Pages

Saturday 1 April 2006

Al Risala | April 2006 (الرسالہ،اپریل)

2

- تصوّف اور صوفی ازم

7

- عورت اور مرد کا فرق

10

- نان وائلنس (عدم تشدد)

14

- دولت اور خوشی

15

- صحیح تدبیر

18

- اسلام کا میکانائزیشن

19

- عادت کو چھوڑنا

20

- سچائی کی طرف

21

- نیے سال کے لیے مسلم ایجنڈا

25

- ایک خط

32

- ایک خط اور اس کا جواب

37

- ایک خط

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۴


تصوّف اور صوفی ازم

چند سال پہلے امریکاکے ایک سفر میں مجھے ایک صوفی سنٹر کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ نیویارک کے آؤٹ اسکرٹ میں واقع تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کے اندر دیوار پر ایک مسلم صوفی کی بڑی تصویر لگی ہوئی ہے اور ریکارڈنگ کے ذریعے کچھ صوفی گیت نشر ہورہے ہیں۔ یہ گیت تامل زبان میںتھے۔ لیکن وہ اتنی پُر سوز اور سریلی آواز میں تھے کہ وزٹر تامل زبان کو نہ جانتے ہوئے بھی محو ہوکر اس کو سننے لگتا تھا۔
معلوم ہوا کہ امریکا کے کچھ سفید فام سیّاح سری لنکا گیے۔ وہاں سیاحت کے دوران انھوں نے ایک جنگل میں دیکھا کہ ایک نابینا صوفی تامل زبان میں روحانی گیت گار ہا ہے۔ یہ امریکی سیّاح اگر چہ تامل زبان نہیں جانتے تھے مگر گانے والے کے پُر سوز لہجے نے ان کو متاثر کیا۔ وہ اس نابینا صوفی کو اپنے ساتھ امریکا لے آئے، اور صوفی سنٹر قائم کرکے اس کو یہاں رکھا۔ یہ سنٹر اب مستقل طورپر صوفیانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سری لنکا کے یہ صوفی اگر چہ اب مرچکے ہیں لیکن یہاں کے سنٹر میں دیوار پر لگی ہوئی مذکورہ مسلم صوفی کی بڑی تصویر آنے والوں کو اب بھی شدت کے ساتھ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ان کے ریکارڈ کیے ہوئے پُر اثر گیت یہاں کی فضا میں ہرروز گونجتے رہتے ہیں۔
اس طرح کے تجربات مجھے اپنے بیرونی سفروںمیں بار بار پیش آئے ہیں۔ اس سے میں نے اندازہ کیا ہے کہ صوفی ازم کے اندر ایک عالمی اپیل ہے۔ وہ ہر جگہ اور ہر زمانے کے لوگوں کو گہرائی کے ساتھ متاثر کرتا ہے۔ صوفی ازم یا صوفی کلچر انسان کی گہری نفسیات کو چھوتا ہے۔ یہی وجہ ہے جس نے صوفی کلچر کو ایک عالمی حیثیت دے دی ۔
صوفی ازم کی ابتدا اسلام کے ظہور کے سو سال بعد، دَور اقتدار میں ہوئی۔ اس وقت لوگ بڑی تعداد میں سیاسی اور مادّی چیزوں میں مشغول ہوگیے تھے۔ ان حالات میں مسلم صوفیوں نے یہ کوشش کی کہ لوگوں کے اندر روحانی اور انسانی قدروں کو جگایا جائے۔ چنانچہ انھوں نے یہ کیا کہ سیاسی دائرے سے باہر اپنی خانقاہیں بنائیں اور ان میں ذکر اور مراقبے وغیرہ کے ذریعے لوگوں کے اندر روحانیت کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔
صوفی ازم کی تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفی ازم آٹھویں صدی عیسوی میں اُس وقت پیدا ہوا جب کہ مسلمانوں کو زمین کے بڑے حصے پر اقتدار حاصل ہوگیا۔ اور لوگ بڑی تعداد میںسیاسی اور مادّی چیزوں میںمشغول ہوگیے۔ اس وقت مسلم صوفیوں نے سیاست سے الگ رہ کر یہ کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کے اندر از سرِ نو روحانی بیداری لائیں اور انسانی قدروں کو لوگوں کے اندر پھیلائیں۔
ابتدائی دور کے صوفیوں میں سب سے زیادہ مشہور نام حسن البصری (۷۲۸۔۶۴۲) کا ہے۔ اُس زمانے میں صوفی ازم ایک سادہ ڈسپلن کا نام تھا۔ یہ لوگ صرف یہ کرتے تھے کہ سیاسی اور مادّی سرگرمیوں کے مقابلے میں عبادت اور ذکر جیسی چیزوں کی اہمیت بتاتے تھے۔ وہ لوگوں کو دنیا کی جنت کے مقابلے میں آخرت کی جنت کی طرف متوجہ کرتے تھے۔ وہ کوشش کرتے تھے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ عبادت الٰہی میںمشغول رہیں۔
دھیرے دھیرے صوفی ازم میں دوسرے طریقے شامل ہونے لگے۔ یہ نیے طریقے، مسلم صوفیوں نے ایران کی قدیم روایات سے لیے۔ جیسا کہ معلوم ہے، اسلام سے پہلے ایران میں مراقبے کے کچھ طریقے رائج تھے ۔ مگر اس زمانے میں صوفی ازم کو ایک باقاعدہ منظم قسم کے ادارے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔
اس کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں (۱۵۵۶۔۱۵۰۸)کے زمانے میں ایران کے علماء اور صوفیاء بڑی تعداد میں، غیر منقسم ہندستان میںداخل ہوئے۔ یہاں انھوں نے جگہ جگہ خانقاہیں قائم کیں۔ اس طرح اُن کا اختلاط ہندستان کے ہندو جوگیوں اور گروؤں سے ہوا۔ اس اختلاط کے دَوران یہ واقعہ پیش آیا کہ ہندو پیشوا مسلم صوفیوں سے متاثر ہوئے اور مسلم صوفی ہندو پیشوا سے متاثر ہوئے۔
اس اختلاط کے دَوران صوفی ازم کا ایک نیا اڈیشن تیار ہوا۔ اس اڈیشن میںکئی ایسی چیزیں مسلم صوفی ازم میں شامل ہوگئیں جو ہندوؤں کے یہاں عرصے سے رائج تھیں، مگر وہ مسلم صوفی ازم میں پہلے نہیں پائی جاتی تھیں۔ مثلاً ہندوؤں کے بھجن کی جگہ قوّالی وغیرہ۔
صوفی ازم ہمیشہ سے روحانی اور اخلاقی قدروں پر زور دیتا رہا ہے۔ مثلاً انسانوں سے محبت، یا انسانوں کے درمیان پُر امن طورپر رہنا، جس کو صوفی لوگ اپنے الفاظ میں صلح کُل (peace with all) سے تعبیر کرتے تھے۔ ایک صوفی شاعر نے اپنے ایک فارسی شعر میں صوفی مذہب کو اس طرح بیان کیا:
ما قصۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس:
We don’t know the stories of kings and generals. We know only the stories of love and compassion.
قرآن میں روحانیت کے لیے ربّانیت کا لفظ آیا ہے (آل عمران: ۷۹) ۔ دوسری جگہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے (الرعد: ۲۹)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک آدمی خدا کی معرفت حاصل کرتا ہے تو یہ معرفت اس کے لیے برتر سچائی کے حصول کے ہم معنی بن جاتی ہے۔ وہ ہر دوسری چیز سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ محدود دنیا سے نکل کر لامحدود دنیا میں جینے لگتا ہے۔ وہ نفسیاتی طورپر ایک ایسے عالم میں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ ابدی سکون کا تجربہ کر سکے۔ اسلامی تصوف کا مقصد انسان کو اسی برتر دنیا میں پہنچانا ہے۔
خواجہ فرید الدین گنج شکر (۱۲۶۵۔۱۱۷۵)ہندستان کے مشہور صوفی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار کسی شہر سے ان کا ایک مرید ان سے ملنے کے لیے آیا۔ وہ اپنے ساتھ تحفے کے طور پر قینچی لایا تھا۔ اس کے شہر میں قینچی بنتی تھی۔ اس لیے اس نے شیخ کے لیے قینچی کا انتخاب کیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جب میں شیخ کے سامنے اپنے شہر کا یہ خصوصی تحفہ پیش کروں گا تو وہ خوش ہو ں گے اور مجھے دعائیں دیںگے۔ مگر جب اس نے شیخ کے سامنے قینچی پیش کی تو انھوں نے اس کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو ہمارے کام کی چیز نہیں۔ ہمارا کام کاٹنا نہیں، ہمارا کام تو جوڑنا ہے۔ اور یہ کام قینچی کے ذریعے نہیں ہوتا۔ تم کو اگر تحفہ لانا تھا تو ہمارے لیے سوئی لے آتے۔ کیوں کہ سوئی سینے اور جوڑنے کی چیز ہے۔ اور قینچی کاٹنے اور پھاڑنے کی چیز۔
خواجہ فرید الدین گنج شکر کے خلیفہ خواجہ نظام الدین اولیا ء (۱۳۲۵۔۱۲۳۸)تھے۔ وہ دہلی سلطنت کے زمانے کے مشہور صوفی تھے۔ ان کی کتاب ’’فوائد الفوائد‘‘ بہت زیادہ مشہور ہے اور تصوف کے لٹریچر میں اس کی حیثیت مرجع کی سمجھی جاتی ہے۔ انھوںنے اپنی ایک مجلس میں فرمایا کہ عام لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھے کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھے کے ساتھ ٹیڑھا۔ لیکن ہمارے بزرگوں کا یہ کہنا ہے کہ سیدھوں کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھوں کے ساتھ بھی سیدھا۔ اگرکوئی شخص ہمارے سامنے کانٹا ڈالے اور ہم بھی کانٹا ڈالیں تو کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے۔ اگر کسی نے کانٹا ڈالا ہے تو تم اس کے سامنے پھول ڈالو۔ پھر پھول ہی پھول ہوجائیں گے۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں صوفی ازم کو ایک نئی اہمیت حاصل ہوگئی۔ صنعتی تہذیب کے ذریعے اس زمانے میں بڑے پیمانے پر مادّی ترقیاں ہوئیں، مگر اس کے ساتھ صنعتی کلچر ایک پرابلم بھی لے آیا۔ یہ پرابلم وہی ہے جس کو ٹنشن یا اسٹریس کہاجاتا ہے۔ صنعتی تہذیب نے انسان کی دوڑ دھوپ کا دائرہ بہت زیادہ بڑھا دیا۔ ٹنشن یا اسٹریس اسی کا نتیجہ ہے۔
قدیم زرعی دَور میںزندگی کا دائرہ بہت محدود تھا۔ انسان جسمانی اعتبار سے محدود صلاحیت کا مالک ہے۔ زرعی دور میں انسان کی دوڑ دھوپ بھی محدود دائرے میں ہوتی تھی، اس لیے دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا تھا۔ گویا کہ اس زمانے میں انسانی صلاحیت بھی محدود تھی اور خارجی دنیا میںاس کے مواقع عمل بھی محدود تھے۔ اس لیے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی پر مطمئن رہتے تھے۔ وہ ٹنشن اور اسٹریس کا شکار نہیں ہوتے تھے۔
مگر جدید صنعتی دو رمیں مواقعِ کار بہت زیادہ بڑھ گیے ہیں۔ انسان اب بھی محدود پیدا ہورہا تھا مگر اس کو غیر محدود مواقع میں اپنا رول ادا کرنا تھا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے موجودہ زمانے میں ذہنی تناؤ یا اسٹریس کے مسائل پیدا کیے ہیں۔ پہلے زمانے کا انسان ہر چیز کو اپنے دائرۂ اختیار کے اندر سمجھتا تھا۔ اب گلوبل ولیج اور ورلڈ کلچر کے نتیجے میں ایسا ہوا کہ انسان بار بار یہ محسوس کرنے لگا کہ حالات کا دائرہ اتنا زیادہ وسیع ہوچکا ہے کہ اس کو اپنے کنٹرول میں رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں۔
اس صورت حال نے موجودہ زمانے میں ایک نیا پروفیشن پیدا کیا ہے، جس کو ڈی اسٹریسنگ کہا جاتا ہے۔ یعنی ٹنشن یا اسٹریس والی سوچ کو مخصوص تکنیک کے ذریعے دبانا اور کم ازکم وقتی طورپر انسانی ذہن کو ٹنشن فری بنانا۔ اس معاملے میں ہندو میڈیٹیشن کا طریقہ جدید دنیا میں کافی مقبول ہوا ہے۔ چنانچہ ۲۰۰۵ کا نوبل پیس پرائز انڈیا کے شری شری روی شنکر کو دیاگیا ہے جو اپنے آرٹ آف لونگ کے لیے مشہور ہیں۔ (ٹائمز آف انڈیا، نئی دہلی، ۲۵ ستمبر ۲۰۰۵)
جدید دور کے صوفی بھی اپنے انداز پر یہ کام کررہے ہیں۔ وہ ذکر اور مراقبہ(meditation) جیسی تدبیروں کے ذریعے یہ کوشش کرتے ہیں کہ انسان مادّی تفکرات سے اوپر اٹھے، اور ذہنی سکون کا تجربہ کرے۔
مسلم صوفی اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً انسان کو مادّی دنیا سے نکال کر خانقاہ کے الگ تھلگ ماحول میں لے جانا، انسان کو ذکر اور مراقبہ جیسے اعمال میں مشغول کرکے اس کے ذہن کو موڑنا۔ سِماع یعنی ساز اور گانے کے ذریعے انسانی ذہن کو ایک تصوراتی دنیا میں لے جانا۔ بعض صوفیا مثلاً ترکی کے درویش اِن اعمال میں رقص کو بھی شامل کرتے ہیں۔ میں نے اپنے بعض بیرونی سفروں میں ساز ونغمہ پر رقص کرنے والے صوفیوں کے اس منظر کو خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔
صوفی ازم کے مروّجہ اعمال کے ذریعہ آدمی کو جو داخلی کیفیت ملتی ہے، اس کو مسلم صوفیا وجْد (ecstacy) کانام دیتے ہیں۔ صوفیا نہ اعمال کے ذریعے جب کسی انسان کو وجد آتا ہے تو اُس وقت اس کے ذہنی تدبر اور تفکر والے احساسات دَب جاتے ہیں۔ اُس وقت وہ اپنے اندر ایک قسم کی بے فکری کا تجربہ کرتا ہے۔ یہ بے فکری اس کو ذہنی سکون دیتی ہے۔
صوفی ازم کا زور جو سائنسی دَور سے پہلے تھا وہ اب کسی ملک میں دکھائی نہیں دیتا۔ میرا خیال یہ ہے کہ آج نیو(neo) صوفی ازم کی تحریک چلائی جائے تاکہ صوفی ازم لوگوں کو دورِ جدید سے پوری طرح ریلوینٹ نظر آنے لگے اور اس طرح صوفی ازم کو دوبارہ عظمت کا وہ مقام مل جائے جو اس کو ماضی میں حاصل تھا (۲۹ ستمبر ۲۰۰۵)
واپس اوپر جائیں

