Pages

Thursday 1 May 2014

Al Risala | May 2014 (الرسالہ،مئی)

2

-تواصی بالحق،تواصی بالصبر

3

- انسان کی تخلیق

4

- شخصیت کی تعمیر

5

- جنت کے باغوںمیں

6

- حکمت کا راز

7

- دعا کی قبولیت

8

- لامحدود صلاحیت

10

- خواہش پر کنٹرول

11

- جنت کی نرسری

24

- احیاءِ امت

33

- اسلام اور دورِ جدید

39

- شتمِ رسول کا مسئلہ

43

- نتیجے کا فقدان

46

- اختلافِ رائے

47

- موت کا پیغام


تواصی بالحق،تواصی بالصبر

قرآن کی سورہ العصر میں اہلِ ایمان کی صفت بتاتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں: وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (103:3) یعنی وہ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں-
قرآن کی اِس آیت میں حق سے مراد اہلِ ایمان کی داخلی صفت ہے اور صبر سے مراد اہلِ ایمان کی وہ صفت ہے جس کا تعلق خارجی حالات سے ہے- ایمان کے معاملے میں اصل مطلوب چیز حق کی اتباع ہے- مومن وہ ہے جو حق کو شعوری طورپر دریافت کرے اور پھر عملاً اُس پر قائم ہوجائے-
مگر یہ فیصلہ کوئی سادہ فیصلہ نہیں- جب ایک شخص اتباعِ حق کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ فیصلہ ایک ایسی دنیا میں ہوتا ہے جہاں طرح طرح کے مسائل ہیں- کبھی کوئی خارجی چیز اس کی خواہش (desire) یا اس کی انا (ego) کو بھڑکاتی ہے اور اس کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی خواہش سے متاثر ہو کر حق کے راستے سے ہٹ جائے- اِسی طرح کبھی خارجی مشکلات سے اس کے ارادے میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اس کو دوبارہ ثابت قدمی پر آمادہ کیا جائے-
یہی وہ مواقع ہیں جوتواصی کی ضرورت پیدا کرتے ہیں- ایسے مواقع پر اہلِ ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سچے مددگار بن جائیں- وہ خیر خواہانہ نصیحت کے ذریعے ایک دوسرے کو سنبھالیں- ایسے مواقع پر وہ ایک دوسرے کو درست مشورہ دے کر یہ کوشش کریں کہ اُن کا ساتھی حق سے منحرف نہ ہونے پائے، وہ صبر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بدستور حق پر قائم رہے- تواصی کا مطلب باہمی نصیحت یا باہمی مشورہ ہے-
مشورہ کی کچھ لازمی شرطیںہیں — ایک یہ کہ وہ مبنی بر خیر خواہی مشورہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ عملی طورپر ایک ممکن العمل مشورہ ہو- حقیقی تواصی وہی ہے جس میں یہ شرطیں پائی جائیں- تواصی بالحق سے مراد نظری معاملے میں تواصی ہے اور تواصی بالصبر سے مراد عملی معاملے میں تواصی-
واپس اوپر جائیں

انسان کی تخلیق

انسان کے مقصد ِ تخلیق کے بارے میں قرآن میں مختلف آیتیں آئی ہیں- اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (23:115) یعنی کیا تم نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم نے تم کو بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤگے-
انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نے بہترین صورت (40:64) پر پیدا کیا ہے- انسان ساری کائنات میں ایک مکرم مخلوق (17:70) کی حیثیت رکھتا ہے- انسان کواس کے پیدا کرنے والے نے بہترین صلاحیتیں عطا کی ہیں (95:4)- انسان کو استثنائی طورپر عقل دی گئی ہے جو کسی بھی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں (68:23)-
حقیقت یہ ہےکہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے، ایک انتہائی با معنی مخلوق ہے- انسان کی تخلیق میں ایک انتہائی ذہین ڈیزائن (intelligent design) پائی جاتی ہے- اِس تخلیق میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ انسان سے اس کے خالق کو اِس دنیا میں ایک مثبت کردار (positive role) مطلوب ہے مگر عجیب بات ہے کہ عام طورپر انسان اس کے برعکس منفی کردار ادا کرتا رہا ہے- یہ بلاشبہہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سوال ہے-
اِس سوال کا جواب ایک حدیثِ رسول کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات الموت (الترمذی، رقم الحدیث:2307) یعنی تم موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے- اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان وقتی لذتوں میں گم ہوکر اُس اعلی رول کو اداکرنے میں ناکام رہتا ہے جو اس کے لیے اس کی صلاحیت کے اعتبار سے مقدر کیا گیا ہے- انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے شعور کو بیدار کرے- وہ خالق کے اِس اشارے کو سمجھے کہ اگر میں نے خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، اپنے آپ کو خدائی مشن سے لگایا جو کہ میری صلاحیتوں کا اصل استعمال ہے تو اس کے بعد میری زندگی کی تمام ضرورتوں کی اعلی تکمیل خود خالق کی طرف سے کی جائے گی-
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی تعمیر

ایک مومن کا سب سے بڑا کنسرن (concern) یہ ہوتاہے کہ آخرت میں اس کو جنت میں داخلہ ملے، وہ اپنی ابدی زندگی میں جنت کا باشندہ بن کر رہ سکے۔ جنت میں داخلہ کس کو ملے گا، اِس سوال کا جواب قرآن میں اِن الفاظ میں دیاگیا ہے: ذلک جزاء من تزکیّٰ (20:76)یعنی جنت اس کے لیے ہے جو اپنا تزکیہ کرے۔
تزکیہ کوئی پراسرار چیز نہیں۔ تزکیہ کے حصول کا اصل ذریعہ مثبت طرزِ فکر ہے۔ مثبت طرزِ فکر سے آدمی کے اندر مثبت شخصیت بنتی ہے، اور مثبت شخصیت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اس کو فرشتوں کی صحبت حاصل ہو۔ اِس طرح کسی آدمی کے اندر تزکیہ کا پراسس (process) شروع ہوتا ہے۔ وہ فرشتوں کی صحبت میں تزکیہ کا سفر کرتا رہتا ہے، یہی سفر اس کے اندر مزکیّٰ شخصیت (purified soul) کی تعمیر کرتا ہے، اور یہی مزکیّٰ شخصیت ہے جو کسی آدمی کو جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے۔ موت سے پہلے جنتی شخصیت کی تیاری ہے اور موت کے بعد اس تیار شدہ شخصیت کا جنت میں داخلہ۔
نفرت اور تشدد کا ماحول تزکیہ کے عمل کے لیے قاتل (killer) کی حیثیت رکھتا ہے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول میں شخصیت کے تزکیہ کے عمل کا جاری ہونا ممکن نہیں۔ جس آدمی کے اندر جنت کی طلب ہو، اس کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر سے نفرت کومٹائے، وہ تشدد کو ہر قیمت پر ختم کرے۔ جہاں نفرت اور تشدد سے پاک یہ ماحول بنے گا، وہیں یہ ممکن ہوگا کہ تزکیہ کا مثبت عمل جاری ہو، اور اُس مثبت شخصیت کی تعمیر ہو جو جنت میں داخلے کی مستحق قرار پائے۔
جنت، خدا کے پڑوس کا دوسرا نام ہے۔ خدا کے پڑوس میں ایسا انسان کبھی نہیں بسایا جائے گا جس کے اندر نفرت اور تشدد کا مزاج پایا جاتا ہو۔ جو آدمی جنت کا حریص ہو، جو آدمی خدا کے پڑوس میں جینے کی تمنا رکھتا ہو، اس کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر سے نفرت اور تشدد کا مکمل خاتمہ کرے۔ موجودہ دنیا میں تشدد جہنم کا نمائندہ ہے اور امن جنت کا نمائندہ۔
واپس اوپر جائیں

جنت کے باغوںمیں

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں اِس طرح آئی ہے: عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إذا مررتم بریاض الجنّۃ فارتعوا۔ قالوا: وما ریاض الجنۃ۔ قال: حِلَق الذّکر (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 3431 ) یعنی حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو چرنے کی کوشش کرو۔ سوال کیا گیا کہ جنت کے باغات کیا ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔
اِس حدیث میں ’حِلَقُ الذکر‘ کا لفظ علامتی معنی (symbolic sense) میں ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر جگہ تمھارے لیے جنتی تجربے کے مواقع موجود ہیں۔ اِن مواقع کو پہچانو اور اُن کو استعمال کرو۔ اِس طرح دنیا میں تمھاری پوری زندگی جنت کا تجربہ بن جائے گی:
Make your living in this world like living in Paradise.
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا کو جنت کے متشابہ(similar) بنایا گیا ہے(2:25) ، یعنی موجودہ دنیا میں وہ تمام اجزا محدود طورپر موجود ہیں جو جنت میں لامحدود طورپر موجود ہوں گے۔ موجودہ دنیا جنت کا امپرفیکٹ ورژن (imperfect version) ہے، اور جنت موجودہ دنیا کا پرفیکٹ ورژن (perfect version)۔ جس انسان کو موجودہ دنیا کی اِس متشابہ ِ جنت حیثیت کی دریافت ہوجائے، وہ موجودہ دنیا میں جنت کا تجربہ کرنے لگے گا۔ اُس انسان کے لیے موجودہ دنیا گویا کہ جنت کی چراگاہ بن جائے گی، اُس کو موجودہ دنیا کے ہر تجربے میں جنت کی غذا ملنے لگے گی۔
یہ سارا معاملہ ایمانی شعور کی بیداری کا معاملہ ہے۔ جس آدمی کے اندر ایمانی شعور پوری طرح بیدار ہوجائے، اُس کا یہ حال ہوجائے گا جیسے کہ وہ جنت کے باغوں میں واک (walk) کررہا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے موت کا مطلب یہ ہوگا جیسے کہ کوئی شخص اپنے گھر کے ایک کمرے سے نکل کر اس کے دوسرے کمرے میں داخل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

حکمت کا راز

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رأس الحکمة مخافة اللہ (الجامع الصغیر للسیوطی، رقم الحدیث: 4361) یعنی اللہ کا خوف حکمت کا سرا ہے-
یہ حدیثِ رسول انسانی فطرت کی ایک حقیقت کو بتاتی ہے- وہ حقیقت یہ ہے کہ حکمت (wisdom) کسی کے اندر صرف کتابوں کے مطالعے کے ذریعے نہیں آتی، حکمت کے لیے ایک اور چیز لازمی طورپر ضروری ہے اور وہ اللہ کا خوف ہے- خوفِ خدا کے بغیر آدمی صاحبِ علم تو بن سکتا ہے، لیکن وہ صاحبِ حکمت نہیں بن سکتا- اِس کا سبب یہ ہے کہ حکمت کے لیے معلومات کے علاوہ، ایک اور چیز ضروری ہے اور وہ کامل حقیقت پسندی (realistic approach) ہے- کامل حقیقت پسندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی تواضع (modesty) کی اُس آخری حد پر پہنچ چکا ہو جس کو کٹ ٹو سائز (cut to size) کہاجاتا ہےاور کٹ ٹو سائز انسان (man cut to size) کو وجود میں لانے کا راز صرف ایک ہے اور وہ کامل معنوں میں اللہ کا خوف ہے-
کوئی انسان جب دوسرے انسانوں کے درمیان ہوتا ہے تو ہر انسان اُس کو اپنے ہی جیسا ایک انسان دکھائی دیتا ہے- اِس بنا پر کسی انسان کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسرے انسان کو کٹ ٹو سائز انسان بنا سکے- یہ واقعہ صرف قادرِ مطلق خدا پر کامل ایمان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے- انسان کی اِس فطرت کی بنا پر اِس معاملے میں صحیح فارمولا یہ ہے کہ — قادرِ مطلق خدا پر یقین سے انسان کا کٹ ٹو سائز ہونا، کٹ ٹو سائز انسان کے اندر کامل درجے میں حقیقت پسندی کا آنا اور کامل حقیقت کی بنا پر چیزوں کو ویسا ہی دیکھنا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں- یہی وہ حقیقت پسندانہ سوچ ہے جس کے نتیجے کا نام حکمت (wisdom) ہے- کسی انسان کے اندر یہ صفت ہمیشہ خدا کی نسبت سے پیدا ہوتی ہے، لیکن انسان چوں کہ سماج کے اندر رہتا ہے، اِس لیے اِس صفت کا عملی ظہور انسانی کی نسبت سے ہوتا ہے- انسان کی نسبت سے اِس صفت کے ظہور ہی کا دوسرا نام حکمت ہے-
واپس اوپر جائیں

دعا کی قبولیت

ایک مسلم نوجوان نے کہا کہ میرے بہت سے مسائل ہیں- میں اُن مسائل کے لیے اللہ سے بہت دعا کرتا ہوں، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوتی- اِس طرح دعا کرتے ہوئے مجھے کئی سال گزر گئے، مگر میراکوئی مسئلہ حل نہ ہوا- میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اب میں کیا کروں-
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مادی مسائل کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں، پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ اُن کا مسئلہ ان کی خواہش کے مطابق حل نہیں ہوا تو وہ مایوسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں- دعا بلاشبہہ ایک اعلی عبادت ہے، مگر جہاں تک دعا کی قبولیت کا سوال ہے، اس کا انحصار اللہ کی مرضی پر ہے، نہ کہ بندے کی خواہش پر-
اصل یہ ہے کہ دنیا کی جو مادی چیزیں ہیں، وہ سب کی سب امتحان کے پرچے (test papers) ہیں- کسی انسان کو کن امتحانی پرچوں کے ساتھ آزماناہے، اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے کیا جاتا ہے، نہ کہ انسان کی خواہش کی بنیاد پر- کوئی طالب علم اگر یہ چاہے کہ اس کے امتحان کا پرچہ اس کی مرضی کے مطابق اس کو دیا جائے تو ایسا ہونا ممکن نہیں، کیوں کہ امتحانی پرچے کے معاملے میں سارا فیصلہ تعلیمی ادارے کے ذمے داروں کی طرف سے کیا جاتا ہے، طالب علم کی خواہش کی بنیاد پر اس کا فیصلہ نہیں ہوتا-
ایسی حالت میں دعا کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی دعائیں تو خوب کرے، لیکن دعا کی قبولیت کے معاملے کو وہ تمام تر اللہ کے اوپر ڈال دے- اگر کسی آدمی کی دعا بظاہر قبول نہیں ہورہی ہے تو اس کو یقین کرنا چاہیے کہ یہی اللہ کی مرضی ہے- اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کسی بندے کے لیے خیر کیا ہے- انسان صرف اپنی خواہشوں کو جانتا ہے، نہ یہ کہ اس کا خیر کس چیز میں ہے-
آدمی کو چاہیے کہ وہ ملے ہوئے پر راضی رہے اور نہ ملے ہوئے کے بارے میں وہ یہ دعا کرے کہ خدایا، تو میرے لیے خیر کا فیصلہ فرما (اللہم خرلی واختر لی)-
واپس اوپر جائیں

