Pages

Monday 1 December 2003

Al Risala | December 2003 (الرسالہ،دسمبر)

2

- اسلام اور دوسرے مذاہب

8

- دارالاسلام، دارالحرب

12

- اختلاف کو حل کرنے کی تدبیر

17

- دعوت عام کی ذمہ داری

19

- قومیت کا مسئلہ

23

- کفر اور کافر کا مسئلہ

38

- ایک خط

40

- خبر نامہ اسلام مرکز


اسلام اور دوسرے مذاہب

اسلام اور دوسرے مذہبوں کے درمیان یہ فرق نہیں ہے کہ اسلام افضل دین ہے اور دوسرے مذاہب غیر افضل دین یا اسلام کامل دین ہے اور دوسرے مذاہب غیر کامل دین ۔اسلام اور دوسرے مذہبوں میں یہ ارتقائی فرق بھی نہیں ہے کہ اسلام مذہب کی اعلیٰ صورت (higher form) ہے اور دوسرے مذاہب اس کی ادنیٰ صورت (lower form) ۔ اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان اس قسم کی تقسیم سراسر بے بنیاد ہے۔ اس کا ماخذ نہ قرآن و حدیث میںہے اور نہ تاریخی ریکارڈمیں۔
اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان اصلی فرق یہ ہے کہ اسلام ایک محفوظ مذہب ہے اور دوسرے مذاہب غیر محفوظ مذہب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سائنٹفک ریکارڈ کے مطابق، اسلام کو تاریخی اعتباریت (historical credibility) حاصل ہے۔ جب کہ دوسرے مذاہب میں سے کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جس کو تاریخی اعتباریت کا درجہ حاصل ہو۔
اسلام اور دوسرے مذہبوں کا یہ فرق کسی پر اسرار عقیدہ پر قائم نہیں ہے بلکہ وہ خالص علمی طور پر قابل فہم ہے۔ وہ ایک واضح موضوعی حقیقت (objective fact) پر مبنی ہے۔اس معاملہ کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے۔ قرآن میں پچھلی الہامی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: بما استحفظوا من کتاب اللہ (المائدۃ۔۴۴) یعنی پچھلی کتابوں کے حاملین پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت کریں۔
For to them, was entrusted the protection of Allah’s Book.
قرآن کی اس آیت میںاستحفاظ کا لفظ آیا ہے۔ استحفاظ باب استفعال سے ہے۔ عربی قاعدہ کے مطابق، با ب استفعال میں طلب کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے استحفاظ کا مطلب ہے، حفاظت چاہنا یا حفاظت طلب کرنا۔ عربی میں کہا جاتا ہے، استحفظ مالا۔ مال محفوظ رکھنے کو کہنا (سألہ أن یحفظہ)
اس وضاحت کے مطابق، مذکورہ قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی آسمانی کتابیں جن لوگوں کے اوپر اتاری گئیں ان سے کہا گیا تھا کہ ان کو خود ان کتابوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اُن کو انہیں نہ صرف پڑھنا ہے بلکہ ان کو محفوظ بھی رکھنا ہے۔
اس کے برعکس، جہاں قرآن کا ذکر ہے وہاں اس سے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے: انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر۔ ۹) یعنی اللہ نے قرآن کو اتارا ہے اور اللہ ہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے۔
It was We who revealed the Quran, and We will certainly preserve it.
اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں بنیادی فرق کیا تھا۔ وہ فرق یہ تھا کہ پچھلی آسمانی کتابوں کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری انسان کے اوپر تھی جب کہ قرآن کی حفاظت کا کام خود خدا نے اپنے ذمہ لے لیا۔ گویا قرآن اور اس سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں جو فرق تھا وہ تعلیمات کے اعتبار سے نہ تھا بلکہ یہ فرق حفاظت کی ذمہ داری کے اعتبارسے تھا۔
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ فرق کا یہ معاملہ کوئی پر اسرار معاملہ نہیں بلکہ وہ ایک معلوم تاریخی معاملہ ہے۔ اس کو خالص سائنٹفک مطالعہ کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ حفاظتِ کتاب کے اعتبار سے تاریخ کے دو دو رہیں۔ پہلا دور وہ ہے جب کہ کسی پیغام کی حفاظت کا معاملہ زیادہ ترانسان کے اوپر منحصر ہوتاتھا۔ کوئی پیغام عملاً انسان کی یاد داشت میں موجود رہتا تھا۔ انسان اگر اس کو بھول جائے یا وہ مرجائے تو اس کے ساتھ پیغام بھی معدوم ہوجاتا تھا۔ مزید یہ کہ انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق ہے۔ وہ اس پر قادر ہے کہ اس کے پاس جو پیغام ہے اس کو اس کی اصلی حالت پر باقی رکھے یا وہ اس کو بدل ڈالے۔
اس قدیم دور کو انسانی دور حفاظت کہا جاسکتا ہے، یعنی وہ دور جب کہ حفاظت کا کام تمام تر انسان کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا۔ قرآن سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں بنیادی طورپر اسی انسانی حفاظت کے دور میں آئیں۔ یہ عملی طور پر حفاظت کا ایک غیر یقینی ذریعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہ سکیں۔ انسان نے قصداً یا بلا قصد پچھلی تمام آسمانی کتابوں کو غیر محفوظ بنا دیا۔
پیغام کی حفاظت کا دوسرا دور وہ ہے جس کو میکنیکل حفاظت کا دور کہا جاسکتا ہے۔ یہ دور وہ ہے جب کہ کسی پیغام کی حفاظت کا کام زندہ انسان کے ہاتھ سے نکل کر جامد مادہ کے دائرہ میںآگیا۔ یعنی وہ دور جب کہ پیغام کو کاغذ پر لکھا جانے لگا اور چھاپ کر اس کی ہو بہو نقلیں (copies) انسانی حافظہ سے باہر تیار کی جانے لگیں۔ اس دوسرے دور میں پہنچ کر اس پیغام کی حفاظت کا معاملہ تغیر پذیر انسان کے تابع نہ رہابلکہ وہ غیر تغیر پذیر مادہ کے ہاتھ میں آگیا۔
قرآن اسی دوسرے دور حفاظت میں آیا۔ مذکورہ آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ یہ دوسرا دور جن فطری اسباب کے تحت ممکن ہوا ہے وہ تمام اسباب براہ راست طور پر خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس دوسرے دو ر کو خدا کی طرف منسوب کرکے کہاگیا کہ خدا خود قرآن کی حفاظت کرنے والا ہے۔
اس بات کو تاریخ کی اصطلاح میں کہنا ہو تو اُس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کتابوں کی حفاظت کے دور میں آیا۔ اس کے مقابلہ میں دوسری آسمانی کتابیںاُس دور میں آئیں جب کہ کتابوں کی حفاظت کے لیے ابھی تک کوئی یقینی انتظام موجود نہ تھا۔ دور کایہی وہ فرق ہے جس کوقرآن میں مخصوص خدائی اسلوب میں اُن دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے جن کو اوپر نقل کیا گیا۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابت(writing) کا کام قبل مسیح دور میں شروع ہوا ۔اس زمانہ میں سادہ چیزوں پر لکھنے کا رواج تھا۔ مصر میں ایک پودا پایا جاتا تھا جس کا یونانی نام پیپرس (papuros) تھا۔ اس پودے کے اندر باریک پرت (layer) ہوتی تھی۔ اس پرت کو نکال کر عرصہ تک اس کو کاغذ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ اسی لیے کاغذکا نام پیپر (paper) پڑ گیا۔
دوسری صدی عیسوی میں چین میں لکڑی وغیرہ سے کاغذ بنایا جانے لگا۔ یہ کاغذ تاجروں کے ذریعہ مسلم دنیا میں آنے لگا۔ کاغذ بنانے کا فن ۷۵۱ میں سمرقند میں پہنچا اور ۷۹۳ میں بغداد میں ہارون رشید کے زمانہ میں پہلی بار کاغذ بنایا گیا۔ اس کے بعد کاغذ یہاں سے یوروپ تک پہنچا:
The art of paper making reached Samarkand, in central Asia in 751; and in 793 the first paper was made in Baghdad during the time of Harun-ar-Rashid, with the golden age of Islamic culture, that brought paper making to the frontiers of Europe. (13/966)
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی ۶۱۰ میں مکہ میں اتری اور ۶۳۲ء تک نجماً نجماً جاری رہی، جب کہ مدینہ میںآپ کی وفات ہوئی۔ ۲۳ سال کی اس مدت میں یہ طریقہ تھا کہ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ فرشتہ کے ذریعہ آپ تک پہنچتا، آپ اور آپ کے اصحاب اُس کو یاد کرلیتے۔ اُس زمانہ میں کثرت استعمال کی بنا پر لوگوں کے حافظے بہت اچھے ہوا کرتے تھے، اس لیے نازل شدہ حصۂ قرآن کو یاد کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ اسی کے ساتھ اُترنے کے بعد فوراً ہی اُس کو جھلّی وغیرہ پر لکھ لیاجاتا تھا۔
ڈاکٹر موریس بُکائی نے اس دو طرفہ طریقہ کو ڈبل چیکنگ کا طریقہ (double checking system) بتایا ہے۔ یعنی حافظہ کا تقابل تحریر سے کیا جائے اور تحریر کا تقابل حافظہ سے کیا جائے۔ اس طرح ایک کو دوسرے سے چیک کرتے ہوئے اُس کی صحت کا تیقن حاصل کیا جائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لا تکتبوا عنی غیر القرآن۔ یعنی تم لوگ صرف قرآن کو لکھو، تم میرے اپنے کلام کو نہ لکھو۔ پیغمبر اسلام کی یہ ہدایت صرف مذکورہ ۲۳ سال کے لیے تھی جب کہ قرآن اُتر رہا تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ قرآن اور کلامِ رسول دونوں ایک دوسرے میں مل نہ جائیں۔ آخری زمانہ میں جب کہ قرآن کا نزول تقریباً مکمل ہوگیا تو آپ نے کلامِ رسول کو لکھنے کی اجازت دے دی اور فرمایا: قیدوالعلم بالکتابۃ(علم کو تحریر کے ذریعہ محفوظ کرو)۔پیغمبر اسلام ﷺکی وفات ہوئی تو پورا قرآن ہزاروں لوگوں کے حافظوں میں محفوظ ہوچکا تھا۔ اسی کے ساتھ مدینہ میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے جھلّی اور دوسری چیزوں پر پورے قرآن کو لکھ لیا۔
خلیفۂ اول ابو بکر صدیق نے اپنے زمانہ میں اس معاملہ میںایک اور کام کیا۔ اُس وقت زید بن ثابت انصاری موجود تھے جو کاتبِ وحی بھی تھے اور پورے قرآن کے اچھے حافظ بھی۔ اُنہوں نے زیدبن ثابت انصاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کی یاد داشت اور تحریری ذخیرہ کی مدد سے مکمل قرآن لکھیں۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک مہم کے طورپر کتابتِ قرآن کے کام کو شروع کیا اور اُس کو تکمیل تک پہنچایا۔ یہ کتابت غالباً قدیم زمانہ کے کاغذ پر کی گئی تـھی۔ یہ کاغذ وہی تھا جس کو مصر میں پیپرس (Papuros) نامی پودے کی فطری پرت (layer) کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا۔
زید بن ثابت انصاری نے کتابت کی تکمیل کے بعد اُس کے اوراق کو یکجا کرکے اُس کی جلد بنائی۔ یہ گویا مجلّد قرآن کا پہلا نسخہ تھا جو اپنی شکل کے اعتبار سے چوکور تھا۔چنانچہ اُس کو رَبعہ کہا جاتا تھا۔ خلیفہ اول نے قرآن کے اس نسخہ کو زوجۂ رسول حضرت حفصہ کے گھر پر رکھوا دیا۔ خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کا زمانہ آیا تو اُس وقت تک کاغذ اور بھی زیادہ عام ہوچکا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمان نے زید بن ثابت انصاری کے نسخہ کو لے کر اُس کی کئی نقلیں تیار کرائیں اور اُن نقلوں کو بڑے بڑے شہروں میں بھیج دیا تاکہ عمومی استفادہ کے لیے اُن کو شہر کی جامع مسجد میں رکھ دیا جائے۔
اس کے بعد کئی سو سال تک مسلم دنیا میں دو طریقے رائج رہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں میں قرآن کو حفظ کرنے کا عمومی رواج ہوگیا۔ نسل در نسل ایسے لوگ کثرت سے پیدا ہوتے رہے جن کو پورا قرآن اچھی طرح یاد تھا۔ اسی کے ساتھ قرآن کے عثمانی نسخہ کو لے کر لوگ اُس کی نقلیں تیار کرتے رہے۔ اس طرح قرآن کی نقلیں قدیم زمانہ کے کاغذ پر تیار ہو کر کثیر تعدادمیں گھر گھر پہنچ گئیں۔
اسی کے ساتھ قرآن کی حفاظت اور صحتِ تلاوت کے لیے دوسرے کئی کام مختلف لوگوں کے ذریعہ انجام پائے۔ مثلاً بنو امیہ کے زمانہ میں قرآن کی آیتوں پر اعراب لگائے گئے اور حروف پرنقطے لکھے گئے۔ یہ کام زیادہ تر حجاج بن یوسف کے ذریعہ انجام پایا۔ اس کے بعد عباسی خلافت کے زمانہ میں طرزِ کتابت میں مزید ترقی ہوئی اور خطِّ کوفی ایجاد ہوا۔ اس ایجاد نے قرآن کی کتابت میں حُسن کا پہلو پیدا کردیا۔ یہ کام زیادہ تر ابن مُقلہ کے ذریعہ انجام پایا۔
اس طرح قرآن کی کتابت اور حفاظت کا سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اٹھارویں صدی کا زمانہ آگیا۔ اس زمانہ میں اہلِ یورپ نے پرنٹنگ پریس ایجاد کیا۔ نپولین بونا پارٹ ۱۷۹۸میں مصر میں داخل ہوا۔نپولین پہلا شخص تھا جو مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس لے آیا۔ اُس وقت تک زیادہ بہتر قسم کا کاغذ عام ہوچکا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ قرآن پہلی بار پرنٹنگ پریس کے ذریعہ چھاپا گیا۔ اس کے بعد ساری مسلم دنیا میں قرآن کو چھاپنے کاعمل شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ اب یہ حالت ہے کہ تمام دنیا میں مسلمانوں کے گھر، مسجدیں اور مدرسے اور کتب خانے اور بازار قرآن کے مطبوعہ نسخوں سے بھر گئے ہیں۔ اس طرح اب قرآن کی حفاظت کا کام آخری طورپر مکمل ہوچکا ہے۔
قرآن مکمل طور پر ایک محفوظ کتاب ہے، یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس کا اعتراف عام طور پر اہل علم نے کیا ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں صرف ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے مشہور مذہبی لیڈر سوامی وویکا نند فروری ۱۸۹۱میں الور آئے۔ وہاں ہندو اور مسلمان دونوں نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے ایک مسلم عالم سے کہا کہ قرآن کی ایک امتیازی صفت یہ ہے کہ آج بھی وہ اسی اصل حالت میں موجود ہے جیسا کہ وہ گیارہ سو سال پہلے تھا۔ اس کتاب نے اپنی خالص حیثیت کوپوری طرح محفوظ رکھا ہے وہ کسی بھی ملاوٹ سے پوری طرح پاک ہے:
In Alwar, where Swamiji arrived one morning in the beginning of February 1891, he was cordially received by Hindus and Moslems alike. To a Moslem scholar he said: ‘There is one thing very remarkable about the Qur’an. Even to this day it exists as it was recorded eleven hundred years ago. The book has retained its original purity and is free from interpolation’.
Vivekananda: A Biography
by Swami Nikhilananda
Advaita Ashram, Calcutta, 2001, p. 102
واپس اوپر جائیں

دار الاسلام، دار الحرب

دار الاسلام اور دار الحرب کی اصطلاح زمانہ نبوت کے ڈیڑھ سو سال بعد عباسی دور میں بنی۔ یہ الفاظ قرآن اور حدیث میں استعمال نہیں ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ دونوں اصطلاحیں مبتدعانہ اصطلاحیں تھیں۔ ان کو قرآنی اصطلاح یا مسنون اصطلاح نہیں کہا جاسکتا۔
فقہاء کے نزدیک دار الاسلام سے مراد وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کو اسلام پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو۔ دار الحرب سے مراد وہ ملک ہے جو مسلمانوں کے لیے معاند ملک کی حیثیت رکھتا ہو، جس سے مسلمان امکانی طورپر جنگ (potentially at war) کی حالت میں ہوں۔ یہ دونوں اصطلاحیں ذاتی قیاس کے تحت بنائی گئیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ اتنی اہم اصطلاح خالص قرآن کی روشنی میں بنائی جائے۔
اس نظر سے قرآن کو دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ دو قسم کے علاقوں کے اس فرق کو بتانے کے لیے زیادہ درست الفاظ دوسرے ہیں۔ اور وہ دارالخوف اور دار الامن کے الفاظ ہیں۔ اس رائے کا مأخذ قرآن کی وہ آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں اقتدار دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اقتدار دیا تھا۔ اور ان کے لیے ان کے دین کو جما دے گا جس کو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن کی حالت سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی بھی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔ (النور۔۵۵)
قرآن کی اس آیت کے مطابق، دور اول کے مسلمان اپنے ابتدائی دو رمیں خوف کی حالت میں تھے۔ پھر اللہ نے ان کو امن کی حالت میں پہنچا دیا۔ یعنی وہ پہلے دار الخوف میں رہ رہے ـتھے، پھر اللہ نے ان کو دار الامن عطا فرمایا۔
وسیع تر تقسیم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دار الخوف سے مراد بنیادی طورپر وہ زمانہ ہے جس کو سیرت کی کتابوں میں مکی دور کہا جاتا ہے اور دار الامن سے مراد بنیادی طورپر وہ زمانہ ہے جس کو سیرت کی کتابوں میں مدنی دور کہا گیا ہے۔
گویا کہ وہ چیز جس کو بعد کے فقہاء نے دار الحرب سے تعبیر کیا، اس کو قرآن میں دار الخوف کہا گیا تھا۔ اس طرح ان فقہاء نے جس حالت کو دار الاسلام سے تعبیر کیا، اس کے لیے قرآن میں دارالامن کا لفظ استعمال کیا گیا۔
مذکورہ حالت اسلام کے ظہور کے تقریباً بیس سال بعد تک رہی۔ اُس کے بعد خدا کی مزید عنایت ہوئی۔ پیغمبر اسلام کے آخری زمانہ میں وہ اہم اعلان کیاگیا جو قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں موجود ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے:
آج انکار کرنے والے لوگ تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پس تم اُن سے نہ ڈرو، اور تم صرف مجھ سے ڈرو۔آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ (المائدہ ۳)
قرآن کی یہ آیت اس بات کا ایک خدائی اعلان ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل کے بعد دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا ہے جس نے ہمیشہ کے لیے اس امکان کو ختم کردیا ہے کہ زمین کا کوئی حصہ اہلِ اسلام کے لیے دوبارہ دار الخوف بن جائے۔ اب قیامت تک کے لیے اہل اسلام امن کے دو رمیں داخل ہوچکے ہیں۔ اب ساری دنیا میں اہلِ اسلام کے لیے ایک ایسا دور آچکا ہے جس میں اُن کے لیے خشیت انسانی کا مسئلہ باقی نہیں رہا۔ اب انسانی تاریخ خشیت الٰہی کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ گویا اب ساری دنیا ہمیشہ کے لیے دار الامن ہے، اب وہ اہل اسلام کے لیے کبھی دارا لخوف بننے والی نہیں۔ اب اہل اسلام کا کام یہ ہے کہ وہ حاصل شدہ مواقع کو استعمال کریں، نہ کہ وہ مفروضہ خوف کے نام پر اہل عالَم سے بے فائدہ لڑائی چھیڑ دیں۔
اب مسلمانوں کو یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ دار الاسلام یا دار الامن قائم کرنے کے نام پر غیر مسلم قوموں سے لڑائی کریں۔ اس کے برعکس اب اہل اسلام کو یہ کرنا ہے کہ وہ ہر حال میں دار الامن کے محافظ بنے رہیں۔ اب مسلمانوں کو اُس نادانی سے بچنا ہے جس کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
عن حذیفۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا ینبغی لمسلم ان یذل نفسہ، قیل و کیف یذل نفسہ قال یتعرض من البلاء لما لا یطیق (مسند احمد ، ۵؍۴۰۵)
حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کسی مسلم کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ خود اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ پوچھا گیا کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرے گا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ایک ایسی بلا سے تعرض کرے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق ، دنیا کا ہر ملک اب اہلِ اسلام کے لیے دار الامن بن چکا ہے۔ دار الامن سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پُرامن دینی عمل کے مواقع موجود ہوں۔ اب جب کہ خُدا نے تمام دنیا کو مسلمانوں کے لیے دار الامن بنا دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اہلِ اسلام کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنا ملّی اور دینی عمل مکمل طورپر امن کے حدود میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ اب اُن کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ پُر امن طریقِ کار کو چھوڑ کر پُر تشدد طریقِ کار اختیار کریں۔
پُر امن طریقِ کار کی یہ فرضیت صحیح البخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے کہا: ما خیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین الا اختار ایسرہما(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ مشکل طریقہ کو چھوڑ کر آسان طریقہ اختیار فرماتے)۔
اس حدیث کے مطابق، پُر تشدد طریقِ کار ایک مشکل طریقِ کار ہے اور پُر امن طریقِ کار ایک آسان طریقِ کار۔ اب سنّت رسول کی پیروی میں اہلِ اسلام کو یہ کرنا ہے کہ وہ پُر تشدد طریقِ کار سے مکمل طورپر بچیں، اور پُر امن طریقِ کار پر سختی کے ساتھ کار بند رہتے ہوئے اپنا دینی اور ملّی مقصد حاصل کریں۔ اب پُر تشدد طریقِ کار کواستعمال کرنا سنتِ رسول کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور جو لوگ سنّتِ رسول کی خلاف ورزی کریں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات حتمی طورپر واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو دوسری قوموں کی طرف سے جس متشددانہ سلوک کا تجربہ ہورہا ہے وہ دوسری قوموں کے ظلم کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اُس کا سبب تمام تر یہ ہے کہ مسلمانوں نے سنتِ رسول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کیا کہ اُنہوں نے پُر امن طریقِ کار کو چھوڑ کر پُر تشدد طریقِ کار کو اختیار کر لیا۔ اب وہ جس ہلاکت کا تجربہ کررہے ہیں اُس کا سبب خود اُن کا مسنون طریقِ کار سے انحراف ہے، نہ کہ کسی مفروضہ دشمن کی طرف سے سازش یا ظلم کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کو حل کرنے کی تدبیر

