Pages

Tuesday 1 November 2016

Alrisala November 2016 (الرسالہ نومبر)

4

-آغاز کلام

5

- سوچئے، سوچئے، سوچئے

7

- انسان کی کہانی

12

- زندگی کی حقیقت

13

- جنت کا تعارف

14

- انسانی شخصیت

15

- عمر اور صحت

16

- بڑھاپے کی عمر

17

- بڑھاپے سے سبق لینا

18

- ہر شخص موت کا مسافر

19

- موت

20

- موت کا شعور

21

- موت کے دروازے پر

22

- وقت ختم ہوگیا

23

- موت کی خبر

24

- موت کا تصور

25

- موت کی حقیقت

26

- موت کے قریب

27

- موت کا تجربہ

28

- کوئی شخص موت کو جیت نہیں سکتا

32

- پروموشن کی خبر

33

- خود کُشی: سب سے بڑی دیوانگی

34

- ابدی صحرا

35

- مرنے والوں کا تذکرہ

36

- خوش نما فریب

37

- موت کا مسئلہ

38

- موت کا المیہ

39

- موت کا پیغام

40

- موت کا واقعہ

41

- موت کا تصور

42

- ھادم لذات

43

- موت کا سبق

45

- اپنی نمازِ جنازہ

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


آغاز کلام

زیر نظر کتاب موت و حیات کے موضوع پر ہے۔یعنی اس موضوع پر کہ انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ اور موت کے بعد جب وہ زندگی کے اگلے مرحلہ میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ یہ موضوع قرآن کا ایک اہم باب ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان کے خالق نے قرآن اس لیے اتارا تاکہ انسان زندگی کے مقصد کو جانے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کا درست منصوبہ بنائے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ معاملہ ہے کہ وہ ایک دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہو کر دنیا میں داخل ہوتا ہے، اور پھر سوسال سے کم مدت تک زندگی گزار کر اگلے مرحلۂ حیات کی طرف چلا جاتا ہے۔ قرآن میں اس سوال کا نہایت واضح جواب ملتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ پہلا کام ہے کہ وہ اس سوال کا مستند جواب معلوم کرے۔ تاکہ وہ اس کے مطابق زندگی گزار کر اپنے ابدی دورِ حیات میں کامیابی کا درجہ حاصل کرے۔ زیر نظر کتاب){ FR 1561 } ( دعوتی لٹریچر میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ تزکیہ کے موضوع پر بھی ایک اہم کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک اعتبار سے یہ کتاب ایک دعوتی کتاب بھی ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ محاسبہ خویش (self-introspection)کا ذریعہ بھی ۔ وحید الدین، نئی دہلی 20 اگست 2016
واپس اوپر جائیں

سوچئے، سوچئے، سوچئے

اگر پہاڑ کی کھوہ(cave) سے کسی دن ایک زندہ انسان نکل آئے، تو سارے دیکھنے اور جاننے والے لوگ اس کو حیرت ناک واقعہ سمجھیں گے۔ تمام لوگ یہ سوچنے لگیں گے کہ ایسا کیوں کر ہوا۔ ماں کے پیٹ سے ایک انسان کا پیدا ہونا بھی اسی قسم کا ایک واقعہ ہے جو دہشت ناک حد تک عجیب ہے۔ لوگ ماں کے پیٹ سے زندہ انسان کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، لیکن وہ اس کے متعلق کچھ نہیں سوچتے۔ یہ فر ق کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا روزانہ کا ایک واقعہ ہے۔ بار بار دیکھنے کی وجہ سے لوگ اس واقعے کے عادی (used to) ہوگئے ہیں، اِس لیے وہ اس کو فار گرانٹیڈ(for granted) طورپر لیے رہتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔لوگ اگر اِس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ سوچیں تو وہ انسان کی پیدائش کے واقعے میں خالق کے وجود کو دریافت کرلیں۔ جب وہ دیکھیں کہ ایک زندہ اور باشعور انسان پیدا ہو کر زمین پرچل پھر رہا ہے، وہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے اور بولتا ہے، تو ان کو محسوس ہوکہ ہر انسان خالق کے وجود کا ایک چلتا پھرتا نشان (sign) ہے۔ ہر انسان لوگوں کو اپنے خالق کا ایک زندہ تعارف معلوم ہونے لگے۔ اِسی طرح انسان جب پیدا ہو کر موجودہ زمین (planet earth) پر آتا ہے، تو وہ پاتا ہے کہ یہاں اس کے لیے ایک پورا لائف سپورٹ سسٹم موجود ہے۔ یہ لائف سپورٹ سسٹم اتنا مکمل ہے کہ کوئی قیمت دیے بغیر وہ انسان کی ہر چھوٹی اور بڑی ضرورت کو نہایت اعلیٰ صورت میں پورا کررہا ہے۔ زمین سے لے کر سورج تک پوری دنیا استثنائی طورپر انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ اس کے بعد وہ دن آتا ہے جب کہ انسان اچانک مرجاتا ہے۔ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن سو سال کے اندر ہی یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ ہر عورت اور مرد اپنی مرضی کے خلاف اِس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ زمین پر پیدا ہونے والا ہر انسان دو چیزوں کا تجربہ کرتاہے۔ پہلے زندگی کا تجربہ، اور اس کے بعد موت کا تجربہ۔ اگر انسان سنجیدگی کے ساتھ ان واقعات پر سوچے تو وہ یقینی طورپر ایک بہت بڑی حقیقت کو دریافت کرے گا، وہ یہ کہ انسان کو پیدا کرکے اِس زمین پر آباد کرنا بطور انعام نہیں ہے، بلکہ وہ بطور امتحان ہے۔موجودہ دنیا میں انسان اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے۔ یہ آزادی اِس لیے ہے تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ کون شخص بااصول زندگی گزارتا ہے اور کون شخص بے اصول زندگی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ اِس حقیقت کو پالے گا کہ موت دراصل خالق کے سامنے حاضری کادن ہے۔ انسان اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ابدی مخلوق ہے، لیکن اس کی مدتِ حیات (lifespan) کو دو حصوں میں بانٹ دیاگیا ہے— موت سے قبل کی مدتِ حیات (pre-death period)، اور موت کے بعد کی مدتِ حیات(post-death period) ۔ موت سے پہلے کی مدتِ حیات امتحان (test) کے لیے ہے، اور موت کے بعد کی مدتِ حیات اُس کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق، انعام یا سزا پانے کے لیے۔ انسان آج اپنے آپ کو اِس دنیا میں ایک زندہ اور باشعور وجود کی صورت میں پاتاہے۔ یہ زندہ اور باشعور وجود ایک مستقل وجود ہے۔ موت وہ دن ہے جب کہ یہ زندہ اور باشعور وجود اپنی اِسی موجودہ صورت میں عارضی دنیا سے نکالا جاتا ہے اوراس کو اِسی زندہ اور باشعور وجود کی حالت میں اگلی مستقل دنیا کی طرف منتقل (transfer) کردیاجاتا ہے۔ یہ لمحہ ہر عورت اور مرد پر لازماً آنے والا ہے۔ وہ ناقابلِ قیاس حد تک سنگین لمحہ ہوگا۔ موت کے بعد آنے والے اِس دورِ حیات میں یہی موجودہ انسان ہوگا، لیکن اس کے تمام اسباب اس سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ چکے ہوں گے۔ اس کے پیچھے وہ دنیا ہوگی جو اس سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئی، اور اس کے آگے وہ دنیا ہوگی جہاں اس کو کامل بے سروسامانی کے ساتھ ابدی طورپر رہنا ہے— دانش مند وہ ہے جو اِس آنے والے دن کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی کہانی

حیوانات کے لیے زندگی صرف ایک بار ہے مگر انسان کے لیے استثنائی طورپر زندگی دوبار ہوتی ہے۔ ہر انسان اصلاً ابدی حیات کا مالک ہے۔ اِس ابدی زندگی کا بہت مختصر حصہ قبل ازموت دورِ حیات میں ہے۔ اور اس کا بقیہ تمام حصہ بعد از موت دورِ حیات میں۔ کائنات کی دوسری چیزیں قانون فطرت کے ماتحت ہیں۔ یہاں کی ہر چیز جبری طورپر وہی کرتی ہے جو اس کے لیے قانونِ فطرت کے تحت مقدر کردیا گیا ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان استثنائی طورپر ایک آزاد مخلوق ہے۔ وہ اپنا مستقبل خود اپنے آزاد ارادے کے تحت بناتا ہے۔ وہ اپنی آزادی کا یا تو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط استعمال۔ وہ اپنے مواقع کو یا تو پاتا ہے یا اس کو نادانی کے ساتھ کھو دیتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 95میں خدا نے یہ اعلان کیا ہے :ہم نے انسان کو بہترین بناوٹ کے ساتھ پیدا کیا ۔ پھر اس کو سب سے نیچے درجے میں پھینک دیا (التین : 4-5) We created man in the best mould, then we cast him down to the lowest of the low. یہ گویا انسان کے لیے ایک وارننگ ہے جو اس کو اس کے حال اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اعلیٰ امکانات کے ساتھ پیدا کیا، مگر انسان اپنے امکانات کا کم تر استعمال کرکے اپنے آپ کو بدترین ناکامی میں ڈال دیتا ہے: God created man with great potential, but by under-utilizing his potential, he makes himself a worst case of failure. انسان کی شخصیت ایک دوہری شخصیت ہے— جسم اور روح (یا ذہن)۔سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں تک انسان کے جسم کا تعلق ہے ،وہ غیر ابدی ہے۔ جب کہ انسان کی روح ایک ابدی وجود کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کی روح ایک غیر مادّی حقیقت ہے۔ وہ مادّی قوانین سے بالا تر ہے۔ جب کہ انسان کا جسم مادی قوانین کے ماتحت ہے اور مسلسل طورپر فنا پذیر ہے۔ حیاتیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کا جسم بہت چھوٹے چھوٹے خلیوں (cells) سے بنا ہے۔ یہخلیات ہر لمحہ ہزاروں کی تعداد میں ٹوٹتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔ انسان کا نظامِ ہضم گویا ایک خلیہ ساز فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹری مسلسل طورپر خلیّات کی سپلائی کرتی رہتی ہے۔ اِس طرح جسم اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ یہ عمل اِس طرح ہوتا ہے کہ ہر چند سال کے بعد آدمی کا جسم بالکل ایک نیا جسم بن جاتا ہے۔ لیکن اس کا روحانی وجود کسی تبدیلی کے بغیر اسی طرح باقی رہتا ہے۔ چنانچہ کہاگیا ہے کہ انسان کی شخصیت تغیر کے درمیان عدم تغیر کا نام ہے: Personality is changelessness in change. انسان کی ناکامی کا پہلا مظہر یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے غیر متغیر حصے کو نظر انداز کرتا ہے، اور اپنی شخصیت کے تغیر پذیر حصے کو اچھا بنانے میں لگا رہتا ہے۔ وہ اپنی ساری توجہ فانی انسان کی بہتری میں لگا دیتا ہے، اور ابدی انسان کی بہتری کے لیے وہ نہ کچھ سوچتا ہے اور نہ کچھ کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک محدود مدت گذار کر جب وہ مرتا ہے تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا فانی وجود اپنی تمام ظاہری ترقیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے اور اس کا ابدی وجود ترقیات سے محروم حالت میں زندگی بعد موت کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو قرآن میں انسان کی ناکامی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ بلاشبہہ بدترین ناکامی ہے کہ انسان انتہائی اعلیٰ امکانات (potentials) کے ساتھ پیدا کیا جائے مگر وہ اپنے امکانات کو صرف ناقص طورپر استعمال کرے اور اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے اپنے اِس عدم استعمال کی قیمت دینے کے لیے اپنے ابدی دورِ حیات میں داخل ہوجائے۔ اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان استثنائی طورپر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تصوّراتی فکر (conceptual thought) انسان کی ایک ایسی صفت ہے جو وسیع کائنات کی کسی بھی چیزمیں نہیں پائی جاتی۔ حتی کہ حیوانات میں بھی نہیں۔ اِسی لیے کہا گیا ہے کہ انسان ایک سوچنے والا حیوان ہے: Man is a thinking animal. اِس اعتبار سے دیکھیے تو انسان کی شخصیت دو چیزوں پر مشتمل ہے— غیر تفکیری جسم، اور تفکیری روح۔ جو لوگ اپنے امکانات کو محدود طورپر صرف مادّی دائرے میں استعمال کریں وہ گویا اپنے وجود کے غیر تفکیری حصے کی تو خوب تزئین کررہے ہیں لیکن اپنے وجود کے تفکیری حصے کی ترقی کے لیے وہ کچھ نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ موت سے پہلے کی اپنی تمام عمر جسمانی ترقی (physical development) میں صرف کردیتے ہیں،اور جہاں تک ذہنی ترقی (intellectual development) کی بات ہے وہ اس کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں پر جب موت آتی ہے تو اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اُسی طرح مرجاتے ہیں جس طرح کوئی حیوان مرتا ہے، یعنی اپنے جسم کو خوب فربہ بنانا، اور اگلے دورِ حیات میں اِس طرح داخل ہونا کہ ان کا ذہن تمام ترقیوں سے محروم ہو اور اگلے دورِ حیات میں طویل حسرت کے سوا کچھ اور ان کے حصے میں نہ آئے۔ اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طور پر کل(tomorrow) کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کائنات کی تمام چیزیں، بشمول حیوانات، صرف اپنے آج (today) میں جیتے ہیں۔ یہ صرف انسان ہے جو کل کا شعور رکھتا ہے، اور کل کو نشانہ بنا کر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ گویا کہ بقیہ چیزیں صرف حال (present) میںجیتی ہیں اور انسان استثنائی طورپر مستقبل (future) میں۔ قرآن کے بیان کے مطابق، وہ لوگ بدترین محرومی کا شکار ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو صرف آج کی چیزوں کے حصول میں لگا دیں اور اپنے کل کی تعمیر کے لیے وہ کچھ نہ کریں۔ ایسے لوگ موت سے پہلے کی زندگی میں بظاہر خوش نما دکھائی دے سکتے ہیں لیکن موت کے بعد کی زندگی میں وہ محرومی کی بدترین مثال بن جائیں گے۔ کیوں کہ موت کے بعد کی زندگی میں جو چیز کام آنے والی ہے، وہ ذہنی اور روحانی ترقی ہے نہ کہ دنیوی مفہوم میں مادّی ترقی۔ اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان اپنے اندر لامحدود خواہشیں رکھتا ہے۔ اِسی کے ساتھ ہر انسان کے اندر لامحدود صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جن کو استعمال کرکے وہ لامحدود حد تک اپنی خواہشوں کی تکمیل کرے، مگر ہر انسان کا یہ انجام ہوتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا صرف اتنا استعمال کرپاتا ہے جو اس کو موت سے پہلے کی محدود دنیا میں کچھ وقتی راحت دے سکے۔ مگر آخر کار ہر انسان کا یہ انجام ہوتا ہے کہ وہ اپنی اِن تمام صلاحیتوں کو لیے ہوئے موت کے بعد والی ابدی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے جہاں وہ ابدی طور پر بے راحت زندگی گذارے، کیوں کہ اُس نے اِس دوسرے دورِ حیات کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال ہی نہیں کیا تھا۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے حقیقت پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اِس طرح کرے کہ اس کی فطری صلاحیتیں بھر پور طورپر اس کے ابدی مستقبل کی تعمیر میں استعمال ہوں۔ وہ اپنے امکانات (potentials) کو سمجھے اور اُن کو اِس طرح استعمال کرے کہ وہ اپنے ابدی دورِ حیات میں ان کا مفید نتیجہ پاسکے۔ وہ اپنے آپ کو اِس بُرے انجام سے بچائے کہ آخر میں اس کے پاس صرف یہ کہنے کے لیے باقی رہے کہ میں اپنے امکانات کو استعمال کرنے سے محروم رہا: I was a case of missed opportunities. انسان کے لیے حقیقت پر مبنی منصوبہ بندی یہ ہے کہ وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں مادی چیزوں کے معاملے میں صرف ضرورت(need) پر قناعت کرے، اور اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کا بیش تر حصہ اِس پر خرچ کرے کہ وہ موت کے بعد کی زندگی میں ایک مُطہَّر شخصیت (purified personality) کے ساتھ داخل ہو۔ تاکہ اس کو ابدی دورِ حیات کی معیاری دنیا (perfect world) میں عزت اور راحت کی مطلوب زندگی مل سکے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ موت سے پہلے کے دورِ حیات اور موت کے بعد کے دورِ حیات دونوں میں کامیابی کا اصول صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے آپ کو تیّار شخصیت(prepared personality) بنانا۔ مادّی معنوں میں تیار شخصیت موت سے پہلے کے دورِ حیات میں ترقی کا ذریعہ بنتی ہے، اور روحانی معنوں میں تیار شخصیت اُس دورِ حیات میں کام آئے گی جہاں موت کے بعد آدمی کو رہنا ہے۔ مادی معنوں میں تیار شخصیت یہ ہے کہ آدمی پروفیشنل ایجوکیشن حاصل کرے۔ آدمی کے اندر تجارتی صلاحیت ہو۔ آدمی کے اندر وہ صفات ہوں جن کے ذریعے کوئی شخص لوگوں کے درمیان مقبول ہوتا ہے۔ آدمی قریبی مفاد(immediate gain) کو آخری حد تک اہمیت دیتا ہو، وغیرہ۔ موت کے بعد کے دورِ حیات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو تیار شخصیت درکار ہے وہ ایسی شخصیت ہے جس نے موجودہ دنیا کے مواقع کو روحانی ارتقاء (spiritual development) اور فکری ارتقاء (intellectual development) کے لیے استعمال کیا۔ ایسی ہی شخصیت موت کے بعد کے دورِ حیات میں باقیمت ٹھہرے گی۔ یہ شخصیت وہ ہے جس نے اپنی عقل کو استعمال کرکے سچائی کو دریافت کیا۔ جو شبہات کے جنگل میں یقین پر کھڑا ہوا۔ جس نے خدا کو اپنی زندگی کا واحد کنسرن بنایا۔ جس نے خود پسندی کے جذبات کو کچل کرخدا پرستی کے طریقے کو اختیار کیا۔ جو منفی حالات میں مثبت سوچ پر قائم رہا۔ جس نے نفسانی انسان بننے کے بجائے ربّانی انسان ہونے کا ثبوت دیا۔جس نے مفاد پرستی کے بجائے اصول پسندی کا طریقہ اختیار کیا۔ جس نے اپنے آپ کو نفرت سے بچایا اور اپنے اندر انسانی خیر خواہی کے جذبات کی پرورش کی۔ جس نے آزادی کے باوجود اطاعت(submission) کا طریقہ اختیار کیا۔ نگاہ عبرت رومن ایمپائر کے عروج کے زمانے میں اس کے اندر بیشتر یوروپ، شرق اوسط اور افریقہ کے شمالی ساحلی ممالک شامل تھے۔ رومیوں نے جو سڑکیں، عمارتیں اور پل بنائے، وہ اتنے شاندار تھے کہ ان کے بنائے ہوئے بعض پل اسپین میں دوہزار سال بعد بھی آج تک باقی ہیں۔ رومن لا ،آج بھی یورپ، امریکا کے قانون کی بنیاد ہے، وغیرہ۔مگر رومن ایمپائر اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ختم ہوگئی۔ اب اس کا نشان یا تو پرانے کھنڈروں میں ہے یا ان کتابوں میں جو لائبریریوں کی زینت بننے کے لیے رکھی جاتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے انسان اگر نصیحت لے تو وہ کبھی گھمنڈ میں مبتلا نہ ہو۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آنکھ والا وہ ہے جو اپنے عروج میں زوال کا منظر دیکھے، جو اپنی بلند عمارتوں کو پیشگی طور پر کھنڈر ہوتا دیکھ لے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کی حقیقت