لامحدود صلاحیت

انسان کے اندر لامحدود صلاحیت ہے- ایک جدید تحقیق کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ انسان اگر اپنی آنکھوں کو بند کرکے سوچے تو اس کے اندر ایک نئی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے- اُس وقت وہ زیادہ بہتر طورپر معلومات کو جذب کرنے کے قابل ہوجاتا ہے:
One can absorb information better by closing one’s eyes.
یہ تحقیق اور اِس طرح کی دوسری تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ انسان کے اندر اللہ تعالی نے لامحدود صلاحیتیں رکھیں ہیں- قدیم زمانے میں معذور افراد کے لیے اندھا اور گونگا اور بہرا اور لولا اور لنگڑا جیسے الفاظ بولے جاتے تھے-
اِس طرح کے الفاظ سے یہ تاثر قائم ہوتا تھا کہ معذوری صرف معذوری ہے- ایسے لوگوں کے لیے ہر زبان میں ناکارہ یا اپاہج (disabled) جیسے الفاظ استعمال ہوتے ـتھے، مگر جدید تحقیقات کے بعد اب ایسے افراد کو مختلف طورپر اہل (differently-abled)شخص کہاجاتا ہے-
یہ فطرت کا نظام ہے- جب کوئی شخص اپنے کسی جسمانی عضو کو کھو دیتا ہے تو اس کے اندر نئ صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں- بظاہر جسمانی معذوری کے باوجود وہ بڑے بڑے کام انجام دیتا — ٹامس الوایڈیسن، لوئی بریل، ہیلن کلر، اسٹفن ہاکنگ، وغیرہ اِسی کی مثالیں ہیں:
Close eyes to absorb information
Want some important piece of information to sink in.? Closing your eyes might do the trick. Researchers from University of Edinburgh found that a few minutes of 'wakeful resting' allows information to be absorbed and it works best with verbal information rather than numbers. (The Times of India, New Delhi, July 25, 2012, p. 19)
فطرت کے اِس قانون پر غور کیجئے تو اِس سے ایک حدیثِ قدسی کی معنویت سمجھ میں آتی ہے- اِس کے الفاظ یہ ہیں: إذا ابتلیتُ عبدی بحبیبتیہ فصبر، عوضتہ منہما الجنة (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5653) یعنی جب میں اپنے ایک بندے کو ابتلا میں ڈالتا ہوں اور اس کی دونوں آنکھیں لے لیتا ہوں، پھر وہ صبر کرتا ہے، تو اِس صبر کے بدلے میں اس کو جنت دے دیتا ہوں-
اِس روایت میں ابتلا کا لفظ آیا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب تجربہ (experience) ہے، یعنی جب کسی بندے کو بینائی سے محرومی کا تجربہ ہوتا ہے، پھر وہ مایوسی کے بجائے صبر کرلیتا ہے-
صبر کا مطلب برداشت ہے، لیکن یہاں صبر کا مطلب یہ ہے کہ وہ بینائی سے محرومی کے اِس تجربے کو مثبت معنی (positive sense) میں لیتا ہے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذہنی صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں- اِس کے اندر چھپے ہوئے امکانات انفولڈ(unfold) ہونے لگتے ہیں-
اِس قسم کا مثبت تجربہ اُس انسان کو پیش آتا ہے جس کا شعور بیدار ہو- فطرت کے قانون کے مطابق، اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بروئے کار آنے لگتی ہیں- معذوری کے باوجود وہ بڑے بڑے کام انجام دینے کے قابل ہوجاتا ہے- اِس طرح کے افراد کی مثالیں قدیم تاریخ میں بھی موجود ہیں اور جدید تاریخ میں بھی -
واپس اوپر جائیں

خواہش پر کنٹرول

خواہش (desire) ہر انسان کی ایک فطری صفت ہے- کوئی عورت یا مرد خواہش کی نفسیات سے خالی نہیں- تاہم خواہش کوئی برائی (evil) نہیں، یعنی خواہش اپنے آپ میں برائی نہیں ہے، بلکہ خواہش کا غلط استعمال اس کو برا بنا دیتا ہے-انسان کے اندر سب سے بڑی صفت محرک (incentive) ہے- ہر عمل کی جڑمیں ایک محرک ہوتا ہے- اگر کسی انسان کے اندر محرک نہ پایا جائے تو وہ کوئی کام نہیں کرسکتا- یہ محرک تمام تر خواہش کی پیداوار ہے- یہ خواہش ہے جو انسان کے اندر محرک پیداکرتی ہے- خواہش نہیں تو محرک نہیں اور محرک نہیں تو کوئی عمل نہیں-اِس معاملے میں انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش کو کنٹرول کرے- وہ اپنی خواہش کو غلط رخ کی طرف جانے سے روکے- مثلاً کھانے میں وہ سادہ کھانا کھائے اور لذیذ کھانے سے پرہیز کرے- کوئی عمل کرے تو خدمت کے جذبے سے کرے، نہ کہ شہرت (fame) حاصل کرنے کے لیے- کپڑا پہنے تو ستر پوشی کے لیے پہنے، نہ کہ خوش نمائی کے لیے- پیسہ کمائے تو صرف ضرورت پوری کرنے کے لیے، نہ کہ دولت کا ڈھیر اکھٹا کرنے کے لیے- گھر بنائے تو رہائشی ضرورت کے لیے، نہ کہ شان وشوکت کے اظہار کے لیے-یہی خواہش پر کنٹرول ہے-
خواہش پر کنٹرول کا مقصد اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچانا ہے- جب آدمی اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچاتا ہے تو اس کے بعد اُس کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ذہنی اور روحانی ترقی میں مشغول ہوسکے، وہ اپنی شخصیت کے ارتقا کے اعلی تر مقصد کو حاصل کرسکے-خواہش پر کنٹرول صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعے اپنے مقصد ِ تخلیق کو دریافت کرے- اِس دریافت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی عارضی دنیا کی وقتی لذتوں سے اوپر اٹھ جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو اُس ربانی شخصیت کی تشکیل میں لگا دیتا ہے جو دنیا میں اللہ کی مرضی پر چلے اور آخرت میں اللہ کی ابدی جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے — —خواہش پر کنٹرول آدمی کو اعلی انسان بناتا ہے- اِس کے برعکس، خواہش کی پیروی کرنے والا آدمی حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتا ہے- — —
واپس اوپر جائیں