قدیم زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ الحرب انفٰی للحرب (جنگ کا توڑ جنگ ہے) یہ فکر ہزاروں برس سے انسان کے اندر چلا آرہا تھا۔ بد قسمتی سے یہی فکر تاریخی تسلسل کے نتیجہ میں خود مسلمانوں میں کسی نہ کسی طورپر جاری رہا۔ حضرت عثمان کی شہادت سے لے کر اب تک کی مسلم تاریخ میں اس کے نمونے پھیلے ہوئے ہیں۔ ۱۹۴۸ میں فلسطین کا مسئلہ پیدا ہوا جو عملاً پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ اس وقت بھی تمام مسلم ذہن اسی ڈھنگ پر سوچنے لگے۔ اس سوچ کی نمائندگی ایک عرب شاعر کے شعر میں ان الفاظ میں ملتی ہے:
ہاتِ صلاح الدین ثانیۃ فینا جددی حطین أو شبہ حطینا
اقبال اپنے علم اور ذہانت کے باوجود اس فکر سے اوپر نہ اُٹھ سکے۔ ان کا پورا کلام کسی نہ کسی طورپر اسی فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ مثال کے طورپر ان کا یہ شعر پڑھئے۔
گفتند جہانِ ما آیا بتو می سازد گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن
اسلام اس معاملہ میں انقلابی تبدیلی کا پیغام تھا۔ جنگ کیوں ہوتی ہے۔جنگ ہمیشہ اختلافات کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ لوگ اختلاف کو صرف مٹانا جانتے تھے، اس لیے وہ فوراً فریقِ ثانی سے لڑ جاتے تھے۔ اسلام نے اس معاملہ میں ایک نئے اُصول کو رواج دیا۔ قرآن میں یہ اُصول ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: الصلح خیر (النساء ۱۲۸)
اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ صلح بہتر ہے۔ صلح کیا ہے۔ صلح یہ ہے کہ اختلاف کو مٹانے پر زور نہ دیا جائے بلکہ اختلاف کو گوارہ کرتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ گویا اس کا مطلب ہے، اختلاف کے باوجود اتحاد۔ اس فارمولے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Art of difference management
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی تدبیر کا عملی نمونہ ہے۔ مثال کے طورپر آپ نے قدیم مکہ میں ۶۱۰ء میں دعوتِ توحید کا مشن شروع کیا۔ اس وقت توحید کے نقطۂ نظر سے مکہ میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ تھا کہ توحید کے گھر (کعبہ) میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ مگر اس وقت قرآن میں اس مفہوم کی کوئی آیت نہیں اتری: طَہِّر الکعبۃ من الأصنام (کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)بلکہ اس کے بجائے قرآن میں یہ آیت اتری کہ : وثیابک فطہر(اپنے اخلاق کو درست کرو)
اس قرآنی اُصول پر عمل کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے یہ کیا کہ آپ نے مکہ کے تیرہ سالہ قیام کے زمانہ میں کبھی بتوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ لوگوں کو توحید کا پیغام دینے کی پر امن جدوجہد شروع کردی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں اس قسم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ انہی میں سے ایک نمایاں واقعہ صلح حدیبیہ ۶۲۸ء کا ہے۔ یہ صلح گویا ڈیفرنس مینجمنٹ(difference management) کی ایک کامیاب مثال تھی جو انسانی تاریخ میں غالباً پہلی بار نہایت کامیابی کے ساتھ قائم کی گئی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سخت انتباہ دیا تھا کہ اختلاف خواہ کتنا ہی بڑا ہو وہ ہرحال میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو حل کرے۔ کسی بھی حال میں وہ ایسا نہ کرے کہ اتحاد کے نام پر اختلاف کو مٹانے کی کوشش کرے۔ حدیث کے مجموعوں میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے اس قسم کی روایتیں آئی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے بعد امراء اور حکام کے اندر بگاڑ آئے گا مگر تم ہرگز ان سے ٹکراؤ نہ کرنا۔ تم ظلم کے باوجود ان کا حق ادا کرنا اور اپنے حق کے لیے اللہ سے دعا کرنا(ادوا الیہم حقہم واسئلوا اللہ حقکم)
اس معاملہ میں ایک حدیث وہ ہے جو ابوداؤد، الترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں آئی ہے۔ یہ ایک لمبی روایت ہے، اس کا آخری حصہ یہ ہے:
وإنی لا أخاف علی أمتی إلا الأئمۃ المضلین فإذا وضع السیف فی امتی لم یرفع عنہم إلی یوم القیامۃ (مسند احمد ۴؍۱۲۳) یعنی مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ اندیشہ گمراہ کن لیڈروں سے ہے او رجب تلوار میری امت میں داخل ہوگی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی۔
اس حدیث کا مطلب در اصل یہ ہے کہ امت میں جب اختلافات پیدا ہوں گے تو نا اہل لیڈر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول پر اس کو رفع نہ کرسکیں گے بلکہ وہ اختلاف کو دور کرنے کے نام پر لڑائی چھیڑ دیں گے اور جب ایک بار امت میں دین کے نام پر لڑائی کی روایت قائم ہوگئی تو اجتماعی نفسیات کی بنا پر وہ قیامت تک جاری رہے گی۔
حدیث کی یہ پیشین گوئی بد قسمتی سے امت کی بعد کی تاریخ کے بارے میں درست ثابت ہوئی۔ امت کے اندر وضع سیف کا یہ معاملہ خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کی شہادت کے ساتھ شر وع ہوا۔ پھر اس کے بعد وہ اس طرح مسلسل جاری ہو گیا کہ امت کی ہزار سالہ تاریخ میں وہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ خلیفہ چہارم اور دمِ عثمان کے نام پر اُٹھنے والوں کے درمیان جنگ، حسین اور یزید کے درمیان جنگ، بنوامیہ اور بنو عباس کے درمیان جنگ، سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ، مغلوں اور غیر مغلوں کے درمیان جنگ، اسی طرح موجودہ زمانہ میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان جنگ، وغیرہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اختلاف امتی رحمۃ (میری امت کا اختلاف رحمت ہے) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف (difference) خدا کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ فطرت کا ایک لازمی جزء ہے اس لیے اختلاف کبھی زندگی سے ختم نہیں ہوتا۔ امت کے اصحاب علم و معرفت اس راز کو سمجھیں گے اور اختلاف کو مٹانے کے بجائے اختلاف کے ساتھ جینے کی کوشش کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ ڈیفرنس مینجمنٹ کے اصول پر اس مسئلہ کو حل کریں گے۔ اس طرح سنت کی پیروی کی صورت میں اختلاف امت محمدی کے لیے رحمت بن جائے گا۔ اختلاف کے ہوتے ہوئے وہ ترقی کا پر امن سفر کامیابی کے ساتھ طے کر سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دوسری بہت سی سنتیں ہیں اسی طرح وہ چیز بھی ایک سنت رسول ہے جس کو ہم نے آرٹ آف ڈیفرنس مینجمنٹ کا نام دیا ہے۔ اس اُصول کا تعلق اسلام کے تمام پہلوؤں سے ہے، کوئی بھی پہلو اس سے خالی نہیں۔
مثال کے طورپر فقہی اختلافات جو ہزار سال سے اب تک ٹکراؤ کا سبب بنے ہوئے ہیں ان کے معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا سادہ اُصول یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ یہ اختلافات توسع پر مبنی ہیں،نہ کہ تعددپر۔ ان میں سے جس طریقہ کی بھی پیروی کی جائے وہ درست ہوگا(بایہم اقتدیتم اہتدیتم)
اسی طرح علی اور معاویہ کا معاملہ یا یہ سوال کہ چاروں خلفاء کے درمیان تفضیل کی بحث۔ اس قسم کے معاملات میں ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق (application) یہ ہے کہ اس کو خدا کے حوالہ کردیا جائے اور ہر فرقہ اپنی آج کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مشغول ہوجائے۔
موجودہ زمانہ میں اکثر مسلم ملکوں میں سیکولر حکمرانوں اور اسلام پسند جماعتوں کے درمیان تباہ کن ٹکراؤ جاری ہے۔ اس معاملہ میں ڈیفرنس مینجمنٹ کا انطباق یہ ہے کہ اسلام پسند جماعتیں حکومت کے دائرہ میں براہ راست مداخلت کا طریقہ چھوڑ دیں ۔ وہ غیر حکومتی دائرہ ، مثلاً تعلیم اور اصلاح اور دعوت کے شعبوں میں، اپنی کوششیں صرف کریں۔
موجودہ زمانہ میںہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان لیڈر یا مسلم گروہ مختلف ملکوں میں کسی نہ کسی قومی یا ملّی مقصد کے حوالہ سے غیر مسلم حکومتوں سے متشددانہ ٹکراؤ کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہیں۔ مثلاً فلسطین اور کشمیر او رچیچنیا اور فلپائن ،وغیرہ میں۔ ان مقامات پر ڈیفرنس مینجمنٹ کے اُصول کا انطباق یہ ہے کہ ہر قسم کے تشدد کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے اور صرف مسلّمہ پرامن طریق کار کی پابندی کرتے ہوئے اپنی تحریک چلائی جائے۔
قرآن کی آیت: الصلح خیر(النساء ۱۲۸) بتاتی ہے کہ ڈیفرنس مینجمنٹ کا مذکورہ طریقہ مطلق طورپر خیر کا سببہے۔ وہ ہر حال میں قابل عمل ہے۔ یہ طریقہ صرف اس وقت ناقابل عمل بن جاتا ہے جب کہ مسلمان تشدد کا آغاز کرکے فضا کو بگاڑدیں۔ تشدد کا آغاز لازمی طورپر جوابی تشدد پیدا کرے گا اور پر امن طریق کار کو اختیار کرنا ممکن نہ رہے گا۔ اگر مسلمان یہ غلطی کریں کہ تشدد کا آغاز کرکے وہ صورت حال کو بگاڑ دیں تو خود انہیں کو دوبارہ صورت حال کو نارمل بنانے کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے تشدد کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں تا کہ وہ موافق فضا پیدا ہو جس میں ڈیفرنس مینجمنٹ پر عمل کرنا ممکن ہو جائے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ مذکورہ اصول فطرت ہی کا ایک اصول ہے جس کو اسلام میں اختیار کیا گیاہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں لازماً ایک اور دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوں۔ ایک اور دوسرے کے درمیان مختلف اعتبار سے اتنا زیادہ فرق پایا جاتا ہے کہ ہر انسان کو مسٹر ڈیفرنس کہنا صحیح ہوگا۔ اس دنیا میں ہر سماج فرق و اختلاف والا سماج ہے۔ یہ فرق و اختلاف چونکہ خود فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے اس لیے اس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔
ایسی حالت میںقابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ فرق کے ساتھ نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے نہ کہ فرق کو مٹانے کا۔
It requires difference management rather than eliminating the difference.
فطرت کے اس اصول کا تعلق مذہبی معاملہ سے بھی ہے اور سیکولر معاملہ سے بھی۔ اس دنیا میں کوئی بھی نظام مذہبی ہو یا غیر مذہبی، کامیاب طورپر وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو ڈیفرنس مینجمنٹ کا آرٹ جانتے ہوں۔ فرق و اختلاف کو مٹانا تشدد پیدا کرتا ہے اور فرق و اختلاف کو مینج کرنا امن اور ہم آہنگی کا سبب بنتا ہے۔
فرق و اختلاف کوئی بُرائی نہیں، وہ ترقی کا زینہ ہے۔ فرق و اختلاف سے اجتماعی زندگی میں چیلنج پیدا ہوتا ہے۔ اور چیلنج کا سامنا کرنا ہی اس دنیا میں ہر قسم کی ترقی کا واحد راز ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوتِ عام کی ذمہ داری

بیان کیا جاتا ہے کہ پچھلے انبیاء مقامی آبادیوں کے لیے آئے۔ وہ جس قوم میں پیدا ہوئے وہی قوم اُن کی دعوت کامیدان ہوتی تھی۔ مگر پیغمبر آخر الزماں ﷺکے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہ تھا اس لیے آپ ساری دنیا کے لیے داعی اور منذر بنا کر بھیجے گیے(الفرقان ۱)۔ اسی لیے پیغمبراسلام کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین(الانبیاء ۱۰۷) یعنی ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
یہ بات اہل اسلام کے لیے فخر یا فضیلت کی بات نہیں ہے بلکہ وہ ایک سنگین ذمہ داری کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پیغمبروں کی امتوں کی دعوتی ذمہ داری اگر مقامی دائرہ تک محدود رہتی تھی تو امتِ محمدی کی ذمہ داری سارے عالم تک پھیلی ہوئی ہے۔ اُمّت محمدی کا اُمّت محمدی ہونا صرف اُس وقت متحقّق ہو سکتا ہے جب کہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے اوپر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کرے۔ اس دعوتی عمل کے بغیر اُس کا اُمتِ محمدی ہونا ہی مشتبہ ہے (المائدۃ ۶۷)
مزید یہ کہ اس دعوتی ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُمت کے لوگ تمام دنیا میں مسلم وار تحریکیں چلائیں بلکہ اُنہیں لازمی طورپر غیر مسلم وار تحریکیں چلانا ہے۔ مسلم وار تحریک یا ملت وار تحریک امت کا داخلی مسئلہ ہے جب کہ غیر مسلم وار تحریک، خارجی معنوں میں اُمّت کی لازمی ذمہ داری ہے۔
علمائے اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعوت کے بغیر جہاد نہیں۔ ابن رشد نے الفصل الرابع فی شرط الحرب کے تحت لکھا ہے: فاما شرط الحرب فہو بلوغ الدعوۃ باتفاق، اعنی انہ لا یجوز حرابتہم حتی یکونوا قد بلغتھم الدعوۃ، وذلک شیٔ مجتمع علیہ من المسلمین لقولہ تعالیٰ:وما کنا معذبین حتی نبعث رسولاً (بدایۃ المجتہد۱؍۳۸۶) یعنی جنگ کی شرط متفقہ طورپر یہ ہے کہ ان لوگوں تک دعوت پہنچ چکی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے اس وقت تک جنگ جائز نہیں جب تک کہ انہیں دعوت نہ پہنچ جائے۔
اس معیارکی روشنی میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ پچھلے تقریباً تین سو سال سے مسلم رہنما جہاد کے نام پر غیر قوموں سے جو لڑائیاں لڑ رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی جہاد نہیں۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کے بغیر لڑی گئیں۔ مثلاً شاہ ولی اللہ دہلوی کی (بالواسطہ) جنگ مراٹھوں سے، شہیدین کی جنگ سکھوں سے، علمائے ہندکی جنگ انگریزوں سے، عربوں کی جنگ اسرائیلیوں سے، پاکستانیوں اور کشمیریوں کی جنگ ہندوؤں سے، فلپائنی مسلمانوں کی جنگ وہاں کے عیسائیوں سے، چیچن مسلمانوں کی جنگ روسیوں سے، وغیرہ۔
یہ اور موجودہ زمانہ کی دوسری لڑائیاں جو مسلم رہنما لڑتے رہے یا لڑ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی جہاد فی سبیل اللہ نہیں۔ کیوں کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کی شرط کے بغیر شروع کردی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی یہ تمام لڑائیاں حبط اعمال کا شکار ہوگئیں۔ مسلمانوں کی یک طرفہ تباہی کے سوا ان کا اور کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔
کسی غیر مسلم قوم کے خلاف جہاد(بمعنٰی قتال) چھیڑنے کے لیے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں پر ملک و مال کے اعتبار سے کوئی نقصان پہنچایا ہو۔ ایسے کسی مسئلہ کے حل کے لیے پر امن تدبیر ہے نہ کہ متشددانہ جنگ۔ غیر مسلموں کے سلسلہ میں مسلمانوں کی اول و آخر ذمہ داری دعوت و تبلیغ ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) صرف مخصوص اور متعین شرطوں ہی پر جائز ہے، اور موجودہ زمانہ میں یہ شرطیں کسی بھی مقام کے مسلمانوں کے حق میں موجود نہیں۔
کسی قوم کے خلاف دعوت کے بغیر جہاد چھیڑنانہایت سنگین ذمہ داری ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے صرف یہ کیا تھا کہ دعوت کی تکمیل سے پہلے انہوں نے اپنی مدعو قوم سے ہجرت کا معاملہ کیا۔ اب وہ لوگ جنہوں نے سرے سے دعوت کا عمل ہی نہ کیا ہو اور پھر صرف مادّی نزاع کی بنا پر اپنی مدعو قوم کے خلاف مسلّح جنگ چھیڑ دیں، اُن کا معاملہ حضرت یونس کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں کتنا زیادہ سنگین ہوگا، اس کا تصور بھی لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
واپس اوپر جائیں

قومیت کا مسئلہ

سید جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ میں پیدا ہوئے اور ۱۸۹۷ میں اُن کی وفات ہوئی۔ وہ اُس نظریہ کی ایک علامت ہیں جو ترکی کے سلطان عبدالحمید کی حمایت سے شروع ہوئی اور جس کو اتحادِاسلامی(پان اسلامزم) کہا جاتا ہے۔ سید جمال الدین افغانی کے زمانہ میں تقریباً پوری مسلم دنیا انگریزوں اور فرانسیسیوں کی سیاسی ماتحتی میں آگئی تھی۔ جمال الدین افغانی اس مغربی اقتدار کو ختم کرنے کے لیے اُٹھے ۔ اس مقصد کو طاقت دینے کے لیے اُنہوں نے اتحادِ اسلامی کا نظریہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ تمام دنیا کے مسلمان، خواہ وہ اکثریتی ملک میں ہوں یا اقلیتی ملک میں، وہ سب کے سب ایک واحداُمّت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ سب کے سب ایک ہی سیاسی وحدت میں بندھے ہوئے ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسی نظریہ کے مطابق کہا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک انٹرنیشنل پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آیت اللہ خمینی اور دوسرے رہنماؤں نے اس کو الأمّہ(Ummah) کا لفظ دیا جو بہت جلد تمام دنیا کے مسلمانوں میں مقبول ہوگیا۔ اسی نظریہ کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
یہ بین اقوامی نظریہ نو آبادیاتی دور میں حالات سے متصادم نہیں معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت دنیا کے بیشتر ملک عملاً ایک ہی سیاسی نظام کے تحت تھے۔ تقریباً تمام مسلمان اس ایک سیاسی نظام کے شہری شمار ہوتے تھے۔ مگر جب نو آبادیاتی نظام ٹوٹا اور نیشنلزم کا دور آیا تو بہت سی الگ الگ سیاسی وحدتیں بن گئیں۔ پہلے اگر ایک ایمپائر کی وفاداری کا مسئلہ تھا تو اب ایک سو قومی وحدتوں کی الگ الگ وفاداری کا مسئلہ سامنے آگیا:
Pan-Islamism was the dominant ideology of the Muslim world of the 19th century before the rise of Nationalism. (7:719)
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا نقشہ بدلا تو مسلمان فکری اعتبار سے ایک پیچیدہ صورت حال میں مبتلا ہوگئے۔ جو لوگ عالمی قومیت کے ڈھانچہ میں اپنی سیاسی شناخت بنائے ہوئے تھے، اب اُن کو مقامی قومیت کے ڈھانچے میں دوبارہ اپنی سیاسی شناخت کو تلاش کرنا پڑا۔ اس نازک وقت میں، میرے علم کے مطابق، پوری مسلم دنیا میں صرف ایک عالم تھا جس نے اس سوال کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کی۔ یہ مولانا سید حسین احمد مدنی(۱۹۵۷۔۱۸۷۹) تھے۔ اُنہوں نے ۱۹۴۷ سے پہلے کی ہنگامی سیاست کے زمانہ میں یہ جرأتمندانہ اعلان کیا کہ: فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک اجتہادی رہنمائی تھی۔ مگر بد قسمتی سے مولانا موصوف کی وفات کے بعد خود دیوبند کے علماء نے یہ اعلان کرکے اُس کو کالعدم کردیا کہ: حضرت نے اس سلسلہ میں جو فرمایا وہ صرف ایک خبر تھی، وہ انشا نہ تھی۔
یہ معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ یہ بے حد نازک معاملہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اس معاملہ میں انتہائی غیر جانبدارانہ انداز کے ساتھ غور کیا جائے۔ مذکورہ اعلان کردہ موقف کی صورت میں نظری یا اعتقادی پوزیشن یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی قومیت (Nationality) اسلام ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مسلمانوں کی سیاسی وفاداری مشترک طورپر اُن کے مذہب کے ساتھ وابستہ ہے۔ اب جب کہ ہر ملک میں نیشنلٹی کو وطن (home-land) کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے تو یہ نظریہ ہر جگہ مقامی تقاضوں سے متصادم ہوگیا ہے۔
مثلاً امریکا یا برطانیہ یا انڈیا میں جدید تصورِ قومیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کی سیاسی وفاداریاں صرف اپنے وطن کے ساتھ وابستہ ہوں، اُن کی کوئی خارج از وطن سیاسی وفاداری (extra-terrestrial loyalty) نہ ہو۔ جب کہ الأمّہ کا نظریہ برعکس طورپر یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کی وفاداریاں بین اقوامی اسلام کے ساتھ ہونی چاہئیں، نہ کہ ملکی وطنیت کے ساتھ۔ اس تضاد نے ساری دنیا کے ہر اُس ملک میں مسلمانوں کی نیشنل وفاداری کو مشتبہ کردیا ہے جہاں مسلمان ایک اقلیت کے طورپر رہتے ہیں۔
یہ ایک بے حد سنگین مسئلہ ہے۔ خالص نظری طور پر مسلمانوں کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہے۔ یا تو وہ اپنے اعلان کردہ موقف کے مطابق، یہ کہیں کہ ہم عالمی اسلامی قومیت کے فرد ہیں، ہم مقامی قومیت کے قائل نہیں۔ وہ اس موقف کو اختیار کریں اور پھر اُس کی ہر قیمت کو دل کی آمادگی کے ساتھ ادا کریں۔ مثلاً اگر کسی ملک میں اُن کی وطنی وفاداری کو مشتبہ سمجھ کر اُنہیں ملکی فوج میں نہ لیا جائے، اُنہیں وزارت خارجہ میں شامل نہ کیا جائے، اُنہیں سفیر کا عہدہ نہ ملے، ملک کی بین اقوامی نمائندگی کے فورم میں اُن کو جگہ نہ دی جائے، اُن کو اپنے ملک میں درجہ دوم کا شہری سمجھا جائے تو اُنہیں چاہئے کہ وہ اُسے اپنے عقیدہ کی فطری قیمت سمجھ کر اُس کو قبول کریں۔
مسلمانوں کے لیے دوسرا چوائس یہ ہے کہ وہ کھُلے طورپر یہ اعلان کریں کہ الأمّہ کا مذکورہ بین اقوامی نظریہ کچھ مسلم رہنماؤں کا ذاتی نظریہ تھا جو اُنہوں نے مخصوص حالات کے رد عمل میں اختیار کیا اور اُس کو غلط طورپر اسلام کا نام دے دیا۔ اب ہم اس نظریہ کو رد کرتے ہیں اور جیسا کہ مولانا حسین احمد مدنی نے اعلان کیا تھا، ہم اس رائے کو اختیار کرتے ہیں کہ عقیدہ اور مذہب کے اعتبار سے بلا شبہہ تمام دنیا کے مسلمان ہم مذہب ہیں مگر جہاں تک قومیت (nationality) کا تعلق ہے، ہر مسلمان کی قومیت وہی ہے جو اُس کا وطن ہے۔ قومیت کا تعلق وطن سے ہے، نہ کہ مذہب سے۔ یہ اعلان اگر مسلمانوں کی طرف سے کھلے طورپر کر دیا جائے تو مذکورہ تضاد ختم ہوجائے گا اور پھرکسی کو یہ موقع نہ ہوگا کہ وہ اُن کی وطنی وفاداری پر شک کرے۔
مسلمان اگر ان دونوں میں سے کوئی موقف اختیار نہ کریں بلکہ وہ یہ کریں کہ موقف کے بارے میںکھُلے اعلان کے بغیر وہ اپنے اپنے ملک کی مادّی تقسیم میں اپنا حصہ لینے لگیں تو یہ ایک منافقانہ روش ہوگی۔ یعنی اپنے نظری یا اعتقادی موقف میں تبدیلی کا اعلان کیے بغیر خاموشی کے ساتھ اپنے عملی موقف کو بدل لینا۔ اس قسم کی روش ایک افادی(utilitarian) روش قرار پائے گی، نہ کہ کوئی اصولی روش۔
اس طرح دوعملی کی روش اختیار کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے نقصانات بے حد سنگین ہیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے اندر سے بااصُول کردار کا مزاج ختم ہوجائے گا۔ اُن کا روحانی ارتقاء(spiritual development) رک جائے گا۔ اُن کے اندر فکری عمل (intellectual process) جاری نہ ہوسکے گا۔ اُن کی شخصیت ارتقائی منازل طے کرنے سے محروم ہوجائے گی۔ وہ اُس عظیم نعمت سے لذت نا آشنا ہوجائیں گے جس کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (الفتح ۴) کہا گیا ہے۔ اس صورت حال کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ جمود ذہنی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔ وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ علم و فکر کے اعتبار سے دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر پیغمبر کی امت کو خدا کی طرف سے الگ الگ شریعت اور منہاج دیا گیا(المائدہ ۴۸)۔ یہ بات بظاہر امت کے حوالے سے کہی گئی ہے، مگر وہ حقیقۃً زمانہ کی نسبت سے مقصود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے لوگوں کو ان کے زمانی حالات کی نسبت سے انہیں شریعت اور منہاج عطا کیا گیا۔ اسی لیے فقہ میں یہ متفقہ مسئلہ بنا ہے کہ: تتغیر الاحکام بتغیر الزمان والمکان (زمانہ اور مقام کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں)۔
تشریع الٰہی کا یہ اصول صرف پیغمبر اسلام سے پہلے کے لوگوں کے لیے نہیں تھا۔ بلکہ وہ پیغمبراسلام کے بعد آپ کی امت کے لیے بھی اسی طرح مطلوب ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پچھلی امتوں کو براہ راست پیغمبر کے ذریعہ اس تبدیلیٔ حکم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اور اب ختم نبوت کے بعد علماء کے اجتہاد کے ذریعہ تبدیلی ٔ حکم کا یہ کام انجام پائے گا۔
اس تشریعی اصول کے مطابق، بجا طورپر کہا جاسکتا ہے کہ قومیت (nationality) کے معاملہ میں موجودہ زمانہ میں جو تصور عالمی سطح پر رائج اور مسلّم ہوگیا ہے اس کی روشنی میں اجتہاد کرکے دوبارہ اس معاملہ میں شریعت کا موقف متعین کیا جائے گا۔ اور یہ موقف وہی ہے جس کا اعلان ۱۹۴۷ سے پہلے کے زمانہ میں مولانا سید حسین احمد مدنی نے کیا تھا۔
یہ شرعی موقف یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان عقیدہ اور مذہب کے اعتبار سے بلا شبہہ ایک عقیدہ اور ایک مذہب رکھتے ہیں مگر جہاں تک قومیت کا تعلق ہے وہ ملک کی نسبت سے متعین ہوگی۔ یعنی ہر ملک کے مسلمانوں کی قومیت وہی قرار پائے گی جو اس ملک کے دوسرے گروہوں کی ہے۔
واپس اوپر جائیں