مطالعہ بتاتا ہے کہ ہماری دنیا جوڑے(pairs)کے اصول پر بنی ہے۔ یہاں ہر چیز جوڑے جوڑے کی صورت میں ہے— الکٹران اور پروٹان، میل پلانٹ اور فیمیل پلانٹ (male plant, female plant)، میل اینمل اور فیمیل اینمل (male animal, female animal) عورت اور مرد، اسی طرح خود دنیا (world) جوڑے کی صورت میں ہے، نیگٹیو ورلڈاور پازیٹیو ورلڈ۔ دنیا کا ایک جوڑا وہ ہے جو آئیڈیل اور پرفیکٹ ہے۔ وہ ہر قسم کی محدودیت (limitations)سے پاک ہے۔ وہاں انسان کی تمام تمنائیں اپنی کامل صورت میں پوری ہوں گی۔ یہ کامل دنیا صرف منتخب لوگوں کو استحقاق (merit) کی بنیاد پر ملے گی۔ استحقاق کے بغیر کوئی اس دنیا میں داخلہ پانے والا نہیں۔ موجودہ دنیا اسی منصوبہ کا ابتدائی اور عارضی حصہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت، موجودہ دنیا انتخابی میدان (selective ground) کے طورپر بنائی گئی ہے۔ یہاں جو لوگ پیداکئے جاتے ہیں، وہ اس لیے پیدا کئے جاتے ہیں، تاکہ یہاں کے حالات میں رکھ کر دیکھا جائے کہ ان میں سے کون اگلی کامل دینا میں بسائے جانے کا اہل ہے اور کون اس کا اہل نہیں۔ اہل افراد کو منتخب کرکے اگلی کامل دنیا میں ہمیشہ کے لیے آباد کردیا جائے گا اور بقیہ لوگ جو اس جانچ میں پورے نہیں اتریں گے وہ قابلِ رد (rejected lot) قرار پائیں گے۔ لوگوں کا یہ انتخاب (selection) کس بنیاد پر ہوگا۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق، اس کی بنیاد صرف ایک ہے، وہ یہ کہ کس نے آزادی کا غلط استعمال کیا اور کس نے اس کا صحیح استعمال کیا۔ ملی ہوئی آزادی کا صحیح استعمال یا غلط استعمال ہی وہ واحد معیار ہے جس کے مطابق لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق، صحیح انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو ماحول کی کنڈیشننگ سے بچائے۔ جو خالق کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق زندگی گزارے، جو موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں، موت کے بعد کے مرحلۂ حیات کے مطابق، اپنے آپ کو تیار کرے۔ موجودہ دنیا میں ہر عورت اور مرد اسی جانچ (test) پر ہیں۔ خالق کے منصوبہ کے مطابق ہرعورت اور مرد کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے۔ جب تاریخ کے خاتمہ پر انسان کا اگلا دور شروع ہوگا، اس وقت انسانوں کا خالق ظاہر ہو کر سامنے آجائے گا۔ یہ فیصلہ کا دن ہوگا۔ اس وقت تمام پیدا ہونے والے عورت اورمرد خالق کے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ اس وقت خالق اپنے تیار کئے ہوئے ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ یہ فیصلہ تمام تر انصاف کی بنیاد پر ہوگا۔ اور پھر کسی کو ابدی جنت میں آباد کیا جائے گا اور کسی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ حالات بتاتے ہیں کہ یہ آنے والا دن بہت قریب آچکا ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان جاگے اور آنے والے ابدی دورِ حیات کی تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا تعارف

لارڈ میو نے اپنا ایک واقعہ لکھا ہے۔ وہ ایک بار ایک جزیرے میں تھے۔ وہاں انھیں غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ منظر اتنا حسین تھا کہ میں نے چاہا کہ میں اس کو ہمیشہ دیکھتا رہوں: I wish I could see this sunset forever فطرت(nature) بے حد حسین ہے۔ اس کو دیکھنے سے کبھی آدمی کا جی نہیں بھرتا۔ آدمی چاہتا ہے کہ نیچر کو مستقل طور پر دیکھتا رہے۔ مگر زندگی کے تقاضے اس کو مجبور کرتے ہیں ، اور اس سےسیر ہوئے بغیر وہ اس کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔نیچر موجودہ دنیا میں جنت کی نمائندہ ہے۔ وہ آخرت کی جنت کی ایک جھلک ہے، جنت میں جو لطافت، جو حسن، جو بے پناہ کشش ہوگی، اس کا ایک دُور کا مشاہدہ موجودہ دنیا میں نیچر کی صورت میں ہوتا ہے۔ نیچر ہم کو جنت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ ہم کو بتاتی ہےکہ دنیا میں جنت والے عمل کرو تاکہ آخرت میں جنت کو پاسکو۔دنیا میں آدمی جنت کی جھلک سے بھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ مگر آخرت کی کامل دنیا میں ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ وہ جنت سے آخری حد تک لطف اندوز ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

انسانی شخصیت

کیمسٹری کا پہلا سبق جو ایک طالب علم سیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی چیز فنا نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنی صورت بدل لیتی ہے: Nothing dies, it only changes its form. اس عالمی کلیہ سے انسان کے مستثنیٰ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جس طرح مادہ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ جلنے یا پھٹنے یا کسی اور حادثہ سے وہ فنا نہیں ہوتا بلکہ شکل بدل کر دنیا کے اندر اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ اسی طرح ہم مجبور ہیں کہ انسان کو بھی ناقابل فنا مخلوق سمجھیں اور موت کو اس کے خاتمہ کے ہم معنیٰ قرار نہ دیں۔ یہ محض بالواسطہ قیاس نہیں بلکہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو براہ راست تجربہ سے ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرعلم الْخَلِیَّہ (cytology) بتاتا ہے کہ انسان کا جسم جن چھوٹے چھوٹے خلیوں (cells) سے مل کر بنا ہے وہ مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ایک متوسط قد کے انسان میں ان کی تعداد تقریباً ۲۶ ٹریلین ہوتی ہے۔ یہ کسی عمارت کی اینٹوں کی طرح نہیں ہیں جو ہمیشہ وہی کے وہی باقی رہتے ہوں۔ بلکہ وہ ہر روز بے شمار تعداد میں ٹوٹتے ہیں اور غذا ان کی جگہ دوسرے تازہ خلیات فراہم کرتی رہتی ہے۔ یہ ٹوٹ پھوٹ ظاہر کرتی ہے کہ اوسطاً ہر دس سال میں ایک جسم بدل کر بالکل نیا جسم ہو جاتا ہے۔ گویا دس برس پہلے میں نے اپنے جس ہاتھ سے کسی معاہدہ پر دستخط کئے تھے وہ ہاتھ اب میرے جسم پر باقی نہیں رہا۔ پھر بھی ’’پچھلے ہاتھ‘‘ سے دستخط کیا ہوا معاہدہ میرا ہی معاہدہ رہتا ہے۔ جسم کی تبدیلی کے باوجود اندر کا انسان پہلے کی طرح اپنی اصل حالت میں موجود رہتا ہے۔ اس کا علم، اس کا حافظہ، اس کی تمنا ئیں، اس کی عادتیں، اس کے خیالات بدستور اس کی ہستی میں شامل رہتے ہیں۔ اسی لئے ایک حیاتیاتی عالم نے کہا ہے کہ انسانی شخصیت تغیر کے اندر عدم تغیر کا نام ہے: Personality is changelessness in change.
واپس اوپر جائیں

