Pages

Sunday 1 May 2005

Al Risala | May 2005 (الرسالہ،مئی)

2

- بامقصد زندگی

3

- مستقبل کا انتظار

4

- رزق خدا کے ہاتھ میں

5

- ایک کے بدلہ میں دس

6

- بچاؤ کی تدبیر

7

- آسان تدبیر

8

- لڑے بغیر مقابلہ

9

- محنت کا کرشمہ

10

- انسان کا کم تر اندازہ نہ کیجئے

11

- صلاحیت کا استعمال

12

- کام کی تلاش

13

- غیر فطری محبت

14

- مستقبل پر نظر

15

- تیسرا انتخاب

16

- کامیاب ازدواجی زندگی

17

- گھریلو جھگڑے

19

- تعلیم کی طرف

21

- یہ بدعت ہے

24

- ناشکری کا فتنہ

30

- یہ نمبر موجود نہیں

32

- ایک ملاقات

34

- ٹیلی فون سے خطاب

39

- دو خط

43

- خبر نامہ اسلامی مرکز


بامقصد زندگی

انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ انسان جو سوچ سمجھ کر اپنی زندگی کا ایک واضح مقصد متعین کرے ۔ دوسرا انسان وہ ہے جس کے سامنے کوئی واضح مقصد نہ ہو۔ وہ حالات یا خواہشات کے تحت کبھی ایک کام کرے، اور کبھی دوسرا کام کرنے میں لگ جائے۔ پہلی قسم کے لوگ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ ہمیشہ ناکام۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ فرق کوئی سادہ فرق نہیں۔ ان سے دو الگ الگ قسم کی زندگیاں بنتی ہیں۔ جو آدمی اس طرح زندگی گذارے کہ اُس کے سامنے ایک واضح نشانہ ہو، اس کا حال یہ ہوگا کہ وہی نشانہ اُس کی تمام توجہات کا مرکز بن جائے گا۔ وہ اُسی کے لیے سوچے گا ۔ اُس کے تمام جذبات اُسی کے ساتھ جڑ جائیں گے۔ وہ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اسی ایک کام میںصرف کرے گا۔ وہ اپنی ساری پونجی اسی راہ میں لگا دے گا۔ اسی مقصد کے تحت وہ کسی سے کٹے گا اور کسی کے ساتھ جڑ جائے گا۔ اسی کے مطابق، وہ کسی کو اپنا دوست بنائے گا اور کسی کو اپنا دشمن سمجھ لے گا۔ وہ اسی کے ساتھ اپنی شام کرے گا اور اسی کے ساتھ اس کی صبح طلوع ہوگی۔
اس قسم کی زندگی کا انجام پیشگی طورپر معلوم ہے، اور وہ انجام یہ ہے کہ ایسا شخص یقینی طورپر کامیاب ہوکر رہتا ہے۔ اپنی نادانی کے سوا کوئی بھی دوسری چیز اس کو ناکام کرنے والی نہیں۔
اس کے برعکس معاملہ اس انسان کا ہے جس کے سامنے زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہو۔ ایسا انسان سمت کے شعور (sense of direction) سے محروم رہے گا۔ اس کی سوچ اور اس کا عمل دونوں مختلف راہوں میں بکھرے رہیں گے۔ وہ اپنی پونجی کو بے فائدہ طورپر اِدھر اُدھر ضائع کرتا رہے گا۔ وہ اپنی طاقت کو مختلف میدانوں میں بکھیر کر خود ہی اپنے آپ کو کمزور بنا لے گا۔ ایسے آدمی کا انجام یقینی طورپر تباہی ہے۔ وہ ناکامی کی زندگی گذارے گا اور آخر کار ناکام حالت میں مرجائے گا۔بامقصد زندگی کا نام کامیاب زندگی ہے، اور بے مقصد زندگی کا نام ناکام زندگی ۔
واپس اوپر جائیں

مستقبل کا انتظار

کوئی شخص اگر مجھ سے پوچھے کہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے سب سے زیادہ یقینی فارمولا ایک لفظ میں کیا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ سنگل پوائنٹ فارمولا صبر ہے۔ صبر کو اس معاملہ میں مشکل کُشا کی حیثیت حاصل ہے۔ تدبیر کار سمجھ میں آئے یا نہ سمجھ میں آئے، دونوں حالتوں میں صبر کرلیناہی آخر کار کامیاب ہونے کے لیے کافی ہے۔
صبر کیا ہے۔ صبر نہ تو بے ہمتی ہے اور نہ بے عملی۔ صبر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک گہری عملی تدبیر ہے۔ صبر اُسی طرح ایک تدبیری عمل ہے جس طرح دوسرا کوئی عمل تدبیری عمل ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ بے صبر آدمی نتیجہ کو حال میں پانا چاہتا ہے۔ اور صبر والا آدمی نتیجہ کے معاملہ کو مستقبل کے خانہ میں ڈال دیتا ہے۔ ایک اُردو شاعر نے کہا ہے:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
یہ بظاہر ایک شاعرانہ بات ہے۔ مگر وہ شاعرانہ اُسلوب میںایک فطری حقیقت کا اظہار ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام تعمیر کے اصول پر بنایا گیا ہے۔ یہاں ہر تخریب کے بعد اپنے آپ ایسے اسباب فراہم ہونے لگتے ہیں جو اس کی نئی تعمیر کر سکیں۔ ایسی حالت میں صبر کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کی تعمیری طاقتوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے کام کو تکمیل تک پہنچا سکیں۔
ہمارے جسم میں اگر کوئی زخم آجائے یا جسمانی نظام میں کوئی خرابی واقع ہوجائے تو جسم کا داخلی نظام اپنے آپ اس کی مرمّت اور درستگی میں لگ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جسم دوبارہ اپنی اصل حالت پر آجاتا ہے۔ یہی معاملہ جسم سے باہر کی زندگی کا ہے۔ انسانی زندگی میں جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے تو فطرت کا نظام اپنے آپ اس کی اصلاح کے لیے متحرک ہوجاتا ہے۔ اگر انسان صبر کرے اور انتظار کی روش اختیار کرے تو جلد ہی وہ دیکھے گا کہ اس کی براہِ راست کوشش کے بغیر سارا مسئلہ اُسی طرح حل ہوگیا ہے جیسا کہ وہ خود چاہتا تھا۔
واپس اوپر جائیں

رزق خدا کے ہاتھ میں

دہلی کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ انہوں نے ایم بی اے کاکورس کیا ہے۔ وہ ایک غیر ملکی کمپنی میں سروس کرتے ہیں۔ عام غیرملکی کمپنیوں کی طرح اس کمپنی کا اُصول یہ ہے کہ ملازمت دو اور برخاست کردو(hire and fire) اُنہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور کہا کہ بظاہر میں ایک اچھی ملازمت میں ہوں۔ مگر مجھے ہر وقت ٹنشن رہتا ہے۔ ہر وقت مجھے سروس کھونے کا اندیشہ (fear of losing job) پریشانی میں مبتلا کیے رہتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کی پریشانی ایک نفسیاتی پریشانی ہے، نہ کہ کوئی حقیقی پریشانی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ رزق کی تقسیم خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ خدا جس کو چاہے دے اور خدا جس کو چاہے محروم کردے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو ایک سادہ فارمولا دیتا ہوں۔ اس کو آپ اپنے ذہن میں بٹھا لیجیے اور پھر آپ کو کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ وہ فارمولا یہ ہے—ایک شخص آپ کی سروس کو چھین سکتا ہے مگر کوئی شخص اتنا طاقتور نہیں کہ وہ آپ سے آپ کی قسمت کو چھین لے:
One can take away your job, but no one has the power to take away your destiny.
کہیں میری سروس نہ چلی جائے— اس خیال میں فکر مند ہونے کے بجائے آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اتنا زیادہ لائق بنائے کہ کوئی شخص اُس کی سروس ختم کرنے کی ہمت ہی نہ کرسکے۔ اس مسئلہ کا حل اندیشہ میں مبتلا ہونا نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو زیادہ کار آمد بنانا ہے، اپنے آپ کو دوسروں کے لیے مفید تر بنانا ہے۔ کوئی بھی شخص ایک کار آمد انسان کو کھونے کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہ صرف ناکارہ لوگ ہیں جو محروم کیے جاتے ہیں، اور پھر اپنی محرومی پر شکایت کا دفتر کھول دیتے ہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی فطری صلاحیت پر بھروسہ کرے نہ کہ دوسروں کے رویہ پر۔ ہر آدمی کی قسمت اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ مگر غلطی سے وہ اس کو دوسرے کے ہاتھ میں سمجھ لیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک کے بدلہ میں دَس

مارک ٹوین (Mark Twain) امریکا کا مشہور ناول نگار ہے۔ وہ ۱۸۳۵ میں پیدا ہوا اور ۱۹۱۰ میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کا ایک قول یہ ہے—دینے اور لینے کا اصول در اصل ایک تدبیر کار ہے۔ یعنی ایک دو اور دس پاؤ:
The principle of give and take is the principle of diplomacy— give one and take ten.
دینے والا جب کسی معاملہ کو دے کر ختم کرتا ہے تو بظاہر وہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ کھو دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ شرافت کا ایک معاملہ ہوتاہے۔ نتیجہ کے اعتبار سے اس دنیا میں اُسی کو کامیابی ملتی ہے جو شریفانہ اخلاق کا مظاہرہ کرے۔ وہ جتنا دیتا ہے اُس سے بہت زیادہ وہ آخر کار پالیتا ہے۔ وہ اگر ایک کے بقدر دیتا ہے تو واپس ہو کر وہ اُس کو دس کے بَقدر ملتا ہے۔
ایک دینا وہ ہے جو تجارتی لین دین کے تحت ہو۔ اس لین دین میں دونوں طرف انٹرسٹ ہوتا ہے۔ جو دیتا ہے وہ بھی انٹرسٹ کے لیے دیتا ہے اور جو لیتا ہے وہ بھی انٹرسٹ کے لیے لیتا ہے۔ اس طرح کے لین دین میں برابر کا اُصول ہے۔ یعنی جتنا دینا اُتنا پانا۔ دوسرا لین دین وہ ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک شخص کسی ذاتی غرض کے بغیر دوسرے کی خدمت کرے، وہ دوسرے کو یک طرفہ طور پر کوئی عطیہ دے۔
جب کوئی شخص بے غرضانہ طورپر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے یا کسی ذاتی مفاد کے بغیر کوئی چیز اس کو دیتا ہے تو ایسا آدمی اپنے عطیہ کے ساتھ ایک اور انتہائی قیمتی چیز شامل کرتا ہے، اور وہ سچی ہمدردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دوسرے کی طرف سے اُس کو جوابی صلہ دیا جاتا ہے تو دینے والا اس کو دس گنا بڑھا کر دیتا ہے، بلکہ کبھی اس سے بھی زیادہ۔خود غرضانہ لین دین میں یہ اُصول ہے کہ جتنا دو اُتناپاؤ۔ لیکن بے غرضانہ لین دین کا اصول اس کے مقابلہ میں یہ ہے کہ — جتنا دو اُس سے بہت زیادہ پاؤ۔
واپس اوپر جائیں

