Pages

Sunday 1 June 2003

Al Risala | June 2003 (الرسالہ،جون)

2

- جنت کی دریافت

5

- مومن کی صفت

6

- الائمۃ المضلون

8

- امن اور اسلام

30

- صدام حسین کے لیے انتخاب

33

- ایک خط

35

- سوال وجواب

39

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۸


جنت کی دریافت

غالباً ۱۹۸۳ کی بات ہے۔ اُس وقت دہلی میں ایک انگریز مسٹر جان بَٹ (John Butt) رہتے تھے۔ اُنہوں نے میری انگریزی کتابیں پڑھی تھیں اور میری فکر سے کافی مانوس ہوچکے تھے۔ ملاقات کے دوران ایک بار میں نے اُن سے کہا کہ قلم میری محبوب چیز ہے۔ میںنے بہت سے قلم استعمال کیے مگر مجھے اپنی پسند کا قلم ابھی تک نہیں ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں جلد ہی لندن جانے والا ہوں، وہاں سے میں آپ کے لیے ایک اچھا قلم لے آؤں گا۔
کچھ عرصہ کے بعد وہ مجھ سے ملے اور انگلینڈ کا بنا ہوا ایک قلم مجھے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے لندن اور آکسفورڈ کی مارکیٹ میںکافی تلاش کے بعد یہ قلم (فاؤنٹین پین) حاصل کیا ہے۔ تاہم مجھے امید نہیں کہ یہ قلم آپ کی پسند کے مطابق ہوگا۔ میں نے کہا ، کیوں۔ اُنہوں نے کہا کہ میںجانتا ہوں کہ آپ ایک پرفیکشنسٹ(perfectionist) ہیں اور دنیا میں چونکہ کوئی بھی قلم پرفیکٹ قلم نہیں، اس لیے آپ کوکوئی بھی قلم پسند نہیں آئے گا۔
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طورپر پرفیکشنسٹ ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان ایک کمال پسند حیوان ہے:
Man is a perfection-seeking animal.
انسانی فطرت کا یہی خاص پہلو ہے جس کی بنا پر ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ محرومی (frustration) کے احساس میںمبتلا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو دنیا کا ہر سامان حاصل کرلیتے ہیں وہ بھی محرومی کے احساس سے خالی نہیں ہوتے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے پرفیکشنسٹ ہے مگر جس دنیا میں وہ رہتا ہے اُس کی کوئی بھی چیز پرفیکٹ نہیں۔ اس طرح انسان کی طلب اور دنیا کی قابلِ حصول چیزوں کے درمیان ایک عدم مطابقت (incompatibility) پیدا ہوگئی ہے۔ دونوں کے درمیان یہی عدم مطابقت انسان کے اندر محرومی کے احساس کا اصل سبب ہے۔
انسان اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے دنیا میں جدوجہد شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ دولت، اقتدار، سازوسامان اور دوسری مطلوب چیزیں حاصل کر لیتا ہے۔ مگر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مطلوب چیزوں کو پانے کے بعد بھی وہ بدستور محرومی کے احساس سے دوچار ہے، اب بھی وہ یافت کے احساس تک نہ پہنچ سکا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ پانے سے پہلے وہ سمجھتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس کی آرزو وہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہے۔ مگر چیز کو پانے کے بعد اُس کو وہ تسکین نہیں ملتی جو کسی مطلوب چیز کی یافت سے ہونی چاہئے۔ کیوں کہ اُس کے دل میںجو آرزو تھی وہ پرفیکٹ چیز کے لیے تھی۔ جب کہ دنیا کی ہر چیز غیر پرفیکٹ(imperfect) ہے اور ظاہر ہے کہ کسی پرفیکشنسٹ کو غیر پرفیکٹ میںتسکین نہیں مل سکتی۔
اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی جنت کو اپنا نشانہ بنائے۔ جنت پورے معنوں میں ایک پرفیکٹ ورلڈ (perfect world) ہے، جب کہ اُس کے مقابلہ میں موجودہ دنیا صرف ایک اِم پرفیکٹ ورلڈ (imperfect world) کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے جس پرفیکٹ ورلڈ کا طالب ہے، وہ جنت ہے۔ جنت کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے آدمی موجودہ دنیا میں اپنی آرزوئیں تلاش کرنے لگتا ہے اور اپنی فطرت اورخارجی دنیا کے درمیان عدم مطابقت کی بنا پر محرومی کے احساس کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر وہ شعوری انقلاب لایا جائے کہ وہ جنت کی معرفت حاصل کرسکے۔ اس معرفت کے حصول کے بعد اُس کی مایوسی کا احساس اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ وہ جان لے گا کہ جن چیزوں میںوہ اپنی آرزوؤں کی تسکین ڈھونڈھ رہا ہے اُن میںاُس کے لیے تسکین کا سامان موجود ہی نہیں۔ اس دریافت کے بعد اُس کی توجّہ جنت کی طرف لگ جائے گی۔ اس کے بعد وہ موجودہ دنیا کی چیزوں کو ضرورت کے طورپر لے گا، نہ کہ مطلوب کے طورپر۔ اور جب کسی آدمی کے اندر یہ سوچ پیدا ہوجائے تو اُس کے بعد اُس کا حال یہی ہوگا کہ وہ یافت کے احساس میں جینے لگے گا، نہ کہ محرومی کے احساس میں۔
موجودہ دنیا پانے سے زیادہ کھونے کی جگہ ہے۔ یہاں ہر مرد اور عورت کو بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس سے کھوئی گئی۔ فلاں موقع اُس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ فلاں شخص نے اُس کو نقصان پہنچادیا۔ اس قسم کے چھوٹے یا بڑے حادثات ہر ایک کو بار بار پیش آتے ہیں۔ کسی بھی مرد یا عورت کے لیے ان نقصانات سے بچنا ممکن نہیں۔
اس قسم کے نقصانات ہر ایک کو پیش آتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان نقصانات کی تلافی کی صورت کیا ہے۔ اس کی صورت صرف ایک ہے۔ اور وہ جنت کا یقین ہے۔ جس آدمی کو خدا کی جنت پر یقین ہو اُس کا حال یہ ہوگا کہ ہر نقصان کے بعد وہ یہ کہہ سکے گا کہ دنیا کا یہ نقصان تو بہت چھوٹا ہے۔ جنت کے مقابلہ میں اس نقصان کی کوئی حقیقت نہیں۔ دنیا کے ہر نقصان کے بعد وہ اور زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ وہ خدا سے اور زیادہ جنت کا طالب بن جائے گا۔
قرآن میں جنت کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہاں آباد ہونے والے لوگوں کے لیے نہ خوف ہوگا اور نہ حُزن (البقرہ ۳۸)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو جو زندگی ملتی ہے وہ کبھی اور کسی کے لیے خوف اور حُزن سے خالی نہیں ہوتی۔ موجودہ دنیا کا نظام اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ یہاں حقیقی معنوں میں خوف اور حزن سے خالی زندگی کا حصول ممکن ہی نہیں۔ ایسی حالت میںآدمی کے لیے واحد درست رویّہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود نہ بنائے۔ وہ دنیا کو صرف یہ حیثیت دے کہ وہ حقیقی منزل کی طرف جانے کا ایک راستہ ہے۔
اسی حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: اللہم لا عیش الا عیش الآخرۃ۔ یعنی راحت اور مسرّت کا حصول صرف آخرت میں ممکن ہے۔ دنیا میں راحت و مسرّت تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسافر ریلوے اسٹیشن پر اپنے لیے ایک آرام دہ گھر بنانے کی کوشش کرے۔ ہر مسافر جانتا ہے کہ اسٹیشن گھر بنانے کے لیے نہیںہوتا۔ اسی طرح موجودہ دنیا عمل جنت کے لیے ہے، نہ کہ تعمیر جنت کے لیے۔ جنت کو اپنی منزل مقصود بنانا صرف عقیدہ کی بات نہیں وہ مقصد حیات کی بات ہے، ایسا مقصد جس کے سوا کوئی اور مقصد انسان کے لیے ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مومن کی صفت

مومن کی مثال ایسے نرم پودے کی سی ہے جس کے پتے سایہ دار ہوتے ہیں۔ جس سمت سے بھی ہوا چلتی ہے وہ اس کو جھکا دیتی ہے۔ جب ہوا رکتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے جو مسلسل آزمائشوں کے بار سے دبا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال سخت درخت (ٹھنٹھ) کی طرح ہے جو بے حس و حرکت ایک حالت میں کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے جب چاہتا ہے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔(فتح الباری، کتاب التوحید، ۱۳؍۵۵۔۴۵۴)
اس حدیث میں پودے کی مثال کے ذریعہ مومن کی اس صفت کو بتایا گیاہے جس کو تواضع کہا جاتا ہے۔ تواضع مومن کی ایک صفت ہے۔ جس انسان کے اندر ایمانی کیفیت ہوگی اس کے اندر تواضع بھی ضرور ہوگی۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیںہوسکتیں۔مومن کے اندر سوکھی لکڑی کی طرح اکڑ نہیں ہوتی بلکہ نرم پودے کی طرح لچک ہوتی ہے۔ اس سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو فوراً ہی وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کسی سے معاملہ پڑے تو وہ ہمیشہ اس کے ساتھ نرم روی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ کسی سے نزاع پیش آجائے تو وہ یکطرفہ طورپر مصالحت کے لیے تیار رہتا ہے۔ حقوق کے جھگڑے میں وہ اپنا حق بھی دوسرے کو دینے پر راضی ہوجاتا ہے تاکہ معاملہ شدت کے مرحلہ تک نہ پہنچے۔
ایک انسان جب دوسرے انسان کے ساتھ شدت کا معاملہ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو اپنے جیسے ایک انسان کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہی نفسیات آدمی کو شدید بناتی ہے۔ مگر مومن اس کے برعکس ہر معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہ نفسیات اس کے اندر شدت کا خاتمہ کردیتی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلہ میں بڑا ہوسکتا ہے مگر خدا کے مقابلہ میں کوئی بھی انسان نہ بڑا ہے اور نہ طاقتور۔ اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان اور انسان کا معاملہ ہو تو ان میں سے کوئی چھوٹا نظر آتا ہے اور کوئی بڑا۔ مگر جب انسان اور خدا کا معاملہ ہو تو تمام انسان یکساں حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اب بڑا صرف ایک خدا ہوتاہے اور بقیہ تمام انسان اس کے مقابلہ میں چھوٹے۔
واپس اوپر جائیں