جنت کی نرسری

کسی انسان کے لیے اِس دنیا میں سب سے پہلی جاننے کی چیز یہ ہے کہ وہ یہ دریافت کرے کہ جس ہستی نے انسان کو اور اس دنیا کو بنایا ہے، اس کی اسکیم آف تھنگس (scheme of things)کیا ہے- قرآن خداکی کتاب ہے- قرآن کے مطالعے سے جو چیز معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ خدا نے سب سے پہلے ایک وسیع اور معیاری دنیا بنائی جس کا نام جنت (Paradise)ہے- پھر اس نے انسان کو پیدا کیا اور انسان کو اس جنت میں بسایا-
انسان کو خدا نے مکمل آزادی (freedom of choice) عطا کی- انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ خالق کا اعتراف کرے، وہ خود اپنے اختیار سے سلف ڈسپلنڈ (self disciplined) زندگی گزارے- لیکن انسان اِس امتحان میں پورا نہیں اترا- اُس نے آزاد ی کا غلط استعمال کیا- اس کے بعد خدا نے انسان کے بارے میں دوسرا اصول مقرر کیا- پہلے انسان کو عمومی بنیاد (general basis) پر جنت میں بسایا گیا تھا، لیکن جب انسان مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترا تو اس کے بعد خدا نے یہ طے کیا کہ انسان کے لیے جنت کا فیصلہ انتخابی بنیاد (selective basis) پر کیا جائے، یعنی صرف اُن افراد کو جنت میں آباد کیا جائے جو سلف ڈسپلن (self discipline) کے مطلوب معیار پر پورے اتریں-اس مقصد کے لئے خدا نے ابدی جنت کے سوا ایک اور عارضی دنیا بنائی-
یہ عارضی دنیا ہمارا موجودہ سیارۂ ارض (planet earth) ہے- سیارۂ ارض گویاابدی جنت کو فیڈ (feed) کرنے کے لئے عارضی قسم کی ایک زندہ نرسری (living nursery) ہے- اس سیارۂ ارض پر انسان گویا پودے (plants) کی مانند اگائے جاتے ہیں- اُن کو یہاں کے مختلف حالات میں محدود مدت کے لئے زندگی گزارنے کا موقع دیا جاتا ہے- اِس مدت میں انسان فرشتوں کے سپروژن (supervision) میں ہوتا ہے- فرشتے مسلسل واچ (watch)کرتے ہیں کہ کوئی انسان مختلف حالات میں کس قسم کا رسپانس (response)دے رہا ہے اور اپنے اندر کس قسم کی پرسنالٹی کی تشکیل کررہا ہے- پھر جو فرد (individual)اپنے قول وعمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مطلوب معیار کے مطابق ہے، اس کو عارضی نرسری سے نکال کر جنت کی ابدی باغ میں نصب کردیا جاتا ہے، تاکہ وہ وہاں جنت کے ماحول میں فروغ پائے اور ابدی طورپر ترقی کا سفر طے کرتا رہے- موت وہ دن ہے جب کہ کسی فرد کو سیارۂ ارض سے ٹرانسفر کرکے ابدی جنت میں پہنچا دیا جائے-
دو دنیائیں
قرآن کی سورہ الذاریات میں تخلیق کا ایک اصول اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (51:49) یعنی ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے پیدا کیا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو-
فطرت کا یہ نظام ہے کہ یہاں تمام چیزیں جوڑے جوڑے کی صورت میں پیدا کی گئی ہیں- اِسی طرح موجودہ دنیا بھی دو دنیا (pair world)کی صورت میں بنائی گئی ہے- سیارۂ ارض (planet earth) اس کا ایک جوڑا ہے- اس کا دوسرا جوڑا آخرت کی دنیا ہے، جہاں جنت (Paradise) واقع ہے- جنت موجودہ دنیا کا تکمیلی حصہ (complementary part) ہے- جنت کے بغیر موجودہ دنیا ناقابلِ فہم ہے، لیکن جنت کے ساتھ وہ پوری طرح قابلِ فہم بن جاتی ہے-
جنت کی نرسری
خالق نے ایک عظیم دنیا بنائی- یہ دنیا ہر لحاظ سے آئڈیل اور پرفکٹ تھی- اِس دنیا کا نام جنت ہے- قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت آدم کی تخلیق سے پہلے بنائی گئی(2:35)- اس کے بعد خالق نے چاہا کہ وہ اُن عورتوں اور مردوں کا انتخاب کرے جو اِس جنتی دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہوں- اِس مقصد کے لیے خالق نے سیارہ ارض بنایا - یہ سیارہ ارض گویا جنتی دنیا کی نرسری (nursery) ہے- نرسری اُس مقام کو کہا جاتا ہے جہاں پودے اگائے جائیں اور پھر منتخب پودوں کو وہاں سے نکال کر اُن کو باغ میں نصب کیا جائے:
Nursery: A place where plants are reared for transplantation.
موجودہ زمین اِسی قسم کی ایک نرسری ہے- یہاں مسلسل طورپر انسان پیدا کیے جارہے ہیں- زمین پر وہ تمام حالات رکھے گئے ہیں جو نرسری کی حیثیت سے اس کے تقاضے پورے کرنے والے ہیں- ہر عورت اور مرد اپنے عمل سے اپنے اندر مثبت شخصیت یا منفی شخصیت کی تعمیر کررہے ہیں- موت وہ وقت ہے جب کہ ایک ’’پودا‘‘ اپنی مدت پوری کرنے پر نرسری سے اکھاڑ دیاجائے، پھر اگر وہ نا مطلوب شخصیت بنا ہے تو اس کو رد کردیا جائے اور اگر اس نے اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کی ہے تو اس کو وہاں سے نکال کر جنت میں بسا دیا جائے — موجودہ دنیا اِس لیے ہے، تاکہ یہاں ایک فرد اپنے آپ کو اسپریچول شخصیت کی حیثیت سے تیار (develop) کرے اور پھر جنت میں وہ اسپریچول تہذیب کا ابدی حصہ بن جائے-
جنت کی دنیا انسان کی اصل منزل ہے- موجودہ عارضی دنیا نرسری (nursery) کی مانند ہے- یہاں پیدا ہونے والے عورت اور مرد کی حیثیت گویا نرسری کے پودے کی ہے- اِس محدود مدت میں جو ’’پودے‘‘ صحت مندی کا ثبوت نہ دیں، ان کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا اور جو ’’پودے‘‘ اپنی نشوو نما کے دوران صحت مند ثابت ہوں، اُن کو باعزت طورپر موجودہ عارضی دنیا سے منتقل کرکے آخرت کی ابدی دنیا میں پہنچا دیا جائے گا، یعنی جنت کی دنیا میں-اِس حقیقت کو ایک اور آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ (67:2) یعنی اللہ، جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا، تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر بے شمار عورت اور مرد پیدا ہوتے ہیں- وہ محدود مدت تک زندگی گزار کر مرجاتے ہیں، یہ ساری بھیڑ خالق کا مطلوب نہیں- خالق کا مطلوب صرف وہ فرد ہے جو اِس امتحانی دورِ حیات میں یہ ثابت کرے کہ وہ پورے معنوں میں احسن العمل (best in deeds) ہے- زمین کی حیثیت نرسری کی ہے، اِس لیے یہاں ہر قسم کے پودے اگتےہیں- لیکن جنت کی حیثیت مطلوب منزل کی ہے، اِس لیے وہاں صرف وہی استثنائی افراد بسائے جائیں گے جن کو اُن کے ریکارڈ کی بنیاد پر منتخب کیا جائے-
موجودہ دنیا میں جو انسان پیدا ہوتا ہے، وہ گویا نرسری کا ایک پودا ہے-ایک محدود مدت تک وہ اِس ابتدائی دنیا میں رہتا ہے- اِس دوران اُس کے ساتھ مختلف قسم کے حالات گزرتےہیں- یہ حالات گویا اُس کے لیے تربیتی کورس (training course) ہیں- یہ حالات اس کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کرے- موت اِس تربیتی کورس کے خاتمے کا اعلان ہے- جو انسان اِس ملی ہوئی مدت کے دوران اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کرلے، اس کو نرسری سے نکال کر دوسری دنیا میں ابدی طورپر بسا دیا جاتا ہے- اور جو لوگ مطلوب انداز میں اپنی تعمیر نہ کرسکیں، اُن کو نرسری سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا-
اِس دنیا کے لیے خالق کا نشانہ اجتماعی نہیں ہے، بلکہ انفرادی ہے- اِس اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگا کہ موجودہ دنیا تعمیر نظام کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ تعمیر شخصیت کے لیے ہے- یہاں صرف تعمیرِ شخصیت ممکن ہے، آئڈیل معنوں میں تعمیرِ نظام یہاں سرے سے ممکن ہی نہیں-انسانی زندگی کی یہی تعبیر صحیح تعبیر ہے- اِس کے صحیح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اس کو ماننے کی صورت میں زندگی کے تمام سوالات کا قابلِ فہم جواب مل جاتا ہے:
With this description of human life, everything falls into place.
ایک حدیث
تخلیق کا یہ منصوبہ قرآن وحدیث میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے- ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں الفاظ کے معمولی فرق کےساتھ آئی ہے- اِس سلسلے کی دو روایتیں یہ ہیں:
1- عن ابن مسعود قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: لقیتُ إبراہیم لیلة أسرى بی- فقال یا محمد، أقرئ أمتک منی السلام، وأخبرہم أن الجنة طیبة التربة، عذبة الماء، وأنہا قیعان، وأن غراسہا: سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر- (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 105)
حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ معراج کی رات میں میری ملاقات حضرت ابراہیم سے ہوئی- انھوں نے کہا کہ اے محمد، اپنی امت کو میرا سلام پہنچا دو- اور اُن کو بتاؤ کہ جنت کی مٹی بہت پاکیزہ مٹی ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے اور وہ ایک ہموار میدان ہے - اس کا پودا سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر ہے-
2- عن أبی أیوب الأنصاری أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم لیلة أسری بہ مرّ على إبراہیم، فقال من معک یا جبریل، قال: ہذا محمد- فقال لہ إبراہیم: مُر أمتک فلیکثروا من غراس الجنة، فإن تربتہا طیبة وأرضہا واسعة- قال: وما غراس الجنة، قال: لا حول ولا قوة إلا باللہ- (مسند أحمد، رقم الحدیث:7966 )
حضرت ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات میں حضرت ابراہیم کے پاس سے گزرے- انھوں نے کہا کہ اے جبریل، یہ تمھارے ساتھ کون ہیں- جبریل نے کہا کہ یہ محمد ہیں- حضرت ابراہیم نے آپ سے کہا کہ اپنی امت کو بتاؤ کہ وہ جنت میں کثرت سے پودے لگائیں، کیوں کہ جنت کی مٹی بہت پاکیزہ ہے اور اس کی زمین بہت وسیع ہے- آپ نے پوچھا کہ جنت کا پودا کیا ہے؟ حضرت ابراہیم نے کہا کہ: لاحول ولا قوة إلا باللہ-
مذکورہ روایات میںجنت کے لیے دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں— قیعان اور ارضِ واسعہ- دونوں کا مفہوم ایک ہے، یعنی وسیع اور ہموار زمین- یہ تمثیل کی زبان میں جنت کی اصل حقیقت کا بیان ہے- اِس معاملے کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ نے یہ چاہا کہ وہ ایک اعلی مخلوق پیدا کرے اور پھر اِس مخلوق کو وہ اپنی اعلی ترین نعمت سے نوازے- اِس منصوبے کے تحت، اللہ نے ایک معیاری دنیا بنائی- یہ دنیا اپنی وسعت کے اعتبار سے، اپنے آپ میں ایک مکمل کائنات تھی- اِس میں ہر قسم کے اعلی امکانات رکھے گئے تھے- اِس میں نہ صرف ہر قسم کی نعمتیں تھیں، بلکہ اس میں اعلی ترقی کے ابدی مواقع موجود تھے-
اس کے بعد اللہ نے انسان کو پیداکیا اور اس کو مکمل آزادی عطا کی- جنت اِسی انسان کے فطری ہیبی ٹیٹ (natural habitat) کے طورپر بنائی گئی ہے- اِس جنت میں انسان کا داخلہ انتخاب (selection) کی بنیاد پر مقرر کیا گیا- موجودہ سیارہ ارض اِس مقصد کے لیے سلیکشن گراؤنڈ یا نرسری کی حیثیت رکھتاہے- انسان کو پیدا کرکے اس کو مکمل آزادی دے دی گئی ہے- آزادی کے اِس ماحول میں جو عورت یا مرد اپنے آپ کو جنت کی دنیا میں بسائے جانے کا مستحق ثابت کریں، اُن کو منتخب کرکے یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ جنت میں آباد ہو کر مزید ترقی کی منزلیں طے کریں- اِس کے برعکس، جو افراد زمینی زندگی کے امتحان میں ناکام ہوجائیں، اُن کو رد کرکے کائناتی کوڑے خانے میں پھینک دیا جائے-
مذکورہ حدیثِ رسول میں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ جنت کا معاملہ کیا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ جنت اللہ کے سچے بندوں کے رہنے کی بہترین جگہ ہے- وہ ایک عالی شان رہائش گاہ ہے، مگر اپنی ابتدائی صورت میں وہ ایک غیر آباد جگہ ہے-
اِس ابدی جنت کی آبادکاری کے لیے اللہ تعالی نے یہ انتظام کیا کہ موجود سیارہ ارض کو ایک نرسری یا سلیکشن گراؤنڈ کے طورپر بنایا- موجودہ زمین پر جو عورت اور مرد پیدا ہوتے ہیں، وہ گویا نرسری میں لگائے جانے والے پودے ہیں- ان پودوں میں جو پودا یہ ثابت کرے گا کہ وہ صحت مند پودا (healthy plant) ہے، اس کو دنیا کی نرسری سے نکال کر جنت کے زیادہ بہتر اور ابدی مقام پر نصب کردیا جائے گا، تاکہ وہ وہاں کے بہتر ماحول میں پرورش پاکر مزید ترقی کرے اور ابدی طورپر جنت کے شاداب باغ کا حصہ بن جائے-
اِس حدیث میں جن کلمات (سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر، ولا حول ولا قوة إلا باللہ) کا ذکر ہے، وہ بہ اعتبار لفظ مرادنہیں ہیں، بلکہ وہ باعتبارِ معنی مراد ہیں، یعنی اِن الفاظ میں جس آئڈیالوجی کا ذکر ہے، یہ الفاظ جس معرفت کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ جس طرزِ فکر (way of thinking) کو بتاتے ہیں، اُس کے مطابق، اپنی سوچ کو بنانا، اس کے مطابق، اپنی شخصیت کی تعمیر کرنا، اِن کلمات کی اسپرٹ کو پنے دل ودماغ میں اتارنا، یہاں تک کہ آدمی ربانی صفات والا انسان بن جائے- جو آدمی قبل از موت دورِ حیات میں اِن کلمات کے تقاضے کے مطابق، اپنے آپ کو ڈھالے گا، وہ بعد از موت دورِ حیات میں خدا کے اُس باغ میں بسنے کا مستحق قرار پائے گا جس کو جنت (Paradise)کہاجاتا ہے-
قرآن میں جنت کا ذکر تفصیل کے ساتھ آیا ہے- قرآن ایک اعتبار سے، جنت کا تعارف ہے- یہ تعارف اتنے موثر انداز میں ہے کہ اس کو پڑھنے والا آدمی گویا جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے- اگر آپ اِس اعتبار سے، قرآن کا تتبع کریں اور جنت کی آیتوں کو یکجا کرکےاس کا مطالعہ کریں تو آپ کے اندر شدید طورپر یہ جذبہ ابھرے گا کہ آپ جنت کو اپنی منزل بنالیں، آپ کی تمام سرگرمیوں کا رخ جنت کی طرف ہوجائے گا- جیسا کہ قرآن میںارشاد ہوا ہے: لِمِثْلِ ہَذَا فَلِیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ (37:61)-
ابدی عمر، ابدی صحت، ابدی امن