کفر اور کافر کا مسئلہ

بیسویں صدی میں کمیونسٹ نظریہ بڑے پیمانہ پر ساری دنیا میں پھیلا۔ اس کے تحت انسانی سماج کو دو طبقوں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک محنت کش طبقہ (working class) اور دوسرا بورژوا طبقہ۔
بورژوا (bourgeois) ایک فرانسیسی لفظ ہے۔ یہ لفظ اپنے ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے متوسط طبقہ کے لیے بولا جاتا تھا۔ مگر مارکسی فلسفہ کے زیر اثر وہ ایک تحقیری (derogatory) لفظ بن گیا۔ اس نظریہ کے تحت سماج دو طبقوں میں بٹ گیا۔ ایک محنت کش طبقہ جو ہر اعتبار سے معصوم طبقہ کی حیثیت رکھتا تھا اور دوسرا بورژوا طبقہ جو مارکسی تصور کے مطابق، سرمایہ دار طبقہ (capitalist class) کے ہم معنٰی تھا اور جو مارکس کے مطابق، ہر قسم کی سماجی اور اقتصادی برائی کی جڑ تھا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ کافر کے لفظ کے ساتھ پیش آیا ہے۔ کافر کا لفظ ابتدائی طورپر صرف ایک سادہ مفہوم رکھتا تھا۔ لغوی اعتبار سے کافر کے معنٰی ہیں، انکار کرنے والا۔ مگر بعد کے زمانہ میں کافر کا لفظ ایک تحقیری لفظ (derogatory word) بن گیا۔ موجودہ زمانہ میں نظری اعتبار سے یہ غالباً مسلم اور غیر مسلم کے درمیان سب سے بڑا نزاعی مسئلہ ہے جس سے موجودہ زمانہ کے مسلمان دوچار ہیں۔ ایک مثال سے اس معاملہ کی وضاحت ہوگی۔ اقبال کا خاندان پہلے ایک برہمن خاندان تھا۔ بعد کو وہ لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے:
مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادۂ دانائے رمز روم و تبریز است
اس شعر میںبرہمن زادہ کا لفظ سننے والوں کو برا نہیں لگتا۔ ابتدائی مفہوم کے اعتبارسے برہمن زادہ اور کافر زادہ دونوں ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ لیکن اگر اقبال کے اس شعر کو بدل کر اس طرح کہا جائے:
کہ کافر زادۂ دانائے رمزروم و تبریز است
اگر شعر میں ایسی تبدیلی لائی جائے تو تمام اقبال پسند لوگ غصہ ہو جائیں گے۔ کیوں کہ برہمن ایک سادہ لفظ ہے جب کہ کافر استعمال کے اعتبارسے ایک تحقیری لفظ بن گیا ہے۔
کمیونسٹ اور بورژوا کی تقسیم نے بیسویں صدی میں غیر کمیونسٹ دنیا کو کمیونسٹ لوگوں سے متنفّر کردیا تھا۔ یہی معاملہ اب مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے مومن اورکافر کی تقسیم نے غیرمسلم دنیا کو مسلمانوں سے بیزار کردیا ہے۔ حتٰی کہ اب اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے لوگ یہ مانگ کرنے لگے ہیں کہ اسلام پر نظر ثانی کرو اور کافر کے لفظ کو اسلام کی لغت سے خارج کرو۔ جب تک اسلام میں یہ ریفارم نہ لایا جائے، مسلم اور غیر مسلم معتدل طورپر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
مگر تجربہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے انتہا پسند لوگوں کا نہیں ہے بلکہ اب وہ خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ آج کے صنعتی سماج میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ایک ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں تعلیم یافتہ مسلمان عام طورپر یہ محسوس کررہے ہیں کہ وہ ’’کافر‘‘ کے رواجی تصور کے ساتھ مشترک سماج میں معتدل طورپر نہیں رہ سکتے۔ وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اسلام نے موجودہ زمانہ میں اپنا ریلونس (relevance) کھو دیا ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اسلام کو لے کر وہ آج کے سماج میں عزت کے ساتھ کس طرح رہیں۔
دہلی میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ ان سے اکثر میری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری پیدائش اگرچہ مسلمان کے گھر میں ہوئی مگر اب اسلام پر میرا عقیدہ باقی نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا مذہب ڈیموکریسی (جمہوریت) ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام انسانیت کو مومن اور کافر کے دو نامساوی طبقوں میں بانٹتا ہے۔ جب کہ ڈیموکریسی سارے انسانوں کو برابر کا درجہ دیتی ہے۔انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا کہ میرے یہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوگا تو میںاس کے کان میں اذان نہیں دلواؤں گا بلکہ کسی پروفیسر کو بلاؤں گا جو بچہ کے کان میں کہے گا—ڈیموکریسی، ڈیموکریسی، ڈیمو کریسی۔
حقیقت یہ ہے کہ کافر کا مسئلہ صرف غیرمسلم لوگوں کامسئلہ نہیں۔ اب جدید سماج میں وہ بڑے پیمانہ پر خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے اور اس کے صحیح مفہوم کو سامنے لا یا جائے تاکہ اسلام لوگوں کو وقت کا مذہب معلوم ہو اور مسلم اور غیر مسلم دونوں جدید سماج میں معتدل طورپر دوسروں کے ساتھ رہ سکیں۔
گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ رواجی تصور میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کافر اور غیر مسلم دونوں ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ جو لوگ مسلمان نہیں وہ سب کے سب کافر ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک غلط تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافر کا لفظ غیر مسلم کے مترادف نہیں:
The word Kafir is not synonymous with non-Muslim.
داعی اور مدعو کارشتہ
شریعت کے اعتبار سے، مسلمان کی حیثیت داعی کی ہے اور غیر مسلم کی حیثیت مدعو کی۔ یہ رشتہ لازم کرتا ہے کہ داعی اپنے مدعو کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق قائم رکھے۔ کہا جاتا ہے کہ تاجر کو ہمیشہ کسٹمر فرینڈلی (customer friendly) ہونا چاہئے۔ اسی طرح داعی کا فارمولا یہ ہونا چاہئے کہ وہ ہمیشہ مدعو فرینڈلی ہو۔
Be always Mad‘u friendly.
مدعو کے حق میں داعی کے اندر خیر خواہانہ جذبات ہونے چاہئیں۔اگر داعی کے اندر مدعو کے لیے یہ مطلوب جذبات موجود ہوں تو وہ ہر گز اس کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ ایسے الفاظ بولے جس سے مدعو کے دل میں اُس کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے۔ حتیٰ کہ اگر وہ سچا داعی ہے تو اپنے دل میں بھی وہ ایسی بات نہیں سوچے گا۔ دعوت کا جذبہ نفرت کا قاتل ہے۔ داعی کا دل ایک درد مند دل ہوتا ہے۔ ایسے دل کے اندر محبت اور خیر خواہی کے سوا کوئی اور چیز پرورش نہیں پاسکتی۔
قدیم زمانہ میں آرین لوگ جب انڈیا میںآئے تو یہاں کے مقامی لوگوں کو انہوں نے ملچھ کہا۔ اسی طرح مسیحی علماء نے مسلمانوں کو اپنی کتابوں میں انفڈل (Infidels) لکھا۔ ملچھ اور انفڈل دونوں تحقیری الفاظ (derogatory words) ہیں۔ کہنے والا ان الفاظ کو بول کر خوش ہوتا ہے مگر جس کے بارے میں یہ لفظ بولا گیا ہے وہ اس کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جن میںکوئی تحقیری مفہوم (derogatory sense) نہ ہو بلکہ وہ سادہ طورپر صرف اظہار واقعہ کے ہم معنٰی ہو۔
بد قسمتی سے اس معاملہ میں مسلم علماء احتیاط کا پہلو اختیار نہ کرسکے۔وہ اپنی کتابوں میں اور قرآن کے ترجموں میںکافر کے لیے بے تکلف انفڈل کا لفظ استعمال کرنے لگے۔ مثال کے طورپر مولاناعبدالماجد دریابادی نے اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن میں قل یا ایہا الکافرن کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
Say thou: infidels (4:535)
در اصل مسلم علماء اور رہنماؤں کی اسی قسم کی غیر احتیاطی باتیں ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سخت تناؤ پیدا ہوگیا ہے جس کا نتیجہ مختلف ناخوشگوار صورتوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔
یہی غلطی قرآن کے اُردو اور فارسی مترجمین نے بھی کی ہے۔ قرآن کے بہت سے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ مگر غالباً صرف ایک مترجم (شاہ عبد القادر) کو چھوڑ کر تمام مترجمین نے اس معاملہ میں بے احتیاطی کا انداز اختیار کیا ہے۔ قل یاایہا الکافرون کے کچھ ترجمے یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
بگو اے کافراں (شاہ ولی اللہ)
کہہ اے کافرو (شاہ رفیع الدین)
آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے (اشرف علی تھانوی)
کہہ دو کہ اے کافرو (ابو الاعلیٰ مودودی)
کہہ دو، اے کافرو (امین احسن اصلاحی)
تو کہہ، ائے منکرو (شاہ عبدالقادر)
اس قرآنی آیت کے تحت اکثر مترجمین نے اسی قسم کے ترجمے کئے ہیں۔ اس آیت میں کافر کا ترجمہ درست نہیں۔ بالفرض وہ خالص لغوی اعتبار سے غلط نہ ہو تب بھی وہ دوسری قوموں کے لیے ایک قابل اعتراض لفظ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ترجمہ سے احتراز کیا جائے۔ پھر یہ صرف ترجمہ کی بات نہیں، اسی ترجمہ کی بنیاد پر ذہن بنتا ہے اور تقریر و تحریر میںاس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ترجمہ پوری ملت کی منفی ذہن سازی کا سبب بن جاتا ہے۔یہ ترجمہ ہم اور وہ (we and they) کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ اور اس قسم کا تقسیمی ذہن دعوتی اعتبار سے درست نہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا،غالباً ایک ہی عالم ہیں جنہوں نے قرآن کے ان الفاظ کا درست ترجمہ کیا ہے اور وہ شاہ عبد القادر دہلوی ہیں۔ شاہ عبد القادر صاحب کا اُردو ترجمہ تمام علماء کے نزدیک نہایت مستند مانا گیا ہے۔ انہوں نے مذکورہ آیت کا ترجمہ ’منکرو‘ کیا ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۹ میں قل یاایہا الکافرون (کہو کہ ائے منکرو) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ طرزِ خطاب پورے قرآن میں صرف ایک بار اسی ایک سورہ میں استعمال ہوا ہے۔ کافر یا کفّار یا کافرون کے الفاظ تو قرآن میںمتعدد بار آئے ہیں۔ مگر ایہا الکافرون جیسے متعین خطاب کی صورت میںاس کا استعمال قرآن میں کسی اور مقام پر نہیں ہوا ہے۔
مفسرین کی رائے کے مطابق، یہاںالکافرون میں الف لام عہد کا ہے۔ یعنی وہ ایک گروہ خاص کے لیے مشخّص طورپر آیا ہے، نہ کہ عمومی طورپر ہر اُس شخص کے لیے جو مسلم گروہ سے باہر ہو۔ ذیل میں کچھ مفسرین کے اقوال درج کیے جاتے ہیں:
(قل یٰایہا الکافرون) المخاطبون کفرۃ مخصوصون قد علم اللہ انہم لایؤمنون (تفسیر النسفی)
و عنی بالکافرین قوماً معینین لا جمیع الکافرین (تفسیر القرطبی)
خطاب لجماعۃ مخصوصۃ (تفسیر المظہری)
قل یٰایہا الکافرون ایک مخصوص خطاب ہے، اُس کو عمومی طورپراستعمال نہیںکیا جاسکتا۔ یعنی قل یٰایہا الکافرون سے مراد ہمیشہ کے لیے صرف قدیم منکرینِ قریش رہیں گے جو پیغمبراسلام کے معاصر تھے اور پیغمبرانہ اتمام حجت کے باوجود، جنہوں نے پیغمبر کی بات کو ماننے سے انکار کیا۔ زمانۂ نبوت کے بعد کے لوگوں کو ایہا الانسان کے لفظ سے خطاب کیا جائے گا، نہ کہ ایہا الکافرون کے لفظ سے۔ اب یہی انداز ِخطاب ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
کافر کا مفہوم
عربی زبان میں کفر کے معنٰی انکار کے ہیں اور کافرکا مطلب ہے، انکار کرنے والا۔ اسلام کے مطابق، کافر ایک کردار ہے، کافر کسی قوم کا اجتماعی لقب نہیں:
Kafir is an individual character rather than a group title of a certain race or community.
کافر وہ ہے جو منکر ہو (One who refuses to accept) ۔قرآن کے اُردو ترجموں میں سب سے زیادہ صحیح ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی کا مانا جاتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے ترجمۂ قرآن میں کافر کا ترجمہ منکر کے لفظ سے کیا ہے۔ یہی اس لفظ کا صحیح ترجمہ ہے۔ قرآن کے انگریزی مترجمین اکثر کافر کا ترجمہ اَن بلیور(unbeliever) کے لفظ سے کرتے ہیں۔ یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ اَن بلیور کا مطلب غیرمومن یا غیر معتقد ہوتاہے۔ جب کہ کافر کا مطلب صرف غیر معتقد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اتمام حجت کے باوجود ماننے سے انکار کرے۔
دور اوّل میں جب قرآن کی ابتدائی آیتیں اتریں تو ان میں پیغمبر کے مخاطبین کو کافر نہیں کہا گیا بلکہ ان کے لیے انسان جیسے الفاظ استعمال ہوئے۔ مثلاً قرآن میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا کہ: یا ایہا الرسول بلغ ما أنزل الیک من ربک…واللہ یعصمک من الناس۔اس آیتمیں دیکھئے۔ یہاں یعصمک من الناس(خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا) کے الفاظ آئے ہیں۔ایسا نہیںہوا کہ یہاں یعصمک من الکفار کا لفظ استعمال کیا جائے۔ قرآن میں کثرت سے اس طرح کی آیتیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ ہر گروہ کے لیے اصلاً انسان جیسا عمومی لفظ استعمال کیا جائے گا۔ کافر کا لفظ صرف ان افراد تک مخصوص رہے گا جن کے لیے خدا نے خود کافر کا لفظ استعمال کیا ہو۔ کافر کا لفظ ایک خدائی اعلان ہے، وہ انسان کا دیا ہوا خطاب نہیں۔
فعل اور فاعل کا فرق
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۹کی پہلی آیت یہ ہے: قل یاایہا الکافرون (الکافرون ۱) اس آیت میںالکافرون سے مراد قدیم مکّہ کے منکرین قریش ہیں۔ ان الفاظ میں قریش کے منکرین کے بارہ میں اتمام حجت کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ تم لوگ اللہ کی نظر میںکافر ہوچکے ہو۔ قرآن میںاس طرح تعین اور تشخص کی زبان میں کسی اور گروہ کے کافر ہونے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
قرآن میں دوسرے مقامات پر کفر اور کافر کے الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً فرمایا: فمنکم کافر ومنکم مومن(التغابن ۲)اسی طرح ارشاد ہوا ہے: فمنہم من آمن و منہم من کفر (البقرہ ۲۵۳) ان دوسری قسم کی آیتوں میںفعل کا ذکر ہے مگر مشخّص طورپر فاعل کا ذکر نہیں۔ یعنی یہ تو کہا گیاہے کہ فلاں فعل کا ارتکاب کفر ہے یافلاں فعل کا ارتکاب کرنے والا خدا کی نظر میں کافر بن جاتاہے۔ مگر ان دوسری قسم کی آیتوں میں ایسا نہیں کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کو مشخص اور متعین کرکے اُس کے بارہ میں یہ اعلان کیا جائے کہ فلاں فلاں گروہ کافر ہیں۔
قرآنی بیان میں اس فرق سے ایک اصول معلوم ہوتا ہے اور وہ اُصول یہ ہے کہ یہ کہنے کا حق ہر داعی کو ہے کہ فلاںفعل کا ارتکاب کفر ہے۔ مگر یہ حق کسی بھی داعی یا عالم کو نہیںکہ وہ مشخّص طورپر یہ اعلان کرے کہ فلاں گروہ یا فلاں قوم کافر ہے۔
ایک متوازی مثال سے اس معاملہ کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ : من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر۔ دوسری حدیث میںیہ الفاظ ہیں کہ بین العبد و بین الکفر ترک الصلاۃ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کرمسلسل نماز ترک کرے تو وہ شریعت کے مطابق، کافر ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کو لے کر کوئی مصلح اگر یہ کرے کہ وہ عمومی طور پر ترغیب و ترہیب کے انداز میں مسلمانوں کو نماز کی طرف متوجہ کرے اور ترک صلاۃکی وعید بتائے تو اُس کا ایسا کرنا بالکل جائز ہوگا۔ لیکن اگر کوئی مصلح ایسا کرے کہ وہ نماز نہ پڑھنے والے مسلمانوں کی نام بنام ایک فہرست تیار کرے اور اس فہرست کو لے کر مشخّص طورپر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں مسلمان ترک صلاۃ کی بناپرکافر ہو چکے ہیںتو اُس کا ایساکرنا بالکل غلط ہوگا۔
ٹھیک اسی طرح کوئی داعی یا مصلح قرآن کی آیتوں کو لے کر یہ مسئلہ بیان کرسکتا ہے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کا ارتکاب کرنے سے کوئی شخص اللہ کی نظر میں کافر ہو جاتا ہے۔ لیکن اُس کا ایسا کرنا اپنی حد سے تجاوز ہوگا کہ وہ غیر مسلم افراد یا گروہوں کے نام لے کر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں غیر مسلم لوگ کافرہیں۔
اس معاملہ میں فعل اور فاعل کے درمیان فرق کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کہ وہ مشخّص طورپر فاعل کا اعلان کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان صرف ایک بار قدیم منکرینِ قریش کے بارہ میں کیا ہے جن کے اوپر پیغمبر نے براہ راست اتمام حجت کیا تھا۔ بقیہ انسانوں کے بارہ میں وہ آخرت میں اعلان فرمائے گا۔ ہمارا کام صرف دعوت دینا ہے، نہ کہ لوگوں کے کافر ہونے کا اعلان کرنا۔
کریڈٹ کا مسئلہ
کافر یا منکر کا لفظ بیک وقت دو کردار سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک وہ جس نے کوئی بات پیش کی ہو۔ دوسرا وہ جس نے اس پیش کی ہوئی بات کا انکار کیا ہو۔ ان میں سے ایک کردار کو داعی کہہ سکتے ہیںدوسرے کردار کو مدعو کہہ سکتے ہیں۔
کافر ایک کردار ہے، کافر کسی گروہ کا قومی لقب نہیں۔ کسی گروہ کا کافر قرار پانا ایک بے حد غیرمعمولی واقعہ ہے۔ اس کا مطلب ایک کو انکار کی بنا پر ڈس کریڈٹ (discredit)کرنا اور دوسرے کو اس کے دعوتی عمل کی بنا پر کریڈٹ دینا ہے۔ کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ کا یہ معاملہ فتویٰ یا بیان کے ذریعہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ دعوتی محنت کا طالب ہے۔
اس دعوتی محنت کا معیار ی نمونہ پیغمبر اسلام کا تیرہ سالہ مکی دور ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ کے لوگوں میں دعوتی کام کا آغاز کیا تو آپ کے خطاب کے الفاظ یہ تھے: یا ایہا الانسان۔ اس طرح تیرہ سال لوگوں کو بحیثیت انسان خطاب کرنے کے بعد جب لوگ جان بوجھ کر انکار پر قائم رہے تو آخر میں قرآن کی یہ آیت اتری: قل یا ایہا الکافرون۔اُس وقت بھی یہ ایک براہِ راست خدائی اعلان تھا، نہ کہ خود پیغمبر کا اپنا خطاب۔
اس اصول کے مطابق، ہندستان کے ہندو یا دوسرے ملکوں کے غیر مسلم کی حیثیت اسلامی نقطۂ نظر سے صرف انسان کی ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی کافریا کفار نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ ہندوؤں اور موجودہ زمانہ کے دوسرے غیر مسلموں پر یہ ضروری شرط پوری نہیں ہوئی کہ انہیں مکّی معیار کی تیرہ سالہ دعوت دی جائے اور وہ پھر بھی انکار کریں۔ اسی طرح اُنہیں منکر قرار دینا بھی درست نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو نزاعات ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے بارے میں جو شکایتیں ہیں وہ سب کی سب قومی اور مادی ہیں۔ یہ تمام تر اسی طرح کے دنیاوی جھگڑے ہیں جو خود غیر مسلم گروہوں میں ایک دوسرے کے خلاف پیش آتے ہیں۔ اِن نزاعات کو کافر اور مسلم کے درمیان دینی نزاع نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کودو گروہوں کے درمیان دنیوی نزاع کہا جائے گا۔ ان قوموں پر اتمام حجت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان اُن سے ان دنیوی جھگڑوں کو یک طرفہ طورپر ختم کر دیں۔
کفر کا تحقق
کسی شخص کے بارے میں کب یہ متحقق (establish) ہوگا کہ وہ منکر یا انکار کرنے والا بن چکا ہے۔ اس سوال کا جواب خود قرآن میںموجود ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، قرآن کے نزول کا آغاز ۶۱۰ء میں مکہ میںہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے ذریعہ مکہ کے لوگوں تک توحید کی دعوت پہنچاتے رہے۔ اس دعوتی مہم میں آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اپنے مخاطبین کو کافر کہہ کر خطاب کریں۔اس دوران میںجو آیتیں اتریں ان سب میں انسان جیسے الفاظ تھے۔ آپ نے انہیں اپنی قوم کا حصہ قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا پیغام پہنچایا۔
دعوت کی یہ مہم آپ نے اس طرح چلائی کہ آپ گہرے طورپر ان کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ نے ان کی ایذاؤں پر یکطرفہ صبر کیا۔ آپ نے ان سے کسی بھی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ آپ نے ان سے کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے آپ کے اور ان کے درمیان مادّی نوعیت کی کوئی نزاع قائم ہو جائے۔ آپ یک طرفہ طورپر ہمیشہ اُن کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ کو ان کی طرف سے طرح طرح کی مصیبتیں پہنچیں مگر آپ ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتے رہے۔
دعوت کی یہ صبرآزما جدوجہد تیرہ سال تک چلتی رہی۔ تیرہ سال کے بعد بھی پیغمبر اسلام نے اپنی زبان سے ان کے لیے کبھی کافر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت اتری کہ : قل یا ایہا الکفرون (تم کہہ دو کہ اے انکار کرنے والو) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سال کی جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ مخاطبین کا انکار ثابت ہو جائے اور ان کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اے انکار کرنے والو۔ اس قسم کے دعوتی کورس سے پہلے کسی کو منکر یا کافر قرار دینا جائز نہیں۔اب جب کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سالہ جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ کسی کو کافر یا منکر قرار دیا جاسکے تو عام لوگوں کے لیے تو ایک سو تیرہ سال کی مدت بھی اس کام کے لیے ناکافی ہوگی۔
کفر کی اصطلاح
مکّی دور میں قرآن میں بعض ایسی آیتیں اُتریں جن کاتعلق بیرون عرب کے غیرمسلموں سے تھا۔ مثلاً قرآن کی سورہ نمبر ۳۰ کے آغاز میں رومیوں (عیسائیوں) کا ذکر ہے جو وقتی طورپر ایرانیوں سے مغلوب ہوگئے تھے۔ مگر آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ غلبت الکفار فی ادنی الارض (روم کے کفار جو مغلوب ہوگئے ہیں) بلکہ یہ فرمایا کہ غلبت الروم فی ادنی الارض (رومی جومغلوب ہوگئے ہیں)۔ اسی طرح سورہ نمبر ۱۰۵ میں یمن کے غیر مسلم حاکم ابرہہ کا ذکر ہے۔ مگر قرآن میں اُس کا ذکر یمن کے ایک کافر حکمراں کے طورپر نہیں کیا گیا بلکہ اصحابِ فیل کے لفظ سے اُس کا ذکر کیا گیا۔
قدیم مکّہ کے منکرین کے لیے قرآن میں کفر اورکافر کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا کہ اس کے بعد اُس زمانہ کے اہل اسلام تمام غیر مسلموں کو کافر کے لفظ سے پکارنے لگیں۔ مثلاً ہجرت کے بعد رسول اور آپ کے اصحاب مدینہ آئے تو انہوں نے یہاںکے لوگوں کو کافر کے لفظ سے خطاب نہیںکیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یثرب پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو جو پہلا خطاب کیا اس میںآپ نے انہیں اے لوگو(ایہا الناس، اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) کے لفظ سے خطاب کیا۔اسی طرح مدینہ کے باہر ملک کے اطراف میں بہت سے غیرمسلم قبیلے موجود تھے۔ مگر اُن کو بھی کافرانِ عرب یا کافر قبائل کا نام نہیں دیا گیا۔ بلکہ اُن کے معروف نام سے اُنہیں پکارا گیا۔ مثلاً اہلِ سقیف، اہل نجران، اہل بحرین، وغیرہ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دور اول میں اہل اسلام جب عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف مذہب کے ماننے والے لوگ آباد تھے۔ دو راول کے مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا کہ ان غیر مسلموں کو کافر کے نام سے پکاریں۔ اُنہوں نے ہر ایک کو اُس کے اپنے اختیار کردہ نام سے پکارا۔ مثلاً شام کے مسیحیوں کو مسیحی کہا، فلسطین کے یہودیوں کو یہودی کہا، ایران کے مجوسیوں کو مجوسی کہا، افغانستان کے بودھوں کو بودھ (بوذا) کہا، وغیرہ۔
اسی طرح دور اول کے یہ مسلمان جب ہندستان آئے تو یہاں بھی اُنہوں نے یہی کیا۔ اُنہوں نے یہاں کے لوگوں کو ہندو کہا جو سندھو کا عربی تلفظ ہے۔ ابو الریحان البیرونی (وفات ۱۰۴۸ء) نے ہندستان کا سفر کیا۔ اُس نے سنسکرت زبان سیکھی اور ہندستان کے بارہ میں ایک عربی کتاب تاریخ الہند لکھی۔ اُس میں وہ یہاں کے غیر مسلموں کو ہندو کہتا ہے، نہ کہ کافرانِ ہند۔
ہزا ر سال سے زیادہ مدت تک یہی رواج باقی رہا۔ اب بھی کثرت سے ہندستان اور پاکستان کے علاوہ بقیہ دنیا میں یہی رواج بالفعل قائم ہے۔ مسلمان امریکا اور یورپ کے مختلف ملکوں میں آباد ہیں۔ وہاں اُن کا سابقہ غیر مسلم قوموں سے پڑتا ہے۔ مگر ہر ایک کو وہ اُن کے اپنے اختیار کردہ نام سے پکارتے ہیں، وہ اُنہیں کافر یا کفار نہیں کہتے۔
چند تاریخی مثالیں
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، قرآن میں ایہا الکافرون کے انداز میں خطاب کی مثال صرف منکرین مکّہ کے لیے آئی ہے اور وہ بھی تیرہ سال کے پیغمبرانہ اتمام حجت کے بعد۔ منکرین مکہ کے سوا کسی اور کو اس طرح مشخّص انداز میں خطاب نہیں کیا گیا۔
پیغمبر اسلام ﷺنے جب مکہ میں دعوت کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں آپ نے اس طرح خطاب نہیں کیا کہ یا ایہا الکفار۔ بلکہ قرآن میں یہ آیت اُتری:یا ایہاالانسان ما غرّک بربک الکریم۔ ہجرت کے بعد صحیفۂ مدینہ کا ایک جملہ یہ تھا: للیہود دینہم و للمسلمین دینہم۔ ایسا نہیں ہوا کہ یہ لکھا جائے کہ للکفار دینہم وللمسلمین دینہم۔ فتح مکہ کے بعد عرب کے مشرک قبائل کے وفود رسول اللہ سے گفت وشنید کے لیے مدینہ آئے۔ مگر یہاں بھی خطاب کا انداز یہی تھا: مثلاً یمن کے لوگ مدینہ آئے تو آپ نے فرمایا کہ: اتاکم اہل الیمن۔ اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اتاکم کفار الیمن۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺنے اطرافِ عرب کے حکمرانوں کو دعوتی مکاتیب روانہ کیے تو اُن کا انداز بھی یہی تھا۔ مثلاً آپ نے رومی حکمراں کو جو خط لکھا اُس کا پہلا جملہ یہ تھا: من محمد بن عبد اللہ الی ہرقل عظیم الروم۔ اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں لکھا کہ الی ہرقل کافر الروم۔ حجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ان اللہ بعثنی کافۃ للناس فادّوا عنی۔ اس میں بھی آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان اللہ بعثنی کافۃ للکفار۔ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں صحابہ کی فوج ایران میں داخل ہوئی تو روایات کے مطابق، وہاں ایران کے غیر مسلم حکمراں کوخطاب کرتے ہوئے ایک صحابی نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا: لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ۔ اُنہوں نے ایسا نہیں کیا کہ یہ کہیں کہ لنخرج الکفار من عبادۃ الکفار الی عبادۃ اللہ۔
اس طرح دور اوّل کے مسلمان جب عرب سے نکل کر بیرونی ملکوںمیں پھیلے تو کسی بھی ملک میں اُنہوں نے لوگوں کو کافر یا کفار کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا بلکہ ہر قوم کو اُسی لفظ سے خطاب کیا جس لفظ کو اُس نے خود اختیار کر رکھا تھا۔ مثلاً مسیحی کو مسیحی، یہود کو یہود، مجوس کو مجوس، بَودھ کو بَودھ، وغیرہ۔
کافر کا تحقق اُس وقت ہوتا ہے جب کہ متعلقہ شخص کے اوپر کامل اتمامِ حجت کیا جاچکا ہو اور اس اتمام حجت کا ماڈل صرف ایک ہے۔ اور وہ پیغمبر اسلام کے دور میں مکّہ کی تیرہ سالہ دعوتی جدو جہد ہے۔ یہ تیرہ سالہ دعوتی عمل ہمیشہ کے لیے دعوت یا اتمام حجت کے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔مزید یہ کہ اتمامِ حجت کے بعد بھی متعین طورپر کسی کے کافر ہونے کا اعلان خدا کی طرف سے ہوگا، نہ کہ داعی کی طرف سے۔
قریش کی مثال
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سال پیدائش ۵۷۰ میں ایک بڑا واقعہ ہوا۔ یمن کے عیسائی حاکم ابرہہ نے ایک بڑی فوج کے ساتھ مکہ کی طرف اقدام کیا۔ اُس کا ارادہ تھا کہ وہ کعبہ کو ڈھادے۔ مگر اللہ کی خصوصی مدد کی بنا پر اُسے کامیابی نہیںملی۔ قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۵ میں اس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
۶۱۰ء میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو نزولِ قرآن کے اس ابتدائی زمانہ میں قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۶ اُتری۔ اس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: اس واسطے کہ قریش مانوس ہوئے، جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس۔ تو اُن کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے اُن کو بھوک میںکھانا دیا اور خوف سے اُن کو امن دیا۔ (قریش ۱۔۴)اس سورہ میں قریش کو صرف قریش کہاگیا، نہ کہ کفار یا کفارِ قریش۔
پیغمبر اسلام توحید کے داعی تھے۔ آپ نے مکّہ میںاپنی دعوت شروع کی تو مسلسل تیرہ سال تک اسی انداز میں لوگوں کو پکارتے رہے کہ اے قریش کے لوگو، اے انسانو، ائے میری قوم ۔ پُر امن دعوتی مہم کی اس پوری مدت میں آپ نے کبھی کافر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ فریقِ ثانی کی طرف سے ہر قسم کی زیادتیاں کی گئیں۔ لیکن اُن کے لیے آپ کی خیر خواہی کا جذبہ ختم نہیں ہوا۔ اُن کی ایذاؤں پر یک طرفہ صبر کرتے ہوئے آپ نے اپنی پُر امن دعوتی جدوجہد جاری رکھی۔ آخر کار تیرہ سال بعد قرآن میں سورہ نمبر ۱۰۹ اتری۔ اس میں پہلی بار خدا کی طرف سے ان الفاظ میں اعلان کیا گیا کہ: قل یٰایّہا الکفرون(کہہ دو کہ ائے انکار کرنے والو)
اس سے معلوم ہوا کہ کافر (منکر) کا لفظ ایک صفت کو بتاتا ہے، نہ کہ کسی قوم کو۔ اگر کافر سے مراد کوئی قوم ہوتی تو قرآن میں آیت کے الفاظ لایلٰف قریش کے بجائے لِایلٰف الکفار ہونا چاہئے تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کافر کا لفظ صفتِ انکار کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ قومی تعلق کوبتانے کے لیے۔ مزید یہ کہ اس بات کا تحقق کہ کسی کے اندر صفت انکار ہے یا نہیں، قیاس کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ حقیقی تجربہ کی بنیادپر ہوگا۔ اور وہ تجربہ یہ ہے کہ پیغمبر کی سطح پر کم ازکم تیرہ سال تک اعلیٰ ترین معیار کی دعوتی جدو جہد چلائی جائے۔اس کے بغیر خود پیغمبر کے زمانہ میں بھی کسی کو کافر کہنا درست نہیں۔
مناظرہ
بر صغیر ہند میں برٹش حکومت کے زمانہ میںاہل اسلام کے درمیان ایک مبتدعانہ رواج ظہورمیں آیا جس کو مناظرہ کہا جاتاہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دعوت کے بجائے مناظرہ بازی شروع ہوئی جس نے دونوں فرقوں کے درمیان غیر معتدل فضا پیدا کرنے کا کام کیا۔ مسلمان مناظر نے ہندو کے خلاف کتاب لکھی اور اُس کو ’کفر توڑ‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس کے بعد ہندو مناظر نے مسلمانوں کے خلاف کتاب لکھی جو ’کفر توڑکا بھانڈہ پھوڑ‘ کے نام سے شائع کی گئی۔
اسلام کاطریقہ دعوت ہے جو نصح (خیر خواہی) اور شفقت اور یک طرفہ صبر کے اُصول پر جاری ہوتا ہے۔ جب کہ مناظرہ (debate) کا مقصد فریقِ ثانی کو شکست دینا ہوتا ہے۔ مناظر کا نشانہ فریق ثانی کو ہرانا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس قسم کی زبان بولتا ہے کہ اُن کے اوپر بلڈوزر چلا دو:
Bulldoze them all.
اس سے دونوں گروہوں کے درمیان نفرت اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے جو طرح طرح کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
دار الدعوہ
دار الکفر یا بلاد الکفارکے الفاظ عباسی دور میں استعمال کیے گیے۔اس سے پہلے یہ اصطلاحیں اہل اسلام کے درمیان رائج نہ تھیں۔ میرے نزدیک یہ اضافہ درست نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ جو ملک اسلامی ملک ہواُس کو دارالاسلام کہا جائے اور بقیہ تمام ملکوں کو دار الدعوہ کہا جائے۔ دار الاسلام کے سوا ہر ملک دار الدعوہ ہے، خواہ وہ مسلمانوں کے حق میں بظاہر دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
قرآن میں پیغمبر اسلام کی نسبت سے ارشاد ہوا ہے: وہذا کتاب انزلنہ مبرک مصدق الذی بین یدیہ ولتنذر ام القری ومن حولہا (الانعام ۹۳)- یعنی یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے اُتاری ہے، برکت والی ہے، تصدیق کرنے والی اُن کی جو اس سے پہلے ہیں۔ اور تاکہ توڈرائے اُم القری کو اور اُس کے آس پاس والوں کو۔
قرآن کی اس آیت میں ام القری سے مراد مکہ ہے۔ جب یہ آیت اُتری، اُس وقت مکّہ غیر مسلموں کے قبضہ میں تھا۔ حتیٰ کہ کعبہ کو بتوںکا مرکزبنا دیاگیا تھا۔ مگر اس آیت میں قدیم مکّہ کو دار الکفر یا مدینۃ الکفرنہیںکہا گیا بلکہ أم القریٰ کہا گیا اور وہاں انذار، بالفاظ دیگر، دعوت کاحکم دیاگیا۔ اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ وہ تمام مقامات جہاں غیر مسلموں کا غلبہ ہو وہ اسلامی اصطلاح میں دار الدعوہیا دارالانذار قرار پائیں گے۔ ایسے کسی بھی مقام کے لیے دار الکفر یا بلاد الکفار جیسے الفاظ کا استعمال درست نہ ہوگا۔
کسی ملک کا حوالہ جب جغرافی اعتبار سے دینا ہو تو اُس کا ذکر اُس نام سے کیا جائے گا جس نام سے وہ عمومی طورپر معروف ہے۔ مثلاً سری لنکا کو سری لنکا اور جنوبی کوریا کو جنوبی کوریا۔ اور جب اہلِ اسلام کی ذمہ داری کے اعتبار سے کسی ملک کا حوالہ دینا ہو تو اُس کو دار الدعوہ کہا جائے گا۔ دار الدعوہ کا لفظ جغرافی تقسیم کو نہیں بتاتا بلکہ وہ اہلِ اسلام کی دعوتی ذمہ داری کو بتاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم جناب ہارون شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کل شام کو جناب عبد السلام اکبانی صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ جنوبی کوریا سے ۱۷ اگست کو آتے ہوئے میں ممبئی کے راستہ سے واپس ہوسکتا تھا۔ اس طرح مجھے آپ کی والدہ محترمہ کی آخری رسوم میںشریک ہونے کی سعادت مل جاتی۔ مگر شاید ایسا ہونا مقدر نہ تھا۔
اسلام کی ایک عجیب تعلیم دعا ہے۔ دعا کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اگر عملی اعتبار سے کوتاہی ہوجائے تو انسان کو چاہئے کہ وہ اُس کے حق میں نیک دعائیں کرے۔ میں دعا کے ساتھ آپ کے جذبات میں شریک ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ اُن کے ساتھ ہمارے لیے بھی جنت میں داخلہ کی صورت پیدا فرمائے۔
ماں بلاشبہہ ہر مرد وعورت کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر غالباً ماں کی سب سے زیادہ انوکھی اور امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ انسان کے لیے رحمتِ خداوندی کا ایک عملی تعارف ہے۔ خدا تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحیم ہے۔ عام حالات میں یہ ایک نظری عقیدہ ہے مگر ماں کی صورت میں خدا نے اپنی اس صفت کو پیشگی طورپر دکھا دیا ہے۔ ماں کی شفقت اور محبت میں ہر بندۂ خداکے لیے اس امید کا سامان موجود ہے کہ اُس کا خدا اُس کے ساتھ یک طرفہ طورپر رحمت کا معاملہ فرمائے گا، جیسا کہ ماں ہر حال میں اپنی اولاد کے ساتھ یک طرفہ طورپر رحمت کا معاملہ کرتی ہے۔
ماں کی وفات عام طورپر اس وقت ہوتی ہے جب کہ اس کی اولاد ابھی دنیا میں زندہ رہتی ہے۔ ماں کی وفات کا یہ پہلو اپنے اندر ایک اور اہم نصیحت رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ ماں دنیا سے رخصت ہو کر اپنے پس ماندگان کو بتاتی ہے کہ اسی طرح تمہیں بھی رخصت ہونا ہے۔ ماں اپنی عمر پوری کرکے یہ پیغام دیتی ہے کہ اے زندہ رہنے والو، یاد رکھو کہ تمہارا بھی کاؤنٹ ڈاؤن ہورہا ہے۔ اس طرح تمہیں بھی ایک دن اپنی موت سے دوچار ہونا ہے۔
یہ یاددہانی کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ سوتے ہوئے انسان کو جگانے کے ہم معنٰی ہے۔ یہ غیرمتحرک لوگوں کو حرکت میں لانے کا ذریعہ ہے۔ یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اے لوگو، اب وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ بھر پور طورپر استعمال کرو، اس سے پہلے کہ اپنے وقت کو استعمال کرنے کا موقع ہی ختم ہوجائے۔
قرآن کے مطابق، موت ہر پیدا ہونے والے کے لیے مقدر ہے۔ موت بلا شبہہ ہر انسان کے لیے سب سے بڑا حادثہ ہے۔ مگر خدا نے حیرت انگیز طورپر اس کو ہمارے لیے رحمت کا سبب بنا دیا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب موت کا تجربہ پیش آئے تو پسماندگان کو چاہئے کہ وہ صبر کا طریقہ اختیار کریں۔ صبر کرنے والوں کے لیے عظیم انعام کی بشارت ہے۔
اس طرح کے معاملہ میں صبر کرنا کیوں خدائی انعام کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ صبر در اصل خدا کے فیصلہ پر راضی ہونے کے ہم معنٰی ہے۔ بلاشبہہ کسی بندہ کے لیے یہ سب سے بڑی سعادت ہے کہ خدا اُس کے لیے ایک ناپسندیدہ چیز کا فیصلہ کرے اور وہ اُس کو خدا کی طرف سے سمجھ کر اُس پر دل سے راضی ہوجائے۔ اس قسم کی موت اپنے پسماندگان کے لیے اسی عظیم خدائی انعام کا ذریعہ ہے۔
یہ بھی خدا کی ایک عجیب رحمت ہے کہ جانے والا تو چلا گیا۔ اُس کو اپنے مقرر وقت پر جانا ہی تھا۔ مگر اس واقعہ میں خدا نے اپنی رحمت سے یہ ناقابلِ بیان حد تک قیمتی پہلو رکھ دیا کہ پسماندگان اگر اُس کو خدائی فیصلہ سمجھ کر اُس پر راضی ہوجائیں تو خدا اُن کی اس رضا مندی کی اس طرح قدر دانی کرے گا کہ جو چیز اُنہوں نے کھوئی ہے وہ مزید اضافہ کے ساتھ اُنہیں واپس مل جائے۔
موت کا واقعہ بظاہر ایک حادثہ ہے مگر اس دنیا میں ہر مائنس کے ساتھ پلس موجود ہوتا ہے۔ اور بلا شبہہ موت کا واقعہ اس عام قانون سے مستثنیٰ نہیں۔
نئی دہلی ۲۳ اگست ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۶۰

