Pages

Monday 1 October 2012

Al Risala | October 2012 (الرسالہ,اکتوبر)

2

- ذہنی ارتقا کی اہمیت

3

- صداقت کی پہچان

4

- عقل کا مسئلہ

6

- گاڈ پارٹکل کیا ہے

11

- مثبت شخصیت، منفی شخصیت

مشینی باربرداری

- حیوانی باربرداری، 

13

- قرآن کی تلاوت، قرآن کی دعوت

14

- ضمیر کی آزادی

18

- اہلِ ایمان کا غلبہ

19

- حق کو باطل ثابت کرنا

22

- ایک عمومی فتنہ

24

- موت کی یاد: ایک صحت مند عمل

26

- سماجی قبولیت یا نفاذِ قانون

28

- یہ بے خبرانسان

29

- ایک عبرت ناک واقعہ

30

- شیطان کی سنت

31

- ناقابلِ معافی جُرم

32

- اسلام کے نام پر غیر اسلام

33

- جائز فضول خرچی

34

- مواقع کی بربادی

35

- اِحیاءِ سنت

38

- بھولا ہوا سبق

39

- کامیابی کا راز

40

- سُستی کی شکایت

41

- حقیقت پسندی

42

- سوال وجواب

43

- خبرنامہ اسلامی مرکز


ذہنی ارتقا کی اہمیت

قرآن کی سورہ طٰہٰ میں ایک دعا کا حکم ان الفاظ میں دیاگیا ہے: قل ربّ زدنی علماً (114: 20) یعنی تم کہو کہ اے میرے رب، میرا علم زیادہ کردے۔ اِس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم انفعنی بما علّمتنی، وعلِّمنی ما ینفعنی، وزدنی علما(تفسیر ابن کثیر، 3/167) یعنی اے اللہ جو علم تو نے مجھے دیا ہے، اس کو تو میرے لیے نافع بنا، اور مجھے وہ علم دے جو میرے لیے نفع بخش ہو، اور میرے علم میں اضافہ کر۔
اِس آیت اور اِس حدیثِ رسول میں جو بات بتائی گئی ہے، اس کو اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ اِس سے مراد ذہنی ارتقا (intellectual development) ہے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن میں آدمی کو بنیادی علم دے دیاگیا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اِس علم کی روشنی میں مزید غور کرے اور اپنے علم میں برابر اضافہ کرتا رہے۔
علم میںاضافے کا مطلب ہے قرآن کے اشارات میں تفصیل کا اضافہ کرنا، بدلے ہوئے حالات میں قرآن کے انطباق (application) کو از سرِ نو دریافت کرنا، قرآن میں بتائی ہوئی نشانیوں (signs)کو نئی دریافتوں کے ذریعے مزید واضح کرنا، قرآن میں جو کچھ سطور (lines) میں بیان کیا گیا ہے، اُس پر غور کرکے اس کے بین السطور (between the lines) کو دریافت کرنا۔ قرآن میں فکری ارتقا اور تزکیۂ روحانی کے جو اصول بتائے گئے ہیں، اُن کی اِس طرح تعبیر کرنا کہ وہ ہر دور کے ذہنِ انسانی کو ایڈریس کرسکے، وغیرہ-
علم میں اضافے سے مراد ذہنی ارتقا میں اضافہ ہے، یعنی وہ علم جو آدمی کی معرفت کو بڑھائے، جو آخرت پسندانہ ذہن پیدا کرے، جو غیبی حقائق پر یقین میں مزید اضافہ کرے، جو قرآن کے اندر چھپی ہوئی نئی نئی حقیقتوں کو آدمی کے اوپر کھولنے والاہو۔ اِس طرح علم میں اضافہ آدمی کے ایمان میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہوگا، اور ایمان میں اضافہ ایک ایسی چیز ہے جس کی کبھی کوئی حد نہیں آتی۔
واپس اوپر جائیں

صداقت کی پہچان

قرآن کی سورہ ص میں ارشاد ہوا ہے: قل ما أسئلکم علیہ من أجر، وما أنا من المتکلفین- یعنی کہو کہ میں اِس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں:
Say, ‘I do not ask you for any recompense for this, nor am I of those who are given to affectation’. (38:87)
قرآن کی اِس آیت میں پیغمبر کی پہچان کے لیے دو موضوعی معیار (objective criteria) بتائے گئے ہیں- یہ دونوں معیار بلاشبہہ کامل طورپر پیغمبر کی زندگی میں موجود تھے، اور یہی واقعہ اِس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ جس شخص نے پیغمبری کا دعوی کیا ہے، وہ بلاشبہہ اللہ کا سچا پیغمبر ہے-
میں اپنے کام پر تم سے اجر نہیں مانگتا — اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں تم سے اجر کا مطالبہ نہیں کرتا- اِس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اِس مشن کو کسی دنیوی غرض کے لیے نہیں شروع کیا ہے، میرے اِس مشن کا محرک (incentive) صرف آخرت ہے، دولت، شہرت، مقبولیت، جیسی چیزیں میرے عمل کا محرک نہیں- یہ بات یہاں بطور دعوی نہیں ہے، بلکہ وہ اِس معنی میں ہے کہ تمھارے سامنے میری پوری زندگی ہے- تم میری زندگی میں کوئی ایسی مثال نہیں پاؤگے جس سے ظاہر ہوتاہو کہ دنیوی نوعیت کی کوئی چیز میرا مقصود ہے- میری پوری زند گی اِس بات کا ثبوت ہے کہ میرا مقصود صرف آخرت ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں-
دوسری بات یہ فرمائی کہ میں متکلِّف (تکلّف کرنے والا)نہیں ہوں- یہ دعوی نہیں ہے، بلکہ وہ دلیل ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ میرا لہجہ، میرا بول، میرا اندازِ کلام واضح طور پربتاتا ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں، وہ میرے دل کی حقیقی آواز ہے — — یہ معیار جو پیغمبر کی صداقت کو جانچنے کے لیے بتایا گیاہے، وہی بعد کے دور کے داعیوں کے لیے بھی واحد خارجی معیار ہے- سچا داعی وہ ہے جس کے اندر یہ دونوں صفتیں پوری طرح پائی جاتی ہوں-
واپس اوپر جائیں

عقل کا مسئلہ

عقل (reason) کیا ہے- عقل خالق کا ایک قیمتی عطیہ ہے- حدیث میں آیا ہے کہ — اللہ تعالی نے سب سے افضل چیز جو پیدا کی، وہ عقل ہے (ما خلق اللہ خلقاً أکرم علیہ من العقل)- حقیقت یہ ہے کہ انسان کے تمام کمالات کا انحصار عقل پر اور عقل کے استعمال پر ہے، عقل کے بغیر کوئی بھی انسانی ترقی ممکن نہیں-عقل نہ ہو تو انسان پتھر کے ایک اسٹیچو کی مانند ہوجائے گا- وہ نہ حق کو حق سمجھ سکے گا اور نہ باطل کو باطل-
عقل بذاتِ خود معیار (criterion) نہیں ہے- عقل، فہم وادراک کی صلاحیت (ability) ہے- عقل کی حیثیت آلہ یا فیکلٹی (faculty) کی ہے، عقل کی حیثیت مستقل بالذات جج کی نہیں- عقل، حقائق سے نتیجہ اخذ کرنے کی استعداد کا نام ہے:
Reason: The intellectual faculty by which conclusions are drawn from premises.
عقل (reason) اور وحی (revelation) کو ایک دوسرے کا حریف بتانا بلاشبہہ ایک غلطی ہے- حقیقت یہ ہے کہ وحی ایک مستقل ذریعہ علم ہے، جب کہ عقل بذاتِ خود کوئی ذریعہ علم نہیں- خود وحی کی صحت پر جب کوئی شخص یقین کرتاہے تو وہ بھی یہی کرتاہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کو استعمال کرکے اُس پر غور کرتاہے اور پھر یقین کے درجے میں پہنچ کر وہ وحی کی صداقت کو دریافت کرتا ہے- اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ عقل، وحی کی مددگار ہے، نہ کہ وحی کی مدِّ مقابل-
عقل، خالق کی دی ہوئی ایک فطری صلاحیت ہے، عقل کسی کی ذاتی ایجاد نہیں- اِس معاملے میں غلطی کا آغاز یہاں سے ہوا کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح عقل کے معاملے میں بھی کچھ لوگوں نے عقل کا غلو آمیز تصور (extreme version) پیش کیا- انھوں نے انتہا پسندی کا طریقہ اختیار کرتےہوئے خود ساختہ طورپر یہ دعوی کیا کہ عقل بذاتِ خود حصولِ علم کا معیاری ذریعہ ہے- مذہبی طبقے نے اِس تصورِ عقل کو درست سمجھ لیا اور وہ غیر ضروری طورپر عقل یا عقلی غوروفکر کو مذہب کا مخالف سمجھنے لگے اور وہ اِس طرح کی غیرعلمی باتیں کرنے لگے کہ —عقل کا دائرہ الگ ہے اور وحی کا دائرہ الگ- عقل کا دائرہ وہاں پر ختم ہوجاتاہے، جہاں سے وحی کا آغاز ہوتاہے، وغیرہ- اصل یہ ہے کہ عقل الگ ہے اور عقل پرستی الگ-
قرآن میں ’عقل‘کا مادّہ (root)تقریباً 50 بار استعمال ہوا ہے- قرآن میں بار بار عقل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ اپنی عقل کے ذریعے وحی کی صداقت کو دریافت کرو- مثال کے طور پر قرآن کی سورہ یوسف میں یہ آیت آئی ہے: إنا أنزلناہ قرآناً عربیاً لعلکم تعقلون (2:12) یعنی ہم نے اِس کتاب کو عربی قرآن بنا کر اتارا ہے، تاکہ تم سمجھو:
We have sent down the Quran in Arabic, so that you may understand (by applying reason).
اِسی طرح قرآن میں بتایاگیا ہے کہ تم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے نبوت کی صداقت کو دریافت کرو(16: 10)، وغیرہ-انسان کو فطری طور پر مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں- اُنھیں میں سے ایک صلاحیت، عقل ہے- مثلاً پاؤں کے اندر چلنے کی صلاحیت، ہاتھ کے اندر پکڑنے کی صلاحیت، آنکھ کے اندر دیکھنے کی صلاحیت- کان کے اندر سننے کی صلاحیت، وغیرہ- اِسی طرح انسان کو عقل دی گئی ہے جو سوچنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے- اِسی کے ساتھ انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا وہ اُس کا غلط استعمال کرے، اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ کان اور آنکھ کا صحیح استعمال بھی ہے اور اس کا غلط استعمال بھی-
عقل انسان کو اِس لیے دی گئی ہے کہ وہ ڈاٹا (data) جمع کرکے اور پھر حاصل شدہ ڈاٹا کا تجزیہ کرکے صحیح علم تک پہنچنے کی کوشش کرے- تاہم عقل بذاتِ خود علم کا ذریعہ نہیں، اِس لیے عقل صحیح فیصلہ تک بھی پہنچ سکتی ہے اور غلط فیصلے تک بھی- جو لوگ عقل کو بذاتِ خود علم کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ دراصل عقلی مدرسہ فکر (school of thought) کے انتہا پسند (extremists) لوگ ہیں- ایسے انتہا پسند لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، حتی کہ خود مذہب اور عقیدے کے دائرے میں بھی-
واپس اوپر جائیں

