیں، وہ فطرت کے خلاف ہے، اور جو منصوبہ فطرت کے خلاف ہو، اس کی تکمیل اِس دنیا میں ممکن ہی نہیں۔
یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ یہ براہِ راست طورپر خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan)سے جڑا ہوا ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان کو سمجھے بغیر اِس معاملے کا درست تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں انسان کا منصوبہ خالقِ فطرت کے منصوبہ سے ٹکرا رہا ہے، اور یہ ناممکن ہے کہ اِس دنیا میں خالقِ فطرت کے منصوبے کے خلاف کسی منصوبے کو کامیاب بنایا جاسکے۔
خدا نے انسان (آدم) کو اوران کی بیوی حوا کو پیدا کیا اور اُن کو جنت میں بسایا۔ خدا نے کہا کہ تم لوگ جنت میںآزادی کے ساتھ رہو، لیکن تم لوگ فلاں درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ جنت تم سے چھن جائے گی (البقرۃ: 35)، مگر آدم اور حوا اِس ہدایت پر قائم نہ رہ سکے۔ انھوں ے ممنوعہ درخت (forbidden tree) کا پھل کھایا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنت کا لباس اُن سے چھن گیا اور اُن کو جنت چھوڑ کر موجودہ زمین پر آنا پڑا۔
یہ دراصل اِسراف کا معاملہ تھا، یعنی حد سے تجاوز کرنا (to exceed one’s limit) ۔ اِس اسراف کے نتیجے میں آدم کو پہلی بار جنت کو چھوڑنا پڑا۔ اسراف کا یہی معاملہ دوسری بار زیادہ بڑے پیمانے پر انسان کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ خدا نے انسان کو موجودہ دنیا میں آباد کیا تو دوبارہ اس کے لیے ایک حد مقرر کردی۔ وہ حد یہ کہ انسان موجودہ دنیا سے بقدر ضرورت فائدہ اٹھائے۔ وہ یہاں پُر تعیش زندگی حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔
جدید صنعتی ترقی سے پہلے انسان مجبورانہ طورپر اِس حدپر قائم تھا، لیکن جدید صنعتی ترقی کے بعد وہ اِس حد پر قائم نہ رہ سکا۔ وہ پُر تعیش زندگی کی طرف تیزی سے دوڑنے لگا۔ اکیسویں صدی عیسوی میں یہ دوڑ اپنی آخری حد پر پہنچ گئی ہے۔
اب خالق کا فیصلہ انسان کے خلاف ظاہر ہوچکا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کا لباس اس سے اتارا جارہا ہے۔ پر تعیش زندگی یہاں انسان کے لیے شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی، لیکن انسان اپنی بڑھی ہوئی خواہش کی بنا پر اپنی حد سے باہر چلا گیا۔
اب وہ وقت بہت قریب آچکا ہے جب کہ موجودہ دنیا سے اُسی طرح انسان کا اخراج کردیا جائے، جس طرح آدم کا اخراج جنت سے ہوا تھا۔ اِسی دوسرے اخراج کا نام قیامت ہے۔
واپس اوپر جائیں

فتنۂ دُہیماء

پیغمبر اسلام ﷺنے قیامت سے پہلے کے زمانے کے لیے بہت سی پیشین گوئیاں کی ہیں۔ اُن میں سے ایک پیشین گوئی یہ ہے کہ آخری زمانے میں قیامت سے پہلے ایک سنگین واقعہ پیش آئے گا۔ اِس واقعے کو فتنۂ دہیماء کہا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ — آخری زمانے میں فتنۂ دُہیماء ظاہر ہوگا۔ اِس امت کا کوئی بھی شخص نہیں بچے گا جو اِس فتنے کی زد میں نہ آجائے (…ثم تکون فتنۃ الدُّہیماء، لا تدع أحداًمن ہذہ الأمۃ إلا لطمتْہ لطْمۃً (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم):
It will hit everyone without any exception.
اِس حدیثِ رسول میں دُہیماء کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دہیماء کے لیے مشہور عربی لغت لسان العرب میں یہ الفاظ آئے ہیں: الفتنۃ السّوداء المُظلمۃ (12/211) ۔ لسان العرب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دہیماء کی تصغیر مبالغہ کے لیے ہے، یعنی فتنۂ دہیماء بہت زیادہ سیاہ اور بہت زیادہ تاریکی پیدا کرنے والا فتنہ ہوگا۔اِس حدیث کے مطابق، فتنۂ دہیماء کا زمانہ مکمل تاریکی کا زمانہ (age of total darkness) ہوگا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فتنۂ دہیماء سے مراد وہی دور ہے جو بیسویں صدی عیسوی میں پوری طرح آیااور اب تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ اِس قسم کا دور صرف اُس وقت پیدا ہوسکتا تھا، جب کہ پرنٹنگ پریس ظہور میں آچکا ہو اور انسانی علم میں بہت زیادہ ترقی ہوچکی ہو، اوراِسی کے ساتھ دوسرے موافق مواقع پیدا ہوچکے ہوں۔
موجودہ زمانہ اِسی عظیم فتنے کا زمانہ ہے۔ اِس زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مغالطہ آمیز تصورات ایک فلسفے کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اِس سے پہلے مغالطہ (fallacy)صرف ایک سادہ قسم کا مغالطہ ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں مغالطہ نے ایک باقاعدہ فلسفے کی صورت اختیار کرلی ہے، حتی کہ لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ تجزیہ کرکے اس کی حقیقت کو سمجھیں۔ آج غلط تعبیرات کا ایک جنگل ہے جس میں انسان زندگی گزار رہا ہے۔ یہ فکری تاریکی (intellectual darkness) کا زمانہ ہے۔ اِس دور کو مغالطہ انگیز فلسفوں کا دور کہا جاسکتا ہے:
Age of deceiving philosophies
فتنۂ دہیماء کا یہ زمانہ بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں وہ تمام فلسفے ابھرے جو مغالطہ آمیزی کے فلسفے تھے اور جنھوں نے جدید دور کے اکثر لوگوں کو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر متاثر کیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مختلف قسم کے جو مفاسد پیداہوئے، وہ بنیادی طورپر اِنھیں فلسفوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ اِن فلسفوں کے پیدا کرنے میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہے۔ اُن میں سے چار ناموں کا ذکر یہاں علامتی طورپر کیا جاتا ہے:
چارلس ڈارون (وفات: 1882 ) کارل مارکس (وفات: 1883 )
سِگمنڈ فرائڈ(وفات: 1939 ) سید ابوالاعلیٰ مودودی (وفات: 1979 )
ذیل میں اِن چاروں کے افکار کا مختصر تجزیہ کیا جاتا ہے۔
چارلس ڈارون (Charles Darwin) ایک برٹش اسکالر تھا۔ لمبی ریسرچ کے بعد اُس نے وہ نظریہ پیش کیا جس کو عضویاتی ارتقا (organic evolution) کا نظریہ کہاجاتا ہے۔ اپنے نظریے کی حمایت میں اُس نے دو کتابیں لکھیں:
1. On the Origin of Species (1859) 2. The Descent of Man (1871)
ڈار ون کے اِس نظریہ یا مفروضہ کے مطابق، بہت پہلے خدا نے زندگی کا ابتدائی فارم (امیبا) پیدا کیا۔ اس کے بعد خود بخود ایک پراسس چلا۔ اِس پراسس کے دوران طبیعی انتخاب (natural selection) اور بقائِ اصلح (survival of the fittest) کے اصول کے تحت تمام انواعِ حیات اپنے آپ بنتے چلے گئے، اور آخر میں انسان وجود میں آگیا۔
یہ نظریہ مکمل طورپر ایک غیر ثابت شدہ نظریہ تھا۔ اس کی حیثیت ایک قیاسی مفروضہ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ لیکن بعض دیگر اسباب سے وہ اہلِ علم طبقے کے درمیان بہت تیزی سے پھیلا، یہاں تک کہ اس کو جدید تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان عمومی قبولیت (general acceptance) کا درجہ حاصل ہوگیا۔
چارلس ڈارون نے اپنے نظریے میں اگرچہ ایک ابتدائی خالق کے طورپر خدا کا وجود تسلیم کیا تھا، لیکن اِس نظریے کے عین تقاضے کی بنا پر ایسا ہوا کہ انسان کی زندگی سے خدا (God) بحیثیت ایک مؤثر عامل کے ختم ہوگیا۔ اب انسان کو اس کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ دعاء اور عبادت کے ذریعے خدا سے تعلق قائم کرے، وہ اپنی زندگی میں خدا کو اپنا رہنما بنائے، وہ خدا کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ (accountable) سمجھے، وہ خدا سے خوف کرے اور خدا سے محبت کرے، وہ خدا کی جہنم سے ڈرے اور خدا کی جنت کا حریص بنے— اِس قسم کی تمام چیزیں جدید انسان کے لیے غیر متعلق (irrelevant) ہوگئیں۔ اِس نظریے نے تاریخ میں پہلی بار ایک نیا دور پیدا کیا۔ اِس دور کو مبرَّر برائی کا دور (age of justified evil) کہاجاسکتا ہے۔
اِس سلسلے میں دوسرا نام کارل مارکس (Karl Marx) کا ہے۔ کارل مارکس نے وہ نظریہ پیش کیا جس کو جدلیاتی مادّیت (dialectical materialism) کہاجاتا ہے۔قدیم فلسفی زرتشت (وفات: 551 ق م) نے کہا تھا کہ دنیا اچھی طاقتوں اور بری طاقتوں کے درمیان مسلسل جنگ کا نام ہے:
The world is a perpetual battle ground between good and evil forces.
مارکس نے اِس نظریے کو سیکولر معنوں میں استعمال کرتے ہوئے دکھایا کہ انسانی تاریخ ہمیشہ استحصال کرنے والوں (exploiters) اور استحصال کا شکار ہونے والوں (exploited) کے درمیان بٹی رہی ہے۔ اس نے اس نظریے کو لازمی قانونِ طبیعی کا درجہ دیتے ہوئے کہا کہ اِس قانون کی بنا پر انسانی سماج میں ہمیشہ ایک طبقاتی جنگ (class war) جاری رہتی ہے۔ اور اِس طرح تاریخ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف سفر کرتی رہتی ہے۔
مارکس کا یہ نظریہ مخصوص اسباب سے، انیسویں صدی کے نصف ثانی اور بیسویں صدی کے نصف اول کے درمیان عالمی طورپر پھیلا۔ 1917 میں جب روس میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو حکومت کے زور پر اِس نظریے کو مزید پھیلاؤ ملا۔ اِس طرح ساری دنیا میں ایک ایسا ماحول بنا جس میں مبرّر تصادم (justified conflict) کو بہت زیادہ فروغ ہوا۔ تقریباً پوری دنیا میں تخریبی سیاست، انقلابی عمل کے خوب صورت نام سے رائج ہوگئی۔
اِس سلسلے میں تیسرا نام سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud) کا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ نے وہ نظریہ پیش کیا جس کو دوسرے الفاظ میں، مبرّر اِباحیت (justified permissiveness) کہاجاسکتا ہے۔ اس نے اپنی ’’تحقیق‘‘ کے ذریعے دکھایا کہ خواہشات (desires) کو دبانا شخصیت کے ارتقا میں سخت مہلک ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ خواہشات کو اظہار کا بے روک ٹوک موقع دیا جائے، تاکہ انسانی شخصیت ترقی کے اعلیٰ درجے تک پہنچ سکے۔ فرائڈ نے دکھایا کہ دبی ہوئی صنفی خواہش (repressed sexual energy) شخصیت کے ارتقاء کے لیے بے حد خطرناک ہے۔ اُس نے اِس بات کی وکالت کی کہ شخصیت کے ارتقاء کے لیے ضروری ہے کہ کم عمری ہی سے صنفی تعلقات قائم ہوں:
Emphasized importance of infantile sexuality in personality's development.
فرائڈ کا نظریہ بہت زیادہ مقبول ہوا، حتی کہ نظریاتی طورپر فرائڈ کو نہ جانتے ہوئے بھی آج کی دنیا کے بیش تر لوگ فرائڈ کے طریقے پر چل رہے ہیں۔ موجودہ زمانے میں بے قید تفریح (unchecked enjoyment) کا طریقہ جو ہر جگہ عام ہوگیا ہے، وہ براہِ راست یا بالواسطہ طورپر فرائڈ کے نظریے کا نتیجہ ہے۔ یہ نظریہ اب اِس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہر شعبے میں کھلے طورپر صنفی باتیں عام ہوگئیں ہیں، حتی کہ اب اخباروں میں جو نئے کالم دکھائی دیتے ہیں، اُن میں سے ایک کالم یہ ہوتا ہے:
Virginity On Sale
اوپر جن تین ناموںکا ذکر ہوا، وہ سیکولر نام تھے، وہ مذہبی رہنما کی حیثیت نہ رکھتے تھے۔ اِس فہرست میں چوتھا نام سید ابو الاعلیٰ مودودی کا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان حالیہ زمانے میں سیاسی شکست کے جو واقعات پیش آئے، اُس نے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے لیے زرخیز زمین فراہم کردی۔ انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں ساری دنیا میں مسلمانوں کا سیاسی زوال شروع ہوا۔ دھیرے دھیرے دو بڑے مسلم ایمپائر ختم ہوگئے— مغل ایمپائر،اور عثمانی ایمپائر۔
مسلم ایمپائر کے بعد مسلمانوں کے درمیان یہ تحریک شروع ہوئی کہ وہ سیاسی اقتدار کو پہلے کی طرح دوبارہ قائم کرسکیں۔ سید جمال الدین افغانی (وفات: 1897 ) کے زمانے تک یہ تحریک خالص سیاسی تحریک تھی۔ سید جمال الدین افغانی کا نعرہ تھا: الشرق للشرقیین۔ مگر سیاسی اقتدار کی بحالی کی یہ تحریک مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔
اِس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا۔ اِس نئے دور میں یہ کوشش کی گئی کہ اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کی جائے اور اِس طرح سیاسی جدوجہد کو مذہبی عقیدے کا مسئلہ بنا دیا جائے، تاکہ تمام دنیا کے مسلمان اِس سیاسی جدوجہد میں بھر پور طورپر شریک ہوسکیں۔ اِس نئے نظریاتی دور میں جن لوگوں نے کام کیا، اُن میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کا نام غالباً سب سے زیادہ نمایاں نام کی حیثیت رکھتا ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قرآن کی تفسیر (تفہیم القرآن) لکھی جس کو قرآن کی سیاسی تفسیر کہاجاسکتا ہے۔ قرآن کی اِسی قسم کی سیاسی تفسیر عرب دنیا میں سید قطب مصری (وفات: 1966 ) نے تیار کی جو ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ اِن لوگوں نے اپنی سیاسی تعبیر کے ذریعے دکھایا کہ— اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ قانون اور سیاسی اقتدار اس کا لازمی حصہ ہے۔ مسلمانوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ پولٹکل اقتدار حاصل کریں، تاکہ اسلام کو اس کے پورے سیاسی اور قانونی نظام کے اعتبار سے غالب اور نافذ کیا جاسکے۔
اِس سیاسی تعبیر کے دوبڑے نقصانات ہوئے۔ ایک، یہ کہ اسلام کی اصل تعلیمات کے نقطۂ نظر سے مسلمان کا اصل تعلق دوسری اقوام سے داعی اور مدعو کا تعلق ہے، لیکن اِس سیاسی تعبیر کے نتیجے میں یہ تعلق حریف اور رقیب کا تعلق بن گیا۔ دعوت کی روح مسلمانوں کے اندر عالمی سطح پر ختم ہوگئی۔
اِس سیاسی تعبیر کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام جو اصلاً اتباع (following) کا موضوع ہے، وہ نفاذ (enforcement) کا موضوع بن گیا۔ مسلم ملکوں میں دعوتی اور تعمیری کام پس پشت ہوکر رہ گئے، البتہ ہر جگہ نفاذِ اسلام کے نام پر مسلم حکمرانوں سے ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ اب اِس کی آخری حد یہ ہے کہ اِس سیاسی نظریے نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو متشدد (violent) بنا دیا ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ فعّال تشدد (active violence) میں مبتلا ہیں، اور کچھ لوگ غیر فعال تشدد (passive violence) کا کیس بنے ہوئے ہیں۔ غیر فعال تشدد یہ ہے کہ تشدد پسندوں کو برا نہ سمجھا جائے۔ اُن پر خاموشی اختیار کی جائے، حتی کہ براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اس کو جواز (justification) فراہم کیا جائے۔
اِس سیاسی تعبیر کا آخری نتیجہ جو سامنے آیا ہے، وہ خود کش بم باری (suicide bombing) ہے۔ خود کشی کا فعل اسلام میں بلا شبہہ حرام ہے، مگر ساری دنیا کے مسلمان اس کو ’’قربانی‘‘ کا درجہ دئے ہوئے ہیں۔ عرب علماء نے یہ کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ یہ خود کشی نہیں ہے، بلکہ وہ استشہاد یعنی طلب شہادت (seeking martyrdom) ہے۔
اوپر کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ چیز جس کو ہم نے مغالطہ آمیز فلسفوں کا دور کہا ہے، اُس کو پیدا کرنے میں سیکولر اسکالر اور غیر سیکولر اسکالر دونوں کا حصہ ہے۔ سیکولرمفکرین نے یہ کیا کہ انھوںنے مغالطہ آمیز طورپر الحاد اور اباحیت کو جواز فراہم کردیا۔ دوسری طرف، مسلم مفکرین نے اسلام کی ایسی تعبیر کی جس کے نتیجے میں تشدد کا فعل مقدس جہاد کا فعل قرار پایا۔ اِنھیں افکار کا نتیجہ ہے کہ آج کی دنیا میں ایک طرف، اخلاقی زوال (immorality) اپنی آخری حد تک پہنچ گیا ہے اور دوسری طرف، تشدد اور بم کلچر بھی روز مرہ کی ایک چیز بن گیا ہے۔ سیکولر تحریکوں نے اگر دنیا سے انسانی قدروں (human values) کا خاتمہ کردیا ہے، تو اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنے والوں نے بہ ظاہر یہ امکان ختم کردیا ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور دعوت الی اللہ کا ضروری کام انجام دیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں

غیر حقیقت پسندانہ سوچ

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ مذہبیات کے مطالعے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میںنے قرآن کا ترجمہ پڑھا ہے۔ قرآن کے مطابق، یہ دنیا امتحان (test) کے لیے بنی ہے۔ اِس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر عورت اور مرد امتحان کی حالت میں ہے۔ جولوگ اِس امتحان میں پورے اتریں، وہ جنت میں جائیں گے، اور جو لوگ اس میں پورے نہ اتریں اُن کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
انھوںنے کہا کہ یہ تو ناانصافی ہے۔ اِس لیے کہ اِس دنیامیں بہت سے پیدا ہونے والے ابھی بچپن کی عمر میں ہوتے ہیں اور کسی بیماری میںمبتلا ہو کر ان کا انتقال ہوجاتاہے۔ کچھ بچوں کو پیٹ ہی میں ختم کردیا جاتاہے۔ یہ تو انصاف کے خلاف ہے کہ کچھ لوگوں کو عمل کرکے جنت حاصل کرنے کا موقع دیا جائے اور کچھ لوگوں کو اِس موقع سے محروم کردیا جائے۔ میںنے کہا اِس معاملے کا تعلق خدا کے تخلیقی پلان سے نہیں ہے، بلکہ انسان کو دی ہوئی آزادی سے ہے۔ انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اِس بنا پر اِس قسم کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ انھوں نے میری وضاحت کو نہیں مانا، وہ بدستور بحث کرتے رہے۔
پھر میں نے کہا کہ دیکھئے، آپ کا طریقہ غیر حقیقت پسندانہ طریقہ ہے۔ اور اِس دنیا میں غیرحقیقت پسندانہ طریقہ ہمیشہ آدمی کو ڈبل اسٹینڈرڈ والا آدمی بنا دیتا ہے۔ میںنے کہا کہ اِس ملک میں انجینئرنگ کے مواقع موجود تھے۔ آپ نے اِس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اب آپ ایک اچھی پوسٹ کے مالک ہیں۔ آپ نے یہ نہیں سوچا کہ ملک میں ان گنت لوگ ایسے ہیں جن کے پاس نہ اچھی ڈگری ہے اور نہ اچھا جاب۔ اِس بحث میں پڑے بغیر آپ نے اپنے مستقبل کی تعمیر کی۔ یہی طریقہ آپ کو خدا کے تخلیقی پلان کی نسبت سے کرنا چاہیے۔ آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ خدا کے دیے ہوئے مواقع کو استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنائیں۔ آپ کا موجودہ طریقہ دہرا معیار کا طریقہ ہے، اور دہرا معیار اختیار کرنا کسی کے لیے بھی عذر (excuse) نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں

قیامت کی ایک علامت

نئی دہلی کے وگیان بھون میں 21 نومبر 2009 کو ٹررازم کے موضوع پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ انڈیا کے مشہور لیڈر مسٹر رام جیٹھ ملانی نے اِس موقع پر ایک تقریر کی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، انھوںنے جہادی نظریے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جہادیوں کے عقیدے کے مطابق، شہید آدمی مرتے ہی جنت میں جگہ پائے گا، جہاں اس کو حوروں کی رفاقت ملے گی۔ انھوں نے خدا کے تصور کا مذاق اڑایا۔ انھوںنے کہا کہ خدا ان کی مدد کے قابل نہیں ہوگا، کیوں کہ اب بوڑھا ہو کر وہ الزمائر کی بیماری میں مبتلا ہوگا، یعنی شدید قسم کی ذہنی بیماری میں:
Ram Jethmalani criticized the jihadi doctrine, which allegedly propagates, in his words, the belief that martyrs would “get a place in heaven and the company of the opposite sex there.” He spokes fun at the idea of God. He said: “God will not help as he is suffering from Alzheimer’s disease”. (The Times of India, New Delhi, November 22, 2009, p. 9)
یہ واقعہ علامتی طورپر بتاتا ہے کہ آج کا انسان گم راہی کے کس درجہ تک پہنچ چکا ہے، وہ درجہ ہے— کھلے طور پر خدا کا استہزا کرنا۔ موجودہ زمانے کے جہادی لوگوں کا نظریہ بلا شبہہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے، اُس کا خدا کے دین سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن مسٹر جیٹھ ملانی کی بات اس سے بھی زیادہ بے بنیاد ہے۔ یہ نعوذ باللہ، خدا کا مذاق اڑانا ہے۔
غالباً یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ دجال کی پیشانی پر کفر لکھا ہوا ہوگا (الدّجّال مکتوب بین عینہ: ک، ف، ر۔ صحیح مسلم ، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال)۔ پیشانی پر ’’کفر‘‘ کا لکھا ہوا ہونا ایک استعارہ ہے۔ اِس کا مطلب ہے— کھلے طور پر انکار اور استہزا کا رویہ اختیار کرنا۔ یہ خدا کے خلاف کھلی بغاوت ہے، اور جب خدا کے خلاف کھلی بغاوت ہونے لگے تو اس کے بعد لوگوں کو صرف قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