قرآن اور حدیث میں جنت اور اہلِ جنت کا تذکرہ نہایت تفصیل کے ساتھ آیا ہے- اِس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں ابدی طورپر ہر قسم کی نعمتیں کمال درجے میں موجود ہوں گی- وہاں انسان کی ہر اشتہا (desire) کی تکمیل کا سامان ہوگا- وہاں انسان کو کامل معنوں میں فل فِل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا- جنت میں انسان کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ مسلسل طورپر وہاں کی نعمتوں کو انجوائے کرے اور کبھی بورڈم کا شکار نہ ہو- جنت ہر اعتبار سے اہلِ جنت کے لیے آئڈیل اور پرفکٹ دنیا ہوگی-
مگر اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے موجودہ وجود کے ساتھ جنت کی نعمتوں سے حقیقی معنوں میں محظوظ نہیں ہوسکتا- اِس لیے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو جو وجود ملا ہے، وہ ہر اعتبار سے، ایک محدود وجود ہے— اِس وجود پر بڑھاپا آتا ہے،یہ وجود بیماری اور حادثات سے دوچار ہوتا ہے، یہ وجود زوال (de-generation) کا شکار ہوتا ہے، اِس وجود پر موت طاری ہوتی ہے، اِس وجود کے آرگن (organs) کمز ور وناکارہ ہوتے رہتے ہیں، اِس وجود پر نیند اور تھکاوٹ طاری ہوتی ہے، اِس وجود کے حواس (senses) معطل ہوتے رہتے ہیں، وغیرہ-
ایسی حالت میں انسان کو اگر جنت اِس طرح ملے کہ جنت میں ہر قسم کا سامانِ عیش تو کامل طورپر موجود ہو، لیکن انسان کا وجود یہی موجودہ دنیا والا وجود ہو، جو کہ ہر قسم کی کمزوریوں (weaknesses)کا شکار ہوتا ہے، اس کو ہر قسم کی محدودیت (limitations) لاحق ہوتی ہے، اس کو بدستور جسمانی زوال (physical degeneration) پیش آتا رہے، جیساکہ وہ اِس دنیا میں پیش آتاتھا- اگر ایسا ہو تو انسان کے لیے جنت اینٹ پتھر کا ایک ڈھیر بن جائے گی، وہ اس کے لیے لذت اور خوشی کی جگہ ثابت نہ ہوگی- جنت انسان کے لیے صرف اُس وقت جنت ہے جب کہ وہ خود جنت سے انجوائے کرنے کی طاقت رکھتا ہو-
اگر انسان کے اپنے اندر جنت سے انجوائے کرنے کی طاقت نہ ہو تو جنت اس کے لیے بلاشبہہ ایک مصیبت خانہ ہوگی، نہ کہ کوئی عیش خانہ- جنت اسی طرح اس کے لیے ایک دار الکبد ہوگی ، جیسا کہ موجودہ دنیا اس کے لیے دار الکبدتھی- اِس کا تقاضا ہے کہ اہلِ جنت کو آخرت میں جنت کے ساتھ ایک نیا وجود بھی عطا کیا جائے، ایسا وجود جو ابدی عمر رکھتا ہو، اس کو ایسی صحت ملے جو بھر پور صحت (health in full swing) کی حامل ہو-
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص موجودہ دنیا کی زندگی میں اپنے آپ کو ر وحانی اعتبار سے، مطہَّر شخصیت (spiritually purified personality) کی حیثیت سے ڈیولپ (develop) کرے، اس کو آخرت میں اللہ کے خصوصی عطیہ کے طو رپر جسمانی اعتبار سے، مطہَّر شخصیت (physically purified personality) حاصل ہوگی- ایسی شخصیت اپنی اعلی صلاحیتوں کے اعتبار سے، کامل صفات کی حامل ہوگی- وہ اِس قابل ہوگی کہ جنت کی نعمتوں سے بھر پور طور پر حظ (enjoyment) حاصل کرے، وہ کسی بھی پہلو سے محدودیت (limitation) اور ڈس ایڈوانٹج (disadvantage) میں مبتلا نہ ہو، وہ ابدی طورپر کامل فل فل مینٹ (fulfilment) کے احساس میں جیتا رہے-
چناں چہ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جنتی انسان ہمیشہ جوانی کی عمر (youth age) میں رہیں گے، جیسے کہ وہ صرف 30 سال کی عمر کے ہوں- وہ ہر اُس جسمانی کمزوری (physical weakness) سے مکمل طورپر پاک ہوں گے جو دنیا کی زندگی میں اُن کے جسم کا لازمی حصہ تھی-
اِسی طرح جنت کےباشندے ہر قسم کی جسمانی کمی سے پاک ہوں گے- مثلاً وہ کبھی بیمار نہیں ہوں گے-اُن کو بول وبر از کی حاجت نہ ہوگی- اہلِ جنت کو جو جسم ملے گا، وہ ایسا جسم ہوگا جو ابدی طورپر شباب کی حالت میں رہے گا- اس پر نیند اور تھکاوٹ اور بڑھاپا طاری نہیں ہوگا- جنت میں اہلِ جنت کو خطاب کرکے یہ اعلان کیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ صحت مند رہوگے، کبھی بیمار نہ ہوگے- اب تم ہمیشہ زندہ رہوں گے، کبھی تم پر موت نہ آئے گی- اب تم ہمیشہ جوان رہوگے، کبھی تم بوڑھے نہ ہوگے- اب تم ہمیشہ خوش حال رہوگے، کبھی تنگی میں مبتلا نہ ہوگے، وغیرہ- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مشکاة المصابیح: جلد 3، کتاب أحوال القیامة وبدء الخلق، باب صفة الجنة وأہلہا)
حقیقت یہ ہے کہ جنت اور انسان دونوں ایک دوسرے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں- جنت مکمل طورپر انسان کے مطابقِ حال ہے اور انسان مکمل طورپر جنت کے مطابقِ حال- جنت انسان کا ہیبی ٹیٹ (habitat) ہے اور انسان جنت کا مطلوب باشندہ (citizen)- انسان کے بغیر جنت کا وجود ادھورا ہے اور جنت کے بغیر انسان کا وجود ادھورا- دونوں ایک دوسرے کے لیے طالب اور مطلوب کی حیثیت رکھتے ہیں- جنت کے بغیر انسان کی زندگی بے معنی ہے اور انسان کے بغیر جنت کے وجود کی کوئی معنویت نہیں- یہ طالب اور مطلوب دونوں آخرت میں اکھٹا کیے جائیں گے اور اس کے بعد ابدی طورپر ایک دورِ کمال شروع ہوگا، جس کی خوشیاں کبھی ختم نہ ہوں گی، اور نہ اس کی رونق پر کبھی زوال آئے گا- یہ جنت انسان کا انتظار کررہی ہے، لیکن اِس جنت میں داخلہ صرف اُس انسان کو ملے گا جو اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کرے-
کلماتِ ذکر کی حقیقت
مذکورہ روایات میں پانچ کلمات کا ذکر ہے- وہ کلمات یہ ہیں — سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلہ إلا اللہ، واللہ أکبر، ولا حول ولا قوة إلا باللہ- اِن کلمات کے جو الفاظ ہیں، وہ محض الفاظ نہیں ہیں، بلکہ وہ گہرے معانی کو بتارہے ہیں اور یہ الفاظ اپنے اِنھیں گہرے معانی کے اعتبار سے مطلوب ہیں، نہ کہ محض الفاظ کے اعتبار سے، یعنی اُن کا فائدہ محض اُن کی لفظی تکرار میں نہیں ہے، بلکہ ان کی اسپرٹ یا ان کی معنویت کو اپنانے میں ہے-
لا حول ولا قوة کیا ہے- وہ اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ تمام طاقتوں کا مالک (all-powerful) ہے-’سبحان اللہ‘ کیا ہے سبحان اللہ اِس حقیقت کی دریافت ہے کہ خدا ہر قسم کے عیب اور نقص سے کامل طورپر پاک ہے- الحمد للہ کیا ہے- الحمد للہ دراصل یہ ہے کہ ایک صاحبِ معرفت آدمی اللہ کے کمالات کو دریافت کرکے اس کا شعوری اعتراف کرے- لا إلہ إلا اللہ کیا ہے- لا إلہ إلا اللہ دراصل تمام معبودوں کو رد کرکے اللہ کو معبود ِ حقیقی کے طورپر دریافت کرنے کا دوسرا نام ہے- اللہ أکبرکیا ہے- یہ وہ عارفانہ کلمہ ہے جو ایک شخص کی زبان سے اُس وقت بے تابانہ طور پر نکل پڑتا ہے، جب کہ وہ تدبر کے نتیجے میں اللہ کے مقامِ عظمت کو دریافت کرے-
یہ کلمات دراصل ذکر ِ الہی کے کلمات ہیں- ذکر کی حقیقت معرفت ہے اور معرفتِ الہی بلا شبہہ سب سے بڑی نیکی (virtue) ہے- لیکن معرفت کوئی سادہ چیز نہیں- معرفت سے پہلے دریافت ہے- دریافت سے پہلے تدبر ہے، تدبر سے پہلے یکسوئی (concentration) ہے، یکسوئی سے پہلے سنجیدگی ہے- آدمی سب سے پہلے سنجیدگی کا ثبوت دیتاہے، پھر وہ اپنے ذہن کو غیر متعلق چیزوں سے یکسو کرتاہے، اس کے بعد وہ غور وفکر کرتاہے، جس کو تدبر کہا جاتا ہے- تدبر اس کو دریافت تک پہنچاتا ہے اور دریافت معرفت تک-سنجیدہ تفکر کے ان مراحل سے گزر نے کے بعد جب کسی انسان کو اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں ایک فکری بھونچال آتا ہے، اس کے اندر حقیقت شناسی کا ایک سیلاب امنڈپڑتا ہے- یہ ربانی کیفیت جب ایک انسان کی زبان سے بے تابانہ طورپر ظاہر ہوتی ہے تو اسی کا نام ذکر الہی ہے-
یہ کلمات دراصل اُس شعوری عمل (intellectual process) کو بتاتے ہیں جو ایک صاحب ِ ایمان کے اندر موجودہ دنیا میں جاری ہوتاہے- موجودہ دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے ایک صاحبِ ایمان پر مختلف احوال اور تجربات گزرتے ہیں- اگر اس کے اندر ایمانی شعور زندہ ہو تو یہ تمام احوال وتجربات اس کے لیے رزقِ رب کا ذریعہ بنتے رہیں گے- آخر کار وہ اُس مطلوب انسان کا درجہ حاصل کر لے گا جو آخرت کی جنت میں داخلے کے لیے ایک مستحق امیدوار (deserving candidate) کی حیثیت رکھتا ہے-
قرآن کا موضوع
قرآن خالقِ کائنات کی کتاب ہے- قرآن کا موضوع (subject) یہ ہے کہ انسان کے بارے میں اللہ کے تخلیقی منصوبہ سے اس کو آگاہ کیا جائے- قرآن کے تمام بیانات براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اِسی معاملے کی وضاحت ہیں- مثلاً قرآن کی سورہ ابراہیم میں بتایا گیاہے کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں— ایک انسان وہ ہے جو اپنی زندگی کی تعمیر ’کلمۂ طیبہ‘ (14:24) کی بنیاد پر کرے اور دوسرا انسان وہ ہے جو ’کلمہ خبیثہ‘ (14:26) کی بنیاد پر اپنے آپ کو کھڑا کرے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جو انسان اپنی زندگی کی تعمیر ’کلمۂ طیبہ‘ کی بنیاد پر کرے، وہ موجودہ دنیا میں بھی اپنا رزق پائے گا اور موت کے بعد کی زندگی میںاس کو اعلی مقامات حاصل ہوں گے- اِس کے برعکس، جو آدمی ’کلمۂ خبیثہ‘ کو اپنی زندگی کی بنیاد بنائے، اس کو استحکام حاصل نہیں ہوگا، اس کو غیر صحت مند پودے کی طرح اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا، وہ جنت میں داخلے کے لیے نا اہل قرار پائے گا-
تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ انسانوں کی بڑی اکثریت نے اِس تخلیقی حکمت کو نظر انداز کیا ، انھوں نے اپنے آپ کو آخرت کے اعتبار سے نہیں بنایا، وہ موجودہ دنیا کی ظاہری چیزوں میں پھنس کر رہ گئے- اِسی حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن ہؤلاء یحبون العاجلة ویذرون وراءہم یوما ثقیلا (76:27)-
تاریخ کا تجربہ
تاریخ کے ہر دور میں تمام سوچنے والے انسان ایک ہی آبسیشن (obsession) میں مبتلا رہے ہیں — موجودہ دنیا کو کس طرح بہتر دنیا بنایا جائے- ہر دور کے انسانوں کا یہ ایک مشترک خواب رہا ہے- مذہبی لوگ اپنے اِس خواب کے لیے صالح نظام کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور سیکولر لوگ اس کو آئڈیل سسٹم کا نام دیتے ہیں- تاریخ میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، خواہ وہ فکشن ہو یا نان فکشن ، تقریباً ان سب کا خلاصہ یہی ہے- کوئی کتاب براہِ راست طورپر اِس موضوع پر لکھی گئی ہے اور کوئی کتاب بالواسطہ طورپر اِس موضوع سے متعلق ہے-
یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ تاریخ کی تمام سرگرمیوں کا نشانہ (goal) عملاً یہی ایک تھا- مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِس سلسلے کی تمام انسانی سرگرمیاں نتیجے کے اعتبار سے، ناکام ہوکر رہ گئیں، کوئی بھی کوشش اپنے مطلوب نشانے تک نہیں پہنچی، نہ سیکولر لوگ اپنا مفروضہ آئڈیل سسٹم بنا سکے اور نہ مذہبی لوگ اپنا مذکورہ صالح نظام بنانے میں کامیاب ہوئے- یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سوا ل ہے- اِس سوال کا جواب معلوم کرنا خود انسان کے وجود کی معنویت کو معلوم کرنا ہے اور بلا شبہہ اِس سے بڑی کوئی دریافت (discovery) نہیں ہوسکتی کہ انسانی وجود کی معنویت کو حقیقی طورپر دریافت کیا جائے-سیکولر مفکرین اور مذہبی مصلحین کی اِس عمومی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ ان کا منصوبہ خالق کے منصوبہ تخلیق سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، اور جو منصوبہ خالق کے تخلیقی نقشےکے مطابق نہ ہو، اس کے لیے اِس دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں-خالق کے منصوبے کے مطابق، یہ دنیا ایک جوڑا دنیا (pair world) کی صورت میں بنائی گئی ہے- ایک دنیا دوسری دنیا کا تکملہ (complement) ہے- اِس تخلیقی منصوبے کے مطابق، کرۂ ارض (planet earth) کی حیثیت ایک وقتی نرسری (nursery) کی ہے، اور دوسری دنیا کی حیثیت ایک ابدی باغ (eternal garden) کی ، جس کو معروف طورپر جنت (Paradise) کہاجاتا ہے-
خلاصۂ کلام
قرآن میں جنت کی تخلیق کے لیے ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے- مثلاً : أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْن (3:133) یعنی جنت اہلِ تقوی کے لیے تیار کی گئی ہے- اور فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ (32:17) یعنی کسی کو نہیں معلوم کہ اُن کے لیے اُن کے اعمال کے صلے میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے، وغیرہ-
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے اپنے منصوبے کے مطابق، پہلے جنت کی دنیا بنائی- اس کے بعد اہلِ جنت کا انتخاب کرنے کے لیے موجودہ سیارۂ ارض کو بنایا، جو کہ دراصل جنت کی ابدی دنیا کے لیے ایک عارضی نرسری کی حیثیت رکھتا تھا- اِس عارضی نرسری میں عورت اورمرد محدود مدت کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں- منصوبہ تخلیق کے مطابق، جب انسانوں کی تعداد پوری ہوجائے گی، اُس وقت سیارہ ارض پر قیامت کا زلزلہ آئے گا اور اس کی موجودہ حیثیت کا خاتمہ ہوجائے گا-
انسان کو موجودہ دنیا میں بسنے کے لیے صرف محدود قت ملتا ہے- موجودہ دنیا میں انسان کی عمر کا اوسط تقریباً 70 سال ہے- اِس مدت میں جو افراد اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں، اُن کو موت کے بعد لے جاکر جنت کی دنیا میں آباد کردیا جاتا ہے اور جو عورت یا مرد اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر میں ناکام رہتے ہیں، اُن کو ’’خبیث پودے‘‘ کی مانند اکھاڑ کر پھینک دیاجاتا ہے- زمین کی صورت میں جو نرسری بنائی گئی ہے، وہ صرف عارضی مدت کے لیے ہے، اور جنت کی صورت میں جو معیاری دنیا بنائی گئی ہے، وہ ابدی ہے، وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں

احیاءِ امت

قرآن میں بتایا گیاہے کہ طولِ امد کے نتیجے میں امتوں کے اندر قساوت (57:16) پیدا ہوجاتی ہے، یعنی ہر امت کی بعد کی نسلوں میں زوال آتا ہے-امت میں زوال کے بعد احیا (57:17) کے لیے کیا کرنا چاہیے، قرآن میں اس کا ایک ماڈل حضرت موسی کی مثال کی صورت میں بتایا گیاہے- قرآن کے مطابق، جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک مستند ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے، اِسی طرح حضرت موسی اور دوسرے پیغمبروں کی زندگی بھی اہلِ ایمان کے لیے ایک قابلِ تقلید ماڈل ہے (6:90)-
حضرت موسی ایک اسرائیلی پیغمبر تھے- وہ قدیم مصر میں پیدا ہوئے- اُن کا زمانہ تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- ان کے حالات تفصیل کے ساتھ قرآن، اور بائبل میں موجود ہیں- اِس کے مطالعے سے جہاں دوسری باتیں معلوم ہوتی ہیں، وہیںیہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایک زوال یافتہ امت کو زوال کی حالت سے نکالنے کے لیے عملی طورپر کیا کرنا چاہئے-
اللہ کی طرف سے حضرت موسی کو دو کام سپرد ہوا تھا — ایک طرف، فرعون کے سامنے اللہ کا پیغام پہنچانا اور دوسری طرف، بنی اسرائیل کو زوال کی حالت سے نکالنے کی تدبیر کرنا- انھوں نے یہ دونوں کام پوری طرح انجام دیا- انھوں نے ایک طرف، فرعون اور اس کی قوم کے سامنے اللہ کی حجت تمام کی اور دوسری طرف، بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر صحرائے سینا میں لے گئے- اِس کا مقصد زوال یافتہ قوم کی اصلاح کرنا تھا-
فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسی کے پیغام کو ماننے سے انکار کردیا- اتمامِ حجت کے بعد اللہ نے اُن کے ساتھ اُسی انجام کا فیصلہ کیا جو اِس طرح کی دوسری قوموں کے ساتھ اللہ کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے، یعنی اُن کی کامل ہلاکت- چناں چہ فرعون، اس کی فوجی طاقت، اس کے درباری سب کے سب بیک وقت سمندر میں غرق کردئے گئے-
ایک تخمینے کے مطابق، اُس وقت مصر کی کُل آبادی تین ملین سے کچھ زیادہ تھی- اِس آبادی میں بنی اسرائیل کی تعداد تقریباً ایک چوتھائی حصے پر مشتمل تھی- اگر حضرت موسی کے نزدیک بنی اسرائیل کے احیاءِ نو کا طریقہ یہ ہوتا کہ اُن کو حکومت دلائی جائے یا ملک میں اُن کے سیاسی ادارے قائم کیے جائیں، تو فرعون کی غرقابی کے بعد اِس منصوبے کو عمل میں لانے کا وقت اس کے لیے بہترین وقت تھا-غرقابی کا واقعہ پیش آنے کے بعد فرعون کی سیاسی اور فوجی طاقت ختم ہوچکی تھی- جادوگروں کا طبقہ حضرت موسی کے دین کو اختیار کرچکا تھا-
اِس طرح کے واقعات کے نتیجے میں پورے مصر میں حضرت موسی اور ان کی قوم کا دبدبہ قائم ہوچکا تھا- اِس طرح حالات پوری طرح تیار ہوچکے تھے کہ حضرت موسی مصر کی حکومت پر قبضہ کرلیں اور سیاسی اقتدار کے ذریعے بنی اسرائیل کے احیاءِ نو کا کام کریں-
مگر حضرت موسی نے ایسا نہیں کیا- اِس کے برعکس، حضرت موسی نے جو کچھ کیا، وہ یہ تھاکہ انھوں نے مصر کو چھوڑ دیااور بنی اسرائیل کی پوری جمعیت کو لے کر صحرائے سینا میں چلے گئے، جہاں مشقت کی زندگی کے سوا بنی اسرائیل کے لیے کچھ اور نہ تھا- اِس واقعے کا حوالہ قرآن کی سورہ المائدہ کی آیت نمبر 26 میں دیاگیا ہے-اِس صحرائی ماحول میں بنی اسرائیل چالیس سال (1400-1440 قبل مسیح) تک سخت مشقت کی زندگی گزارتے رہے، یہاں تک کہ ایسا ہوا کہ اُن میں جو زیادہ عمر کے لوگ تھے، وہ سب مر گئے اور جو نوجوان تھے، وہ صحرا کے پُرمشقت ماحول میں تربیت پاکر ایک نئی زندہ قوم کی صورت میں ابھرے- بنی اسرائیل کی یہی تربیت یافتہ نسل تھی جس نے بعد کے دور میں تاریخی کارنامے انجام دئے-
بنی اسرائیل کے ساتھ جو طریقہ اختیار کیا گیا، اُس کو صحرائی طریقِ علاج (desert therapy) کہا جاسکتا ہے- صحرائی علاج کا یہ طریقہ اِس سے پہلے بنو اسماعیل کے ساتھ اختیار کیا گیا تھا- وہ عرب کے صحرا میں تربیت پاکر تیار ہوئے اور پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر ایک طاقت ور ٹیم کی صورت میں انھوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے-
امت مسلمہ کا کیس
قانونِ فطرت کے مطابق، امت مسلمہ کی بعد کی نسلوں میں وہی زوال آنا مقدر تھا جو اِس سے پہلے بنی اسرائیل پر آیا- زوال کی یہ حالت اپنی آخری صورت میں انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں کھل کر سامنے آگئی-
اب امت کے رہنماؤں کو وہی کرنا تھا جو اِس سے پہلے حضرت موسی نے اپنی قوم کے ساتھ کیا تھا، یعنی زمانے کے اعتبار سے امت کو ایک تربیتی کورس سے گزارنا ، تاکہ اُن پر قرآن کی یہ آیت صادق آجائے: لِیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ(8:42)- اِس کا مطلب یہ ہےکہ امت کے جو ناقابلِ اصلاح افراد ہیں، وہ ختم ہوجائیں اور جو قابلِ اصلاح افراد ہیں، وہ بیدار ہو کر مطلوب رول ادا کرنے کے قابل ہوسکیں-
غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ زمانے میں اِس طریقِ علاج کا بہترین میدان وہ تھا جس کو سیکولر تعلیم کا نظام کہاجاتا ہے- یہی تعلیمی نظام مکمل طورپر مسابقت (competition)کے اصول پر قائم تھا- یہاں دوسری قوموں کی طرف سے چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا تھا- یہاں کا فارمولا یہ تھا کہ — مقابلہ کرکے زندہ رہو یا مرجاؤ:
Compete or perish
اِس اعتبار سے، موجودہ زمانے کا سیکولر تعلیمی نظام گویا تعلیمی طریقِ علاج (educational therapy)کا میدان بن گیا تھا- ضرورت تھی کہ قوم کے تمام نوجوانوں کو اِس طریقِ علاج کے پراسس سے گزارا جائے- لیکن مسلمانوں کے علما اور رہنماؤں نے اِس حکمت کو نہیں سمجھا- انھوں نے اِس معاملے کی حکمت سے بے خبر رہتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ یہ تعلیمی نظام تمام تر اینٹی مسلم نظام ہے- چناں چہ کسی نے اِس نظام کو ’قتل گاہ‘ قرار دیا- اور کسی نے اس کو ’ذہنی ارتداد‘ کا کارخانہ قرار دیا، وغیرہ-
موجودہ سیکولر تعلیمی نظام میں چیلنج اور مسابقت کا مطلوب ماحول پوری طرح موجود تھا- لیکن اس میں ایک چیز مفقود تھی، وہ تھی مسلم نوجوانوں کی دینی تعلیم وتربیت- اِس مسئلے کا حل قرآن میں، بنی اسرائیل کے حوالے سے اِن الفاظ میں موجود تھا: وَاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَةً (10:86) یعنی اپنے گھروں کو مذہبی تعلیم وتربیت کا مرکز بنا دو-
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو یہی کرنا تھا- وہ یہ کہ مدرسے کی تعلیم کے علاوہ، مسلم نوجوانوں کی باقاعدہ تعلیم (formal education)وہ سیکولر تعلیم گاہوں میں دلوائیں اور اِسی کے ساتھ وہ اپنے گھروں کو انفارمل ایجوکیشن (informal education) کا مرکز بنادیں- تاکہ دونوں تقاضے بحسن وخوبی پورے ہوسکیں-
مگر مسلم رہنماؤں نے اِس کے برعکس، یہ کیا کہ انھوں نے قومی بنیاد پر مسلمانوں کے الگ تعلیمی ادارے قائم کیے- یہ تعلیمی ادارے، جہاں صرف مسلمانوں کے لیے تعلیم کا انتظام تھا، وہ فطری طور پر مسابقت اور چیلنج سے خالی تھے- نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد یہ ادارے مسلم گھیٹو (Muslim ghetto) بن کر رہ گئے-
موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے زوال کی بنا پر اِس قابل نہیں رہے تھے کہ وہ خود اپنے الگ قومی ادارے چلائیں- اِس طرح کے ادارے قائم کرنے کا مطلب یہ تھاکہ زوال یافتہ افراد کو حقیقی لیاقت کے بغیر، بڑی بڑی پوزیشن دے دی جائے- چناں چہ اِن اداروں میں اسلام تو نہیں آیا، البتہ ایک زوال یافتہ قوم کا قومی کلچر فروغ پانے لگا- یہی حال اُن ملکوں کا ہوا جو اسلام کے نام پر بنائے گئے تھے- اِن ملکوں میں زوال یافتہ افراد کو اچانک بڑے بڑے عہدے مل گئے اور انھوں نے پورے ملک کو زوال یافتہ کلچر کا جنگل بنادیا-
زوال کی آخری مثال
دورِ زوال کے بارے میں حدیث میں بہت سے انتباہات آئے ہیں- اُن میں سے ایک انتباہ وہ ہے جو اِس حدیثِ رسول میں ملتاہے: لا ترجعوا بعدی کفاراً، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1739) یعنی میرے بعد تم کافر نہ ہوجانا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی گردنیں مارنے لگے- اِس حدیث میں ’’کفار‘‘ کا لفظ فقہی معنی میں نہیں ہے، یہ دراصل تہدیدی زبان (language of hammering) ہے- یہاں شدت کے انداز میں بتایا گیاہےکہ زوال جب اپنی آخری حد تک پہنچتا ہے تو امت کا حال کیا ہوتا ہے- اُس وقت لوگوں کے اندر خوفِ خدا کا خاتمہ ہوجاتا ہے- اِسی بے خوف نفسیات کی بنا پر وہ ایسا فعل کرنے کے لیے جری ہوجاتے ہیں جو قرآن کی صراحت کے مطابق، مبینہ طور پر ایک جہنمی فعل (4:93) ہے، یعنی ایک مومن کا دوسرے مومن کو ناحق قتل کرنا-
جدید تعلیم کی اہمیت
جدید تعلیمی نظام کو سیکولر نظامِ تعلیم کہاجاتا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جدید تعلیم نئے دور کا نظامِ تعلیم تھا- وہ نئے دور کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا- اس کا سیکولر پہلو اس کا اضافی (relative) پہلو ہے، نہ کہ حقیقی (real) پہلو-اصل یہ ہےکہ موجودہ زمانے میں جو نئی دریافتیں ہوئیں، اُس نے زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کردیں- اِن تبدیلیوں کا تعلق براہِ راست طورپر انسان کی عملی زندگی سے تھا- دورِ جدید میں زندگی کے تمام شعبے مکمل طورپر بدل گئے- اِن شعبوں کو چلانے کے لیے نئے ماہرین اور نئے تربیت یافتہ افراد درکار تھے- جدید تعلیمی نظام گویا اِنھیں جدید قسم کے افراد کو تیار کرنے کا کارخانہ تھا- کسی قوم کے لیے اِس تعلیمی نظام سے علاحدگی کا مطلب یہ تھاکہ اُس قوم کے پاس موجودہ دور کے اِس جدید نقشۂ حیات کو چلانے کے لیے افرادِ کار موجود نہ ہوں-
موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کا کیس یہی ہے- اپنے قائدین کی رہنمائی میں امت نے یہ غلطی کی کہ وہ جدید تعلیمی اداروں کی عصری اہمیت کو سمجھ نہ سکے- انھوں نے اپنے نوجوانوں کو اِس تعلیمی نظام سے دور رکھا- نتیجہ یہ ہوا کہ پوری امت دورِ جدید میں بے جگہ (displaced) ہو کر رہ گئی— موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی مبینہ پس ماندگی کا اصل سبب یہی ہے-
افراد، نہ کہ مجموعہ
موجودہ زمانے میں مسلم علما اور رہنماؤں نے بہت سی تحریکیں چلائیں، لیکن ہر تحریک اپنے مطلوب نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہی- اِس ناکامی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ہر ایک نے غلط مفروضے سے اپنے کام کا آغاز کیا- انھوںنے موجودہ مسلمانوں کو ’’خیر ِ امت‘‘ فرض کرلیا اور اِسی مفروضے پر وہ اپنی منصوبہ بندی کرنے لگے، حالاں کہ موجودہ مسلمان صرف ایک زوال یافتہ گروہ بن چکے تھے-
یہ ایک مشترک غلطی تھی جس میں یہ تمام حضرات مبتلا رہے- اِس بنا پر اُن کا حال اُس معمار جیسا ہوگیا جو کچی اینٹوں کو پختہ اینٹ سمجھ کر قلعے کی تعمیر شروع کردے- ایسے معمار کا یقینی انجام صرف یہ ہے کہ اس کا قلعہ کبھی تعمیر نہ ہوسکے-
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے- وہ یہ کہ کوئی زوال یافتہ قوم دوبارہ اس طرح اصلاح قبول نہیں کرتی کہ پوری قوم بطور مجموعہ اصلاح یافتہ ہوجائے(21:95)- ایسا نہ ماضی میں کبھی ہوا اور آئندہ کبھی ہوسکتا ہے- اِس بنا پر اصلاح کے کام میں خواہ پورے مجموعے کو خطاب کیا گیا ہو، لیکن ہمیشہ کچھ افراد ہی اُس سے اصلاح قبول کرتے ہیں- اِس لیے تحریک کی کامیابی کا معیار ہمیشہ افرادِ قوم ہوتے ہیں، نہ کہ مجموعۂ قوم-
انگریزی تعلیم
ٹی بی میکالے (Thomas Babington Macaulay)ایک انگریز مورخ اور سیاست داں تھا- وہ 1800 میں پیدا ہوا، اور 1859 میں اس کا انتقال ہوا- وہ 1835 میں انڈیا آیا- اُس وقت کی برٹش حکومت میں اس کو ایک بڑا عہدے دار بنایا گیا- اس نے ایک تعلیمی نظریہ وضع کیا جس کو میکال ازم (Macaulayism) کہاجاتا ہے- اس کا مقصد تھا ملک میں اینگلی سائزڈ انڈین (anglicised Indians) کا ایک نیا طبقہ پیدا کرنا-
لارڈ میکالے سے پہلے انڈیا کی آفیشیل زبان فارسی تھی- لارڈمیکالے کی کوششوں سے ایسا ہوا کہ 1938 میں انگریزی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیاگیا- اِس کے بعد ملک کے اسکولوں میں انگریزی زبان ذریعہ تعلیم قرار پائی-
لارڈ میکالے کا کہنا تھاکہ — اس سے ایک نئی نسل پیدا ہوگی جو کہ پیدائش کے اعتبار سے ہندستانی اور اپنے ذہن کے اعتبار سے انگریز ہوگی:
So that a generation may arise which is Indian in birth and English in thought.
لارڈ میکالے نے جب یہ کہا تو اس کے خلاف سخت ہنگامہ کیاگیا، خاص طور پر مسلم رہنما انگریزی تعلیم کے شدید مخالف ہوگئے، حتی کہ انھوںنے کہا کہ انگریزی تعلیم گاہیں مسلمانوں کے لیے قتل گاہ کی حیثیت رکھتی ہیں-مگر یہ سب غیر ضروری اندیشے تھے- عملاً جو کچھ ہونے والا تھا، وہ صرف یہ کہ اِن درس گاہوں میں تعلیم پانے کی وجہ سے کٹر پن ختم ہوجائے اور لوگوں کے اندرکھلا پن آجائے- اپنے نتیجے کے اعتبار سے دیکھئے تو لارڈ میکالے کا قول ایک لفظی تبدیلی کے ساتھ دراصل یہ تھا:
So that a generation may arise which is Indian in birth and liberal in thought.
چناںچہ تجربہ بتاتا ہے کہ اِن انگریزی اداروں میں تعلیم پائے ہوئے مسلم نوجوانوں میں سے بہت سے ایسے تھے جو بعد کو بہترین مسلمان بنے- مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو انھیں انگریزی اداروں سے بہترین افراد حاصل ہوئے، وغیرہ-اِس معاملے میں اصل قابلِ لحاظ بات یہ نہیں ہے کہ لارڈ میکالے یا برٹش حکمرانوں نے بطور خود کس نظریے کے تحت انگریزی تعلیم گاہیں بنائیں، بلکہ اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ باعتبار نتیجہ ان کا انجام کیا ہوا، اوریہ کہ یہاں سے کس قسم کے لوگ تعلیم پاکر نکلے-
انگریزی تعلیم حقیقتاً برٹش تعلیم نہ تھی، بلکہ وہ جدید علم (modern learning) کے حصول کا ذریعہ تھی- ماڈرن ایجوکیشن اپنی حیثیت کے اعتبار سے نہ پروبرٹش (pro-British)تھی اور نہ اینٹی مسلم، وہ صرف جدید علوم تک پہنچنے کا ایک ذریعہ تھی- ’’انگریزی تعلیم‘‘ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اندر ذہنی جمود ٹوٹا، ان کے اندر کھلا پن آیا، ان کے اندر متعصبانہ طرز فکر (biased thinking) کا خاتمہ ہوا، وہ چیزوں کو موضوعی انداز (objective way) میں دیکھنے لگے، ان کے اندر کٹر پن ختم ہوگیا، ان کے اندر چیزوں کو عقل (reason)کے معیار پر جانچنے کا مزاج پیداہوگیا، وغیرہ-
یہ تمام چیزیں عین دینِ حق کے موافق تھیں، کیوں کہ دین حق انسانی فطرت کےعین مطابق ہے، وہ عقل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے- دین حق کے راستے میں اگر کوئی چیز ر کاوٹ ہے تو وہ صرف متعصبانہ طرز فکر ہے- کسی بھی طریقے سے اگر متعصبانہ طرز فکر کو ختم کردیا جائے تو دینِ حق اور انسان کے درمیان حائل فکر ی دیوار اپنے آپ منہدم ہوجائے گی- اس کے بعد انسان اِس قابل ہوجائے گا کہ وہ حقیقت کو اس کی بے آمیز صورت میں دیکھ سکے-
انگریزی تعلیم یا سیکولر تعلیم کے ذریعے یہی واقعہ پیش آیا- اِس تعلیم کے ذریعے بہت سے نوجوان اِس قابل ہوگئے کہ وہ حقیقت کو دریافت کرکے اس کو قبول کرلیں- موجودہ زمانے میں اِس طرح کی مثالیں ہر مقام پر دیکھی جاسکتی ہیں— قدیم زمانہ قیاسی استدلال کا زمانہ تھا- موجودہ زمانہ سائنسی استدلال کا زمانہ ہے- آج کے انسان کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے کے لیے سائنسی استدلال کی ضرورت ہے- انگریزی تعلیم نے اِسی دروازے کو کھولا تھا-
صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی نئی صورتِ حال پیش آئے تو اگر چہ وہ بظاہر عُسر دکھائی دیتی ہو تب بھی آپ اس کے اندر یُسر تلاش کریں- ہر نئی صورتِ حال ہمیشہ نئے مواقع کو لاتی ہے- ایسی حالت میں اصل کام صرف یہ ہے کہ مواقع کو دریافت کرکےان کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے-
واپس اوپر جائیں