عمر اور صحت

ایک صاحب میرٹھ (یوپی) کے رہنے والے تھے۔ تقریباً 45 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ پہلی بار جب میں اُن سے ملا تھا تو بظاہر وہ بالکل تندرست اور صحت مند نظر آتے تھے۔ بعد کو اُنھیں کینسر کی بیماری ہوگئی۔ علاج کے باوجود مرض بڑھتا گیا، یہاں تک کہ وہ صاحب فراش ہوگئے۔ آخری زمانے میں اُن کا حال یہ تھا کہ وہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بن چکے تھے۔ ان کا نظامِ ہضم اتنا زیادہ بگڑ چکا تھا کہ سادہ غذا بھی وہ نہیں لے سکتے تھے، حتی کہ پانی پینا بھی اُن کے لیے سخت مشکل ہوگیا تھا۔اُس زمانے میں کوئی شخص ان کی عیادت کے لیے آتا تو وہ اُس سے کہتے کہ تم میرے بارے میں نہ سوچو، بلکہ خود اپنے بارے میں سوچو۔ تم شکر کرو کہ تم کو صحت مند جسم حاصل ہے۔ تم کھانا کھاتے ہو اور پانی پیتے ہو اور زمین پر چلتے ہو۔ یہ سب چیزیں خدا کا عطیہ ہیں۔ وہ جب چاہے، اِس عطیہ کو چھین لے اور پھر تمھارے پاس کچھ بھی باقی نہ رہے۔ انسان کو ایک صحت مند جسم ملا ہوا ہے۔ انسان کو پیدا ہونے کے بعد یہ صحت مند جسم بظاہر اپنے آپ مل جاتا ہے، اِس لیے وہ اُس کو فار گرانٹیڈ(for granted) طور پر لے لیتا ہے۔ وہ کبھی سوچتا نہیں کہ یہ صحت مند جسم سرتاسر خدا کا عطیہ ہے۔ اِس عطیہ کا اعتراف کرتے ہوئے مجھے خدا کے آگے جھک جانا چاہیے۔ یہی معاملہ عمر کا ہے۔ آدمی جب تک زندہ ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ زندگی ہمیشہ باقی رہے گی۔ وہ کبھی اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ یہ بلاشبہہ سب سے بڑی بھول ہے۔ یہی ہر عورت اور ہر مرد کا امتحان (test)ہے۔ کامیاب شخص وہ ہے جو زندگی سے زیادہ موت کے بارے میں سوچے، جو ہر ملی ہوئی چیز کو خداوند ِ عالم کا عطیہ سمجھے۔ یہی وہ انسان ہے جو امتحان میںکامیاب ہوا۔ اِس کے برعکس، جو انسان خدا کا اعتراف نہ کرے اور موت کو بھلائے ہوئے ہو، وہی وہ شخص ہے جو ا متحان میں ناکام ہوگیا۔ پہلے انسان کے لیے ابدی جنت ہے اور دوسرے انسان کے لیے ابدی جہنم ۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کی عمر

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: أولم نعمّرکم ما یتذکر فیہ من تذکر(35:37)۔ یعنی کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی کہ جو شخص یاد دہانی حاصل کرنا چاہے، وہ اس میں یاددہانی حاصل کرسکے۔ اِس مفہوم کی متعدد روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ملاحظہ ہو، ابن حجر کی فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس آدمی کو لمبی عمر یا بڑھاپے کی عمر ملے، اس کے پاس اللہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ آدمی کے اوپر پہلے بچپن کا دور آتاہے، اس کے بعد جوانی کا دور آتاہے، اس کے بعد بڑھاپے کا دور آتا ہے۔ بڑھاپے کا دور موجودہ دنیا میں کسی انسان کے لیے آخری دور ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد جو مرحلہ آتاہے، وہ موت کا مرحلہ ہے، نہ کہ کوئی اور مرحلہ۔ اِس اعتبار سے بڑھاپا گویا کہ موت کی پیشگی اطلاع (prior notice) کی حیثیت رکھتا ہے۔ بڑھاپے میں جسم کے تمام اعضا (organs) کمزور ہوجاتے ہیں، حتی کہ بعض اعضا اپنا کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ موت کا وقت قریب آگیا۔ وہ گویا کہ موت کی جبری یاددہانی (compulsory reminder) ہیں۔ بڑھاپا آدمی کو قبر کے کنارے کھڑا کردیتاہے۔ اگر آدمی کا ذہن بیدار ہو تو بڑھاپے کی عمرکو پہنچ کر وہ سوچنے لگے گاکہ اب بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ میری موت واقع ہو اور میں اللہ کے سامنے حساب کتاب کے لیے حاضر کردیا جاؤں۔ اِس طرح بڑھاپے کے تجربات آدمی کو جھنجھوڑتے ہیں، وہ اس کو آخرت کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ بڑھاپا آدمی کو بتاتا ہے کہ موجودہ دنیامیں تمھارا سفر اب ختم ہوچکا۔ اب تمھیں لازماً اگلے دورِحیات میں داخل ہونا ہے اور حشر کی خدائی عدالت کا سامنا کرنا ہے — بلا شبہ وہ انسان سب سے زیادہ بد بخت انسان ہے جس کوبڑھاپے کا زمانہ ملا، لیکن وہ اس سے یاددہانی حاصل نہ کرسکا، وہ بدستور غفلت میں رہا، یہاں تک کہ وہ اِسی حال میں مرگیا۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے سے سبق لینا

انسانی زندگی کا ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو بڑھاپا کہاجاتاہے۔ بڑھاپا کوئی غیر مطلوب چیز نہیں۔ بڑھاپے کی عمر میں انسان کے لئے ایک موقع موجود ہوتا ہے، یعنی نصیحت لینا۔ قرآن کی سورہ الفاطر میں یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے: اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ (35:37) یعنی کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا۔ انسان اس دنیا میں محدود عمر کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ چناں چہ پیدا ہوتے ہی انسان کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے۔ تقریباً 35 سال تک اس کا گراف اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ نیچے جانا شروع ہوتا ہے۔ ادھیڑ عمر، بڑھاپا، آخر میں موت ۔ اس درمیان میں اس کو مختلف قسم کے نقصان پیش آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، طرح طرح کے مسائل، وغیرہ۔ اس طرح آدمی سے ایک ایک چیز چھنتی رہتی ہے۔ پہلے جوانی، پھر صحت، پھر سکون، وغیرہ۔ یہاں تک کہ موت کا وقت آتا ہے۔ اور آدمی کی ہر وہ چیز، جس کو وہ اپنا سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اس کا اپنا جسمانی وجود بھی اس سے چھن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو چیز باقی رہتی ہے وہ صرف انا (ego)ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ موت کا تجربہ کسی انسان کے لئے سب سے زیادہ سنگین تجربہ ہے۔ اس تجربہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنے قبل ازموت مرحلۂ حیات میں جو کمایا تھا وہ اس سے ابدی طورپر چھن گیا۔ اِس کے آگےبعد ازموت مرحلۂ حیات کا معاملہ ہے۔ اس دوسرے مرحلہ میں آدمی کو صرف وہ چیز کام آئے گی جو اس نے عمل صالح کی صورت میں اپنے آگے کے لئے بھیجی۔ اس حقیقت کو قرآن کی سورہ الحشر میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (59:18) یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا۔بڑھاپا برائے سبق ہے، بڑھاپا برائے شکایت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر شخص موت کا مسافر

ایک خبر میڈیا میں آئی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا میں یہ خبر حسب ذیل الفاظ میں چھپی ہے: British reality TV star Jade Goody, who has been diagnosed with cancer, says she has started planning for her funeral, adding she wants “people to cry over me”. “Most people plan their weddings. But I am planning my funeral”, Goody told OK Magazine. Goody was diagnosed with cervical cancer in August 2008 just as she prepared to appear in the Indian version of the British reality TV show celebrity Big Brother. (New Delhi, Octobr 9, 2008, p. 21) برطانی ٹی وی اسٹار جیڈ گوڈی اپنے پروفیشن کے اعتبار سے چوٹی (peak) پر تھیں۔ اچانک اگست 2008 کے طبی معائنے میں اُن کو بتایا گیا کہ اُن کو کینسر کی بیماری ہوچکی ہے، یعنی لاعلاج بیماری۔ انھوں نے اپنے مستقبل کے پروفیشنل منصوبوں کو منسوخ کردیا۔ انھوں نے کہا کہ اب مجھے موت کی تیاری کرنی ہے۔ لوگ شادی کا منصوبہ بناتے ہیں، مجھ کو اپنی موت کا منصوبہ بنانا ہے: Most people plan their weddings. But I am planning my funeral. یہی ہر عوت اور ہر مرد کی کہانی ہے۔ لوگ زندگی کا جشن منانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں، حالاںکہ ہر ایک کا آخری انجام یہ ہے کہ جشن کی تکمیل سے پہلے اُس پر موت آئے اور وہ موجودہ دنیا سے نکل کر اگلی دنیا میں پہنچ جائے۔ ایسی حالت میں ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ قبل از موت مرحلۂ حیات کو صرف ایک وقتی سفر سمجھے اور اپنی ساری توجہ بعد از موت مرحلۂ حیات کی تیاری میں لگادے۔ لوگ اپنا برتھ ڈے مناتےہیں۔ حالاں کہ ہر سالگرہ صرف اِس بات کا اعلان ہے کہ آدمی کی عمر کا ایک سال اور کم ہوگیا۔ ایسی حالت میں، ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ ہر سال کی تکمیل پر آنے والی موت کو یاد کرے۔ کیوں کہ اگلی سالگرہ کا آنا یقینی نہیں، لیکن موت کا آنا یقینی ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اِس سب سے بڑی حقیقت کو یاد رکھے جس کا دوسرا نام موت ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت

موت کیا ہے، موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ ہے۔ موت’’اپنی دنیا‘‘ سے نکل کر’’دوسرے کی دنیا‘‘ میں جانا ہے۔ کیسا چونکادینے والا ہے یہ واقعہ۔ مگر انسان کی یہ غفلت کیسی عجیب ہے کہ وہ اپنے چاروں طرف لوگوں کو مرتےہوئے دیکھتا ہے، پھر بھی وہ نہیں چونکتا۔ حالاں کہ ہر مرنے والا زبان حال سے دوسروں کو بتارہا ہے کہ جو کچھ مجھ پر گزرا یہی تمھارے اوپر بھی گزرنے والا ہے۔ وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ کامل بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو فرشتوں کے حوالہ کردے۔ موت ہر آدمی کو اسی آنے والے دن کی یاد دلاتا ہے۔موت کا حملہ سراسر یک طرفہ حملہ ہے۔ یہ طاقت اور بے طاقتی کا مقابلہ ہے۔ اس میںانسان کے بس میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ کامل عجز کے ساتھ فریقِ ثانی کے فیصلہ پر راضی ہوجائے۔ وہ یک طرفہ طورپر شکست کو قبول کرلے۔ موت انسانی زندگی کے دو مرحلوں کے درمیان حدّ فاصل ہے۔ موت آدمی کو موجودہ دنیا سے اگلی دنیا کی طرف لےجاتی ہے۔ یہ اختیار سے بے اختیاری کی طرف سفر ہے۔ یہ امتحان کے بعد اس کا انجام پانے کے دور میں داخل ہونا ہے۔موت سے پہلے کی زندگی میں آدمی صداقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ معقولیت کے آگے جھکنے پر راضی نہیں ہوتا۔ موت اس لیے آتی ہے کہ اس کو بے یارومددگار کرکے حق کے آگے جھکنے پر مجبور کردے۔ جس صداقت کو اس نے باعزت طورپر قبول نہیں کیا تھا اس کو وہ بےعزّت ہوکر قبول کرے۔ جس حق کے آگے، وہ اپنے ارادہ سے نہیں جھکا تھا۔ اس حق کے آگے مجبورانہ طورپر جھکے اور اس کی تردید کے لیے کچھ نہ کرسکے۔انسان آج حق کی تائید میں چند الفاظ بولنا گوارا نہیں کرتا، جب موت آئے گی تو وہ چاہے گا کہ ڈکشنری کے سارے الفاظ حق کی موافقت میں استعمال کر ڈالے، مگر اس وقت کوئی نہ ہوگا جواس کے الفاظ کو سنے۔ انسان آج ڈھٹائی کرتا ہے، موت جب اس کو پچھاڑ ے گی تو وہ سراپا عجزونیاز بن جائے گا۔ مگر اس وقت کوئی نہ ہوگا جو اس کے عجز ونیاز کی قدر دانی کرے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا شعور

لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا محدود مدت کے بعد مرجاتاہے۔ اِس کے باوجود یہ نہایت عجیب بات ہے کہ کوئی شخص خود اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، مگر خود اپنی موت کے بارے میں وہ غفلت میں پڑا رہتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ڈی این اے (DNA) کی دریافت اِس سوال کا جواب ہے۔ یہ ایک نئی سائنس ہے۔ اِس پر دنیا کے بڑے بڑے دماغوں نے کام کیا ہے۔ اِس میں انڈیا کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر ہرگوبند کھورانا (وفات2011) کانام بھی شامل ہے۔ اِس جدید تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر انسان کے جسم میں تقریباً ایک سو ٹریلین سیل (living cells) ہوتے ہیں۔ ہر سیل کے نیوکلیس میں ایک ناقابلِ مشاہدہ ڈی این اے موجود رہتا ہے۔ ڈی این اے کے اندر انسانی شخصیت کے بارے میں تمام چھوٹی بڑی معلومات کوڈ کی صورت میں موجود رہتی ہیں۔ یہ معلومات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اگر اُن کو ڈی کوڈ (decode) کیا جائے، تو وہ برٹانکا جیسی ضخیم انسائکلو پیڈیا کے ایک ملین سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہوں گی: One human DNA molecule contains enough information to fill a million-page encyclopaedia. ڈی این اے کے اندر انسانی شخصیت کے بارے میں تمام معلومات درج ہوتی ہیں، مگراِس فہرست میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ موت ہے۔ ڈی این اے کی طویل فہرست موت کے تصور سے خالی ہے۔ موت کا تصور انسانی شخصیت (human consciousness) میں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، لیکن وہ خود اپنی موت کے بارے میں سوچ نہیں پاتا۔ یہی انسان کا امتحان ہے۔ موت کسی شخص کے اوپر ڈی این اے کی پروگریمنگ کے تحت نہیں آتی، بلکہ وہ براہِ راست خدائی فیصلے کے تحت آتی ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنے اندر اینٹی پروگریمنگ سوچ پیدا کرے۔ وہ خدائی فیصلے کی نسبت سے موت کے معاملے کو دریافت کرلے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں

موت کے دروازے پر

آدمی سمجھتا ہے کہ وہ زندگی میں جی رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد موت کے دروازے پر کھڑا ہوا ہے۔ جب موت کا کوئی وقت مقرر نہیں تو ہر لمحہ موت کا لمحہ ہے۔ انسان کا ہر اگلا قدم موت کی طرف جانے والاقدم ہے۔ زندگی ہر انسان کے لیے صرف آج کا تجربہ ہے، کل کا تجربہ نہیں۔ ہر آدمی کے لیے آج کا دن زندگی کا دن ہے اور کل کا دن موت کا دن۔ موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف سفر کا نام ہے۔ آدمی روزانہ سفر کرتا ہے۔ کبھی چھوٹا سفر اور کبھی بڑا سفر، کبھی ملک کے اندرسفر اور کبھی ملک کے باہرسفر۔ یہ تمام اسفار ایک معلوم مقام سے چل کر دوسرے معلوم مقام تک جانے کے ہم معنی ہوتے ہیں۔اس قسم کے سفروں سے آدمی اتنا زیادہ مانوس ہوچکا ہے کہ وہ اس کو کوئی سنگین چیز نہیں سمجھتا۔ لیکن موت کے سفر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ موت کے سفر میں ایسا ہوتاہے کہ آدمی ایک معلوم دنیا سے نکل کر دوسری نامعلوم دنیا کی طرف جاتا ہے۔ یہ بلاشبہ ہر آدمی کے لیے ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ مگر آدمی اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کرتا۔ وہ دنیا میں جن اسفار کا تجربہ کرتا ہے، ان سے وہ اتنا مانوس ہوجاتا ہے کہ وہ گہرے شعور کے تحت، موت کے سفر جیسے سفر کا ادراک نہیں کر پاتا ۔ اسی بنا پر ہر آدمی کے لیے موت ایک دور کی خبر بنی ہوئی ہے، وہ اس کے لیے قریب کا کوئی واقعہ نہیں۔ آدمی اپنے مزاج کی بنا پر ہمیشہ کنڈیشننگ کے تحت سوچتا ہے۔ یہی انسان کی بے حسی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ موت کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، وہ اپنے مانوس ذہن سے باہر آکر موت کے بارے میں سوچے، وہ اپنے شعور کو کامل طورپر بیدار کرے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ آدمی موت کی حقیقت کو سمجھے، جو بلاشبہ ہر انسان کا سب سے زیادہ سنگین معاملہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

وقت ختم ہوگیا

اسکول میں طالب علموں کا امتحان ہورہا تھا۔ طلبہ میز پر جھکے ہوئے اپنا اپنا سوال حل کررہے تھے، یہاںتک کہ امتحان کا مقرر وقت پورا ہوگیا۔ فوراً ہی امتحان حال میں موجودذمّے داروں کی طرف سے اعلان کیا گیا — لکھنا بند کرو، وقت ختم ہوگیا: Stop writing, time is over. یہ معاملہ جو امتحان ہال میں پیش آیا، وہی وسیع تر زندگی کا معاملہ بھی ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد ایک بڑے امتحان ہال میں ہے۔ یہاں ہر ایک اپنا اپنا امتحان دے رہا ہے۔ہر ایک کی ایک مدت مقرر ہے۔ یہ مدت پوری ہوتے ہی خدا کا فرشتہ آتا ہے اور خاموش زبان میں اعلان کرتا ہے کہ تمھارے عمل کا وقت ختم ہوگیا۔ اب تم کو مرنا ہے اور مرنے کے بعد اپنے خالق ومالک کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے۔ تعلیمی امتحان کا معاملہ جو ہر طالب علم کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ ایک مثال ہے جس سے ہر عورت اور ہر مرد وسیع تر معنوں میں زندگی کے امتحان کے معاملے کو سمجھ سکتے ہیں۔ زندگی حالتِ امتحان کا نام ہے، اورموت اِس کا نام ہے کہ آدمی کو اپنے عمل کا انجام پانے کے لیے اگلی دنیا میں بھیج دیا جائے۔ موت سے قبل کی زندگی دراصل امتحان کا دور ہے اور موت کے بعد کی زندگی امتحان کا رزلٹ نکلنے کا دور۔ جو شخص امتحانی دورِ حیات میں ہوش مندی کے ساتھ زندگی گزارے گا، وہی اگلے دورِ حیات میں بہتر انجام کو پائے گا۔ جو لوگ اِس معاملے میں غافل ثابت ہوں، اُن کو بعدکے دورِ حیات میں حسرت اورمایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔ امتحان ہال کے اندر ایک طالب علم جس نفسیات کے ساتھ رہتا ہے، اُسی نفسیات کے ساتھ ہم کو اپنی پوری زندگی میں رہنا ہے۔ ہر ایک کو یہ کوشش کرنا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے دیے ہوئے پرچے کو درست طور پر حل کرے، تاکہ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد جب اُس کا رزلٹ سامنے آئے تو وہ اُس کے لیے کامیابی کی خوش خبری ہو، نہ کہ ناکامی کا اعلان۔
واپس اوپر جائیں

موت کی خبر

ایک شخص کی عمر 75 سال ہوگئی۔ ابتدائی عمر میں اس کی صحت اچھی تھی۔ اب اُس کو بیماریاں لگ گئیں۔ یہ بیماری اس کے لیے موت کی خبر تھی۔ لیکن اس نے بیماری کو صرف علاج کا معاملہ سمجھا۔ اس نے مختلف ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے رجوع کرنا شروع کردیا۔ جب اس کا ذاتی سرمایہ ختم ہوگیا تو اس نے قرض لے کر اپنا مہنگا علاج شروع کردیا۔ لیکن اس کو دوبارہ صحت حاصل نہ ہوسکی۔ چند سال بیمار رہ کر وہ مرگیا— یہ ایک انسان کی کہانی نہیں ہے، بلکہ یہی تقریباً تمام عورت اورمرد کی کہانی ہے۔ بڑھاپا ہر آدمی کے لیے اِس بات کی خبر ہوتا ہے کہ موت قریب آگئی۔ اِس کے بعد جب اس کو بیماریاں لگتی ہیںتو وہ آدمی کو مزید جھنجھوڑنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اِس لیے ہوتی ہیں کہ آدمی اگر سورہا ہے تو وہ جاگ جائے۔ اور اگر وہ جاگ گیا ہے تو وہ اٹھ جائے۔ اور اگر وہ اٹھ گیا ہے تو وہ چلنے لگے۔ بڑھاپا اور بڑھاپے کے بعد آنے والی کم زوری اور بیماری ہمیشہ اِس لیے آتی ہے کہ آدمی چونک اُٹھے۔ وہ موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگے۔ وہ موت کے بعدآنے والے حالات پر سوچے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی آخری منصوبہ بندی کرے۔ لیکن انسان واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ بڑھاپا اور بیماری اُس کو موت کی خبر دیتے ہیں، لیکن وہ موت کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف علاج کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے پیچھے دوڑتا ہے، یہاںتک کہ وہ ناامیدی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ دوبارہ جو چیز اُس کو ملتی ہے، وہ تندرستی نہیں ہے، بلکہ موت ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر آدمی روزانہ اپنے آس پاس کے ماحول میں دیکھتاہے، لیکن کوئی آدمی اُس سے سبق نہیں لیتا۔ اِس معاملے میں ہر آدمی اندھا بنا ہوا ہے۔ وہ صرف اِس انتظار میں ہے کہ موت اس کی آنکھ کھولے۔ لیکن موت کے بعد آنکھ کاکھلنا، کسی عورت یا مرد کے کچھ کام آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

موت کا تصور

موت (death) کے لفظ کو اگر آپ ڈکشنری میں دیکھیں تو اس میں موت کا مطلب یہ لکھا ہوا ہوگا کہ — زندگی کا ابدی خاتمہ: Permanent cessation of life موت کی یہ لغوی تعریف، موت کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ آدمی مکمل انسان کی حیثیت سے پیدا ہو، لیکن تھوڑی مدت تک زندہ رہ کر ہمیشہ کے لیے اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کی تمام آرزوئیں(desires) اور اس کی تمام صلاحتیں اِس طرح مٹ جائیں کہ دوبارہ اُن کا وجود میں آنا ممکن نہ رہے۔ اسلام اِس کے مقابلے میں، زندگی کا مثبت تصور پیش کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق، موت زندگی کا خاتمہ نہیں، موت کا مطلب انسان کے لیے اس کے دوسرے دورِ حیات کا آغاز ہے: Death is not the end of life. Death marks the beginning of the second phase of human life. اسلام کے مطابق، انسان کو ابدی مخلوق (eternal being)کے طور پر پیدا کیا گیا، پھر اس کے عرصۂ حیات (lifespan) کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا— قبل از موت دور، اور بعد از موت دور۔ قبل از موت عرصۂ حیات تیاری کی جگہ ہے اور بعد از موت عرصۂ حیات تیاری کے مطابق، اپنا مستقل انجام پانے کی جگہ۔ اِس تخلیقی پلان کے مطابق، آدمی کو چاہیے کہ وہ موت سے پہلے کی زندگی کو تیاری کا دور (preparatory period) سمجھے اور اس کو کامل طورپر تیاری میں گزار ے۔ کیوں کہ موت کے بعد زندگی کا جو دور آدمی کے سامنے آئے گا، اُس میں عمل کرنا نہ ہوگا، بلکہ صرف اپنے عمل کا انجام پانا ہوگا۔ موت کا واقعہ دراصل، زندگی کا پیغام ہے، اور وہ یہ ہے —جو کرنا ہے، اُس کو آج کے دن کرلو۔ کیوں کہ کل کے دن کرنے کا وقت باقی نہیں رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

موت کی حقیقت

قرآن کی سورہ آل عمران میں آیا ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ(3:185)۔یعنی ہر انسان موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ انسان دنیا کے ذائقوں میں جیتا ہے، مگر آخر کار جو ذائقہ انسان کے لیے مقدر ہے، وہ موت کا ذائقہ ہے۔ موت کا ذائقہ اتنا زیادہ تلخ ہے کہ وہ دوسرے تمام ذائقوں کو منہدم کردینے والا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات، الموت (سنن الترمذی، کتاب الزہد)۔یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔ ذائقہ یا لذت کا لفظ یہاں کسی محدود معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ وسیع تر معنوں میں ہے۔ آدمی ایک لذت پسند مخلوق (pleasure-seeking animal) ہے۔ ہر چیز میں اس کو لذت محسوس ہوتی ہے۔ کھانے پینے میں، اچھا کپڑا پہننے میں، اچھا گھر بنانے میں، اچھی سواریوں پر سفر کرنے میں، تفریح کی مجلسوں میں شریک ہونے میں، شہرت اور اقتدار کی سیٹ پر بیٹھنے میں، وغیرہ۔ اِس قسم کی تمام چیزوں میں آدمی کو بے پناہ لذت ملتی ہے۔ وہ اِن لذتوں میں گم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ حقیقۃً یہ سوچے کہ موت کے آتے ہی اچانک یہ تمام لذتیں اس سے چھن جائیں گی، تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔ مثلاً جب کوئی شخص دوسرے انسان کی عیب زنی کرتا ہے تو غیر شعوری طورپر اس کو یہ خوشی حاصل ہوتی ہے کہ میں ایک بے عیب انسان ہوں۔ جب کوئی انسان کسی کو ذلیل کرتاہے تو یہ اس کے لیے اس کی انا (ego)کی تسکین کا باعث ہوتاہے۔ کوئی شخص ناحق طورپر کسی کے مال وجائداد پر قبضہ کرتاہے تو وہ اس کو اپنی ہوشیاری سمجھ کر اطمینان حاصل کرتاہے۔ اِس قسم کی مختلف صورتیں ہیں جن پر عمل کرکے انسان کو خوشی اور فخر(pride)کا احساس ہوتاہے۔ وہ اپنے آپ کو کامیاب انسان سمجھ لیتاہے۔ لیکن اگر اس کو یقین ہو کہ موت کا فرشتہ کسی بھی وقت آئے گا، اور اچانک اس کی زندگی کا خاتمہ کردے گا، اِس حقیقت کا احساس اگر کسی کو حقیقی طورپر ہوجائے تو وہ محسوس کرے گا کہ موت سے پہلے ہی اس کی موت واقع ہوچکی ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کے قریب

2فروری2003 کو تمام دنیا کے اخباروں کی پہلی خبر صرف ایک تھی۔ وہ یہ کہ امریکا کا خلائی شٹل کولمبیا دھماکے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے (disintegrate)ہوگیا۔ یہ کولمبیا کا 28واں خلائی سفر تھا۔ یہ امریکی شٹل (US space shuttle Columbia) اپنے 16 دن کے سفر کے بعد زمین پر اترنے والا تھا۔ وہ تقریباً دو لاکھ فٹ کی بلندی پر 19 ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک زمینی کنٹرول سے اس کا رابطہ ٹوٹ گیا اور وہ دھماکے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت اس میں ۷ مسافر تھے جو سب کے سب مر گئے۔ اس خبر کا عنوان نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا نے ان الفاظ میں قائم کیا ہے —گھر سے صرف 16 منٹ دور: ـJust 16 minutes from home.... میں نے اس خبر کو پڑھا تو میںنے سوچا کہ یہی اس دنیا میں ہر انسان کا آخری انجام ہے۔ ہر انسان اپنا ایک خوابوں کا گھر (dream home) بناتا ہے جس میں وہ پُر مسرت زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ لیکن ابھی وہ اس گھر سے صرف 16 منٹ دور ہوتا ہے کہ اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ وہ اپنے بنائے ہوئے دنیوی گھر میں داخلہ کے بجائے آخرت کی عدالت میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس خلائی شٹل میں ایک ہندستانی نژاد خاتون کلپنا چاؤلہ (41 سال) بھی تھیں جو کرنال میںپیدا ہوئیں۔ سارا ہندستان ان کی واپسی کا انتظار کررہا تھا ۔ ان کے دوست اور رشتہ دار سفر کرکے امریکہ پہنچ چکے تھے تاکہ اسپیس شٹل کے اترنے کے بعد وہ کلپنا چاؤلا کو براہ راست مبارکباد دے سکیں۔ کلپنا چاؤلہ اگر حفاظت کے ساتھ واپس آگئی ہوتیں تو ان کا ہیروانہ استقبال ہوتا۔ مگر موت نے درمیان میں حائل ہوکر ایک طربیہ (comedy)کو ایک المیہ (tragedy) میں تبدیل کردیا۔یہ واقعہ کلپنا چاؤلہ کے لئے ایک ذاتی تجربہ تھا اور دوسروں کے لئے وہ ایک سبق ۔ اس واقعہ کو جاننے والا وہی ہے جو اس کے اندر خود اپنی تصویر دیکھ لے، جو اس کے اندر اپنی ذات کے لئے سبق حاصل کرلے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا تجربہ

