Pages

Friday 1 March 2013

Al Risala | Mar 2013 (الرسالہ،مئی)

2

-پیغمبر کا نمونہ

3

- ایمان سپورٹ سسٹم

4

- ازدواجی زندگی

6

- دو اخلاقی معیار

7

- دورِ زوال کے عبادت خانے

8

- مذہبی میک اپ

9

- امتِ مسلمہ کی تاریخ

12

- کنزیومرازم کا دور

17

- غیر اسلامی طریقہ

18

- احیاءِ ملت

19

- معرفت کا سفر

26

- مسلم نوجوان

27

- فکر ِ مغرب

37

- کامیابی کا طریقہ

38

- شکایت کا سبب

39

- مصالحت کا فائدہ

40

- مانعِ جرم سزا کی ضرورت

41

- سوال وجواب

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز


پیغمبر کا نمونہ

قرآن کی سورہ الاحزاب میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا (33:21) یعنی تمھارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، اُس شخص کے لیے جو اللہ کا، اور آخرت کے دن کا امیدوار ہو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں انسانی زندگی کے لیے بہترین نمونہ (good example) ہے- جو شخص پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ کرے اور آپ کے نمونوں کو اپنی زندگی میں اپنائے، وہ یقیناً اللہ کی رحمت کا مستحق بن جائے گا- اس کو دنیا کی سعادت بھی حاصل ہوگی اور آخرت کی سعادت بھی-
تاہم نمونے کا موجود ہونا اور کسی انسان کی زندگی میں اس کا واقعہ بننا دو الگ الگ چیزیں ہیں- پیغمبر اسلام کا نمونہ عملاً کسی شخص کی زندگی میں صرف اُس وقت شامل ہوگا، جب کہ و ہ شخص سنجیدہ ہو اور حقیقی معنوں میں پیغمبر کا پیرو بننا چاہے-
پیغمبر اسلام کا نمونہ کسی شخص کی زندگی میں عملی طورپر صرف اُس وقت شامل ہوتاہے، جب قرآن کے مطابق، اس کے اندر یہ لازمی شرط پائی جائے — وہ یہ سوچتا ہو کہ ایک دن اس کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، جو آخرت کی جواب دہی (accountability) کے لیے فکر مند ہو، جس کے اندر خدا رخی تفکیر (God-oriented thinking) پوری طرح موجود ہو- یہی وہ صفات ہیں جو کسی انسان کو اِس قابل بناتی ہیں کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ پیغمبر اسلام کی زندگی پر غور کرے- صرف ایسا ہی شخص اپنے لیے پیغمبر اسلام کی زندگی میں نمونہ دریافت کرے گا اور اس کو درست طورپر اپنانے میں کامیاب ہوگا— پیغمبر اسلام کی زندگی میں بلاشبہہ بہترین نمونہ ہے، لیکن یہ نمونہ صرف اُس انسان کے لیے ہے جو اس کا طالب ہو- جو شخص طالب نہ ہو، اس کے لیے کوئی نمونہ نمونہ نہیں-
واپس اوپر جائیں

ایمان سپورٹ سسٹم

انسان ایک ایسے مخلوق ہے جس کو زندگی گزارنے کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے- مثلاً پانی اورروشنی اور آکسیجن، وغیرہ- اِس طرح کے بے شمار آئٹم ہیں جو انسان کی بقاءِ حیات کے لیے لازمی طورپر ضروری ہےہیں- یہ تمام سامانِ حیات ہماری دنیامیں وافر طورپر موجود ہے-
اسبابِ حیات کے اِس مجموعہ کو لائف سپورٹ سسٹم (life-support system)کہا جاتا ہے- اِسی طرح ایک بندہ مومن کو ایمان کی زندگی گزارنے کے لیے کچھ ضروری اسباب کی ضرورت ہوتی ہے- عیش کےاسباب نہیں، بلکہ سچی دینی زندگی گزارنے کے لیے ضروری اسباب- اِن اسباب کو ایک لفظ میں، ایمان سپورٹ سسٹم کہاجاسکتا ہے-
ایک مسنون دعا اِن الفاظ میں آئی ہے: اللہم إنی أسئلک العفوَ والعافیة (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 5074 ) یعنی اے اللہ، میں تجھ سے عفو اور عافیت کا سوال کرتا ہوں- اِس دعا میں عافیت سے مراد یہی ایمان سپورٹ سسٹم (Iman-support system)ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: مَن أصبحَ مِنکُم آمِنًا فی سِربہ، معافى فی جسَدِہ ، عندَہُ قُوتُ یَومِہ، فکأنّما حِیزَتْ لہ الدُّنْیا بحذافیرہا(سنن الترمذی، رقم الحدیث:2346) یعنی جو شخص اِس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے گھر میں مامون ہو، اس کا جسم صحت مند ہو، اس کے پاس اُس دن کی خوراک موجود ہو تو گویا کہ اس کو ساری دنیا د ے دی گئی-
اِس حدیث کے مطابق، مومن کی یہی تین ضرورتیں ہیں- جس مومن کو یہ تین چیزیں حاصل ہوں، اُس کو گویا ایمان سپورٹ سسٹم حاصل ہوگیا— بیت کی توسیع کے ساتھ گھر اور دفتر، اِسی طرح خادم کی توسیع کے ساتھ کمیونکیشن کے ذرائع، اور روٹی اور پانی کی توسیع کے ساتھ صحت بخش غذا- یہ چیزیں جس کو حاصل ہوجائیں، اس کو گویا شکر کا سب سے بڑا خزانہ حاصل ہوگیا-
واپس اوپر جائیں

ازدواجی زندگی

قرآن کی سورہ البقرہ میں ازدواجی زندگی کے بارے میں ایک تعلیم اِن الفاظ میں آئی ہے: نِسَاۗؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ ۡ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ ۭوَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(2:223) یعنی تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں، پس تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو، جاؤ- اور تم اپنے لیے آگے بھیجو، اور اللہ سے ڈرو اور جان لوکہ تمھیں ضرور اللہ سے ملنا ہے- اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دو:
Your wives are your fields. go, then, into your fields as you will, and send ahead for yourselves, and fear God, and know that you shall meet Him. Give good tidings to the believers.
عورتیں تمھارے لیے بمنزلہ کھیت ہیں — یہ نہایت بامعنی تمثیل ہے- کھیت مستقبل کی فصل کے لیے ہوتا ہے- جب ایک انسان اپنے لیے ایک عورت کا انتخاب کرتا ہے تو وہ گویا اپنے لیے ایک کھیت کا انتخاب کرتاہے، یعنی ایک ایسا کھیت جہاں وہ اپنے مستقبل کے لیے ایسی فصل اگائے جو اُس کے لیے باعتبارِ دنیا بھی مفید ہو اور باعتبار آخرت بھی مفید-
ایک شخص جب نکاح کرکے اپنے گھر میں ایک خاتون کو لاتا ہے تو وہ اپنے لیے زندگی کے ایک رفیق کا انتخاب کرتاہے- یہ خاتون ابتدائی طورپر مرد کے لیے گھر کی رفیق (home partner) ہوتی ہے، لیکن طویل تر زندگی کے اعتبار سے، وہ اُس کےلیے ایک فکری رفیق (intellectual partner) کی حیثیت رکھتی ہے- پہلے مقصد کے اعتبار سے، عورت پیدائشی طورپر تیار شدہ ہوتی ہے، لیکن جہاں تک فکری رفیق کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے کا معاملہ ہے، عورت پیدائشی طورپر اس کے لیے تیار شدہ نہیں ہوتی- یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ نکاح کے بعد عورت کو اِس مقصد کے لیے تیار کرے، تاکہ عورت اور مرد دونوں اُس مطلوب مقام کو پاسکیں جو خالق نے اپنے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، اُن کے لیے مقدر کیا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی-
یہ ایک عام تجربہ ہےکہ نکاح کے بعد ابتدائی طورپر مرد کے لیے عورت دلچسپی کا موضوع ہوتی ہے، لیکن جلد ہی بعد دلچسپی کا یہ دور ختم ہوجاتا ہے- اِس کا سبب عورت کی کوئی کمی نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ مرد نے عورت کو اِس حیثیت سے تیار نہیں کیا کہ وہ اُس کے لیے طویل تر زندگی میں اس کی فکری رفیق بن سکے-
قرآن کی مذکورہ آیت میں ’حَرْث‘ (field) کا لفظ استعمالِ اول کے لحاظ سے عورت کی فطری حیثیت کوبتاتاہے-اِس کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ — ’تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو، جاؤ‘- اس کا مطلب اصلاً بیوی اور خاوند کے تعلق کی نوعیت کو بتانا نہیں، بلکہ اِس میں یہ اشارہ ہے کہ یہ معاملہ تمھارے فطری ذوق سے تعلق رکھتا ہے، اس معاملے میں خود تمھارا فطری ذوق رہنمائی کے لیے کافی ہے- زیربحث معاملے میں، اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ — تم اپنے لیے آگے بھیجو، یعنی تم عورت کو اس کے استعمالِ ثانی (فکری رفاقت) کے لحاظ سے تیارکرو، اِس تعلق کو تم اپنے مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ بناؤ-
حقیقت یہ ہے کہ مرد اگر صحیح معنوں میں اپنی بیوی کو فکری رفیق کی حیثیت سے تیار کرے تو بیوی کی صورت میں وہ اپنے لیے ایک ایسا دانش مند ساتھی پالے گا جو ہر لمحہ اُس کے پاس تبادلہ خیال کے لیے موجود ہو- اِس قسم کا ایک ساتھی بلاشبہہ کسی شخص کے لیے نہایت قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے-بیوی کے بارےمیں عام تصور یہ ہے کہ وہ اپنے خاوندکی ہوم پارٹنر (home partner) ہے، مگر یہ عورت کا ایک کم تر تصور ہے\- عورت اُسی طرح اللہ کی ایک تخلیق ہے جس طرح مرد اللہ کی تخلیق ہے- تخلیق ِ خداوندی کے شایانِ شان تصور یہ ہے کہ عورت کو مرد کا لائف پارٹنر (life partner) سمجھا جائے- گھر کے محدود تصورسے بلند ہو کر زندگی کے وسیع تر تصور کے مطابق، عورت کو اپنا شریکِ حیات بنایا جائے- عورت اور مرد ددونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اِس وسیع تر تصور کے مطابق تیار کریں-
خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، انسان کی زندگی دنیا سے لے کر آخرت تک پھیلی ہوئی ہے- قبل از موت مرحلہ حیات میں انسان کو اِس طرح رہناہےکہ وہ قبل از موت مرحلہ حیات میں ایک ایسی مطلوب زندگی گزارے جو موت کے بعد آنے والے ابدی مرحلہ حیات (eternal life span)میں اس کو فلاح سے ہم کنار کرنے والی ثابت ہو-
واپس اوپر جائیں

دو اخلاقی معیار

قرآن کی سورہ نمبر 12 میں حضرت یوسف کا قصہ بیان ہوا ہے- اِس قصے سے دو اخلاقی معیار معلوم ہوتے ہیں، ایک یہ کہ آدمی کا شعور اتنا زندہ ہو کہ وہ ہر صورتِ حال میں غلط موقف کو دریافت کرلے اور اس سے اپنے آپ کو بچائے-
دوسرا اخلاقی درجہ یہ ہے کہ آدمی ابتدائی مرحلے میں غلط موقف اختیار کرے، لیکن اس کے بعد جب امرِ حق اُس پر واضح ہو تو وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف کرکے اپنی اصلاح کرلے-
پہلے موقف کی مثال سورہ یوسف کی آیت نمبر 24 میں پائی جاتی ہے- اِس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت یوسف کے سامنے ایک امتحانی صورتِ حال پیش آئی، لیکن حضرت یوسف کی اِس صلاحیت نے اُن کی مدد کی اور وہ پیش آمدہ امتحان میں پورے اترے-
دوسری مثال سورہ یوسف کی آیت نمبر 51 میں پائی جاتی ہے- اِس آیت سے معلوم ہوتاہے امراةِ عزیز پہلے مرحلے میں نفس سے مغلوبیت کا شکار ہوگئی اور حضرت یوسف پر غلط الزام (12:25) عائد کردیا- لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ حضرت یوسف مکمل طورپر بے قصور ہیں- اِس وضاحت کے بعد امراةِعزیز نے جو کچھ کہا، اس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ۡ اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ (12:51) یعنی عزیز کی بیوی نے کہا اب حق کھل گیا۔ میں نے ہی یوسف کو پھسلانے کی کوشش کی تھی اور بلاشبہ وہ سچا ہے۔
اِس دنیا میں آدمی کے لیے دو صورتیں ہیں — ایک، یہ کہ آدمی اپنےاندر وہ اعلی ربانی سوچ پیدا کرے جو ہر موقع پر اس کو صحیح رہنمائی دیتی رہے- دوسرا اخلاقی درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر اعتراف کا مادہ ہو- معاملے کی وضاحت کے بعد وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کو مان کر اپنی اصلاح کرلے- انسان کے لیے یہی دو اخلاقی درجے ہیں- اِس کے بعد کوئی تیسرا اخلاقی درجہ انسان کے لیے نہیں-
واپس اوپر جائیں

دورِ زوال کے عبادت خانے

حضرت مسیح دوہزار سال پہلے فلسطین میں آئے- اُس وقت فلسطین میں زیادہ تر یہود رہتے تھے- اُس زمانے میں یہود اپنے زوال کے آخری دور میں پہنچ چکے تھے- حضرت مسیح نے یہودی علما پر سخت تنقیدیں کیں- انھیں میں سے ایک تنقید یہ تھی — میرا گھر دعا کا گھر کہلائے گا، مگر تم اس کوچوروں کا بھٹ بناتے ہو:
My house shall be called a house of prayer, but you have made it a 'den of thieves'. (Matthew 21:13)
یہ معاملہ سادہ طورپر یہود کا معاملہ نہیں ہے، یہ معاملہ دراصل زوال یافتہ امت کا معاملہ ہے- ہر امت اپنے آخری دور میں زوال کی اِسی حالت تک پہنچتی ہے- اس کے عبادت خانوں میں بظاہر بھیڑ ہوتی ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس کا حال وہی ہوجاتا ہے جو اپنے دور زوال میں یہودی عبادت خانوں کا ہوا تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے بارے میں فرمایا کہ: المساجد بیوت المتقین (المعجم الأوسط للطبرانی، رقم الحدیث: 7149) یعنی مسجدیں متقی انسانوں کاگھر ہیں- یہ حال مساجد کا اُس وقت ہوتاہے جب کہ امت اپنے دورِ عروج میں ہو- اِس کے برعکس، جب اگلی نسلوں میں بگاڑ آجائے اور امت اپنے دور زوال میں پہنچ جائے، اُس وقت اس کے عبادت خانوں کا جو حال ہوتا ہے، وہ یہ کہ اس کی مسجدیں گویا بیوت المفسدین (مفسدین کا گھر) بن جاتی ہیں، یعنی تقوی کی تربیت گاہ کے بجائے عملاً وہ فساد (قومی مذہب اور قومی سیاست) کی تربیت گاہ کی شکل اختیار کرلیتی ہیں- عبادت خانوں کا یہ حال اُس وقت ہوتا ہے جب کہ مذہب، خدائی مذہب کی حیثیت سے زندہ نہیں رہتا، بلکہ وہ قومی مذہب کی شکل اختیار کرلیتا ہے- یہی وہ وقت ہے جب کہ قوم کے بگڑے ہوئے رہنما مسجدوں کو اپنا مرکز بنالیتے ہیں اور پھر وہ عبادت خانوں میں وہی مفسدانہ عمل کرتے ہیں جس کی تصویر حضرت مسیح کے مذکورہ قول میں نظر آتی ہے-
واپس اوپر جائیں