بچاؤ کی تدبیر

انگریزی زبان کا ایک مَثل ہے کہ — جب دو ہاتھی لڑتے ہیں تو گھاس کُچلی جاتی ہے:
When two elephants fight, grass gets crashed.
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دو طاقتور انسان یا دو طاقتور قوم کے درمیان لڑائی ہو تو غریب عوام اُس کے دوران غیر ضروری طورپر نقصان اُٹھاتے ہیں۔ دو کمزور شخص کے درمیان لڑائی ہو تو وہی دوآدمی نقصان اٹھائیں گے جو کہ لڑ رہے ہیں۔ مگر جب دو طاقتور لڑیں تو دوسرے بہت سے لوگ بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ایسی حالت میں کمزور شخص کوکیا کرنا چاہیے۔ اس کا صرف ایک جواب ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو اس ٹکراؤ سے دور رکھے۔ وہ دوری اختیار کرکے اپنے آپ کو اس کی زد میں آنے سے بچائے۔ یہی وہ تدبیر ہے جس کو اسماعیل میرٹھی نے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
جب کہ دو موذیوں میں ہو کھٹ پَٹ اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ
زندگی کا اُصول یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو صرف ان چیزوں میں اُلجھائے جس سے نپٹنے کی قدرت اس کے اندر موجود ہو۔ جس معاملہ میں وہ اپنے آپ کو عاجز پائے، آدمی پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اُس میں اُلجھنے سے بچائے۔ غیر ضروری طورپر کسی معاملہ میں اُلجھنا اور جب اس سے نقصان کا تجربہ ہو تو اس کے بعد شکایت اور احتجاج کرنا صرف بزدل لوگوں کا طریقہ ہے۔بہادر آدمی وہ ہے جس کی پالیسی یہ ہو کہ وہ جس کو دبانے کی پوزیشن میں ہو اُس کو دبائے۔ لیکن جس کو دبانے کی طاقت اُس کے اندر نہ ہو اُس سے خود دب جائے۔ یہی بہادری ہے اور یہی شریف انسان کا طریقہ بھی۔
یہی جنگل کے شیر کا طریقہ ہے جس کو اس کی فطرت نے اُسے بتایا ہے۔ شیر کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ ہرن کا شکار کرتا ہے۔ لیکن شیر کبھی ہاتھی کا شکار کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ شیر جنگل کا سب سے زیادہ طاقتور جانور ہے۔ مگر شیر کبھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کسی جانور پر حملہ نہیںکرتا۔ شیر ایک صلح پسند جانور ہے، نہ کہ کوئی جنگ پسند جانور۔
واپس اوپر جائیں

آسان تدبیر

میں نے اپنی ڈائری (۱۷ فروری ۲۰۰۴) میں یہ الفاظ لکھے—جب بھی مجھے کسی سے کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے تو میںاس معاملہ میں خود اپنی غلطی دریافت کرلیتا ہوں۔ اس کے بعد وہ شکایت اپنے آپ ختم ہوجاتی ہے۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا ناخوشگوار باتوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں ہر آدمی کو اپنی پسند کے خلاف باتوں کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ایسی ایک ناموافق دنیا میں آدمی کس طرح زندگی گذارے ۔ وہ ناخوش گوار تجربات کے درمیان کس طرح اپنے لیے ایک خوش گوار زندگی کی تعمیر کرے۔ اس کا فارمولا صرف ایک ہے اوروہ ہے: ناخوش گواری کو خوش گواری میں بدل لینا۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ترقی کا سب سے بڑا راز مثبت سوچ ہے۔ تمام ترقیاں اسی مثبت سوچ کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ منفی تجربات کے درمیان مثبت سوچ کو کس طرح برقرار رکھا جائے۔ اس کا سب سے آسان فارمولا یہ ہے کہ شکایت پیدا ہوتے ہی آدمی اس کو ڈیفیوز کرکے ختم کردے۔ڈیفیوز کرنے کے لیے آدمی اگر یہ طریقہ اختیار کرے کہ جس سے شکایت ہوئی ہے اُس سے بحث کرکے اُس کو قائل کرے تو اس طرح کی کوشش میں کامیابی تقریباً صفر کے برابر ہے۔ ایسی حالت میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ آدمی خوداپنے اندر شکایت کا سبب دریافت کرے۔ اس طرح وہ ایک لمحہ کے اندر اپنے آپ کو معتدل بنا سکتا ہے، وہ کسی تاخیر کے بغیر اپنے اندر مثبت سوچ کا عمل دوبارہ جاری کرسکتا ہے۔
اس تدبیر کی معنویت یہ ہے کہ آدمی کو دوسروں کے اوپر تو کوئی اختیار نہیں۔ مگر ہر آدمی خود اپنے آپ پر پورا اختیار رکھتا ہے۔ شکایت کو رفع کرنے کے لیے د وسروں سے آغاز کرنا گویا ناممکن سے آغاز کرنا ہے۔ اس کے مقابلہ میں شکایت کو رفع کرنے کے لیے خود اپنے آپ سے آغازکرنا گویا ممکن سے آغاز کرنا ہے۔ اور جب ممکن سے آغاز کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہو تو کوئی نادان ہی ایسا کرسکتا ہے کہ وہ ناممکن سے آغاز کرنے کی ناکام کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

لڑے بغیر مقابلہ

صحابی ٔ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس کا ایک قول ہے: إدفع بحلمک جہل من یجہل علیک (تم برداشت کے ذریعہ اس شخص کا مقابلہ کرو جو تمہارے ساتھ جہالت کرے)۔ یہ زندگی کا ایک اہم ترین اُصول ہے۔ اس کے مطابق، برداشت بھی ایک طاقت ہے، نہ لڑنا بھی لڑنے کی ایک کامیاب تدبیر ہے۔
ہر آدمی کی زندگی میںایسے مواقع پیش آتے ہیں جب کہ کسی کی بات پر اس کو غصہ آجائے۔ کسی کا قول سُن کر وہ مشتعل ہوجائے۔ کسی کی ایک ناپسندیدہ کارروائی پر اُس کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اُٹھے۔ کسی کے تشدد کے خلاف آدمی کے اندر جوابی تشدد کا رجحان پیدا ہوجائے۔
اس قسم کا موقع ہر آدمی کے لیے بے حد نازک موقع ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر ہر آدمی وقتی جذبہ کے تحت فریق ثانی سے لڑائی شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر نتیجہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسی ہر لڑائی بے نتیجہ انجام پر ختم ہوتی ہے۔ ایسی ہر لڑائی ہمیشہ نقصان میں مزید اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ اگر آدمی ایک لمحہ ٹھہر کر سوچے تو وہ کبھی جوابی کارروائی کی غلطی نہ کرے۔
نادان کی زیادتی کے خلاف جوابی زیادتی کرنا خود اپنے آپ کو بھی نادان ثابت کرنا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص نادانی کرکے آپ کو مشتعل کردے تو آپ اس مقام سے ہٹ جائیں اور تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن کو منفی تاثر سے آزاد کرکے نتیجہ کے بارہ میں سوچیں۔ آپ ٹھنڈے ذہن کے ساتھ یہ غور کریں کہ نتیجہ کے اعتبار سے جوابی کارروائی کرنا مفید ہے یا معاملہ کو نظر انداز کرکے چپ ہوجانا زیادہ مفید۔
اگر آپ غیر متاثر ذہن کے تحت سوچیں تو یقینا آپ اس رائے پر پہنچیں گے کہ اشتعال کے مواقع پر سب سے زیادہ کامیاب پالیسی یہ ہے کہ آپ مشتعل ہونے سے بچیں۔ آپ جوابی اشتعال کے بجائے تحمل کے ساتھ صورت حال کا مقابلہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

محنت کا کرشمہ

محمد شفیع الدین نیّر اُردو کے ایک ادیب اور شاعر تھے۔ وہ عرصہ تک ماہنامہ پیام تعلیم (نئی دہلی) کے ایڈیٹر رہے۔ وہ بچوں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ اُن کی ایک نظم کا ایک شعر یہ تھا:
محنت سے چل رہے ہیں دنیا کے کارخانے محنت سے مل رہے ہیں ہر قوم کو خزانے
شفیع الدین نیّر صاحب نے اپنے تمام بچوں میں اسی محنت کی روح پھونکی۔ چنانچہ ان کے تمام بچوں نے نہایت محنت اور لگن کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ محنت تمام ترقیوں کا زینہ ہے۔ محنت کا مطلب کیا ہے۔ محنت کا مطلب ہے، لگاتار جدوجہد۔ جو کام شروع کرنا اُس کو چھوڑے بغیر برابر اپنی کوشش جاری رکھنا۔ اپنی تمام توجہ اور اپنی تمام صلاحیت کو پوری طرح اُس میںلگا دینا۔ اپنے وقت اور اپنی طاقت کو صرف اسی ایک محاذ پر صرف کردینا۔ اسی لگاتار جدوجہد کا نام محنت ہے۔
پھر یہ کہ یہ دنیا جس میں انسان اپنے کسی مقصد کے لیے محنت کرتا ہے وہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ اس میں موافق اور غیر موافق دونوں قسم کے حالات پیش آتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں جو آدمی کے حوصلہ کو توڑ دیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی تلخ تجربہ آدمی کے ذہن کو منفی سوچ کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اس لیے آدمی کو اکثر ناموافق حالات میں اپنی محنت کا سفر جاری رکھنا پڑتا ہے۔
محنت بلا شبہہ ترقی کا زینہ ہے۔ مگر محنت صرف اُس آدمی کے لیے کارآمد بنتی ہے جو اُسی کے ساتھ یہ حوصلہ رکھتا ہوکہ وہ کسی عذر کو عذر نہیں بنائے گا۔ وہ حالات کی موافقت یا ناموافقت سے بے پروا ہو کر اپنے مقصد کے لیے محنت کرتا رہے گا۔ اس دنیا میں کامیابی کے لیے بلا شبہہ محنت درکار ہے، مگر محنت اُسی شخص کے لیے مفید بنتی ہے جو مسلسل محنت کا حوصلہ رکھتا ہو۔محنت اپنے آپ کو پوری طرح استعمال کرنے کا نام ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو پوری طرح استعمال کرے وہ کبھی ناکام ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انسان کا کم تر اندازہ نہ کیجئے

کوئی بھی آدمی آپ کا پیدائشی دشمن نہیں۔ آپ خود اپنے عمل سے کسی کو اپنا دشمن اور کسی کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں—یہ ایک ایسی مسلّم حقیقت ہے جو ہر دور میں اور ہمیشہ صحیح ثابت ہوئی ہے۔ اگر چہ دنیامیں ایسے دانش مند انسانوں کی کمی ہے جو اس حقیقت کو سمجھیں اور اس کو اپنے حق میں استعمال کریں۔
انسان کوئی پتھر نہیں۔ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو اپنے اندر احساس رکھتا ہے۔ جو حالات سے متاثر ہوتا ہے۔ آدمی کے اندریہ صلاحیت ہے کہ وہ باتوں کو دلائل کی روشنی میں جانچے اور صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرے۔ حق اور ناحق کے درمیان تمیز کرنا، یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جس میں وہ ساری کائنات میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
انسان کی اس صلاحیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بدل سکتا ہے۔ کسی پتھر کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بدل لے۔ مگر انسان کی یہ امتیازی صفت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کو مستقل طور پر اپنا دشمن سمجھ لینا انسان کا کم تر اندازہ ہے۔ ایسی حالت میں آپ کو چاہیے کہ اگر کوئی شخص بظاہر آپ کو اپنا دشمن دکھائی دے تو آپ اس کو اپنا مستقل دشمن نہ سمجھ لیں۔ بلکہ یہ یقین رکھیں کہ آپ اُس کو اپنے حسنِ عمل سے اپنا دوست بنا سکتے ہیں۔
اگر کوئی شخص آپ کے بارہ میں غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا ہے تو اس کی غلط فہمی کو دور کیجئے۔ کسی کو آپ سے سخت رویہ کی شکایت ہے تو اس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیجئے۔ کوئی آپ کو بے فائدہ سمجھتا ہے تو اس کو فائدہ پہنچا کر اس کا دل جیتئے۔ کسی کو آپ سے غلط سلوک کا تجربہ ہوا ہے تو اس سے معافی مانگ کر معاملہ کو ختم کردیجئے۔ کسی کو آپ سے لین دین کی شکایت ہے تو اپنے لین دین کو درست کرکے اُس کی شکایت رفع کیجئے۔ دوسرے کو غلط بتانے کے بجائے خود اپنے اندر غلطی کو تلاش کیجئے۔ اس اُصول پر یقین رکھئے کہ آپ اپنے کو بدل کر ساری دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ اس دنیا میں دوستی ایک ابدی چیز ہے اور دشمنی صرف وقتی۔
واپس اوپر جائیں