الائمۃ المضلون

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے (الترمذی کتاب الفتن، ابن ماجہ کتاب الفتن، ابو داؤد کتاب الفتن، الدارمی کتاب الرقاق،مسند احمد) اس روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن اخوف مااخاف علیکم الأئمۃ المضلون (مسند احمد ۶؍۴۴۱) یعنی میں اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے لیڈر ہیں۔
اس حدیث میں بعد کو آنے والے جس زمانہ کاذکر ہے اُس سے مراد غالباً صنعتی انقلاب کا زمانہ ہے۔ یہ واقعہ بعد کے زمانہ میں ظہور میں آنے والا تھا۔ جب کہ امت مسلمہ واحد حامل دین کی حیثیت سے دنیا میں باقی رہے گی۔ اس لیے آپ نے اس معاملہ کو اپنی امت کی طرف منسوب فرمایا۔ واضح ہوکہ دوسری روایتوں میں علیکم کے بجائے علی امتی کے الفاظ آئے ہیں۔
قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں گمراہ کن لیڈر کے ظہور کے مواقع موجود نہ تھے۔ موجودہ زمانہ میں آزادی، کمیونیکیشن، میڈیا اور لاؤڈ اسپیکر و اسٹیج نے ایسے مواقع پیدا کئے جن میں گمراہ کرنے والے لیڈر ابھریں اور پوری امت کو صراط مستقیم سے بھٹکا دیں۔
یہ جدید قیادتی مواقع ایسے وقت میں ظہور میںآئیں گے جب کہ امت طول أمد کے نتیجہ میں زوال کا شکار ہوچکی ہوگی۔ ایسی حالت میں کرنے کا اصل کام یہ ہوگا کہ جدید مواقع کو استعمال کرکے امت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر یہ ایک بے حد مشکل کام ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں آسان کام یہ ہوگا کہ امت کی زوال یافتہ نفسیات کو استعمال کرکے اس کے اوپر اپنی قیادت کی بنیاد رکھ دی جائے۔ یعنی امت جہاں ہے وہیں سے اس کا سفر شروع کردیا جائے۔
یہ گمراہ کرنے والے لیڈر یہی دوسرا کام کریں گے۔ وہ امت کو فضائل کی پر اسرار کہانیاں سنا کر خوش فہمی میں مبتلا کریں گے۔ وہ ماضی کے تاریخی کارنامے بتا کر انہیں فخر کی غذا دیں گے۔ وہ سیاسی تقریریں کرکے ان کے جوش کو ابھاریں گے۔ وہ ادب اور خطابت کے الفاظ میں انہیں گم کریں گے۔ وہ امت کی پسماندگی کا الزام دوسروں کو دے کر جھوٹی نزاع کھڑی کریں گے۔ بائبل کے الفاظ میں، وہ امت کو لوریاں سنائیں گے اور اس طرح وہ امت کو اس کے زوال پر اور پختہ کردیں گے، نہ یہ کہ اس کو زوال کی حالت سے نکالیں۔
یہ وہی طریقہ ہے جس کو استحصال (exploitation) کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ آغاز سے سفر کرنا انہیں ایک بے حد لمبا سفر معلوم ہوگا، وہ اس قسم کی قربانی کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اس لیے وہ آغاز سے سفر کرنے کے بجائے اختتام سے اپنے سفر کی چھلانگ لگادیں گے ، اور پھر خود بھی ہلاک ہوںگے اوراپنی قوم کو بھی ہلاک کریں گے۔
گمراہ کرنے والا لیڈر ہمیشہ یہ کرتا ہے کہ وہ ایسی باتیں بولتا ہے جو لوگوں کو پسند ہو۔ وہ لوگوں کے اندر چھپے ہوئے منفی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ وہ لوگوں کی جھوٹی شکایتوں کو سچا بنا کر دکھاتا ہے۔ اس طرح وہ لوگوں کواپنی طرف کھینچتا ہے۔ اُس کی زبان سے اپنی دل پسند بولی سن کر لوگ اُس کے گرداکٹھا ہوجاتے ہیں۔
گمراہ لیڈر ہمیشہ یہی کرتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر لوگوں سے یہ کہا جائے کہ تم اپنی اصلاح کرو تو بہت کم لوگ ہوں گے جو اُس پکار کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ اس لیے گمراہ لیڈر یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی داخلی کمزوریوں کی بناپر پیش آنے والی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو بے قصور بتاتے ہیں اور دوسری قوم کو قصور وار۔ یہ چیز اُن کو اپنی قوم کے اندر مقبول بنادیتی ہے۔
جدید صنعتی دور میںنئے ذرائع کی بنا پر اس قسم کے لیڈروں کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ ہر زمانہ سے زیادہ بڑے پیمانہ پر لوگوں کو گمراہ کر سکیں۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ قوم کے لوگ آج ہر زمانہ سے زیادہ محتاط رہیں تاکہ وہ گمراہ کرنے والے لیڈروں کی گمراہی کا شکار نہ ہوسکیں۔ یہ صورت حال صرف لیڈر کے لیے خطرناک نہیںہے بلکہ وہ خود قوم کے لیے بھی ایک عظیم خطرہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