ہٹلر ممّی

ریڈیو میں ایک پروگرام آتا ہے جو صرف عورتوں کے لیے ہوتا ہے۔ اِس میں عورتوں سے متعلق مختلف عنوانات دیے جاتے ہیں۔ اِسی پروگرام کے تحت، ایک دن ماں اور اس کے بچوں کے درمیان تعلقات کا موضوع زیر بحث تھا۔ کئی ماؤں نے اِس پہلو سے اپنے تجربات کو بیان کیا۔
ایک ماں نے کہا کہ میرے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ میں ایک ورکنگ وومن (working woman)ہوں۔ مجھے اپنے جاب کے لیے روزانہ گھر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ جب میں باہر جاتی ہوں تو اپنے بچوں سے سختی کے ساتھ یہ کہہ کر جاتی ہوں کہ دیکھو، یہ کرنا اور وہ نہ کرنا۔ پھر اس نے ہنستے ہوئے کہاکہ میری بیٹی کہتی ہے کہ— ممی، تم تو ہٹلر ممی ہو۔
یہ گفتگو ٹیلی فون پر ہورہی تھی۔ ریڈیو کی خاتون اناؤنسر نے کہا کہ اِس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے بچوں کو آرڈر کرتی ہیں۔ مذکورہ خاتون نے فوراً کہا کہ نہیں نہیں، میں آرڈر نہیں کرتی۔مذکورہ خاتون نے اپنے بچوں کے بارے میں جو بات کہی، وہ بلا شبہہ آرڈر دینے والی بات تھی۔ اِس کی تصدیق خود اس کی اپنی بیٹی کے ریمارک سے ہوتی ہے۔ اِس کے باوجود، مذکورہ خاتون نے کہا کہ نہیں نہیں۔ یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام عورتوں اور مردوں کا حال ہے۔ وہ ایک بات کہیں گے اور جب اُن سے مزید پوچھا جائے تو وہ فوراً لفظ بدل کر کہہ دیں گے کہ نہیں، میرا یہ مطلب نہیں۔ یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ عام جھوٹ اگر کھلا ہوا جھوٹ ہوتا ہے تو یہ جھوٹ ایک چھپا ہوا جھوٹ (کذبِ خفی) ہے۔
اِس قسم کا جھوٹ کسی انسان کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔ وہ آدمی کے اندر کم زور شخصیت (weak personality) پیدا کرتا ہے۔ جن لوگوں کے اندر کم زور شخصیت ہو، اُن کا ذہنی ارتقا نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کے اندر جنّتی شخصیت کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ آخرت کی دنیا میں ایسے کم زور شخصیت والے لوگ، خدا کے پڑوس میں جگہ پانے سے محروم رہیں گے— کھلاہوا جھوٹ اگر حرام ہے، تو چھپا ہوا جھوٹ انسانی شخصیت کے لیے ہلاکت خیز ہے۔
واپس اوپر جائیں

غلطی کا اعتراف

غلطی ہر انسان کرتا ہے۔ اِسی کے ساتھ ہر انسان کو اپنے ضمیر کی سطح پر یہ احساس ہوجاتاہے کہ اُس نے غلطی کی ہے، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں جو غلطی کرنے کے بعد اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کریں۔ آدمی اپنے ضمیر کے سامنے مجرم بنا رہتا ہے، لیکن دوسرے لوگوں کے سامنے مجرم بننا اُس کو اتنا زیادہ مشکل معلوم ہوتاہے کہ لوگوں کے سامنے وہ یہ کہنے کی ہمت نہیں کرپاتا کہ میںنے غلطی کی۔
یہ ایک مہلک کم زوری ہے جو بیش تر عورتوں اور مردوں کے اندر پائی جاتی ہے۔ اِس کم زوری کا نقصان اتنا زیادہ ہے کہ اُس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ غلطی آدمی کو ایک عظیم موقع فراہم کرتی ہے۔ لیکن بے اعترافی کے مزاج کی بنا پر لوگ اِس موقع کو استعمال کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ وہ فرشتے کو اپنے دروازے سے لوٹا دیتے ہیں۔
غلطی کا اعتراف ایک عبادت ہے۔ جب آدمی کھلے طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرتاہے تو اس کے اندر عظیم مثبت قدریں (positive values) پیدا ہوتی ہیں— آدمی اپنے آپ کو ضمیر کے سامنے مجرم ہونے سے بچا لیتا ہے، وہ اپنے اندر تواضع (modesty) کی نفسیات پیدا کرتاہے، وہ اپنے ذہن کے بند دروازوں کو کھول دیتاہے، وہ اپنے اندر مضبوط شخصیت کی پرورش کرتاہے،وغیرہ۔
اعتراف نہ کرنے کی صورت میں اس کے اندر روحانی اور اخلاقی پسپائی کا عمل شروع ہوجاتاہے، جب کہ اعتراف کرنے کے بعد وہ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے ترقی کی طرف سفر کرنے لگتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اعتراف اتنا بڑاعمل ہے کہ اس کے بعدانسان کے لیے خیر کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ اِس کے برعکس، بے اعترافی اتنی بڑی برائی ہے کہ اس کے بعد انسان کے اوپر خیرکے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں— ظاہری اعتبار سے وہ ایک زندہ انسان معلوم ہوتا ہے، لیکن داخلی اعتبار سے وہ ایک مردہ، انسان بن چکا ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

معکوس تربیت

ایک مسلم تاجر کا واقعہ ہے۔ ان کی بیٹی نے اُن سے اپنی کسی ضرورت کے لیے پیسہ مانگا۔ مذکورہ مسلم تاجر نے اپنی بیٹی سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ انھوں نے فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اُس وقت ان کی جیب میں جتنے نوٹ تھے، وہ سب نکال کر انھوں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ میں رکھ دیا اور کہا کہ یہ لو، تم ہی لوگوں کے لیے تو کماتے ہیں۔
یہ کوئی استثنائی واقعہ نہیں۔ یہی سارے والدین کا حال ہے۔ والدین خود تو محنت کرتے ہیں، وہ مشقت کی کمائی کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کے بارے میں ان کا ذہن یہ رہتاہے کہ ان کی اولاد کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ خود تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنی اولاد کو ہر قسم کی راحت اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کے لے تیار رہتے ہیں، خواہ اُنھیں اس کی جو بھی قیمت دینی پڑے۔
والدین کا یہ مزاج ان کی اولاد کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ والدین کا یہ مزاج اولاد کی معکوس تربیت کے ہم معنیٰ ہے۔ ان کی اولاد کو آخر کار جس دنیا میں داخل ہونا ہے، وہ حقائق کی دنیا ہے۔ وہاں کا اصول یہ ہے کہ— جتنا کرو، اتنا پاؤ۔
لیکن والدین گھر کے اندر اپنی اولاد کے اندر جو مزاج پیدا کرتے ہیں، وہ اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ گھر کا ماحول کئے بغیر پانے کا ماحول ہوتا ہے، اور گھر کے باہر کا ماحول کرکے پانے کا ماحول۔
اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج کا ہر نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں دونوں، منفی ذہن کا شکار ہورہے ہیں۔ اُنھیں دنیا کے ہر شخص سے شکایت ہوتی ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر ان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ میرے ماں اور باپ بہت اچھے تھے، بقیہ تمام لوگ نہایت برے ہیں۔
اِس صورت حال نے آج کی دنیا میں دو چیزوں کا خاتمہ کردیا ہے— محنت کے ساتھ اپنا کام کرنا، اور لوگوں کا خیر خواہ (well-wisher) بن کر اُن کے درمیان رہنا۔
واپس اوپر جائیں

بات بنانا

ایک باریش بزرگ ملاقات کے لیے آئے۔ انھوںنے کہا کہ میں بہت دن سے آپ کا ماہ نامہ الرسالہ پڑھتا تھا اور اس کو پسند کرتا تھا۔ آج دہلی آیا تو میری خواہش ہوئی کہ آپ سے ملاقات کروں۔ میںنے اُن سے پوچھا کہ آپ عرصے سے الرسالہ کا مطالعہ کررہے ہیں، تو یہ بتائیے کہ آپ نے الرسالہ کے مطالعے سے کیا پایا۔
وہ تعریفی کلمات بولتے رہے، لیکن وہ متعین طورپر یہ نہ بتاسکے کہ انھوںنے الرسالہ کے مطالعے سے کیا اخذ کیا ہے۔ میں نے اُن سے بار بار کہا کہ کہ آپ کوئی متعین مثال دیجئے، تاکہ میں سمجھ سکوں کہ آپ نے الرسالہ کو پڑھ کر اُس سے کیا اخذ کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔ آخر میںانھوں نے اپنے بیگ سے اپنے مدرسے کا ایک چھپا ہوا اشتہار نکالا اور کہا کہ ہم یہ مدرسہ تعمیر کررہے ہیں او رچاہتے ہیں کہ اِس مدرسے کی تعمیر میںآپ بھی اپنا کچھ زرِ تعاون عطا کریں۔
یہ اندازِ گفتگو آج کل بہت زیادہ عام ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے دل میں کچھ ہوگا، مگر اپنی زبان سے وہ کچھ اور بات بولیں گے۔ اِسی کو بات بنانا کہاجاتاہے۔ موجودہ زمانے میں یہ طریقہ اتنا زیادہ عام ہے کہ مشکل ہی سے اِس میں کوئی استثناء نظر آئے گا۔
بناوٹی انداز میں بات کہنے کا یہ کلچر بلا شبہہ اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ سچا مومن وہ ہے جو صاف گو ہو، جو باتوں کو اُسی طرح کہے جس طرح کہ وہ ہیں، جس کے سوچنے اور بولنے میں کوئی فرق نہ ہو۔ ایسے ہی لوگ سچے مومن ہیں۔ بناوٹی باتیں کرنا، تکلف کی بولی بولناہے، اور صحابہ کہتے ہیں کہ : نُہینا عن التکلف ( صحیح البخاری، کاب الاعتصام، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال) یعنی ہم کو تکلف کرنے سے منع کیاگیا ہے۔ تکلف کا انداز دراصل ایک قسم کی منافقت ہے، اورمنافقت کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف اور اتحاد

ہر ایک اتحاد چاہتاہے، لیکن عملاً اتحاد قائم نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد کو قائم کرنے کے لیے جو تدبیر اختیار کی جاتی ہے، وہ غیر فطری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد کے نام پر بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں، لیکن عملاً اتحاد قائم نہیں ہوتا۔
اتحاد کے علم برداروں کی مشترک غلطی یہ ہے کہ وہ اختلاف کو مٹا کر اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ اختلاف (differences) کی موجودگی ہی اتحاد قائم نہ ہونے کا اصل سبب ہے۔ ہر ایک کی کوشش یہ ہے کہ اختلافات کو مٹا دیا جائے۔ اُن کا خیال ہے کہ حقیقی اتحاد اُسی وقت قائم ہوسکتاہے، جب کہ لوگوں کے درمیان آپس کے اختلافات کا خاتمہ کردیا جائے۔ مگر اِس قسم کا اتحاد اِس عالم امتحان میں کبھی واقعہ بننے والا نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اختلاف (differences) خود فطرت کا ایک لازمی حصہ ہیں، اور جو چیز فطرت کا حصہ ہو، اس کو ختم کرنا کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحاد قائم کرنے کا ایک ہی ممکن طریقہ ہے، اور وہ ہے— اختلاف کو برداشت کرنا۔ اِس دنیا میں جب بھی اتحاد قائم ہوگا، وہ اختلاف کے باوجود متحد ہونے سے قائم ہوگا۔ اختلاف کو مٹا کر اتحاد قائم کرنا اس دنیا میں عملاً ممکن ہی نہیں۔
خالق نے انسان کو اِس طرح پیدا کیا ہے کہ ان کے درمیان ہمیشہ اختلاف پایا جائے۔ یہ اختلاف انسان کے لیے ایک عظیم رحمت ہے۔ اختلاف کی بنا پر دو شخصوں یا دو گروہ کے درمیان ڈائلاگ ہوتاہے، اور ڈائلاگ دونوں فریقوں کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بنتا ہے۔ اختلاف کی حیثیت ایک فکری چیلنج کی ہے۔
فکر ی چیلنج کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بند ذہن کے دروازے کھلتے ہیں، انسان کے اندر چھپے ہوئے امکانات ظاہر ہوتے ہیں، جو چیز بالقوہ (potential) طورپر ذہن میں موجود تھی، وہ بالفعل (actual) وقوع میں آجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کے نام پر غیر اسلام