صلاحیت کا استعمال

جب بھی میری ملاقات کسی ذہین آدمی سے ہوتی ہے تو اس کے حالات معلوم ہونے کے بعد اکثر مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ اپنی امکانی صلاحیت کا کمتر استعمال کر رہے ہیں:
You are underusing your potential.
میرا تجربہ ہے کہ اکثر ذہین لوگ اپنی صلاحیت کا وہ استعمال نہیں کر پاتے جو فطرت سے اُنہیں دی گئی ہے۔ مثال کے طورپر ایک شخص جو یونیورسٹی کا اُستاد بننے کے قابل ہے وہ تفریح (entertainment) کی انڈسٹری میں چلا جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ دیکھتا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی سروس میںاُتنی کمائی نہیں کرسکتا جتنی کمائی وہ تفریح کی انڈسٹری میںکرسکتا ہے۔
میرے نزدیک یہ انسانی صلاحیت کا ایک کمتر استعمال ہے۔ قلم کو اگر آپ زمین کھودنے کے لیے استعمال کریں تو وہ بھی قلم کا ایک استعمال ہوسکتا ہے۔مگریہ ایک حقیقت ہے کہ قلم کا اعلیٰ استعمال صرف یہ ہے کہ اس کو رائٹنگ کے کام کے لیے استعمال کیا جائے۔
انسان کی امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ ایک مائنڈرکھتا ہے۔ وہ سوچ سکتا ہے جس کی صلاحیت کسی اور مخلوق میں نہیں۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کا اعلیٰ استعمال کیا ہے۔ کوئی آدمی اگر اپنے باڈی کو خوبصورت کپڑے پہنا لے تو اُس کو انسانی ترقی نہیں کہا جائے گا۔ کیوں کہ خوبصورت کپڑا تو کسی حیوان کے بدن پر بھی پہنایا جاسکتا ہے۔
انسان کی ترقی یہ ہے کہ اس کے اندر اعلیٰ ذہنی سرگرمیاں (intellectual activities) جاری ہوں۔ وہ تخلیقی فکر کا حامل بن سکے۔ وہ ذہن کی سطح پر اعلیٰ حقیقتوں کو دریافت کرے۔ اسی ذہنی سرگرمی سے انسان کی تمام ترقیاں بندھی ہوئی ہیں۔ زندہ انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو ذہنی ترقی کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچائے، وہ علم کی دنیا میں اپنے لیے اعلیٰ مقام حاصل کرسکے۔صلاحیت ایک خدائی عطیہ ہے، صلاحیت کا کم تر استعمال عطیہ کی ناقدری کے ہم معنٰی ہے۔
واپس اوپر جائیں

کام کی تلاش

۱۴ دسمبر ۲۰۰۴ کا واقعہ ہے۔ ایک مسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ اُنہوں نے اپنا نام محمد عیسیٰ بتایا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں۱۹۹۸ سے بے کار ہوں اور کام کی تلاش میں دلی آیا ہوں۔ اُنہوں نے اپنے کچھ حالات بتائے جس سے اندازہ ہوا کہ انہیں صحیح مشورہ دینے والا کوئی شخص نہیں ملا۔ اُن کے ماں باپ نے بھی غالباً لاڈ پیار کے سوا کوئی ایسی بات نہیں بتائی جوان کی زندگی کی تعمیر کے لیے مفید ہو۔
میں نے کہا کہ میں آپ کو کوئی کام نہیں دے سکتا۔ البتہ میںآپ کو زندگی کی ایک حقیقت بتا سکتا ہوں جو دنیا میں کام پانے کے لیے ضروری ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ—دنیا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ آپ بے کار ہیں۔ دنیا کو واحد دلچسپی یہ ہے کہ آپ کے اندر کوئی ایسی صلاحیت ہے جو دنیا کے لیے کارآمد ہو۔ آپ کو اگر کام پانا ہے تو اپنے آپ کو کار آمد بنائیے۔ اس کے بعد کام خود آپ کو ڈھونڈھے گا، نہ کہ آپ کام کو ڈھونڈھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے بنانے والے نے اس کو انٹرسٹ کی بنیاد پر بنایا ہے۔ ہر آدمی کا اپنا ایک انٹرسٹ ہے، اور اپنے اس انٹرسٹ کے لیے وہ دوڑ رہا ہے۔ ایسی دنیا میں کامیابی کی صورت صرف ایک ہے، وہ یہ کہ آپ یہ ثابت کرسکیں کہ آپ دنیا کے انٹرسٹ کو پورا کرسکتے ہیں۔ دنیا کے کام آئیے، اور دنیا آپ کو کام دینے پر مجبور ہوجائے گی۔
کام کی تلاش کا ذہن آدمی کے اندر مایوسی پیدا کرتا ہے۔ اور اپنے آپ کو کار آمد بنانے کا ذہن آدمی کے اندر یقین اورحوصلہ پیدا کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں سے امید نہ رکھے۔ وہ اپنے کام کو خود اپنے اندر تلاش کرے۔ وہ اپنی صلاحیت کو دریافت کرے اور اپنی اس صلاحیت کو ترقی دے کر اپنے آپ کو سماج کے لیے کارآمد بنائے۔ وہ اتنی تیاری کرے کہ وہ دوسروں کی ضرورت بن جائے۔ دنیا میں کامیابی کا راز یہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

غیر فطری محبت

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۳ کو میں سورت (گجرات) میںتھا۔ وہاں میں ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک مقامی مسلمان مجھ سے ملنے کے لیے ہوٹل میںآئے۔ ان کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ وہ اس بچہ کو اپنی گود میں لئے ہوئے تھے۔ وہ بچہ کو کبھی کندھے پر بٹھاتے اور کبھی گود میں لیتے۔ وہ میرے کمرے میں آکر بیٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کا بیٹا ہے۔ انہوں نے خوشی کے لہجہ میں کہا کہ ہاں۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے بیٹے کے دشمن ہیں۔ اس کے ساتھ آپ کا پیار اس کے لیے دشمنی کے ہم معنٰی ہے۔ اس غیر متوقع تبصرہ کو سن کر وہ گھبرا گئے۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ کیسے۔ میںنے کہا کہ آپ ہمیشہ اپنے صاحبزادے کو گود میں نہیں رکھ سکتے۔ آخر کار اس کو ایک ایسی دنیا میں جانا ہے جہاں کوئی اس کو گود میں لینے والا نہ ہوگا۔ بچہ کے لیے سچی محبت یہ ہے کہ آپ اس کو مستقبل کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کریں، نہ یہ کہ اس کو اس سے بے خبر رکھ کر ایک ایسی دنیا میں جینے والا بنائیں جو آپ کی گود کے باہر کہیں اپنا وجود نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو ابھی چھوٹا بچہ ہے۔ میںنے کہا کہ آپ کی یہ سوچ فطرت کے خلاف ہے۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے بچے کو گود سے اتار دیا۔ اتارتے ہی وہ بچہ زمین پر دوڑنے لگا۔ اس کا حال اس چڑیا جیسا ہوگیا جو پنجرے میں بند ہو اور پنجرہ سے آزاد ہوتے ہی فضا میں اڑنے لگے۔
فطرت کے نظام کے مطابق، بچہ ماں باپ کی گود میں رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوتا۔ بچہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے کھلے میدان میںدوڑے۔ وہ زندگی کی جد وجہد میں داخل ہو۔ وہ ہر قسم کے تجربات سے گزرتے ہوئے اپنے مستقبل کی تعمیر کرے۔ وہ موافق او رمخالف حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر طے کرے۔ ایسی حالت میں بچے کو ماں باپ کی شفقتوں کا عادی بنانا فطرت کی اسکیم کے خلاف ہے۔ وہ فطرت کے نظام سے لڑنا ہے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اس فطری حقیقت کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی اولاد کو بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

مستقبل پر نظر

ایک صاحب نے اپنی لڑکی کی شادی دور افتادہ مقام پر ایک نوجوان سے کردی۔ بعد کو معلوم ہوا کہ اس نوجوان کی معاشی حالت بہت کمزور ہے۔ اس کے پاس جو گھر ہے وہ بھی ٹوٹا پھوٹا ہے۔ سماج میںاس کو کوئی ممتاز حیثیت حاصل نہیں۔ لوگوں کو جب اس شادی کا حال معلوم ہوا تو وہ باپ کو بر ا بھلا کہنے لگے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں یہ کہا کہ وہ دماغی خلل کا شکار ہے۔
مگر باپ نے اس معاملہ میں صبر کا طریقہ اختیار کیا۔ اُس نے صرف یہ کیا کہ وہ برابر اپنی لڑکی کے لیے دعا کرتا رہا۔ وہ یہ دعا کرتا رہا کہ خدایا، میری غلطی کی تلافی فرمائیے، میری لڑکی کی مددفرمائیے، اس کو اپنی رحمتوں کے سایے میں لے لیجئے۔
اس کے بعد اس لڑکی کے یہاں چند بچے پیدا ہوئے۔ یہ بچے تندرست اور محنتی تھے۔ اُنہوں نے اپنی محنت سے تعلیم حاصل کی اور اچھے نمبروں سے پاس ہوئے۔ ان کو اپنی لیاقت کی بنیاد پر اچھی سروس مل گئی۔ اب حالات بدل گئے۔ لڑکوں نے بڑے ہوکر نیا گھر بنایا۔ اُن کے پاس گاڑی اور دوسری چیزیں بھی ہوگئیں۔ اپنے حسن عمل سے انہوں نے سماج میں اچھا مقام حاصل کرلیا۔
اس طرح کی مثالیں ہر سماج میں ہیں۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ انسان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ صرف حال کو دیکھ کر رائے قائم کرے۔ بلکہ اس کو مستقبل پر نظر رکھنا چاہیے۔ اس دنیا میں کوئی بھی محرومی ابدی محرومی نہیں۔ اس دنیا میں ہر انسان کے لیے یہ مواقع موجود ہیں کہ وہ محنت اور لیاقت کا ثبوت دے کر ترقی کی منزلیں طے کرے۔ وہ حال کی کمی کو مزید اضافہ کے ساتھ مستقبل میں پورا کرلے۔
کامیاب شادی کا راز یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی لڑکی کی شادی کسی امیر آدمی سے کریں۔ اسی طرح ناکام شادی یہ نہیں ہے کہ آپ کی لڑکی کی شادی کسی غریب شخص سے ہوجائے۔ اس دنیا میں آج کا امیر کل کا غریب بن جاتا ہے اور آج کا غریب کل کے دن امیر بن جاتا ہے۔ زندگی میں اصل اہمیت محنت اور منصوبہ بندی کی ہے، نہ کہ امیری اور غریبی کی۔
واپس اوپر جائیں