۱ ۱۰ فروری ۲۰۰۳ کو وگیان بھون (نئی دہلی) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کو بی جے پی کی یووا شاخ نے آرگنائز کیا تھا۔ اس کا موضوع تھا، ٹررزم۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور اسلام کے حوالہ سے بتایا کہ ٹررزم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ٹررزم انتہا پسندی کی ایک پیداوار ہے۔ وہ مذہب کی پیداوار نہیں۔
۲ ۱۰ فروری ۲۰۰۳ کو دور درشن کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ جدید دور میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام ابدی صداقتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے زمانہ میں خواہ کوئی بھی تبدیلی آئے اسلام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ وقتی مسائل میں اسلام نے انسان کوپوری رعایت دی ہے۔
۳ ۱۲ فروری ۲۰۰۳ کو نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انکسی ) میں ایک پروگرام ہوا۔ یہ ڈاکٹرمحمدیونس (مقیم کناڈا) کی کتاب Islam a Threat to Civilizations کے اجراء کے لیے تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں صدر کی حیثیت سے شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اسلام کسی بھی اعتبار سے تہذیب کے لیے یا انسانیت کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ اسلام دین رحمت ہے۔
۴ ۱۲ فروری ۲۰۰۳ کو اشوک ہوٹل (نئی دہلی) کے کنونشن ہال میں ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع تھا: What is Life ۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلامی نقطۂ نظر سے لائف کے سوال پر تقریر کی۔ لائف سائنسز کے بارہ میں انہوںنے کہا کہ انسانی علم اور تجربہ سے جو چیز حقیقی طورپر مفید ہو وہ اسلام میں بھی جائز قرار پائے گی۔
۵ راشٹریہ سہارا کے لیے ۱۲ جون ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا گیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی سیاسی جماعت بنانا ایک ناکام تجربہ کو دہرانے کے ہم معنٰی ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈروں نے مسلمانوں کی علیٰحدہ سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی مگر وہ سرتاسر ناکام رہی۔ اب مسلمانوں میںویسا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ ایسی حالت میں اس قسم کی بات کہنا صرف اردو اخباروں کی ایک خبر ہے۔ اس سے زیادہ اس کی اور کوئی حقیقت نہیں۔ بنیادی کام مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانا ہے۔
۶ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۴ جون ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندستان میں مسلمانوں کا مستقبل ۵۷ مسلم ملکوں سے زیادہ روشن ہے۔ اس کا ایک اظہار یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا کاسب سے زیادہ دولت مند آدمی (عظیم ہاشم پریم جی)ہندستان میں ہے۔ پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا سائنٹسٹ ڈاکٹر عبد الکلام ہندستان میںہے، وغیرہ۔ اسلام کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ اسلام موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے میں ناکام ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں جو مسلم رہنما اٹھے وہ سب ردّ عمل کی نفسیات کا شکار تھے۔ انہوں نے ہر چیز کی تعبیر منفی انداز میں کی۔ اس بنا پر موجودہ مسلمانوں کی سوچ منفی ہو گئی۔ مثلاً انہوں نے جدید مغربی تہذیب کو زہر بتایا۔ انہوں نے سیکولرزم کو لادینیت کہا، انہوں نے ڈیماکریسی کو طاغوتی نظام بتایا۔انہوں نے وطنی قومیت کو ’’تازہ خدا‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے جدید انڈسٹر ی کو مسلم دشمن قوموں کا سازشی جال بتایا، وغیرہ۔ اس بنا پر مسلمان مثبت سوچ سے محروم ہوئے اور موجودہ دور کے جدید مواقع کو استعمال نہ کرسکے۔
۷ گڑگاؤں (ہریانہ) میں جنگلات کے درمیان کئی بڑے بڑے رزورٹ بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک واٹر بینک رزورٹ ہے۔ یہاں ۲۸۔۲۹ جون ۲۰۰۳ کو الرسالہ کے کچھ قارئین کا ایک تربیتی کیمپ کیا گیا۔ اس میں دہلی کے تقریباً دس افراد شریک ہوئے ۔ صدر اسلامی مرکزنے لوگوں کو تربیتی انداز میں دین کی حقیقت سمجھائی۔ اس کا آغاز کلمۂ شہادت کی اجتماعی ادائیگی سے ہوا۔ اس کے بعد مختلف مجلسوں میں ذکر، عبادت، توحید، نبوت، آخرت، تفکر و تدبر اور تزکیہ جیسے موضوعات پر تربیتی انداز میں وضاحت کی گئی۔ اس کے شرکاء سب کے سب انگریزی تعلیم یافتہ لوگ تھے۔
۸ نئی دہلی میں شکتی مٹھ (عقب قطب مینار) میں ایک فنکشن ہوا۔ یہ فنکشن کیلاش مان سروور یاترا کو رخصت کرنے کے لیے تھا۔اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے یکم جولائی ۲۰۰۳ کی شام کو اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ ہم سب کو اتحاد اور محبت کے ساتھ مل جُل کر رہنا چاہئے۔ اسی میں اپنی ترقی ہے اور اسی میں ملک کی ترقی بھی۔
۹ نئی دہلی کے اردو میگزین عالمی سہارا کے نمائندہ مسٹر فاروق نے ۲ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کی بابری مسجد سے تھا۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ زیادہ گمبھیر ہوچکا ہے، وہ عام قانون کے تحت حل نہیں ہوسکتا۔ اب وہ قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت حل ہوگا۔ پہلا کام یہ ہے کہ حالات کے اعتبار سے قابلِ عمل فریم ورک دریافت کیا جائے۔
۱۰ ۶؍جولائی ۲۰۰۳ کو انٹگری ٹی وی (Integri TV) کے ڈائرکٹر سویساچی جین (Savyasaachi Jain) اپنی T.V. ٹیم کے ساتھ دفتر میں آئے اور صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ اس کاموضوع مذہب اور روحانیت تھا۔ یہ ویڈیو انٹرویو دور درشن (نئی دہلی) کے لیے ریکارڈ کیا گیا۔ مذہب اور روحانیت کے ہر پہلو پر اظہار خیال کیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو انتہا پسند لیڈروں نے اپنی غلط رہنمائی سے انہیں ترقی کے راستہ سے ہٹادیا ہے۔ تاہم اب مسلمان ان لیڈروں کو چھوڑ کر اسلام کی سچی تعلیمات کی طرف آرہے ہیں۔
۱۱ دور درشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۷ جولائی ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس میں نئی دہلی کے چار ممتاز افراد شریک تھے۔ یہ انگریزی میں تھا اور اس کا موضوع تھا ڈائیلاگ امنگ سویلائزیشن (Dialogue among Civilizations) اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ دور جدید میں ترقی کی ایک دوڑ شروع ہوئی۔ اس میں کچھ قومیں آگے بڑھ گئیں اور کچھ قومیں آگے نہ بڑھ سکیں۔ یہ کلیش کامسئلہ نہیں ہے بلکہ پچھڑے پن کا مسئلہ ہے۔ جو لوگ شکایت کرتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ اس کے بجائے وہ اپنے پچھڑے پن کو دور کریں۔
۱۲ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ جتندر شرما نے ۱۹ جولائی ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ہنٹنگٹن کی کتاب تہذیبوں کا تصادم (Clash of Civilizations) سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ کتاب کوئی علمی کتاب نہیں۔ وہ سنسنی خیز صحافت کا ایک نمونہ ہے۔ اس قسم کی کتابیں زیادہ تر تجارتی نقطۂ نظر سے لکھی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد نہ اصلاح ہوتا ہے اور نہ واقعات کا بیان۔
۱۳ ماہنامہ طوبیٰ (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ظلّ الرحمن نے ۲۳ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے ساتھ ماہنامہ طوبیٰ کے ایڈیٹر مولانا محمد ارشد المدنی بھی موجود تھے۔ یہ ایک تفصیلی سوالنامہ کا جواب تھا جس کاتعلق زیادہ تر مسلمانان عالم کے جدید مسائل سے تھا۔ یہ انٹرویو طوبیٰ کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۳ میں چھپ چکا ہے۔
۱۴ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کے نمائندہ موہوا چٹر جی(Mohua Chatterjee) اور آنندبازار پتریکا کی نمائندہ جینتا گھوشل (Jayanta Ghosal) نے مشترک طور پر ۲۴ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کاتعلق زیادہ تر بابری مسجد او ر اجودھیا کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ گفت و شنید کے ذریعہ طے نہیں ہوسکتا۔ اس کو طے کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس کے بارے میں واضح فیصلہ دے۔ پلیسز آف ورشپ ایکٹ۱۹۹۱ میں یہ کہا گیا تھا کہ انڈیا کی تمام مسجدوں کو ان کی ۱۹۴۷ کی حالت پر برقرار رکھا جائے گا، ماسوا بابری مسجد۔ بابری مسجد کا معاملہ کورٹ کے فیصلہ سے طے ہوگا۔ بتایا گیا کہ اس معاملہ میں دو بنیادی نکات ہیں۔ اول یہ کہ گورنمنٹ اس بات کی باقاعدہ یقین دہانی کرائے کہ دوسری کسی بھی مسجد کو چھیڑا نہیں جائے گا اور یہ کہ بابری مسجد کا مسئلہ کور ٹ کے ذریعہ طے ہوگا۔ اس معاملہ کے حل کا یہی واحد عملی طریقہ ہے۔یہ انٹرویو ٹائمس آف انڈیا کے شمارہ ۲۵ جولائی ۲۰۰۳ میں صفحہ ۷ پر شائع ہوا ہے۔
۱۵ ای ٹی وی (Enadu TV) کی ٹیم نے ۲۵ جولائی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ کامن سول کوڈ ایک غیر عملی نظریہ ہے۔ اس پر قانون سازی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قانون سازی کے بعد بھی موجودہ صورت حال عملاً اُسی طرح باقی رہے گی جس طرح بہت سے دوسرے معاملات میں قانون سازی کے بعد بھی باقی ہے۔ مثلاً جہیز کے خلاف ایکٹ اور سول میریج ایکٹ، وغیرہ۔
۱۶ گجراتی روزنامہ دیبیہ بھاسکر کے نامہ نگار مسٹر پرمود کمار نے ۳ اگست ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ کے مسئلہ سے تھا۔ جواب میںبتایا گیا کہ یہ ایک غیر فطری چیز ہے اور غیر دستوری بھی۔ کامن سول کوڈ پر عملاً اس سے پہلے قانون بن چکا ہے۔ یہ سِول میریج ایکٹ ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ سول میریج ایکٹ باقاعدہ قانون بننے کے باوجود ایک فیصد بھی عملاً رائج نہیں۔ پھر ایک اور قانون بنانے سے کیا فائدہ۔ یہ قانون بہرحال دستور کے تحت ہوگا اور دستور کے مطابق کامن سول کوڈ کو جبری طور پر لازم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا قانون بنے تو وہ سپریم کورٹ میں رد ہوجائے گا۔
۱۷ ہندی روزنامہ ویر ارجن (نئی دہلی) کے نمائندہ نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کامن سول کوڈ کے مسئلہ سے تھا۔ یہ انٹرویو ویر ارجن کے شمارہ ۴ اگست ۲۰۰۳ کے صفحہ ۵ پر شائع ہوا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ کامن سول کوڈ کا نفاذ عملاً ممکن نہیں۔ ایسے مسئلہ پر قانون سازی کرنا جس کا نفاذ عملی طور پر ممکن نہ ہو وہ صرف قانون کا احترام ختم کرتا ہے۔ اس طرح کی قانون سازی ہندستان میںبار بار کی گئی ہے اور اس کا نتیجہ یہی ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کا احترام ختم ہوگیا ہے۔ مثال کے طورپر جہیز کے خلاف کئی قوانین بنائے گئے مگر وہ ایک فیصد بھی نافذ نہ ہوسکے۔ لوگ شادیوں میں نہایت اطمینان کے ساتھ بڑھ چڑھ کر جہیز دیتے ہیں جیسے کہ وہ سرے سے قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں۔
۱۸ پاکستان کا ایک خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:’’ ہم لوگ ایک عرصہ سے الرسالہ (بتوسُّط ’’تذکیر‘‘ لاہور) کے قاری ہیں۔ آپ کی فکر انگیز تحریروں نے ہمیں کامیابی اور پیش رفت کے حقیقی گُر ’’اِعراض‘‘ سے واقف کرایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لومۂ لائم سے بے پروا ہو کر سچ لکھنے پر اجر سے نوازیں۔ ہم قریب پانچ سال تک ’’تذکیر‘‘ لاہور (طابع و ناشر : محمد احسان صاحب تہامی) کے تیس پرچے منگواتے تھے، اب اِن شاء اللہ تعالیٰ ماہِ آئندہ مئی ۲۰۰۳ ء سے پچاس پرچے منگوانے لگیں گے۔ ہم سب لوگ آپ کے طرزِ فکر و تجزیہ کے مدّاح ہیں اور ایک دوسرے کی دست گیری کرکے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنے میں لگے ہیں۔ آپ کی گراں قدر کتابوں سے ہماری سوچ کی بہت اصلاح ہوئی ہے۔ آپ کی تازہ کتاب ’’دین و شریعت‘‘ تو ایک عہد ساز کتاب ہے‘‘۔ (محمد امتیاز اور احباب، راولپنڈی)
واپس اوپر جائیں

Wednesday 1 October 2003

Al Risala | October 2003 (الرسالہ،اکتوبر)