امن اور اسلام

پیسیفزم(pacifism) ایک مستقل موضوع ہے جس پر صدیوں سے غور وفکر جاری ہے اور اس کے بارے میں اہل علم نے بہت کچھ لکھا ہے اور لکھ رہے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) میں پیسیفزم پر ایک تفصیلی مقالہ ہے جو ۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالہ جرمن پروفیسر موہلمان (wilhelm Emil Muhlmann) کا لکھا ہوا ہے جو اس موضوع پر اکسپرٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیسیفزم کے موضوع پر انگریزی میں چھپی ہوئی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
1. E. L. Allen, F.E. Pollard, and G. A. Sutherland, The Case for Pacifism and Conscientious Objection. 1946.
2. Hannah Arendt, On Violence. 1970
3. Raymon Aron, Peace and War. 1962
4. C.J. Cadoux, Christian Pacifism Re-examined. 1940
5. Ted Dunn, Alternatives to War and Violence: A search. 1963.
6. Carl Joachim Friedrich, Inevitable Peace. 1948
7. Richard Gregg, The Power of Non-violence. 1966
8. Aldous Huxley, An Encyclopaedia for Pacifism. 1937.
9. Ralph T. Templin, Democracy and Non-Violence. 1965.
10. Quincy Wright, A Study of War. 1965.
امن پسندی یا مذہبِ أمن (Pacifism) صدیوں پُرانی ایک تحریک ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا سے جنگ کا خاتمہ کر دیا جائے تاکہ انسانی سماج میں مستقل طور پر امن کی حالت قائم ہو۔وہ تحریکیں جن کو عدمِ تشدد کی تحریک (non violent movement) کہا جاتا ہے، اُن کا مقصد جزئی یا بنیادی طورپر یہی رہا ہے۔
پیسیفزم کی یہ تحریک تاریخ کے تقریباً تمام دوروں میں پائی جاتی رہی ہے۔ کبھی مذہبی بنیاد پر اور کبھی فلسفیانہ بنیاد پر اور کبھی اخلاقی بنیاد پر۔ پیسیفزم کے ماننے والوں میںایک گروہ وہ ہے جو امن برائے امن کا قائل ہے۔ اُس کے نزدیک امن کی تعریف ہے عدم جنگ (absence of war)۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو امن کے ساتھ انصاف کو ضروری قرار دیتا ہے۔ وہ امن کے ساتھ انصاف (peace with justice) کی وکالت کرتا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف امن ایک منفی امن (negative peace) ہے اور امن مع انصاف مثبت امن (positive peace) ۔
گاندھی عدم تشدد کے علم بردار تھے۔ مگر کچھ اہل علمکا کہنا ہے کہ گاندھی کا عدم تشدد (non violence) محدود مقصد کے حصول کے لئے تھا۔ اسی لیے وہ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو اچانک ختم ہوگیا۔ اُن کی تحریک کا اصل مقصد برٹش رول کو ختم کرنا تھا، نہ کہ حقیقۃً ملک میں ایک پُر امن سماج قائم کرنا۔
Gandhi's policy of non-violence was not to establish peace in the society, but to stage a coup in order to oust the British rule. He was successful, but not in the first sense rather in the second sense.
امن آزادی کا ایک عمل ہے، نہ کہ مجبوری کا عمل۔ مجبور کن امن جبر ہے وہ امن نہیں۔ امن وہ ہے جو ذہنی انقلاب کے ذریعہ آئے۔ قدیم زمانہ میں رومیوں نے محدود طورپر اپنی ریاست میں امن قائم کیا تھا جس کو وہ رومی امن (Pax Romana) کہتے تھے۔ اسی طرح بیسویں صدی میں سوویت یونین میںبظاہر امن پایا جاتا تھا جس کو کمیونسٹ امن کا نام دیا گیا۔ مگر یہ دونوں جبری امن تھے، اور جبری امن کوئی مطلوب امن نہیں۔
کچھ مفکرین امن کے لئے عالمی ریاست (world state) کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ عالمی ریاست کا قیام کبھی ممکن نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ پُر امن معاشرہ ذہنی تربیت اور فکری انقلاب کے ذریعہ وجود میںلایا جاسکتا ہے، نہ کہ کسی عالمی حکومت کے مرکزی کنٹرول کے ذریعہ۔ مغرب کی نشأۃ ثانیہ کے بعد بہت سے مغربی مفکرین نے جنگ کے بغیر دنیا کا خواب دیکھا مگر یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔
ڈَچ فلسفی اور ہیومنسٹ اریسمس (Erasmus) ۱۴۶۶ میں روٹرڈم میں پیدا ہوا اور ۱۵۳۶ میں اُس کی وفات ہوئی۔ اُس کی تعلیم یہ تھی کہ انسانیت کا سب سے اونچا آئیڈیل امن اور انسانی اتحاد ہے:
He taught that the highest ideal of mankind would be peace and concord. (13/849)
اس میں کوئی شک نہیں کہ عملی اعتبار سے امن تمام مطلوب چیزوں میں سب سے بڑا مطلوب ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی مثبت یا تعمیری کام کے لیے انسانی آبادی میںامن کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امن کے قیام کے سلسلہ میں مذہب کی زیادہ اہمیت نہیں۔ اُن کے نزدیک تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مذہب کے ذریعہ امن کبھی قائم نہ ہوسکا:
Efforts to confirm a lasting peace through religious sanctions have had little effect. (13/846)
راقم الحروف کو اس نظریہ سے اتفاق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ ایک ناقص مطالعہ کی بنیاد پر قائم کیا گیاہے۔ یہ حضرات جب قیامِ امن کے سوال پر غور کرتے ہیں تو وہ اسلام کو حذف کرکے صرف دوسرے مذاہب کے مطالعہ کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں۔ کیوں کہ غلط طورپر یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام پورے معنٰی میں امن کا مذہب ہے۔ اسلام نے پہلی بار عملی طورپر امن کا نظام قائم کیا اور انسانیت کے لئے پُر امن زندگی کے بند راستے کھول دیے۔
یہاں اسلام سے میری مراد اسلام کا دور اوّل ہے جو اسلام کو سمجھنے کے لیے گویا نمائندہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس دور میں اسلام کے زیر اثر دو بڑے واقعات ہوئے۔ (۱) امن کے راستہ کی رکاوٹ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا۔ (۲) نظریاتی اور عملی دونوں اعتبار سے امن کا ایک کامل ماڈل قائم کرنا۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام کے دور اول میںکچھ لڑائیاں نظر آتی ہیں۔ مگر ان لڑائیوں کا مقصد عین وہی تھا جس کو اہل علم ان الفاظ میں بیان کرتے رہے ہیں—آخری جنگ تمام جنگوں کو ختم کرنے کے لیے:
Last war to end all wars (13/851)
پیغمبر اسلام ۵۷۰ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ ۶۳۲ء میں مدینہ میںآپ کی وفات ہوئی۔ جیساکہ معلوم ہے، اُس زمانہ میں دنیا میں شہنشاہیت کا نظام قائم تھا۔ یہ نظام ہزاروں سال سے چلا آرہا تھا۔ اس سیاسی نظام نے انسانی آزادی کا خاتمہ کردیا تھا۔ بادشاہ کی مرضی واحد فیصلہ کُن طاقت کی حیثیت رکھتی تھی۔
آزادی اور امن کے قیام کے لئے اس جبری نظام کاخاتمہ ضروری تھا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے محدود مدت کے لیے طاقت کا استعمال کیا تا کہ اس نظام کو ختم کردیا جائے۔ یہ نظام اولاً عرب میں ختم کیا گیا۔ اُس کے بعد اُس زمانہ کے دو سب سے بڑے شہنشاہی نظام—رومن ایمپائر اور ساسانی ایمپائر سے اُن کا ٹکراؤ پیش آیا۔ اس ٹکراؤ میںپیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کو کامیابی حاصل ہوئی اور دونوں ایمپائر ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے۔
فرانس کے مؤرخ ہنری پرین(Henry Pyrenne) نے اس قدیم نظام کو مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔ اُس نے لکھا ہے کہ اہل اسلام اگر اس مطلق شہنشاہیت کو نہ توڑتے تو دنیا میںکبھی آزادی اور امن کا دور نہ آتا۔
جہاد کیا ہے
جہاد کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان جہاد کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں، وہ جہاد نہیں ہے۔ یہ سب قومی جذبات کے تحت چھیڑی ہوئی لڑائیاں ہیں جن کو غلط طورپر جہاد کا نام دے دیا گیا ہے۔
جہاد اصلاً پُر امن جدوجہد کا نام ہے، وہ قتال کے ہم معنٰی نہیں۔ کبھی توسیعی استعمال کے طورپر جہاد کو قتال کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ مگر لغوی مفہوم کے اعتبار سے جہاد اور قتال دونوں ہم معنٰی الفاظ نہیں۔ یہاں اس سلسلہ میں قرآن و حدیث سے جہاد کے بعض استعمالات درج کئے جاتے ہیں:
۱۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا (العنکبوت ۶۹) یعنی جن لوگوں نے جہاد کیا ہماری خاطر تو ہم اُن کو اپنی راہیں دکھائیں گے۔اس آیت میںتلاشِ حق کو جہاد کہاگیا ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے کوشش کرنا، اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا، اللہ کی قربت ڈھونڈھنے کے لیے کوشش کرنا۔ ظاہر ہے کہ اس جہاد کا قتال یا ٹکراؤ سے کوئی تعلق نہیں۔
۲۔ اسی طرح قرآن میںارشاد ہوا ہے: وجاہدوا بأموالہم (الحجرات ۱۵) یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے مال سے جہاد کیا۔ اس آیت کے مطابق، اپنے مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ایک جہادی عمل ہے۔
۳۔ اسی طرح قرآن میںارشاد ہوا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیرا (الفرقان ۵۲) یعنی غیرمومنین کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کرو۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے پُر امن جدوجہد کرو۔
۴۔ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا: المجاہد من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللہ (الترمذی، فضائل الجہاد) یعنی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نفس کی ترغیبات سے لڑکر اپنے آپ کو سچائی کے راستہ پر قائم رکھنا جہاد ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لڑائی داخلی طورپر نفسیات کے میدان میں ہوتی ہے، نہ کہ خارجی طورپر کسی جنگ کے میدان میں۔
۵۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحج جہاد (ابن ماجہ، کتاب المناسک) یعنی حج جہاد ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج کا عمل ایک مجاہدانہ عمل ہے۔ حج کو مطلوب انداز میں انجام دینے کے لیے آدمی کو سخت جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔
۶۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت کے بارے میں فرمایا: ففیہما فجاہد (البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم اپنے والدین میںجہاد کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی خدمت کرنا جہاد کا ایک عمل ہے۔
اس طرح کی مختلف آیتیں اور حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا عمل اصلاً ایک پُرامن عمل ہے۔ وہ کسی مطلوب خدائی کام میں پُر امن دائرہ کے اندر جدوجہد کرنا ہے۔ جہاد کے لفظ کا صحیح ترجمہ پُر امن جدو جہد (peaceful struggle) ہے۔
عُسر میں یُسر
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ بیشک عسر کے ساتھ یُسر ہے (الانشراح)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا فطرت کے جس قانون پر چل رہی ہے اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ مشکل کے ساتھ آسانی موجود رہے۔ یہاں ہمیشہ رکاوٹ کے ساتھ نکاس کا راستہ باقی رہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیامیںامن کی حالت کو مسلسل قائم رکھنے کا راز کیا ہے۔ وہ ہے— رکاوٹوں سے ٹکرائے بغیر اپنا راستہ نکالنا۔ انسانی سماج میں امن ختم ہونے کا سبب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ افراد یا جماعتوں کے راستہ میں جب بھی کوئی رکاوٹ آتی ہے تو وہ یہ چاہنے لگتے ہیں کہ رکاوٹ کو توڑ کر اپنے لیے ہموار راستہ بنائیں۔ یہی مزاج امن شکنی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس لیے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ کوئی مشکل پیش آجائے تو تم اُس کو رکاوٹ نہ سمجھو بلکہ یہ یقین رکھو کہ جہاں مشکل ہے وہیں آسانی بھی ہے۔ جہاں سفر بظاہر رُک رہا ہے، وہیں سے نئے سفر کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔
آپ کسی پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ پہاڑ کی چوٹی سے چشمے جاری ہو کر تیزی سے میدان کی طرف بہہ رہے ہیں۔ ان چشموں کے راستہ میں بار بار پتھر آتے ہیں جو بظاہر چشمہ کا راستہ روکنے والے ہیں۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی پتھر کسی چشمہ کا راستہ روک دے۔