تیسرا انتخاب

۱۸۔ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ کو میں نے دہلی اور جے پور کے درمیان سفر کیا۔ سفر کے لیے میرے سامنے دو ممکن صورتیں تھیں، ٹرین یا ہوائی جہاز۔ غیر شعو ری طورپر میرا ذہن یہ بن گیا کہ یا تو ٹرین سے سفر کرنا ہے یا ہوائی جہاز سے۔ ٹرین (شتابدی ایکسپریس) دہلی سے صبح کے وقت جے پور جاتی تھی اور شام کے وقت جے پور سے دہلی آتی تھی۔ ٹرین کا انتخاب کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں ۱۸ دسمبر کی صبح کو جے پور گیا اور ۱۹ دسمبر کی شام کو دہلی واپس آیا۔ اس بنا پر ایسا ہوا کہ ۱۹ دسمبر کا دن میں نے کھو دیا۔ ۱۹ دسمبر کو دہلی میں ایک بہت ضروری پروگرام تھا مگر میںاس میں شرکت نہ کر سکا۔
یہ واقعہ ثنائی طرز فکر (dichotomous thinking)کی بنا پر پیش آیا۔ یعنی صرف دو انتخاب (options) کے درمیان سوچنا۔ بعد کو مجھے احساس ہوا کہ میرے لیے یہاں تیسرا انتخاب بھی تھا۔ وہ یہ کہ میں ۱۸ دسمبر کی صبح کو ٹرین کے ذریعہ جے پور جاؤں ، اور ۱۹ دسمبر کی صبح کو سواری بدل کر ہوائی جہازکے ذریعہ دہلی واپس آؤں۔ ایسی صورت میں میں ۱۹دسمبر کے پروگرام میں بخوبی شریک ہوسکتا تھا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان اکثر ثنائی طرز فکر کا شکار رہتا ہے۔ وہ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے لیے صرف د و صورتوں میں سے ایک صورت کا انتخاب ہے۔ حالاں کہ وہاں ایک تیسری صورت بھی موجود رہتی ہے جو زیادہ مفید ہوتی ہے۔
تاریخ کی بہت سی ناکامیاں اسی ثنائی طرزِ فکر کا نتیجہ تھیں۔ مثلاً بہت سے لوگوں نے اپنے حالات کے ناقص اندازہ کی بنا پر یہ سمجھ لیا کہ ان کے لیے صرف دو ممکن صورتیں ہیں، یا جنگ یاذلت کی زندگی۔ حالاں کہ وہاں تیسری صورت بھی موجود تھی، اور وہ یہ کہ جنگ کو اوائڈ کرکے امن قائم کرنا اور مواقع کو استعمال کرکے اپنے کو مستحکم بنانا۔ اس حکمت کو نہ جاننے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غیر ضروری طورپر اپنے کو تباہ کرلیا، حالاں کہ اگر وہ تیسرے انتخاب کو لیتے تو وہ اس کو استعمال کرکے بہت بڑی کامیابی حاصل کرسکتے تھے۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب ازدواجی زندگی

ہرعورت اور مرد کے ذہن میں شادی سے پہلے آئیڈیل شوہر اور آئیڈیل بیوی کا تصور بسا ہوا ہوتا ہے۔ مگر شادی کے بعد دونوں محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے جس کو اپنی زندگی کا ساتھی بنایا ہے وہ ان کے آئیڈیل سے کم ہے۔ یہی احساس مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ عورت اور مرد دونوں شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کا انتخاب درست نہ تھا۔
اس احساس کے آتے ہی دونوں کے درمیان اختلافات شروع ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ دو میں سے ایک کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ تلخ ازدواجی زندگی یا طلاق۔ مگر یہ دونوں ہی یکساں طورپر غلط اور غیر فطری ہیں۔
اصل یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ دونوں کا انتخاب غلط تھا۔ اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ دونوں فطرت کی ایک حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ وہ یہ کہ اختلاف زندگی کا ایک حصہ ہے، وہ کسی خاص عورت یا کسی مرد کا حصہ نہیں۔
یہی اس مسئلہ کا واحدحل ہے۔ عورت اور مرد دونوں اگر یہ سمجھ لیں کہ اُن کے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے وہ خدا کے تخلیقی منصوبہ کی بنا پر پیش آرہا ہے، نہ کہ اُن کے غلط انتخاب کی بنا پر۔ اگر دونوں اس حقیقت کو سمجھ لیں تو ازدواجی زندگی کا مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
خالق نے خود اپنے تخلیقی منصوبہ کے مطابق، ہر دو انسان کے درمیان فرق رکھا ہے۔ اس مسئلہ کا حل فرق کو مٹانا نہیں ہے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ انسان اس ہنر کو جانے جس کو آرٹ آف ڈیفرنس مینیجمنٹ (art of difference management) کہا جاسکتا ہے۔ ڈیفرنس کو مٹانے کی کوشش نہ کیجئے بلکہ ڈیفرنس کے ساتھ جینا سیکھیے اور پھر آپ کی زندگی کامیاب ازدواجی زندگی بن جائے گی۔
خاندانی زندگی ہویا سماجی زندگی، دونوں میں اختلافات پیدا ہونا فطری ہے۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے—اختلاف کے باوجود متحد ہوکر رہنا۔
واپس اوپر جائیں

گھریلو جھگڑے

اکثر گھروں میں اہل خاندان کے درمیان جھگڑے جاری رہتے ہیں۔ یہ جھگڑے زیادہ تر نفسیاتی ہوتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں ان کا کوئی مادی سبب نہیں ہوتا۔ لوگ اگر صبر و اعراض کی حکمت جان لیں تو اس قسم کے جھگڑے اپنے آپ ختم ہوجائیں۔ ہر گھر امن کا گھر بن جائے۔
ایک مشترک خاندان کی مثال ہے۔ وہاں دو بہوئیں ایک ساتھ رہتی تھیں۔ دونوں کے کام کے لیے دو الگ الگ خادمائیں تھیں۔ دونوں خادماؤں کے درمیان فطری طور پرکبھی کبھی تکرار ہوجاتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ تکرار کے دوران ایک خادمہ نے دوسری خادمہ کو کہہ دیا کہ تمہاری بی بی جی تم کو کچھ نہیں بولتیں اس لیے تم شیطان ہوگئی ہو۔ خادمہ نے اپنی مالکہ سے اس کو نقل کیا تو بات کچھ بدل گئی۔ اس نے اس بات کو ان لفظوں میں نقل کیا: وہ کہہ رہی تھی کہ تمہاری بی بی جی نے تم کو شیطان بنا دیا ہے۔ اس کے بعد اس خاتون نے اس بات کو جب اپنے شوہر سے نقل کیا تو بات کچھ اور بدل کر اس طرح ہوگئی: تم بھی شیطان، تمہاری بی بی جی بھی شیطان۔ یہ سن کر ان کا شوہر غصہ ہوگیا اور گھر میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ دونوں بہوئیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ گھر کا سکون درہم برہم ہوگیا۔
اس طرح کے معاملات میں پہلا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آدمی ان کو نظر انداز کردے۔ وہ سنی ہوئی بات کا کوئی اثر نہ لے اور نہ اس کو دوسرے سے نقل کرے۔ یہ رویہ اگر اختیار کیا جائے تو مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہ ہوگا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ سننے والا صرف ایک پارٹی کی بات سن کر کوئی رائے نہ بنائے۔ وہ غیر جانبداری کے ساتھ پہلے دونوں پارٹی کی بات سنے اور اس کے بعد ٹھنڈے طریقہ سے ایسی رائے قائم کرے جو انصاف کے مطابق ہو۔ وہ اصل بات کو گھٹانے یا بڑھانے کی غلطی نہ کرے بلکہ بات کو ویسا ہی لے جیسا کہ وہ ہے۔ ان دو طریقوں کے سوا ہر دوسرا طریقہ فساد پیدا کرنے والا ہے ، وہ آخر کار پورے خاندان میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب کچھ لوگ مل جل کر رہتے ہیں تو لازمی طورپر ان کے درمیان کچھ خلاف مزاج واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان باتوں کو لے کر دوسروں سے لڑنا یا جھگڑنا مسئلہ کا حل نہیں۔ کیوں کہ اس قسم کا اختلاف ایک فطری امر ہے اور جو چیز فطری امر کی حیثیت رکھتی ہو اس کو مٹانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ اس طرح کے مسائل کا حل صبر و اعراض ہے نہ کہ ان کو لے کر لڑنا جھگڑنا۔
مزید یہ کہ اس طرح کی باتوں پر آدمی کے اندر جو غصہ بھڑکتا ہے وہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے، وہ آخر کار ختم ہوجانے والا ہے۔ ایسی حالت میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی ایسی بات پیش آنے کے موقع پر دو منٹ کے لیے چپ رہے، وہ ردّ عمل کے بجائے صبر کا طریقہ اختیار کرلے۔ اگر وہ ایسا کرے تو چند منٹ کے بعد اس کا غصہ ختم ہوجائے گا اور وہ اسی طرح ایک معتدل انسان بن جائے گا جس طرح وہ واقعہ سے پہلے ایک معتدل انسان نظر آتا تھا۔
اس معاملہ کا سب سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر کچھ مائنس پائنٹ ہوتے ہیں اور کچھ پلس پائنٹ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ جب کسی آدمی کو غصہ آجائے تو یہ ہوتا ہے کہ وہ فریق ثانی کے پلس پائنٹ کو بھول جاتا ہے۔ اس کو اس وقت فریق ثانی کا صرف مائنس پائنٹ یاد رہتا ہے۔ یہی ذہنی حالت آدمی کو غیر معتدل بنا دیتی ہے۔ وہ ایسی روش اختیار کرلیتا ہے جس کو وہ معتدل حالت میں اختیار کرنے والا نہ تھا۔
ایسی حالت میں اس مسئلہ کا فطری حل یہ ہے کہ جب بھی کسی کے اندر دوسرے کے خلاف اشتعال پیدا ہو تو وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرکے غیر جانب دارانہ انداز میں سوچے۔ وہ فریق ثانی کے پلس پائنٹ کو سوچے یا اس کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو یادکرے۔ ایسا کرتے ہی یہ ہوگا کہ اس کا انتقامی جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرے گا کہ میں نے ایک شخص کے ۹۹ پہلوؤں کو بھلا دیا اور اس کی شخصیت کے ایک پہلو کو لے کر اس کے خلاف بھڑک اٹھا۔
خاندان میں بگاڑ ہمیشہ کسی چھوٹی بات پر شروع ہوتا ہے۔ اگر شروع ہی میں اُس پر قابو پالیا جائے تو کبھی کوئی مسئلہ بڑا مسئلہ نہ بنے۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم کی طرف

