Pages

Sunday 1 October 2023

Al Risala | October 2005 (الرسالہ،اکتوبر)

1

- خصوصی شمارہ: بمبئی کا سفر


بمبئی کا سفرنامہ

پہلا سفر
۱۷ نومبر ۲۰۰۴کی صبح کو ۸ بجے نظام الدین سے ائر پورٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ اس سفر میں مسٹر خالد انصاری میرے ساتھ تھے۔ دہلی ائرپورٹ پر پہنچے تو یہاں کسی قدر مختلف منظر تھا۔ مجھے انڈین ائرلائنز کی فلائٹ سے سفر کرنا تھا۔ یہاں دو الگ الگ ٹرمنل ہیں۔ ایک پبلک ائر لائنز کے لیے اور دوسرا پرائیویٹ ائر لائنز کے لیے۔ ہمارے ڈرائیور نے غلط طورپر ہم کو پرائیویٹ ائرلائنز کے ٹرمنل پر پہنچا دیا۔ پھر گاڑی واپس چلی گئی۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ ہم غلط طورپر پرائیویٹ ائرلائنز کے ٹرمنل پر پہنچ گئے ہیں۔ انڈین ائر لائنز کا ٹرمنل یہاں سے کافی فاصلے پر تھا۔ وہاں پیدل پہنچنا ایک دیر طلب امر تھا۔ مگر ائر پورٹ کی طرف سے آرام دہ کوچ کا انتظام کیا گیا ہے۔ ایسے مسافر فوراً ہی ایر پورٹ کی کوچ کے ذریعہ چند منٹ میں مطلوب ٹرمنل پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس سروس کا کوئی کرایہ نہیں۔
زندگی میں ہمیشہ بعض غیر متوقع صورت حال (eventualities) پیش آتی ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پیشگی طورپر اس کا انتظام رکھے تاکہ اس کا سفر رکے بغیر جاری رہ سکے۔ اس حقیقت کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
سفینہ بنا رکھیں طوفاں سے پہلے
انڈین ایر لائنز کے ٹرمنل پر خلاف معمول کافی بھیڑ دکھائی دی۔ اس سے پہلے یہاں اتنی بھیڑ نہیں ہوتی تھی۔ یہ مقابلہ (competition) کا کرشمہ تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے زمانہ میں سرکاری کمپنیوں (پبلک سکٹر) کے لیے تحفظ (protection) کا اصول اختیارکیا گیا تھا۔ اس نے تمام سرکاری شعبوں میں لتھارجی (lethargy) کا مسئلہ پیدا کردیا۔ ہر شعبہ سُستی اور بے عملی کا شکار ہوگیا۔ پچھلے کچھ برسوں سے اس پالیسی کو بدلا گیا ہے اور اس کے بجائے مقابلہ کرو یا مر جاؤ (compete or perish) کا اصول اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے زبردست فرق آیا ہے۔ انڈین ائر لائنز کا معیار ہر اعتبار سے بہتر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈین ائر لائنز پر سفر کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔
ائر پورٹ پر مجھے ٹائلٹ جانا تھا۔ میں بوڑھے اور معذور لوگوں کے ٹائلٹ میں گیا۔ اس میں جگہ زیادہ کشادہ ہوتی ہے۔ اور دوسری مزید سہولتیں موجود رہتی ہیں۔
یہ احترام انسان کی ایک علامت ہے۔ جدید تہذیب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے انسان کے احترام کو بے حد اہمیت دی ہے۔ ہر شعبہ میں جدید تہذیب کا یہ مزاج نمایاں ہے۔ موجودہ زمانہ میںمعذوروں (disabled) کے احترام کا جو اہتمام ہر جگہ کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال تاریخ کے پچھلے دور میںغالباً موجود نہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ پچھلے زمانوں میں وہ سہولتیں پائی نہیں جاتی تھیں جو آج صنعتی انقلاب کے بعد پائی جارہی ہیں۔
ائر پورٹ پر ایک صاحب نے ایک دلچسپ بات بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ زمانہ میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے بعد دوسری سب سے بڑی انڈسٹری سلمنگ انڈسٹری (slimming industry) ہے۔یعنی موٹے مَردوں اور عورتوں کو دُبلا کرنا۔ آج کل ایک طبقہ کے پاس بہت زیادہ پیسہ آگیا ہے۔ یہ لوگ کھانے پینے اور آرام و عیش میں اتنا زیادہ خرچ کرتے ہیں کہ وہ موٹے ہوجاتے ہیں۔ یہ موٹاپا موجودہ زمانہ کی سب سے بڑی بیماری ہے۔ اس موذی بیماری سے بچنے کے لیے لوگ موٹا ہونے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو دبلا کرتے ہیں۔ اور اگر وہ دبلے نہ ہوسکیں تو وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اس کے علاج کے لیے انہیں ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے بھاری بل دینے پڑتے ہیں۔
مجھے ایک واقعہ یا دآیا کہ ایک بار ایک صاحب سے بات ہورہی تھی۔ میںنے کہا کہ آج کل لوگوں کو زیادہ پیسہ کمانے کا جنون ہورہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ لوگ زیادہ پیسہ کما کر آخر کرتے کیا ہیں۔ انہوں نے ہنس کر کہا: اپنے علاج پر خرچ کرتے ہیں۔
ہوائی جہاز کے اندر مختلف اخبارات مطالعہ کے لیے موجود تھے۔ ایک عرصہ سے میں اخبارات کو پڑھوا کرسنتا ہوں۔ یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔ اس تجربہ سے اندازہ ہوا کہ خود پڑھنے کے مقابلہ میں پڑھوا کر سننا نسبتاً زیادہ مفید ہوتا ہے۔ اس طرح زیادہ یکسوئی حاصل رہتی ہے اور بات زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔
اُردو روزنامہ اخبار مشرق کا شمارہ ۱۷ نومبر ۲۰۰۴ بھی جہاز کے اندر موجود تھا۔ اس شمارہ میں جو خبریں شائع ہوئی تھیں اُن میں سے ایک خبر وہ تھی جس کا دوسطری عنوان یہ تھا: ’’لندن میں محمدﷺ کی حیاتِ طیبہ پر بنی فلم ریلیز ہوگئی۔ فلم کا مقصد غیر مسلموں کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنا ہے‘‘۔ اس عنوان کے تحت حسب ذیل خبر درج تھی:
لندن ۱۶؍نومبر (یو این آئی) امریکی معاشرہ سے مسلمانوں کا رابطہ بہتر بنانے کی سمت میں ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ پر ایک اینیمیٹڈ فلم بنائی گئی۔ دستی تصاویر سے بنائی جانے والی اس فلم ’محمد دی لاسٹ پروفیٹ‘ کی نمائش عید کے دن شروع ہوئی ہے۔ فلم کے ڈسٹری بیوٹروں کا کہنا ہے کہ فلم کا مقصد مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو اسلام اور اسلام کی تاریخ کی بابت بتانا اور ان کو تفریح مہیا کرناہے۔ بی بی سی نے فائن میڈیا گروپ کے اسامہ جمال کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ فلم باکس آفس پر کیا کمال دکھاتی ہے سوال یہ ہے کہ لوگ فلم سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں۔ اسامہ جمال نے بتایا کہ پہلے اس فلم کی نمائش پورے امریکا میں ۲۰۰۲ میں کی جانی تھی لیکن گیارہ ستمبر کے حملوں کی وجہ سے روک دی گئی کیوںکہ لوگ اس وقت فلم کے موڈ میں نہیں تھے۔ مسلمانوں کو امید ہے کہ اس فلم کے ذریعہ مسلمانوں اور امریکیوں کے درمیان رابطہ قائم ہوسکے گا۔ پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی کی تعلیمات پر مبنی ۹۰ منٹ کی یہ فلم امریکا اور کناڈا کے ۴۰ شہروں میں دکھائی جائے گی۔ (صفحہ ۸)
پیغمبرِ اسلام کی زندگی پر بنائی جانے والی اس فلم کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں اور مغربی قوموں کے درمیان تعلقات درست ہوں گے۔ میرے نزدیک یہ ایک غیر عملی سوچ ہے۔ مذکورہ قسم کی فلم سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مغربی قوموں میں مسلمانوں کے بارہ میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں وہ خود مسلمانوں کی اپنی روش کو دیکھ کر ہوئی ہیں، نہ کہ پیغمبر اسلام کی تاریخ کی بنا پر ہوئی ہیں۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے بارہ میں مغربی قوموں کی غلط فہمی کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی روش کو بدلا جائے۔ اگر یہ مسلمان اپنی روش کو نہ بدلیں تو پیغمبر اسلام کی زندگی کی فلم کو دیکھ کر مغربی قوموں کی سوچ مسلمانوں کے بارہ میں ہر گزبدلنے والی نہیں۔
موجودہ زمانہ کے مسلم دانشوروں کا یہ مزاج بڑا عجیب ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے قابلِ شکایت باتوں کو دیکھ کر دوسری قوموں کے درمیان ان کے بارہ میں منفی رائے قائم ہوتی ہے تو یہ دانشور قرآن کی تعلیمات یا پیغمبراسلام کی زندگی کاحوالہ دیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک غیر متعلق بات ہے۔ اس معاملہ میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت کی جائے۔ مسلمانوں کی زندگیوں کی اصلاح کی جائے۔ پیغمبر اسلام کے اُسوۂ حسنہ سے کسی کو شکایت نہیں۔ لوگوں کو اصل شکایت مسلمانوں کے اُسوۂ سیئہ سے ہے۔ جب تک مسلمانوں کی موجودہ روش باقی ہے، لوگوں کی غلط فہمی دور ہونے والی نہیں۔
اس معاملہ کے دو پہلو ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ایک ہے مسلمانوں کی ذاتی زندگی۔اور دوسری چیز مسلمانوں کی زندگی کاوہ پہلو جو میڈیا میں آتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اسلامی دعوت کے سلسلے میں اصل اہمیت دوسرے پہلوکی ہے۔یعنی مسلمانوں کی اخباری تصویر یا اُن کی میڈیا امیج ۔ جہاں تک کسی مسلمان کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے، وہ آخرت کے اعتبار سے بلا شبہہ اہم ہے۔ مگر جہاں تک دوسروں میں اسلام کی تصویر بننے کا معاملہ ہے۔ وہ مسلمانوں کی میڈیا امیج سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔
یہ صورت حال جدید میڈیا کے دور کی بنا پر پیدا ہوئی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ بہت جلد باتیں لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ مگر میڈیا انتخابی نیوز (selective news) کی انڈسٹری ہے۔میڈیا صرف اُن باتوں کو منتخب کرتا ہے، جن میں کوئی سنسنی خیز پہلو ہو۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اُن معاملات میں سخت احتیاط کا رویّہ اختیار کریں جو میڈیا میں نمایاں ہونے والے ہیں۔ اگر مسلمان اِس بارہ میں حسّاس ہوجائیں اور ایسی خبر وجود میں لانے سے سخت پرہیز کریں جو میڈیا میں نمایاں ہو کر اسلام کی بدنامی کا سبب بننے والی ہوں تو دعوت کی رفتار بہت زیادہ تیز ہوجائے گی۔
ٹائمس آف انڈیا (۱۷ نومبر ۲۰۰۴) میں ایک خبر اس عنوان کے تحت چھپی تھی—جے این یو میں سنٹر برائے مطالعۂ امن کا قیام:
JNU to launch centre for peace & conflict resolution.