اسلام اور دورِ جدید

تاریخ کے بارے میں اللہ کا ایک منصوبہ قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (8:39) -
اِس معاملے کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ نے موجودہ کرۂ ارض کو بنایا اور یہ مقدر کردیا کہ اس کی نعمتیں (blessings) یکساں طور پر تمام انسانوں کو حاصل ہوں (55:10)- تاریخ انسانی کی ابتدا میں ایک عرصے تک یہ صورتِ حال قائم رہی- اس کے بعد دھیرے دھیرے دنیا میں شخصی حکمرانی کا نظام آگیا- یہ سیاسی کلچر طاقت کے زور پر قائم ہوا اور پھر پوری انسانی تاریخ میں پھیل گیا-
یہ سیاسی اجارہ داری (political monopoly) اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے خلاف تھی- اِس نظام نے انسانی آزادی کو بہت زیادہ محدود کردیا، جب کہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ انسان پوری طرح آزاد رہے- اِس نظام کے تحت یہ ہوا کہ ایک طبقے کو ہر اعتبار سے مراعاتی طبقہ (privileged class) کا درجہ مل گیا، جب کہ بیش تر لوگ اُس سے محروم رہے- اِس نظام نے اپنے تحفظ کے لیے مختلف قسم کی پابندیاں لوگوں پر عائد کردیں- انھیں میں سے ایک چیز وہ بھی تھی جس کو مذہبی جبر (religious persecution) کہا جاتا ہے-
اِس سیاسی نظام کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کے پیدا کردہ تمام مواقع پر ایک محدود طبقے کی اجارہ داری قائم ہو اور بیش تر لوگ اِس سے محروم ہوجائیں کہ وہ آزادانہ طور پر وہ کام کرسکیں جو نظامِ تخلیق کے مطابق، اُن سے مطلوب ہے-ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا- اُس وقت تک سیاسی اجارہ داری کا یہ نظام لوگوں کے اوپر اپنی گرفت(grip) پوری طرح مضبوط کرچکا تھا- یہ صورتِ حال اللہ کے تخلیقی منصوبہ کے سراسر خلاف تھی- اِس نظام کے تحت یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ انسانی شخصیت کے فطری امکانات (potentials)انفولڈ (unfold) ہوں، زمین کے فطری امکانات دریافت ہوں اور وہ چیز وجود میں آئے جس کو تہذیب (civilization) کہاجاتا ہے-
اُس وقت رسول اور اصحابِ رسول کو یہ حکم دیاگیا کہ وہ اِس غیر فطری نظام کا خاتمہ کردیں، تاکہ انسان کے اوپر اللہ کی تمام امکانی سعادتوں کے دروازے کھل سکیں- اُس وقت عرب کے پڑوس میں دوبڑی سلطنتیں قائم تھیں — ایک، ساسانی ایمپائر (Sassanid Empire)اور دوسری، بازنتینی ایمپائر (Byzantine Empire)- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اِن سلطنتوں کے سربراہوں کے نام خطوط روانہ کیے- اس کا مطلب یہ تھا کہ پہلے مرحلے میں یہ کوشش کی گئی کہ یہ حکمراں پُرامن فہمائش کے ذریعے اپنی اصلاح کرلیں- جب اِن حکمرانوں کے اوپرپُر امن فہمائش کارگر نہیں ہوئی تو اس کے بعد یہ حکم دیاگیا کہ اِن حکمرانوں کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے- یہ فوجی کارروائی گویا انسانوں کے ذریعے ایک خدائی آپریشن (divine operation) تھا جو اللہ کی خصوصی مدد کے ذریعے کامل طور پر انجام پایا-یہ خدائی آپریشن کسی وقتی مقصد کے لیے نہ تھا- اُس کانشانہ یہ تھا کہ ایک تاریخی نظام کاخاتمہ کرکے دنیا میں دوسرے تاریخی نظام کو وجود میں لایا جائے- اِس قسم کا منصوبہ صرف ایک لمبے عمل (long-term process) کے ذریعے بروئے کار لایا جاسکتا تھا، چناں چہ ایسا ہی ہوا-
سب سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ ہوا کہ ملکِ عرب میں قبائلی حکمرانی کو ختم کیا گیا- اِس کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانے میں ایشیاا فریقہ کے درمیان قائم شدہ دو بڑی سلطنتوں — ساسانی ایمپائر اور بازنتینی ایمپائر — کا خاتمہ کیا گیا- یہ دونوں واقعات غیر معمولی قربانیوں کے ذریعے پیش آئے-یہ تاریخ بشری کا ایک عظیم سیاسی انقلاب تھا جس کا ذکر بائبل میں اِن الفاظ میں آیا ہے — اُس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں- ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے- قدیم ٹیلے جھک گئے:
He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered. (Habakkuk 3:6)
تاہم اللہ تعالی کو تاریخ میں جو نیا دور لانا تھا، اس کے لیے اتنا ہی کافی نہ تھا- اِس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ سیاسی اجارہ داری کے نظام کو عالمی سطح پر ختم کردیا جائے- منصوبۂ الہی کا یہ دوسرا مرحلہ مسلم مجاہدین کے ذریعے انجام پایا- جیساکہ معلوم ہے، اس کے بعد بنو امیہ کے دور اور بنو عباس کے دور اور دوسری مسلم سلطنتوں کے دور میں یہ ہوا کہ دنیا کے تقریباً پورے آباد حصے میں مسلم مجاہدین نے قدیم طرز کے سیاسی نظام کو توڑ ڈالا-اِس عمل کی تکمیل انیسویں صدی عیسوی میں یورپ میں ہوئی- اِس زمانے میں بڑے بڑے سیاسی مفکرین (political thinkers) پیدا ہوئے- مثلاً روسو، وغیرہ- اِن لوگوں نے قدیم زمانے کے جابر حکمرانوں (despotic kings)کے خلاف طاقت ور کتابیں لکھیں- یہ کتابیں چھپ کر پورے یورپ میں پھیل گئیں- اِس کے بعد عملی انقلاب کے لیے بڑی بڑی سیاسی تحریکیں اٹھیں- اِس کی تکمیل 1879 میں ہوئی، جب کہ وہ تاریخی واقعہ پیش آیا جس کو فر نچ انقلاب (French Revolution)کہاجاتا ہے- اِس کے بعد قدیم طرز کا بادشاہی نظام عملاً ختم ہوگیا اور دنیا میں بڑے پیمانے پر جمہوری نظام قائم ہوگیا-
سائنس کا دور
قدیم بادشاہی نظام میں آزادانہ سوچ کا ماحول موجود نہ تھا- بادشاہ ہر نئی فکر کو کچل دیتے تھے- مثال کے طورپر رومن ایمپائر تقریباً دو ہزار سال تک قائم رہا- مگر اِس طویل مدت میں کوئی سائنسی دریافت نہ ہوسکی- موجودہ زمانے میں جمہوریت کا دور آیا تو انسان کو مکمل معنوں میں فکری آزادی حاصل ہوگئی- اب فطرت (nature) میں آزادانہ تحقیق کا عمل شروع ہوگیا- اِس کے نتیجے میں فطرت میں چھپے ہوئے قوانین دریافت ہونے لگے، یہاں تک کہ وہ دور پیدا ہوگیا جس کو جدید سائنسی دور کہا جاتا ہے-
جدید سائنس کے دو پہلو ہیں — نظری سائنس (theoretical science)اور انطباقی سائنس (applied science)- نظری سائنس میں تحقیقات کے ذریعے عالم فطرت کے اُن مخفی قوانین کا ایک حصہ دریافت ہوا جس کو قرآن میں آیات اللہ (signs of God) کہا گیا ہے- اِن قوانین کی دریافت کا یہ عظیم فائدہ ہوا کہ دینِ خداوندی کے معتقدات مسلّمہ انسانی علم کی بنیاد پر ثابت شدہ بن گئے- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مذہب اور جدید چیلنج)
سیکولر زم کا نظریہ
قدیم سیاسی نظام میں بادشاہ کو مطلق اختیار حاصل ہوتا تھا- جدید جمہوریت میں اِس کی گنجائش باقی نہ رہی- اس کے بعد حالات کے تحت ایک نیا نظریہ پیدا ہوا جس کو سیکولرزم کہاجاتا ہے- سیکولرازم کا مطلب لادینیت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملکی انتظام کے سوا دوسرے امور میں اسٹیٹ کا رویہ عدم مداخلت (non-interference)کا ہوگا-
یہ ایک دوررس انقلابی واقعہ تھا جو تاریخ میں پہلی بار پیش آیا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زندگی کے تمام غیر سیاسی شعبے مثلاً مذہب، تعلیم، اقتصادیات، وغیرہ حکومت کی گرفت سے آزاد ہوگئے- اب لوگوں کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اِن غیر سیاسی شعبوں میں آزادانہ طورپر اپنے منصوبے کی تکمیل کرسکیں-اسلام کے نقطۂ نظر سے بلاشبہہ یہ ایک عظیم واقعہ تھا- یہ گویا سنتِ حدیبیہ کا عالمی احیا تھا-
ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فائدہ اِس طرح حاصل ہوا تھا کہ آپ کو فریقِ ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر ماننا پڑا تھا- موجودہ زمانے میں حدیبیہ جیسے فائدے مزید اضافے کے ساتھ غیر مشروط طورپر حاصل ہوگئےہیں- اب اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف یہ کہ اہلِ ایمان کسی کے خلاف تشدد (violence)نہ کریں- مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ کوئی شرط نہیں، کیوں کہ اہلِ ایمان اپنے عقیدے کے تحت پہلے ہی سے تشدد کو قابلِ ترک قرار دئے ہوئے ہیں-
جدید ٹکنالوجی
انطباقی سائنس کے ذریعے موجودہ زمانے میں انسان کو ایک عظیم نعمت حاصل ہوئی ہے، یعنی جدید ٹکنالوجی - جدید ٹکنالوجی کے بے شمار فائدے ہیں- یہ فائدے عملاً تمام انسانوں کے لیے عام ہیں، لیکن اہلِ ایمان کے لیے وہ ہزاروں گنا زیادہ بڑے فائدے کی حیثیت رکھتے ہیں- کیوں کہ اہلِ ایمان اِس ٹکنالوجی کی مدد سے اپنی دنیا کی بھی پر امن تعمیر کرسکتے ہیں، اسی کے ساتھ وہ تعلیم دین اور دعوت الی اللہ کے کام میں اِس ٹکنالوجی کو استعمال کرسکتے ہیں اور اِس طرح وہ اُس ربانی کام کو انجام دے سکتے ہیں جو اُن کے لیے آخرت کی ابدی سعادتوں کا دروازہ کھولنے والا ہے-
اقوامِ متحدہ
قدیم زمانے میں انسانی آبادی مختلف الگ الگ حصوں میں بٹی ہوئی تھی- اُس وقت وہ وسائل موجود نہ تھے جس کے ذریعے یہ ممکن ہو کہ دنیا کے تمام انسانوں کی عالمی تنظیم قائم کی جاسکے- موجودہ زمانے میں نئے حالات نے ساری دنیا کو ایک گلوبل ولیج (global village) کی حیثیت دے دی ہے- اب زمین کے ایک کونے میں بسنے والا انسان زمین کے دوسرے کونے میں بسنے والے انسان سے کامل طور پر مربوط ہے- حالات کے اِس نئے تقاضے کے تحت 1920 میں ایک عالمی تنظیم قائم ہوئی جس کا نام لیگ آف نیشنس(League of Nations)تھا- اِس کے بعد 1945 میں زیادہ بڑے پیمانے پر ایک اور عالمی تنظیم قائم ہوئی جس کا نام اقوامِ متحدہ ہے- اقوامِ متحدہ اپنے مختلف اداروں کے ساتھ اب ایک مستحکم عالمی تنظیم بن چکی ہے اور اس میں دنیا کے تمام ممالک شامل ہیں جن کی تعداد تقریباً دوسو ہے-
اقوامِ متحدہ موجودہ زمانے میں ایک بین اقوامی نعمت (international blessing) کی حیثیت رکھتی ہیں- اس کے بہت سے اجتماعی فائدے ہیں- مثلاً موجودہ زمانے میں اقوامِ متحدہ کے عالمی پلیٹ فارم کی بنا پر تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ دنیا کے تمام ملکوں نے باقاعدہ طورپر اور سرکاری طور پر یہ تسلیم کرلیا کہ ان کے شہریوں کو مکمل معنوں میں مذہبی آزادی حاصل ہوگی- آزادی کے اِس حق کے ذریعے موجودہ زمانے میں کام کے ایسے مواقع (opportunities)کے دروازے کھل گئے ہیں جو اِس سے پہلے پوری تاریخ میں انسان کے اوپر یکسر بند پڑے ہوئے تھے-اقوامِ متحدہ کے ذریعے حاصل ہونے والے انسانی حقوق بلاشبہہ ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتے ہیں- اِس نعمت سے بے خبر صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنی قومی خواہشوں میں جیتے ہوں اور اُس کو خود ساختہ طور پر معیار کا درجہ دئے ہوئے ہوں-
خلاصہ کلام
موجودہ زمانے میں دنیا کے نظام میں جو دور رس تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، وہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے لائے جانے والے انقلاب کا منتہا (culmination) ہیں- ساتویں صدی عیسوی میں رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے عرب اور اطراف عرب میں جو انقلاب آیا، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک تاریخی انفجار (historical explosion) کے ہم معنی تھا-
یہ اللہ کا ایک منصوبہ تھا جس کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) شروع ہوا- یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بیسویں صدی عیسوی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا- اِس انقلاب کا مقصد دنیا میں کوئی معیاری نظام (ideal system) قائم کرنا نہ تھا، بلکہ یہ تھا کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، انسان کی آزادی کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوئے دنیا میں ایسا ماحول قائم کیا جائے جس میں اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ہر انسان کے لیے ہوجائے-
اِسی کے ساتھ دینی نقطۂ نظر سے یہ مطلوب تھا کہ اہلِ ایمان کے لیے ایک طرف یہ ممکن ہوجائے کہ وہ کھلے طورپر اعلی معرفت کے درجات طے کرسکیں اور اِسی کے ساتھ اُن کو اِس بات کی کامل آزادی حاصل ہو کہ وہ دعوت الی اللہ کے پر امن کام کو آخری حد تک انجام دے سکیں-
یہ تمام مطلوب فائدے موجودہ زمانے میں کامل طورپر حاصل ہوگئے ہیں- اب انسان کے اوپر حصولِ معرفت کے بھی تمام دروازے کھل چکےہیں اوردعوتی عمل کے تمام مواقع بھی- یہ کام اتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے کہ یہ کہنا کسی مبالغے کے بغیر درست ہے کہ — دورِ جدید اسلام کا دور ہے- اکیسویں صدی میں قرآن کی وہ پیشین گوئی آخری حد تک پوری ہو چکی ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی تھی: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (48:28) یعنی اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اُس کو تمام دینوں پر غالب کردے، اور اللہ کافی گواہ ہے-
قرآن کی اِس آیت میں وقتی اعتبار سے کسی سیاسی واقعے کا ذکر نہیں ہے، اِس میں اللہ کے ایک تاریخی منصوبے کا ذکر ہے جس کو ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہونا تھا اور پھر لمبے عمل کے بعد اپنی تکمیل تک پہنچنا تھا- بیسویں صدی عیسوی میں یہ خدائی منصوبہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا- اب اہلِ ایمان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اِن عالمی مواقع کو جانیں اور ان کو بھر پور طورپر استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں

شتمِ رسول کا مسئلہ

قرآن، اسلام کی سب سے زیادہ مستند کتاب (source book) ہے- قرآن میں کچھ ایسے جرائم کا ذکر ہے جو قرآن کے نزدیک، قابلِ سزا جرم (punishable crime) کی حیثیت رکھتے ہیں- قرآن میں جہاں اِس قسم کے جرائم کا ذکر ہے، وہیں واضح الفاظ میں ان کی سزا کا بھی ذکر ہے-
اِس کی ایک مثال وہ جرم ہے جس کو اسلام میں ’قذَف‘ کہاجاتاہے- اِس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیت یہ ہے: والذین یرمون المحصنات ثم لم یأتوا بأربعة شہداء فاجلدواہم ثمانین جلدة (24:4) یعنی جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر وہ چار گواہ نہ لائیں، تو اُن کو اسّی کوڑے مارو-
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پاک دامن عورت کی عصمت پر کوئی شخص بے ثبوت الزام لگائے تو وہ قرآن کی نظر میں ایک ایسا مجرم بن جاتا ہے جس کو عدالتی کارروائی کے بعد جسمانی سزا (physical punishment)دی جائے- اِس معاملے میں قرآن نے جب جرم کا ذکر کیا تو اُسی وقت اس کی متعین سزا کا بھی ذکر کردیا-
اب دوسرے پہلو سے غور کیجئے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے زمانوں میں اللہ تعالی نے ہر قوم اور ہر بستی میں لگاتار پیغمبر بھیجے(23:44)- قرآن مزید یہ بتاتا ہے کہ اِن تمام پیغمبروں کے ساتھ اُن کے معاصرین نے وہی منفی روش شدیدتر انداز میں اختیار کی جس کا ذکر قرآن کی مذکورہ آیت میں پاک دامن خواتین کی نسبت سے کیاگیا ہے- مثلاً قرآن میں فرمایا کہ: یا حسرةً على العباد، ما یأتیہم من رسول إلا کانوا بہ یستہزؤن (36:30) یعنی بندوں پر افسوس ہے، جو رسول بھی ان کے پاس آیا، وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے-
قرآن میں دوسو سے زیادہ ایسی آیتیں ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبروں کے معاصرین نے مسلسل طورپر وہی فعل کیا جس کو آج کل ’’اہانتِ رسول‘‘ کہاجاتا ہے- کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو کذاب (40: 24) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو مجنون (15:6) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو مفتری (16:101) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو سفیہ (7:66) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کا استہزا کیا(36:30)، وغیرہ- قرآن میں کثرت سے اِس قسم کے توہین آمیز کلمات کا ذکر ہے، لیکن قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ ایسے لوگوں کو کوڑے مارو یا ان کو قتل کردو، قرآن میں ایسی کسی سزا کا مطلق ذکر موجود نہیں-
اِس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کی توہین سزا کا موضوع نہیں ہے، بلکہ وہ دعوت کا موضوع ہے، یعنی جو شخص ’’توہینِ رسالت‘‘ کا ارتکاب کرے، اس کو جسمانی سزا نہیں دی جائے گی، بلکہ دلیل کی زبان میں اس سے ایسی بات کہی جائے گی جس سے اس کا ذہن ایڈریس ہو- دوسرے لفظوں میں یہ کہ ’’توہینِ رسالت‘‘ کا ارتکاب کرنے والوں کو دلیل کی زبان میں خطاب کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی، نہ کہ اُن کو قتل کرنا یاکوڑے مارنا-
اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: أولئک الذین یعلم اللہ ما فی قلوبہم، فأعرض عنہم، وعظہم، وقل لہم فی أنفسہم قولاً بلیغاً (4:63) یعنی اُن کے دلوں میں جوکچھ ہے، اللہ اُس سے خوب واقف ہے-پس تم ان سے اعراض کرو اور ان کو نصیحت کرواور ان سے ایسی بات کہو جو اُن کے دلوں میں اتر جائے-
اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے خلاف جو لوگ منفی روش اختیار کرتے ہیں، اُن کو سزا دینا اللہ کا کام ہے، جو اُن کے دلوں کے حال کو جانتا ہے- تمھاری ذمے داری یہ ہے کہ تم اُن کی ایذا رسانی کو نظر انداز کرتےہوئے ان سے دردمندانہ نصیحت کا معاملہ کرو، تم ان کو ایسے موثر انداز میں نصیحت کرو جو اُن کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو-
اِس معاملے کی ایک مثال قرآن کی سورہ الغاشیہ ہے- اس کی متعلق آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ’’کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا، اور زمین کو کہ وہ کس طرح بچھائی گئی- پس تم یاددہانی کرو، تم صرف یاد دہانی کرنے والے ہو، تم اُن پر داروغہ نہیں- مگر جس نے روگردانی کی اور انکار کیا، تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا- ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے، پھر ہمارے ذمے ہے ان کا حساب لینا‘‘- (88: 17-26)-
قرآن کی اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا وہ اسلوب کیا ہے جس کی تلقین پیغمبر کو کی گئی تھی- وہ اسلوب یہ ہے کہ لوگوں کو دلائل کے ذریعے خطاب کیا جائے- دین کی صداقت پر ان کو عقلی طورپر مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے- مخاطَب کے منفی رد عمل کے باوجود دعوت کا یہی مثبت اسلوب آخر وقت تک جاری رہے گا- داعی کا یہ کام نہیں کہ وہ ان کے اوپر داروغہ بن کر ان کو سزا دینے لگے- اس کے بعد جہاں تک سزا وجزا کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ سے ہے- قیامت میں اللہ ہر ایک کو اکھٹا کرے گا اور پھر ہر ایک کے عمل کے مطابق، اس کے لیے جزا یا سزا کا فیصلہ فرمائے گا-
اِس معاملے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جو شخص رسول کے خلاف سب وشتم کرے، اس کو ایسا کرنے سے روکو اور اگر وہ نہ رکے تو اس کو سخت سزا دو- اِس کے برعکس، قرآن میں اہلِ ایمان کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ تم فریقِ ثانی کے خلاف سب وشتم نہ کرو- اِس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیت یہ ہے: ولاتسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدواً بغیر علم (6:108) یعنی اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، تم ان کو سب وشتم نہ کرو، ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو سب وشتم کرنے لگیں گے-
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کا یہ کام نہیں کہ وہ میڈیا واچ (media watch) قائم کرکے ایسے لوگوں کی تلاش کریں جس نے ان کے خیال کے مطابق، سب وشتم کا فعل کیا ہے اور پھر اس کو ہر قیمت پر قتل ڈالیں- اِس کے برعکس، قرآن یہ تعلیم دیتا ہے کہ اہلِ ایمان آخری حد تک ایسی کسی روش سے بچیں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ لوگ مشتعل ہوجائیں اور وہ دین ِ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف سب وشتم جیسا معاملہ کریں- گویا کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق، اِس معاملے کی ذمے داری خود اہلِ ایمان کو اپنے اوپر لینا ہے، نہ کہ اس کو دوسروں کے اوپر ڈال کر ان کی سزا کا مطالبہ کرنا-
اِس اعتبار سے دیکھئے تو موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی روش قرآن کی تعلیم کے عین خلاف ہے- مسلمان یہ کررہے ہیں کہ جب بھی کوئی شخص اُن کے خیال کے مطابق، تقریر یا تحریر کے ذریعے ’’اہانتِ رسول‘‘ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ فوراً مشتعل ہو کر اس کے خلاف جلوس نکالتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ— اُن تمام لوگوں کی گردن ماردو جو پیغمبر کی توہین کرتے ہیں:
Behead all those who insult the Prophet.
جو لوگ اِس قسم کے اشتعال انگیز جلوس نکالتے ہیں اور مفروضہ ’’مرتکبینِ اہانت‘‘ کے قتل کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ خود سب سے بڑی اہانت کا ارتکاب کرتےرہے ہیں- اُن کی اِن متشددانہ کارروائیوں کا یہ سنگین نتیجہ ہوا ہے کہ آج کا انسان یہ یقین کرنے لگا ہے کہ اسلام تہذیب سے پہلے کا دین ہے- اسلام انسان کی آزادانہ سوچ پر پابندی لگاتا ہے، اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو فکری جرم (thought-crime) میں یقین رکھتاہے، اسلام تشدد کا مذہب ہے، وغیرہ— موجودہ زمانے میں اسلام کی اِس منفی تصویر (negative image) کے ذمے دار تمام تر خود مسلمان ہیں، اور اس طرح اسلام کی تصویر بگاڑنا بلاشبہ تمام جرائم میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتاہے-(2012)
واپس اوپر جائیں