بی بی سی لندن کے اردو شعبہ کی ایک ٹیم نے انڈیا کی ریاست گجرات کا دورہ کیا۔ وہاں اس نے خاص طورپر گجرات کے مسلمانوں سے ملاقات کی اور اس موضوع پر ایک رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کا ایک حصہ میں نے ۲۲ جولائی ۲۰۰۴ کو بی بی سی لندن کے نشریہ میں سنا۔ اس نشریہ میں بتایا گیا تھا کہ ریاست میں پچھلے فرقہ وارانہ فساد فروری ۔مارچ ۲۰۰۲ کے بعد گجرات کے مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ اب یہاں کا ہر مسلمان تعلیم کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہر ایک یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھاؤ۔
یہ ایک نیا رجحان ہے۔ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستانی مسلمانوں میں مسلسل طورپر ایک ہی ذہن پایا جارہا تھا۔ وہ تھا شکایت اور احتجاج اور تشدد کا جواب تشددسے دینا۔ نصف صدی سے زیادہ مدت کے تجربہ کے بعد یہ نظریہ ناکام ثابت ہوا۔ اب پہلی بار مسلمانوں میں یہ طرزِ فکر پیدا ہوا ہے کہ جوابی ذہن کے تحت سوچنا اور ماضی کے تلخ تجربوں میں جینا ایک بے فائدہ کام ہے۔ اب وہ پہلی بار پیچھے کو بھلا کر آگے کی طرف سوچ رہے ہیں۔ وہ انتقام کے بجائے تعمیر کا نظریہ اپنا رہے ہیں۔ اس جدید رجحان کو ایک جملہ میںاس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: ماضی کو بھلاؤ، بچوں کو پڑھاؤ۔
۱۹۴۷ کے بعد پیش آنے والے ناخوش گوار واقعات کے نتیجہ میں تمام ہندستانی مسلمان رد عمل کی نفسیات کے شکار ہوگئے تھے۔ راقم الحروف نے پہلی بار مسلمانوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ زندگی کا راز مثبت سوچ میںہے نہ کہ منفی سوچ میں۔ ۱۹۶۵ میں یہ کوشش میں نے لکھنؤ کے ہفت روزہ ندائے ملت کے ذریعہ شروع کی۔ اس کے بعد ۱۹۶۷ سے یہ کام دہلی کے ہفت روزہ الجمعیۃ کے ذریعہ جاری رہا۔ اس کے بعد ۱۹۷۶ میں میںنے دہلی سے ماہنامہ الرسالہ جاری کیا اور زیادہ منظم انداز میں اس کام کو کرنے لگا۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں مسلسل اس کی تائید میں مضامین شائع کیے۔ پورے ملک میں سفر کرکے جلسوں اور اجتماعات کی صورت میںاس مثبت پیغام کو مسلمانان ہند تک پہنچایا۔
یہ نقطۂ نظر مسلمانوں کے لیے اجنبی تھا۔ ایک عربی مثل ہے کہ: الناس اعداء ما جہلوا (لوگ اس چیز کے دشمن بن جاتے ہیں جس سے وہ بے خبر ہیں) چنانچہ ابتدائی طور پر مسلمانوں میںاس کی مخالفت شروع ہوگئی ۔وہ صبر اور اعراض کے نظریہ کو دشمن کی چال سمجھنے لگے۔ مگر مسلسل تجربے کے بعد اب ان کی آنکھ کھل گئی ہے۔ اب نہ صرف گجرات بلکہ سارے ملک میں مسلمانوں کا ذہن بدل چکا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ دوسروں کو الزام دینا سراسر بے فائدہ کام ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ساری طاقت خود اپنے تعمیر و استحکام پر لگائی جائے۔
یہ بلاشبہہ ایک صحت مند رجحان ہے۔ سائنسی انقلاب کے بعد دنیا میں مکمل طورپر ایک نیا دور آگیاہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ تلوار میں طاقت ہے (ہر کہ شمشیر زند سکہ بہ نامش خوانند) مگر اب ہر باشعور آدمی جانتا ہے کہ طاقت کا راز علم ہے۔ پہلے اگر دنیا میں صاحب شمشیر لوگوں کا غلبہ ہوتا تھا تو اب دنیا میں غلبہ ان لوگوں کے لیے مقدر ہو چکا ہے جو صاحب علم ہوں۔
یہ دنیا مسابقت کی دنیا ہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ دوسروں کی طرف سے آپ کو تلخ تجربات پیش آئیں گے ،اپنوں کی طرف سے بھی اور غیروں کی طرف سے بھی۔ وہ شخص نادان ہے جو تلخیوں کی یاد میں جئے۔ دانشمند وہ ہے جو تلخ یادوں کو بھلائے اور صبر و تحمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے مستقبل کی تعمیر میں لگا دے۔
تعلیم کا مقصد صرف سروس حاصل کرنا نہیں ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو باشعور بنایا جائے۔ اس دنیا میں سارے مسائل کی جڑ بے شعوری ہے، اور سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ لوگ باشعور ہوں۔ وہ مسائل کی حقیقی نوعیت کو سمجھیں۔ وہ حالات کا بے لاگ تجزیہ کرسکیں۔ وہ اس بات کو جانیں کہ دنیا میںکیا چیز قابلِ حصول ہے، اور وہ کیا چیز ہے جو سرے سے قابلِ حصول ہی نہیں۔
تعلیم آدمی کو بے شعوری سے نکالتی ہے اور اس کے اندر شعور کی صفت پیدا کرتی ہے۔ اس دنیا کی تمام کامیابیاں بلا شبہہ تعلیم یافتہ انسان کے لیے مقدر ہیں۔ تعلیم کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

یہ بدعت ہے

۱۰ اگست ۲۰۰۴ کو ایک مسلم نوجوان مجھ سے ملے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پچھلے روز دہلی کے ایک آڈیٹوریم میں مسلمانوں کا ایک جلسہ ہوا۔ اس میں ایک مسلم رہنما کی تقریر ہوئی۔ وہ مسلمانوں میں کامیاب مقرر سمجھے جاتے ہیں۔ مسلم نوجوان نے بتایا کہ پورا آڈیٹوریم مسلمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ شاندارتقریر کے دوران مسلسل تالیاں بجتی رہیں۔ تالیوں کی کثرت سے ہال گونج اُٹھا۔
میں نے مذکورہ مسلم نوجوان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں مسلمانوں کو خطاب فرماتے تھے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے درمیان خطاب فرمایا۔ کیا ان مواقع پر سامعین تالیاں بجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ خلفائے راشدین بار بار مسلم اجتماعات میں خطاب کرتے تھے۔ کیا ان مواقع پر یہ مسلمان تالیاں بجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ صحابہ اور تابعین بار بار مسلمانوں کے اجتماعات میں تقریر کرتے تھے۔ کیا وہ لوگ تقریر کو سُن کر تالیاں بجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔
پھر میں نے کہا کہ حدیث کے مطابق، ابتدائی زمانہ کے تین دوروں کو قرون مشہود لہا بالخیر کہا گیا ہے۔ یہ تین دور ہیں۔ رسو ل اللہ کا دور، صحابہ کا دور اور تابعین کا دور۔ ان تینوں دوروں کے بارہ میں ثابت ہے کہ اُ س زمانہ میں مسلم ذمہ دار مسلم اجتماعات میں تقریریں کرتے تھے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ مسلم سامعین تقریر سُن کر تالیاں بجائیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جلسہ یا اجتماع میں تقریر کو سُن کر تالیاں بجانا ایک بدعت ہے۔
بدعت کے بارہ میں حدیث کی کتابوں میں نہایت سخت وعید یںآئی ہیں۔مثلاً ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من احدث فی امرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد (الصحیح للبخاری، کتاب الصلح، صحیح مسلم، کتاب الأقضیۃ، ابن ماجہ، مقدمہ، مسند احمد) یعنی جو شخص ہمارے اس دین میںکوئی نئی بات نکالے جو کہ اُس میں نہ ہو تو وہ رد ہے۔
اس طرح کی اور بھی کئی روایتیں کتابوں میں آئی ہیں۔ مثلاً ایک طویل روایت میں یہ الفاظ ہیں: وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و ان کل بدعۃ ضلالۃ (صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، سنن ابی داؤد، کتاب السنّۃ، سنن النسائی، کتاب العیدین، سنن ابن ماجہ، مقدمہ، سنن الدارمی، مقدمہ، مسند احمد) یعنی تم دین میں نئی چیز نکالنے سے بچو، کیوں کہ ہر نئی چیز گمراہی ہے۔
موجودہ زمانہ میں یہ عام رواج ہے کہ مقررین پرجوش تقریریں کرتے ہیں اور سامعین پُر جوش تالیاں بجاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی بلا شبہہ بدعت کی تعریف میں آتا ہے۔ یہ بھی اُنہی نئی مہلک چیزوں میں سے ہے جس کو حدیث میں بدعت کہاگیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ اضافہ بدعت حسنہ نہیں ہے بلکہ یہ بدعتِ سیئہ ہے۔ یہ سطحیت اور بے حسی کا مظاہرہ ہے جو خدا کے دین میں محمود نہیں۔
اکثر لوگوں کا احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ تو چھوٹی چیزیں ہیں اور اس قسم کی چھوٹی چیزوں میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ مگر یہ طرزِ فکر خود دینی اعتبار سے ایک ہلاکت خیز طرزِ فکر ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچو ایاکم ومحقرات الذنوب۔ ایک روایت کے مطابق، ایک صحابی نے بعد کے زمانہ کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: انکم لتعملون عملًا ہی ادق فی اعینکم من الشعر، ان کنا لنعدہا علی عہدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم من الموبقات (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، سنن الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد) یعنی تم ایک ایسا عمل کرتے ہو جو عمل تمہاری نگاہوں میں بال سے بھی زیادہ ہلکا ہوتا ہے۔ مگر ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسی چیزوں کو تباہ کن عمل سمجھتے تھے۔
اصل یہ ہے کہ کسی عمل کے بُرا یا بھلا ہونے کا تعلق صرف اس کے ظاہر سے نہیں ہے بلکہ اس سے ہے کہ وہ کس جذبہ کے تحت کیا گیا۔ ایک بظاہر چھوٹا عمل اگر بے حسی اور آخرت فراموشی کے جذبہ سے کیا جائے تو وہ ایک بُرا عمل قرار پائے گا۔
مثلاً اسلام کے نام پر ایک اجتماع ہوتا ہے۔ اُس میں ایک مقرر شاندار تقریر کرتاہے۔ پھر اُس کو سُن کر سامعین تالیاں بجاتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک سادہ واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ا پنی حقیقت کے اعتبار سے وہ کوئی سادہ واقعہ نہیں۔ جو مقرر شاندار تقریرکررہا ہے وہ اپنی اس تقریر کے ذریعہ بتارہا ہے کہ وہ احتساب خویش کی نفسیات سے خالی ہے۔ اس کو اس حقیقت کا شعور نہیں جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ما یلفظ من قولٍ إلا لدیہ رقیب عتید۔ اُس کو یہ احساس نہیں کہ وہ اسٹیج پر کھڑا ہو کر جو الفاظ بول رہا ہے وہ انسانوں تک پہنچنے سے پہلے خدا وندِ عالم تک پہنچ رہے ہیں۔
جو آدمی اس قسم کی نفسیات میں جی رہا ہو اس کی تقریر کا انداز بالکل بدل جائے گا۔ اُس کی زبان سے وہ الفاظ ہی نہیں نکلیں گے جس کو سُن کر لوگ جوش میں آئیں اور تالیاں بجائیں۔ اس کی تقریر احساس ذمہ داری کو بڑھانے والی ہوگی، نہ کہ احساسِ فخر کو بڑھانے والی۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانہ میں تقریر پر تالیاں نہیں بجائی جاتی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی بات ہی نہیں کرتے تھے جس کو سُن کر لوگ جذبات میں آجائیں اور تالیاں بجائیں۔
یہی معاملہ سامعین کا ہے۔ سامعین کا تقریر کو سن کر تالیاں بجانا در اصل اس بات کا مظاہرہ ہے کہ اُن کا سینہ احساسِ ذمہ داری سے خالی ہے۔ اگر سامعین کا یہ حال ہو کہ وہ آخرت کی جواب دہی کے احساس میں جیتے ہو ں تو مقرر کی ہر بات اُنہیں خدا اور رسول کی یاد دلائے گی۔ وہ ان کے اندر جنت اور جہنم کے بارہ میں دینی احساس کو بیدار کرے گی۔ مقرر کی بات ان کے ربانی احساسات کو جگائے گی۔ جو لوگ اس قسم کی نفسیات میں جیتے ہوں اُن کا ہاتھ کبھی تالیاں بجانے کے لیے نہیں اُٹھے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے حضور میں محسوس کرنے لگیں گے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ کبھی تالیاں نہیں بجاسکتے۔ مقرر کی تقریر اُن کو مجبور کرے گی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سوچیں، وہ اپنی کوتاہیوں کو سوچ کر آنسو بہائیں۔ ایسے لوگ کبھی اس قسم کا سطحی فعل نہیں کرسکتے جس کو تالیاں بجانا کہا جاتا ہے۔
سچی تقریر وہ ہے جو احتسابِ خویش (introspection) کا جذبہ اُبھارے، جو آدمی کو خود اپنی اصلاح کے لیے فکر مند بنادے۔ جو آدمی کے اندر ذمہ داری کا احساس جگائے۔ اس کے برعکس وہ تقریر جھوٹی تقریر ہے جو آدمی کے اندر فخر یا احتجاج کا جذبہ اُبھارے۔ ایسے مقررین کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ چپ رہیں، نہ کہ بے فائدہ طورپر اسٹیج سے اپنے لفظی کرتب کا مظاہرہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