(Islamization of non-Islam)
مذہب کی تاریخ کایہ ایک عام ظاہرہ ہے کہ بعد کے زمانے میں مذہب کی اصل تعلیم گُم ہوجاتی ہے اور خود ساختہ چیزوں کو مذہب کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ مثلاً مسیحیت (Christianity) دو ہزار سال پہلے حضرت مسیح کی تعلیمات پر مشتمل تھی۔ آج مسیحیت ایک ایسے مذہب کا نام ہے جس کو مسیحی چرچ نے بعد کے زمانے میں بطو خود وضع کیا۔
ٹھیک یہی معاملہ خود مسلمانوں کے ساتھ بھی بعد کے زمانے میں پیش آیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگی طورپر مسلمانوں کو اِس خطرہ سے متنبہ کردیا تھا۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ: لتتبعن سنن من کان قبلکم (البخاری، کتاب الاعتصام، باب قول النبی لتتبعن) یعنی تم لوگ ضرور پچھلے مذہبی گروہوں کی پیروی کروگے۔ اِسی طرح آپ نے فرمایا:بدأ الإسلام غریباً وسیعود کما بدأ ( صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان أن الإسلام بدأ غریباً) یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا، اور بعد کو وہ پھر اجنبی ہوجائے گا۔
اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام بعد کے زمانے میں معدوم ہوجائے گا۔ یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ چناں چہ ایسا نہ کسی اور مذہب کے ساتھ ہوا، اور نہ اسلام کے ساتھ ایسا ہوسکتاہے۔ اِس حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسلام کا اصل متن (text) اگر چہ محفوظ رہے گا، لیکن مسلمان عملی طور پر غیر اسلام کو اپنا دین بنا لیں گے۔ ایک لفظ میں، اِس معاملے کو اسلامائزیشن آف اَن اسلام (Islamization of un-Islam) کہا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺنے اسلام کے ابتدائی تین اَدوار کے بارے میں فرمایا کہ مسلمان ان تین ادوار تک خیر پر قائم رہیں گے۔ حدیث میں آیا ہے کہ : خیر أمتی قرنی، ثمّ الذین یلونہم ثم الذین یلونہم (البخاری، کتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبی) یعنی سب سے بہتر مسلمان میرے دور کے مسلمان ہیں، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد آئیں، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد آئیں۔ اِن تین ادوار کو ’قُرون مشہود لہا بالخیر‘کہاجاتا ہے۔ وہ تین دور یہ ہیں— دورِ رسالت، دورِ صحابہ ، دورِ تابعین۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مذکورہ تین دوروں تک مسلم نسلیں کم و بیش، اصل اسلام پر قائم رہیں۔ اس کے بعد اُن کے درمیان بگاڑ شروع ہوا۔ اِس بگاڑ کی فکری بنیاد عباسی خلافت کے زمانے میں پڑی۔ بعد کے زمانے میں جو فکری انحرافات مسلمانوں میں پیدا ہوئے، اُن سب کا آغاز عباسی دو ر میں ہوا۔ یہاں ہم ان انحرافات میں سے کچھ چیزوں کا تذکرہ نمائندہ مثالوں کے طورپر کرتے ہیں۔
دار الاسلام کا نظریہ
فقہاء کی اصطلاح میں دار الاسلام اُس علاقے کو کہا جاتاہے، جہاں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہو۔ اِس قسم کا واقعہ سب سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اہلِ اسلام کی ایک شہری ریاست (city state) قائم ہوگئی۔ اس کے بعد جلد ہی پورے عرب میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہوگیا۔ لیکن پیغمبر اسلام نے مدینہ کو یاعرب کودار الاسلام نہیں کہا۔ آپ کے بعد صحابہ اورتابعین نے بھی اِس علاقے کو دار الاسلام کا نام نہیں دیا۔ دارالاسلام کی یہ سیاسی اصطلاح پہلی بار عباسی دور کے علماء اور فقہاء نے اختیار کی۔
شرعی تعریف کے مطابق، دار الاسلام کی یہ اصطلاح بلا شبہہ ایک سیاسی بدعت تھی۔ جو چیز رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں نہ ہو، اُس کو دین کے نام پر اختیار کرنا بدعت ہے۔ اور دار الاسلام کی اصطلاح وضع کرنے کے بارے میں ایسا ہی ہوا۔
یہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ جن علاقوں کو دارالاسلام کہاگیا، اُن کو اگر مسلمانوں کے زیر قبضہ علاقہ (Muslim occupied land) کہاجاتا تو وہ صرف ایک سیاسی مسئلہ ہوتا، نہ کہ اعتقادی مسئلہ۔ لیکن جب ایسے علاقے کو دارالاسلام کہا گیا تو اس کو اعتقادی تقدس کا درجہ مل گیا، ایک سیاسی معاملے کو اعتقادی درجہ دینے سے جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، وہ سب خرابیاں مسلمانوں کے اندر پیدا ہوگئیں۔
مثال کے طورپر جب مسلمانوں کے زیر قبضہ علاقے کو اعتقادی حیثیت دیتے ہوئے اس کو دارالاسلام کہاگیا تو اس کے بعد فطری طور پر یہ فقہی مسئلہ بن گیا کہ جو علاقہ ایک بار دارالاسلام کی حیثیت اختیار کرلے، وہ حُکمی (legal) طورپر ہمیشہ کے لیے دار الاسلام ہے۔ ایسے کسی علاقے پر اگر بعد کو غیر مسلموں کا قبضہ ہوجائے تو مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ قابض گروہ سے لڑ کر دوبارہ اُس کو دارالاسلام بنائیں۔ ایسا کرنا مسلمانوں کے لیے صرف ایک علمی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ وہ اُن کے لیے ایک اعتقادی ذمے داری کی حیثیت رکھتا ہے۔
قدیم زمانے میں سیاسی طاقت (political might) کو سب کچھ سمجھا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں دارالاسلام کا مذکورہ نظریہ بظاہر ایک معقول (rational) نظریہ معلوم ہوتا تھا۔ لیکن موجود زمانہ سیاسی آئڈیالوجی (political ideology) کا زمانہ ہے۔
اِن زمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں موجودہ دور میں دار الاسلام کا مذکورہ سیاسی نظریہ ایک غیر معقول (irrational) نظریہ بن چکا ہے۔
اِسی نظریے کے مطابق موجودہ زمانے میں سیاسی افکار کا ارتقا ہوا ہے، اور اِسی نظریے کے مطابق، اقوامِ متحدہ (UNO) کے عالمی منشور (Universal Declaration of Human Rights) پر دنیا بھر کی تمام قوموں نے دستخط کیے ہیں جس کے تحت ایک ملک کی دوسرے ملک پر حکم رانی ناقابلِ تسلیم قرار پاچکی ہے۔
موجودہ زمانے میں مختلف مسلم ملکوں میں جو جہادی گروپ سرگرم ہیں، وہ دارالاسلام کے اِسی قدیم فقہی مسئلے سے اپنا نظریہ اخذ کررہے ہیں۔ اُن کا مانناہے کہ مسلم ایمپائر کے زمانے میں جو علاقے مسلمانوں کے زیر اقتدار تھے، وہ اب بھی حُکماً (legally) دار الاسلام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ دینی ذمے داری ہے کہ وہ جہاد کرکے اِن علاقوں پر دوبارہ مسلم اقتدار قائم کریں۔ 9 ستمبر 2001 کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ اور 26 نومبر 2008 کو بمبئی کے تاج محل ہوٹل پر کچھ انتہائی پسند مسلم تنظیموں کا حملہ اِسی فقہی طرزِ فکر کی عملی مثالیں ہیں۔
دار الحرب کا نظریہ
عباسی دور میں جو اسلامی فقہ بنی، اُس میں مسلم علاقوں کے علاوہ، دوسرے علاقوں کو دارلحرب کا درجہ دیاگیا۔ یہ بلاشبہہ ایک خود ساختہ نظریہ تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان اِن علاقوں کے مقابلے میں اصولی طور پر، برسرِ جنگ (at war) کی حالت میں ہیں۔ اِس معاملے کو جدید اصطلاح کے مطابق، سرد جنگ (cold war) کہا جاسکتاہے۔
یہ بلاشبہہ ایک تخریبی نظریہ ہے۔ اِس نظریے نے مسلمانوں کے اندر وہ ذہن پیدا کیا جس کو ہم اور وہ (we and they) کا نظریہ کہا جاتاسکتا ہے۔ اِس کے بعد مسلمانوں کے لیے پوری دنیا، دوست اور دشمن (friends and enemies) کے دو مختلف گروہوں میں بٹ گئی۔ تمام مسلمان شعوری یا غیرشعوری طورپر اِس تقسیمی ذہن کا شکار ہوگئے۔ ان کو مسلمان ’’اپنے‘‘ نظر آئے، اور دوسری قوموں کے لوگ اُن کو ’’غیر‘‘ دکھائی دینے لگے۔
اِس طرح، دارالحرب اور اِس تصور کے تحت پیدا شدہ نظریات نے تمام مسلمانوں کو فکری طور پر غیر معتدل بنا دیا۔ وہ دوسری قوموں کے لیے اَن فرینڈلی (unfriendly) بن گئے، الا یہ کہ کسی ذاتی انٹرسٹ کے سبب سے بظاہر دوسروں کے ساتھ دوستانہ رویّے کا اظہار کیا جائے۔
دار الکفر کا نظریہ
عباسی دور کے علماء اور فقہاء نے جو نظریات بنائے، اُن میں سے ایک بے بنیاد نظریہ دار الکفر کا نظریہ تھا۔ وہ علاقے جہاں کے لوگ مذہبی اعتبار سے اسلام کے دائرے میں داخل نہیں ہوئے، ایسے علاقوں کو انھو ںنے دار الکفر کا نام دیا۔ یہ ایک سنگین قسم کی بدعت تھی۔ قرآن بار بار ایسے لوگوں کے لیے انسان کا لفظ استعمال کرتا ہے۔گویا کہ قرآنی اعتبار سے، ایسے علاقے دار الانسان تھے، نہ کہ دار الکفر، یہ بلا شبہہ ایک بھیانک قسم کا مبتدعانہ فعل تھا جس کا ارتکاب ہمارے علماء اور فقہاء نے کیا۔
اِس فقہی تسمیہ (nomenclature) کے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ اِس تسمیہ کی بنیاد پر بعد کے زمانے میں جو لٹریچر تیار ہوا اور مسجدوں اور مدرسوں میں جس قسم کی باتیں دہرائی جاتی رہیں، اُس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ تمام دنیا کے مسلمان دوسری قوموں کو ’’کافر‘‘ سمجھنے لگے۔ کافر کے لفظی معنیٰ صرف منکر کے ہیں۔ لیکن اپنے استعمال کے اعتبار سے وہ ایک سخت قسم کا تحقیری لفظ (derogatory word) بن گیا۔ اِس کے فطری نتیجے کے طورپر یہ ہوا کہ مسلمانوں کے دل میں دوسری قوموں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ختم ہوگیا۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور اُن کو قابلِ نفرت سمجھنے لگے۔
دار الکفر کا یہ مبتدعانہ نظریہ اتنا پھیلا کہ تقریباً تمام کتابوں میں وہ کسی نہ کسی طرح شامل ہوگیا، وہ مسلمانوں کی سوچ کا ایک لازمی جز بن گیا۔اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر جو تفریقی مزاج (separatist tendency) پیدا ہوا، وہ بلاشبہہ ایک ہلاکت خیز مزاج تھا۔ وہ مسلمانوںکے لیے عالمی برادری کا معتدل حصہ بننے میں مانع ہوگیا۔ اِس بنا پر مسلمانوں کے لیے اِس دنیا میں صرف دو آپشن باقی رہا— یا تو وہ عالمی برادری سے کٹ کر اپنے آپ کو ایک محدود خول میں بند کرلیں، یا مفاد پرستانہ ذہن کے تحت وہ دنیا میں لوگوں کے ساتھ رہیں۔ اِسی دہری روش کا شرعی نام منافقت ہے۔
دار الکفر کا نظریہ سر تاسر ایک خود ساختہ نظریہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں اِس نظریے کے حق میں کوئی بنیاد موجود نہیں۔ لیکن وہ مسلمانوں کے اندر اتنا زیادہ پھیلا کہ اب شاید کوئی ایک شخص بھی اِس نفسیات سے خالی نہیں۔ اِس کا سبب غالباً یہ ہے کہ مسلمانوں کو اِس نظریے کے ذریعے ایک فرضی یقین (false conviction) حاصل ہوتا ہے۔ تمام دوسرے لوگوں کو کافر قرار دے کر وہ بالواسطہ انداز میں اپنے لیے یہ یقین حاصل کرتے ہیں کہ دوسرے تمام لوگ بھٹکے ہوئے ہیں اور صرف ہم ہیں جو صحیح راستے پر قائم ہیں، دوسرے تمام لوگوں کے لیے جہنم ہے، اور ہمارے لیے ابدی جنت، وغیرہ۔
اِسی نظریے کا ایک بھیانک نقصان یہ ہے کہ بعد کے دور میں تقریباً تمام مسلمانوں کی سوچ مسلم رُخی سوچ (Muslim-oriented thinking) بن گئی۔ یہ کہنا بلا مبالغہ درست ہوگا کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر انسان رُخی سوچ(man-oriented thinking) کا ارتقانہ ہوسکا، اور اِس فکری المیہ کی ذمے داری تمام تر دار الکفر کے اِسی فقہی نظریے پر ہے۔
موجودہ زمانہ ایک اعتبار سے تحریکوںکا زمانہ تھا۔ خاص طورپر پرنٹنگ پریس کا دو آنے کے بعد مسلمانوں کے اندر ہر جگہ ہزاروں کی تعداد میں تحریکیں اٹھیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اِن میں سے کوئی بھی قابلِ ذکرتحریک انسان رخی تحریک نہ تھی۔ تمام کی تمام معلوم تحریکیں، مسلم رُخی تحریکیں تھیں۔ اِس صورتِ حال کا مزید نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان فکر ِ انسانی کے عالمی دھارے (mainstream) میں شامل نہ ہوسکے، وہ عالمی فکر کے اندر ایک محدود جزیرہ بن کر رہ گئے۔
بعد کے زمانے کے مسلم مفکرین نے جن غیر اسلامی نظریات کو اسلامائز کیا اور اُن کو مسلمانوں کے اندر پھیلایا، اُن میں سے ایک مہلک نظریہ وہ تھا جس کو خلافتِ ارضی کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ مسلم مفکرین نے خود ساختہ طورپر اپنے لیے یہ ٹائٹل لے لیا کہ وہ خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہیں۔ اِس طرح، مسلمان گویا کہ زمین پر خدا کے نائب ہیں۔ اُن کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ملے ہوئے قانون کو خدا کی نیابت میں زمین پر نافذ کریں۔
خلافت کا یہ نظریہ کسی نہ کسی طورپر بعد کے زمانے کے مسلمانوں کی فکر پر چھاگیا۔ اِسی کی روشنی میں دوسری چیزوں کی توجیہہ وتشریح کی جانے لگی۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے زمانے میں اسلام کا کلمہ ساری دنیا کے ہر گھر میں داخل ہوجائے گا۔ اِس حدیث کی تشریح مذکورہ نظریۂ خلافت کے تحت کی گئی اور اُس کا یہ مطلب بتایا گیا کہ آخری زمانے میںاسلام کی حکومت ساری دنیا میں قائم ہوجائے گی۔ یہ تشریح بلا شبہہ ایک غیر علمی تشریح ہے، وہ سر تاسر بے بنیاد ہے۔
مذکورہ حدیثِ رسول میں کلمۂ اسلام (word of Islam) کا لفظ ہے، نہ کہ حکومتِ اسلام (rule of Islam) کا لفظ۔ اِس سے واضح طورپر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس حدیث میں جس واقعے کا ذکر ہے، اُس سے مراد اسلام کے کلمہ (word)، یا اُس کے پیغام کا ساری دنیا کے تمام گھروں میں پہنچ جانا ہے، نہ کہ مسلم اقتدار کا ساری دنیا میں قائم ہوجانا۔ حدیث کی مذکورہ تشریح، حدیث کا سیاسی کَرن (politicization) ہے، وہ حدیث کے اصل مفہوم کی وضاحت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ کمیونکشن کے ذریعے ہونے والا واقعہ ہے، نہ کہ فوج کشی کے ذریعے ہونے والا واقعہ ہے۔
اِس سیاسی طرزِ فکر کے بہت سے نقصانات ہیں۔ اُن میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر روحانی اور تعمیری طرز فکر کا تقریباً کُلّی خاتمہ ہوگیا۔ داخلی اعتبار سے اُن کے اندر وہ طرزِ فکر موجود نہیں جس کو روحانی طرزِ فکر (spiritual thinking) کہاجاتا ہے۔ اور خارجی اعتبار سے وہ اُس طریقِ کار سے بے خبر ہیں جس کو موجودہ زمانے میں تعمیری طریقِ کار(constructive method) کا نام دیا جاتا ہے۔
مکمل اسلام کا نظریہ
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر ایک لفظ بہت عام ہوگیا ہے، وہ یہ کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ عرب مسلمان اور غیر عرب مسلمان دونوں فخر کے ساتھ یہ لفظ بولتے ہیں۔ بظاہر یہ اسلام کی ایک خوب صورت تعریف معلوم ہوتی ہے، لیکن وہ اسلام کی ایک مبتدعانہ تشریح ہے، اور ہر مبتدعانہ تشریح کا نتیجہ بلاشبہہ ہلاکت ہوتا ہے۔ اِس تشریح کے بے اصل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں کہیں بھی اسلام کے لیے یہ تعبیر اختیار نہیں کی گئی کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے۔
مکمل اسلام کے اِس نظریے نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے صرف دو بُرے چوائس (evil choice)کا امکان باقی رکھا ہے— ایک برا چوائس یہ کہ وہ ’’مکمل اسلام‘‘ پر قائم ہونے کے لیے ساری دنیا سے مستقل طورپر لڑتے رہیں۔ کیوں کہ جب تک وہ ساری دنیا کو سیاسی اعتبار سے مغلوب نہ کرلیں، وہ اپنے مفروضہ مکمل اسلام پر قائم نہیں ہوسکتے۔ اُن کے لیے دوسر ابُرا چوائس یہ ہے کہ وہ فکری اعتبار سے تو اسلام کو مکمل نظام سمجھیں، لیکن مفاد پرستانہ ذہن کے تحت، وہ دوسرے نظاموں سے سمجھوتہ (compromise) کرلیں۔ کیوں کہ دوسرے نظاموں سے سمجھوتہ کیے بغیر اُن کے لیے اِس دنیا میں مادّی فوائد کا حصول ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کاغذی تحریر