1

- صد اصول


صد اصول

— 001علم کی اہمیت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ۵۷۰ ء میں عرب کے شہر مکہ میں پیداہوئے۔۶۱۰ ء میں جب کہ آپ کی عمر ۴۰ سال کی ہوگئی توآپ کو خدا نے نبوت عطا فرمائی۔ خدا کی طرف سے پہلی وحی جوآپ پر آئی وہ یہ تھی: پڑھ، اپنے رب کے نام سے جس نے تم کو پیدا کیا۔ انسان کو علق سے پیدا کیا۔ پڑھ، اور تمہارا رب کریم ہے۔ اس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا (العلق)
حقیقت یہ ہے کہ علم تمام انسانی ترقیوں کا آغاز ہے۔ انسان کو خدا نے بظاہر ایک حیوان کے روپ میں پیدا کیا ہے ۔مگر انسان کو ایک امتیازی صلاحیت دی گئی ہے اور وہ اس کا دماغ ہے۔ انسانی دماغ میں لامحدود حد تک غیر معمولی صلاحیت رکھی گئی ہے۔ اس صلاحیت کو بیدار کرنے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ علم کی مدد سے انسانی دماغ ترقی کرتا ہے اور بڑھتے بڑھتے اعلیٰ ترین درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔
علم کے ذریعہ آدمی تاریخ کو جانتا ہے۔ وہ فطرت کے رازوں کو دریافت کرتا ہے۔ وہ چیزوں کی ظاہری سطح سے گزر کر ان کی حقیقت تک پہنچ جاتاہے۔ علم کی یہ اہمیت ایک انسان کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ دوسرے انسان کے لیے۔
— 002علم حاصل کرو
پیغمبر اسلام نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے۔ اس حدیث سے اسلام میں علم کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ خدا کی معرفت علم کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے علم سیکھنے کو فرض قرار دیا گیا۔ علم آدمی کے شعور کو بڑھاتا ہے۔ علم سے آدمی کے ذہن کی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ علم سے سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔علم کے ذریعہ آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ گہری حقیقتوں کو سمجھ سکے، وہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنے ذہنی معیار کو بلند کرسکے۔
مذہبی اور روحانی ارتقاء کے لئے علم لازمی طورپر ضروری ہے۔ علم کے ذریعہ ذہن میں پختگی آتی ہے۔ علم کے ذریعہ فکری ارتقاء کا عمل جاری ہوتاہے۔ علم کے بغیر آدمی نہ مقدس کتابوں کو پڑھ سکتا ہے اور نہ تاریخ اور کائنات کے بارے میں زیادہ باخبر ہوسکتا۔ علم آدمی کو حیوان کی سطح سے اٹھا کر انسان کی سطح پرپہنچا دیتا ہے۔
— 003سیکھنے کا مزاج
خلیفہ ثانی عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ملنے والے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کے اندر سیکھنے کاعمل (learning process) ہمیشہ جاری رہتا تھا۔
ایسا کیوں کر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی جب بھی کسی سے ملے تو کھلے ذہن کے ساتھ ملے۔ وہ اس کو سکھانے سے زیادہ اس سے سیکھنے کی کوشش کرے۔ سیکھنے کے اس عمل کو مفید طورپر جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی متعصبانہ سوچ سے پاک ہو، وہ بڑائی کے جذبہ میں نہ جیتا ہو۔ اس کی نفسیات یہ ہو کہ جو کچھ مجھے ملے گا اس کو فوراً لے لوں گا۔ جب بھی میری کوئی غلطی مجھ پر واضح کی جائے گی تو میں فوراً اس کا اعتراف کرکے اپنے کو صحیح کر لوں گا۔
سیکھنے کے عمل کو مفید بنانے میں اگر سکھانے والے کا کردار اہم ہے تو اس سے بھی زیادہ اس میں سیکھنے والے کے کردار کا دخل ہے۔ سیکھنے والے میں جتنا زیادہ صحیح مزاج ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ دوسروں سے لینے میںکامیاب رہے گا ۔دنیا میں ہر لمحہ علم اور معرفت کی بارش ہو رہی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے پاس اس کو لینے کا برتن (container) موجود ہو۔
— 004علم کا خزانہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، جہاں وہ اس کو پائے تو وہ اسی کا ہے۔ یہ حدیث علم کی آفاقیت کو بتاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم خواہ کہیں بھی ہو یا کسی کے پاس بھی ہو وہ یکساں طورپر سارے انسانوں کا حصہ ہے۔
علم ایک مشترک خزانہ ہے۔ علم کسی کی اجارہ داری نہیں، علم ہر قسم کے تعصب سے بلند ہے۔ علم سورج کے مانند ہے جس سے روشنی لینے کا حق جتنا کسی ایک کو ہے اتنا ہی حق دوسرے کو بھی ہے۔
علم کے معاملہ میںآفاقیت کا یہ تصور بے حد ضروری ہے۔ اس تصور کے بغیر علم کی ترقی ممکن نہیں۔ علم کا خزانہ اتنا زیادہ وسیع ہے کہ خواہ اس کو کتنا ہی زیادہ استعمال کیا جائے، اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ علم ایک ایسا اَتھاہ سمندر ہے جو ہر طالب کی پیاس بجھاتا ہے۔ مگر اس کا اپنا ذخیرہ اس کے بعد بھی اتنا ہی زیادہ باقی رہتا ہے جتنا کہ وہ اس سے پہلے تھا۔
— 005 علم کا حصول
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علم حاصل کرو، خواہ وہ چین میں ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے حصول میںکسی بھی قسم کے تعصب یا کسی بھی قسم کے عذر کو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔
قدیم زمانہ میں چین کا سفر ایک مشکل سفر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے یہ کہنا کہ علم حاصل کرو خواہ وہ چین میںہو، یہ معنی رکھتا ہے کہ ہر مشکل کو برداشت کرکے علم سیکھو۔ کسی بھی چیز کو اس معاملہ میں رکاوٹ نہ سمجھو۔ علم کے بغیر انسان گویا خام لوہا (ore) ہے۔ یہ علم ہے جو انسان کو اسٹیل بناتا ہے۔زندگی کے سادہ پہلو کو آدمی علم کے بغیر بھی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن زندگی کی گہرائیوں تک پہنچنا علم کے بغیر ممکن نہیں۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علم کے لیے سفر کرنا ضروری ہے۔ سفر کے بغیر علم میں کوئی بڑا اضافہ نہیں ہوسکتا۔ سفر آدمی کے ذہنی افق کو بڑھاتا ہے۔ سفر آدمی کو مقامی علم سے اٹھا کر عالمی علم تک پہنچا دیتا ہے۔
— 006علم کا تحفہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے اچھا تحفہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو تعلیم دے۔ دوسرا کوئی بھی تحفہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے مگر علم کا تحفہ ایک ایسی چیز ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
ہر آدمی کا پہلا مدرسہ اس کا اپنا گھر ہے۔ اس مدرسہ کے ٹیچر خود بچے کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے بیک وقت دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ ماں باپ کو سب سے پہلے خود صاحب علم ہونا چاہئے کیوں کہ ماں اور باپ اگر صاحب علم نہ ہوں تو وہ نہ علم کی اہمیت کو سمجھیں گے اور نہ اپنی اولاد کو تعلیم دینے میں صحیح طورپر اپنا حصہ ادا کرسکیں گے۔دوسری بات یہ کہ گھر کسی بچے کے لیے صرف پرورش کا مقام نہیں ہے بلکہ وہ اس کی تعلیم و تربیت کا مقام بھی ہے۔ ہر گھر کو تعلیم و تربیت کاایک ادارہ ہونا چاہئے ۔اس کے بغیروہ گھر ایک ادھورا گھر ہے نہ کہ مکمل معنوں میں گھر۔
— 007علم کی برتری
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شہید کے خون کے مقابلہ میںعالم کے قلم کی روشنائی زیادہ افضل ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کی عظمت تمام دوسری چیزوں سے زیادہ ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ علم کا تعلق ذہن سے ہے۔ علم سے ذہن کو تندرستی ملتی ہے، ذہنی سوچ میںاضافہ ہوتا ہے، علم سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ذہن معاملات کو زیادہ بہتر طورپر سمجھے اور زیادہ بہتر طورپر عمل کی منصوبہ بندی کر نے کے قابل ہوجائے۔
کوئی بھی جسمانی عمل ایک محدود عمل ہے۔ ایک مقام تک پہنچ کر جسمانی عمل کی حد آجاتی ہے مگر علم کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ جس آدمی کو علم حاصل ہو اس کی شخصیت بے پناہ حد تک وسیع ہوجائے گی۔ وہ ہر قید سے باہر آکر سوچنے کے قابل ہوجائے گا۔ وہ ایک ایسا انسان بن جائے گا جس کو کوئی زیرنہ کرسکے۔ جس طرح علم کی کوئی حد نہیں اسی طرح اس انسان کی بھی کوئی حد نہیں جو علم کی دولت کا مالک ہوجائے۔
— 008علم کا ریکارڈ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علم کو کتابت کے ذریعہ محفوظ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو علم تمہارے ذہن میں ہے اس کو کاغذ پر لکھ لو۔ اس طرح وہ اپنی صحیح شکل میںہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے گا۔
اس تعلیم کا ایک استعمال یہ ہے کہ علم کو کتابوں میں منتقل کیا جائے ۔ ہر علمی موضوع پر کتابیں لکھ کر تیار کی جائیں۔ علم کو دماغ سے نکال کر لائبریری کی صورت میں ذخیرہ کردیا جائے۔
اس معاملہ کی ایک صورت وہ بھی ہے جس کو ڈائری کہا جاتا ہے۔ اس طرح اس تعلیم کی ایک پیروی یہ بھی ہوگی کہ ہر آدمی اپنی ایک ڈائری رکھے۔ وہ اپنے روزانہ کے مطالعہ اور تجربہ کو مختصر طورپر اس میں تاریخ وار درج کرتا رہے اس طرح ہر آدمی کے علمی سفر کا ایک روزنامچہ تیار ہوتا رہے گا۔
یہ ڈائری آدمی کے روزانہ ذہنی سفر کا ایک ریکارڈ ہوگی،وہ اپنے احتساب کا ایک مؤثر ذریعہ ہوگی۔ آدمی اپنی ڈائری کے ذریعہ اپنی کامیابی اور ناکامی کو جان کر اپنی اصلاح کرتا رہے گا۔ اس طرح ڈائری اس کی شخصیت کے ارتقاء کا ذریعہ بن جائے گی۔
— 009علم برائے علم
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علم کو گہوارہ مادر سے لے کر قبر تک حاصل کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کسی وقتی نفع یا کسی وقتی جاب کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک مستقل عمل ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔لہذا علم اپنے آپ میں مطلوب ہے۔ علم کا اصل مقصد انسانی شخصیت کی تعمیر ہے۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ ہر حال میں اور ہر مقام پر جاری رہتا ہے۔ انسانی شخصیت کی تعمیر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کی تعلیم و تربیت کا عمل بھی کبھی ختم نہیں ہوتا۔
علم یا تعلیم کا اصل مقصد شعور کو بیدار کرنا ہے تاکہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو سمجھے۔ وہ کبھی محدود سوچ میںمبتلا نہ ہو۔ اس کا ذہن کبھی جمود کا شکار نہ ہونے پائے۔ علم انسانی شخصیت کی غذا ہے۔ جس طرح جسم مادّی غذا کے بغیر ناکارہ ہوجاتا ہے اسی طرح انسانی شخصیت علم کے بغیر ناقص ہوجاتی ہے۔ اور ناقص شخصیت موجودہ دنیا میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرسکتی۔
010 — غیر مفید علم
پیغمبر اسلام کی ایک دعا یہ تھی: اللہم إنی اعوذبک من علم لا ینفع (اے خدا، مجھ کو ایسے علم سے بچا جو بے فائدہ ہو) گویا وہی علم علم ہے جو انسانیت کے لئے مفید ہو، جوعلم انسانیت کے لیے مفید نہ ہو وہ کوئی مطلوب علم نہیں۔ ایسے علم کے حصول میں اپنا وقت لگانا جس میں کوئی حقیقی فائدہ نہ ہو، وقت کو ضائع کرنا ہے۔
— 011نمو پذیر شخصیت
قرآن میں سچے انسان کی مثال پودے سے دی گئی ہے۔ جس طرح پودا بڑھ کر درخت بنتاہے اسی طرح انسان کی شخصیت بھی بڑھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ شاداب درخت کی طرح وہ ایک ترقی یافتہ شخصیت بن جاتی ہے۔انسان چھوٹے بچے کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بڑھتے بڑھتے وہ پورا آدمی بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ جسم کی ترقی کا ہے۔ اسی طرح انسان کا ذہن بھی ترقی کرتاہے۔ یہ ترقی تفکیری عمل (thinking process) کے ذریعہ جاری ہوتی ہے۔ اگر یہ تفکیری عمل صحت مندانداز میںجاری رہے تو انسان کا ذہن بھی اسی طرح ترقی کے درجہ تک پہنچ جائے جس طرح اس کا جسم ترقی کے درجہ تک پہنچتا ہے۔
یہ تفکیری عمل فطری طور پر ہر انسان کے اندر جاری ہوتا ہے۔ انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچائے جو تفکیری عمل میں رکاوٹ ڈالنے والی ہیں۔ اگر تفکیری عمل کو رکاوٹ سے بچایا جائے تو وہ ایک چشمہ کی طرح بہتا رہے گا یہاں تک کہ وہ ایک عظیم دریا بن جائے گا۔
— 012جاننے والے سے پوچھنا
قرآن میںکہا گیا ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والے سے پوچھو۔ یعنی نہ جاننے والا جاننے والے سے پوچھے اور اس طرح اپنے نہ جاننے کو جاننا بنائے۔لوگ عام طورپر پوچھنے کو پسند نہیں کرتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ پوچھنے کا مطلب گویا یہ اقرار کرنا ہے کہ تم جانتے ہو، میں نہیں جانتا۔ یہ ایک مہلک عادت ہے۔ صحت مند عادت یہ ہے کہ پوچھنے کو ویسا ہی سمجھا جائے جیسا کہ ڈکشنری یا انسائیکلوپیڈیا کا مطالعہ کرنا۔
کوئی آدمی خود سے ساری باتوں کو جان نہیں سکتا۔ اسی کمی کی تلافی کے لیے وہ کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ اسی طرح اس کو یہ عادت ڈالنا چاہئے کہ وہ جاننے والے سے پوچھے۔ جاننے والا اس کے لیے گویا ایک زندہ کتاب ہے۔ اگر کتاب کو پڑھنے میں اسے کوئی احساس نہیں روکتا تو جاننے والے سے پوچھنے میں بھی کسی احساس کو رکاوٹ نہیں ہونا چاہئے۔ جاننے والے سے پوچھنا باہمی تعلقات کو بڑھاتا ہے۔ وہ علم میں اضافہ کرتا ہے۔وہ انسانی تعلقات میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
— 013خدا کی نعمتوں میںغور وفکر
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا کی نعمتوں میںغور و فکر کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ غور وفکر بظاہر دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ وہ ذہن میں ہوتا ہے۔ مگر خدا کی نظر میں اس سے بڑا کوئی عمل نہیں۔
اصل یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز میںنعمت کا پہلو موجود ہے۔ غور و فکر کرکے ان نعمتوں کو جاننا، چیزوں میںنعمت کے پہلو کو دریافت کرنا، یہی وہ چیز ہے جس کو اس حدیث میںافضل عبادت کہا گیا ہے۔
چیزوں کو نعمت کے پہلو سے دریافت کرنا ایک ایسا عمل ہے جو آدمی کو خدا سے قریب کرتا ہے، جو آدمی کو خدا سے جوڑتا ہے۔ وہ آدمی کے لیے خدا کی معرفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
— 014غور و فکر کا عمل
ابو الدرداء پیغمبر اسلام کے ایک صحابی تھے۔ ان کی وفات کے بعد ایک شخص نے ان کی زوجہ ام الدرداء سے پوچھا کہ ابو الدرداء کا سب سے بڑا عمل کیا ہوتا تھا۔ ام الدرداء نے جواب دیا کہ سوچنا اور عبرت پکڑنا۔اس سے معلوم ہوا کہ کسی انسان کا سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی چیزوں پر غور کرے اور ان سے عبرت کا پہلو اخذ کرتا رہے۔ یہ گویا ذہنی ارتقاء (intellectual progress) اور روحانی ارتقاء (spiritual developement) کا عمل ہے۔ جو سنجیدہ غور وفکر کی صورت میںانسان کے اندر جاری ہوتا ہے۔ وہ موت سے پہلے کبھی ختم نہیں ہوتا۔
— 015علمی تواضع
پیغمبر اسلام کے ایک صحابی عبداللہ ابن مسعود نے فرمایا کہ جب تم کسی بات کو نہ جانو تو تم یہ کہہ دیا کرو کہ: اللہ أعلم (اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے)۔ اس اصول کو دوسرے لفظوں میں، علمی تواضع کہا جاسکتا ہے۔ اور علمی تواضع علمی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔
عربی زبان کا ایک مثل ہے: لاأدری نصف العلم (میںنہیں جانتا، آدھا علم ہے)۔ یہ کہہ سکناکہ میںنہیں جانتا، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اپنے نہ جاننے کو جاننا ہے۔ جب آدمی اپنے نہ جاننے سے باخبر ہوجائے تو اس کے اندر تجسس کی روح (spirit of inquiry) جاگتی ہے جو آخر کار اس کو علم تک پہنچادیتی ہے۔جب آدمی ایک بات کو نہ جانے تو اس کو اپنے نہ جاننے کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اپنے نہ جاننے کا اعتراف بھی جاننے کی طرح ایک قدم ہے۔ اس مزاج کے بغیر کوئی آدمی علمی ترقی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔
— 016تعلیم و تربیت
پیغمبر اسلام کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ ایک چڑیا بھی اگر فضا میں اڑتی ہوئی دکھائی دیتی تو آپ اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دہانی کراتے تھے (مامن طائرٍ یطیر بجناحیہ إلا و ہویذکر لنا منہ علماً)
اس حدیث سے تعلیم و تربیت کا ایک توسیعی تصوّر سامنے آتا ہے۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ تعلیم و تربیت کے عمل کا تعلق صرف اسکول اور مدرسہ سے نہیں۔ بلکہ اسکول کے احاطہ سے باہر بھی اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کی دنیا میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے اندر کوئی نہ کوئی علم چھپا ہوا ہے۔ معلّم اگر بیدار ذہن رکھتا ہو تو وہ اپنے طلبہ کے لیے اسکول کے اور مدرسہ کے باہر کی دنیا کو بھی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک رہنما اپنے پیروؤں کے لیے ہر منظر اور ہر تجربہ سے علم اخذ کرکے ان کی ذہنی اور روحانی تربیت کا سامان کرسکتا ہے۔ ہماری دنیا پوری کی پوری ایک وسیع تعلیم گاہ ہے۔ جوآدمی علم کاسچّا طالب ہو وہ ہر لمحہ اپنے علم میںاضافہ کرتا رہے گا۔اس کا علمی سفر کبھی ختم نہ ہوگا۔
— 017علم اور سنجیدگی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے ڈرے، وہ عالم ہے (من یخشی اللہ فہو عالم)۔ اس حدیث سے علم کا ایک اہم پہلو معلوم ہوتا ہے اور وہ سنجیدگی اور احتیاط ہے۔علم صرف واقفیت کا نام نہیں۔ کسی شخص کو جب گہرائی کے ساتھ علم حاصل ہوتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا کے بارے میں وہ محتاط بن جاتا ہے۔ یہ احتیاط اس کے اندر سنجیدگی پیدا کرتی ہے۔ جہاں علم ہو اور سنجیدگی نہ ہو تو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہاں حقیقی معنوں میں وہ چیز نہیں جس کو علم کہا گیا ہے۔
سچا علم آدمی کو ایک نیا انسان بنا دیتا ہے۔ سچے علم والا انسان حقائق فطرت سے با خبر رہتا ہے اور جو آدمی حقائق فطرت سے با خبر ہوجائے وہ اس کا تحمّل نہیں کرسکتا کہ وہ تضاد میں جئے۔ وہ غیر محتاط انداز میں کلام کرے، وہ لوگوں کے ساتھ غیر سنجیدہ معاملہ کرے۔ سچا علم آدمی کو ہر قسم کی غیر ذمّہ داری سے بچا تا ہے۔ سچا علم آدمی کو پورے معنوں میں سنجیدہ اور ذمّہ دار انسان بنا دیتا ہے۔
— 018علم میں اضافہ
قرآن میںایک دعا ان الفاظ میںبتائی گئی ہے: ربِّ زدنی علما (اے میرے رب تو میرا علم زیادہ کردے)۔ اس قرآنی دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میںعلم کے حصول کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مرد اور ہر عورت مسلسل اپنے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
دعا در اصل عزم کی ایک صورت ہے۔ دعا کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی پوری طرح ایک مقصد کے حصول میںلگ جائے۔ وہ اپنی حد تک سب کچھ کرتے ہوئے خدا سے یہ دعا کرے کہ وہ اس کی کوششوں کو کامیاب کرے۔ اس طرح دعا خود آدمی کے عمل کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ کسی مقام پر رکے بغیر علم کے حصول کی کوشش میں لگا رہے۔ وہ اس معاملہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے علم میں اضافہ کے لیے برابر کوشاں رہے۔ علم کی کوئی حد نہیں اس لیے حصول علم کی راہ میں جدو جہد کی بھی کوئی حد نہیں۔
— 019بے جا عذر
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ آدمی ہمیشہ دو چیزوں کے فریب میں رہتا ہے—صحت اور فرصت۔ یعنی وہ سوچتا رہتا ہے کہ جب صحت ہوگی تب کر لوںگا اور جب فرصت ہوگی تب کرلوں گا، مگر زندگی میں صحت اور فرصت کبھی آتی نہیں۔ چنانچہ وہ اسی دھوکے میں رہتا ہے اور آخر کار مرجاتا ہے۔
عقل مند آدمی وہ ہے جس کا یہ حال ہو کہ وہ کسی عذر کو عذر نہ بنائے۔ جب بھی کوئی کام سامنے آئے وہ اس کو فوراً کرڈالے۔ ابھی اور اسی وقت سے بہتر کام کرنے کا کوئی وقت نہیں:
There is no better time to start than this very minute.
— 020دل سے مسئلہ پوچھنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اپنے دل سے فتویٰ پوچھ لو(استفت قلبک) اس حدیث میں قلب سے مراد وہی چیز ہے جس کو کامن سنس کہا جاتا ہے۔
انسان کو بار بار مسئلے پیش آتے ہیں۔ ان مسئلوں میں اس کو ہر بار مفتی سے فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر آدمی اپنے آپ کو نفسیاتی پیچیدگی سے پاک رکھے تو اس کا کامن سنس اس کے لیے بہترین رہنما بن سکتا ہے۔ اور یہ کامن سنس ایک ایسی چیز ہے جس کو کہیں ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہر وقت اور ہر جگہ آدمی کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
— 021حکمت کی بات
مشہور صحابی رسول حضرت عمر فاروق نے کہا: امیتوا الباطل بالصمت عنہ (تم باطل کو ہلاک کرو اس کے بارے میں چپ رہ کر)۔ یہ قول خاموشی کی طاقت کو بتاتا ہے۔
مشہور مثل ہے کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ اگر آپ باطل کی طاقت کے بعد خود بھی جوابی کارروائی کریں تو باطل کو اس سے مزید طاقت مل جائے گی۔ اس کے برعکس اگر آپ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں تو باطل کا زور دھیرے دھیرے اپنے آپ ٹوٹ جائے گا۔ آپ کی طرف سے جوابی کارروائی نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فطرت کی طاقتیں آپ کی حمایت میں متحرک ہوجائیں گی۔ وہ آپ کے کام کو زیادہ بہتر طور پر انجام دے دیں گی۔
— 022بلند ہمتی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ بلند ہمتی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خدا پر ایمان آدمی کو سب سے بڑا بھروسہ دے دیتا ہے۔ یہ بھروسہ اس کو بلند ہمت بنا دیتا ہے۔
مگر دنیا میں باربار آدمی کو ناموافق حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ یہ حالات اس کو مایوسی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اگرآدمی کو خدا کے اوپر یقین ہو جائے تو وہ آخری حد تک حوصلہ مند بن جائے گا۔ خدا پر یقین اس کو اس وقت بھی بھروسہ دے گا جب کہ بظاہر آدمی کے پاس کوئی بھروسہ نہیں ہوتا ۔
— 023باقی رہنے والا عمل
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہو۔ اس دنیا میں کوئی حقیقی کامیابی ہمیشہ دیر میں ملتی ہے۔ اس لیے سب سے بہتر عمل وہ ہے جو قابل بقا (sustainable) ہو۔اس دنیا میں نتیجہ خیزعمل وہی ہے جو شروع کرنے کے بعد برابر جاری رہے۔ جس پر آدمی اپنی پوری عمر قائم رہ سکتا ہو۔ ایسا ہی عمل فطرت کے قانون کے مطابق ہے۔ ایسا ہی عمل حقیقی معنوں میں عمل ہے۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ عمل شروع کرنے سے پہلے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ تمام متعلق امور کا جائزہ لے۔ وہ اپنی صلاحیت اور دستیاب وسائل نیز وقت کے حالات، ہر چیز کا بھرپور اندازہ کرے اور پھر سوچے سمجھے نقشہ کے مطابق اپنا کام شروع کرے۔ اورجب وہ کام شروع کردے پھر وہ درمیان میں کبھی اس کو نہ چھوڑے۔ یہی دنیا میںکامیابی کا واحد طریقہ ہے۔
— 024زمانہ سے با خبر ہونا
پیغمبر اسلام کی ایک لمبی حدیثہے ۔ اس کا ایک جزء یہ ہے: عقلمند آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانہ کو جاننے والا ہو۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کے علم کی تکمیل کیا ہے۔علم والا ہونے کے لیے یہ کافی نہیں کہ آدمی کتابی معلومات سے واقف ہو۔ اس نے ماضی کی روایتوںکو یاد کر رکھا ہو۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی جس زمانہ میں ہے اس زمانہ کو جانے۔ وہ ماضی شناس ہونے کے ساتھ حال شناس بھی ہو۔
زمانہ کو جاننے کی اہمیت فکری بھی ہے اور عملی بھی۔ اس کے بغیر آدمی کی سوچ ناقص رہتی ہے۔ وہ باتوں کو آفاقی انداز میں سمجھ نہیں پاتا۔ حقیقت کا گہرا تجزیہ اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس طرح عملی اعتبار سے وہ ایک ناقص انسان ہوتاہے۔ وہ یہ جاننے سے محروم رہتا ہے کہ وقت کے حالات میں ابدی سچائیوں کو کس طرح منطبق(apply) کرے۔ ایساآدمی اپنے عمل کی کامیاب منصوبہ بندی نہیں کرسکتا۔
025 — بامقصد زندگی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ آدمی کے اچھے اسلام پر ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دے۔ پیغمبر اسلام کا یہ قول بتاتا ہے کہ ایک بامقصد انسان کی زندگی کیسی ہونی چاہئے۔
اصل یہ ہے کہ دنیا میںکام زیادہ ہیں اور ایک شخص کی عمر بہت مختصر۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ آدمی اپنی مشغولیتوں میںانتخابی (selective) انداز اختیار کرے۔ وہ صر ف ان چیزوں میں مشغول ہو جن کا تعلق براہ راست زندگی کے مقصد سے ہو۔ جو چیزیں اس کے مقصد کے لیے کار آمد نہیں ان سے وہ مکمل طورپر پرہیز کرے۔ وہ بے فائدہ کام اور فائدے والے کام میں فرق کرنا جانے۔
بے فائدہ کام سے مراد وہ کام ہے جو محض دلچسپی یا وقت گزاری کے لیے ہو، جس سے وقتی تفریح کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہوتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے بے فائدہ کام میں مشغول ہونا ایک ایسا تعیش (luxury) ہے جس کا تحمل ایک بامقصد انسان نہیں کر سکتا۔
— 026 نفع بخشی
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا کا نظام نفع بخشی کے اصول پر قائم ہے۔ یعنی جو شخص دوسروں کو نفع پہنچائے گا اس کو دوسروں سے فائدہ ملے گا۔ جتنا دینا اتنا پانا۔اس اصول کے مطابق، جب بھی کسی کو محرومی کا تجربہ ہو تو اس کو یہ مان لینا چاہئے کہ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت نہ کرسکا۔ اس نے دوسروں کو محروم رکھّا تھا اس لیے دوسروں نے بھی اس کو محروم کردیا۔ اگر وہ دوسروں کو دیتا تو ضرور وہ بھی دوسروں سے پاتا۔
نفع بخشی کے اس اصول کا تعلق زندگی کے پورے معاملے سے ہے۔ اس کا تعلق خاندان سے بھی ہے اور سماج سے بھی۔ قومی زندگی سے بھی ہے اور بین اقوامی زندگی سے بھی۔ ہر انفرادی اوراجتماعی معاملے میں یہی اصول کار فرما ہے۔اس کے مطابق، شکایت اور احتجاج کا طریقہ بالکل بے معنٰی ہے۔ اس دنیا میں ہر شکایت اور ہر احتجاج خود اپنی کوتاہی کے خلاف شکایت اور احتجاج ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ شکایت اور احتجاج میں وقت ضائع نہ کرے، بلکہ پہلی فرصت میں اپنی کوتاہی کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوسرے کے لیے نفع بخش بنائے۔ یہی مسئلہ کا واحد حل ہے۔
— 027خاموشی میں نجات