عورت اور مرد کا فرق

انگریز مستشرق ایڈورڈ ولیم لین(Edward William Lance) ۱۸۰۱ میں پیدا ہوا، اور ۱۸۷۶ میںاس کی وفات ہوئی۔ وہ انگریزی کے علاوہ عربی زبان میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے ایک کتاب منتخب ترجمۂ قرآن(Selections From Kuran) تیار کی۔ جو پہلی بار لندن سے ۱۸۴۳ میں چھپا۔ اِس کتاب کے دیباچے میں لین نے لکھا تھا کہ —اسلام کا تباہ کُن پہلو عورت کو حقیر درجہ دینا ہے:
The fatal point in Islam is the degradation of woman. (p. 90)
مستشرق لین نے ۱۸۴۳ میں جوبات کہی تھی۔ اُس سے اس کی خاص مراد یہ تھی کہ اسلام کے قانونِ شہادت (evidence) میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر ماناگیا ہے۔ یہ دونوں صنفوں کے درمیان کُھلی ہوئی نابرابری ہے۔ اِس کے بعد بطور مسلّمہ یہ بات مان لی گئی کہ اسلام عہدِ جاہلیت کا مذہب ہے، وہ سائنسی دَور کا مذہب نہیں بن سکتا۔
اسلام کے خلاف یہ نظریہ ڈیڑھ سو سال تک چلتا رہا۔ اس کہ بعد مختلف اسباب سے سائنسی حلقوں میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ عورت اور مرد کے دماغ کے بارے میں ازسرِ نو تحقیق کی جائے، اور یہ معلوم کیا جائے کہ کیا دونوں کی دماغی بناوٹ میں کوئی فرق ہے۔ اِس تحقیق کا ایک محرک یہ تھا کہ کیاوجہ ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان لَو میریج (love marriage) ہوتی ہے اور پھر بیش تر واقعات میں ایسا ہوتا ہے کہ دونوں لڑ بھڑ کر ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔
اِس سلسلے میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں کے تحت، سائنسی انداز میں مختلف تحقیقات کی گئیں۔ یہاں تک کہ خالص سائنسی طریقِ تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ عورت اور مرد کے دماغ میں فطری بناوٹ کے اعتبار سے ایک ناقابلِ تغیر فرق پایا جاتا ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ مرد پیدائشی طور پر سنگل ٹریک مائنڈ (single track mind) کاحامل ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں عورت فطری طورپر ملٹی ٹریک مائنڈ(multi track mind) رکھتی ہے۔
دونوں صنفوں کے درمیان یہ فرق اتنا عام ہے کہ اس کا مشاہدہ ہر گھر میں کیا جاسکتا ہے۔ ہر گھر جہاں عورت اور مرد دونوں رہتے ہوںوہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مرد کا ذہن کسی ایک پوائنٹ پَر مرتکز رہے گا۔ جب کہ عورت کا یہ حال ہو گا کہ اس کا ذہن ایک ہی وقت میں کئی چیزوں کی طرف متوجہ رہے گا۔ مثلاً مرد اگر ایک کتاب پڑھ رہا ہے تو اس کا سارا دھیان کتاب میں لگا رہے گا۔ حتی کہ پاس کے کمرے میں اگر ٹیلی فون کی گھنٹی بجے تو وہ اس کو سننے سے قاصر رہے گا۔ حالاں کہ اسی کمرے میں بیٹھی ہوئی عورت دوسرے کمرے میں بجنے والی ٹیلی فون کی گھنٹی کو بخوبی طورپر سن لے گی۔
عورت کے ذہن اور مرد کے ذہن کا یہ فطری فرق بتاتا ہے کہ گواہی کے قانون میں دونوں کے درمیان فرق رکھنے کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک واقعہ جس کو عورت اور مرد دونوں دیکھ رہے ہوں اس کو مرد جب دیکھے گا تو وہ اس کو ترکیزی ذہن کے تحت دیکھے گا۔ اِس بنا پر وہ اس قابل ہوگا کہ واقعے کے تمام اَجزاء اس کے حافظے میں محفوظ ہوسکیں۔ اس کے مقابلے میں عورت اپنے ذہن کی فطری ساخت کی بنا پر، غیر ترکیزی انداز میں دیکھے گی۔ اس کے ذہن کا ایک حصہ واقعے کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے ذہن کا دوسرا حصہ کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ اِس بنا پر ایک گواہ عورت کے ساتھ دوسری گواہ عورت رکھی گئی تاکہ دونوں مل کر واقعے کی پوری تصویر بنا سکیں۔
مذکورہ سائنسی تحقیق کی روشنی میں قرآن کی متعلقہ آیت زیادہ قابلِ فہم بن جاتی ہے۔ یہ آیت قرآن میں اِس طرح آئی ہے: واستشہدوا شہیدَین من رجالکم فإن لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشہداء أن تضلّ إحداہما فتذکّرإحداہما الأخریٰ (یعنی تم اپنے مردوں میں سے دومَردوں کوگواہ بنالو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، اُن لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو۔ تاکہ اگر ایک عورت (گواہی دینے میں بھول) چوک جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دہانی کرادے۔ (البقرہ: ۲۸۲)
قرآن کی مذکورہ آیت میں ضلَّ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ضلّ کے معنی عربی زبان میں اِدھراُدھر بھٹکنے (go astray) کے ہوتے ہیں۔ یہ لفظ اِس معاملے میں عَین سائنسی ہے۔ اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر مذکورہ آیت کا مفہوم متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ —اگر ذہنی بناوٹ کی بنا پر ایک عورت کی توجہ اصل واقعے سے کچھ ہٹ جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا کر پہلی عورت کی کمی پوری کردے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن عالمِ الغیب کی طرف سے آئی ہوئی کتاب ہے۔ خدائے عالم الغیب نے اپنے علم کلّی کی بنا پر دونوں صنفوں کے درمیان فطری فرق کو اُس وقت جانا جب کہ عام انسان اِس فرق سے بالکل ناواقف تھا۔ اِس علم کی بنا پر خدا نے گواہی کا مذکورہ اُصول مقرر کیا۔ مذکورہ آیت اِس بات کا ایک علمی ثبوت ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو ابدی صداقت کی حامل ہے۔ قرآن خدائے برتر کی کتاب ہے نہ کہ عام معنوں میں کوئی انسانی کتاب۔
واپس اوپر جائیں

نان وائلنس (عدم تشدد)

Non-Violence— A Way of Life
نان وائلنس ایک وے آف لائف ہے۔ نان وائلنس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ نان وائلنس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ ناموافق حالات کی اس دنیا میں موافق ذہن کے ساتھ زندگی گذار دی جائے۔ اجتماعی زندگی میں ٹکراؤ کے بجائے مصالحت کا انداز اختیار کیا جائے۔ اس روش کا تعلق انفرادی زندگی سے بھی ہے اور اجتماعی زندگی سے بھی۔
دنیا کی مثال گلاب کے پودے جیسی ہے۔ گلاب کے پودے میں پھول بھی ہوتا ہے اور کانٹا بھی۔ کانٹے گلاب کے پودے کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ نیچر کا قانون ہے۔ ہم اس قانون کو بدل نہیں سکتے۔ اس معاملے میں ہمارے لیے صرف ایک آپشن ہے اور وہ یہ کہ کانٹے کو نظر انداز کرکے پھول کو حاصل کریں۔ پھول کا خوبصورت رنگ اور اس کی خوشبو صرف اُس انسان کے لیے قابلِ حصول ہے، جو کانٹے کے باوجود اُس کو حاصل کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ اس حوصلے کے بغیر کوئی بھی اس دنیا میں گلاب کے پھول کا مالک نہیں بن سکتا۔
نیچر کا یہ ظاہرہ بتاتا ہے کہ انسان کے لیے دنیا میں زندگی گذارنے کا حقیقت پسندانہ طریقہ کیا ہے۔ وہ ہے ناخوشگوار باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خوش گوارباتوں کو لے لینا۔ دُنیا ہر انسان کے لیے خوش گوار اور ناخوش گوار دونوں قسم کی چیزوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ صورت حال کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے بلکہ یہ خود خالق کی بنائی ہوئی ہے۔ اُن کا وجود اُسی طرح حتمی ہے، جس طرح آگ اور پانی کا وجود۔ کوئی بھی شخص اتنا طاقت ور نہیں جو ان دونوں چیزوں کو ایک دوسرے سے جُدا کرسکے۔
ایسی حالت میں ہمارے لیے حقیقی آپشن صرف ایک ہے اور وہ ہے جس کو نان وائلنس کہا جاتا ہے۔ نان وائلنس سادہ معنوں میں صرف عدم تشدد نہیں، نان وائلنس در اصل یہ ہے کہ آدمی وائلنس کے حالات میں پیس (peace) کے ساتھ رہ سکے۔ پیس فُل رویّے کا دوسرا نام نان وائلنس ہے۔
عام طور پر نان وائلنس کو جنگ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی متشددانہ لڑائی کے مقابلے میں پُر امن مقابلے کا طریقہ۔ مگر یہ نان وائلنس کا بہت محدود مفہوم ہے۔ نان وائلنس کا تعلق پوری زندگی سے ہے اور وہ ٹھیک اُسی وقت سے شروع ہوجاتا ہے جب کہ انسان دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ نان وائلنس کا تعلق گھریلو زندگی سے لے کر انٹرنیشنل لائف تک ہے۔
میں پیدائشی طورپر نان وائلنٹ ہوں۔ اس لیے نان وائلنس میرے لیے صرف ایک نظریہ نہیں، بلکہ وہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ میں اپنی پوری زندگی شعوری یا غیر شعوری طورپر نان وائلنس کی زندگی گذارتا رہا ہوں۔مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کہ میں یوپی کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ میری عمر تقریباً ۱۰ سال تھی۔ میں اپنے گھر کے باہر کھڑا ہوا تھا۔ اتنے میں گاؤں کا ایک بچہ میرے سامنے سے گذرا۔ حسب عادت اس نے مجھے گالی دی۔ میں نے اسے سُنا تو مجھے غصہ نہیں آیا اور نہ میرے اندر انتقام کا جذبہ پیدا ہوا۔ میں نے صرف یہ کہا کہ تم خود! یہ کہہ کر میں اپنے گھر کے اندر چلا گیا۔ میرا یہی رویّہ بعد کو میری پوری زندگی میں قائم رہا۔
مثال کے طورپر ۱۹۴۷ ء کے بعد انڈیا میں کمیونل رائٹس کا سلسلہ شروع ہوا۔ اخبارات آگ اور خون کے واقعات سے بھرے رہنے لگے۔ تمام لوگ احتجاج اور انتقام کی بولی بول رہے تھے۔ مگر میں کسی منفی ایکشن میںمبتلا نہیں ہوا۔ میں نے اس مسئلے کا یہ سادہ حل پیش کیا کہ مسلمان اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اعراض (اَوائڈنس) کا طریقہ اختیار کریں اور پھر کمیونل رائٹس ختم ہوجائیں گے—یہ اجتماعی نزاع کے معاملے میں نان وائلنس کے طریقے کو اپنانا تھا۔
اسی طرح جب ۲۰۰۳ میں امریکی صدر جارج بش اور عراقی صدر صدام حسین کے درمیان نزاع پیدا ہوئی اور یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ امریکا بمباری کرکے عراق کو تباہ کردے گا تو میں نے اس مسئلے کا یہ حل پیش کیا کہ صدام حسین جنہوں نے فوجی انقلاب کے ذریعہ عراق پر سیاسی قبضہ کیا تھا، وہ صدر کا عہدہ چھوڑ دیں اور پھر امریکا کو عراق کے خلاف تشدد کا موقع نہیں ملے گا— یہ انٹر نیشنل معاملے میں نان وائلنس کے طریقے کو اپنانا تھا۔
اسی طرح جب پاکستان کے صدر ضیاء الحق کے زمانے میں کشمیر اور پنجاب میں آزادی کی تحریکیں زور وشور کے ساتھ اُٹھیں تو میں نے ۱۹۹۰ میں ہندستان ٹائمس میں ایک آرٹیکل شائع کیا جس کا عنوان تھا:Acceptence of reality
اس آرٹیکل میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب اور کشمیرکے لوگ پولیٹکل اسٹیٹس کو(status quo) کو مان لیں۔ اس مسئلے پر ٹکراؤ کرنے کے بجائے وہ یہ کریں کہ پولیٹکل اسٹیٹس کے باہر دوسرے میدانوں میں پُر امن تعمیر و ترقی کے جو مواقع ہیں اُن کو استعمال کریں جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے کیا —میری یہ تجویز گویا سیاسی نزاعات کے معاملے میں نان وائلنس کے طریقے کو اپنانا تھا۔
آپ کسی پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ پہاڑ کے ا وپر برف پگھلنے سے چشمے جاری ہوتے ہیں وہ بہتے ہوئے میدان تک پہنچتے ہیں۔ آپ غور کریں تو درمیان میں بار بار چشمے کے بہاؤ کو ایک مسئلہ پیش آتا ہے وہ یہ کہ اس کے راستے میں بار بار پتھر کے تودے آتے ہیں یہ گویا چشمے کے بہاؤ کے راستے میں رکاوٹیں ہیں۔ چشمہ یہ نہیں کرتا کہ وہ پتھر کو توڑنے کی کوشش کرے تاکہ وہ اپنے سفر کے لیے سیدھا راستہ پا سکے۔ اس کے برعکس چشمہ یہ کرتا ہے کہ وہ پتھر کو اپنی جگہ چھوڑ کر اس کے دائیں یا بائیں سے گذر کر آگے نکل جاتا ہے یہی نان وائلنس ہے۔
نان وائلنس کا مطلب دوسرے لفظوں میں نان کنفرنٹیشن ہے۔ اس دنیا میں نان کنفرنٹیشن اپروچ ہی واحد صحیح اپروچ ہے۔ نان کنفرنٹیشن کا مطلب پسپائی یا بزدلی نہیں ہے۔ یہ در اصل وہی تدبیر ہے جس کو buying time کہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے وقت کو بے فائدہ مشغولیت سے بچا کر اس کو نتیجہ خیز کام میں لگانا۔ نان وائلنس یہ ہے کہ آدمی ناپسندیدہ صورت حال کے مقابلے میں منفی ردّ عمل میں نہ پڑے بلکہ وہ مثبت ردّعمل کا طریقہ اختیار کرے۔ نان وائلنس در اصل وائز پلاننگ ہے۔ اس دنیا کی تمام کامیابیاں اسی وائز پلاننگ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ وائز پلاننگ نہیں تو کوئی کامیابی بھی نہیں۔
خلاصہ
نان وائلنس سادہ طور پر صرف یہ نہیںہے کہ نزاعات کی صورت میں ہتھیار اٹھانے سے پرہیزکیا جائے۔ بلکہ نان وائلنس یا عدم تشدد ایک مکمل طرزِ حیات کا نام ہے۔ نان وائلنس کا تعلق انسان کی سوچ سے بھی ہے اور اس کے بول سے بھی اور اس کے عمل سے بھی۔ نان وائلنس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ہر موقع پر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ سوچے، وہ معتدل انداز میں کلام کرے، وہ ٹکراؤ سے مکمل طورپر بچتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ نان وائلنس کو ایک لفظ میں پُر امن طرزِ حیات کہا جاسکتا ہے۔ اس دنیا کے لیے اس کے خالق کا قانون یہ ہے کہ پُر امن اصول پر زندگی گذارنے والا انسان ہمیشہ کامیاب ہو، اور پُر تشدد اصول پر زندگی گذارنے والا انسان صرف ناکام ہو کر رہ جائے، وہ تباہی کے سوا کوئی اور تاریخ اپنے پیچھے نہ چھوڑے۔
واپس اوپر جائیں