اس کا سادہ راز، ایک لفظ میں، اعراض ہے۔ یعنی ٹکراؤ سے بچ کر اپنا راستہ نکالنا۔ چنانچہ جب بھی چشمہ کے سامنے کوئی پتھر آتا ہے تو ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر چشمہ یہ کرتا ہے کہ دائیں یا بائیں مڑ کر اپنا راستہ نکال لیتا ہے اور آگے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ وہ راستہ کے پتھر کو ہٹانے کے بجائے خود اپنے آپ کو ہٹا لیتا ہے۔ اس طرح کسی ٹھہراؤ کے بغیر چشمہ کا سفر برابر جاری رہتا ہے۔
یہ فطرت کا سبق ہے۔ اس طرح فطرت عمل کی زبان میں انسان کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ مشکلات سے ٹکرانے کے بجائے مشکلات کو نظر انداز کرو۔ رکاوٹوں کو توڑنے کے بجائے رکاوٹوں سے ہٹ کر اپنا عمل جاری رکھو۔ اس طریقِ عمل کو ایک لفظ میں پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم (positive statusquoism) کہا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کامطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ اسی پالیسی کو اختیار کیا۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ ایک ایسا انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے جس میں اتنی کم جانیں ہلاک ہوئیں کہ اُس کو بلاشبہہ ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
پازیٹیو اسٹیس کو ازم کی یہ پالیسی موجودہ دنیا میں امن کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جنگ کا سب سے بڑا سبب اسٹیٹس کو (statusquo) کو توڑنے کی کوشش ہے، اور امن کے قیام کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ اسٹیٹس کو کو مان کر بقیہ دائرہ میں اپنی تعمیر کی جائے۔
اسلام میں جہاد کا تصور
جہاد ایک عربی لفظ ہے۔ اس کے معنٰی سادہ طور پر کوشش کرنے کے ہیں۔ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے وہ پر امن جد وجہد کے ہم معنٰی ہے۔ توسیعی مفہوم کے اعتبار سے جہاد کو جنگ کے معنٰی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر عربی میںجنگ کے لیے اصل لفظ قتال ہے، نہ کہ جہاد۔
موجودہ زمانہ میں جہاد کا لفظ اکثر جنگ اور تشدد کے معنٰی میں بولا جاتا ہے۔ میڈیا کے کثرتِ استعمال کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کو تشدد کا مذہب سمجھا جانے لگا۔ مثلاً لندن کے انگریزی روزنامہ ٹائمس (The Times) میںایک آرٹیکل چھپا ہے جس کا عنوان یہ ہے—ایک مذہب جو تشدد کی اجازت دیتا ہے۔
A religion that sanctions violence
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں پیغمبر اسلام کو رحمت للعالمین کی حیثیت سے متعارف کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو دین لائے وہ دنیا کے لیے دین رحمت تھا۔ ایسے دین کی تصویر متشددانہ مذہب کی کیسے بن گئی۔ جواب یہ ہے کہ دو قسم کی غلط فہمیاں اس خلاف واقعہ تصویر کی ذمہ دار ہیں۔ ایک، نظریہ اور عمل میں فرق نہ کرنا۔ دوسرے، استثناء کو عموم کا درجہ دینا۔
۱۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نظریہ کی روشنی میںعمل کو جانچا جاتا ہے، نہ کہ عمل کی روشنی میں نظریہ کو جانچا جانے لگے۔ مثلاً اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اس کی ممبر قوموں کے رویّہ کو جانچا جائے گا، نہ یہ کہ ممبر قوموں کی عملی روش کی روشنی میں چارٹر کا مفہوم متعین کیاجائے۔ اسی طرح اس مسئلہ کے علمی مطالعہ کے لئے ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
مثلاً مسلمانوں کی ایک تعداد ان قبروں کو پوجتی ہے جس میں کسی بزرگ کو کبھی دفن کیا گیا تھا۔ اس کو دیکھ کر بت پرست لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب شرک اور اسلام کے مذہب توحید میں کوئی فرق نہیں ۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ ہندو دھرم میں کھڑا کر کے پوجا جاتا ہے اور اسلام دھرم میں لِٹا کر پوجا جاتا ہے۔ مگر یہ تقابل درست نہیں۔ کیوں کہ جو مسلمان قبروں کو پوجتے ہیں وہ ان کا ایک انحرافی فعل ہے۔ اس کا اسلام کی اصل تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔
یہی معاملہ جہاد کا ہے۔ جہاد بلا شبہہ ایک پر امن عمل ہے۔ لیکن اگر محمود غزنوی اور اورنگ زیب کی متشددانہ کارروائیوں کو اسلامی جہاد بتایا جائے یا موجودہ زمانہ میں جو مسلمان مختلف مقامات پر اسلام کے نام سے لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں ان کو جہاد کہا جائے تو یہ رائے قائم کرنے کا صحیح طریقہ نہ ہوگا۔ صحیح علمی طریقہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کی ثابت شدہ تعلیمات کو اسلامی نظریہ کا ماخذ بنایا جائے اور مسلمانوں کی کارروائیوں کو اس کی روشنی میں جانچا جائے۔ مسلمانوں کا جو عمل اسلام کے نظریۂ جہاد پر پورا نہ اترے اُس کو رد کردیا جائے۔
۲۔ غلط فہمی کا دوسرا سبب استثنائی تعلیم کو عمومی تعلیم کا درجہ دینا ہے۔ قرآن میں تقریباً چھ ہزار آیتیں ہیں۔ ان میںسے بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جو جہاد بمعنٰی قتال سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی ایک فیصد سے بھی کم آیتیں، زیادہ متعین طور پر اعشاریہ ۵ فیصد (0.5 percent) ۔
اصل یہ ہے کہ قرآن ۲۳ سال کی مدت میں وقفہ وقفہ سے اترا۔ جیسے حالات پیداہوتے تھے اسی کے مطابق اللہ کی طرف سے احکام نازل کر دئے جاتے تھے۔ اس ۲۳ سال کو دو مختلف مدتوں میںتقسیم کیاجاسکتا ہے۔ ایک ۲۰ سال کی مدت اور دوسرے تین سال کی مدت۔ ۲۰ سال کی مدت میں قرآن میںوہ احکام اترے جو ایمان، اخلاص، عبادت، اخلاق، عدل، اصلاح سے تعلق رکھتے تھے اور تین سال کی مدت میں جنگ کے احکام اترے جب کہ پیغمبر اسلام کے مخالفوں نے یکطرفہ طورپر حملہ کر کے اہل اسلام کے لیے دفاع کا مسئلہ پیدا کردیا تھا۔ گویا قرآن میں جہاد بمعنٰی قتال کی آیتوں کی حیثیت استثناء کی ہے اور دوسری آیتوں کی حیثیت عموم کی۔
استثناء اور عموم کا یہ فرق ہرجگہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر گیتا ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ہے۔ اس میں حکمت کی بہت سی باتیں ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ گیتا میں کرشن جی ارجن سے کہتے ہیں کہ ہے ارجن، لڑائی کے لیے تیار ہو اور جنگ کر۔
O Arjun, be ready and fight. (Chapter 3, 11)
پوری گیتا کو پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنگ کی بات اس میں استثناء کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر صرف اسی استثنائی حصہ کو لیا جائے اور اس کو جنرلائز کرکے اسی سے گیتا کی مجموعی تعلیم نکالی جائے تو یہ ایک غیر علمی طریقہ ہوگا اور گیتا کوصحیح طورپر سمجھنے میں رکاوٹ بن جائے گا۔
اسی طرح بائبل میںآیا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ:
Do not think that I came to bring peace on earth. I did not come to bring peace but a sword. (Matthew 10/34)
حضرت مسیح کے پورے کلام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کا یہ قول استثنائی قول ہے۔ یہی ان کی عمومی تعلیم نہیں۔ ایسی حالت میں حضرت مسیح کے پیغام کو متعین کرنے کے لیے ان کے عمومی اقوال کو دیکھا جائے گا۔ بعض استثنائی اقوال کو لے کر مسیح کی عمومی تصویر بنانا درست نہیں ہوسکتا۔
یہی کسی کتاب کے مطالعہ کا علمی طریقہ ہے۔ یہی طریقہ گیتا اور بائبل کے مطالعہ کے لیے بھی درست ہے اور یہی طریقہ قرآن کے مطالعہ کے لیے بھی درست۔
اب قرآن اور حدیث کے حوالوں کی روشنی میں جہاد کا مفہوم متعین کیجئے۔ قرآن کی ایک آیت یہ ہے: والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا، (العنکبوت ۶۹)۔ یعنی جو لوگ اللہ میں جہاد کریں گے اللہ انہیں اپنے راستے دکھائے گا۔ اس آیت میں جہاد سے مراد وہ کوشش ہے جو سچائی کی تلاش میں یا اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں کی جائے۔ اس آیت میںایک ایسے عمل کو جہاد کہا گیا ہے جو مکمل طورپر ایک فکری جستجو (intellectual pursuit) کی حیثیت رکھتی ہے۔
کیا اسلام تشدد کی اجازت دیتا ہے
کیا اسلام تشدد کی اجازت دیتا ہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں دفاع کے لیے لڑنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ ہر مذہبی اور غیر مذہبی سسٹم میں اس کی اجازت ہے۔ مگر تشدد میرے نزدیک اس سے الگ ایک اور فعل کا نام ہے۔ اس پہلو سے اسلام میں قطعاً تشدد کی اجازت نہیں۔ تشدد کا لفظ عام طورپر جس مفہوم میں بولا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کیا جائے۔ اور اس قسم کے تصور کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ کوئی شخص کسی کو اپنا دشمن سمجھے تو اس بنا پر اُس کے لیے جائز نہیں ہوجاتا کہ وہ اُس کو ختم کرنے کے نام پر اُس کے خلاف تشدد کرنے لگے۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دشمن اور جارح کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اگر کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کے خلاف یک طرفہ طورپر متشددانہ جارحیت کرے تو قرآن کے مطابق، اُس کو حق ہے کہ وہ ایسے جارح کے خلاف دفاعی کارروائی کرے اور بقدرِ ضرورت جوابی تشدد کا استعمال کرے۔ قرآن میںکہا گیا ہے کہ لڑنے کی اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف لڑائی کی جارہی ہے:
Permission of fighting is given to those who are attacked. (22.39)
مگر دشمن کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔دشمن کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم عین وہی ہے جو مسیح کی زبان سے بائبل میں اس طرح آئی ہے کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو:
Love your enemy (Luke 6-31)
قرآن میں دشمنانہ سلوک کا جواب دشمنانہ سلوک کے ساتھ دینے سے منع کیا گیا ۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میںدشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (حٰم السجدہ ۳۴)
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق، دشمن سے لڑنا نہیں ہے بلکہ دشمن کو اپنا دوست بنانا ہے۔ اسلام کے مطابق، ہر انسان اصلاً مسٹر نیچر ہے۔ وہ صرف وقتی طورپر کبھی مسٹر دشمن بن جاتا ہے۔ اگر اُس کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کیاجائے تو وہ اپنی فطرت کی طرف لوٹ آئے گا۔ اور ماضی کا دشمن حال کا دوست بن جائے گا۔
اب غور کیجئے کہ کوئی شخص تشدد کیوں کرتا ہے۔ اس کا ایک سبب آئیڈیالاجیکل ایکسٹریمزم ہے۔ جہاں ایکسٹریمزم نہ ہو وہاں تشدد بھی نہ ہوگا۔ چنانچہ اسلام میں ایکسٹریمزم کو منع کرکے اس قسم کے تشدد کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اسلام نے کہا کہ دین میںکسی قسم کا غلو نہیں (النسائی، ابن ماجہ، احمد)
There is no extremism in the religion of Islam.
اسی طرح تشدد کا ایک سبب غصہ ہے۔ اور اسلام میں غصہ کو ایک بہت بڑی اخلاقی بُرائی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ (الشوریٰ ۳۷)
اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر اسلام کی اس تعلیم کے مطابق لوگ ایسا کریں کہ جب انہیں کسی پر غصہ آئے تو وہ اُس کو معاف کردیں، ایسی صورت میں تشدد کی نوبت ہی نہ آئے گی۔
تشدد کو استعمال کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی یہ سمجھ لیتا ہے کہ تشدد ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اس طاقتور ذریعہ کو استعمال کرکے وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکتاہے۔ مگر قرآن میںاس ذہن کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کے مطابق، تشدد صرف ایک بے نتیجہ قسم کا منفی رد عمل ہے، وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی مؤثراور مفید ذریعہ نہیں۔
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ کسی سے تمہاری نزاع قائم ہو تو نزاع کو ٹکراؤ تک نہ جانے دو جوآخر کار تشدد بن جاتا ہے۔ بلکہ نزاع کو مصالحانہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردو۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ صلح بہتر ہے (النساء ۱۲۸)
Reconciliation is the best.