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو چپ رہا اس نے نجات پائی۔ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح بولنا ایک کام ہے اسی طرح چپ رہنا بھی ایک کام ہے۔ جس طرح ایکشن لینا ایک کام ہے اسی طرح ایکشن نہ لینا بھی ایک کام ہے۔ جس طرح آگے بڑھنا ایک کام ہے اسی طرح پیچھے ہٹنا بھی ایک کام ہے۔ جس طرح طاقت کی پوزیشن میںفائدہ ہے اسی طرح تواضع کی پوزیشن میںبھی فائدہ ہے۔ چپ رہنا صرف نہ بولنے کا نام نہیں۔ چپ رہنا ایک تدبیر ہے۔ چپ رہناخاموش منصوبہ بندی کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ شور کی سیاست کے مقابلہ میں چپ کی سیاست زیادہنتیجہ خیز ہے۔
چپ رہنے کے بہت سے فائدے ہیں۔ جب آدمی چپ رہتا ہے تو وہ سوچتا ہے۔ جب آدمی چپ رہتا ہے تو وہ دوسروں سے سیکھتا ہے۔ جب آدمی چپ رہتا ہے تو وہ اپنی اندرونی طاقتوں کوجگاتا ہے۔ یہ بلا شبہہ ضروری ہے کہ آدمی بولے۔ مگر اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ وہ چپ رہنے کی حکمت کو جانے۔ کبھی بات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے صرف اتنا کافی ہوتا ہے کہ آدمی چپ ہو جائے۔ چپ رہنا نظر انداز کرنے کی ایک علامت ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ نظر انداز کرنا ایک انتہائی حکیمانہ عمل ہے۔
— 028دو مختلف صفات
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے اندر دو مختلف صفات رکھی گئی ہیں۔ ایک نفس امّارہ دوسرے نفس لوّامہ۔ یہ دونوں صفتیں پیدائشی طور پر ہر انسان کے اندر ہوتی ہیں۔ کوئی بھی انسان ان سے خالی نہیں ہے۔ نفس امّارہ سے مراد انانیت ہے اور نفس لوّامہ سے مراد ضمیرہے۔یہ دونوں صفتیں ابتدائی طورپر سوئی ہوئی حالت میںہوتی ہیں۔ اگر ان کو نہ جگایا جائے تو وہ سوئی ہوئی رہیں گی۔ اگر کسی آدمی کے خلاف ایسی بات کہی جائے جو اس کو اشتعال دلانے والی ہو تو اس کا نفس امّارہ جاگ پڑے گا اور پھر اس کا انجام و ہی ہوگا جیسے کسی سوئے ہوئی سانپ کو جگا دیا جائے۔
اس کے برعکس اگر آدمی سے نرمی کا سلوک کیا جائے تو اس کا نفس لوّامہ جاگے گا۔ پہلے اگر دوسروں کو اس سے کانٹے کا تجربہ ہوا تھا تو اب دوسروں کو اس سے پھول کا تجربہ ہوگا۔ اب دوسروں کو اس سے انسانیت کی خوشبو حاصل ہوگی۔ اب وہ دوسروں کے لیے رحمت کا نمونہ بن جائے گا۔
— 029صبر سے کامیابی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جان لو، کامیابی صبر کے ساتھ ہے۔ صبر کا الٹا عجلت پسندی ہے۔ عجلت کی کارروائی منصوبہ کے بغیر ہوتی ہے اور صبر کی کارروائی منصوبہ کے بعد ہوتی ہے۔ اور اس دنیا میں وہی کارروائی کامیاب ہوتی ہے جو منصوبہ کے ساتھ کی گئی ہو۔
— 030ٹکراؤ سے پرہیز
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مومن کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ پوچھا گیا کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو کیوں ذلیل کرے گا۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ ایسی بَلا کا سامنا کرے جس سے نپٹنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔اس حدیث میں زندگی کا ایک حکیمانہ اصول بتایا گیا ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ آدمی کی کارروائی ہمیشہ نتیجہ خیز ہونا چاہئے۔ ایک ایسی طاقت جس سے مقابلہ کرنے کا سازوسامان اس کے پاس نہ ہو، اگر وہ کوئی عذر لے کر ایسی طاقت سے ٹکرا جائے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ وہ ذلت اور ناکامی سے دوچار ہوگا۔ایسا فعل جو یکطرفہ طورپر خود فاعل کی تباہی میںاضافہ کرنے والا ہو اس میں اپنے آپ کو الجھانا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔
— 031اپنے سے کم کو دیکھو
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مادّی معاملہ میں اپنے سے اوپر کو نہ دیکھو بلکہ اپنے سے نیچے کو دیکھو۔ اس طرح تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔
اس دنیا کا نظام خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہمیشہ اونچ اور نیچ قائم رہتی ہے۔ کوئی آگے ہوتا ہے اور کوئی پیچھے۔ اس کی مصلحت یہ ہے کہ اس طرح مسابقت(competition) کا ماحول قائم رہتا ہے۔ اس مسابقت کی وجہ سے ایسا ہوتاہے کہ زندگی کی ترقیاں اور سرگرمیاں ہمیشہ جاری رہتی ہیں۔اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی سے کوئی آگے ہوتا ہے اور کوئی اس سے پیچھے ۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھے۔ اس تقابل کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو کچھ خدا نے اس کو دیا ہے وہ اس کو زیادہ نظر آئے گا۔ وہ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا رہے گا۔ اس کے برعکس اگر وہ ایسا کرے کہ صرف اپنے سے اوپر والے کو دیکھے تو اس کے اندر نفرت اور جھنجھلاہٹ کا مزاج پیدا ہوگا۔
مثبت مزاج آدمی کے ذہنی اور روحانی ارتقاء میںمدد گار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس منفی مزاج آدمی کے ذہنی اور روحانی ارتقاء کو روک دیتا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ دوسرے کی خاطر اپنے آپ کو ذہنی ارتقاء سے محروم نہ کرلے۔
— 032گزرتا ہوا زمانہ
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ زمانہ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ گویا انسانی زندگی کی حیثیت برف جیسی ہے۔ جس طرح برف پگھل کر ہر لمحہ گھٹتا جاتا ہے اسی طرح انسان کی عمر بھی ہر لمحہ گھٹ رہی ہے۔ گھٹتے گھٹتے آخر کار وہ وقت آتا ہے جب کہ انسان اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجائے۔
گویا ہر انسان کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن (count down) ہورہا ہے۔ اگر ایک شخص کے لیے یہ مقدّر ہو کہ وہ پیدا ہونے کے بعد ساٹھ سال تک زندہ رہے گا تو گویا پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا۔ پہلا سال پورا ہونے پر اس کی عمر انسٹھ سال رہ گئی۔ اس کے بعد اٹھاون، اس کے بعد ستاون، اس کے بعد چھپّن، اس کے بعد پچپن، اس طرح مسلسل ہر آدمی کی الٹی گنتی ہو رہی ہے۔ اس الٹی گنتی کو روکنا کسی بھی شخص کے بس میں نہیں ہے۔ایسی حالت میں ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے ہر لمحہ کو قیمتی سمجھے کیوں کہ جو وقت کھویا گیا وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں ۔ جس طرح گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا۔ اسی طرح زندگی کے گزرے ہوئے لمحات بھی کسی کو دوبارہ واپس نہیں ملتے۔
— 033مایوسی نہیں
قرآن میں کہا گیا ہے کہ اے خدا کے بندو، مایوس نہ ہو، کیوں کہ خدا کی رحمت بہت وسیع ہے۔ آدمی کو جب بھی مایوسی ہوتی ہے تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے امکانات کو دیکھتا ہے۔ اگر اس کی نظر خدائی امکانات پر ہو تو وہ کبھی مایوس نہ ہوگا۔
انسانی امکانات کی حد ہوتی ہے۔ مگر خدائی امکانات کی کوئی حد نہیں۔ انسان اگر اس حقیقت کو جان لے تو وہ کبھی مایوس نہ ہو۔ کیوں کہ جہاں بظاہر انسان کی حد آگئی ہے عین اسی مقام پر وہ ایک اور امکان کو پالے گا جس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ اس کے لیے کوئی رکاوٹ۔حقیقت یہ ہے کہ خدا پر یقین آدمی کو امید کا ایسا خزانہ دے دیتا ہے کہ اس کے بعد وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ وہ کبھی اس احساس سے دوچار نہیںہوتا کہ آگے اس کے لیے کچھ اور باقی نہیں رہا۔ ایک امکان کا خاتمہ اس کے لیے زیادہ بڑے امکان کا آغاز بن جاتا ہے۔ خدا کا عقیدہ اور مایوسی دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
— 034اعلیٰ اخلاق
پیغمبر اسلام نے اپنے کچھ ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا میںتم کو بہتر اخلاق بتاؤں۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو جو تمہیں محروم کرے تم اسے دو۔ جو تمہارے اوپر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔اس کو ایک لفظ میں یکطرفہ اخلاقیات کہا جاسکتا ہے۔ اس کے مطابق، اعلیٰ اخلاق یہ نہیں ہے کہ جو خود اچھا سلوک کرے اس کے ساتھ آپ بھی اچھا سلوک کریں۔ یہ برابر کا اخلا ق ہے۔ اور برابر کا اخلاق اعلیٰ اخلاق نہیں۔ اعلیٰ اخلاق وہ ہے جو خود اپنے اعلیٰ اصول پر قائم ہو۔ جو دوسروں کے عمل کے جواب میں نہ ہو بلکہ خود اپنے اصولی رویہ کے تحت ہو۔
اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویہ سے بلند ہو کر یکطرفہ طورپر حسن اخلاق پر قائم رہے۔ وہ ردّ عمل کی نفسیات سے اپنے آپ کو بچائے اور کسی بھی حال میں اپنے مثبت اخلاقی رویہ کو نہ چھوڑے۔اعلیٰ انسانیت کی سب سے بڑی پہچان اعلیٰ اخلاق ہے۔ اور اعلیٰ اخلاق کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ دوسروں کی طرف سے منفی رویہ کے باوجود آدمی اپنے آپ کو مثبت رویہ پر قائم رکھے۔
— 035بے نفس انسان
قرآن میں اعلیٰ شخصیت کو بتانے کے لیے النفس المطمئنہ کا لفظ آیا ہے۔ النفس المطمئنہ کو دوسرے لفظوں میں نفسیاتی پیچیدگیوں سے خالی روح (complex-free soul) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی وہ انسان جو ہر قسم کے منفی احساسات اور سطحی جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔
دنیا میں آدمی مختلف حالات کے درمیان رہتا ہے۔ یہ حالات اس کے اندر طرح طرح کے جذبات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً نفرت، بغض، کینہ، حسد، جلن، انتقام، تعصب، خود غرضی، غرور، خودنمائی، جاہ پسندی، بے اعترافی، وغیرہ۔ جو شخص اس قسم کے تمام جذبات سے اپنے آپ کو اوپر اٹھالے اس کو النفس المطمئنہ کہا گیا ہے۔یہ ایک شعوری عمل ہے۔ کوئی شخص خود بخود النفس المطمئنہ نہیں بن سکتا۔ اس کو شعوری طور پر اپنا نگراں بننا پڑتا ہے۔ وہ بار بار اپنی تطہیر کا کام کرتا رہتا ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی شخص النفس المطمئنہ بن سکے۔
— 036برائی کو مٹانا
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم سے کوئی برائی ہو جائے تو اس کے بعد تم نیکی کرو۔ اس سے برائی کا اثر ختمہوجائے گا۔مثلاً اگر آپ نے کسی شخص کو برا کہہ دیا تو اس کے بعد اس کو اچھا کہیے۔اگر آپ نے کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو اس کے بعد اس کو فائدہ پہنچائیے۔ اگر آپ نے کسی کے دل کو دکھایا ہے تو اس سے معافی مانگ لیجئے۔ اگر آپ نے کسی کے خلاف اکڑ دکھائی ہے تو اب اس کے سامنے جھک جائیے۔ اگر آپ نے کسی کے ساتھ بد اخلاقی کا معاملہ کیا ہے تو اس کے بعد اس کے ساتھ خوش اخلاقی کا معاملہ کیجئے۔ اگر آپ نے کسی کو حقیر سمجھ لیا ہے تو اس کے بعد اس کو عزت کا مقام دیجئے۔ اس طرح اپنے آپ برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
— 037گناہ کیا ہے۔
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور اس کو کرتے ہوئے تم ڈرو کہ لوگ اس سے باخبر نہ ہوجائیں۔ یہ گناہ کی ایک ایسی پہچان ہے جس کو ہر آدمی نہایت آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ہر آدمی کے اندر ضمیر ہے۔ یہ ضمیر اتنا حسّاس ہے کہ وہ برائی کے وقت آدمی کو فوراً ٹوک دیتا ہے۔ اگر آدمی ضمیر کی آواز کو سنے تو کبھی وہ گناہ نہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی گناہ کرتاہے تو وہ اس کو چھپا کر کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اسے جاننے نہ پائے۔ جب بھی آدمی کے اندر اس قسم کا جذبہ پیدا ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ایک ایسا کام کرنے جارہا ہے جو اس کو نہیںکرنا چاہئے۔
— 038پڑوسی کا حق
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کی برائیوں سے امن میں نہ ہو۔ آدمی خواہ کہیں بھی ہو ہر وقت وہ کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ساتھی لوگ اس کے پڑوسی ہیں۔ ان پڑوسیوں کا یہ حق ہے کہ آپ سے انہیں کسی برائی کا تجربہ نہ ہو۔دوسرے لفظوں میںاس تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو نو پرابلم انسان بن کر رہنا چاہئے۔ اس کو سخت احتیاط کرنا چاہئے کہ اس کی ذات سے اس کے آس پاس کے لوگوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ تکلیف کا معیار یہ ہے کہ دوسروں کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ اگر آپ کے پاس کے لوگ کسی بات پر آپ سے شکایت کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسروں کو تکلیف پہنچارہے ہیں۔ دوسروں کی شکایت ہی پر آپ کو ایسے کام سے رک جانا چاہئے۔
— 039چھوٹوں سے شفقت بڑوں کا احترام
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو شخص ہمارے چھوٹوں کے ساتھ شفقت نہ کرے اور جوشخص ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ شریفانہ اخلاق کیا ہے اور اس کو سماج میں کس طرح قائم کیا جانا چاہئے۔
ہر سماج میں کوئی چھوٹا ہوتاہے اور کوئی بڑا۔ عمر کے لحاظ سے بھی اور دوسرے لحاظ سے بھی۔ مثلاً اسکول اور کالج میںاستاد کی حیثیت بڑے کی ہے او رطالب علم کی حیثیت چھوٹے کی۔ ایسے فرق والے سماج میںکس طرح اعتدال کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔ اس کا سادہ اصول یہ ہے کہ—بڑے لوگ چھوٹوں کے ساتھ رحمت اور شفقت کا معاملہ کریں اور چھوٹے لوگ اپنے بڑوں کے ساتھ عزت اور احترام کا طریقہ اختیار کریں۔جس سماج میں یہ دونوں اصول پائے جائیں اس سماج کے لوگوں میں ہر ایک خوش ہوگا اور ہر ایک دوسرے کے بارے میںاچھے خیالات کا مالک ہوگا۔
— 040عہد کو پورا کرنا
قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ جب عہد کرو تو اس کو پورا کرو۔ عہد کے بارے میں خدا کے یہاں تم سے باز پرس کی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ عہد کا معاملہ صرف دو انسانوں کے درمیان کا معاملہ نہیںہے۔ اس معاملہ میں خدا بھی تیسرے فریق کی حیثیت سے شامل ہے۔
عہد یا معاہدہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ یا تو کسی سے عہد نہ کرے اور جب عہد کرے تو وہ اس کو ضرور پورا کرے۔ عہد نہ کرنا کوئی جرم نہیں۔ مگر عہد کرنے کے بعد اسے پورا نہ کرنا یقینی طور پر جرم ہے۔ حتیٰ کہ ایک معاہدہ کو توڑنا اتنا بڑا جرم ہے کہ وہ تمام انسانی معاہدوں کو توڑنے کے برابر ہے۔ کیوں کہ معاہدہ توڑنے کا ہر واقعہ معاہدہ کے احترام کی روایت کو توڑنا ہے۔معاہدہ کے احترام پر سماجی انصاف کا پورا نظام قائم ہے۔ اگر معاہدہ کا احترام ختم ہوجائے تو سماج میںانصاف کے ماحول کاخاتمہ ہوجائے گا۔
— 041احسان کا بدلہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا: جب کوئی شخص تمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے تو تم اس کا بدلہ دینے کی کوشش کرو۔ اور اگر تم بدلہ نہ دے سکو تو تم اس کے لیے خدا سے دعا کرو۔
یہ شرافت کا تقاضا ہے کہ جب ایک انسان کے ساتھ دوسرا انسان کوئی بھلائی کا معاملہ کرے تو وہ اس کے بدلہ میںخود بھی اس کے ساتھ بھلائی کرے۔ اگر وہ آدمی اپنے حالات کے لحاظ سے اس قابل نہ ہو کہ وہ تلافی کا عمل کرسکے تب بھی اس کے لئے تلافی کا ایک کام موجود ہے۔ وہ یہ کہ وہ اپنے محسن کے حق میں خدا سے بہترین دعائیں کرے۔
— 042دوسرے کی مصیبت پر خوش نہ ہونا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مصیبت پر خوش نہ ہو ۔ہو سکتا ہے کہ خدا اس پر رحم فرمائے اور تم کو مصیبت میں ڈال دے۔ اس حدیث میں لوگوں کو ایک ایسی اخلاقی برائی سے روکا گیا ہے جو خود اپنی ہلاکت کے ہم معنٰی ہے۔کوئی انسان اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو اس کو دیکھ کر آپ کے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے۔ آپ کوچاہئے کہ اس کی مدد کریں یا کم سے کم اس کے لئے دعا کریں۔ اس کے برعکس دوسرے کی مصیبت پر خوش ہونا ایک انتہائی پست بات ہے۔ وہ اخلاقی گراوٹ کی بدترین صورت ہے۔
مزید یہ کہ کوئی آدمی اگر دوسرے کی مصیبت پر خوش ہو تو اس کا یہ فعل خدا کو سخت نا پسند ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا ناراض ہو کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ پہلے شخص کی مصیبت کو اس سے لے کر دوسرے شخص کے اوپر ڈال دی جائے۔ یہ بلا شبہہ کسی انسان کی بد نصیبی کی سب سے زیادہ بری صورت ہے۔
— 043اچھا گمان رکھنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ حسن ظن بھی حسن عبادت کی ایک صورت ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے بارے میں اچھا گمان رکھنا اتنا بڑا عمل ہے کہ وہ عبادت کے برابر ہے۔
کسی کے بارے میں اچھا گمان رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ آدمی جب کچھ لوگوں کے درمیان رہتا ہے تو بار بار ایسی باتیں پیش آتی ہیں جو بدگمانی پیدا کرنے والی ہیں۔ جس کی وجہ سے دوسرے آدمی کی ایک بری تصویر ذہن میں بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں خوش گمانی کا معاملہ کوئی آسان معاملہ نہیں۔وہی شخص دوسروں کے بارے میں خوش گمان رہ سکتاہے جو بدگمانی کے باوجود خوش گمانی پرقائم رہنا جانتا ہو۔ جس کے اندر یہ بلند ظرفی ہو کہ وہ کسی کے بارے میں بری خبریں سنے تب بھی وہ ایسا نہ کرے کہ اس کے خلاف بدگمان ہو کر بیٹھ جائے۔
— 044احسان ماننا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو شخص انسان کا شکر نہ کرے گا وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرے گا۔ احسان کے اعتراف کا نام شکر ہے۔یہ نفسیات اگر آدمی کے اندر موجود ہو تو اس کا اظہار بندوں کے معاملہ میں بھی ہوگا اور خدا کے معاملہ میں بھی۔ یہ ناممکن ہے کہ آدمی ایک کے اعتبار سے غیر شاکر ہو اور وہ دوسرے کے اعتبار سے شاکر بن جائے۔
احسان کا اعتراف کرنا ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ اس اعتراف کا نام شکر ہے۔ انسان کے اوپر سب سے بڑا احسان خدا کا ہے۔ اس لئے ہر انسان کو سب سے زیادہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس شکر کی پہچان یہ ہے کہ آدمی روزمرہ کی زندگی میں خود اپنے جیسے لوگوںکے احسان کا اعتراف کرتا ہو۔ جس آدمی کے اندر یہ اعتراف نہ پایا جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ خدا کے احسان کے معاملہ میں بھی شکر کرنے والا نہیں۔ایک اعتبار سے شکر اور دوسرے اعتبار سے نا شکری دونوں ایک دل کے اندر جمع نہیں ہوسکتے۔ آدمی کے اندر یا تو دونوں کے لیے شکر ہوگا یا دونوں کے لیے نہیں ہوگا۔
— 045غلطی کے بعد نادم ہونا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ہر انسان خطا کا رہے اور بہتر خطا کاروہ ہے جو غلطی کرکے نادم ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل غلطی غلطی کرنا نہیں ہے بلکہ اصل غلطی غلطی کرکے اعتراف نہ کرنا ہے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں آدمی کو ایسے حالات میں زندگی گزارنا ہوتا ہے جس میں بار بار غلطی کرنے کا امکان ہوتا ہے۔ اس لیے صحیح انسان کی اصل پہچان یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی غلطی نہ کرے بلکہ یہ ہے کہ وہ غلطی پر اصرار نہ کرے۔ غلطی کرنے کے بعد فوراً اس کا ضمیر جاگ اٹھے۔ اپنی غلطی پر اس کے اندر شدید ندامت پیدا ہوجائے۔ غلطی کرنا اس کے لیے احتساب کے جذبہ کو جگانے کا ذریعہ بن جائے۔
— 046ضمیر کی آواز
پیغمبر اسلام سے آپ کے ایک ساتھی نے نیکی اور بدی کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے جواب دیا کہ تم اپنے دل سے فتوی لے لو،یعنی اپنے دل سے پوچھ کر جان لو۔ نیکی وہ ہے جس پر تمہارا دل مطمئن ہو اور بدی وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹک پیدا کرے۔انسان کے اندر پیدائشی طورپر ایک صفت ہوتی ہے۔ یہ اس کا ضمیر ہے۔ ضمیر گویا سچائی کی عدالت ہے۔ ضمیر فوراً بتا دیتا ہے کہ کیاچیز حق ہے اور کیا چیز ناحق۔ کون سا رویہ درست ہے اور کون سا رویہ نادرست۔ آدمی اگر صرف یہ کرے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو سنے تو وہ اس کی رہنمائی کے لیے کافی ہو جائے گا۔
ضمیر ہمیشہ اپنا کام کرتا ہے۔ وہ ہر موقع پر بتاتا رہتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا ٹھیک نہیں۔ اگر آدمی غفلت نہ برتے تو اس کا ضمیر ہی اس کو سچائی کے راستہ پر قائم رکھنے کے لیے کافی ہو جائے گا۔
— 047امانت ادا کرو
قرآن میں جو احکام آئے ہیں ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اے لوگو،امانت داروں کو ان کی امانت ادا کرو، یہ قرآنی حکم ایک جامع حکم ہے اور اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔
امانت کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کا مال آپ کے پاس بطور امانت ہو تو اس کو اس کے مالک تک ٹھیک ٹھیک پہنچانا فرض ہے۔ اسی طرح کسی تعلیم گاہ کا ایک معلّم بھی امین ہے اور طلبہ اس کی امانت میں ہیں۔ معلّم کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمّہ داری کو سمجھے اور جو انسانی نسلیں اس کی امانت میں دی گئی ہیں ان کے حقوق ادا کرنے میںوہ کوئی کمی نہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی ملک کا حاکم بنے تو وہ ملک اس کی امانت میں آگیا اور وہ اس کا امین بن گیا۔ ایسی حالت میں حاکم پرفرض ہے کہ وہ ان امیدوں کو پورا کرے جن کے تحت اس کو یہ امانت دی گئی ہے۔
— 048امن کلچر
اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ جب ایک شخص دوسرے شخص سے ملے تو دونوں ایک دوسرے کو السلام علیکم کہیں۔ یعنی تمہارے اوپر سلامتی ہو، تمہارے اوپر سلامتی ہو۔ اسلام در اصل امن کلچر ہے اور السلام علیکم کہنا اس امن کلچر کی ایک علامت ۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر آدمی کے دل میں دوسرے کے لیے رحمت اور شفقت کے جذبات ہوں۔ ہر آدمی دوسرے آدمی کے لیے پر امن زندگی کی تمنارکھتا ہو۔ ہر آدمی کی یہ کوشش ہو کہ اس کا سماج امن اور سلامتی کا سماج بن جائے ۔یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات براہ راست یا بالواسطہ طورپر امن کے اصول پر مبنی ہیں کیوں کہ امن کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں امن نہ ہو وہاں ترقی بھی نہ ہوگی۔ امن کسی سماج کی ترقی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ پانی زمین کو زرخیز بنانے کے لیے۔
— 049امن پسندی
پیغمبر اسلام نے اپنی ایک نصیحت میں فرمایا: تم دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت مانگو۔ اس حدیث میں زندگی کا ایک بنیادی اصول بتایا گیا ہے۔ اس اصول کی اہمیت فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی۔کوئی انسان جب اجتماعی زندگی میںرہتا ہے تو ایک اور دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیںحتیٰ کہ دشمنی کی صورتیںپیدا ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ طریقہ درست نہیں کہ کوئی شخص دشمن نظر آئے تو آپ اس سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اس کے بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ دشمن سے بھی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ امن کے اصول پر چلتے ہوئے اس سے نباہ کرنے کی کوشش کی جائے۔
پر امن طریقہ ہر حال میں قابل عمل ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آدمی دشمنی کی صورت پیدا ہونے کے بعد منفی نفسیات کا شکار نہ ہو۔
— 050پر امن شہری
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ سے اور جس کی زبان سے لوگ محفوظ رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا سچّا بندہ وہ ہے جو سماج میںبے تشدد بن کر رہے۔ دوسروں کو نہ اس کی زبان سے کوئی چوٹ پہنچے اور نہ اس کے ہاتھ سے کسی کو تکلیف کا تجربہ ہو۔یہ انسانیت کا کم سے کم معیار ہے۔ انسانیت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ مرد اور عورت اپنے سماج میں اس طرح رہیں کہ ایک سے دوسرے کو فائدہ پہنچ رہا ہو۔ اوراگر کوئی شخص دوسروں کو فائدہ نہ پہنچاسکے تو اس کو کم ازکم یہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنے سماج میں بے مسئلہ انسان بن جائے۔ وہ دوسروں کو اپنے ضرر سے بچائے۔
کوئی آدمی جب اپنی زبان یا اپنے ہاتھ سے دوسروں کو نقصان پہنچانے لگے تو وہ اپنی انسانیت کو کھو دیتا ہے۔ وہ انسانیت کی سطح سے گر کر حیوانیت کی سطح پر آجاتا ہے۔ انسانیت کا سچا معیار یہ ہے کہ آدمی اتنا حسّاس ہو کہ وہ دوسروں کے لیے ضرر رساں بننے کا تحمّل نہ کرسکے۔
جو آدمی اس معاملہ میں حسّاس ہو وہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر خوش نہیں ہوگا بلکہ یہ سمجھے گا کہ میں نے خود اپنے آپ کو انسانیت کی سطح سے نیچے گرا لیا ہے۔ اگر کبھی اس کی ذات سے کسی کو نقصان پہنچ جائے تو وہ فوراً شرمندہ ہوجائے گا اور نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کو اس وقت تک چین نہ آئے گا جب تک کہ وہ اپنے بھائی سے معافی نہ مانگ لے یا اپنی کوتاہی کی تلافی نہ کرلے۔
— 051نقصان سے بچو
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اسلام میں نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ نقصان پہنچانا۔ یہ حدیث ایک اہم اجتماعی اصول کو بتاتی ہے۔ اس اصول کا تعلق مرد سے بھی ہے اور عورت سے بھی، فرد سے بھی ہے اور جماعت سے بھی، وہ قومی زندگی کے لیے بھی ہے اور بین اقوامی زندگی کے لیے بھی۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو مختلف حالات کے درمیان رہنا پڑتا ہے، کبھی موافق حالات اور کبھی مخالف حالات، کبھی خوشی کے حالات اورکبھی غم کے حالات۔ ایسی حالت میں کوئی مرد یا عورت دنیا میں کیسے رہے، اس کے لیے یہ ایک جامع اصول ہے۔ وہ یہ کہ ہر آدمی ایک طرف اس طرح بے ضرربن کر رہے کہ اس کی ذات سے کسی کو کو ئی تکلیف نہ پہنچے اور دوسری طرف وہ اتنا ہوشیار رہے کہ کسی دوسرے کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ اس کو نقصان پہنچا سکے۔
— 052زیادہ بڑی طاقت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔ ان الفاظ میں قدرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔وہ یہ کہ دنیا کو بنانے والے نے اس کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاںنرمی اور عدم تشدد سے کام بنے اور سختی اور تشدد سے کا م بگڑ جائے۔ نرمی اور عدم تشدد سے مفید نتیجہ نکلے اور سختی اور تشدد کا طریقہ بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
سختی اور تشدد کا طریقہ دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے مگر وہ کسی تعمیری مقصد کے حصول کے لیے مفید نہیں۔ تعمیر و ترقی کا کام ایک ایسا طریقِ کار چاہتا ہے جو شروع کرنے کے بعد مسلسل جاری رہے۔ پائدار عمل کی یہ صفت صرف غیر متشددانہ طریق کار میں پائی جاتی ہے۔