مذہبی میک اپ

زوال کے زمانے میں یہود ونصاری کے درمیان جو نئی چیزیں پیداہوئیں، اُن میں سے ایک چیز وہ تھی جس کو مذہبی میک اپ (religious makeup) کہاجاسکتاہے- زوال کے زمانے میں اُن کے شیوخ اور علما نے اپنے لیے خصوصی لباس تیار کرائے، تاکہ وہ دوسروں سے ممتاز نظر آئیں-
زوال کے زمانے میں یہ شیوخ اور علما داخلی اسپرٹ کے اعتبار سے خالی ہوچکے تھے، چناں چہ اب وہ خصوصی لباس کے ذریعے عوام کے سامنے آنے لگے- یہ گویا ظاہری اضافے کے ذریعے داخلی کمی کی تلافی کرنا تھا-
مذہبی میک اپ کا یہ معاملہ معروف معنوں میں، صرف قدیم یہود ونصاری کے ساتھ خاص نہیں- امتِ مسلمہ کے دورِ زوال میں امت کے مذہبی لوگوں کا حال بھی یہی ہوتاہے- وہ مذہبی لباس کے معاملے میں بھی یہود ونصاری کی مضاہاة (9:31) کرنے لگتے ہیں- وہ جب عوامی مجلس میں آتے ہیں تو وہ مذہبی میک اپ کے ذریعے اپنا ایسا بھیس بناتے ہیں کہ اندر سے کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی باہر سے وہ لوگوں کو بہت زیادہ دکھائی دیں-
اصل یہ ہے کہ کسی امت پر جب زوال آتا ہے تو وہ اُس وقت آتاہے جب کہ امت اپنی تعداد کے اعتبار سے اتنی بڑی ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ دنیوی اعتبار سے ایک پوری مارکیٹ بن جاتی ہے- اُس وقت یہ ممکن ہوجاتاہے کہ اگر امت کے شیوخ اور علما لوگوں کے سامنے مذہبی بھیس میںآئیں تو ان کو بہت بڑے بڑے دنیوی فائدے ہوسکتے ہیں- اُس وقت امت میں وہ چیز ظاہر ہوتی ہے جس کو مذہبی پروفیشنل ازم (religious professionalism) کہا جاسکتاہے- زوال کے اِس دور میں علما اور شیوخ کے درمیان ایک ایسا مذہبی کلچر وجود میں آتاہے جس کے ذریعے ہر قسم کے مادّی فائدے حاصل کیے جاسکیں- یہی وہ وقت ہوتاہے جب کہ اُن کے درمیان وہ چیز ظہور میں آتی ہے جس کو ہم نے ’’مذہبی میک اپ‘‘ (religious makeup)کہا ہے-
واپس اوپر جائیں

امتِ مسلمہ کی تاریخ

قرآن کی سورہ آل عمران میں یہ آیت آئی ہے: اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ۭ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۚ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(3: 140) یعنی اگر تم کو کوئی زخم پہنچے تو تمھارے حریف کو بھی ویسا ہی زخم پہنچا ہے، اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور وہ تم میں سے کچھ لوگوں کو گواہ بنائے، اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔
قرآن کی اِس آیت میں خدائی منصوبے کے ایک خاص پہلو کا بیان ہے۔ وہ یہ کہ جب ایک گروہ کو اقتدار ملتاہے اور پھر جب اقتدار اُس سے چھن کر کسی دوسرے گروہ کے پاس چلا جاتا ہے تو یہ اتفاقاً نہیں ہوتا۔ ایسے موقع پر آدمی کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے کو خدائی منصوبے کی روشنی میں سمجھے۔
سیاسی اقتدار کے معاملے میں اکرام یا اہانت(89: 15-16) کی نفسیات میں مبتلا ہونا درست نہیں۔ قرآن کی مذکورہ بالاآیت میں ظالم کا لفظ معروف ظالم کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں جو اِس معاملے میں اللہ کے منصوبے کو نہ سمجھیں ا ور اس کو ذاتی اہانت کے معنی میں لے کر منفی رد عمل میں مبتلا ہوجائیں۔
امت مسلمہ کی تاریخ اِس اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں امتِ مسلمہ کے ذریعے عرب کا اقتدار بدلا، پھر ساسانی ایمپائر اور بازنتینی ایمپائر کا خاتمہ ہوا۔ یہ واقعہ اِس لیے پیش آیا کہ امتِ مسلمہ تاریخ میں ایک انقلابی رول ادا کرسکے۔ وہ رول تھا — تاریخ کو توہماتی دور سے نکال کر سائنسی دور میں داخل کرنا۔
اِس کے بعد آٹھویں صدی عیسوی میں یہ ہوا کہ ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم ہوگیا۔ اِس دوران امت سے جو رول مطلوب تھا، وہ ایک پولٹکل رول تھا، اور وہ تھا خداکے آخری دین کا ایک محفوظ دین کی حیثیت سے قائم ہوجانا۔قدیم زمانے میں حفاظتِ دین کے اِس واقعے کے لیے ایک سیاسی دبدبہ درکار تھا۔ مسلم ایمپائر کے زمانے میں یہی واقعہ انجام پایا۔
انیسویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کا سیاسی دبدبہ تقریباً ختم ہوگیا۔ یہ کوئی منفی واقعہ نہ تھا اور نہ وہ کسی ’’دشمن‘‘ کی مفروضہ سازش کے تحت پیش آیا۔ یہ واقعہ تمام تر اللہ تعالیٰ کے منصوبے کے تحت ظاہر ہوا۔ اِس تبدیلی میں یہ اشارہ تھا کہ انقلابی رول اور پولٹکل رول کے بعد اب امتِ مسلمہ سے جو رول مطلوب ہے، وہ ایک دعوتی رول ہے۔ اب امتِ مسلمہ کو یہ کرنا ہے کہ وہ شکایت اوراحتجاج اور تصادم میں اپنا وقت ضائع نہ کرے، بلکہ وہ خدا کے دعوتی منصوبے کو انجام دینے کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے۔
سورہ الفرقان میں قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً (25: 1)- اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ وہ سارے عالم کے لیے نذیر (warner) بنے، یعنی پورے کرۂ ارض کے تمام انسانوںکو خدا کے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کردینے والا۔
واقعات بتاتے ہیں کہ نزول قرآن کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک یہ مقصد اپنی تکمیلی صورت میں پورا نہیں ہوا، کیوں کہ سارے عالم کو آگاہ کرنے کے لیے عالمی کمیونکیشن درکار تھا۔ قدیم زمانے میں اِس قسم کا کمیونکیشن وجود میں نہیں آیا تھا۔ بیسویں صدی عیسوی میں پہلی بار اِس قسم کا عالمی کمیونکیشن (global communication) وجود میں آیا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قرآن کے بارے میں وہ عالمی نشانہ پورا ہو جس کو حدیث میں پیشگی خبر کے طورپر اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لا یبقیٰ علی ظَہْرِ الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام (مسند احمد:6/4) یعنی زمین کی سطح پر کوئی ایسا گھر باقی نہیں رہے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہو جائے۔
موجودہ زمانے کو کمیونکیشن کازمانہ (age of communication) کہاجاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں جو مواصلاتی ذرائع وجود میں آئے ہیں، انھوں نے پہلی بار اِس کو ممکن بنا دیا ہے کہ اللہ کا کلام سارے عالم میں تمام مردوں اور عورتوں تک پہنچا دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جو مواصلاتی ذرائع وجود میں آئے ہیں، وہ اصلاً اِس لیے ہیں کہ اہلِ ایمان اِن ذرائع کو اختیار کرتے ہوئے عالمی ادخالِ کلمہ کا کام انجام دیں۔
اب ہم اکیسویں صدی میں پہنچ چکے ہیں۔ آج دنیا کاتقریباً ہر گوشہ انسان کے علم میں آچکا ہے۔ آج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ حقیقی معنوں میں عالمی سطح کی دعوتی منصوبہ بندی کی جائے۔ آمد ورفت کے ذرائع، گلوبل موبیلٹی (global mobility) اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ عین ممکن ہوگیا ہے کہ آج ایک الیکٹرانک دعوہ ایمپا ئر قائم کیا جائے، اور پُرامن منصوبے کے تحت تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچادیا جائے۔
آج پوری دنیا میں بسنے والے انسانوں کی تعداد سات بلین سے زیادہ ہے۔ اِس اعتبار سے، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اکیسویں صدی کے اہلِ ایمان کے لیے سات بلین کام ہیں۔ یہ کام اتنا بڑا ہے کہ اگر اس کا صحیح ادراک ہوجائے تو اہلِ ایمان کو یہ محسوس ہوگا کہ اُن کے پاس دوسرے کاموں کے لیے کوئی وقت ہی نہیں ۔ وہ دعوت الى اللہ کے اِس عظیم کام میں مصروف ہوجائیں گے، یہاں تک کہ وہ اپنی ساری توانائی عالمی دعوت کے مشن میں لگادیں گے۔ وہ دعوت الی اللہ کے اِس عظیم کام میں مصروف ہوجائیں گے، یہاں تک کہ وہ اپنے رب سے جاملیں۔
واپس اوپر جائیں