دولت اور خوشی

معروف صنعت کار مسٹر گوتم سنگھانیا (Gautam Singhania) کے چہرے پر لیکوڈرما کے نشانات ہیں۔ کافی علاج کے باوجودیہ داغ ختم نہ ہوسکے۔ انھیں اپنے باپ سے ایک ہزار کروڑ روپیے کابزنس ایمپائر وراثت میں ملا ہے۔ مگر چہرے کے لیکوڈرما کی وجہ سے وہ لوگوں کے سامنے بہت کم آتے ہیں۔ وہ بہت ذہین اور بااصول آدمی ہیں۔ انھوں نے اپنے مسائل کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔ گوتم سنگھانیا کی عمر ۳۹ سال ہے۔ وہ بمبئی میں رہتے ہیں۔ ایک انٹرویو میںانھوں نے کہا:
Oh, see how bad my life is, I wish it were different. But, you have to have the wisdom to accept what you can’t change.
’’اُف، دیکھو کہ میری زندگی کتنی بُری ہے۔ کاش ایسانہ ہوتا۔ لیکن آدمی کے اندر یہ ہوش مندی ہونی چاہیے کہ وہ اس چیز کو قبول کرسکے، جس کو وہ بدل نہیں سکتا‘‘۔
گوتم سنگھانیا نے اپنی بیماری کا بہت علاج کیا مگر مرض کچھ اور بڑھ گیا۔ وہ اب اس بیماری کو اپنا مقدر سمجھ کر اس کے ساتھ جینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھوں نے اپنے تأثرات بتاتے ہوئے کہا کہ: میرا ماننا ہے کہ دولت کے ذریعے آپ خوشی خرید نہیں سکتے۔ دنیا میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو مجھ سے زیادہ دولت مندہیں۔ مگر وہ اپنی زندگی سے خوش نہیں۔ میں دس ایسے آدمیوں کا نام بتا سکتا ہوں جو بے شمار دولت رکھتے ہیںمگر وہ نہایت بُری حالت میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت، شہرت، اقتدار— یہ چیزیں آپ کو خوشی نہیں دے سکتیں۔ خوشی خود اپنے آپ سے ملتی ہے نہ کہ کسی خارجی چیز سے:
“I believe money can't buy you happiness. There are hundreds and thousands of people in the world who are much richer than I am, but they are not happy with themselves. I can name 10 people who have all the money in the world, but are miserable. So, money, fame, power—these things can’t make you happy. Happiness comes from within, from being at peace with oneself.”
The Times of India (Life!) Bombay, August 22, 2004
واپس اوپر جائیں

صحیح تدبیر

۴ نومبر ۲۰۰۴ کی صبح کو میں نئی دہلی میں اپنے دفتر میں تھا۔ حسب معمول میں نے بی بی سی لندن سے خبریں سننے کے لیے اپنے ریڈیو سیٹ کو کھولا۔ پہلی خبر ان الفاظ میں تھی: امریکا کے صدارتی الیکشن میں جان کیری کے مقابلے میں جارج بش جیت گئے۔ بش کو اتنازیادہ ووٹ ملے کہ امریکا کی تاریخ میں کسی بھی صدر کو تعداد کے اعتبار سے اتنے زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے۔
یہ خبر سن کر بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگیے۔ میں رورہا تھا اور میری زبان پر یہ الفاظ تھے:
امریکا کے اس الیکشن نے ثابت کردیا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنما اور دانشور آخری حد تک عقلی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ خود بھی بے دانشی میں مبتلا ہیں اور انھوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو بے دانشی میں مبتلا کردیا ہے۔ یہاں تک کہ اب لوگوں کے اندر بظاہر یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ معاملات کو گہرائی کے ساتھ سمجھیں اور صحیح فیصلہ لے سکیں۔ ٹائمس آف انڈیا کے شمارہ ۳ نومبر ۲۰۰۴ نے امریکی تاریخ میں آنے والے اس دن کو فیصلے کا دن(Judgement Day) کہا تھا۔ مگر یہ دن امریکا سے زیادہ موجودہ مسلمانوں کے حق میںفیصلے کا دن بن گیا۔
یہ الیکشن امریکا کے ۲۶ ویں صدر کے انتخاب کے لیے تھا مگر ساری دنیا کے مسلمانوں میں اس کا اتنا چرچا تھا جیسے وہ مسلم ملکوں کا اپنا الیکشن ہو۔ تمام دنیا کے مسلمان، مغرب سے لے کر مشرق تک اور عرب سے لے کر عجم تک بش کے خلاف متحد ہوگیے۔ پوری مسلم دنیا میں شاید میں اکیلا مسلمان تھا جو اس منفی اتحاد میں شریک نہ تھا۔ الیکشن سے صرف ایک دن پہلے ۳ نومبر کی صبح کو بی بی سی لندن پر بولتے ہوئے سعودی عرب کے ایک سینئر صحافی نے کہا تھا کہ اس وقت تمام کے تمام مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ جارج بش اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے۔ آج تمام مسلمان بش سے نفرت کرتے ہیں اور الکشن میں اس کی ہار کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔
امریکی اور غیر امریکی مسلمانوں کی یہ پالیسی بلا شبہہ عقلی دیوالیہ پن کے ہم معنی تھی۔ اس لیے کہ امریکا کا صدر کون بنے اس کا فیصلہ امریکی ووٹروں کو کرنا تھا نہ کہ مختلف ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو۔ ایسی حالت میں اصل اہمیت یہ تھی کہ امریکی ووٹر وں کے ذہن کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق، اپنی منصوبہ بندی کی جائے۔ جارج بش سے نفرت کرنا یا جارج بش کے خلاف لفظی غوغا کرنا ایک ایسی غیر متعلق بات تھی جس کا امریکی الیکشن کے نتائج سے کوئی تعلق نہیں۔
میں ذاتی طورپر اس نظریے کو بالکل بے معنٰی سمجھتا ہوں کہ کوئی فرد اسلام کا دشمن نمبر ایک ہوتا ہے۔ اور اسلام کی حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ اس فرد کو کسی نہ کسی طرح زیر کردیا جائے۔ تاہم جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ اس الیکشن میں جارج بش کو شکست ہو، انھیں صورت حال کا جائزہ لے کر یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ جمہوری نظام کے اعتبار سے کسی امیدوار کو شکست دینے کا طریقہ کیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ امریکی انتخاب میں فیصلہ کن حیثیت صرف امریکی ووٹروں کی ہے۔ اب بے لاگ مطالعے کے ذریعے یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ امریکی ووٹروں کی سوچ کیا ہے۔ ایک مبصر نے درست طورپر کہا ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو نیویارک کے ورلڈ ٹاور کے ساتھ جو واقعہ ہوا اس کے بعد امریکی ووٹروں کی ساری سوچ اس واقعے سے جڑ گئی۔ اب امریکی ووٹریہ سمجھنے لگے کہ وہ خود اپنے ملک میں غیر محفوظ ہیں اور ان کو اس طرح غیر محفوظ بنانے والے وہ لوگ ہیں جن کو وہ مسلم ٹررسٹ (Muslim terrorist) کہتے ہیں۔ امریکی ووٹروں کی اس سوچ نے ان کے لیے اقتصادی اِشو کو ثانوی اشو بنا دیا اور قومی تحفظ کے اشو کو ان کے لیے نمبر ایک اشو بنا دیا۔ مبصر کے الفاظ میں ، وہ اپنے لیے ایک ایسا صدر چاہتے ہیں جو مضبوط اور فیصلہ کن (strong and decisive) شخصیت کا حامل ہو اور عام طورپر امریکیوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ اس صفت کے اعتبار سے جارج بش ان کے لیے قابل انتخاب ہیں نہ کہ جان کیری۔
ایسی حالت میں اگر مسلمان یہ چاہتے تھے کہ جارج بش الیکشن میں ہارے تو انھیں جاننا چاہیے تھا کہ یہ مقصد اس طرح حاصل نہیں ہوسکتا کہ وہ جارج بش کے خلاف براہ راست لفظی غوغا شروع کردیں۔ اس طرح کی غوغا آرائی امریکی ووٹروں کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والی نہیں تھی۔ اس کی صورت صرف یہ تھی کہ دنیا بھر کے مسلمان خود اپنی قوم کے ان لوگوں کو کنڈم کرتے جو امریکا کے خلاف متشددانہ جہاد چھیڑے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں امریکی ووٹروں کو یہ یقین دلانے کی ضرورت تھی کہ جو مسلم ٹررسٹ ان کے خلاف تشدد کی کارروائیاں کررہے ہیں ان کو خود مسلمانوں نے کنڈم کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ مسلم سماج میں بے جگہ ہو کر رہ گیے ہیں۔ اور آئندہ کے لیے اپنا حوصلہ کھو بیٹھے ہیں۔
مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے لوگ اگر ایسا کرتے تو وہ امریکی ووٹروں کی سوچ کو بدل سکتے تھے۔ اس کے بعد امریکیوں کا ووٹنگ پیٹرن یقینا بدل جاتا اور خود امریکی ووٹروں کے ذریعے مسلمانوں کو وہ مطلوب انتخابی مقصد حاصل ہوجاتا جس کو وہ بے فائدہ طورپر جارج بش کے خلاف غوغاآرائی کرکے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کا میکانائیزیشن

دبئی کی ایک کمپنی نے ایک نیا سیلولر فون بنیایا ہے جس کا نام اسلامک موبائل فون ہے۔ اس فون میں اسلام سے متعلق مختلف قسم کی معلومات بھر ی ہوئی ہیں۔ اس میں پورا قرآن ریکارڈ کیا ہوا محفوظ ہے۔ آپ کسی بھی وقت اس کو ایک بٹن دبا کرسن سکتے ہیں۔ اسی طرح اس کے ذریعے روزانہ پانچ وقت اذان سنی جاسکتی ہے۔ اِسی کے ساتھ اس میں قرآن کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔ اس طرح کی بہت سی معلومات اِس اسلامک موبائل فون میں محفوظ کردی گئی ہیں۔
ایک بیرونی سفر کے دوران ایک صاحب نے مجھے یہ ’’اسلامک موبائل فون‘‘ تحفے کے طور پر دیا۔ وہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔ مگر میں نے موبائل کا یہ تحفہ فوراً ہی انھیں لوٹا دیا۔ میں نے کہا کہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں، میںاس کو زوال کی ایک علامت سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک اسلامک موبائل دراصل اسلامک کنزیومرازم ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ موجودہ زمانے میں اس قسم کے میکانائزیشن کا بہت رواج ہوا ہے۔ مگر یہ صرف اِس بات کی علامت ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اسلام کی اسپرٹ کے بجائے اس کے فارم کو اصل سمجھنے لگے ہیں۔ حالاں کہ اسپرٹ کے بغیر فارم ایسا ہی ہے جیسے کہ نارنگی کے بغیر اس کا چھلکا۔
موجودہ زمانے میں کمیونکیشن بہت بڑی نعمت ہے، مگر اس نعمت کا اصل استعمال یہ ہے کہ اس کو اسلامی دعوت کے لیے استعمال کیا جائے۔ بدقسمتی سے جدید کمیونکیشن کو اب تک اسی اصل کام کے لیے استعمال نہ کیا جاسکا۔ اسلامی دعوت یہ ہے کہ اسلام کے مثبت پیغام کو قومی اور سیاسی آلائشوں سے پاک کرکے خالص ربّانی انداز میں پھیلایا جائے۔ جدید کمیونکیشن نے پہلی بار اس کو ممکن بنایا ہے کہ دعوت کا کام عالمی سطح پر انجام دیا جاسکے۔ جدید کمیونکیشن کا اصل استعمال یہی ہے۔ جدید کمیونکیشن کے دعوتی استعمال کے بعد، اس کے دوسرے استعمالات بھی جائز ہوسکتے ہیں۔ مگر دعوتی استعمال کے بغیر اس کے دوسرے استعمالات کا کوئی جواز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