انڈیا 1947 میں آزاد ہوا۔ آزادی سے پہلے یہاں کے بڑے بڑے لیڈر یہ کہتے تھے کہ آزادی کے بعد انڈیا کی سرکاری زبان (official language) ہندی زبان ہوگی۔
آزادی کے بعد انڈیا کا دستور (constitution) بنایا گیا۔ اِس دستور کے بنانے میں انڈیا کے تمام بہترین دماغ شریک تھے۔ اِس تحریری دستور کے آرٹکل نمبر 343 میں یہ فیصلہ درج کیا گیا کہ مرکزی حکومت کی سرکاری زبان ہندی ہوگی، البتہ ضرورت کے طور پر 15 سال تک انگریزی زبان کا استعمال جاری رہے گا:
The official language of the union shall be Hindi in Devanagri script.....For a period of fifteen years from the commencement of this constitution, the English language shall continue to be used for all the offical purposes of the Union for which it was being used immediately before such commencement.
اس دستوری فیصلے پر اب 60 سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے، مگرحال یہ ہے کہ انڈیا میںانگریزی زبان پہلے سے بھی زیادہ غالب زبان بن چکی ہے اور ہندی زبان پہلے سے بھی زیادہ پیچھے چلی گئی ہے۔ اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاغذی تحریریں زندگی کی تشکیل نہیں کرتیں۔ قوموں کی تاریخ حقیقی حالات کی بنیاد پر بنتی ہے، نہ کہ اُن الفاظ کی بنیاد پر جن کو کاغذ پر لکھ دیا گیا ہو۔
بد قسمتی سے موجودہ زمانے کے تمام لیڈر اِس حقیقت سے بے خبر رہے۔ ہر لیڈر کاغذی تحریر کے ذریعے قوم کی قسمت بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ آخر میں معلوم ہوا کہ اِن کاغذی تحریروں کی حقیقت پانی کی سطح پر لکھی ہوئی تحریروں سے زیادہ نہ تھی۔
ایسی حالت میں ہندستانی لیڈروں اور پاکستانی لیڈروں کے لیے کرنے کا اصل کام یہ تھاکہ وہ لوگوں کے اندر شعوری بیداری لائیں، وہ لوگوں کے اندر نیشنل اسپرٹ پیدا کریں، وہ ریاست بنانے سے پہلے سماج بنانے کا کام کریں۔ یہ دراصل انسانی سماج ہے جو ریاست کی تشکیل کرتا ہے، نہ کہ کوئی کاغذی دستاویز۔
واپس اوپر جائیں

سائنس کی گواہی

انٹرنیٹ موجودہ زمانے میں معلومات کا عالمی خزانہ ہے۔ انٹرنیٹ کو الکٹرانک انسائکلوپیڈیا کہاجاسکتا ہے۔ اگرآپ انٹرنیٹ پر جائیں اور حسب ذیل الفاظ ٹائپ کریں — تھاٹ کنٹرولڈ وھیل چیئر(Thought-Controlled Wheel Chair) تو اسکرین پر معلومات کا ایک صفحہ کھل جائے گا۔ وہ بتائے گا کہ کسی خارجی آلہ کے بغیر دماغ کے ذریعے وھیل چیئر کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
وھیل چیئر پر بیٹھا ہوا ایک شخص اپنے ہاتھ کو استعمال کئے بغیر محض اپنے دماغ کے ذریعے وھیل چیئر کو اپنی مرضی کے مطابق، جس طرح چاہے چلا سکتا ہے۔ جاپان کی موٹر کمپنی (Toyota Motors) نے یکم جولائی 2009 کو لوگوں کے سامنے اِس ٹکنالوجی کا مظاہرہ کیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کس طرح خدا اپنی مرضی کے تحت پوری کائنات کو کنٹرول کررہا ہے۔ تھاٹ کنٹرولڈ وھیل چیئر کا کامیاب مظاہرہ تھاٹ کنٹرولڈ یونی ورس (thought-controlled universe) کا ایک عملی ثبوت ہے۔
مذکورہ سائنسی دریافت اِس حقیقت کو قابلِ فہم بنادیتی ہے کہ ایک برتر خدائی ذہن (divine mind) ساری کائنات کو مکمل طورپر اپنے قبضے میں لیے ہوئے ہے۔
Thought-Controlled Wheel Chair
Japan’s Toyota Motor said yesterday it had invented a way to allow a person to steer an electric wheelchair through simple thought, using a helmet-like device that measures their brain waves. They said that they have developed a way of steering a wheelchair by just detecting brain waves, without the person having to move a muscle or shout a command. Toyota’s system, developed in collaboration with researchers in Japan, is among the fastest in the world in analyzing brain waves, it said in a release on Monday. (The Times of India, New Delhi, July 1, 2009)
واپس اوپر جائیں

بریک اِن ہسٹری

گورنمنٹ سروس کے اصولوں میںسے ایک اصول وہ ہے جس کو بریک ان سروس (break-in-service) کہاجاتا ہے، یعنی شکستِ ملازمت۔ ایک آدمی گورنمنٹ سروس میں ہے اور دس سال یا بیس سال کے بعد وہ اچانک رخصت لیے بغیر دفتر میں حاضر نہ ہو تو اس کی سینئرٹی (seniority) ختم ہوجائے گی اور دوبارہ وہ اپنی ملازمت کی ابتدائی تاریخ میں پہنچ جائے گا۔ اسی معاملے کو بریک ان سروس کہا جاتاہے۔
اِسی قسم کا ایک اور معاملہ ہے جس کا تعلق صرف سروس سے نہیں ہے، بلکہ ہر انسان سے ہے۔ اس کو بریک اِن ہسٹری (break in history) کہاجاسکتاہے، یعنی شکستِ تاریخ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص ایک کام شروع کرے، پھر کچھ دنوں کے بعد ا س کو چھوڑ دے اور کوئی دوسرا کام کرے۔ یہ اس کے لیے بریک ان ہسٹری کے ہم معنی ہوگا۔ اگر کوئی شخص بار بار اپنے کام کو چھوڑے تو اس کی زندگی میں بریک ان ہسٹری کا واقعہ بار بار پیش آئے گا۔ ایسے انسان کی کوئی تاریخ نہ بن سکے گی۔ لوگوں کی نظر میں اُس کی کوئی ایسی پہچان نہیں بنے گی جو اس کو دنیامیں کوئی بڑا مرتبہ دینے والی ہو۔
واقعات بتاتے ہیں کہ بریک اِن سروس کا معاملہ بہت کم کسی کے ساتھ پیش آتا ہے، لیکن بریک اِن ہسٹری کا معاملہ اتنا زیادہ عام ہے کہ بہت کم افراد اُس سے مستثنیٰ نظر آئیں گے۔ بہت سے لوگ جو فطری طور پر نہایت ذہین ہوتے ہیں، مگر بریک ان ہسٹری کی وجہ سے وہ کوئی بڑی ترقی حاصل نہیں کر پاتے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کام شروع کرنے سے پہلے بہت زیادہ سوچے، بہت زیادہ دعاء کرے، لوگوں سے بہت زیادہ مشورہ کرے، وہ بہت زیادہ مطالعہ کرے، تاکہ وہ اپنے آپ کو ایک ایسے کام میں لگا سکے جس میں بریک اِن ہسٹری کی نوبت نہ آنے والی ہو۔ جب وہ کوئی کام شروع کردے تو وہ کامل صبر کے ساتھ اس کو جاری رکھے۔ صبر ہی واحد چیز ہے جو کسی آدمی کو بریک اِن ہسٹری کے تباہ کن انجام سے بچانے والی ہے۔
واپس اوپر جائیں