کنزیومرازم کا دور

تھائی لینڈ جنوب مشرقی ایشیا (South East Asia) کا ایک ملک ہے- پہلے یہ ملک سیام (Siam) کے نام سے مشہور تھا-1939 سے اس کو تھائی لینڈ (Thailand) کہا جانے لگا- یہاں کی بیش تر آبادی بدھ ازم کو مانتی ہے- قدیم زمانے میں یہ ایک زرعی ملک تھا- یہاں کی زندگی نہایت سادہ تھی- بیش تر لوگ کم آمدنی میں زندگی گزارتے تھے- اُس زمانے میں یہاں بدھ مذہب اور بدھ کلچر تیزی سے پھیلا- ملک کی تقریباً پوری آبادی بدھسٹ بن گئی-
بیسویں صدی کے آخر میں یہاں مغربی کمپنیاں آئیں- صنعت اور تجارت کو فروغ ہونے لگا، یہاں تک کہ اکیسویں صدی میں پہنچ کر یہ حال ہوا کہ تھائی لینڈ میں ترقی کا ایک نیا دور آگیا- جو لوگ پہلے غریب سمجھے جاتے تھے، اب وہ امیر بن گئے- لوگوں کی قوتِ خرید (purchasing power) بہت بڑھ گئی- جدید طرز کے شاپنگ سنٹر ہر جگہ کھل گئے- اشیاءِ صرف (consumer goods) کی مانگ بہت بڑھ گئی-اِس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھائی لینڈ کا کلچر بالکل بدل گیا- پہلے بودھ مندروں میں بھیڑ ہوا کرتی تھی، اب بازاروں میں بھیڑ دکھائی دینے لگی- روایتی طریقے کے مطابق، پہلے یہ تھا کہ بدھسٹ منک (Buddhist Monk) لوگوں کے گھروں سے کھانا مانگ کر لاتے تھے- اب وہ اپنے آفس سے ریستوراں کو ٹیلی فون کرتے ہیں اور کھانا ان کے آفس میں آجاتاہے- ایک بدھسٹ نے کہا کہ — اب تھائی لینڈ کا مذہب بدھ ازم نہیں ہے، بلکہ کنزیومرازم ہے:
Consumerism is now the Thai religion.
یہ صورت حال صرف تھائی لینڈ کی نہیں ہے، بلکہ آج ساری دنیا کا سب سے بڑا مذہب وہی بن چکا ہے جس کو کنزیومرازم کہاجاتا ہے، حتی کہ عملاً اُن لوگوں کا بھی جو بظاہر روایتی قسم کے مذہبی لباس میں دکھائی دیتے ہیں- اصل یہ ہے کہ انیسویں صدی میں ساری دنیا میں ایک نیا دور شروع ہوا، جب کہ اشیاءِصَرف کے بار\ے میں ایک نیا تصور دنیا میں آگیا- یہ کلچر اب اتنا بڑھ چکاہے کہ اس کو کنزیومر انقلاب (consumer revolution) کہاجاتاہے- اب خواہ سیکولر لوگ ہوں یا بظاہر مذہبی لوگ، تقریباً ہر ایک کا ایک ہی کنسرن (concern)ہے— زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا اور بازار سے زیادہ سے زیادہ اشیاءِ صرف (consumer)حاصل کرنا-
Thailand Grows Richer, Forgets its Monks
BAAN PA CHI, Thailand — The monks of this northern Thai village no longer perform one of the defining rituals of Buddhism, the early-morning walk through the community to collect food. Instead, the temple’s Abbot dials a local restaurant and has takeout delivered. “Most of the time, I stay inside,” said the Abbot, Phra Nipan Marawichayo, who is one of only two monks living in what was once a thriving temple. “Values have changed with time.” The gilded roofs of Buddhist temples are as much a part of Thailand’s landscape as rice paddies and palm trees. The temples were once the heart of village life, serving as meeting places, guesthouses and community centers. But many have become little more than ornaments of the past, marginalized by a shortage of monks and an increasingly secular society. “Consumerism is now the Thai religion,” said Phra Paisan Visalo, one of the country’s most respected monks. “In the past, people went to temple on every holy day. Now, they go to shopping malls.” There are five monks and novices for every 1,000 people today, compared with 11 in 1980, when governments began keeping nationwide records. Although it is still relatively rare for temples to close, many districts are so short on monks that abbots here in northern Thailand recruit across the border from impoverished Myanmar, where monasteries are overflowing with novices. Many societies have witnessed a gradual shift from the sacred toward the profane as they have modernized. What is striking in Thailand is the compressed time frame, a vertiginous pace of change brought on by the country’s rapid economic rise. In a relatively short time, the local Buddhist monk has gone from being a moral authority, teacher and community leader fulfilling important spiritual and secular roles to someone whose job is often limited to presiding over periodic ceremonies. Scandals surrounding some monks have contributed to the decline. Social media has helped spread videos of monks partying in monasteries, imbibing alcohol, watching pornographic videos and cavorting with women and men, all forbidden activities.
(The Times of India, New Delhi, December 23, 2012, p. 21)
راقم الحروف نے 1961 کا ایک واقعہ ہندستان ٹائمس کے حوالے سے اپنے ایک مضمون مطبوعہ ماہ نامہ زندگی (رام پور) میں اِس طرح نقل کیا تھا: ’’نئی دہلی میں ہندستان کے بین اقوامی صنعتی میلہ میں امریکا کی طرف سے ایک ہوائی موٹر کار کی نمائش کی گئی ہے، جس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زمین پر بھی چلتی ہے اور زمین سے چند فٹ بلند ہو کر 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا میں بھی اڑ سکتی ہے- اِس کار کو جب ایک نوجوان سادھو نے دیکھا تو اس کے سامنے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا- کیا میں تیاگ کی زندگی کو چھوڑ کر مادی ترقیات کی دنیا میں اپنے حوصلوں کی تسکین ڈھونڈوں- گیروے کپڑے میں ملبوس اور لمبے بکھرے ہوئے بالوں والا یہ ہندستانی نوجوان 20 منٹ تک اِس امریکی کار کو دیکھتا رہا جس کو مستقبل کی کار (Car of the future)کا نام دیاگیا ہے- جب اس کے بارے میں سادھو کا تبصرہ پوچھا گیا تو اس نے گہرے تاثر کے ساتھ جواب دیا کہ اِس نے مجھے اس سوچ میں ڈال دیا ہے کہ دونوں دنیاؤں میں سے وہ کون سی دنیا ہے جس کو میں اپنے لیے زیادہ بہتر سمجھوں- )قرآن کا مطلوب انسان، صفحہ 49 )
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ضرورت کی چیزیں بہت کم تھیں اور جو چیزیں تھیں، وہ بھی نہایت سادہ ہوتی تھیں- قدیم زمانے میں پرکشش سامانوں کا کوئی وجود نہ تھا- یہ ایک نیا ظاہرہ ہے جو جدید صنعت کے بعد دنیا میں پیداہوا اور انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے دوران بہت زیادہ عام ہوگیا-
اب ساری دنیا کا یہ حال ہے کہ کوئی شخص سیکولر ہو یا مذہبی، دونوں ہی کا طرز فکر صرف ایک ہے اور دونوں کا معبد بھی صرف ایک ہے، اور وہ ہے شاپنگ سنٹر- اب آخرت کی جنت صرف ایک روایتی عقیدہ بن کررہ گئی ہے- عملا ً ہر ایک کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی جنت اسی دنیا میں بنانا چاہتاہے- ہر آدمی زبانِ قال یا زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ — جنت آج کی دنیا میں شاپنگ سنٹر کا ایک آئٹم بن چکی ہے- ایسی حالت میں جنت کے حصول کے لیے کل آنے والی دنیا کا انتظار کرنے کی کیا ضرورت-
ایک حدیث اِس موضوع سے بہت زیادہ متعلق ہے- یہ حدیث صحیح مسلم میں مختصراً آئی ہے- امام ذہبی نے اس کو اپنی کتاب العلو للعلی الغفار فی صحیح الأخبار (رقم الحدیث: 98) میں تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے- علامہ ناصر الدین الالبانی نے اِس حدیث کو تفصیلی متن کے ساتھ تخریج مشکاة المصابیح (رقم الحدیث : 741 ) میں لکھا ہے- انھوںنے اِس روایت کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں: لہ شاہد، إسنادہ حسن (اس کے حق میں شواہد موجود ہیں اور سند کے اعتبار سے یہ روایت حسن کا درجہ رکھتی ہے) -اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
أن حبرا من الیہود سأل النبی - صلى اللہ علیہ وسلم - : أی البقاع خیر ؟ فسکت عنہ ، وقال : أسکت ، حتى یجیء جبریل ، فسکت ، ثم جاء جبریل ، فسألہ ، فقال : ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل ، ولکن أسأل ربی - تبارک وتعالى - ؛ ثم قال جبریل : یا محمد ! إنی دنوت من اللہ دنوا ما دنوت مثلہ قط ؛ قال : کیف کان یا جبریل ؟ ، قال : کان بینی وبینہ سبعون ألف حجاب من نور ، فقال : شر البقاع أسواقہا ، وخیر البقاع مساجدہا-
ترجمہ: ایک یہودی عالم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین کا سب سے بہتر مقام کون سا ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے-آپ نے کہا کہ ٹھہرو، یہاں تک کہ جبریل آجائیں- پھر وہ شخص خاموش ہوگیا- اس کے بعد جبریل آپ کے پاس آئے تو آپ نے اُن سے پوچھا- جبریل نے کہا کہ اِس سوال کے بارے میں سائل، مسئول سے زیادہ نہیں جانتا- تاہم میں اپنے رب سے پوچھوں گا- پھر جبریل نےکہا کہ اے محمد، میں اللہ سے اتنا زیادہ قریب ہوا جتنا کہ اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا- آپ نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا اے جبریل- جبریل نے کہا کہ میرے اور خدا کے درمیان ستر ہزار نورانی پردے تھے- اُس وقت اللہ نے جواب دیا کہ — زمین کا سب سے برا مقام بازار ہیں اور سب سے اچھا مقام مسجدیں ہیں-
یہ حدیث آج کے حالات میں زیادہ قابلِ فہم ہوگئی ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے کے اسواق (شاپنگ سنٹر) زمین کا سب سے زیادہ برا مقام (evil spot) بن گئے ہیں- اِن شاپنگ سنٹروں نے انسان کی سوچ کو بالکل بدل دیا ہے- اب انسان کی سوچ کا مرکز نہ خدا ہے اور نہ جنت اور نہ اونچے اقدار (high values) - اب ہر عورت اور مرد دیوانگی کی حد تک ایک ہی چیز کا طالب بن گیا ہے اور وہ ہے دور جدید کے پُررونق شاپنگ سنٹروں میںجانا اور وہاں شاپنگ کرنا-
اللہ کے فضل سے مجھے شاپنگ کاکوئی شوق نہیں- مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میں یوپی کے ایک گاؤں میں رہتا تھا- ہمارے گاؤں سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہر سال دسہرہ بازارلگتاتھا-گاؤں کے بچے وہاں جاتے تھے اور مجھ کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے- دوسرے بچوں کا حال یہ تھا کہ دسہرہ بازار میں وہ نہایت شوق کے ساتھ خریداری کرتے تھے اور خالی جیب کے ساتھ گھر واپس آتے تھے- اِس کے برعکس، میرا حال یہ تھا کہ جاتے ہوئے میری ماں میری جیب میں کچھ پیسے ڈال دیتی تھیں، مگر میں دسہرہ بازار میں کوئی خریداری نہیں کرتا تھا اور واپس آکر پورا پیسہ اپنی ماں کو لوٹا دیتا تھا-
کانفرنسوں میں شرکت کے سلسلے میں مجھے مختلف ملکوں میں سفر کرنے کا موقع ملا- میں یہ دیکھتا تھا کہ کانفرنس کے شرکا کانفرنس کی کارروائی ختم ہونے کے بعد مقامی بازار میں جاتے تھے اور اپنے متعلقین کے لیے باقاعدہ خریداری (shopping)کرتے تھے- لیکن میں کبھی کسی ملک کے بازار میں خریداری کے لیے نہیں گیا-1998 کا واقعہ ہے- میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکا گیا- وہاں میرے کچھ ساتھی — خواجہ کلیم الدین، فاروق چشتی ، وغیرہ اپنے ساتھ مجھ کو بازار لے گئے- وہاں اپنے لیے ان کو اوورکوٹ (over coat) خریدنا تھا- ہر ایک نے اپنی پسند کے مطابق، اوور کوٹ خریدا اور پھر مجھ سے کہا کہ آپ بھی کوئی کوٹ پسند کیجئے، ہم اس کو خرید کر آپ کو بطور تحفہ دیں گے- مگر میں کوٹ کے شو روم سے الگ کھڑا ہو کر اپنے خیالات میں گم رہا- میں نے کوٹ کی طرف دیکھا بھی نہیں- میری اِس بے رغبتی کو دیکھ کر میرے ایک ساتھی نے کہا کہ— آج میں نے یہ جانا کہ دنیا کتنی زیادہ حقیر ہے-
واپس اوپر جائیں

غیر اسلامی طریقہ

حضرت ابو ذر غفاری کی ایک روایت کے مطابق، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر الدجال أخوف علی أمتی (مسند احمد، جلد5، صفحہ 145) یعنی میں اپنی امت پر دجال سے بھی زیادہ ایک اور چیز سے ڈرتا ہوں۔ پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول، وہ کیا چیز ہے جس سے آپ اپنی امت کے اوپر دجال سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ گمراہ کرنے والے لیڈر (الأئمۃ المضلین)۔
اِس حدیث میںدجال کا حوالہ بتاتا ہے کہ یہ گمراہ کرنے والے رہنما دجال کے زمانے میں ظاہر ہوں گے- مزید غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس سے مراد جدید میڈیا اور جدید کمیونکیشن کا زمانہ ہے- اِن ذرائع کی بنا پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو ایڈریس کیا جائے اور اِس طرح غلط رہنمائی (mislead) کرکے اُن کو بھٹکا دیا جائے- موجودہ زمانے میں اپوزیشن کی سیاست (politics of opposition) اِسی کی ایک مثال ہے-اِس سیاست کی سب سے زیادہ تباہ کن صورت وہ ہے جس کو اینٹی انکمبنسی فیکٹر (anti-incumbency factor) کو استعمال کرنا کہا جاتا ہے، یعنی حکمرانوں کے خلاف شکایتوں کو لے کر جذباتی تحریکیں چلانا اور اِس طرح عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کردینا- سیکولر جماعتوں کی کامیابی کا راز بھی یہی منفی سیاست ہے اور نام نہاد اسلامی جماعتوں کی کامیابی کا راز بھی یہی منفی سیاست-
موجودہ زمانے کے سیاست پسندرہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ اسلامی جماعت کے نام پر ایک پارٹی بنائیں گے اور پھر حکمرانوں کی کمیوں کو تلاش کرکے وہ اُن کے خلاف دھواں دھار تحریکیں چلائیں گے- اِس کے بعد جب وہ بظاہر سیاسی کامیابی حاصل کرلیں گے تو وہ کہیں گے کہ اسلام جیت گیا، حالاں کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ ایک اسلامی سیاست کی جیت ہوتی ہے، نہ کہ اسلام کی جیت-یہ کامیابی عوامی جذبات کے استحصال(exploitation)کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، نہ کہ حقیقتاً دین خداوندی کے احیا کی بنیاد پر-
واپس اوپر جائیں

احیاءِ ملت

موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں بظاہر سب کچھ موجود ہے- اُن کے یہاں بظاہر عبادت بھی ہے، دعوت وتبلیغ بھی ہے، تزکیہ کے ادارے بھی ہیں، مگر حقیقی نتیجے کے اعتبار سے، کوئی بھی چیز اُن کے یہاں دکھائی نہیں دیتی- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ظاہری دھوم کے باوجود خداکی رحمت اُن سے اٹھ گئی ہے- اُن کا حال وہ ہورہا ہے جس کو بائبل میں، اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے — تمھاری قوت بے فائدہ صرف ہوگی، کیوں کہ تمھاری زمین سے کچھ پیدا نہ ہوگا- (احبار: 26 )
اِس کا سبب کیا ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ ان کی تمام سرگرمیاں حقیقی اسلامی اسپرٹ سے خالی ہیں- ان کے یہاں اسلام کا ظاہری فارم ہے، مگر اُن کے یہاں اسلام کی داخلی معنویت نہیں- ان کی عبادت ایک بے روح عبادت(spiritless ibadat) ہے- اُن کا تزکیہ بے دماغ تزکیہ (mindless tazkia) ہے- ان کی دعوت بے چیلنج دعوت(challengeless dawah) ہے- اُن کے یہاں اسلام کا ڈھانچہ ہے، ان کے یہاں اسلام کی حقیقی روح موجود نہیں-
موجودہ زمانے میں مسلم ملت کا اِحیا اِس طرح نہیں ہوسکتا کہ ان کے اندر تاریخی فخر پیدا کیا جائے- فضائل کی کہانیاں سنا کر اُن کے درمیان فارم والی عبادت کو زندہ کردیا جائے- پس ماندہ طبقے کے لوگوں کو کلمہ پڑھوادیا جائے جس میں داعی کے لیے کوئی ذہنی چیلنج پیش نہ آتا ہو- احیاءِ ملت کی اِس قسم کی کوششیں کبھی مطلوب نتیجہ پیدا نہیں کرسکتیں-
زوال یافتہ امت کی اصلاح افراد کے اندر انقلاب لانے سے ہوتی ہے، نہ کہ بھیڑ اکھٹا کرکے اُن کے سامنے جذباتی تقریریں کرنے سے- اصلاحِ امت کا آغاز ذہنی انقلاب سے ہوتا ہے، اور ذہن افراد کے اندر ہوتا ہے، نہ کہ کسی بھیڑ (crowd) کے اندر- مزید یہ کہ اصلاح کا یہ کام عصری اسلوب کے مطابق ہونا چاہیے- روایتی قسم کی تقریر وتحریر سے آج کے انسان کا مائنڈ ایڈریس نہیں ہوتا، اِس لیے اس کے ذریعے کوئی حقیقی نتیجہ بھی پیدا ہونے والا نہیں-
واپس اوپر جائیں