عادت کو چھوڑنا

اسلام کا کلمہ ہے: لا الٰہ الّا اللّٰہ۔ اِس کلمے کے مطابق، پہلے نفی کا درجہ ہے اور اس کے بعد اثبات کا درجہ۔ کوئی آدمی جب تک غیر اللہ کی نفی نہ کرے، اُس کو اللہ کے اقرار کا درجہ نہیں مل سکتا۔دونوں یکساں طورپر کلمۂ توحید کا جُز ہیں۔ اُن میں سے کسی ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
یہ فطرت کا قانون ہے۔ یہ فطرت کا ابدی اصول ہے کہ ایک چیز کو چھوڑنے کے بعد ہی آدمی کو دوسری چیز ملے۔ خدا کی بنائی ہوئی اِس دنیا میں کسی انسان کو کوئی حقیقی چیز اُسی وقت مل سکتی ہے جب کہ وہ اس سے پہلے غیر حقیقی چیزوں کو چھوڑ چکا ہو۔ غیر حقیقی چیز کو نہ چھوڑنا اور حقیقی چیز کو پانے کی امید رکھنا، یہ دونوں چیزیں صرف ایک خوش فہم انسان کے دماغ میں فرضی طورپر اکھٹا ہوسکتی ہے، مگر حقیقت کی دنیا میں اِس طرح کی یکجائی ممکن نہیں۔
جو عورت یا مرد سچائی کا مسافر بننا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو جانے۔ مثلاً اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کی زندگی میں غلط عادتیں شامل ہوجاتی ہیں۔ یہ عادتیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ مثلاً ہنسی مذاق کی باتیں ، پان سگریٹ کا استعمال۔ فضول خرچی، نمائشی کام، تفریحی مشغلے، لطیفہ گوئی، گپ شپ ، رواجی تکلّفات، اور رسمی تحفے تحائف کی بے معنٰی دھوم۔
اِس قسم کی مختلف عادتیں ہیں جن میں لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اِن عادتوں کا بیک وقت دو بڑا نقصان ہے۔ ایک، یہ کہ یہ عادتیں انسان کے اندر سطحیت پیدا کرتی ہیں۔ وہ آدمی کو اعلیٰ ذوق سے محروم کردیتی ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ یہ عادتیں آدمی کے وقت اور اس کے وسائل کا بڑا حصہ کھا جاتی ہیں۔ آدمی اِس قابل نہیں رہتا کہ وہ کسی سنجیدہ کام میں اپنے آپ کو بھر پور طور پر لگا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ غلط عادتیں قاتل عادتیں ہیں۔ وہ انسان کو انسان کے درجے سے گرا کر حیوان کے درجے تک پہنچا دیتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں

سچائی کی طرف

خالد بن ولید مکّہ میں پیدا ہوئے۔ پہلے وہ پیغمبر اسلام کے مخالف تھے۔ وہ پیغمبر اسلام کے خلاف کئی لڑائیوں میں شریک رہے۔ فتحِ مکّہ (۸ہجری) سے کچھ پہلے انھوں نے مدینہ آکر اسلام قبول کرلیا۔ انھوں نے اپنے اسلام کا قصہ بتاتے ہوئے کہا کہ قبولِ اسلام سے پہلے میں اسلام کے خلاف سرگرمیوں میں مشغول تھا، مگر مجھے بار بار یہ احساس ہوتا تھا کہ میں اپنے آپ کو غلط جگہ پر رکھے ہوئے ہوں (أنّی موضع فی غیر شییٔ، البدایۃ والنہایۃ، جلد ۴، صفحہ ۲۳۸)
اِس واقعے میں ایک نفسیاتی حقیقت بتائی گئی ہے۔ خدا نے ہر انسان کو فطرت پر پیدا کیا ہے۔ یعنی اُس فطرت پر جو خالق کو مطلوب ہے۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی جو خدا کے راستے پر نہ ہو، وہ کہیں نہ کہیں اِس احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ میں جس راستے پر چل رہا ہوںوہ میرا راستہ نہیں۔ میں اِس کے سوا کسی اور چیز کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔یہ احساس، فطرت کا انتباہ ہوتا ہے۔ یہ احساس آدمی کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی روش پر نظر ثانی کرے، اور صحیح راستے کو دریافت کرکے اُس پر چلنے لگے۔ مگر انسان اِس انتباہ پر چَوکنا نہیں ہوتا، وہ بدستور اپنے غلط راستے پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مَر جاتا ہے۔
مذکورہ احساس دراصل انسان کی زندگی میں ایک نقطۂ آغاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نقطۂ آغاز ہر آدمی کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی سمتِ سفر کو درست کرکے اپنی حقیقی منزل کی طرف چل پڑے۔ مگر خواہشات کا غلبہ، مفادات کی فکر، سماجی تعصّبات، خاندانی دَباؤ وغیرہ رُکاوٹ بن جاتے ہیں۔ آدمی جاگنے کے باوجود دوبارہ سوجاتا ہے۔
ہر آدمی ایک ایسے کام میں مشغول ہے جس کے بارے میں اس کا دل مسلسل یہ کہہ رہا ہے کہ تم غلط جگہ پر ہو۔ کچھ لوگ اِسی حالت میں جیتے ہیں اور اسی حالت میں مرجاتے ہیں، اور کچھ لوگ اس فکر ی دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو اس راستے کا مسافر بنا لیتے ہیں جس کا تقاضا ان کی فطرت کررہی تھی۔
واپس اوپر جائیں

مسلم ایجنڈا

ایجنڈا ہمیشہ دو چیزوں کی بنیاد پر بنتا ہے۔ ماضی کا تجربہ اور حال و مستقبل کے امکانات۔ ان دونوں پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کا ایجنڈا یہ ہونا چاہیے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرائیں اور نئے امکانات کو جان کر ان کو بخوبی طورپر استعمال کریں۔
اس اعتبار سے غور کیجئے تو ہندستانی مسلمانوں کے لیے پہلا کام یہ ہے کہ وہ منفی طرزِ فکر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں اور پوری طرح مثبت طرزِ فکر کو اختیار کرلیں۔ ۱۹۴۷ کے بعد بعض اسباب کی بنا پر مسلمانوں کا ذہن یہ رہا ہے کہ انڈیا ان کے لیے ایک پرابلم کنٹری ہے۔ یہ سوچ پہلے بھی غلط تھی اور اب تو وہ آخری طورپر بے بنیاد ثابت ہوچکی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ شعوری طورپر نہ کہ مجبوری کے تحت، منفی سوچ اور منفی بولی کو بھُلا دیں۔ وہ شعوری فیصلے کے تحت مثبت طرز فکر کو پوری طرح اپنا لیں۔
نئے حالات کی سب سے پہلی خوش آئند علامت یہ ہے کہ لبرلائزیشن کی پالیسی نے اور بیرونی دنیا سے انڈیا کے تعلقات کے اضافے نے ملک کے سیاسی اور معاشی اور سماجی حالات کو یکسر بدل دیا ہے۔ اس تبدیلی کا سب سے زیادہ امید افزا پہلو یہ ہے کہ ہر قسم کے مواقع لا محدود حد تک کھل گئے ہیں۔ اس کی ایک علامت یہ ہے کہ جمعہ اور عید کے موقع پر مسجدوں کے سامنے کا روں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ اور ٹھیلے والوں کی جیب میں موبائیل ٹیلی فون بج کر یہ اعلان کرتا ہے کہ معاشی مواقع اب اتنے زیادہ بڑھ گیے ہیں کہ خواص سے لے کر عوام تک ہر ایک کو اس کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح سیاسی اور سماجی شعبوں میں بھی حالات پوری طرح بدل گیے ہیں۔
ان تبدیلیوں کا پہلا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اب خارجی حالات کے مقابلے میں دفاع یا تحفظ کا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا۔ اب مسلمانوں کوصرف یہ کرنا ہے کہ وہ نئے حالات اور نئے مواقع کو پہچانیں اور اپنے اندر وہ صفات پیدا کریں جن کے ذریعے وہ نئے مواقع کو استعمال کرسکیں۔ تمثیل کی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بارش ہوچکی ہے۔ اب کسی کسان کو صرف اس کی بے عملی ہی محروم رکھ سکتی ہے، عمل کرنے والے کسان کے لیے اب محرومی کا کوئی سوال نہیں۔ یہاں اس سلسلے میں چند ضروری پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
۱۔ نئے حالات نے انگریزی زبان اور کمپیوٹر لٹریسی کی اہمیت بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔ اب ترقی کے لیے انگریزی زبان اور کمپیوٹر لازمی ہوچکے ہیں۔ دار العلوم دیوبند نے اِس اہمیت کو محسوس کیا اور اپنے یہاں انگریزی اور کمپیوٹر کا کورس باقاعدہ طورپر جاری کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے تمام مدرسوں اور دینی اداروں کو بلاتاخیر ایسا ہی کرناچاہیے۔
۲۔ اب تک مسلم نوجوانوں میں یہ رجحان رہا ہے کہ وہ زیادہ تر آرٹ سائڈ (Humanities) میں داخلہ لے کر پڑھتے تھے۔ یہ رجحان اب زمانے کے خلاف رجحان بن چکا ہے۔ آرٹ سائڈ میں بی اے اورایم اے کرنے کی معاشی اعتبار سے اب بہت کم افادیت رہ گئی ہے۔ مسلم نوجوانوں کو اب بلا تاخیر یہ کرنا ہے کہ وہ انگریزی زبان اور ٹیکنیکل سَبجیکٹس میں اچھی لیاقت پیدا کریں۔ خوش قسمتی سے آج کل ہر جگہ اس کی سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں۔مسلم نوجوانوں کو ان سہولتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۳۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ مسلمان شادیوں میں اور دوسری تقریبات میں بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ اس قسم کا خرچ فکری پس ماندگی کی علامت ہے۔ قدیم زمانے میں جب کہ خرچ کی مدیں بہت محدود تھیں تو لوگ شادیوں اور تقریبات میں اپنا پیسہ خرچ کیا کرتے تھے۔ اب پیسے کے استعمال کی دوسری زیادہ بڑی اور تعمیری مدیں وجود میں آچکی ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پیسے کو جدید تعمیری مدوں میں خرچ کرنا سیکھیں۔ مثلاً اعلیٰ معیار کے اسکول، ٹیوشن بیوروز، پروفیشنل ٹریننگ سنٹر، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس ،وغیرہ۔
۴۔ موجودہ زمانے میں ہر چیز کا معیار بدل گیا ہے۔ مثلاً پچھلے دَور میں خاندانی منجن کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ اب سائنسی طریقوں سے بنائے ہوئے منجن نے اہمیت حاصل کرلی ہے۔ پچھلے دَور میں شاہی نسخے بڑی چیز سمجھے جاتے تھے۔ اب ساری اہمیت سائنٹفک فارمولے کی ہوگئی ہے۔ پہلے زمانے میں بیل گاڑی لوہے کے دُھرے پر چلتی تھی، اب بیل گاڑی بال بیرنگ کے اوپر دوڑتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ زمانے کی اس تبدیلی کوسمجھیں اور نئی تکنیک کو سیکھ کر ہر میدان میں اعلیٰ ترقی حاصل کریں۔
۵۔ ۱۹۴۷ کے بعد مختلف اسباب سے مسلمان رزرویشن کو اپنے لیے کامیابی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ جدید حالات نے ساری اہمیت کامپٹیشن کو دے دی ہے۔ اس کانتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب رزرویشن کی بات ایک خلافِ زمانہ نعرہ بن چکا ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ملّی ڈکشنری سے رزرویشن کا لفظ نکال دیں۔ اور ساری توجہ محنت اور منصوبہ بندی پر لگائیں۔ موجودہ زمانے میں یہی ترقی کا واحد راستہ ہے۔
۶۔ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانوں میں سیاسی اعتبار سے نگیٹیو پالیسی کا طریقہ رائج ہوگیا۔ یہ طریقہ مستقل ملّی مفاد کے لیے سخت مہلک ہے۔ وہ جمہوری تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پازیٹیو سیاسی پالیسی کو اختیار کریں۔ یہی موجودہ زمانے میں اُن کے لیے کامیابی کاواحد راستہ ہے۔
۷۔ انتخابی پالیسی کے معاملے میں مسلمانوں کو اپنا ذہن مکمل طورپر بدلنا ہے۔ اب تک ان کا رجحان اِس معاملے میں یہ رہا ہے کہ پورے ملک کے لیے ایک ملّی پالیسی اختیار کریں۔ موجودہ حالت میں اِس قسم کی انتخابی پالیسی مسلمانوں کے لیے مفید نہیں۔ مفید سیاسی پالیسی صرف یہ ہے کہ مسلمان مقامی حالات کے اعتبارسے الگ الگ اپنی انتخابی پالیسی بنائیں۔ وہ ملکی پالیسی کا طریقہ ختم کردیں۔
۸۔ ۱۹۴۷ کے بعد سے مسلمانوں کے اوپر تحفظاتی ذہن غالب رہا ہے۔ وہ ملّی شناخت کے تحفظ کو سب سے بڑی چیز سمجھتے رہے ہیں۔ موجودہ گلوبلائزیشن کے دَور میں اِس قسم کی تحفظاتی پالیسی غیر مفید ہے۔ مسلمانوں کے لیے صحیح پالیسی یہ ہے کہ وہ ملّی شناخت کے بجائے دعوت کے اِحیاء کو اپنا نشانہ بنائیں۔ وہ ملک میں ایک داعی گروہ کی حیثیت سے اپنا مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
۹۔ دَورِ جدید کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے میل ملاپ اور اختلاط (interaction)کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ یہ تبدیلی ترقیاتی سرگرمیوں سے بہت زیادہ جڑی ہوئی ہے۔ ایسی حالت میں اب ’’علاحدہ مسلم پاکیٹ‘‘ کا تصور ایک فرسودہ تصور بن چکا ہے۔ اب مسلمانوں کو علاحدہ مسلم پاکٹ جیسی تفریقی پالیسی کو مکمل طورپر ختم کردینا چاہیے۔ دورِ جدید میں ترقی کے اعلیٰ مقام پر پہنچنے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے۔
۱۰۔ پچھلے سَوسال سے بھی زیادہ مدت سے تمام دنیا کے مسلمان اپنی آفاقیت کو ملّت سے جوڑے ہوئے تھے۔ دورِ جدید کا تقاضا ہے کہ وہ اِس محدودیت کو ختم کردیں۔ وہ اپنی آفاقیت کو پوری انسانیت کے ساتھ جوڑیں۔ وہ جدید اصلاح کے مطابق، اپنے آپ کو گلوبل ولیج کا ایک حصہ سمجھیں۔ وہ بین الملّی سیاست کے بجائے بین الانسانی سیاست کو اختیار کریں۔ اِسی آفاقیت میں ان کی دینی اور ملّی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ زمانہ منصوبہ بندی (planning) کے ساتھ کام کرنے کا زمانہ ہے۔ نہ صرف ہندستانی مسلمان بلکہ ساری دنیاکے مسلمان موجودہ زمانے میں منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ منصوبہ بندی عملی امکانات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ صرف اپنے جذبات کو جانتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات اور امنگوں کی بنیاد پر اپنے عمل کا نقشہ بناتے ہیں۔ اپنے اس مزاج کی بنا پر وہ جذباتی اقدام تو بہت کرتے ہیں مگر منصوبہ بند عمل میں وہ ناکام رہتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے اس مزاج کو بدلنا ہوگا۔ اگر انھوں نے اپنے اس مزاج پر قابو نہ پایا تو مستقبل میں بھی وہ اسی طرح ناکامی کی مثال قائم کریں گے جس طرح وہ ماضی میں ناکامی کی مثالیں قائم کرتے رہے ہیں۔
موجودہ مسلمانوں کو اگر مجھے ایک مشورہ دینا ہو تو میں کہوں گا کہ — جذباتی کارروائیوں سے بچئے اور سوچے سمجھے عمل کا طریقہ اختیار کیجئے، اور پھر کامیابی آپ کے لیے اتنا ہی یقینی بن جائے گی جتنا کہ آج کی شام کے بعد کل کی صبح کو سورج کا نکلنا۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