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب کسی سے کسی معاملہ میں نزاع کی صورت پیدا ہو جائے تو اُس کے حل کے لیے مصالحانہ طریقِ عمل(conciliatory course of action) اختیار کرو، نہ کہ منازعانہ طریق عمل confrontational course of action) (۔ ظاہر ہے کہ اگر اسلام کی اس تعلیم کو اختیار کیاجائے تو نزاع پیدا ہونے کے باوجود تشدد کی نوبت نہیں آئے گی۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے پیغمبر اسلام کا ایک قول بہت زیادہ مددگار ہوسکتا ہے۔ وہ قول یہ ہے کہ ان اللہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف(صحیح مسلم) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔
پیغمبر اسلام کے اس قول میں فطرت کانظام بتایا گیا ہے۔ موجودہ دنیا میںخدا نے فطرت کا جو نظام قائم کیا ہے وہ ایسے اصولوں پر مبنی ہے کہ یہاں کسی مقصد کے حصول کے لیے پُر امن طریقہ زیادہ کار آمد اور نتیجہ خیز ہے۔ اس کے مقابلہ میں پُر تشدد طریقہ تخریب کاری تو کرسکتا ہے مگر وہ کسی مثبت مقصد کے حصول کے لیے نتیجہ خیز نہیں ۔
یہاںیہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمان دونوں ایک چیز نہیں۔ اسلام ایک آئیڈیالوجی کا نام ہے اور مسلمان اُس گروہ کانام ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اسلام کو اپنے مذہب کے طورپر اختیار کیا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے عمل کو اسلام کی تعلیم سے جانچا جائے گا، نہ یہ کہ مسلمان جوکچھ کریں اُس کو اسلام سمجھ لیا جائے۔
کوئی مسلمان یا مسلمانوں کا کوئی گروہ اگر تشدد کرے تو یہ اُس کا اپنا ذاتی فعل ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کی زبان سے کہا جائے گا کہ اگر چہ وہ اسلام کا دعویٰ کرـتے ہیں مگر اُنہوں نے اسلام کو دل سے قبول نہیں کیا۔ (الحجرات ۱۴)
اسلام اور دہشت گردی
اگر کوئی شخص کرشچین ٹررزم کا ٹرم استعمال کرے تو کہنے والا کہے گا کہ تم متضاد ترکیب (contradictory term) استعمال کررہے ہو ۔ کرشچین کا کوئی تعلق ٹررزم سے نہیں ہے۔ چنانچہ مسیح نے کہا ہے کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو(Love your enemy) کرشچینٹی کی تعلیمات Love پر مبنی ہیں۔ ایسی حالت میں کرشچین ٹررزم کے کوئی معنٰی نہیں۔ مگریہ آدھی سچائی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسیح نے کہا کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو، مگر اسی کے ساتھ نیو ٹسٹمنٹ کی روایت کے مطابق، مسیح نے یہ بھی کہا کہ یہ نہ سمجھو کہ میں صلح کروانے آیا ہوں بلکہ میں جنگ کروانے آیا ہوں:
Do not think that I came to bring peace on earth. I did not come to bring peace but a sword. (10:34)
پھر کیا وجہ ہے کہ مسیح کے اس واضح قول کے باوجود کوئی شخص کرشچین لوگوں پرٹررزم کا الزام عائد نہیں کرتا۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ کرشچین لوگ لڑائی نہیں کرتے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی لڑائی کو نیشنل انٹرسٹ کے نام پر چلاتے ہیں، نہ کہ مسیحی مذہب کے نام پر۔ مثلاً ہٹلر ایک کرشچین تھا۔ اس نے دوسری عالمی جنگ چھیڑی مگر اس نے اپنی اس جنگ کومسیحیت کے نام پر نہیں کیا بلکہ جرمن قومیت کے نام پر کیا۔ اسی طرح امریکہ نے ویت نام میںدس سال سے زیادہ مدت تک جنگ کی مگر اس میں بھی اس نے ایسانہیں کیا کہ وہ اپنی اس جنگ کو کرشچین وار کہے۔ اس کے برعکس اس نے یہ کہا کہ وہ اس جنگ کو امریکی مفاد کے لیے کر رہا ہے۔
کچھ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ میڈیا اسلام کو ٹررزم کا نام دے کر اسلام کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔ مگر میں کہوں گا کہ اس معاملہ میں میڈیا کاقصور نہیں۔ کیوں کہ مسلمان خود اسلام کے نام پر جگہ جگہ تشدد پھیلائے ہوئے ہیں جس کو وہ بطور خود جہاد کا نام دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں میڈیا کا رول اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ مسلمانوں کے قول و عمل کو اُن کے اپنے دعویٰ کے مطابق رپورٹ کرتا ہے۔ مسلمان اگر اپنی جنگ کو اپنی کمیونٹی کے انٹرسٹ کے نام پر لڑی جانے والی جنگ بتائیں تو اس کو مسلم کمیونٹی کے نام سے جوڑا جائے گا۔ مگر جب وہ اپنے تشدد کو اسلام کا نام دیتے ہیں تو بالکل فطری ہے کہ میڈیا میں وہ اسلامی تشددکے نام سے رپورٹ کیا جائے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات امن کے اصولوں پر مبنی ہیں۔ اسلام کی ۹۹ فیصد آیتیں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر امن ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ تاہم اسی کے ساتھ اس میں بعض آیتیں یا کچھ آیتیں جنگ سے تعلق رکھنے والی بھی ہیں۔ مگر اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت استثناء کی۔
عسکری دور سے غیر عسکری دور تک
ساتویں صدی کے نصف اول میں جب اسلام کا ظہور ہوا، اُس وقت ساری دنیا میں سیاسی جبر کا وہ نظام قائم تھا جس کو فرانسیسی مؤرخ ہنری پرین نے مطلق بادشاہت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔ یہ نظام جبر انسان کو ہر قسم کے خیر سے محروم کئے ہوئے تھا۔ اُس وقت حکم دیا گیا کہ اس مصنوعی نظام کا خاتمہ کر دو تاکہ انسان کے اوپر ان بھلائیوں کا دروازہ کھل جائے جو اللہ نے اُن کے لیے مقدر کیا ہے۔
قرآن (الانفال ۳۹) میںیہ حکم ان الفاظ میں دیا گیا : وقاتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ۔ (اور اُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے)۔ اس آیت میں فتنہ سے مراد سیاسی جبر کا وہ قدیم نظام ہے جو آیت کے نزول کے وقت ساری دنیا میں رائج تھا۔ اور دین سے مراد فطرت پر مبنی خدا کا تخلیقی نظام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصنوعی جبر کا نظام ختم ہو جائے اور دنیا میںخدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق حالتِ فطری قائم ہو جائے۔ جس میںہر انسان اپنے عمل کے لیے آزاد ہو، ہر انسان کھلے ماحول میںاپنا ٹیسٹ دے سکے۔
رسول اور اصحاب رسول کی جدو جہد اور اُن کی قربانی سے مذکورہ قدیم نظام ٹوٹ گیا اور دنیا میںوہ نظام آگیا جو اللہ کو مطلوب تھا۔ تاہم یہ ایک عظیم تبدیلی تھی۔یہ وہ انوکھا انقلاب تھا جس کو ہنری پرین نے اس طرح بیان کیا ہے—اسلام نے دنیا کی حالت کو بدل دیا۔ تاریخ کا روایتی ڈھانچہ توڑ کر پھینک دیا گیا۔
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown.
یہ انقلاب اتنا بڑا تھا کہ وہ اچانک نہیں آسکتا تھا۔ چنانچہ اللہ کی خصوصی مدد سے وہ ایک عمل (process) کے روپ میں جاری ہوا۔ اسلام کے دور اول کا یہ انقلاب گویا ایک دھکا تھا جو تاریخ کو دیا گیا۔اس کے بعد انسانی تاریخ ایک مخصوص رُخ پر چل پڑی۔ ساتویں صدی کا یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ بیسویں صدی کے وسط میں اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد یہ ناممکن ہوگیا کہ قدیم طرز کا جبری نظام دوبارہ زمین پر قائم ہو۔
بعد کے زمانہ میں دوبارہ کسی اور ایمپائر کادنیا میں قائم نہ ہونا کوئی اتفاقی بات نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ پچھلی چند صدیوں کے عمل کے نتیجہ میں دنیا میں ایسی ہمہ گیر تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جو کسی نئے ایمپائر کے قیام کی راہ میں فیصلہ کن طورپر رکاوٹ ہیں۔ اب وہ اسباب دنیا میں موجود ہی نہیں جب کہ کوئی سیاسی حوصلہ مند دوبارہ قدیم طرز کا ایمپائر کھڑا کرسکے۔
موجودہ زمانہ میں سیاسی ایمپائر کے قیام کے خلاف جو موانع (deterrents) پیدا ہوئے ہیں اُن کو چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
۱۔ قدیم زمانہ میں یہ صورت حال تھی کہ جب کوئی بادشاہ فوجی طاقت کے زور پر ایک علاقہ پر قبضہ کرلیتا تھا تو وہاں کے لوگ اُس کو بادشاہ کا فطری حق سمجھ کر اُس کی سیاسی بالا دستی کو قبول کرلیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانہ میں ایک بادشاہ کو صرف دوسرا بادشاہ ختم کرسکتا تھا، نہ کہ عوام۔ مگر موجودہ زمانہ میں جمہوریت اور سیاسی آزادی اور قومی حکومت کے تصورات کے نتیجہ میں رائے عامہ اتنی زیادہ بدل چکی ہے کہ اب کسی بیرونی بادشاہ کو وہ اجتماعی قبولیت (social acceptance) حاصل نہیںہوتی جو کسی حکومت کے قیام و بقا کے لیے ضروری ہے۔
۲۔ قدیم زمانہ میں اقتصادیات کاانحصار تمام تر زمین پر مبنی ہوتا تھا اور زمین صرف بادشاہ کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ موجودہ زمانہ میں صنعتی انقلاب نے بے شمار نئے اقتصادی ذرائع پیدا کردیے ہیں۔ یہ نئے ذرائع ہر انسان کے لیے قابل حصول ہیں۔ اس لیے اب عام لوگوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ سیاسی حکمراں کے خلاف ایسے آزاداقتصادی وسائل پالیں جو سیاسی حکمراں کے دائرۂ اقتدار کے باہر ہوں۔ اس اقتصادی تبدیلی نے اس بات کو ممکن بنا دیا کہ آج ایسی انقلابی تحریک چلائی جاسکے جس کو روکنا سیاسی حکمراں کے لیے ممکن نہ ہو۔
۳۔ اسی طرح ایک چیز وہ ہے جس کو مانع میڈیا(media deterrent) کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں میڈیا اور کمیونیکیشن کی ترقی نے یہ صورت حال پیدا کردی ہے کہ ایک علاقہ میں پیش آنے والا واقعہ فوراً ہی ساری دنیا میں پہنچ جائے۔ تمام دنیا کے لوگ اُس سے پوری طرح با خبر ہوجائیں۔ یہ ایک ایسا چیک (check)ہے جس نے قدیم طرز کے سیاسی ایمپائر کے قیام کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ اب کوئی بادشاہ اپنے اختیارات کا اُس طرح بے خوف استعمال نہیں کرسکتا جو پہلے ممکن ہوا کرتا تھا۔
۴۔ اسی طرح ایک اور چیزوہ ہے جس کو عالمی مانع (universal deterrent) کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کے تحفظ کے نام پر قائم ہونے والے ادارے، ایسے مستقل چیک ہیں جن کو کوئی سیاسی حکمراں نظر انداز نہیں کرسکتا اور نہ دیر تک اُن کی خلاف ورزی کا تحمل کرسکتا ہے۔
ان عالمی تبدیلیوں کے بعدانسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ قدیم دور اگر عسکری دور تھا تو اب نیا دور غیر عسکری دور ہے۔ قدیم زمانہ میں پُرتشدد طریقہ کو کسی بڑی کامیابی کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب پُرامن طریقہ(peaceful method) کو مطلق طورپر کامیاب طریقہ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ اب کسی مقصد کے حصول کی جدو جہد کو اول سے آخر تک اس طرح چلایا جاسکتا ہے کہ اُس کے کسی بھی مرحلہ میں تشدد کے استعمال کی ضرورت پیش نہ آئے۔ وہ مکمل طورپر پُرامن ذرائع کی پابندرہتے ہوئے کامیابی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب پُر تشدد طریقِ کار ایک خلاف زمانہ عمل(anachronism) کی حثییت اختیار کرچکا ہے، اب وہ وقت کے مطابق، کوئی عمل نہیں۔
جہاد بمعنٰی قتال کو تمام علماء حسن لغیرہٖ مانتے ہیں، نہ کہ حسن لذ۱تہٖ۔ اب موجودہ حالات میںیہ کہنا صحیح ہوگا کہ اب جہاد بمعنٰی قتال کا وقت نہیں رہا، اب جہاد بمعنٰی پُر امن جدوجہد کا وقت دنیا میں واپس آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جہاد بمعنٰی قتال اب منسوخ ہوگیا۔وہ حکماً بدستور باقی ہے۔ یہ نیا معاملہ جو پیش آیا ہے اُس کا تعلق خود حکم کی منسوخی سے نہیں ہے بلکہ احوال کی تبدیلی سے ہے۔ اس کی توجیہہ اس فقہی مسلّمہ میں پائی جاتی ہے کہ: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان۔ (زمان ومکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں) یہ امر واضح ہے کہ تبدیلی اور منسوخی میںنوعی فرق پایا جاتا ہے۔
یہ تبدیلی جو موجودہ زمانہ میں پیش آئی ہے وہ عین اسلام کے حق میں ہے اور وہ اسلام ہی کے پیدا کردہ انقلاب کے نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے مواقع آخری حد تک کھول دیے جائیں۔ اب اہلِ اسلام گویا آخری طورپر اُس دور میںداخل ہوچکے ہیں جس کی آمد کی دعا رسول اور اصحاب رسول نے ان الفاظ میںکی تھی: ربنا ولا تحمل علینا إصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا (البقرہ) اب اسلام کے دعوتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی ٹکراؤ کی ضرورت نہیں۔ اب پُر امن طریقِ کار پر عمل کرتے ہوئے وہ سب کچھ حاصل کیاجاسکتا ہے جو اسلام میں مطلوب ہے۔
ایک حدیث