معرفت کا سفر

نومبر 1959 کا واقعہ ہے۔ آریہ سماج نے اپنی گولڈن جُبلی (golden jubilee) منائی۔ اِس سلسلے میں مختلف مقامات پر ان کے پروگرام ہوئے۔بجنور (سیوہارہ) میں 29نومبر 1959 کو ایک آل مذاہب کانفرنس ہوئی۔ اِس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں کو بلایا گیا۔ اُن سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے مذہب کی روشنی میں ایک سوال کا جواب دیں۔ وہ سوال یہ تھا— گیان کا آغاز کس طرح ہوا:
How was the beginning of knowledge.
اِس کانفرنس کی دعوت پر راقم الحروف نے اس میں شرکت کی، اِس سفر میں میرے ساتھ مولانا محمد عبد الحی رام پوری (وفات: 1987 ) بھی تھے۔ اِس کانفرنس کی دعوت پر راقم الحروف نے اس میں شرکت کی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وہاں ایک تقریر کی۔ یہ تقریر ’’اسلام کا تعارف‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ کی صورت میں چھپ چکی ہے۔ اِس کانفرنس کے چیر مین مراد آباد کے ایک ہندو وکیل تھے۔ وہ خود بھی آریہ سماج کے ایک ممبر تھے۔ انھوںنے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ— تمام تقریروں میں صرف ایک تقریر تھی جو موضوع سے متعلق (relevant) تھی اور وہ مولانا صاحب کی تقریر تھی- بقیہ تقریروں میں اصل سوال کا جواب نہیں دیاگیا۔
اُس وقت میں نے انگریز مصنف جولین ہکسلے (Sir Julian Sorell Huxley) (وفات: 1979) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ لوگ زندگی اور کائنات کو صرف ایک حادثاتی چیز سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چھ بندر ایک ایک ٹائپ رائٹر لے کر بیٹھ جائیں اور ملین اور ملین سال تک الل ٹپ طریقے سے ان کو پیٹتے رہیں، تو ہوسکتا ہے کہ ان کے سیاہ کیے ہوئے کاغذات کے ڈھیر میں کسی صفحے پر شیکسپئر کی ایک نظم (Sonnet) نکل آئے۔ اِس طرح ملین اور بلین سال تک مادّے کے اندھے عمل کے دوران بالکل اتفاق سے یہ دنیا بن گئی ہے۔
اِس طرح کی مثالیں یہ تاثر پیدا کرنے کے لیے دی جاتیں ہیں کہ اِس دنیا میں زندگی کا سفر کوئی شعوری سفر نہیں، وہ صرف بے شعوری کا ایک معاملہ ہے۔ افکار کی تاریخ اتفاقی اسباب کے تحت پیش آنے والے ایک بے شعوری سفر کی کہانی ہے۔ لیکن راقم الحروف کے مطالعے کے مطابق، یہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفت کا سفر مکمل طورپر شعور کے تحت پیش آنے والاایک سفر ہے۔ وہ ایک ابتدائی منزل سے اپنی آخری منزل کی طرف چلا جارہا ہے۔ معرفت کا سفر انسان کی ایک شعوری ضرورت ہے۔ یہ ہر انسان کی ایک ذاتی ضرورت ہے، خواہ اس نے اِس کا اعلان کیا ہو یا نہ کیا ہو۔
گیان (معرفت) کے آغاز کا سوال ایک نہایت سنجیدہ سوال ہے۔ میں برابر اِس تلاش میں رہا ہوں کہ اِس سوال کا زیادہ واضح جواب معلوم کروں۔ یہ سوال میرے ذہن میںتقریباً 40 سال تک رہا۔ حال میں انتھراپالوجی (Anthropology) کے ایک سروے میں مجھے اس کا جواب ملا۔ محققین کے مطابق، یہ جواب آرکیالوجی کے شواہد (archaelogical findings) پر مبنی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اسٹون ایج (stone age) میں دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو مارنے کے لیے ایک دوسرے کی طرف پتھر پھینکا۔ دونوں پتھر ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔ اِس ٹکرانے کے سبب سے وہاں اسپارکنگ (sparking) ہوئی، یعنی دونوں پتھروں کے ٹکرانے سے چنگاری نکلی۔ یہ ظاہرہ دونوں آدمیوں کے لیے نیا تھا۔ اب وہ دونوں آپس کا اختلاف بھول کر وہاں بیٹھ گئے اور دو پتھروں کو آپس میں ٹکرا کر چنگاری نکالنے لگے۔
دوپتھروں کے ٹکرانے سے چنگاری کیوں نکلتی ہے۔ اِس کا سبب یہ نہیں ہے کہ خود اِن پتھروںکے اندر پہلے سے چنگاری موجود ہوتی ہے اور وہ ٹکراؤ کے وقت ان کے اندر سے نکل آتی ہے، بلکہ اِس چنگاری کا سبب خارج میں ہے۔ اصل یہ ہے کہ فضا میں مختلف قسم کی گیسیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہوا اِن گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اِن میں سے ایک گیس وہ ہے جس کو ہائڈروجن (hydrogen) کہاجاتا ہے۔ ہائڈروجن ایک بھڑک اٹھنے والی گیس(inflammable gas) ہے۔ جب پتھر کے دوٹکڑوں کو ایک دوسرے سے ٹکرایا جاتا ہے تو فضا میں موجود ہائڈروجن کا کچھ حصہ اِس ٹکراؤ کی زد میں آجاتا ہے اور اچانک بھڑک اٹھتا ہے۔
یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تو بلاشبہہ یہی وہ واقعہ تھا جس سے انسانی تاریخ میں گیان (معرفت) کا آغاز ہوا۔ اِس واقعے کا ایک نہایت اہم پہلو تھا، وہ یہ کہ اس واقعے نے انسان کو بتایا کہ معلوم یا مشہود دنیا کے ماورا بھی ایک دنیا موجود ہے:
There is an invisible dimension beyond the visible world.
یہ مسئلہ ہسٹری آف تھاٹ (History of Thought) سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، ہسٹری آف تھاٹ کے بارے میں ماضی کے بہت کم واقعات تاریخ میں ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ اِس لیے اس معاملے میں کوئی تفصیلی نقشہ نہیں بنایا جاسکتا۔ تاہم قیاساً یہ کہاجاسکتا ہے کہ غالباً یہی واقعہ تھا جس سے انسانوں کے درمیان گیان (معرفت) کے سفر کا آغاز ہوا اور پھر ایک کے بعد ایک، چیزیں دریافت ہوتی چلی گئیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ ہر دریافت نے صرف یہ بتایا کہ اس کے آگے بھی علم کی کوئی سطح موجود ہے جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئی:
Every discovery tells us that there is something more to discover.
مثلاً حضرت مسیح سے ہزار سال پہلے عراق میں حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے وقت کے بادشاہ نمرود (Nemrud) کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ یہ خدا ہے جو سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے اور اس کو مغرب کی طرف لے جاتا ہے۔ کوئی انسان اس نظام کو بدلنے پر قادر نہیں۔ یہ سادہ انداز میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ تھا جس کو بعد کے زمانے میںعلمائِ فلکیات (astronomers) نے دریافت کیا، یعنی زمین اپنے لمبے مدار (orbit) پر گردش کرنے کے علاوہ اپنے محور (axis) پر گھومتی ہے جس سے رات کے بعد دن پیدا ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی آخری بات نہ تھیں۔ اس دریافت نے انسان کے اندر مزید جستجو کے دروازے کھولے اور بعد کو خلائی اجرام کے بارے میں نئی نئی دریافتیں ہوئیں۔
اِسی طرح تیسری صدی قبل مسیح میں یونان میں مشہور اسکالر ارشمیدس (Archimedes) پیدا ہوا۔ اس کے ہم عصر بادشاہ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اِس سوال کا جواب دے کہ کشتی پانی میں کیسے تیرتی ہے اور اس کا قانون کیا ہے۔ارشمیدس اِس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مشغول ہوگیا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ پانی کے ٹب میں نہا رہا تھا۔ اِس دوران ایک موقع پر اس کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کا جسم پانی کے اوپر تیر رہا ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے اس نے وہ سائنس دریافت کی جس کو ہائیڈرو اسٹیٹک (hydro static) کہا جاتا ہے۔ اس دریافت کا خلاصہ یہ تھا کہ جب پانی میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے تو وہ پانی کی جتنی مقدار کو ہٹاتی (displace) ہے، اسی کے بقدر وہاں اوپری دباؤ (upward pressure) پیدا ہوتا ہے۔ اِسی فطری عمل کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ کشتی پانی میں تیرنے لگتی ہے:
Hydrostatics: upward thrust exerted on a body immersed in fluid equals weight of fluid displaced.
اِس طرح، انسان ایک کے بعد ایک دریافتیں کرتا رہا، مگر یہ تمام دریافتیں طبیعیات کے دائرے میں تھیں۔ آخر کار معلوم ہوا کہ طبیعیات (physics)کے ماورا بھی ایک دنیا ہے۔ اِس فوق الطبیعی دنیا کے بارے میں عام ذرائع سے کچھ معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ اِس طرح ایک وقت آیا، جب کہ انسانی سائنس اپنی آخری حد پر پہنچ گئی۔ اِس آخری حدکے بعد علم کا جو اگلا مرحلہ ہے، اِس میں سائنس براہِ راست مددگار نہیں ہوسکتی۔
یہی وہ مقام ہے، جہاں سے پیغمبرانہ رہنمائی کی حد شروع ہوتی ہے۔آدمی طبیعیات کی دنیا میں بطور خود واقفیت حاصل کرسکتا ہے، لیکن بالائے طبیعیات جو دنیا ہے، اس کے بارے میں صرف پیغمبرکے ذریعے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پیغمبر، خدائی وحی کے ذریعے بولتا ہے، نہ کہ انسانی تجربات کے ذریعے۔ یہ پیغمبرانہ رہنمائی اب قرآن کی شکل میں موجود ہے جو محفوظ کلام الٰہی کی حیثیت رکھتا ہے۔
افکار کی تاریخ
فلسفے کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ قدیم یونان میںاس کا ابتدائی نشو ونما ہوا۔یونانی فلاسفہ عام طورپر یہ سمجھتے تھے کہ مادّہ (matter) قدیم ہے، یعنی وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ چوتھی صدی قبل مسیح کے یونانی فلسفی ارسطو (Aristotle) کا نظریہ یہی تھا۔ بعد کو یونان کے باہر بھی بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے، جنھوں نے فلسفے کے شعبے میں نمایاں کام انجام دیے۔ تاہم یہ تمام لوگ مادّہ (matter) کو قدیم سمجھنے میںمشترک (common)تھے۔مگر بیسویں صدی عیسوی کے نصف اول میں پہنچ کر کائنات کا یہ قدیم مادّی تصور (material concept) ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد جو کچھ پیش آیا، وہ برطانی عالمِ فلکیات سر جیمز جینز (وفات: 1946) کے الفاظ میں یہ تھا کہ —علم کا دریا میکانکل حقیقت (mechanical reality) سے نان میکانکل حقیقت (non-mechanical reality) کی طرف چلا جا رہا ہے (The Mysterious Universe, p. 138) ۔
مذکورہ مادی تعبیر کے تحت یہ نظریہ بنا کہ ہمیں خدا جیسے کسی وجود کو ماننے کی ضرورت نہیں۔ جس فکری ضرورت کے تحت خدا کے وجود کو مانا جارہا تھا، وہ خود اب مادہ (matter) کے ذریعے پوری ہورہی ہے۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ مادّہ نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا۔ تمام موجودات، مادّہ کے اندر اِسی طبیعی اور کیمیاوی سرگرمیوں (physical and chemical activities) کا نتیجہ ہیں۔
مگر بیسویں صدی کے رُبع اوّل میں بِگ بینگ (Big Bang) کا نظریہ دریافت ہوا۔ بِگ بینگ کے نظریے نے بتایا کہ پندرہ بلین سال پہلے خلا میں ایک سُپر ایٹم ظاہر ہوا۔ پھر اچانک اس میں ایک دھماکہ (explosion) ہوا۔ اِس سُپر ایٹم کے بے شمار ذرات وسیع خلا میں بکھر گئے، پھر یہ ذرات مختلف فلکیاتی اَجسام (astronomical bodies) کی صورت میں اَن گنت تعداد میں اکھٹا ہوئے، اِس طرح ہماری کائنات وجودمیں آئی۔بِگ بینگ کے نظریے نے کائنات کی قدیم مادّی تعبیر کا خاتمہ کردیا۔ اب خالص علمی اعتبار سے یہ ماننا ممکن ہوگیا کہ اِس کائنات کا ایک خالق موجود ہے۔ وہی اس کو کنٹرول کررہا ہے اور وہی اس کو انتہائی با معنیٰ طورپر چلا رہا ہے۔
سر آئزاک نیوٹن (وفات: 1727 ) کو ماڈرن سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ نیوٹن کے بعد سائنس میں جو نیا دور آیا، اُس میں کچھ نئی حقیقتیں دریافت ہوئیں۔ انھیں میں سے ایک حقیقت وہ ہے جس کو ضابطۂ ناکارگی (Law of Entropy) کہا جاتا ہے۔ اِس طبیعی قانون نے یہ ثابت کیا کہ کائنات اپنی عمر کے لحاظ سے لا محدود (endless)نہیں ہے۔ اس کی ایک مدت ہے اور اِس مدت کے پورا ہونے پر اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔
میری مراد اُس قانون سے ہے جس کو حرکیاتِ حرارت کا دوسرا قانون (second law of thermodynamics) کہا جاتا ہے۔ اِس طبیعی قانون کو دوسرے لفظوں میں، ضابطۂ ناکارگی (Law of Entropy) کہتے ہیں۔ یہ قانون ثابت کرتا ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہوسکتی۔ ضابطۂ ناکارگی بتاتا ہے کہ حرارت مسلسل با حرارت وجود سے بے حرارت وجود میں منتقل ہوتی رہتی ہے، مگر اِس چکر کو الٹا نہیں چلایا جاسکتا۔ ناکارگی، دستیاب توانائی (available energy) اور غیردستیاب توانائی (unavailable energy) کے درمیان تناسب کا نام ہے۔ اور اِس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس کائنات کی ناکارگی برابر بڑھ رہی ہے اور ایک وقت ایسا آنا مقدر ہے، جب کہ تمام موجودات کی حرارت یکساں ہوجائے گی اور کوئی کارآمد توانائی باقی نہ رہے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کیمیائی اور طبیعی عمل کا خاتمہ ہوجائے گا اور زندگی بھی اُسی کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: God Arises ، صفحہ 27)
مگر اکیسویں صدی کے آغاز میں صورتِ حال یک سر بدل گئی۔ پچھلے ہزاروں سال کے درمیان فلاسفہ اور مفکرین اور سائنس دانوں نے تہذیبی جنت کو وجود میں لانے کا جو خواب دیکھا تھا، وہ اپنی تکمیل سے پہلے ختم ہوگیا۔ ثابت شدہ حالات کے مطابق، اب اس کی تکمیل کا کوئی امکان نہیں۔
ہزاروں سال سے انسان کا یہ خواب تھا کہ وہ اپنے لیے اِس دنیا میں ایک بہتر زندگی بنائے۔ انسان کی اِس تمنا نے وہ چیز پیداکی جس کو تہذیب (civilization) کہاجاتا ہے۔ تہذیب کا یہ سفر اپنی واضح صورت میں اُس وقت شروع ہوا، جب کہ انسان نے پہیہ (wheel) دریافت کیا۔ لمبے سفر کے بعد تہذیب یہاں تک پہنچی کہ صنعتی انقلاب وجود میںآگیا اور انسان، موٹر کار اور ہوائی جہاز کے ذریعے تیز رفتاری کے ساتھ اپنا سفر طے کرنے لگا۔
1970 میں الون ٹافلر کی کتاب فیوچر شاک (Future Shock) چھپی۔ اِس میں مصنف نے یہ اعلان کیا کہ انسانی تہذیب اب انڈسٹریل دور سے نکل کر سپر انڈسٹریل دور میں داخل ہونے والی ہے۔ یہ گویا انسان کے تہذیبی سفر کا آخری مرحلہ ہوگا، جب کہ انسان کے تمام مادّی خواب پورے ہوجائیں گے اور انسان مادی راحت کے تمام سامان پالے گا، مگر جلد ہی گلوبل وارمنگ کا ظاہرہ سامنے آیا اور یہ منصوبہ تکمیل سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔
جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانے کی تمام مادی ترقیاں جدید صنعتی انقلاب کے ذریعے حاصل ہوئی ہیں۔ یہ جدید صنعتی دور ،مشینوں کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔ پہلے انسان، فطرت کی پیداوار پر زندگی گزارتا تھا۔ فطرت کا کارخانہ کوئی مسئلہ پیدا کیے بغیر انسان کو اپنی پیداوار دے رہا تھا۔ مگر صنعتی دور میں انسانی ساخت کی مشینوں کو متحرک رکھنے کے لیے مسلسل ایندھن (fuel) کی ضرورت تھی۔ انسانی ساخت کی اِن مشینوں کے حرکت میں آنے سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ وہ کاربن ایمیشن (carbon emission) کا مسئلہ تھا۔ شروع میں یہ مسئلہ بظاہر کوئی سنگین مسئلہ نظر نہیں آتا تھا، لیکن اکیسویں صدی عیسوی کے آتے ہی یہ مسئلہ انتہائی سنگین صورت اختیار کرگیا۔
مثال کے طورپر قدیم زمانے میںانسان، فطرت کے فراہم کردہ گھوڑے اور اونٹ پر سواری کرتا تھا۔ یہ گھوڑے اور اونٹ کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتے تھے۔ گھوڑے اور اونٹ فطرت کی پلوشن فری انڈسٹری (pollution free industry)میں پیدا ہوتے تھے اور خود بھی کوئی پلوشن (کثافت) پیدا کیے بغیر ساری عمر اپنا کام کرتے رہتے تھے۔اِس کے مقابلے میں، موجودہ زمانے کی کار اورہوائی جہاز انسانی ساخت کے کارخانوں میں بنائے گئے ہیں۔ یہ کارخانے لازمی طورپر مہلک قسم کی فضائی کثافت پیدا کرتے ہیں۔ یہ کثافت اب بڑھتے بڑھتے اُس خطرناک نقطے تک پہنچ گئی ہے، جہاں سے اُس کے لیے واپسی ممکن نہیں۔اب انسان کے لیے اس کی تاریخ کا اگلا مرحلہ صرف یہ ہے کہ وہ موجودہ دنیا سے گزر کر اگلی دنیا میں پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں

مسلم نوجوان

موجودہ زمانے کے مسلم نوجوانوں کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ ذہنی اعتبار سے ایک غیریقینی صورتِ حال میں مبتلا ہیں- روایتی اسلام جو بطور ورثہ اُنھیں ملا ہے، وہ ان کے ذہن کو مطمئن نہیں کرتا - اسلام کا کوئی دوسرا تصور جو اُن کو مطمئن کرنے والا ہو، وہ اُن کو معلوم نہیں- مسلم نوجوانوں کی یہ غیریقینی صورتِ حال ہرجگہ پائی جاتی ہے، عرب میں بھی اور غیر عرب میں بھی، مشرق میں بھی اور مغرب میں بھی-
نوجوان طبقہ ہمیشہ کسی قوم کا اصل اثاثہ ہوتاہے- مسلم نوجوان بلا شبہہ مسلم امت کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں- ضرورت ہے کہ اُن کو بے یقینی سے نکالا جائے اور اُن کو یقین کی حالت تک پہنچایا جائے-
اِس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ اِن نوجوانوں کو وہ روایتی انداز اپیل نہیں کرسکتا جس میں سارا زور یہ ’کرو اور وہ نہ کرو‘ (do’s and don’ts) پر ہوتا ہے- صحیح یہ ہے کہ اُن کے سامنے اسلام کی تعلیمات کو اُس اسلوب میں بیان کیا جائے جو اُن کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو، جس میں اسلام کو عقلی انداز (rational way) میں پیش کیاگیا ہو- موجودہ حالت میں یہ نوجوان صرف اسلام کے روایتی ڈھانچے کو جانـتے ہیں، یعنی وہ اسلام جس میں سارا زور صرف ظاہری شناخت اور فارم پر ہوتا ہے- اِس قسم کا اسلام موجودہ زمانے کے نوجوانوں کی اصلاح کے لیے موثر نہیں ہوسکتا-
موجودہ زمانے کے مسلم نوجوانوں کی اصلاح کے لیے ضرورت ہے کہ اسلام کو اُن کے سامنے مبنی برعقل اسلوب (reason-based idiom) میں پیش کیا جائے- موجودہ حالت میں پہلا کام یہ ہے کہ اسلام کا شعور اُن کے اندر اس طرح پیدا کیا جائے کہ وہ اسلام کو ازسرِ نو دریافت کرسکیں-
اسلام کی دوبارہ فکری دریافت ہی موجودہ زمانے کےمسلم نوجوانوں کو یقین عطا کرسکتی ہے- اگر ایسا ہو تو اسلام اُن کے لیے ایک عظیم مشن بن جائے گا، اسلام اُن کے لیے ایک ایسا مشن بن جائے گا جو لامحدود طورپر جاری رہنے والا ہو-
واپس اوپر جائیں