محترمہ نور باجی صاحبہ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ سے ٹیلی فون پر چند بار گفتگو ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ مولانا محمد ذکوان ندوی سے اکثر آپ کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو سویڈن(ا سٹاک ہوم ) میں تین سال تک آپ سے قریب رہے ہیں، اور اب دہلی میں مقیم ہیں۔ میں نے آپ کے بارے میںجو اندازہ کیا ہے اس کے مطابق، آپ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ آپ کو خدا نے بہترین صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ مگر جب بھی آپ کا خیال آتا ہے مجھے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ:
She is underutilizing her great potential.
دور سے میں آپ کو جتنا پڑھ سکا ہوں اُس کے مطابق، غالباً آپ کا کیس اُس نوعیت کا کیس ہے، جو خالد بن ولیدؓ کا اسلام سے پہلے تھا۔ خالد بن ولید ایک سلیم الفطرت انسان تھے۔ خالد بن ولید نے فتحِ مکّہ سے کچھ پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ انھوں نے ایک بار کہا کہ میں اسلام سے پہلے قریش کے ساتھ اُن کی اسلام مخالف سرگرمیوں میں قائدانہ طورپر شریک رہتا تھا۔ مگر اندر سے میں محسوس کرتاتھا کہ میں اپنے آپ کو غلط جگہ پر رکھے ہوئے ہوں (إنّی مُوضع فی غیر شییٔ)
میرا احساس ہے کہ آپ مسلسل طورپر عدم اطمینان میں مبتلا رہتی ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق، اس عدم اطمینان کا سبب یہ ہے کہ آپ نے ابھی تک اپنے آپ کو اُس کام میں نہیں لگایا جس کے لیے آپ پیدا کی گئی ہیں، اور یہ دعوت الی اللہ کا کام ہے۔ غالباً آپ کی ضرورت یہ ہے کہ آپ کو وہ چیز حاصل ہوجائے جس میں مشغول ہوکر آپ کو داخلی طورپر پوری طرح فُل فِل مینٹ (fulfillment) ملنے لگے۔یعنی آپ کا داخلی جذبہ اور آپ کا خارجی عمل دونوں ایک ہوجائیں۔
آپ کے لیے غالباً وہ کام مقدّر ہے جو دوراوّل میں صحابہ اور صحابیات نے کیا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخر عمر میں حجۃ الوداع میں اپنے اَصحاب کو خطاب فرماتے ہوئے کہا تھا: اللہ نے مجھے تمام دنیا کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ تم لوگ میری طرف سے، اس ذمّے داری کو اداکرو۔ آپ نے فرمایا کہ پس جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ میرا پیغام اُن لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں (فلیبلغ الشاہد الغائب)
یہ بات آپ نے اپنی وفات سے تقریباً دو مہینے پہلے اپنے ایک خطاب میں فرمائی تھی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ اصحابِ رسول کی بیش تر تعداد مکّہ اور مدینہ سے باہر چلی گئی۔ یہ لوگ مختلف بیرونی ملکوں میں پھیل گیے۔ ہر جگہ انھوں نے اسلام کے پیغام کو پہنچایا۔ اِن میں صحابہ کے علاوہ صحابیات بھی شامل تھیں۔ اِس کا تاریخی ریکارڈ یہ ہے کہ قَبرص (Cyprus) میںایک صحابیہ کی قبر اب تک موجود ہے۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ سمندری سفر کرکے وہاں پہنچی تھیں۔
اس صحابی خاتون کا نام اُمِّ حرام بنت ملحان ہے۔ یہ واقعہ صحیح البخاری میں تین مقام پر آیا ہے۔ کتاب الجہاد میں باب غزو المرأۃ فی البحرکے تحت، وہ اِس طرح نقل ہوا ہے:
’’عبداللہ بن عبدالرحمن انصاری روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ام حرام) بنتِ ملحان کے گھر آئے۔ آپ نے وہاں ٹیک لگائی(اور آپ سو گیے) پھر آپ ہنسے ۔ اُمّ حرام نے کہا: اے خدا کے رسول! آپ کیوں ہنسے۔ آپ نے کہا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں بحرِ اخضر (Mediterranean Sea) کا سفر کریں گے۔اُن کا درجہ (جنت میں) ایسا ہوگا جیسے تخت پر بادشاہ۔ ام حرام نے کہا کہ اے خدا کے رسول! اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھ کو اُن لوگوں میں سے بنائے۔ آپ نے کہا کہ اے اللہ! ام حرام کو اُن میں سے بنا۔ آپ دوبارہ لیٹ گیے، اور پھر (اُٹھ کر) دوبارہ ہنسے۔ اُمّ حرام نے دوبارہ ویسا ہی سوال کیا۔ آپ نے دوبارہ ویسا ہی جواب دیا۔ امّ حرام نے کہا کہ اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھ کو اُن لوگوں میں سے بنائے۔ آپ نے کہا کہ تم پہلے والوں میں سے ہو۔ اور تم بعد والوں میں سے نہیں ہو۔ (أنتِ من الأولین ولستِ من الآخرین)۔ انس نے کہا کہ پھر امّ حرام نے عُبادہ بن صامت انصاری سے نکاح کیا۔ پھر انھوں نے (اپنے شوہر اور) بنتِ قَرَظہ (زوجہ معاویہ بن سفیان) کے ساتھ سمندری سفر کیا۔ پھر واپسی میں وہ اپنی سواری پر بیٹھیں۔ پھر وہ سواری سے گر پڑیں اور ان کی وفات ہوگئی‘‘۔ (۶؍۹۰)
شارح کہتے ہیں کہ: دُفنت فی قبرص، و یسمّی قبرہا ہناک ’’قبر المرأۃ الصالحۃ‘‘۔ یعنی قبرص میں وہ دفن کی گئیں اور وہاں ان کی قبر کو ایک نیک خاتون کی قبر کہا جاتا ہے (حیاۃ الصحابۃ ۱؍۵۹۲)
اس حدیث میں دو ایسے مسلم قافلوں کا ذکر ہے جو دعوت الی اللہ کے لیے بیرونی سفر کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے مراد، دو مسلم ڈائسپورا (Muslim diaspora) ہے۔ پہلا ڈائسپورا وہ ہے جو صحابہ کے زمانے میں پیش آیا، جس کی ایک ممبر ام حرام تھیں۔ اور دوسرا ڈائسپورا وہ ہے جو موجودہ زمانے میں پیش آیا ہے، اور آپ جس کا ایک حصہ ہیں۔ میرا دل کہتاہے کہ اس حدیث میں آپ کے لیے ایک بشارت ہے۔ آپ گویا اسلامی تاریخ کی دوسری امّ حرام ہیں۔ آپ رسول اللہ کی اُس پیشین گوئی کا ایک حصہ ہیں جس میں بعد کے زمانے میں پیش آنے والے دوسرے قافلے کا ذکر کیاگیا ہے۔ امّ حرام اگر پہلے قافلے میں شامل تھیں تو آپ دوسرے قافلے میں شامل ہیں۔
مذکورہ حدیث کے مطابق، آپ کا سویڈن میں ہونا آپ کو یہ موقع دے رہا ہے کہ آپ اپنی دعا میں یہ کہہ سکیں کہ خدایا! مجھے اُس دوسرے دعوتی قافلے کا ایک ممبر بنا جو تیرے رسول کی پیشین گوئی کے مطابق، بیرونی سفر کرے گا اور بیرونی دنیا کے لوگوں کو تیرا پیغام پہنچائے گا۔ ایسی دعا بہت اہم دعا ہے جس میںآدمی کو دعا کرنے کے لیے کوئی ریفرنس مل رہا ہو۔ اور یہ حدیث آپ کو اس قسم کا ایک بہترین ریفرنس دے رہی ہے۔
دعا کے سلسلے میں ریفرنس کے معاملے کو سمجھنے کے لیے میں یہاں دو واقعہ نقل کروں گا۔ ایک واقعہ وہ ہے جو حدیث کی کتاب صحیح البخاری میں آیا ہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ تین اللہ کے بندوں نے اپنے ایک عمل کو بطور ریفرنس استعمال کرکے خدا سے دعا کی۔ یہ دعا اس طرح مقبول ہوئی کہ اس کی وجہ سے ایک پہاڑی پتھر کھسک گیا۔ اور اُن کے لیے راستہ نکل آیا(فتح الباری، کتاب الادب، باب اجابۃ دعاء من بَرَّ والدیہ، ۱۰؍۴۱۸)
دوسرا واقعہ خود میری ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ واقعہ میں نے اپنی کتاب سفر نامۂ اسپین وفلسطین میںلکھا ہے۔ اس واقعے کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’۲۹؍ اگست ۱۹۹۵کو میں دوسری بار مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا، اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔ اُس وقت اسرائیل کے اعتبار سے ۹ بجے صبح کا وقت تھا اور ہندستان کے لحاظ سے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت۔ نماز پڑھتے ہوئے میرا دل بھر آیا جب میں نے سجدہ کرتے ہوئے زمین پر سر رکھا تو اُس وقت میری زبان سے دعا کے یہ الفاظ نکلے: خدایا! زمانے کا فرق تیرے نزدیک کوئی فرق نہیں۔ تو میرے لیے زمانی دُوری کو ختم کردے اور مجھ کو اُس مقدس جماعت کی صف میں شریک کردے جب کہ رسول اللہ یہاں امامت کررہے تھے اور اُن کے پیچھے انبیاء صف باندھ کر نماز ادا کررہے تھے‘‘۔ (صفحہ ۱۳۴)
آپ جیسے لوگ جو مغربی ملکوں میں رہتے ہیںوہ وہاں کے بظاہر ناموافق ماحول سے اکثر پریشان رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم کس اندھیرے میں یہاں آکر پھنس گیے‘‘ مگر یہ منفی احساس درست نہیں۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کے اندر مثبت شعور پیدا ہو۔ آ پ یہ سوچیں کہ خدا نے ہم کو یہاں بھیج کر ہمارے ساتھ خصوصی رحمت کا معاملہ فرمایا ہے۔ یہاں بھیج کر اُس نے ہم کو یہ قیمتی موقع دیا ہے کہ ہم خدا کے بندوں کو خدا کا پیغام پہنچائیں اور خدا کی ابدی جنت کے مستحق بنیں۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ اِس قسم کی نگیٹیو سوچ کو پازیٹیو سوچ میں بدلیں۔ آپ یہ سوچیں کہ یہ وہ خصوصی معاملہ ہے جو خدا نے پیغمبرکے ساتھ کیا تھا۔ خدا نے اپنے پیغمبر کو بھٹکے ہوئے لوگوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ انھیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرے۔اِس رحمت کے معاملے کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لتخرج الناس من الظلمات إلی النور (ابراہیم ، ۱)
صحابی خاتون ام حرام بنت ملحان کے زمانے میں ڈائسپورا کا جو واقعہ پیش آیا وہ اسلام کی تاریخ میں مسلمانوں کا پہلا ڈائسپورا تھا۔ ڈائسپورا کا لفظ عام طورپر اُن یہودیوں کے لیے بولا جاتا ہے جو اپنے وطن فلسطین سے نکل کر باہر کے ملکوں میں گیے، اور وہاں غیر یہودیوں کے ساتھ رہنے لگے۔ اس اعتبار سے اسلامک ڈائسپورا یہ ہے کہ مسلمان اپنے وطن سے نکل کر باہر کے ملکوں میں جائیں اور وہاں ایسے مقامات پر رہائش اختیار کریں جہاں اُن کا انٹریکشن (interaction) غیر مسلموں سے ہونے لگے۔ یہی انٹریکشن دعوت کا اصل ذریعہ ہے۔ سویڈن یا دوسرے مغربی ملکوں میں جو مسلمان، تارکین وطن کی حیثیت سے رہتے ہیں، وہ یہی لوگ ہیں۔ یہ لوگ گویا کہ— مسلمس اِن ڈائسپورا (Muslims in Diaspora) کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ لوگ امکانی طورپر خدا کے سفیر (ambassadors of God) ہیں۔ اور آپ یقینی طورپر اُن میں سے ایک ہیں۔
آپ اور آپ جیسے دوسرے مسلمان عورت اور مرد جو یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں اُن کو اَصحابِ رسول کی یہی نسبت حاصل ہوگئی ہے۔ ان کا معاملہ اِس پہلو سے اصحابِ رسول جیسا معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گویا کہ آپ جیسے لوگوں سے دوبارہ یہ فرمارہے ہیں کہ اے میری امت کے لوگو! تم میری امت کے ’’آخرین‘‘ میں سے ہو۔ حالات نے تم کو جن غیر مسلم ملکوں میں پہنچایا ہے، وہاں کے لوگوں کو تم میرا پیغام پہنچا دو تاکہ اُن لوگوں کے سلسلے میں میری جو پیغمبرانہ ذمے داری ہے وہ تمہارے ذریعے ادا ہوجائے۔
یہ تفصیل میں نے اس لیے بیان کی تاکہ آپ پر یہ واضح کروں کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ کا فریضہ کیا ہے، اور خدا اور رسول کی طرف سے آپ کے اوپر کیا ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ وہ ذمّے داری ایک لفظ میں، دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو اُس کی بے آمیز صورت میں تمام لوگوں تک پہنچا دینا۔
اس وقت آپ جن لوگوں کے درمیان ہیں اُن میں غیر مسلم بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ غیر مسلم کا کیس اسلام سے بے خبری کا کیس ہے، اور مسلمانوں کا کیس اسلام سے غفلت کا کیس۔ غیر مسلم سِرے سے اِس بات کو نہیں جانتے کہ خدا نے اپنے پیغمبر کے ذریعے جو دین ،انسانیت کے لیے بھیجا ہے وہ کیا ہے۔ اور موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ رسمی طور پر اسلام سے آشنا ہیں مگر زندہ شعور کی حیثیت سے خدا کادین اُن کے ذہن کا حصہ نہیں۔ اب آپ جیسے لوگوں کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ دین حق کو غیر مسلموں کے لیے اُن کی ڈسکوری بنائیں اور مسلمانوں کے لیے دین حق کو اس حیثیت سے متعارَف کریں کہ وہ ان کے لیے ری ڈسکوری (re-discovery) بن جائے۔
میں عرض کروں گا کہ اگر آپ اِس کا فیصلہ کریں کہ آپ کو تاریخ اسلام کی دوسری ’’اُمّ حرام ‘‘ بننا ہے، تو آپ کے عمل کا نقطۂ آغاز صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے دعا اور مطالعہ۔ ہمارے یہاں جو کتابیں اردو اور انگریزی میں چھپی ہیں وہ سب براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اسی سے متعلق ہیں کہ موجودہ زمانے میں دعوتِ اسلام کا کام کس طرح کیا جائے۔ اِن تمام کتابوں کا مشترک موضوع صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب (modern idiom) میں بیان کرنا۔
آپ اگر سنجیدگی کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ آپ کو اپنی بقیہ زندگی دعوت الی اللہ کے کام میں لگانا ہے تو سب سے پہلے آپ کو اپنے آپ کوپوری طرح تیار کرنا ہوگا۔ دعوت کا کام منصوبہ بندی کا کام ہے۔ منصوبہ بندی کے بغیر دعوت کا کام مؤثر طورپر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ ماہ نامہ الرسالہ کے شمارہ اگست ۲۰۰۳ میں سوئزرلینڈ کا سفر نامہ شائع ہوا تھا۔ اس کے ٹائٹل پر میں نے لکھا تھا—’’اپنی زندگی کا پہلا نصف حصہ ہر آدمی کھوچکا ہے۔ کامیاب وہ ہے جو اپنی زندگی کے دوسرے نصف حصے کو نہ کھوئے‘‘۔ آپ اگر اِس جملے پر غور کریں تو آپ اس میں اپنے تمام سوالات کا جواب پالیں گی۔
میری ایک کتاب خواتین سے متعلق ہے۔ اس کا نام ’’عورت، معمارِ انسانیت‘‘ ہے۔ اس کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے بہترین ازدواجی زندگی وہ ہے جس میں شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر(intellectual partner) بن جائیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس اصول کو اپنی زندگی میں پوری طرح اختیار کرلیں۔ آپ اور آپ کے شوہر دونوں ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر بن جائیں۔ ازدواجی زندگی کی بلاشبہہ سب سے زیادہ معیاری صورت یہی ہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگ ایک خاص احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی زندگی کے ساتھی کو اپنا انٹلکچول پارٹنر نہیں بنا پاتے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرد زیادہ تعلیم یافتہ ہے اورعورت کم تعلیم یافتہ۔ اب مرد یہ سوچتا ہے کہ کم تعلیم یافتہ بیوی کو میں کس طرح اپنا انٹلکچول پارٹنر بناؤں۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عورت نے یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور مرد رسمی نوعیت کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ ایسی حالت میں عورت کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ اپنے کم تعلیم یافتہ شوہر کو کیسے اپنا انٹلکچول پارٹنر بناؤں۔ اس طرح بہت سے عورت اور مرد ایک عظیم نعمت سے اپنے آپ کو محروم کرلیتے ہیں۔
میں کہوں گا کہ کسی کو انٹلکچول پارٹنر بنانے کے لیے یونیورسٹی کی ڈگری کی ضرورت نہیں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: علّم اٰدم الاسماء کلہا (البقرہ: ۳۱) قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر تمام اشیاء کا علم رکھتا ہے۔ جدید تحقیقات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ہر فرد کے برین (brain) میں ہزاروں بلین سے بھی زیادہ پارٹکل ہوتے ہیں۔ یہ پارٹکل کیا ہیں۔ یہ دراصل انفارمیشن پارٹکل ہیں، یعنی علم کے پارٹکل۔
اس حقیقت کو سامنے رکھیے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ایک شخص اگر یونیورسٹی آف سویڈن کا سند یافتہ نہیں ہے تب بھی وہ یونیورسٹی آف گاڈ سے سند لے کر اس دنیا میں آیا ہے۔ ایسی حالت میں ہر انسان یکساں طورپر تعلیم یافتہ ہے۔ ہر عورت اور ہر مرد کے لیے یہ امکان پوری طرح موجود ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ساتھی کو اپنا انٹلکچول پارٹنر بنائے۔ اور ذہنی ارتقاء کے اُن عظیم فائدوں میں حصے دار بنے جو خالقِ فطرت نے ہر عورت اور مرد کے لیے مقدر کردیا ہے۔
میں کہوں گا آپ اس معاملے میں میرے مشورے کو مزید غور وفکر کے بغیر فوراً اختیار کرلیں اور آج ہی سے اپنے گھر کو انٹلکچول پارٹنر شِپ کا ایک نمونہ بنادیں۔ اس سے ایک طرف خود آپ کو غیر معمولی فائدے حاصل ہوں گے اور اس کے ساتھ آپ کا یہ عمل دوسروں کے لیے ایک قابلِ تقلیدمثال بن جائے گا۔ انٹلکچول پارٹنر شپ کے اس اصول کے بہت سے فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ کا گھر آپ کے لیے ایک جائے سُکون (peace haven) بن جاتا ہے۔
نئی دہلی ۳۰ نومبر ۲۰۰۵ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