جھونک اسپرٹ

ایک مقام پر ایک بڑے ملی ادارے کی ضرورت تھی۔ ایک صاحب نے اِس ادارے کے لیے اپنی طرف سے وسیع رقبے والی ایک زمین وقف کردی، مگر کئی سال تک اِس زمین پر کوئی تعمیر نہ ہوسکی۔ پھر ایک شخص اٹھا۔ اس نے کہا کہ میں اِس کام کو کروں گا۔ اِس ملی ادارے کی تعمیر کے لیے میں اپنے آپ کو پوری طرح جھونک دوں گا:
I will ‘jhonk’ myself in this cuase.
اِس کے بعد مذکورہ شخص نے اپنے آپ کو پوری طرح تعمیر کے اِس کام میں لگا دیا۔وہ رات دن اُس کے لیے محنت کرتا رہا، یہاں تک کہ وہاں ایک شان دار بلڈنگ کھڑی ہوگئی، جہاں پہلے صرف خالی زمین دکھائی دیتی تھی، وہاں اب ایک پُررونق سنٹر قائم ہوگیا۔
ہر بڑے کام کے لیے اِسی قسم کی ’’جھونک اسپرٹ‘‘ درکار ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح وقف کیے بغیر کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا۔ کسی بڑے کام کو انجام دینے کے لیے بہت سے تقاضے ہوتے ہیں۔ اِن مختلف تقاضوں کی کامل رعایت کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا۔ اور ان تقاضوں کو سمجھنا اور ان کی کامل رعایت کرنا اُسی شخص کے لیے ممکن ہے جو اپنے آپ کو پوری طرح اس کے لیے وقف کردے۔جھونک کی اِس اسپرٹ کو ڈیڈی کیشن (dedication) کی اسپرٹ یا قربانی (sacrifice) کی اسپرٹ کہہ سکتے ہیں۔ ڈیڈی کیشن اور قربانی سے کم درجے کا لگاؤ رکھنے والے لوگ کوئی چھوٹا کام تو کرسکتے ہیں، لیکن وہ کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکتے۔ ڈیڈی کیشن اور قربانی کے اعتبار سے جتنی کمی ہوگی، اتنی ہی کمی اصل کام کی انجام دہی میں واقع ہوجائے گی۔ جب بھی کسی شخص نے کوئی بڑا کام انجام دیا ہے تو اُس نے یہ بڑا کام اِسی جھونک اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا ہے۔ جہاں جھونک اسپرٹ نہیں، وہاں کسی بڑے کام کا وجود بھی نہیں ہوسکتا— بڑا کام کرنا ہو تو اُسی کام کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنالیجئے۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر بڑے کام کا نام مت لیجئے۔
واپس اوپر جائیں

ایک اچھی مثال

ایک بار دہلی کے ایک کالج کے استاد نے بتایا کہ دہلی میں طلبا کا ایک تقریری مقابلہ ہوا۔ اِس میں مختلف کالجوں کے منتخب طلبا اور طالبات نے شرکت کی۔ ہر طالب علم کو انگریزی زبان میں تقریر کرنا تھا۔ اِن تقریروں میں جج کو جو بنیادی چیز دیکھنا تھا، وہ طرز ادا یا طرزِ تقریر (delivery) تھا۔ ڈاکٹر مرچنٹ کی لڑکی کا طرزِ تقریر سب سے زیادہ کامیاب تھا، چناں چہ اُس کو پہلا انعام دیاگیا۔
اِس کامیابی کا راز کیا تھا، اِس کا جواب مجھے 26 اگست 2009 کو ملا۔ نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر میں ایک پروگرام کے دوران میری ملاقات ڈاکٹر آر کے مرچنٹ سے ہوئی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور دہلی میں رہتے ہیں۔ اُن سے ملاقات کے دوران رٹائرڈ جنرل چھبّر اور دوسرے کئی لوگ موجود تھے۔ ڈاکٹر مرچنٹ نے کہا کہ میرے گھر میں ٹی وی نہیں ہے، میں ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتا ہوں۔ ان کی اِس بات میںمجھے اِس سوال کا جواب مل گیا کہ اُن کے بچے کیوںتعلیم میںاتنا زیادہ کامیاب ہیں۔
اِس سے پہلے میںایک بار ڈاکٹر مرچنٹ کے گھر گیا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا تھا کہ اُن کا گھر بہت سادہ ہے۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں۔ دونوں خاموشی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتی ہیں۔ڈاکٹر مرچنٹ کے پاس ذاتی کار ہے، لیکن ان کی لڑکیاں ہمیشہ بس کے ذریعے اسکول جاتی ہیں۔ ان کے گھر میں ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا کوئی نشان مجھے نظر نہیں آیا— یہی سادہ اور با اصول زندگی ڈاکٹر مرچنٹ کے بچوں کی کامیابی کا اصل سبب ہے۔
آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طورپر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کرسکیں۔ وہ اپنے بچوں کو ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کااصل سبب ہے۔ اِس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر۔
واپس اوپر جائیں

چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ

کامیاب زندگی کا ایک راز یہ ہے کہ چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ نہ لیا جائے۔ اجتماعی زندگی میں چھوٹی شکایتیں ہمیشہ پیش آتی ہیں۔ دانش مند وہ ہے جو چھوٹی شکایتوں کو نظر انداز کرے، اور نادان آدمی وہ ہے جو چھوٹی شکایت پر مشتعل ہوجائے اور اس کی بنیاد پر انتہائی فیصلہ لینے لگے۔ اِسی نوعیت کا ایک مشہور واقعہ وہ ہے جو سنڈے ٹائمس، لندن کے حوالے سے نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (17 اگست 2009 ) میں شائع ہوا ہے۔
لیبیا کے حکم راں معمّرالقذافی کے 33 سالہ بیٹے ہنی بال (Hannibal) جنیوا (سوئزر لینڈ) گئے۔ وہاں وہ ایک ہوٹل میں ٹھیرے۔ اُن کے ساتھ ان کی بیوی العین (Aline) بھی تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہوٹل کی ایک تونیسی ملازمہ مونا (Mona) کی کسی بات پر العین کو غصہ آگیا۔ العین نے اُس کو مارا اور دھمکی دی کہ میں تم کو ہوٹل کی کھڑکی سے باہر پھینک دوں گی۔
اِس واقعے کی خبر مقامی پولس کو ہوئی۔ پولس نے ہنی بال اور العین کو گرفتار کرلیا۔ اگرچہ جلد ہی ان کو رہا کردیا گیا، لیکن اِس واقعے کی خبر جب ہنی بال کے والد معمر القذافی کو پہنچیتو اس کو انھوں نے اپنی بے عزتی (humiliation) سمجھا، وہ سخت غضب ناک ہوگئے۔ انھوںنے سوئزر لینڈ کے خلاف کئی سخت اقدامات کئے— سوئزر لینڈ سے ہوائی سروس منقطع کرنا، سوئزر لینڈ کی کئی کمپنیوں کے لیبی دفتروں کو بند کردینا، وغیرہ۔ حتی کہ انھوں نے کہا:
If I had an atomic bomb, I would wipe switzerland off the map.
یہ واقعہ چھوٹی شکایت پر انتہائی اقدام کی ایک مثال ہے۔ اِس قسم کا اقدام ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ خواہ کوئی معمولی آدمی ہو یا کوئی بڑا آدمی، کوئی بھی اِس قسم کے انتہائی اقدام کے منفی نتائج سے بچ نہیں سکتا۔ جلد یا بدیر آدمی کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے، لیکن بعد کو اُس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ طلاق کے واقعے سے لے کر قومی جنگ تک، ہر معاملے میںاس کی مثالیں موجود ہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ:’’حدیث کی کتابوں میں ابواب الفتن کے تحت بیان کردہ روایات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگی طورپر فرمادیا تھا کہ تم اپنے حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) نہ کرنا۔ تم ہر حال میں صبر کے اصول پر قائم رہنا۔ تم کسی بھی عذر کو لے کر حکمرانوں سے لڑائی نہ کرنا، بلکہ اپنی بکری اور اونٹ میں مشغول ہوکر اپنے ضروری دینی فرائض کو ادا کرتے رہنا‘‘ (فکر اسلامی، صفحہ 153 ) لیکن بہت سی روایات میں آپ کے اس نقطہ نظر کے برعکس ہدایات ملتی ہیں۔ مثال کے طورپر صحیح ابن حبان میں ہمیں یہ حدیث پڑھنے کو ملتی ہے:
1۔ عن عبد اللہ بن خبّاب عن أبیہ قال کنّا قعوداً علی باب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فخرج علینا، قال اسمعوا، قلنا قد سمعنا، قال اسمعوا، قلنا قد سمعنا، قال اسمعوا، قلنا قد سمعنا، قال إنّہ سیکونُ بعدی أمراء فلا تصدّقوہم بکذبہم و لا تعینوہم علی ظلمہم، فإنّہ مَن صَدَّقہم بکذبہم وأعانہم علی ظلمہم، لم یرد علیّ الحوض (صحیح ابن حِبّان ۔ حدیث نمبر 284، صفحہ 193 )
’’حضرت عبد اللہ بن خبا ب اپنے والد حضرت خباب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہاکہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ہمارے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا سنو، ہم نے عرض کیا یقینا ہم نے سُنا۔ آپ نے فرمایا سنو، ہم نے کہا یقینا ہم نے سُنا۔ آپ نے فرمایا، سنو، ہم نے کہا یقینا ہم نے سنا۔ آپ نے فرمایا، بے شک میرے بعد حکمراں ہوں گے، تم ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرنا اور نہ ہی ان کے ظلم کی اعانت کرنا، کیوں کہ جس نے ان کے جھوٹ کو سچ قرار دیا اور ان کے ظلم پر ان کی اعانت کی، وہ میرے پا س حوضِ کوثر پر نہیںآئے گا‘‘۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی جھوٹی باتوں کا فریب دینے والا اور ظلم کرنے والا حکمراں تمھارے اوپر مسلط ہوجائے تو اس کی کسی طرح کی بھی حمایت واعانت نہ کرو۔
2۔ قرآن میںآیا ہے کہ ایک مظلوم شخص کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آوازِ حق بلند کرے اور اس دوران اگر مظلوم کی زبان سے کچھ ناشائستہ الفاظ نکل جائیں تو اللہ تعالیٰ اس کی پکڑ نہیں کرتا ،کیوں کہ وہ مظلوم کی مظلومیت کو جانتا ہے اور اس کی آہ وفغاں کو سنتا ہے، اس لئے وہ درگزر سے کام لیتا ہے اور وہ ظالم کے خلاف اس کی فریاد کو قبول کرتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
لا یحب اللہُ الجہرَ بالسّوء مِنَ القولِ الاّ من ظُلم، وکان اللہ سمیعًا علیمًا (النساء:148 ) یعنی اللہ بد گوئی کو پسندنہیں کرتا مگر یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ظالم بادشاہ کا ظلم روکنے کے لئے اس کے سامنے انصاف کی بات کہناافضل جہاد بتایا گیاہے: عن أبی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اَفضلُ الْجہادِ کلمۃ عدل عند سلطان جائر (أبو داؤد، کتاب الملاحم، باب الأمر والنہی؛ الترمذی، کتاب الفتن، باب أفضل الجہاد کلمۃ عدل؛ ابن ماجہ، کتاب الفتن، با ب الأمر بالمعروف)
’’حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف کی بات کہنا ہے‘‘۔
کچھ لوگ اِس حدیث کو دعوت الی اللہ کے معنی میں لیتے ہیں مگر حدیث کے سیاق اور الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر ایساہوتا تو پھر متنِ حدیث میں کلمۂ عدل ( انصاف کی بات ) کے بجائے ’’کلمۂ حق‘‘ (حق کی بات) کا فقرہ ہوتا۔ نیز حدیث کا آخری فقرہ ’’سلطان جائر‘‘ (ظالم بادشاہ) بھی آیا ہے جو اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہاں ’’کلمۂ عدل‘‘ سے مراد دعوت الی اللہ نہیں، بلکہ ایک ظالم حکمراں کو ظلم سے روکنا مراد ہے اور اس کے سامنے عدل اور انصاف کی بات کہنا ہے تاکہ وہ بھی اپنی رعایاسے عدل اور انصاف کا معاملہ کرے۔
اِس طرح ان واضح دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ظلم اور بربریت کے خلاف علمِ بغاوت اٹھانا اور حق اور انصاف کی خاطر اٹھ کھڑا ہونا کوئی غیر شرعی مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ ایساکرنا عین شریعتِ اسلامی کے مطابق معلوم ہوتاہے۔ لیکن اگر اس ظلم پر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ ظلم کی حمایت اور اعانت تصور کی جائے گی۔ نیز ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ظالم حکمراں کو تقویت دینے کے لئے اس کے ساتھ چلے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے باہر سمجھا جائے گا:
عن أوس بن شرحبیل أنہ سمع رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من مشی مع ظالم لیقوّیہ وہو یعلم أنہ ظالم فقد خرج من الاسلام۔ (رواہ البیہقی؛ مشکوۃ، باب الظلم، الفصل الثالث)
حضرت اوس بن شرحبیل سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، جو شخص کسی ظالم کو تقویت پہنچانے کے لیے اس کے ساتھ چلے اور وہ یہ جانتا ہو کہ وہ ایک ظالم ہے تو وہ شخص اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
اِس ساری تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ آ پ کی کتاب ’’فکر اسلامی‘‘ کے حوالے سے اوپر دئے گئے اقتباس اور مندرجہ بالا دوسری احادیث کے درمیان جو نمایاں اختلاف نظر آتا ہے، اُن کے درمیان کس طرح تطبیق دی جائے گی (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر)
جواب
اگر کوئی حکم راں آپ کو ظالم نظرآئے تو شرعی اعتبار سے، اس کے خلاف عمل کی دو صورتیں ہیں — خروج، اور نصیحت۔ خروج کا مطلب ہے مسلّح بغاوت، اور نصیحت کا مطلب ہے پُرامن خیر خواہی۔ میرے مطالعے کے مطابق، ظالم کے خلاف مسلح بغاوت حرام ہے۔ مگر جہاں تک خیر خواہانہ نصیحت کا معاملہ ہے، وہ عین جائز ہے، بشرطیکہ وہ مثبت نتیجہ پیدا کرنے والی ہو۔
ظالم حکم راں کے خلاف مسلح خروج اِس لیے حرام ہے کہ وہ ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے، اور جو چیز الٹا نتیجہ پیدا کرے، وہ نہ عقل کے مطابق درست ہوسکتی ہے اور نہ دین کے مطابق۔ میں ذاتی طورپر مسلح بغاوت کے خلاف ہوں، مگر جہاں تک خیر خواہانہ نصیحت کی بات ہے، میں ہمیشہ اس پر عامل رہا ہوں۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب — ’’ہند-پاک ڈائری‘‘۔
اِس معاملے میں آپ نے جو حدیثیں نقل فرمائیں ہیں، اُن سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ اِن حدیثوں میں وہی بات کہی گئی ہے جس کا میں خو د ہمیشہ قائل رہا ہوں۔ قرآن اور حدیث سے آپ نے جو حوالے دئے ہیں، ان کی وضاحت نمبر وار ذیل میں درج کی جاتی ہے:
1۔ ابنِ حبان کی جو روایت آپ نے نقل کی ہے، اُس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی حکم راںمبینہ طور پر ظالم ہو تو اہلِ ایمان کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اس کے جھوٹ کو سچ بتانے لگیں، بلکہ اُنھیں اس کے جھوٹ کو جھوٹ بتانا چاہیے۔ یہ واضح طورپر ایک پر امن اظہارِ خیال کا معاملہ ہے، نہ کہ متشددانہ ٹکراؤ کا معاملہ۔ اور اِس قسم کے پر امن اور خیر خواہانہ اظہارِ خیال سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ ’’ظلم پر اعانت‘‘ کا مطلب صرف یہ ہے کہ اہلِ ایمان کسی مبینہ ظالم کا آلۂ کا رنہ بنیں، بلکہ وہ اُس سے الگ رہیں اور اس کے لیے اصلاح کی دعا کرتے رہیں۔
2۔ سورہ النساء کی جو آیت آپ نے نقل کی ہے، اس میںواضح طور پر ’’قول‘‘ کی بات کہی گئی ہے، نہ کہ کسی قسم کے عملی تصادم کی بات۔ اِس آیت سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ ایک شخص اگر مظلوم ہے تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ پر امن قول کے دائرے میں رہتے ہوئے ظالم کے خلاف بولے ۔ یہ عین وہی بات ہے جس کو میںبار بار لکھتا رہا ہوں۔
3۔ تیسرے نمبر پر آپ نے جو حدیث نقل کی ہے، وہ کسی مبینہ ظالم کے خلاف ’’کلمہ‘‘ یا قول کی اجازت دیتی ہے، نہ کہ عملی تصادم کی اجازت۔ ایک شخص اگر مبینہ طورپر ظالم ہو تو اہلِ ایمان کو بلا شبہہ یہ حق ہے کہ وہ اس کے خلاف امن اور انصاف اور خیرخواہی کی شرائط کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کریں۔ اِس حدیث میں بھی واضح طورپر ’’کلمہ‘‘ کی اجازت ہے، نہ کہ ٹکراؤ اور جنگ کی اجازت۔
4۔ چوتھے نمبر پر آپ نے جو حدیث نقل کی ہے، وہ بھی واضح طورپر ’’مَشی‘‘کے بارے میں ہے، نہ کہ جنگ کے بارے میں، یعنی اگر کوئی شخص مبینہ طورپر ظالم ہو تو ظلم پر اس کا ساتھ دینا اہلِ ایمان کے لیے جائز نہیں۔ایسے مواقع پر اہلِ ایمان کو صرف یہ کرنا ے کہ وہ ظالم کے حق میں دعا کریں، وہ اس کوخیر خواہانہ انداز میں نصیحت کریں، وہ مکمل طورپر امن کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔
آپ نے لکھا ہے کہ ’’اگر ظلم پر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ ظلم کی حمایت اور اعانت متصور کی جائے گی‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خاموشی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ حدیث کے مطابق، وہ استطاعت کا معاملہ ہے، یعنی اِس طرح کے معاملے میں دخل دینے کا اصول یہ ہے کہ اس کے نتیجہ (result) کو سامنے رکھا جائے۔ اگر دخل دینے سے نتیجہ برعکس نکلتاہو تو صرف دعا کی جائے گی۔ دعا کے سوا کوئی اور عملی اقدام نہیںکیا جائے گا۔ اِس معاملے کو آپ مشہور حدیث ’’من رأی منکم منکراً الخ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب کون النہی عن المنکر من الإیمان)کے مطالعے سے بخوبی طورپر سمجھ سکتے ہیں۔
ماہ نامہ جامِ نور (نئی دہلی) کے سوال نامے کا جواب
کیاپارلیمنٹ کو تسلیم کرنا خدا کی حاکمیت کا انکار ہے
موجودہ زمانے میںکچھ لوگوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سیاسی تعبیر بلاشبہہ ایک سیاسی بدعت تھی۔ اِس کے نتیجے میں بہت سے خود ساختہ مسائل پیدا ہوئے۔ مثلاً اِن لوگوں نے اپنی خود ساختہ تعبیر کی بنا پر یہ اعلان کیا کہ — پارلیمنٹ کو تسلیم کرنا خدا کی حاکمیت کا انکار ہے۔
یہ بات بلاشبہہ لغویت کی حد تک غلط ہے۔ اِس نظریے کا ماخذ خود سیاسی تعبیر کرنے والوں کا اپنا ذہن ہے، نہ کہ اسلام کی اپنی تعلیمات۔ اسلام کی وہی تعبیر درست تعبیر ہے جو قرآن اور سنت سے نہ ٹکراتی ہو، اور مذکورہ قسم کا تصور بلا شبہہ قرآن اور سنت سے ٹکراتا ہے۔یہاں میںاِس سلسلے میں تین مثالیں دوں گا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قدیم مصر میں ایک مشرک بادشاہ حکومت کرتاتھا۔ یہ ایک شاہی خاندان (dynasty) تھا، جس کو ہکساس کنگڈم (Hyksos Kingdom) کہاجاتا تھا۔ پیغمبر یوسف نے اس کے اقتدار (sovereignty) کو تسلیم کیا اور اس کے تحت ایک سرکاری عہدہ قبول کرلیا۔ یہ مثال اہلِ اسلام کے لیے ایک رہنما مثال ہے، کیوں کہ اسلام میں تمام پیغمبروں کو رہنماکی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے (الأنعام: 90)۔
دوسری مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو وہاں دار الندوہ کو قبائلی حاکمیت کی حیثیت حاصل تھی۔ آپ نے دار الندوہ کی اِس حیثیت کو عملاً تسلیم کیا۔ اِسی بنا پر آپ کو مکہ میں رہنے کا موقع ملا۔ اگر آپ دار الندوہ کی حاکمانہ حیثیت کا انکار کرتے تو آغازِ نبوت ہی میں مکہ سے آپ کا اخراج کردیا جاتا۔
اِسی طرح مکی دور میں صحابہ کی ایک جماعت نے پڑوسی ملک حبش (Abyssinia)کی طرف ہجرت کی۔ وہاں اُس وقت ایک مسیحی بادشاہ نجاشی (Negus)حکومت کرتا تھا۔ صحابہ کی اِس جماعت نے نجاشی کے اقتدار کو تسلیم کیا۔ اِس بنا پر صحابہ کی جماعت کو حبش میں قیام کرنے کا موقع ملا۔ صحابہ کی اِس جماعت نے حبش کا یہ سفر رسول اللہ صلی اللہ کے حکم سے کیا تھا۔ یہ زمانہ کلی ریاست (totalitarian state) کا زمانہ تھا۔ اُس زمانے میں اِس کے سوا کوئی دوسری صورت ممکن نہ تھی۔
جمہوری حکومتوں میں الیکشن کا بائیکاٹ
اسلام کی سیاسی تعبیر کرنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ — جمہوری حکومتوں میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ بات بھی سر تاسر بے بنیاد ہے۔ اِن حضرات کی غلطی یہ ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کیا ہے، اس کے باوجود وہ اِس قسم کا خود ساختہ مسئلہ بیان کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت، اسلام کے عین موافق ہے۔ اس کا بائیکاٹ کرنا دیوانگی کے سوا اور کچھ نہیں۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آپ نے ایک منشور (declaration) جاری کیا۔ اِس منشور میں رسول اللہﷺنے جو دفعات شامل کی تھیں، اُن میں سے ایک دفعہ یہ تھی: للیہود دینہم وللمسلمین دینہم۔ یہ عین وہی چیز تھی جس کو موجودہ زمانے میں جمہوری اصول کہاجاتاہے۔
جمہوریت، لادینیت کا نام نہیں ہے، بلکہ جمہوریت شرکتِ اقتدار (power-sharing) کا نام ہے۔ جمہوریت کا کوئی تعلق کسی مذہبی عقیدے سے نہیں ہے۔ جمہوریت کی تعریف اکثریتی حکومت (majority rule) کے الفاظ میں کی جاتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مشترک قومی دائرے میں آبادی کی اکثریت کے اعتبار سے فیصلے کیے جائیں، اِس طرح کہ اقلیت کے انسانی حقوق بھی پوری طرح محفوظ رہیں۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کرنے والے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوری حکومت چوں کہ لادینی حکومت ہوتی ہے، اِس لیے اہلِ اسلام کو اُس کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ اِس قسم کی بات نہ صرف دیوانگی ہے، بلکہ وہ مسلمانوں کو سیاسی اچھوت بنانے کے ہم معنی ہے۔ اِس قسم کی بات ہرگز اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جہاںتک عقیدے کا معاملہ ہے، آپ کسی سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ لیکن جہاں تک سیاسی ڈھانچے کی بات ہے، اس میں مسلمانوں کو آخری حد تک سمجھوتہ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ایسے حالات میں سمجھوتہ نہ کرنا، سیاسی خود کشی کے ہم معنیٰ ہے۔ اور خود کشی کسی بھی اعتبار سے اسلام میں جائز نہیں۔
الیکشن کا بائیکاٹ اور پارلیمنٹ کی مخالفت
جو لوگ الیکشن کا بائیکاٹ کریں اور پارلیمنٹ کی مخالفت کی بات کریں، وہ ہر گز مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ اُن کا کیس اسلام کا کیس نہیںہے، بلکہ بے بصیرتی کاکیس ہے۔ جو لوگ بے بصیرتی کے باوجود رہنمائی کے میدان میں قدم رکھیں، وہ صرف مسلمانوں کی تباہی کا باعث بنیں گے۔ ایسے لوگ ایک عرب شاعر کے اِس شعر کا مصداق ہیں:
إذا کان الغراب رئیس قوم سیہدیہم إلی دار البوار
یعنی جب کوّا کسی قوم کا سردار بن جائے تو یقینا وہ اُن کو لے جاکر تباہی کے گڑھے میں گرا دے گا۔
اب یہ سوال ہے کہ جمہوری حکومتوں میں مسلمان اپنی مذہبی زندگی اور سیاسی پوزیشن کو کسی طرح بہتر بناسکتے ہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان، اسلام کے اُس اصول کو اپنائیں جس کو قرآن کی سورہ نمبر 94 میںاِس طرح بیان کیاگیا ہے: إنّ مع العسر یُسراً (الإنشراح: 6 ) یعنی مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسائل (problems)کے ساتھ ہمیشہ مواقع (opportunities) موجود رہتے ہیں۔ اِس لیے نہ صرف انڈیا میں، بلکہ ہر جگہ مسلمانوں کو یہی اصول اپنانا چاہیے، وہ یہ کہ — وہ مسائل کو نظر انداز کریں اورمواقع کو استعمال کریں:
Ignore the problems and avail the opportunities.
میںاپنے تجربے اور اپنے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ جو لوگ انڈیا کو مسائل کا ملک سمجھتے ہیں، وہ صرف اپنے خود ساختہ تصورات کو جانتے ہیں، اُن کو نہ انڈیا کی خبر ہے اور نہ حالاتِ زمانہ کی خبر۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا میںمسلمانوں کے لیے ہر قسم کے مواقع کھلے طورپر موجود ہیں، بلکہ میں یہ کہوں گا کہ 57مسلم ملکوں سے بھی زیادہ۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان اِن مواقع کو جانیں اور اُن کو استعمال کریں۔
اِس پہلو کی تفصیل میں نے اپنی ایک کتاب میں کی ہے۔ اس کا نام ’’ہندستانی مسلمان‘‘ ہے۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
Indian Muslims: A Positive Outlook
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 200