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنے زمانہ سے لے کر قیامت تک پیش آنے والی ساری باتیں آپ نے ہم کو بتائیں۔ اس خطبہ میں آپ نے اپنی امت کونہایت شدت کے ساتھ سیاسی بغاوت سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی حکمراں خواہ تمہارے نزدیک ظالم ہو، وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا مال چھین لے تب بھی تم اس کی اطاعت کرو۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا : وانمااخاف علی امتی الائمۃ المضلین، وإذ۱وضع السیف فی امتی لم یُرفع عنہا الی یوم القیامۃ، (سنن ابی داؤد، کتاب الفتن والملاحم، ۴؍۹۵) یعنی میں اپنی امت پر سب سے زیادہ گمراہ کرنے والے لیڈروں سے خائف ہوں، اور جب میری امت میں تلوار داخل ہوجائے گی تو وہ اس سے قیامت تک اٹھائی نہ جائے گی۔
اس قسم کی دوسری حدیثوں کی روشنی میں اس حدیث پر غور کیاجائے تو اس کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سیاسی معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ پر تشدد عمل سے روکا اور پُرامن عمل کی نصیحت کی۔ اس لیے کہ پر تشدد عمل کی روایت اگر ایک بار قائم ہو جائے تو اس کے بعد اُس کو ختم کرنا بے حد مشکل ہوجاتاہے۔
حدیث کی کتابوں میںکثرت سے اس قسم کی روایتیں آئی ہیں جن میں آپ نے حکمراں کے خلاف خروج سے آخری حد تک منع فرمایا ہے۔ اس بنا پر علماء نے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف کسی بھی عذر کی بنا پر بغاوت کرنا حرام ہے۔ (الغلو فی الدین صفحہ ۴۱۷)
ایک طرف حاکم کے خلاف متشددانہ سیاست کی یہ مطلق ممانعت ہے۔ دوسری طرف روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: افضل الجہاد من قال کلمۃ حقٍ عندسلطان جائر (الترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد، النسائی) یعنی افضل جہاد یہ ہے کہ کوئی شخص ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات کہے۔
ان دونوں قسم کی روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ کسی کو کوئی حکمراں شخص ظالم دکھائی دے تب بھی اس کے لئے زیادہ سے زیادہ جس حد تک جانے کی اجازت ہے وہ صرف قولی معنٰی میں اظہار رائے ہے ، نہ کہ عملی معنٰی میں مخالفانہ سیاست چلانا یا حکمراں کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اسلام میں صرف پر امن جدوجہد (peaceful struggle) ہے۔ پر تشدد جدوجہد (violent struggle) کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر اسلام میں جائز نہیں۔
اسلام کی بعد کی تاریخ کا غالباً سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مذکورہ واضح ہدایات کے باوجود بعد کی مسلم نسلوں میں جہاد کے نام پر متشددانہ سیاست کی روایت چل پڑی۔ حتٰی کہ یہ ذہن مسلمانوں پر اتنا زیادہ چھایا کہ دین رحمت (الانبیاء ۱۰۷) ان کے یہاں دین جہاد بمعنٰی قتال بن گیا۔ بعد کی صدیوں میںتیار ہونے والا بیشتر لٹریچر براہ راست یا بالواسطہ طورپر اسی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
بعد کے زمانہ میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں اُن میں اس ذہن کی عکاسی اس طرح ہوئی کہ صبر واعراض کی آیتوں کے بارے میں لکھ دیا گیا کہ قتال کا حکم اُترنے کے بعد یہ آیتیں منسوخ ہوگئیں۔ احادیث جمع کرکے مرتب کی گئیں تو اُن میں کتاب الجہاد تو نہایت تفصیل کے ساتھ درج کیا گیا مگر کتاب الدعوہ والتبلیغ سرے سے کسی کتاب میں شامل نہیں۔ یہی حال فقہ کی تمام کتابوں کا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں جہاد اور متعلقاتِ جہاد کے احکام نہایت تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں مگر دعوت اور متعلقاتِ دعوت کے ابواب کسی بھی فقہی کتاب میںقائم نہیں کئے گئے۔
یہی حال بعد کو پیدا ہونے والے تقریباً تمام اسلامی لٹریچر کا ہوا۔ ابن تیمیہ سے لے کر شاہ ولی اللہ تک، اور شاہ ولی اللہ سے لے کر موجودہ زمانہ کے مصنفین تک، کوئی بھی شخص دعوت کے موضوع پر کوئی کتاب تیار نہ کرسکا۔ اگر کسی کتاب کا نام دعوت و تبلیغ ہے تو وہ بھی ایسا ہی ہے جیسے سیاست یا فضائل کی کسی کتاب کا نام دعوت و تبلیغ رکھ دیا جائے۔
اس قسم کے لٹریچر کے تحت مسلمانوں کا جومزاج بنا اُسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنے والے لوگ ہیرو بن جاتے ہیں اور جو شخص ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کرے وہ اُن میں غیر مقبول ہو کر رہ جاتاہے۔
اسی بنا پر ایسا ہوا کہ امام حسین کے کردار کو تو ہمارے مقررین اور محررین نے خوب نمایاں کیا مگر امام حسن کا کردار نمایاں نہ کیاجاسکا۔صلاح الدین ایوبی کو مسلمانوں کے درمیان زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ مگر وہ لوگ جنہوںنے تاتاری غارت گروں کو اسلام میں داخل کرکے انہیں اسلام کا خادم بنایا اُن کا کوئی تذکرہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ موجودہ زمانہ میں اُسامہ بن لادن جیسے تشدد کی بات کرنے والے لوگ نہایت آسانی سے مسلمانوں کے درمیان ہیرو بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص امن اور احترامِ انسانیت کی بات کرے تو وہ مسلمانوں کے درمیان عمومی قبولیت حاصل نہ کرسکے گا۔
اس ذہن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عام انسانیت مسلمانوں کا کنسرن (concern) ہی نہ رہی۔ مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ خداکے بندوں کو وہ ’’اپنی قوم‘‘ اور ’’غیر قوم‘‘ میں تقسیم کرکے دیکھنے لگے۔ دعوتی طرزِ فکر کے مطابق، مسلمان اور غیر مسلم داعی اور مدعو قرار پاتے ہیں۔ اس کے برعکس جہادی (بمعنٰی قتالی) طرزِ فکر میں یہ ہوتا ہے کہ مسلمان دوسروں کو اپنا حریف اور رقیب سمجھنے لگتے ہیں۔
مغربی قوموں کے استیلاء کے بعد یہ فرق بہت زیادہ بڑھ گیا۔مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ مغربی قوموں نے اُن سے اُن کا برتری کا مقام چھین لیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ رقابت مزید اضافہ کے ساتھ نفرت بن گئی۔ مسلمان عام طورپر دوسری قوموں کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگے۔
اسلام اکیسویں صدی میں
پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ دور اوّل میں جو انقلاب آیا اُس کاایک پہلو وہ ہے جس کی تکمیل دور اول ہی میں ہوگئی۔ یعنی نزول قرآن کی تکمیل اوراسلامی طرز زندگی کا نظری اور عملی نمونہ دنیا میں قائم ہو جانا۔ یہ نمونہ قرآن اور حدیث اور سیرت اور احوالِ صحابہ کی صورت میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا ہے۔ وہ ابدی طورپر انسان کے لیے ربّانی طرز زندگی کا مستند نمونہ ہے۔
دور اول کے اسلامی انقلاب کا دوسرا پہلو وہ ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے تدریج کا طالب تھا۔ چنانچہ وہ لمبی مدت کے بعد اپنی تکمیل کو پہنچا۔ یہ دوسرا پہلو ایک مسلسل عمل (process) کے طورپر انسانی تاریخ میںداخل ہوا۔ یہ تاریخ میں ایک بے حد دور رس تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اُس کے لیے ہزار سالہ تغیراتی عمل درکار تھا۔چنانچہ یہ عمل مکہ اور مدینہ سے جاری ہو کر دمشق اور بغداد تک پہنچا۔ اس کے بعد وہ مزید آگے بڑھا۔ وہ اولاً یورپ (اندلس) میںداخل ہوا اور اُس کے بعد وہ ساری دنیا میں پھیل گیا۔ مستقبل میںآنے والے اس انقلاب کا ذکر قرآن میں واضح طورپر موجود ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں چند آیتوں کے حوالے نقل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ اور تم اُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔ (الأنفال ۳۹)
۲۔ آج منکر تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پستم اُن سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ (المائدہ ۳)
۳۔ عنقریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود اُن کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ (حٰم السجدہ ۵۳)
۴۔ اے ہمارے رب، ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا تونے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔ (البقرہ ۲۸۶)
اسلامی انقلاب کے اس دوسرے پہلو کا خلاصہ یہ تھا کہ تاریخ میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں کہ اُس کے بعد اسلام پر عمل کرنا زمانۂ ماضی کے مقابلہ میںآسان ہوجائے۔ پچھلے دور کے اہل ایمان کو جو کام ’’عسر‘‘ کے حالات میں کرنا پڑتا تھا وہ اگلے دو ر کے اہل ایمان کے لئے ’’یُسر‘‘ کے حالات میں انجام دینا ممکن ہوجائے (الانشراح)۔ تیسیر کے اس عمل کے مختلف پہلو ہیں۔
اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں بادشاہت کے تحت سیاسی جبر کا نظام قائم تھا۔ اس نظام کے تحت انسان کو سوچنے یا عمل کرنے کی آزادی حاصل نہ تھی۔ جب کہ آزادی کے بغیر نہ دینی احکام پر عمل کیا جاسکتا اور نہ دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسلامی انقلاب نے نہ صرف ابتدائی طورپر جبرکے اس نظام کو توڑا بلکہ تاریخ میںایک نیا عمل (process) جاری کیا۔ اس عمل کی تکمیل موجودہ زمانہ میں اس طرح ہوئی ہے کہ آج اہل ایمان کو دینی عمل اور دینی دعوت دونوں کی مکمل آزادی حاصل ہے، الاّ یہ کہ وہ خود اپنی کسی نادانی سے حالات کو مصنوعی طورپر اپنے مخالف بنا لیں۔
اس انقلاب کاایک اور پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ٹیکنیکل ترقی کے ذریعہ کمیونیکیشن کے جدید ذرائع حاصل ہوگئے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ حق کی دعوت کو تیزی کے ساتھ دنیا کے ہر حصہ میں پہنچایا جاسکے۔
اسی طرح موجودہ زمانہ میں سائنسی دریافتوں نے اس کو ممکن بنا دیا کہ کائنات میں چھپی ہوئی خداکی نشانیاں ظاہرہوں اور خدا کے دین کو خود علم انسانی کی روشنی میں مدلّل اور مبرہن کرسکے۔
بیسویں صدی عیسوی میں یہ عمل اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔ اب اہل ایمان کے لیے یہ ممکن ہوگیا تھا کہ وہ امن اورآزادی کی فضا میں بخوبی طورپر اللہ کے دین پر عمل کریں اور اللہ کے دین کو دوسری اقوام تک پہنچانے کا دعوتی فریضہ کسی رکاوٹ کے بغیر انجام دیں۔ مگر عین اسی صدی میںمسلمانوں کے نا اہل رہنماؤں نے غلط رہنمائی کرکے اُنہیں ایسی سرگرمیوں میں الجھا دیا جس کا نتیجہ صرف یہ ہوسکتا تھا کہ اہل ایمان جدید مواقع کو استعمال نہ کرسکیں، حتٰی کہ وہ اُن کے شعور سے بھی بے بہرہ ہوجائیں۔ یہ غلطیاں بنیادی طور پر دو قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔
ایک غلطی وہ ہے جو اسلام کی سیاسی تعبیر کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ اس تعبیر نے غلط طور پر مسلمانوں کا یہ ذہن بنایا کہ وہ اسلام کے کامل پیرو صرف اُس وقت بن سکتے ہیں جب کہ وہ اسلام کے تمام قوانین کو عملاً نافذ کردیں۔ اس سیاسی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم عوام اپنے حکمرانوں سے لڑ گئے، تاکہ اُن کو ہٹا کر وہ شریعت کا قانون نافذ کرسکیں۔ اس سیاسی بدعت کے نتیجہ میں کوئی خیر تو سامنے نہیںآیا البتہ مسلم دنیا میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں وہ جبر اور ظلم دوبارہ قائم ہوگیا جس کو لمبے تاریخی عمل کے نتیجہ میں ختم کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بندوں سے اسلام کی کامل پیروی مطلوب ہے، نہ کہ اسلام کا کامل نفاذ۔
دوسری غلطی وہ ہے جو جہاد کے نام پر موجودہ زمانہ میں شروع کی گئی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو دوسری قوموں سے کچھ سیاسی اور مادّی شکایتیں تھیں۔ ان شکایتوں کو پُر امن طریقِ کار کے ذریعہحل کیا جاسکتا تھا مگر پُر جوش رہنماؤں نے فوراً جہاد کے نام پر ہتھیار اُٹھالیے اور دوسری قوموں کے خلاف مسلّح لڑائی شروع کردی۔ اس خود ساختہ جہاد کے نتیجہ میں نہ صرف جدید امکانات ضائع ہوگئے بلکہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اتنی بڑی تباہی سے دوچار ہوئے، جیسی تباہی ماضی کی طویل تاریخ میں اُن کے ساتھ کبھی پیش نہیں آئی تھی۔
مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجہ میں مسلمان بیسویں صدی کو کھو چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی ان غلطیوں کی اصلاح کریں گے یا موجودہ صدی کو بھی وہ اُسی طرح کھو دیں گے جس طرح وہ پچھلی صدی کو کھو چکے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