نتیجے کا فقدان

گوٹن برگ کو پرنٹنگ ٹکنالوجی کا موجد سمجھا جاتا ہے- وہ 1398 میں جرمنی میں پیدا ہوا، اور1468 میں اس کا انتقال ہوا- اس کی ایجاد نے تاریخ میں پہلی بار طباعتی انقلاب پیدا کیا:
Johannes Gutenberg was a German gloldsmith who invented the mechanical movable type printing machine that sparked the printing Revolution.
نپولین (Napoleon) نے 1798 میں مصر پر حملہ کیا- وہ اپنے ساتھ پرنٹنگ پریس بھی مصر لے گیا تھا- اِس کے بعد مسلم دنیا میں طباعت کا طریقہ رائج ہونے لگا- انیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک ساری مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس کا طریقہ عام ہوچکا تھا- دورِ طباعت سے پہلے قرآن ہاتھ سے لکھاجاتا تھا- اُس وقت حافظِ قرآن زیادہ ہوتے تھے اور کتابت شدہ قرآن کے نسخے بہت کم ہوا کرتے تھے- طباعتی دور میں اِس کے برعکس، قرآن کے مطبوعہ نسخے بہت عام ہوگئے، اِ س کے بعد درسِ قرآن اور مطالعہ قرآن کا رواج بہت بڑھ گیا- بیسویں صدی کے آغاز میں یہ حال ہوا کہ مسلم دنیا میں کوئی گھر، کوئی مدرسہ، کوئی ادارہ ایسا نہ رہا جہاں قرآن کا چرچا نہ ہورہا ہو- رشید رضا مصری (وفات: 1935) کی ناتمام عربی تفسیر المنار، سید قطب (وفات: 1966) کی عربی تفسیر فی ظلال القرآن، عبداللہ یوسف علی (وفات: 1953) کی انگریزی تفسیر ، سید ابو الاعلی مودودی (وفات: 1979) کی اردو تفسیر تفہیم القرآن، وغیرہ اِس کی مثالیں ہیں-
اِس طرح کے ترجمے اور تفسیریں مختلف زبانوں میں چھپ کر شائع ہوئیں- لاکھوں کی تعداد میں قرآنی مطبوعات مختلف زبانوں میں چھپ کر ہرجگہ پھیل رہی ہیں- اِن تمام کوششوں کا واحد نشانہ یہ تھاکہ قرآنی ذہن رکھنے والے افراد پیدا ہوں، لیکن راقم الحروف کی معلومات کے مطابق، مطلوب قرآنی افراد کا کہیں وجود نہیں- اپنے اِسی طرح کے ایک تجربے کو میں نے اپنے ایک مضمون میں اِس عنوان کے تحت شائع کیا تھا — بھیڑ کے درمیان سناٹا-
نتیجہ (result) کے اِس فقدان کا سبب کیا ہے- کیا وجہ ہے کہ یہ تمام قرآنی سرگرمیاں حضرت عائشہ کے اِس قول کا مصداق بن رہی ہیں: أولئک قرؤا ولم یقرؤا (انھوں نے قرآن کو پڑھا، مگر انھوں نے قرآن کو نہیں پڑھا)- اِس معاملے کی مزید توضیح ایک حدیث رسول سے ہوتی ہے- جبیر بن نفیر سے منقول ہے کہ عوف بن مالک الاشجعی کہتے ہیں کہ ایک روز ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے- آپ نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا: ’’وہ وقت آنے والا ہے جب کہ علم اٹھا لیا جائے گا‘‘- انصارمیں سے ایک شخص زیادہ بن لبید نے کہا: اے خدا کے رسول، کیا علم ہم سے اٹھا لیا جائے گا، حالاں کہ ہمارے درمیان خدا کی کتاب ہے اور ہم اپنے بچوں ا ور عورتوں کو اس کی تعلیم دے رہے ہیں- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو مدینہ کا سمجھ دار آدمی سمجھتا تھا- یہود ونصاری کیا تورات وانجیل نہیں پڑھتے، پھر بھی اس کی باتوں پر اُن کا عمل نہیں ہے- جبیربن نفیر کی ملاقات شداد بن اوس سے ہوئی- انھوںنے اُن کو یہ حدیث سنائی- انھوں نے کہا کہ عوف نے سچ کہا- پھر شداد نے کہا: جانتے ہو، علم کا اٹھ جانا کیا ہے- انھوںنے کہا کہ نہیں- شداد نے کہا: اس کے برتن کا چلا جانا (ذہاب أوعیتہ)-
اِس حدیث میں یہ الفاظ بہت بامعنی ہیں کہ — علم اٹھا لیا جائے گا- یہاں علم سے مراد انطباق (application) کا علم ہے- یعنی قرآن کو اپنے حالات پر منطبق کئے بغیر مجرد انداز میں پڑھنا- موجودہ زمانے میں جو واقعہ پیش آیا ، وہ یہی تھا- قرآن کو لوگ غیر انطباقی انداز (non-applied way) میں پڑھنے لگے، وہ قرآن کو انطباقی انداز (applied way) میں نہ پڑھ سکے- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کو پڑھنے کے باوجود ان کا ذہن ایڈریس نہ ہوسکا- اِس قسم کا درسِ قرآن یا مطالعہ قرآن آدمی کو خوش عقیدگی تو دے سکتا ہے، لیکن اُس سے مطلوب قرآنی افراد پیدا نہیں ہوسکتے- مذکورہ روایت میں برتن (أوعیة) سے مراد یہ صلاحیت ہے کہ آدمی اپنے حالات کے اعتبار سے قرآن کا انطباق دریافت کرسکے-
اِس معاملے کی ایک مثال قرآن کی ایک آیت ہے جو اُس وقت نازل ہوئی جب کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈے کیے جارہے تھے- وہ آیت یہ تھی: ورفعنا لک ذکرک (94:4) یعنی اِس پروپیگنڈے نے لوگوں کے درمیان پیغمبرانہ مشن کا چرچا بہت زیادہ بڑھا دیا ہے- لوگوں کے اندر فطری طورپر آپ کے مشن کے بارے میں تجسس (curiosity)پیدا ہوگیا ہے- اِس طرح مخالفانہ پروپیگنڈے نے آپ کے لیے دعوت کا ایک مزید موقع (opportunity)پیدا کردیاہے- آپ لوگوں کے درمیان ایک متعارف شخصیت بن گئے، لوگ آپ کے مشن کے بارے میں سوال کرنے لگے، لوگوں کے اندر بڑے پیمانے پر یہ ذہن پیدا ہوا کہ پیغمبر کا مشن کیا ہے-
مسلمانوں کو عام طور پر قرآن کی مذکورہ سورہ (الانشر اح) یاد ہے- نمازوں میں عام طورپر اِس سورہ کی تلاوت کی جاتی ہے- لیکن موجودہ زمانے کے مسلمان اِ س سورہ کا عصری انطباق دریافت نہ کرسکے- یہ عصری انطباق کیا ہے، وہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بڑے پیمانے پر پیغمبر کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے اُس واقعے کو دہرایا گیا جو دورِ اول میں پیش آیا تھا- منفی پروپیگنڈے سے ہماری مراد وہی چیز ہے جس کو عام طورپر ’’رسول کی شان میں گستاخی‘‘ کہاجاتا ہے- ’’گستاخی‘‘ کا یہ واقعہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے، تعارف یا پبلسٹی (publicity) کے ہم معنی تھا- اس نے بڑے پیمانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن کے بارے میں تجسس کا ذہن پیدا کردیا تھا، مگر دورِ جدید کے مسلمان اصولِ انطباق سے ناواقفیت کی بنا پر اِس واقعے کو مثبت معنوں میں نہ لے سکے- وہ صرف اس کو منفی معنوںمیں لے کر اس کے خلاف غوغائی تحریکیں چلانے لگے-
یہاں اس کی چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں— ستمبر 1988 میں سلمان رشدی کی کتاب (The Satanic Verses) کےخلاف ہنگامہ، ستمبر 2005 میں ڈنمارک کے اخبار میں شائع شدہ کارٹون کے خلاف ہنگامہ، جولائی 2010 میںامریکا کے پادری ٹیری جونس کے خلاف ہنگامہ ، ستمبر 2012 میں ’’انوسینس آف مسلمس‘ (Innocence of Muslims)کے نام سے امریکا میں بننے والی فلم کے خلاف ہنگامہ، وغیرہ-
اِس سلسلے میں سی پی ایس انٹرنیشنل(نئی دہلی) کا تجربہ قابلِ نقل ہے- پچھلے برسوں میں جب مذکورہ حالات پیداہوئے تو سی پی ایس کے لوگوں نے برسوں کی محنت کے بعد انگریزی زبان میں قرآن کا ایک ایسا ترجمہ تیار کیا جو وقت کے اسلوب میں ہو اور بہ آسانی قابلِ فہم (easily understandable) ہو- پھر اس ترجمے کو خوب صورت انداز میں چھاپ کرانھوں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں وہاں کے غیر مسلموں کے درمیان بڑے پیمانے پر تقسیم کرنا شروع کردیا- یہ کام نہایت منظم انداز میں 2008 سے جاری ہے- سی پی ایس کے افراد کا مشترک تجربہ یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی غیر مسلم کو قرآن کا انگریزی ترجمہ یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ — سر،یہ آپ کے لیے اسپریچول گفٹ ہے (Sir, this is a spiritual gift for you!) تو وہ بہت شوق سے اُس کو اِس طرح لیتا ہے جیسے کہ وہ بہت پہلے سے قرآن کا انتظار کررہا تھا-
یہ قرآن کے انطباقِ نو (reapplication)کی ایک مثال ہے- اِس طرح کے انطباقِ نو کے مواقع موجودہ زمانے میں کثرت سے موجود ہیں، مگر مذکورہ روایت کے الفاظ میں، ’’أوعیة‘‘ کی غیرموجودگی کی بنا پر ان کا استعمال ممکن نہ ہوسکا- حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا مشن دعوت الی اللہ ہے- وہ چیز جس کو مخالفانہ پروپیگنڈہ کہاجاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، دعوت کے لیے نئے مواقع پیداہونے کے ہم معنی ہے- اگر صحیح شعور زندہ ہو تو مسلمان ایسے ہر موقع کو غوغائی تحریک کے بجائے دعوتی مقصد کے لیے استعمال کریں- اِس طرح وہ منفی واقعات کو مثبت نتیجے کی صورت دینے میں کامیاب ہوجائیں گے- یہی وہ اعلی بصیرت ہے جس کو قرآن میں حکمت اور حدیث میں فراستِ مومن کے الفاظ سے تعبیر کیاگیا ہے-
واپس اوپر جائیں

اختلافِ رائے

ایک بار میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی- میں نے پوچھا کہ اہلِ مغرب کی ترقی کا راز کیا ہے- انھوں نے جواب دیا — اختلافِ رائے (dissent) کو انسان کا مقدس حق قرار دینا- یہ بلاشبہہ ایک درست بات ہے-
لیکن وہ مغربی فکر کی بات نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے- اِس قانون کو ایک حدیث ِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اختلاف أمتی رحمة-
اختلافِ رائے کا اظہار ہمیشہ تنقید (criticism)کی صورت میں ہوتا ہے- مگر تنقید خواہ وہ کسی شخص کے حوالے سے کی گئی ہو، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے مطالعے کی ایک صورت ہوتی ہے- تنقید کا اصل مقصد کسی موضوع پر کھلے تبادلہ خیال (open discussion) کا آغاز کرنا ہوتا ہے- تنقید کا مقصد یہ ہے کہ مختلف ذہن (mind)دیانت دارانہ طورپر (honestly)اپنے نتیجۂ تحقیق کو بتائیں اور پھر دوسرے لوگ دیانت داری کے ساتھ اُس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں- اِس طرح کا آزادانہ تبادلہ خیال ذہنی ارتقا (intellectual development) کا لازمی تقاضا ہے-
علم اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک لامحدود موضوع ہے- یہ بات مذہبی موضوع پر بھی اُسی طرح صادق آتی ہے جس طرح سیکولر موضوع پر- اختلافِ رائے بلاشبہہ ایک رحمت ہے- اختلافِ رائے ہر حال میں مفید ہے- اِس معاملے میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اختلاف کرنے والا مسلّمہ دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرے، وہ الزام تراشی کا طریقہ اختیار نہ کرے-
اختلافِ رائے کے فائدے بے شمار ہیں- اِس سے مسئلہ زیر بحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں- اِس سے تخلیقی فکر (creative thinking) میں اضافہ ہوتا ہے- اِس کے ذریعے لوگوں کو موقع ملتاہے کہ وہ دوسرے کے نتیجہ فکر سے فائدہ اٹھائیں- اِس سے مسئلہ زیر بحث کے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں، وغیرہ-
واپس اوپر جائیں

موت کا پیغام

معروف ہندستانی صحافی خشونت سنگھ 20 مارچ 2014 کو نئی دہلی میں انتقال کرگئے- بہ وقت انتقال ان کی عمر 99 سال تھی- دنیوی اعتبار سے وہ ایک کامیاب انسان تھے- شہرت، دولت، پوزیشن، اعزاز ہر چیز انھیں حاصل تھی- وہ ایک بہت بڑے مکان میں رہتے تھے- لیکن انتقال کے وقت سب کچھ اُن سے چھوٹ گیا- دوسرے انسانوں کی طرح وہ بھی اپنی بڑائی (greatness) کا کوئی حصہ اپنے ساتھ نہیں لے گئے-
یہی ہر انسان کی کہانی ہے- موت اُس حقیقت کو یاد دلاتی ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ولقد جئتمونا فرادی کما خلقناکم أول مرّة، وترکتم ما خوّلناکم وراء ظہورکم (6:94) یعنی تم ہمارے پاس اکیلے آگئے جیسا کہ ہم نے تم کو پہلی بار پیداکیا تھا، اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا، وہ سب کچھ تم اپنے پیچھے چھوڑ آئے-
قدیم مصر کے بادشاہ فرعون نے کہا تھا : أنا ربکم الأعلى (79:24) یعنی میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں- شعوری یا غیر شعوری طورپر ہر آدمی اِس احساس میں جیتا ہے- ہر آدمی کسی نہ کسی بڑائی کو اپنی بڑائی سمجھتا ہے- موت اِس احساس کی نفی کرتی ہے- موت یہ بتاتی ہے کہ انسان کے پاس جو بڑائی ہے، وہ اس کے وجود کا حصہ نہیں، انسان کی ہر بڑائی ایک خارجی بڑائی ہے- موت اسی حقیقت کی عملی یاد دہانی ہے- سب سے بڑی حقیقت جو انسان کو جاننا چاہیے، وہ یہ کہ اللہ کی بڑائی اس کے اپنے وجود کا حصہ ہے، وہ کبھی اس کے وجو د سے جدا ہونے والی نہیں- اِس کے برعکس، انسان کی بڑائی اس کے وجود کا حصہ نہیں-
موت سے پہلے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی بڑائی خود اس کے وجود کا حصہ ہے، لیکن موت آتے ہی دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں- اب انسان الگ رہتا ہے اور اس کی بڑائی الگ- انسان دنیا سے آخرت کی طرف اِس طرح سفر کرتا ہے کہ اُس کا سب کچھ ہمیشہ کے لیے اِسی دنیا میں چھوٹ جاتاہے-
واپس اوپر جائیں