1 - جامعہ ہمدرد (نئی دہلی) کے کنونشن سنٹر میں 24 اکتوبر 2009 کی صبح کو ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار اسلامک فقہ اکیڈمی (نئی دہلی) کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
ہندستانی مسلمانوں کی معاشی ترقی— امکانات اور مواقع
صدر اسلامی مرکز کو اس سیمنار میں مدعو کیاگیا تھا، مگر وہ کسی وجہ سے اِس میں شرکت نہ کرسکے۔ البتہ سی پی ایس کے کچھ افراد نے اِس سیمنار میں شرکت کی اور وہاں لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔
2 - نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ) میں 28 اکتوبر 2009 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
اس کی دعوت پر ڈاکٹر فریدہ خانم نے اس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی جانب سے حاضرین کو مطالعے کے لیے دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
3 - الرسالہ مشن سے وابستہ حلقے اور افراد دنیا کے مختلف مقامات پر قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بڑے پیمانے پر لوگوں کو پہنچا رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں اکتوبر 2009 میں مشن سے وابستہ کئی گروپ اسلامی مرکز (نئی دہلی) آئے اور اپنے کام کی روداد سنائی۔ اِن لوگوں کو ضروری ہدایات اور دعوہ مٹیریل برائے اشاعت دیاگیا۔ اِس موقع پر آئے ہوئے ساتھیوں نے مختلف مقامات پر دعوہ لائبریری کے قیام کے لیے مطبوعات الرسالہ (اردو، انگریزی) کے متعدد سیٹ خرید کر حاصل کئے۔ ان میں سے مختلف لوگوں نے ایک درجن سے زیادہ مکمل مطبوعات الرسالہ کا سیٹ بذریعہ ڈاک اپنے ساتھیوں کے لیے روانہ کیا۔
4 - یکم نومبر 2009 کو مز آمال حمیدی نے صدر اسلام مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ وہ فرانس کے ریسرچ اینڈ اسٹڈیز سنٹر (European Institute for Humanitarian) کے تحت صدر اسلامی مرکز کے کام پر تحقیق کررہی ہیں۔ اِس سلسلے میں وہ دو ماہ کے لیے دہلی آئی ہوئی تھیں۔ ان کے مقالے کا موضوع یہ ہے:
التجدید فی دراسۃ علم العقیدۃ عند وحید الدین خان: دراسۃ نقدیۃ
5 - نوئڈا کے ہندی نیوز چینل (CNEB)کے نمائندہ مسٹر رگھوویندر ڈویدی نے 3 نومبر 2009 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع — وندے ماترم تھا۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اِشو اور نان اِشو میں فرق کریں۔ وہ تعلیم اور دعوت کو اپنا اشو بنائیں۔ اِسی میں ان کی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔
6 - سی پی ایس کی طرف سے مسلسل طورپر متعدد مقامات پر دعوہ لٹریچر لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ مثلاً ہاسپٹل اور کلینک جیسے اجتماعی مقامات پر۔ اِس سلسلے میں 5 نومبر 2009 کو نئی دہلی کے مختلف کلینک اور ہاسپٹل مثلاً ساہی ہاسپٹل (جنگ پورہ) میں لیفلٹ اسٹینڈ رکھا گیا۔ لوگ یہاں سے دعوتی پمفلٹ اور بروشر حاصل کررہے ہیں۔
7 - اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے 6 نومبر 2009 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ’’وندے ما ترم‘‘ کے خلاف فتویٰ کے بارے میں تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ فتویٰ نہیں ہے، بلکہ فتویٰ ایکٹوزم ہے اور فتویٰ ایکٹوزم اسلام میں نہیں۔ وندے ما ترم کو لے کر مسلمانوں کے اندر منفی ذہن بنانا، مسلمانوں کے خلاف دشمنی ہے، نہ کہ دوستی۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایجوکیشن میں پچھڑ گئے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ وندے ماترم جیسی رسمی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تعلیم میں آگے بڑھیں، کیوں کہ اچھے مسلم اسکول بہت کم ہیں۔ اچھی تعلیم کے لیے انھیں دوسرے بہتر اسکولوں میں جانا چاہیے۔
8 - شارجہ (عرب امارات) کے ایکسپو سنٹر میں 11-21 نومبر 2009 کے دوران ایک انٹرنیشنل بک فئر لگایا گیا۔ ادارہ گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے بھی اس میں اپنا بک اسٹال لگایا۔ اس موقع پر لوگوں نے ہمارے اسٹال سے کتابیں حاصل کیں۔ غیر مسلم حضرات کو یہاں سے بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
9 - نوئڈا کے ٹی وی چینل سی این ای بی (Complete News Entertainment Broadcast) کی ٹیم نے 17 نومبر 2009 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مز مدھو (Madhu Prasad) تھیں۔ یہ انٹرویو اسلام کے بارے میں تھا۔ جوابات میںاسلام کی سادہ تعلیم کو بتایاگیا۔
10 - بمبئی کے ٹرائڈنٹ ہوٹل (ٹاٹا روڈ، نرمان پوائنٹ) میں 17 نومبر 2009 کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام بمبئی پر 26/11 کے حملے کی فرسٹ انیورسری کے طور پر کیاگیا۔ اِس کا انتظام حسب ذیل دواداروں نے کیا تھا:
Art of Living Foundation, New Delhi; Simon Wiesenthal Center, Los Angeles
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے دہلی سے سی پی ایس کے ایک ممبر مسٹر رجت ملہوترا کے ذریعے اپنا پیغام روانہ کیا، جو وہاں پڑھ کر سنایا گیا۔ یہاں انٹرنیشنل لیول کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ٹاپ کے افراد موجود تھے۔ سی پی ایس دہلی، اور سی پی ایس بمبئی کے ممبران نے اِس موقع قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر بڑے پیمانے پر لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا۔
11 - نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ) میں 18 نومبر 2009 کو انٹروفیتھ (interfaith) کے موضوع پر ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں مقامی لوگوں کے علاوہ انڈیا کے مختلف مقامات کے انجینئرز نے شرکت کی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے موضوع پر انگریزی زبان میںایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو اسلامی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
12 - نئی دہلی کے بیورو کریسی (India’s Bureaucracy & Governance News Portal) کی طرف سے 19 نومبر 2009 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) کے مین آڈی ٹوریم میں اِس موضوع پر ایک پروگرام ہوا:
Global Warming & Disarmament
اِس پروگرام میں ٹاپ کے مذہبی اور سیاسی لوگ شریک تھے۔ مثلاً شنکر اچاریہ، ایمبسٹرس ، بیوروکریٹس ،وغیرہ۔ ہمارے ساتھیوں نے اس پروگرام میں شرکت کی اور حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دیا۔
13 - دور درشن (نئی دہلی) کی ٹیم نے 19 نومبر2009 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو قومی ایکتا کے بارے میں تھا۔ جوابات کے دوران بتایاگیا کہ ملک میں قومی ایکتا پیدا کرنے کے لئے سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایکتا کا صحیح فارمولا ہو۔ عام طورپر اس کا فارمولا یہ بتایا جاتا ہے کہ انیکتا میں ایکتا کو دیکھنا، مگر یہ فارمولاناقابلِ عمل ہے۔ اس کے بجائے صحیح فارمولا ہے —انیکتا کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا:
Art of difference management
14 - ہمارے یہاں سے چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ، ایشیا کے علاوہ اب یورپ اور امریکا میں بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے۔ یورپ اور امریکا اور کینڈا کے مختلف شہروٍں سے مسلسل طورپر اس کی ڈیمانڈ آرہی ہے:
May Allah reward you for all your good work. A brother here took copies of that small Quran (translated by Maulana Waheeduddin Khan) published by Goodword Books to the UN headquarters and it was well received. Now we need about 2000 copies for da‘wah. (Musaddiq, Toronto, Canada)
15 - موجودہ زمانے میں اشاعتِ افکار کا ایک طریقہ بک اسٹال کا طریقہ ہے۔ ہمارے ساتھی اِس طریقے کو مسلسل طورپر جگہ جگہ استعمال کررہے ہیں، ملک کے اندر بھی اور ملک کے باہر بھی۔ کتابوں کی نمائش میں، جلسوں میں اور کانفرنسوں میں اور دوسرے قسم کے اجتماعات میں ہمارے ساتھی بک اسٹال لگاتے ہیں جس میں ہمارے ادارے کی مطبوعات اور ماہ نامہ الرسالہ وغیرہ رکھاجاتاہے۔ ہر جگہ کی رپورٹ ہے کہ لوگ کثرت سے ان کو حاصل کررہے ہیں۔ بک اسٹال کا طریقہ بہت مفید ہے۔ ہمارے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ ہر اجتماعی موقع کو بک اسٹال کے لیے استعمال کریں۔
16 - نئی دہلی کا ادارہ (Comeback to Truth) صدر اسلامی مرکز کے انگریزی ترجمہ قرآن کو بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کے درمیان پھیلانے کا کام کررہا ہے۔ ادارے کے فاؤنڈر مسٹر یاور اقبال الرسالہ کے دعوتی مشن سے کامل اتفاق رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں