Pages

Tuesday 1 November 2005

Al Risala | November 2005 (الرسالہ،نومبر)

2

- انسانی شخصیت

4

- انسان کا اَلْمیہ

7

- انسان کی منزل

11

- انسان اور حیوان

14

- یہ نمبر موجود نہیں!

16

- تقدیر انسانی

18

- انسان کی دریافت

20

- خدا کا کریشن پلان

23

- جیسا بونا ویسا کاٹنا

26

- پھول اور کانٹا

29

- کائناتی ماڈل

31

- جنت کا پیشگی تعارف

33

- آئیڈیل دنیا

35

- جنت کے دروازے پر

44

- حادثہ توجیہہ کے لیے کافی نہیں

47

- روحانی ترقی

48

- آج کی دنیا اور اگلی دنیا


انسانی شخصیت

کیمسٹری کا پہلا سبق جو ایک طالب علم سیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی چیز فنا نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنی صورت بدل لیتی ہے:
Nothing dies, it only changes its form.
اس عالمی کلیہ سے انسان کے مستثنیٰ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جس طرح مادہ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ جلنے یا پھٹنے یا کسی اور حادثہ سے وہ فنا نہیں ہوتا بلکہ شکل بدل کر دنیا کے اندر اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ اسی طرح ہم مجبور ہیں کہ انسان کو بھی ناقابل فنا مخلوق سمجھیں اور موت کو اس کے خاتمہ کے ہم معنیٰ قرار نہ دیں۔
یہ محض بالواسطہ قیاس نہیں بلکہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو براہ راست تجربہ سے ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرعلم الْخَلِیَّہ (cytology) بتاتا ہے کہ انسان کا جسم جن چھوٹے چھوٹے خلیوں (cells) سے مل کر بنا ہے وہ مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ایک متوسط قد کے انسان میں ان کی تعداد تقریباً ۲۶ ٹریلین ہوتی ہے۔ یہ خلیے کسی عمارت کی اینٹوں کی طرح نہیں ہیں جو ہمیشہ وہی کے وہی باقی رہتے ہوں۔ بلکہ وہ ہر روز بے شمار تعداد میں ٹوٹتے ہیں اور غذا ان کی جگہ دوسرے تازہ خلیے فراہم کرتی رہتی ہے۔ یہ ٹوٹ پھوٹ ظاہر کرتی ہے کہ اوسطاً ہر دس سال میں ایک جسم بدل کر بالکل نیا جسم ہو جاتا ہے۔ گویا دس برس پہلے میں نے اپنے جس ہاتھ سے کسی معاہدہ پر دستخط کئے تھے وہ ہاتھ اب میرے جسم پر باقی نہیں رہا۔ پھر بھی ’’پچھلے ہاتھ‘‘ سے دستخط کیا ہوا معاہدہ میرا ہی معاہدہ رہتا ہے۔ جسم کی تبدیلی کے باوجود اندر کا انسان پہلے کی طرح اپنی اصل حالت میں موجود رہتا ہے۔ اس کا علم، اس کا حافظہ، اس کی تمنا ئیں، اس کی عادتیں، اس کے خیالات بدستور اس کی ہستی میں شامل رہتے ہیں۔ اسی لئے ایک حیاتیاتی عالم نے کہا ہے کہ انسانی شخصیت تغیر کے اندر عدم تغیر کا نام ہے:
Personality is changelessness in change.
اگر صرف جسم کے خاتمہ کا نام موت ہو تو ایسی موت تو ’’زندہ‘‘ انسانوں کے ساتھ بھی ہر روز پیش آتی رہتی ہے۔ ساٹھ سا ل کی عمر کا ایک شخص جس کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا دیکھتے ہیں، وہ جسمانی خاتمہ کے معنیٰ میں چھ بار مکمل طور پر مرچکا ہے۔ اب چھ بار کی جسمانی موت سے اگر ایک انسان نہیں مرا تو ساتویں بار کی موت سے کیوں اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو موت کے بعد بھی زندہ موجود رہتاہے۔ دوسری چیزیں اگر گیس کی صورت میں باقی رہتی ہیں تو انسان اپنے شعوری وجود کی صورت میں اپنی شخصیت کو باقی رکھتا ہے۔
موت کے بعدزندگی کے اور بھی بہت سے استدلالی قرائن ہیں ان میں سے ایک نُطْق (speech)ہے۔ انسان کا بولنا ایک انتہائی عجیب ظاہرہ ہے۔ نطق آدمی کی پوری شخصیت کی علامت ہے۔ یہ نطق حیرت انگیز طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔
آواز کی ریکارڈنگ کے جدید طریقو ں نے اس حقیقت کو ایک معلوم اور معروف چیز بنا دیا ہے۔۲۴؍ اگست ۲۰۰۰ کی صبح کی خبروں میں میں نے ریڈیو پر سنا کہ ہندستان کے مرکزی وزیر مسٹر کمار منگلم کا آج صبح سویرے دہلی میں انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد رات کو آٹھ بجے دوبارہ جب میں نے ریڈیو کو کھولا تو اس میں اس کی تفصیلی خبر کے ساتھ وفات یافتہ وزیر کا ایک بیان ان کی اپنی آواز میں سنایا جارہا تھا جو انہوں نے اپنی موت سے کچھ پہلے دیا تھا۔ جب میں نے ان کی آواز کو سنا تو اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے ایک شخص جو مر گیا ـتھا وہ دوبارہ زندہ ہو گیا ہے اور اٹھ کر لوگوں کے سامنے بول رہا ہے۔
نطق کے بارہ میں یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو جدید ریکارڈنگ کے دور میں ہر ایک کے سامنے آرہا ہے۔ یہ ایک نشانی ہے جو انسان کو بتارہی ہے کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں، وہ زندگی کے اگلے مرحلے میں داخل ہونا ہے۔ وہ موجودہ دنیا میں مر کر موت کے بعد کی اگلی دنیا میں دوبارہ جی اُٹھنا ہے۔ انسانی زندگی کی درست منصوبہ بندی وہی ہو سکتی ہے جو موت کے بعد کی اگلی دنیا میں انسان کے ابدی دورِ حیات تک محیط ہو۔
واپس اوپر جائیں

انسان کا اَلْمیہ

فطرت کے قانون کے مطابق، انسان کو ایسے حالات میں پیدا کیا گیاہے کہ اس کو اپنی پوری زندگی مشقتوں میں گزارنی پڑے۔ اس کے مطابق، مشقت اور رنج خالق کے تخلیقی منصوبہ کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کوئی بھی انسان اس پر قادر نہیں کہ وہ اپنے آپ کو زندگی کے اِس پُرمشقت کورس سے بچا سکے۔
دنیا کی زندگی میں رنج و مشقت خالق کے تخلیقی منصوبہ کا حصہ ہیں۔ یہ نظام اس لیے ہے کہ آدمی کو یاد دلایا جائے کہ موجودہ دنیا تمہارے لیے عیش گاہ کے طورپر نہیں بنائی گئی بلکہ وہ امتحان گاہ کے طورپر بنائی گئی ہے۔ موجودہ دنیا اس لیے ہے تاکہ آدمی مختلف احوال سے گزرے۔ انہی احوال کے درمیان یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص جنت کی ابدی دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہے یا نہیں۔ جو شخص ان احوال کے دوران صحیح اور مطلوب رد عمل نہ پیش کرے وہ اِس قابل ہے کہ اس کو الگ کرکے جہنم کے کوڑے خانے میں ڈال دیا جائے۔
موجودہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی ’’مَشقّت‘‘ (toil) کی یہ صورتِ حال بدستور باقی ہے۔ لیکن خدا کے تخلیقی نقشہ سے بے خبری کی بنا پر لوگ اس کی نوعیت کو سمجھ نہیں پاتے اور غلط رد عمل پیش کرکے اپنے آپ کو خدا کی نظر میں ایسا انسان ثابت کرتے ہیں جو امتحان کے کورس سے گزرا مگر وہ اپنے آپ کو کامیاب نہ کرسکا۔
موجودہ زمانے میں اس مسئلے کو لے کر بڑے بڑے ادارے کھُلے ہیں جو اپنے دعوے کے مطابق ڈی اسٹریسنگ(de-stressing) کا کام کرتے ہیں۔ یعنی دماغی سوچ کو معطّل کرکے آدمی کو سکون عطا کرنا۔ مگر یہ ایک قسم کا وقتی عملِ تخدیر(anesthesia) ہے، نہ کہ مسئلے کا کوئی حقیقی حل۔ اِس مسئلے کا حقیقی حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اسٹریس مینیجمنٹ(stress management) ۔
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں مصیبت کا شکار رہتے ہیں وہ اکثر اپنے آپ کو اُس چیز میں مشغول کرلیتے ہیں جس کو انسانی خدمت یا سوشل سروس کہا جاتا ہے۔ یہ گویا غم غلط کرنے کی ایک تدبیر ہے مگر وہ بھی ’’مشقت‘‘ کی صورت حال کا صحیح اور مطلوب رد عمل نہیں۔
سوشل سروس ایک انسانی خدمت ہے اور اس اعتبارسے وہ بلاشبہہ ایک قابل تعریف عمل ہے۔ مگر زندگی کے بارے میں فطرت کے تخلیقی نقشہ کی اہم تر نسبت سے دیکھا جائے تو اس کے اندر ایک غیرمطلوب پہلو چھپا ہواہے۔ غور کیجئے کہ جو شخص کسی مصیبت کا تجربہ کرتا ہے اور پھر وہ سوشل سروس میں مشغول ہوجاتا ہے، اس کی نفسیات کیا ہوتی ہے۔ اس کی نفسیات ایک جملہ میں یہ ہوتی ہے کہ—جو کچھ میں نے بھُگتا وہ دوسروں کو نہ بھگتنا پڑے:
Let no other suffer what I have suffered.
یہ نفسیات بتاتی ہے کہ آدمی سارے معاملہ کو بس دنیا کا معاملہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک مصیبت صرف دنیا کی مصیبت ہے اور سب سے بڑا کام یہ ہے کہ دنیا کو بے مصیبت جگہ بنا یا جائے۔ حالاںکہ یہ سوچ فطرت کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہے، اس لیے وہ یہاں واقعہ بننے والی ہی نہیں۔
جب بھی دنیا میں کسی کو کوئی ناخوشگوار تجربہ ہو تو وہ اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی اس سے صحیح سبق لے۔ وہ اس حقیقت کو یاد کرے کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔یہاں کسی کو بھی آرام کی زندگی ملنے والی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کے منفی تجربات سے سبق لے۔ وہ اپنے اندر اس شعور کو جگائے کہ اس محدود دنیا میں مجھے اپنی مطلوب زندگی ملنے والی نہیں ۔ مجھے اپنی مطلوب زندگی اگلے دَورِ حیات کی لامحدود دنیا میں تلاش کرنی چاہیے۔
ایسی حالت میں ناخوشگوار تجربات کا صحیح سبق یہ ہے کہ آدمی اگلی دنیا کی جنت کو یاد کرے، وہ اپنے اندر اس سوچ کو بیدار کرے کہ —جو کچھ میں نے آج کی عارضی دنیا میں بھُگتاوہ مجھے کل کی ابدی دنیا میں نہ بھگتنا پڑے:
Let me not suffer in the Hereafter that which I have suffered in this world.
کامیاب وہ ہے جس نے عارضی دنیا میں ابدی دنیا کو پہچانا۔ جس نے موجودہ دنیا کی ناکامی میں اگلے دورِ حیات کی ابدی کامیابی کا راز دریافت کرلیا۔
خدا نے موجودہ دنیا کو ایک ایسے نقشہ کے مطابق بنایا ہے کہ یہاں ہر انسان ’’مشقت‘‘ میں رہے۔ دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ موت کے بعد آنے والی دوسری دنیا غم سے پاک ہوگی جو صرف خدا کے پسندیدہ لوگوں کو ملے گی۔ زندگی کے بارے میں یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مذکورہ قسم کے تمام مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اس تخلیقی تقسیم کی روشنی میں دیکھئے تو تمام انسانی مسائل کی جَڑ یہ ہے کہ لوگ موت سے پہلے کی دنیا میں اپنی جنت بنانا چاہتے ہیں جب کہ یہاں فطرت کے نظام کے تحت وہ حالات ہی موجود نہیںکہ کوئی شخص یہاںاپنی جنت بنا سکے۔ جس طرح ریت یا دلدل کے اوپر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی ہے اسی طرح موجودہ دنیا میں کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ یہاں اپنا عیش محل تعمیر کرسکے۔ اور جب فطری قانون کے تحت آدمی اس ناکامی سے دوچار ہوتا ہے تو وہ مختلف قسم کے منفی ردّ ِعمل کا شکار ہوکر اپنے کو مزید تباہی میں ڈال لیتا ہے۔
صحیح یہ ہے کہ آدمی اس تخلیقی قانون کا اعتراف کرے اور اس کے مطابق، وہ اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ یہ منصوبہ صرف ایک ہے— موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو وہ مطلوب انسان بنانا جو موت کے بعد کی دنیا میںجنت میں داخلہ کا مستحق قرار پائے۔ فطرت کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، موت سے پہلے کی دنیا میں انسان کے لیے قناعت ہے، اور موت کے بعد کی دنیا میں انسان کے لیے جنت۔ دَور قناعت میں جنت نہیں، اور دَورِ جنت میں قناعت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی منزل

ڈاکٹر الکسس کیرل (Alexis Carrel) ۱۸۷۳ میں فرانس میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ سائنسی تعلیم کے بعد انہوں نے اپنے کیرئر کا بیشتر حصہ امریکا میں گزارا۔ ۱۹۱۲ میں ان کو میڈیسن کا نوبل پرائز ملا۔ ۱۹۴۴ میں ان کا انتقال ہوا اور فرانس میں ان کے وطن میں ان کی تدفین ہوئی۔
ڈاکٹر الکسس کیرل کی ایک کتاب ۱۹۳۵ میںانسان نامعلوم (Man The Unknown) کے نام سے چھپی۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔ مختلف زبانوں میںاس کے ترجمے شائع ہوئے۔ اس کتاب کے بارے میں اس کے ایک تبصرہ نگار نے درست طورپر لکھا ہے کہ: یہ کتاب خالص سائنسی اعتبار سے انسان اور اس کی زندگی کے بارے میں مصنف کے تجربات کا خلاصہ پیش کرتی ہے:
This book sums up much of his experience of man and his life seen from the purely scientific aspect.
۳۱۲ صفحہ کی اس کتاب میں ڈاکٹرا لکسس کیرل انسانی زندگی کی حقیقت معلوم کرنے میں ناکام رہے۔ چنانچہ اپنی اس کتاب کا ٹائٹل انہوں نے ان الفاظ میں مقرر کیا : انسان نامعلوم (Man The Unknown)
اس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جہاں تک انسان بحیثیت ایک سائنسی وجود کا معاملہ ہے اس کو ڈاکٹرالکسس کیرل بڑی حد تک دریافت کرچکے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی کتاب کا نام انسان نامعلوم کیوں رکھا۔ ایسا ایک کنفیوژن کی بنا پر ہوا۔ الکسس کیرل نے ’’انسان‘‘ کو تو معلوم کرلیا تھامگر ان کا مطالعہ ان کو یہ نہ بتا سکا کہ اس انسان کی منزل کیا ہے۔ ان کو محسوس ہوا کہ ایک معلوم انسان ایک غیر معلوم منزل کی طرف جارہا ہے۔ اور یہی ان کی عدم معرفت کا اصل سبب ہے۔اس اعتبار سے کتاب کا زیادہ صحیح ٹائٹل یہ ہوگا: نامعلوم منزل (Goal The Unknown)
یہ صرف ڈاکٹر الکسس کیرل کا مسئلہ نہیں۔ یہی تمام فلاسفہ اور مفکرین کا مسئلہ ہے۔ انسان بظاہر ان کے لیے ایک معلوم چیز تھی۔ مگر اس معلوم انسان کی منزل کیا ہے، وہ ان کے لیے آخری حد تک غیر معلوم رہی۔ انسان اور اس کی منزل کے درمیان یہی فکری خلا ہے جو ہزاروں سال سے انسان کو سرگرداں کئے ہوئے ہے۔ مگر آخر میںکنفیوژن کے سوا کسی کو کچھ نہیں ملا۔یہ ایک لائف ڈیفائننگ (life defining) سوال ہے اور اس کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اس کا تشفی بخش جواب دریافت کیا جائے۔
اصل یہ ہے کہ یہ فلاسفہ اور مفکرین انسان کی منزل اِسی آج کی دنیا میں ڈھونڈھ رہے ہیں۔ جب کہ آج کی دنیا میں وہ سرے سے موجودہی نہیں۔ یہ دنیا ایک نامکمل دنیا ہے، جب کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک مکمل دنیا کا طالب ہے۔ انسان حیاتِ ابدی چاہتا ہے، جب کہ موت سے پہلے کی اس دنیا میں حیات ابدی کسی کے لیے ممکن ہی نہیں۔ انسان مسرتوں کی دنیا چاہتا ہے مگر اِس دنیا میں طرح طرح کے ناموافق حالات ہیں جو اس دنیا کو پرمسرت دنیا بنانے میں لازمی رکاوٹ ہیں۔ انسان آئیڈیل دنیا چاہتا ہے مگر یہاں وہ ایک غیر آئیڈیل دنیا میں رہنے پر مجبور ہے۔ انسان پیدائشی طورپر پرفیکشنسٹ (perfectionist)ہے۔ وہ ایک پرفیکٹ دنیا چاہتا ہے مگر ساری کوششوں کے بعد وہ صرف یہ دریافت کرتا ہے کہ یہاں پرفکٹ دنیا کا ملنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جوچیز غیر معلوم ہے وہ انسان نہیں ہے۔ غیر معلوم چیز دراصل انسان کی منزل ہے۔ دوسرے لفظوں میں، وہ دنیا جو انسان کے خوابوں کی تعبیر ہو، جو ہر قسم کے تضاد سے خالی ہو، جہاں انسان پورے فُل فِلمنٹ(fulfilment) کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جی سکے۔
یہ بظاہر ناقابلِ حل مسئلہ اس وقت واضح طورپر حل ہوجاتا ہے جب کہ انسان کا مطالعہ خدائی اسکیم کی روشنی میں کیا جائے۔ یعنی مخلوق کو سمجھنے کے ساتھ خالق کی منشا کو بھی سمجھا جائے۔ یہی اس معاملہ میں سائنٹفک طریقہ ہے۔ جب اِس حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا مسئلہ صرف اس لیے ہے کہ خدا کے کریشن پلان (creation plan) کو سامنے رکھے بغیر انسان کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انسان ایک مخلوق ہے، وہ خود خالق نہیں، جس طرح مشین ایک مصنوع (make) ہے، وہ خود اپنی صانع (maker) نہیں ۔ ایسی حالت میں انسان کی حقیقت کو جاننے کے لیے خالق کے تخلیقی نقشہ کو جاننا ضروری ہے۔ انجینئر کے منصوبہ کو جانے بغیر مشین کی توجیہہ نہیںکی جاسکتی۔ اسی طرح خالق کے تخلیقی نقشہ کو جانے بغیر انسان کی توجیہہ کرنا ممکن نہیں۔ اس تخلیقی نقشہ کو سامنے رکھے بغیر انسان کی زندگی اور اس کی معنویت ناقابل فہم رہتی ہے۔ لیکن اس تخلیقی نقشہ کو سمجھنے کے بعد ہر چیز پوری طرح قابل فہم بن جاتی ہے۔ ہر چیز اپنا صحیح مقام پالیتی ہے:
Everything falls into place.
اصل یہ ہے کہ اس دنیا کو بنانے والے نے اپنے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اُس کو ایک جوڑا دنیا (pair world) کی شکل میں بنایا ہے۔ ایک وہ دنیا جس میں ہم پیدا ہونے کے بعد رہتے ہیں۔ دوسری وہ دنیا جہاں ہم موت کے بعد چلے جاتے ہیں۔ اس طرح انسانی زندگی کے دو حصے ہیں،ایک قبل از موت پیریڈ (pre-death period) اور دوسرا بعد از موت پیریڈ (post-death period) ۔ انسانوں کو اُس کے پیدا کرنے والے نے ایک ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ مگر اُس نے اس کی زندگی کو دو مرحلوں میں تقسیم کردیا ہے۔ قبل ازموت دور اور بَعد از موت دور۔
موت سے پہلے کی دنیا آزمائشی مقام(testing ground) کے طورپر بنائی گئی ہے اور موت کے بعد کی دنیا دارُالجَزاء (world of reward) کے طورپر۔ موجودہ دنیا چونکہ ٹسٹ کے لیے بنا ئی گئی ہے اس لیے یہاںہر ایک کو آزادی حاصل ہے۔ یہاں ہر چیز ناقص اور محدود صورت میں ہے۔ گویا کہ موجودہ دنیا ایک قسم کا اگزامینیشن ہال(examination hall) ہے۔ یہاں ٹسٹ دینے کے بقدر ضروری سامان موجود ہیں مگر پُرمسرت زندگی گزارنے کے لیے جو اعلیٰ چیزیں درکار ہیں وہ یہاں موجود نہیں۔ اگزامنیشن ہال کے اندر کوئی طالب علم اپنی مطلوب زندگی کی تعمیر کرنا چاہے تو اس کو صرف مایوسی ہوگی۔ یہی مایوسی ان لوگوں کو ہورہی ہے جو موجودہ ٹسٹ کی دنیا میں اپنے مطلوب مستقبل کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
قبل از موت دنیا میں کسی عورت یا مرد کو کیا کرنا ہے کہ وہ بعد از موت دنیا میں اپنی مطلوب دنیا (desired world) پاسکے، اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کو خالق کے منشا کے مطابق استعمال کرے۔
بعد از موت زندگی کے لیے خدا نے ایک مکمل دنیا بنائی ہے جس کا نام جنت ہے۔ یہ جنت ہر اعتبار سے آئیڈیل اور پرفکٹ ہے۔ اس جنت میں بسانے کے لیے خدا کو ایسے انسان درکار ہیں جو جنت کی اس دنیا میں بسائے جانے کے اہل ہوں۔ موجودہ دنیا میں جو آدمی اپنے آپ کو خدائی معیار کے مطابق کوالیفائی (qualify) کرے گا وہ جنت کی معیاری دنیا میں بسایا جائے گا۔
یہ کوالیفائڈ عورت اور مرد کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے خدا کی معرفت حاصل کریں۔ جو فکری کنفیوژن سے باہر آکر سچائی کو دریافت کریں۔ جو غیر خدا کی پرستش کو چھوڑ کر خدا کے پَرستار بنیں۔ جو آزادی کے باوجود اپنے آپ کو خدائی ڈسپلن میں دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جو منفی حالات میںاپنے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر کریں۔ جو دوسروں کے ساتھ بھی وہی اخلاقی معاملہ کریں جو وہ اپنے ساتھ چاہتے تھے۔
خدا کے کریشن پلان کے مطابق، یہی معیار (criterion) ہے۔ جو عورت یا مرد اس معیار پر پورے اتریں وہ موت کے بعد ابدی جنت میں بسائے جائیں گے۔ اور جو لوگ اِس معیار پر پورے نہ اتریں وہ موت کے بعد ابدی جہنم (hell) میں ڈال دئے جائیں گے جہاں ان کے لیے حسرت اور مایوسی کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔ اہلِ جنت کا کیس ان لوگوں کا کیس ہے جنہوں نے آج کی دنیا کے مواقع (opportunities) کواستعمال (avail) کیا اور اہلِ جہنم کا کیس ان لوگوں کا کیس ہے جو موجودہ دنیا کے مواقع کو استعمال (avail) نہ کرسکے۔ ان کا کیس محروم مواقع (missed opportunities) کا کیس قرار پائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ کوئی موقع صرف ایک بار تمہارا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ ابدی کامیابی کے معاملہ میں یہ قول پوری طرح درست ہے۔ کیوں کہ یہ موقع کسی کو بھی دوسری بار ملنے والا نہیں۔ جن لوگوں کا کیس مواقع کو استعمال کرنے والے (opportunities availed) کا کیس قرار پائے گا وہ بھی ہمیشہ کے لیے ہوگا اور جن لوگوں کا کیس مواقع کو کھونے والے (opportunities missed) کا کیس ہوگا وہ بھی ہمیشہ کے لیے ہوگا۔اِس معاملہ میں ہر ایک کے لیے ناکامی بھی ابدی ہوگی اور کامیابی بھی ابدی۔
واپس اوپر جائیں

انسان اور حیوان

معلوم کائنات میں صرف انسان وہ مخلوق ہے جو ذہن (intelligence) رکھتا ہے۔ معلوم طورپر کوئی بھی دوسری مخلوق اس معاملے میں انسان کی شریک نہیں۔ حیوان بظاہر ایک زندہ مخلوق ہے۔ مگر حیوانات کی تمام سرگرمیاں اُن کی جِبِلَّت(instinct) سے کنٹرول ہوتی ہیں۔ جبلت کو سادہ زبان میں بے شعور ذہانت کہہ سکتے ہیں۔ با شعور ذہانت صرف انسان کی خصوصیت ہے کسی اور کی نہیں۔
جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان کا ذہن لامحدود امکانات کا حامل ہے:
Human brain contains about hundred million billion billion particles.
انسان اپنی صلاحیت کے اعتبار سے لامحدود امکانات لے کر پیدا ہوتا ہے مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ہر انسان اس احساس کے ساتھ مرتا ہے کہ وہ جو کچھ پانا چاہتا تھا اس کو وہ نہ پاسکا۔ فُل فِل مِنٹ (fulfilment) ہر انسان کی ایک گہری تمنا ہے۔ مگر ہر انسان فُل فِل منٹ کی منزل کو پائے بغیر مرجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی ٹریجڈی ہے جو اس دنیا میں ہر عورت اور مرد کا مقدر بنی ہوئی ہے۔
اس دنیا میں بے شمار حیوانات ہیں۔ وہ بھی انسان کی طرح پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں ، مگر مذکورہ قسم کی عدم آسودگی کسی حیوان کا مسئلہ نہیں۔ ٹریجڈی کا لفظ صرف انسان کی ڈکشنری میں پایا جاتا ہے، وہ حیوان کی ڈکشنری میں موجود نہیں۔
انسان اور حیوان میں اس تضاد کا جواب ایک سادہ واقعے میں ملتا ہے۔ انسان اور حیوان کا تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طور پرآئندہ کَل (tomorrow) کا تصور پایا جاتا ہے۔گویا انسان کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ وہ اپنے آج کو کل تک وسیع کرناچاہتا ہے، وہ اپنے آج میں جوکچھ نہ پاسکا اس کو وہ اپنے کل میں پانا چاہتا ہے۔
حیوانات کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ حیوانات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ آئندہ کل (tomorrow) کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ وہ صرف آج میں جیتے ہیں اور آج ہی میں مرجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ حیوانات کا بعض کام جو بظاہر کل پر مبنی معلوم ہوتا ہے مثلاً، چیونٹی کا آئندہ موسم کے لیے خوراک جمع کرنا، وہ بھی جبلت کے تقاضے کے تحت ہوتا ہے نہ کہ کَل یا مستقبل کے شعور کے تحت۔
انسان کی اس منفرد صفت کو لے کر جب غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا فُل فِل مِنٹ کے درجے کو پانے کا جذبہ کَل کی نسبت سے ہے۔ یعنی وہ کَل حاصل ہونے والا ہے۔ آج کا حیاتیاتی اسپین (span) بہت مختصر ہے، اس لیے اس کے حصول کو فطرت نے اس کو کَل کے دورِ حیات میں رکھ دیا ہے۔
اس لحاظ سے انسان کی زندگی کے دو مرحلے ہیں، ایک قبل ازموت مرحلۂ حیات اور دوسرا بعد از موت مرحلۂ حیات۔ قبل از موت مرحلۂ حیات عارضی ہے اور بعد ازموت مرحلۂ حیات ابدی۔ یہ تقسیم اس لیے ہے کہ انسان جو کچھ آج نہ پاسکا اس کو وہ کل کے مرحلۂ حیات میں پاسکے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا، انسانی برین (brain)کے اندر ایک سو ملین، بلین بلین پارٹکل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انسانی ذہن لامحدود پوٹینشیل رکھتا ہے۔یہ پوٹینشیل اتنا زیادہ ہے کہ انسان کی طبعی عمر جو لگ بھگ سو سال ہے، وہ اس پوٹینشیل کو کام میں لانے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ حتیٰ کہ اگر انسان کی عمر اس سے بہت زیادہ ہو تب بھی زمین کے حالات اتنے محدود ہیں کہ اس محدود زمین پر انسان اپنے لامحدود ذہن کا استعمال نہیں پاسکتا۔ انسانی ذہن کے لامحدود امکان کے مقابلے میں انسان کی عمر بھی ناکافی ہے اور موجودہ زمینی قیام گاہ کی عمر بھی ناکافی۔
اس حقیقت پر غور کیا جائے تو ہم یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ انسان کو اپنے مکمل فُل فِل منٹ کے لیے ایک اور طویل تَر عمر اورایک اور زیادہ بڑی دنیا درکار ہے۔ موجودہ حالت میں انسانی ذہن کے امکانات ہمیشہ غیر استعمال شدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اس حقیقت کو سامنے رکھ کر زندگی کی توجیہہ کی جائے تو ہم یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ انسان کی زندگی آئس برگ کی مانند ہے۔ اس آئس برگ کا بہت چھوٹا حصہ قبل از موت مرحلۂ حیات میں نظر آتا ہے اور اس کا زیادہ بڑا حصہ بعد ازموت مرحلۂ حیات میں چھپا ہوا ہے۔ یہ مانے بغیر انسانی زندگی کی توجیہہ نہیں ہوتی اور جب کوئی تصور کسی مشاہدے کی توجیہہ کے لیے ایک ہی امکانی تصور بن جائے تو یہ اس بات کا علمی ثبوت ہوتا ہے کہ وہ تصور عین حقیقت ہے۔ یہی اس معاملے میں درست علمی موقف ہے۔
مذکورہ حقیقتوں کو سامنے رکھ کر انسانی زندگی کی توجیہہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا انسان کی صرف عارضی قیام گاہ ہے۔ وہ اس کی ابدی منزل نہیں۔
ہر انسان لازمی طورپر موت سے دوچارہوتا ہے۔ یہ موت کیا ہے؟ موت دراصل ایک درمیانی پُل ہے۔ موت عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف منتقل ہونا ہے۔ موجودہ دنیا وہ دنیا ہے جہاں آدمی گویا اپنی تربیت کرتا ہے۔ موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات گویا ایک ٹریننگ پریڈ ہے۔ یہاں وقتی قیام کے دوران اپنے آپ کو تربیت یافتہ بنا کر اگلی مستقل دنیا میں جانا ہے، جہاں یہ موقع ملے گا کہ آدمی اپنے ذہن کے تمام امکانات کو استعمال کرے اور مکمل فُل فِل مینٹ کی خوشی حاصل کرسکے۔
تاہم دوسرے مرحلۂ حیات میں اُنہیں لوگوں کو جگہ ملے گی جنہوں نے پہلے مرحلۂ حیات میں اپنی باقاعدہ تربیت کی ہوگی۔ جو لوگ غیر تربیت یافتہ حالت میں وہاں پہنچیں گے وہ وہاں کے مواقع استعمال کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔ وہ قبل از موت دورِ حیات میں بھی محروم رہیں گے اور وہ بعد ازموت مرحلۂ حیات میں بھی فُل فِل مینٹ سے مکمل طورپر محروم رہیں گے۔ یہ محرومی بلا شبہہ ان کے لیے ایک ایسی سزا ہوگی جس سے زیادہ سخت سزا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
انسان اگر صرف اپنے آج میں جئے اور اپنے آج میں مَر جائے تو وہ گویا حیوان کی زندگی جِیا اور حیوان کی زندگی مرگیا۔ حقیقی انسان وہ ہے جو اپنے آج سے گذر کر اپنے کل تک پہنچ جائے۔ جو اپنی محدود دنیوی عمر کو ختم کرکے اس طرح مرے کہ اس میں اپنے کل کی تعمیر کرلی ہو، وہی حقیقت میں انسان ہے اور وہی اس قابل ہے کہ اس کو کامیاب انسان کا ٹائٹل دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

یہ نمبر موجود نہیں!

آپ اگر اپنے ٹیلی فون پر کسی شخص کا نمبر ڈائل کریں اور کوئی غلط بٹن دب جائے تو آپ کی کال مطلوب شخص تک نہیں پہنچے گی۔ آپ کو دوسری طرف سے ہیلو کی آوازنہیں آئے گی بلکہ کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت یہ ہوگا کہ ٹیلی فون ایکسچینج سے ریکارڈ کی ہوئی ایک آواز سنائی دے گی۔ ۳۱ ؍اکتوبر ۲۰۰۴ کو میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ میںنے اپنے ٹیلی فون پر دہلی کے ایک صاحب کا نمبر ڈائل کیا۔ دوسری طرف سے یہ آواز سنائی دی—یہ نمبر موجود نہیں:
This number does not exist.
ایکسچینج کی یہ آواز سن کر اچانک میرے ذہن میں خیالات کا ایک طوفان بَرپا ہوگیا۔ میںنے سوچا کہ اس مادی واقعہ میں ایک بہت بڑا روحانی سبق موجود ہے۔ وہ یہ کہ اگر کوئی انسان خدا سے ربط قائم کرنا چاہے اور وہ اپنے غلط ذہن کی بنا پر خدا کے سوا کسی اور کو اپنا خدا سمجھ بیٹھے اور خدا سمجھ کر اس کو پکارنے لگے تو اس کے ساتھ بھی یہی ہوگا کہ براہِ راست خدا کی طرف سے تو اس کو کوئی جواب نہیں ملے گا۔ البتہ ایک اور آواز اس کو سنائی دے گی جو اس سے کہہ رہی ہوگی کہ تم نے جس خدا کو پکارا ہے وہ خدا سرے سے موجود نہیں:
This God does not exist
خدا کی طلب انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ ہر انسان پیدائشی طورپر خدا کو پانا چاہتا ہے۔ مگر تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں نے یہ غلطی کی کہ خدا کے سوا کسی اور کو خدا کا درجہ دے دیا۔حقیقی خدا سے رشتہ قائم ہونا انسان کے لیے سب سے بڑی رحمت ہے۔ جس عورت یا مرد کا رشتہ خدا کے ساتھ قائم ہوجائے اس کی زندگی میں ہدایت کی روشنی آجائے گی۔ اس کے اندر روحانی شخصیت پیدا ہوگی۔ اس کو ذہنی ارتقاء کا اعلیٰ درجہ حاصل ہوگا۔ اس کے برعکس جو شخص کسی غیرِ خدا کو خدا کا درجہ دے دے وہ ہمیشہ اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔
موجودہ زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی خدا کا نام لیتا ہے۔ ہر آدمی کسی نہ کسی چیز کو خدا کا درجہ دے کراس کو اپنائے ہوئے ہے۔ مگر جہاں تک روحانی شخصیت کا تعلق ہے، اس کا حقیقی معنوں میںکہیں وجود نہیں۔ اس کا سبب واضح طورپر یہی ہے کہ لوگ غیرخداؤں کو اپنا خدا بنائے ہوئے ہیں۔وہ کسی نہ کسی غیر خدا کو ٹیلی فون کررہے ہیں۔ مگر جواب میں ہر ایک کے پاس یہ آواز آرہی ہے کہ جو نمبر تم نے ڈائل کیا ہے وہ نمبر موجود نہیں، جس کو تم خدا سمجھ کر پکاررہے ہو اس خدا کا کہیں وجود ہی نہیں، اس لیے تم کو اس کی طرف سے کوئی جواب بھی ملنے والا نہیں۔
ہر آدمی کی یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقی خدا کو دریافت کرے اور پھر یہ معلوم کرے کہ اس خدا سے ربط قائم کرنے کا ذریعہ اس کے لیے کیا ہے۔ اس دریافت کے بغیر انسانی زندگی نہ صرف نامکمل ہے بلکہ وہ یقینی طور پر تباہی کے انجام سے دوچار ہونے والی ہے۔ یہی کسی انسان کا سب سے بڑا مقصد ہے، یہی انسان کی جدوجہد کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسانی زندگی کو بامعنی بناتی ہے۔ جس انسان کی زندگی اس دریافت سے خالی ہو وہ بلاشبہہ سب سے بڑا مفلس ہے، خواہ بظاہر اس نے مادی چیزوں کا ڈھیر اپنے گرد اکھٹا کرلیا ہو۔
خدا کی دریافت سے مُراد بَرتَر سچائی (higher truth) کی دریافت ہے۔ اور اس بَرتَر سچائی کی دریافت اور اس سے تعلق قائم کرنا ہی وہ چیز ہے جو انسان کی زندگی کو با معنٰی بناتی ہے۔ یہ دریافت نہیں تو زندگی بامعنٰی بھی نہیں۔
مزید سنگین بات یہ ہے کہ کسی انسان کو یہ موقع صرف قبل ازموت مدت حیات میں ملتا ہے۔ بعد ازموت کی مدت حیات میں کسی انسان کو یہ موقع ملنے والا نہیں۔ انسان کے لیے اُس کے خالق کا بنایا ہوا قانون یہ ہے—موت سے پہلے کی زندگی میں کرنا، اور موت کے بعد کی زندگی میں اُس کا انجام پانا۔
واپس اوپر جائیں

تقدیرِ انسانی

مشہور مسیحی مشنری بلی گراہم (Billy Graham) نے بتایا ہے کہ ایک بار وہ سفر میں تھے۔ اس دوران اُن کو ایک دولت مند امریکی کا پیغام ملا۔ اس پیغام میں کہاگیا تھا کہ فوراً مجھ سے ملو۔ بلی گراہم اپنا سفر ملتوی کرکے مذکورہ امریکی دولت مند کے پاس پہنچے۔
امریکی دولت مند کے گھر پہنچتے ہی اُن کو ایک علیٰحدہ کمرہ میں لے جایا گیا۔ یہاں مذکورہ امریکی دولتمند اُن کا انتظار کررہا تھا۔ ملاقات ہوئی تو امریکی دولت مند نے بلی گراہم سے کہا کہ تم دیکھتے ہو کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ زندگی نے اپنی تمام معنویت کھو دی ہے۔ میں جلد ہی ایک نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ لگانے والا ہوں۔ نوجوان !کیا تم مجھ کو امید کی ایک کرن دے سکتے ہو:
You see, I am an old man. Life has lost all meaning. I am going to take a fateful leaf into the unknown. Young man, can you give me a ray of hope.
یہ صرف ایک امریکی دولت مند کی کہانی نہیں، بلکہ یہ تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ ہر آدمی خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ چھوٹا آدمی ہو یا بڑا آدمی۔ ہر شخص آخر کار اِسی احساس سے دوچار ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے لیے ایک پسندیدہ دنیا بنانا چاہتا ہے۔ وہ اپنا سارا وقت اس میں لگا دیتا ہے۔ یہاںتک کہ اس کی مختصر زندگی کا آخری وقت آجاتا ہے اور وہ اِس احساسِ مجبوری کے ساتھ اس دنیا سے چلا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ پانا چاہتا تھا اس کو وہ پا نہ سکا۔
ایسا کیوں ہے۔ اس وسیع کائنات میں انسان واحد مخلوق ہے جو اپنے سینے میں بے شمار خواہشیں (desires) رکھتا ہے۔ کیا یہ خواہشیں اسی لیے ہیں کہ وہ کبھی پوری نہ ہوں اور ہر انسان خود اپنی خواہشوں کے قبرستان میں دفن ہو کر رہ جائے۔ ہر عورت اور مرد کے ذہن میں خوابوں کی ایک دنیا بَسی ہوئی ہے۔ کیا سُہانے خوابوں کی یہ دنیا صرف اس لیے ہے کہ وہ محض خواب بن کر رہ جائے اور کبھی اُس کی تعبیر نہ نکلے۔ ہر انسان تمنّاؤں کا ایک باغ اپنے سینے میں اُگاتا ہے، مگر کسی انسان کو یہ خوشی نہیں ملتی کہ وہ اس خوبصورت باغ میں داخل ہوسکے۔
فطرت میں یہ تضاد کیوں ہے۔ انسان کے سوا وسیع کائنات میں ایسا تضاد کہیں موجود نہیں۔ نباتات، جمادات اور حیوانات کی پوری دنیا اس قسم کے تضاد سے مکمل طورپر خالی ہے۔ پھر یہ تضاد استثنائی طورپر صرف انسان کی زندگی میں کیوں پایا جاتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اور کائنات کی دوسری چیزوں کے درمیان ایک بے حد بنیادی فر ق ہے۔ وہ یہ کہ انسان کی زندگی کے دو مرحلے ہیں— موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات اور موت کے بعد کا مرحلہ ٔ حیات۔ اس کے برعکس کائنات کی بقیہ تمام چیزوں کا صرف ایک مرحلہ ہے۔ یعنی وجود میں آنا اور پھر ایک دن مٹ جانا، پیدا ہونا اور پھر مَر کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا۔
اصل یہ ہے کہ انسان جو کچھ اپنے پہلے مرحلۂ حیات میں پانا چاہتا ہے وہ اس کے لیے دوسرے مرحلۂ حیات میں مقدر کیا گیا ہے۔ اور جو چیز سفرِ حیات کے اگلے مرحلے میں ملنے والی ہو وہ سفرِ حیات کے ابتدائی مرحلے میں کبھی کسی کو نہیں ملتی۔اس صورت حال کا سبب یہ ہے کہ انسان کے لیے فطرت کا ایک خصوصی قانون ہے جو اس کائنات کی دوسری چیزوں کے لیے نہیں۔ وہ یہ کہ انسان کی زندگی کو عمل اور جزا کے اُصول کے تحت رکھا گیا ہے۔ یعنی موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں عمل کرنا اور موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میںاس کا انجام پانا۔
یہی قانون انسان کی زندگی کے معاملے کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قانون کو سمجھنے کے بعد انسان کی پوری زندگی با معنٰی بن جاتی ہے۔ یہ قانون انسان کی زندگی کے تمام سوالات کا کامل جواب فراہم کرتا ہے۔ اس قانون کو جاننے کے بعد پوری انسانی زندگی کی تشفی بخش توجیہہ مل جاتی ہے۔ اس قانون کے مطابق مو ت سے پہلے کی دنیا انسان کے بیج ڈالنے کا مرحلہ ہے اور موت کے بعد کی دنیا اس کے نتیجے میں ہَرا بھرا درخت اور پھول و پھل پانے کا مرحلہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ موجودہ دنیا میں پھول اور پھل حاصل کرنے کی لا حاصل کوشش نہ کرے بلکہ وہ اپنی ساری توجّہ بہترین طورپر تخم ریزی میں لگا دے۔ یہ وہ انسان ہے جو موت کے بعد کی دنیا میں جنت کی صورت میں وہ سب کچھ پالے گا جس کو وہ موت سے پہلے کی دنیا میں نہ پاسکا تھا۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی دریافت

خدا تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے—
God is the eternal source of all kinds of beauty and goodness.
خدا نے انسان کو بنایا۔ انسان اپنی ذات میں ایک مکمل وجود ہے۔ اس کے اندر ہر قسم کی اعلیٰ صلاحیتیں کمال درجہ میں موجود ہیں۔ انسان کے دماغ (brain) میں 100 million billion billion پارٹیکل ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کے اندر لامحدود صلاحیتیں رکھ دی ہیں۔
اسی کے ساتھ انسان کو ایک ایسی انوکھی چیزدی گئی ہے جو وسیع کائنات میں کسی کو حاصل نہیں۔ یہ ہے احساسِ مسرَت۔ انسان اس کائنات میں واحد مخلوق ہے جو pleasure کا احساس رکھتا ہے اور pleasure سے انجوائے کرنے کی لامحدود capacity کا مالک ہے۔ انسان کے لیے ہر چیز امکانی طور پَر خوشی کا ذریعہ ہے۔
خدا نے اسی قسم کی انوکھی صلاحیتوں کے ساتھ انسان کو پیدا کیا ۔ اس کے بعد خدا نے ایک حسین دنیا بنائی جس کا نام اس نے جنت رکھا۔ جنت ایک perfect world ہے جس میں ہر قسم کا pleasure اپنی آخری perfect صورت میں موجود ہے۔ انسان اور یہ جنت دونوں گویا ایک دوسرے کا مثنیٰ (کاؤنٹر پارٹ) ہیں۔ انسان جنت کے لیے ہے اور جنت انسان کے لیے۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو پورا fulfilment ملے۔ جنت گویا انسان کی تکمیل ہے۔ جنت کے بغیر انسان بے معنی ہے اور انسان کے بغیر جنت بے معنٰی۔ جنت کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے اور انسان کے بغیر جنت ادھوری۔
انسان اس جنت کا امکانی باشندہ ہے مگر یہ جنت کسی انسان کو پیدائشی یا نسلی حق کے طورپر نہیں ملتی۔ جنت میں داخلہ کی شرط یہ ہے کہ انسان یہ ثابت کرے کہ وہ اپنی خصوصیات کے اعتبار سے اس کا مستحق ہے۔
موجودہ دنیا کو خدا نے اسی مقصد کے لیے selection ground کے طور پر بنایا ہے۔ موجودہ دنیا کے حالات اس طرح بنائے گئے ہیں کہ یہاں کا ہر جزء انسان کے لیے ایک ٹسٹ پیپر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں انسان ہر لمحہ trial پر ہے۔ خدا ہر انسان کے قول و عمل کا record تیار کر رہا ہے۔ اسی recordکی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ کون عورت اور مرد ہیں جو جنت میں بسانے کے لیے اہل باشندہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انسان کو اس دنیا میں مکمل آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہ آزادی انعام کے طورپر نہیں بلکہ test کے طور پر ہے۔ خدا یہ دیکھ رہا ہے کہ انسان اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ جو عورت اور مرد اپنی آزادی کو خدا کے نقشہ کے مطابق درست طورپر استعمال کریں ان کو جنّت میں بسانے کے لیے چُنا جائے گا اور جو لوگ آزادی کو misuse کریں وہ day of judgement میںقابلِ رد (rejected lot) قرار پائیں گے۔
انسان کی زندگی دو دوروں میں تقسیم ہے۔ قبل ازموت دور (pre-death period) اور بعد ازموت دور (post-death period) ۔قبل از موت دور امتحانی دور (trial period) ہے اور بعد ازموت دور انعام پانے کا دور (reward period) ۔ یہی وہ سب سے بڑی حقیقت ہے جس کو جاننے اور اختیار کرنے میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا کِریشَن پلان

ایک مغربی فلسفی نے لکھا ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس وسیع کائنات میں ایک اجنبی مخلوق ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نہ انسان اِس دنیا کے لیے بنایا گیا اور نہ دنیا اِس انسان کے لیے۔ انسان اورکائنات دونوں ایک دوسرے کے لیے بے جوڑ معلوم ہوتے ہیں۔
انسان لامحدود صلاحیتوں کو لے کر پیدا ہوا ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں وہ اپنی ان صلاحیتوں کا صرف محدود استعمال پاتا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ہمیشہ جینا چاہتا ہے مگر بہت جلد موت اُس سے پوچھے بغیر آتی ہے اور یکطرفہ فیصلے کے تحت اس کا خاتمہ کردیتی ہے۔ انسان خواہشوں (desires) کا ایک سمندر اپنے سینے میں لیے ہوئے ہے، مگر اس کی یہ خواہشیں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ ہر آدمی کے دماغ میں خوابوں کی ایک دنیا بَسی ہوئی ہے، مگر یہ خواب کبھی اپنی تعبیر نہیں پاتے۔ اس معاملہ میں چھوٹے انسان اور بڑے انسان میں کوئی فرق نہیں۔ مذکورہ فلسفی کے الفاظ میں، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیں گئی۔
انسان اور موجودہ دنیا دونوں ایک دوسرے کے لیے اس طرح غیر مطابق کیوں ہیں۔ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہم کو خدا کے کریشن پلان (creation plan) کو جاننا ہوگا۔ یہ سوال دراصل خدا کے کریشن پلان کو نہ جاننے کی وجہ سے پیداہوا۔ اور خدا کے کریشن پلان کو جان کر ہی اس سوال کا تشفی بخش جواب معلوم ہوسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اپنے ایک منصوبے کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس منصوبے کو جاننا انسان کی درست توجیہہ کے لیے ضروری ہے۔ جس طرح کسی مشین کی معنویت صرف اُس وقت معلوم ہوتی ہے جب کہ اس کے بنانے والے انجینیئر کا منصوبہ معلوم ہوجائے۔ انجینیئر کے ذہن کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں جو مشین کی معنویت کو واضح کرسکے۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔
انسان کو بنانے والے نے اس کو ایک خاص منصوبے کے تحت بنایا۔ وہ منصوبہ یہ ہے کہ موجودہ غیر معیاری دنیا میں آدمی ایک آزمائشی مدّت گذارے، اور اس کے بعد وہ اپنے عمل کے مطابق معیاری دنیا میں رہائش کا حق پاسکے، جس کا دوسرا نام جنت ہے۔
موجودہ دنیا ایک آزمائشی دنیا ہے۔ یہاں کسی عورت یا مَرد کو جنت کا مستحق بننے کے لیے جس اہلیت کا ثبوت دینا ہے، اس کے دو بڑے اَجزاء ہیں— حق کا اعتراف اور با اُصول زندگی۔ جو عورت یا مرد اس جانچ میں پورے اُتریں اُن کو جنت کی معیاری دنیا میں جگہ ملے گی۔ اور جو لوگ اس جانچ میں فیل ہو جائیں وہ ابدی طورپر محرومی کی زندگی گذاریں گے۔
موجودہ دنیا میںآدمی اپنے آپ کو پوری طرح آزاد پاتا ہے، مگر یہ آزادی بطورِ حق نہیں بلکہ وہ ہر ایک کے لیے آزمائش کا ایک پَرچہ ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کسی دباؤ کے بغیر سچائی کااعتراف کرے۔ وہ کسی جَبر کے بغیر حق کے آگے جھُک جائے۔ وہ اپنی آزادی کو خود اپنے اختیار سے پابندی بنا لے۔ حق کے آگے جُھکنا بلا شبہہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی قربانی ہے۔ حق کا اعتراف کرنا بظاہر اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلے میں چھوٹا کرنا ہے، مگر یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ اونچا درجہ دینے والی ہے۔ وہ آدمی کو جنّت کے دروازے تک پہنچانے والی ہے۔
اس سلسلے میں دوسری چیز بااصول زندگی ہے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا کردار اُس کے جذبات کے تحت بنتا ہے۔ غصہ، انتقام، حسد، نفرت، مقابلہ پرستی وغیرہ۔ یہ وہ منفی احساسات ہیںجو کسی آدمی کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ مگر آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میںبااُصول بنے۔ وہ خارجی محرکات کے تحت اپنا کیریکٹر نہ بنائے بلکہ اصول کے تحت اپنے کردار کا تعیّن کرے۔ وہ خود اپنے فیصلے کے تحت اپنی شخصیت کی تشکیل اعلیٰ اصولوں کی روشنی میںکرے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو جنتی کردار کہا جاتا ہے۔
تخلیق کا یہی منصوبہ ہے جس کے تحت انسان کو بنایا گیا ہے۔ انسان پوری کائنات کی سب سے اعلیٰ مخلوق ہے۔ انسان کا وجود ایک ایسا انوکھا وجود ہے جس کی کوئی دوسری مثال وسیع کائنات میں نہیں ملتی۔ انسان کو بجا طور پر اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ یعنی تمام پیدا کی ہوئی چیزوں میں سب سے زیادہ بہتر اور بامعنی وجود۔
جنت وہ دنیا ہے جہاں انسان جیسی مخلوق اپنی کامل تسکین پاسکے۔ جہاں انسان اُس طرح سوچے جس طرح وہ سوچنا چاہتا ہے۔ جہاں وہ اُن چیزوں کو دیکھے جن کو دیکھنا اُسے مرغوب ہے۔ جہاں وہ اُن آوازوں کو سُنے جو حقیقی معنوں میں اُس کو لذتِ سماعت عطا کرنے والی ہو۔ جہاں وہ اُن چیزوں کو چھوئے جن کو چھونا اُس کو اعلیٰ درجے کی لذّتِ لَمس عطا کرتا ہے۔ جہاں اُس کو ایسے لوگوں کی صحبت مِلے جن کی صحبت میں رہنا اُس کی زندگی کو آخری حد تک بامعنی بنانے والا ہے۔ جہاں کی ہوائیں اُس کے لیے حیات بخش جھونکے کی حیثیت رکھتی ہوں۔ جہاں وہ اُن چیزوں کو کھائے جن کو اُس کا ابدی ذَوق کھانا چاہتا ہے، اور اُن چیزوں کو پئے جن کو پینا آج اُس کے لیے صرف ایک حَسین تصور بنا ہُوا ہے۔
اس معیاری دنیا کا نام جنت ہے۔ یہی وہ جنت ہے جس کی تمنا ہر عورت اور مَرد کے دل میں بسی ہوئی ہے۔ یہی وہ جنت ہے جہاں انسان کی شخصیت پورے معنوں میں فل فِل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ اسی جنت کا طالب ہے۔ اور جنت اپنے پورے وجود کے ساتھ ایسے ہی انسان کا انتظار کررہی ہے۔ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ جنت اور انسان ایک دوسرے سے ملیں اور دونوں ایک دوسرے کو اپنا لیں جیسے کہ دونوں نے اپنے اُس جوڑے کو پالیا جو اُن کے لیے بنایاگیا تھا۔
واپس اوپر جائیں

جیسا بونا ویسا کاٹنا

انسان کی زندگی دو دوروں میں تقسیم ہے۔ قبل از موت دور (pre-death period) اور بعد ازموت دور (post-death period) ۔ موت سے پہلے کا محدود دور ٹسٹ کے لیے ہے اور موت کے بعد کا ابدی دور ٹسٹ کے مطابق اچھا یا بُرا انجام پانے کے لیے۔ ٹسٹ میں پورا اترنے والوں کے لیے جنت ہے اور ٹسٹ میں فیل ہونے والوں کے لیے جہنم۔
خالق کے مطابق، یہی اس دنیا کے لیے تخلیق کا نقشہ ہے۔ مگر جنت اور جہنم دونوں کی نوعیت یکساں نہیں۔ تخلیق کا اصل مقصود اہلِ جنت ہیں۔ جہاں تک اہلِ جہنم کا تعلق ہے، وہ تخلیق کا صرف اضافی جزء ہیں، وہ اس کا حقیقی جزء نہیں۔ اہل جہنم کا اصل رول یہ ہے کہ وہ اُس ماحول کو بناتے ہیں جس میں لوگوں کا ٹسٹ لیا جاسکے اور اس کے مطابق اہل جنت کا سلیکشن ہوسکے۔
موت سے پہلے کی دنیا ٹسٹ کے تقاضوں کے مطابق بنائی گئی ہے۔ ٹسٹ کی مدت پور ی ہونے کے بعد نہ اس دنیا کی ضرورت رہے گی اور نہ اس ٹسٹ میں فیل ہوجانے والوں کی۔ اس مدت کے پورا ہونے کے بعد کائنات میں صرف جنت باقی رہے گی اور وہ لوگ جو جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے لیے منتخب کئے گئے ہوں۔
اس تخلیقی اسکیم سے لوگوں کو باخبر کرنے کے لیے خالق نے مختلف انتظامات کئے ہیں۔ پہلا انتظام یہ کہ خود انسان کی فطرت میںاس کا گہرا شعور رکھ دیا گیا ہے۔ہر انسان کا یہ تجربہ ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کو کامل تسکین نہیں ملتی۔یہاں نہ غریب آدمی اپنی مطلوب تسکین حاصل کرتا ہے اور نہ امیر آدمی۔ یہاں نہ کمزور آدمی کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور نہ طاقت ور آدمی کو۔ یہاں ہر آدمی بے تسکینی کی حالت میں جیتا ہے اور تھوڑے دنوں کے بعد اسی حال میں مرجاتا ہے۔ یہ عمومی بے تسکینی کی حالت ہر عورت اور مرد کو یاد دلاتی ہے کہ تمہاری منزل کوئی اور ہے۔ تمہاری مطلوب دنیا قبل از موت دورِ حیات میں موجود نہیں۔ اس لیے اس کو بعد از موت دور حیات میں حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
اس تخلیقی نقشے سے باخبر کرنے کے لیے خالق نے بہت سے انتظامات اس دنیا میں کئے ہیں۔ مثلاً موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کوئی آرام کی زندگی نہ پاسکے۔ یہاں مسائل ہیں، یہاں بیماری ہے، یہاں حادثات ہیں، یہاں بورڈَم ہے، یہاں طرح طرح کے نقصانات ہیں اور پھر تھوڑی مدت کے بعد اچانک مرجانا ہے۔ اس طرح دنیا کے ناموافق حالات بار بار آدمی کو یہ یادد لاتے رہتے ہیں کہ تم اپنی مطلوب دنیا یہاں نہیں بنا سکتے۔ یہ دنیا تمہاری تمناؤں کی تکمیل کے لیے فیصلہ کن طورپر ناکافی ہے۔ یہ ناموافق صورت حال آدمی کو مسلسل حقیقت کی تلاش پر مجبور کرتی ہے۔
اسی طرح موجودہ دنیا میں بہت سے لوگ مصیبت (suffering) میں مبتلا ہو کر لوگوں کے لیے نمونۂ عبرت بن جاتے ہیں۔ ایک شخص مفلوج ہو کر وھیل چِیئر پر جی رہا ہے، یا کسی لا علاج بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی کی کشش کھو دیتا ہے۔ اس طرح کے مختلف لوگ گویا خالق کی طرف سے نشان منزل (sign post) کا کام کررہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ موجودہ دنیا کی زندگی کتنی بے حقیقت ہے۔ ایسے لوگ گویا خاموش زبان میں بتا رہے ہیں کہ انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خود سے اپنی مرضی کی دنیا اپنے لیے بنا سکے۔
حالات کے کورس میں جن لوگوں کو اس طرح سائن پوسٹ کا رول اداکرنے کا موقع ملے وہ لوگ اگر چہ بظاہر مصیبت میں دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے۔ موت کے بعد آنے والے فیصلہ کے دن ان سے چھوٹے عمل کو قبول کرلیا جائے گا۔ اپنی مصیبت کی بنا پر وہ جسمانی اعتبار سے اس قابل نہیں تھے کہ وہ کوئی بڑا عمل کرسکیں۔ اس بنا پر ان کے لیے صرف یہی کافی ہوجائے گا کہ وہ اپنے اس رول پر راضی ہوجائیں جو سائن پوسٹ کی حیثیت سے ان کے لیے مقدر ہوا تھا۔ وہ جس مصیبت میں مبتلا ہوئے ہیں اس پر صبرکرلیں۔ صبر اور رضا مندی ہی کی بنا پر کسی مزید عمل کے بغیر ان کو جنت میں داخلہ مل جائے گا۔
اِس حقیقت کا علم انسان کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں۔ مختلف ذرائع سے یہ بات انسان کے علم میں آچکی ہے کہ وہ موت سے پہلے کے دَورِ حیات میں اپنی پسند کی دنیا نہیں بنا سکتا۔ یہاں جوکوئی اچھّا عمل کرے گا وہ بعد از موت دَورِ حیات میں اپنی پسند کی دنیا پاسکے گا۔ جنّت اگلی دنیا میں بنے گی مگر جنّتی انسان آج ہی کی دُنیا میں بَن رہا ہے۔
جنت کیا ہے۔ موجودہ دنیا کو دیکھ کر جنت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ دنیا ایک اعتبار سے گویا جنت کا تعارف ہے۔ یہ جنت کا ایک بہت چھوٹا نمونہ ہے۔ جنت در اصل موجودہ دنیا کا تکمیلی ایڈیشن ہے۔ موجودہ دنیا میں جو نعمتیں ہیں وہی تمام نعمتیں جنت میں بھی ہیں ، فرق یہ ہے کہ موجودہ دنیا ناقص ہے اور جنت اس کے مقابلہ میں کامل۔ موجودہ دنیا غیر معیاری ہے اور جنت کی دنیا معیاری۔ موجودہ دنیا فانی ہے اور جنت کی دنیا ابدی۔ موجودہ دنیا میں خوف اورحُزن ہے، یہاں شور اور تکلیف ہے جب کہ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ خوف ہوگا اور نہ حزن، جہاں نہ شور ہوگا اور نہ تکلیف۔ موجودہ دنیا محدود یت اور ڈس ایڈوانٹج سے بھری ہوگی۔ جب کہ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ محدودیت ہوگی اور نہ کسی قسم کا ڈس ایڈوانٹج۔ جنت میں انسان کو فل فلمنٹ (fulfilment)حاصل ہوگا جب کہ موجودہ دنیا میں کسی کو بھی فُل فِلمنٹ حاصل نہیں ہوتا۔
جہنم وہ جگہ ہے جو اِس کے بالکل بَرعکس ہوگی۔ جہنم کی دنیا میں وہ تمام تکلیفیں مزید اضافہ کے ساتھ جمع کردی جائیں گی جن کا تجربہ ہم موجودہ دنیا میں کرتے ہیں۔
موت سے پہلے کا دَوراور موت کے بعد کا دور، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔ دونوں کے درمیان وہی نسبت ہے جو بونے اور فصل کاٹنے میں ہوتی ہے۔ موت سے پہلے کا زمانہ گویا بونے کا زمانہ ہے، اور موت کے بعد کا زمانہ گویا فصل کاٹنے کا زمانہ۔ جیسا بونا ویسا کاٹنا، یہ ایک ابدی اُصول ہے۔ یہ اُصول بعد ازموت دَورِ حیات پر بھی اتنا ہی منطبق ہوتا ہے جتنا کہ قبل ازموت دَورِ حیات پَر۔
واپس اوپر جائیں

پھول اور کانٹا

انسان کا عرصۂ حیات (life span) بلین سال سے بھی زیادہ ہے۔ مگر یہ عرصۂ حیات دو مختلف دوروں میں بٹا ہوا ہے—موت سے پہلے تقریباً سو سال اور بقیہ پوری مدت موت کے بعد۔ پہلے دور کی زندگی آج کی دنیا میں گزرتی ہے اور بعد کے دور کی زندگی کل کی دنیا میں گزرے گی۔
آج کی دنیا ایک مخلوط جنگل کی مانند ہے۔ یہاں پھول بھی ہیں اور اسی کے ساتھ کانٹے بھی۔ کل کی دنیا میں پھول اور کانٹے ایک دوسرے سے الگ کردئیے جائیں گے۔ اس کے بعد ایک ایسی ابدی دنیا بنے گی جس کے ایک حصے میں کانٹے ہی کانٹے ہوں گے اور دوسرے حصے میں پھول ہی پھول۔ آج کی دنیا میں ہر آدمی کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنے ابدی مستقبل کی تشکیل کرے۔ وہ اپنی زندگی کے ریکارڈ سے بتائے کہ کل کی دنیا میں وہ کانٹوں کے جنگل میں بسائے جانے کے قابل ہے یا پھولوں کے باغ میں۔
آج کی دنیا میں یہی گروپ بندی ہورہی ہے۔ ہرآدمی اپنی زندگی کے ریکارڈ سے یہ بتا رہا ہے کہ وہ دونوں گروپوں میں سے کس گروپ میں شامل کئے جانے کے لائق ہے۔ کانٹوں والے گروپ میں یا پھولوں والے گروپ میں۔آج کی دنیا کے حالات در اصل اسی شخصیت سازی کا ذریعہ ہیں۔ ہر عورت اور مرد اسی عمل سے گزر رہے ہیں۔ کوئی اپنے اندر کانٹوں والی شخصیت بنا رہا ہے اور کوئی اپنے اندر پھولوں والی شخصیت کی تعمیر کررہا ہے۔ آج کی دنیا میں یہ دونوں قسم کے لوگ بظاہر الگ الگ دکھائی نہیں دیتے مگر کل کی دنیا میں دو نوں قسم کے لوگ ایک دوسرے سے پوری طرح الگ ہوجائیں گے۔ وہاں پھولوں والی شخصیت صرف پھول کے روپ میں دکھائی دے گی اور کانٹوں والی شخصیت صرف کانٹے کے روپ میں۔
شخصیت سازی کے اس دوطرفہ عمل کو دوسرے لفظوں میں مثبت شخصیت اور منفی شخصیت کہہ سکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ہر آدمی کو منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ اب ایک شخص وہ ہے جو ان منفی تجربات کو منفی حیثیت ہی سے لے لے۔ ایسے آدمی کے اندر منفی شخصیت بنے گی، دوسرا آدمی وہ ہے جو منفی تجربہ کو مثبت غذا میں تبدیل کرسکے۔مثلاً ایک شخص آپ کو برا کہتا ہے۔ ایک شخص آپ کوستاتا ہے۔ ایک شخص آپ کے ساتھ اشتعال انگیزی کرتا ہے۔ ایک شخص آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک شخص آپ کے خلاف تخریب کاری کرتا ہے۔اب آپ کے لیے جواب (response) کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ ویسا ہی کریں جیسا کہ دوسرے شخص نے آپ کے ساتھ کیا۔ یعنی جو شخص آپ کو برا کہے آپ بھی اس کو برا کہیں، جو شخص آپ کو ستائے آپ بھی اس کو ستائیں۔ جو شخص آپ کو نقصان پہنچائے آپ بھی اس کو نقصان پہنچائیں جو شخص آپ کے خلاف تخریب کاری کرے آپ بھی اس کے خلاف تخریب کاری کریں۔ جو شخص آپ کو اشتعال دلائے آپ بھی اس کے مقابلہ میں مشتعل ہوجائیں، وغیرہ۔
جو آدمی ایسا کرے اس نے اپنے اندر منفی شخصیت بنائی۔ اس نے اپنے سینہ میں کانٹوں کی فصل اگائی۔ ایسے آدمی کی شخصیت کانٹوں والی شخصیت ہے۔ وہ موت کے بعد کی اگلی دنیامیں کانٹوں والی شخصیت کے طورپر اٹھے گا اور پھر کانٹوں سے بھرے ہوئے جنگل کے اندر اس کو ڈال دیا جائے گاتاکہ ابد تک وہ حسرت اور غم کی زندگی گزارتا رہے۔
اس کے برعکس دوسرا انسان وہ ہے جس نے دوسروں کی منفی روش کا مقابلہ مثبت رسپانس (response) سے کیا۔ جس کو دوسروں نے برا کہا مگر خود اس نے کسی کو برا نہیں کہا۔ دوسروں نے اس کو ستایا مگر اس نے کسی کو نہیں ستایا۔ جس کے خلاف دوسروں نے انتقامی کارروائی کی مگر اس نے دوسروں کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔جس کے خلاف دوسروں نے تخریب کاری کی مگر اس نے اپنی طرف سے کسی کے خلاف تخریب کاری نہیں کی۔ جس کو دوسروں نے نقصان پہنچایا مگر اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ جس کے خلاف دوسروں نے اشتعال انگیزی کی مگراس نے کسی کے خلاف کبھی اشتعال کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی۔
یہ دوسرا انسان وہ ہے جو کانٹوں کے درمیان پھول بن کررہا۔ اس نے اپنے اندر پھول جیسی شخصیت کی تعمیر کی۔ ایسے انسان کو اگلی دنیا میں یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ پھولوں کے باغ میں رہے۔ آج کی کانٹوں بھری دنیا میں پھول والی شخصیت بنانے کی تدبیر کیا ہے۔ اس کے لیے فطرت نے آج کی دنیا میں کچھ زندہ نمونے قائم کردیے ہیں۔ گائے اِسی قسم کا ایک نمونہ ہے۔ گائے فطرت کی ایک انڈسٹری ہے جس کو باہر کی دنیا سے گھاس کھانے کو ملتی ہے مگر وہ اپنے داخلی میکانزم کے تحت گھاس کو دودھ میں کنورٹ کرتی ہے۔ یہی معاملہ ہر عورت اور مرد کو اس دنیا میں کرناہے۔ ہر عورت اور مرد کو مسلسل یہ کرنا ہے کہ وہ ’’گھاس‘‘ کو ’’دودھ‘‘ کی صورت میں تبدیل کرتا رہے۔
انسان کے ذہن کے دوبڑے خانے ہیں۔ ایک شعوری ذہن (conscious mind) دوسرا لاشعوری ذہن (unconscious mind) ۔ جب بھی کوئی بات آدمی کے ذہن میںآتی ہے تو پہلے وہ اس کے ذہن کے شعور کے خانہ میں آتی ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ آگے بڑھ کر اس کے ذہن کے لاشعور کے خانہ میں پہنچ جاتی ہے۔ لاشعور آدمی کے ذہن کا وہ خانہ ہے جہاں ہر بات دوامی طورپر محفوظ رہتی ہے مگر وہ آدمی کے شعور کی گرفت میں نہیں رہتی۔ جو آدمی پھول والی شخصیت بننا چاہے اس کو یہ کرنا ہوگا کہ جب بھی کوئی منفی آئٹم اس کے شعوری ذہن میں آئے تو اُسی وقت وہ اپنی سوچ کو متحرک کرکے اس منفی آئٹم کو مثبت آئٹم میں تبدیل کرے تاکہ جب آگے بڑھ کر یہ آئٹم آدمی کے لاشعور کے اسٹور میں محفوظ ہوتو وہاں وہ مثبت آئٹم کے طورپرمحفوظ ہو نہ کہ منفی آئٹم کے طور پر۔ مثلاً کوئی بات اس کے شعور میں نفرت کے احساس کے طورپر آئے تو وہ اس کو diffuse کرکے وہ اس کو محبت کے احساس میں تبدیل کرے۔ کوئی بات حسد کے احساس کے طورپر اس کے دماغ میں آئے تووہ اس کو بدل کر اعتراف کے احساس میں تبدیل کرلے۔کسی بات پر اس کا ایگو (ego) بھڑکے تو وہ اس کو بدل کر تواضع کی صورت دے دے۔ کوئی تجربہ اس کے اندر خود غرضی کا احساس پیدا کرے تو وہ بدل کر اس کو بے غرضی کا احساس بنادے۔ کسی واقعہ میںاس کو اپنی حق تلفی دکھائی دے تو اس کو وہ بدل کر شکر کے احساس میں ڈھال لے۔
جو عورت یا مرد اپنے اندر اس طرح کی شخصیت تعمیر کریں ان کا حال یہ ہوگا کہ ان کے شعور کا اسٹور مکمل طور پر مثبت آئٹم کا خزانہ بن جائے گا۔ وہ منفی آئٹم سے پوری طرح خالی ہوگا۔ ایسی مثبت شخصیت والے لوگ ہی موت کے بعد کی ابدی دنیا میں پھولوں والے باغ میں جگہ پائیں گے۔ جہاں وہ ابدی طورپر خوشی اور آرام کی زندگی گزاریں۔
واپس اوپر جائیں

کائناتی ماڈل

انسان اپنے آپ کو ایک وسیع کائنات میں پاتا ہے۔ یہ کائنات گویاایک بہت بڑا سماج ہے۔ انسان اس سماج کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ انسان کو بھی اپنی زندگی میں اُسی روش کو اپنانا ہے جس روش کو کائنات کے دوسرے اجزا عملاً اپنائے ہوئے ہیں۔ یہی انسان کے لیے صحیح فطری طریقہ ہے اور اسی طریقہ میں انسان کی کامیابی کار از چھپا ہوا ہے۔
یہ کائناتی ماڈل کیا ہے۔ آپ خلا میں پھیلے ہوئے ستاروں اور سیاروں کو دیکھئے۔ ہر ستارہ اور سیارہ نہایت پابندی کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں چل رہا ہے۔ ان میں سے کوئی کسی دوسرے کے مدار میں داخل نہیں ہوتا۔ اِسی ڈسپلن کی وجہ سے خلا میں ہر طرف امن قائم ہے۔ انسان کو بھی اپنے سماج میں عدم مداخلت (non-interference) کی اسی پالیسی کو اختیار کرنا ہے۔ ہر ایک کے اندر یہ زندہ شعور ہونا چاہیے کہ اس کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے۔
اسی طرح درختوں کی دنیا کو دیکھئے۔ درختوں نے خاموشی کے ساتھ یہ نظام اختیار کررکھا ہے کہ وہ زندہ اجسام کی ضرورت پورا کرنے کے لیے مسلسل آکسیجن سپلائی کرتے ہیں اور زندہ اجسام سے نکلی ہوئی غیر مطلوب کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنے اندر لے لیتے ہیں۔ یہ ایک بے غرضانہ نفع بخشی کا نظام ہے۔ انسان پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی اسی نظام کو اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ پہاڑوں سے پانی کے چشمے اوپر سے نیچے کی طرف جاری ہوتے ہیں۔ ان چشموں کے ساتھ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ راستہ میں ان کے سامنے ایسے پتھر آتے ہیں جو بظاہر ان کے سفر کے لیے رکاوٹ ہوتے ہیں۔ مگر چشمہ ایسا نہیں کرتا کہ وہ پتھر کو ہٹا کر اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرے۔ اس کے بجائے وہ یہ کرتا ہے کہ وہ پتھرکے کنارے سے اپنا راستہ بنا کر آگے چلا جاتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا پیغام ہے کہ —رکاوٹوں سے نہ ٹکراؤ بلکہ رکاوٹوں سے ہٹ کر اپنی سرگرمی جاری کرو۔
اسی طرح حیوانات کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بار بار ان کے درمیان کوئی نزاعی اِشو پیدا ہوتا ہے مگر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ وقتی طور پر کچھ غُرّا کر یا سینگ مار کر وہ اس کو بھُلا دیتے ہیںاور جلد ہی وہ ایسے نارمل ہو جاتے ہیں جیسے کہ کچھ نہیں ہوا۔ اسی طرح انسان کو اپنے سماج میں رہنا ہے۔ سماجی زندگی میں بار بار ایسی چیزیں پیش آتی ہیں جو کسی عورت یا مرد کو ناگوار ہوتی ہیں۔ مگر ہر ایک کو یہ کرنا ہے کہ وہ اس ناگواری کو وقتی بنا دے۔ وہ اس کو مستقل تلخی کی صورت نہ اختیار کرنے دے۔
فطرت کی دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز دوسروں کو کچھ دیتی ہے مگر وہ دوسروں سے اپنے لیے کچھ نہیں لیتی۔ مثلاً سورج یکطرفہ طور پَر اہلِ دنیا کو روشنی دیتا ہے مگر وہ اس کی کوئی قیمت وصول نہیں کرتا۔ ہَوا مسلسل طورپر آکسیجن سپلائی کرنے کا کام کررہی ہے مگر وہ اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتی۔ اسی طرح موجودہ دنیا کی تمام چیزیں بلا معاوضہ لوگوں کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں، حالاں کہ ان میں سے کوئی بھی چیز اپنی خدمت کے لیے اپنا بِل اُن لوگوں کے پاس روانہ نہیں کرتی جو اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
اِس سے معلوم ہوا کہ آس پاس کی جو دنیا ہے وہ پوری دنیا ایک دینے والی دنیا (giver world) ہے، وہ لینے والی دنیا (taker world) نہیں ۔ گویا کہ اس دنیا کا کلچر دینے والا کلچر(giver culture) ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز مسلسل یہ پیغام دے رہی ہے کہ دوسروں سے لیے بغیر دوسروں کو دینے والے بنو۔
انسان کو یہی دینے والا کلچر اپنانا ہے۔ اس کو اپنے معاشرے میں دینے والا بن کر رہنا ہے نہ کہ لینے والا۔انسان کے لیے اس کے گِردوپیش کی کائنات ایک وسیع ماڈل ہے۔ انسان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اس ماڈل کو اپنی زندگی میںاختیار کرے، صِرف اِس فرق کے ساتھ کہ انسان کے سوا بقیہ کائنات میں یہ ماڈل قانونِ فطرت کے تحت مجبورانہ طورپر قائم ہے۔ جب کہ انسان اِس کائناتی ماڈل کو اپنی زندگی میںشعوری طور پر خود اپنے اختیار کے تحت قائم کرے گا۔
اپنے آزادانہ اختیار کو کائناتی ڈسپلن کے تحت لانا، گویا اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کوبے اختیار کرلینا ہے۔ قانونِ فطرت کے مقابلے میں یہی سپردگی (submission) کا رویہ انسان کے لیے صحیح ترین رویّہ ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو انسان کو اپنے ابدی دورِ حیات میںکامیابی کا ضامن ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا پیشگی تعارف

انسان بے شمار خواہشیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ خواہشیں اس کی زندگی کا سب سے زیادہ حسین سرمایہ ہوتی ہیں۔ آدمی ان خواہشوں کی تکمیل کے لیے ساری عمر دوڑتا رہتا ہے۔ آخر کارہر آدمی صرف یہ دریافت کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہشوں کو پورا نہ کرسکا۔ ہر آدمی کا یہ مقدر ہے کہ وہ خواہشوں کی تکمیل سے پہلے بھی غیر مطمئن ہو اور بظاہر خواہشوں کی تکمیل کے بعد بھی غیر مطمئن رہے۔یہ انجام ہر ایک کے لیے مقدر ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔
اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی خواہشیں لامحدود ہیں، جب کہ موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ اس فرق نے اس بات کو ناممکن بنا دیا ہے کہ کوئی شخص موجودہ دنیا میں اپنی خواہشوں کا محل تعمیر کرسکے۔ اس دنیا میں خواہشوں کے ہر محل کا انجام یہی ہونا ہے کہ آخر کار وہ خواہشوں کا قبرستان ثابت ہو۔ تاہم انسانی خواہشوں کا ایک مثبت رول ہے۔ یہ خواہشیں در اصل جنت کا پیشگی تعارف ہیں۔ یہ خواہشیں بتاتی ہیں کہ جنت کی وہ دنیا کتنی پُر مسرت دنیا ہوگی جہاں یہ تمام حسین خواہشیں مکمل طورپر پوری ہوں۔
موجودہ دنیا میں کامیابی کا راز خواہشوں کی تنظیم (desire management) ہے نہ کہ خواہشوں کی تکمیل کی ناکام کوشش۔ موجودہ دنیا اس لیے نہیں ہے کہ یہاں آدمی اپنی جنت تعمیر کرے۔ یہ دنیا صرف اس لیے ہے کہ یہاں آدمی اپنے حسنِ عمل سے اپنے آپ کو جنت میں داخلہ کا اہل ثابت کرے۔ ان خواہشوں کو اگر مثبت مفہوم میں لیا جائے تو وہ جنتی عمل کے لیے گہرے محرک کا کام کرنے والی ثابت ہوںگی۔
ہماری خواہشیں (desires) ہماری کوشش کے رُخ کو بتاتی ہیں، وہ ہماری کوشش کی منزل کو نہیں بتاتیں۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ منزل قابلِ حُصول ہی نہیں۔ ہر آدمی کی زندگی کی ایک ہی داستان ہے۔ اوروہ ہے خواہشوں کی تکمیل کے پیچھے دوڑنا اور خواہشوں کی تکمیل کے بغیر مرجانا۔
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی خواہش کی تکمیل کے لیے اتنے زیادہ عوامل درکار ہیں کہ اُن عوامل کو یکجا کرنا انسان کے بس ہی میں نہیں، خواہ اس کوایک ہزار سال کی عمر مل جائے اور ساری دنیا کی دولت اور اقتدار اس کے کنٹرول میں ہوں۔ مثلاً انسان ایک گھر بنا سکتا ہے مگر وہ یہ نہیں کرسکتا کہ زمین میںزلزلے کی آمدکو روک دے۔ انسان اعلیٰ اہتمام کے ذریعے صحت مند جسم بنا سکتا ہے مگر اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ موت کے قانون کو بدل دے۔ انسان ہر قسم کی لذّتوں کو اپنے گرد جمع کرسکتا ہے، مگر اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ لذتوں سے محظوظ ہونے کے بارے میں وہ اپنی محدودیت کو ختم کردے۔ انسان آسودگی کے ظاہری سامان اپنے گرد اکھٹاکر سکتا ہے مگروہ فطرت کے اُس قانون کو بدل نہیں سکتا جس کے تحت انسان کو بیماری اور حادثات جیسی چیزوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
اس تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے بس میں صرف کرنا ہے، انسان کے بس میں نتیجہ نہیں۔ کرنے کا اختیار انسان کو ہے مگر کرنے کے نتیجے میں ایک نئی دنیا کی تعمیر کا اختیار خالق کے سوا اور کسی کو نہیں۔ ایسی حالت میں جو شخص کرنے کے ساتھ یہ چاہتا ہے کہ وہ نتیجے کا محل بھی بنا ڈالے، وہ صرف غیر حقیقت پسندی کا ثبوت دے رہا ہے اور حقیقت پسندانہ سوچ کے تحت دنیا میں کوئی حقیقی نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں۔
اِس حقیقت کو سامنے رکھ کر سوچیے تو صحیح بات یہ نظر آتی ہے کہ انسان اپنے اور خالق کے درمیان اس تقسیم پر راضی ہوجائے کہ کرنا میرا معاملہ ہے اور اس کا نتیجہ پیدا کرنا خالق کا معاملہ۔ اِس قانون کے مطابق، موت سے پہلے کا زمانہ انسان کے لیے عمل کرنے کا زمانہ ہے اور موت کے بعد کا زمانہ خالق کی طرف سے عمل کا انجام پانے کا زمانہ۔
آدمی اگر اس حقیقت کا اعتراف کرلے تو اس کو بیک وقت دو فائدے حاصل ہوں گے۔ اوّل یہ کہ اس کا ٹینشن ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ ٹینشن نام ہے عمل اور نتیجے کے درمیان فرق کا۔ اور جب یہ فرق ختم ہوجائے تو ٹینشن بھی اپنے آپ ختم ہوجاتا ہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کو اس امر کی یقینی ضمانت حاصل ہوجائے کہ موت کے بعد وہ اپنے عمل کا مطلوب انجام اس طرح پالے گا کہ ہمیشہ کے لیے وہ خوشیوں کے ایک صَدا بہار باغ کا مالک بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

آئیڈیل دنیا

جٹ ایر ویز کی فلائٹ میگزین (Jet Wings) کے شمارہ اپریل ۲۰۰۵ء میں ایک مضمون چھپا تھا،جس کا عنوان یہ تھا—روڈ ٹو پَیراڈائز:
The Road to Paradise
سات صفحے کے اس با تصویر مضمون میں اُس کے رائٹرس (Gustasp and Jeroo Irani) نے بتایا ہے کہ انہوں نے انڈیا کے اَرونا چَل پردیش کے خوبصورت پہاڑی علاقے کاسفر کیا۔ انہوں نے بتایاکہ ہمالیہ کی اِس بلنددنیا میں ہر طرف فطرت کا حسن وافر مقدار میں موجود ہے۔ مگر اس علاقے میں سفر کرتے ہوئے بار بار تلخ تجربے بھی ہوتے ہیں۔ یہ علاقہ دُور سے دیکھنے میں تو بہت حسین معلوم ہوتا ہے لیکن وہاں کے راستوں میں چلنا اور وہاں کے مسائل سے نمٹنا پھول میں کانٹے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ ان تجربات کاتذکرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے لکھا تھاکہ ’’ہر جنت کا ایک سانپ ہوتا ہے:
Every Paradise has its serpent.
یہ مَثل بائبل کی ایک کہانی پَر مبنی ہے۔ اِس کہانی کے مطابق آدم کی جنت میں ایک سانپ بھی موجود تھا۔ مگر یہ کہانی درست نہیں۔ خدا کی بنائی ہوئی ابدی جنت میںکوئی ’’سانپ‘‘ نہیں۔ البتہ انسان بطورِ خود اپنے لیے جو عارضی جنتیں بناتا ہے ان میں سے ہر جنت میں ضرور ’’سانپ‘‘ موجود ہوتے ہیں۔ انسان کی بنائی ہوئی کوئی بھی جنت سانپ سے خالی نہیں۔
اصل یہ ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی ابدی جنت تو ایک آئیڈیل جنت ہے۔ وہاں نہ حال کی کوئی تکلیف ہے اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ وہاں نہ کوئی ڈِس ایڈوانٹیج ہے اور نہ کوئی محدودیت۔ وہاں نہ شور ہے اور نہ کسی قسم کی کثافت (pollution) ۔وہاں نہ فساد ہے اور نہ کوئی تشدّد۔ یہ مکمل معنوں میں ایک معیاری جنت ہے۔
یہ ابدی جنت اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ منتخب لوگوں کو وہاں بسایا جائے۔ انسانوں میں سے جو افراد اعلیٰ خدائی معیار پَر پورے اُتریں اُن کو یہ جنت مَوت کے بَعد کے مرحلۂ حیات میں انعام کے طورپر دی جائے گی۔ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس سے نکلنا نہ چاہیں گے۔اس ابدی جنت کی طلب ہر انسان کے اندر پیدائشی طورپر موجود ہے۔ ہر آدمی عین اپنی فطرت کے زور پر اس جنت کا طالب ہے۔ وہ ہر قیمت پر اس کو پانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔موت سے پہلے کی زندگی میں ہر عورت اور مرد اسی خوابوں والی ’’جنت ‘‘ کو بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ ہر عورت اور مرد کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے خوابوں میں بسی ہوئی جنت کو بنائے اور اس کے اندر زندگی گذارے۔
مگر عملاً یہ ہوتا ہے کہ ہر عورت اور مرد کے حصے میں صرف جدوجہد آتی ہے، اس کا مطلوب نتیجہ کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ ہر عورت اور مرد اپنی خوابوں والی جنت کو پانے میں اپنی ساری طاقت لگا دیتے ہیں مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے ڈریم لینڈ کو پائیں، اچانک ان کی موت آتی ہے اور وہ ناتمام آرزوؤں (unfulfilled wishes) کے ساتھ اگلی دنیا کی طرف چلے جاتے ہیں۔
کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ ہر آدمی یہ جانے کہ اس کی زندگی کے دو مَرحلے ہیں— قبل ازموت مرحلۂ حیات اور بعد از موت مرحلۂ حیات۔ خالق نے جس چیز کو بعد از موت مرحلۂ حیات میں رکھ دیاہو اس کو کوئی شخص قبل ازموت مرحلۂ حیات میں پانے والا نہیں۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو جاننے کا نام سچائی کی دریافت ہے۔ ہر عورت اور مرد کے لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ حیاتِ انسانی کے اِن دو مرحلوں کو جانیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ آج کی دنیا اپنے آپ کو مستحق بنانے کی جگہ ہے اور کَل کی دنیا اپنے استحقاق کے مطابق اپنا انجام پانے کی جگہ۔ہر عورت اور مرد کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ آج کی زندگی کو تیاری کا ایک موقع سمجھے۔ وہ اپنے وقت اور طاقت کا سب سے بڑا استعمال یہ سمجھے کہ وہ ابدی جنت میں داخلے کا خدائی معیار دریافت کرے۔ اور اِس دریافت کے مطابق اپنی زندگی کا نقشہ بنائے تاکہ جب اس کو موت آئے تو وہ خدا کی ابدی جنت کا لائق امیدوار (qualified candidate) قرار پائے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کے دروازے پر

On the Threshold of Paradise
جنت کیا ہے۔ جنت کوئی پراسرار چیز نہیں۔ جنت دوسرے معلوم سائنسی واقعات کی طرح ایک معلوم سائنسی واقعہ ہے۔ جنت دراصل زمین کا کنورژن ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، زمین پہلے آگ کی صورت میں تھی۔ پھر وہ ٹھنڈی ہوکر موجودہ زمین بنی۔ گویا غیر زمین نے کنورٹ ہو کر زمین کی صورت اختیار کی۔ اسی طرح مستقبل میں ایک اور اعلیٰ درجے کا کنورژن ہوگا۔ اس وقت غیر جنتی زمین کنورٹ ہو کر جنتی زمین بن جائے گی۔
موجودہ دنیا میں تمام چیزیں کنورژن کے ذریعے وجود میں آتی ہیں۔ پانی کیا ہے، دو گیسوں کا کنورژن۔ درخت کیا ہے، غیر درخت کا کنورژن۔ مشین کیا ہے ، لوہے کا کنورژن۔ صنعتی دنیا کیا ہے، غیرصنعتی دنیا کا کنورژن۔ اسی طرح مستقبل میں ایک زیادہ بڑا کنورژن پیش آئے گا۔ اس وقت موجودہ غیرمعیاری زمین بدل کر معیاری زمین بن جائے گی، اسی کا نام مذہبی زبان میں جنت ہے۔ اس واقعے کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیاہے: یوم تبدل الارض غیر الارض (ابراہیم ۴۸)
When the earth is turned into another earth.
زمین پر کنورژن کا یہ عمل بار بار پیش آیا۔ زمین کے لیے کنورژن ایک معلوم فطری پراسس ہے۔ وہ ایک معلوم فطری واقعہ ہے۔ ایسی حالت میں جنت کو ماننا صرف ایک ہونے والے واقعے کو ماننا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی فیکٹری کے بارے میں کہا جائے کہ اس سے ۹۹۹ پروڈکٹ نکل چکے ہیں اور اب اس سے ہزارواں پروڈکٹ نکلنے والا ہے۔
جنت صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں۔ خود فطرت کے محکم قانون کے مطابق، جنت ایک ہونے والا واقعہ ہے۔ فطرت کا نظام جس قانون کے تحت چل رہا ہے اُس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا مسلسل ایک ارتقائی عمل سے گذر رہی ہے۔ جنت گویا اسی ارتقائی عمل کی آخری اور انتہائی صورت ہے۔ جنت ایک تخلیقی آغاز کی فطری انتہا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات بے حد وسیع ہے، اتنی زیادہ وسیع کہ انتہائی طاقتور دور بینوں کی دریافت کے باوجود ابھی تک اس کی وسعتوں کا اندازہ نہ ہوسکا۔ اس ناقابلِ پیمائش حد تک وسیع کائنات میں زمین ایک بے حد چھوٹا سیارہ ہے۔ کائنات کے مقابلے میں ہماری زمین اُس سے بھی زیادہ چھوٹی ہے جتنا کہ پوری زمین کے مقابلے میں ایک ذرّہ۔
زمین کا یہ کُرہ وسیع کائنات کے اندر ایک انتہائی نادر استثناء ہے۔ پوری کائنات میں زمین واحد ایسا مقام ہے جہاںاستثنائی طورپر پانی ، سبزہ ، ہوا اور آکسیجن جیسی چیزیں موجود ہیں۔ زمین پر زندگی ہے اور اسی کے ساتھ وہ چیز بھی موجود ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ زمین کے اندر وہ ساری قیمتی چیزیں رکھ دی گئی ہیں جن کو استعمال کرکے انسان تہذیب و تمدن کی تعمیر کرتا ہے۔ زمین کے اندر تہذیب کے تمام اجزاء امکانی طور پر موجود ہیں۔ انسان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اِس پوٹینشیل (potential) کو ایکچول (actual) بنائے۔
اس اعتبار سے دیکھیے تو تہذیب کی تاریخ مسلسل طورپر ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف جارہی ہے۔ وہ ترقی کے ابتدائی مرحلے سے گذرکر ترقی کے اعلیٰ مرحلے کی طرف اپنا سفر طے کررہی ہے۔ تہذیب کے اس سفر کی تفصیل اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام تیار کردہ کتاب تاریخ البشریّۃ(The History of Mankind) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
تہذیبِ انسانی کے اس سفر کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی سورہ الانشقاق میں بتایا گیا ہے کہ زمین پر رات اور دن کی صورت میں بار بار تبدیلی کا واقعہ ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح زمین پر زیادہ بڑا واقعہ بھی پیش آئے گا۔ چنانچہ فرمایا کہ : تم کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسری حالت پر پہنچنا ہے۔ تو انہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ خدا کی طرف نہیں جھکتے:
You will surely move from one stage to another stage. What then is the matter with them, that they believe not? and when the Qur'an is read to them, they don't surrender before God. (84: 19-21)
قرآن کی ان آیات میں انسان کی اسی تہذیبی تاریخ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کا ارتقاء معلوم طورپر بتا رہا ہے کہ انسانی تہذیب مسلسل ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس ترقی کا آخری نمونہ وہی ہوگا جس کو روحانی تہذیب یا جنت کہاگیا ہے۔
تہذیب کی تاریخ بتاتی ہے کہ معلوم طورپر، انسانی تہذیب تین بڑے اَدوار سے گزر چکی ہے۔ تمام قرائن بتا رہے ہیں کہ اب وہ اپنے سفر کے چوتھے اور آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ تہذیب کے یہ تین بڑے ادوار حسب ذیل ہیں:
۱۔حَجری تہذیب (Stone Civilization)
۲۔ زرعی تہذیب (Agricultural Civilization)
۳۔ صنعتی تہذیب (Industrial Civilization)
ہر شخص جانتا ہے کہ تہذیب کے یہ تین ادوار وقوع میں آچکے ہیں۔ تاہم فیوچر شاک (Future Shock) کے مصنف الوِن ٹافلر(Alvin Taffler) کا کہنا ہے کہ تہذیب کا چوتھا، اور شاید آخری دور مستقبل میں ظاہر ہونے والا ہے۔ اس چوتھے دور کو الون ٹافلر نے سُپر انڈسٹریل ایج (Super Industrial Age) کہا ہے۔ یہ چوتھا دور، پچھلے ادوار کے مقابلے میں، مادّی سے زیادہ غیر مادی ہوگا۔ اس لیے زیادہ بہتر ہے کہ اس چوتھے دور کو روحانی تہذیب (Spiritual Civilization) کا نام دیا جائے۔
۱۔ اب پہلی تہذیب، حجری تہذیب کو لیجئے۔یہ تہذیب کا وہ دور ہے جب کہ انسان صرف یہ کرسکا تھا کہ زمین کی سطح پر بروقت جوچیزیںموجود ہیں ان کو اسی خام صورت میں استعمال کرے۔ ان موجودہ چیزوں میں پتھر سب سے زیادہ نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے علامتی طورپر اس دور کو حجری دورکہاگیا۔ اگر چہ ابتدائی تہذیب کے اس دور میں پتھر کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں استعمال میں آئیں جو پہلے سے زمین کی سطح پردستیاب تھیں۔ مثلاً لکڑی، حیوانات، باقاعدہ زراعت کے بغیر ملنے والی پیداوار، وغیرہ۔
جہاں تک انسان کا تعلق ہے، حجری تہذیب کے زمانے میں بھی انسان وہی تمام فطری اوصاف رکھتا تھا جو وہ آج رکھتا ہے۔ مثلاً بعد کی تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان کے برین میں ایک سو ملین بلین بلین پارٹیکل موجود ہیں۔ حجری دور کے انسان کے دماغ میں بھی اتنے ہی پارٹکل موجود تھے۔ مگر تعلیم و تربیت کی کمی کی بنا پر انسان ابھی اس قابل نہیں بنا تھا کہ وہ اپنے اندر چھپے ہوئے ان فطری امکانات کو استعمال کرسکے۔
۲۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ زمانہ آیا جس کو زرعی دو رکہاجاتا ہے۔ یعنی وہ د ور جس کو ہم نے زرعی تہذیب (Agricultural Civilization) کا نام دیا ہے۔ اس دور میں انسان نے مزید آگے بڑھ کر نیچر میںتصرف کا طریقہ دریافت کیا۔ اس دور میں آب پاشی، زراعت، مویشی کی پرورش، لوہے کا استعمال، پہیے دار گاڑی اور اس قسم کی دوسری چیزیں دریافت کیں۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر زندگی گزار سکے۔
۳۔ اس کے بعد تیسرا دور وہ ہے جس کو صنعتی دور یا صنعتی تہذیب کہا جاتا ہے۔ یہ تیسرا دور اُس وقت شروع ہوا جب کہ انسان نے حیوانی طاقت سے آگے بڑھ کر میکانیکل پاور کو دریافت کیا۔ اب انسان نے پانی کو اسٹیم پاور میں تبدیل کیا اور اسٹیم انجن بنائے۔ اسی طرح انسان نے پٹرول کو دریافت کیا اور پٹرول سے چلنے والی مشینیں بنائیں۔ اسی طرح اُس نے کمیونیکیشن کے نئے ذرائع دریافت کیے جس نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا۔
صنعتی دور میں انسان نے میکانیکل پاور کو استعمال کرکے بہت سی چیزیں بنائیں۔ مثلاً تیزرفتار سواری، تیز رفتار خبر رسانی، کاغذ اور چھَپائی کے طریقے، نئے اصولوں پر شہری تعمیر، تعلیم وترقی کا نیا نقطۂ نظر، وغیرہ۔ اس طرح حسن اور معنویت کی ایک نئی دنیا وجود میں آئی جس کو صنعتی تہذیب کہا جاتا ہے۔
تہذیب کا چوتھا دور وہ ہے جس کوالون ٹافلر نے سُپر انڈسٹریل ایج کا نام دیاہے۔ الون ٹافلر کے بیان کے مطابق، سُپر انڈسٹریل ایج کی خاص صفت یہ ہوگی کہ وہاں مکمل طورپر آٹو میشن (automation)کا رواج ہوگا۔ یعنی الیکٹرانکس کا استعمال اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ بیش تر کام خود بخود ہونے لگیں گے۔ عام حالات میں انسان کا چاہنا ہی اِس مقصد کے لیے کافی ہوجائے گا کہ اس کی تمام ضرورتیں خود بخود معیاری طورپر پوری ہوتی رہیں۔
آٹومیشن کا یہ نظام عین وہی چیز ہے جس کی پیشگی اطلاع جنت کے بارے میں دی گئی ہے۔ قرآن میں جنت کے بارے میں بتایاگیا ہے : ولکم فیہا ماتشتہی انفسکم ولکم فیہا ما تدعون (حٰم السجدہ ۳۱) یعنی تمہارے لیے جنت میں ہروہ چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔
الون ٹافلر نے مستقبل کے اس دورکو سُپر انڈسٹریل ایج کہا ہے۔ وہ گویا جنتی کلچر کا دوسرا نام ہے۔یہ گویا جنت کی پیشگی خبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ سُپر انڈسٹریل ایج مستقبل کے اُس معیاری دور کو علمی اعتبار سے قابلِ فہم بنا دیتا ہے جس کو اوپر کی تقسیم میں اسپریچول سویلائزیشن کا نام دیاگیا ہے۔
بظاہر تہذیب کا یہ چوتھا دور زیر تعمیر ہے۔ یہی چوتھا دور وہ دور ہے جس میں غالباً اُس معیاری دنیا کا ظہور ہوگا جس کو مذہبی اصطلاح میں جنت (paradise) کہاگیا ہے۔ موجودہ تحویلی دَور (Transitional Period) گویا وہ حالت ہے جس کوزیرِ تعمیر جنت(Paradise in the making) کہا جاسکتا ہے۔
جنت گویا تہذیبی سفر کے آخری دور کا نام ہے۔ قانونِ فطرت کے تحت بننے والی یہ دنیا یقینا اپنے وقت پر بنے گی۔ یہ دنیا ایک معیاری دنیا ہوگی۔ اس دنیا میں ہر قسم کی محدودیت (limitation) اور ڈس ایڈوانٹیج (disadvantage) کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہاں نہ خوف ہوگا اور نہ حُزن۔ یہاں نہ شور ہوگا اور نہ تکلیف۔ جنت کی یہ دنیا انسان کے اُن خوابوں کی تعبیر ہوگی جن کو وہ پہلے دن سے دیکھتا رہا ہے۔
اِسی کے ساتھ انسان کی ہستی میں نئی ترقیاں ظہور میںآئیں گی۔ یہ انسان کا نقطۂ عروج ہوگا، جہاں پہنچ کر انسان ایک کامل انسان بن جائے گا۔ اس کو وہ ابدی زندگی مل جائے گی جو بڑھاپا ،حادثہ، بیماری اور موت سے خالی ہوگی۔ یہ وہ معیاری دنیا ہوگی جہاں انسان اس پوزیشن میںہوگا کہ وہ اپنی ہستی کے تمام امکانات کو استعمال کرے۔ وہ کامل فُل فِل منٹ کا اعلیٰ تجربہ کرسکے۔
جنت گویا انسانی تہذیب کے ارتقائی عمل کا نقطۂ عروج (culmination) ہے۔ جنت اُس پرفیکٹ اور آئیڈیل دنیا کا ظہور ہے جس کا خواب ہمیشہ سے انسان دیکھتا رہا ہے۔ جنت میں پہنچ کر انسان تمام مصائب اور تمام مصیبتوں سے نجات پاجائے گا۔ جنت راحتوں اور خوشیوں کا وہ معیاری مقام ہوگا جس کے لیے کوئی فنا نہیں۔
مزید یہ کہ جنت کوئی ٹھہراؤ کی جگہ نہ ہوگی(الکہف: ۳۱)۔ جنت میں انسان کو ہر وقت نئی نئی دریافتیں ہوں گی، ایسی دریافتیں جن کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جنت میں بورڈم نہیں ہوگا۔ کیوں کہ بورڈم وہاں ہوتا ہے جہاں نئی دریافتیں نہ ہو رہی ہوں۔ انسان کے لیے نئی دریافت خوشی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جنت میں ہر روز لامحدود حقائق کا کوئی نیا دروازہ کھُلتا رہے گا۔ اسی لیے جنت کی خوشی ایک ابدی خوشی ہوگی، نہ کہ صرف ایک وقتی خوشی۔
اس جنت کا بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا کہ زمین کا بننا اور زمین پر مختلف تہذیبوں کا وجود میں آنا۔ قدیم حجری دَور کے اندر زیادہ ترقی یافتہ زرعی دَور چھپا ہوا تھا جو اپنے وقت پر ظاہر ہوا۔ اسی طرح زرعی دور کے اندر زیادہ ترقی یافتہ صنعتی دَور چھپا ہوا تھا جو اپنے وقت پر ظاہر ہو کر سامنے آیا۔ اسی طرح صنعتی دَور کے اندر زیادہ ترقی یافتہ ، لطیف اور روحانی دور چھپا ہوا ہے جو اپنے وقت پر ظاہر ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے گا۔ اس روحانی دَور یا جنتی دور کا ظہور میں آنا عملی طور پر اتنا ہی ممکن ہے جتنا کہ پچھلے اَدوار کا ظہور میںآنا۔
جب جدید صنعتی دو رآیا تو زمین کو دوبارہ سجایا گیا۔ منصوبہ بند انداز میں اس کی تعمیر کی گئی۔ تمدنی ترقیوںنے زمین کو ایک نئی، زیادہ بہتر زمین بنادیا۔ اسی طرح جب تہذیبی ترقی کا آخری دور، روحانی دور آئے گا تو زمین کو مزید زیادہ بہتر اور زیادہ مکمل بنا دیا جائے گا۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں واضح اشارے موجود ہیں۔ مثلاً فرمایا کہ: اُس وقت زمین زیادہ کشادہ کردی جائے گی(الانشقاق ۳) زمین کے صالح باشندے آزادانہ طورپر اس کے مالک بن جائیں گے (الزمر: ۷۴) حتیٰ کہ پوری کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اہلِ جنت کے چارج میں دے دی جائے گی (الحدید: ۲۱)
اسلامی روایات کے مطابق، زمین اپنی ابتدا میں جنوں کے چارج میں تھی۔ اس کے بعد وہ انسانوں کے چارج میں دی گئی۔ اب وہ آخری دور آنے والا ہے جب کہ زمین مکمل طورپر فرشتوں کے چارج میں دے دی جائے ۔ اُس وقت زمین میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں گی کہ وہ پورے معنوں میں ایک آئیڈیل ورلڈ اور پرفیکٹ ورلڈ بن جائے۔ زمین کے اس ارتقائی دور کی بابت قرآن میں اشارات موجود ہیں۔ مثلاً فرمایا کہ : یہ وہ دن ہوگا جب کہ زمین خدا کے نور سے جگمگا اُٹھے گی(الزمر ۶۹) آج زمین امکانی معنوں میں جنت ہے۔ کل یہ امکان واقعہ بن جائے گا۔ اور پھر زمین خوشیوں اور راحتوں کا ابدی مقام بن جائے گی۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ زمین کی موجودہ حالت آئیڈیل حالت نہیں ہے۔ زمین پر نیچر کا قائم کیاہوا لائف سپورٹ سسٹم بہترین حالت میں موجود ہے۔ زمین پر ہر قسم کے سامانِ حیات بہترین حالت میں موجود ہیں، مگر اسی کے ساتھ زمین پر ایک غیر آئیڈیل حالت پائی جاتی ہے۔ یہاںاچھے لوگوں کے ساتھ بُرے لوگ بھی موجود ہیں۔ برے لوگوں کی یہ موجودگی زمین پر ہر قسم کے فسادات کا سبب ہے۔ جب تہذیبی سفر کا آخری مرحلہ سامنے آئے گا تو زمین کی آبادی سے تمام برے لوگ چھانٹ کر الگ کر دیے جائیں گے۔ اس کے بعد زمین صرف اچھے لوگوں کے چارج میں آجائے گی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’اور ہم نے زبور میں موعظت کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے‘‘ (الانبیاء ۱۰۵) یہ بات جو قرآن میں بتائی گئی ہے وہ اب بھی تفصیل کے ساتھ بائبل (زبور) میں موجود ہے۔ اس کا ایک جُزو یہ ہے— پَر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے:
The righteous shall inherit the land, and dwell in it forever (Psalm 37:29)
خلاصۂ کلام
مطالعہ بتاتا ہے کہ وسیع کائنات میں ہماری زمین ایک نادر استثناء ہے۔ وسیع خلا میں انتہائی بڑے بڑے ستارے اس سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں جتنا کہ تمام سمندروں کے کنارے ریت کے ذرے۔ مگر یہ تمام ستارے صرف آگ کے گولے ہیں۔معلوم طورپر ۱۳ بلین سال سے اب تک وہ اسی ایک حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس بظاہر ’’جامد‘‘ کائنات میں صرف ایک چیز غیر جامد ہے اور وہ ہماری زمین ہے۔ زمین میں استثنائی طورپر ایک ارتقائی عمل (evolutionary process) جاری ہے۔ زمین پر ایک کے بعدایک مختلف اسٹیج آرہے ہیں— ۱۰ بلین سال پہلے زمین صرف ایک آگ کا گولا (fire ball) تھی۔ اس کے بعد وہ سرد ہو کر ٹھنڈا سیارہ (cool planet) بنی۔ اس کے بعد اس کے اوپر پانی کا دور آیا۔ پھر زمین کی سطح پر سبزہ اور درخت اگے۔ پھر اس میں حیوانات پیدا ہوئے۔ اس کے بعد انسان کا ظہور ہوا۔ انسان کے ظہور کے بعد زمین پر تہذیبی ارتقاء کے ادوار آنے شروع ہوئے۔ انسان نے پہلے کم ترقی یافتہ دنیا(underdeveloped world) بنائی۔ اس کے بعد انسان ترقی یافتہ دنیا (developed world) بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ ارتقائی عمل مسلسل جاری ہے۔ اور یہ کہنا بالکل فطری ہے کہ ابھی زمین پر ایک اور زیادہ بہتر دور آنے والا ہے جس کے بعد یہ زمین ایک معیاری دنیا (perfect world) کی صورت اختیار کرلے گی:
It is but natural to believe that one more stage is in the ofting, that of a perfect world.
جنت کوئی پر اسرار چیز نہیں، جنت معلوم ارتقائی پراسس کا آخری اسٹیج ہے۔ جہاں تک حیوانات میں عضویاتی ارتقاء (organic evolution) کی بات ہے وہ تو بلاشبہہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے۔ مگر غیر ذی روح دنیا میں دَوری ارتقاء (periodic evolution) ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ اس فطری قانون کے مطابق جنت پوری طرح ایک قابل فہم واقعہ ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً ۱۰ ملین سال پہلے ہماری زمین آگ کا ایک گولا (fireball) تھی۔ اس کے بعد وہ ایک سرد سیارہ(cool planet) بنی۔ پھر انسانی آبادی کے بعد یہاں وہ دنیا بنی جس کو زیرِ تعمیردنیا (underdeveloped world) کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں ایک اور ارتقائی مرحلہ آیا اور صنعتی انقلاب کے بعد وہ دنیا بنی جس کو ترقی یافتہ دنیا (developed world) کہا جاتا ہے۔
یہ چار دَور (periods) زمین پر آچکے ہیں۔ اب خود ارتقائی قانون کے مطابق زمین ایک اعلیٰ تر مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ گویا زمین کا آخری ارتقائی مرحلہ ہوگا۔ اس اعتبار سے اس کو معیاری دنیا (perfect world) کہا جاسکتا ہے۔ اس معیاری دنیا میں ہرقسم کی محدودیتیں (limitations) ختم ہوجائیں گی۔ خدائی اہتمام کے تحت یہاں کامل معنوں میں عادلانہ سماج (just order) بنایا جائے گا۔ برے لوگوں کو زمین سے ہٹا دیا جائے گا اور صرف اچھے لوگوں کو یہاں بسنے کی آزادی ہوگی۔ کثافت (pollution) کی تمام صورتیں ختم ہوجائیں گی۔ مصیبتوں (calamities) کا خاتمہ ہوجائے گا۔بیماری ،حادثہ ، بڑھاپا اور موت جیسے تمام ڈس اڈوانٹیج (disadvantage) ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گے۔
موجودہ دنیا میں ہر کام سخت محنت کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ موجودہ دنیا میں محنت اور کامیابی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔ جنت میں یہ صورت حال ختم کردی جائے گی۔ جنت میں ایسی نفیس تبدیلیاں واقع ہوں گی، جس میں ہر کام ایک پُر لطف مشغلے کی حیثیت اختیار کرلے گا (یٰس ۵۵)۔ جنت میں الگ سے تفریح (entertainment) کی ضرورت نہ ہوگی۔ کیوں کہ خود روزمرّہ کا کام ہی تفریح کا ذریعہ بن جائے گا۔
انسان فطرت کے زور پر ہزاروں سال سے جس مطلوب دنیا (desired world) کی ناکام تلاش کررہا تھا وہ دنیا اپنی کامل صورت میں اس کو مل جائے گی۔ انسان اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے خوشیوں اور راحتوں بھری زندگی کو پالے گا۔ جسمانی محنت(physical labour) کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ صرف خوشگوار ذہنی سرگرمیاں (pleasant intellectual activities) تمام مطلوب نتائج کے حصول کے لیے کافی ہوجائیں گی۔
واپس اوپر جائیں

حادثہ، توجیہہ کے لیے کافی نہیں

Predictable Universe
اپنی کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ (God Arises) مَیں نے ۱۹۶۴میں لکھی تھی۔ اس کتاب میں دکھایا گیا تھا کہ یہ کائنات بے حد بامعنٰی کائنات ہے۔ ایسی بامعنٰی کائنات کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتی۔ اس میں جو باتیں درج تھیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ:
’’۱۱؍اگست ۱۹۹۹ء میں ایک سورج گرہن واقع ہوگا جو کارنوال (Cornwall) میں مکمل طور پر دیکھا جاسکے گا :
On August 11, 1999, there will be a Solar eclipse that will be completely visible at Cornwall". (p. 99)
میں نے یہ بات ۱۱؍اگست ۱۹۹۹ سے ۳۵ سال پہلے لکھی تھی۔ اس تحریر کے ۳۵ سال بعد جب ۱۱؍اگست ۱۹۹۹ء کی تاریخ آئی تو اس پیشگی بیان کے عَین مطابق ٹھیک مقرّرہ وقت پر سورج گرہن ہوا۔ اِس کے واقع ہونے میں ایک منٹ کا بھی فرق نہیں ہُوا۔
میں نے یہ بات بطور خود نہیں لکھی تھی، بلکہ وہ علمائے فلکیات کے حسابات (calculations) کی بنیاد پر لکھی تھی۔ علمائے فلکیات پیشگی طورپَر اتنا صحیح اندازہ کرنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ کائنات انتہائی محکم قوانین پر چل رہی ہے۔ کروروں سال گذرنے پر بھی اس میں کوئی تغیرو تبدل نہیں ہوتا۔ اِسی دریافت کی بنا پر ایک سائنس داں (سر جیمس جینز) نے اپنی کتاب ’’ مسٹیریس یُونیوَرس‘‘ میں لکھا ہے کہ :کائنات کے مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بنانے والا ایک ریاضیاتی دماغ (Mathmetical Mind) ہے۔
کسی چیز کے بامعنٰی ہونے کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ وہ قابِل پیشین گوئی یا قابِلُ التَّنَبُّؤ (predictable) ہو۔ یہ صفت موجودہ کائنات میں مکمل طورپَر موجود ہے۔ جس کا ایک ثبوت اوپر کی مثال میں نظر آتا ہے۔
جو لوگ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ موجودہ کائنات ایک اتفاقی حادثہ (accident) کے طورپر وجود میں آئی ہے نہ کہ کسی خالق کے ارادے کے تحت۔ یہ جملہ گریمر کے اعتبار سے درست ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ درست نہیں۔ اگر یہ مانا جائے کہ موجودہ با معنٰی کائنات ایک حادثے کے طورپر ظہور میں آئی ہے تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بے شعور حادثہ بھی ایک ایسا عامل ہے جو بامعنٰی چیز کو وجود میں لاسکتا ہے۔ ایسی حالت میں حادثے کو لازمی طَور پَر قابلِ تکرار (repeatable) ہونا چاہیے۔ اُس کو بار بار وقوع میں آنا چاہیے۔ جس طرح بے شعور حادثے نے ایک بار ایک بامعنٰی کائنات بنائی، اسی طرح دوبارہ ایسا ہونا چاہیے کہ حادثات کے ذریعے کوئی بامعنی چیز وجود میں آجائے۔
مگر جیسا کہ معلوم ہے، دوبارہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ سائنسی اندازے کے مطابق، کائنات کی عمر تقریباً پندرہ بلین سال ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس لمبے عرصے میں کوئی بامعنٰی کائنات استثنائی طور پر صرف ایک بار وجود میں آئی، اس کے بعد کبھی نہیں، حتیٰ کہ جُزئی طورپر بھی نہیں۔ مثلاً ایسا نہیں ہُوا کہ دوبارہ کوئی نیا شمسی نظام بن جائے، دوبارہ کسی سیّارے پَر پانی اور ہَوا اَور سبزہ جیسی چیزیں وجود میں آجائیں، دوبارہ کوئی ایسی زمین بن جائے جہاں انسان اور حیوان پیدا ہو کر چلنے پھرنے لگیں۔یہ استثناء واضح طورپر ارادی تخلیق کا ثبوت ہے۔
تمام انسانی عُلوم کے مطابق، موجودہ دنیا کامل طور پر ایک استثنائی واقعہ ہے۔ وہ تاریخِ موجودات میں ایک نادر استثناء ہے۔ کائنات کا استثناء ہونا منکرین خدا کے مذکورہ نظریے کی یقینی تردید ہے۔ کائنات اگر صرف ایک حادثے کا ظہور ہوتی تو یقینی طورپر وہ قابلِ تکرار ہوتی۔ اور جب وہ قابلِ تکرار نہیں تو حادثے کی اصطلاح میں اس کی توجیہہ کرنا بھی سراسر بے بنیاد ہے۔ ایسی توجیہہ علمی طورپر قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کا وجود اتنا ہی یقینی ہے جتنا کہ کسی انسان کے لیے خود اُس کا اپنا وجود۔ کوئی شخص اگر اپنے وجود کو مانتا ہے تو ٹھیک اسی دلیل سے اُس کو خدا کے وجود کو بھی ماننا پڑے گا۔ اپنے وجود کو ماننا اور خدا کے وجود کو نہ ماننا ایک فکری تضاد ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ آدمی اس فکری تضاد کا تحمّل نہیں کرسکتا۔
سترہویں صدی کے مشہور فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ (René Descartes 1596-1650) نے کہاتھا کہ : ’’میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
“I think, therefore I exist.”
یہ اصول بلا شبہہ ایک محکم اصول ہے۔ اس اصول کے مطابق، خود شناسی آدمی کو خدا شناسی تک پہنچاتی ہے۔ اس اصول کے مطابق، یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا وجود بھی ہے‘‘:
I exist, therefore God exists.
کائنات کا قابلِ تکرار نہ ہونا واضح طور پر یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کو ایک باشعور وجودنے اپنے ارادے کے تحت بنایا ہے۔ اس طرح پوری کائنات میں زمین ایک نادر استثناء ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم جو زمین پَر موجودہے وہ وسیع کائنات میں کہیں بھی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پہلا انسان چاند پر گیا اور وہاں یہ دیکھا کہ چاند ایک خشک چٹان کے سوا اور کچھ نہیں تو اس کا یہ حال ہُوا کہ جب وہ دوبارہ زمین پر اُترا تو وہ جذباتی ہجوم کے تحت زمین کے اوپر سجدے میں گر پڑا۔ کیوں کہ اُس نے زمین جیسی کوئی موافقِ حیات (pro-life) چیز خَلا میں کہیں اور نہیں دیکھی۔ خدا ایک ثابت شدہ وجود ہے، خدا کو ماننا ایک ثابت شدہ چیز کو ماننا ہے اور خدا کا انکار کرنا ایک ثابت شدہ چیز کا انکار کرنا۔
واپس اوپر جائیں

روحانی ترقی

روحانی ترقی کیا ہے۔ روحانی ترقی اپنی داخلی شخصیت میں ربّانی بیداری لانے کا دوسرا نام ہے۔ مادی خوراک انسان کے جسمانی وجود کو صحت مند بناتی ہے۔ اسی طرح انسان کا روحانی وجود ان لطیف تجربات کے ذریعہ صحت مند بنتا ہے جن کو قرآن میں رزقِ رب (ربّانی خوراک) کہا گیا ہے۔
۱۶ جولائی ۲۰۰۴ کا واقعہ ہے۔ اس دن دہلی میں سخت گر می تھی۔ دوپہر بعد دیر تک کے لیے بجلی چلی گئی۔ چھت کا پنکھا بند ہوگیا۔ میں اپنے کمرے میں سخت گرمی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ دیر تک میں اسی حالت میں رہا یہاں تک کہ بجلی آگئی اور پنکھا چلنے لگا۔
یہ ایک اچانک تجربہ کا لمحہ تھا۔ پنکھا چلتے ہی جسم کو ٹھنڈک ملنے لگی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے اچانک مصیبت کا دور ختم ہوگیا اور اچانک راحت کا دوسرا دور آگیا۔ اس وقت مجھے پیغمبر اسلام کی وہ حدیثیں یاد آئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا مومن کے لیے مصیبت کی جگہ ہے۔ جب مومن کی موت آئے گی تو اچانک وہ اپنے آپ کو جنت کے باغوں میں پائے گا۔ دنیوی زندگی کا پر مصیبت دور اچانک ختم ہوجائے گا اور عین اسی وقت پُر راحت زندگی کا دور شروع ہوجائے گا۔
جب یہ تجربہ گز را تو میری فطرت میں چھپے ہوئے ربّانی احساسات جاگ اٹھے۔ مادی واقعہ روحانی واقعہ میں تبدیل ہوگیا۔ میرے دل نے کہا کہ کاش، خدا میرے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمائے۔ جب میرے لیے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آئے تو وہ ایک ایسا لمحہ ہو جو اچانک دور مصیبت سے دور راحت میں داخلہ کے ہم معنٰی ہوجائے۔
روحانیت در اصل ایک ذہنی سفر ہے، ایک ایسا سفر جو آدمی کو مادیت سے اوپر اُٹھا کر معنویت تک پہنچا دے۔ یہ سفر داخلی سطح پر ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ بظاہر اس سفر کو نہیں دیکھتے لیکن خود مسافر انتہائی گہرائی کے ساتھ اس کو محسوس کرتا ہے۔ روحانیت انسان کو انسان بناتی ہے۔ جس آدمی کی زندگی روحانیت سے خالی ہو اُس میں اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

آج کی دُنیا اور اگلی دُنیا

بیج ڈالنے کے دن جو کسان فصل کاٹنا چاہے ، وہ بیج کو بھی کھوئے گا اور فصل سے بھی محروم رہے گا۔ یہی معاملہ آج کی دنیا اور موت کے بعد آنے والی کل کی دنیا کا ہے۔ آج کی دنیا عمل کرنے کی جگہ ہے اور کل کی دنیا انعام پانے کی جگہ۔ جو شخص آج کی دنیا ہی میں ’’انعام‘‘ حاصل کرنا چاہے تو وہ اس قیمت پر ہوگا کہ وہ مطلوب عمل انجام نہ دے سکے گا۔ وہ اگلی دنیا کی تعمیر کے واحد موقع کو کھو دے گا۔
جو چیز اگلی دنیا میں ملنے والی ہے اس کو آدمی موجودہ دنیا میں پانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دونوں ہی کو کھو دیتا ہے۔ عقل مند انسان وہ ہے جو آج کی دنیا کے ذریعہ کل کی دنیا کو خریدے، نہ کہ وہ آج کی دنیا میں پھنس کر اگلی دنیا میں اپنے آپ کو محروم بنا لے۔
آپ سفر کے دوران وہ سکون حاصل کرنا چاہیں جو صرف گھر پر کسی آدمی کو ملتا ہے تو آپ کبھی اپنی اس طلب میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسی مثال سے آج کی دنیا اور کل کی دنیا کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آج کی دنیا کو خدا نے عمل کرنے کی جگہ بنایا ہے اور کل کی دنیا کو عمل کا انجام پانے کی جگہ۔ آج کی دنیا سفر کا راستہ ہے اور کل کی دنیااس کی آخری منزل۔
اب اگر آپ چاہیں کہ آج کی دنیا ہی میں اپنا انجام پالیں تو آپ کے عمل کی منصوبہ بندی بالکل غلط ہو جائے گی۔ اِسی طرح اگر آپ راستے میں منزل والا سکون حاصل کرنا چاہیں تو آپ اپنے راستے کو کھوٹا کر لیں گے۔ عقل مند آدمی وہ ہے جو آج کی دنیا اور کل کی دنیاکے اِس فرق کو سمجھے۔ وہ موت سے پہلے اُس چیز کی خواہش نہ کرے جو صرف موت کے بعد والی زندگی میں کسی کو مل سکتی ہے۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ حقیقت پسند بنے ۔ وہ خواہشوں کے پیچھے نہ دوڑے۔ کیوں کہ خواہشیں آدمی کو تباہی کے سوا کسی اور انجام تک پہنچانے والی نہیں۔
ہر آدمی اپنے سینے میں خواہشات کا ایک سمندر لئے ہوئے ہے۔ یہ خواہشات بجائے خود غلط نہیں۔ مگر ان خواہشات کی تکمیل کا مقام کَل کی دنیا ہے نہ کہ آج کی دنیا۔
واپس اوپر جائیں

Thursday 1 September 2005

Al Risala | September 2005 (الرسالہ،ستمبر)

2

- توحید کا عقیدہ

4

- خدا اور انسان

9

- اسلام ہر زمانے کے لیے

15

- اسلامی نظام

20

- قولِ بلیغ کیا ہے

22

- صبر وشکر

24

- عورت اور مرد کے دماغ کا فرق

26

- اجتماعی معاملات

28

- قیادت کا مسئلہ

31

- کلمۂ معرفت

33

- اعلی عبادت

35

- تاریخ گواہ ہے

37

- قصور اپنا نکل آیا

38

- سوال وجواب

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز


توحید کا عقیدہ

توحید کاآغاز معرفت (realization) سے ہوتا ہے۔ یعنی خدا کو خالق و مالک کی حیثیت سے دریافت کرنا ۔ کسی انسان کو جب خدا کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ اس کو قرآن میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میںایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:
اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اِس سبب سے کہ ان کو حق کی معرفت حاصل ہوئی۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اُس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔ پس اللہ ان کو اِس قول کے بدلہ میں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا (المائدہ ۸۵۔۸۳)
خدا کی معرفت آدمی کے اندر کس قسم کی شخصیت پیدا کرتی ہے، اس کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذِکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (الانفال ۲)
توحید کے عقیدہ کا خطاب اصلاً انسان سے ہے نہ کہ کسی نظام سے۔ یہ عقیدہ ایک فرد کے اندر جگہ پکڑتا ہے۔ وہ فرد کو یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا اس کا خالق اور مالک ہے۔ وہ فرد کو خدا کی عظمت کے احساس میں سرشار کردیتا ہے۔ وہ انسان کی پوری شخصیت کو خدا کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ وہ انسان کے فکر اور احساس کا کامل رہنما بن جاتا ہے۔ ایسا انسان خدا کو یاد کرنے والا بن جاتا ہے۔ وہ خدا کی پکڑ سے بچنا چاہتا ہے اور خدا کے انعام کا حریص بن جاتا ہے۔ توحید کا عقیدہ انسان کی داخلی شخصیت میں اِس طرح بھونچال بن کر داخل ہوتا ہے کہ وہ اس کی پوری زندگی کو ہِلا دیتا ہے۔ وہ خدا کو اپنا سب کچھ بنا لیتا ہے۔ اس کا جینا اور مرنا خدا کے لیے بن جاتا ہے۔ اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی (God-oriented life) بن جاتی ہے۔
دین کا اصل نشانہ حکومتِ الٰہیہ نہیںہے۔ دین کااصل نشانہ معرفتِ الٰہیہ ہے۔ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ اس کو سچائی کا عرفان ہوجائے۔ اُس کی روح خدا کی دریافت سے چمک اُٹھے۔ اُس کی شخصیت کامل طورپر عارفانہ شخصیت بن جائے۔ یہی دین کا اصل مقصود ہے۔ اس اعتبار سے دین کا اصل نشانہ فرد ہے، نہ کہ اجتماع۔
سیاسی اقتدار کی حیثیت اسلام میں مطلوب ثانوی کی ہے نہ کہ مطلوبِ اول کی۔ اِسی لیے قرآن میں اُس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: وَأخریٰ تحبونہا ، نصرمن اللہ وفتح قریب (الصف)
معرفتِ خداوندی کے دو درجے ہیں۔ ایک روایتی معرفت، اور دوسرے علمی معرفت۔ قبل سائنسی دَور میں انسان کے لیے روایتی معرفت ممکن ہوتی تھی۔ بعد سائنسی دور میں انسان کے لیے علمی معرفت ممکن ہوگئی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مثل امتی کمثل المطر لا یدریٰ اولہ خیر ام آخرہ (میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اُس کا پہلا دَور زیادہ اچھا ہے یا اُس کا دوسرا دَور زیادہ اچھا۔
واپس اوپر جائیں

خدا اور انسان

اِنتھراپالوجی ایک ڈسپلن ہے۔ اس ڈسپلن کے تحت انسان کی اسٹڈی کی جاتی ہے۔ انتھراپالوجی کے تحت قدیم ترین معلوم زمانہ سے لے کر اب تک کی تفصیلی اسٹڈی کی گئی ہے۔اِس اسٹڈی کے ذریعہ جو باتیں معلوم ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ خدا کا تصور انسان کی فطرت میں نہایت گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ ہر عورت اور ہر مردپیدائشی طور پر خدا کے تصور کو لے کر اس دنیا میں آتے ہیں۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر مجبور ہیں کہ اِس تصور کے ساتھ زندگی گزاریں۔
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ انسان ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation seeking animal) ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے وجود اور اپنے اِرد گِرد کی دنیا کی توجیہہ کرے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ اسی طرح انسان اپنی محدودیت کی بنا پر اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرتا ہے۔ اِس احساس کی تلافی بھی صرف خدا جیسی ایک ہستی کو جاننے سے ہوتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہر انسان ناتمام خواہشوں (unfulfilled desires) میں جیتا ہے۔ یہ صرف خدا ہے جس کے ذریعہ اس کو تکمیل کی امید ہوسکتی ہے۔ انسان اپنے مخصوص نیچر کی بنا پر یقین (conviction)میں جینا چاہتا ہے۔ اس یقین کا سورس بھی خدا کے سوا اور کوئی نہیں۔
انسان کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک نشانہ درکار ہے تاکہ وہ مطمئن ہو کر اس کی طرف اپنا سفر جاری رکھے۔ یہ نشانہ بھی اس کو صرف خدا کے عقیدہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کے تمام عورت اور مرد کسی نہ کسی طور پر خداکو مانتے ہیں۔ حتیٰ کہ بظاہر منکرِ خدا (atheist) لوگوں کا بھی یہ حال ہے کہ جب ان پر کوئی کرائسس (crisis) آتا ہے تو وہ بے اختیارانہ طورپر خدا کو پکار اٹھتے ہیں۔ معلوم طورپر اِس معاملہ میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثناء نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جب ہر شخص خدا میں عقیدہ رکھتا ہے تو اس کو وہ نتیجہ کیوں نہیں ملتا جو خدا میں عقیدہ رکھنے کی صورت میں ملنا چاہیے۔ خدا کو مانتے ہوئے بھی ہر انسان کا یہ حال ہے کہ وہ ربّانی احساس (divine inspiration) سے محروم ہے۔ اس کوذہنی سکون (peace of mind) حاصل نہیں۔ ہم خداپر یقین رکھتے ہیں (We trust in God) کا بورڈ لگانے والے بھی حقیقی معنوں میں گاڈ میں ٹرسٹ کرنے کی نعمت سے محروم ہیں۔ لوگ خدا کو مانتے ہیں مگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا کے ساتھ ان کا ربط(communion) قائم نہیں ہوتا۔ خدا کو ماننے کے باوجود لوگوں کی زندگیوں میںخدا کی رحمت (blessing) کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ خدا کے نام پر غیر خدا سے اپنے آپ کووابستہ (associate) کئے رہتے ہیں۔ زبان سے وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں مگر عملاً وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی غیر خدا کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے رہتے ہیں۔
کوئی کسی زندہ یا مردہ انسان کو خدا کی جگہ بٹھائے ہوئے ہے۔ کوئی سورج دیوتا (Sun god) اورچاند دیوتا (Moon god) جیسے خداؤں میں اٹکا ہوا ہے۔ کوئی ہیومنزم کے نام پر وہ کر رہا ہے جس کوعہدہ کا خدا سے انسان کی طرف منتقل ہونا کہا جاتا ہے:
Transfer of seat from God to Man
کوئی قانونِ فطرت(law of nature) کو خدا کا بدَل سمجھے ہوئے ہے۔ اِسی طرح کچھ لوگ مانسٹِک(monistic) تصورِ خدا کو لیے ہوئے ہیں۔ جس میں خدا ایک vague اسپرٹ ہوتا ہے نہ کہ کوئی مستقل وجود جس سے ربط قائم کیا جاسکے، وغیرہ۔
اگر آپ اپنے ٹیلی فون پر کسی نمبر کوڈائل کریں اور اتفاق سے غلط نمبر ڈائل ہوجائے تو دوسری طرف سے یہ آواز آئے گی کہ یہ نمبر موجود نہیں: (This number does not exist) ۔ یہی آج لوگوں کا حال ہے۔ وہ خدا کے نام پر ایسی ہستیوںکو پکار رہے ہیں جن کا حقیقت میںکوئی وجود نہیں۔ اِس لیے ان کی ہر پکار کا جواب یہ آرہا ہے کہ یہ خدا موجود نہیں (This god does not exist) ۔
اِس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہر آدمی اس پورے معاملہ کا از سَرِنو جائزہ لے۔ اگر وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہوگا تو یقینی طورپر وہ اِس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کو اُس سسٹم آف تھاٹ کو دریافت کرنا ہے جس میں خدا کا تصور اپنی خالص صورت میں آدمی کو مل جائے۔ یہ ہر عورت اور مرد کا مسئلہ ہے۔ ہر عورت اور مرد اعتقادی طورپر کسی نہ کسی خدا کو اپنا خدا بنائے ہوئے ہے۔ مگر خدا کو ماننے کے جو نتائج ہیں وہ اس کو حاصل نہیں۔ ہر انسان اپنے ذاتی تجربہ کے تحت یہ محسوس کرسکتا ہے کہ اس کے لیے مسئلہ خدا پر عقیدہ نہ رکھنے (lack of belief in God) کا نہیں ہے بلکہ عقیدۂ خدا کا نتیجہ نہ ملنے(lack of result of belief in God) کا مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسی یونیورسل حقیقت ہے جس کو ہر آدمی اپنے ذاتی تجربہ کے تحت جان سکتا ہے۔
عقیدہ اور نتیجۂ عقیدہ کے درمیان اِس فرق کا ممکن سبب صرف ایک ہی ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اس نے خدا کے نام پر کسی غیر خدا پر اپنا عقیدہ بنا رکھا ہو۔ ایسی حالت میں فطری طورپر یہ ہوگا کہ عقیدہ کے باوجود آدمی کو عقیدہ کا نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔
بہت سے اسکالرس نے اس مسئلہ پر ریسرچ کی ہے اور اس کا جواب معلوم کیا ہے۔انہی میں سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بنگالی ڈاکٹرنِشی کانت چَٹوپادّھیائے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۰۴ میں حیدرآباد دکن میں ایک مطبوعہ لکچر میںاپنا دریافت کردہ جواب بتایا تھا۔ وہ یہ کہ’’ اِس معاملہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی سے پہلے جو مذاہب دنیا میں آئے وہ اگر چہ اعتقادی طور پر ایک ہی خدا کو ماننے والے تھے مگر بعد کے زمانہ میں ان کا اوریجنل ٹکسٹ محفوظ نہ رہ سکا۔ ہر مذہب کے ساتھ یہ ہوا کہ اس میں خدا کا تصور تبدیلی کا شکار ہوگیا اور خدا کے معاملہ میں ان مذاہب کی اوریجنل تعلیم محفوظ نہ رہ سکی۔
ساتویں صدی کے رُبع اول میں اسلام کا ظہور ہوا۔اسلام بھی اگر چہ دوسرے مذاہب کی طرح ایک مذہب تھا لیکن اسلام کی امتیازی صفت یہ ہے کہ اس کا اوریجنل ٹکسٹ پوری طرح محفوظ رہا۔ اس لیے اب بعد کی جنریشن کے لیے خدا کے درست عقیدہ کو جاننے کا معتبر ماخذ صرف اسلام رہ گیا ہے۔ جو آدمی اس معاملہ میں سنجیدہ ہو اور خدا کے معاملہ میں درست عقیدہ کو جاننا چاہے اس کے لیے اب اسلام کے سوا کوئی دوسراانتخاب (choice) موجود نہیں‘‘۔
قرآن واحد محفوظ کتاب ہے۔قرآن کے مطابق، خدا ایک ہے۔ وہی انسان اور کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ وہ پورے عالم کاقَیّوم (Sustainer) ہے۔ خدا ایک زندہ ہستی ہے۔وہ دیکھنے اور سننے والا ہے۔ ہر لمحہ اور ہر جگہ انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ خدا سے بر اہِ راست کنٹیکٹ کرسکے۔ خدا اپنی بے پناہ طاقتوں کے ساتھ انسان کی ہر کمی کی تلافی کرنے والا ہے۔ خدا قبل از موت دَور(pre-death period) اوربعد از موت دَور (post-death period) دونوں مرحلہ میں انسان کا مددگار ہے۔ خدا انسان کے لیے پیس اورسکون کا اتھاہ خزانہ ہے۔ خدا ہر معاملہ میں انسان کو اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ہدایت فراہم کرتا ہے۔
خدا کی صفت یہ ہے کہ وہ انسان کا خالق(Creator) اور اس کا قیوم (Sustainer) ہے۔ اِس بنا پر ایسا ہے کہ خدا انسان کی ماہیت کو پوری طرح جانتا ہے۔ وہ انسان کی ضرورتوں سے آخری حد تک باخبر ہے۔ اِس بنا پر خدا ہی اِس قابل ہے کہ وہ انسان کے معاملہ کو سمجھے اور اُس کو وہ سب کچھ دے سکے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔یہی اکیلا خدا انسان کا خدا بن سکتا ہے۔ اس کے سوا کسی مفروضہ ہستی کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ انسان کی اس ضرورت کو پورا کرسکے جس کو خدا کہا گیاہے۔
قرآن اسی خدا کا مستنَد تعارف ہے۔ قرآن واحد ماخذ ہے جس کے ذریعہ کوئی شخص خدا کے بارے میں قابلِ اعتماد تعارف حاصل کرسکے ۔
مِلْیَنز اور ملینز انسانوں نے اپنے ذاتی تجربہ کے تحت اِس بات کی گواہی دی ہے کہ انہوں نے قرآن کا مطالعہ کیا اوراس میں انہوں نے خدا کا وہ تعارف حاصل کیا جو ان کی فطرت تلاش کررہی تھی۔ انہوں نے اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ خدا کے دوسرے تصورات ان کی اندرونی طلب کا جواب نہیں بن رہے تھے۔ مگر جب انہوں نے قرآن میں دیے ہوئے تصورِ خدا کو جانا تو ان کا دل پکار اٹھا کہ یہی ان کا وہ مطلوب خدا ہے جس میں ان کی شخصیت کے لیے کامل (fulfilment) موجود ہے۔
ہر زمانہ کا انسان اپنی فطرت کے تحت خدا کا طالب تھا۔ ہر زمانہ کے مذاہب انسان کو اس کی طلب کے مطابق خدا کا علم دیتے رہے۔ مگر قدیم زمانہ میں کتابوں کے لکھنے اور اس کو محفوظ رکھنے کا بے خطا نظام نہیں بنا تھا۔ اِس لیے یہ مذہبی کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہیں۔ آخر کار ساتویں صدی کے آغاز میں قرآن کا ظہور ہوا۔ مخصوص اہتمام کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ قرآن اپنی اوریجنل صورت میں مکمل طورپر محفوظ ہو جائے۔ اب جو شخص بھی اپنی زندگی کی تعمیر کا طالب ہو وہ قرآن کا مطالعہ کرکے اس خدا کو دریافت کرسکتا ہے جس کے بغیر کسی انسان کے لیے اپنے مستقبل کی حقیقی تعمیر ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اسلام ہر زمانے کے لیے

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف، لکل آیۃ منہا ظَہَر وبَطن ولکل حد مطلع (مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۲۳۸) یعنی قرآن سات حرفوں (لہجوں) پر نازل کیاگیا ہے۔ اور ہر حد کے لیے ایک مطلع ہے۔
اس حدیث میںظہرِ آیت اور بطنِ آیت کے لفظوں میںجو بات کہی گئی ہے اس کا ایک پہلو غالباً یہ ہے کہ ظہرِ آیت سے مراد زمانی رعایت ہے اور بطنِ آیت سے مُراد اَبدی رعایت۔ قرآن ایک خاص زمانے میں اُترا۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، قرآن ہر زمانہ کے لحاظ سے ہدایت کی کتاب ہے۔ اس بنا پرقرآن میں دونوں پہلوؤں کی رعایت ہے، زمانی پہلو کی بھی اور ابدی پہلو کی بھی۔ اس معاملہ کی ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۸ میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدواللہ وعدوکم (الانفال ۶۰) یعنی اور ان کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے تیار رکھو قوت اور پَلے ہوئے گھوڑے کہ اس سے تمہاری ہیبت رہے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر۔
اِس آیت میں خَیل (گھوڑے) کا لفظ زمانی رعایت کے اعتبار سے ہے اور اِرہاب (خوف دِلانا) کا لفظ ابدی پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ’’ اعداد قوت‘‘ کا اصل معیار اس کے اندر اِرہاب کی صفت ہونا ہے۔ قدیم زمانہ میں جنگی گھوڑے کے اندر اِرہاب کی صفت ہوتی تھی۔ مگر موجودہ زمانہ میں یہ صفتِ ارہاب دوسری چیزوں میں پیدا ہوگئی ہے۔ مثلاً سائنس اور ٹیکنالوجی۔ اس لیے موجودہ زمانہ میں اِس آیت کی تعمیل، گھوڑوں کی فراہمی نہ ہوگی بلکہ یہ ہوگی کہ جو چیز آج کی قوتِ مُرہِبَہ ہو اس کو حاصل کیا جائے۔
یہی دو طرفہ خصوصیت قرآن کی دوسری اکثر آیتوں میں پائی جاتی ہے۔ قرآن میں ایک اعتبار سے ہم عصر اہلِ ایمان کے لیے رہنمائی تھی، دوسرے اعتبار سے بعد کے اہلِ ایمان بھی اُس کی آیتوں میں تدبر کر کے اپنے لیے واضح رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر حدیث میں قرآن کے بارے میں آیا ہے کہ : لا تنقضی عجائبہ (الدارمی، فضائل القرآن، الترمذی، ثواب القرآن) اس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے یہاں چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲ میں ارشاد ہوا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ، بإذن اللّٰہ (البقرۃ ۲۴۹) یعنی کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کی جو تشریح کی ہے اس کے اعتبار سے اس میں اُس فرق کو بتایا گیا ہے جو جنگ کے موقع پر مقاتلین کے درمیان ہوتا ہے۔مثلاً اصحابِ طالوت اور اصحابِ بدر کے مقابلہ میںاُن کے اَعداء کی تعداد ۔
قرآن کی اِس آیت میں جس اُصول کو بتایا گیا ہے اس کا ایک عصری مفہوم بھی ہے۔ اس اعتبار سے یہ آیت جدید زمانہ تک کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔موجودہ زمانہ میں ایک نئی تبدیلی وقوع میںآئی ہے۔ پہلے زمانہ میں طاقت کا ذریعہ صرف ایک چیز ہوتی تھی اور وہ سیاسی اقتدار ہے۔ سیاسی طاقت کا انحصار فوجی طاقت پر ہوا کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہ صورتِ حال بدل گئی ہے۔ اب سیاسی اقتدار کے علاوہ ایک اور چیز ظہور میںآئی ہے جس کو ادارہ (institution) کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بے شمار قسم کے ادارے بنانا ممکن ہوگیا ہے۔ یہ غیر سیاسی ادارے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ خود سیاسی اقتدار کو اپنے زیرِ اثر کرلیتے ہیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ مو جودہ زمانہ میں اقلیتیں اداروں پر قابض ہوکر حکومت تک کو اپنے اثر میں لے لیتی ہیں۔ اقلیتی گروہ ان مواقع کو استعمال کرکے اکثریتی گروہ کے اوپر چھا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال امریکا میں مقیم یہودیوں کی ہے۔ وہ اپنے غیر سیاسی اداروں کی طاقت ہی کے ذریعہ وہاں کے سیاسی اقتدار کو مغلوب کیے ہوئے ہیں، نہ کہ معروف معنوں میں کسی سازش کے ذریعہ۔
۲۔ قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں اہلِ ایمان کے معاملہ کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: قل ہل تربصون بنا الّا احدی الحسنیین (التوبہ ۵۳) یعنی کہو تم ہمارے لیے صرف دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی کے منتظر ہو۔ اس آیت میں ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔آیت کے ابتدائی مصداق کے اعتبار سے اس کاتعلق زمانی حالات سے ہے لیکن آیت کے وسیع انطباق کے لحاظ سے اس کا تعلق ابدی ہوجاتا ہے۔
قدیم مفسرین نے اس آیت میں دو بہتر انجام سے، غنیمت اور شہادت یا فتح اور شہادت مراد لیاہے۔اس تفسیر کے مطابق، یہ آیت جنگی حالات سے متعلق ہوجاتی ہے۔ مگر وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے اِس کا تعلق پُر امن حالات سے بھی ہے، فردکے لیے بھی اور اجتماع کے لیے بھی۔ مثلاً ایک شخص انڈیا سے امریکا جاتا ہے۔ وہاں لمبی مدت تک کوشش کے باوجود اس کو اقامتی ویزا نہیں ملتااور اس کو اپنے وطن واپس آنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِحدَی الحُسنَیَیْن کے اصول کے مطابق، تم کو دو میں سے ایک بہتر چیز ملی۔ تم اگر چہ ویزا حاصل نہ کرسکے مگر تم کو اِس دوران مغربی دنیا کا تجربہ ہوا، اور یہ تجربہ یقینا ویزا سے کم نہیں۔
۳۔ قرآن کی سورہ نمبر ۴ میں قدیم مکہ کے اہل ایمان کو ہجرت کا حکم دیا گیا تھا۔ فرشتوں کی زبان سے یہ جملہ نقل کیا گیاہے: الم تکن أرض اللہ واسعۃ فتہاجروا فیہا (النساء ۹۷) یعنی کیا خدا کی زمین کُشادہ نہ تھی کہ تم وطن چھوڑ کر وہاں چلے جاتے۔ ہجرت کا یہ حکم قرآن کی دوسری سورتوں میں بھی مختلف الفاظ میں آیا ہے۔
دورِ اول میں جب یہ آیتیں اُتریں اُس وقت ہجرت سے مراد ہجرتِ مکانی ہوتا تھا۔چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس حکم پر عمل کیا۔ مگر موجودہ زمانہ میں ہجرتِ مکانی کا طریقہ زیادہ قابل عمل نہیں رہا ہے۔ تاہم موجودہ زمانہ میں بھی یہ اُصول اپنی حقیقت کے اعتبار سے بدستور باقی ہے۔ مثلاً کسی ملک کے مسلمان اگر سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر وہاں کی حکومت کے عِتاب کا شکار ہورہے ہیں تو اُن سے یہ کہا جائے گا کہ تم اِس عتاب کا شکار صرف اس لیے ہورہے ہو کہ تم نے اپنے ملک کی حکومت سے متشددانہ قسم کا سیاسی ٹکراؤ جاری کررکھا ہے۔ تم سیاست کا میدان چھوڑ کر غیر سیاسی میدان میں آجاؤ اور پُر امن تعمیری کام کرو۔ قدیم ہجرت اگر جغرافی ہجرت تھی تو یہ دوسری ہجرت میدان کار کے اعتبار سے ہجرت قرار پائے گی۔ اِس طرح ہجرت کا اُصول آج بھی پوری طرح قابل عمل بن جاتا ہے۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ قدیم زمانہ میں جو حالات تھے اُن میں صرف مکانی ہجرت ہی قابل عمل ہوتی تھی۔ اُس زمانہ میں میدانِ کار کے اعتبار سے ہجرت کا کوئی امکان نہ تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں نئے حالات اور نئے مواقع کے ظہور کے بعد میدانِ کار کے اعتبار سے ہجرت ایک عظیم تصور بن چکا ہے۔آج سیاسی اعتبار سے مغلوب مسلمان میدانِ کار کی تبدیلی کے ذریعہ وہ سب کچھ اپنے لیے حاصل کرسکتے ہیں جس کے لیے انہوں نے سیاسی ٹکراؤ کا راستہ اختیار کیا تھا۔
۴۔ قرآن کی سورہ نمبر ۲۴ میںآداب ملاقات کو بتاتے ہوئے حکم دیاگیا ہے کہ : ائے ایمان والو، تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ تاکہ تم یاد رکھو (النور ۲۷) اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے داخلہ کی اجازت حاصل کی جائے اور اس کی صورت یہ بتائی گئی کہ دروازہ پر پہنچ کر آدمی بلند آواز سے یہ کہے: السلام علیکم۔ یہ گویا حصول اجازت کا ایک طریقہ ہے اور جب اندر سے اجازت کا اشارہ مل جائے تو اس کے بعد گھر میں داخل ہو۔
اِس آیت کا اصل مدعا ملاقات کے لیے پہلے سے اجازت حاصل کرناہے۔ یہ تعلیم اپنی نوعیت کے اعتبار سے دَوامی ہے۔ اس کے بعد جہاں تک السلام علیکم کہنے کا طریقہ ہے، وہ زمانی نوعیت کی ایک صورت ہے۔ موجودہ زمانہ میں ٹیلی فون اور رابطہ کے دوسرے ذرائع حاصل ہوچکے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ آدمی دروازہ پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے السلام علیکم کہے۔ اب آدمی کو چاہیے کہ وہ عصری ذرائع کو استعمال کرے۔ جس سے ملاقات کرنا ہے اس کو ٹیلی فون کرے یا اس کے نام خط بھیجے۔ اس طرح پیشگی اجازت لے کر صاحبِ ملاقات کے پاس جائے۔ یہ گویا اس کے لیے ایک قرآنی حکم کا عصری انطباق ہوگا۔
۵۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ابتدائی زمانہ میں اسلام کے دو دَور تھے—مکی دَور اور مدنی دَور۔ ہجرت سے پہلے مکی دور کو دعوت کا دور سمجھا جاتا ہے اور ہجرت کے بعد مدنی دور کو جہاد کا دور۔ اس تقسیمی طرز فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ مکی دور کی کئی تعلیمات کو مدنی دور پیش آنے کے بعد منسوخ سمجھ لیا گیاہے۔ مثلاً مکہ کے دعوتی دو رمیں صبر اور اعراض اور تالیف قلب اور مدعوگروہ کے ساتھ یک طرفہ حُسن سلوک، وغیرہ۔ مگر مدنی دور میں ان تعلیمات کو منسوخ کرکے فریقِ ثانی سے صرف قتال کا حکم دے دیا گیا۔
ناسخ اور منسوخ کا اصول اسلامی شریعت کا ایک اہم اصول ہے۔مگر یہ حکم حالات کے تابع ہے، یعنی حالات کے بدلنے سے ایک حکم منسوخ قرار پائے گا۔ مگر دوبارہ جب سابقہ حالات پیدا ہوجائیں تو اس وقت منسوخ چیز دوبارہ جائز اور مطلوب ہوجائے گی۔ اس اصول کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے اسلام کے بعد کی تاریخ میں بہت بڑا نقصان واقع ہوا ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیا گیا کہ مدنی دور میں جو احکام منسوخ ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے منسوخ ہوگئے۔
اِس مفروضہ کی بنا پر یہ ہوا کہ صبر اوراعراض اور تالیفِ قلب اور مدعو کے ساتھ ناصحانہ معاملہ امت کے حافظہ سے عملاً محو ہوگیا ہے۔ اسی کا یہ شدید تر نتیجہ ہوا کہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری بھی عملاً فراموش کردی گئی۔ دعوت ایک ایسا عمل ہے جو صبر اور اعراض اور تالیف قلب اور مدعو کے ساتھ خیر خواہی کا طالب ہے۔ جب یہ اخلاقیات منسوخ قرار پائیں تو فطری طور پر یہ ہوا کہ دعوت کا کام بھی عملی طورپر ایک منسوخ حکم بن گیا۔
اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں جب حدیث اور فقہ کی کتابیں لکھی گئیں اور دوسرے اسلامی موضوعات پر تصنیفات تیار کی گئیں تو ان تمام کتابوں میںدعوت الی اللہ کا باب حذف ہوگیا۔ اب یہ ہوا کہ ان تمام کتابوں میںجہاد اور قتال کا باب تفصیل کے ساتھ شامل کیا گیا۔ مگر پُر امن دعوت کا با ب غالباً کسی بھی کتاب میں درج نہ ہوسکا۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ناسخ اور منسوخ کو کوئی حتمی حکم نہ سمجھا جائے۔ بلکہ ان کو حالات پر مبنی قرار دیا جائے۔ اس طرح یہ ہوگا کہ ایک طرف دعوت الی اللہ کا متروک عمل زندہ ہوجائے گا اور دوسری طرف امن پر مبنی اقدار دوبارہ اہمیت اختیار کر لیں گی جو کہ جہاد و قتال کے ذہن کی بنا پر عملاً متروک قرار پا گئی تھیں۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام کی دعوت و اشاعت کا کام بعد کے زمانہ میں مسلسل جاری رہا ہے اور کثیر تعداد میں لوگ اسلام قبول کرتے رہے ہیں اور اب بھی قبول کررہے ہیں۔ مگر اسلام کی یہ اشاعت اسلام کی اپنی طاقت کی بنا پر ہو رہی ہے نہ کہ مسلمانوں کی کسی باقاعدہ دعوتی جدوجہد کے نتیجہ میں۔
اِس کا راز یہ ہے کہ مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر مذہب کی تلاش میں رہتا ہے۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ اسلام کے سوا تمام دوسرے مذاہب تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس بنا پر دیگر مذاہب نے فطرتِ انسانی کے ساتھ اپنی مطابقت کھو دی ہے۔ یہی وجہ ہے جو لوگوں کو اسلام کی طرف لے آتی ہے۔ جو آسمان کے نیچے واحد غیر محرَّف مذہب ہے۔ اسلام کی اسی استثنائی صفت نے اُس کے اندر یہ طاقت پیدا کردی ہے کہ وہ کسی باقاعدہ دعوتی عمل کے بغیر لوگوں کے درمیان پھیلتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی نظام

انیسویں صدی کے نصف آخر میں کمیونسٹ نظریہ پھیلا۔ ۱۹۱۷ میں سوویت یونین میں پہلا کمیونسٹ نظام قائم ہوا۔ اب زیادہ منظم انداز میں اسٹیٹ کی سطح پر کمیونسٹ نظریہ کا پروپیگنڈا پوری طاقت سے ہونے لگا۔ اُس زمانہ میں کمیونزم کا نظریہ اتنا زیادہ پھیلا کہ پروفیسر گالبریتھ کے الفاظ میں: دنیا میں کبھی کسی نظریہ کو اتنا زیادہ فروغ حاصل نہیں ہوا جتنا فروغ کمیونزم کے نظریہ کو حاصل ہوا۔
اس فکری ماحول میں جس طرح دوسرے لوگ متاثر ہوئے اسی طرح مسلمانوں کے بہت سے اہل علم بھی متاثر ہوگئے۔ مثلاً مولانا حسرت موہانی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، ڈاکٹر محمد اقبال، جمال عبد الناصر، وغیرہ۔ اس ماحول سے متاثر ہوکر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اسلام کو نظام کی اصطلاح میں بیان کرنا شروع کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلام ایک مکمل اجتماعی نظام ہے اور مسلم ملّت کا یہ فرض ہے کہ وہ اس آئیڈیل انسانی نظام کو دنیا میں قائم کرے۔ ان لوگوں کے نزدیک جہاد کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسانی ساخت کے نظاموں کو مغلوب کرے اور ان کی جگہ اسلام کے اعلیٰ نظام کا غلبہ قائم کردے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تصور کمیونزم کے رد عمل میں پیدا ہوا۔گویا کہ وہ کمیونزم کا اسلامی ایڈیشن تھا۔ قرآن میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ حتیٰ کہ پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی ایسا کوئی ’’معیاری نظام‘‘ موجود نہ تھا۔ اگر دین خداوندی کا مقصد دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانا ہو تو یہ نشانہ پوری تاریخ میں کبھی کسی پیغمبر کے زمانہ میں پورا نہیں ہوا۔ گویا نظری اور عملی دونوں اعتبار سے یہ تصور ایک غیر ثابت شدہ تصور ہے اور اسی کے ساتھ ناقابلِ عمل بھی۔
قرآن میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ زیادہ تر انفرادی نوعیت کے ہیں۔ نہ صرف ایمان اور عملِ صالح بلکہ دوسرے معاملاتی احکام کی نوعیت بھی یہی ہے۔ مثلاً أقیموا الدین، لیقوم الناسُ بالقسط، تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر، وغیرہ بھی اصلاً انفرادی احکام ہیں، نہ کہ حکومت کے ذریعہ نافذ کیے جانے والے احکام۔
یہ صحیح ہے کہ قرآن میں کچھ ایسے قانونی احکام ہیں جو حکومتی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چوری، زنا، شراب خوری، قذَف، قتل، وغیرہ۔ مگر اس قسم کے احکام بہت کم ہیں۔ ان احکام کو وضع کرنے کا مقصد ’’معیار ی سماج‘‘بنانا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ سماج میں ضروری نظم برقرار رہے:
It is just to maintain a necessary level of order in society.
اس نقطۂ نظر کا ایک ثبوت یہ ہے کہ معیاری سماج بنانے کے لیے جو نظام مطلوب ہے اس کے کئی انتہائی اہم اجزاء کے بارہ میں اسلام میں کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ مثال کے طورپر یہ کہ خلیفہ (حاکم) کا تقرر کس طرح کیا جائے— پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، عمر بن عبد العزیز کو شامل کرتے ہوئے پانچ ایسے صدر ریاست ہوئے ہیں جن کو متفقہ طورپر خلیفۂ راشد کہا جاتا ہے۔ مگر ان پانچوں کے لیے تقرر کا طریقہ الگ الگ اختیار کیاگیا۔ اسی طرح شوریٰ کے بارہ میں کوئی متعین نظام یا ڈھانچہ اسلام کے دور اول میں موجود نہیں جو نمونہ کی حیثیت رکھتا ہو۔
موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہمیشہ ہر ایک کے لیے ناموافق حالات موجود رہیں گے، تاکہ امتحان کے تقاضے کو پورا کیا جاسکے۔ خدائی تخلیق کے مطابق، معیاری دنیا موت کے بعد صرف جنت میں بنے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کو اگلے دورِ حیات میں بننے والی معیاری دنیا (جنت)میں داخلہ مل سکے۔ موجودہ دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانے کی کوشش کرنا گویا جنت کو موجودہ دنیا ہی میں تعمیر کرنا ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق، سرے سے ممکن ہی نہیں۔ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں اس کے سابقہ نظام کو علیٰ حالہٖ فتح مکہ تک باقی رکھا۔
سماجی نظام کے بارہ میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اگر ایسا نظام عملاً موجود ہو جو اہلِ ایمان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرے تو اُس سے ٹکراؤ نہیں کیا جائے گا۔ اُس کو عملاً تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت افراد اور ادارہ کی سطح پر اسلام کی پیروی جاری رکھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف نے اپنے وقت کے مشرک بادشاہ سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس کے تحت وہ توحید کے تقاضے پورے کرتے ہوئے رہ سکتے تھے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کے اصحاب مکی دور کے آخر میں مکہ سے ہجرت کرکے حبش گئے۔ اس وقت وہاں ایک عیسائی بادشاہ کی حکومت تھی۔ اصحابِ رسول نے اس سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس نے لوگوں کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔
یہ تصور کہ اسلام ایک معیاری سماجی نظام ہے اور اس کو دنیا میں عملاً قائم کرنا امت ِ مسلمہ پر فرض ہے، یہ نظریہ اسلام کے اصل مقصد کے خلاف ہے، وہ اسلام کے نشانہ کو بدل دینے والا ہے۔ اسلام کا اصل نشانہ یہ ہے کہ ہر فرد خدا کی معرفت حاصل کرے۔ ہر فرد عبادت اور اخلاقیات میں ربّانی بنے۔ ہر فرد فلاحِ آخرت کو اپنا ہدف بنائے۔ مگر مذکورہ نظریہ آخرت کے بجائے دنیا کو آدمی کا نشانہ بنادیتا ہے۔ وہ تعمیر آخرت کے بجائے تعمیر دنیا کو اپنی منزل مقصود سمجھ لیتا ہے۔ اسلام ایک ربّانی مذہب ہے۔ مگر مذکورہ تصور اسلام کو ایک مادّی اور سیاسی مذہب میں تبدیل کردیتا ہے۔
اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی خدا کو دریافت کرے۔ وہ اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ اپنے روز مرہ کے واقعات میں حقیقتِ اعلیٰ کی جھلکیاں دیکھنے لگے۔ وہ دنیا کی زندگی کو فتنہ (آزمائش) اور آخرت کی زندگی کواصل مطلوب سمجھنے لگے۔ جو آدمی اس قسم کا ذہن رکھتا ہو اس کے لیے موجودہ دنیا میں معیاری قسم کا سماجی اور سیاسی نظام بنانا ایسا ہی ہے جیسے کہ ٹرین کا کوئی مسافر کسی پلیٹ فارم پر اپنی پسند کا گھر بنانے لگے۔
قرآن میں جنت کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: لِمثل ہذا فلیعمل العاملون (الصافات ۶۱) اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: لا عیشَ الا عیش الآخرۃ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب ما جاء فی الرِقاق، وأن لا عیش الاّ عیش الآخرۃ)
اس طرح کی تعلیمات قرآن وحدیث میں کثرت سے آئی ہیں۔ ان تعلیمات سے ایک شخص کے اندر جو ذہن بنتا ہے وہ مذکورہ نظامی تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکو رہ قسم کا نقطۂ نظر آدمی کو ایک قسم کا ’’اسلامی کمیونسٹ‘‘ بناتا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں اسلامی شخصیت کی تعمیر نہیں کرتا۔
اس فرق کو بتانے کے لیے ربانی اسلام اور سیاسی اسلام کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ربانی اسلام آدمی کے اندر معرفتِ خداوندی کا ذہن بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر احتسابِ خویش کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ جنت کے تصور میںجینے لگتا ہے۔ اُس کے صبح وشام آخرت کی یادوں میں بَسر ہونے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کی کامیابی کو غیر اہم اور آخرت کی کامیابی کو اہم سمجھنے لگتا ہے۔ وہ دنیا کو صرف بقدر ضرورت لینا چاہتا ہے اور آخرت کو بقدرِ شوق۔ اُس کی نظر میں دنیا کی کامیابی غیر اہم بن جاتی ہے اور آخرت کی کامیابی اہم ۔
اس کے برعکس ذہن وہ ہے جو سیاسی اسلام کے نظریہ کے تحت تیار ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کی سوچ سیاسی سوچ ہوتی ہے۔ سیاسی اور حکومتی چیزیں اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ سیاسی نوعیت کی چیزیں شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے لیے اولین بن جاتی ہیں اور ربانی نوعیت کی چیزیں عملاً ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں۔ عبادت کے معاملہ میں وہ صرف اس کے ظاہری فارم پر قناعت کرلیتا ہے۔ اس کے اخلاق سیاسی مصلحتوں کے تابع ہوجاتے ہیں۔ تقویٰ اور خشیت اور اخباط اور تضرع جیسی چیزیں اس کے مزاج کے اعتبار سے اجنبی چیزیں بن جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی مجلس میں اگر آپ بیٹھیں تو آپ کو زیادہ تر سیاسی باتیں سننے کو ملیں گی، نہ کہ ربّانیت اور للِّٰہیت کی باتیں۔
اسلام کا اصل مقصد فرد بنانا ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی نظام بنانا ۔ جس سماج میں افراد قابل لحاظ تعداد میں تیار ہوجائیں وہاں یقینا سماجی سطح پر بھی اس کا ظہور ہوگا۔ مگر جہاں تک دعوتی نشانہ کا تعلق ہے، اسلام کا اصل نشانہ تعمیر افراد ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی ڈھانچہ بنانا۔
اسلام کے فکری مطالعہ میں اس کو بطور اصول ماننا ضروری ہے۔ اگر اس کو نہ مانا جائے تو کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی بھی پیغمبر نے مکمل نظام کے احکام نہیں بتائے اور نہ کسی بھی پیغمبر نے عملی طورپر اس کا کوئی نمونہ پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں تمام پیغمبروں کی تحریک، نعوذ باللہ ، فکری اور عملی دونوں اعتبار سے ناقص اور ناتمام نظر آتی ہے۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تحریک کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایسے اعلیٰ افراد کو تیار کیا جائے جو آخرت کی ابدی جنت میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ پیغمبروں کی تحریک کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج ہی لوگوں کے لیے ایک ایسی دنیا بنائی جائے جہاں وہ آخرت اور یوم الحساب سے پہلے ہی اپنے رہنے کے لیے ایک جنت کو حاصل کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں

قولِ بلیغ کیا ہے

قرآن کی سورہ نمبر ۴ میںارشاد ہوا ہے : فأعرض عنہم وعظہم وقل لہم فی انفسہم قولاً بلیغا (النساء ۳۶) یعنی تم اُن سے اعراض کرو اور اُن کو نصیحت کرو اور اُن سے ایسی بات کہو جو اُن کے اندر تک پہنچ جانے والی ہو۔
بلیغ کے وہی معنٰی ہیں جو بالغ کے معنٰی ہیں، یعنی پہنچنے والا۔ آیت کی نحوی ترتیب یہ ہے: وقل لہم قولاً بلیغاً فی انفسہم۔ یعنی اُن سے بات کہو اُن کے اندر تک پہنچ جانے والی بات۔ لفظ بدل کر کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُن سے وہ بات کہو جو اُن کے مائنڈ کو ایڈرس کرے، جو اُن کے ذہن کو خطاب کرنے والی ہو۔ جس میں اُن کے فکر واحساس کی پوری رعایت شامل ہو۔
مثلاً مکی دور کی روایات میںآیا ہے کہ ایک بار قریش کے سردار رسول اللہ کے چچا ابو طالب کے مکان پر اکھٹا ہوئے۔ اس موقع پر جو گفتگو ہوئی اس میں آپ نے سردارانِ قریش کے ایک سوال کے جواب میں کہا: کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم (حیاۃ الصحابہ ۱؍۵۶) یعنی میں تم کو ایک حکم کی طرف بلاتا ہوں، تم مجھے یہ کلمہ دے دو، تم اس کے ذریعہ عرب کے مالک بن جاؤ گے اور اس سے عجم تمہارے تابع ہوجائیں گے۔
رسول اللہ کا یہ قول مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا اصل مقصد یہی تھا کہ آپ عرب و عجم کے اوپر حکومت وسیادت حاصل کریں۔ یہ بات آپ نے سردارانِ قریش کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے فرمائی۔ یہ سردارانِ قریش حاکمانہ نفسیات میں جی رہے تھے، محکومی ان کے لیے خارج از بحث تھی۔اِس لیے اس وقت اِسی قسم کا ایک قول اُن کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا بن سکتا تھا جو کہ آپ نے فرمایا۔
مذکورہ قولِ رسول کو اس مفہوم میں لینے کا ثبوت یہ ہے کہ دوسرے بہت سے مواقع پر آپ سے اسی قسم کا سوال کیاگیا لیکن آپ نے اس سے مختلف انداز میں سائل کا جواب دیا۔ احادیث کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز میں لوگوں کے سوال کا جوا ب دیا ہے۔ یہ اختلاف یا فرق اسی لیے تھا کہ آپ نے ہر ایک سے ایسے اُسلوب میں کلام کیا جو مخاطب کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
دعوت کے عمل میں قولِ بلیغ کا یہ اُصول بے حد اہم ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ لوگوں کے سوچنے کا انداز یکساں نہیں ہوتا۔ ہر ایک الگ الگ انداز سے سوچتا ہے۔ ایسی حالت میں مؤثر دعوتی خطاب وہی ہوسکتا ہے جس میں مخاطب کے ذہن کی رعایت کرتے ہوئے اپنی بات اُس کو پہنچائی جائے۔
مثلاً ایک شخص تلاشِ حقیقت کے سوال سے دوچار ہے تو اُس سے ایسی بات کہی جائے گی جس میں وہ اپنی تلاش کا جواب پارہا ہو۔ اُس وقت اگر کوئی دوسری بات اُس سے کہی جائے تو وہ اُس کو غیر متعلق نظر آئے گی اور وہ اس کو رد کردے گا۔ اسی طرح کوئی شخص روحانی سکون کا طالب ہو تو اُس سے ایسے اُسلوب میں بات کی جائے گی جس میں وہ اپنے داخلی سوال کا جواب پارہا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خالص علمی اور منطقی انداز میں دین کی صداقت کو سمجھنا چاہتا ہو تو اُس سے اُسی اسلوب میں بات کی جائے گی جو اُس کے منطقی طرزِ فکر کو تسکین دینے والی ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بعد از موت کے احوال جاننا چاہتا ہو تو اُس کو اُس کی طلب کے مطابق فکری خوراک پہنچائی جائے گی تاکہ وہ محسوس کرے کہ آپ کے جواب سے اُس کا ذہن ایڈرس ہورہا ہے، وغیرہ۔
قولِ بلیغ کے اس اسلوب کا کوئی لگا بندھا طریقہ نہیں ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ داعی کے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ وہ مخاطب کے ذہن کو اچھی طرح پڑھے اور پھر اُس کے ذہن کی رعایت کرتے ہوئے اُس سے کلام کرے۔ قول بلیغ کے اس اصول کو اپنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ داعی پہلے ہی خطاب میں سب کچھ کہہ دینے کا مزاج نہ رکھتا ہو بلکہ وہ تدریجی اصول پر یقین رکھتے ہوئے پہلے خطاب میں پہلی بات کہے اور دوسری باتوں کو اگلے خطاب کے لیے مؤخر کردے۔
قولِ بلیغ وہ ہے جس میں مخاطب کی پوری رعایت کی گئی ہو۔ مخاطب کی رعایت کے بغیر کوئی قول کبھی قولِ بلیغ نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں

صبر وشکر

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لئے خیر ہے۔ اور ایسا مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ۔اگر اس کو آرام ملتا ہے تو وہ شکر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے۔ اور اگر اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے:
عن صہیب، قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: عجبًا لأمر المؤمن! إنّ أمرہ کلّہ لہ خیر، ولیس ذالک لأحد إلا للمؤمن، إن أصابتہ سرّاء شکر فکان خیرا لہٗ وإن أصابتہ ضرّاء صبر فکان خیرا لہ (صحیح مسلم، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۵۲۹۷)
The affair of the believer is truly strange. Every situation proves good for him and this is special to a believer alone. If he finds himself in a pleasant situation, he is thankful to God, and that is good for him. If he is faced with unpleasant situation he keeps patience and again that is good for him.
مومن کے ساتھ دو طرفہ خیر کا یہ معاملہ کسی پر اسرار سبب سے نہیں ہوتا ، وہ مکمل طورپر ایک معلوم سبب کے تحت پیش آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ مومن اس انسان کا نام ہے جس کو دریافت کی سطح تک خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہو۔ ایسے انسان کے اندر ایک ذہنی انقلاب آجاتا ہے۔ اس کے اندر شعوری بیداری کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ معاملات اور تجربات کو حقیقت کی نظر سے دیکھے۔ وہ وقتی جذبات سے بلند ہو کر معاملہ کی گہرائی کو سمجھ سکے۔
مومن اپنی اس حقیقت شناسی کی بنا پر اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ جس تجربہ سے بھی گزرے وہ اس کو مثبت نتیجہ میں تبدیل کرسکے۔ وہ ہر واقعہ میں خدا کی کارفرمائی کو دیکھے۔ وہ ذاتی تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکے۔ مومن کی یہی وہ صفات ہیںجو اس کے اندر یہ با معنٰی صلاحیت پیدا کردیتی ہیں کہ اس کو جب خوشی اور راحت کا تجربہ ہو تو وہ سرکش نہ بن جائے۔وہ اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر خدا کی خدائی کا اعتراف کرے۔ اسی اعتراف خداوندی کا نام شکر ہے۔ شکر بلاشبہہ ایک عظیم عبادت ہے۔
تاہم دنیا کی زندگی میں آدمی کو ہمیشہ خوش گوار تجربے نہیں ہوتے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ناخوش گوار تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس وقت مومن کی شعوری بیداری اس کو اس سے بچا لیتی ہے کہ وہ اس پر شکایت یا فریاد کرنے لگے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق سمجھتا ہے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو ایک فطری عمل سمجھ کر اس سے یہ یقین حاصل کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی چیز ہے۔ حالات یقینا بدلیں گے اور وہ جلدہی مجھ کو زیادہ بہترزندگی عطا کریں گے، خواہ آج کی دنیا میں یا آج کے بعد بننے والی دوسری ابدی دنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر بھی شکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ناخوش گوار صورت حال کو رضامندی کے ساتھ قبول کرنا اور اس کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مان کر مثبت ذہن کے تحت اس کا استقبال کرنا یہی صبر ہے۔ اور یہ صبر ہمیشہ شاکرانہ قلب سے ظاہر ہوتا ہے۔ ناشکری سے بھرا ہوا دل کبھی صبر کا ثبوت نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں

عورت اور مرد کے دماغ کا فرق

موجودہ زمانہ میں انسانی دماغ پر بہت زیادہ ریسرچ کی گئی ہے اور نئے نئے حقائق دریافت ہوئے ہیں۔ اس موضوع پر امریکی ماہرین کی ایک ٹیم کی سروے رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس ریسرچ میں برین اسکیننگ کی جدید ٹیکنیک (FMRI) استعمال کی گئی تھی۔ اس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ جب ان کو کچھ بتایا جائے یا پڑھ کر سنایا جائے تو ان کے دماغ میں کس قسم کی اعصابی حرکات ہوتی ہیں:
Using a brain scanning technique called Functional Magnetic Resonance Imaging (FMRI) the work does highlight the differences in natural activity between men and women listening to something read aloud.
اِس ریسرچ کے ذریعہ یہ معلوم ہوا ہے کہ مرد اپنے دماغ کے صرف ایک جانب سے سنتے ہیں جب کہ عورتیں اپنے دماغ کے دونوں سمت کو استعمال کرتی ہیں:
Research released Tuesday shows that men listen with one side of their brains, while women use both sides.
اس ریسرچ میں ۱۰ تندرست مرد اور ۱۰ تندرست عورتوں پر تجربات کئے گئے۔ اس ریسرچ سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کے دماغ یقینی طورپر یکساں نہیں ہیں:
They are difinitely not the same — in size, sense or sensibilities (p.1)
Loss Angeles Times, Loss Angeles, Nov. 29, 2000
یہ ریسرچ بتاتی ہے کہ عورت اور مرد کے اس دماغی فرق کی بنا پر دونوں کے دیکھنے اور سننے میں فرق ہوجاتا ہے۔ مرد اپنے دماغی بناوٹ کی بنا پر ایسا کرتا ہے کہ وہ کسی ایک چیز پر فوکس کرسکے، وہ کسی ایک چیز کو زیادہ مُرَکَّز انداز میں دیکھے۔ اس کے مقابلہ میں عورت کی دماغی بناوٹ کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا فوکس پھیل جاتا ہے۔ وہ بیک وقت مختلف چیزوں کو دیکھتی اور سنتی ہے۔ مرد کا مرکز توجہ ایک چیزہوتی ہے اور عورت کا مرکز توجہ کئی چیزیں۔
عورت اور مرد کے دماغ کا یہ تخلیقی فرق بے حد اہم ہے۔ اس کا یہ فائدہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوئے زیادہ بہتر طورپر زندگی گزاریں۔ وہ ایک دوسرے کی کمیوں کی تلافی کرتے ہوئے زندگی کو زیادہ مفید اور بامعنٰی بنا سکیں۔
اس ریسرچ سے اس بات کا بھی جواب ملتا ہے کہ اسلام میں عورت اور مرد کی گواہی کے درمیان فرق کیوں رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میںارشاد ہوا ہے: اور تم اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کو گواہ کرلو۔ اور اگر دومرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، ان لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو، تاکہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا دے (البقرہ ۲۸۲)
مذکورہ دریافت کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان اس فرق کا سبب یہ ہے کہ دونوں کے دماغ کی بناوٹ میں فرق ہے۔ مرد کا دماغ سنگل فوکس مائنڈ (uni-focal mind) ہے۔ اس کے مقابلہ میں عورت کا دماغ پیدائشی طورپر ملٹی فوکس مائنڈ(multi focal mind) ہے۔
اس فرق کی بنا پر ہمیشہ یہ امکان رہے گا کہ جس واقعہ کی گواہی دینا ہے اُس واقعہ کو مرد کے دماغ نے اپنی پوری صورت میں رجسٹر کیا ہو۔ جب کہ عورت کے معاملہ میں یہ امکان ہے کہ مختلف فطری بناوٹ کی بنا پر کسی ایک عورت کے دماغ نے واقعہ کو اس کے تمام اجزاء کے ساتھ رجسٹر نہ کیا ہو۔ ایسی حالت میں دو عورتوں کو گواہ بنانے میں یہ حکمت ہے کہ اگر واقعہ کا ایک پہلو ایک عورت سے چھوٹ جائے تو دوسری عورت اس کی تلافی کردے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، قرآن کا یہ حکم صرف ایک حکم نہیں رہتا بلکہ وہ خود فطرت کا ایک اصول بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اجتماعی معاملات

زندگی کے معاملات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق مسلمانوں اور مسلمانوں کے باہمی معاملات سے ہو۔ دوسرا وہ جس کا تعلق مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاملات سے ہو۔ جو معاملات مسلمانوں اور مسلمانوں کے باہمی معاملات سے تعلق رکھتے ہوں ان کے فیصلہ کی بنیاد ہمیشہ کے لیے صرف ایک ہے، اور وہ قرآن اور سنت ہے۔ اس قسم کے باہمی معاملات میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ابدی طورپر قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کریں اور جو کچھ وہاں سے ملے اُس پر دل کی رضامندی کے ساتھ قائم ہوجائیں (النساء: ۶۵۔۶۴)۔
معاملات کی دوسری قسم وہ ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پیش آنے والے مسائل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس دوسرے قسم کے معاملات میں فیصلہ کی بنیاد وہ ہوگی جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ دوسرے لفظوں میں، اس کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاملات میں فیصلہ کی بنیاد وہ بین اقوامی معیارات (international norms) ہوں گے جو کسی زمانہ میں رائج ہوجائیں ۔
مثال کے طورپر، ایک ایسے سماج کو لیجئے جس میں کئی مذاہب کے ماننے والے ہوں۔ ایسے سماج میں باہمی تعلقات کی بنیاد وہ ہوگی جو ہر ایک کے لیے یکساں طورپر قابل قبول ہو۔ یہ بنیاد صرف ایک ہے، اور وہ ہے باہمی احترام(mutual respect) ۔ اسی اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: لکم دینکم ولی دین (الکافرون )۔ یعنی تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرادین۔
اسی طرح مثال کے طورپر قدیم زمانہ میں مسلم حکومتوں کے تحت رہنے والے غیر مسلموں کو ذمّی کہاگیا اور ان پر جزیہ عاید کیاگیا۔ اب موجودہ زمانہ میں اگر اسلامی ریاست قائم ہو تو اس میں ایسا نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اس معاملہ میںاُسی بین اقوامی معیار کو اختیار کر لیا جائے گا جو آج کی دنیا میں عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔
یہ اصول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کے زمانہ میں یمن کے علاقہ میںایک مُدَّعیِ نبوت ظاہر ہوا۔ اس کو تاریخ کی کتابوں میں مُسَیلمہ کَذّاب کہا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی طرف سے دو رُکنی وفد مدینہ بھیجا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام دیا کہ آپ میری نبوت کو تسلیم کریں۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ عالمی رواج نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہیں کیے جاتے تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا (لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کسی اجتماعی معاملہ میں جو بین اقوامی اصول ہو وہی اُصول اسلامی ریاست میںبھی تسلیم کرلیا جائے گا۔ اس طرح کے معاملات میں اسلام میں بھی اُسی معیار کو مان لیا جائے گا جو کسی زمانہ میں بین اقوامی طور پر مسلّمہ معیار بن چکا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ بین اقوامی معاملات میں اس کے سوا کوئی اور قابل عمل اُصول نہیں۔ مسلمان دنیا میں اپنا کوئی علیٰحدہ سیاسی جزیرہ نہیں بنا سکتے۔ بین اقوامی زندگی کا نظام باہمی احترام اور باہمی رضامندی کے اُصول پر چلتا ہے۔ یہ اُصول جس طرح دوسری قوموں کے لیے قابل قبول ہے اُسی طرح وہ اسلام کے لیے بھی قابل قبول ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ سنت کا تعلق محدودطورپر صرف سفیر کے معاملہ سے متعلق نہیں ہے بلکہ وہ ایک عمومی اُصول ہے۔ اس سنت میںایک ایسی رہنمائی ملتی ہے جس کی روشنی میں تمام بین اقوامی معاملات کو قائم کیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں

قیادت کا مسئلہ

قائد خدا پیداکرتاہے۔ مگر قائد کو قائد ماننا انسان کا کام ہے۔ خدا کے تخلیقی نظام کے مطابق، کسی گروہ کے لیے کوئی ایسا وقت نہیں آسکتا جب کہ اس کے درمیان قائدانہ اوصاف والی شخصیت موجود نہ ہو۔ مگر کوئی حقیقی قائد اپنا قائدانہ رول صرف اس وقت ادا کرسکتا ہے جب کہ اس کی قوم اس کو اپنا قائد مانے اور اس کی اطاعت کرے۔
اس معاملہ میں سب سے زیادہ نازک (crucial) با ت یہ ہے کہ حقیقی قائد کو اکثر کوئی غیر مقبول فیصلہ (unpopular decision) لینا پڑتا ہے۔ یعنی ایک ایسا فیصلہ جو عوامی مزاج کے مطابق نہ ہو۔ مگر صورت حال کے مطابق اس فیصلہ سے قوم کا نیا مستقبل بننے والا ہو۔ یہ صورت حال مذہبی قائد کے ساتھ بھی پیش آتی ہے اور غیر مذہبی قائد کے ساتھ بھی۔
مذہبی اعتبار سے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر فریقِ ثانی سے یَک طرفہ صلح کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ آپ کے ساتھیوں کے لیے سخت ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ عمر فاروق نے اس کو دنیئہ (ذلیل) معاہدہ قرار دیا۔ لوگ اس معاہدہ کی تاریخی اہمیت صرف اس وقت سمجھ سکے جب کہ دو سال بعد اس کا شان دار نتیجہ سامنے آیا۔ اسی طرح غیر مذہبی دائرہ میں اسی کی ایک مثال فرانس کے ایک سابق صدر جنرل ڈیگال کی ہے۔ افریقہ کے فرانسیسی مقبوضات کو آزاد کرنے کے بعد وہ فرانس کے عوام میں بے حد غیر مقبول ہوگئے۔ مگر آج تمام لوگ اس کے فیصلہ کو ایک ایسا فیصلہ قرار دیتے ہیں جو گہری دانش مندی پر مبنی تھا۔
یہی معاملہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا کو ئی قائد نہیں۔ مگر یہ بات خدا کے تخلیقی نقشہ کو رد کرنے کے ہم معنٰی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا آج بھی مسلمانوں میں قائدانہ اوصاف والے افراد پیدا کررہا ہے مگر موجودہ مسلمان اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر اس کو قبول نہیں کرپاتے۔ قائد بلاشبہہ موجود ہیں مگر مسلمانوں کی عدم قبولیت کی بنا پر وہ اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان جس حالت میں ہیں اس میں سب سے پہلا کام یہ معلوم کرنا ہے کہ ان کی تعمیرِ نَو کا نُقطۂ آغاز (starting point) کیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے اندر منفی سوچ (negative thinking) کو مکمل طورپر ختم کیا جائے، اور اس کے بجائے ان کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) لائی جائے۔ کسی قوم کی حقیقی تعمیر صرف مثبت انداز فکر کے ذریعہ ہوتی ہے، منفی انداز فکر کے ذریعہ کبھی کسی قوم کی تعمیر نہیں ہوتی۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ، مثلاً انڈیا میں، ہندوؤں کو پرومسلم اور اینٹی مسلم کے خانوں میں بانٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر ان کا حال یہ ہے کہ وہ ، مثلاً امریکا کو اسلام دشمن اور چین کو اسلام دوست سمجھتے ہیں۔ انسانوں کو اس طرح دو قسموں میں بانٹنا ایک ایسی مہلک غلطی ہے جس کے بعد حقیقی معنوں میں ملی تعمیر کا کوئی امکان ہی نہیں۔
اس طرح طریق عمل کے بارے میں ساری دنیا کے مسلمان جہادی طریق کار کو اپنے مسئلہ کا واحد حل سمجھنے لگے ہیں۔ایسی حالت میں جو شخص دعوتی طریقِ کار کی طرف مسلمانوں کو بلائے تو وہ ان کو اپیل نہیں کرتا۔ حالانکہ موجودہ حالات میں جہادی طریق کار صرف بے فائدہ لڑائی کے ہم معنٰی ہے۔ جب کہ دعوتی طریق کار ابدی طورپر ایک نتیجہ خیز (result oriented) جدوجہد کی حیثیت رکھتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں جو بھی حقیقی قائد ہوگا وہ مسلمانوں کو یہ پیغام دے گا کہ تم لوگ ساری دنیا کو یکساں طور پر انسان کی نظر سے دیکھو نہ کہ دوست اور دشمن کی نظر سے۔ اس طرح وہ کہے گا کہ تم جہاد کے نام پر کی جانے والی مسلح جدو جہد کو چھوڑو اور پر امن دعوتی جدوجہد کو اختیار کرو۔ مگر مسلمانوں کے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر یہ باتیں مسلمانوں کو اپیل نہیں کریں گی۔ قائد موجود ہوگا مگر قائد اپنا قیادتی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے گا۔
ایسی حالت میں مسلمانوںکے اندر کسی حقیقی آغاز کی صورت صرف یہ ہے کہ خدا کے کچھ بندے وہ قربانی دیں جو اس دنیا میں بلا شبہہ سب سے بڑی قربانی ہے۔ یعنی وہ غیر مقبول بننے کی قیمت پر مسلمانوں کو وہ رہنمائی دیں جو حقیقت کے اعتبار سے سچی رہنمائی ہو۔ اس قسم کی رہنمائی ابتدائی طورپر انہیں غیر مقبول بنادے گی ۔ مگر یہ بھی یقینی ہے کہ مسلمانوں کی اگلی نسلیں اس کو سمجھیں گی اور دل سے اُس کا اعتراف کریں گی۔
اصل یہ ہے کہ قیادت کا مسئلہ پچاس فیصد قائد سے تعلق رکھتا ہے اور پچاس فیصد زیرِقیادت قوم سے۔ قائداگر اعلیٰ صلاحیت کا حامل ہو تب بھی قوم کے اندر صحیح مزاج ہونا چاہیے۔ اگر قوم کے اندر صحیح مزاج نہ ہو تو اعلیٰ صلاحیت کے باوجود قوم اپنے قائد کو رد کردے گی۔ قائد اپنے منصوبہ کو مکمل کرنے میں ناکام رہے گا۔
موجودہ زمانہ کی مسلم دنیا میںاس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ افغانستان میںامان اللہ خاں، پاکستان میںمحمد ایوب خاں اور ہندستان میں ابوالکلام آزاد اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہ تینوں افراد مسلّمہ طور پر اعلیٰ قیادتی اوصاف کے حامل تھے۔ مگر اُن کی قوم نے ان کو قبول نہیں کیا۔ چنانچہ یہ تینوں قائد اپنی قیادتی خدمت انجام دیے بغیر اِس دنیا سے چلے گئے۔
اس معاملہ میں اصل مسئلہ قائد کی تعمیر کا نہیں ہے بلکہ قوم کے مزاج کی تعمیر کا ہے۔ قائد تو خود فطری قانون کے تحت ہمیشہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ قوم کے مزاج پر منحصر ہو تا ہے کہ قائد کو عمل کا موقع ملے گا یا نہیں۔ اس لیے صالح قیادت کی تشکیل کا آغاز قوم کے اندر صالح مزاج کی تشکیل سے ہونا چاہیے، نہ کہ اس شکایت سے کہ قوم کے اندر صالح قائد موجود نہیں۔ جس معاشرہ میں صالح مزاج موجود ہو وہاں لازماً صالح قائد بھی موجود ہوگا۔ اور جس معاشرہ میں صالح قائد موجود نہ ہو تو مزید تحقیق کے بغیر یہ مان لیجئے کہ قوم کے اندر صالح مزاج موجود نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

کلمۂ معرفت

صحیح البخاری میں روایات کی کُل تعداد (مکرَّرات سمیت) ۷۵۶۳ ہے۔ اس مجموعہ کی آخری حدیث یہ ہے: کلمتان حبیبتان إلی الرحمن، خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان: سُبحان اللہ وبحمدہٖ، سبحان اللہ العظیم۔ (دو کلمے رحمن کو بہت محبوب ہیں، وہ زبان پر ہلکے ہیں مگر وہ میزان میں بھاری ہیں۔ وہ دو کلمے یہ ہیں: سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم۔
اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبحان اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں پُر اسرار خواص چھپے ہوئے ہیں اور ان الفاظ کو زبان سے ادا کرتے ہی طلسماتی طورپر ان کے یہ خواص ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اس حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں پُراسرار طورپر وزن چھپا ہوا ہے اور قیامت کے تراز و میں رکھتے ہی وہ پلڑے کو جھکا دیں گے۔ ترازو کی تَول میں ان الفاظ کا بھاری ہونا در اصل تمثیل کی زبان میں ہے، نہ کہ حقیقت کی زبان میں۔ اس سے مراد اس کلمہ کا معنوی وزن ہے، نہ کہ مادی وزن۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال میں سب سے بڑا عمل خدا کی معرفت ہے۔ یعنی خداوندِعالّم کو شعوری طورپر دریافت کرنااور اس دریافت کا انسان کی پوری شخصیت میں اُتر جانا۔ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم در اصل معرفتِ خداوندی کے کلمے ہیں۔ جب ایک انسان خدا کی ذات کو اِس حیثیت سے دریافت کرتا ہے کہ وہ ہمہ تن پاک ہے، وہی ہر قسم کی تعریف اور شکر کا مستحق ہے۔ وہ تمام عظمتوں کا تنہا مالک ہے۔ یہ دریافت جب شدتِ یقین کے ساتھ کسی انسان کی زبان پر ایک شعوری اظہارکے طورپر جاری ہو جائے تو وہ کائنات کا سب سے بڑا عمل ہوتا ہے۔ وہ اتنا عظیم ہوتا ہے کہ ہر دوسری چیز اس کے مقابلہ میں چھوٹی قرار پائے۔
معرفت سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ شعورکی سطح پر خدا کو پالینا ہے۔ معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی آدمی کی داخلی شخصیت کے اندر وجود میں آنے والا ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ جب کسی انسان کے اندر وجود میں آتا ہے تو وہ اس کے اندر ایک روحانی طوفان برپا کردیتا ہے۔ اس طوفانی تجربہ کے وقت اس کی زبان سے وہ روحانی الفاظ جاری ہوجاتے ہیں جن کا ذِکر اوپر کی حدیث میں کیاگیا ہے۔
مذکورہ کلمہ کے بارہ میں حدیث میں بتایا گیا ہے کہ وہ زبان سے کہنے میں ہلکے ہیں مگر وہ اجر کے اعتبار سے بھاری ہیں۔ میرے علم کے مطابق، شارحین اس بیان کی زیادہ بامعنٰی تشریح نہ کرسکے۔ اصل یہ ہے کہ اس کلمہ کا بھاری ہونا اس لیے نہیں ہے کہ خود یہ کلمہ بھاری ہے۔ اس کا تعلق کلمہ سے نہیں ہے بلکہ معرفت سے ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے الفاظ میں کوئی پُراسرار صفت ہے۔ اس لیے وہ میزان میں بھاری ہوجاتے ہیں۔ اس کا تعلق کلمہ کی داخلی حقیقت سے ہے، نہ کہ کلمہ کے ظاہری الفاظ سے۔ یہ کلمہ معرفتِ الٰہی کا کلمہ ہے۔ معرفتِ الٰہی اور اس کا اظہار بِلا شبہہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ جن کلمات میں یہ معرفت شامل ہو جائے ان کلمات کو وہ ناقابلِ بیان حدتک عظیم بنادیتی ہے۔
مزید یہ کہ ان کلمات کو محض زبان سے ادا کرنا کسی کو مذکورہ عظیم اجر کا مستحق نہیں بناتا۔ اس عظیم اجر کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے مطلوب عارفانہ کیفیت کے ساتھ اُس کو ادا کیا ہو۔ ان کلمات کی ادائیگی کا معاملہ بھی وہی ہے جو دوسرے دینی اعمال کامعاملہ ہے۔ کوئی بھی دینی عمل اپنی کیفیت کے اعتبار سے عظیم یا غیر عظیم بنتا ہے۔ اسی طرح یہ کلمات بھی اُسی وقت عظیم ہیں جب کہ وہ داخلی کیفیت کے ایک فطری اظہار کے طورپر زبان سے نکلے ہوں۔ عارفانہ کیفیت کے بغیر صرف زبان سے الفاظ کی ادائیگی کوئی دینی قدر وقیمت نہیں رکھتی۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ عبادت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم أعظم اجراً من الذی لا یخالطہم ولا یصبر علی أذاہم (ابن ماجہ، کتاب الفتن، الترمذی، کتاب القیامۃ، مسند احمد ۲؍۴۳) یعنی وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ اختلاط کرتا ہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرتا ہے اس کا اجراس مومن سے زیادہ بڑا ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا۔
اس حدیث میں اِختلاط(interaction) سے مراد سادہ طورپر صرف اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ اختلاط ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کی طرف سے ایذاء کا تجربہ پیش آئے۔ اختلاط اپنے آپ میں ایذاء کا سبب نہیں ہے۔ اگر آپ لوگوں سے اس طرح ملیں کہ لوگوں سے میٹھے انداز میں بولیں، لوگوں کے ساتھ سمجھوتے کا طریقہ اختیار کریں، آپ لوگوں سے تفریحی باتیں کریں، آپ اپنے کلام میں وہ باتیں بولیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کی نظر میں ہر دِل عزیز بن جائیں گے۔ پھر آپ کو لوگوں کی طرف سے صرف اچھے سلوک کا تجربہ پیش آئے گا۔
مثلاً اگر آپ دو قوموں کے جھگڑے میںاپنی قوم کی ہر حال میں وکالت کریں اور دوسری قوم کو ہر حال میںبُرا بتائیں تو یقینی طورپر آپ کی قوم آپ کو اپنا ہیرو بنا لے گی۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی باتیں بتائیں جس میں ان کو اپنے فخر پسند مزاج کی غذا ملتی ہو تو کوئی آپ کو کیوں ستائے گا۔ اگر آپ لوگوں کو ایسی کہانیاں سُنائیں جن میں انہیں سَستی قیمت پر جنت مل رہی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپ کو ستانے کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ لوگوں کے اقتصادی مطالبات، ان کی قومی شکایتیں، ان کے سیاسی موقف کو درست مان کر اگر آپ وہ بولی بولیں جس میں انہیں اپنا موقف درست نظر آتا ہو تو کوئی شخص بھی آپ کو ستانے والا نہیں ملے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں اختلاط سے مراد مُجرَّد اختلاط نہیں ہے۔ بلکہ اِس سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ وہ باتیں کہیں جو لوگوں کے مزاج کے خلاف ہو۔ جس میں ان کے موقف کو غلط ٹھہرایا گیا ہو۔ جس میں انہیں ان کی غلطیوں پر سرزنش کی گئی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں اختلاط سے مراد وہ اختلاط ہے جس میں آپ لوگوں کے غلط رویّے کی نشاندہی کرکے ان پَر تنقید کریں، جس میں آپ لوگوں سے ان کی روش میں تبدیلی کا مطالبہ کریں، آپ لوگوں سے ایسی باتیں کہیں جس میں لوگوں کو اپنا وجود غلط نظر آنے لگے۔
اِس دوسری صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی طرف سے آپ کو ایذا رسانی کا تجربہ ہوتا ہے۔ لوگ آپ کی تنقیدی باتوں پر بھڑک کر آپ کے مخالف بن جاتے ہیں۔ لوگ اپنے آپ کو جائز ٹھہرانے کے لیے آپ کی کردار کُشی کرنے لگتے ہیں۔ ایسا شخص لوگوں کے لیے ان کو برہنہ (expose) کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
لوگوں کی طرف سے ایذا رسانی کا یہ تجربہ خاص طور پر اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ آپ شریعت کے اُس حکم پر عمل کریں جس کو ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر‘‘کہاگیا ہے، یعنی لوگوںکو معروف کا حکم کرنا اور اُن کو منکر سے روکنا۔ اس عمل میں لازماً ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو لوگوں کا احتساب کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے اوپر تنقید کرنے کی صورتیں پیش آتی ہیں۔ لوگ جن برائیوں میں مبتلا ہیں اُن پر اُنہیں ٹوکنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر لوگ جہاد کے نام پر تشدد کررہے ہوں تو ان کی مذمت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اکابر کے نام پر اُنہوں نے غلط کو صحیح بنا رکھا ہو تو اُس کا تجزیہ کرکے بتانا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اگر وہ اپنے قومی مفاد کے لیے دین کا استحصال کررہے ہوں تو اُس کے خلاف کھل کر بولنا پڑتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اختلاط کی یہی وہ صورتیں ہیں جو اختلاط کو ایذا رسانی کے ہم معنٰی بنادیتی ہیں۔مزید یہ کہ داعی جب مَدعو قوم کے ساتھ دعوتی اختلاط کرتا ہے تو اُس وقت داعی کو مَدعو قوم کی بہت سی نارَوا چیزوں اور رسومات کو گوارا کرنا پڑتا ہے، جو اُس کے لیے اجنبی اور نادرست ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں داعی کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ مگر دعوتی کام کی یہ لازمی قیمت ہے۔ اِس کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ گواہ ہے

قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۳ میں زندگی کی حقیقت بتائی گئی ہے۔ اس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: زمانہ کی قَسم، بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔سِوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (العصر)
قرآن کی اس سورہ میں قسم سے مراد گواہی ہے اور زمانہ سے مراد تاریخ۔ یعنی انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں بیشتر انسانوں کا کیس ناکامی کا کیس ہے۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زندگی میں ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں اور جو لوگوں کے درمیان اس طرح رہیں کہ وہ انہیں حق کا پیغام پہنچارہے ہوں اور انہیں صبر کی تلقین کررہے ہوں۔
اصل یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپرایک مُتلاشیِ لذت حیوان (pleasure-seeking animal) ہے۔ یہ انسان کی استثنائی صفت ہے ۔ ساری کائنات میں کوئی بھی دوسری معلوم مخلوق نہیں جو اپنے اندر لذت اور مسرت کی طلب لئے ہوئے ہو۔
اسی فطری مزاج کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ اپنی ساری کوشش اس میں لگا دیتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنے لیے خوشیوں کی ایک دنیا بنا سکے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کی کوشش مکمل بھی نہیں ہوپاتی، یہاں تک کہ اس پر موت آجاتی ہے اور وہ اچانک اس میدان عمل سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
اس عمومی ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی طلب یا اس کی خواہش لامحدود ہے جب کہ موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ طلب اور مقامِ طلب کے درمیان یہی وہ تضاد ہے جس کی بنا پر کوئی بھی شخص موت سے پہلے اپنی مطلوب دنیا کی تعمیر نہیں کرپاتا۔
مذکورہ آیت میں ایمان سے مراد اسی حقیقت کی دریافت ہے اور عمل صالح سے مراد اس دریافت کے مطابق عمل کرنا۔ جو لوگ زندگی کی اس حقیقت کو جان لیںاور وہ اس کے مطابق اپنی سرگرمیوں کا منصوبہ بنائیں وہ مذکورہ عموم سے مستثنیٰ لوگ ہیں۔ کیوں کہ وہ اس دریافت کی بنا پر یہ جان لیتے ہیں کہ موجودہ دنیا ان کے لیے اپنا مطلوب پانے کی جگہ نہیں۔ موجودہ دنیا جنت کا استحقاق ثابت کرنے کی جگہ ہے، وہ جنت کو عملاً پانے کی جگہ نہیں۔
سورہ کے آخری حصہ میں یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ سچی دریافت ہمیشہ دعوت بن جاتی ہے۔ دریافت اور دعوت دونوں جُڑے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے یک طرفہ پیغام رسانی کا عمل نہیں، وہ دو طرفہ نوعیت کی چیز ہے—وہ تعلیم بھی ہے اور اسی کے ساتھ تعلّم بھی ۔
دریافت ہمیشہ اظہار چاہتی ہے۔ اظہار کی یہ اسپرٹ آدمی کو تنہا رہنے نہیں دیتی، وہ اس کو دوسروں کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ اس طرح دعوت کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کا دوسروں کے ساتھ ڈائیلاگ اور ڈسکشن شروع ہوجاتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ اس کا فکری تبادلہ (intellectual exchange) جاری رہتا ہے۔
اس اجتماعی عمل کے دو بنیادی نکتے ہوتے ہیں۔ ایک ہے، دریافت کی ہوئی سچائی کا دوسروں میں چرچا کرنا اور اسی کے ساتھ دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی ناخوشگواریوں پر صبر کرنا۔ حق کا ظہور ہمیشہ نزاع کا سبب بنتا ہے اور حق پرست آدمی کے لیے نزاع سے نپٹنے کا سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کے مقابلہ میں صبر اور اعراض کی روش اختیار کرے۔
واپس اوپر جائیں

قصور اپنا نکل آیا

۸ جولائی۲۰۰۵کو ایک مسلمان بزرگ مجھ سے ملے۔ اُن کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے پاس مشورہ کے لیے آئے ہیں۔ پھر اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا ایک بیٹا ہے۔ اس نے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی ہے۔ شادی سے پہلے وہ ہمارا بہت فرماں بردار تھا۔ مگر شادی کے بَعد وہ بدل گیا ہے۔ اب وہ ہمارا زیادہ خیال نہیں رکھتا۔ آپ ہم کو کوئی وظیفہ یا دعاء بتائیں جس سے ہمارا بیٹا دوبارہ پہلے کی طرح ہمارا خیال رکھے۔
میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ اپنے بیٹے کے لیے جو بہو لائے ہیں وہ زیادہ خوبصورت ہے یا معمولی صورت کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ خوبصورت ہے۔ میں نے کہا کہ یہی آپ کے مسئلے کی جَڑ ہے۔ آپ لوگ اپنی نادانی سے خود ایک مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور پھر اس کی ذمّے داری دوسروں کے اوپر ڈال دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ وظیفہ پڑھنے سے حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ آپ اپنی سوچ کو درست کریں۔
میں نے کہا کہ آپ جیسے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی محبت میں تلاش کرکے خوبصورت بَہو لاتے ہیں، اور یہ خوبصورت بہو آکر جب فطر ی طور پر آپ کے بیٹے پر قبضہ کرلیتی ہے تو آپ بہو پر غصہ ہوتے ہیں کہ اُس نے میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا یا یہ شکایت کرتے ہیں کہ میرا بیٹا اب میرا فرماں بردار نہیں رہا۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے جس میں اکثر ماں باپ مبتلا رہتے ہیں۔ آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ خوبصورت بَہو جب گھر میں آئے گی تو اس کے بعد لازماً یہ ہوگا کہ وہ بیٹے کی توجہ کا مرکز بن جائے گی۔ نوجوان بیٹے کی دل چسپیاں فطری طورپر اپنے ماں باپ سے زیادہ اپنی خوبصورت بیوی سے وابستہ ہو جائیں گی۔
آپ جیسے والدین کو چاہیے کہ وہ اگربیٹے کو اپنا فرماں بردار دیکھنا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے زیادہ خوبصورت بیوی تلاش نہ کریں۔ اور اگر وہ اس کے لیے خوبصورت بیوی لاتے ہیں تو اُن کو ذہنی طور پر پہلے ہی سے اس کے لیے تیّار رہنا چاہیے کہ اب بیٹے کی دلچسپیوں کا مرکزاس کی بیوی ہوگی نہ کہ اس کے والدین۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ کہتے ہیں کہ علم کی کمی انسان کو خدا سے دور کردیتی ہے اور زیادہ علم خدا سے قریب کر دیتا ہے، تو پھر ایسا کیوںہے کہ جاہل لوگ ہی ہر معاملہ میں اسلامی کام کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو وہ اچھے سے پکڑتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ جب کہ عالم ایسا نہیں کرتے۔ جاہل لوگ فوراً مسجد، مدرسہ اور فقیر کو چندہ دے دیتے ہیں۔ مگر عالم لوگ ایسا بہت کم کرتے ہیں۔ عالم حضرات اگر کچھ کرتے بھی ہیں تو اس کا خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ تو ایسی حالت میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ علم کی کمی انسان کو خدا سے دور کردیتی ہے۔ (شاہ عمران حسن، مونگیر،بہار)
جواب
علم اور بے علمی کے بارے میں جو بات میںنے لکھی ہے وہ کوئی میری بات نہیں۔ یہ بات خود قرآن میں موجود ہے۔ مثلاً قرآن میں فرمایا کہ اللہ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں (فاطر ۲۸) اسی طرح قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہدایت سے محروم وہ لوگ رہتے ہیں جو علم نہیں رکھتے۔ (البقرہ ۷۵)
اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی لفظ استعمال کیا جائے تو اس میں اپنے آپ وہ چیز شامل ہوتی ہے۔ کوئی بھی لفظ بالکل مجرد معنوں میں صرف ڈکشنری میں استعمال ہوسکتا ہے۔ کسی بامعنٰی کلام میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
’’زیادہ علم انسان کو خدا سے قریب کردیتا ہے‘‘ اس جملہ میں یہ بات اپنے آپ شامل ہے کہ وہ علم جس کے ساتھ سنجیدگی بھی شامل ہو۔ سنجیدگی (sincerity) کے بغیر کوئی علم علم نہیں۔یہ بات ہر انسان کے بارے میں صحیح ہے۔ مثلاً سوال کرنے والا اگر سنجیدہ نہ ہو تو وہ علم کے باوجود غیر متعلق سوال کرے گا۔ غیر سنجیدہ آدمی ایک عبارت کو پڑھے گا اور علم کے باوجود اس سے الٹا مطلب نکالے گا۔ ایک غیر علم والے کے سامنے کوئی دلیل لائی جائے گی جو نہایت واضح ہوگی لیکن سننے والا اگر سنجیدہ نہیں ہے تو وہ دلیل کو نہیں مانے گا اور ایک عجیب و غریب شوشہ نکال کر اس کو رد کردے گا۔
علم بلاشبہہ تمام انسانی خوبیوں کی جڑ ہے۔ مگر اس سے مراد صرف وہ علم ہے جس کے ساتھ سنجیدگی موجود ہو۔ سنجیدہ عالم کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک قابل پیشین گوئی رد عمل (predictable reaction) کا ثبوت دے گا۔ مگر جس شخص کے پاس علم تو ہو لیکن اس کے پاس سنجیدگی نہ ہو تو اس کے بارے میں کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سنجیدگی علم کو بامعنٰی بناتی ہے۔ اور جہاں سنجیدگی نہ ہو وہاں علم کے باوجود معنویت پائی نہیں جائے گی۔
سوال
اگر کسی مسلمان نے اپنی بیوی کو غصّے میں ٹیلیفون پر بول دیا کہ میں نے تجھے تین طلاق یعنی طلاق ، طلاق اور طلاق دے دیا۔ اور بیوی نے اس کو قبول نہیں کیا اور گواہ بھی کوئی نہیں تھا۔ پھر بعد میں مرد کو غلطی کا احساس ہوا، اس نے توبہ کی۔ تو کیا پھر یہ دونوں دوبارہ میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔ جواب سے مطلع فرمائیں ۔(ایک قاری، الرسالہ)
جواب
مذکورہ مسلمان نے جو فعل کیا وہ میرے نزدیک طلاق نہیں تھا بلکہ سرکشی تھی۔ اس قسم کے واقعات پر طلاق کا واقع کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ البتہ ایسا شخص شریعت کی بے حرمتی کرنے اور شریعت کو کھلواڑ بنانے کا مجرم ہے۔ ایسا آدمی در اصل سزا کا مستحق ہے۔ اس کو میرے نزدیک ایک سو کوڑے مارے جانے چاہئیں مگر کوڑا مارنے کا کام کوئی فرد یا جماعت نہیں کرسکتی ہے۔ یہ کام ایک اسٹیٹ کے تحت قائم شدہ عدالت کے ذریعہ ہونا چاہیے۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۱۹۹۵ میں آپ کا ایک سفر نامہ (بڑودہ کا سفر) پڑھا۔ اس کے صفحہ نمبر ۳۵ کے پیراگراف تین میں آپ نے ایک بات لکھی ’’ختم نبوت کے بعد مسلمان مقامِ نبوت پر ہیں‘‘ اس سے صاف طور پریہی معنٰی اخذ کیا جاسکتاہے کہ مِن حیثُ القوم مسلمان نبی ہیں اور ان کے اندر روحانی صلاحیت، یہاں تک کہ وحی کا نازل ہونا بھی ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔ آپ اس کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کریں۔ (نوشاد علی، گورکھپور)
جواب
’’امت محمدی مقام نبوت پر ہے ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدی ذمہ داری کے اعتبار سے مقام نبوت پر ہے۔ اس جملہ میں امت محمدی کی داعیانہ ذمہ داری کو بتایا گیا ہے نہ یہ کہ امت محمدی خود پیغمبرانہ صفات رکھتی ہے۔ یعنی امت محمدی خود پیغمبر نہیں مگر ختم نبوت کے بعد اس کو دنیا میں پیغمبر والا دعوتی کام انجام دینا ہے۔
اس بات کو قرآن وحدیث میں مختلف الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ مثلاً حَجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ان اللہ بعثنی للناس کافۃ فادوا عنی۔ یعنی اللہ نے مجھ کو تمام دنیا کے لوگو ں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، پس تم میری طرف سے لوگوں تک میرا پیغام پہنچا دو۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ المسلمون شہداء اللہ فی الأرض(مسلمان زمین میںاللہ کے گواہ ہیں)۔
امت محمدی کی یہ حیثیت اس لیے ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی مگر کارِ نبوت بدستور باقی ہے۔ اس لیے امت محمدی پر بیک وقت دو ذمہ داری ہے، ایک یہ کہ وہ اپنے آپ کو پیغمبر کی تعلیم کے مطابق بنائے۔ اور دوسرے یہ کہ پیغمبر کے بعد وہ پیغمبر کی تعلیمات کو نسل در نسل دوسروں تک پہنچاتی رہے۔ یہی دوگُنا ذمہ داری ہے جس کی بنا پر امت محمدی کا ثواب زیادہ رکھا گیا ہے۔ مگر یہ ثواب محض پیغمبر سے انتساب کی بنا پر نہیں ہے۔ اس ثواب کے مستحق صرف وہ لوگ قرار پائیں گے جو فی الواقع مذکورہ دونوں قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔
سوال
۱۔ تبلیغی والے کہتے ہیں کہ ہمارے بڑوں کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے کہا کہ میں نے قلمی بیعت مولانا سے کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیعت نہیں ہے۔ کیوں کہ اپنے مُرَبّی کے ساتھ مہینے میں ایک بار ملاقات ضروری ہے۔ اس لیے یہ بیعت کیسے ہوسکتی ہے۔ کیا بیعت کرنا ضروری ہے۔ اگر ضروری ہے تو اس کا شرعی اصول کیا ہے۔
۲۔ آپ کی معرفت اسلام کے بارے میںبات کرنا لوگوں کو بہت عجیب لگتا ہے۔ خاص کر کشمیر میں جب بھی جماعت اسلامی کے کسی فرد سے بات کی جاتی ہے تو وہ عجیب و غریب باتیں کرتا ہے جو صرف بے بنیادالزام ہوتا ہے۔ مجھے حال میںایک کتاب پڑھنے کو ملی ’’وحید الدین خان کی گمراہیاں‘‘۔ مطالعہ کے بعد ایسا لگا کہ اس کا نام ہونا چاہیے تھا ’’وحید الدین خان پر بے بنیاد الزامات‘‘۔ اس میں جو نکتے اٹھائے گئے ہیں ان کا مجھ جیسا کم علم بھی جواب دے سکتا ہے۔ آخر لوگ آپ کے متعلق غلط فہمیوں کا شکار کیوں ہیں۔
۳۔ کیا چمڑے کے موزے پر ہی مسح جائز ہے۔ جیسا کہ تبلیغی جماعت کہتی ہے۔ مجھے یہ تنگ ذہنیت لگتی ہے۔ نیز کیا گھر میں یا مسجد میں فضائل اعمال کا مطالعہ کرنا چاہیے یا قرآن کریم کا۔
۴۔ آپ کے ہم خیال بہت سارے لوگ یہاں موجود ہیں لیکن غیر منظم ہیں۔ اس کی تنظیم کی کیا صورت ہے۔ اس سلسلہ میں آپ ہماری رہنمائی کیجئے۔ (محمد یوسف شاہ)
جواب
۱۔ تبلیغی جماعت یا دوسرے حلقوںمیں بیعت کا جو طریقہ رائج ہے اس کی کوئی سند کتاب اور سنت میں موجود نہیں۔ یہ طریقہ ظہور اسلام کے کئی سو سال بعد مسلم صوفیاء نے رائج کیا۔ اگر اس کو بدعت نہ کہا جائے تب بھی یقینی طورپر وہ ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ اور یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کوئی اجتہادصرف ان افراد کے لیے لازم ہوسکتا ہے جنہوں نے یہ اجتہادکیا ہو یا جو اس کی صحت پر یقین رکھتے ہوں۔ دوسرے لوگوں کے لیے وہ نہ حجت ہے اور نہ کسی کو یہ حق ہے کہ وہ اس سے مذکورہ قسم کا مطالبہ کرے۔
بعدکے زمانہ میں بیعت کا جو طریقہ رائج ہوا، محتاط طورپر اس کو عملی ضرورت کہا جاسکتا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس کو عملی ضرورت کے طورپر اختیار کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن جو لوگ اس کو اعتقادی یا شرعی مسئلہ بنائیں انہیں کتاب و سنت سے اس کی واضح دلیل دینا ہوگا۔ اگر وہ قرآن و سنت سے اس کی تائید میں ناقابل انکار دلیل نہ دے سکیں تو وہ خود قصوار وار ٹھہریں گے۔
۲۔ میرے خلاف جو لوگ بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں اور بے اصل باتیں پھیلاتے ہیں، وہ صرف ہمارے اجر میں اضافہ کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب صرف یہ ہے کہ انہیں کوئی جواب نہ دیا جائے اور ان کے حق میں دعا کی جائے۔
۳۔ موزہ پر مسح کے بارے میں علماء عرب کا فتویٰ آچکا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح چمڑے کے موزہ پر مسح کرناجائز ہے ٹھیک اسی طرح جدید طرز کے صنعتی موزوں پر مسح کرنا بھی جائز ہے۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔فضائل اعمال کے نام سے جو کتاب آج کل رائج ہے وہ دینی تعلیم کے لیے صرف ایک ناقص کتاب ہے۔ دینی تعلیم کے صحیح اور مفید ذریعے صرف تین ہیں— قرآن، سنت رسول اور سنت صحابہ۔ اس کے بعد کوئی بھی چوتھا ذریعہ مستقل حیثیت سے معتبر نہیں۔ ہر چوتھے ذریعہ کو قرآن و سنت پر جانچا جائے گا۔ اگر وہ کتاب و سنت کے مطابق ہے تو وہ قابل اعتبار ہے اور اگر وہ کتاب و سنت کے مطابق نہیں تو یقینی طورپر وہ قابل رد ہے۔ بطور خود اگر کچھ لوگ کسی چوتھے ذریعہ کو مقدس مان لیں تو ان کے ماننے سے وہ ذریعہ مقدس نہیں بنے گا۔ اس بارے میں علمائے راسخین کا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔
۴۔ آپ نے تنظیم کی بابت جو سوال کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ آپ دو چیز سے اپنے کام کا آغاز کریں، ہفتہ وار اجتماع اور الرسالہ کی ایجنسی۔ لوگوں کو منظم کرنے اور مقصد کی اشاعت کا صحیح آغاز یہی ہے۔ اگر آپ یہ دو کام شروع کردیں تو انشاء اللہ دھیرے دھیرے بقیہ تمام مقاصد حاصل ہوجائیں گے۔
سوال
الرسالہ کا شمارہ ستمبر ۲۰۰۴ پڑھا۔ صفحہ ۳۲ پر آپ رقم طراز ہیں کہ ایک باریش بزرگ سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ وہ عرب امارات میں رہتے ہیں۔ اُنہوں نے ہندستان میں رہ کر الرسالہ پڑھا ہے۔ اب چونکہ وطن سے دور عرب امارات میں ان کی آپ سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا الرسالہ ابھی نکل رہا ہے۔ آپ کو یہ بات سن کر بہت غصہ آیا۔ مگر آپ نے صرف جواباً کہا ’’کہ اگر میں آپ سے کہوں کہ کیا آپ کے فرزند ابھی تک زندہ ہیں تو آپ کا جواب کیا ہوگا‘‘۔
دراصل آپ کا یہ جواب غصہ کی علامت ہے۔ اگر آپ جواباً فرماتے کہ الحمد للہ ابھی تک جاری وساری ہے تو شاید بزرگ دوسری بات یہ کہتے کہ جناب میں الرسالہ کہاں سے منگواؤں۔ مگر قارئین جب آپ کا جواب پڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ جواب مولانا وحید الدین خان صاحب کا نہیں ہوسکتا کیوں کہ الرسالہ سرے سے نصیحتوں کا رسالہ ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کم ازکم اس معاملہ میں آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ آپ جیسے داعی کا اس انداز میں بات کرنا شریعت اسلامی اور خود الرسالہ مشن کے تقاضوں کے برخلاف لگتا ہے۔ یہ جواب سن کر اُس بزرگ کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔ اس کی ٹھیس میں یہاں بیٹھے بیٹھے محسوس کررہا ہوں۔ کیا آپ اس بزرگ کو معذرت کے ساتھ اس بارے میں تحریر فرمائیں گے۔ کیوں کہ غصہ کرنا مسلمان پر حرام ہے۔ یہ میں نے الرسالہ میں پڑھا ہے۔ (عبدالرشید بٹ، سوپور ، کشمیر)
جواب
یہ بات صحیح نہیں کہ اسلام میں غصہ کرنا حرام ہے۔ غصہ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے، وہ حرام کیسے ہوسکتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آتا تھا۔چنانچہ آپ کے بارہ میں حدیثوں میںاس طرح کے الفاظ آتے ہیں کہ: اشتد غضبہ (آپ سخت غضب ناک ہوگئے) نامعقول بات پر غصہ آنا ایک فطری امر ہے۔ البتہ غصہ کو انتقام تک نہیں جانا چاہیے۔
مذکورہ صاحب کو میں نے جوجواب دیا وہ ان کی معروف نفسیات کے مطابق، معاملہ کو واضح کرنا تھا۔ اصل یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد سے جو گہرا تعلق ہوتا ہے وہی ایک صاحب مشن کو اپنے مشن سے ہوتا ہے۔ جس طرح یہ ایک نامعقول روش ہے کہ کسی باپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کے فرزند زندہ ہیں، اسی طرح یہ بھی ایک سخت نامعقول روش ہے کہ کسی صاحب مشن سے یہ سوال کیا جائے کہ کیا آپ کا مشن ابھی تک چل رہا ہے۔ الرسالہ صاحبِ مشن کے لیے ایک مشن ہے، وہ عام معنوں میں محض ایک پرچہ نہیں۔ ایسی حالت میں مذکورہ سوال کا صحیح ترین جواب وہی ہوسکتا تھا جو اُنہیں دیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۱

۱۔ اسلامی مرکز میں ہفتہ وار اسپریچول کلاس کا سلسلہ پابندی کے ساتھ جاری ہے۔ یہ کلاس ہر اتوار کو شام ۵ بجے سے ۷ بجے تک ہوتی ہے۔ ۱۵مئی ۲۰۰۵ سے اس میں ایک اضافہ کیا گیا ہے۔ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے ہر اتوار کی شام ساڑھے تین بجے سے پانچ بجے تک اردو اور عربی زبان کی کلاس ہوتی ہے۔ اس میں لوگ نہایت دلچسپی کے ساتھ شریک ہورہے ہیں۔ یہ ایک قسم کی لینگویج کلاس ہے۔ اس طرح ہر اتوار کو پہلے ڈیڑھ گھنٹہ کی لینگویج کلاس ہوتی ہے اور اس کے بعد د و گھنٹہ کی اسپریچول کلاس۔
۲۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۱۸ مئی ۲۰۰۵ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس پروگرام میں آرمی اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں ایک گھنٹہ کی تقریر کی۔ تقریر کا موضوع یہ تھا: بنیادی انسانی افکار اور اسلام۔ قرآن وحدیث میں دی ہوئی انسانی اور اخلاقی تعلیمات کو بتایا گیا۔ اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ بات بتائی گئی کہ اسلام کی تعلیمات میں ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کو محاسبۂ آخرت (accountability) کہا جاتا ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم اخلاقی سلوک کے لیے محرک فراہم کرتی ہے۔یہ تعلیم حسنِ اخلاق کو ہر آدمی کا ذاتی انٹرسٹ بنا دیتی ہے۔ کیوں کہ اس کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر اُس نے دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تو آخرت میں اُس کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔
۳۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۹ مئی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر خود کُش بمباری کے بارے میں تھا۔ بتایا گیا کہ خود کُش بمباری اسلام میں حرام ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خود کُش بمباری حملہ آور کے خلاف بھی جائز نہیں۔ خود کُش بمباری میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مار کر دوسرے کو مارتا ہے۔ یہ واضح طورپر خود کُشی ہے۔ اس کو استشہاد (طلب شہادت) کہنا سراسر غلط ہے۔ اسلام میں شہید ہونا ہے، اسلام میں شہید کروانا نہیں ہے۔ خود کُش بمباری کے اس طریقے نے موجودہ زمانہ میں اسلام کو بہت زیادہ بدنام کیا ہے۔ کچھ عرب علماء نے اگر چہ خود کُش بمباری کو جائز قر ار دیا ہے۔ مگر یہ سب سیاسی فتوے ہیں۔ کسی فتویٰ کے ذریعہ حرام کو حلال نہیں کیا جاسکتا۔
۴۔ آج تک ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۰ مئی ۲۰۰۵ کوصدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو ر مسٹر بریش بنرجی (Biresh Banerjee) تھے۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر تعلیمی داخلہ میں رزرویشن سے تھا۔ یعنی مسلمانوں کو حکومت ہند کی اس پالیسی سے اتنا فائدہ ملے گا جس کے مطابق، مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کو پچاس فیصد رزرویشن دیا گیا ہے (ٹائمس آف انڈیا، ۲۰ مئی ۲۰۰۵) جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس سے ہندستانی مسلمانوں کو کوئی حقیقی فائدہ ملنے والا نہیں۔ ہندستان میں ۲۰ کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ان میں سے صرف چند لوگ رزرویشن کی اس پالیسی سے بظاہر فائدہ اٹھائیں گے۔ مگر اس کا نقصان تمام مسلمانوں کو پہنچے گا۔کیوں کہ اس کی وجہ سے عام طور پر مسلمانوں کے اندر یہ ذہن بنے گا کہ ترقی کے لیے رزرویشن کی ضرورت ہے۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر عمومی طور پر یہ ذہن بنایا جائے کہ آج کی دنیا مقابلہ کی دنیا ہے اور اس دنیا میں صرف وہی لوگ آگے بڑھ سکتے ہیں جو مقابلہ کا سامنا کرکے آگے بڑھیں۔
۵۔ اسپریچول کلاس جو جنوری ۲۰۰۱ ء میں چند افراد کے ساتھ شروع کی گئی تھی اب اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ ۲۲ مئی ۲۰۰۵ سے اُس کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔ بہت جلد یہ اسپریچول کلاس زیادہ بڑی جگہ منتقل کردی جائے گی۔ یہ ہفتہ وار اسپریچول کلاس مکمل طورپر غیر سیاسی نظریہ کے تحت ہوتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں اسلام کو مقبول اور قابل فہم بنایا جائے۔ اس کلاس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اس کلاس میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اعلیٰ انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
۶۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۳۰ مئی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر نکاحِ تفویض کے مسئلہ سے تھا۔ بتایا گیا کہ نکاح تفویض اسلام کا ایک جائز طریقہ ہے۔ شریعت کے مطابق، عورت اور مرد دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نکاح کے بعد ایک دوسرے سے علیٰحدگی اختیار کر سکیں جس کو طلاق کہا جاتا ہے۔ شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ خود اپنے فیصلہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ لیکن بیوی کے لیے تفریق کے معاملہ میں خُلع کا طریقہ ہے۔ یعنی بیوی عدالت سے رجوع کرے گی اور عدالت کے فیصلہ کے تحت تفریق حاصل کرے گی۔ لیکن اگر نکاح کے وقت یہ واضح کردیا جائے کہ یہ نکاح تفویض ہے تو اس کے بعد عورت کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ مرد ہی کی طرح خود اپنے فیصلہ سے طلاق حاصل کرلے۔
۷۔ بمبئی کے ادارہ (ICRA) کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بمبئی کا سفر کیا۔ یہ سفر تین دن (۹ جون۔۱۲ جون ۲۰۰۵) کے لیے تھا۔ اس دوران بمبئی میں مختلف پروگرام ہوئے۔ اس کی روداد انشاء اللہ سفر نامہ کے تحت الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۸۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) نے ۱۵ جون ۲۰۰۵ کو اپنے سینٹر میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہیں ایک گھنٹہ کا وقت دیاگیا تھا۔ تقریر کا موضوع تھا: بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔
۹۔ بمبئی میں ایک ادارہ قائم ہوا ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
Islamic Centre for Research & Awareness (ICRA)
اس ادارہ میں برابر دعوتی اور تربیتی پروگرام ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ کتابوں کی ایک دُکان قائم کی گئی ہے۔ اس میں ماہنامہ الرسالہ، اسپریچول میسیج اور دوسری تمام کتابیں برائے فروخت دستیاب ہیں۔ اس ادارہ کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر یہ ہے:
ICRA 3, Shantaram Patil Bldg. Gauthan 4th lane, S.V. Road, Behind Firdaus Mithai Wala,
Near Andheri Station (W) Mumbai-58, Tel: 6285223
۱۰۔ اس سے پہلے راز حیات، تعمیر حیات اور کتاب زندگی کے نام سے کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان کتابوں کا موضوع یہ ہے کہ زندگی کو کس طرح کامیاب بنایا جائے۔ ان کتابوں سے بہت زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ اب اسی نوعیت کی ایک نئی کتاب زیر طبع ہے۔ اس کتاب کا نام رہنمائے حیات ہے۔ وہ دو سو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔
۱۱۔ دعوہ ورک کے لیے انگریزی زبان میں چھوٹے چھوٹے پمفلٹ اور بروشر چھاپے گئے ہیں۔ یہ سب انگریزی زبان میں ہیں اور دعوتی کام کے لیے بہت مفید ہیں۔ دفتر سے ان کو حاصل کیاجاسکتا ہے۔ اب اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کتابچے ہندی زبان میں بھی تیار کیے جارہے ہیں۔
۱۲۔ تذکیر القرآن کا انگریزی ترجمہ تیار ہوچکا ہے۔ اسی کے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ تیار کیا جارہا ہے۔ تیاری کے بعد جلد ہی ان کو دو صورتوں میں چھاپا جائے گا۔ ایک، تذکیر القرآن کے انگریزی ایڈیشن کی صورت میں۔ اس کے علاوہ قرآن کا انگریزی ترجمہ علیٰحدہ جلد کی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔
واپس اوپر جائیں