خبر میں بتایاگیا تھا کہ دہلی کی دو یونیورسٹیوں ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں امن کا شعبہ کھولا جارہا ہے۔ جس کا مقصد امن سے متعلق موضوعات کا مطالعہ ہوگا اور یہ کہ باہمی اختلافات کس طرح حل کیے جائیں۔ اس سلسلہ میں دونوں یونیورسٹیوں میں سرٹیفکٹ کورس اور ڈگری کورس اور ایم فل کو رس تک تعلیم کا انتظام ہوگا(صفحہ ۹)
اس قسم کے کورس دوسری عالمی یونیورسٹیوں میں بھی موجود ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس قسم کے تعلیمی کورس سے امن (peace)کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ میرے تجربہ کے مطابق، یونیورسٹی کی تعلیم صرف فنی موضوعات کے لیے کار آمد ہے۔ امن کا تعلق سیرت و کردار کی اصلاح سے ہے۔ اور انسان کی سیرت و کردار کی اصلاح غیر رسمی تعلیم (informal education) کے ذریعہ ہوتی ہے، نہ کہ رسمی تعلیم (formal education) کے ذریعہ۔
مصلحین (reformers) نے موجودہ زمانہ میں دنیا بھر میں اپنے بہت سے تعلیمی ادارے بنائے جن کا مقصد اصلاح یافتہ انسان تیار کرنا تھا۔ بنگال کی شانتی نکیتن (یونیورسٹی) کا مقصد بھی یہی تھا جس کو نوبیل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ قائم کیا تھا۔ مگر عملاً وہ دوسری یونیورسٹیوں کی طرح ایک عام یونیورسٹی بن کر رہ گئی، وہ ٹیگور کے مطلوب انسان کو پیدا کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہی۔ میرے نزدیک تعلیمی اداروں کو تعلیم برائے تعلیم کے اصول پر کام کرنا چاہیے۔ جہاں تک انسان سازی کا تعلق ہے، وہ روحانی اور مذہبی رہنماؤں کو انجام دینا چاہیے۔
ہندستان ٹائمس (۱۷ نومبر ۲۰۰۴) میں ایک خبر میں بتایاگیا تھا کہ اُسامہ بن لادن نے ایک نیا بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان میں اہلِ پاکستان کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں پاکستان کے مسلمانوں سے کہاگیا ہے کہ امریکا نے تمہارے ملک اور افغانستان پر حملہ کر رکھا ہے۔ تم کو امریکا سے جنگ کرنے کے لیے اُٹھ جانا چاہیے (صفحہ ۱۷)
القاعدہ کے چیف کا یہ بیان مستند ہے یا نہیں، یہ ایک اضافی بات ہے۔ اس لیے کہ لمبی مدت سے اس قسم کے مجاہدانہ بیانات مسلمانوں کے درمیان بے حد مقبول رہے ہیں۔ اس مدت میں کسی بھی قابلِ ذکر شخص نے ان جارحانہ بیانات کی کھلی مذمت نہیں کی— ڈاکٹر اقبال، مسٹر محمد علی جناح، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور دوسرے تمام لوگ خود بھی اسی قسم کی بولی بولتے رہے اور دوسرے لوگ جو اس قسم کی بولی بول رہے تھے، اُن کی براہِ راست یا بالواسطہ طورپر حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ایسی حالت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر بالفرض یہ بیان اُسامہ بن لادن کا نہ ہو تب بھی وہ موجودہ مسلمانوں کے مزاج کے عین مطابق ہوگا۔
اس معاملہ میںاصل قابلِ لحاظ بات یہ نہیں ہے کہ مسلمان اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف جہاد کریں بلکہ اصل قابل لحاظ بات یہ ہے کہ لمبی مدت تک جہاد کرنے کے باوجود اُس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہ آسکا۔ ایسی حالت میں کہنے کی بات یہ ہے کہ اب ہم کو چاہیے کہ اپنے نقشۂ کار پر نظر ثانی کریں۔ ’’دشمن کے خلاف جہاد‘‘ کے الفاظ کو چھوڑ کر وہ الفاظ بولیں جن کی تعلیم قرآن میں دی گئی ہے۔ وہ یہ کہ ہم کو چاہیے کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ امن اور دوستی کا معاملہ کریں۔ اور فطرت کے قانون کو موقع دیں کہ وہ ہمارے دشمن کو ہمارے دوست میں تبدیل کردے (فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم)۔
تقریباً دو گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز بمبئی ایر پورٹ پر اُترا۔ یہاں کئی ساتھی ملنے کے لیے موجود تھے۔ ایر پورٹ سے روانہ ہو کر میں ہارون شیخ صاحب کے آفس پہنچا۔ یہاںکچھ دیر قیام رہا اور کچھ لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔
۱۷ نومبر کی شام کی اس ملاقات میں اے۔جی خاں سرگروہ ایڈوکیٹ (Ph. 2650 4363) سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے الرسالہ میں ہیمرنگ کی بابت پڑھا تھا۔ اُنہوں نے پوچھا کہ ہیمرنگ کیا ہے؟اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ ہر مرد اور عورت کنڈیشننگ کا کیس ہیں۔ جب تک اس کنڈیشننگ کو توڑا نہ جائے وہ کُھلے ذہن کے ساتھ باتوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور ہیمرنگ کا مقصد اس کنڈیشننگ کو توڑنا ہے تاکہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ چیزوں کو دیکھنے کے قابل ہوجائیں۔ مگر ہیمرنگ کے اس طریقہ کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ وہ یہ کہ جو شخص ہیمرنگ کررہا ہے اس کے دل میں انسان کے لیے گہری محبت کا جذبہ ہو۔ اس کی ہیمرنگ محبت کی ہیمرنگ ہو۔ اس کے بغیر ہیمرنگ ڈانٹ ڈپٹ ہے نہ کہ نصیحت۔
۱۷ نومبرکی شام کو میں مسٹر ہارون شیخ کے مکان پر گیا۔ بمبئی میں میرا قیام زیادہ تر یہیں تھا۔ ۱۸نومبر کی صبح کو ۴ بجے نیند کھلی۔ نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر ہارون شیخ صاحب کے ساتھ باہر نکلا۔ ہم لوگ قریب کے ایک پارک میں گئے اور وہاں دیر تک ٹہلتے رہے۔ صبح کے وقت ٹہلنا میری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔
میرے لیے صبح کے وقت ٹہلنا صرف ورزش نہیں ہے بلکہ وہ میرے لیے خدا کی یاد کا ایک لمحہ ہے۔ قرآن میں ہے : انَّ قرآن الفجر کان مشہودا (بنی اسرائیل ۷۸) لوگ سمجھتے ہیں کہ اس آیت سے مرادصرف صبح کے وقت نماز میں قرآن پڑھنا ہے۔ بلا شبہہ آیت کا ابتدائی مفہوم یہی ہے۔ مگر حدیث میں آیا ہے کہ لکل آیۃ منہا ظہر وبطن ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ابتدائی مفہوم ہے اور اسی کے ساتھ اس کا ایک توسیعی مفہوم۔
اس اعتبار سے صبح سویرے کھلے آسمان اور تازہ ہوا اور قدرتی مناظر کے درمیان ٹہلنا بھی اسی قسم کا ایک تجربہ ہے۔ اس قیمتی وقت میں ایک مومن جب ٹہلتا ہے تو وہ گویا کتابِ معرفت کا مطالعہ کررہا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت یتفکرون فی خلق السموات والارض کا تجربہ کررہا ہوتا ہے۔ ایک ’’قرآنِ مشہود‘‘ وہ ہے جس کا تجربہ مومن کو مسجد کے اندر ہوتا ہے، اور دوسرا ’’قرآن مشہود‘‘ وہ ہے جس کا تجربہ مومن کو مسجد کے باہر ہوتا ہے۔
میںہارون شیخ صاحب کے دفتر میں تھا۔ وہاں ایک وکیل صاحب ملاقات کے لیے آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں دور سے آیا ہوں اور مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ اس کے بعد وہ نان اسٹاپ بولنے لگے۔ خاص بات یہ تھی کہ ان کی اکثر باتیں، میرے نزدیک، غیر منطقی(illogical) تھیں مگر وہ پورے یقین کے ساتھ اپنی باتوں کو دہراتے رہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ اسلام میں یکشنبہ سے پنجشنبہ تک کے ایام ہیں (یوم الاحد ، یوم الاثنین، یوم الثلاثاء، یوم الأربعاء، یوم الخمیس) جمعہ کا دن سرے سے اسلام میں موجود نہیں۔ میں نے قرآن کی سورہ الجمعہ کی یہ آیت پڑھی: اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سے مراد کوئی ہفتہ واری دن نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف اجتماع کا دن ہے۔ وہ اس طرح کی بے ربط باتیں دیر تک کرتے رہے۔ آخر میں وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ نے مجھے گوارا کیا، اس کا شکریہ!
Thank you, very much for tolerating me.
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے کہا کہ قر آن کی سورہ نمبر ۹، پارہ نمبر ۱۱، آیت نمبر ۱۰۷ میں مدینہ کی ایک عمارت (مسجد ضرار) کو ڈھانے کا ذکر ہے۔ اس کو لے کر کچھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹاور کو توڑنا قرآن کے مطابق، درست تھا۔ وہ اس طرح کہ ہم ان تینوں اعداد کو لیں۔ ہم سورہ توبہ کا نمبر ۹ لیں اور پارہ کا نمبر ۱۱ لیں اور آیت کا نمبر ۱۰۷لیں تو اس سے تین باتیں نکلتی ہیں۔ وہ یہ کہ نویں مہینہ کی ۱۱ تاریخ کو ایک ایسی بلڈنگ ڈھائی جائے گی جس کی منزلیں ۱۰۷ ہوں گی۔ یعنی اُنہوں نے آیت نمبر ۱۰۷ سے ورلڈ ٹاور کی ۱۰۷ منزلیں مراد لیں اور سورہ نمبر ۹ سے یہ مطلب نکالا کہ نویں مہینہ کی گیارہویں تاریخ کو یہ واقعہ ہوگا۔اس طرح گویا ۱۱ ستمبر کو ورلڈ ٹاور کو ڈھانا قرآن کے بیان کے مطابق تھا۔
میںنے کہا کہ یہ ایک بے بنیاد استدلال ہے۔ ماضی میں بار بار ایسا ہوا ہے کہ لوگ اعداد کے ذریعہ ایسی باتیں ثابت کرتے رہے ہیں جن کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ مثال کے طورپر ایران کے بہاء اللہ خاں نے اعلان کیا کہ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک ہزار سال پر نبوت کو بدل دیتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی نبوت کو ایک ہزار سال پورے ہوگئے ہیں اس لیے اب اس خدائی قانون کے مطابق، ان کی نبوت منسوخ ہوگئی اور اب میں اگلے ہزار سال کے لیے خدا کی طرف سے انسانیت کا گائڈ مقرر ہوا ہوں۔ اس بے بنیاد نظریہ کو اُنہوں نے قرآن کی اس آیت سے نکالا:
ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ ألف سنۃ مما تعدون (السجدہ ۵)
بہاء اللہ خاں نے اس آیت سے ’’ہزار سال‘‘ کا لفظ لیا اور پھر اس کے ساتھ ایک خود ساختہ مفروضہ کو جوڑ کر ایک ایسا نظریہ نکال لیا جو قرآن کے سراسر خلاف تھا۔ یہی حال مذکورہ استدلال کا ہے۔ اس میں تین عدد کو لے کر اس کے ساتھ خود ساختہ طورپر ایک مفہوم وابستہ کردیا گیا۔ اور پھر بے بنیاد طورپر ان اعداد کے حوالہ سے ایک ایسا مفہوم نکالا گیا جس کا قرآن سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس قسم کا استدلال یقینی طور پر باطل ہے۔اس کی کوئی حیثیت نہ علمی اعتبار سے ہے اور نہ شرعی اعتبار سے۔
بمبئی کا یہ سفر مسٹر ہارون شیخ کی دعوت پر ہوا تھا۔ اُنہوں نے نیو بمبئی کے علاقہ میں دواؤں کی ایک فیکٹری کھولی ہے۔ اس فیکٹری کے افتتاح کے سلسلہ میں یہ سفر ہوا۔ ۱۹ نومبر ۲۰۰۴ کو ہم لوگ قافلہ کی صورت میں روانہ ہوکر نیو بمبئی پہنچے۔ یہاں سے ہم لوگوں کو فیکٹری لے جایا گیا۔ فیکٹری میں بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔
یہاں ایک نشست سوال و جواب کی تھی۔ ایک ہندو انجینئر نے کئی سوالات کئے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ انسان کی نجات صرف اسلام مذہب میں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں نے ایک مسلمان کی تقریر سُنی۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں ایک آیت کا ریفرنس دیا اور اس کا ٹرانسلیشن اس طرح بتایا:
If anyone desires a religion other than Islam, never will it be accepted of him and in the Hereafter he will be in the ramps of those who have lost. (3: 85)
میں نے کہا کہ یہ کنفیوژن ترجمہ کی غلطی سے ہوا ہے۔ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ مسلم اسپیکر نے کیا تو اُنہوں نے یہ کیا کہ آیت کے دوسرے الفاظ کا تو انگریزی ترجمہ کیا مگر انہوں نے اسلام کے لفظ کا ترجمہ نہیں کیا۔ اس آیت میں اسلام کا لفظ کسی مذہب کے نام کے طورپر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے لغوی معنٰی میں ہے۔ اسلام کا لغوی مفہوم سرینڈر ہے۔ اگر مسلم اسپیکر اس کا ترجمہ سرینڈر کے لفظ سے کرتے تو آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔
مزید سوالات کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ خدا کو انسان سے اصلاً جو چیز مطلوب ہے وہ سرینڈر یا سب مشن ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کو خدا نے ٹیسٹ (امتحان) کے لیے بنایا ہے۔اسی ٹیسٹ کی مصلحت کی بنا پر خدا نے انسان کو پوری آزادی عطا فرمائی ہے۔ کیوں کہ آزادی کے بغیر ٹیسٹ ممکن نہیں۔
یہ ٹیسٹ کس بات کا ہے۔ یہ ٹیسٹ اِس بات کا ہے کہ انسان حقیقت پسندی کا رویّہ اختیار کرے، وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو بے آزادکرلے۔ وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو خدا کے کنٹرول میں دے دے۔ وہ اختیار رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو بے اختیار کرلے۔ یہی سَرینڈر ہے، یعنی آزادی کے باوجود خدا کے آگے جھک جانا۔ خدا کا اصل مطلوب دین یہی آزادانہ سر ینڈر ہے۔ جو شخص اس طرح آزاد ہوتے ہوئے خدا کے آگے سرینڈر کرے وہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں جنت کا انعام پائے گا اور جو شخص ایسا نہ کرے وہ موت کے بعد کی زندگی میںجہنم میں داخل ہوگا۔
قرآن اس سلسلے میں گویا گائڈ بُک کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ آزادی کے باوجودسَرینڈر کرنے کا مطلب کیا ہے۔ قرآن میں اس مطلوب زندگی کے بنیادی اصول بتا دیئے گئے ہیں، اور حدیث میںاس کی تفصیل موجود ہے۔
یہاں نیو بمبئی میں ایک اجتماع ہوا۔ جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔ اس موقع پر میں نے تجارت کے بارہ میں اسلام کا نظریہ بیان کیا۔ یہ تقریر موقع کی مناسبت سے کی گئی۔ اس تقریر کا خلاصہ اگلی سطروں میں درج کیا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تسعۃ أعشارالرزق فی التجارۃ (رزق کا نوّے فیصد حصہ تجارت میں ہے) 90 % of provision lies in trade. ۔ یہ کوئی مذہبی عقیدہ کی بات نہیں۔ یہ فطرت ایک اٹل اصول ہے۔ خدا نے جس تخلیقی نقشہ کے تحت اس دنیا کو بنایا ہے، اس کے مطابق یہی ہونا ہے کہ معاشی وسائل کا بیشتر حصہ تجارت کے دائرہ میں رہے۔ یہ خالق کا مقرر کیا ہوا قانون ہے، اس کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
ایسی حالت میں وہ لوگ صرف اپنی بے خبری کا اعلان کررہے ہیں جو یہ شکایت کریں کہ ملک کا سرکاری نظام ہمارے ساتھ تعصب برتتا ہے، وہ ہم کو سرکاری ملازمت نہیں دیتا۔ میں ذاتی طور پر اس شکایت کو بے بنیاد مانتا ہوں۔ تاہم بالفرض اگر وہ درست ہو تب بھی میں کہوں گا کہ کوئی سرکاری نظام صرف اتنا کرسکتا ہے کہ وہ ایک سے رزق کا دس فی صد حصہ چھین لے مگر خدائی نظام کے تحت رزق کا نوّے فیصد حصہ پھر بھی آپ کے لیے قابل حصول رہے گا۔ ایسی حالت میں شکایت اور احتجاج کی کیا ضرورت۔
پیغمبر اسلام کے ابتدائی ساتھیوں کو صحابہ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا طرز فکر اور جن کا مزاج براہِ راست پیغمبر کے ذریعہ بنا تھا۔ اس طرح ان لوگوں کے اندر جو صفات پیدا ہوئیں ان کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ معاشی معاملات میں کسی کی شکایت نہیں کرتے تھے بلکہ تجارت کے کھلے ہوئے میدان کو استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ اصحاب رسول خشکی اور تری میں تجارت کرتے تھے (إنّ الصحابۃ کانوا یتجرون فی البر والبحر) :
Companions of the Prophet were trading in land and sea.
پیغمبر اسلام کے بعد کے زمانہ میں اسلام کو جو عالمی توسیع حاصل ہوئی اس میں سب سے زیادہ اسی کا دخل تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کی وفات کے بعد عرب کے باہر مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ ان میں سے ہر ایک وَن مین ٹو مِشن (one man two mission) کا مصداق بن گیا۔ انہوں نے دعوت کو اپنا مقصد بنایا اور معاشی ضرورت کے لیے تجارت کو اپنا وسیلہ بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نصف صدی کے اندر تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ درست طورپر کہا گیاہے کہ خدا تجارت کو اپنا مبلّغ بناتا ہے:
God is making commerce His missionary.
یہاں میں قرآن کا ایک حوالہ دوں گا جو اس سلسلہ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ وہ تاریخی واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۶ میں آیا ہے۔ اس سورہ میںاس صورت حال کی طرف اشارہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے مکہ میں موجود تھی۔ مکہ میں مقامی طورپر معاشی وسائل موجود نہ تھے۔ چنانچہ مکہ کے قبیلہ قریش کے لوگ اس تجارت میں مشغول ہوگئے جس کو آج کل اکسپورٹ اور امپورٹ کہاجاتا ہے۔
یہ لوگ تجارتی قافلہ کی صورت میں مکہ سے یمن کی طرف اور مکہ سے شام کی طرف اپنے اونٹوں کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ وہ اپنے مقامی سامانِ تجارت کو اونٹوں پر لاد کر لے جاتے اور ان کو یمن اور شام کے بازاروں میں فروخت کرتے اور پھر وہاں سے دوسرے سامان اونٹوں پر لے آتے اور مکہ اور اطرافِ مکہ میں ان کو بیچ کر نفع حاصل کرتے۔
امپورٹ اور اکسپورٹ کا یہ کامیاب بزنس قدیم زمانہ میں کیسے ممکن ہوا۔ اس کے بارہ میں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قریش کے لیے پُر امن سفر کے حالات پیدا کردیئے ۔ چنانچہ قریش کے قافلے محفوظ طورپر باہر کے علاقوں میں جاتے اور دوبارہ محفوظ طورپر واپس آتے:
God Almighty blessed the Quraysh with safe trade journeys.