فکر ِ مغرب

فکر ِ مغرب (western thought) کیا ہے- فکر ِ مغرب اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے، سائنسی طرز فکر (scientific thinking)کا نام ہے، اور سائنسی طرزِ فکر پورے معنوں میں ایک درست طرز فکر ہے- وہ بجائے خود اسلامی فکر نہیں ہے، لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک موافقِ اسلام طرز فکر ہے- وہ اسلام کے حق میں ایک مؤید علم (supporting knowledge) کی حیثیت رکھتا ہے- اصل مغربی فکر نہ غیر اسلامی فکر ہے اور نہ وہ کسی بھی اعتبار سے، اسلام دشمن فکر ہے-
قرآن کی سورہ الاحقاف میں یہ آیت آئی ہے: قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَــہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ۭ اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ھٰذَآ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (46:4) یعنی کہو کہ کیا تم نے غورکیا اُن چیزوں پر جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو- مجھے دکھاؤ کہ انھوںنے زمین میں کیا بنایا ہے، یا آسمانوں میں ان کی کچھ شرکت ہے- میرے پاس اِس سے پہلے کی کوئی کتاب لے آؤ، یا کوئی علم جو چلا آتاہو، اگر تم سچے ہو-
مفسر ابن کثیر (وفات: 774 ہجری) نے درست طور پر لکھا ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں دو قسم کے علم کو بطور مستند علم (authentic knowledge) تسلیم کیا گیاہے — ایک، علمِ نقلی اور دوسرا علمِ عقلی- علمِ نقلی سے مراد مبنی بر وحی علم ہے اور علم عقلی سے مراد وہ علم ہے جو عقلِ انسانی پر مبنی ہو- تاہم علمِ عقلی سے مراد صرف وہ علم نہیں ہے جو عباسی دور کے معتزلہ اور متکلمین کے درمیان پایا جاتا تھا، بلکہ توسیعی طورپر اُس سے مراد سائنسی دور کا وہ جدید علم بھی ہے جس کو عقلی علم (rational knowledge) کہاجاتا ہے-
اِس جدید عقلی دور کا آغاز اٹلی کے سائنس داں گلیلیو (Galieo Galilei) سے ہوا- گلیلیو کی وفات 78سال کی عمر میں 1642 میں ہوئی- گلیلیو پہلا شخص ہے جس نے دور بین (telescope) کا استعمال کیا- گلیلیو کو جدید سائنس کا بانی (founder of modern science) کہاجاتا ہے- گلیلیو سے پہلے دنیا میں زمین مرکزی نظریہ (geo-centric theory) کو مانا جاتا تھا، جس کو ٹالمی (Claudius Ptolemy) اور ارسطو (Aristotle) کی حمایت حاصل تھی- گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین مرکزی نظریہ غلط ہے اور اِس کے مقابلے میں وہ نظریہ درست ہے جس کو آفتاب مرکزی نظریہ (heleo-centric theory) کہا جاتا ہے-
اِس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عقلی دور یا سائنسی دور شروع ہوا- اِس دور میں عقلی ثبوت کا یہ معیار قرار پایا کہ قابلِ اعتماد علم صرف وہ ہے جو قابلِ تصدیق علم (verifiable knowledge) ہو- دور بینی مشاہدہ نے زمین مرکزی نظریہ کی تصدیق نہیں کی، اِس لیے علمی دنیا میں اُس کو رد کردیاگیا، جب کہ دور بینی مشاہدہ نے آفتاب مرکزی نظریہ کی تصدیق کردی، اِس لیے وہ عقلی طورپر درست قرار پایا-
سائنس دراصل اِسی قابلِ تصدیق علم (verifiable knowledge) کا اصطلاحی نام ہے- اہلِ سائنس نے علمِ وحی (revealed knowledge) کا انکار نہیں کیا، البتہ انھوں نے علم وحی کو اپنے دائرہ تحقیق سے باہر قرار دیا، کیوں کہ وہ ان کے نزدیک قابلِ تصدیق نہ تھا-
اِس کے بعد علم کی دنیا میں ایک تقسیم (bifurcation) کا طریقہ وجودمیں آگیا- اب علمِ وحی کا دائرہ الگ ہوگیا اور عقلی علم یا سائنسی علم کا دائرہ الگ- یہ تقسیم بجائے خود غلطی نہ تھی- اِس کی بنا پر اہلِ سائنس کو یہ موقع ملا کہ وہ آزادانہ طورپر اپنی تحقیق کو جاری رکھ سکیں- اِس طرح سائنس کی تحقیق کا دائرہ اُس دنیا سے ہوگیا جس کو فطرت (nature) کہاجاتا ہے- اِسی لیے سائنس کو دوسرے الفاظ میں، فطری علم (natural science) یا مادّی علم (physical science) کہاجاتا ہے-
تائیدی علم
سائنسی علم براہِ راست طورپر اسلامی علم نہ تھا، لیکن بالواسطہ طورپر وہ اسلام کے لیے ایک تائیدی علم کی حیثیت رکھتا تھا- عقل کی صلاحیت کو لے کر سائنسی دنیا میں جو تحقیقات ہوئیں، اُس سے اسلام کو بہت زیادہ فائدے حاصل ہوئے- اِس اعتبار سے، سائنس کا پورا علم، اسلام کے لیے تائیدی علم کی حیثیت رکھتا ہے- حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس اُس حدیث رسول کی مصداق ہے جو پیشین گوئی کی زبان میں اِن الفاظ میں آئی ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062)-
فطرت میں سائنسی تحقیق کے ذریعے جو دریافتیں وجود میں آئیں، وہ خاص طورپر دو اعتبار سے، اسلام کے لیے غیر معمولی تائید کی حیثیت رکھتی تھیں- ایک قسم کی تائید وہ تھی جو اُس سائنس کے ذریعے حاصل ہوئی جس کو نظریاتی سائنس (theoretical science) کہاجاتا ہے- اور اسلام کے لیے دوسری تائید وہ تھی جس کو اصطلاحی طورپر انطباقی سائنس (applied science) کہاجاتا ہے-
نظریاتی سائنس نے یہ کیا کہ اس نے فطرت (nature) میں چھپے ہوئے وہ قوانین دریافت کیے جو اب تک غیر معلوم تھے- اِن قوانین کے بارے میں اشارات قرآن میں موجود تھے، لیکن قرآن میں ان کی تفصیل موجود نہ تھی- اہلِ ایمان کو ابھارا گیا کہ وہ زمین و آسمان میں غور کرکے اِن تفصیلات کو دریافت کریں، جو کہ ان کے لیے اضافہ ایمان کا ذریعہ ہیں- لیکن بعد کے زمانے کے مسلمان یہ کام نہ کرسکے- آخر کار، اللہ تعالی نے اہلِ سائنس کے ذریعے یہ کام لیا- اللہ تعالی کا یہی منصوبہ ہے جس کو قرآن میں مستقبل کی پیشین گوئی کے طورپر اِس طرح بیان کیا گیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ(41:53)
اِس معاملے کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَکًا (50:9)یعنی ہم نے آسمان سے مبارک پانی اتارا- قرآن کی اِس آیت میں اُس آفاقی تطہیر کا ذکر ہے جس کو موجودہ زمانے میں ازالہ نمک (desalination)کہاجاتا ہے- پانی کا ذخیرہ جو سمندروں میں جمع ہے، اُس میں تحفظاتی مادہ (preservative) کے طورپر تین فی صد نمک ملا ہوا ہے- یہ نمکین پانی انسان کے لیے ناقابلِ استعمال ہے- یہاں فطرت کے قانون کے مطابق، ایک عظیم آفاقی عمل ہوتا ہے جس کے ذریعے سمندر کا پانی نمک سے الگ ہوکر اوپر فضا میں جاتا ہے اور پھر بارش کی صورت میں خالص پانی زمین کی طرف لوٹتا ہے جس کو انسان اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کرتا ہے-قرآن میں، مبارک کے لفظ کی صورت میں اُس کا اشارہ موجود تھا، لیکن اس کی تفصیل ہزار سال بعد جدید سائنس نے معلوم کی، وغیرہ-
انطباقی سائنس (applied science) کے ذریعے اسلام کوبہت سے تائیدی ذرائع حاصل ہوئے- مثلاً پرنٹنگ پریس اور کمیونکیشن- اِن جدید سائنسی دریافتوں کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ اسلام کی اشاعت کا کام عالمی سطح پر انجام دیا جاسکے- اللہ تعالی کو اول دن سے یہ مطلوب تھا کہ دین ِ حق کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچایا جائے، لیکن جدید ذرائع کے وجود میں آنے سے پہلے اِس کا امکان ہی نہ تھا- تاریخ میں پہلی بار یہ امکان جدید انطباقی سائنس کے ذریعے پیدا ہواہے-
عالمی دعوت کا امکان
حدیث میں اسلامی دعوت کے ایک امکان کو اِس طرح بیان کیاگیا ہے: لایبقی على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی سطح پر کوئی گھر ایسا باقی نہیں رہے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہوجائے-
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں صدی میں جب کہ اسلام کا ظہور ہوا، اُس وقت سے یہ اسلامی دعوت کا نشانہ تھا کہ اسلام کا کلمہ کرہ ارض پر بسنے والے تمام مردوں اور عورتوںتک پہنچ جائے- مگر ایک ہزار سال تک یہ نشانہ عملاً پورا نہ ہوسکا، کیوں کہ اسباب کی اِس دنیا میں اِس نشانے کو پورا کرنے کے لیے عالمی ذرائع درکار تھے، جو کہ پچھلے ادوار میں موجود نہ تھے- دورِ جدید میں سائنس نے پہلی بار یہ موافق ذرائع فراہم کیے-اِس اعتبار سے دیکھئے تو مذکورہ حدیث کی تشریح اِن الفاظ میں کرنا درست ہوگا کہ — بعد کے زمانے میں ایسا ہوگا کہ اللہ کی توفیق سے ایسے اسباب وجود میں آئیں گے جن کو استعمال کرکے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اہلِ ایمان اسلام کے کلمہ کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچا دیں-
منفی رائے کا سبب
مغرب اور فکرمغرب کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان منفی رائے پائی جاتی ہے- عام طورپر مسلمان مغرب اور فکر مغرب کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں-اِسی بنا پر موجودہ زمانے کے تمام مسلمان اہلِ مغرب سے نفرت کرتے ہیں اور مغربی علم سیکھنے کو ایک ناپسندیدہ فعل قرار دیتے ہیں- مگر مسلمانوں کی یہ رائے حقیقت پر مبنی نہیں ہے، وہ تمام تر متعصبانہ فکر (biased thinking) کا نتیجہ ہے-
اصل یہ ہے کہ جس زمانے میں مغربی علم وجود میں آیا، اُسی زمانے میں ایک اور واقعہ وجود میں آیا جس کو مغربی استعمار (western colonisation) کہا جاتا ہے- اِسی زمانے میں مغربی قوموں، خاص طورپر برطانیہ اور فرانس، نے ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں میں اپنا سیاسی غلبہ قائم کرلیا- یہ ممالک اُس وقت مسلم سلطنت کا حصہ تھے- اِس سیاسی واقعے نے مسلمانوں کے اندر اہلِ مغرب کے خلاف شدید نفرت پیدا کردی- اِس کے بعد جب 1948 میں برطانی حکومت نے فلسطین کی تقسیم کی اور پھر امریکا، عربوں کے مقابلے میں اسرائیل کا حامی بن گیا، تو اِس کے نتیجے میں اہلِ مغرب کے خلاف مسلمانوں کی نفرت اپنی آخری حد پر پہنچ گئی- یہ نفرت ابتداء ً قومی سطح پر ہوئی اور پھر اِس کے بعد مسلمان ہر اُس چیز سے نفرت کرنے لگے جو مغرب کی طرف سے آئی ہو-
دو چیزوں میں فرق نہ کرنا
کہا جاتا ہے کہ — نفرت آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے- یہی واقعہ مغرب کے معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا- نفرت کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر جو متعصبانہ ذہن پیدا ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دو چیزوں میں فرق نہ کرسکے — مغربی علم اور اہلِ مغرب کی عملی کمزوریاں - یہ کمزوریاں ہر قوم میں لازماً پیدا ہوتی ہیں، حتی کہ خود مسلمانوں میں بھی-
اہلِ مغرب کی جدید تاریخ کا ایک حصہ وہ تھا جو سائنسی علم یا عقلی علم (rational knowledge) سے تعلق رکھتا تھا، کیوں کہ اسلام خود پورے معنوں میں ایک عقلی مذہب (rational religion) ہے- جدید سائنسی علم کا یہ حصہ پوری طرح اسلام کے موافق تھا- اِسی کے ساتھ بشری کمزوری کی بنا پر دو اور ظاہرے وجود میں آئے جو عام طورپر ہر قوم میں وجود میں آتے ہیں— ایک، حقیقتوں کی غلط توجیہہ (misinterpretation) اور دوسرے، آزادی کا غلط استعمال (misuse of freedom)- یہ دونوں چیزیں بلاشبہہ قابلِ اعتراض تھیں، مگر وہ اہلِ مغرب کی انسانی کمزوریاں تھیں، وہ خود مغربی سائنس کا حصہ نہ تھیں- مگر مسلمان اپنے تعصب کی بنا پر اِس فرق کو سمجھ نہ سکے، وہ غلط توجیہہ یا آزادی کے غلط استعمال کی طرح خودمغربی سائنس کو بھی منفی نظر سے دیکھنے لگے-
مثال کے طور پر مغربی دنیا میں برہنگی (nudity) کا کلچر ہے- یہ بات بطور واقعہ درست نہیں ہے، مگر اس کا تعلق فکرِ مغرب سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق آزادی کے غلط استعمال سے ہے- اللہ تعالی نے امتحان کی مصلحت کی بنا پر انسان کو آزادی دی ہے- انسان کو خود اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے یا چاہے تو وہ اس کا درست استعمال کرے- تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا رہا ہے، اِسی طرح موجودہ زمانے میں بھی- البتہ موجودہ زمانے میں ڈگری کے اعتبار سے اس میں اضافہ ہوگیا ہے- اِسی طرح مغربی دنیا میں شراب کا رواج بھی آزادی کے غلط استعمال سے تعلق رکھتا ہے- خود فکر مغرب سے اس کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں، وغیرہ-
اِس سلسلے میں دوسرا معاملہ غلط توجیہ (misinterpretation) کا ہے- موجودہ زمانے میں مغربی دنیا میں کئی نظریات وجود میں آئے- مثلاً ڈارون ازم (Darwinism)، فرائڈازم (Freudism) اور مارکس ازم (Marxism)، وغیرہ- یہ نظریات بلا شبہہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف تھے، مگر یہ نظریات فکر مغرب کا براہِ راست حصہ نہیںہیں، بلکہ وہ زندگی کی غلط توجیہہ سے وجود میں آئے ہیں- ہم کو یقیناً دلائل کی بنیاد پر اِن نظریات کی تردید کرنا چاہیے، مگر یہ درست نہیں کہ ہم اِن نظریات کے حوالے سے خود فکر مغرب کو غلط سمجھنے لگیں-
اِس قسم کی برائی ہر معاشرے میں پائی جاتی ہے، حتی کہ خود مسلم معاشرے میں بھی- اسلام کے ابتدائی زمانے میں جن لوگوں نے حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی کو شہید کیا، ان کا کیس یہی تھا کہ انھوںنے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا- اِس طرح موجودہ زمانے میں آزاد مسلم ملکوں میں خود مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہتے ہیں- یہ بھی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے، وہ خود اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں-
یہی معاملہ غلط توجیہہ کا ہے- اسلام کے ابتدائی زمانے میں خوارج کا جو ظاہرہ پیدا ہوا، وہ اسلام کی غلط توجیہہ کا نتیجہ تھا- اِسی طرح موجودہ زمانے میں اسلام کی سیاسی تعبیر بھی قرآن وحدیث کی غلط توجیہہ کے نتیجے میں وجود میں آئی-
عصری ذہن
عام طو رپر مسلمان عصری ذہن کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- اس کا سبب وہی ہے جس کو الناس أعداء ما جہلوا کہاجاتا ہے، یعنی بے خبری کی بنا پر کسی کو اپنا دشمن سمجھ لینا- عصری ذہن کے بارے میں عادلانہ رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت پسندانہ ذہن کے تحت اس کا تجزیہ کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ حقیقتِ واقعہ کے اعتبار سے، عصری ذہن کا کیس کیا ہے-
عصری ذہن کی اصل مغربی ذہن ہے- مغربی ذہن یورپ کی نشاةِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد پیدا ہونے والے ذہن کا نام ہے- اُس دور میں کچھ ایسے افراد یورپ میں اٹھے جنھوں نے فطرت (nature) کا مطالعہ غیر روایتی انداز میں شروع کیا- اِس سلسلے میں پہلا نمایاں نام اٹلی کے سائنس داں گلیلیو (وفات: 1642)کا ہے- گلیلیو تاریخ کا پہلا شخص ہے جس نے فلکیات کے مطالعے میں دور بین (telescope) کا استعمال کیا- یہ 1609 کا واقعہ ہے- اُس زمانے میں روایتی تصور یہ تھا کہ زمین مرکز میں ہے اور سو رج اس کے گرد گھومتا ہے- گلیلیو نے اپنے دور بینی مشاہدے میں جن حقیقتوں کو دریافت کیا، اُن سے یہ اخذ ہوتا تھا کہ سورج مرکز میں ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے-
سترھویں صدی کے آغاز میں عام طورپر روایتی طرز فکر کا غلبہ تھا- اُس وقت گلیلیو کا یہ اعلان ایک دھماکہ خیز واقعہ ثابت ہوا-اُس وقت مسیحی چرچ یورپ میں روایتی طرز فکر کا نمائندہ تھا- مسیحی پوپ کو یورپ کا بے تاج بادشاہ (uncrowned king) سمجھا جاتا تھا- چناں چہ مسیحی چرچ اور سائنس دانوں کے درمیان زبردست ٹکراؤ پیش آیا- اِس ٹکراؤ میں سائنس دانوں کو فتح ہوئی-
مسیحی چرچ کے اختیار کا دائرہ دن بدن سمٹنے لگا، یہاں تک کہ 1929 میں حکومتِ اٹلی اور مسیحی پوپ کے درمیان وہ معاہدہ ہوا جس کو لیٹران معاہدہ (Lateran Treaty) کہاجاتا ہے- اِس معاہدے کے مطابق، مسیحی چرچ اِس پر راضی ہوگیا کہ اس کا دائرہ اختیار روم کے ایک مختصر علاقہ ویٹکن (Vatican) تک محدود رہے گا جس کا کُل رقبہ صرف 109 ایکڑ ہے-
اِس طرح تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا جس کو سائنس کا دور کہا جاتا ہے- اگر اِس واقعے کو مذہبی اصطلاح میں بیان کیا جائے تو اِس دور کو ایمان بالغیب کے بجائے ایمان بالشہود کا دور کہاجائے گا- اِس دور میں فطرت کا مطالعہ مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں کیا جانے لگا- اِس کے نتیجے میں فطرت کے اندر چھپے ہوئے بے شمار رموز دریافت ہوئے جو اب تک انسان کے لیے  غیردریافت شدہ بنے ہوئے تھے-اِس کے نتیجے میں نئی ٹکنالوجی، نئی صنعتیں، نئے ذرائع ووسائل انسان کی دسترس میں آگئے-
یہ نئی مسحور کن دنیا تمام تر آبجیکٹیو مطالعہ (objective study) کے ذریعے انسان کی دسترس میں آئی تھی- اِس میں مبنی بر وحی مطالعہ کا بظاہر کوئی دخل نہیں تھا- یہ دور بظاہر سائنس دانوں کی تحقیقات کے نتیجے میں پیدا ہوا- اِس دور کا ایک عملی نتیجہ یہ تھا کہ قابلِ پیمائش (measurable) کو ناقابلِ پیمایش (non-measurable) سے الگ کر دیا گیا- اِس کے نتیجے میں علمی دنیا میں فکر کا وہ طریقہ رائج ہوا جس کو موضوعی طریقِ مطالعہ (objective method of study) کہاجاتا ہے- اِس طریقے کی عملی کامیابی کی بنا پر اس کو موجودہ دور میں رواجِ عام حاصل ہوگیا-
سائنس دانوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ اُن کا طریقِ مطالعہ تمام حقائق کو جاننے کے لیے واحد کارآمد طریقہ ہے- اِس کے برعکس، انھوں نے کھلے طورپر یہ تسلیم کیا کہ سائنس پورے علم حقیقت کا احاطہ نہیں کرتی، وہ حقیقت کا صرف جزئی علم دیتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
سائنسی طریقِ مطالعہ اپنی عملی کامیابی، نہ کہ نظری صداقت کی بنا پر موجودہ زمانے میں بہت زیادہ عام ہوگیا، حتی کہ فلاسفہ اور مفکرین نے بھی اِسی طرزِ فکر کو اختیار کرلیا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جس طرح فطرت (nature) کا مطالعہ موضوعی انداز میں کرتے تھے، اسی طرح وہ مذہب کا مطالعہ بھی موضوعی انداز میں کرنے لگے- وہ مذہب کو الہامی ظاہرہ (revealed phenomenon) تسلیم کرنے کے بجائے، اس کو صرف ایک سماجی ظاہرہ (social phenomenon) سمجھنے لگے- وہ اپنے مزاج کے مطابق، پیغمبراور پیغمبر کے کام کا اُسی طرح تجزیہ کرنے لگے جس طرح وہ مادی چیزوں کا تجزیہ کررہے تھے-
جدید مفکرین کا یہ طریقہ از روئے حقیقت درست نہ تھا، لیکن اس کا سبب عناد یا سازش نہ تھی، بلکہ وہ اُن کے اختیار کردہ طریقِ مطالعہ کا نتیجہ تھا- اگرچہ یہ طریقہ مذہب کے خلاف تھا، مگر وہ کسی بد نیتی کا نتیجہ نہ تھا- وہ بطور خود اِسی کو درست طریقِ مطالعہ سمجھتے تھے- سنجیدگی کے ساتھ ان کا یہ یقین تھا کہ یہ طریقہ جس طرح مظاہر فطرت کے مطالعے میں کامیاب ثابت ہوا ہے، اِسی طرح وہ وحی والہام کے مظاہر کے مطالعے میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے-
سائنس دانوں نے جو کام کیا،وہ تائید (support) کے اعتبار سے، اہلِ اسلام کے لیے انتہائی مفید تھا، لیکن مسلم ذہن اپنی منفی سوچ کی بناپر اِس فرق کو سمجھ نہ سکا- انھوں نے نئے دور میں پیدا ہونے والی مغربی تہذیب کو کلی طور پر اسلام دشمنی کا کیس قرار دے دیا، حالاں کہ اگر وہ اِس معاملے میں غیر جانب دارانہ انداز میں اہلِ مغرب کے کیس کو سمجھتے تو وہ جان لیتے کہ اہلِ مغرب کا کام، خود پیغمبر اسلام کی پیشین گوئی کے مطابق، باعتبار نتیجہ، تائید دین کی حیثیت رکھتا تھا، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تخریبِ دین کا معاملہ نہ تھا-
حرفِ آخر
موجودہ زمانے میں اہلِ مغرب کا کنٹری بیوشن (contribution) بہت زیادہ ہے، سیکولر اعتبار سے بھی اور اسلامی اعتبار سے بھی- یہ ایک واقعہ ہے کہ اہلِ مغرب کی کوششوں سے ایک نئی دنیا وجود میں آئی ہے، جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہاجاتا ہے- جدید تہذیب اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے، منصوبہ خداوندی کا ایک حصہ ہے-
اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ فطرت میں چھپے ہوئے قوانین دریافت کیے جائیں- فطرت کے تخلیقی امکانات کو انفولڈ (unfold) کیا جائے- مادی دنیا میں چھپے ہوئے آلاء اللہ (wonders of God) کو علمِ انسانی کا حصہ بنایا جائے، تاکہ خدا کا دین روایتی دور سے نکل کر سائنسی دور تک پہنچے، تاکہ خدا کی معرفت کے اعلی پہلو انسان پر کھلیں، تاکہ قرآن کے مخفی ’عجائب‘ معلوم واقعہ بن جائیں- یہ سب کچھ اللہ تعالی کو مطلوب تھا اور مغربی تہذیب کے ذریعے اِسی مطلوبِ الہی کی تکمیل ہوئی ہے-
اِس دنیا میں مثبت پہلو (positive aspects)کے ساتھ ہمیشہ کچھ منفی پہلو (negative aspects) شامل رہتے ہیں- اِس کے باوجود اِس کی ضرورت ہوتی ہے کہ تاریخ کی مثبت تعبیر تلاش کی جائے- مثال کے طورپر اسلام کے عہدِ اول میں اہلِ ایمان کی پہلی جنریشن کے درمیان خوں ریز لڑائی ہوئی، جو کہ بلاشبہہ ایک منفی واقعہ تھا، مگر اِس منفی واقعےکے باوجود اسلام کے مثبت انقلابی رول کا اعتراف کیا جائے گا- اِسی طرح، اہلِ مغرب کے ترقیاتی کارناموں کے ساتھ اگر کچھ منفی پہلو شامل ہیں تو اِس بنا پر ہرگز ایسا کرنا درست نہ ہوگا کہ مسلمان اہلِ مغرب کے بارے میں منفی ذہن کا شکار ہوجائیں اور وہ اہلِ مغرب کے مثبت کارناموں کا اعتراف نہ کریں-
اِس قسم کا منفی رویہ خود مسلمانوں کی اپنی ذات کے لیے شدید نقصان کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اِس قسم کا منفی رویہ حقیقتِ واقعہ کا اعتراف نہ کرنا ہے اور حقیقتِ واقعہ کا اعتراف نہ کرنا بلاشبہہ دنیا کے پہلو سے بھی ہلاکت خیز ہے اور آخرت کے پہلو سے بھی-
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا طریقہ