مشہور ٹینس کھلاڑی مارٹینا (Martina Navratilova) طبی مشورے کے لئے ایک ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ تمھارے پھیپھڑے میں کینسر ہوچکا ہے اور وہ اگلے اسٹیج میں ہے۔ ڈاکٹر کی تشخیص (diagnosis)کو بتاتے ہوئے مذکورہ خاتون نے کہا کہ یہ خبر میرے لیے نائن الیون کے برابر ہے: It was such a shock for me. It was my 9/11. خاتون نے یہ بات اِس لیے کہی کہ موت اُس کو بالکل قر یب دکھائی دینے لگی۔ لیکن موت کے بعد کا جو مرحلہ ہے، وہ اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ موت، قرآن کے الفاظ میں، اسباب کے کامل تقطّع(البقرۃ 166:) کا نام ہے۔ موت کے بعد اچانک آدمی ایک اور دنیا میں پہنچ جاتاہے جو موجودہ دنیا کے مقابلے میں ہر اعتبار سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ موت کے بعد اچانک انسان پر دو سنگین حقیقتیں کھل جاتی ہیں— ایک یہ کہ اب موت سے پہلے والے دو رمیں واپسی ممکن نہیں، جہاں اس نے اپنی ایک دنیا بنائی تھی۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد والے دور میں وہ اپنے لیے ایک اور دنیا نہیں بناسکتا۔ یہ احساس آدمی کو ابدی مایوسی اور ابدی حسرت میں مبتلا کردے گا، اور بلاشبہہ ابدی مایوسی اور ابدی حسرت سے زیادہ اذیت ناک تجربہ اور کوئی نہیں۔ موجودہ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں اگر ایک چانس کھویا جائے تو اس کے بعد اس کو دوسرا چانس (second chance) مل جاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ جیت میں تبدیل کرسکے۔ لیکن آخرت میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ آخرت میںایسا نہیں ہوسکتا کہ آدمی اپنے لیے دوسرا چانس پالے۔ آخرت میں کسی انسان کے لیے دوبارہ کوئی چانس نہیں۔ پہلے چانس یا دوسرے چانس یا تیسرے چانس کا معاملہ صرف موجودہ دنیا میں پیش آتا ہے۔ آخرت کی دنیا مکمل طورپر اِس سے مختلف ہے۔ آخرت میں صرف انجام ہے، وہاں کسی کو دوبارہ نیا آغاز ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کوئی شخص موت کو جیت نہیں سکتا

اس کا حکم تھا کہ موت کا لفظ اس کے سامنے بولا نہ جائے، مگر ساٹھویں برس پہنچ کر اس کو معلوم ہوا کہ کوئی شخص موت کو جیت نہیں سکا۔ اسپین کے ڈکٹیٹر فرینکو، کئی دن بیماری سے جنگ کرنے کے بعد آخر کار اس دنیا سے چل بسے۔ فرینکو کا عرصۂ حیات لمبا کرنے کی غرض سے اسپین میں ڈاکٹروں نے جو رات دن کوشش کی اُس سے میڈیکل حلقوں میں بڑی زبردست بحث چھڑ گئی تھی کہ کیا اُس وقت جب کہ قدرت کے تمام قوانین کے مطابق اُن کےحواس جواب دے چکےتھے۔ اُنہیں کچھ ہفتہ پیشتر ہی مرنے دیناچاہیے تھا؟ یا کیا ڈاکٹر اس بات میں حق بجانب تھے کہ ہر قسم کی میڈیکل امداد اُنھیں مہیا کرکے کچھ دیر تک اور جسمانی طورپر زندہ رکھنے کے لئے اُن کے درجہ حرارت کو جزوی طور پر منجمد کردیتے۔ علاوہ بریں کیا یہ بات اخلاقی اصول کے مطابق ہے کہ قوم کے کسی لیڈر کی زندگی مصنوعی طورپر لمبی کرنا چاہیے یا کہ اُسے لمبا کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ میڈیسن کی دنیا میںایک زبردست بحث چھڑنے کا سبب ہوسکتی ہے۔ بہت سے اسکالروں نے اِس موضوع پر بحث کی ہے۔ یہ امر غیر معمولی طورپر اتفاقیہ ہے کہ اِس معاملہ پر ایک کتاب ابھی حال ہی میں شائع ہوئی ہے جس کی تصنیف پر13 سال لگ گئے تھے۔ مشہور مورخ پال مرے کنیڈال نے یہ کتاب فرانس کے 11 ویں بادشاہ لوئی کے بارے میں لکھی ہے جسے مرے 500 برس ہوچکے ہیں۔ لوئی ایک ایسا بادشاہ تھا جو مرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے اُس نے بہت کوشش کی کہ اُس کی زندگی کو طوالت دی جائے۔ فرینکو کی مانند بادشاہ لوئی ایک ایسی قوم بنانے کا ذمہ دار تھا، جس کی مرکزی سرکار بہت مضبوط تھی،مگر قوم اُن کے آنکھ بند کرنے کے بعد انتشار یا خانہ جنگی کا شکارہوسکتی تھی۔ اُسے اس بات کا بخوبی علم تھا، جیسا کہ ہمارے جدید زمانہ کے لیڈروں کو علم ہے۔لوئی کی عمر 58 سال کی تھی جب اُس پر فالج کا حملہ ہوا تھا۔ اُسے تب اِس امر کا علمہوگیا کہ وہ بہت دیر تک زندہ نہ رہ سکے گا۔ کیوں کہ اُس کے پریوار میں کوئی بادشاہ اپنا 60واں جنم دن نہ منا سکا تھا۔ لوئی کسی محفوظ قلعے میں امن وشانتی سے رہنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اُس نےایک محل میں رہنا شروع کیا جہاں بہت کم لوگوں کو داخلہ کی اجازت تھی۔ اس محل کی طرف جانےوالی سڑکوں پر جنگلے لگا دیئے گئے تھے۔ اور محل کے چاروں طرف خندق کھوددی گئی تھی۔چالیس تیر انداز پتھروں کی دیواروں پر بیٹھے ڈیوٹی دیتے رہتے تھے۔ انھیں حکم تھا کہ اگر کوئی اجازت کے بغیر محل کے نزیک آنے کی جرأت کرے تو اُسے قتل کردیا جائے۔ علاوہ بریں 400 گھوڑسوار دن رات علاقہ میں گشت کرتے رہتے تھے۔ محل کے اندر لوئی بڑی عیش پرستانہ زندگی گزار رہا تھا۔ اُس کے کمرہ میں خوبصورت تصاویر آویزاں تھیں۔ ماہر راگی اپنا راگ سنا کر اُسے خوش رکھتے۔ بڑے بڑے پنجروں میں بند کتّے اور پرندے جو وہاں رکھے ہوئے تھے اُسے بہت پسند تھے۔ زیادہ تر وقت وہ اپنے جسم کو سکوڑے ہوئے قابل رحم حالت میں آرام کرسی پر ہی گزارتا۔ اس کے سامنے ایک خوبصورت باغ تھا جسے وہ اپنے محل کی دوسری منزل سے دیکھتا رہتا۔ اگر چہ وہ جسمانی طورپر کمزور ہوچکا تھا۔ اپنی قوم کی زندگی اور موت اُس کے اختیار میںتھی۔ اس پر بھی وہ فکر مند تھا کہ اپنی رعایا پر یہ امر کیسے واضح کرے کہ وہ سب سے بڑا حکمراں ہے۔ اُس کو سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ اختیارات کا خواہش مند کوئی امیر، منصب دار اسے ہٹا کر خود اقتدار نہ سنبھال لے اور اُسے اپنے آخری ایام ایک دیوانہ بوڑھے کی مانند گزارنے نہ پڑیں۔ اپنے بڑھاپے میں لوئی ہر ایک پر شبہ کرنے لگا تھا۔ اُسے اپنے پرانے ملازموں پر شک تھا۔ چنانچہ انھیں ہٹا کر اُن کی جگہ اُس نے غیر ملکی بھرتی کرلئے تھے۔ اور پھر ان کواور اُن افسروں کو بھی جو اُس کی حفاظت کے لئے مامور تھے، وہ متواتر تبدیل کرتا رہتا تھا۔ وہ اُن سے یہی کہا کرتا کہ ـ’’قدرت کو تبدیلی بہت پسندہے‘‘۔ سرکار کے کام کاج میں حصہ لینے کے لیے وہ کافی بوڑھا ہوچکا تھا۔ اُسے یہ فکر دامن گیر تھی کہ شاید رعایا اس بات کو بھی بھول جائے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے۔ اُس کے ہم عصر ایک مورخ نے اُس کی نسبت تحریر کیاہے: ’’اُس نےیہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ ابھی تک حکمراں ہے ہر قسم کی چال چلی۔ وہ افسروں کو ڈسمس کردیتا اور ان کی جگہ نئے افسر مقرر کردیئے جاتے۔ کسی کی وہ تنخواہ کم کردیتا تو کسی کی تنخواہ میں اضافہ کردیتا۔ اُس نے اپنا وقت افسروں کو مقرر کرنے اور اُن کا بھٹہ بٹھانے میں صرف کیا تھاـ‘‘۔ لیکن یہ سب کچھ کافی نہ تھا۔ 11 واں لوئی ایک عظیم شکاری تھا۔ جانوروں سے وہ بہت انس کرتا تھا۔ اُس نے گھوڑے اور کتّے منگانے کے لیے یورپ بھر میں اپنے نمائندے بھیجے۔ اور مارکیٹ کی قیمت سے بھی زیادہ دے کر اُنھیں خریدا۔ چنانچہ اٹلی، سویڈن اورجرمنی سے گھوڑے اورکتّے آنے شروع ہوگئے۔ وہ اُس کے محل میں پہنچ جاتے،لیکن صحت کیکمزوری کے سبب اس کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ انھیں دیکھ بھی سکے، یا جو لوگ اُن کو خرید کر لائے ہیں اُن سے بات تک بھی کرسکے۔ لیکن اُسے علم تھا کہ سارے یورپ میں اُس کی اس خریداری پر چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ وہ ابھی تک زندہ تھا،اوراپنی صحت بحال کرنے کا وہ اتنا آرزو مند تھا کہ اُس نے اس امر کا حکم دے رکھا تھا کہ موت کا لفظ اُس کے سامنے بولا ہی نہ جائے۔ اُس کا ذاتی معالج اُس کے ایک نوکر کی مانند کام کرتا تھا۔اور بادشاہ کا وہ پسندیدہ بن گیاتھا۔ اُسے 10,000سنہری کراؤن ماہوار دیئے جانے لگے تھے۔ اُس وقت پورے یورپ کے کسی میدان جنگ میں 40 برس کام کرکے بھی ایک فوجی افسر اتنی رقم کما نہ سکتا تھا۔ اگرکوئی شخص اُس کی زندگی میں ایک دن کا بھی اضافہ کرسکے تو وہ اپنا سارا خزانہ لٹانے کو تیارتھا۔ 23 جولائی 1483 ء کو جب اُس کا 60 واں جنم دن نزدیک آنے والا تھا وہ اور بھی فکر مند ہوگیا۔ اُس وقت وہ اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ وہ مشکل سے لقمہ اُٹھا کر اپنے منہ میں ڈال سکتا تھا۔ اُس کے دل میں ایک خیال آیا۔ اُس نے ہزاروں سونے کے سکے جرمنی، روم اور نیپلز کے گرجا گھروں اور مذہبی رہنماؤں میں تقسیم کرنا شروع کردیئے۔ اُس نے تین بحری جہاز دےکر اپنے بہترین کپتان ایک جزیرہ میں بھیجا، تاکہ وہاں سے بڑے بڑے کچھوے لائے جائیں۔ اس کو بتایا گیا تھا کہ یہ بحری کچھوے زندگی بخش خواص کے مالک ہیں۔ اسے یاد تھا کہ فرانس کے بادشاہوں کو ان کی تاجپوشی کے وقت ایک خاص قسم کی کریم (cream)کا تلک لگایا جاتا ہے۔ یہ ایک کہاوت ہے کہ یہ کریم 496ء میں قدیم زمانہ کے ایک بادشاہ کو ایک فاختہ نے مہیا کی تھی۔ اور وہ اس کی موت سے چند ہی دن پہلے ایک سنہری رتھ میں پہنچی تھی۔ لوئی نے تمام مذہبی ذرائع کو جو ممکن تھے، اِس امید کے ساتھ اکٹھا کیا کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ رہ سکے۔ آخر میں نیپلز کی ایک گپھا سے ایک جوگی اس امید کے ساتھ اُس کے محل میں لایا گیا کہ اس کی پرارتھنا سپھل ہوگی۔ لیکن وہ بے اثر ثابت ہوئی۔ تاہم لوئی اُسے اپنے نزدیک رکھنے کا اتنا خواہش مند تھا کہ اُس نے اپنے وزیر خزانہ کو حکم دے دیا تھا کہ اُس جوگی کے لیے خواہ سارا خزانہ کیوں نہ صرف کرنا پڑے ،ضرور صرفکیا جائے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود بادشاہ لوئی پر فالج کا حملہ ہوا، اور 30 اگست کو وہ اس دنیا سے چل بسا۔ اُس کے منہ سے آخری لفظ یہی نکلے:’’میں اتنا بیمار تو نہیںہوں جتنا آپ لوگ خیال کرتےہیں‘‘۔ فرانس کی عوام کو یہ بات بخوبی یاد ہے کہ اپریل 1974 کو صدر جارجز پوپیڈو نے اپنے آخری بیان میں کہا تھا جب وہ کینسر کی وجہ سے مررہےتھے :’’میں اتنا بیمار تو نہیںہوں جتنا آپ لوگ خیال کرتےہیں‘‘۔ اور چند روز بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔آخر کار 11 ویں لوئی کو معلوم ہوگیا کہ کوئی شخص موت سے جیت نہیں سکتا۔ (ماخوذ)
واپس اوپر جائیں

پروموشن کی خبر

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا کہ میرا پروموشن (promotion) ہوگیا ہے، اب مجھے زیادہ تنخواہ ملے گی، زیادہ بڑا گھر رہنے کو ملے گا، اب مجھے زیادہ بڑی گاڑی استعمال کے لیے دی جائے گی۔ پہلے مجھے سفر کے لیے ریلوے کا پاس (pass) ملتا تھا، اب مجھے سفر کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ ملے گا، وغیرہ۔اس کو سن کر میںنے سوچا کہ یہی آخرت کا معاملہ بھی ہے۔ جنت کے معاملے کو دنیا کی اصطلاح میں اسی طرح بیان کیا جاسکتا ہے، جنت کا معاملہ بھی گویا پروموشن کا معاملہ ہے، جن لوگوںکا ریکارڈ موجودہ غیر کامل دنیا میں اچھا ہوگا، ان کو پروموٹ کرکے آخرت کی کامل دنیا (جنت) میں داخل کردیا جائے گا۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ آدمی دنیا میں بہت زیادہ ہوش مندی کے ساتھ رہے، وہ اپنے ہر معاملے کو اِسی نظر سے جانچے کہ وہ جنّت میں داخلے کے لیے رکاوٹ ہے یا مدد گار۔ اِس اعتبار سے جس آدمی کا ذہن بیدار ہو، وہ گویا کہ خود اپنا چوکی دار بن جائے گا، وہ اپنی سوچ، اپنی گفتگو، اپنا سلوک، غرض اپنے قول وعمل کی مسلسل طورپر نگرانی کرتا رہے گا، وہ حضرت عمر کے اِس قول کا مصداق بن جائے گا کہ: وزنوا أنفسکم قبل أن توزنوا (کنزل العمال44203:)۔یعنی اپنے آپ کو دنیا میں تولو اِس سے پہلے کہ تم کو آخرت میں تولا جائے۔ پروموشن کی خبر کی طرح دعوت بھی ایک خبر ہے۔ اگر کسی شخص پر سچائی منکشف ہوجائے تو اس کےلیے یہ واقعہ جاب میں پروموشن کی خبر سے بلین گنا زیادہ بڑا واقعہ ہوگا۔ ایسا آدمی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی دریافت کو اپنے ذہن میں لیے رہے اور اس کا اعلان نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کی دریافت اپنے آپ کسی آدمی کو داعی بنا دیتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے سچائی کو پالیا ہے، اس کے باوجود وہ دعوت الی اللہ کا کام نہ کرے تو یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس نے سچائی کو پایا ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خود کُشی: سب سے بڑی دیوانگی

خود کشی سب سے بڑی دیوانگی ہے۔ کیوں کہ خود کشی آدمی اُس وقت کرتا ہے، جب کہ وہ زیادہ کامیاب انداز میں کوئی عمل کرنے کی پوزیشن میں ہوجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خود کشی کسی انسان کے لیے سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ کوئی بھی آدمی نارمل حالت میں اِس کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آپ کو خود ہی مارڈالے۔ پھر کوئی شخص خود کشی جیسا انتہائی اقدام کیوں کرتا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کو جب کوئی سخت جھٹکا لگتا ہے تو اُس وقت یہ ہوتا ہے کہ فطری نظام کے تحت اُس کا دماغ محفوظ انرجی کور یلیز (release)کردیتا ہے۔ اِس بنا پر اُس وقت آدمی کی طاقت بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ اضافہ شدہ طاقت اِس لیے ہوتی ہے کہ آدمی پیش آمدہ مسئلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ مقابلہ کرسکے، مگر وہ اِس بڑھی ہوئی طاقت کا منفی استعمال کرکے خود کشی کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جولوگ خود کشی کا اقدام کریں اور کسی بنا پر مرنے سے بچ جائیں، تو وہ اپنی بعد کی زندگی میں زیادہ بڑا کام کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اقدامِ خود کشی کا واقعہ اُن کو شعوری یا غیرشعوری طورپر اپنی برتر طاقت سے متعارف کردیتاہے۔ چناں چہ موت سے بچنے کی صورت میں وہ اس کو بھر پور طورپر استعمال کرتے ہیں اور زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ فطرت کے اِس قانون کو شیخ سعدی نے سادہ طورپر اِس طرح بیان کیا ہے: نہ بینی کہ چوں گُربہ عاجز شود بَرآرد بہ چَنگال، چشمِ پلنگ انسان کی اکثر غلطیاں فطرت کے قانون کو نہ جاننے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ فطرت کے قانون کے مطابق، انسان کے دماغ میں ہمیشہ محفوظ انرجی موجود رہتی ہے۔ جب کوئی سخت مسئلہ پیش آئے تو دماغ آٹومیٹک طورپر اِس محفوظ انرجی کو ریلیز کردیتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دریا میں پانی کی قلّت کے وقت بَیراج کو کھول کر مزید پانی جاری کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر فطرت کے قوانین کو سمجھے تو وہ بہت سی نادانیوں سے بچ جائے، بہت سی ناکامیوں سے وہ کبھی دوچار نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

ابدی صحرا

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (9 فروری 2008)میں ایک سبق آموز واقعہ نظر سے گزرا۔ بمبئی کے ایک ایکٹر آنند سوریا ونشی نے اپنی بڑی موٹر کار گورے گاؤں (بمبئی) میں پے اینڈ پارک ایریا (pay-and park area) میں کھڑی کی۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو ان کی کار وہاں موجود نہ تھی، وہ چوری ہوچکی تھی۔ انھوں نے اخبار کے رپورٹر آلیورا (Roshni Olivera) کو بتایا کہ اِس کار میں میری تمام ذاتی چیزیں موجود تھیں۔ مثلاً لیپ ٹاپ، قیمتی اسٹون رِنگ، 40/30 ڈی وی ڈیز(DVDs)، تقریباً 50 سی ڈیز(CDs)، شوٹنگ کے کپڑے، موبائل فون، اور پرسنل ڈائری، وغیرہ۔ مسٹر آنند نے کہا کہ میں اِن چیزوں سے جذباتی طورپر وابستہ تھا: I was emotionally attached to them. اِس قسم کی تفصیلات کو بتاتے ہوئے انھوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ— اِس حادثے کے بعد مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کہ میں اچانک کسی ویران جزیرے میں آکر پھنس گیا ہوں: I feel like I am stranded on some island (p. 4) یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر آخرت میں پیش آئے گا۔ موت کے پہلے کی زندگی میں آدمی ہر قسم کے ساز وسامان میں جیتا ہے۔ مکان، گاڑی، اولاد، بزنس، شہرت، بینک بیلنس، وغیرہ۔ موت کے بعد کی زندگی میں آدمی اچانک اپنے آپ کو ایک نئی دنیا میں پائے گا۔ یہاں وہ پوری طرح اکیلا ہوگا۔ اس کے تمام مادّی سامان اُس سے چھوٹ چکے ہوں گے۔ اُس کے پیچھے وہ دنیا ہوگی جس کو وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا۔ اُس کے آگے وہ دنیا ہوگی جہاں اُس کے لیے ابدی صحرا کے سوا اور کچھ نہیں۔ موت سے پہلے آدمی اِس آنے والے دن کے بارے میں سوچ نہیں پاتا۔ موت کے بعد اچانک یہ دن آجائے گا۔ اُس وقت انسان سوچے گا، لیکن اس کا سوچنا اس کے کام نہ آئے گا۔سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی اِس آنے والے ہول ناک دن کی تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں

مرنے والوں کا تذکرہ

یہ ایک عام رواج ہے کہ جب کوئی شخص مرتا ہے تو اس کے بارے میں رسائل و جرائد میں مضامین شائع کیے جاتے ہیں، اس کی یاد میں تعریفی مضامین چھپتے ہیں، اس کی یاد میں شان دارجلسے کئے جاتے ہیں۔ اِن سب میں یہ ہوتا ہے کہ مرنے والے کے کارنامے اور اس کی عظمتیں بیان کی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ سخت مغالطہ انگیزی (misleading) کا ذریعہ ہے۔ کسی کی موت پر جواصل واقعہ پیش آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مرنے والا اپنی عظمت کے تمام نشانات کو اچانک چھوڑ دیتا ہے۔ موت اس کو ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتی ہے جہاں وہ بالکل تنہا اور بے سروسامان ہوتا ہے۔ حال (present) کے لحاظ سے مرنے والے کا اصل پہلو یہی ہوتاہے۔ لیکن تمام لکھنے اور بولنے والے، مرنے والے کے حال کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے، وہ صرف اس کے ماضی (past)کو لے کر اس کی دنیوی بڑائیاں بیان کرتے ہیں، حالاں کہ مرنے والا عملاً اپنے اِس ماضی سے مکمل طورپر منقطع ہوچکا ہوتا ہے۔ موت کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ کسی انسان کے لیے انقطاعِ کلّی (total detachment) کے ہم معنی ہوتی ہے۔ موت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے پہلے موقع (first chance) کو کھودیا، اور جہاں تک دوسرے موقع (second chance)کا سوال ہے، وہ کبھی کسی کو ملنے والا نہیں۔ ہر مرنے والا دراصل زندگی کے اِس سنگین پہلو کو یاددلاتا ہے۔ لیکن یہی وہ پہلو ہے جس کا تذکرہ نہ تحریروں میں کیا جاتا ہے اور نہ تقریروں میں۔ مرنے والے کے فضائل وکمال کو پڑھ کر یا سن کر بظاہر یہ تاثر قائم ہوتاہے کہ وہ آج بھی اِنھیں فضائل کا حامل ہے، حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں۔ مقررین اور محررین جس انسان کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ ایک تاریخ ساز انسان تھا، عین ممکن ہے کہ اس وقت خود مرنے والے کا حال یہ ہو کہ وہ ایک بے تاریخ انسان بن کر حسرت وبے بسی کے عالم میں پڑا ہو۔
واپس اوپر جائیں

خوش نما فریب

ہر زبان میں مثلیں (sayings)اور کہاوتیں ہوتی ہیں۔ یہ کہاوتیں انسانی زندگی کا تجربہ ہوتی ہیں۔ ہر مثل لمبے انسانی تجربے کے بعد بنتی ہے۔ اِسی قسم کی ایک انگریزی مثل یہ ہے— یہ اتنا زیادہ اچھا ہے کہ وہ سچ نہیں ہوسکتا: It is too good to be true. یہ ایک حقیقت ہے کہ سچ کے مقابلے میں، جھوٹ ہمیشہ خوش نما ہوتا ہے۔ حقیقی نفع کے مقابلے میں، فرضی نفع ہمیشہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ مخلصانہ بات کے مقابلے میں ، منافقانہ بات ہمیشہ خوب صورت ہوتی ہے۔ نصیحت کے مقابلے میں، خوش کرنے والی بات سننے میں زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ حقیقی تاریخ کے مقابلے میں، فرضی قصہ کہانیاں زیادہ دل چسپ ہوتی ہیں۔ حقیقت پسندانہ کلام کے مقابلے میں، رومانوی کلام ہمیشہ زیادہ دل کش نظر آتا ہے۔ کار آمد بات کے مقابلے میں، بے فائدہ بات آدمی کو زیادہ پرکشش معلوم ہوتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ ایسی حالت میں آدمی ہر وقت امتحان کی حالت میں ہے۔ ہر وقت اس کو چوکنا بن کر رہنا ہے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ جھوٹ کے فریب میں پھنس کر، سچائی سے دور ہوجائے۔ وہ ہوائی باتوں سے مسحور ہو کر، حقیقت پسندی کے راستے سے ہٹ جائے۔ وہ منافقانہ باتوں کے فریب میںآکر، مخلصانہ بات کو قبول نہ کرسکے۔ اِس دنیا میں ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ آدمی سونے کے ملمّع کو سونا سمجھ کر لے لے اور پھر وہ سخت نقصان میں پھنس جائے۔ وہ جھوٹے الفاظ کے فریب میںآکر ایسی چھلانگ لگا دے، جو اس کوایسے گڑھے میںگرادے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت اس کے لیے نہ ہو۔ اِس دنیا میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خوش نما باتوں سے متاثر نہ ہو، وہ ٹھوس حقائق کی روشنی میں اپنی رائے بنائے۔ دانش مند صرف وہ شخص ہے جو اِس معیار پر پورا اترے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا مسئلہ

19 نومبر 1994 کو دہلی کے تمام اخباروں کے صفحہ اول کی نمایاں خبر یہ تھی کہ جنرل بپن چندرا جوشی کا دہلی میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر ابھی صرف 59 سال تھی۔ بوقت وفات وہ آرمی چیف کے عہدہ پر تھے۔لمبی سروس کے بعد اب وہ اپنی آخری ترقی کے دور میں پہنچے تھے اور اس وقت سینئر موسٹ سروس چیف کی حیثیت رکھتے تھے۔ 18 نومبر کوگولف کھیلنے کے بعد انھوں نے سینہ میں دردبتایا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بے ہوش ہوگئے۔ فوری طورپر بہترین میڈیکل امداد بہم پہنچائی گئی۔ مگر وہ دوبارہ ہوش میں نہ آسکے۔ بے ہوشی کی حالت ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔ جنرل جوشی کے حالات کے ذیل میں بتایا گیا ہے کہ انھیں ایکس سروس مین کا بہت خیال رہتا تھا۔ ہندستان میں ایک سولجر 35 سال کی عمر میں ریٹائر ہوتا ہے اور افسر 48 سال کی عمر میں۔ اس طرح ہر سال فوج سے ستر ہزار آدمی ریٹائر ہوتے ہیں۔ ان کو ان ریٹائر ہونے والوں کی بہبود کی بہت فکر رہتی تھی۔ ان کا قول تھا کہ آج کا سپاہی کل کا ایکس سروس مین ہے: Today’s soldier is tomorrow’s ex-serviceman. جنرل جوشی اگر اور دور تک دیکھ سکتے تو کہتے کہ آج کا سولجر اور ایکس سروس مین دونوں ہی کل کے اعتبار سے آخرت کے باسی ہیں۔ دونوں ہی کو موت کے بعد آخرت کے ٹسٹ پر پورا اترنا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوگا کہ کون کیسا تھا اورکون کیسا۔ کون خوش بخت تھا اور کون بدبخت۔ کون کامیاب تھا اور کون ناکام۔لوگ موت سے پہلے کی زندگی میں الجھے رہتے ہیں، حالاں کہ دانش مندی یہ ہے کہ آدمی موت کے بعد کی زندگی کے مسائل کی سب سے زیادہ فکر کرے۔ لوگ انسانوں کی طرف سے پیش آنے والی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں، حالاں کہ حقیقت کا تقاضا ہے کہ خدا کی باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ لوگ دنیا کے قانون کی پکڑ سے بچنے کی تدبیریں کرتےہیں حالاں کہ اس سے زیادہ انھیں اس بات کی تدبیر کرنی چاہئے کہ کہیں وہ خدا کی پکڑ میں نہ آجائیں۔
واپس اوپر جائیں