قرآن کے مطابق، ایسا دو وجہوں سے ممکن ہوا۔ ایک تو یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا مرکزِ عبادت (کعبہ) مکہ میں تھا جس کی تولیت قریش کو حاصل تھی۔ عرب اور اَطرافِ عرب کی قومیں حضرت ابراہیم کو مشترک طورپر اپنا مذہبی بزرگ مانتی تھیں۔ دوسری بات یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سال غالباً ۵۷۰ میں یمن کے حاکم ابرہہ نے ۶۰ ہزار لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا مگر ابھی وہ مکہ کے باہر ہی تھا کہ ایک خدائی سزا کے تحت یہ پورا لشکر تباہ ہوگیا۔
ان دو واقعات کے نتیجہ میں مکہ کے قبیلۂ قریش کو عرب میں اور عرب کے باہر عمومی طورپر عزت واحترام کا مقام حاصل ہوگیا۔ اس طرح ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ اپنی تجارت کے لیے وہ چیز پالیں جس کو محفوظ سفر (safe journey) کہا جاتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں یہ تاریخ بہت زیادہ بڑے پیمانہ پر دہرائی گئی ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد جو نئے حالات پیدا ہوئے ہیں اُس کے نتیجہ میں سارے انسانوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ دنیا کے تمام حصوں میں محفوظ اور تیز رفتار سفر کر سکیں۔ وہ جدید کمیونیکیشن کے ذریعہ ساری دنیا میں اپنی تجارت کا جال بچھا دیں۔ یہ امکان تمام انسانوں کے لیے کھُلا ـتھا۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس نئے امکان میں سب سے کم حصہ اُن لوگوں کو ملا ہے جو اپنے آپ کو پُر فخر طور پر پیغمبرِ عربی کی امت کہتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی منفی سوچ کی بنا پر ایک ایسی سرگرمی میں مبتلا ہوگئے جو خدائی اسکیم سے لڑنے کے ہم معنٰی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان جہاد کے نام پر اُس چیز میں مبتلا ہوگئے ہیں جس کو دنیا اسلامک ٹررزم کہتی ہے— ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرنا، ہوائی جہازوں میں بم رکھ دینا، کاروں اور بسوں اور ٹرینوں میںبم رکھ کر سفر کو پُر خطر بنانا، سڑکوں پر بارودی سرنگ بچھا کر مسافروں کے دل میں خوف پیدا کرنا، وغیرہ۔
یہ سب کام خدا کی اسکیم کے خلاف ہیں۔ خدا نے چاہا کہ وہ اپنے بندوں کے لیے محفوظ سفر کے راستے پوری طرح کھول دے۔ مگر مسلمان اپنی متشددانہ تحریکوں کے ذریعہ خدا کی اس اسکیم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ان متشددانہ کارروائیوں میں براہِ راست طورپر مسلمانوں کی ایک محدود تعداد ہی شامل ہوتی ہے۔ مگر اسلامی شریعت کے مطابق، بقیہ مسلمان بھی اس سے بَری الذّمہ نہیں۔ اس لیے کہ بقیہ مسلمان ان واقعات کی مذمت کے لیے نہیں اُٹھے۔ ایسی حالت میں وہ شرعی اصول کے مطابق، ان متشددانہ کارروائیوں میں بالواسطہ طورپر شریک قرار پائیں گے جن میں دوسرے مسلمان براہِ راست طورپر شریک ہیں۔ حتی کہ کچھ مسلمان اگر ان واقعات کی مذمت کریں لیکن اسی کے ساتھ وہ اپنے بیان میں ’’اگر‘‘ اور ’’مگر‘‘ بھی جوڑ دیں تو ان کابیان اُنہیں اس معاملہ میں بری الذمّہ ثابت کرنے کے لیے ہر گز کافی نہیں ہوگا۔
بمبئی کے قیام میں انفرادی ملاقاتوں کے علاوہ بار بار چھوٹے اجتماعات ہوتے رہے۔ ایک اجتماع میںالرسالہ کے قارئین شریک تھے۔ اس موقع پر میں نے جو باتیں کہیں اُن میں سے ایک اجتماعی زندگی کی اہمیت کے بارہ میں تھی۔
میں نے کہا کہ اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔ دعوتی مشن بڑے پیمانے پر اجتماعیت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ مگر میرے تجربے کے مطابق اجتماعیت بے حد مشکل کام ہے۔ مسجد میں با جماعت نماز ادا کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن جماعتی طورپراسلامی دعوت کا کام کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں بار بار اختلاف اور شکایت کے مواقع آتے ہیں۔ جو لوگ شکایت کو عُذر بنائیں وہ کبھی اجتماعی کام نہیں کرسکتے۔ مضبوط اجتماعیت کی واحد شرط یہ ہے کہ ذاتی عذر کو کبھی عُذر نہ بنایا جائے۔ حتی کہ اُس وقت بھی نہیں جب کہ آدمی کو یقین ہو کہ اس کی رائے عملی طورپر زیادہ درست ہے۔
مثال کے طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوہ اُحد پیش آیا۔ عبد اللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں کی یہ رائے تھی کہ مدینے میںرہ کر مقابلہ کیا جائے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوان صحابہ کی رائے کی بنا پر مدینہ سے باہر نکل کرمقابلہ کا فیصلہ فرمایا۔ اس اختلاف کو لے کر عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی اجتماعیت سے الگ ہوگئے۔ یہ لوگ اسلام کی تاریخ میں منافقین کہے گئے۔ حالاں کہ تجربہ سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی رائے عملی اعتبار سے زیادہ درست تھی۔ چنانچہ بعد کو غزوۂ خندق کے موقع پر اسی رائے کے مطابق عمل کیا گیا۔
بمبئی میں کچھ مسلم نوجوانوں نے ایک دعوتی ادارہ قائم کیا ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
Islamic Centre for Research & Awareness (ICRA)
اِس ادارے کے ذمہ دار مسٹر سید جاوید (Tel: 9821197534) ہیں۔ اِ ن لوگوں نے اس ادارے کے ساتھ ایک بُک شاپ بھی کھولی ہے۔ جس میں الرسالہ اور دوسری اسلامی کتابیں موجود رہتی ہیں۔ اِس ادارے میں ایک اجتماع ہوا۔ اس میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کے علاوہ کچھ نَو مسلم بھی شریک تھے۔ یہاں میری ایک تقریر ہوئی۔
میںنے اپنی تقریر میں کہا کہ موجودہ زمانہ میں دعوتی نقطۂ نظر سے سب سے بڑا حادثہ یہ پیش آیا ہے کہ قومی شکایتوں کو لے کر مسلمان تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ ہندو، یہودی، عیسائی، امریکن، یوروپین، سب کے سب مسلمانوں کو اپنے دشمن نظر آتے ہیں۔ اُن کو دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب لوگ مسلمانوں کے خلاف سازش میں مشغول ہیں۔ اس منفی سوچ کا نتیجہ یہ ہُوا کہ’’ انسانیتِ عامّہ‘‘ مسلمانوں کا کنسرن نہ رہی۔
اسلام کی حقیقی تعلیمات ایک مومن کو انسان فرینڈلی بناتی ہیں۔ جس آدمی کا ذہن قرآن سے بنا ہو وہ دوسری قوموں کو رحمت وشفقت کی نظر سے دیکھے گا وہ یک طرفہ طور پر اُن کا خیر خواہ بنا رہے گا۔ اِسی کا نام مثبت ذہن ہے۔ یہ مثبت ذہن جب مسلمانوں میں ہو تو اس کے نتیجے میں اُن کے اندر حوصلہ اور آفاقیت پیدا ہوگی۔ وہ ہر شعبے میں کامیاب رہیں گے۔ اسی کے ساتھ اُن کا یہ مثبت ذہن دعوت کے عمل کو تیز تر کرنے میں معاون بنے گا۔
۲۱ نومبر کو بمبئی سے دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔ جناب ہارون شیخ صاحب کے ساتھ ائر پورٹ پہنچا۔ہارون شیخ صاحب بمبئی میں ایک اہم کام کررہے ہیں۔ وہ پورے معنوں میں ’’وَن مَین ٹو مشن‘‘ کی مثال ہیں۔ وہ ذاتی بزنس کے ساتھ ماہنامہ الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن نکال رہے ہیں۔ اِس انگریزی پَرچے کا نام اسپریچول میسیج (Spiritual Message) ہے۔ اس کا پہلا شمارہ جون ۲۰۰۳ کو شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد پابندی سے وہ ہر مہینے شائع ہورہا ہے۔ اس کا پتہ یہ ہے:
The Spiritual Message, Andheri (East)
Mumbai-400 099. India (Tel: 2834 1654)
بمبئی ایر پورٹ پہنچا تو وہاں حسب معمول بھیڑ دکھائی دی۔ انڈیا کے تمام ایر پورٹوں میں غالباً سب سے زیادہ بھیڑ بمبئی ایر پورٹ پر ہوتی ہے۔ بمبئی میں دو ائر پورٹ الگ الگ ہیں۔ ایک مُلکی پرواز کے لیے اور دوسرا انٹرنیشنل پروازوں کے لیے۔ بمبئی کے جہازوں میںمسافروں کی کثرت ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بمبئی سے لوگوں کے تجارتی تعلقات بہت زیادہ ہیں۔ آج کل ہوائی جہازوں میں سب سے زیادہ مسافر وہ لوگ ہوتے ہیں جو تجارت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تجارت کو ہر ملک میں غالب شعبہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر چہ مسلمان جدید تجارتی سرگرمیوں میںنسبتاً بہت کم نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے غیر حقیقی سیاسی ذوق نے اُن کو جدید تجارت کے میدان میں دوسروں سے پیچھے کردیا ہے۔
بمبئی سے انڈین ایر لائنز کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ جہاز کے اندر مطالعے کے لیے کئی اخبارات موجود تھے۔ ان میں سے ایک بمبئی کا اخبار ۲۱ نومبر کا مڈ ڈے (Mid Day) کا شمارہ ۲۱ نومبر ۲۰۰۴ تھا۔ اس اخبار میں ڈاکٹر اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال کا انٹرویو چھپا تھا، جو مسٹر دانش خاں نے ان سے لیا تھا:
سوال: پاکستان میںاس وقت جوصورت حال ہے اس پر اقبال کا ردّ عمل کیا ہوتا۔
جواب: موجودہ پاکستان کے بارہ میں اقبال کا رد عمل وہی ہوتا جو موجودہ انڈیا کے بارہ میں گاندھی کا ہوتا۔ میں بابری مسجد توڑے جانے اور گجرات کے فساد کے حوالے سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔
Q. How would have Iqbal reacted to the present state of affairs in Pakistan?
A. The same as Mahatma Gandhi would have reacted to the present state of affairs in India. I am referring to the demolition of the Babari Masjid and the massacre of Muslims in the state of Gujrat.
میں سمجھتا ہوں کہ یہ جواب صرف جزئی طورپر صحیح ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کی مسلم اقلیت کو جو حقوق اور جو مواقع ملے وہ اس سے بہت زیادہ تھے جو پاکستان کی ہندو اقلیت کو ملے۔ انڈیا میں بابری مسجد اور گجرات جیسے حادثے کی حیثیت استثناء کی ہے۔ جب کہ پاکستان کاحال یہ ہے کہ وہاں کے مسلمان تقریباً روزانہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہورہے ہیں۔ میرے نزدیک بابری مسجد کے گرانے سے بھی زیادہ سنگین واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں مسجدوں میںگھس کر نمازیوں کو بم اور گن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انڈیا کے مسلمان مسلسل ترقی کر رہے ہیں جب کہ پاکستان کے ہندوؤں کے لیے ترقی کے مواقع مسدود ہیں۔اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ انڈیا کے مسلمانوں کا تقابل پاکستان کے ہندوؤں سے کیا جائے۔ انڈیا کے مسلمانوں کا تقابل پاکستان کے مسلمانوں سے کرنا ایک مغالطہ انگیز بات ہے، وہ اس معاملہ میں صحیح تقابل نہیں۔
۲۱ نومبر ۲۰۰۴ کی شام کو ساڑھے سات بجے جہاز دہلی ائر پورٹ پر اترا۔ پورا جہاز بھرا ہوا تھا۔ یہ غالباً اس بات کی علامت تھی کہ حال میں حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں دہلی اور بمبئی کے درمیان کاروباری تعلق بہت بڑھ گیا ہے۔ دہلی کی حیثیت ملک کی سیاسی راجدھانی کی ہے۔ اور بمبئی کی حیثیت ملک کی تجارتی راجدھانی کی۔ اس نسبت سے دونوں کے درمیان پہلے بھی کافی تعلق تھا۔ اب اس تعلق میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ائر پورٹ سے نکل کر باہر آیا تو یہاں مسٹر رَجت ملہوترا ریسیو کرنے کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مشہور فلم اسٹار شاہ رُخ خان بھی اسی شام کی فلائٹ میں بمبئی سے دہلی آئے ہیں۔ وہ اپنے شیدائیوں کے ساتھ ابھی باہر نکلے ہیں۔ ان کو میں نے دیکھا تو میں نے فوراً ان کو پہچان لیا۔ مسٹررجت ملہوترا نے کہا کہ اگر یہی واقعہ پہلے ہوتا تو میں بھی ان کے پیچھے چلنے والوں میں سے ایک ہوتا۔ لیکن آج جب میں نے ان کو دیکھا تو میں صرف ۲ سکنڈ ان کی طرف دیکھ سکا اور اس کے بعد آپ کو ڈھونڈنے لگا۔
پھر انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ میرے اندر اس فرق کا سبب کیا ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ پہلے میں بھی مادّی نمائشوں میں گُم رہتا تھا۔ اب آپ کی کلاسوں میں شرکت کی وجہ سے مجھے اسپریچولٹی جیسی بڑی چیز مل گئی ہے۔ اب دوسری کوئی چیز مجھے اہم دکھائی نہیں دیتی، خواہ وہ کوئی فلم اسٹار ہو یا مادّی اعتبار سے کوئی دوسری بڑی چیز۔