ایک صاحب سروس کرتےتھے- ایک عرصے تک سروس کرنے کے بعد اُن کو احساس ہوا کہ سروس کی آمدنی بچوں کی ترقی کے لیے کافی نہیں-اِس لیے انھوںنے سروس چھوڑ دی اور ایک بزنس شروع کردیا، تاکہ وہ زیادہ کمائیں اور بچوں کو زیادہ ترقی دلاسکیں، مگر عملاً یہ ہوا کہ بزنس میں اُن کو مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوئی- چناں چہ وہ ٹنشن میں مبتلا ہو گئے- آخر کار، اُن کو کینسر ہوگیا اور بچوں کے لیے زیادہ پیسہ کمانے سے پہلے وہ اس دنیا سے چلے گئے-
اِس طرح کا واقعہ مختلف صورتوں میں اکثر لوگوں کے ساتھ پیش آتاہے، مگر وہ ہر ایک کے لیے تباہ کن ہے- ایسے لوگوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ حقیقت پسند (realitst)بنیں- وہ اپنی زندگی کا منصوبہ خود اپنی استطاعت کی بنیاد پر بنائیں، نہ کہ اپنی اولاد کے بارے میں اپنی امنگوں (ambitions) کی بنیاد پر- وہ بچوں کے مستقبل کی تعمیر کے معاملے کو خود بچوں پر چھوڑ یں- وہ ایسا ہر گز نہ کریں کہ بچوں کی خاطر اپنے آپ کو تباہ کرلیں اور آخر کار خود بچوں کو بھی-بچوں کی ترقی کی سب سے بڑی ضمانت یہ ہے کہ خود اُن کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو، اُن کے اندر داخلی اسپرٹ جاگے، وہ خود حالات کو سمجھیں اور حالات کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کریں- ترقی وہ ہے جو آدمی کو خود اپنی محنت سے ملے- دوسروں کی طرف سے دی ہوئی ترقی کوئی ترقی نہیں-
اِس قسم کی خواہش رکھنے والے لوگ اکثر ناکام ہوجاتے ہیں- اِس کا سبب کیا ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں سے جذباتی تعلق کی بنا پر ایسی چیز کے خواہش مند بن جاتے ہیں جو منصوبۂ الہی کے مطابق، اُن کو ملنے والی نہیں- آدمی کو چاہیے کہ اِس معاملے میں وہ اپنے جذبات کے تحت کوئی فیصلہ نہ کرے، بلکہ وہ ایک حقیقت پسند انسان کی طرح حالات پر غور کرے اور فطرت کے قانون کی روشنی میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے- یہی مطلب ہے اس اصول کا کہ — اِس دنیا میں کسی آدمی کو وہی ملتاہے جو اللہ نے اُس کے لیے مقدر کردیا ہو، نہ اُس سے زیادہ اور نہ اُس سےکم-
واپس اوپر جائیں

شکایت کا سبب

سماجی زندگی میں ایک برائی بہت زیادہ عام ہے، اور وہ شکایت ہے- عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کو دوسروں سے شکایت ہوجاتی ہے- لوگ دوسروں کی شکایت کا چرچا تو بہت کرتے ہیں، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی عورت یا مرد خود اپنی غلطی کا چرچا کرے-
شکایت کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی، شکایت کا سبب ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے، یعنی ایک کا سلوک دوسرے کو پسند نہیں آیا تو وہ اس کے جواب میں اس کے ساتھ برا سلوک کرنے لگا- اب سوال یہ ہے کہ جب شکایت کے اسباب دو طرفہ ہیں تو ایسا کیوں ہے کہ لوگ صرف دوسروں کی شکایت بیان کرنے کے ماہر بنے ہوئے ہیں- اِس کا سبب یہ ہے کہ شکایت عام طورپر، دو طرفہ اسباب سے پیدا ہوتی ہے، لیکن لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے حصے کی شکایت کی حسنِ توجیہہ کرلیتے ہیں، اور دوسرے کے حصے کی شکایت کو وہ بہت زیادہ نمایاں کرکے بیان کرتے ہیں- لوگ اگر ایسا کریں کہ دوسرے کی شکایت بیان کرنے سے پہلے خود اپنی غلطی کو بتائیں تو شکایتی نفسیات کا خاتمہ ہوجائے-
اپنے حصے کی غلطی کو ماننے کا ایک اہم فائدہ ہے- ایسا کرنے والے کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی کمیوں کو درست کرے- وہ اپنے اندر ایک اصلاح یافتہ شخصیت کی تعمیر کرے- وہ اپنے آپ کو سماج کا ایک بہتر فرد بنائے- اپنی غلطی کا اعتراف بہتر سماج کی تعمیر میں مدد گار ہوتا ہے- اِس کے برعکس، دوسروں کی شکایت کرنا، سماج میں نفرت کا ماحول پیدا کرتا ہے، لوگ دوسروں کے بارے میں غیر ہمدرد ہوجاتے ہیں- ایسے ماحول میں کبھی سماجی اتحاد پیدا نہیں ہوسکتا-
اپنی غلطی کا اعتراف ایک صحت مند اخلاقی ظاہرہ ہے- اِس کے برعکس، دوسروں کی شکایت کرنا ایک ایسا سماج بنانا ہے جس میں اعلی اخلاقی اقدار (moral values) کی پرورش رک جائے- صحیح ذہن وہ ہے جو محاسبۂ خویش (self-introspection)پر مبنی ہو، نہ کہ شکایتِ غیر پر- محاسبہ خویش ہر حال میں مفید ہے، جب کہ شکایتِ غیر کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں-
واپس اوپر جائیں

مصالحت کا فائدہ

بمبئی میں ایک بڑا مسلم تعلیمی ادارہ ہے- اِس کے تحت کئی اسکول اور کئی کالج چل رہے ہیں- اِس ادارے کے ایک اسکول میں ایک مسلمان پرنسپل تھے- کسی بات پر انتظامیہ سے پرنسپل کا جھگڑا ہوگیا- پرنسپل صاحب نے اِس معاملے کو عزت کا سوال (prestige issue) بنالیا- بات مزید بڑھی، یہاں تک کہ پرنسپل صاحب نےانتظامیہ کے خلاف عدالتی کیس قائم کردیا-
مذکورہ پرنسپل کی مجھ سے بات ہوئی- میں نے کہا کہ آپ نے جو کچھ کیا، وہ یقینی طورپر غلط تھا- اب اس کی تلافی صرف یہ ہے کہ آپ اسکول کی انتظامیہ سے معافی مانگیں اور کیس کو یک طرفہ طورپر اٹھالیں- پرنسپل صاحب اپنے پروفیشنل موضوع پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ تیار کررہے تھے، مگر نزاع کی وجہ سے مقالے کا کام رک گیا- میں نے کہا کہ آپ نزاع کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں اور اپنی تمام طاقت اپنی ڈاکٹریٹ کو مکمل کرنے میں صرف کریں- پرنسپل صاحب نے میری بات مان لی اور انھوں نے ایسا ہی کیا-انھوں نے اسکول کی انتظامیہ سے معافی مانگی اور کیس کو یک طرفہ طورپر ختم کردیا-
اب اِس واقعے کو کئی سال گزر چکے ہیں- مصالحت کی اِس روش کا فائدہ پرنسپل صاحب کو یہ ملا کہ انتظامیہ کی نظر میں اُن کی تصویر مثبت تصویر بن گئی- انتظامیہ کے ذمے داروں نے پرنسپل صاحب کی اِس صلاحیت کو ازسرِنودریافت کیا، یہاں تک کہ ان کو ترقی دے کر اسکول اور کالج کی ایک تنظیم(organization) کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا-
نزاع کا ماحول ایک قاتل ماحول ہے- نزاع کے ماحول میں یہ ہوتا ہے کہ طرفین ایک دوسرے کے لیے منفی (negative) بن جاتے ہیں- وہ ایک دوسرے کی مثبت صلاحیتوں کو دریافت نہیں کرپاتے- نزاع کا ماحول یک طرفہ طورپر ختم کرنا بظاہر پسپائی ہے، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے، اس کی حیثیت ایک فاتحانہ اقدام کی ہے— نزاع کی حالت امکان کے دروازے کو بند کرنے والی ہے، اور نزاع کو ختم کرنا امکان کے دروازے کو کھولنے والا ہے- اِسی روش کا نام دانش مندی ہے-
واپس اوپر جائیں