موت کا المیہ

موت ہر عورت اور مرد پر لازماً آتی ہے۔ موت کا سب سے زیادہ المناک پہلو یہ ہے کہ موت کے بعد دوبارہ موجودہ دنیا میں واپسی ممکن نہیں۔ موت کےبعد انسان کو ابدی طور پر ایک نئی دنیا میں رہنا ہے۔ موت کے بعد صرف بھگتنا ہے، عمل کرنا نہیں ہے۔ انسان ایک بے حد حساس (sensitive) مخلوق ہے۔ انسان کسی سختی کو برداشت نہیں کرپاتا، خواہ وہ کتنی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ ہر عورت اور ہر مرد کو سب سے زیادہ یہ سوچنا چاہیے کہ موت کے بعد اگر اس کو سخت حالات میں رہنا پڑا تو وہ کیسے ان کو برداشت کرے گا۔ اگر انسان یہ سوچے تو اس کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوجائے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو وہ کہیں گے:الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (35:34)۔ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم کو دور کیا۔ تکلیف (pain) کی زندگی انسان کے لیے سب سے زیادہ ناقابلِ برداشت زندگی ہے۔ اور تکلیف سے پاک زندگی انسان کا سب سے بڑا مطلوب ہے۔ انسان اگر اس پہلو کو سوچے تو موت اس کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے ۔ وہ موت کے بارے میں اس سے زیادہ سوچے گا ، جتنا وہ زندگی کے بارے میں سوچتا ہے۔ موت کا تصور آدمی کے لیے ماسٹر اسٹروک (masterstroke) کی مانند ہے۔ ماسٹراسٹروک کیرم بورڈکی تمام گوٹوںکو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔ اسی طرح اگر آدمی کے اندر موت کا تصور زندہ ہو تو اس کے دماغ کے تمام گوشے ہل جائیں۔ اس کا سوچنا اور اس کا چاہنا، یک سر بدل جائے ۔ اس کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب آئے گاجو اس کو ایک نیا انسان بنادے گا۔موت سے غفلت آدمی کو ایک بے خبر انسان بناتی ہے۔ اس کے برعکس، موت کی یاد آدمی کو آخری حد تک ایک باخبر اور باہوش انسان بنادیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا پیغام

انڈیا کے سابق پریسیڈنٹ ڈاکٹر عبدالکلام 27 جولائی 2015کو انتقال کرگیے۔ بوقت وفات ان کی عمر 83 سال تھی۔ وہ نئی دہلی سے پرواز کرکے شیلانگ گیے ،تاکہ وہاں وہ ایک سائنسی موضوع پر لکچر دے سکیں۔ وہاں وہ اپنا لکچر دے رہے تھے کہ ان پر ہارٹ اٹیک ہوا۔ وہ اسٹیج پر گر پڑے۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا۔ وہاں ڈاکٹر نے اعلان کیا کہ ڈاکٹر کلام کا انتقال ہوچکا ہے۔ Former President Abdul Kalam died on July 27, while delivering a lecture at IIM Shillong. He was in Shillong to attend a course on Livable Planet Earth at Indian Institute of Management. The former President suddenly collapsed during the lecture. He was rushed to Bethany Hospital in Shillong only to be declared by doctors that he was no more. موت ایک ایسا واقعہ ہے جو ہر انسان کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہر انسان پر یہ لمحہ آتا ہے کہ موت کا فرشتہ اچانک اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے انسان تم کو اس دنیا میں صرف ’’83‘‘سال جینا تھا۔ یہ مدت پوری ہوچکی۔ اب تم کو ایک اور دنیا میں زندگی گزارنا ہے، جہاں تم ہمیشہ رہوگے۔’’83‘‘سال پر تمہاری زندگی کا ایک دور ختم ہوچکا، اور اب تمہاری زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ ہر انسان کو یہ معلوم ہے کہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں اس کو اپنی کامیابی کے لیے کیا کرنا ہے۔ مگر یہ بات کوئی شخص نہیں جانتا کہ موت کے بعد کے دورِ حیات کے لیے اس کو کیا تیاری کرنا چاہیے جو وہاں کی ابدی زندگی میں اس کےکام آئے۔ یہی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی وہ مسئلہ ہے جس سے ہر انسان بے خبر ہے۔ وہ دنیا کی ناکامی سے بچنے کے لیے تو سب کچھ کرتا ہے، لیکن آخرت کی ناکامی سے بچنے کے لیے وہ کچھ نہیں کرتا۔ کبھی بے خبری کے ساتھ، اور کبھی با خبر ہونے کے باوجود۔
واپس اوپر جائیں

موت کا واقعہ

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اکثروا ذکر ہادم اللـذات. یعنی الموت (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4258:)۔یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے۔اس کی شرح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ موت دنیا کی لذتوں سے آدمی کوپوری طرح منقطع کردیتی ہے ( فإنہ یقطع لذات الدنیا قطعا)۔ اس حدیث میں لذات سے مراد دنیوی تمنائیں (worldly aspirations) ہیں۔ یہاں جس چیز کو ھادم اللذات کہا گیا ہے، اس کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کے اندر اگر موت کا زندہ شعور ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کی دنیوی وابستگی (worldly attachment)باقی نہ رہے گا۔ وہ موت سے پہلے کی زندگی کے مقابلے میں موت کے بعد کی زندگی کو زیادہ اہم سمجھے گا۔ اس کے بعد اس کی سوچ مکمل طور پر آخرت رخی سوچ (akhirat-oriented thinking) بن جائے گی۔اس سوچ کا اثر یہ ہوگا کہ آدمی کی امنگیں، آدمی کی دوڑ بھاگ، آدمی کی منصوبہ بندی، سب آخرت رخی ہوجائے گی۔ جو آدمی موت سے غافل ہو ، وہ موجودہ دنیا کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے، اس کے ذہن پر موجودہ دنیا کا نقصان اور فائدہ چھایا رہتا ہے۔ وہ ایک دنیا پرست انسان بن جاتا ہے۔ لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا زندہ شعور آدمی کو حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ اب وہ سب سے زیادہ اس دن کے بارے میں سوچے گا، جب کہ لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے(المطففین 6:) ۔اب اس کو سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہوجائے گی کہ وہ آخرت میں اللہ کی پکڑ سے کس طرح بچ جائے۔وہ سب سے زیادہ جہنم سے ڈرےگا، اور سب سے زیادہ جنت کا مشتاق بن جائے گا۔ اس کے لذت اور غم کے تصورات بدل جائیں گے۔ اس کے سوچنے کا طریقہ اور اس کا عملی سلوک ،ہر چیز میں آخرت کا اثر دکھائی دینے لگے گا۔
واپس اوپر جائیں

موت کا تصور

ایک حدیث رسول میں موت کو ھادم اللذات (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258) کہا گیا ہے۔ یعنی کوئی انسان اگر اپنی موت کو یاد کرے تو یہ یاد اس کے لیے لذتوں کو ڈھادینے والی بن جائے گی۔ اس کے لیے پھر کوئی لذت ، لذت نہیں رہے گی۔جن مادی چیزوں کو لے کر لوگ خوش ہوتے ہیں، وہ چیزیں اس کو خوشی نہ دے سکیں گی۔ موت کا تصور آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ تمھارے اوپر ایک ایسا دن آنے والا ہے جو اچانک تمھارا سب کچھ بدل دے گا۔ تم اپنے بنائے ہوئے گھر میں ہوگے، تم اپنے بچوں کے درمیان خوش ہوگے، تم اپنے دوستوں کے درمیان یا اپنی معاشی زندگی کے درمیان ہوگے، یا اور کسی حال میں ہوگے، اس وقت اچانک موت کا فرشتہ آئے گا۔ وہ تمھارے جسم کو چھلکے کی طرح پھینک دے گا، اور تمھارے اصل وجود کو لے کر ایک اور دنیا میں چلا جائے گا۔ تمھارے جاننے والے کچھ نہ جانیں گے کہ تم کہاں چلے گیے۔ موت کا یہ تصور آدمی کو بے حد سنجیدہ بنادیتا ہے۔ آدمی کی سب سے بڑی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ میں کیا ہوں اور میرا مستقبل کیا ہے، میری زندگی کیا ہے اور میری موت کیا ہے۔ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں مجھے کیا کرناہے، موت کے بعد کے دورِ حیات میں میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ موت کی یاد آدمی کواس قابل بنادیتی ہے کہ وہ زندگی کے معاملے میں بے حد سنجیدہ ہوجائے، وہ ہر لمحہ اپنی زندگی کا محاسبہ کرنے لگے۔ موت حتمی انداز میں انسان کو بتاتی ہے کہ بظاہر اگرچہ تمھارا حال (present) تمھارے قبضے میں ہے، لیکن تمھارا مستقبل (future)ہر گز تمھارے قبضے میں نہیں۔ موت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے حال سے زیادہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوجائے۔وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات کی تعمیرکے بجائے موت کے بعد کے دورِ حیات میں مشغول ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

ھادم لذات

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: قال رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ علیہ وسلم:أکثروا ذکر ہادم اللذات، یعنی الموت (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر موت کی حقیقت کو پوری سنجیدگی کے ساتھ یاد کرے تو اس کی زندگی کا فوکس بدل جائے گا۔ اس کی زندگی دنیا رخی زندگی نہیں رہے گی، بلکہ آخرت رخی بن جائے گی۔ جب ایک شخص دنیا پرستی کا طریقہ اختیارکرتا ہے، وہ ہر وقت دنیا کمانے میں لگا رہتا ہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوتا ہےکہ اس کو اپنی مصروفیت میں ایک لذت ملتی ہے۔ وہ اس مصروفیت میں اپنے لیے ایک شاندار دنیوی مستقبل کا امکان دیکھتا ہے۔ لیکن اگر اس کو معلوم ہو کہ اس پر ایک ایسا دن آنے والا ہے، جب کہ وہ اپنی ساری کمائی چھوڑ کر اس دنیا سے چلاجائے گا، تو اس کے لیے اپنی مصروفیت میں کوئی دلچسپی باقی نہ رہے گی۔ اس کے اندر ایک نئی سوچ بیدار کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ وہ سوچے گا کہ اگر میری کمائی موت کے بعدمیرے ساتھ جانے والی نہیں ہے تو مجھے اپنی سرگرمیوں کا رخ بدلنا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی سے غصہ ہوجائے، اور وہ اس کے خلاف انتقامی کارروائی کا منصوبہ بنائے تو موت کی یاد اس کی زندگی کا رخ بدل دے گا۔ وہ سوچے گا کہ جب میرا انتقام ابدی معنوں میں کسی کا کچھ بگاڑنے والا نہیں تو میں کیوں انتقامی کارروائی میں اپنا وقت ضائع کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کی یاد آدمی کے لیے یاد دہانی (reminder) کا ذریعہ ہے۔ موت کی یاد اس کے عمل کی تصحیح کرنے والی ہے۔ موت کی یاد آدمی کومنفی (negative) کارروائی سے ہٹا کر مثبت کارروائی میں مصروف کردیتی ہے۔ موت کی یاد آدمی کو سنجیدہ اور حقیقت پسند بناتی ہے۔ موت آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ لازمی طور پر وہ ایک دن انسان کی دنیا سے نکل کر خدا کی دنیا میں جانے والا ہے، یہ سوچ آدمی کے لیے اپنی تصحیح آپ (self-correction) کا ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