ایک خط اور اس کا جواب

ایک ضروری بات یہ عرض کرنا ہے کہ ماہ نامہ الرسالہ کے شمارہ نومبر 2005 میں جو مضمون ’جنت کے دروازے پر‘کے عنوان سے ہے شاید سہواً اس میں کئی باتیں نظر انداز ہوگئی ہیں۔
۱۔ اس میں جنت کو انسانی تہذیب کا ایک ارتقائی مرحلہ بتایا گیا ہے۔ جو انسانی ہاتھوں سے وجود میں آنے والا ہے۔ اور یہ سب سائنسی کرشموں سے ہوگا۔ گویا جنت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو کبھی بھی سائنسی سہولتوں کے ذریعے زمین کو جنت کی طرح بنا لیں۔ اس خیال کے تحت تو آج بھی بہت سے لوگ جنت ہی کے مالک کہلائیں۔ اور ماضی میں بھی رہے۔ اس مسئلے کا تعلق اللہ کی ہدایات اور قرآن اور رسالت سے قطعاً نہیں رہا۔
۲۔ برے لوگ الگ کر دئیے جائیں گے یعنی برے لوگ وہ ہوں گے جو اس سائنسی انقلاب میں کوئی رول ادا نہیں کرپائیں گے۔ اس طرح کفر وایمان کے مسئلے کے بجائے مسئلہ سائنسی سہارے کا ہوگیا۔
۳۔ بَعث بعد الموت کا مسئلہ سرے سے ختم ہی ہوگیا۔
۴۔ اس قسم کی سائنسی جنت میں اللہ کے وہ بندے جن میں انبیاء و رسل بھی ہیں وہ کیسے داخل ہوں گے۔
۵۔ قرآن کا وما أمر الساعۃ الا کلمح البصر کے عقیدے کاکیا ہوگا۔
۶۔ حشر ونشر نامۂ اعمال حساب وکتاب اور برزوا للہ الواحد القہار اور کل یأتیہ یوم القیامۃ فرداً۔ اور نفخ فی الصور وغیرہ ان تمام آیات کا کیا ہوگا۔
۷۔ زندگی جو موجودہ ہے، اس کا ابتلاء کے لیے عارضی ہونا اور اس دنیا میں اہل جنت کاسلیکشن ہونا جو سب کچھ آپ نے لکھا ہے اس کا کیا ہوگا۔ اور کیا سائنسی جنت جو انسان کے موجودہ تسلسل سے وجود میں آئے گی۔ اس میں موت وپیدائش کا موجودہ تسلسل رہے گا یا ختم ہوجائے گا۔ یہ سب باتیں اپنے انداز میں عنایت اللہ خاں مشرقی نے بھی لکھی ہیں۔ اسی الرسالہ کے دوسرے مضامین بھی اس مضمون کی نفی کرتے ہیں۔ یہ مضمون کیسے تحریر ہوگیا خدا کے لیے فوری طورپر اس پر غور فرمائیں۔ ایک اور مضمون لکھا جائے اور اس میںبات واضح کی جائے اور اس بات کو تمثیل قرار دیا جائے۔ (ڈاکٹر حمید اللہ ندوی، بھوپال)
جواب
آپ کے اس خط (۲۶؍ اکتوبر ۲۰۰۵) میں الرسالہ نومبر ۲۰۰۵ کے بارے میں منفی تأثر کا اظہار کیا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اسی پرچے کو پڑھ کر بہت سے لوگوں نے برعکس طورپر نہایت مثبت تاثر قبول کیا ہے۔ کئی ہندوؤں نے اس مضمون کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر مزید اسلامی لٹریچر کے مطالعے کی خواہش ظاہر کی ۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ اس کو پڑھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں جنت کے دروازے پر پہنچ گیا ہوں، وغیرہ۔
۱۹ نومبر ۲۰۰۵ کی صبح کو دہلی میں میرے دفتر میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ رسیور اٹھایا تو مہتاب احمد صاحب بول رہے تھے۔ وہ ضلع بجنور کے دھام پور میں رہتے ہیں۔ (Tel: 01344-220 361) انھوں نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا: مجھے آپ کی تحریروں نے خدا سے ملا دیا۔ الرسالہ (نومبر ۲۰۰۵) کو پڑھ کر آپ کے لیے میر دل سے بہت زیادہ دعائیں نکلیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے اِس دَور میں جدید ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے آپ کی تحریریں بہت مؤثر ہیں۔ روایتی قسم کے لکھنے والے آج کے ذہن کو مطمئن نہیں کرسکتے تھے۔ یہ کام صرف آپ کی تحریریں کررہی ہیں۔
آپ الرسالہ کے مذکورہ مضمون کو دوبارہ پڑھیں تو مجھے یقین ہے کہ آپ کا اشکال اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ آپ یقینی طورپر یہ جان لیں گے کہ عنایت اللہ خاں مشرقی کی بات اور الرسالہ کی بات ایک دوسرے سے اتنی زیادہ مختلف ہے کہ دونوں کو ایک کہنا، آدمی کو مائنس مارکنگ کا مستحق بناتا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ اِس مضمون کو دوبارہ تمثیل کے طورپر لکھنا چاہیے۔ میں عرض کروں گا کہ نومبر ۲۰۰۵ کے الرسالہ میںچھپنے والا یہ مضمون خود ہی ایک تمثیلی مضمون ہے۔ اس میں ایک سے زیادہ بار ’’گویا کہ‘‘کا لفظ آیا ہے۔ یہ لفظ واضح طورپر بتا رہا ہے کہ یہ مضمون بطور تمثیل ہی لکھا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی نہایت واضح ہے کہ اِس مضمون کا مقصد متشکک ذہن کے لیے آخرت کی جنت کو ’’قابلِ فہم‘‘ بنانا ہے۔ اِس مضمون میںکہیں بھی ’’سائنسی جنت‘‘ یا ’’انسان کی تعمیر کردہ جنت‘‘کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس کے برعکس، اس میں صاف طور پر یہ بات موجود ہے کہ یہ جنت براہِ راست خدا کے حکم سے بنے گی (الزمر: ۶۹) اور خدا کے ’’فرشتے‘‘ اس کو اعلیٰ صورت میں بنائیں گے۔ اس مضمون میں بار بار قرآن کی آیتوں کے حوالے دیے گیے ہیں۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مضمون قرآنی آیات کی تفسیر کے طورپر لکھا گیا ہے نہ کہ کسی الگ نظریے کے تحت۔ اِس مضمون کو سمجھنے کے لیے نہ صرف خود مضمون کو گہرائی کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کی محوّلہ آیتوں کا از سرِ نو مطالعہ کیا جائے۔
الرسالہ ماہ نومبر ۲۰۰۵ میں شائع شدہ مضمون کا مقصد خود جنت کو بتانا نہیں ہے بلکہ ایک معلوم واقعے کو لے کر غیر معلوم واقعے پر استدلال قائم کرنا ہے۔ یعنی مشہود (seen) کے حوالے سے غیرمشہود (unseen) کو قابل فہم بنانا۔ مذہبیّات میں یہ ایک معروف استدلالی اسلوب ہے۔
استدلال کا یہ اسلوب خود قرآن میں موجود ہے۔ قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر بَعث بعد الموت کو ثابت کرنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ زمین پر ہونے والے ایک طبیعی واقعے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ خشک زمین پر بارش ہوتی ہے اور پھر وہاں سرسبز درخت اور پَودے اُگ آتے ہیں۔ خشک زمین پر سبزہ اُگنے کے اِس واقعے کو لے کر فرمایا کہ: اِسی طرح مردہ انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ (کذٰلک النشور، فاطر: ۹ ،کذلک الخروج، ق: ۱۱)
اِس طرح کی آیتوں پر غور کیجئے۔ خشک زمین سے پودے کا اُگنا واضح طور پر اسبابِ طبیعی کے تحت پیش آنے والا واقعہ ہے۔ اس کے برعکس، بعث بعد الموت ایک ایسا واقعہ ہے جو اسباب طبیعی کو توڑ کر بر اہِ راست حکمِ خداوندی کے تحت پیش آئے گا۔ اِس تشبیہہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں واقعے کی نوعیت بالکل ایک ہے۔ یہ تشبیہہ صرف تقریبِ فہم کے لیے ہے نہ کہ اصل صورتِ حال کو اس کی حقیقی نوعیت کے اعتبار سے بتانے کے لیے—قرآن کی اِس مثال سے مذکورہ معاملے کو بخوبی طورپر سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک لفظ میں، یہ اسلوبِ بیان دعوتی ضرورت کے طورپر ہے نہ کہ بیانِ حقیقت کے طورپر۔
الرسالہ نومبر ۲۰۰۵ میں جنت کے بارے میں جو مضمون شائع ہوا ہے وہ جنت کی اصل حقیقت کو بتانے کے لیے نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جدید ذہن کے لیے وقوعِ جنت کا امکان (probability) ثابت کیا جائے۔ اِس مضمون کا مقصد جنت کی واقعی حیثیت کو بتانا نہیںہے بلکہ منکر اور متشکک لوگوں کے لیے جنت کے تصور کو قابل فہم بنانا ہے۔ اس مضمون کا مقصد جنت پر سائنسی استدلال ہے نہ کہ خود جنت کو سائنسی جنت ثابت کرنا۔ اس مضمون کا مقصد صرف یہ ہے کہ متشکک ذہن، اسلامی نقطۂ نظر کو قابلِ توجہ سمجھے اور پھر مزید مطالعہ کرکے وہ حقیقی تصوّر جنت کو دریافت کرسکے۔
قدیم مکّہ میں ایک مشرک پہلوان تھا اُس کا نام رُکانہ تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتا تھا۔ رسول اللہ نے ایک بار اس سے کہا کہ اے رُکانہ!اگر میں تم کو کُشتی میں پچھاڑ دوں تو کیا تم مجھے پیغمبر مان لوگے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ (قال رسول اللہ ﷺ: أفرأیت إن صرعتک أتعلم أنّ ما أقول حق، قال: نعم!) اس کے بعد دو بار کشتی ہوئی اور رسو ل اللہ نے دونوں بار رکانہ کو پچھاڑ دیا۔ ( سیرت ابن ہشام، جلد اول، صفحہ ۶۱۵)
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ جو شخص کسی پہلوان کو کشتی میں پچھاڑ دے وہ پیغمبر ہے۔ یہ صرف تقریبِ فہم کی بات تھی۔ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ رکانہ کے ذہنی سانچے کے مطابق، اس کو نبوت کے معاملے پر سوچنے کے لیے مجبور کیاجائے۔ یہ بات مخاطب کی نسبت سے تقریبِ فہم کے لیے تھی نہ کہ خود اصل واقعے کی نسبت سے حقیقتِ نبوت کا بیان۔
قدیم روایتی منطق میں استدلال کا مطلب صرف یہ ہوتا تھا کہ انکار کے مقابلے میں اقرار کو ثابت کرنا۔ اب سائنسی منطق کے مطابق، استدلال کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ کسی واقعے کے امکان (probability) کو ثابت کیا جائے۔ مذکورہ مضمون کو اسی اعتبار سے دیکھنا چاہیے۔ مذکورہ مضمون کے مخاطب مومنینِ جنت نہیںہیں بلکہ اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں جنت کے بارے میں شکوک اور شبہات ہیں۔
جہاں تک جنت کے بارے میں میرے ذاتی نقطۂ نظر کی بات ہے۔ اس میں کسی کے لیے شک کا کوئی موقع نہیں۔ میرے ہزاروں شائع شدہ مضامین سے اور تذکیر القرآن سے دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ جنت کے بارے میں میرا عقیدہ عین وہی ہے جو تمام صلحاء امت کا ہمیشہ رہا ہے۔
مولانا محمد ذکوان ندوی مجھ کو بہت عرصے سے نہایت قریب سے جانتے ہیں۔ انھوں نے میری دوسری تحریروں کے علاوہ الرسالہ نومبر ۲۰۰۵ کے مذکورہ مضمون کو بھی پڑھا ہے۔ اُن سے میں نے پوچھا کہ ذاتی معلومات کے ذریعے آپ کو میرا جو تعارف حاصل ہوا ہے اس کے مطابق، اِس پہلو سے میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ انھوں نے کہا —’’میرے نزدیک آپ کو جنت کی قرآنی معرفت (محمد: ۶) حاصل ہے۔ یعنی آپ کا تصورِ جنت قرآنی تصور جنت ہے نہ کہ سائنسی تصور جنت۔ مزید یہ کہ آپ کے اِس مضمون نے جدید ذہن کے لیے جنت کو آخری حد تک قابل فہم (understandable) بنادیا ہے‘‘۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادرِ محترم مولانا محی الدین غازی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہنامہ رفیقِ منزل (نئی دہلی) کا شمارہ دسمبر ۲۰۰۵ دیکھا۔ اس شمارے میں آپ کا ایک مضمون چھپاہے۔ اس مضمون کاعنوان ہے—فقہ الاقلیات:ایک تعارف۔ اس مضمون کو دیکھنے کے بعد میںآپ کو یہ خط لکھ رہاہوں۔ اس سلسلے میں مجھے آپ سے دوباتیں کہنا ہے۔
موجودہ زمانے میں فقہ الاقلیات کے نام سے ایک نیا موضوع سامنے آیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی تحریریں اردو، عربی اور انگریزی میں شائع ہوئی ہیں۔ اِن تحریروں میں اکثر تحریروں سے مجھے واقف ہونے کا موقع ملا ہے۔ اس سلسلے میں اپنا تأثر آپ تک پہنچانے کے لیے آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔
پہلی بات یہ کہ غیر مسلم ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کا مطالعہ ’’اقلیت‘‘ کی حیثیت سے کرنا، میرے نزدیک، اصولی طورپر ہی غلط ہے۔ مسلمان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ داعی گروہ ہیں نہ کہ محض اقلیتی یا اکثریتی گروہ۔ مسلمان کو داعی گروہ کا درجہ دیا جائے تو اس سے مسلمانوں کی دعوتی ذمے داری سامنے آتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر مسلمانوں کو معروف معنوں میں اقلیت کہاجائے تو اُس سے یہ تأثر پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ایک ایسا گروہ ہیں جن کو غیر مسلم اکثریت کی طرف سے کچھ مسائل درپیش ہیں، اور ضرورت یہ ہے کہ اِن مسائل کو حل کیا جائے۔ مثلاً دینی شناخت کو برقرار رکھنے کا مسئلہ۔ گویا کہ یہ مسلمان صرف ایک متأثر گروہ ہیں نہ کہ ایک مؤثّر گروہ۔