دوسرا سفر
بمبئی میںایک دعوتی ادارہ قائم ہے۔ وہ خاص طور پر اسلام کے عمومی تعارف کے میدان میں کام کررہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو الرسالہ کی دعوتی تحریک سے متاثر ہوئے ہیں اور انہوں نے دعوت کے لیے منظم کام شروع کیا ہے۔ اس ادارے کا نام اور پتہ یہ ہے:
Islamic centre for research & awareness (ICRA)
3, Shantaram Patil Bldg., Gauthan 4th Lane,
S.V. Road, Behind Firdaus Mithaiwala,
Near Andheri Station (W.) Mumbai-58
Tel. 2628 6223— email:icra@islamsmessage.com
اس ادارے کی دعوت پر بمبئی کا سفر ہوا۔ ۹؍جون ۲۰۰۵ کو دہلی سے روانگی ہوئی اور ۱۲؍ جون ۲۰۰۵ کو بمبئی سے واپس آیا۔ یہ ایک دعوتی اور تربیتی سفرتھا۔
اِس سفر کی مختصر ردواد یہاں درج کی جاتی ہے۔ گھر سے ائیر پورٹ تک ایک صاحب مجھے پہنچانے کے لیے گیے تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ خدا کی معرفت کا طریقہ کیا ہے اُن کا خیال تھا کہ صوفیانہ اوراد ووظائف اور تبلیغی چلّے معرفتِ خداوندی کا ذریعہ ہیں۔ میں نے کہا کہ ان چیزوں کا معرفتِ خداوندی سے کوئی تعلق نہیں۔ خدا کی معرفت نہ کسی قسم کے تکرارِ الفاظ سے حاصل ہوتی ہے اور نہ وہ کسی نقل وحرکت کا نتیجہ ہے۔ معرفت کے حصول کا ذریعہ قرآن کے الفاظ میں تفکر اور تدبّر ہے۔
تفکر اور تدبّر کیا ہے۔تفکر اور تدبر سوچنے کے عمل کا نام ہے۔ معرفت دراصل ذہنی سرگرمی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے نہ کہ جسمانی ورزش کے ذریعہ۔ خدا نے انسان کو لامحدود ذہنی صلاحیت دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کے دماغ میں ایک سو ملین بلین بلین پارٹیکل ہیں۔ یعنی انسان کے دماغ میں سوچنے کی جو طاقت ہے وہ لامحدود ہے۔ اس ذہنی صلاحیت کو استعمال کرکے آدمی کو آفاق وانفُس میں خدا کی نشانیوں کو دریافت کرنا ہے۔ یہی ذہنی عمل معرفتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔
چنانچہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پہاڑوں کے علم سے اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی اُتارا۔ پھر ہم نے اُس سے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کردیے۔ اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ رنگوں کے ٹکڑے ہیں۔ اور گہرے سیاہ بھی۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی مختلف رنگ کے ہیں۔ اللہ سے اُس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست ہے، بخشنے والا ہے۔ (فاطر : ۲۸۔۲۷)
قرآن کی اس آیت میں پہاڑ جیسی چیزوں کا ذکر ہے۔ اور پھر فرمایا کہ: اللہ سے صرف علم والے ڈرتے ہیں۔ اس سیاق میںواضح طورپر علم سے مراد پانی، نباتات اور پہاڑ کا علم ہے۔ یعنی ان چیزوں کے علم سے خدا کی خشیت پیدا ہوتی ہے۔ یہی قرآنی ’’سُلوک‘‘ ہے اور یہی معرفتِ ربّانی کا اصل ذریعہ ہے۔
میرے سفروں میں اکثر کوئی مددگار میرے ساتھ ہوتا ہے۔ اس بار میرا یہ سفر تنہا تھا۔ کوئی مدد گار میرے ساتھ نہ تھا۔ میں سوچتا تھا کہ راستہ میں کوئی مشکل نہ پیش آئے مگر یہاں عجیب معاملہ ہوا۔ ایر پورٹ کے اندر داخل ہوتے ہی ایر کمپنی کی ایک خاتون کارکن نے آگے بڑھ کر مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے اور پھر میرا بیگ اور میرا ٹکٹ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے بعد ائر پورٹ کے تمام مراحل اسی خاتون نے طے کرائے۔ انتظار گاہ میں بیٹھنے کی جگہ نہ تھی تو انہوں نے ایک خصوصی کرسی کا انتظام کرکے مجھے بِٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ آپ یہاں بیٹھیے، جب جہاز کا وقت ہوگا تو میں خود آکر آپ کو لے جاؤں گی۔
میرا تجربہ ہے کہ بڑھاپا ایک اعتبارسے کمزوری ہے مگر وہ دوسرے اعتبار سے ایک نعمت ہے۔ نوجوان آدمی جب ایک بوڑھے انسان کودیکھتا ہے تو وہ اس کے روپ میں اپنے باپ یا اپنے دادا کو یاد کرتا ہے، وہ اپنے خاندانی بزرگ سے اُس کو اسوسییٹ کرلیتا ہے۔ چنانچہ وہ ایسے کسی آدمی کی خدمت کرکے ایک قلبی سکون حاصل کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے بزرگ کی خدمت کررہا ہوں۔
یہی تجربہ مجھے اجتماعات میں بھی ہُوا۔ دو سال پہلے نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر کے ہال میں میری ایک تقریر ہوئی۔تعلیم یافتہ ہندو یہاں کافی تعداد میں آئے ہوئے تھے۔ حاضرین میں سے ایک مسلمان نے بتایا کہ ان کے قریب کی سیٹ پر ایک ہندو پروفیسر بیٹھے ہوئے تھے۔ میری تقریر سُن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مسلمان نے اُن کے رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مولانا کی بزرگانہ باتوں کو سُن کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ میرے دادا مجھ سے خطاب کررہے ہیں۔
دہلی سے بمبئی کا سفر جیٹ ایرویز کی فلائٹ سے ہوا۔ فلائٹ پوری طرح بھری ہوئی تھی۔ یہ بیش تر تاجر لوگ تھے جو اپنے تجارتی مقاصد کے لیے بمبئی جارہے تھے۔ راستہ میں مختلف اخبارات اور میگزین مطالعے کے لیے موجود تھے۔ جیٹ ایر کی فلائٹ میگزین (Jet Wings) کے شمارہ جون۲۰۰۵ء میں بتایاگیا تھا کہ جیٹ ایرویز ہر دن 270 فلائٹ 72 مقامات کے لیے روانہ کرتی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے اس میں درج تھا کہ پانچ منٹ کے اندر ہم انڈیا کے کسی نہ کسی مقام کو مربوط کرتے ہیں:
Every 5 minutes we connect a place within India (p. 238)
میں نے سوچا کہ ربط کا اس سے بھی بڑا ایک واقعہ ہر لمحہ ہوتا ہے، مگر کسی کو اس کی خبر نہیں۔ اور وہ ہے خدا اور اس کے بندے کے درمیان غیر مرئی سطح پر ہر لمحہ ربط قائم ہونا۔ لوگوں کو مادّی سفرکا پتہ ہے لیکن لوگوں کو روحانی سفر کا پتہ نہیں۔
جیٹ ونگس کے ایک صفحے پر گووا کے ایک ہوٹل کا اشتہار تھا۔ اس اشتہار کے الفاظ یہ تھے: ایک ایسی جنت کا تصور کیجئے جہاں ہر قسم کے آرام اور سہولتیں موجود ہوں جن کا آپ نے کبھی خواب دیکھا ہے۔ ایسی جنت کے لطف کے لیے آپ گووا میں ہمارے ہوٹل میں آئیے یہاں آپ کو صحت، خوشی اور سکون ہر چیز ملے گی:
Imagine a paradise with all the comfort and facilities you ever dreamt of. Welcome to Radisson White Sands Resort Goa, where health, happiness and harmony stay together, so come…stay your way! (p. 125)
میں اس قسم کے ’’جنّتی ہوٹلوں‘‘ میں باربار ٹھہرا ہوں۔ مگر میرے تجربے کے مطابق کوئی بھی ہوٹل ’’جنتی ہوٹل‘‘ نہیں۔ اس قسم کے کسی ہوٹل میں جب آپ داخل ہوں تو وقتی طورپر بظاہر وہ آپ کو اچھا لگے گا، لیکن اگلے ہی دن آپ بورڈم کا شکار ہوجائیں گے۔ وہاں کے بظاہر تَعیّشاتی انتظامات آپ کو مصیبت معلوم ہونے لگیں گے۔ جلد ہی آپ اس سے بے رغبت ہو کر اس طرح واپس آئیں گے کہ یہ جنتی ہوٹل آپ کے لیے ایک تلخ یاد کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ اس قسم کے ہوٹل میں صرف اُن لوگوں کو خوشی مل سکتی ہے جو بظاہر تو انسان ہوں مگر ذہنی اعتبار سے وہ بھیڑ بکری کی سطح پر زندگی گذارتے ہوں۔
جہاز ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے بعد بمبئی پہنچا۔ میرے پاس کوئی لگیج نہ تھا۔ اس لیے میں فوراً ہی ایر پورٹ کے باہر آگیا۔ یہاں کئی لوگ موجود تھے— مسٹر ہارون شیخ، مسٹر محمد حنیف، ڈاکٹر کامران، ڈاکٹر اویس، مسٹر سید جاوید۔ ان کے ساتھ روانہ ہوکر مسٹر ہارون شیخ کے آفس میں پہنچا۔ یہ جگہ ائر پورٹ سے بہت قریب ہے۔ یہاں کئی لوگ اِکھٹّا ہوگئے۔ ظہر کی نماز تک یہیں قیام رہا۔
لوگوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ایک صاحب نے کہا کہ پہلے زمانہ میں آدمی ناہموار راستوں پر اونٹ اور خچر سے سفر کرتا تھا۔ اس لیے پہلے زمانہ میں شکر کی کیفیت پیدا ہوتی تھی۔ اب لوگ موٹر کار اور ہوئی جہاز کے ذریعہ سفر کرتے ہیں اس لیے اب شکر کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ میں نے کہا کہ یہ ناواقفیت کی بات ہے۔ شکر بالفاظِ دیگر ربانی کیفیت کا نام ہے۔ یہ خداوندِ بَرتر کے مقابلہ میں اپنی عاجزانہ عبدیت کو دریافت کرنا ہے۔ جو لوگ اس احساسِ عبدیت سے خالی ہوں اُن کو نہ پچھلے زمانہ میں ربّانی کیفیت کا تجربہ ہوسکتا تھا اور نہ وہ موجودہ زمانہ میں اس اعلیٰ کیفیت کا تجربہ کرسکتے تھے، جس کو شکر کہا جاتا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ دنیا کی نعمتوں کوکیوں نہ استعمال کیا جائے۔ اس سے تو خدا کے مُنعم ہونے کا تصوّر پیدا ہوتا ہے اور آدمی خدا کا شاکر بن جاتا ہے۔ میںنے کہا کہ نعمتوں پر شکر کا یہ بہت ناقص تصور ہے۔ شکر کا اعلیٰ تصوریہ ہے کہ آپ سورج اور چاند کو دیکھ کر شکر گذار بندے بنیں۔ دریا کی روانی اور ہوا کے جھونکوں میں آپ کوشکرِ خداوندی کا پیغام پہنچ رہا ہو۔ درخت کی ہریالی اور زمین کی گردش آپ کے اندر شکر کا طوفان برپا کردے۔ حقیقی شکر کا مآخذ ذاتی آرام نہیں، بلکہ قدرت خدا وندی کی پھیلی ہوئی نشانیاں ہیں۔ یہ بات قرآن کے ہر صفحے پر موجود ہے۔
ایک صاحب اقبال کے بہت پرستار تھے۔ میں نے کہا کہ اقبال کی شاعری غیر حقیقت پسندانہ جذباتیت پیدا کرتی ہے۔ جس کا نتیجہ تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مثلاً اقبال کا ایک شعر ہے:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میںتو دل ہوتا ہے سیپارہ
یہ شعر آدمی کے اندر وہ نفسیات پیدا کرتا ہے جس کو فارسی میں ’’پدرم سلطان بُود‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی آباواجداد کی گذشتہ عظمت پر فخر کرنا۔ حقیقت یہ تھی کہ سابق مسلم علماء کی کتابوں کے جو غیر مطبوعہ مسوَّدات یورپ کے کتب خانوں میں رکھے ہوئے ہیں، اب وہ صرف تاریخی میوزیم کی چیز ہیں۔ اب زمانہ اتنا ہی آگے بڑھ چکا ہے جتنا کہ قدیم غیر مطبوعہ کتابوں کے مقابلہ میں جدید طرز کی مطبوعہ اور مجلّد کتاب۔ اقبال کو چاہیے تھا کہ وہ مسلمانوں کے اندر حال اور مستقبل کا شعور پیدا کرتے مگر انہوں نے مسلمانوں کو فخرماضی کی مریضانہ نفسیات میں مبتلا کرکے چھوڑ دیا۔
مزید عبرت ناک بات یہ ہے کہ اقبا ل نے یورپ کی لائبریریوں میں اپنے آبا کی کتابوں کو دیکھا تو اُن کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، مگر اُسی یورپ میں لاکھوں لوگ سچائی سے محروم ہو کر جہنم کی طرف جارہے تھے لیکن اقبال اس اندوہ ناک صورت حال پر نہیں تڑپے اور نہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ تم یورپی قوموں کو جنت کا راستہ دکھا کر دعوت الی اللہ کا اہم ترین فریضہ ادا کرو اور پھر آخرت میں اللہ کے بڑے بڑے انعامات حاصل کرو۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ عرب دنیا میں جب مغربی استعمار کا دور آیا اور یہود فلسطین کی سرزمین میں غالب ہوگیے تو سارے عرب، عربی شاعر کا یہ شعر دھوم کے ساتھ پڑھنے لگے:
ہاتِ صلاح الدین ثانیۃً فینا جَدّدی حطّین أو شبہ حطّینا
یہ شعر گوئی یا اس قسم کی خطابت بے معنی جوش کے سوا اور کچھ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ صلاح الدین (وفات ۱۱۹۳ء)دوبارہ جدید تاریخ میں پیدا ہوئے اور اُنہوں نے دوبارہ حِطّین جیسے معرکے برپا کیے۔ مگر یہ سراسر بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ مثلاً سلطان ٹیپو (وفات ۱۷۹۹ء) بہادری کے اعتبار سے صلاح الدین سے کم نہ تھے۔ یاسر عرفات بھی اسی قسم کی ایک عسکری مثال تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ زمانہ علم کا زمانہ ہے نہ کہ تلوار کا زمانہ۔ مسلم رہنماؤں کی غلطی یہ ہے کہ وہ علم کے دَور میں تلوار کے ذریعہ جیت حاصل کرنا چاہتے ہیں، حالاں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔
بمبئی میں جوگیش وَری کے علاقے میں ایک نَو تعمیر فلیٹ چند دن کے لیے حاصل کیا گیا تھا، میرا قیام اسی فلیٹ میں رہا۔ ہارون شیخ صاحب کے آفس سے روانہ ہو کر ہم لوگ یہاں آگیے۔ یہاں حلقہ الرسالہ کے کئی لوگ برابر میرے ساتھ مقیم رہے۔ اُن سے برابر گفتگو جاری رہی۔ ان لوگوں نے عام رواج کے مطابق دعوتی کھانے کا انتظام کیا تھا۔ میںنے ان دعوتی کھانوں میںشرکت نہیں کی۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ اس نوابی تہذیب میں کب تک جیتے رہیں گے۔ جو لذیذ اور دعوتی کھانے مسلمانوں میں رائج ہیں وہ در اصل مسلمانوں کے پچھڑے پن کی علامت ہیں۔ الرسالہ کے ایک قاری اپنے گھر سے سادہ کھانا لاتے رہے اور میں نے بمبئی کے قیام کے دوران اسی کھانے کو ترجیح دی۔
جوگیش وری کا یہ فلیٹ عملاً ایک قسم کی تربیت گاہ بن گیا۔ یہاں رات دن لوگ آتے رہے اور ان سے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔
ایک صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میںنے کہا کہ آرٹ آف تھنکنگ کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ آپ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو جانیں۔ مثال کے طورپر آپ لوگ اکثر ڈبیٹ (debate) کو دعوت کہتے ہیں۔ حالاں کہ ڈبیٹ اور دعوت میں بنیادی فرق ہے۔ ڈبیٹ اپنے مقابل میں دوسرے کو زیر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ڈبیٹ در اصل ایک قسم کی تقریری پہلوانی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دعوت ایک درد مندانہ عمل ہے۔ دعوت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کو دل سوزی کے انداز میں سچائی کا پیغام پہنچایا جائے تاکہ وہ اُسے اپنے دل کی بات سمجھے اور اُس کو قبول کرلے۔
ڈبیٹ (مناظرہ) اور دعوت دونوں کے نتائج ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ڈبیٹ سے ڈبیٹر کے اندر فخر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف فریقِ ثانی کے اندر وہ نفرت کا جنگل اُگاتا ہے۔ ڈبیٹ اپنے نتیجے کے اعتبار سے دعوت کا قاتل ہے۔ دعوت کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ دعوت در اصل محبت و شفقت کا اظہار ہے۔ وہ داعی کے اندر احساسِ ذمے داری کو جگاتی ہے اور دوسری طرف مَدعو کے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے اندر نظر ثانی کرے اور سچائی کا متلاشی بن جائے، یہاں تک کہ سچائی کو اپنا کر وہ خدا کے ان بندوں میں شامل ہوجائے جن سے خدا قیامت میں راضی ہوگا۔
ایک صاحب نے معترضین اسلام کا سروے کرکے ساٹھ سوالات بنائے تھے۔ انہوں نے یہ سوالات مجھ کو لکھ کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ان سوالات کا جواب تیار کردیں تو ہم ان کو شائع کرکے بڑی تعداد میں پھیلائیں گے تاکہ اسلام کے خلاف غلط فہمیاں ختم ہوں۔ میںنے کہا کہ یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں۔ یہ سوالات ہمیشہ سُنی سنائی باتوں پر ہوتے ہیں۔ وہ کسی گہری سوچ کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سوال کاجواب دیتے رہتے ہیں مگر اسلام کے خلاف غلط فہمیاں ختم نہیں ہوتیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ لوگوں کے اندر آرٹ آف تھنکنگ پیدا کی جائے۔ لوگوں کو صحیح طرز پر سوچنے والا بنایا جائے۔ اِس کے بعد لوگ خود ہی ہر سوال کا جواب پالیں گے۔
میں پارک میں ٹہل رہا تھا، یہاں ایک صاحب مجھ سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کو ٹی وی پر دیکھا تھا اس سے میں نے آپ کو پہچانا۔ انہوں نے اپنا نام ابو سفیان بتایا۔ وہ الرسالہ کے قاری تھے اور کچھ کتابیں بھی پڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ الرسالہ کے مطالعے سے مجھ کو بہت فائدہ ہوا۔ خاص طورپر اس کی وجہ سے میرے اندر حقیقت پسندی آئی۔ ایک اور صاحب (مسٹر خالد) سے ملاقات ہوئی۔ انہوںنے بتایا کہ ۱۹۹۳ء میں جب آپ بمبئی آئے تھے اور یہاں آپ نے بابری مسجد کے مسئلے پر تقریر کی تھی، اُس وقت اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں میں میں بھی شریک تھا۔ اُس وقت میں آپ کو دشمنوں کا آدمی سمجھتا تھا۔ مگر اُس کے بعد میں نے الرسالہ اور آپ کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا یہاں تک کہ میری فکر پوری طرح بدل گئی۔ اب میں آپ سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور آپ کے مشن سے جڑ کر کام کرنا چاہتا ہوں۔
ایک مسلم نوجوان نے کہا کہ آپ اکثر ایڈجسٹمنٹ کی باتیں کرتے ہیں یہ تو بزدلی ہے۔ میں نے کہا کہ ایڈجسٹمنٹ بزدلی نہیں بلکہ وہ ایک حکیمانہ تدبیر ہے۔ میں نے کہا کہ ایڈجسٹمنٹ تو ہرآدمی ہر روز کرتاہے ایڈجسٹمنٹ کے بغیر کوئی فیملی نہیں چل سکتی، ایڈجسٹمنٹ کے بغیر آپ کوئی جاب نہیں کرسکتے، ایڈجسٹمنٹ کے بغیر آپ بزنس میں کامیاب نہیں ہوسکتے، ایڈجسٹمنٹ کے بغیر آپ سوسائٹی میں عافیت کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔
میں نے کہا کہ آپ اور دوسرے لوگ اپنی ذاتی زندگی میں عین یہی طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مگر جب معاملہ مسلم اور نان مسلم یا مسلمان اور ہندو کا ہو تو آپ لوگ اُس کو قومی پرسٹیج (prestige) کا ایشو بنالیتے ہیں۔ یہی وہ منفی نفسیات ہے جس کی بناپر آپ جیسے لوگوں کو ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ پسپائی اور بزدلی کا طریقہ نظر آنے لگتا ہے۔
۱۰؍جون ۲۰۰۵ کو جمعہ کا دن تھا۔ پروگرام کے مطابق ہم لوگ ڈیری فارم کی مسجد میں گیے اور وہاں جمعہ کی نماز ادا کی۔ لوگوں کی فرمائش کے مطابق میں نے خطبۂ جمعہ سے پہلے آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ میںنے کہا کہ جب میں یہاں پہنچا تو نماز سے پہلے مجھے مسجد کے چیر مین صاحب کے دفتر میں تھوڑی دیر بیٹھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے مجھے آربری کا انگریزی ترجمہ دکھایا اور بتایا کہ میں اس کو برابر پڑھتا ہوں ۔ اس واقعہ کو لے کر میں نے بتایا کہ آربری کی پیدائش ایک مسیحی خاندان میں ہوئی۔ مراکو کے ایک ہوٹل میں قیام کے دوران انہوں نے قرآن کی قرأت ٹیپ پر سُنی۔ وہ اگر چہ عربی زبان نہیں جانتے تھے، مگر قرآن کے حُسن صَوت سے وہ بہت متاثر ہوئے۔اس کے بعد انہوںنے مصر جاکر عربی سیکھی اور پھر قرآن کا براہِ راست مطالعہ کرکے اُنہوں نے اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ کہاجاتاہے کہ انہوں نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا۔
میں نے قرآن سے متعلق کئی واقعات بیان کیے اور پھر کہا کہ قرآن خدا کا ایک ابدی معجزہ ہے، ویسا ہی ایک معجزہ جیسا کہ حضرت موسی ؑ کا عصا تھا۔ قدیم مصر میں جب حضرت موسیؑ کا مقابلہ جادوگروں سے ہوا، تو یہ ہوا کہ جادو گروں نے رسّیاں اور لاٹھیاں ڈالیں جو میدان میں سانپ کی مانند دوڑنے لگیں۔ قرآن کے مطابق، اس کو دیکھ کر حضرت موسیٰ ڈر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ، تم نہ ڈرو بلکہ تم اپنا عصا میدان میں ڈال دو، وہ جادو گروں کے سانپوں کو نگل جائے گا۔ چنانچہ یہی ہوا۔ حضرت موسی نے جب اپنا عصا ڈالا تو اس کے بعد وہ معجزاتی واقعہ ظاہر ہوا جس کو قرآن میں: فإذا ہی تلقف ما یأفکون کہا گیا ہے۔
میں نے کہا کہ آج کے مسلمان اگر قرآن کو سمجھیں، وہ قرآن کے مطابق اپنی سوچ بنائیں، وہ اپنے حریفوں کے مقابلہ میں قرآن کو استعمال کریں توآج بھی دوبارہ یہ معجزاتی واقعہ پیش آئے گا کہ: فإذا ہی تلقف مایأفکون۔
۱۰ جون کی شام کو اکراء (ICRA) کے ادارے میں ایک اجتماع ہوا۔ اس میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی شریک ہوئے۔ اس اجتماع کے لیے یہ عنوان رکھاگیا تھا: اسلام عالم انسانیت کو کیا دیتا ہے۔ میںنے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام کی عمومی تعلیمات کو بیان کیا۔ لوگ بہت غور سے اُس کو سنتے رہے۔
اس تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کوئی منفرد یا سُپیریر مذہب نہیں۔ اسلام وہی عالمی مذہب ہے جو خدا ہر زمانہ میں مختلف پیغمبروں کے ذریعہ بھیجتا رہا ہے۔ اسلام اور دوسرے مذہبوں میں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ اسلام تاریخی اعتبار سے قابل اعتبار مذہب ہے، جب کہ دوسرے مذاہب کی تاریخی اعتباریت یقینی نہیں۔ اس سلسلے میں میں نے مختلف غیر مسلم اسکالرس کا حوالہ دیتے ہوئے اس کو علمی طورپر واضح کیا۔
میںنے کہا کہ ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے نے اعتراف کیا ہے کہ پیغمبر اسلام کے سوا کسی مذہبی رہنما کو تاریخی شخصیت نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح سوامی وویکانند نے اعتراف کیا ہے کہ یہ صرف اسلام ہے جس نے کامل مساوات پر مبنی انسانی سماج قائم کیا ہے۔ اسی طرح مہاتما گاندھی نے کہا ہے کہ ہمارے وزیروں کو سادگی اور انصاف کے لیے ابوبکر اور عمر کا نمونہ پکڑنا چاہیے۔ کیوں کہ رام اور کرشن تاریخی شخصیت نہیں۔ اسی طرح آرنلڈ ٹوائن بی نے لکھا ہے کہ جدید سائنس کو مُوحِّدانہ مذہب (اسلام) نے پیدا کیا۔ اسی طرح ڈاکور مائیکل ہارٹ نے لکھا ہے کہ محمد پوری انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے، وغیرہ۔
اس طرح کی مثالیں دیتے ہوئے میں نے کہا کہ اسلام کا تاریخی پہلو اتنا زیادہ واضح ہے کہ غیر مسلم مؤرخین نے بھی کھلے طورپر اس کا اعتراف کیا ہے۔ مگر ایک کمی ابھی تک موجودہ ہے کہ مذہب کی دنیا میں کھلا ڈائیلاگ رواج نہ پاسکا۔
میںنے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے علمی شعبوں میں مسلسل ترقی ہورہی ہے۔ لیکن مذہب جمود کا شکار ہے۔ مذہب ایک ہی روایتی حالت پر مسلسل قائم ہے۔ اس جمود کا سبب یہ ہے کہ مذہب میں کھلا ڈائیلاگ ممکن نہ ہوسکا۔ جب بھی مذہب میں کھُلا ڈائیلاگ کیا جاتا ہے تو وہ فوراً مناظرے کی صورت اخیتار کرلیتا ہے۔ اور مناظرہ ضد اور تعصب کو بڑھا کر ذہنی ترقی کے عمل کو روک دیتا ہے۔
تقریر کے بعد سوال وجواب کا وقفہ تھا۔ حاضرین کی طرف سے کئی سوالات سامنے آئے۔ ڈاکٹر ہریش کامدار امریکا کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ وہ بھی اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ اُنہوں نے سوال کیا کہ میں خود ایک سیکولر آدمی ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب میں اوپن ڈائیلاگ ممکن نہیں۔ جیسا کہ آپ نے خود کہا۔ آپ حق کے متلاشی تھے۔ پھر آپ نے اسلام کو واحد سچائی (The Truth) کے طورپر دریافت کیا۔ ایسی حالت میںآپ کھُلے ذہن کے ساتھ ڈائیلاگ کیسے کرسکتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ سائنسی علوم کی طرح مذہب میں بھی کھُلا ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ مگر سائنس میں ڈائیلاگ اس لیے کا میاب ہوتا ہے کہ وہاں کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے آخری سچائی کو پالیا ہے۔ مگر مذہب میں اس قسم کا بے لاگ ڈسکشن ممکن نہیں۔
میں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ انسان کی صلاحیت کا کمتر اندازہ ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے برین میں ایک سو ملین بلین بلین پارٹیکل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں لامحدود صلاحیت موجود ہے۔ انہی میں سے ایک صلاحیت بلاشبہہ یہ ہے کہ وہ خالی الذہن (empty mind)ہو کر سوچ سکے۔ وہ اپنے خیالات سے الگ (detach) ہو کر دوسرے نقطۂ نظر کو سُن سکے۔
میں نے کہا کہ دماغ کے اس لامحدود امکان کی ایک مثال یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے محبت کرتا ہے مگر عین اُسی وقت وہ اپنے باپ سے اُتنی ہی محبت کرتاہے۔ آدمی اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ یکساں طورپر اپنی بہن سے بھی محبت کرتا ہے۔ یہ انسانی ذہن کے لامحدود امکانات کی ایک مثال ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مغربی مفکر نے کہا کہ میرا ظرف اتنا زیادہ بڑا ہے جو ان تمام تضادات کو اپنے اندر سمو سکے:
I am large enough to contain all these contradiction.