ناشکری کا فتنہ

۱۲ جولائی ۲۰۰۴ کی شام کو دہلی کے ای ٹی وی (Eenadu TV) کے اسٹوڈیو میں ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس کا موضوع ’’ہندستانی مسلمان اور ریزرویشن‘‘ تھا۔ اس میں میرے سوا دہلی کے چار معروف مسلم دانشور شریک تھے۔ یہ ڈسکشن ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔
مذکورہ چاروں مسلم دانشوروں کی رائے زیر بحث موضوع پر تقریباً ایک جیسی تھی۔ ہر ایک کا یہ خیال تھا کہ ہندستانی مسلمان ایک پچھڑی ہوئی کمیونٹی (backward community) بن گئے ہیں اور اب مسلمانوں کو ملک کے دوسرے فرقوں کے برابر لانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن دیا جائے۔ ریزرویشن کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔
میں نے کہا کہ میرے نزدیک ہندستانی مسلمانوں کی پسماندگی کی بات محض ایک افسانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانوں نے اس ملک میں تقریباً سوگنا زیادہ ترقی کی ہے حتیٰ کہ اقتصادی اعتبار سے آج وہ مغل حکومت کے زمانہ سے بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ آپ کسی بھی شہر یا گاؤں کا سروے کرکے اس حقیقت کو جان سکتے ہیں۔
آپ ایک ملک گیر سروے کریں اور مسلمانوں سے صرف ایک سوال پوچھیں۔ وہ یہ کہ ۱۹۴۷ میں تمہارے خاندان کی جو اقتصادی حالت تھی اس کے مقابلہ میں آج تمہارے خاندان کی حالت کیا ہے۔ تقریباً ہر ایک سے آپ کو یہی جواب ملے گا کہ ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں آج ہم بہت زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ پہلے اگر ہمارے پاس کچا مکان تھا تو اب ہمارے پاس پکا مکان ہے۔ پہلے اگر ہمارے پاس کوئی سواری نہیں تھی تو آج ہمارے پاس جدید سواری موجود ہے۔ پہلے ہمارے پاس بجلی اور ٹیلی فون جیسی چیزیں موجود نہ تھیں مگر آج ہم کو یہ سب چیزیں حاصل ہیں۔ پہلے ہمارے بچے صرف معمولی تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ آج ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں، وغیرہ۔
میں نے کہا کہ آپ ایک آسان جائزہ لیجئے۔ ملک میں ایسی بہت سی جماعتیں اور ادارے موجود ہیںجو اپنے آپ کو ہندستانی مسلمانوں کا نمائندہ بتاتے ہیں۔ آپ ان نمائندہ جماعتوں اور اداروں کا سروے کیجئے اور دیکھئے کہ آج ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں ان کی حالت کیا ہے۔ مثلاً تبلیغی جماعت، جمعیۃ علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند، دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، دار العلوم، دیوبند، جامعہ دار السلام، عمر آباد، مدرسۃ الاصلاح، اعظم گڈھ، وغیرہ۔ میں ذاتی طورپر جانتا ہوں اور آپ بھی تحقیق کے ذریعہ معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ جماعتیں اور ادارے ۱۹۴۷ میں بالکل معمولی حالت میں تھے۔ آج ان کو دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اب وہ کم ازکم سوگنا زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔ مالیات، بلڈنگ ، کار، ٹیلی فون اور دوسری سہولتیں جو ۱۹۴۷ میں ان میں سے کسی کے پاس موجود نہ تھیں، آج ان میں سے ہر ایک کے پاس اس قسم کی سہولتیں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ ایسی حالت میں پسماندگی کی بات کہنا صرف ناشکری کی زبان بولنا ہے نہ کہ حقیقت واقعہ کا اظہار۔
ہندستان میں روزنامہ دینک جاگرن کے سروے کے مطابق، اس وقت ۲۲ کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان میں سے ہر شخص یکساں درجہ میں خوش حال نہیں۔ ان میں سے کسی کے پاس زیادہ ہے اور کسی کے پاس کم ۔مگر اس فرق یا نابرابری کا تعلق کسی ملک یا حکومت سے نہیں۔ یہ فرق تمام تر فطرت کے قانون کی بنا پر ہے۔ وہ خودخالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق ہے۔ اس بنا پر یہ فرق مسلمانوں میںاور دوسری قوموں میں ہمیشہ رہا ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔
اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ و صدقات کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ : تؤخذ من اغنیاء کم و ترد إلی فقرائکم (صدقات تمہارے امیروں سے لیے جاتے ہیں اور وہ تمہارے غریبوں کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں)۔ اس شرعی حکم کے مطابق، سماج میں ہمیشہ امیر اور غریب دونوں قسم کے لوگ موجود رہتے ہیں۔ فرق کی یہ حالت پیغمبر اسلام کے بنائے ہوئے نظام میں بھی موجود تھی۔ اس کے بعد خلافت راشدہ، اموی سلطنت، عباسی سلطنت، فاطمی سلطنت، ایوبی سلطنت، مغل سلطنت، عثمانی سلطنت اور اسپینی سلطنت ،غرض ہر دور میں یہ صورت حال موجود رہی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ علمائے اسلام نے اعلان کیا ہو کہ اب سماج میں فقراء باقی نہیں رہے ہیں اس لیے زکوٰۃ و صدقات کے احکام اب منسوخ قرار پاگئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چودہ سو برس کے دوران ہر زمانہ میں اور ہر ملک میں مسلم معاشرہ کا اقتصادی اعتبار سے وہی حال رہا ہے جو آج ہندستان میں پایا جاتا ہے۔ مگر اسلامی تاریخ کی طویل مدت میں کبھی علمائے اسلام نے یہ اعلان نہیں کیا کہ مسلمان ایک پس ماندہ ملت بن چکے ہیں۔ یہ بدعت پہلی بار ہندستان کے نام نہاد رہنماؤں نے نکالی ہے اور اس کی حقیقت ایک سطحی سیاست کے سوا اور کچھ نہیں۔
آج کی دنیا میں ۵۷ مسلم ممالک ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں خود مسلمانوں کی اپنی حکومت قائم ہے۔ لیکن ہر جگہ وہی اقتصادی فرق پایا جاتا ہے جو ہندستان میںموجود ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ہر دور میں اور ہر ملک میں یہ فرق موجود رہا ۔ اس فرق کو مٹانا سرے سے ممکن نہیں۔
نئی دہلی کے مذکورہ ڈسکشن میں میںنے مزید کہا کہ ’’غریبی‘‘ کوئی برائی نہیں، غریبی ایک چیلنج ہے اور چیلنج ہی واحد چیز ہے جس کے ذریعہ تمام ترقیات ظہور میں آتی ہیں۔ چیلنج نہیں تو ترقی بھی نہیں۔ میں نے کہا کہ بڑی کامیابی حاصل کرنے والے تمام لوگ غریب خاندانوں میں پیدا ہوئے۔ کوئی سپر اچیور(super achiever) کبھی کسی بِل گیٹ(Bill Gate) کے محل میں پیدا نہیں ہوا۔ ہمارے ملک میں جواہر لال نہرو کو چھوڑ کر تمام لیڈر غریب فیملی ہی میں پیدا ہوئے۔ اس کی ایک زندہ مثال صدر جمہوریہ ڈاکٹر عبد الکلام ہیں۔
اوپر میںنے مسلم دانشوروں کے بارے میں جس تجربہ کا ذکر کیا، وہ کوئی ایک تجربہ نہیں۔ ملک کے باہر اور ملک کے اندر ہر جگہ میں نے مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ سے اسی قسم کی بات سنی ہے۔ مسلمانوں کے اخبارات اور میگزین، مسلمانوں کے جلسے، مسلمانوں کی کتابیں، غرض ہر جگہ پسماندگی کی اسی مفروضہ کہانی کو دہرایا جارہا ہے۔ ہر مسلم زبان اور ہر مسلم قلم یکساں طورپر مسلمانوں کی مظلومی اور پسماندگی کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول ہے۔
میں نے اس مسئلہ پر بہت زیادہ غور کیا۔ میں نے جاننا چاہا کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ اس معاملہ کا سب سے زیادہ عجیب پہلو یہ ہے کہ جو مسلم عالم یا دانشور مسلمانوں کی بدحالی پر لکھتے یا بولتے ہیں وہ خود تقریباً بلا استثناء ایک خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ کم ازکم میں نے اپنی لمبی عمر میں جس شخص کو بھی مسلمانوں کے مسائل پر لکھتے یا بولتے ہوئے دیکھا وہ اسی کی مثال تھا۔ یعنی وہ اپنے باپ دادا کے زمانہ کے مقابلہ میں آج بہت زیادہ بہتر زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی مفروضہ حالت پر مرثیہ خوانی کررہا تھا۔
ایک بار میں نے دیکھا کہ ہندستان کے ایک نوجوان عالم ایک عرب ملک میں گئے۔ وہاں انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہندستان کے مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں(مسلموا الہند بین فکی الرحیٰ) یہ مسلمان عالم ماشاء اللہ فربہ جسم کے تھے۔ ان کے لباس اور ان کے چہرہ پر خوش حالی نمایاں تھی۔ ان کے لہجہ میں بھی سکون اور اعتمادجھلک رہا تھا۔ میں نے کہا کہ میرے بھائی، آپ بھی تو ایک ہندستانی شہری ہیں پھر کیسے آپ اس عام تباہی سے بچ گئے اور اگر آپ کے پاس ایسا کوئی نسخہ ہے جس کے ذریعہ آدمی تباہی کی عمومی حالت میں بھی شاندار زندگی حاصل کرسکے تو آپ بربادی کی داستان بتانے کے بجائے مسلمانوں کو یہی ذاتی نسخہ بتائیے۔
غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان ہر زمانہ میں ایک عمومی فتنہ برپا کرتا ہے۔ کسی انسان کا سب سے بڑا ٹسٹ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس عمومی فتنہ سے اپنے آپ کو بچا سکے۔
میرے نزدیک قدیم زمانہ کا فتنہ شرک تھا۔ اس زمانہ میں شیطان نے فکر و عمل کے تمام نقشوں کو اس طرح شرک کے رنگ میں رنگ دیا تھا کہ ہر عورت اور مرد اس کے اثر میں آگئے۔ ہر ایک نے مشرکانہ کلچر کو اختیار کرلیا۔ یہ صورت حال جاری رہی، یہاں تک کہ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ کا فتنہ ناشکری کا فتنہ ہے جو یقینی طورپر شیطان کا پیداکردہ ہے۔ شیطان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کا غلط مطالعہ کراتا ہے اور اس طرح لوگوں کو بے بنیاد طورپر غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک ایسے واقعہ کو سمجھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں جو ان کے قدموں کے نیچے موجود ہو۔
مثال کے طورپر دہلی میں ایک بار میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے ہوئی۔ وہ ایک غریب خاندان میں پیداہوئے مگر آج وہ دہلی میں ایک شاندار مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس موٹر کار اور دوسری جدید سہولیات موجود ہیں۔اُ ن کے بچے مہنگی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ مگر وہ بے تکان اس رواجی قول کو دہرارہے تھے کہ ہندستان کے مسلمان اقتصادی اعتبار سے بدحالی کا شکار ہور ہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ بھی تو ایک ہندستانی مسلمان ہیں۔ مگر آپ راجدھانی میں ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر آپ اپنے ذاتی تجربہ سے سبق کیوں نہیں لیتے۔
پھر میں نے کہا کہ دہلی کا ہمدرد دواخانہ ۱۹۴۷ میں کرایہ کے ایک معمولی مکان میں تھا۔ مگر آج ہمدرد دواخانہ ایک ایمپائر بن چکا ہے۔ انہوں نے فوراً کہا کہ آپ ہمدرد دواخانہ کا تقابل ڈابر کمپنی سے کیوں نہیں کرتے جو ہمدرد دواخانہ کے مقابلہ میں بہت زیادہ ترقی کرچکا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ایک غیر منطقی بات کررہے ہیں۔ کیوں کہ آپ حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد انڈیا کی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا اس لیے وہ بدحالی کے شکار ہوگئے۔ اس لیے اصل سوال کی نسبت سے ہم کو مسلمانوں کی ۱۹۴۷ کی اپنی حالت کا مقابلہ آج کے مسلمانوں کی اپنی حالت سے کرنا ہوگا اس پر وہ خاموش ہوگئے۔
اصل یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ کسی دوسرے کے ظلم کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے اپنے غلط مزاج کا ہے اور وہ مزاج ناشکری کا مزاج ہے۔ اسی مزاج کی بنا پر آج یہ حالت ہے کہ ہر مسلمان ناشکری کی زبان بول رہا ہے، خواہ وہ ایسی شاندار زندگی گزار رہا ہو جس کا اس کے باپ دادا نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
مثال کے طورپر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتیں اور ادارے قائم ہوئے ہیں۔ مگر کسی بھی جماعت یا ادارہ میں شکر خداوندی کا چرچا نہیں۔ مثال کے طورپر تبلیغی جماعت میں تعلیم کے لیے ایک ضخیم کتاب تبلیغی نصاب یا فضائل اعمال کوعام طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں کئی چیزوں کے فضائل پر ابواب موجود ہیں مگر اس میںفضائل شکر کا کوئی با ب نہیں۔ جماعت اسلامی میں (اسلام کے مکمل نظام) پر بہت سی کتابیں چھاپی گئی ہیں۔ مگر شکر خداوندی پر ان کے یہاں کوئی کتاب موجود نہیں۔ یہی حال دوسرے تمام اداروں کا ہے۔ مسلمانوں کے جلسوں میں دوسرے موضوعات پرجوشیلی تقریریں ہوتی ہیں۔ مگر میرے علم کے مطابق، شکر خداوندی کے موضوع پر کوئی تقریر نہیں ہوتی۔
میں اپنے تجربہ کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں سے سب سے بڑی چیز جو اٹھ گئی ہے وہ شکر خداوندی کی اسپرٹ ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی محرومی یہی ہے۔ اسی محرومی کا یہ نتیجہ ہے کہ اب ان کی زبان سے شکر کے کلمات نہیں نکلتے، ہر ایک بس ناشکری کے الفاظ بول رہا ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک بے حد خطرناک علامت ہے۔ ہماری اصلاحی کوششوں کا نشانہ یہی داخلی کمزوری ہونا چاہیے نہ کہ کوئی بیرونی خطرہ۔
واپس اوپر جائیں