اقلیتی مسائل کا یہ نظریہ مسلمانوں کے اندر وہ ذہن بناتا ہے جس کو قرآن کی تعبیر کے مطابق، غیر ناصح اور طالبِ اجر ذہن کہا جاسکتا ہے، اور اس قسم کا ذہن یقینی طورپر اسلامی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ ذہن مسلمانوں کے اندر بیک وقت دو نقصان کا سبب بنتا ہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے اندر فکری ارتقاء(intellectual development) کا عمل رُک جاتا ہے، کیوں کہ فکری ارتقاء کھلے ماحول میں ہوتا ہے نہ کہ بندش کے ماحول میں۔ اور اپنے آپ کو اقلیت سمجھنا، آدمی کے اندر کھلی تفکیر کا مزاج ختم کردیتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس قسم کا ذہن حقیقی دعوتی عمل کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔کیوں کہ اقلیت کا تصور حریفانہ نفسیات پیدا کرتا ہے۔ جب کہ دعوت کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان دوستانہ تعلق پایا جارہا ہوں۔
اس کی ایک مثال مشہور عرب عالِم ڈاکٹر یوسف القرضاوی ہیں۔ میںنے ان کی تحریریں پڑھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے مسائل کا معاملہ ہو تو وہ تیسیر کے اصول پر فتویٰ دیتے ہیں، اور اگر غیر مسلموں کی نسبت سے کوئی معاملہ ہو، مثلاً غیر مسلموں کے خلاف مسلمانوں کی خود کُش بم باری، تو وہ بَرعکس طورپر، تَعسیر کے اصول پر اپنا فتویٰ جاری کرتے ہیں۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ اِس قسم کے لوگ اپنے مذکورہ ذہن کی بنا پر مسلم کے بارے میں ہمدرد، اور نان مسلم کے بارے میں غیرہمدرد بن جاتے ہیں۔
آپ جیسے لوگ ’’اقلیت‘‘ کے نام سے مسلمانوں کو جو سوچ دے رہے ہیں اُس کا یہ نتیجہ ہے کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر،شکست خوردہ ذہنیت پرورش پارہی ہے۔ ہر معاملے میں اُن کی سوچ غیر تعمیری سوچ بن گئی ہے۔ مگر قرآن ’’اقلیت‘‘ کو جو ذہن دیتا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ قرآن ایسے لوگوں کے اندر مفتوح نفسیات کے بجائے فاتح نفسیات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر قرآن کی اس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃً بإذن اللہ (البقرۃ: ۲۴۹)
اِس آیت میں اِذن سے مراد خدا کا قائم کیا ہوا قانونِ فطرت ہے۔ یہ دنیا جس قانون کے تحت چل رہی ہے وہ یہ ہے کہ سماج میں جو اقلیتی گروہ ہو اُس کے اندر تحدّیاتی حالات کے نتیجے میں تخلیقی صلاحیتیں ابھریں۔ وہ بڑے بڑے کام کرنے کے قابل ہوسکے۔ اِس اصول کا مظاہرہ خوداسلام کی ابتدائی تاریخ میں ہوا ہے۔ قدیم مکّہ میں جن لوگوں نے اسلام کی صورت میں سچّائی کو دریافت کیا وہ عددی اعتبار سے وہاں اقلیتی گروہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگراسی اقلیتی گروہ نے وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کی کوئی دوسری مثال معلوم تاریخ میں نہیں ملتی۔
اس سلسلے میں ایک اور بات نہایت قابل ذکر ہے۔ وہ یہ کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی، ڈاکٹر طٰہ جابر علوانی، خالد محمد عبدالقادر اور اِس طرح کے دوسرے لوگ اس موضوع پر جس انداز سے لکھتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک یہ مسئلہ صرف مسلم اقلیت کا مسئلہ ہے، مگر یہ بات درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں یہ مسئلہ مسلم اکثریت کے لیے بھی اُسی طرح ایک سنگین مسئلہ ہے جس طرح وہ مسلم اقلیت کے لیے ایک سنگین مسئلہ نظر آتا ہے۔ صرف اِس فرق کے ساتھ کہ مسلم اقلیت کے علاقوں میں یہ مسئلہ اگر ہمسائیگی کے نتیجے میں پیش آیا ہے تو مسلم اکثریت کے علاقوں میں خود مسلمانوں نے اس کو باہر سے امپورٹ کرلیا ہے۔ شاعر کے الفاظ میں:
کیوں نہ ٹھہریں ہدفِ ناوکِ بیداد،کہ ہم خود اُٹھا لاتے ہیں، گر تیر خطا ہوتا ہے
میں نے ایک عربی جریدے میں ایک مضمون پڑھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ مسلم اقلیتوں کو یہ خطرہ درپیش ہے کہ وہ غیر مسلم تہذیب میں گھُل مل جائیں (الأقلیات المسلمۃ تواجہ خطر الذَوبان) یہ مضمون ہندستان جیسے ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا۔ مگر ’’ذَوبان‘‘ کا یہی خطرہ خود مسلم اکثریت کے علاقوں میں بھی یکساں طورپر موجود ہے۔ وہ اس طرح کہ ایسے علاقے کے مسلمان بہت بڑے پیمانے پر مغربی کلچر کوخود مغربی ملکوں سے در آمد کررہے ہیں اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مغربی کلچر کسی بھی حال میں انڈین کلچر سے کم ضرر رساں نہیں۔ عرب اور دوسرے مسلم اکثریت کے اہل علم اس موضوع پر اس طرح لکھتے ہیں جیسے وہ خود اس فتنے سے محفوظ ہوں۔ حالاں کہ جاننے والے جانتے ہیں کہ غیر مسلم تہذیب کا فتنہ بارش کی طرح خود اُن کے اوپر بھی برس رہا ہے، اور یہ تمام لوگ عملاً اس میں غرق ہوچکے ہیں۔
وہ چیز جس کو اقلیت کا مسئلہ کہاجاتا ہے، وہ عملی طورپر سوسال سے بھی زیادہ مدت سے دنیا میں موجود ہے۔ لیکن فقہ الاقلیات کی اصطلاح اکیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی۔ ابتداء ً اِس طرزِ فکر کا آغاز معربی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوںکے مسائل سے ہوا۔ مثلاً ذبیحہ اور غیر ذبیحہ کا مسئلہ، اوقاتِ عبادت کا مسئلہ، نکاح وطلاق کا مسئلہ، بینکوں سے مالی لین دین کا مسئلہ وغیرہ۔ گویا کہ فقہ الاقلیات کا موضوع حالات کے ردّ عمل کے تحت وجود میں آیا، وہ کسی مثبت فکر کی پیداوار نہ تھا۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ و تابعین بڑی تعداد میں عرب علاقے سے نکلے اور بیرونی ملکوں میں جاکر آباد ہوگیے۔ اِن ملکوں میں اُس وقت غیر مسلموں کی اکثریت تھی اور صحابہ وتابعین کی حیثیت اقلیت کی۔ مگراُس وقت ایسا نہیں ہوا کہ ان کا مطالعہ فقہ الاقلیات کے تحت کیاجائے۔ ان کے لیے بھی بلا شبہہ وہ جزئی مسائل پیدا ہوئے جو آج مسلم اقلیتوں کی نسبت سے پیدا ہوئے ہیں۔ مگر اُس وقت کے علماء اور فقہاء نے ان کے معاملات کے مطالعے کے لیے فقہ الاقلیات کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کی فقہی کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں فقہ الاقلیات کا باب موجو نہیں۔
اس کا سبب یہ ہے اس زمانے کے صحابہ وتابعین جس ذہن کے تحت بیرونی ملکوں میں جاکر بسے تھے، وہ مکمل طورپر مثبت قسم کا دعوتی ذہن تھا۔ مثبت ذہن وہ ہے جو اصولِ عام کے تحت بنے، اور ردِّعمل کا ذہن وہ ہے جو وقتی حالات کے تحت بنے۔ اس مثبت ذہن کی بنا پر ایسا ہوا کہ ان کی ساری سوچ دعوت رُخی (Dawah Oriented) سوچ بنی۔ بقیہ تمام چیزیں ان کے لیے سکنڈری درجے میں چلی گئیں۔ اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کی مسلم اقلیتیں صرف اپنے ’’ملّی‘‘ مسائل کے حل میں مصروف ہے۔ جو کہ آج تک حل نہیں ہوئے اور نہ وہ کبھی حل ہونے والے ہیں۔ اس کے برعکس، صحابہ و تابعین کے دعوتی مزاج کا یہ نتیجہ ہواکہ انھوں نے بیرونِ عرب کے ان ملکوں کو اسلامائزکردیا۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ جغرافی علاقہ وجود میں آیا جس کو بلادِ عرب یا بلادِ مسلمین کہا جاتا ہے۔
اس پہلو سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ فقہ الاقلیات کی اصطلاح ایک مبتدعانہ اصطلاح ہے۔ صحابہ وتابعین کے نمونے کو دیکھتے ہوئے صحیح بات یہ ہوگی کہ فقہ الدعوۃ کی اصطلاح وضع کی جائے۔ اور اس موضوع کے تحت اس بات کا مطالعہ کیا جائے کہ صحابہ و تابعین نے کس طرح پورے پورے علاقے کے لوگوں کو اسلام میں داخل کردیا۔ غیر مسلم ملکوںمیں آباد مسلمانوں کے لیے فقہ الاقلیات کی اصطلاح ایک تباہ کن اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح اِن مسلمانوں کے اندر ایک غیر مطلوب قومی ذہن بناتی ہے۔ جب کہ فقہ الدعوہ کی اصطلاح ان کے اندر داعیانہ ذہن بنانے والی ہے جو کہ ایک آفاقی ذہن ہے نہ کہ کسی قسم کا محدود ذہن۔
آج کل مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والوں میں ایک بات بہت عام ہے۔ وہ بہت جوش کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل دین ہے (الإسلام دین شامل وکامل) مگر عجیب بات ہے کہ ان لوگوں کو قرآن میں مفروضہ طورپر سیاسی ہنگامہ آرائی کے لیے توآیتیں مل جاتی ہیں مگر مسلم اقلیت کی رہنمائی کے لیے انھیں قرآن میں کوئی آیت نہیں ملتی۔ یہ لوگ اپنی نام نہاد انقلابی سرگرمیوں کے لیے تو فقہُ السیاسۃ کا موضوع ایجاد کرلیتے ہیں مگر مسلمانوں کی دعوتی ذمّے داریوں کو بتانے کے لیے انھیں فقہ الدعوہ کی تعلیمات قرآن اور حدیث میں دکھائی نہیں دیتیں۔
قرآن کو آپ اس نظر سے پڑھیں تو آپ کو قرآن میں اس موضوع پر واضح رہنمائی ملے گی۔ مثال کے طورپر قرآن میں سورہ البقرہ کی آیت ۲۴۹ ،جس کا حوالہ اس تحریر میں اوپر آچکا ہے۔ قرآن کی اس آیت کی روشنی میں مسلم اقلیات کے مسئلے پر غور کیجیے تو اس سے مثبت قسم کا ایک صحت مند ذہن بنتا ہے۔ یہ آیت ان کو دفاعی نفسیات سے اٹھاکر اقدام کی نفسیات عطا کرتی ہے۔ اِس آیت میں انھیں تعمیرِمستقبل کا ذہن ملتا ہے نہ کہ صرف تحفّظِ حال کا ذہن۔ یہ آیت انھیں یاد دلاتی ہے کہ وہ اپنے سماج میں نافع بن کررہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے سماج میں صرف رسیونگ اینڈ پر نہیں ہیں۔ وہ اپنے سماج میں دینے والے گر وہ (giver group) بن کر رہ سکتے ہیں نہ کہ صرف لینے والے گروہ (taker group) ۔ قرآن کی یہ آیت اُن کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا کرنے والی ہے جس کو تخلیقیت(creativity) کہاجاتا ہے۔
میرے نزدیک، فقہ الاقلیات کے نام سے نئی اصطلاح وضع کرنا ایک نا سمجھی کی بات ہے۔ جب قرآن میں اس سلسلے میں واضح ہدایت موجود ہے اور جب صحابہ وتابعین کی زندگی میں اس سلسلے میں واضح تاریخی نمونہ پایا جاتا ہے تو ہم کو چاہیے کہ اسی کی رہنمائی میں مسلمانوں کا رویّہ معلوم کریں نہ کہ غیرضروری طورپر ایک نئی اصطلاح وضع کرکے مسلمانوں کو کنفیوژن میں مبتلا کردیں۔
دوسری بات کا تعلق آپ کی ذات سے ہے۔ آپ نے اپنے اِس مضمون میں اُس غیر اسلامی فعل کا ارتکاب کیا ہے جس کو قرآن میں کِتمانِ حق کہا گیا ہے۔ وہ یہ کہ آپ نے فقہ الاقلیات کے موضوع پر لکھتے ہوئے ان لوگوں کا تذکرہ تو نمایاں انداز میں کیا ہے جو غیر مسلم اکثریت کے علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کوصرف ’’اقلیت‘‘ کا درجہ دیتے ہیں اور اقلیت کی حیثیت سے ان کے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں، مثلاً ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور ڈاکٹر طٰہ جابر علوانی وغیرہ۔ مگراسی کے ساتھ آپ نے اس موضوع کے ایک اہم جُز کا سرے سے نام ہی نہیں لیا، اور وہ ہے الرسالہ کا نقطۂ نظر۔
یہ ایک معلوم اور معروف واقعہ ہے کہ اقلیات کے موضوع پر یہاں ایک اور مستقل نقطۂ نظر موجود ہے۔ اور وہ الرسالہ کا نقطۂ نظر ہے۔ ماہنامہ الرسالہ جو ۱۹۷۶ سے شائع ہورہا ہے، اس میں بار بار نہایت واضح انداز میں یہ بات کہی گئی ہے کہ غیر مسلم اکثریت کے علاقے میںجو مسلمان رہتے ہیں ان کی حیثیت اسلامی تعلیم کے مطابق، اقلیتی گروہ کی نہیں ہے بلکہ ان کی حیثیت داعی گروہ کی ہے۔ گویا کہ ہندستان دارِ دعوت ہے نہ کہ دارِ غیرمسلمین۔ اقلیتی گروہ کا لفظ یہ تصور دیتا ہے کہ ان علاقوں کے مسلمان دفاعی پوزیشن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، داعی گروہ کا لفظ مسلمانوں کو اقدامی گروہ کا درجہ دے رہا ہے۔ پہلا نقطۂ نظر اگر منفی نطقۂ نظر ہے تو دوسرا نقطۂ نظر مثبت نقطۂ نظر۔ پہلا نقطۂ نظر اگر سلبی نقطۂ نظر کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسرے نقطۂ نظر کی حیثیت ایجابی نقطۂ نظر کی ہے۔ پہلا نقطۂ نظر اگر قومی نقطۂ نظر ہے تو دوسرا نقطۂ نظر آفاقی نقطۂ نظر۔
’’فقہ الاقلیات‘‘ کا معاملہ میرے نزدیک کوئی سادہ معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ اور اس سنگینی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کے اندر غیر صحت مند ذہن بنتا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی گروہ کے لیے اس سے زیادہ تباہ کُن کوئی چیز نہیں کہ اُس کے اندر غیر صحت مند فکر پیدا کی جائے۔
نئی دہلی ۳۰ نومبر ۲۰۰۵ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۴