اس اجتماع میں ایک اور ہندو تاجر شریک تھے وہ جین مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کا نام نیول سنگھوں تھا۔ اُنہوں نے پوری تقریر سنی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک سوال کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ سڑک پر اگر کوئی شخص ایک انسان کو قتل کرے تو آپ کو کیسا لگے گا۔ میںنے کہا کہ بہت بُرا لگے گا۔ انہوںنے پھر کہا کہ اگر کوئی شخص ایک کُتے کو سڑک پر قتل کرے تو آپ کو کیسا لگے گا۔ میںنے کہا کہ بہت بُرا لگے گا۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ جب ایسا ہے تو آپ لوگ کیوں ذبیحہ کرتے ہیں اور جانور کو مار کر اُس کا گوشت کھاتے ہیں۔
میں نے کہا کہ اس معاملہ کے دو پہلو ہیں۔ اخلاقی اور غذائی۔ اخلاقی اعتبار سے آپ اس معاملہ کو نہ دیکھیںبلکہ غذائی اعتبار سے دیکھیں۔ آپ جانتے ہیں کہ زمین کے بہت سے حصے ایسے ہیں جہاں گوشت اور مچھلی کے سوا کوئی اور غذا نہیں ملتی۔ میں خود روس گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں صرف نان ویجیٹیرین فوڈ دستیاب ہے۔ ایسی حالت میں اگر آپ سارے انسانوں کو ویجیٹیرین فوڈ کھانے پر مجبور کردیں تو بہت سے لوگ بھوکے مر جائیں گے۔
پھر میں نے کہا کہ بات صرف ویجٹیرین فوڈ اور نان ویجیٹیرین فوڈ کی نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز زندگی سے خالی نہیں۔ ہوا ، پانی ، دودھ اور سبزی اور پھل ہر چیز میں زندگی ہے۔ آپ خواہ گوشت مچھلی نہ کھائیں تب بھی آپ ہر دن لاکھوں زندگیوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ گویا نان ویجیٹیرین فوڈ کا نظریہ سرے سے قابل عمل ہی نہیں۔
مذکورہ دونوں صاحبان نے میرے جواب کے وزن کو تسلیم کیا۔ چنانچہ اجتماع کے خاتمہ پر جب لوگ جانے لگے تو پروفیسر ہریش کامدار نے اعتراف کے طورپر ہندو طریقہ کے مطابق، میرا چَرَن اَسپَرش کیا۔ اُنہوں نے اجتماع کے ناظم مسٹر سید جاوید سے کہا کہ مولانا صاحب کی تقریر میری توقع سے زیادہ تھی۔ اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں اُن کے تمام پروگرام میں شرکت کرتا۔
مسٹر نیول سنگھوں نے اپنے ایک مسلم ساتھی ریاض احمد صاحب سے کہا کہ اسلام ایک پریکٹکل مذہب ہے۔ اسلام میں ہر بات بہت کلیر ہے۔
اس اجتماع سے فارغ ہوکر ہم لوگ جوگیش وری کے فلیٹ میں آگئے۔ یہاں کئی لوگ اکھٹا ہوگئے۔ اُن سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کے اجتماع سے ایک بات یہ واضح ہوتی ہے کہ انڈیا میں دعوتی کام کے مواقع بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ میں نے اپنی تقریر میں واضح طورپر دوسرے مذہبوں کے مقابلہ میں اسلام کوزیادہ مستند مذہب بتایا۔ مگر کسی ہندو کی طرف سے منفی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ بلکہ سبھی نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔
ایک اور سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہاکہ انڈیا کے ہندوؤں میں کام کرنے کے لیے ہم نے بہت سے بروشر اور پمفلٹ انگریزی زبان میں شائع کیے ہیں۔ یہ اس لیے ہیں کہ آپ اور دوسرے تمام لوگ ان کو حاصل کرکے اپنے اپنے حلقے میں پھیلائیں۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے ہینڈبیگ میںاُن کو رکھے اور ملاقات اور انٹریکشن کے دوران وہ اُنہیں لوگوں تک پہنچا تا رہے۔ ان میں اسلام کو عمومی اور آفاقی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تیار کی ہوئی تمام کتابیں شعوری یا غیر شعوری طورپر مسلمانوں کے ذہن کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ اس لیے وہ غیرمسلموں کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ہم نے ان کتابچوں کو عمومی انسانی انداز میں تیار کیا ہے۔ تاکہ ہر ایک اس میںسے اپنے تجسس کا جواب پاسکے۔ یہ کتابیں مختصر ہونے کی بنا پر ایسی ہیں کہ آدمی فوراً ہی ان کو پڑھ لے۔
۱۱ جون ۲۰۰۵ کی صبح ہوئی تو میں جوگیش وری کے فلیٹ میں تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق، محمد حنیف صاحب صبح کو آئے۔ ان کے ساتھ روانہ ہو کر میں ملت نگر پہنچا۔یہاں کی مسجد میں فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی۔ مسجد کافی بڑی تھی اور نمازیوں کی تعداد بھی کافی۔ اس مسجد میں پہلے بھی میں نماز ادا کرچکا ہوں۔
اس کے بعد محمد حنیف صاحب کے ساتھ قریب کے پارک میں ٹہلنے کے لیے گیا۔ یہاں ایک صاحب ملے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اُنہوں نے مجھ کو ٹی وی پر دیکھا تھا۔ اس لیے وہ مجھ کو دیکھتے ہی پہچان گئے۔ اُن کے ساتھ کچھ دیر تک پارک کی بنچ پر بیٹھا۔ ان صاحب نے بتایا کہ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ اس سے پہلے اُن کے مزاج میں شدت تھی۔ وہ دوسروں سے فوراً لڑ پڑتے تھے۔ مگر الرسالہ پڑھنے کے بعد ان کے اندر تحمل کی صفت پیدا ہوگئی۔ اب وہ زیادہ کامیاب اور پُرسکون زندگی گذار رہے ہیں۔
الرسالہ کے اکثر قاری یہی بات کہتے ہیں— اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم رہنماؤں کی منفی سیاست کے نتیجے میں پوری کی پوری قوم شدت پسند بن گئی۔ ہر مسلمان معمولی بات پر بھڑک اُٹھتا ہے۔ جدید تاریخ میںالرسالہ پہلا پرچہ تھا جس نے مسلمانوں کو صبر اور تحمل کی اہمیت بتائی۔ ایک طرف قرآن و حدیث اور دوسری طرف عقلی دلائل کے ذریعہ لوگوں کو یقین دلایا کہ ترقی کا راز صبر و تحمل میں ہے، نہ کہ ٹکراؤ اور احتجاج میں۔
اس کے بعد ہم لوگ جوگیش وری واپس آگئے۔ یہاں عصر کی نماز ادا کی۔ کئی لوگ اکھٹا ہوگئے جن سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔
مسٹر فاروق فیصل نے کہا کہ الرسالہ میں دار الاسلام، دار الکفر اور دار الحرب کے عنوان سے آپ کا جو مضمون آیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اس کی اہمیت کی بنا پر ضرورت ہے کہ اس موضوع پر ایک باقاعدہ سیمنار کیا جائے۔
میں نے پوچھا کہ مختلف موضوعات پر بار بار بڑے بڑے سیمنار ہوئے ہیں۔ کیا ان سیمناروں کا کوئی مثبت نتیجہ نکلا ہے۔ کسی قدر سوچنے کے بعد انہوں نے کہا: نہیں۔ انہوںنے کہا میں نے خود کئی سیمناروں میں شرکت کی ہے۔ مگر وہاں ’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ کے سوا مجھ کو کچھ اور نہیں ملا۔ میں نے کہا کہ جب آپ کو خود یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ ان سیمناروں کا کوئی فائدہ نہیں تو اب اِسی قسم کا ایک اور بے فائدہ سیمنار آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سیمینار کا لفظ بولنے میں بہت بڑا معلوم ہوتا ہے مگر کم ازکم موجودہ حالات میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ سیمینار میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اکھٹا ہوتے ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق یہ سب کے سب ایگوئسٹ (egoist) ہوتے ہیں۔ اُن کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کی بات نہ مانیں۔ چنانچہ وہ نیا نیا نکتہ نکال کر مسلسل بحث کرتے رہتے ہیں، ایسی بحث جو کبھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچتی۔ حقیقی علم وہ ہے جو آدمی کے اندر ماڈسٹی پیدا کرے۔ مگر ایسے صاحب علم بے حد کم یاب ہیں جن کے علم نے ان کو ماڈسٹ بنا دیا ہو۔
الرسالہ کے قارئین کی ایک نشست میں یہ طے ہوا کہ بمبئی کے کسی مناسب مقام پر ایک ماہانہ اجتماع ہر مہینے کے پہلے اتوار کو کیا جائے۔ پھر اجتماع کے آرگنائزر کے طورپر مسٹر سید جاوید کا انتخاب کیا گیا۔
میں نے کہا کہ کسی بھی مشن کی کامیابی کے لیے اجتماعی جدوجہد بہت ضروری ہے۔ میںنے کہا کہ جماعت بندی اور اجتماعی جدوجہد میں فرق ہے۔ جماعت بندی تعصّب اور گر وہ پرستی پیدا کرتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں اجتماعی جدوجہد ایک عملی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں نے جماعت بندی میں غلو کرکے اس کو عقیدے کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ یعنی جو جماعت میں نہیں وہ ’’من شَذّ شُذَّ فی النار‘‘ کا مصداق ہے۔ اس قسم کا نظریہ بلا شبہہ بدترین غلو ہے۔ اور غلو، اسلام میں نہیں۔
صحیح یہ ہے کہ اجتماعیت کا تعلق عقیدے سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عملی ضرورت سے ہے۔ کوئی ایک شخص خواہ وہ کتنا ہی زیادہ قابلیت رکھتا ہو، کبھی کوئی بڑا کام نہیںکرسکتا۔ بڑے کام کے لیے اجتماعی جدوجہد یا مشترکہ جدوجہد لازمی طورپر ضروری ہے۔ اجتماعی جدوجہد ایک عملی ضرورت ہے۔ وہ شرعی عقیدے کا مسئلہ نہیں۔
۱۱ جون ۲۰۰۵ کو ماہِم میں مسٹر رضوان احمد ایڈوکیٹ کی رہائش گاہ پر ایک اجتماع ہوا۔ اس میں تعلیم یافتہ مرد اور عورت شریک ہوئے۔ اس اجتماع میں ایک سوال کی کسی قدر مفصل وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ میرے مطالعے کے مطابق جنت میں جانے کے لیے مُزکّٰی شخصیت (purified soul) (طٰہ ۷۶)کی ضرورت ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے جنت کے حصول کے بارہ میں جو نظریے بنائے وہ سب کے سب مجھے بے بنیاد نظر آتے ہیں۔
کوئی سمجھتا ہے کہ کلمہ کے الفاظ دہرا لینا جنت میں داخلے کے لیے کافی ہے۔ کوئی کسی وسیلے پر بھروسہ کئے ہوئے ہے۔ کوئی فضائل کی کہانیوںمیںگم ہے۔
میرے مطالعے کے مطابق یہ سب ’’اَمانی‘‘(النساء ۱۲۳) کی مثالیں ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ جنت ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کریں۔
میں نے کہا کہ قرآن میں آیا ہے: قد أفلح من زَکّٰہا وقد خاب من دسّٰہا (الشمس ۹۔۱۰)
Succesful are those who purify their souls and failures are those who pollute their souls (91: 9-10)
اس معاملہ کی وضاحت حدیث سے ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
إن ہذہ القلوب تصدأ کما یصدء الحدید إذا أصابہ الماء. قیل وما جلاء ہا؟ قال: کثرۃ ذکر الموت وتلاوۃ القرآن (دلوں کو زنگ لگتا ہے جس طرح لوہے کو پانی سے زنگ لگتا ہے۔ پوچھا گیا اس زنگ کی صفائی کا طریقہ کیا ہے؟ فرمایا: موت کو زیادہ یاد کرنا اور قرآن کو پڑھنا)
دل میں زنگ کی عملی صورت کیا ہوتی ہے اس کو ایک اور حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
إن المؤمن إذا أذنب کانت نکتۃ سوداء فی قلبہ. فإن تاب واستغفر صقل قلبہ، وإن زاد زادت حتّی یعلوَ قلبہ (مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا دھبّہ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر یہ دَھبّے بڑھتے رہیں تو وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتے ہیں)
اس معاملہ کو جدید نفسیاتی تحقیق کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ جدید نفسیاتی تحقیق بتاتی ہے کہ انسانی دماغ کے تین حصّے ہیں: کانشش مائنڈ، سَب کانشش مائنڈ اور اَن کانشش مائنڈ۔ مطالعے کے مطابق یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص کوئی بُرائی کرتا ہے تو پہلے دن وہ اس کے کانشش مائنڈ میں ہوتی ہے۔ اگر وہ اس کو لے کر رات کو سوجائے تو فطری پراسس کے تحت وہ اس کے سب کانشش مائنڈ میں چلی جاتی ہے۔ اگر وہ اسی حالت پر باقی رہے تو اگلی رات یا کئی راتوں کے بعد وہ اَن کانشش مائنڈ میں چلی جاتی ہے۔ کوئی چیز جب تک کانشش مائنڈ میں ہو، وہ پوری آدمی کے کنٹرول میں ہوتی ہے لیکن سب کانشش مائنڈ میں جانے کے بعد اگر مزید تاخیر ہو اور وہ فطری پراسس سے گذرتے ہوئے اَن کانشش مائنڈ میں پہنچ جائے تو اس کے اوپر سے آدمی کا کنٹرول ختم ہوجاتا ہے۔
اس تحقیق کی روشنی میں معاملہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جب آدمی کے ذہن میں کوئی بُرائی یا دوسرے لفظوں میں نگیٹیو آئیٹم (negative item)آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ فوراً اس کی تطہیر کرے تاکہ وہ اس کے حافظے میں پازیٹیو آئیٹم کے طورپر اسٹور (store) ہو۔ اگر آدمی نے ایسا نہیں کیا تو دھیرے دھیرے اس کا اَن کانشش مائنڈ نگیٹیو آئیٹم کا اسٹور بن جائے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے انسان کا قول و عمل زیادہ تر اس کے اَن کانشش مائنڈ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جس آدمی کا لاشعور نگیٹیو آئیٹم سے بھر جائے وہ گویا کثیف روح بن گیا اور جو آدمی اپنے لاشعور کو مطہَّرکرسکے وہی خدا کے نزدیک مطہّر روح قرار پائے گا۔
۱۱؍جون ۲۰۰۵ کی شام کو ہم لوگ دوبارہ جوگیش وری کے فلیٹ میں واپس آئے۔ یہاں حسب معمول لوگوں سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ایک مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ کار آمد انسان وہ ہے جس میں دو میں سے ایک صفت ہو۔ یا تو وہ باتوں کو خود گہرائی کے ساتھ سمجھ سکتا ہو۔ اور اگر اس کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو تو اس کے اندر یہ صفت ہونی چاہیے کہ وہ سمجھ دار آدمی کی بات فوراً مان لے۔ جن لوگوں کے اندر دونوں میں سے کوئی ایک بات موجود نہ ہو، ان کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ مولانا اسماعیل میرٹھی نے اس بات کو سادہ انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:
جو نہ دانا ہو، نہ داناؤں کا مانے کہنا
میرے نزدیک یہ بات درست ہے مگر اسی کے ساتھ میرا تجربہ ہے کہ دونوں ہی میں ایک بات مشترک ہے اور وہ تواضع (modesty) ہے۔ دانش مند کی دانش مندی اُسی وقت کار آمد ہے جب کہ اس کے اندر تواضع کی صفت کامل طورپر موجود ہو۔ اسی طرح غیر دانش مند کی غیر دانشمندی اُس وقت مفید ہے جب کہ وہ دل سے یہ مانتا ہو کہ میں دانش مند نہیں ہوں۔
عشاء کی نماز کے بعد لوگوں کو بتایا کہ نماز اصلاً ایک انفرادی عمل ہے۔ نماز کا مقصد خشوع ہے اور خشوع کسی ایک فرد کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کیوں نماز کو جماعت کے ساتھ لازم کردیا گیا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کے اندر اجتماعیت کی اسپرٹ پیدا کرنا ہے۔ عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر باجماعت نماز کی دھوم مچی ہوئی ہے، مسجدیں باجماعت نمازیوں سے بھری رہتی ہیں، مگر اجتماعیت کی روح مسلمانوں کے اندر بالکل موجود نہیں۔ گروہی عصبیت کے تحت وہ اپنے بنائے ہوئے حلقے کے ساتھ وابستہ رہ سکتے ہیں، مگر وسیع تر معنوں میں اسلامی اجتماعیت اُن کے اندر سرے سے موجود نہیں۔
۱۲ جون ۲۰۰۵ کو بمبئی سے واپسی کا دن تھا۔ صبح کو فجر کی نماز میں نے ہارون شیخ صاحب کے ساتھ ادا کی۔ پھر اُن کے ساتھ قریب کے ایک پارک میں گیا۔ بمبئی میں پارک اتنے کم ہیں کہ یہاں صبح کو اس میں داخلے کے لیے اس کی فیس دینی پڑتی ہے۔ چنانچہ جس پارک میں ہم لوگ گئے اس میں فی کس پانچ روپئے ادا کرنا پڑا۔ کافی دیر ہم لوگ یہاں ٹہلتے رہے۔ اس کے بعد ہارون شیخ صاحب کے ساتھ ان کے گھر پر چائے پی۔ اور پھر ہارون شیخ صاحب کے ساتھ ایر پورٹ کے لیے روانہ ہوگیا۔