صدام حسین کے لیے انتخاب

(Option for Saddam Husain)
عراق کے صدر صدام حسین کے سامنے محفوظ طورپر صرف ایک ہی چوائسہے۔ وہ یہ کہ وہ عراق کو چھوڑ کر خاموشی کے ساتھ باہر چلے جائیں اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام پرسکون جلاوطنی میں گزاریں۔ جیسا کہ ان سے پہلے بہت سے حکمراں کرچکے ہیں۔ خوش قسمتی سے کئی عرب ملک اُن کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔
صدام حسین کے لیے یہی واحد چوائس ہے۔ دوسرا چوائس جو اس وقت وہ لیے ہوئے ہیں وہ عملی طورپر کوئی چوائس نہیں۔ یعنی اپنی پولیٹکل گدّی پر بدستور جمے رہنا۔اس دوسری چوائس میں یقینی طورپر آخرکار ان کی اپنی تباہی بھی ہے اور عراق کی تباہی بھی۔
صدام حسین اگر اسلامی اصول کی بنیاد پر فیصلہ کریں تو میںاُن کو یاد دلاؤں گا کہ پیغمبر اسلام کی پالیسی کیا تھی۔عائشہ زوجِ رسول کہتی ہیں کہ جب بھی پیغمبر اسلام کو دو میں سے ایک کا انتخاب کرناہوتا تو وہ ہمیشہ آسان انتخاب(easier option) کو لے لیتے اور مشکل انتخاب(harder option) کو چھوڑ دیتے (البخاری)
موجودہ حالات میں یہ بالکل واضح ہے کہ صدام حسین کے لیے ترک وطن کا چوائس ہی واحد آسان انتخاب(easier choice) ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنی موجودہ حالت پر اصرار کریں تو یہ امریکہ کو عراق پر بمباری کی دعوت دینے کے ہم معنٰی ہوگا۔ دوسری صورت اُن کے لیے مشکل انتخاب ہے جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ صدام حسین اگر اس شرعی اصول کو نہ مانیں تب بھی میںکہوں گا کہ اُن کے حق میں عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے۔ دنیا کے تمام دانشمند سیاست داں کا کہنا ہے کہ سیاست ممکن کاآرٹ ہے:
Politics is the art of the possible.
اس عقلی فارمولے کی روشنی میں بھی صدام حسین کے لیے درست پالیسی یہ ہے کہ وہ امریکا کے پیش کردہ محفوظ نقل مقام (safe passage) کی پیشکش کو قبول کرلیں اور عراق کے باہر جاکر پر سکون زندگی گزاریں۔ اس طرح کی زندگی کے لیے وسائل کے اعتبار سے ان کے پاس اب بھی بہت کافی وسائل موجود ہیں۔
اس کے برعکس اگر وہ عراق میں اپنی سیٹ پر جمے رہنے پر اصرار کریں تو یہ اُن کے لیے یقینی طورپر ناممکن کا آرٹ(art of the impossible) کو اختیار کرنے کے ہم معنٰی ہوگا اور ظاہر ہے کہ ناممکن کی سیاست ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس کا کوئی بھی دانش مند آدمی تحمل نہیں کرسکتا۔
یہاں میں یاد دلاؤں گا کہ صدام حسین کے لیے جنگ کوئی نیا تجربہ نہیں ۔ اس سے پہلے کم ازکم دوبار وہ باقاعدہ جنگ کرچکے ہیں۔ پہلی بار ایران کے ساتھ اور دوسری بار کویت کے معاملہ میں امریکا کے ساتھ جس کو انہوں نے ام المعارک(mother of battles) کانام دیا تھا۔ مگر ان دونوں جنگوں میں صدام حسین کو ایسی شکست ہوئی جس کو مبصرین نے ذلّت آمیز شکست کا نام دیا تھا۔
دوبار کے اس ناکام تجربہ کے بعد اب وہ کس چیز کے بَل پر تیسری بار امریکہ جیسے سُپر پاور سے لڑنے کی باتیں کررہے ہیں۔ جب کہ حالت یہ ہے کہ صدام حسین بوقتِ تحریر (۱۵ فروری ۲۰۰۳) پہلے سے زیادہ کمزور ہوچکے ہیں اور دوسری طرف امریکہ اب پہلے سے زیادہ طاقتور حیثیت حاصل کرچکا ہے۔ صدام حسین اور امریکا کے درمیان فوجی طاقت کے اعتبار سے اتنی واضح نابرابری (disparity) ہے کہ دنیا کاکوئی بھی شخص یہ کہنے کی جرأت نہیں کرے گا کہ اگر جنگ ہوئی تو صدام حسین امریکا کو شکست دے دیں گے اور فتح کا جشن منائیں گے۔
صدام حسین کے لیے افغانستان میں دو مختلف مثالیں موجود ہیں۔ ایک ظاہر شاہ کی اور دوسری ملّا محمد عمر کی۔ ظاہر شاہ نے اسی قسم کی صورت حال میںاپنی گدی چھوڑ دی اور افغانستان سے ہجرت کرکے اٹلی چلے گئے۔ وہاں وہ آج بھی عافیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے برعکس مثال ملا محمد عمر کی ہے۔ انہوں نے غیر حقیقت پسندانہ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی ہلاک ہوئے اور افغانستان کو بھی تباہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدام حسین اگر ظاہر شاہ کی مثال کو اپنائیں تو یہ ان کے لیے بھی اچھا ہوگا اور عام مسلمانوں کے لیے بھی۔
صدام حسین کے متعلق معلوم ہے کہ وہ نہایت ذہین آدمی ہیں۔ عرب سربراہانِ مملکت میں وہ غالباً سب سے زیادہ تعلیم یافتہ حکمراں ہیں۔ اُن کو عربی زبان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اس حقیقت کو سمجھیں تو سیاست اُن کے لیے صرف ایک سیکنڈری چوائس ہے۔ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو اس سے زیادہ بڑے کام میں استعمال کرسکتے ہیں اور اپنے بعد دنیا کے لیے زیادہ بہتر وراثت چھوڑ سکتے ہیں۔
مثلاً وہ امریکہ کے جیفر سن کی طرح ایک بڑی یونیورسٹی قائم کریں۔ وہ برطانیہ کے چرچل کی طرح اپنی ممائرس (memoirs) لکھیں۔ حتیٰ کہ اپنی غیر معمولی صلاحیت کی بنا پر وہ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ گوتم بدھ کی طرح سیاسی اقتدار کو چھوڑ کر مذہب کے احیاء کاکام کریں، وغیرہ۔ صدام حسین اگر یہ فیصلہ کریں کہ آئندہ وہ سیاسی رول کے بجائے تعمیری رول کو اپنے لیے منتخب کریں گے تو یہ بلاشبہہ ایک عظیم واقعہ ہوگا۔ اس طرح وہ اپنے جیسے بہت سے لوگوں کے لیے ایک کامیاب رول ماڈل بن جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ اُن کا یہ فیصلہ جدید تاریخ میں ایک نئے دور انقلاب کاآغاز بن جائے۔ (۱۵ فروری ۲۰۰۳)
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۲۹ نومبر ۲۰۰۲ کو آپ سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ ایک صاحب نے کہا کہ صبر کا مطلب آپ برداشت بتاتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ صبر کا مطلب حوصلہ ہے۔ میںنے کہا کہ صبر کا ابتدائی لغوی مفہوم برداشت (patience) ہی ہے۔ جہاںتک حوصلہ (courage) کا تعلق ہے وہ بلا شبہہ زندگی کی ایک اہم قدر ہے۔ زندگی میں برداشت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور حوصلہ کی بھی۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کس کو کس کے تابع کیا جائے۔ حوصلہ کو برداشت کے تابع کیا جائے یا برداشت کو حوصلہ کے تابع ۔ اسی راز کو جاننے کا نام کامیابی ہے۔
میرے علم کے مطابق، تاریخ کی بیشتر تباہیاں، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، اس لئے ہوئی ہیں کہ لوگوں نے حوصلہ کو اوپر کردیا اور برداشت کو نیچے۔اور اپنے حوصلہ مندانہ جذبات کے تحت ایک ایسا اقدام کر ڈالا جو ان کی حقیقی استطاعت (manageable limit) سے باہر تھا۔ چنانچہ ان کا نتیجہ ایسے شخص کا سا ہوا جو کسی ندی کے دھانہ کے نصف کے بقدر چھلانگ لگانے کی طاقت رکھتا ہو مگر وہ پورے دہانے کے اوپر چھلانگ لگا دے۔
کوئی صورت حال پیش آنے پر آدمی اگر ایسا کرے کہ وہ حوصلہ مندانہ چھلانگ سے اپنے آپ کو روکے اور برداشت کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے صورت موجودہ پر قائم رہے تو وہ خواہ بروقت کوئی بڑا فائدہ حاصل نہ کرسکے مگر وہ مزید نقصان سے یقینا بچ جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ حوصلہ جذبات کا نتیجہ ہوتا ہے اور برداشت سوچ کا نتیجہ۔جذبات کے تحت کیا ہوا اقدام اکثر آخر کار آدمی کے لیے ایک پر سٹیج اشو (prestige issue) بن جاتا ہے۔وہ چاہتے ہوئے بھی اپنا قدم واپس لینے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کو حوصلہ جس انجام تک پہنچاتا ہے وہ صرف بے حوصلگی ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی میں اصل اہمیت سوچ کی ہے۔ جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو فطری طورپر آدمی کے اندر سوچ کا عمل (thinking process) جاری ہوتا ہے۔ حوصلہ مندانہ اقدام اکثر اس سو چ کے عمل کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رہنے دیتا۔ اس کے برعکس برداشت کی صفت آدمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ سوچ کا عمل اس کے اندر بلا رکاوٹ مسلسل جاری رہے۔ برداشت کی حیثیت سوچ کے عمل کے لیے ایک معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔ برداشت کی بنا پر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاملہ پر زیادہ دیر تک سوچ سکے اور پھر زیادہ صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے۔
نئی دہلی، ۲۶ دسمبر ۲۰۰۲ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میری خواہش ہے کہ مذکورہ ذیل چند عناوین پر آپ کے خیالات معلوم کروں:
۱۔ ختم نبوت کی حقیقت۔ ۲۔ مسئلہ حیات و ممات حضرت عیسیٰ؈۔ ۳۔ حضرت امام مہدی؈، یعنی ان کا کام کیا ہوگا۔ آپ کے نزدیک ان کا مقام کیا ہوگا۔ ۴۔ مسئلہ اجزائے وحی کی حقیقت۔ یعنی وحی کی کتنی اقسام ہیں۔ کیا وحی کا تعلق صرف انبیاء سے ہوتا ہے۔ کیااب ہر قسم کی وحی بند ہے۔ (محمد وسیم خاں، قادیان)
جواب
۱۔ ختم نبوت کے بارہ میں میں اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔ میرے نزدیک پیغمبراسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت آخری طورپر ختم ہوگیا۔ اب نہ کوئی براہ راست پیغمبر آنے والا ہے اور نہ کوئی بالواسطہ پیغمبر۔ پیغمبر اسلام کے بعد دین خدا وندی کا متن محفوظ ہوگیا۔ عملی طورپر اُس کا ایک تاریخی نمونہ قائم ہوگیا۔ دنیا کے حالات میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں جن کے بعد دین خدا وندی میںکسی قسم کی تحریف کا امکان باقی نہیں رہا۔ اس لیے اب کسی نئے نبی کی ضرورت بھی نہیں۔
۲۔ میرے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اُسی طرح ہوچکی ہے جس طرح دوسرے پیغمبروں کی ہوئی۔ جہاں تک حضرت مسیح کی آمد ثانی کا سوال ہے تو اس بارہ میں میری رائے تقریباً وہی ہے جو علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں بیان کی ہے:
ابن مریم سے مسیح ناصری مقصود ہیں یا مجدد جس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات
۳۔ مہدی کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ وہ پیغمبر کی طرح کوئی عہدہ نہیں ہے بلکہ وہ خدمتِ دین کا ایک معاملہ ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے،مہدی در اصل ایک ہدایت پایا ہوا شخص ہوگا، نہ کہ ہدایت دینے والا شخص۔ غالباً اسی لیے اُس کو ہادی نہیں کہا گیا بلکہ مہدی کہا گیا ۔ بعض روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک ایسا وقت آئے گا جب کہ بگاڑ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ حقیقی سچائی لوگوں سے اوجھل ہوجائے گی۔ اُس وقت اللہ کی توفیق سے ایک ’’رجل مؤمن‘‘ ہوگا جو حقیقی سچائی کو پائے ہوئے ہوگا اور اُس کو لوگوں کے سامنے بیان کرے گا۔ میرے نزدیک مہدی سے مراد مجدّد ہے۔ لیکن مہدی کا مہدی ہونا خود مہدی کو بھی شعوری طور پر معلوم نہ ہوگا۔ اُس کا علم صرف اللہ کو ہوگا جو آخرت میںاُس کا اظہار فرمائے گا۔
۴۔ وحی کی صرف ایک قسم ہے۔ اور یہ وحی وہی ہے جو فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر تک پہنچتی ہے۔ البتہ جیسا کہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے، غیر انبیاء کو بھی خواب یا القاء (inspiration) کی صورت میں خدائی رہنمائی دی جاتی ہے۔ تاہم یہ رہنمائی صرف ایک قرینہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ نہ قطعی ہے اور نہ وہ کسی کے لیے حجّت ہوسکتی ہے۔
سوال
میں ذہنی اعتبار سے پریشان ہوں اور اس کا حل آپ کے ذریعہ سے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایک دینی ادارے میں سروس کرتا ہوں۔ میری تنخواہ کم اور گھریلو حالات ناقابلِ بیان ہیں۔ اس وقت حالات بڑے ہی خراب ہیں۔ اگر کچھ کہتا ہوں تو لڑائی و فساد رونما ہوتا ہے۔ ان حالات میں دل کو اطمینان نہیں ہوتا اور خیالات فاسدہ دل و دماغ میں آتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے میںکیا کروں۔ کیا سروس ختم کردوں یا ان تمام حالات کو برداشت کروں۔میں معاشی اعتبار سے بہت ہی پریشان ہوں۔ برائے کرم اس کا کوئی حل بتائیں۔(محمد عتیق الرحمن ، ہنگولی)
جواب
معاشی مسئلہ ایک انفرادی مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہر ایک کو اپنے حالات کے اعتبار سے ڈھونڈھنا پڑتا ہے۔ کسی کے لیے معاشی مسئلہ کا حل یہ ہوتا ہے کہ وہ کفایت اور سادگی کاطریقہ اختیار کرے۔ کسی کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی ہنر سیکھے۔ کسی کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف تنہا نہ کمائے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس کام میں لگائے۔ کسی کا کیس یہ ہوتاہے کہ وہ بہتر تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ ایسے شخص کے لیے میرا مشورہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے لیے قناعت کا طریقہ اختیار کریں اور بچوں کو اچھی تعلیم دلائیں۔ تاکہ آپ کی اگلی نسل دوبارہ اس مسئلہ کا شکار نہ ہو۔
اس سلسلہ میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ مسائل ہر ایک کو پیش آتے ہیں، خواہ اُس کی آمدنی کم ہو یا زیادہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں صبر کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ گھر والوں کی طرف سے شکایات ہوں تو اُن کا جواب تحمل کے ساتھ دیا جائے۔ ردعمل کا طریقہ ہرگز نہ اختیار کیا جائے۔ کامیاب زندگی گذارنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز دانش مندی ہے، نہ کہ زیادہ آمدنی۔
سوال
یہ حقیقت واضح ہے کہ پانچ وقت کی نماز کاتحفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میں عطا کیا گیا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول معراج میںجانے سے قبل بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیائے کرام کی امامت فرمارہے ہیں۔ برائے مہربانی یہ بتانے کی زحمت فرمائیں کہ وہ کون سی نماز تھی جس کی ہمارے رسول نے امامت فرمائی۔ (زبیر احمد، بھاگلپور)
جواب
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سوال سے منع فرمایااور یہ کہا کہ پچھلی امتیں کثرت سوال کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں(فانما ہلک من کان قبلکم بکثرۃ سؤالہم) (النسائی، کتاب الحج، مسند احمد ۲؍۲۴۷)
مذکورہ سوال اسی نوعیت کا ایک سوال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اس قسم کا سوال ذہن میںآئے تو اُس کو شیطانی وسوسہ سمجھ کر اُس کو اپنے دماغ سے نکال دینا چاہئے، نہ یہ کہ اُس کا جواب حاصل کرنے کے لیے اپنا وقت ضائع کیا جائے۔
کثرتِ سوال سے مراد در اصل غیر متعلق سوال(irrelevent question) ہے۔ اصل یہ ہے کہ فکر صحیح کے لیے ترکیز (concentration) بہت ضروری ہے۔ ترکیز یہ ہے کہ آدمی اپنے فکری عمل کو صرف متعلق سوال تک محدود رکھے اور غیر متعلق سوال میںاُلجھنے سے اپنے آپ کو بچائے۔
مثلاً انبیاء کی امامت کے معاملہ میں یہ ایک غیر متعلق سوال ہے کہ وہ نماز کس وقت کی نماز تھی۔ اُس کا اصل متعلق پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اہتمام کے تحت پیغمبر اسلام نے تمام انبیاء کی امامت کی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ پچھلے نبیوں کے پیروؤں کو چاہئے کہ اب وہ ہدایت کے معاملہ میں پیغمبر اسلام کی اقتدا کریں۔
ایسا جو کیا گیا اُس کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ کہ دوسرے ادیان کو ماننے والے یہ جان لیں کہ اب نجات دین محمدی کی پیروی میں منحصر ہوگئی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی امّت اپنی بڑھی ہوئی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ انسانیت کے حق میں اُس کی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مزید شدت کے ساتھ تمام انسانوں تک پیغمبر اسلام کا لایا ہوا دین پہنچائے۔ وہ اس معاملہ میں آخری حدتک لوگوں کی ہدایت کے لیے حریص بن جائے۔
سوال
حدیث میں یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ مُسلمان تہتّر فرقوں میں بٹ جائیں گے اور ایک کے علاوہ باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ کیا آج کے دور میں ایساکوئی فرقہ موجود ہے جو رسول اللہ ﷺکے طریقوں پر ہُو بہو عمل پیراہے جس سے ہم اپنا ناطہ جوڑ کر اپنی عاقبت سنوار سکیں۔ مذکورہ حدیث کا صحیح مفہوم بھی سمجھائیے۔ (محمد اسلم چوگلے، باندرہ)
جواب
مذکورہ حدیث میں اگر چہ فرقہ کا لفظ آیا ہے مگر اُس سے مراد اجتماعی معنوں میں کوئی فرقہ یا تنظیم یا جماعت نہیں ہے۔ اُس سے مراد کوئی مجموعی فرقہ نہیں ہے بلکہ ایسے صالح افراد ہیں جو بگاڑ کے زمانہ میں امت کے اندر پائے جائیں گے۔ بعد کے زمانہ میں دین کے نام پر اُمت کے اندر جو تنظیمیں بنائی گئیں وہ میرے نزدیک تنظیمی بدعتیں تھیں۔ یہ تصور بلا شبہہ بے بنیاد ہے کہ ان تنظیموں میں سے کوئی تنظیم ایسی ہے جو فرقۂ ناجیہ کی حیثیت رکھتی ہو اور جس سے منسلک ہو کر نجات حاصل ہو جائے۔ اسلامی تصور کے مطابق، نجات ایک انفرادی معاملہ ہے، نہ کہ اجتماعی معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۸