مانعِ جرم سزا کی ضرورت

16 دسمبر 2012 کو دہلی میں گینگ ریپ (gang-rape) کا ایک بھیانک واقعہ پیش آیا- 23 سالہ متاثرہ لڑکی کا صحافتی نام نِربھَے (fearless) بتایا جاتاہے- اِس بھیانک واقعے کے بعد ایک طبقہ مطالبہ کررہا ہے کہ مجرم کےلیے قتل کی سزا مقرر کی جائے- مگر ہیومن رائٹ ایکٹوسٹ (Human Rights Activists) اِس کے خلاف ہیں- اُن کا کہنا ہے کہ — ایک مجرم کی متشددانہ موت تشدد کلچر کو گھٹائے گی یا بڑھائے گی:
Any act of gross violence, of which gang-rape is the most repugnant, acts like a stone thrown into the still water of a pond. The impact of the stone causes ripples to spread over the surface of the entire pond, disturbing the water so that it no longer reflects the sky. An act of violence against one individual sends ripples of retributive counter-violence through all of us. It increases the Violence Quotient of us as a society. Hang rapists by all means. But will killing a rapist also kill the contagion of violence that prompted the rape in the first place, or will it only further spread that contagion? Will the violent death of a violent criminal increase or decrease our Violence Quotient?
(The Times of India, New Delhi, January 5, 2013, p. 18)
مذکورہ مضمون میں اِس معاملے کو صحیح زاویے سے نہیں دیکھاگیا ہے- اِس میں مجرم کی سخت سزا کو تشدد کی نظر سے دیکھا گیا ہے- مگر صحیح یہ ہے کہ مجرم کی سخت سزا کو ایک مانع جرم سزا (deterrent punishment) کے زاویۂ نظر سے دیکھا جائے- تجربہ بتاتا ہے کہ سزا کی تخفیف سے جرم کی حوصلہ افزائی کا ماحول بنتا ہے اور سزا کی شدت سے جرم کی حوصلہ شکنی کا ماحول- ایک مفکر نے درست طورپر کہا ہے کہ — سزا کی شدت آدمی کو جرم سے نہیں روکتی، یہ سزا کی ناگزیریت ہے جو مانعِ جرم کا کام کرتی ہے:
It is not the severity of punishment that acts as a deterrent, it is its inevitability.
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
حال ہی میں دہلی میں ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی - لوگوں میں کافی غم وغصہ ہےاور ہر آدمی مجرم کو پھانسی کی سزا دینے کی حکومت سے ڈمانڈ کررہا ہے- براہِ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بتائیں کہ کیا اسلام میں کسی بھی بڑے سے بڑے گناہ کے لیے پھانسی کی سزا ہے یا نہیں- (حافظ احمد علی، اڑیسہ)
جواب
انڈیا ایک سیکولر ملک ہے- یہاں کسی جرم کی سزا یہاں کے ملکی قانون (law of land) کے مطابق ہوتی ہے- انڈیا کے سیاق میں، اسلامی قانون کے نفاذ کی بحث کرنا ایک غیر متعلق بات ہے- اس کا تعلق نہ اسلام سے ہے اور نہ عقل سے-جہاں تک اصولی اعتبار سے، پھانسی کی سزا کا تعلق ہے، اسلام کے قوانین میں پھانسی کی سزا کا ذکر نہیں- لیکن پھانسی کی سزا کو غیر اسلامی نہیں کہا جاسکتا- اسلام میں قانون کی دو صورتیں ہیں — ایک، شرعی حد اور دوسرے، حاکم کی طرف سے دی ہوئی تعزیری سزا (executive order) -اسلامی اصول کے مطابق، حاکم کو یہ حق ہے کہ وہ مخصوص حالات کی بنا پر کسی فرد کے لیے کسی مخصوص سزا کا نفاذ کرے- البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ شرعی حد کی حیثیت ایک عمومی قانون کی ہے، لیکن تعزیر ایک استثنائی سزا ہے، اس کی حیثیت قانون کی نہیں- اِس دوسرے قسم کے قانونی اختیار کو اصطلاح میں حاکم کا اختیارِ تمییزی (discretionary power)کہاجاتاہے-
سوال
آپ کی تصنیف ’’کتابِ معرفت‘‘ زیر مطالعہ ہے- بہت اہم موضوعات پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئیہے- آپ کے خلاف منفی باتیں پھیلانے والوں کے لئے یہ کتاب ایک علمی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے- آپ کے خلاف بہت کچھ پڑھنے کو ملا، البتہ مجھ سمیت بیدار مغز افراد کی ایک بڑی تعداد نے اِس کا کوئی نوٹس نہیں لیا- خدائے برحق آپ کے بدخواہوں کو ضرور ناکام کرے گا- ’’صبح کشمیر‘‘ خاص کر ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کے لئے بہت چشم کُشا ہے- مجھے ابھی تک یاد ہے کہ 1991 میں جب کہ وادی بھر میں تحریک زوروں پر تھی، آپ نے صاف صاف بتایا تھا کہ ’’فیصلے بندوق سے نہیں ہوتے‘‘- جناب کا فرماناصحیح نکلا کہ باہمی بات چیت سے ہی مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے-(حسن ساہو، کشمیر)
جواب
کشمیر کے معاملے میں، میری جو کتاب ’’صبح کشمیر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں- اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ ایک طے شدہ اشو (settled issue) ہے- میں نے کشمیر کے موضوع کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا ہے- میرا ماننا یہ ہے کہ جن لوگوں نے کشمیر کے سوال کو لے کر کشمیر میں احتجاجی مہم چلائی، وہ بھی غلطی پر تھے- اِس کے بعد جن لوگوں نے کشمیر کے سوال پر کشمیر میں عسکری تحریک (militancy) چلائی، وہ بھی غلطی پر تھے- اب جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کو ہم گفت وشنید یا ریفرنڈم کے ذریعے حل کریں گے، وہ بھی غلطی پر ہیں- اِس قسم کی تمام باتیں ’’مشتے بعد از جنگ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں- یقینی طورپر اُن کا کوئی بھی فائدہ نہیں- اِس قسم کی کوئی بھی تحریک خواہ بظاہر وہ پُرامن ہو، وہ صرف کشمیریوں کے مسائل میں اضافہ کرنے والی ہے، وہ ہرگز کشمیریوں کے مسائل کو حل کرنے والی نہیں-
میں نے 1993 میں ہندستان ٹائمس میں ایک مضمون شائع کیا تھا- اِس مضمون میں کشمیری تحریک اور پنجاب (انڈیا) کی خالصہ تحریک دونوں کے بارے میں، میں نے ایک ہی بات کہی تھی- وہ یہ کہ دونوں کے مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے — حقیقت کا اعتراف (acceptance of reality)- قومی معاملات میں فیصلے بار بار بدلتے نہیں- یہ تاریخ کا اٹل قانون ہے- اِس تاریخی اصول سے ٹکرانا صرف اپنی تباہی میں دوبارہ اضافہ کرنا ہے- مثلاً پاکستان کی قیادت اگر یہ چاہے کہ بنگلہ دیش دوبارہ مشرقی پاکستان بن جائے، تو یقینی طورپر یہ ناممکن ہوگا- اِسی طرح پاکستانی قیادت اگر یہ چاہے کہ جموں وکشمیر انڈیا سے الگ ہو کر پاکستان کا حصہ بن جائے تو یہ بھی بلا شبہہ ایک ناممکن بات ہے-اِس طرح کے معاملات میں مشہور فارمولا منطبق ہوتا ہے کہ — سیاست ممکنات کا کھیل ہے:
Politics is the art of the possible.
یہ ایک حقیقت ہے کہ جموں وکشمیر کا سیاسی فیصلہ 1947 میں ہوچکا ہے- اِسی طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کا سیاسی فیصلہ 1971میں ہوچکا - اِسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب کا سیاسی فیصلہ 1947 میں ہوچکا- اِن سیاسی فیصلوں کو جو لوگ بدلنا چاہیں، وہ قانونِ سیاست کی اے بی سی ڈی بھی نہیں جانتے-
یہ ایک ایسا اصول ہے جو علمِ سیاست سے بھی ثابت ہوتاہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی- جیسا کہ معلوم ہے، کعبہ کو حضرت ابراہیم نے تقریباً چار ہزار سال پہلے تعمیر کیا تھا- بعد کو مشرکین نے اس کی نئی تعمیر کی اور اس کی اصل بنیاد کو بدل دیا- چناں چہ موجودہ کعبہ مشرکین کی بنیاد پر کھڑاہوا ہے، نہ کہ حضرت ابراہیم کی قائم کردہ بنیاد پر- صحیح البخاری میں یہ روایت موجود ہے کہ پیغمبر اسلام نے کعبہ کی بنیاد میں اِس تغیر کو جانتے ہوئے اس کی تصحیح نہیں کی، اُس کو علی حالہ قائم رہنے دیا اور وہ اب تک اُسی طرح قائم ہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا- اِس کا سبب یہ تھا کہ 610 عیسوی میں جب پیغمبر اسلام کی بعثت ہوئی، اُس وقت کعبہ کی قدیم بنیاد ایک تاریخی واقعہ بن چکی تھی اور اب اِس تاریخی واقعے کو بدلنا عملاً ناممکن ہوگیا تھا- اِس لیے آپ نےکعبہ کو قدیم بنیاد پر علی حالہ قائم رہنے دیا- اِس طرح، پیغمبر اسلام نے یہ نظیر قائم کی کہ جو چیز تاریخ کی حیثیت اختیار کرلے، اُس کو ناکام طورپر بدلنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ اس کو ایز اٹ از (as it is) تسلیم کرلو، کیوں کہ تاریخ کے فیصلے کو بدلنا صرف تباہی میں اضافہ کرنا ہے، نہ کہ صورتِ حال میںاصلاح کرنا-
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 221

1- جنوری 2013 سے الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن ’اسپرٹ آف اسلام‘ (Spirit of Islam) کے نام سے ممبئی کے بجائے بنگلور سے نکلنا شروع ہوگیا ہے- صدر اسلامی مرکز نے 30 دسمبر 2012 کو میگزین کا آن لائن افتتاح کیا- اس کی تفصیل سی پی ایس کے ویب سائٹ پر موجود ہے-
2- حیدر آباد (انڈیا) کے ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ (Henry Martyn Institute) میں 4 جنوری 2013 کو انٹرفیتھ ڈائلاگ کے موضوع پر ایک پروگرام ہوا- اس کی دعوت پر ڈاکٹر فریدہ خانم (اسوسی ایسٹ پروفیسرجامعہ ملیہ اسلامیہ) نے اس میں شرکت کی اور انٹرفیتھ ڈائلاگ اِن اسلام (Interfaith Dialogue and Islam) کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا- اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کی طرف سے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا-
3- جرمنی کے ادارہ (Missionszentrale der Franziskaner) کے ممبران کا ایک وفد دہلی آیا- اِس سلسلے میں 12جنوری 2013 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں حسب ذیل موضوع پر ایک پروگرام ہوا:
Dialogue on Religion and Environment.
یہ ایک پینل ڈسکشن تھا- اِس پروگرام کو سی پی ایس کی ممبر سعدیہ خان نے کنڈکٹ کیا اور ماریہ خان نے اسلام کے ریفرنس میں، موضوع پر انگریزی زبان میں ایک اسپیچ دی- اِس موقع پر حاضرین کو قرآن انگریزی اور جرمن ترجمہ دیاگیا-
7- انگریزی ترجمہ قرآن اور الرسالہ مشن سے متعلق چند تاثرات یہاں درج کیے جاتے ہیں:
— Dear Maulana Wahiduddin Khan, I would like to express my views on the Al-Risala . First of all, my close friend Mr. M.A. Naeem, M.A. B.Ed., Introduced Al-Risala to me in 1976. It has impressed me very much and since then I have been a regular reader of the Al-Risala . The Al-Risala made me a different man altogether. I realise it when I compare my life before reading the magazine. It has made me Akhirat-oriented and I have started thinking very much about my Akhirath. I used to explain to my children different topics published in the Al-Risala . I am deeply impressed regarding your Akhirat-oriented mission as well as focussed on this world for Muslims in particular and entire humanity in general. I have taken the agency of Al-Risala urdu and supply the magazine among my friends by visiting door to door. Apart from that, I take Xerox copies of some of the topics of the Al-Risala and distribute them among the people to make them Akhirat oriented. I am very much impressed by your writings as they are based on the Quran and Sunnah, with sound arguments. You are presenting religion in a scientific way which is not found among other Islamic scholars. Your writings are unique. What I am writing is not an exaggeration, it has come from my inner heart. (Abdul Wahab, Hyderabad, India)
— • After reading Maulana's books and listening to his lectures, Maulana has brought revolution in my thoughts and I realized my resposibilities towards my religion. So I , as an administrator of the largest school in my area, decided to dedicate my school for this ideology (Munir Azad, Pakistan)
— • May Allah shower His blessing on Maulana for his noble cause for presenting the true teaching of Islam in today's world. I am working in SGS Group (MNC, Swiss based) as a Business and Technical Development Executive. Ten years ago, I found Al-Risala after reading which I was greatly impressed by the content. I try to watch the Maulana’s programme on ETV Urdu. He presents the teaching in a dynamic perspective with rational and scientific approach which increases my eagerness to learn more and more Islamic knowledge. I have downloaded nearly all online books of Maulana and I regularly read his books. In my office, I try to share the teachings of Islam with my non-muslim collegues and they are higly qualified , I engage in open dialogue with them on any matter without any biased approach. (Ibrahim Mohd. Abdullah, Gurgaon)
— What great wisdom is enshrined in the words I have just read. I am a new convert to Islam, I just finished reading a Chapter in the Quran... What great words of wisdom from Mr Khan!... Until I found Islam I could not see my purpose in life. I hope to read more and more in the Quran and the fine works of Mr Khan.I know my life is changed by true blessings from God and his messenger Prophet Muhammad, peace be upon him, and you my friends! (Bruce McMahon, USA)
— I have been reading Al-Risala since 1998. It is highly inspiring and motivating. Al-Risala monthly could convince me that if one wants to lead a comfortable life then one should adopt peaceful method in life. One should not adopt policy of confrontation policy in one’s life. Through Al-Risala, I came to know the real perspective of Islam. I learnt the creation plan of God, i.e., the life before death is the life of action and the life after death is the life of reward. I also read The Spiritual Message (Mumbai). It is also highly didactic. I gave Dawah literature to my friend Dr. R. M. Patil (Chairman Eng. Deptt. Amravati university) and to my Ph. D. Supervisor Dr. Ulka Wadekar. (Akhtar Ali, Assistant Professor In Eng, Umravati)
— محترم مولانا وحید الدین خاں، آپ کی مایہ ناز کتاب ’’تجدید دین‘‘ اسم بامسمّی ہے- اِس کتاب نے قرآن و حدیث کے اصل منشا کو ظاہر کیا ہے- کتاب عربی مدارس کے طلبا خصوصاً سالِ آخر کے طلبا کے لیے داخل نصاب ہونا چاہئے، نیز ٹریننگ کورس اور تخصص کرنے والوں کے لیے اس کو لازمی ہونا چاہئے- علما کو چاہئے کہ وہ اِس کتاب کو اپنا گم شدہ سرمایہ سمجھ کر اس سے رہنمائی حاصل کریں- (نثار احمد سلفی، ناگ پور، مہاراشٹر)
— میں جب سے الرسالہ سے وابستہ ہوئی، میری منفی سوچ مثبت سوچ میں بدل گئی- اب میرا یہ حال ہے کہ میرے دل میں کسی انسان کے لیے ذرہ برابر نفرت نہیں ہے، یہاں تک کہ میں ہندوؤںاور یہودیوں سے بھی نفرت کو حرام سمجھتی ہوں، نیز برطانیہ اور امریکا والوں سے بھی نفرت کے بجائے میرے دل میں اُن کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہے، کیوں کہ اُن کی بے پناہ کوششوں سے آج ہمارے لیے دعوت الی اللہ کے کام میں بے حد آسانی پیدا ہوگئی ہے- (سائرہ لطیف، پاکستان)
— پاکستان میں ماہ نامہ الرسالہ (نئی دہلی) کے بہت سے قاری (readers) ہیں- وہ مطبوعہ صورت میں یا انٹرنیٹ کے ذریعے ہر ماہ اس کا مطالعہ کرتے ہیں- ان میں سے ایک قاری نے اطلاع دی ہے کہ وہ ملک کے مختلف مقامات کا دورہ کرکے الرسالہ کے قارئین کو منظم کرنے کی کوشش کررہے ہیں- یہ بلاشبہہ ایک اچھا عمل ہے- خاص بات یہ ہے کہ وہ خود اپنے جذبے سے اور ذاتی پروگرام کے تحت ایسا کررہے ہیں- ہم چاہتے ہیں کہ الرسالہ کا ہر قاری اِسی طرح پروگرام ساز (programme-maker) بنے- وہ اپنے حالات کے لحاظ سے خود پروگرام بنائے اور خود اس کی تعمیل کرے-
— اکتوبر 1976 سے ماہ نامہ الرسالہ کا مستقل قاری ہوں- الرسالہ سے جڑنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ میں قرآن اور سنت کے علاوہ، کسی اور مسلک سے اپنے آپ کو وابستہ نہ کرسکا- میں گمراہی میں جی رہا تھا- الرسالہ نے ایک نئے احساس میں جینےکا حوصلہ دیا- ہم بے شعور تھے، عقل وشعور سے دور تھے، بے صبر تھے، الرسالہ نے ہمارے اندر عقل وشعور کو بیدار کیا- صبر، جو بزدلی نہیں، بلکہ حکمت ہے، اُس کا درس دیا- ہم صرف جینے کے لیے جیتے تھے، الرسالہ نے روحِ اسلام کے ساتھ جینے والا بنایا- الرسالہ کے ذریعے ہم اسلام کی حقیقت سے آشنا ہوئے- ہم نے اصل دین اور ظاہری دین کا فرق سمجھا- الرسالہ ہمارے لیے ذہنی اور روحانی ارتقا کا ذریعہ ہے- ہم مسلمان ہونے کی وجہ سے خدا کو مانتے تھے، مگر ہم خدا سے دور تھے، الرسالہ نے ہم کو خدا سے قریب کیا- ہم حمد اور شکر کے حقیقی جذبات سے خالی تھے- الرسالہ نے ہم کو خدا کا شکر کرنا سکھایا- ہم اصل کام سے دور تھے، الرسالہ نے دعوت کو ہماری زندگی کا مقصد بنا دیا- الرسالہ نے ہمارے اندر سے نفرت، شکایت اور مایوسی کو دور کردیا- الرسالہ نے ہم کو بتایا کہ ساری عظمتیں صرف اللہ کے لیےہیں اور ہم رسول اور اصحابِ رسول کے راستے پر چل کر ہی دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں- (حکیم شمس الآفاق،سینیر فزیشین، رام منوہر لوہیا ودین دیا ل اپادھیائے ہاسپٹل، نئی دہلی)
واپس اوپر جائیں