ڈاکٹر ریکھا نے ٹیلیفون پر بتایا تھا کہ وہ ائر پورٹ آکر مجھ سے ملیں گی اور اسلام کے بارہ میں مجھ سے کچھ سوالات پر گفتگو کریں گی۔ مگر کسی وجہ سے وہ وقت پر ایر پورٹ نہ پہنچ سکیں۔ کچھ دیر ان کا انتظار کرنے کے بعد میں ایر پورٹ کے اندر داخل ہوگیا۔
بمبئی سے دہلی کے لیے دوبارہ جٹ ایر کی فلائٹ سے سفر کیا۔ یہ بڑا جہاز تھا، مگر اس کی بیش تر سیٹیں خالی تھیں۔ میں نے ایک ایر ہاسٹس سے پوچھا کہ آج کیوں ایسا ہے کہ جہاز میں بہت کم مسافر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ آج اتوار کا دن ہے اور اتوار کے دن دہلی اور بمبئی دونوں جگہ کاروبار بند رہتا ہے۔ اس لیے آج مسافر بہت کم ہیں۔ کیوں کہ آج کل ہوائی سفر میں زیادہ تر تجارتی لوگ ہوتے ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی پروازکے بعد جہاز گیارہ بجے دہلی کے ایر پورٹ پر اُتر گیا۔ یہاں میرے کچھ ساتھی موجود تھے، ان کے ساتھ روانہ ہو کر گھر پہنچا۔ بمبئی کے لوگ مزید قیام کے لیے کہہ رہے تھے مگر اتوار کی شام کو ہماری ہفتے وار کلاس ہوتی ہے، اس لیے مجھے صبح کی فلائٹ سے واپس آنا پڑا۔
گفتگو کی رُوداد
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ کچھ لوگ قرآن کی آیت سے اقامتِ دین کا لفظ لیتے ہیں اور اس کے معنی یہ بتاتے ہیں کہ اس سے مراد ہے: اقامتِ سیاست۔ یعنی سیاسی اقتدار پر قبضہ کرکے قوانین شرعی نافذ کرنا۔ یہ قرآنی آیت کی تفسیر نہیں ہے، بلکہ قرآنی آیت کو اپنے خود ساختہ نظریے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اس قسم کا غیر منطقی استدلال تمام باطل فرقے کرتے رہے ہیں۔
میں نے اپنی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ سورۂ شوریٰ کی آیت أقیموا الدین (۱۳) میں اقامتِ دین سے مراد دین کی پیروی ہے۔ یعنی دین کی ابدی تعلیمات کو ذاتی زندگی میں اپنانا۔ اس آیت کا کوئی تعلق قانون اور سیاست سے نہیں ہے۔ میں نے حوالوں کے ذریعہ دکھایا ہے کہ اس آیت میں تمام مفسرین یہی مفہوم لیتے ہیں۔ پوری تاریخ میں کوئی ایک مفسر ایسا نہیں جو اس آیت میںاقامتِ دین کا وہ مفہوم لیتا ہو جو موجودہ زمانہ کے نام نہاد انقلابی مفکرین لیتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کے منکرین نے پیغمبر کا انکار اس لیے کیا کہ وہ انہیں بَشَر دکھائی دیے۔ بعد کو پیغمبروں کے مومنین نے یہ کیا کہ اپنے پیغمبروں کو غیرِ بشر ثابت کر ڈالا۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کا کوئی استثناء نہیں ہے۔ الطاف حسین حالی نے بہت پہلے مسلمانوں کے بارہ میں کہا تھا کہ : نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں۔ یہ مزاج مزید اضافے کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ اِس کا مظاہرہ نعتیہ اشعار میں بخوبی طورپر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں دو شعر یہ ہیں:
مدینے کی مسجد میں منبر کے اوپر
بِلا عین کے ایک عرب ہم نے دیکھا
وہی جو مُستویٔ عرش تھا خدا ہوکر
اُتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر
نعت گوئی ایک بدعت ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پہلے نعت خواں حضرت حسّان تھے۔ میرے نزدیک یہ بدعت پر جھوٹ کا اضافہ ہے۔ میرے نزدیک حضرت حسّان نعت خواں نہیں تھے بلکہ وہ اسلام کے دفاع میں شعر کہا کرتے تھے۔
ایک تفسیری مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن میں جنت کے بارہ میں ارشاد ہوا ہے کہ: ویدخلہم الجنۃ عَرفہا لہم (محمد ۶) میں نے کہا کہ اس آیت میں ’’عرّفہا لہم‘‘کی وضاحت اکثر مفسرین نے بَیَّنہا لہم جیسے الفاظ سے کی ہے۔ یعنی اللہ مومنین کو جنت میں داخل کرے گا جس کو اُنہیں معلوم کرادیا ہے۔
میرے نزدیک یہ اِس آیت کی ایک ناقص تفسیر ہے۔ اس آیت پر غور کرنے کے بعد میں یہ سمجھا ہوں کہ اس آیت میں عرّفہا لہم سے مراد یہ ہے کہ اُن کو جنت کی پیشگی پہچان یا معرفت کرادی ہے۔ اس سے مراد غالباً یہ ہے کہ جنت میں داخلہ اُن خوش قسمت انسانوں کو ملے گا جو جنّت کی سوچ میں اتنا غرق ہوئے کہ اُنہیں دنیا ہی میں جنت کی معرفت مل گئی۔ گویا کہ وہ موت سے پہلے ہی جنت کا تصوراتی مشاہدہ کرنے لگے۔
اِس سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص جنت کا اتنا زیادہ طالب بن جائے کہ وہ جنت کے علم سے گذر کر جنت کی معرفت کا درجہ حاصل کرلے تو اِس قسم کا عارفانہ ادراک اُس کے لیے غالباً جنت میں داخلے کا سرٹیفکیٹ بن جائے گا۔
ایک سوال کے جوا ب میں میں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ پچھلے تقریباً ایک سو سال سے مسلمانوں کے درمیان ایک تحریک چلتی رہی ہے کہ مسلمان مخلوط علاقے میں نہ رہیں بلکہ ان کی آبادیاں غیر مسلموں کی آبادی سے الگ بنائی جائیں۔ تقریباً تمام مسلم رہنما اس سوچ کا شکار رہے۔ میرے نزدیک یہ بدترین رہنمائی تھی۔ جس کا مسلمان شکار ہوئے۔ ان مسلم رہنماؤں نے ایک عظیم تاریخی حقیقت کو نہیں جانا وہ یہ کہ اختلاط (interaction) ہر قسم کی ترقیوں کا راز ہے۔ علیحدہ پاکٹ بنانا ترقی کے راستہ میں مستقل رکاوٹ ہے۔ اسی مصلحت کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانہ میں صحابہ کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ عرب سے نکل کر دوسرے ملکوں میں پھیل جائیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد صحابہ کی اکثریت نے ایسا ہی کیا۔ وہ اطراف کے عرب ملکوں میں چلے گئے۔ حالاں کہ ان ملکوں کی زبان اور ان کا کلچر صحابہ کے لیے بالکل اجنبی چیز کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک موقع پر میں نے ایک حدیث کی وضاحت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے اوپر نبوت ختم ہوگئی، میرے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں۔ اس کا مطلب سادہ طور پر صرف یہ نہیں ہے کہ گنتی کے اعتبار سے پیغمبروں کی فہرست مکمل ہوگئی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد اب کسی اور پیغمبر کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ وہ اسباب ختم ہوگئے، جس کی وجہ سے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے تھے۔
میںنے کہا کہ پیغمبر کا مقصد ہدایتِ الٰہی کو انسانوں تک پہنچانا ہے۔ اس کے لیے پیغمبر کا شخصاً موجود ہونا ضروری نہیں۔ اگر ایک ایسا گروہ موجود ہو جو پیغمبر کے نمائندے کی حیثیت سے امرِ حق لوگوں تک پہنچاتا رہے تو ایسی حالت میں پیغمبر مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ پیغمبر اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خدا کا کلام (قرآن) اپنی اصلی حالت میں مکمل طورپر محفوظ ہوگیا۔ یہ حفاظت اِس بات کی ضمانت بن گئی کہ ہر نسل میں اور ہر زمانہ میں ایسے افراد موجود رہیں جو ہدایتِ الٰہی کی صحیح معرفت حاصل کرکے اُسے دوسروں تک پہنچائیں۔ پیغمبر آخر الزماں سے پہلے اس قسم کی ضمانت موجود نہ تھی اس لیے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب (India Wins Freedom) میں بتایا ہے کہ تقسیم کی ذمّے داری کانگریس کی قیادت پر ہے۔ ۱۹۳۶ کا الیکشن آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں ملک کر لڑے تھے۔ اس الیکشن میں دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ اتفاق ہوگیا تھا کہ مسلم وزرات کا کوٹہ مسلم لیگ سے پُر کیا جائے گا۔ مگر الیکشن کے خاتمے پر جب کانگریس کو امید سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی تو اس نے اپنا موقف بدل لیا۔ اس نے یوپی کی وزارت میں یہ کیا کہ مسلم لیگ کے نمائندہ عبد الرحمن نشتر کو چھوڑ کر کانگریسی امیدوار حافظ محمد ابراہیم کو وزیر بنا دیا۔ یہ واقعہ مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح کے لیے بامب شیل(bomb shell) ثابت ہوا۔ وہ ہمیشہ کے لیے کانگریس سے الگ ہوگیے اور تقسیم ملک کی تحریک میں شدت کے ساتھ سرگرم ہوگیے۔ جس کا نتیجہ پاکستان کا قیام تھا۔
مولانا ابو الکلام آزادکا تعلق کانگریس سے تھا اور مسٹر محمد علی جناح کا تعلق مسلم لیگ سے۔ مگر سیاسی بصیرت کے اعتبار سے دونوں ایک سطح پر نظر آتے ہیں۔ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ سب سے بڑی سیاست یہ ہے کہ عُذر کو عُذر نہ بنایا جائے۔ جو لوگ عذر کو عذر بنائیں ان کے لیے سیاست کے میدان میں داخل ہونا ہی جائز نہیں۔
میں نے کہا کہ دورِ اوّل کے مسلمانوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کی عظیم تاریخ بنائی۔ مگر شاید لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ مسلمان تاریخ سازی کا یہ کردار اسی لیے ادا کر پائے کہ انہوں نے عُذر کو عذر نہیں بنایا۔ مثال کے طورپر خلیفۂ اول کے انتقال کے وقت انصار کے نمائندہ کو خلیفہ نہیں بنایا گیا۔ اس وقت مہاجرین کی طرف سے یہ کہاگیا کہ: نحن الأمراء وأنتم الوُزراء۔
مگر بعد کو اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ انصار اگر اس کو عذر بناتے تو یہ واقعہ اُن کے لیے بامب شیل ثابت ہوتا۔ لیکن انہوں نے اس عذر کو عذر نہیں بنایا۔ اس طرح اسلام کی تاریخ آگے بڑھ گئی۔ عام انسان صرف حال میں دیکھتا ہے، حقیقی لیڈر وہ ہے جو حال کے ساتھ مستقبل کو شامل کرکے دیکھ سکے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ محدثین نے ایک اصول یہ بیان کیا ہے کہ جب بھی کوئی شخص ایسی روایت بیان کرے جس میں چھوٹے عمل پر بڑا ثواب بتایاگیا ہو تو اس کو موضوع سمجھنا چاہیے۔ میںنے کہا کہ اس مسئلے کی مزید وضاحت یہ ہے کہ کوئی ’’چھوٹا‘‘ عمل ہمیشہ ایک ظاہری عمل ہوتا ہے اور ظاہری عمل پر بڑے بڑے ثواب کی کہانیاں بنانا بلا شبہہ باطل ہے۔ ثواب ہمیشہ داخلی یا قلبی عمل پر ملتا ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں فضائل کی کہانیاں داخلی عمل پر نہیں بنتیں بلکہ وہ ہمیشہ ظاہری عمل پر بنتی ہیں۔ میںنے کہا کہ فضائلِ اعمال کا مطلب فضائلِ ظاہرِ اعمال ہے نہ کہ فضائلِ حقیقتِ اعمال۔
بمبئی کے ایک علاقے سے گذرتے ہوئے میں نے وہاں کی مسجد میں نماز پڑھی۔ باہر نکلا تو میرے ساتھی نے کہا کہ یہ پورا علاقہ مسلِمستان ہے۔ میںنے کہا کہ میرے لیے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں۔ مسلمانوں کا اپنا پاکیٹ بنا کر الگ تھلگ رہنا ان کی ترقی میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر رہنے کی اہمیت کو سمجھیں۔ وہ د وسروں کے ساتھ مل جُل کر رہنا سیکھیں۔ اس کے بغیر وہ ترقی نہیں کرسکتے۔
ایک مجلس میں ایک صاحب تھے جو بار بار درمیان میں بول پڑتے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ طریقہ آپ کے ذہنی ارتقا میںرُکاوٹ ہے۔ ایک انگریزی مقولہ ہے کہ ’’جب میں بول رہا ہوں تو میں سوچ نہیں رہا ہوں‘‘ جب آپ بولتے ہیں تو اخذ کرنے کا عمل معطّل ہوجاتا ہے۔ آپ اگر چاہتے ہیں کہ آپ کو ذہنی ارتقاء کی نعمت حاصل ہو تو آپ اپنی اس روش کو مکمل طورپر چھوڑ دیں۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا آج کل درگاہ کلچر کی دھوم ہے۔ کچھ مُردہ شخصیتوں کو شعوری یا غیر شعوری طورپر خدائی کا درجہ دے کر ان کے نام پر دھوم مچی ہوئی ہے ۔ میں نے کہا کہ درگاہ کلچر کی اس مقبولیت کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے خدا کی معرفت نہ ہونا۔ آج مسلمانوں کے لیے خدا صرف ایک رسمی عقیدہ ہے، خدا اُن کے زندہ یقین کا حصہ نہیں۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے وہ چیز وجود میں آئی ہے جس کو مَیں بزرگ پرستی کہتا ہوں۔ موجودہ درگاہ کلچر اسلام میں بلاشبہہ اجنبی ہے۔ اسلام میں قبر پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ خواہ اس کو کتنا خوب صورت نام دے دیا جائے۔
میںنے درگاہ کلچر کے ایک مبلّغ کی تقریر ٹی وی پر سُنی۔ ان سے سوال کیاگیا تھا کہ مُرادیں پوری کرنے کی طاقت تو صرف خدا کو حاصل ہے۔ پھر لوگ قبروں پر جاکر کیوں اُن سے مرادیں مانگتے ہیں۔ مقرر موصوف نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ مرادیں پوری کرنے کی طاقت صرف خدا کو حاصل ہے۔ لیکن جب خدا اپنی طرف سے کسی کو اپنی عنایت کے طورپر مرادیں پوری کرنے کی طاقت دے دے تو وہ توحید کے خلاف نہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کسی ملک میں اصل طاقت صدر مملکت کو ہوتی ہے، لیکن جب وہ خود اپنی طرف سے اپنے اختیار کا ایک جُز گورنر کو دے دے تو گورنر بھی اس عطا کردہ اختیار کو استعمال کرنے کا حق دار ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا کہ کسی غیر خدا کو مُرادپوری کرنے کا اختیار ہونا، صدر وگورنر جیسی غیر متعلق مثال سے ثابت نہیں ہوتا، اس کے ثابت ہونے کے لیے براہِ راست قرآن میں دلیل ہونی چاہیے۔
صدر یا وزیرِ اعظم کی مثال پر قیاس کرکے خدا کے معاملے کو ثابت کرنا، قیاس مع الفارق کا معاملہ ہے۔ خدا کے متعلق ایسی مثال دینا، حقیقت بیانی نہیں، بلکہ وہ مجرمانہ جسارت کے ہم معنی ہے۔ صدر یا وزیر اعظم کیوں کسی کو اپنا نائب مقرر کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ صدر یا وزیر اعظم بہرحال انسان ہیں۔ ان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی پوری سلطنت کو براہِ راست اپنے کنٹرول میں رکھ سکیں۔ چنانچہ وہ اپنے عجز کی تلافی کے لیے اپنا نائب مقرر کرتے ہیں۔ مگر خدا اپنی ذات میں قادرِمطلق ہے۔ اس کو اپنے اختیار کے استعمال کے لیے ہر گز کسی اور کی ضرورت نہیں۔
ایک معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ صرف کچھ کتابیں پڑھنے سے علم نہیں آتا۔ فارسی کا مقولہ ہے کہ:
یک من علم را دہ من عقل می باید
یعنی ایک مَن علم کے لیے دس من عقل چاہیے۔ کتابوں کے مطالعے سے آدمی کو معلومات حاصل ہوسکتی ہیں، لیکن آدمی جب تک صحیح تجزیہ کرنا نہ جانے وہ اپنے مطالعے یا تعلیم سے عارفِ حقیقت نہیں بن سکتا۔ظاہری قسم کے مسئلے مسائل کو بتانے کے لیے معلومات کافی ہوسکتی ہیں، مگر دین کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے لیے معرفت درکار ہے۔
اس سفر میں ایک بڑا عبرت ناک واقعہ معلوم ہوا۔ بمبئی میںایک ڈاکٹر نیتومانڈ کے تھے۔ ۲۰۰۳ میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ امراضِ قلب کے بہت بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ سرجری میں اُن کو کمال حاصل تھا۔ انہوں نے بہت سے دل کے مریضوں کی کامیاب سرجری کی تھی۔ آخر میں اُن کو اپنے فن پر بہت غرور آ گیا تھا۔یہاں تک کہ وہ خدا کے منکربن گئے ۔
ایک صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار ایک مسلم خاتون کے دل کا آپریشن کیا۔ بعد کو مسلم خاتون نے ڈاکٹر صاحب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آپریشن کامیاب رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اس میں خدا کی کیا بات ہے۔ تم پیسہ دو اور میں تم کو صحت دوں گا:
Give me money and i will give you cure.