۱۔ جَین ٹی وی (نئی دہلی) نمائندہ مسٹر انظر نے ۵؍ اکتوبر ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کاویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق روزہ اور رمضان سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ قرآن کے مطابق، قرآن کو رمضان کے مہینے میں اتارا گیا، اور پھر اس ماہِ رمضان میں روزے فرض کیے گیے۔ اس لیے روزہ اور قرآن میں گہری مناسبت ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ مخصوص عبادت میں مشغول ہوکر زیادہ سے زیادہ قرآن کا مطالعہ کیا جائے۔ اور یہ سمجھا جائے کہ قرآن کس قسم کا انسان بنانا چاہتا ہے اور پھر ویسا ہی انسان بننے کے کوشش کی جائے۔
۲۔ ملیالم زبان کے پندرہ روزہ میگزین تھیجس (Thejus) کے نمائندہ مسٹر ایم نوشاد نے اپنے میگزین کے لیے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ۲۶ ؍نومبر ۲۰۰۵ کو لیا گیا۔ انٹرویور ملاپورم(Malappuram) میں رہتے ہیں۔ انٹرویو دہلی میں ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلمانوں کے ملکی اور غیر ملکی مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سوچ رد عمل کے تحت بنی ہے۔ مثبت غور وفکر کے تحت ان کی سوچ نہیں بنی۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی اصلاح کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ ان کی منفی سوچ کو مثبت میں تبدیل کیاجائے۔ اِسی سے ان کی دینی اصلاح ہوگی اور اسی سے ان کے دنیوی مسائل حل ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ رزرویشن مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے، یہ دَور مقابلے کا دَورہے۔ مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں میں یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ مقابلے کا سامنا کرکے آگے بڑھیں۔ رزرویشن کا مطلب یہ ہے کہ مقابلے کا سامنا کیے بغیر ترقی کی جائے۔ مگر موجودہ حالات میں رزرویشن کا فارمولاسرے سے قابل عمل ہی نہیں۔
۳۔ ای۔ ٹی۔وی(نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر قاسم نے ۶؍اکتوبر کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویوریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا تعلق روزے سے تھا۔ احادیث کے حوالے سے بتایا گیا کہ روزہ صرف بھوک پیاس کانام نہیں بلکہ وہ تقویٰ کی ٹریننگ ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو کہ وہ اپنی خواہشات پر کنٹرول کرتے ہوئے زندگی گذاریں۔ روزہ در اصل اسی چیز کی ایک سالانہ تربیت ہے۔
۴۔ پی۔ ٹی۔ آئی (P.T.I.) کے نمائندہ سرمیت سنگھ نے ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلیفون پر ریکارڈ کیاگیا۔ سوالات کا تعلق اس مسئلے سے تھا کہ حکومت سماج کے پچھڑے طبقوں کی فلاح کے لیے جو اسکیمیں چلاتی ہے، وہ سماج کے لیے کتنی مفید ہیں۔ جواب میں بتایا گیا کہ انڈیا جیسے ملک میں ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہاں کرپشن اتنا زیادہ بڑھا ہوا ہے کہ ہر سماجی اسکیم کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اسکیم چلانے والوں کو لوٹ کا ایک اور موقع مل جاتا ہے۔ میرے نزدیک اصل کام صرف دو ہے۔ ایک، یہ کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ دوسرے یہ کہ ملک میں بہترین انفراسٹرکچر تیار کیا جائے۔ یہ دونوں کام پرائیویٹ سیکٹر کے تحت انجام دیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ سرکاری سیکٹر کبھی حقیقی معنوں میں ترقی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
۵۔ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ نَو بھارت ٹائمس کے نمائندہ مسٹر ندیم اختر نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ ۱۱ نومبر ۲۰۰۵ء کوبذریعہ ٹیلی فون یہ انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کے مسائل سے تھا۔ مثلاً رزرویشن، وغیرہ۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ انڈیا میں بیس کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ان کا مسئلہ کبھی رزرویشن سے حل نہیں ہوسکتا۔ ان کا مسئلہ صرف داخلی کوشش سے حل ہوگا۔ اور داخلی کوشش کا سب سے زیادہ صحیح آغاز یہ ہے کہ مسلمان تعلیم میں آگے بڑھیں۔ مسلمان ہر جگہ اعلیٰ معیار کے اسکول کھولیں اور دوسروں کے قائم کیے ہوئے اچھے اسکولوں میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کریں۔ مسلم نوجوانوں میں رزرویشن کے بجائے محنت کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ معاشیات میں لبرل پالیسی اختیار کرنے کے بعد مسلمان معاشی اعتبار سے بہت ترقی کررہے ہیں۔ مگر یہ لوگ اپنے پیسے کا استعمال زیادہ تر نمائشی چیزوں میں کرتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پیسے کو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے میں خرچ کریں، اور اگر ممکن ہو تو کم آمدنی والے بچوں کی تعلیم میں مدد کریں۔ یہی مسلمانوں کے لیے ترقی کی طرف سفر کا آغاز ہے۔
۶۔ دور درشن (نئی دہلی) میں ۳ نومبر ۲۰۰۵ کی صبح کو لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت، صدر اسلامی مرکز کا ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام کا موضوع تھا: روزہ اور رمضان۔ یہ پروگرام دور درشن کے ہندی شعبے کے تحت کیاگیا۔ اس میں بتایا گیا کہ روزہ محض بھوک پیاس کانام نہیں، بلکہ وہ ایک اخلاقی اور روحانی تربیت کا خدائی کورس ہے:
Roza is a training for a life of patience.
روزے میں افطار پارٹی گویا انٹریکشن پارٹی ہے۔ افطار پارٹی اگر بامقصد انداز میں کی جائے تووہ ایک اچھا طریقہ ہے۔ اس کے ذریعے یہ موقع ملتا ہے کہ لوگوں کے درمیان مذہب کا صحیح تعارف پیش کیا جائے۔ افطار پارٹی لوگوں کو اسلام کے موضوع پر ڈائیلاگ کا موقع دیتی ہے۔
۷۔ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کی نمائندہ مز حمراء قریشی (Tel: 25646745) نے ۶نومبر ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق اسلام کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ مثلاً عید، روزہ، نماز اور جہاد وغیرہ۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ ہندستان میںمسلمانوں کے جو فرقے وارانہ مسائل بتائے جاتے ہیں وہ سب فرضی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے لیے، تمام مسلم ملکوں سے بھی زیادہ مواقع موجود ہیں۔ اصل غلطی مسلم رہنماؤں کی ہے۔ انھوں نے ہندستانی مسلمانوں کے معاملے کو مجارٹی ورسز مائنارٹی کا مسئلہ سمجھا۔ حالاں کہ موجودہ زمانے میں اصل مسئلہ لیاقت اور عدم لیاقت (competance versus incompetance) کاہے۔ یہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے۔ آپ لیاقت کے ذریعے یہاں سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور لیاقت کے بغیرکچھ بھی نہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اصل ضرورت صرف ایک چیز کی ہے اور وہ ہے اعلیٰ تعلیم۔
۸۔ دہلی کے ہندی میگزین سہارا سمے کے نمائندہ مسٹر لئیق احمد رضوی نے ۱۷؍اگست ۲۰۰۵ کوصدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس خبر سے تھا کہ سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے متوازی عدالتی نظام(Parallel Islamic Judiciary) کے خلاف نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیاہے (ٹائمس آف انڈیا ۱۷ اگست ۲۰۰۵) ۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیاکہ یہاں کوئی متوازی شرعی عدالت کا وجود نہیں ہے۔ یہ صرف ذاتی نوعیت کے مذہبی معاملات میں علماء کی رائے معلوم کرنا ہے۔ انڈیا میںاس قسم کا نظام ہزاروں سال سے چلا آرہا تھا۔ ہندو راجاؤں کے زمانے میں خود راجاؤں کی اجازت سے ہُنرمَن ہوا کرتے تھے۔ مغل دور میں قاضی مقرر کیے گیے۔ برٹش دور میں بھی قاضیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آزادی کے بعد دار القضا وغیرہ کے نام سے اس مقصد کے لیے ادارے بنائے گئے۔ یہ کوئی متوازی عدالتی نظام نہ تھا۔ البتہ حال میں کچھ مفتی صاحبان نے اپنی حدکو نہیں سمجھا۔ انھوں نے ایسے معاملات میں فتوے دینا شروع کئے جوفوجداری نوعیت کے تھے۔ اور اس بنا پر پر وہ مفتی صاحبان کے دائرے سے باہر تھے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ یہ مفتی صاحبان اپنی غلطی کو مانیں اور آئندہ سختی کے ساتھ یہ اہتمام کریں کہ وہ فوجداری نوعیت کے معاملات میں کسی بھی قسم کا فتویٰ نہ دیں۔
واپس اوپر جائیں