یہ نمبر موجود نہیں

آپ اگر اپنے ٹیلی فون پر کسی شخص کا نمبر ڈائل کریں اور کوئی غلط بٹن دب جائے تو آپ کی کال مطلوب شخص تک نہیں پہنچے گی۔ آپ کو دوسری طرف سے ہیلو کی آوازنہیں آئے گی بلکہ کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت یہ ہوگا کہ ٹیلی فون اکسچینج سے ریکارڈ کی ہوئی آواز سنائی دے گی۔ ۳۱ اکتوبر ۲۰۰۴ کو میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ میںنے اپنے ٹیلی فون پر دہلی کے ایک صاحب کا نمبر ڈائل کیا۔ دوسری طرف سے یہ آواز سنائی دی—یہ نمبر موجود نہیںہے:
This number does not exist.
اکسچینج کی یہ آواز سن کر اچانک میرے ذہن میں خیالات کا ایک طوفان برپا ہوگیا۔ میںنے سوچا کہ اس مادی واقعہ میں ایک بہت بڑا روحانی سبق موجود ہے۔ وہ یہ کہ اگر کوئی انسان خدا سے ربط قائم کرنا چاہے اور وہ اپنے غلط ذہن کی بنا پر خدا کے سوا کسی اور کو اپنا خدا سمجھ بیٹھے اور خدا سمجھ کر اس کو پکارنے لگے تو اس کے ساتھ بھی یہی ہوگا کہ براہِ راست خدا کی طرف سے تو اس کو کوئی جواب نہیں ملے گا۔ البتہ ایک اور آواز اس کو سنائی دے گی جو اس سے کہہ رہی ہوگی کہ تم نے جس خدا کو پکارا ہے وہ خدا سرے سے موجود نہیں:
This God does not exist
خدا کی طلب انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ ہر انسان پیدائشی طورپر خدا کو پانا چاہتا ہے۔ مگر تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں نے وہ غلطی کی جس کو شرک کہا جاتا ہے۔ حقیقی خدا کو پالینے کا نام توحید ہے اور حقیقی خدا کے سوا دوسری چیز کو خدا کا درجہ دے کر اس سے قلبی تعلق قائم کرنا شرک ہے۔ حقیقی خدا سے رشتہ قائم ہونا انسان کے لیے سب سے بڑی رحمت ہے۔ جس عورت یا مرد کا رشتہ خدا کے ساتھ قائم ہوجائے اس کی زندگی میں ہدایت کا نور آجائے گا۔ اس کے اندر ربّانی شخصیت پیدا ہوگی۔ اس کو ذہنی ارتقاء کا اعلیٰ درجہ حاصل ہوگا۔ اس کے برعکس جو شخص شرک میں مبتلا ہو وہ اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔
موجودہ زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی خدا کا نام لیتا ہے۔ ہر آدمی کسی نہ کسی چیز کو خدا کا درجہ دے کراس کو اپنا لیتا ہے۔ مگر جہاں تک خدا کی رحمت اور رباّنی شخصیت کا تعلق ہے، اس کا کہیں وجود نہیں۔ اس کا سبب واضح طورپر یہی ہے کہ لوگ غیرخداؤں کو اپنا خدا بنائے ہوئے ہیں۔وہ کسی نہ کسی غیر خدا کو ٹیلی فون کررہے ہیں۔ مگر جواب میں ہر ایک کے پاس یہ آواز آرہی ہے کہ جو نمبر تم نے ڈائل کیا ہے وہ نمبر موجود نہیں، جس کو تم خدا سمجھ کر پکاررہے ہو اس خدا کا کہیں وجود ہی نہیں، اس لیے تم کو اس کی طرف سے کوئی جواب بھی ملنے والا نہیں۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیاہے:
سچا پکارنا صرف خدا کے لیے ہے۔ اور اس کے سوا جن کو لوگ پکارتے ہیں وہ ان کی اس سے زیادہ داد رسی نہیں کرسکتے جتنا پانی اس شخص کی کرتا ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو تاکہ وہ اس کے منھ تک پہنچ جائے اور وہ اس کے منھ تک پہنچنے والا نہیں۔ اور منکرین کی پکار سب بے فائدہ ہے (الرعد ۱۴)
ہر آدمی کی یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقی خدا کو دریافت کرے اور پھر یہ معلوم کرے کہ اس خدا سے ربط قائم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ اس دریافت کے بغیر انسانی زندگی نہ صرف نامکمل ہے بلکہ وہ یقینی طور پر تباہی کے انجام سے دوچار ہونے والی ہے۔ یہی کسی انسان کا سب سے بڑا مقصد ہے، یہی انسان کی جدوجہد کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسانی زندگی کو بامعنی بناتی ہے۔ جس انسان کی زندگی اس دریافت سے خالی ہو وہ بلاشبہہ سب سے بڑا مفلس ہے، خواہ بظاہر اس نے مادی چیزوں کا ڈھیر اپنے گرد اکھٹا کرلیا ہو۔
مزید سنگین بات یہ ہے کہ کسی انسان کو یہ موقع صرف قبل ازموت مدت حیات میں ملتا ہے۔ بعد ازموت کی مدت حیات میں کسی انسان کو یہ موقع ملنے والا نہیں۔ انسان کے لیے اُس کے خالق کا بنایا ہوا قانون یہ ہے—موت سے پہلے کی زندگی میں کرنا، اور موت کے بعد کی زندگی میں صرف بھگتنا۔
واپس اوپر جائیں

ایک ملاقات

۲۶ جون ۲۰۰۴ کو جَین ٹی وی (نئی دہلی) میں ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں اَینکر کے علاوہ تین آدمیوں نے حصہ لیا۔ ان کے نام یہ ہیں، پروفیسر امتیاز احمد (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) مسٹر ترن وجے (ایڈیٹر ہندی روزنامہ پانچ جنیہ) اور راقم الحروف۔ اس ڈسکشن کا موضوع ہندو تو اور مسلمان تھا۔
مسٹر ترن وجے نے کہاکہ ہندوتو کوئی مذہبی چیز نہیں، وہ بھارتیتہ کی پہچان ہے۔ اُس کا تعلق ہندو اور مسلمان سب سے ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوتو کو سبھی فرقے اختیار کریں۔ مگر ہمارا یہ ارادہ نہیں کہ ہم اس کو دوسروں کے اوپر زبردستی امپوز (impose) کریں۔
میں نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہندوتو اگر آپ کا پرسنل ایجنڈہ ہو تو مجھ کو یا کسی کو اُس پر کوئی اعتراض (objection) نہ ہوگا۔ لیکن اگر آپ ہندوتو کو نیشنل ایجنڈا بنانا چاہیں تو یہ ایک قابلِ اعتراض بات ہوگی۔ کیوں کہ پرسنل ایجنڈا اور نیشنل ایجنڈا کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارے ملک میں آزادی ہے۔ اس لیے آپ کسی بھی چیز کو اپنا پرسنل ایجنڈا بنا سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ دوسروں کے لیے ضرر رساں (harmful) نہ ہو۔
مگر جہاں تک نیشنل ایجنڈا کی بات ہے، اس کو آپ صرف اپنی خواہش کے تحت نہیںمقرر کر سکتے۔ نیشنل ایجنڈا اسی چیز کی بنیاد پر بن سکتاہے جو دستورِ ہند میں تسلیم کیا گیا ہو، ملک کی پارلیمنٹ نے اس کے حق میں قانون وضع کیا ہو یا سپریم کورٹ نے اُس کے حق میں اپنا فیصلہ دیا ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندو تو کا لفظ صرف ایک پارٹی کا لفظ ہے۔ دستور یا پارلیمنٹ یا عدالت نے ابھی تک اُس کو سندِ جواز عطا نہیں کی۔ ایسی حالت میں اگر آپ ہندوتو کو نیشنل ایجنڈا بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے ملک کے دستور کو بدلنا چاہیے۔ پارٹی کے اسٹیج سے اس پر تقریر کرنا کوئی معنٰی نہیں رکھتا۔
میں نے کہا کہ آپ کا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ اس کو زبردستی امپوز کرنا نہیں چاہتے۔ ہندو تو جیسا ایک پروگرام کوئی سادہ پروگرام نہیں، وہ اپنے آپ میں اس کا طالب ہے کہ اس کو امپوز کیا جائے۔ پھر میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اجودھیا میں رام مندر بنانا بھی ہندوتو کے ایجنڈہ کا ایک حصہ تھا۔ پھر آپ نے وہاں کیا کیا۔ آپ نے وہی کیا جس کو ’’امپوز‘‘ کرنا کہتے ہیں۔ آپ لوگ ایک بھیڑ کی صورت میں اجودھیا میں گھس گئے اور ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو یہ کیا کہ بابری مسجد توڑ کر وہاں ایک عارضی مندر بنادیا۔ حالاں کہ یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں زیرِ سماعت تھا۔ آپ لوگوں نے اجودھیا میںجو کچھ کیا اسی کا نام امپوز کرنا ہے۔
میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہندوتو کی صداقت پر یقین رکھتے ہوں تو آپ لوگ اپنی ذاتی زندگی میں ضرور اس کو استعمال کریں۔ مگر نیشنل لائف میں اس کو نافذ کرنا دستور، قانون، عدالت، کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔ مزید یہ کہ آپ لوگوں کے لیے ہندوتو کا پروگر ام اب محض ایک نعرہ بن کر رہ گیا۔ آپ لوگوں کا پروگرام یہ تھا کہ ہندوتوکے نام پر ووٹ لے کر ملک میں حکومت بنانا اور ہندوتو کے اصول پر اُس کا نقشہ بدلنا۔
مگر انتخابات کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ آپ لوگوں کے لیے سرے سے ممکن نہیں۔ مئی ۲۰۰۴ کے الیکشن میں یہ بات آخری طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ ہندوتو کا گروہ اس ملک میں اقلیت کی حیثیت رکھتا ہے۔سب لوگ جانتے ہیں کہ تعلیم یافتہ ہندو آپ لوگوں کی حمایت نہیں کرتے۔ نچلی ذات کے ہندو آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ مسلمان اور عیسائی آپ کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی حالت میں یہ ناممکن ہے کہ آپ پارلیمنٹ میں مطلق اکثریت میں آسکیں اور جب تک آپ کو مطلق اکثریت حاصل نہ ہو، ہندوتو کو نیشنل ایجنڈہ بنانا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
میں نے کہا کہ مشہور انگریزی مقولہ ہے—سیاست ممکن کا کھیل ہے، وہ ناممکن کا کھیل نہیں:
Politics is the art of the possible.
یہ فطرت کا ایک اُصول ہے۔ کوئی بھی اس کو بدل نہیں سکتا۔ ایسی حالت میں کسی ناممکن اِشو کو لے کر اُس پر سیاست چلانا اپنا وقت بھی ضائع کرنا ہے اور دوسروں کا وقت بھی ضائع کرنا۔
واپس اوپر جائیں