وہ ایک آپریشن کا معاوضہ تین لاکھ روپئے لیتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود اُن کا انتقال دل کے دورے میں ہوا۔ وہ اپنی قیمتی کار میں سفر کررہے تھے، ہندو جا ہاسپٹل پہنچے کہ اچانک اُن پر دل کا دورہ پڑا۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا، اتفاق سے وہاں اُس وقت جو عملہ تھا وہ ان کو پہچانتا نہ تھا۔ چنانچہ اسپتال میں ان کے ساتھ بہت زیادہ بے توجہی کا معاملہ ہوا۔ وہ بے بسی کے ساتھ چلّاتے رہے کہ میں ڈاکٹر مانڈکے ہوں۔ مگر عدم واقفیت کی بنا پر وہاں بَر وقت ان کا صحیح علاج نہ ہوسکا اور اسپتال ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔
ہر انسان مکمل طورپر عاجز ہے مگر وہ اپنے کو قادر سمجھ لیتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ غور و فکر سے کام نہیں لیتا۔ بمبئی میں ایک سرجن ڈاکٹر کامران نے مجھے بتایا کہ انسان کے جسم میں ایک خاص عنصر ہوتا ہے۔ یہی آپریشن کے بعد اندمال کا سارا کام کرتا ہے۔ اگر یہ عنصر نہ ہوتو تمام سَرجن بے روزگار ہوجائیں۔ ڈاکٹر مانڈکے اگر اِس پوری حقیقت پر غور کرتے تو وہ ہر سرجری کے بعد اپنے عجز کو دریافت کرتے۔ لیکن غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے وہ برعکس طورپر سرجری کے واقعے میں اپنی مہارت دیکھتے رہے۔ اس لیے ایسا ہوا کہ جس واقعے میں انہیں عجز کی غذا مل رہی تھی، اُس سے وہ غلط طورپر کبر کی غذا لیتے رہے اور آخر کار اس بے خبر کے ساتھ اُن کا خاتمہ ہوگیا۔
ایک مجلس میں میں نے بتایا کہ موجودہ زمانہ میں سفر دعوت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں میں نے مولانا محمد ذکوان ندوی کا ایک تجربہ بتایا۔ یہ تجربہ ان کے بیان کے مطابق یہ ہے:
’’جون ۲۰۰۵ کو میں نے دہلی اور لکھنؤ کے درمیان ایک سفرکیا۔ یہ سفر گومتی ایکسپریس کے ذریعہ ہوا۔ اس سفر میں کچھ دعوتی تجربات ہوئے جن کا ذِکر یہاں کیا جاتا ہے۔
میں اپنی عادت کے مطابق سفر کے دوران اپنی ڈائری لکھ رہا تھا۔میرے ہم سفر مسٹر ہریش نے سوال کیا: آپ کیا لکھ رہے ہیں؟ میں نے کہا : ڈائری۔ اِس طرح بات شروع ہوئی۔ پھر میں نے ہندی اورانگریزی کے کچھ پمفلٹس اُنہیں دیے۔ وہ کافی متأثر ہوئے اور انہوں نے کہا میں CPS (Center for Peace and Spirituality towards God Realization)آؤں گا۔ مسٹر ہریش دہلی کے ایک ٹی وی (آنکھوں دیکھی) کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آپ کوجب بھی کو ئی پروگرام دینا ہو فون کیجئے ۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ آؤں گا اور پروگرام ریکارڈ کرکے نشر کروں گا۔
دوسری سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب مسٹر شنکر رَونِیار (غازی آباد) نے بھی بڑھ کر ایک پمفلٹ لیا اور اس کو پڑھنے کے بعد کہا: بہت اچھا لکھا ہے۔ مگر اس میں کچھ کٹّر پنتھ ہے۔ میں نے کہا کہ پمفلٹ میں لکھی ہوئی کوئی ایک بات بتائیے جس سے آپ نے یہ جانا کہ اس میں کٹر پنتھ ہے؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ پھر انہوں نے کہا : اسلام میں چار شادی کا حُکم ہے جس کی کوئی لاجک میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے کہا: آپ کی عمر مجھ سے بہت زیادہ ہے آپ مجھے کسی ایک مسلم فیملی کا نام بتائیے جس نے چار شادیاں کی ہوں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا: میرے علم میں تو ایسا کوئی آدمی نہیں۔ میں نے کہا: جو چیز عملاً موجود نہیں اس میں اُلجھنے کی ضرورت کیا ہے۔ تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد وہ دوسرے پمفلٹ دیکھنے لگے۔ پھر کافی اختلاط شروع ہوگیا اور کئی لوگوں نے سوالات شروع کردیے۔ مسٹر شنکر رونیار نے بابری مسجد کے متعلق بتایا کہ وہ سراسر نادانی اور ہٹ دھرمی کا کیس تھا۔ مسٹر اڈوانی اور دوسرے لوگوں نے صرف اپنی سیاست چمکانے کے لیے یہ ڈرامہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا: میں بابری مسجد ڈھائے جانے کے بعد وہاں بنائے جانے والے عارضی مندر میں درشن کے لیے ایودھیا حاضر ہوا تو میں نے وہاں کی صورت حال دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا: پربھو! ہم آپ سے کیا مانگیں آپ تو خود ہی مظلوم ہیں۔ اس سے اچھے تو آپ پہلے ہی تھے۔ جھوٹی سیاست کے نام پر لوگوں نے اب آپ کو ایک سایے دار مکان سے باہر نکال کر ایک چھوٹے سے کیمپ میں لاکر رکھ دیا ہے۔ پھر انہوں نے دوسرا پمفلٹ سَفَلتا کے سُوتر ¼lQyrk ds lw=k½ پڑھا اور کہا : اس کا لکھنے والا تو ایک فلاسفر معلوم ہوتا ہے۔ وہ کافی متاثر ہوئے، انہوں نے کہا کہ اِس رائٹر سے تو ملنا چاہیے۔ میں ضروردہلی آکر ان سے ملوں گا، اور آشیر واد لوں گا۔ سامنے بیٹھی ہوئی دو ’’غیر مسلم ‘‘خواتین نے بھی دوسرے ہندی انگریزی پمفلٹس کے علاوہ ’’سفلتا کے سوتر‘‘ دیکھا اور بہت پسند کیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے اس کتابچے سے کیا سیکھا؟ انہوں نے کہا مجھے اس سے حوصلہ ملا۔ اور میں نے سیکھا کہ آدمی کو کسی بھی حال میں اپنا حوصلہ نہیں کھونا چاہیے۔
دورانِ گفتگو بہت سے لوگوں نے شوق سے CPS کے کتابچے لیے، ایک صاحب مسٹر ہریش کمار (پنجاب،Tel: 9814589292 ) اپنی سیٹ سے اُٹھ کر میرے پاس آئے اور کچھ کتابچے حاصل کیے۔ میں نے ان سے کچھ باتیں کیں اور پوچھا آپ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نغمے گاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ نغمے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک سچا نغمہ اور دوسرا جھوٹا نغمہ۔ آپ جو نغمہ گاتے ہیں وہ جھوٹا نغمہ ہے۔ وہ اس جھوٹی دنیا میں جھوٹی زبان سے گایا جاتا ہے تاکہ کچھ جھوٹے کان اسے سن سکیں۔ یہ ساری چیزیں ایک دن مٹی ہوجانے والی ہیں۔ سچا نغمہ ایک خدائی نغمہ ہے۔ آپ سچے نغمے گائیے اور جھوٹے نغمے چھوڑیے۔ اس پر وہ مسکرائے اور کتابچے لے کر اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میرے پاس آئے اور کہا میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا۔ آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں۔ مجھے آپ سے محبت محسوس ہورہی ہے۔ آپ برائے کرم میری اس کتاب پر ’’اُردو‘‘ میں میرا نام اور اپنا فون نمبر لکھ دیں۔ میں نے کہا آپ اُردو جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں،بس آپ کی یادگار ہوجائے گی۔
دورانِ سفر اِن حضرا ت سے دعوتی انداز میں باتیں ہوتی رہیں۔ اس طرح نو گھنٹے کا یہ سفر خدا کے فضل سے ایک دعوتی سفر بن گیا۔ اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد اُن لوگوں نے کہا ’’آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کی وجہ سے ہمارا سفر بہت اچھا گذرا۔ اس سفر میں ہمیں سچائی ملی، یہ سفر ہمارے لیے ایک تاریخی سفر بن گیا۔‘‘
یہ تجربہ بتاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں دعوت کے امکانات کتنے بڑھ گیے ہیں۔ سفر اور دوسرے مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ بار بار لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، اگر آدمی کے اندر داعیانہ ذہن موجود ہو تو وہ ان ملاقاتوں کو کامیابی کے ساتھ دعوت کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
ایک واقعہ پیش آیا۔ اس پر میں نے کہا کہ کسی کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک وہ جس کو تنقیدی انداز کہا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ تنقیدی انداز کو پسند نہیں کرتے۔ اگرچہ اصلاح کا فائدہ صرف تنقیدی انداز میں ہے۔ تنقید وتجزیہ کا انداز آدمی کے اندر صحیح سوچ پیدا کرتا ہے۔ اور صحیح سوچ سے صحیح عمل ظہور میں آتا ہے۔ اگر لوگ تنقید کو معتدل انداز میں لیں تو حقیقی تنقید سے زیادہ بڑی نعمت کوئی دوسری چیز نہیں۔ غلطی پر ٹوکنے کا دوسرا طریقہ لطیفے کا طریقہ ہے۔ لطیفہ کے طریقہ میں آدمی بات کو کہہ دیتا ہے مگر اصلاح کے نقطۂ نظر سے اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں میںنے ڈاکٹر عندلیب شادانی کا ایک واقعہ بتایا۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی اردو کے شاعر اور ادیب تھے۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی کا اصل نام وجاہت حسین تھا۔ وہ ۱۸۹۷ میں سنبھل (مرادآباد) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۹۲۵ میں انہوںنے اسلامیہ کالج لاہور سے فارسی میں ایم اے کیا۔ ۱۹۲۶ میں وہ ہندو کالج دہلی میں اردو اور فارسی کے لکچرر ہوئے۔ جنوری ۱۹۲۸ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور فارسی میں لکچرر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۳ میں ’’ہندستان کے مسلم مورخ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر لندن یونیورسٹی سے پی۔ ایچ ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ ۱۹۴۵ میں اپنے شعبے میں ریڈر اور ۱۹۴۷ میں پروفیسر اور صدر شعبہ مقرر ہوئے۔ جولائی ۱۹۶۹ میں ڈھاکہ ہی میں ان کا انتقال ہوا۔
عندلیب شادانی ایک شگفتہ مزاج آدمی تھے۔ ان میں مزاح کا ذوق پایا جاتا تھا۔ ڈھاکہ کے زمانۂ قیام میں ایک دفعہ چند طلبہ ان کے پاس یہ شکایت لے کر آئے کہ طلبہ کے نماز پڑھنے کا کمرہ طالبات کے کامن روم کے مقابل ہے، اس لیے لڑکیوں کی آوازوں سے نماز میں خلل پڑتا ہے۔ شادانی صاحب نے ان کو یقین دلایا کہ یا تو نماز کا کمرہ بدل دیا جائے گا یا طالبات کا کامن روم۔ اس کے بعد انہوںنے کہا کہ تاہم آپ لوگ ایک لطیفہ سن لیجئے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کسی میدان میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کے سامنے سے مجنوں کا گزر ہوا۔ نمازی جلدی سے نماز ختم کرکے مجنوں کو ملامت کرنے لگا کہ دیکھتا نہیں میں نماز پڑھ رہا ہوں اور تو میرے سامنے سے گزر گیا۔ اس پر مجنوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں تو اپنے مجازی محبوب (لیلیٰ) کے خیال میں اس قدر محو تھا کہ مجھے اپنے ارد گرد کا احساس نہ رہا۔ تعجب ہے کہ تجھے محبوبِ حقیقی کے حضور میں کھڑے ہونے کے باوجود میرے گزرنے کا احساس ہوا۔
فنِ لطیفہ کے اعتبار سے یہ ایک اچھا لطیفہ ہے مگر نصیحت اوراصلاح کے اعتبار سے وہ کوئی اچھی مثال نہیں۔ کیوں کہ اس لطیفہ کو سن کر آدمی صرف یہ کرے گا کہ وہ ہنس دے۔ اس قسم کے لطیفے سے کسی شخص کے اندر اصلاح کی تڑپ پیدا ہونے والی نہیں۔
ایک مسلم اخبار میں پاکستان کے بارے میں ایک خبر تھی جس کی سرخی یہ تھی: ’’دینی مدارس سے غیر ملکی طلبہ کا انخلاء‘‘۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ:
’’ صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں زیرِ تعلیم دینی مدارس کے غیر ملکی طلبہ سے کہا ہے کہ وہ فوری طورپر اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ انہوں نے غیر ملکی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ غیر ملکی اور دوہری شہریت رکھنے والے طلبہ کو مدارس میں تعلیم کے لیے ویزا نہیں دیا جائے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے دینی مدارس میں تقریباً ۱۴۰۰ غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم ہیں، ان کے پاکستان سے انخلاء کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں‘‘۔
پاکستان نے موجودہ زمانہ میں ’برعکس نہند نامِ زنگی کافور‘ کی مثال پیش کی ہے۔ ۱۹۴۷ سے پہلے بر صغیر ہند کے مسلم رہنماؤں نے یہ کہا کہ ہم کو ایک علاحدہ لینڈ چاہیے جہاں ہم اسلام پر مبنی نظام قائم کرسکیں۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ تقسیم کے بعد اپنے آپ ایسا ہو جائے گا۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو اس کے حصول کے لیے ہنگامہ خیز الیکشنی سیاست شروع کی گئی۔ الیکشنی سیاست بھی اسلام نظام کے قیام میں ناکام رہی تو اس کے بعد اسلامی جہاد کے نام پر تشدد کی سیاست شروع کردی گئی۔ یعنی ایک پاکستانی بزرگ کے الفاظ میں مسلح ٹکراؤ(armed conflict) ۔ جب متشددانہ جہاد ناکافی ثابت ہوا تو اس کے بعد خود کش بمباری کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس نام نہاد اسلامی جہاد میں پاکستان کے تقریباً تمام مدرسے اور مسجدیں اور ادارے براہِ راست یا بالواسطہ طورپر ملوث، ہوگئے ۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اس معاملہ میں مسلم رہنما اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے نئی سمت سفر طے کریں۔
موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ہوائی جہاز بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ ہوائی سفر کو واقعہ بنانے کے لیے بہت سے فطری عوامل کے علاوہ مختلف قسم کے زمینی اور ہوائی انتظامات لازمی طورپر ضروری ہوتے ہیں۔ قدیم زمانے میں خشکی پر بیل گاڑی کا سفر یا سمندر میں کشتی کا سفر ایک سادہ نوعیت کا سفر ہوتا تھا۔ ان سفروں کے لیے کسی پیچیدہ نظام کی ضرورت نہ تھی۔ مگر آج ہوائی جہاز کے سفر کے لیے بہت سے انتظام ضروری ہوتے ہیں۔ آدمی اگر ان باتوں پر غور کرے تو سفر کا واقعہ اس کے لیے معرفت کی غذا بن جائے۔
واپس اوپر جائیں