گاڈ پارٹکل کیا ہے

گاڈ پارٹکل (God Particle) کیا ہے- گاڈ پارٹکل کا مطلب خدائی ذرہ نہیں، گاڈ پارٹکل دراصل ایک سائنسی مسئلے کی سائنسی تشریح (scientific description) ہے- گاڈ پارٹکل کا تصور دراصل خدا کا مشینی بدل (mechanical substitute of God) ہے- گاڈ پارٹکل کی دریافت کا براہِ راست طورپر مذہبی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں-
God Particle: The Standard Model of physics is used by scientists to explain the building blocks of the universe. According to this model the universe began with a big bang. The Big Bang theory is widely accepted within the scientific community. This theory states that 13.7 billion years ago the universe was in the shape of a very dense and compact cosmic ball. Then an explosion occurred in this compact ball, and all its constituents started flying apart with the speed of light. All the particles released from this cosmic ball were drifting apart from each other at the speed of light, which is the maximum speed of any object in the universe. Everything in the universe is made up of atoms. These atoms are in turn made up of electrons and protons. But, after the explosion of the Big Bang, electrons and protons were speeding away from each other. These particles could bind together to form atoms only if they their speed was decreased. And their speed could be decreased only by being given mass. This is why the Higgs boson is so important. Higgs boson is a subatomic particle. Physicists say its job is to give mass to the particles that make up atoms. Atoms then combined to form molecules, then molecules combined to form compounds, and these compounds gave rise to all the constituents of the universe as it exists today. If the Higgs boson were taken away, the particles which make up atoms, would have zipped through the cosmos at the speed of light, unable to join together to form the atoms that make up everything in the universe, from planets to people. Then all creation would be unthinkable.
4 جولائی 2012 کو سائنس دانوں نے ایک دریافت کا اعلان کیا- اس کو نیرڈسکوری (near discovery)کہاجاتاہے- یہ دراصل ایک سب ایٹمک پارٹکل (sub-atomic particle) کی دریافت ہے جس کے بارے میں پچھلے تقریباً 50 سال سے رسرچ ہورہی تھی- اِسی درمیان 1993 میں ایک امریکی سائنس داں لیان لیڈرمین (Leon Lederman) نے ایک کتاب تیار کی- اس کا ٹائٹل اس نے گاڈ ڈیم پارٹکل (Goddamn Particle)تجویز کیا-اُس وقت تک یہ پارٹکل ایک پراسرار پارٹکل بنا ہوا تھا-لیان لیڈر مین اپنی کتاب میں اِس پارٹکل کا کوئی واضح تصور نہیں دے سکا تھا- اس نے جھنجھلاہٹ میں اپنی اِس کتاب کا نام ’گاڈڈیم پارٹکل‘ رکھ دیا-’گاڈڈیم‘ ایک بگڑا ہوا نام ہے- اردو میں کہتے ہیں خدا کی لعنت- خراب موسم ہو تو کہا جائے گا،گاڈ ڈیم ویدر (Goddamn weather)- پبلشر کو کتاب کا یہ نام پسند نہیں آیا- اس نے بطور خود ’ڈیم‘ کا لفظ نکال دیا اور کتاب کو ’گاڈ پارٹکل‘ کے نام سے چھاپ دیا- اُس وقت سے عوامی طورپر اِس ذرے کو گاڈ پارٹکل کہاجانے لگا- تاہم سائنس دانوں کے نزدیک اِس ذرّے کا نام ہگس بوزان (Higgs Boson) ہے-
بوزان کا لفظ دراصل ’بوس‘ کے نام سے لیا گیا ہے- ستیندرناتھ بوس (SN Bose) ایک انڈین سائنس داں تھے- ان کی وفات 1974میں ہوئی- انھوں نے 1924 میں ’سب ایٹمک پارٹکل‘(behaviour of subatomic particles) کے بارے میں ایک پیپر تیار کیا تھا- اس پیپرکو البرٹ آئن سٹائن (وفات: 1955) اور دوسرے سائنس دانوں نے بہت پسند کیا تھا- اُس وقت سے اِس پارٹکل کا نام بوزان (boson)پڑ گیا ہے- اِس مخصوص پارٹکل کو ’بوزان‘ کا نام سب سے پہلے برٹش سائنس داں پال ڈیراک (Paul Dirac) نے دیا تھا-
اسکاٹ لینڈ کے ایک سائنس داں پیٹر ہگس (Peter Higgs) نے 1964 میں اِس موضوع پر زیادہ واضح انداز میں ایک مفصل پیپر تیار کیا ، جس کا ٹائٹل یہ تھا:
Broken Symmetries and the Masses of Gauge Bosons
اس وقت سے زیر ِ تلاش پارٹکل کو ہگس بوزان کہاجانے لگا-
سائنسی نقطہ نظر سے ہگس بوزان کی اہمیت بہت زیادہ تھی، اِس لیے وہ ساری دنیا کے سائنس دانوں کے لیے تلاش کا موضوع بن گیا- آخر کار 1998 میں اِس موضوع کی تحقیق کے لئے ایک خصوصی سرنگ بنائی گئی- اِس سرنگ کو ایک یورپین ادارہ نے تیار کیا تھا- اس کا نام یہ ہے:
European Oganization for Nuclear Research
اِس سرنگ کا نام یہ تھا — لارج ہیڈرون کولائڈر(Large Hadron Collider) - اِس پروجیکٹ میں دنیا کے ایک سو ملک شریک ہوئے اور 10 ہزار سائنس دانوں اور انجینئروں نے اِس میں کام کیا- 4 جولائی 2012 کو اس پروجیکٹ کے نتیجہ (result) کا اعلان کیا گیا- سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ اِس تحقیق میں وہ ’نیر ڈسکوری‘ تک پہنچ گئے ہیں-
’ہگس بوزان‘ دراصل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل کا ایک گم شدہ پارٹکل ہے جو اِس بات کی توجیہہ کرتا ہے کہ ابتدائی انفجار کے بعد کائنات کیسے وجود میں آئی- فزکس کے اسٹینڈر ماڈل کو سائنس داں کائنات کے بلڈنگ بلاک (building block) کی توجیہہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں- اِس ماڈل کے مطابق، کائنات کا آغاز بگ بینگ سے ہوا- بگ بینگ کا نظریہ سائنس دانوں کے نزدیک عمومی طورپر تسلیم کرلیا گیا ہے- یہ نظریہ بتاتا ہے کہ 13 بلین سال پہلے کائنات ایک بہت بڑے کاسمک بال کی صورت میں تھی- کائنات کے تمام پارٹکل اس کے اندر شدت سے باہم پیوست تھے- پھر اِس کاسمک بال میں ایک انفجار ہوا اور اس کے تمام اجزا چاروں طرف روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے- روشنی کی رفتار معلوم طورپر سب سے زیادہ ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکنڈ ہوتی ہے- کاسمک بال سے جو پارٹکل خارج ہوئے، وہ نہایت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے تھے-ہر چیز جو اِس کائنات میں ہے، وہ ایٹم سے بنی ہے- یہ تمام ایٹم الیکٹران اور پروٹان کے ملنے سے بنتے ہیں- ضرورت تھی کہ یہ تمام پارٹکل باہم ملیں، لیکن بگ بینگ کے انفجار کے بعد الیکٹران اور پروٹان بھاگ رہے تھے، کیوں کہ اُن میں کمیت (mass) نہیں تھی- یہ ذرات باہم مل کر ایٹم کو صرف اُس وقت بنا سکتے تھے جب کہ ان کی رفتار کم ہو، اور ان کی رفتار صرف اُس وقت کم ہوسکتی تھی جب کہ ان کے اندر کمیت پیدا ہوجائے-
ہگس بوزان کی اہمیت یہ ہےکہ وہ اِس سائنسی مسئلے کا جواب فراہم کرتاہے- ہگس بوزان ایک سب ایٹمک پارٹکل کا نام ہے- سائنس دانوں کے مطابق، ہگس بوزان کا کام یہ ہے کہ وہ ایٹم کے پارٹکل کو کمیت عطا کرے- اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایٹم مل کر مالی کیول (molecule) بنائیں اور پھر مالی کیول کے بننے سے کمپاؤنڈ بنے- پھر کمپاؤنڈ کے ملنے سے وہ تمام چیزیں بنتی ہیں جوکہ اِس وقت کائنات میں موجود ہیں-اگر ہگس بوزان نہ ہوتے تو پارٹکل میں کمیت پیدا نہ ہوتی جو کہ باہم مل کر ایٹم بناتے ہیں- اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ تمام پارٹکل روشنی کی رفتار سے خلا میں سفر کرنے لگتے، پھر یہ ناممکن ہوجاتا کہ وہ باہم مل کر ایٹم بنائیں اور اس کے بعد کائنات کی تمام چیزیں وجود میں آئیں، ستاروں سے لے کر سیاروں تک اور غیر ذی روح اشیا سے لے کر ذی روح اشیا تک-
قرآن کی تصدیق
قرآن کی سورہ النساء میں ارشاد ہواہے: أفلا یتدبرون القرآن، ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً (4:82) یعنی کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اُس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے-
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا- یہ سائنس کی دریافتوں سے بہت پہلے کا زمانہ تھا- اِس قبل دریافت زمانے میں قرآن کی اِس آیت کا اترنا گویا یہ دعوی کرنا تھا کہ بعد کی دریافت شدہ حقیقتیں قرآن کے عین مطابق ہوں گی، قرآنی بیانات اور دریافتوں کے درمیان کبھی عدم مطابقت (inconsistency) نہ ہوگی- اِس طرح یہ واقعہ اِس بات کی تصدیق ہوگا کہ قرآن عالم الغیب کی کتاب ہے، کیوں کہ عالم الغیب کے سوا کوئی بھی پیشگی طورپر اِن حقیقتوں کو نہیں سمجھ سکتا تھا-
اِس اعتبار سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بگ بینگ کا تصور اور ہگس بوزان کا تصور پیشگی طورپر قرآن میں موجود تھا- اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ الانبیاء کی درج ذیل آیت کا مطالعہ کیجئے: أولم یر الذین کفروا أن السماوات والأرض کانتا رتقاً ففتقناہما، وجعلنا من المائ کل شیئ حیّ، أفلا یؤمنون (21:30) یعنی کیا انکار کرنےوالوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے اُن کو کھول دیا- اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا- کیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے-
قرآن کی اِس آیت میں تخلیق کے تین مرحلوں کا ذکر ہے — پہلے مرحلے کو ’رتق‘ کہاگیا ہے- رتق کا مطلب ہےمنضم الأجزاء یعنی کائنات کے تمام پارٹکل کا باہم جڑاہوا ہونا- اِس میں کاسمک بال کی طرف اشارہ ملتا ہے- دوسرے مرحلے کو قرآن میں ’فتق‘ سے تعبیر کیا گیاہے- فتق کا مطلب ہے: الفصل بین المتصلین، یعنی باہم ملی ہوئی چیزوں کا ایک دوسرے سے الگ ہوجانا- اس میں بگ بینگ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے- اِس کے بعد تیسرے مرحلے میں پانی (الماء) کے بننے کا ذکر ہے- یہاں پانی کا ذکر علامتی طورپر ہے، یعنی پانی اور دوسری تمام چیزیں-
پانی ایک جوہری مادہ(substance) ہے- اِس طرح کے بہت سے جوہری مادّے کائنات میں پائے جاتے ہیں- پانی ہائڈروجن کے دو ایٹم اور آکسیجن کے ایک ایٹم کے ملنے سے بنتا ہے- یہی معاملہ دوسری تمام مادّی چیزوں کا ہے- ہر چیز ایٹم کے ملنے سے بنی ہے اور ایٹم اُس وقت بنا جب کہ اس کے پارٹکل میں کمیت (mass) پیدا ہوئی- اِس طرح، اِس آیت میں پانی کا ذکر کرکے اِس نوعیت کی دوسری تمام مادی چیزوں کی طرف اشارہ کردیاگیا ہے، یعنی ’فتق‘کے واقعے کے بعد تمام پارٹکل میں کمیت کا پیداہونا اور پھر پارٹکل کا مجتمع ہو کر تمام چیزوں کا وجود میں آنا-
قرآن، سائنس کی کتاب نہیں ہے، البتہ قرآن میں مظاہر فطرت کے بہت سے حوالے دئے گئے ہیں جو کہ سائنس کا موضوع تحقیق ہیں- قرآن کا مقصد صرف یہ ہے کہ فطرت میں موجود آیات (signs) کا حوالہ دے کر قرآن کی آئڈیالوجی کو علمی طورپر ثابت کرنا- اِس طرح قرآن میں فطرت کے بہت سے مظاہر کے متفرق حوالے (fragmentary references)دئے گئے ہیں- اِن حوالوں کے بارے میں قدیم زمانے میں کچھ معلوم نہ تھا- گویا کہ قرآن میں یہ حوالے مستقبل کی انسانی نسلوں کو شامل کرتے ہوئے دئے گئے تھے- اِس طرح انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ قرآن کے اِن حوالوں کا تقابل بعد کے حالات سے کرکے قرآن کی صداقت کی تصدیق حاصل کرے-
واپس اوپر جائیں

مثبت شخصیت، منفی شخصیت

اسلامی فقہ کا یہ مسئلہ ہے کہ اگر ایک ٹب پاکیزہ پانی ہو، اُس میں گندگی کا ایک قطرہ ڈال دیا جائے تو ٹب کا پورا پانی گندا ہو جائے گا- اِس کے برعکس، اگر ایک ٹب گندا پانی ہو اور اس میں ایک قطرہ پاک پانی ڈال دیا جائے تو اُس سے وہ پانی پاک نہیں ہوجائے گا، بلکہ وہ بدستور گندا رہے گا- یہ ایک خارجی نوعیت کی مادی مثال ہے- یہی معاملہ انسان کی داخلی شخصیت کا ہے-
ایک شخص کے ذہن میں اگر 99 مثبت آئٹم ہوں اور صرف ایک منفی آئٹم اس کے اندر داخل ہوجائے تو یہی منفی آئٹم غالب آجائے گااور آدمی کی پوری شخصیت منفی شخصیت بن جائے گی- یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ مثبت سوچ کسی درجے میں بھی منفی سوچ کو قبول نہیں کرتی- آدمی کی شخصیت یا تو صد فی صد مثبت شخصیت ہوگی، یا وہ سرے سے مثبت شخصیت ہی نہ ہوگی-
یہ ایک اہم نفسیاتی اصول (psychological principle)ہے جو آدمی اپنے اندر مثبت شخصیت (positive personality) کی تعمیر کرنا چاہتا ہے، اُس کو لازمی طورپر یہ کرنا ہے کہ وہ سختی کے ساتھ اپنا محاسب بن جائے- وہ ہر وقت اِس بات کی نگرانی کرتا رہے کہ اس کے ذہن میں ادنی درجے میں بھی کوئی منفی سوچ داخل نہ ہو- شکایت یا نفرت کا کوئی ایک آئٹم بھی اگر اس کے اندر موجود ہے تو وہ ڈھونڈ کر اس کو باہر نکال دے- اِس معاملے میں وہ خود اپنا نگراں بن جائے-
تعمیر شخصیت کا یہ ایک مستقل عمل ہے جو ہر آدمی کو ہر صبح وشام انجام دینا ہے- کوئی بھی دوسرا عمل اِس معاملے میں غفلت کی تلافی نہیں بن سکتا-
یاد رکھنا چاہیے کہ مثبت شخصیت ہی ربانی شخصیت ہے اور ربانی شخصیت ہی وہ شخصیت ہے جس کو آخرت کے دورِ حیات میں جنت میں داخلہ ملے گا- منفی شخصیت رکھنے والے لوگ بلاشبہہ جنت میں داخلے کے لیے غیر مستحق قرار پائیں گے-
واپس اوپر جائیں

حیوانی باربرداری، مشینی باربرداری

ترکی کی ’’جامع سلیمانیہ‘‘ ایک مشہور تاریخی مسجد ہے- اس کو ترکی کے مشہور عثمانی خلیفہ سلیمان اعظم نے سولھویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا تھا- اِس مسجد کی تعمیر میں دنیا کے مختلف مقامات کے قیمتی پتھر استعمال کئے گئے ہیں- کہاجاتا ہے کہ یہ پتھر دور کے مقام سے بیل گاڑیوں پر رکھ کر یہاں لائے جاتے تھے- بعض مرتبہ زیادہ وزنی پتھروں کو منتقل کرنے کے لیے بیلوں کی دس جوڑیوں پر مشتمل بیل گاڑیاں استعمال کی جاتی تھیں-
یہ حیوانی بار برداری کے زمانے کا واقعہ ہے- اب ہم ایک نئے دور میں ہیں- اِس نئے دور کو مشینی بار برداری کا دور کہا جاسکتا ہے- دور کی اِس تبدیلی نے انسان کے لیے غیر معمولی سہولتیں پیدا کردی ہیں- اِن نئی سہولتوں کا مزید پہلو یہ ہے کہ قدیم زمانے میں دس جوڑیوں کے بیل سے چلنے والی گاڑی کا استعمال صرف کسی بادشاہ کے لئے ممکن ہوتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں مشینی بار برداری سے فائدہ اٹھانا ہر عورت اورمرد کے لیے ممکن ہوگیاہے-
موجودہ زمانے میں انسان کے لیے غیر معمولی نوعیت کی جو عمومی سہولتیں پیداہوئی ہیں، مذکورہ واقعہ اِس نوعیت کی صرف ایک چھوٹی مثال ہے- موجودہ زمانہ گویا سہولتوں کے انفجار (explosion) کا زمانہ ہے- موجودہ زمانے میںمختلف نوعیت کی بے شمار سہولتیں وجود میں آئی ہیں- ہر آدمی ان سہولتوں کو دیکھتا ہے اور ان کا تجربہ کرتاہے- یہ سہولتیں ہر آدمی کے لیے پوری طرح ایک معلوم واقعہ ہیں- مگر عجیب بات ہے کہ لوگوں کی زبان پر نہ اُن انسانوں کا اعتراف ہے جنھوں نے غیر معمولی محنت کے بعد ان سہولتوں کو واقعہ بنایا اور نہ لوگوں کی زبان پر اُس خالق کا اعتراف دکھائی دیتاہے جس نے موجودہ دنیا میں یہ امکانات رکھے تھے، تاکہ کچھ انسان اٹھیں اور اِن امکانات کو واقعہ بنادیں — جو شخص انسانوں کا شکر گزار نہیں، وہ خدا کا شکر گزار بھی نہیں ہوسکتا (من لم یشکر الناس، لم یشکر اللہ)-
واپس اوپر جائیں

قرآن کی تلاوت، قرآن کی دعوت

استانبول (ترکی) کے مشہور توپ کاپی پیلیس (Topkapi Palace)میوزیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کئی چیزیں موجود ہیں- مثلاً دو تلواریں، جبّہ، مقوقس کے نام آپ کا مکتوب، وغیرہ- سلطان سلیم نے اِن چیزوں کے لیے یہاں ایک مخصوص کمرہ بنوایاتھا- اِس کمرے میں وہ خود اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتے تھے- اِس کے علاوہ، انھوں نے اِس کمرے میں مختلف حفاظِ قرآن کو مقرر کیا تھا جو چوبیس گھنٹے یہاں قرآن کی تلاوت کرتے تھے- حفاظ کی ڈیوٹیاں مقرر تھیں- چناں چہ وہ باری باری یہاں آکر قرآن کی تلاوت کرتے رہتے تھے-
اِس قسم کی تلاوتِ قرآن صرف بعد کے زمانے کی پیداوار ہے- رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں اِس قسم کی تلاوتِ قرآن کا کوئی وجود نہ تھا- رسول اور اصحاب رسول، قرآن کو کتاب دعوت کے طور پر استعمال کرتےتھے، نہ کہ صرف کتاب تلاوت کے طورپر- حقیقت یہ ہے کہ قرآن رہنمائی کے لیے اترا ہے- وہ اس لیے نہیں اتارا گیا کہ اس کو ’’برکت‘‘ کے طورپر صبح وشام پڑھا جاتا رہے-
قرآن کے سلسلے میں اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ اُس پر ایمان رکھنے والے اُس سے اپنی زندگی کے لیے رہنمائی حاصل کریں اور پھر دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ تیار کرکے اس کو تمام انسانوں تک پہنچائیں- اِن کے سوا قرآن کا کوئی بھی دوسرا استعمال کرنے سے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا- قرآن کا احترام کرنا یا قرآن کو خوب صورت کپڑے میں لپیٹ کر رکھنا، یا شب وروز قرآن کی تلاوت کرنا، اِس قسم کا کوئی بھی عمل قرآن کا حق ادا کرنے کے لیے کافی نہیں-
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ امت بعد کے زمانے میں قرآن کو کتابِ مہجور (25:30) بنادے گی- اِس کا مطلب یہی ہے-قرآن جب نہ کتاب ہدایت رہے اور نہ کتابِ دعوت، تو یہی وہ حالت ہے جس کو ’’کتاب مہجور‘‘ بنا دینا کہاگیا ہے — قرآن ;کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنے لیے کتابِ ہدایت ہے اور دوسروں کے لیے کتابِ دعوت-
واپس اوپر جائیں

ضمیر کی آزادی

خدا کی تخلیقی اسکیم میں انسانی آزادی کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ انسان کو اِس دنیا میں امتحان کے لیے رکھا گیاہے، اور آزادی کے بغیر امتحان ممکن نہیں۔ انسان کا مستقبل تمام تر اِس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتاہے، یا وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتاہے۔ اگر انسان کی آزاد فکری پر روک لگادی جائے تو اس کے بعد امتحان کا تصور بے معنی ہو جاتاہے۔
قرآن میں واضح لفظوں میں ارشاد ہوا ہے: لا إکراہ فی الدین، قد تبین الرشد من الغیّ، فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقیٰ، لاانفصام لہا۔ واللہ سمیع علیم(256: 2) یعنی دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت، گمراہی سے الگ ہوچکی ہے۔ پس جو شخص شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو ٹوٹنے والا نہیں۔ اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
اِسی طرح قرآن میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: فذکّر إنما أنت مذکّر۔ لستَ علیہم بمصیطر۔ إلا من تولی وکفر۔ فیعذبہ اللہ العذاب الأکبر۔ إن إلینا إیابہم۔ ثم إن علینا حسابہم(21-26: 88)یعنی (اے پیغمبر) تم بس یاد دہانی کرو، تم بس یاد دہانی کرنے والے ہو۔ تم اُن پر داروغہ نہیں۔ مگر جس شخص نے روگردانی کی اور انکار کیا، تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا۔ ہماری ہی طرف ہے ان کی واپسی، پھر ہمارے ہی ذمے ہے اُن کا حساب لینا۔
اِس طرح کی قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کو اِس بات کی کامل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہے، سوچے او ر جس طرح چاہے، بولے اور لکھے۔یہ آزادی انسان کو اُس وقت تک حاصل رہتی ہے جب تک کہ وہ دوسرے انسانوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ اسلام میں سماجی جرم (social crime) کا تصور ہے، مگر اسلام میں فکر ی جرم (thought crime) کا کوئی تصور نہیں۔
لندن سے 406 صفحات پر مشتمل ایک کتاب چھپی ہے۔ کتاب کا نام اور مصنف کانام یہ ہے:
Richard Dawkins, The God Delusion (2006)
کتاب کے مصنف نے افغانستان کے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے، جب کہ ایک افغانی شخص (عبد الرحمن) نے اپنا مذہب بدل دیا۔ اُس نے اسلام کو چھوڑ کر مسیحی مذہب اختیار کر لیا۔ اِس پر افغانستان کی عدالت میں اس کے لیے موت کی سزا سنائی گئی۔ اِس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے:
It is still an article of constitution of 'liberated' Afghanistan that the penalty for apostasy is death. Apostasy, remember, doesn't mean actual harm to persons or property. It is pure thought crime, to use George Orwell's 1984 terminology, and the official punishment for it under Islamic law is death. (p. 287)
یعنی اب بھی آزاد افغانستان کے قانون کا ایک حصہ یہ ہے کہ ارتداد کی سزا قتل ہے۔ یاد رکھئے کہ ارتداد کا مطلب کسی انسان کو یا کسی کی پراپرٹی کو حقیقی نقصان پہنچانا نہیں ہے۔ 1984 میں انگلش آتھر جارج آرویل کی وضع کردہ اصطلاح کو لیتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک خالص ’فکری جرم‘ ہے، اور اسلام کے قانون کے مطابق، اِس جرم کی مسلّمہ سزا قتل ہے۔
یہ صرف غلط فہمی کا ایک معاملہ ہے۔ مصنف نے افغانستان میں ہونے والے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے اور اُس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس قانون کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ یہ بعد کے کچھ فقہا کا مسلک ہے، نہ کہ قرآن اور سنت کا مسلک۔ اسلام کے قانون کا مستند ماخذ صرف قرآن وسنت ہے، کوئی بھی دوسری چیز اسلام میں قانون کا ماخذ نہیں۔
جدید مغربی فکر میں آزادی کو خیر اعلیٰ (summum bonum) سمجھا جاتاہے۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ آزادیٔ فکر کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ اِس کے برعکس، وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں صرف محدود آزادی کا تصور ہے، اِس لیے اسلام دورِ جدید کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ یہ بات صرف غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں آزادی کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ مغربی تہذیب میں۔ اور یہ بالکل فطری بات ہے، کیوں کہ اسلام کے مطابق، انسان کو موجودہ دنیا میں امتحان (test) کے لیے رکھا گیاہے۔ امتحان کے لیے آزادی لازمی طورپر ضروری ہے۔ آزادی کے بغیر امتحان ممکن نہیں، اِس لیے آزادی خود خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) کا ایک لازمی حصہ ہے۔
اسلام میں آزادی ہر انسان کا مطلق حق ہے، لیکن وہ ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ شرط وہی ہے جو خود مغربی تہذیب کا مسلّمہ ہے، یعنی انسان کو آزادی صرف اپنے ذاتی دائرے میں حاصل ہے۔ آدمی کی آزادی اُس وقت ختم ہوجاتی ہے، جب کہ وہ دوسرے کے لیے ضرر رساں (harmful) بن جائے۔
اِس کے علاوہ، اسلام میں آزادی ایک اور لحاظ سے بھی ہے۔ خالق نے اِس دنیا میں ہر چیز کو امکان (potential)کے طور پر پیدا کیا۔ اِس امکان کو واقعہ بنانے کا کام انسان کو خود کرنا ہے۔ مثلاً خالق نے خام لوہا (ore) بنایا۔ خام لوہے کو مشین کی صورت دینا، یہ انسان کا اپنا کام ہے۔ یہ تمام تر ترقیاں صرف اُس وقت حاصل ہوسکتی ہیں جب کہ انسان کے اندر آزادانہ طورپر ذہنی سرگرمیاں جاری ہوں۔ اِس مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان کو اِس دنیا میں کامل آزادی حاصل ہو۔
تاہم اسلام میں جرم کی دو قسمیں ہیں— جرم بہ مقابلہ انسان (crime vis-à-vis man) اور جرم بہ مقابلہ خدا (crime vis-à-vis God) ۔ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے، ہر انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں مکمل طورپر فکری آزادی حاصل ہے۔ اُس کا معاملہ صرف اُس وقت قابلِ مواخذہ یا قابلِ سزا (punishable) بنے گا، جب کہ وہ دوسرے انسان کے لیے عملی طورپر جارح بن جائے۔
مگر خدا کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ کوئی شخص خدا کو عملی جراحت نہیں پہنچا سکتا۔ خداکے معاملے میں جرم یہ ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے خلاف رویہ اختیار کرے، وہ خدا کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم کا اتباع نہ کرے۔ اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان خدا کے معاملے میں غلط عقیدہ بنائے۔ مثلاً خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانا، انسان کو خدا کا بیٹا قرار دینا، خدا کے پیغمبر کا انکار کرنا، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں اگر چہ تھاٹ کرائم (thought crime) کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن وہ خدا کے نزدیک، قابلِ سزا کرائم (punishable crime) ہیں۔ ایسے لوگ اگر اِسی حال میں مریں تو بلاشبہہ وہ خداکی سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔لیکن جرم بہ مقابلۂ خدا کے معاملے میں، سزا کا اختیار صرف خدا کو ہے، جو کہ آخرت میں کسی انسان کو دی جائے گی۔ جرم بہ مقابلہ انسان کے بارے میں فیصلہ کرنا، انسانی عدالت کا کام ہے۔ لیکن جرم بہ مقابلہ خدا کا تعلق انسانی عدالت سے نہیں۔ ایسے معاملے میں انسان کو صرف پرامن دعوت وتبلیغ کاحق ہے، نہ کہ عملی سزا کا حق۔
اسلام میں آزادیٔ ضمیر (freedom of conscience)کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہے جتنی کہ کسی دوسرے نظامِ فکر میں۔ البتہ اسلامی نظامِ فکر اور سیکولر نظامِ فکر میں اِس اعتبار سے ایک فرق پایا جاتا ہے۔سیکولر نظامِ فکر میں آزادیٔ ضمیر کو مطلق (absolute) حیثیت حاصل ہے، یعنی سیکولر نظامِ فکر کے مطابق، ایک شخص کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو مطلق معنوں میں صداقت سمجھے، مگر اسلامی نظام فکر میں ایسا نہیں۔ اسلامی نظامِ فکر کے مطابق، صداقت (truth) کا معیار کسی کے ضمیر کی آواز نہیں ہے، بلکہ اس کا معیاروحی الٰہی ہے۔ جو تصور وحی الٰہی کے مطابق ہو، وہی درست تصور ہے۔ اور جو تصور وحی الٰہی سے مطابقت نہ رکھتا ہو، وہ انسان کا ذاتی واہمہ (obsession) یا کنڈیشننگ کا نتیجہ ہے، نہ کہ مطلق معنوں میں صداقت۔
آزادی ضمیر سے وابستہ یہ سوال بھی ہے کہ اظہارِ خیال کی آزادی کا حکم کیا ہے۔ اِس معاملے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ انسان کو اظہارِ خیال کی آزادی کا کلی حق حاصل ہے۔ آدمی جب تک دوسرے انسان کے لیے جارح نہ بنے، اس کو کامل معنوں میںاظہار خیال کی آزادی حاصل رہے گی۔مگر اسلام کے مطابق، انسانی زندگی کے دومرحلے ہیں— موت سے پہلے، اور موت کے بعد۔ اظہارِ خیال کی کامل آزادی کا حق صرف موت سے قبل کی دنیا کے لیے ہے۔ موت کے بعد کی دنیا میں خدا یہ فیصلہ کرے گا کہ کس نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا اور کس نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا۔ پھر اس کے بعد ہر ایک کے لیے اس کے دنیوی ریکارڈ کے مطابق، انعام یا سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اہلِ ایمان کا غلبہ

قرآن کی سورہ آل عمران میں غزوۂ احد(3 ہجری) پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: ولا تہنوا ولا تحزنوا، وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین (139: 3) یعنی ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے، اگر تم مومن ہو۔ قرآن کی اِس آیت کے سیاق وسباق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا تعلق اللہ کی سنت سے ہے، نہ کہ مومنین کی فضیلت سے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مومنین اپنی گروہی فضیلت کی بناپر لازماً کامیاب ہوںگے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کا جو گروہ اللہ کی سنت پر قائم ہوگا، وہ ضرور اللہ کی نصرت کا مستحق ٹھہرے گا اور اِس بنا پر وہ لازماً کامیاب ہوگا۔
اِس آیت میں جن مومنین کا ذکر ہے، اُس سے مراد اصحابِ رسول ہیں۔ اصحابِ رسول ایک خدائی مقصد کے لیے اٹھے تھے، یعنی دعوت الی اللہ کا مشن۔ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ اس کا پیغام تمام انسانوں تک پہنچایا جائے۔ اصحابِ رسول کا مشن یہی دعوت الی اللہ تھا۔ اصحابِ رسول کو جو لڑائی پیش آئی، وہ خود اصحابِ رسول کے اقدام کی بنا پر نہ تھی، بلکہ وہ تمام تر فریقِ ثانی کی جارحیت کی بناپر پیش آئی۔ جو اہلِ ایمان اِس طرح کے خدائی مشن کے لیے اٹھیں اور اس کے تقاضے کو پورا کریں، وہ اِس جدوجہد میں کسی قومی مفاد کو شامل نہ کریں تو وہ لازماً اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔
اِس کامیابی کا تعلق نہ سیاسی اقتدار سے ہے اور نہ قومی مفادات سے۔ اِس کا تعلق تمام تر اِس بات سے ہے کہ اہلِ ایمان کا گروہ جس کام کے لیے اٹھے، وہ کوئی قومی کام نہ ہو، بلکہ وہ تمام تر اللہ تعالیٰ کا مطلوب کام ہو۔ مثلاً مسلم اقتدار کے لیے اٹھنا ایک قومی کام ہے۔ اِس کے برعکس، دعوت الی اللہ کے لیے اٹھنا ایک خدائی کام ہے—— قرآن کی مذکورہ آیت میں جس کامیابی کا وعدہ کیاگیا ہے، اُس کا تعلق قومی کام سے نہیں، بلکہ خدائی کام سے ہے۔ اہلِ ایمان کی اِ س کامیابی کا مطلب خدائی نشانے کا پورا ہونا ہے، نہ کہ مسلمانوں کے قومی مقاصد کا حاصل ہونا۔
واپس اوپر جائیں

حق کو باطل ثابت کرنا

قرآن کی سورہ الکہف کی ایک آیت یہ ہے: وما نرسل المرسلین إلا مبشرین ومنذرین، ویجادل الذین کفروا بالباطل لیدحضوا بہ الحق، واتخذوا اٰیاتی وما أنذروا ہُزوا (56: 18)یعنی رسولوں کو ہم صرف خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجتے ہیں۔ اور منکر لوگ بے بنیاد باتوں کو لے کر جھگڑا کرتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے وہ حق کو باطل ثابت کردیں۔اور انھوں نے میری نشانیوں کو اور جن چیزوں سے ان کو ڈرایا گیا، اُس کو مذاق بنادیا۔
اِس آیت میں ’دحض‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دحض کا لفظی مطلب ابطال (refutation) ہے، یعنی حق کو باطل قرار دینا۔ حق کے مقابلے میں یہ طریقہ ہمیشہ دنیا میں رائج رہاہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جارحانہ دحض کا طریقہ رائج تھا، اور اب غیر جارحانہ دحض کا طریقہ پایا جاتاہے۔
اِس معاملے کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ امریکاکے ایک کمپیوٹر اسپیشلسٹ مسٹر ڈیوڈ (David Coppedge) جوناسا (NASA) میں ایک بڑی پوسٹ پر تھے، اُن کو سروس سے نکال دیاگیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ تخلیق کے بارے میں انٹیلی جنٹ ڈزائن (intelligent design) کے تصور کو مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ — تخلیق میں ضرور ایک بالاتر طاقت کا ہاتھ ہے، کیوں کہ زندگی اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ وہ تنہا ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں نہیں آسکتی۔
ایک امریکی اسکالر جان ویسٹ (John West) نے اِس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیوڈ کا ریمارک ڈارون کے نظریہ ارتقا کو مشتبہ ثابت کرتاہے، جب کہ ماڈرن طبقے کا یہ حال ہے کہ اس نے ایسے کسی بھی شخص کے خلاف عملاً ایک جنگ چھیڑ رکھی ہے جو ڈارون سے اختلاف کرے:
There is basically a war on anyone who dissents from Darwin.
Did Nasa Sack Specialist Over ‘Intelligent Design’?
LOS ANGELES: Nasa’s Jet Propulsion Laboratory has landed robotic explorers on the surface of Mars, sent probes to outer planets and operates a worldwide network of antennas that communicates with interplanetary spacecraft. Its latest mission is defending itself in a workplace lawsuit filed by a former computer specialist who claims he was demoted - and then let go - for promoting his views on intelligent design, the belief that a higher power must have had a hand in creation because life is too complex to have developed through evolution alone. David Coppedge, who worked as a “team lead” on the Cassini mission exploring Saturn and its many moons, alleges that he was discriminated against because he engaged his co-workers in conversations about intelligent design and handed out DVDs on the idea while at work. Coppedge lost his “team lead" title in 2009 and was let go last year after 15 years on the mission. Opening statements are expected to begin on Monday in the Los Angeles Superior Court after two years of legal wrangling. “It’s part of a pattern . There is basically a war on anyone who dissents from Darwin and we've seen that for several years,” said John West, associate director of the Center for Science and Culture at the Seattle-based Discovery Institute. The National Center for Science Education, which rejects intelligent design as thinly veiled creationism, is also watching the case. “It would be unfortunate if the court took what seems to be a fairly straightforward employment law case and allowed it to become this tangled mess of trying to adjudicate scientific matters,” said Josh Rosenau, NCSE's programs and policy director. “It looks a pretty straightforward case. The mission was winding down and he was laid off.” Coppedge’s attorney, William Becker, says his client was singled out by his bosses as they perceived his belief in intelligent design to be religious. Coppedge had a reputation around JPL as an evangelical Christian. (The Times of India, New Delhi, March 13, 2012, p. 17)
امریکا کے پارلیامنٹ ہاؤس کے باہر یہ جملہ لکھا ہوا ہے کہ — ہم صرف خدا پر بھروسہ کرتے ہیں(In God We Trust) ۔ یہی امریکا کے ہر ڈالر پر لکھا ہوا ہوتا ہے۔ مگر مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ امریکا کے مروّجہ نظام میں خدا کا تصور اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک اجنبی تصور ہے۔ خدا کا لفظ امریکا کی ڈکشنری میں ضرور پایا جاتا ہے، مگر خدا باعتبار حقیقت امریکی زندگی سے مکمل طورپر خارج ہے۔
یہ دو عملی (dualism) آج ساری دنیا کا کلچر ہے، سیکولر لوگوں کا بھی اور مذہبی لوگوں کا بھی، حتی کہ مسلمانوں کا بھی اِس میں کوئی استثنا نہیں۔ آج تمام لوگوں کا یہ حال ہے کہ خدا اُن کے یہاں صرف ایک رسمی عقیدہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ رسمی عقیدہ کے باہر لوگوں کی جو عملی زندگی ہے، وہ مکمل طورپر دنیوی مصلحت (material interest) پر قائم ہے۔ اِس قسم کے مذہب اور لامذہبیت میں اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک عمومی فتنہ

قرآن کی سورہ الانفال میں ارشاد ہوا ہے: واتقوا فتنۃً لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصّۃ(8:25) یعنی ڈرو اُس فتنے سے جو خاص اُنھیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے غلط کاری کے مرتکب ہوئے ہیں:
Beware of an affliction that will not smite exclusively those among you who have done wrong.
قرآن کی اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد خدائی فتنہ نہیں ہے، بلکہ انسانی فتنہ ہے، یعنی اشتعال کی وہ صورتِ حال جو ایک انسان یا بعض انسانوں کے ناعاقبت اندیشانہ عمل کے ذریعے پیداہوئی ہو۔ اِس طرح کی صورتِ حال جب کسی سماج میں پیدا ہو جائے تو اُس کے بعد وہاں جو شورش برپا ہوگی، اس کا برا انجام انتخابی طور پر پیش نہیں آئے گا، بلکہ اس کا برا انجام عمومی طورپر پورے سماج کو بھگتنا پڑے گا۔
مثال کے طورپر ایک شہر میں غیر مسلموں کی ایک عبادت گاہ ہے۔ وہاں لاؤڈاسپیکر پر اُن کا کوئی پروگرام ہورہا ہے۔ اب اگر کچھ مسلمانوں کو اِس پر شکایت پیدا ہو، وہ غیر مسلم عبادت گاہ میں جاکر اُن سے لاؤڈاسپیکر بند کرنے کے لیے کہیں، مگر وہ لوگ اس کو بند نہ کریں۔ اِس پر مسلمان غصہ ہوجائیں اوروہ اُن کے لاؤڈاسپیکر کو توڑ کر پھینک دیں، تو یہ معاملہ کسی حد پر نہیں رکے گا، بلکہ جب یہ خبر پھیلے گی تو غیر مسلموں کی پوری کمیونٹی شدید رد عمل کا شکار ہو جائے گی۔ وہ مسلم کمیونٹی کے خلاف جذباتی کارروائی کرے گی۔ اِس کارروائی کا نشانہ صرف وہی مسلمان نہیں بنیں گے جنھوں نے لاؤڈاسپیکر کو توڑا تھا، بلکہ اس مقام کی پوری مسلم کمیونٹی اس کی زد میں آجائے گی۔
اِسی طرح مثلاً غیر مسلموں کا ایک جلوس نکلتا ہے۔ وہ ایسی سڑک سے گزرنا چاہتا ہے جہاں مسلمانوں کی مسجد واقع ہے۔ اب کچھ مسلمان سامنے آجاتے ہیں۔ وہ جلوس والوں سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ تم لوگ اپنے جلوس کا راستہ بدلو۔ اِس سے ہماری مسجد کی بے حرمتی ہوگی۔ اب مسلمان پولس سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ وہ مداخلت کرے اور جلوس کی روٹ (route) کو بدلوائے۔ مگر پولس، مسلمانوں کی مانگ کے مطابق، جلوس کی روٹ کو نہیں بدلواتی۔ اب مسلمان مزید غصہ ہوجاتے ہیں۔ وہ پولس پر پتھر مارتے ہیں۔ اس کے بعد پولس مشتعل ہوجاتی ہے۔ وہ مسلمانوں کی بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلاتی ہے۔ پولس کی اس گولی کا شکار وہ مسلمان ہوتے ہیں جنھوںنے پولس کو پتھر مارا، اور وہ بھی جنھوں نے پولس کو پتھر نہیں مارا۔
یہی معاملہ اُن مقامات کا ہے جہاں زیادہ بڑے پیمانے پر یہ صورتِ حال پیش آرہی ہے۔ مثلاً کشمیر اور فلسطین، وغیرہ۔ اِن مقامات پر بھی یہی ہوتا ہے کہ پہلے مسلمان، پولس یا فوج پر پتھر مارتے ہیں۔ اس کے بعد پولس یا فوج مسلمانوں کے اوپر گولی چلاتی ہے یا ہوائی جہاز سے وہ ان کے اوپر بم گراتی ہے۔ اِس طرح کے واقعات میں عملاً یہی ہوتا ہے کہ جو مسلمان براہِ راست طورپر اِس فعل میں ملوث نہیں ہوتے، وہ بھی جوابی کارروائی میں فوج کی گولی ا ور بم کا نشانہ بنتے ہیں،یعنی ملوث ہونے والے مسلمان بھی اور ملوث نہ ہونے والے مسلمان بھی۔ اِس طرح کے تمام واقعات پر قرآن کی مذکورہ آیت چسپاں ہوتی ہے۔ ایسے واقعات کو لے کر یہ احتجاج کرنا کہ فریقِ ثانی کی جوابی کارروائی میں قصور وار مسلمان اور غیر قصوروار مسلمان دونوں زد میں آئے، اور یہ انسانی حقوق (human rights) کے خلاف ہے۔ اِس طرح کا احتجاج سرتا سر باطل ہے۔ قرآن ایسے کسی احتجاج کی تصدیق نہیں کرتا۔ اِس طرح کے واقعات میں ایسا ہونا بالکل فطری ہے کہ قصور وار کے ساتھ غیر قصور وار بھی مارے جائیں۔
قرآنی اصول کے مطابق، اِس طرح کے معاملے میں وہ لوگ ذمے دار قرار پاتے ہیں جنھوں نے ابتدائی طورپر اشتعال انگیزی کی کارروائی کی(13: 9)۔ اِس آیت کے مطابق، مسلم رہنماؤں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ مسلم معاشرے میں اشتعال کا ماحول پیدا نہ ہونے دیں، نہ یہ کہ اشتعال کے بعد کے واقعات کو لے کر وہ شکایت اور احتجاج کا ہنگامہ برپا کریں۔ ایسی روش کا دہرا نقصان ہے۔ ایک یہ کہ ایسے لوگ خدا کے غضب کا شکار ہوں، مزیدیہ کہ صورت حال کی کبھی اصلاح نہ ہو، اور وہ ہمیشہ ’’ذلت اور مسکنت‘‘ (2:61) کے اِسی حال میں مبتلا رہیں۔
واپس اوپر جائیں

موت کی یاد: ایک صحت مند عمل

ایک اسٹڈی کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ موت کے بارے میں سوچنا ایک اچھی عادت ہے۔ وہ تندرستی کے لیے مفید ہے۔ اِس کا یہ فائدہ ہے کہ آدمی اپنی ترجیحات اور اپنے نشانے کو دوبارہ قائم کرتاہے۔ ایک نئے سائنسی تجزیے میں بتایاگیاہے کہ اگر آدمی کسی قبرستان سے گزرے، تب بھی وہ غیر شعوری طور اُس سے سبق لیتاہے اور اس کے اندر مثبت تبدیلی آتی ہے اور اس کے اندر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ موت کے بارے میں سوچنا خطرناک ہے، اِس سے تخریبی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ موت کی یاد سے تعصب اور تشدد کا جذبہ ابھرتاہے۔
Thinking about death boosts health
Thinking about death can actually be a good thing as an awareness of mortality can improve physical health and help in prioritizing one’s goals and values, as new study has revealed. According to a new analysis of recent scientific studies, even non-conscious thinking about death like walking by a cemetery could prompt positive changes and promote helping others. Past research suggests that thinking about death is destructive and dangerous, fuelling everything from prejudice and greed to violence. (The Times of India, New Delhi, April 21, 2012, p. 21)
عام طورپر یہ سمجھا جاتاتھا کہ موت کے بارے میں سوچنے سے عمل کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر منفی سوچ پیدا ہوتی ہے، مگر یہ صرف ایک قیاسی بات تھی۔ اِس مسئلے کا باقاعدہ علمی مطالعہ کیاگیا تو معلوم ہوا کہ معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کے بارے میں سوچنا ایک اچھی عادت ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر صحت مند صفات پیدا ہوتی ہیں۔
قرآن میں آیا ہے: کل نفس ذائقۃ الموت (185: 3) یعنی ہر شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک حدیثِ رسول اِن الفاظ میں آئی ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات، الموت (الترمذی، رقم الحدیث: 2307 )یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو، وہ لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔ موت کی یاد حقیقتِ حیات کی یاد ہے۔ موت کی یاد آدمی کو بتاتی ہے کہ اس کے پاس لامحدود وقت نہیں۔ کسی بھی لمحہ وہ وقت آسکتا ہے، جب کہ اس کی موجودہ زندگی ختم ہوجائے۔
اِس طرح موت کی یاد آدمی کے اندر جلدی کا احساس (sense of urgency) پیدا کرتی ہے۔ آدمی کے اندر یہ محرک (incentive) پیدا ہوتاہے کہ وہ اپنے کام کو جلد پورا کرے، کیوں کہ کچھ معلوم نہیں کہ کب وقت ہوجائے اور کام کرنے کا موقع باقی نہ رہے۔ اِس طرح موت کی یاد آدمی کو منصوبہ بند عمل کرنے پر ابھارتی ہے۔ اور منصوبہ بند عمل بلا شبہہ زندگی میں سب سے بڑی چیز ہے۔
موت کی یاد آدمی کے اندر ذہنی بیداری (intellectual awakening) کی صفت پیدا کرتی ہے۔ موت کی یاد آدمی کی چھپی ہوئی ذہنی صلاحیتوں کو جگاتی ہے۔ موت آدمی کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔
اسلامی نظریہ حیات کے مطابق، موت کی یاد کا فائدہ بے شمار گُنا بڑھ جاتا ہے۔ اسلامی نظریۂ حیات بتاتا ہے کہ آدمی کی زندگی موت پر ختم نہیں ہوتی۔ موت کے بعد ایک اور زندگی ہے جو کہ ابدی طورپر قائم رہنے والی ہے۔ آدمی موت سے پہلے کے دور حیات میں جیسا عمل کرے گا، اُسی کے مطابق، وہ موت کے بعد کے دورِ حیات میں کامیاب یا ناکام رہے گا۔ یہ احساس آدمی کے اندر مقصدیت کا شعور پیدا کرتا ہے۔ وہ زیادہ با معنی انداز میں زندگی گزارنے کے قابل بن جاتا ہے۔
عام تصور کے مطابق، موت کی یاد صرف موت کی یاد ہے، یعنی خاتمہ حیات کی یاد- لیکن اسلامی تصورِ حیات کے مطابق، موت کی یاد کا مطلب یہ ہے کہ آدمی بعد از موت دورِ حیات کے لیے تیاری کرے- وہ آج کی زندگی کو ایک موقع (opportunity) سمجھے، جب کہ وہ بعد کو آنے والے ابدی دورِ حیات کے لیے عمل کرسکتا ہے- یہ تصورِ موت آدمی کو اِس حقیقت کی یاد دلاتاہے کہ –— زندگی صرف ایک بار ملتی ہے- اب یہ آدمی کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کامیاب بناتا ہے یا ناکام- وہ اِس پہلے اور آخری موقع کو استعمال کرتا ہے یا وہ اُس کو کھو دیتا ہے-
واپس اوپر جائیں

سماجی قبولیت یا نفاذِ قانون

قرآن کی سورہ البقرہ میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے اُن کو ایک ہدایت اِس طرح دی گئی ہے—– اے ایمان والو، اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر مت چلو۔ شیطان تمھارا کھلا ہوا دشمن ہے(208: 2)-
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، ہر صاحبِ ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ پوری طرح اسلام میں داخل ہوجائے۔ اُس پر موت آئے تو اِس حال میں آئے کہ وہ مکمل معنوں میں، اسلام میں داخل ہوچکا ہو۔ جیسا کہ قرآن کی دوسری آیت میں ارشاد ہوا ہے: ولا تموتن إلّا وأنتم مسلمون (102: 3) یعنی تم کو موت نہ آئے، مگر اِس حال میں کہ تم مسلم ہو۔
آیت کایہ مفہوم تقاضا کرتاہے کہ اِس آیت کو مومن کی اپنی ذات کے اعتبار سے لیا جائے، نہ کہ اجتماعی نظام کے اعتبار سے۔ کیوں کہ مومن کی اپنی زندگی پوری طرح اس کے اختیار میں ہوتی ہیں۔ وہ اِس پر قادر ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو پوری طرح اللہ کے رنگ میں رنگ لے (صبغۃ اللہ، ومَن أحسن مِن اللہ صبغۃ)۔ اُس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ انفرادی اعتبارسے، اپنے آپ کو اسلامائز کرلے۔ مگر اجتماعی نظام کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہے۔ اجتماعی نظام میں خدا کے دین کو کامل طورپر داخل کرنا صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے، جب کہ اجتماعی زندگی کا ہر فرد اُس سے اتفاق کرلے۔ تاریخ میں کبھی اِس قسم کا اجتماعی اتفاق پیش نہیں آیا۔ اِسی لیے اجتماعی زندگی (socio-political life) میں کبھی کامل معنوں میں، اسلام کو داخل کرنا بھی ممکن نہیں ہوا۔ تاریخ میں کامل افراد تو بار بار پیدا ہوتے رہے، مگر کامل معنوں میںاجتماعی نظام کبھی وجود میں نہیں آیا۔
ایسی حالت میں اگر قرآن کی مذکورہ آیت کو اِس معنی میں لیاجائے کہ اُس سے مراد اجتماعی نظام میں خدا کے دین کا کامل داخلہ ہے تو اِس سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ نے اہلِ ایمان کو ایک ایسا حکم دیا جس پر عمل کرنا سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔ ایسی حالت میںاہلِ ایمان کے حصے میں صرف یہ آئے گا کہ وہ ہر زمانے میں لڑ لڑ کر اپنے آپ کو ہلاک کرتے رہیں اور کبھی مطلوب منزل تک نہ پہنچ سکیں۔
انڈیا کے ایک عالم نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے لیے حصولِ اقتدار اور خلافت کا قیام ضروری ہے، کیوں کہ اس کے بغیر اسلامی احکام نافذ نہیں ہوسکتے۔ اِس سلسلے میں انھوں نے ایک دلیل یہ دی ہے کہ صرف قانون بنا دینے یا صرف وعظ ونصیحت سے برائیاں دور نہیں ہوتیں۔ قانون کے نفاذ کے لیے قوتِ نافذہ ضروری ہے، اور قوتِ نافذہ، سلطان (نظامِ خلافت) ہی ہوسکتا ہے۔حضرت عثمان کا قول ہے کہ— جو برائی قرآن سے دور نہیں ہوتی، اسے اللہ تعالیٰ سلطان (حکومت) کے ذریعے دور کردیتاہے (إن اللہ یزع بالسلطان، ما لا یزع بالقرآن)۔
یہ غیر سنجیدہ استدلال کی ایک مثال ہے۔ صاحب مضمون اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے تو ان کی سمجھ میں آتا کہ حضرت عثمان کے پاس اقتدار تو اپنی کامل صورت میں موجود تھا۔ اِس کے باوجود، عین اُنھیں کے زمانے میں مسلم معاشرے میں اتنا خلل آیا کہ لاقانونیت کی صورت پیدا ہوگئی، اور حضرت عثمان خلیفہ ہونے کے باوجود اس پر قابو نہ پاسکے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کا یہ قول صرف محدود معنی (limited sense) میں ہے، نہ کہ مطلق معنی (absolute sense) میں۔ حضرت عثمان کے اِس قول میں سرے سے یہ بات موجود نہیں کہ مسلمان سیاسی تحریک چلا کر اقتدار پر قبضہ کریں، تاکہ وہ قوانین اسلامی کا نفاذ (enforcement) کرسکیں۔
کسی قانون کے نفاذ کے لیے صرف سیاسی قوت کافی نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اِس معاملے میں سیاسی قوت کا رول صرف پچاس فی صد ہے، بقیہ پچاس فی صد کا تعلق سماجی قبولیت (social acceptance) سے ہے۔ جس سماج میں قبولیت کا مادہ موجود نہ ہو، وہاں محض سیاسی قوت کے ذریعے کسی قانون کا نفاذ نہیں ہوسکتا۔ ایسی حالت میں، پہلا کام افراد کے اندر قبولیت کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ اِس کے برعکس، قوتِ نفاذ (enforcement power) کے حصول کے نام پر سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کی تحریک چلانا گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے (putting the cart before the horse) کے مصداق ہے۔ یہ ایک غیر فطری طریقہ ہے۔ اِس دنیا میں کوئی با معنی نتیجہ صرف فطری طریقے سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ غیر فطری طریقے سے۔
واپس اوپر جائیں

یہ بے خبرانسان

راجیش کھنہ انڈیا کی فلم انڈسٹری (بالی ووڈ) سے تعلق رکھتے تھے- وہ پہلی فلمی شخصیت ہیں جن کو سپر اسٹار (super star) کا ٹائٹل دیاگیا- جس زمانے میں راجیش کھنہ اپنے پروفیشن میں عروج پر تھے، انھوں نے کہا تھا کہ — میں خدا کے بعد سب سے بڑی ہستی ہوں:
Being at the top, Rajesh Khanna once said, is a feeling of being next to God.
عجیب بات ہے کہ جس سال راجیش کھنہ کی پیدائش ہوئی، اُسی سال مشہور امریکی باکسر محمد علی کلے(Muhammad Ali Clay) کی پیدائش ہوئی، یعنی 1942 میں- محمد علی کلے کو باکسنگ (boxing) میں بہت بڑا درجہ ملا- وہ باکسنگ کے عالمی چیمپین بن گئے- اُس وقت انھوں نے کہا تھا کہ — میں بادشاہِ عالم ہوں، میں سب سے بڑا ہوں:
I am the king of the world, I am the greatest.
مگر دونوں کا انجام یکساں طورپر برعکس صورت میں ہوا- راجیش کھنہ لمبی بیماری کے نتیجے میں آخرکار ہڈی کا ڈھانچہ بن گئے اور صرف 69 سال کی عمر میں18 جولائی 2012 کو ان کا انتقال ہوگیا- محمد علی کلے ابھی زندہ ہیں، لیکن طویل مدت سے وہ پارکنسن کی بیماری (Parkinson's syndrome) میں مبتلا ہیں- اب وہ بالکل معذور (disabled) ہو کر وھیل چیر پر اپنی زندگی کے آخری لمحات گزار رہے ہیں-
یہی ہمیشہ سے انسان کا حال رہا ہے- جب بھی کسی کو غیر معمولی حیثیت یا کوئی بڑی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو قرآن کے الفاظ میں، وہ ’أکرمن‘ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتاہے- وہ خدا کا شکر کرنے کے بجائے اپنے آپ کو خدا کا ہم سر سمجھ لیتا ہے- تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے لوگ ہمیشہ حقیر ہو کر مرتے ہیں، مگر عجیب بات ہے کہ بعد کے انسان پچھلے انسانوں کے انجام سے سبق نہیں لیتے-
واپس اوپر جائیں

ایک عبرت ناک واقعہ

فردوسی (وفات: 1020 ء) قدیم ایران کا سب سے بڑا شاعر سمجھا جاتا ہے- اس کی کتاب ’’شاہ نامہ‘‘ بہت مشہور ہے- مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914 ء) نے اپنی کتاب شعر العجم (جلد اول) میں فردوسی کا تذکرہ کیا ہے-مولانا شبلی، فردوسی سے اتنا زیادہ متاثر تھے کہ انھوں نے اس کے ایک مصرعہ کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ مصرعہ ایک لشکرِ جرار کی طاقت رکھتا ہے- فردوسی کا وہ مصرعہ یہ ہے:
مجنبا مرا، تا نہ جنبد زمیں
(مجھ کو نہ ہلاؤ، ورنہ ساری زمین ہل جائے گی)
سلطان محمود غزنوی، فردوسی کے شاہ نامہ سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے 60 ہزار درہم (بصورتِ نیل) اس کے پاس بھیجا- یہ انعام فردوسی کو شاہی اونٹوں پر طوس (ایران) بھیجا گیا تھا- بتایا جاتا ہے کہ جب انعام سے لدے ہوئے یہ اونٹ شہر کے ایک گیٹ میں داخل ہوئے تو اُس وقت فردوسی کا جنازہ شہر کے دوسرے گیٹ سے شہر کے باہر نکالا جا رہا تھا:
The indigo reached Tus in safety; but as the camels were entering the town by one gate, Firdowsi’s bier was being carried out through another. (EB. 7/234)
فردوسی کا یہ واقعہ علامتی طورپر ہر انسان کا واقعہ ہے- موجودہ دنیا میں ہر انسان کے ساتھ یہ ہورہا ہے کہ وہ عمل کرتا ہے اور ہر قسم کی کوشش کے بعد وہ آخر کار اپنا ایک ’’شاہ نامہ‘‘ تیار کرلیتاہے- پھر وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ اپنے تیار کردہ شاہ نامہ کی بنیادپر دنیا سے اپنا کوئی بڑا انعام پائے، عین اُس وقت اس کی موت کا وقت آجاتا ہے-
موت کے بعد وہ اپنے لگائے ہوئے باغ کا پھل کھانے کے بجائے عالمِ آخرت میں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں وہ خود تو ہوگا، لیکن وہاں نہ اُس کا شاہ نامہ اس کے ساتھ ہوگااور نہ اس کا حاصل کیا ہوا انعام-
واپس اوپر جائیں

شیطان کی سنت

قرآن کے مطابق، تخلیقِ آدم کے وقت ابلیس کو نعوذ باللہ خدا سے اختلاف ہوگیا- ابلیس نے اپنے اختلاف کو صرف اختلاف کے درجے میں نہیں رکھا، بلکہ اس کو عداوت تک پہنچا دیا- اُس نے یہ منفی منصوبہ بنایا کہ وہ تمام بندوں کو خدا کے خلاف کردے- اس کا یہ منفی منصوبہ قرآن میں اِن الفاظ میں نقل کیاگیا ہے: قال فبما أغویتنی لأقعدن لہم صراطک المستقیم- ثم لاٰتینہم من بین أیدیہم ومن خلفہم وعن أیمانہم وعن شمائلہم، ولا تجد أکثرہم شاکرین (7:17) یعنی ابلیس نے خدا سے کہا کہ تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے، میں بھی لوگوں کے لیے تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا- پھر میں اُن پر آؤں گا، اُن کے سامنے سےاور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے، اور تو اُن میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا-
انسانوں کے درمیان اختلاف کی دو صورتیں ہیں — ایک، یہ کہ اختلاف جب پیدا ہو تو اُس کو اپنی ذات کی حد تک محدود رکھا جائے- دوسرے، یہ کہ اختلاف پیدا ہونے کے بعد آدمی فریقِ ثانی کا دشمن بن جائے گا، وہ ہر جگہ اس کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرے، وہ کوشش کرے کہ کوئی اس کا ساتھ نہ دے اور کوئی اس کا تعاون نہ کرے- پہلی قسم کے اختلاف میں کوئی حرج نہیں، لیکن دوسرا اختلاف صرف شیطان کی پیروی ہے- جو لوگ ایسا کریں، وہ یہ خطرہ (risk) لے رہے ہیں کہ اللہ کے یہاں اُن کا شمار حزب الشیطان (58: 19) میں کیا جائے-
ایک انسان کا دوسرے انسان سے اختلاف ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن اختلاف پیدا ہونے کے بعد فریقِ ثانی کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنا، لوگوں کو اس کا ساتھ دینے سے روکنا، اس کی معاشی بنیاد کو تباہ کرنے کی کوشش کرنا، اس کے عقیدہ اور نیت کو نشانہ بنانا، اس کے خلاف بے دلیل الزام تراشی کرنا، یہ سب بلا شبہہ شیطانی کام ہے- جو لوگ ایسا کریں، ان کا کیس ابتاعِ شیطان کا کیس ہے، خواہ بظاہر وہ اپنے کیس کو کتنا ہی زیادہ مقدس صورت میں بیان کرتے ہوں-
واپس اوپر جائیں

ناقابلِ معافی جُرم

ایک حدیثِ قدسی کے مطابق، اللہ تعالی نے فرمایا: الکبریاءُ رِدائی، والعظمة إزاری، فمن نازعنی واحداً منہما قذفتہ فی النار (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 3570)یعنی کبر میری چادر ہے، اور عظمت میری ازا ر ہے، پس ان دونوں میں سے کسی میں جو شخص مجھ سے نزاع کرے گا، میں اُس کو آگ میں پھینک دوں گا
اِس حدیث میں تمثیل کی زبان میں بتایا گیاہے کہ ہر قسم کی بڑائی اور ہرقسم کی برتری صرف ایک خدا کا حق ہے- جو شخص اس معاملہ میں کلی یا جزئی طورپر خدا کا ہمسربننا چاہے، وہ نہ صرف دنیا میں ذلیل ہوگا، بلکہ آخرت میں اُس کو شدید تر عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا-
مثال کے طورپر خدا کی عظمت وکبریائی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہی عزت دینے والا ہے اور وہی ذلت دینے والا، وہی کسی کو رزق دیتا ہے اور وہی کسی کو رزق سے محروم کردیتا ہے- اس کے سوا کسی کو یہ طاقت نہیں کہ کسی کوکچھ دے یا اس سے کوئی چیز چھین لے-
مثلاً ایک شخص کو کسی آدمی پر غصہ آگیا- یہ غصہ انتقام تک پہنچ گیا، یہاں تک کہ وہ اِس کے درپے ہوگیا کہ مذکورہ آدمی کو بے عزت کرے، وہ اُس کے رزق کا ذریعہ اس سے چھین لے، وہ اس کو اس کے ماحول میں بے جگہ بنادے- کسی شخص کی طرف اِس قسم کی تخریبی کوشش خدا کی عظمت وکبریائی سے گویا نزاع کرنا ہے- یہ نعوذ باللہ، خدا کے اختیارات کو اُس سے چھیننے کی جسارت کے ہم معنی ہے-
اِس قسم کا فعل حد درجہ سنگین ہے- جو شخص ایسا کرنے کی کوشش کرے، وہ بظاہر اپنے حریف کے ساتھ یہ فعل کررہا ہے ہوتا ہے، مگر حدیث کی زبان میں، وہ براہِ راست خدا سے نزاع کررہا ہے- وہ خدا کے اُس نظام میں دخل دینے کی کوشش کررہاہے جس میں خدا نے کسی کسی دوسرے کو شرک نہیں کیا- یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے، خدا کی خدائی میں شریک بننے کی کوشش کرنا ہے، اور خدا کی خدائی میں شریک بننے کی کوشش بلا شبہہ ایک ایسا جرم ہے جو ہر گز قابلِ معافی نہیں-
واپس اوپر جائیں

اسلام کے نام پر غیر اسلام

مارچ 2012 کا واقعہ ہے۔ ایک انتہا پسند ہندو لیڈر انڈیا کے ایک شہر میں پہنچے۔ وہاں ان کی تقریر ہوئی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ مکہ کاکعبہ اصل میں بتوں کا مندر تھا۔ مسلمانوں نے قبضہ کرکے اُس کو اپنی مسجد بنا لیا۔ اِس تقریر پر وہاں کے مسلمان مشتعل ہوگئے۔ انھوں نے وہاں جلوس نکالا، پُر جوش نعرے لگائے۔ اِس کے نتیجے میں وہاں ہندو مسلم فساد ہوگیا۔ مقامی لوگوں کو جان ومال کا کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
مسلمانوں کا یہ رد عمل سرتاسر ایک قومی رد عمل تھا، اُس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اِن مسلمانوں کے اندر اگر صحیح ذہن ہوتا تو وہ سوچتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب 610 عیسوی میں توحید کا مشن شروع کیا تو اُس وقت عملاً ایسا تھا کہ کعبہ میں کئی سو کی تعداد میں بت رکھے ہوئے تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس پر مشتعل نہیں ہوئے، بلکہ پُرامن انداز میں آپ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اِس طرح کی بے بنیاد تقریر پر مشتعل نہ ہوں، بلکہ اُسے نظر انداز کردیں، وہ اِس واقعہ کو ایک موقع (opportunity) کے طورپر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچائیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ مسلمان کس طرح پیغمبر کے نام پر غیرپیغمبرانہ روش کا ارتکاب کررہے ہیں۔ وہ اسلام کے نام پر ایسی تحریکیں چلاتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ایسے مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ معاملہ اِسی دنیا میں ختم نہیں ہوجائے گا۔ آخرت میں اُن سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے ایسا دین کہاں سے ایجاد کرلیا جس کو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے بھیجا نہیں تھا —اِس طرح کی غوغائی سیاست بلا شبہہ اسلام کے خلاف ہے، اُس کوکبھی خدا کی نصرت ملنے والی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اِس قسم کے ہنگامے ہر جگہ صرف مسلمانوں کے حالات کو بگاڑنے کا سبب بن رہے ہیں، نہ کہ حالات کو درست کرنے کاسبب۔
واپس اوپر جائیں

جائز فضول خرچی

کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر بہت زیادہ خرچ کرنے کا مزاج ہوتا ہے- وہ لوگوں کو خوب دیتے ہیں اور خوب کھلاتے پلاتے ہیں- اِس طرح کی عادت کو عام طورپر سخاوت کہاجاتاہے- لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی بہت سخی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سخاوت نہیں، بلکہ فضول خرچی ہے- ایسے لوگوں کے لیے صحیح لفظ فضول خرچ ہے، نہ کہ سخی-
قرآن میں صحیح خرچ کا ایک معیار بتایا گیاہے- وہ معیار یہ ہے: الذین یؤتون ما اٰتوا وقلوبہم وجلة أنہم إلى ربہم راجعون (23: 60) یعنی وہ لوگ جو دیتے ہیں، تو جو کچھ وہ دیتے ہیں، اِس طرح دیتے ہیں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں کہ انھیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے-
قرآن کی یہ آیت خرچ کے معاملے میں ایک حتمی معیار کو بتا رہی ہے- اگر خرچ کرنےوالے کا حال یہ ہو کہ دوسرے کو دیتے ہوئے وہ اپنی محرومی کو یاد کررہا ہو- دوسروں کو دیتے ہوئے اس کو یہ خیال ستا رہا ہو کہ دنیامیں تو میں دوسرے کو کھلانے کی پوزیشن میں ہوں، لیکن آخرت کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ وہاں میرا کیا حال ہوگا- وہ دوسرے کو ٹھنڈا مشروب پلا رہا ہو اور خود اس کا اپنا حال یہ ہو کہ آخرت کی یاد میں اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں- اُس کو یہ یاد ستارہی ہو کہ دنیا میں تو میں الید العُلیا (دینے والا ہاتھ) ہوں، آخرت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں الید السُّفلى (لینے والا) بن جاؤں-
جن لوگوں کا خرچ مذکورہ نوعیت کا خرچ ہو، وہی اللہ کے یہاں سخی کا درجہ پائیں گے- اور جن لوگوں کا معاملہ اِس کے برعکس ہو، جن لوگوں کا خرچ محض مزاج یا عادت (habit)کے تحت ہورہا ہو، جو اپنی ذاتی تسکین کے لیے خرچ کرتے ہوں، اُن کا کیس بلاشبہہ فضول خرچی کا کیس ہے-
ایسے لوگ دنیا والوںکے درمیان اگرچہ سخی کی حیثیت سے مشہور ہوں، لیکن آخرت میں وہ صرف ایک فضول خرچ انسان کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے،جن کو قرآن میں ابلیس کا بھائی قرار دیاگیا ہے(17:27)-
واپس اوپر جائیں

مواقع کی بربادی

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (2 جولائی 2012 ) میں بتایا گیا ہے کہ ناروے (Norway)کے ایک نوجوان نے اسلام قبول کیا- اس کے بعد اس نے اپنا نام عبد الرحمن رکھا- القاعدہ کے لوگ اس کو ناروے سے یمن لے گئے- وہاں اس کی تربیت کی گئی- اُس کو ایک منصوبے کے لیے تیار کیاگیا جس کا مقصدتھا ایک امریکی ہوائی جہاز کو بم سے اڑانا- خبر میں بتایا گیا ہےکہ القاعدہ مغربی مسلمانوں کو رکروٹ (recruit)کرکے ان کے اندر انقلابی ذہن پیدا کرتا ہے، پھر ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے، کیوں کہ ایسے لوگوں کے لیے  ائرپورٹ کی سیکورٹی سے بچ نکلنا آسان ہوتا ہے:
Al-Qaida is seeking to recruit radicalised westerners in an attempt to evade airport security. (p. 14)
مغربی ملکوں میں بڑی تعداد میں لوگ اسلام قبول کررہے ہیں- اِن لوگوں کا اصل استعمال یہ ہے کہ اُن کو ان کے ہم قوموں میں مزید اشاعتِ اسلام کے لیے استعمال کیا جائے، مگر بعض مسلم تنظیمیں اِس معاملے میں ایک نہایت غلط رول ادا کررہی ہیں- یہ مسلم تنظیمیں اپنے دائرے میں لے کر ان لوگوں کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتی ہیں- اِس طرح ایک عظیم امکان ضائع ہورہا ہے-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں مختلف قسم کے غیر دعوتی گروپ قائم ہیں- مثلاً مبنی برفضائل گروپ، مبنی بر مسائل گروپ، مبنی بر عسکریت گروپ، وغیرہ- جب کسی مغربی ملک میں کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی گروپ اُس کو اپنے فولڈ میں شامل کرلیتا ہے اور پھر دھیرے دھرے اس کا حال وہی ہوجاتاہے جس کو ایک فارسی شاعر نے اپنے ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
ہر چیز کہ در کانِ نمک رفت، نمک شد
مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو مواقعِ دعوت کی بربادی سے بچائیں، ورنہ خدا کے نزدیک وہ ، ’صد عن سبیل اللہ‘ (43: 37) کا مصداق قرار پائیں گے-
واپس اوپر جائیں

اِحیاءِ سنت

دین کا نام کبھی دنیا سے ختم نہیں ہوتا- جو چیز دنیا سے ختم ہوتی ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی سنت ہے- ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من تمسک بسنّتی عند فساد أمتی، فلہ أجر مأة شہید (تاریخ الإسلام للذہبی، رقم الحدیث: 3097) یعنی میری امت میں بگاڑ کے وقت جس نے میری سنت کو پکڑا، اس کے لیے سو شہیدوں کا اجر ہے-
اسلام کی راہ میں لڑ کر اپنی جان دے دینا ایک ایسا عمل ہے جس کا اللہ تعالی کے یہاں بڑا انعام ہے- مگر بگاڑ کے زمانے میں اپنے آپ کو سچے دین پر قائم کرنے کا اجر اس سے سو گنا زیادہ بتایا گیاہے- اِس کی وجہ یہ ہے کہ اول الذکر اپنے آپ کو ایک دن قربان کرتاہے جب کہ ثانی الذکر کو ہر روز اپنے آپ کو قربان کرنا پڑتاہے-
امت کے اندر جب بگاڑ آتاہے تو اُس وقت یہ حال ہوجاتا ہے کہ ایک بگڑے ہوئے مذہب کا نام دین بن جاتاہے- سارے دینی ادارے، تمام دینی اعزازات اِسی بگڑے ہوئے مذہب سے وابستہ ہوجاتے ہیں- دین کے تمام شعبوں میںایسے لوگ قبضہ پالیتے ہیں جو دین کو تجارت بناچکے ہوتے ہیں- خواص اپنے مصالح کی بنا پر، اور عوام اپنی جہالت کی بنا پر، اِسی بگڑے ہوئے دین کومضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوتے ہیں- ایسی حالت میں جب کوئی بندہ خدا کے سچے اور بے آمیز دین کو لے کر اٹھتا ہے، تو سارے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اُس شخص کا دین اِن کے اپنے دین کو بے اعتبار بنا رہا ہے- وہ فوراً اُس کےمخالف بن جاتے ہیں- اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رسولِ خدا والے طریقہ کو پکڑنے والا آدمی خود اپنے معاشرے میں بے جگہ ہوجاتاہے، وہ سب کے درمیان ایک غیر مطلوب شخص بن جاتا ہے-
بگاڑ کے زمانے میں یہ ہوتا ہے کہ وقتی اور رسمی عملیات کو لوگ جنت کا ٹکٹ سمجھ لیتے ہیں، اِس کے مقابلے میں سنتِ رسول کو پکڑنے والا آدمی حقیقی اعمال پر جنت کا مدار رکھتاہے- لوگ مذہبی مناظرے اور سیاسی مجادلے کے مشغلوں کو دینی کارنامہ سمجھنے لگتے ہیں، وہ بتاتا ہے کہ صبر اور قربانی کے طریقوں کو اختیار کرنے کا نام دین ہے- لوگ اپنے دنیوی ہنگاموں کو دین کا عنوان دئے ہوئے ہوتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ آخرت کے لیے جینے اور مرنے کانام دین ہے- لوگ احبار ورُہبان کے دین کو پکڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ دین وہ ہے جو خدا اور رسول سے ملا ہو- لوگ اپنے بزرگوں کے ارشادات وملفوظات سے لپٹے ہوئے ہوتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ قرآن وسنت والے دین کو اپنا دین بناؤ- لوگ قصے کہانیوں کے ذریعے اپنا ایک دینی ایڈیشن تیار کرکے اس کی تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ اِس کے بجائے محکم آیات اور ثابت شدہ سنتِ رسول پر اپنے دین کی بنیاد رکھو- لوگ اپنے طورپر مختلف قسم کی مذہبی موشگافیاں ایجاد کرتے ہیں اور اس کو دین کا قائم مقام بنا لیتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ اُس صاف اور سیدھے دین کو اختیار کرو جو خدا اور رسول نے بتایا ہے اور جو اصحابِ رسول کے ذریعے ہم کو پہنچا ہے-
جو شخص اِس قسم کا دین بگڑے ہوئے زمانے میں لے کر اٹھے، وہ لوگوں کی نظر میں کافر اور مشرک سے بھی زیادہ مبغوض ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اُن کی دینی حیثیت کو بے بنیاد ثابت کرتاہے- اِس سے ان کو اپنی قیادت پر ضرب پڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے- اِس سے ان کے معاشی مفادات درہم برہم ہوتے ہیں- اِس سے ان کی گدّیاں چھنتی ہوئی نظر آتی ہیں- اُس کوماننا اپنے آپ کو جمے ہوئے مفادات سے محروم کرنے کے ہم معنی بن جاتاہے- ایسا شخص ایک طرف عوام کی عافیت کوش زندگی کے لیے تازیانہ بن جاتاہے اور دوسری طرف، خواص کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اُن کے ’’شہ سوارِ اسلام‘‘ ہونے کو مشتبہ بنا رہا ہے- یہ چیزیں اُس شخص کو اتنی بے شمارقسم کی مخالفتوں اور مشکلات میں مبتلا کردیتی ہیں کہ اُس کے مقابلے میں ایک دن میدانِ جنگ میں لڑ کر مرجانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا-
اِن مخالفتوں میں سب سے زیادہ شدید مخالفت اُن قائدین کی طرف سے سامنے آتی ہے جو دین کے نام پر دنیوی فائدے حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں- اُن کی قیادت کا راز صحیح دین کا علَم بردار بننا نہیں ہوتا- وہ یہ کرتے ہیں کہ بگاڑ کے زمانے میں پائی جانے والی دینی شکلوں میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں- کوئی کسی ادارے کی گدی پر بیٹھ جاتا ہے، کوئی دینی جشنوں اور تقریبوں میں خطابت کا جوہر دکھاکر مرجعِ خلائق بن جاتا ہے- کوئی دین کو رائج الوقت پیمانوں میں ڈھال کر لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل کرلیتاہے- کوئی گزری ہوئی مقدس شخصیتوں کا سہارا لے کر اُن کے نام پر اپنا کاروبار چلا رہا ہوتا ہے- کوئی دین کے ایسے سستے نسخوں کی کامیاب تجارت کررہا ہوتاہے جس میں لوگوں کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلے بغیر جنت کی بشارتیں مل رہی ہوں— صحیح دینی دعوت کا اٹھنا اِس قسم کے تمام لوگوں کے لیے چیلنج بن جاتاہے- اُس کے فروغ میں ان کو اپنا عزت واقتدار مٹتا ہوا نظر آتا ہے- مزیدیہ کہ ایک عرصہ تک عزت واستقبال کے جلو میں رہنے کے نتیجے میں ان کے اندرایک قسم کا دینی کبر پیدا ہوجاتاہے- وہ اپنی ذات کو اور دین کو ہم معنی سمجھ لیتے ہیں- فطری طورپر وہ ایک ایسے شخص کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو اُن کی امتیازی حیثیت کو بے اعتبار ثابت کرے-
اعاظم واکابر کی یہ مخالفت سچے دین کے علم بردار کے لیے انتہائی شدید مسائل پیدا کردیتی ہے-وقت کے دینی حلقوں کی طرف سے اس کا بائکاٹ کیا جاتا ہے- اس کی بے دینی کے فتوے دئے جاتے ہیں- اس کی معاشیات کو برباد کیا جاتا ہے- اس کو ماحول میں بے جگہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے- اس کے خلاف ہر قسم کی معاندانہ کارروائی کو جائزسمجھ لیا جاتاہے- اکابرِ قوم کی مخالفت سے اصاغرِ قوم کو مزید جرأت ہوتی ہے، بالآخر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ اپنی قوم کے اندر رہنا اس کے لیے انگاروں کے درمیان رہنے کے ہم معنٰی بن جاتاہے-اِن حالات میں ’’فسادِ امت‘‘ کے وقت ’’سنتِ رسول‘‘ کو زندہ کرنے کے لیے اٹھنا اتنی بے پناہ مشکلات کا سبب بن جاتا ہے جو سوبار قتل ہونے کے برابر ہے- اِسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے شخص کے لیے اللہ کے یہاں سو شہیدوں کا اجر ہے-
جس طرح خدا کی کوئی حد نہیں، اسی طرح خدا کے دین کی راہ میں آگے بڑھنے کی بھی کوئی حد نہیں- خدا کا دین گویا دنیا میں رزقِ الہی کا ایک عظیم دسترخوان ہے- اِس رزق کا سب سے بڑا حصہ اُسی کو ملتا ہے جو اِس راہ میں اپنے آپ کو مٹانے کے لیے تیار ہو- یہ عزت وشہرت کا اسٹیج نہیں، یہ بربادی کےمقامات ہیں- اِن مقامات کو طے کرنا بلا شبہہ سولی پر چڑھنے سے زیادہ سخت ہے- مگر اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آدمی دین کو اُس کی اعلی سطح پر اُس وقت تک پانہیں سکتا جب تک وہ قربانیوں کی قیمت پر دین کو حاصل کرنے کے لیے تیار نہ ہو-(35: 41)
واپس اوپر جائیں

بھولا ہوا سبق

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک (وفات: 717 ء) کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ خلیفہ بنائے جانے سے پہلے اپنا زیادہ وقت دمشق کی مسجد میں گزارتا تھا اور قرآن پڑھتا رہتاتھا۔ چناں چہ اس کو فاختۂ مسجد(حمامۃ المسجد) کہاجاتا تھا۔ جس دن اس کے پیش رو خلیفہ کی وفات ہوئی، اُس دن بھی وہ حسب معمول مسجد میں تھا اور وہاں قرآن پڑھ رہا تھا۔ اُس وقت سلطنت کا ایک ذمہ دار آدمی مسجد میں سلیمان بن عبد الملک کے پاس آیا اور اس کو یہ خبر دی کہ آج سے آپ خلیفہ ہیں۔ اس کے بعد فوراً سلیمان بن عبد الملک اٹھا اور قرآن کو مسجد کے طاق پر رکھا اور کہا: ہذا فراق بینی وبینک (آج سے میرے اور تمھارے درمیان جدائی ہے)۔
عجیب بات ہے کہ یہ انفرادی واقعہ بعد کو پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک عمومی واقعہ بن گیا۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں اہلِ ایمان کا سب سے بڑا مشن دعوت الی اللہ تھا۔
بعد کو جب مسلمانوں کی سلطنت قائم ہوگئی اور ان کا ایمپائر بن گیا تو تقریباً پوری امت نے دعوت الی اللہ کو خیر باد کہہ دیا اور سیاسی اقتدار کو انھوںنے اپنی زندگی کا واحد کنسرن (supreme concern) بنا لیا۔
تقریباً ہزار سال بعد اٹھارھویں صدی کے آخر میں، مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر عملاً ختم ہوگیا، مگر دوبارہ وہی حال ہوا کہ مسلمان دعوت الی اللہ کو اپنا مشن نہ بنا سکے۔ اب اُن کا واحد کنسرن یہ بن گیا کہ مفروضہ دشمنوں یا مفروضہ غاصبوں سے لڑ کر دوبارہ وہ اپنے سیاسی عہد کو واپس لائیں۔
یہ مسلم تاریخ کا خلاصہ ہے۔ مسلم تاریخ اب اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے، لیکن اب بھی یہی حال ہے کہ دعوت الی اللہ مسلمانوں یا مسلم رہنماؤں کا مشن نہیں۔ یہی بلاشبہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اُن کو دوبارہ دعوت الی اللہ کو اپنا مشن بنانا ہوگا۔ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو اُن کے لیے دنیا کی کامیابی بھی مشتبہ ہے اور آخرت کی کامیابی بھی مشتبہ۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا راز

7 مئی 2012 کا واقعہ ہے- میں ایک بیرونی سفر سے واپس آیا- دہلی ائرپورٹ پر ایک نوجوان نے مجھ کو وھیل چیر پر بٹھا کر باہر پہنچایا- جب ہم لوگ ائرپورٹ کے باہر گیٹ پر پہنچے تو میرے ایک ساتھی نے اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا اور اُس نوجوان کو دینے لگے- نوجوان نے نوٹ لینے سے انکار کیا- اس نے کہا کہ مجھ کو تو آپ کا آشیرواد چاہئے- میرا امتحان (exam) ہونے والا ہے، میں اس میں پاس ہوجاؤں- میں نے اُس کے سرپر ہاتھ رکھا اوراس کے لئے دعا کی- وہ خوش ہو کر واپس چلا گیا-
اِس چھوٹے سے واقعے میں بہت بڑا سبق ہے- حقیقت یہ ہے کہ کسی دوسرےکا دیا ہوا مال، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، کسی کو کامیاب نہیں بناتا- کامیابی کا راز خود اپنی محنت ہے- یہی بات ایک حدیث رسول میں اِن الفاظ میں آئی ہے: ما أکل أحدطعاماً قطُّ خیراً مِن أن یأکل من عمل یدہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:1941) یعنی کسی آدمی نے کبھی اِس سے اچھا کھانا نہیں کھایا کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھائے-
عطیہ کے طورپر ملا ہوا مال آدمی کی ایک ضرورت کو پورا کرسکتا ہے، لیکن اِس طرح کا مال آدمی کی شخصیت کے ارتقا کا ذریعہ نہیں بن سکتا- ایسامال آدمی کے لیے ایزی منی (easy money) کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایزی منی کبھی کسی کے لیے ترقی کا ذریعہ نہیں بنی-
اپنی محنت سے کمایا ہوا مال آدمی کے اندر اعلی اخلاقی صفات پیدا کرتا ہے- مثلاً خود اعتمادی، عملی تجربہ، ذہنی ارتقا، ہارڈ ورک (hardwork)اور سنجیدگی، وغیرہ- مزید یہ کہ آدمی جب اپنی محنت سے کھاتا ہے تو وہ مال کی اہمیت کو سمجھتا ہے- اس کی وجہ سے اس کے اندر سادگی کا مزاج پیدا ہوتا ہے- وہ اسراف سے بچ جاتا ہے- اس کے اندر یہ ذہن بنتا ہے کہ جس مال کو میں نے محنت کرکے کمایا ہے، اُس مال کو مجھے صرف مفید کام میں خرچ کرنا چاہیے- اِسی طرح وہ اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر دوسروںکے دکھ درد کو زیادہ بہتر طورپر سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

سُستی کی شکایت

ایک صاحب نے کہا کہ میرے اندر سستی (laziness) بہت زیادہ ہے۔ جب میں کتاب کا مطالعہ کرتاہوں تو جلد ہی اکتاہٹ (boredom) پیدا ہوجاتی ہے اور میں کتاب کو بند کرکے رکھ دیتا ہوں۔ میں نے کہا کہ جب آپ اپنے بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو کیا اُس وقت بھی آپ کے اندر یہی سستی پیدا ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر اصل مسئلہ سستی کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ انٹرسٹ (interest) کا ہے۔ آپ کو سنجیدہ مطالعہ یا سنجیدہ غور وفکر سے دلچسپی نہیں۔ آپ تفریح کو پسند کرتے ہیں، اِسی لیے آپ کو سنجیدہ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے سستی آجاتی ہے، لیکن جب آپ اپنے بچوں یا اپنے دوستوں میں ہوتے ہیںتو اُس وقت آپ کو سستی نہیںآتی۔
میں نے کہا کہ یہ کسی فطری کمزوری کی بات نہیں۔ یہ آپ کے طرزِ فکر کا معاملہ ہے۔ آپ اپنے طرز فکر کو بدلئے۔ اہم اور غیر اہم کے معاملے میں آپ اپنی سوچ پر نظر ثانی کیجئے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آپ اپنے ذہن کی ری انجینئرنگ (re-engineering of mind) کیجئے۔
میں نے کہا کہ آپ سب سے پہلے یہ جانیے کہ وقت کے استعمال کا معیار کیا ہے۔ وہ کون سا پیمانہ ہے جس سے ناپ کر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا یا غلط استعمال کیا۔ وہ پیمانہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ کے علم (learning) میں اضافہ ہو، آپ کوئی حکمت (wisdom) کی بات دریافت کرسکیں۔ اِس لحاظ سے اگر آپ جانچیں تو آپ پائیں گے کہ ایک گھنٹہ اگر آپ نے کسی سنجیدہ کتاب کے مطالعے میں صرف کیا تو اُس سے آپ کو کوئی نہ کوئی حکمت کی بات ملے گی۔ اس کے برعکس، اگر آپ سطحی تفریحات میں ایک گھنٹہ گزاریں تو اس کے ذریعے آپ کوئی حکمت کی بات جاننے میں ناکام رہیں گے۔ میںنے کہا کہ آپ اِس اصول کو لے کر اپنے اوقات کی تنظیم کیجئے۔ وقت کے اُسی استعمال کو درست سمجھئے جس کے ذریعے آپ کو اپنے ذہنی ارتقا میں مدد ملی ہو۔ یہی محاسبہ ہے اور اسی کے ذریعے آپ اپنے کو وقت اور توانائی کے ضیاع سے بچا سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندی

ایک عرب شاعر ابو الطیب المتنبّی(وفات: 965 ء) کا شعر ہے — آدمی جو کچھ چاہتا ہے، وہ سب اس کو ملتانہیں۔ ہوائیں اُس رخ پر چلتی ہیں جس کو کشتیاں نہ چاہتی ہوں:
ما کلُّ ما یتمنّی المرءُ یدرکہ تجری الریاحُ بما لا تشتہی السُّفُنُ
اِس شعر میں زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ انسان کے باہر جو دنیا ہے، وہ انسان کی خواہشوں کے تابع نہیں۔ دنیا کا نظام فطرت کے قوانین (laws of nature)کے تحت چل رہاہے، نہ کہ انسان کی خواہشات (desires)کے تحت۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس چیز کی چاہے، خواہش کرے، لیکن انسان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دنیا میں قائم شدہ نظامِ فطرت کو خود اپنی خواہش کے تابع کرلے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی انسان کے لیے کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے، وہ یہ کہ وہ اپنی زندگی کا منصوبہ صرف اپنی خواہش کی بنیاد پر نہ بنائے، وہ قوانینِ فطرت کو دریافت کرے اور فطرت کے قانون سے موافقت کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ جب بھی کسی شخص یا گروہ کا منصوبہ ناکام ہوجائے تو اس کو پیشگی طورپر یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ناکامی کا سبب کسی غیر کی سازش (conspiracy) نہیں، بلکہ اس کی ناکامی کا سبب خود اپنی غلط منصوبہ بندی ہے۔
ناکامی کی صورت میں دوسروں کی شکایت کرنا صرف اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کا ذمے دار خود اپنے آپ کو سمجھے، نہ کہ کسی دوسرے فرد یا گروہ کو۔ وہ اپنی ناکامی کا سبب اپنی غلط منصوبہ بندی میں تلاش کرے، نہ کہ دوسروں کی سازش میں۔کامیابی کا یہی اصول فرد کے لیے بھی ہے، اور یہی وہ اصول ہے جس پر چل کر اِس دنیا میں کوئی گروہ کامیاب ہوسکتا ہے— اِس دنیا میں کامیابی کا راز فطرت سے موافقت میں ہے، نہ کہ فطرت سے عدم موافقت میں۔
واپس اوپر جائیں

سوال

الرسالہ مارچ 2011 کے مضمون ’’اللہ سے محبت‘‘ میں درج کردہ حدیث: ’’خلق اللہ آدم على صورتہ‘‘ قرآن کی آیت ’’لیس کمثلہ شیئ‘‘ (11: 42) کے خلاف معلوم ہوتی ہے- براہِ کرم، اس کی وضاحت فرمائیں- (ڈاکٹر محمد افضل منہاس، پاکستان)
جواب
’’خلق اللہ آدم على صورتہ‘‘ کی حدیث صحیح البخاری (رقم الحدیث: 6227) میں آئی ہے- اس کی صحت میں کوئی شک نہیں- اصل یہ ہے کہ اِس حدیث میں ’صورة‘ کا لفظ ظاہری صورت (form) کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ صفت (quality) کے معنی میں ہے- خود قرآن میں اللہ کے لیے اِس قسم کے الفاظ آئے ہیں- مثلاً ’وجہ‘ (55: 27) ، اور ’ید‘ (48:10) ، وغیرہ- یہاں بھی یہ الفاظ ظاہری صورت کے معنی میں نہیں ہیں، بلکہ وہ صفت کے معنی میں ہیں-
قرآن اور حدیث دونوں میں جو بات کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو خصوصی صلاحیتیں دی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دیں- یہ وہ صلاحیتیں ہیں جو اللہ کے اندر اپنی کامل صورت میں موجود ہیں- مزید یہ کہ یہ اعلی صلاحیتیں اللہ کے اندر اس کی ذاتی صفت کے طور پر ہیں، جب کہ انسان کو جو محدود صلاحیتیں دی گئی ہیں، وہ صرف عطیہ کی حیثیت رکھتی ہیں-
جہاں تک قرآن کی آیت: لیس کمثلہ شیئ (11: 42) کا تعلق ہے، اُس کا صحیح مطلب وہ ہے جو ابو محمد الواسطی (وفات: 1341ء)کے حوالے سے اِن الفاظ میں نقل کیاگیا ہے: لیس کذاتہ ذات، ولا کاسمہ اسم، ولا کفعلہ فعل، ولا کصفتہ صفة، إلا من جہة موافقة اللفظ (القرطبی، 9/16) یعنی اللہ کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں، نہ اس کے اسم جیساکوئی اسم ہے، نہ اس کے فعل جیساکسی کا فعل ہے، نہ اس کی صفت جیسی کسی کی صفت ہے، سوا لفظی موافقت کے اعتبارسے-
مثلاً انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو قدرت حاصل ہے، مگر اللہ کی قدرت اور انسان کی قدرت کے درمیان صرف لفظی مشابہت ہے، نہ کہ حقیقی مشابہت-
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز 218—

1- اندراگاندھی نیشنل اوپن یونی ورسٹی (نئی دہلی) میں 3 جون 2012 کو ڈپلوما اردو ٹیچر ٹریننگ (DUTT) کا امتحان ہوا- اِس میں ’تاریخ اور اردو کا ارتقا‘ (History and Evolution of Urdu) کے پیپر میں ایک سوال یہ کیاگیا تھا: ’’کسی ایسے اردو رسالے کا ذکر کریں جس نے اردو پڑھنے والے لوگوں کا مزاج حقیقت پسندی کا بنایا ہو‘‘- طلبا نے اس کے جوا ب میں ماہ نامہ الرسالہ (نئی دہلی) کا نام لکھا- اِس جواب پر طلبا کو پورا نمبر دیاگیا- — اس سے اندازہ ہوتاہے کہ الرسالہ اب وقت کی آواز بن چکا ہے-
-2 مظفر نگر (سہارن پور) کے نمائش گراؤنڈ میں 4-20 جون 2012 کے درمیان ایک سالانہ نمائش لگائی گئی-اِس موقع پر الرسالہ کے مقامی ساتھیوں مسٹر محمد انس اور مولانا عاصم قاسمی نے یہاں ایک دعوتی بک اسٹال لگایا- یہاں سے بڑی تعداد میں غیر مسلم حضرات نے قرآن کے تراجم اور دعوتی لٹریچر حاصل کیا اور اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا- ایک صاحب نے کہا کہ: ’’میں نے اپنے جاننے والے کئی مسلمانوں سے قرآن مانگا، مگر انھوں نے مجھ کو قرآن نہیں دیا- آج یہاں سے قرآن کا ترجمہ حاصل کرکے میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھ رہا ہوں‘‘-
-3 دہرا دون (یوپی) میں 27 جون 2012 کو تعلیم کے موضوع پر ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی- اِس میں ملک کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی- اِس موقع پر کانفرنس میں، اور دہرادون کے مختلف اجتماعی مقامات (شاپنگ سنٹر، وغیرہ) میں، حلقہ الرسالہ (سہارن پور) کے ساتھیوں نے لوگوں کو قرآن کے انگریزی تراجم پیش کیے-
-4 ادارہ المورد (لاہور، پاکستان) نے حال میں اپنا ایک ویب ٹی وی (www.al-mawrid.org) لانچ کیا ہے- المورد نے اپنے ویب ٹی وی پر سی پی ایس (نئی دہلی) کی اجازت سے صدر اسلامی مرکز کے لکچرز بھی شامل کیے ہیں-
-5 یونائٹیڈ نیوز آف انڈیا (نئی دہلی) کی ٹی وی ٹیم نے 29 جون 2012 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا- اس کے انٹرویور مسٹر عالم تھے- انٹرویو کا موضوع ’’اسلام کی تعلیمات‘‘ تھا-
-6 بھارتیہ ودّیا بھون (نئی دہلی) میں 5جولائی 2012 کو ایک سمپوزیم ہوا- اس کا موضوع یہ تھا:
A Symposium on Health & Happiness
یہ سمپوزیم ڈاکٹر کرن سنگھ کی صدارت میں ہوا- اِس میں 9 مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی اور اپنے مذہب کے مطابق، صحت کے اصول بتائے- اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس پروگرام میں شرکت اور انگریزی میں اصولِ صحت کے موضوع پر ایک تقریر کی- حاضرین کو سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا-
-7 سہارن پور کے حلقہ الرسالہ کی طرف سے وہاں کے ’’پیس ہال‘‘ میں 29 جولائی 2012 (9رمضان 1433ہجری) کو روزہ افطار کے موقع پر ایک بڑا پروگرام کیاگیا- اِس میں بڑی تعداد میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مختلف اداروں اور تحریکات کے لوگوں نے شرکت کی- اِس موقع پر حاضرین کو تذکیر القرآن (اردو) اور دیگر دعوتی لٹریچر دیاگیا- لوگوں نے اس کو شوق سے لیا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا- شہر قاضی جناب ندیم اختر نے اپنے خطاب میں کہا کہ سی پی ایس اور الرسالہ کے تحت جو دعوتی اور تربیتی کام ہورہا ہے، وہ بہت قابلِ قدر ہے-
-8 ٹائمس آف انڈیا (جون 8 ، 2012 ) میں اسپیکنگ ٹری کے تحت شائع شدہ ایک مضمون (Meaning of Love of God) پر قارئین کے چند تاثرات یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
— •I learnt that love is that which develops on realizing what someone (in this case God) has done for me: God has given us this infrastructure life support system for the upkeep of all bodies. As you rightly said, this universe has been custom made by God for humans, therefore it is essential that we love God. (Narendra Tirumale)
— Great article about love, specially its two dimensions: theoretical and practical. In terms of the theoretical dimension, love means love of God and in terms of the society, love means love of all beings. (Abha Mishra)
-9 قرآن کے انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر کے متعلق قارئین کے چند تاثرات ملاحظہ ہوں:
— I started reading English version of The Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan . I have only finished the introduction part of it. The way you have introduced it is simply owesome. Infact, I don’t have words to express what I want to say on that Introduction part. I got answers to many of my questions in it. Thanks for making it so simple and easy for people like me who actually want to read and understand it but can’t do that out of the mere fear of Arabic language. (Heena, Delhi)
— I am the Chaplain at the Cumberland County Jail in Portland, Maine USA. The complimentary copies of the Quran that we received from your company are almost gone. Many inmates have been most grateful to have received a copy. I am writing in hopes that you will consider another donation of the Quran, for we are in need of more copies. (Reverend Jeffrey McIlwain, Chaplain, Cumberland County Sheriff's Office, Portland, USA)
— 12th Mother Teresa International Award Ceremony was held on 28th April, 2012 at Rabindra Sadan Auditorium, Kolkata. The PSF Kolkata availed the opportunity of Dawah work in the said event among eminent intellectuals and dignitaries. The team distributed the Quran, and other English literatures. Justice Shyamal Sen and Mr. Ashoke Mohan Chakraborty expressed their indepth gratitude after getting the spiritual gift. When the team was distributing the books, it seemed that everyone on the stage was waiting for the Quran. An awardee in saffron clad after thanking the team member, observed that he was so eager to read the Quran for so long, now he has got the opportunity to do so. One of the recipient of the award, Ms Papiya Ghosal who was also given a Quran, later phoned Maulana Mohd Sahfique Qasmi and said, she was going through the book and shall disturb him frequently if there is something which needs interpretation. (Mohd. Abdullah, PSF -Peace and Spirituality Forum- Kolkata)
— This is to inform you that the copies of the Qur'an in English have reached us. We already distributed some to the foreign participants in an academic program here in Sarajevo. I am really glad that we met and that I got the opportunity to listen and talk at least shortly to Maulana in Turkey (May 2012). As for the translation of the Qur'an, yes, our Center can help distribute it in Bosnia and the South Eastern Europe. (Dr. Ahmet Alibasic, The Faculty of Islamic Studies in Sarajevo, Bosnia& Herzegovina)
— •The governor of Tripura Dr. Dnyandeo Yashwantrao Patil travelled with me from Agartala to Kolkata on 25th june 2012 on flight AI 744. I had presented to him Quran and Reality of Life, he appreciated it very much. At 11 'o clock at night, I got a call from the governor himself and he thanked me once again for giving him the literature and said that he liked The Reality of Life very much and the verses of the Quran were very impressive and that he would use them in his speeches. He gave me an open invitation to be a guest at Rajniwas in Tripura and said that he would like to discuss about peace and& spirituality in more detail personally. (Khurram Quraishi, Delhi, Pilot Air India)
— •I would like to share with you the experience of one of our Kolkata Team members, Mr. Aftab Alam. He is a Special Revenue Officer in the Department of Land and land Reforms, Govt. of West Bengal. Recently, during his posting in District Maldah in West Bengal, he availed the opportunity of Dawah Work and gifted the English translation of Quran to Mr. Khagendra Nath Dew, ADM (LR) and other officers there. All accepted the gift with great pleasure and gratitude. When an Assistant Teacher of Bamangola High School was given the gift of the Quran, his pleasure knew no bounds; he warmly shook hands with our friend and expressed his gratitude. (Mohd. Abdullah, PSF, Kolkata Team)
— •I found cps international around a year ago, I have foud my thought pattern is paralell with the Maulanas and irrespect him alot and have humbly been spreading his lectures in my own community. I listen religiulously to the Sunday lecture of Maulanas upto ten times before the next sunday lecture. I have distibuted 51 copies of Tazkir ul Quran and over 20 copies of Islam Ek Ta’rufu. (Dr Alia Faruqui, Pakistan)
— The Prophet of Peace should be made compulsory education for every student in India of course in a condensed form. Nobody had given me this version until now. I have passed it on to Dr. Ananda Thejus who is a doctor in theology and a good friend of mine. (• Mrs. Susan Cherian, Fathima Sarah, Bangalore)
— •I have always been an avid reader and came to Maulana sahab's writings purely by Allah's wish. I researched about Maulana sahab's writings, read his writings in the forms of books/articles, listened to a lot of his audio/video lectures posted on his website. For me all this was like a discovery. I have produced many research papers in my engineering field. After reading Maulana sahab's writings and listening to him, I get the same feeling of joy, discovery and amazement which I get when I find something new for my research work. Though I am thousands of miles away from him, I revere him, love him for the sake of Allah and have very high regard for him in my heart. I listen to his every weekly lecture dutifully, read his weekly articles and daily blogs. All this is like food to me, I can't survive without. I wish to carry forward the mission of Maualan sahab in recent times. (Abul Hasan, University of Calgary, Calgary, AB, Canada)
-10 ایک خط: مولانا محترم، 24جون 2012 کو میں دہلی میں تھا اور میں نے آپ کے لکچر میں شرکت کی جس کا عنوان تھا :پولٹکل ایکٹوزم یا فیوٹائل ایکٹوزم (Political Activism or Futile Activism)- آپ کے لیکچر سے اسلام کے کئی اہم پہلو واضح ہوئے جس کو سن کر میں تھرلنگ کے احساس میں ڈوب گیا- آپ کے لکچر کو سن کر جو باتیں میں نے سمجھی ہیں وہ یہ ہیں— مسلمان دو سوسال سے سیاسی ایمپائر کی بازیابی کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، حالاں کہ اُس سے بھی کئی گنا زیادہ بڑا ایمپائر ہمارے پاس موجود ہےاور وہ ہے دعوہ ایمپائر، اور دعوہ ایمپائر کی موجودگی کے بعد کسی اور ایمپائر کی ضرورت نہیں- کیوں کہ امتِ مسلمہ کی ذمہ داری حاملِ قرآن ہونے کی حیثیت سے دعوت الی اللہ ہے- ایسی حالت میں فیوٹائل ایکٹوزم کی کیا ضرورت، اللہ نے ہمیں دعوہ ایمپائر کے روپ میں گلوبل ایمپائر دے دیاہے- اب سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں- اب ہمارے لئے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ ہم گلوبل دعوت کے لیے جدوجہد کریں- دوسری اہم بات یہ تھی کہ قرآن کے مطابق، ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم خود قسط یعنی عدل کو اپنائیں نہ کہ قسط کو نافذ کرنے کے لیے پرتشدد تحریک چلائیں- اب ہمارے لئے ٹکراؤ کا کوئی جواز نہیں- ہمارے لئے اب صحیح طور پر صرف ایک ہی انتخاب ہے، وہ یہ کہ دعوہ ایمپائر اور اظہار رائے کی آزادی جیسے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے ہم خدا کےپیغام کو ساری انسانیت تک پہنچا دیں، مولانا، دعوہ ایمپائر کے اِس تصور نے میرے اندر ایک نئی روح بھر دی ہے- (حافظ ابو الحکم محمد دانیال، بی ایس سی، پٹنہ، بہار)
واپس اوپر جائیں