موت کا سبق

میں ایک جنازہ میں شریک ہوا۔ موت کے بعد مرنے والے شخص کو نہلایا گیا۔ اس کو نئے کپڑے کا کفن پہنایا گیا۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھی اور پھر وہ میت کو اپنے کاندھوں پر لے کر چلے، یہاںتک کہ قبر میں احترام کے ساتھ لٹا کر اس کو ڈھک دیاگیا۔ میںنے سوچا کہ ایک مردہ جسم کے ساتھ اتنے زیادہ اہتمام کا حکم اسلام نے کیوں دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم مٹی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، مگر اس کو عام مٹی کی طرح اِدھر اُدھر پھینک نہیں دیا جاتا، بلکہ اس کے ساتھ باقاعدہ انسان کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ ’’مٹی‘‘ کے ساتھ ’’انسان‘‘ جیسا معاملہ کرنے کا حکم مرنے والے کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ زندہ رہنے والے کے اعتبار سے ہے۔ مردہ انسان کے ذریعہ زندہ انسانوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ بالآخر ان کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ زندہ لوگ مرنے والے کے روپ میں خود اپنے آپ کو دیکھیں۔ وہ موت سے پہلے موت کا تجربہ کریں۔ یہ تجربہ اس طرح بھی ممکن تھا کہ ایک مقرر دن میں کاغذ کا ایک انسانی پتلا بنایا جائے اور اس کے ساتھ تمام رسوم ادا کرکے اس کو مٹی کے گڑھے میں ڈال دیا جائے۔ اسلام نے اس تجربہ کو حقیقی بنانے کے لیے حقیقی انسان کے مردہ جسم کو استعمال کیا۔ ایک انسان ہماری طرح ایک زندہ انسان تھا۔ چلتے چلتے اس کے قدم جواب دے گئے۔ بولتے بولتے اس کی زبان بند ہوگئی۔ دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں بے نور ہوگئیں۔ لوگوں کے نزدیک اس کی جو قیمت تھی، وہ سب اچانک ختم ہوگئی۔ اب خدا اِس واقعہ کو استعمال کرتا ہے، تاکہ اپنے جیسے ایک انسان کے ذریعہ وہ لوگوں کو زندگی کا سبق یاد دلائے۔ لوگ اس کو اہتمام کے ساتھ تیار کرتے ہیں اور پھر لے کر چلتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخری مرحلہ میں پہنچ کر جب اس کو قبر کے گڑھے میںلٹا دیا جاتا ہے تو ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ تین بار اپنے ہاتھ میںمٹی لے کر قبر میں ڈالتا ہے۔ پہلی بار مٹی ڈالتے ہوئے وہ کہتا ہے :منہا خلقناکم (اسی سے ہم نے تم کو پیداکیاتھا)، جب وہ دوسری بار مٹی ڈالتا ہے تو کہتا ہے: وفیہا نعیدکم (اسی میںہم تم کو دوبارہ ڈال رہے ہیں) اور پھر تیسری بار مٹی ڈالتے ہوئے وہ کہتا ہے : ومنھا نخرجکم تارۃً أخریٰ (اور اسی سے ہم تم کو دوبارہ نکالیں گے)۔(دیکھیے، سورہ طٰہ 55 :)یہ تین بار مٹی ڈالنا، اس پورے معاملہ کا کلائمکس ہے۔ اس طرح ایک زندہ واقعہ کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ انسان کیا ہے اور اس کا آخری انجام کیا۔ ممتاز ترین ارب پتی ہوورڈ روبارڈ ہیوز (Howard Robard Hughes)امریکاکا ایک ممتاز ترین ارب پتی تھا۔ اپریل 1976 میں ایک ہوائی سفر کے دوران اس پر دل کا حملہ ہوا۔ اس کے ہوائی جہاز کو فوراً ہاؤسٹن میں اتارا گیا۔ مگراسپتال پہنچنے سے پہلے وہ ختم ہوچکا تھا۔ اپنے قانون داں باپ سے اس کو ایک ملین ڈالر بطور وراثت ملے تھے۔ مگر اس نے اپنی غیرمعمولی تجارتی صلاحیت سے اپنے سرمایہ کو 20,000 کروڑ ڈالر سے بھی زیادہ بڑھا لیا۔ اس کے ہوائی جہاز کا عملہ جو اس کے ساتھ شریک سفر تھا اس نے اس کے آخری لمحات کے بارے میں جو چشم دید تاثرات بیان کئے اس کی بنیاد پر مشہور امریکی آرٹسٹ شرل سالومن نے اس کا خاکہ تیار کیا ہے۔ اس خاکہ میں اس کے سفر حیات کے آخری لمحات کو مصوّر کیاگیا ہے — امریکا کا کامیاب ترین تاجر اُس خاکہ میں وحشت، مایوسی، بے چارگی ، ناکامی اور بے یقینی کا مجسمہ نظر آتا ہے۔ امریکی تاجر کی یہ وحشت ناک تصویر اس کیفیت کو مجسم کررہی ہے جو ایک آدمی کی اس وقت ہوتی ہےجب وہ موت کے دروازے پر پہنچ چکا ہو، اس کے پیچھے وہ زندگی ہو جس کو وہ چھوڑ چکا اور آگے وہ زندگی ہو جس میں اب وہ ہمیشہ کے لئے داخل ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اپنی نمازِ جنازہ

دہلی میں ایک مسلمان کی موت ہوئی۔ نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعدان کو ایک مقامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ میرےایک ساتھی نے بتایا کہ وہ اس نماز میں شریک تھے۔ نماز شروع ہونے والی تھی تو ان کے پاس کھڑے ہوئے ایک مسلمان نے پوچھا— فرض کی نیت کروں یا سنت کی نیت کروں۔ انھوں نے کہا کہ خود اپنی نمازِ جنازہ کی نیت کرو۔ اُس آدمی کو حیرانی ہوئی۔ بعد کو انھوں نے اس آدمی سے کہا کہ کسی کے مرنے پر جنازہ کی نماز پڑھنا محض ایک رسم نہیں، وہ ایک سنگین حقیقت کی یاد دہانی ہے،یہ حقیقت ہےکہ مرنے والے کی جس طرح موت ہوئی ہے، اُسی طرح میری موت بھی ہونے والی ہے۔ با جماعت نمازِ جنازہ دراصل اِسی حقیقت کی یاد دہانی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سچی نماز جنازہ اُسی انسان کی ہے جو دوسرے کی موت میں اپنی موت کو یاد کرے۔ وہ سوچے کہ آج جو کچھ مرنے والے کے ساتھ پیش آیا ہے، وہی خود میرے ساتھ پیش آنے والا ہے۔ موت کو دیکھ کر جو آدمی اس طرح سوچے، وہ جب جنازہ کی نماز کے لئے کھڑا ہوگا تو اس کا احساس یہ ہوگا کہ میںخود اپنے جنازہ کی نماز پڑھ رہا ہوں۔ جو کچھ دوسرے کے ساتھ آج پیش آیا ہے، وہی میرے ساتھ کل پیش آنے والا ہے۔ موت کسی ایک انسان کا معاملہ نہیں، موت کا واقعہ ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ لازمی طورپر پیش آنے والا ہے۔ مزید یہ کہ موت کسی سے پوچھ کر نہیں آتی، موت اچانک آجاتی ہے۔ اور موت جب آجاتی ہے تو کوئی بھی انسان اس کو واپس کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے، ایک انسان کے لئے بھی اور دوسرے انسان کے لیے بھی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنی موت کو یاد کرے، جو شخص اتنا زیادہ غافل ہو کہ دوسرے کی موت کو دیکھ کر بھی اس کو اپنی موت یاد نہ آئے، وہ گویا کہ بے حس پتھر ہے۔ وہ بظاہر انسان ہے، لیکن وہ انسانی صفات سے اُسی طرح خالی ہے جس طرح پتھر کا کوئی مجسمہ انسانی صفات سے خالی ہوتا ہے۔ موت کو یاد کرنا حساس (sensitive)انسان کی صفت ہے، اور موت کو یاد نہ کرنا بے حس (insensitive)انسان کی صفت ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 246

1۔ صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن (انگلش) امریکا میں بہت بڑے پیمانے پر لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ یہ کام جناب کلیم الدین صاحب کی نگرانی میں انجام پارہا ہے، اور لوگوں کی جانب سے اس کا بہت اچھا رزلٹ مل رہا ہے۔ کلیم صاحب لکھتے ہیں کہ لوگوں کی جانب سے ہمیں دو طرح کے رسپانس ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ قرآن پڑھتے ہیں اور جو سوالات ان کے ذہن میں پیدا ہوتے وہ ہم سے پوچھتے ہیں، اور مثبت تبصرہ بھی کرتے ہیں۔دوسرا یہ کہ کچھ لوگ باقاعدہ قرآن کے ڈسٹریبیوٹر بن جاتے ہیں۔اللہ تعالی اس کام کو اور آگے بڑھائے۔ (آمین)
2 ۔ قارئین الرسالہ حلقہ ناگپور و کامٹی کی ماہانہ میٹنگ بروز اتوار، مورخہ 7 اگست 2016، ساجد احمد خان صاحب (کامٹی)کے مکان پر ہوئی ۔ میٹنگ میں یہ امور طے پائے کہ اطراف \کے قارئین الرسالہ سے رابطہ قائم کرکے ان کو دعوتی کام کی ترغیب دی جائے۔ تعلیم یافتہ حضرات سے ملاقات کرکے ان کو الرسالہ (اردو اور انگریزی) کا قاری بنانے کی کوشش کی جائے۔ نیز صدر اسلامی مرکز سے براہ راست تربیت کے لیے دہلی کا ایک سفر ہونا چاہیے۔
3 ۔ ڈی ایم سہارن پور مسٹر پون کمار (آئی اے ایس) کا ٹرانسفر لکھنؤ ہوگیا ہے۔ وہ ہندستان کے پہلے ایسے ڈی ایم ہیں جنھوں نے صدر اسلامی مرکز کی تمام ہندی انگلش کتابوں کو پڑھا ہے۔ وہ خود بھی ایک رائٹر ہیں۔ وہ مولانا کو امبیسڈر آف پیس مانتے ہیں۔ ان کے لئے منعقد الوداعیہ تقریب میں سی پی ایس ٹیم نے ان کو صدر اسلامی مرکز کی ایک انگلش کتاب ’انڈین مسلمس‘ پیش کی۔ہم امید کرتے ہیں کہ مسٹر پون کمار لکھنؤ میں بھی دعوہ ورک کرتے رہیں گے۔ نیز ان کی بیوی مس انجو سنگھ (پی سی ایس) جو کہ پیس مشن سے جڑی ہوئی ہیں، وہ بھی لکھنؤ میں دعوہ ورک کرتی رہیں گی۔ ایک دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر آر آر اگروال جو کہ قرآن اور گاڈ ارائزز بڑی تعداد میں مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی (رامپور) میں تقسیم کر تے رہے ہیں، گلوبل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، انبالہ کے ڈائریکٹر بن گئے ہیں۔ وہ وہاں بھی مسلسل قرآن اور دوسری تقسیم کررہے ہیں ،نہ صرف طلبہ کے درمیان بلکہ مہمانوں اور اسٹاف کے درمیان بھی۔ (ڈاکٹر محمد اسلم خان)
4 - Last week a 22 year old boy passed away in an accident. On his funeral many white families came to the mosque. I made 25 sets containing a copy of the English translation of the Quran, The Reality of Life, Islam in Brief and Muhammad the Ideal Character. I gave the gifts to the guests, saying that this was a gift for them. Alhamdulillah, everyone took it happily.(Gulzeba Ahmad, Maryland, US(
5۔ بعد سلام عرض ہے کہ الرسالہ کافی پسند آرہا ہے۔ میں رمضان شریف میں روزانہ افطار سے قبل آپ کے لیے خوب دعائیں کرتا ہوں۔ اللہ پاک آپ کا سایہ اس امت پر قائم رکھے۔ آپ کے اصلاحی کاموں کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ اللہ پاک آپ کو ہر طرح کی رحمتوں سے نوازے۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ (محمد نثار اختر انصاری، ناگپور)
6۔ صدر اسلامی مرکزکےمنتخب اردو مضامین کو ڈاکٹر یوگندر سکند (بنگلور)نے انگریزی میں Jihad, Peace and Inter-Community Relations in Islamکے نام سے ترجمہ و ترتیب دیا ہے۔ تقریباً 140 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو روپا اینڈ کمپنی نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کو پبلشر کے علاوہ گڈورڈ بکس سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔حال ہی میں اس کتاب پر یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر فائر اسٹون(Reuven Firestone)نے تبصرہ لکھا ہے۔ ذیل میں ان کا تبصرہ نقل کیا جاتا ہے:

Yoginder Sikand writes in his preface, “New Delhi-based Maulana Wahiddudin Khan is one of the few ulama or traditionally-trained Islamic scholars throughout the world to have made a deep and incisive study of the politics and ideology of extreme self-styled ‘Islamic’ groups and to have critiqued them from within an Islamic framework”. Khan is indeed a remarkable thinker and this is a remarkable book for its frank, self-critical approach.

The Maulana (an honorific meaning, literally, “our master”) had a thoroughly traditional pious village upbringing and then formal religious training in what is today the Indian state of Uttar Pradesh. When he returned to his village after his studies he experienced a personal crisis in the tension between tradition and modernity, a tension which he eventually resolved through a journey in which he engaged independently and directly with the Qur’an and Tradition. In the process he taught himself English, through which he encountered Western writers and philosophers. By engaging in both traditional and modern discourses he was able to resolve many of the conflicts that plagued him, resulting in an authentic vision of Islam that is also consonant with the moral-ethical language and concerns of a universal perspective.

Four interrelated themes pervade the volume: 1) a critique of the politics and ideology of radical, self-styled Islamists who claim to be engaged in Islamic jihad, 2) discussions about how jihad is conceived in the Qur’an and the Hadith (traditions attributed to Muhammad that treat his words and deeds) and how many modern jihadists have deviated from them, 3) authentic Islamic teachings supporting inter-religious and cross-community dialogue and friendship and how self-styled jihadists have failed to understand them, and 4) the need for Muslims to abandon slavish devotion to medieval precedent and to engage in ijtihad or critical, contextual analysis of the teachings of Qur’an and Hadith on issues of contemporary concern, including those related to war, peace, and inter-religious and inter-community relations.

Having written more than 150 books, Khan is perhaps the most prolific contemporary Muslim religious scholar in the second largest Muslim population in the world. Most of his works, however, are available only in Urdu. Yoginder Sikand’s careful editing and translation of Khan’s work is an important contribution to the growing literature on “holy war” ideology in world religions, and an incisive response to the complex problems behind the current growth of Islamist radicalism among some Muslims. The book is a must-read for all who are engaged in inter-religious dialogue.

■ I am a great fan of Maulana’s articles and very much impressed with his impressive way of writing. Al-Azhar University will hold an international peace conference in association of Muslim council of elders and the Vatican. We would like to invite Maulana for the Peace Conference. (Dr. Reham Abdullah, Al-Azhar University, Cairo)
■ These days, I am reading Maulana's book Quranic Wisdom. Please tell Maulana that people are learning from his writings and trying their best to understand Islam. So keep writing for seekers. (Kapila Gureja, New Delhi)
■ Spirit of Islam is a really a good magazine to help you think about the values in the Quran in a simpler way. It also helps break everything down into different chapters and sections, so it is easy to follow along. (Rabia Ahmed, New York)


واپس اوپر جائیں