۱۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس کی نمائندہ مزونٹیکا نے یکم نومبر۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ٹیلی فون پر انٹرویو لیا۔ سوالات کاتعلق کلوننگ اور اسلام سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ علاج کی ضرورت کے لیے جزئی کلوننگ اسلام میں جائز ہے مگر پورے معنوں میں کلوننگ، یعنی انسان کا مثنیٰ بنانا اسلام میں جائز نہیں۔ اس طرح کی کلوننگ سے سارا تمدّنی نظام تباہ ہو جائے گا۔ عجیب بات ہے کہ اہلِ مغرب ایک طرف انسانی آبادی میں اضافہ کو سب سے بڑا مسئلہ بتاتے ہیں اور دوسری طرف انسانی کلوننگ کے ذریعہ انسانی آبادی میںاضافہ کی کوشش کر رہے ہیں۔
۲ سہاراٹی وی (نئی دہلی) میں پرکھ کے پروگرام کے تحت ۳۱ جنوری ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کا موضوع جہاد تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اُنہوں نے جوکچھ کہا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ جہاد پُرامن جد وجہد کا نام ہے، وہ قتال کے ہم معنٰی نہیں۔ اسلام میں قتال صرف قائم شدہ ریاست کا کام ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو قتال کرنے کی اجازت نہیں۔ ریاست بھی صرف دفاع کے لیے شدید ضرورت کے تحت قتال کرسکتی ہے۔ ریاست کا یہ قتال بھی اعلان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ بلااعلان جنگ یا پراکسی وار اسلام میں جائز نہیں۔
۳ انجمن امن دوست انسان دوست (نئی دہلی) کے تحت ۲ فروری ۲۰۰۳ کو مہندیان کے میدان میں ایک عوامی جلسہ ہوا۔ اس میں ہندو، مسلم، عیسائی ہر مذہب کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور قومی اتحاد کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کی۔ اس میں بتایا گیا کہ ہندستان مختلف مذہب اور کلچر کا ملک ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اس فرق کو مٹا کر اتحاد قائم کریں۔ مگر یہ ناممکن ہے۔ اتحاد ہمیشہ فرق و اختلاف کو گوارا کرنے سے آتا ہے، نہ کہ فرق و اختلاف کو مٹانے سے۔ مزید یہ کہ فرق و اختلاف ایک رحمت ہے وہ کوئی برائی نہیں۔
۴ ۸ فروری ۲۰۰۳ کو دور درشن (نئی دہلی) نے صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر ریکارڈ کی۔ اس کا موضوع عید الاضحی تھا۔ پندرہ منٹ کی تقریر میں بتایا گیا کہ عیدالاضحی کا مقصد یہ ہے کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم کی سنت پر عمل کرنے کا عہد کیا جائے۔ عیدالاضحی قربانی کی عید ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں حق پر قائم رہے، خواہ اُس کے لیے اُس کو قربانی دینا پڑے۔
۵ کیرلا (کالی کٹ) کے ملیالم اخبار پر بودھنی کے نمائندہ مسٹر کے کے عبد الحکیم اور مسٹر ٹی سعید نے ۱۹ فروری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹر ویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کے مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اس وقت دنیا میں ۵۷ مسلم ممالک ہیں۔ ان سب کے مقابلہ میں ہندستان کے مسلمان نہ صرف تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ وہ ہر اعتبار سے سب سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہندستان میں انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کے لیے جو مسائل ہیں وہ اُن کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے لیے فطرت کی مہمیز ہیں تاکہ وہ اُن کے لیے ترقی کا زینہ بن سکیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندستان کے مسلمان تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔ البتہ میڈیا میں چونکہ یہ خبریں بہت کم آتی ہیں اس لیے عام لوگوں کو اس کی خبر نہیں۔
۶ ہندی پندرہ روزہ وطن دوست (دہلی) کے نمائندہ مسٹر محمد رفیع نے ۲۰ فروری ۲۰۰۳ کو صدراسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر بابری مسجد سے تھا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ ہر سماج میں ہمیشہ نزاع کے اسباب موجود رہـتے ہیں۔ ایسا حقیقۃً فطری قانون کے تحت ہوتا ہے، نہ کہ کسی کے عناد کی بنا پر۔ ایسی حالت میں ہر سماج میںاس کی ضرورت ہوتی ہے کہ لوگ صورت حال سے باخبر رہیں اور ایسے کسی بھی اقدام سے بچیں جس کا نتیجہ دھماکے کی صورت میں نکلنے والا ہو۔ بابری مسجد کے معاملہ میں اس قسم کی ضروری تدبیر نہیں کی گئی۔ اگر پہلے سے ضروری تدبیر کی جاتی تو یقینی طورپر ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کاحادثہ پیش نہ آتا۔
۷ سری نگر کے ہفت روزہ (The Week) کے سینئر کرسپانڈنٹ مسٹر طارق احمد بھٹ نے ۲۱ فروری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلمانانِ ہند کے مسئلہ سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندستان کے مسلمان کی موجودہ حالت کا تقابل اگر ۱۹۴۷ کی حالت سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر اعتبار سے وہ بہت زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔ ذاتی اعتبار سے بھی اور مسجد، مدرسہ، ادارہ وغیرہ کے اعتبار سے بھی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کا مسئلہ صرف میڈیا کی خبروں میںہے۔ حقیقت میںان کا کوئی واقعی مسئلہ نہیں۔ اگر کوئی واقعی مسئلہ ہوتا تو ہر گز وہ اتنی ترقی نہیں کرسکتے تھے۔
۸ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۱ فروری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر بابری مسجد،ایودھیا کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ تین مسجد یا تین ہزار مسجد کی بات اٹھانا بے معنٰی ہے۔ ۱۹۹۲میںہندستان کی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا تھا جس کو پلیسز آف ورشپ ایکٹ(Places of Worship Act) کہا جاتا ہے۔ اس ایکٹ میں یہ مقرر کیا گیا تھا کہ ملک کی تمام عبادت گاہوں کو ۱۹۴۷ کی حالت (statusquo) پر باقی رکھا جائے ۔ البتہ اس میں بابری مسجد کا استثناء کیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ بابری مسجد کا اشو کورٹ میں ہے اس لیے بابری مسجد کا معاملہ کورٹ سے طے ہوگا۔ اب تمام فریقوں کو اسی ایکٹ پر قائم رہنا چاہیے۔ کوئی بھی اقدام جو اس ایکٹ کے خلاف ہو وہ ملک میںانارکی لائے گا، وہ مسئلہ کا حل نہ ہوگا۔
۹ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۲ فروری ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کا موضوع متوقع گاؤکشی قانون تھا۔اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور سوال و جواب کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ گائے اسلام میں کوئی مقدس جانور نہیں۔ وہ دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور ہے۔ ہندستان میںجمہوری نظام ہے۔ اکثریت کی رائے سے اس معاملہ میں جو بھی فیصلہ ہوگا مسلمانوں کے لیے وہ قابل قبول ہونا چاہئے۔ کوئی ایسا فیصلہ جو مسلمانوں کے عقیدہ اور عبادت جیسی مذہبی چیزوں میںخلل کا باعث ہو اس میں تو ضرور مسلمان سامنے آئیں گے۔ مگر گائے کشی جیسے مسئلہ میں مسلمانوں کی پالیسی غیرجانبداری (indifference) کی ہونی چاہئے۔
۱۰ بھارتیہ ودیا بھون (نئی دہلی) کی طرف سے بھون کے ہال میں ۲۵ فروری ۲۰۰۳ کوایک بڑا فنکشن ہوا۔ ا س میں ان کے اسکول کے بارہویں کلاس کے طلبہ اور ان کے ٹیچر اور سر پرست اکٹھا ہوئے۔ یہ ایک الوداعی فنکشن تھا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں چیف گیسٹ کے طورپر بلایا گیا۔اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ زندگی میں کامیابی کا سب سے کارگر فارمولا کیا ہے۔ وہ یہ کہ آپ انسانوں کے خیر خواہ بن جائیں۔ آپ انسان سے محبت کریں۔ ایک جملہ میں وہ فارمولا یہ ہے—ہمیشہ انسان دوست رویہ اختیار کرو:
Be always insan-friendly
۱۱ ایران ٹی وی کی ٹیم نے ۷ مارچ ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا موضوع نماز اور نماز باجماعت سے تھا۔ آدھ گھنٹہ کے اس انٹرویو میں جو کچھ کہاگیا اس کا خلاصہ یہ ـتھا کہ نماز اصلاً اللہ کی یاد کے لیے ہے۔ وہ اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔ مگراسی کے ساتھ وہ ہماری روز مرّہ کی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ پنج وقتہ نمازگویا ٹائم مینیجمنٹ کی تربیت ہے۔ اللہ اکبر تواضع کا سبق ہے۔ سورہ فاتحہ کی قرأت خدا رخی زندگی اختیار کرنے کا پیغام ہے۔ نماز کے آخر میںالسلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنا پر امن زندگی گزارنے کا عہد ہے۔ با جماعت نمازکا مطلب ، تنظیم اور ڈسپلن کے ساتھ نماز ادا کرنا۔ یہ تمام مسلمانوں کے لیے اتحاد کا پیغام ہے۔ اسی لیے قرآن میں نماز کو فلاح کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
۱۲ نئی دہلی کے میگزین راشٹریہ سہارا (انگریزی) کے نمائندہ مسٹر عابد حسین نے ۸ مارچ ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کاتعلق مسلمانان ہند سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے حالات بدسے بد تر ہوتے جارہے ہیں بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے حالات بد سے بہتر ہورہے ہیں۔ مسائل زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔ وہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی دوسروں کی طرح مسائل پیش آتے ہیں اور پیش آتے رہیں گے۔ مگر اسی کے ساتھ نیا زمانہ مسلمانوں کے لیے بہت سے نئے مواقع لایاہے۔ ان مواقع کو استعمال کرکے مسلمان ہرجگہ ترقی کررہے ہیں۔ ہر آدمی خود اپنے حالات کو دیکھ کر جان سکتا ہے کہ آج اس کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ مسجد، مدرسہ ، اسلامی ادارے ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں آج پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔ اس لیے یہ وقتشکر کرنے کا ہے ،نہ کہ شکایت کرنے کا۔
۱۳ سینٹر فار پروموٹنگ ملٹی کلچرل ڈائیلاگ (نئی دہلی) کی طرف سے ۱۷ مارچ ۲۰۰۳ کو ہمدرد یونیورسٹی کے کنونشن سینٹر میں ایک سیمینار ہوا۔ اس کا عنوان یہ تھا:
Communal Harmony for Peace And Progress
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور موضوع پر خطاب کیا۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ سماجی ہم آہنگی ہر ملک کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی ترقی نہیںہوسکتی۔ مگر سماجی ہم آہنگی اس طرح نہیں آسکتی کہ سماج کے اندر اختلافات کو ختم کرکے یکسانیت لائی جائے۔ اس قسم کا اتحادجس کو یونی کلچرلزم کہا جاتا ہے وہ بالکل ناممکن ہے۔ جو چیز ممکن ہے وہ صرف ملٹی کلچرلزم ہے۔ ضرورت ہے کہ لوگوں کو برداشت اور ٹالرنس کی تعلیم دی جائے، نہ کہ بے فائدہ طورپر کلچرل یکسانیت کا بلڈوزر چلایا جائے۔
۱۴ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام چنمیا مشن (نئی دہلی) میںایک آل انڈیا سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا: اکیسویں صدی میں فروغ اردو کا ایجنڈا۔ اس سیمینار کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس کے دو اجلاس ۲۱ مارچ اور ۲۳ مارچ ۲۰۰۳ میںشرکت کی۔ اس موقع پر اُنہوں نے دو تقریریں کیں۔ ان تقریروں میں خاص طور پر بتایا گیا کہ ۱۹۴۷ کے بعد کے حالات میں اردو زبان کوملک میں زندہ رکھنے کا سب سے بڑا کام مدارس نے کیا ہے جس کا جال ہمارے علماء نے سارے ملک میں پھیلا دیا ۔ یہ مدارس جن کا ذریعۂ تعلیم اردو ہوتا ہے وہ ملک میں اردو زبان کے فروغ کے سلسلہ میں سب سے بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ اردو اخبارات کا کردار اس سلسلہ میں صرف ثانوی ہے۔ کیوں کہ اُردو خواں طبقہ پیدا کرنے کا کام مدارس نے کیا ہے۔ اردو اخبارات تو صرف مدارس کی اس فصل کو کاٹ رہے ہیں۔
۱۵ ساؤتھ افریقہ کے ڈاکٹر محمد سادات نے ۲۶ مارچ ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ایک مقالہ کے سلسلہ میں تھا جو وہ امریکی جرنل پیس اینڈ کانفلکٹ (Peace and Conflict) کے لیے تیار کررہے ہیں۔ اس مقالہ کاعنوان یہ ہے:
Violence, Peace and Peace Promotion in Contemporary Islamic Thought: Implications for Dialogue.
جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ اسلام کااقدامی عمل دعوت ہے۔ موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن اور اظہارِ رائے کی آزادی نے دعوتی عمل کے زبردست امکانات کھو ل دئے ہیں۔ یہ نئے امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ اب جنگ و قتال کی کوئی ضرورت نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اسلام کانشانہ حکومت کا قیام نہیں بلکہ افراد کے اندر فکری اور اخلاقی انقلاب لانا ہے۔ افراد کے بدلنے سے ادارے بدلتے ہیں۔ سوسائٹی میںتبدیلی آتی ہے اور آخر کار ریاستی نظام میں انقلاب آتا ہے۔ حکومت کو نشانہ بنا کر سیاسی تحریک چلانا غیر فطری ہے اور گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے کے ہم معنٰی ہے۔
۱۶ میرٹھ شہر میںالرسالہ کے قارئین کا حلقہ عرصہ سے دعوتی کام کررہا ہے۔ وہاں پابندی کے ساتھ ہفتہ وار اجتماع ہوتا ہے اور الرسالہ اور کتابوں کی تقسیم جاری ہے۔ الرسالہ مشن کے سلسلہ میں معلومات حاصل کرنا ہو یا الرسالہ یاکوئی کتاب برائے مطالعہ درکار ہو تو ذیل کے پتہ پر رابطہ قائم کریں:
Muhammad Sajid Khan
Highway Tailors, 143 Valley Bazar
Meerut-250002, Tel. 912-2533268
واپس اوپر جائیں