— 053صلح بہتر ہے
قرآن کی ایک آیت میںلوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ—صلح بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی نزاعی معاملہ پیش آئے تو اس وقت بہتر یہ ہے کہ لوگ ٹکراؤ کے طریقہ کواختیار نہ کریں بلکہ مفاہمت کے طریقہ کو اختیار کریں۔زندگی میںبار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی نزاع پیش آجاتی ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں کے لیے دو ممکن طریقہ ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ ٹکراؤ اور تشدد کے ذریعہ اس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسرا یہ کہ پر امن گفت و شنید کے ذریعہ آپس میں مصالحت کر لی جائے اور نزاع کو ابتدائی مرحلہ ہی میں ختم کر دیا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مصالحت کا طریقہ ہی دونوں فریقوں کے لیے مفید ہے۔ ٹکراؤ کا طریقہ ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ اس میں آپس کی نفرت بڑھتی ہے۔ اور جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے وہ بھی حل نہیںہوتا۔ اگر لوگ معاملہ کو نتیجہ کے پہلو سے دیکھیں تو وہ کبھی ٹکراؤ کا راستہ اختیار نہ کریں، کیوں کہ ٹکراؤ کا راستہ آدمی کو تباہی کے سوا اور کہیں نہیں پہنچاتا۔
— 054سماجی خدمت
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے جو سچے بندے ہیں ان کے مال میں سائل اور محروم کاحق ہوتا ہے۔ سائل سے مراد وہ شخص ہے جو بول کر سوال کرے اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خواہ سوال نہ کرے مگر اس کی معذوری اپنے آپ ایک عملی سوا ل بن گئی ہو۔
خدا کے سچے بندے اپنی کمائی کو اس وقت تک اپنے لئے درست نہیں سمجھتے جب تک وہ اس میں سے سائل اور محروم کو اس کا حصہ نہ دے دیں۔ یہ تعلیم ہر انسان کو اپنے سماج کا خادم بنا دیتی ہے۔ وہ جس سماج سے اپنے لیے لیتا ہے، اس سماج کو دینا بھی وہ اپنا فرض سمجھتاہے۔
سائل سے مراد عام ضرورت مند ہیں۔ محروم سے مراد خاص طورپر وہ لوگ ہیں جو کسی وجہ سے معذور(disabled) ہوگئے ہوں۔ معذور لوگوں کی خدمت کرنا اسلام کے نزدیک صرف سماجی خدمت نہیں ہے ۔یہ خود اپنے آپ کو خدا کی ابدی رحمت کا مستحق بناناہے۔
— 055تمام انسان ایک
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سن لو کہ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور سن لو کہ آدم مٹی سے تھے۔ یہ حدیث اس حقیقت کا اعلان ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔ ان میں کچھ ظاہری فرق ہو سکتے ہیں مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک اور دوسرے میں کوئی فرق نہیں۔
یہ حدیث انسانی تعلقات کے ایک اہم اصول کو بتاتی ہے۔ اوروہ مساوات کا اصول ہے۔ سارے انسان جب ایک ہی مادّہ سے پیدا ہوئے ہیں اور سب ایک مرد اور ایک عورت کی اولاد ہیںتو ان میں تفریق اور امتیاز اپنے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے مطابق، تمام مرد ایک دوسرے کے خونی بھائی (blood brothers) ہیں۔ اور تمام عورتیں ایک دوسرے کے لیے خونی بہن (blood sisters) ہیں۔یہ اصول انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کی تمام بنیادوں کو ڈھا دیتا ہے۔
— 056مشورہ کی اہمیت
قرآن میںمعاملات پر مشورہ کی تاکید کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام کے بارے میں روایت میںآتا ہے کہ آپ معاملات میں ہمیشہ لوگوں سے مشورہ کرتے تھے۔مشورہ کیا ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ کسی پیش آمدہ مسئلہ میں ہر ایک کی رائے معلوم کی جائے۔ اس طرح ہر آدمی کا علم اور تجربہ سامنے آجاتا ہے اور یہ ممکن ہوجاتاہے کہ زیادہ بہتر انداز میںمعاملہ کو حل کرنے کی تدبیر کی جائے۔ زیادہ صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ کام کا آغاز کیاجائے۔ مشورہ کے بغیر جو کام کیا جائے وہ ایک شخص کی سوچ پر مبنی ہوگا اور مشورہ کے بعد جو کام کیا جائے اس میں کئی لوگوں کی سوچ شامل ہوجائے گی۔
مشورہ در اصل اجتماعی سوچ کا دوسرا نام ہے۔ انفرادی سوچ اور اجتماعی سوچ میں جوفرق ہے وہی فرق مشورہ کے بغیر کام اور مشورہ کے ساتھ کام میں پایا جاتا ہے۔ مختلف اسباب سے ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کا ذہن ہر پہلو کو سمجھ نہیں پاتا۔ مشورہ اسی کمی کی تلافی ہے۔ مشورہ کے ذریعہ یہ ممکن ہوجاتاہے کہ معاملات میں زیادہ درست رائے تک پہنچا جائے۔ پیشگی طورپر غلطیوں سے بچنے کی تدبیر کرلی جائے۔ مشورہ کامیاب منصوبہ بندی کا ایک اہم جزء ہے۔
— 057ترک کلام نہیں
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی سے جھگڑا ہوجائے اور ترک کلام کی نوبت آجائے تو زیادہ سے زیادہ اس کو تین دن کی معافی مل سکتی ہے۔ تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھنا کسی حال میں جائز نہیں۔اس معاملہ میںتین دن کی رخصت اس لیے دی گئی ہے کہ غصہ زیادہ سے زیادہ تین دن تک رہ سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ انا کا سوال بن جاتا ہے ۔کسی کو غصّہ کی معافی مل سکتی ہے مگر اَنانیت کی معافی کسی کے لیے نہیں۔ غصہ ایک فطری کمزوری ہے جووقتی طورپر پیدا ہوتی ہے مگر انانیت ایک برائی ہے۔ انانیت ایک سرکشی کا معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غصہ قابل معافی ہے مگر انانیت اور سرکشی قابل معافی نہیں۔ وقتی غصہ کے لئے آدمی کے پاس عذر ہوسکتا ہے مگر انانیت اور سرکشی ایک ایسا جرم ہے جس کے لیے کوئی بھی قابل قبول عذر موجود نہیں۔
— 058ماننے سے پہلے جانچنا
قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جب تمہیں کسی کے بارے میںکوئی خبر ملے تو پہلے اس کی تحقیق کرو۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ تحقیق کے بغیر کسی خبر کو مان لینا ایک غیر ذمہ داری کا فعل ہے۔
عام طورپر لوگوں کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ جو سنا یا جو کچھ پڑھا اس کو فوراً مان لیا۔ حالاں کہ تجربہ بتاتا ہے کہ خبر دینے والا اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ ساری بات کو جانے بغیر خبر نشر کردیتا ہے۔ جب کہ تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ خبر بھی ادھوری تھی اور اس سے جو نتیجہ نکالا گیا وہ بھی ادھورا تھا۔
تحقیق کے بغیر کسی خبر کو مان لینا اکثر حالات میںنقصان کا سبب ہوتا ہے۔ اس سے بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ایک غلط خبر لڑائی اور فساد کا سبب بن جاتی ہے۔ایسی حالت میں ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ خبر کی پوری تحقیق کی جائے، تحقیق کے بغیر کسی خبر کو درست نہ مان لیاجائے۔
— 059تمام انسان بھائی بھائی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اے خدا، میں گواہی دیتا ہوں کہ تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ حدیث انسانی تعلق کی بنیاد کو بتاتی ہے۔ اس کے مطابق، تمام دنیا کے لوگ ایک خاندان کے مانند ہیں۔ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دوسرے کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ اپنے گھر کے اندر اپنے بھائی سے کرتا ہے۔یہ اصول عالمی برادری کا اصول ہے۔ یہ اصول اپنے اور غیر کی تقسیم کو مٹا دیتاہے۔ اس کے بعد سب اپنے ہوجاتے ہیں۔ کوئی کسی کا غیر نہیں رہتا۔ یہ اصول تمام انسانی نسل کو ایک ایسے مضبوط رشتے میں باندھ دیتا ہے جس سے زیادہ مضبوط کوئی اور رشتہ نہیں۔
— 060تین چیزیں حرام
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ایک انسان پر دوسرے انسان کی تین چیزیں حرام ہیں—اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی آبرو۔یہ اصول ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان آزادی کی حد قائم کرتا ہے۔ ہر انسان آزاد ہے۔ مگر اس کی آزادی وہاںختم ہوجاتی ہے جہاں وہ دوسرے کی جان مال اور آبرو کے لیے خطرہ بن جائے۔
انسان کواس دنیا میں آزادی دی گئی ہے کیوں کہ آزادی کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ آزادی محدود ہے نہ کہ لامحدود۔ کسی آدمی کو اسی وقت تک آزادی حاصل ہے جب تک وہ دوسرے کی جان مال اور آبرو کو نقصان نہ پہنچائے۔ جیسے ہی کوئی آدمی ان تین چیزوں میںدوسروں کے لیے خطرہبنے، اس کی آزادی ختم ہو جائے گی۔ وہ آزادی کے فطری حق سے محروم قرار دے دیا جائے گا۔
— 061ہر شخص ذمہ دار ہے
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سن لو، تم میں سے ہر شخص ایک چرواہا ہے۔ اور تم میں سے ہر شخص سے اس کے گلّہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس حدیث میں چرواہے اور گلّے کی مثال سے زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ جس طرح چرواہے کا گلّہ ہوتاہے اسی طرح ہر انسان کا اپنے حالات کے اعتبار سے ایک گلّہ ہے۔ اور اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے اس گلّہ کی چرواہی میں اپنی ذمہ داری کو پو را کرے۔
مثلاً ایک گھر کا جو بڑا شخص ہے اس کا گلّہ اس کا خاندان ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے خاندان کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔ اسی طرح ایک اسکول یا کالج کا ایک ٹیچر اپنے طلبہ کا ذمہ دار ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کے حق میںاپنی تعلیمی ذمہ داری کو بھر پور طور پر ادا کرے۔ اسی طرح ایک لیڈر اپنے پیروؤں کا ذمہ دار ہے۔ اس کا فرض ہے کہ جو لوگ اس کا ساتھ دے رہے ہیں وہ پوری طرح ان کا خیر خواہ بنے۔ اسی طرح کسی ادارے کا صدر اپنے ادارے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ذمہ دار ہے۔اس کا فرض ہے کہ وہ ان متعلقین ادارہ کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے۔
— 062ہر ایک کی مدد
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ لوگوں نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنا تو ہم جانتے ہیں مگر ہم ظالم کی مدد کیسے کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تم ظالم کو اس کے ظلم سے روکو۔اسلام ہر انسان کے اندر یہ اسپرٹ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ دوسرے انسان کا خیر خواہ ہو۔ اسی خیر خواہی کی عملی صورت کا نام مدد ہے۔ مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے بچایا جائے۔ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو اس کے ظلم سے روکا جائے۔ظلم سے روکنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ٹکراؤ شروع کردیا جائے۔ ظالم کی حقیقی مدد یہ ہے کہ اس کی اصلاح کے لیے دعا کی جائے۔ اس کو خیر خواہانہ نصیحت کی جائے۔ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ اس کواپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ ظلم کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔ ظالم کی مدد ظالم سے نفرت کرنا نہیں ہے بلکہ ظالم کے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے۔ نفرت ظلم کو بڑھاتی ہے اور خیر خواہی ظلم کا خاتمہ کردیتی ہے۔
— 063نرم سلوک
پیغمبر اسلام نے اپنے ساتھیوں کو ایک مہم پر بھیجا اوران کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا کیوں کہ تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، تم دشواری پیدا کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ اس حدیث کا تعلق ہر شعبہ میںکام کرنے والوں سے ہے۔ اس میں ہر ایک کے لیے نصیحت ہے۔ مثلاً ایک افسر کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ اسی اصول پر کام کرنا ہے۔ ایک ٹیچر کو اپنے طلبہ کے ساتھ یہی معاملہ کرنا ہے۔ ایک منیجر کو اپنی کمپنی والوں کے ساتھ اسی طرح پیش آنا ہے، وغیرہ۔
ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اس نصیحت کو دھیان میں رکھے۔ وہ یہ سمجھے کہ وہ جہاں ہے وہاں اس کو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ اسے لوگوں کو مشکل میں نہیں ڈالنا ہے بلکہ ان کے لیے آسانی کا راستہ تلاش کرنا ہے۔
— 064رحم کا فارمولا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم زمین والوں کے اوپر رحم کرو، آسمان والا تمہارے اوپر رحم کرے گا۔ یہ ایک سادہ اصول ہے جو ہر مرد اور عورت کے اندر خیر کے کام کا وہ جذبہ ابھارتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
ہر انسان خدا کی مدد کا محتاج ہے۔ ہر عورت اورمرد کو ضرورت ہے کہ وہ زندگی کے مختلف مراحل میں خدا کی مدد پاتا رہے۔ کوئی بھی شخص اس دنیا میں خدا کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اپنے آپ کو خدا کی مدد کا مستحق بنانے کی سب سے آسان صورت یہ ہے کہ آدمی جو کچھ خود اپنے لئے خدا سے چاہتا ہے وہی وہ دوسروں کو دینے لگے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کی مدد کرے تو اس کو بھی چاہئے کہ وہ دوسروں کا مدد گار بن جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے تو وہ بھی دوسروں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کی کوتاہیوں سے درگزر کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ بھی دوسروں کی کوتاہیوں سے در گزر کرتا رہے۔
انسان کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کرنا گویا ایک عملی دعا ہے۔ یہ عمل کی زبان میں خدا سے یہ کہنا ہے کہ خدایا، میں نے تیرے بندوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کیا، تو تو بھی میرے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ فرما۔
— 065باہمی احترام
قرآن میںپیغمبر کی زبان سے کہلایا گیا ہے کہ اے لوگو، تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ کسی سماج میںجب کئی مذہب کے لوگ رہتے ہوں تو ان کے درمیان معتدل ماحول کس طرح قائم کیا جائے۔ اس کا سادہ فارمولا یہ ہے کہ —ایک کی پیروی کرو اور ہر ایک کا احترام کرو:Follow one and respect all.۔
مشترک مذہبی سماج میں امن قائم کرنے کا یہی واحد اصول ہے۔ یہ دنیا اختلاف کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں اختلافات کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں قابل عمل فارمولا صرف ایک ہے اور وہ tolerance ہے۔ یعنی ہر ایک کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی پسند کے مطابق، مذہب یا کلچر کو اختیار کرے۔ اختلاف کے موضوع پر ایک دوسرے سے پر امن ڈائیلاگ ہوسکتا ہے مگر اختلاف کو مٹانے کی کوشش صرف مزید اختلاف پیدا کرے گی، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
— 066مذہبی احترام
پیغمبر اسلام کے زمانہ میں مدینہ میں کچھ یہودی قبیلے آبادتھے۔ ایک دن پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ ایک راستے سے ایک جنازہ گزر رہا ہے۔ پیغمبر اسلام اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازہ کو دیکھ کر آپ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ آپ کے ایک ساتھی نے کہا کہ اے خدا کے رسول، یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا وہ انسان نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان ہر حال میںقابل احترام ہے، خواہ وہ ایک مذہب کا ہو یا دوسرے مذہب کا، وہ ایک قوم کا فرد ہو یا دوسری قوم کا۔ کسی بھی عذر کی بنا پر اس کا احترام ختم نہیں کیا جاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ایک ہی خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے تمام انسان یکساں طور پرقابل احترام ہیں۔
— 067دشمن میں دوست
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص تم کو اپنا دشمن دکھائی دے تو تم اس سے جوابی دشمنی نہ کرو بلکہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اس یک طرفہ سلوک کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن تمہارا دوست بن جائے گا۔ اسلام کی یہ تعلیم بتاتی ہے کہ دشمنی کوئی ابدی چیز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دشمن انسان میںایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اپنے یک طرفہ حسن سلوک سے اس امکان کو واقعہ بناؤ، اپنے دشمن کو اپنے دوست میں تبدیل کرلو۔
جوابی حسن سلوک آدمی کے ضمیر کو جگاتا ہے اور جس آدمی کا ضمیر جاگ اٹھے وہ اس کے سوا کسی روش کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ دشمنی کو چھوڑ کر آپ کا دوست بن جائے۔
— 068نرمی کے بغیر
پیغمبر اسلام نے فرمایاکہ جوشخص نرمی سے محروم ہے وہ ہر بھلائی سے محروم ہے۔ یہ حدیث ایک جامع اخلاقی اصول کو بتاتی ہے اور وہ بات چیت اور تعلقات میںنرمی ہے۔
جو آدمی نرمی کا انداز اختیار کرے وہ ہر معاملے میں اور ہمیشہ کامیاب رہے گا۔ کیوں کہ کوئی شخص ایسے آدمی کا دشمن نہیں بنے گا۔ اس کے برعکس جو آدمی دوسروں سے معاملہ کرنے میںنرمی کا انداز نہ برتے اس کا ہر کام بگڑتا چلا جائے گا کیوں کہ اس سے ہر ایک کو شکایت ہوجائے گی۔ اس کو مخالفوں اور دشمنوں کے درمیان رہنا پڑے گا۔ وہ گھر کے اندر اورباہر دونوں جگہ غیر ضروری مسائل میں الجھا رہے گا۔
— 069سادگی کی عظمت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سادگی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ سادگی کو ایمان کا حصہ بتانا سادگی کی انتہائی اہمیت کو ظاہر کرتاہے۔ سادگی بامقصد انسان کا طریقہ ہے۔ با مقصد انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ سہولت اور عیش کی چیزوں میں مشغول ہوجائے اور اس طرح اپنے وقت اور طاقت کا ایک حصہ اس میں لگادے۔سادگی کا مطلب ہے— اپنی ضرورت کو بالکل ناگزیر چیزوں تک محدود رکھنا۔ اپنے آپ کو کسی غیر ضروری چیز کا عادی نہ بنانا، اپنے آپ کو آرام والی چیزوں سے دور رکھنا۔ سادگی در اصل ایک اعلیٰ تدبیر ہے۔ سادگی کے ذریعہ یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی کو مکمل طورپر صرف اپنے مقصد میں لگائے۔ اس کی زندگی کا کوئی حصہ مقصد کے علاوہ کسی اور چیز میں ضائع نہ ہو۔
کسی انسان کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اس کے اندر سوچنے کا عمل (thinking process) بلا روک ٹوک جاری رہے۔ سادگی اس ذہنی عمل میں بے حد مددگار ہے۔ سادگی آدمی کے ذہن کو ہر دوسری چیز سے فارغ رکھتی ہے۔
— 070صفائی کی اہمیت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ صفائی بھی ایمان کاایک شعبہ ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صاف ستھرا رہنا اور اپنے ماحول کو صاف ستھرا بنانا اسلام میںکتنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ آدمی اپنے قلب اور روح کو پاک کرے۔ وہ برے خیالات کو چھوڑ کر پاکیزہ خیالات میں جینے لگے۔ وہ اپنے داخلی وجود کو اسی طرح اچھے خیالات سے پاکیزہ بنائے جس طرح کوئی شخص اپنے جسم کو پانی سے دھو کر پاکیزہ بناتاہے۔
کوئی آدمی جب اپنے داخل کو صاف ستھرا بنائے گا تو فطری طورپر وہ یہ چاہے گا کہ اس کا خارج بھی صاف ستھرا رہے۔ وہ اپنے جسم اور اپنے کپڑے کی صفائی کا اہتمام کرے گا۔ وہ اپنے گھراور اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرے گا۔ صفائی ایسے انسان کا مستقل مزاج بن جائے گی۔
— 071بیچ کا راستہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سب سے بہتر طریقہ بیچ کا طریقہ ہے (خیر الامور اوسطہا) اس تعلیم کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بہتر راستہ بیچ کا راستہ (middle path) ہے۔
موجودہ دنیا میں آدمی کو بہت سے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں بہتر طریقہ وہ ہے جس میں آدمی کا راستہ کسی رکاوٹ کے بغیر طے ہوتا رہے اور کسی سے ٹکراؤ بھی پیش نہ آئے ۔ اسی راستہ کو بیچ کا راستہ کہا جاتا ہے۔بیچ کا طریقہ ہمیشہ معتدل طریقہ ہوتاہے۔ معتدل طریقہ ہمیشہ قابل عمل ہوتا ہے۔ ایسے طریقہ میںآدمی اپنے آپ کو کسی بڑے خطرہ میں ڈالے بغیر آگے بڑھ سکتاہے۔ معتدل طریقہ میںکسی ایسے بڑے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا جس کے بعد آدمی کا پورا منصوبہ بکھر جائے اور آخر کار وہ مایوسی کا شکار ہو کر بیٹھ جائے۔
— 072تواضع سے بلندی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جوشخص تواضع کا طریقہ اختیار کرے خدا اس کو بلندی عطا کرتا ہے۔ یہ خدا کا مقرر کیا ہوا ایک قانون ہے۔ اس کے مطابق، تواضع کی روش آدمی کے لیے ترقی کے راستے کھولتی ہے۔ اس کے برعکس گھمنڈ کا طریقہ آدمی کو پستی کی طرف لے جاتا ہے۔تواضع کا فائدہ دو طرفہ ہے۔ تواضع کرنے والے کواس کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ اس کے اندر روحانیت جاگتی ہے، اس کے اندر اعلیٰ انسانی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ وہ خدا کے فیضان کو وصول کرنے لگتا ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندی کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ چیزوں کو بے آمیز انداز میں دیکھ سکے۔
وہ شخص جس سے تواضع کا معاملہ کیاجائے وہ اپنے ضمیر کی آواز کے تحت تواضع کرنے والے کی عظمت کو ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ وہ اس کے مقابلہ میں سرکشی کرنے کا جذبہ کھو دیتا ہے۔ وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کی اخلاقی بڑائی کو مانے۔ وہ اپنے مقابلہ میںاس کو زیادہ بڑا انسانی درجہ دے۔
تواضع صرف ایک روش ہے۔ اس میں آدمی کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ تواضع کرکے اسے کچھ کھونا نہیں پڑتا۔ مگر کچھ نہ کھو کر وہ سب کچھ حاصل کرلیتاہے۔ تواضع کے خلاف روش اگر جھوٹی بڑائی ہے توتواضع کے مطابق روش سچی انسانیت۔
— 073فضول خرچی نہیں
قرآن میںاسراف (فضول خرچی) سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی حقیقی ضرورت کے بغیر خرچ کرنا۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ یہ بھی اسراف ہے کہ تم ہر وہ چیز کھاؤ جس کو کھانے کی خواہش تمہارے دل میں پیدا ہو۔ (إن من السرف أن تأکل کل مااشتہیت)
آدمی اپنی کمائی کو اگر حقیقی ضرورتوں میں خرچ کرے تو یہ اس کا جائز حق ہے۔ لیکن اگر وہ خواہش اور لذت کی بنا پر خرچ کرنے لگے تو پھر اس کا حق کسی کو نہیں۔ خدا نے اگر کسی کو زیادہ مال دیا ہے تو اس لیے نہیں دیا ہے کہ وہ اس کو صرف اپنے اوپر خرچ کرتا رہے۔ مال خدا کی امانت ہے اور اس کو چاہئے کہ اس امانت کو وہ انہی مدوں میں خرچ کرے جو خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہیں۔جو آدمی ایسا نہ کرے وہ گویا خدا کی امانت میں پورا نہیں اترا۔
— 074اجتماعی برکت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ایک شخص کا کھانا دو آدمی کے لیے کافی ہے اور دو آدمی کا کھانا تین آدمی کے لیے کافی ہے۔ اس حدیث میں مل جل کر رہنے اور اجتماعی طورپر عمل کرنے کی برکت کو بتایا گیا ہے۔
اس حدیث میں کھانے کی مثال ایک علامتی مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کاتعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ لوگ اگر ایک دوسرے کے ساتھ شرکت کرکے کام کریں اور مل جل کر رہیں تو تھوڑے لوگ بھی زیادہ بڑے بڑے کام کریں گے۔ تھوڑے سرمایہ میں بھی بہت سے لوگوں کونفع حاصل ہوگا۔ کم وسائل میں بھی زیادہ فائدہ حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ہر آدمی اگر الگ الگ اپنا کام کرے تو وہ محدود طور پر صرف اپنے آپ کو فائدہ پہنچائے گا۔ لیکن یہی افراد اگر ایک دوسرے کو شریک کرکے کام کرنے لگیں تو مجموعی طورپر سب کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچے گا۔
— 075انصاف کا تقاضا
پیغمبر اسلام نے ایک بار مدینہ کے ایک شخص سے قرض لیا ۔اس کے بعد وہ ایک دن آیا اور آپ سے قرض کی ادائیگیکے لیے سخت زبان استعمال کی۔ پیغمبر اسلام کے ساتھیوں نے چاہا کہ اس کو اس گستاخی کی سزا دیں۔ مگر آپ نے انہیں روک دیا۔ آپ نے کہا کہ حق دار کو بولنے کا اختیار ہے۔
یہ دوسرے کے ساتھ رعایت کرنے کا سبق ہے۔ دوسرا آدمی اگر کسی وجہ سے غصہ میں آجائے یا سخت کلامی کرے تو سننے والے کو اس کے ساتھ رعایت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اگر آدمی دوسرے کی سخت کلامی کو سننے کے لیے تیار نہیںتو اس کو چاہئے کہ وہ اس سے قرض جیسا معاملہ بھی نہ کرے۔ قرض لینے کے بعد اس کو بہر حال قرض دینے والے کو یہ حق دینا ہوگا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار جس طرح کرنا چاہتا ہے کرے۔ اس طرح کے معاملہ میں قرض لینے والے کو تحمّل کی روش اختیار کرنا چاہئے۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ برعکس طورپروہ قرض دینے والے کو تحمّل کی نصیحت کرے۔
— 076حق سے زیادہ نہ لینا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ دو آدمی اگر میرے پاس ایک زمین کا مقدمہ لے کر آئیں۔ ان میں سے ایک شخص زیادہ ہوشیاری کے ساتھ اگر اپنا مقدمہ پیش کرے اور اس کی وجہ سے زمین اس کو دے دی جائے، جب کہ حقیقت میں وہ زمین اس کی نہ ہو تو گویا کہ اس کو آگ کا ایک ٹکڑا دیا گیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز آدمی کا واقعی حق نہ ہو، اس کے معاملہ میں اگر وہ کسی تدبیر سے اپنے موافق عدالتی فیصلہ لے لے تب بھی وہ چیز اس کی نہ ہوگی۔ کوئی عدالتی فیصلہ حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز پر ناجائز قبضہ ہر حال میںبرا ہے۔ عدالت کا کوئی فیصلہ ناجائز کوجائز نہیں بنا سکتا۔ اگر آدمی کا ضمیر یہ کہتا ہو کہ فلاں چیز میری نہیں ہے تو ایسی حالت میںاس کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اس چیز کو حق دار کے حوالہ کردے، نہ کہ غلط تدبیر کے ذریعہ ناجائز طور پر دوسرے کی چیز پر قابض ہونے کی کوشش کرے۔ضمیر سب سے بڑی عدالت ہے۔ سب سے بڑا فیصلہ وہ ہے جو ضمیر کی عدالت سے جاری کیا جائے۔
— 077جواپنے لیے وہی دوسروں کے لیے
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مومن وہ ہے جودوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرے جو وہ خوداپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ سماجی اخلاق کا ایک نہایت جامع اصول ہے۔ ہر آدمی یہ جانتا ہے کہ دوسروں کی طرف سے کون سارویہ اس کو پسند ہے اور کون سا رویہ نا پسند۔ ایسا ہی وہ دوسروں کے ساتھ کرنے لگے۔ وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو سلوک وہ اپنے لیے چاہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اس سلوک سے بچے جس کو وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔
سماجی اخلاق کا یہ اصول اتنا سادہ اور فطری ہے کہ وہ ہر عورت اور ہر مرد کو معلوم ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ ہر آدمی اس معاملہ میں حسّاس ہوجائے۔ جس حسّاسیت کا مظاہرہ وہ اپنے بارے میں کرتا ہے اس حسّاسیت کا مظاہرہ وہ دوسروں کے بارے میں کرنے لگے۔ لوگ اگر اس ایک اخلاقی اصول کو پکڑ لیں تو پورا سماج خیر وامن کا سماج بن جائے۔
— 078معاشی استقلال
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا جب کسی کے لیے رزق کا ایک ذریعہ بنائے تو وہ خود سے اسے نہ چھوڑے، إلاّ یہ کہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے اسے چھوڑنا پڑے۔اسلام کی تعلیم کے مطابق، رزق کا تعلق خدا سے ہے۔ اس لیے جب کسی انسان کو رزق کا ایک ذریعہ مل جائے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ اس پر قائم رہے۔ اگر وہ کسی حقیقی سبب کے بغیر اس کو چھوڑے گا تو وہ خدا کی مدد سے محروم ہو جائے گا۔
معاشی زندگی میںکامیابی کا راز استقامت ہے۔ اس حدیث میں اسی استقامت اور استقلال کی تعلیم دی گئی ہے۔ معاشی زندگی میںکامیابی ہمیشہ لمبی مدت تک محنت کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ حال کے بجائے مستقبل پر نظر رکھے۔ اس طرح اس کے اندر استقلال پیدا ہوگا اور وہ ضرور کامیابی کے درجے تک پہنچے گا۔ یہ حدیث گویا اس بات کی تعلیم ہے کہ معاشی سرگرمیوں میںمستقبل بینی کا مزاج پیدا کرو۔ صرف حال کو دیکھ کر بے حوصلہ نہ ہوجاؤ۔
— 079رزق خدا کی طرف سے
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ زمین پر جتنے بھی جاندار ہیں ہر ایک کی روزی خدا کے ذمّے ہے۔ پیغمبراسلام نے کہا کہ خدا نے کسی مرد یا عورت کا جورزق لکھ دیاہے کوئی اس کو چھین نہیں سکتا۔ کوئی شخص نہ اس میں کمی کر سکتا ہے اور نہ زیادتی۔یہ اعلان ہر مرد اور عورت کو رزق کی گارنٹی دے رہا ہے جس کو کوئی اس سے چھیننے والا نہیں۔ جس آدمی کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے اس کو اس کے ذریعہ دو فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک طرف اس کو یہ یقین حاصل ہوگا کہ جو کچھ اسے مل رہا ہے وہ اس کو بہرحال مل کر رہے گا۔ اس عقیدہ کی بنا پر وہ دنیا میں اس بھروسہ کے ساتھ کام کرے گا کہ میری کوششوں کا نتیجہ مجھے ضرور ملنے والا ہے۔ کوئی بھی اتنا طاقت ورنہیں کہ وہ میرے اور میرے رزق کے درمیان حائل ہوسکے۔ رزق میرا ایک ایسا حق ہے جو خود دنیا کے مالک نے میرے لیے لکھ دیا ہے۔ پھر کون ہے جو اس لکھے کو مٹا سکے۔
یہ عقیدہ آدمی کے اندر سے مایوسی کے احساس کو نکال دیتا ہے۔ وہ عین مسائل کے درمیان کھڑا ہو کر کہہ سکتاہے کہ— کوئی شخص میرے ایک جاب کو مجھ سے چھین سکتا ہے مگر کوئی شخص اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ میری قسمت کو مجھ سے چھین سکے۔
One can take away my job. But no one has the power to take away my destiny.
— 080قناعت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ وہ شخص کامیاب ہوا جس کو خدا نے ضرورت کے بقدر رزق دیا اور وہ اس رزق پر قانع رہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کامیابی کا راز ملے ہوئے پر قانع رہنا ہے نہ کہ نہ ملے ہوئے کے غم میںپڑے رہنا۔دنیا میںجب بھی کوئی شخص صحیح اصول کے مطابق کمانے کی کوشش کرے تو وہ ضرور اتنی معاش حاصل کرلیتا ہے جو اس کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔ اگر وہ اس ملے ہوئے پر راضی ہو جائے تو اس کا فائدہ اس کو ذہنی سکون کی صورت میں ملے گا۔ لیکن سکون ہمیشہ قناعت سے ملتاہے اورقناعت کا مطلب ہے ملے ہوئے پر راضی ہوجانا۔
اس کے برعکس جو شخص ملے ہوئے کو کم سمجھے اور نہ ملے ہوئے کی طرف دوڑتا رہے وہ کبھی مطمئن نہیںہوگا۔ اس لئے کہ دنیا میںچیزوں کی کوئی حد نہیں۔ آدمی خواہ کتنی ہی زیادہ چیزوں کو اپنے پاس جمع کرلے پھر بھی کچھ چیزیں باقی رہیں گی جواس کو یہ لالچ دلائیں گی کہ مجھے یہ بھی حاصل کرنا چاہئے۔ اس طرح وہ ہمیشہ اور زیادہ کی لالچ میں پڑا رہے گا۔ وہ اسی طرح بے سکونی کی زندگی جئے گا یہاں تک کہ وہ اسی حال میں مرجائے گا۔
081 — کسی سے نہ مانگنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم کسی سے کچھ نہ مانگو۔ کیوں کہ نیچے کے ہاتھ کے مقابلہ میں اوپر کا ہاتھ زیادہ بہتر ہے۔ یہ اعلیٰ انسانیت کی تعلیم ہے۔ اعلیٰ انسانیت یہ ہے کہ آدمی خود اپنے آپ پر انحصار کرے۔ وہ دوسرے سے کوئی چیز نہ مانگے۔
مانگنا کوئی سادہ بات نہیں۔ وہ اخلاقی گراوٹ کی ایک علامت ہے۔ جو آدمی دوسروں سے مانگے وہ گویا آسان رزق پر جینا چاہتا ہے۔ ایسے آدمی کو مانگنے کی عادت کی یہ قیمت دینی پڑے گی کہ اس کی اپنی صلاحیت زیادہ نہ ابھر سکے۔ اس کے اندر چھپی ہوئی طاقتیں دبی رہ جائیں۔ اس کے اندر محنت کا جذبہ سرد پڑ جائے۔ وہ اس کمزوری کا شکار ہوجائے جس کو تن آسانی کہا جاتا ہے۔زندگی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ پر بھروسہ کرے۔ وہ اپنے آپ کو محنت کاعادی بنائے۔ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ وہ دوسروں کو دینے والا بنے نہ کہ دوسروں سے لینے والا۔
082 — تجارت رزق کا بڑا ذریعہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا: تسعۃ اعشار الرزق فی التجارۃ (رزق کا نوّے فیصد حصہ تجارت میںہے)۔ اس حدیث میںفطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، تجارت میں رزق کا سب بڑا حصہ رکھا گیا ہے۔
یہ حدیث ہر آدمی کے لیے امید کا خزانہ ہے۔ اگر کسی آدمی کو ملازمت نہ ملے یا وہ وراثتی حقوق کو نہ پائے یا اور دوسرے ذرائع سے وہ کچھ پانے کی امید نہ رکھتا ہو تواس کوتجارت شروع کردینا چاہئے۔ تجارت کے ذریعہ وہ اتنا زیادہ پالے گا جو وہ دوسرے کسی ذریعہ سے نہیں پاسکتا تھا۔
083 — محنت کی روزی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اللہ اپنے اس بندہ سے محبت کرتا ہے جو محنت کرکے اپنی روزیکمائے۔ یہ حدیث محنت کی روزی کی اہمیت کو بتاتی ہے۔محنت کرکے روزی کمانا کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محنت کی روزی تمام انسانی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ محنت کی روزی سب سے زیادہ جائز روزی ہے۔ محنت سے روزی کمانا آدمی کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ محنت کی روزی آدمی کے اندرسادگی کا مزاج پیدا کرتی ہے۔ محنت کی روزی دوسروں کو سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔ محنت کی روزی آدمی کو سہولت پسندی سے بچاتی ہے۔ محنت کی روزی شخصیت کی تکمیل کا اہم ذریعہ ہے۔ اگر مجبوری نہ ہو تب بھی آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے لیے محنت کا طریقہ اختیار کرے، وہ ہر حال میں اپنے آپ کو آرام طلبی سے بچائے۔
084 — زبان پر روک
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو دہرانے لگے۔ یہ حدیث آداب کلام کے ایک اہم اصول کو بتاتی ہے۔ وہ یہ کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ سوچے بغیر کبھی نہ بولے۔
اجتماعی زندگی میںبار بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے خلاف بہت سی باتیں سنتے ہیں۔ یہ تجربہ ہے کہ سنی ہوئی بات جب دہرائی جاتی ہے تو اکثر وہ کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ بات اتنی بدل سکتی ہے کہ ایک سچی بات جھوٹی بات بن جائے۔ اس لیے صرف سننے کی بنیاد پر آدمی کو اسے کبھی دہرانا نہیں چاہئے۔ اچھی خبر کو دہرانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر بری خبر ہو تو اس کو اس وقت تک نہیں دہرانا چاہئے جب تک تحقیق کرکے پوری بات معلوم نہ کر لی جائے۔
085 — غیبت کا کفارہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ غیبت کاایک کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لیے مغفرت کی دعا کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے۔غیبت یہ ہے کہ آدمی کی غیر موجودگی میںاس کی کسی برائی کو بیان کیا جائے۔
غیبت ایک بد خواہی کا عمل ہے۔ جب کسی آدمی سے غیبت کی غلطی ہو جائے تواس کو چاہئے کہ وہ اس آدمی کے لیے خیر خواہی کا معاملہ کرے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔ اور خیر خواہی کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ اس کے حق میں اچھی دعائیں کرے۔ یہ غیبت کرنے والے کی طرف سے بد خواہی کے بعد خیر خواہی کا ایک معاملہ ہوگا جو اس کے گناہ کو اس سے پاک کردے گا۔
086 — جامع نصیحت
پیغمبر اسلام نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ کیا میںتم کو ایک جامع نصیحت کروں۔ اس نے کہا کہ ہاں اے خدا کے رسول۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنی زبان کی حفاظت کرو۔
زبان کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جو کچھ بولے سوچ کر بولے۔ وہ ایسی بات نہ کہے جو دوسروں کو ستانے والی ہو۔ ایسی بات جس سے سماج میں برائی پھیلے اس سے وہ ہر حال میں اپنے آپ کو بچائے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر سماجی برائیاں زبان کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔ زبان کو کنٹرول میںرکھنا سماجی برائیوں کا دروازہ بند کرتا ہے اور زبان پر کنٹرول نہ کرنا سماجی برائیوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ سنجیدگی کی پہچان ہے کہ آدمی اپنی زبان کو ہمیشہ محتاط انداز میں استعمال کرے۔ زبان کا غلط استعمال یہ ہے کہ آدمی دوسروں کی برائی کرے، وہ دوسروں کے ساتھ سخت کلامی کرے۔ وہ دوسروں کے عیب کو ڈھونڈ کر اسے لوگوں میں پھیلائے۔
087 — صبر و اعراض
اسلام کی ایک تعلیم صبر ہے۔ قرآن میں بار بار صبر کی تاکید کی گئی ہے۔ مزید فرمایا کہ اپنے رب کے لیے صبر کرو (ولربّک فاصبر) اسی طرح فرمایا کہ صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ کے لیے ہے۔ جب ایک آدمی صبر کرتاہے تو بظاہر اس کا یہ صبر کسی انسان کے مقابلہ میںہوتاہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ خدا کے تخلیقی نقشہ سے مطابقت کرنے کے ہم معنٰی ہوتا ہے۔
خدا نے دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر ایک کو آزادی ہو۔ ہر ایک کے لیے مسابقت کا کھلاماحول ہو۔ اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک کودوسرے سے شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک کو دوسرے سے نقصان کاتجربہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ناخوش گوار تجربہ پر صبر کرنا گویا خدا کے تخلیقی نقشہ پر راضی ہونا ہے۔صبر کی اسی اہمیت کی بنا پر خدا نے صبر کو خود اپنے لیے صبر کرنے کا معاملہ بتایا۔ قرآن میںیہ اعلان کیا گیا ہے کہ جو آدمی صبر کرے گا اس کو بے حساب انعام دیا جائے گا۔
088 — یکطرفہ برداشت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو تمہارے اوپر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ یہ نہایت حکمت کی تعلیم ہے۔ ظلم کا خاتمہ ظلم کو معاف کرکے ہوتا ہے۔ ظلم کے خلاف جوابی کارروائی کرنا کبھی ظلم کو ختم نہیں کرتا۔
پیغمبر اسلام کا یہ قول در اصل نتیجہ خیز عمل (result oriented action) کی تعلیم ہے۔ اگر کوئی شخص ظلم کی کارروائی کرے تو مظلوم کو سب سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ اس کی کارروائی ایسی ہوجو اس کی مظلومیت کو ختم کرے نہ کہ وہ اس کی مظلومیت کو بڑھا دے۔ جب بھی کوئی مظلوم اس طرح سوچے تو وہ پائے گا کہ ظالم کو معاف کرنا سب سے بڑا انتقام ہے۔ ظالم کے ظلم کو بھلا دینا ظلم کو ختم کرنے کی سب سے زیادہ آسان تدبیرہے۔ظالم کو معاف کرنا کوئی مجبورانہ فعل نہیں، یہ ایک اعلیٰ اخلاقی اصول ہے۔ کوئی آدمی جب ظالم کو معاف کرے تواس کو آزادانہ اصول کے طور پرایسا کرنا چاہئے۔ مجبورانہ طور پر معاف کرنا بھی بے قیمت ہے اور معاف نہ کرنا بھی بے قیمت۔
089 — اعراض کا طریقہ
قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جاہلوں اور نادانوں سے اعراض کرو۔موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کا یہ ایک بے حد اہم اصول ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نباتات کی دنیا میں جس طرح پھول کے ساتھ کانٹے ہیں اسی طرح انسانی دنیا میں دانشوروں کے ساتھ نادان لوگ ہر جگہ کثرت سے موجود ہیں۔ جس طرح نباتات کی دنیا میں آدمی کانٹوں سے الجھے بغیر پھول کو لے لیتاہے اسی طرح انسانی دنیا میں بھی اسے نادانوں سے الجھے بغیر اپنی زندگی کا سفر جاری رکھنا ہے۔
نادانوں سے الجھ کر کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس لیے بہترین عقلمندی یہ ہے کہ جب بھی کسی نادان سے سابقہ پڑے تو اس کو نظر انداز کرکے آدمی آگے بڑھ جائے۔ کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ دنیا سے نادانوں کے وجود کو مٹادے۔ البتہ یہ ہر ایک کے بس میں ہے کہ وہ نادانوں سے الجھے بغیر اپنی زندگی کی تعمیر جاری رکھے۔نادانوں سے اعراض میں یہ اندیشہ نہیںکہ وہ دلیر ہو جائیں گے۔ اعراض آگ کو بجھانے والا ہے، وہ آگ کو بھڑکانے والا نہیں۔
090 — صبر میں کامیابی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جان لو کہ صبر کے ساتھ کامیابی ہے۔ اس حدیث میں صبر کی غیر معمولی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کے مطابق، صبر ہر قسم کی ترقیوں کا زینہ ہے۔ اس دنیا میں صبر کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر آدمی کے ساتھ اتار اور چڑھاؤ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ہر آدمی کو بار بار کسی نا پسندیدہ صورت حال کا تجربہ ہوتاہے۔ ایسی حالت میں اکثرایسا ہوتا ہے کہ آدمی بے ہمّت ہوجاتا ہے۔وہ اپنے آپ کو شکست خوردہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ مگر یہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںکامیابی کے امکانات اتنے زیادہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ایک ناکامی کے بعد ہمیشہ دوسری کامیابی موجود رہتی ہے۔صبر کا مقصد گویا اپنے آپ کو بے حوصلگی سے بچا کر اگلے موقع کا انتظار کرنا ہے۔ اگر آدمی پہلی ناکامی کے بعد صبر کا ثبوت دے تو بہت جلد وہ پائے گا کہ دوسری کامیابی اس کے قریب ہی اس کا انتظار کررہی تھی۔
091 — چھوٹے شر پر راضی ہونا
پیغمبر اسلام کے ایک صحابی عمیر ابن حبیب بن خماشہ نے کہا کہ جو شخص نادان کے چھوٹے شر کو برداشت نہیں کرے گا اس کو نادان کے بڑے شر کو برداشت کرنا پڑے گا ۔
موجودہ دنیا میں جس طرح سمجھ دار لوگ ہیں اسی طرح یہاںنادان لوگ بھی موجود ہیں۔ یہ نادان لوگ اپنی نادانی کی بنا پر دوسروں کو کچھ نہ کچھ تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ تکلیف ابتدا میںایک چھوٹی تکلیف ہوتی ہے۔ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ اس چھوٹی تکلیف کو برداشت کرلیا جائے۔ جو آدمی چھوٹی تکلیف پر نادان سے الجھ جائے تو نادان ضد میں آکر اس کو اور زیادہ بڑی تکلیف پہنچائے گا۔ ایسی حالت میں بہتر یہ ہے کہ چھوٹی تکلیف کو برداشت کر لیا جائے تاکہ بڑی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
092 — تحمل کے ذریعہ دفاع
مشہور صحابی رسول عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا کہ جہالت کرنے والے کی جہالت کا دفاع تم تحمل کے ذریعہ کرو ۔صحابی کے اس قول کے مطابق، دفاع کا ایک مناسب طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے لیے جوابی دفاع کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔
دنیا میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کا سابقہ نادانوں سے پڑ جاتا ہے۔ ایسے نادانوں کے شر سے بچنے کا سب سے زیادہ کارگر طریقہ تحمل کا طریقہ ہے۔ تحمل کا طریقہ نادانوں کی کارروائی کو پہلے ہی مرحلہ میں روک دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر نادانوں کے مقابلہ میںردّ عمل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو ان کی برائی بڑھتی رہے گی۔ یہاں تک کہ وہ قابو سے باہر ہو جائے گی۔
093 — غصہ نہیں
ایک شخص پیغمبر اسلام کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، مجھے کوئی ایسی نصیحت کیجئے جو میری پوری زندگی کو سدھارنے کا ذریعہ بن جائے۔ آپ نے فرمایا: تم غصہ نہ کرو۔ یہ بلا شبہہ ایک نہایت جامع نصیحت ہے۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جس کواگر آدمی اختیار کرلے تو اس کی زندگی کے تمام معاملات درست ہوجائیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ایک سماج کے اندر رہتا ہے۔ اس کو باربار ایسے ناپسندیدہ تجربات پیش آتے ہیں جو اس کو بھڑکادیں اور اس کے اندر غصہ پیدا کردیں۔ اور پھر جب آدمی غصہ میںآجائے تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ غصہ دلانے والے کے خلاف انتقامی کارروائی کرتا ہے اور پھر ہر انتقام دوبارہ ایک نئے انتقام کو بھڑکا تا ہے۔ اس طرح انتقام در انتقام کا سلسلہ چل پڑتاہے جو تباہی کے سوا اورکہیں نہیںپہنچاتا۔
ایسی حالت میں اپنی زندگی کے سفر کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ غصہ جیسے جذبات سے اپنے آپ کو اوپر اٹھائے۔ وہ منفی حالات کا بھی مثبت انداز میںجواب دے۔
094 — غصہ کا حل
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جب کسی آدمی کو غصہ آئے تو اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔ اگر وہ بول رہا ہے تو چپ ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس حالت میں ہے وہ اس حالت کو بدل دے۔ حالت کی یہ تبدیلی اس کے لیے غصہ کو ختم کرنے کا سبب بن جائے گی۔
غصّہ ایک آگ ہے جو کسی ناخوشگوار بات پر آدمی کے اندر بھڑکتی ہے۔ غصہ آدمی کو تخریبی طریقہ کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ نقصان میںمبتلا کرنے والا ہوتاہے۔ ایسی حالت میں عقلمندی یہ ہے کہ غصہ آتے ہی فوراً اس کو ٹھنڈا کرنے کی تدبیر کی جائے۔ تدبیر کے ذریعہ آدمی غصہ کو منٹوں میں ختم کرسکتا ہے۔ لیکن اگر غصّہ کو باقی رہنے دیا جائے تو وہ آدمی کو ایسے نقصانات پہنچاتا ہے جس کی تلافی پھر کبھی ممکن نہ ہو۔
غصّہ آنا ایک فطری بات ہے۔ غصہ آنا بذات خود برا نہیں، بری بات یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر کنٹرول نہ کرسکے۔ غصّہ پر کنٹرول نہ کرسکنا خود اپنے آپ سے شکست کھاجانا ہے اور اپنے آپ سے شکست کھانا بلا شبہہ سب سے زیادہ بری شکست ہے۔
095 — شیطان سے پناہ مانگنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے۔ جب بھی تم کو محسوس ہو کہ شیطان تم کو بہکارہا ہے تو تم کہو: اللہم إنی اعوذ بک من ہمزات الشیطان(اے خدا، میں شیطان کے وسوسوں کے مقابلہ میںتجھ سے پناہ مانگتا ہوں)۔
شیطان انسان کا دشمن ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان کو صحیح راستہ سے بھٹکائے۔ وہ طرح طرح کے وسوسے ڈال کر انسان کو سچائی سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ شیطان آدمی کو دکھائی نہیں دیتا۔ وہ خفیہ طورپر انسان کے اوپر حملہ کرتا ہے۔انسان اس شیطانی حملہ کے مقابلہ میںبالکل بے بس ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے، خدا سے مدد مانگنا۔خدا کا وعدہ ہے کہ جب بھی کوئی آدمی شیطان کے مقابلہ میں خدا سے پناہ مانگے گا وہ ضرور اس کو اپنی پناہ دے گا۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔
096 — طاقت ور کون
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو لوگوں کو کُشتی میں پچھاڑ دے۔ بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھّے۔ یہ بلا شبہہ کسی شخص کے طاقت ور ہونے کا سب سے زیادہ اعلیٰ معیار ہے۔جسمانی مقابلہ میں کسی کو پچھاڑنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں، ایسا کارنامہ تو ایک حیوان بھی کرسکتا ہے۔ کسی انسان کے طاقتور ہونے کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ جب اس کو کسی کے اوپر غصّہ آئے تو وہ اپنے آپ کو پوری طرح کنٹرول میں رکھّے۔ غصّہ کے باوجود وہ انسانیت کے دائرہ سے باہر نہ جائے، وہ غصّہ کے اوپر غالب رہے نہ کہ غصّہ اس کے اوپر غالب آجائے۔
097 — مشکل میں آسانی
قرآن میں فطرت کے جن قوانین کو بتایا گیا ہے ان میں سے ایک قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں مشکل کے ساتھ آسانی رکھی گئی ہے (الانشراح) یعنی مشکل کے بعد نہیں بلکہ خود مشکل کے ساتھ ہی آسانی کا پہلو شامل ہے۔ یہ فطرت کا ابدی قانون ہے وہ کبھی بدلنے والا نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اس دنیا میں مشکل کے مقابلہ میں امکانات کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ اگر ایک مشکل پیدا ہو یا ایک بار کوئی نقصان ہوجائے تو آدمی کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ اس کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کو استعمال کرے۔ جب وہ سوچے گا تو وہ جانے گا کہ عین اسی وقت اور ٹھیک اسی مقام پر اس کے لیے بہت سے نئے امکانات موجود ہیں۔ وہ ایک چانس کو کھو کر وہ دوسرا چانس پاسکتا ہے جس کواستعمال کرکے وہ دوبارہ آگے بڑھ جائے۔موجودہ دنیامیں زندگی کا بہترین فارمولا یہ ہے کہ —مسائل کو نظر انداز کرواور مواقع کو استعمال کرو۔ ناموافق حالات کو حسن تدبیر سے اپنے موافق بنانے کی کوشش کرو۔ ناکامی کو زیادہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ کامیابی میں تبدیل کرو۔
خداکی اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی عقل کواستعمال کرکے اپنے مائنس کو پلس بناسکے۔ یہ امکان ہر اس شخص کے لیے موجودہے جو ہمت نہ ہارے جو ناامیدی کے حالات میںبھی پر امید بنا رہے۔
098 — آسان طریقہ کا انتخاب
پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ پیغمبر کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب بھی پیغمبر اسلام کو دو میں سے ایک کا انتخاب کرناہوتا تو آپ ہمیشہ مشکل انتخاب کو چھوڑ دیتے اور آسان انتخاب کو لے لیتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کو پر تشدد طریق کار اور پر امن طریق کار کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا تو آپ پر تشدد طریقِ کار کو چھوڑ دیتے اور پر امن طریقِ کار کو اختیار کرتے۔ اس طرح جب بھی آپ کو اعراض اور ٹکراؤ کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ ٹکراؤ کے طریقہ کو چھوڑ دیتے اور اعراض کے طریقہ کو اختیار کرتے۔ اسی طرح جب آپ کو جنگ اورصلح کے درمیان انتخاب کا موقع ہوتا تو آپ ہمیشہ جنگ کو چھوڑ دیتے اور صلح کو قبول کرلیتے۔
یہی حکمت ہے۔ اس حکمت کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کسی مزید بگاڑ سے بچ جائے اور اپنے معاملات کو کامیابی کے ساتھ درست کرتا چلا جائے۔ ہر معاملہ میں ہمیشہ دونوں طریقِ کار کا امکان ہوتاہے۔ مگر عقل مندی وہی ہے جس کا نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ہمیں ملتاہے۔
099 — ناپسندیدگی میں خیر
قرآن میںایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ : ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بھلی ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو۔
اس آیت کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ لوگ عام طور پر چیزوں کو ظاہر کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔وہ ظاہری دلکشی کی بنا پر ایک چیز کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ اور جو چیز ظاہر کے اعتبار سے دلکش نہ ہو اس کو ناپسندیدہ سمجھ کر رد کر دیتے ہیں۔ مگر حقیقی انجام کے اعتبار سے یہ طریقہ درست نہیں۔
اکثر ایسا ہوتاہے کہ ایک چیز بظاہر دیکھنے میںاچھی نہیں لگتی مگر اصل حقیقت کے اعتبار سے انسان کے لیے اسی میں فائدہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک چیز بظاہر دیکھنے میںاچھی لگتی ہے مگر اصل حقیقتکے اعتبار سے وہ برے انجام کی طرف لے جانے والی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کو چاہئے کہ وہ ظاہر کے اعتبار سے چیزوں کے بارے میں فیصلہ نہ کرے بلکہ وہ گہری حقیقتوں کے اعتبار سے چیزوں کو دیکھے اوراس کے مطابق فیصلہ کرے۔
100 — ایک دعا
پیغمبر اسلام کی ایک دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم ارنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ وارنا الاشیاء کما ہی۔ (اے خدا مجھے حق کو حق کی صورت میں دکھا اور مجھے اس کی پیروی کی توفیق دے اور مجھے باطل کو باطل کی صورت میںدکھا اور مجھے اس سے بچنے کی توفیق دے اور مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں)۔
موجودہ دنیا میں سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر موضوعی طرزفکر (objective thinking) ہو۔ اس حدیث میںاسی کے لیے دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی ایسے حالات کے درمیان رہتا ہے کہ وہ اکثر حق کو باطل کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے اور باطل کو حق کے روپ میں۔ اس دعا میںبندہ اپنے رب سے سوال کررہا ہے کہ وہ اس کو اس گمراہی سے بچائے۔ وہ اس کے اندر وہ نگاہ پیدا کرے جو چیزوں کو اس کی اصل روپ (as it is) میںدیکھنے لگے۔صحیح سوچ سے صحیح عمل پیدا ہوتا ہے اور صحیح عمل آدمی کو ہمیشہ کامیابی کی طرف لے جاتاہے۔
اس پیغمبرانہ دعا کے مطابق، ہر انسان اس فکری مسئلہ سے دوچار ہے کہ حق اس کو حق کی صورت میں نہ دکھائی دے اور باطل اس کو باطل کی صورت میں نہ دکھائی دے۔ یہ مسئلہ کنڈیشننگ (conditioning) کی وجہ سے پیدا ہوتاہے۔ ہر آدمی پیدائش کے بعد ایک ماحول میںپرورش پاتا ہے۔ ابتدائی عمر میں وہ ذہنی ناپختگی کی بنا پر ماحول کے اثر کو قبول کرتا رہتا ہے۔ اسی کا نام کنڈیشننگ ہے۔ پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے شعور کو متحرک کرکے اپنی کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو مطابق واقعہ سوچ (as it is thinking)کے درجہ تک پہنچائے۔ علم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو باشعور بنا کر اس کو اس سلف ڈی کنڈیشننگ کے لیے تیار کرے۔ مذکورہ دعا اسی ڈی کنڈیشننگ کے عمل میں یقین کے عنصر کا اضافہ ہے۔
واپس اوپر جائیں