ٹیلی فون سے خطاب

۲۷؍ جون ۲۰۰۴ کو امریکا میں مقیم کچھ مسلمانوں نے میرے ایک ٹیلی فونی خطاب کا انتظام کیا۔ میں نے دہلی میں اپنے آفس کے ٹیلی فون پر ایک تقریر کی اور اسی وقت اس کو امریکا کے شہر فلاڈلفیا کے اجتماع میں سنا گیا۔ یہ تقریباً ایک گھنٹہ کا پروگرام تھا۔ پہلے میں نے ۱۵ منٹ تقریر کی۔ اس کے بعد سننے والے ٹیلی فون پر سوال کرتے رہے اور میں ٹیلی فون پر اس کا جواب دیتا رہا۔ خطاب کے آغاز میں میں نے کہا کہ میں اپنی بات شکر خدا وندی کے جذبہ سے شروع کرتا ہوں۔ یہ جدید کمیونیکیشن بلا شبہہ ایک عظیم نعمت ہے جس نے اس بات کو ممکن بنایا کہ ایک شخص دہلی میں بولے اور عین اسی وقت امریکا میں اس کو سنا جارہا ہو۔
موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن کی طاقت کو زیادہ تر غیر مسلم قومیں استعمال کررہی ہیں، اس لیے اکثر مسلمان یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جدید کمیونیکیشن در اصل گلوبلائزیشن (globlization) کا ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعہ مسلم دشمن قومیں مسلمانوں کو اپنی غلامی میں جکڑ لینا چاہتی ہیں۔ یہ ایک بے شعوری کی بات ہے۔ جدید کمیونیکیشن کی حیثیت ایک طاقت کی ہے، جو بھی چاہے اس کو اپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے۔
پھر میںنے کہا کہ اس وقت میں جہاد کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ جہاد آج کل بہت زیادہ نیوز میں ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جہاد کے معنٰی جنگ کے ہیں، مگر یہ درست نہیں۔ جنگ کے لیے قرآن میں قتال کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جہاد کے لفظی معنٰی کوشش یا جدوجہد کے ہیں۔ جہاد دراصل اس پر امن جدوجہد کا نام ہے جو کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے کیا جائے۔ جہاد عبادت کی طرح ایک مسلسل عمل ہے۔ جب کہ قتال صرف ایک وقتی کارروائی ہے جو خارجی حملہ کی صورت میں دفاع کے لیے کیا جائے۔
حدیث میں آیا ہے کہ جہاد اسلام میں چوٹی کا عمل ہے (وذروۃ سنامہ الجہاد) اس حدیث کی روشنی میں غور کیجئے تو جہاد کبھی متشددانہ عمل کا عنوان نہیں ہوسکتا۔ جہاد کی عظمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ ایک مثبت عمل ہے نہ کہ منفی عمل۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل عام ہی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ جہاد کی متشددانہ تعبیر درست نہیں:
Common sense is enough to understand that militant interpretation of Jihad is incorrect.
قرآن کے مطالعہ سے جہاد کے دو مثبت پہلو معلوم ہوتے ہیں۔ ایک کو قرآن میں جہاد فی اللہ (Jihad in God) کہا گیا ہے اور دوسرے کو جہاد فی سبیل اللہ (Jihad for the sake of God) بتایا گیا ہے۔ یہ دونوں مثبت عمل ہیں، اور اصلاً انہیں کا نام جہاد ہے۔
جہاد فی اللہ (اللہ میں جہاد) کیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دوسری جگہ اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگنا بتایاگیا ہے: صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ- یعنی اپنی زندگی کو خدا کی پسند میں ڈھالنا۔ اپنی سوچ کو خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) بنانا۔ اللہ کو معرفت کے درجہ میں حاصل کرنے کے لیے فکری عمل کرنا۔ اپنے جذبات اور احساسات کوخدا کے تابع بنانے کے لیے محنت کرنا۔ اپنے اوپر تزکیہ کا عمل جاری کرنا۔ خدا کے ساتھ خوف شدید اور حب شدید کا تعلق قائم کرنا۔ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کرنا۔ اپنے اندر اس شخصیت کی تعمیر کرنا جس کو قرآن میں نفس مذکی یا نفس مطمئن کہا گیا ہے۔ دنیا کی مشغولیتوں میں رہتے ہوئے خدا اور جنت کا طالب بن جانا۔
یہ جہاد بلا شبہہ ایک مشکل ترین عمل ہے۔ یہ اپنی نئی تخلیق کے ہم معنٰی ہے۔ اسی لیے اس کو بڑا جہاد بتایا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے ایک بار اپنے دشمنوں کے خلاف اقدام کیا۔ آپ اس سے واپس ہو کر مدینہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: رجعنا من الجہاد الأصغر إلی الجہاد الأکبر۔ یعنی ہم چھوٹی جدوجہد سے واپس ہو کر بڑی جدوجہد کی طرف آئے ہیں۔
اس حدیث کے مطابق، بڑا جہاد اس عمل کا نام ہے جواس وقت مدینہ میں انجام دیا جاتا تھا۔ یہ عمل کیا تھا۔ وہ تھا پیغمبر اسلام سے نصیحت لینا، قرآن کا مطالعہ کرنا، ذکر و عبادت میں مشغول رہنا، اجتماعی زندگی کی غلطیوں کو یک طرفہ برداشت کرنا۔
جہاد فی سبیل اللہ (اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا) کیا ہے۔ یہ قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ ارشاد ہوا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیراً۔ یعنی ان کے اوپر قرآن کے ذریعہ بڑا جہاد کرو۔ یعنی قرآن کو لوگوں تک پہنچانے میں ان کی مدد کرو۔ ظاہر ہے کہ قرآن کوئی ہتھیار نہیں، وہ عقیدہ اور نظریہ کی ایک کتاب ہے۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی فکر کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ چنانچہ پیغمبر اسلام کی دعوتی سرگرمی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کے پاس جاتے اور ان کو قرآن پڑھ کر سناتے (فأعرض علیہم الاسلام و تلا علیہم القرآن) یہ دونوں قسم کے جہاد سخت محنت کے طالب ہیں۔ مثلاً اگر آپ نفس مطمئن بننے کا فیصلہ کریں تو آپ کو زبردست جدوجہد کے مرحلہ سے گزرنا ہوگا،کیوں کہ زندگی میں ہر لمحہ لوگوں کی طرف سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں ضروری ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو منفی نفسیات سے بچائے اور ہر حال میں اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھے۔ ایسا زبردست جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
دعوتی جہاد بھی بلاشبہہ ایک بے حد مشکل عمل ہے۔ دعوتی عمل ان لوگوں پر انجام دینا پڑتا ہے جو اکثر اہل اسلام کو اپنے دشمن کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ ایسی حالت میں دعوت کاعمل دشمن کے ساتھ یک طرفہ محبت و شفقت کے سلوک کے ہم معنٰی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو عظیم جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
جہاں تک قتال (جنگ) کا تعلق ہے، وہ صرف ایک مقصد کے لیے پیش آتا ہے، اور وہ ہے، جارحانہ حملہ کے وقت دفاعی مقابلہ کرنا۔ اسلام میں قتال کی بہت سی شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کے بغیر جو قتال کیا جائے وہ اسلام کا جائزکردہ قتال نہیں۔ اس کی لازمی شرط یہ ہے کہ صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت ہی جنگ کا اعلان کرسکتی ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو ہر گز جنگ کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کسی شخص یا جماعت کو یہ احساس ہو کہ جنگ کرنا ضروری ہوگیا ہے تو وہ صرف یہ کرسکتا ہے کہ حکومت وقت سے جنگی اقدام کے لیے کہے اور اپنے آپ کو مکمل طورپر امن کے حدود میں قائم رکھے۔ جنگ کے لیے اسلام نے جو شرطیں مقرر کی ہیں ان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناگزیر حالت میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے۔ جنگ کی دوسری قسمیں مثلاً گوریلا وار، پرا کسی وار، بلا اعلان وار اور جارحانہ وار اسلام میں ہرگز جائز نہیں۔
اسلام کا اقدامی عمل دعوت ہے نہ کہ جنگ۔ اسلام کا نشانہ انسان کو زندگی دینا ہے۔ انسان کو جہنم سے بچا کر جنت کا راستہ دکھانا ہے۔ انسان کو غیر خدا پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لانا ہے۔ انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفات پیدا کرنا ہے جو اس کو جنت میں داخلہ کا مستحق قرار دے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا اقدامی عمل کامل طورپر ایک تعمیری عمل ہے اور کوئی تعمیری عمل صرف پر امن ذرائع سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
خطاب کے آخر میں سوال و جواب کا پروگر ام تھا۔ سامعین نے ٹیلی فون پر سوالات کئے اور میں نے ٹیلی فون پر ان کے جوابات دئے۔ ایک سوال یہ تھا کہ حال میں مجاہدین نے عراق وغیرہ میں کچھ لوگوں کو پکڑا۔ انہوںنے ان کوچند دن یرغمال بنا کر رکھا اور پھر ان کے سر کاٹ کر انہیں ہلاک کردیا۔ ان واقعات کی رپورٹیں تصویر کے ساتھ مغربی میڈیا میں کثرت سے آئی ہیں اور ان کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام ایک وحشیانہ مذہب ہے۔ میں نے کہا کہ اس طرح یرغمال بنانا اور گن یا تلوار کے ذریعہ انہیں ہلاک کرنا سراسر ایک حرام فعل ہے۔ اسلام کے نام پر کرنے کی وجہ سے ایسا عمل جائز نہیں ہوسکتا۔ اسلام میں سزا کا معاملہ مکمل طورپر ایک عدالتی معاملہ ہے۔ عدالت کے سوا کسی دوسرے کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود کسی کو مجرم قرار دے کر اس کی گردن کاٹے یا اس کو گولی مار دے۔ عدالتی سزا کے لیے بھی شہادت ضروری ہے۔ کوئی شخص اگر جرم کا فعل کرتا ہے تو وہ عدالت کے سامنے پیش ہوگا۔ معاملہ کی تحقیق اور گواہوں کی گواہی کے بعد عدالت اپنا فیصلہ دے گی۔ اور حکومت اس کو طاقت کے ذریعہ نافذ کرے گی۔ اسلام میں جرم پر سزا کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں۔
ایک صاحب نے اس فلسطینی تحریک کے بارے میں سوال کیا جس کو انتفاضہ (resurgence) کہا جاتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس تحریک کا حکم کیا ہے۔ میں نے کہا کہ انتفاضہ کی موجودہ تحریک میرے نزدیک ایک غیر اسلامی تحریک ہے۔ یہ تحریک متشددانہ طریق کار کے اصول پر قائم ہے۔ یہی چیز اس کو غیر اسلامی بنا دیتی ہے۔ کیوں کہ کسی قومی یا سیاسی مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانا صرف ایک قائم شدہ حکومت کے لیے جائز ہے۔ غیر حکومتی افراد یا تنظیموں کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ کسی کو دشمن قرار دے کر اس کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ اور جیسا کہ معلوم ہے، انتفاضہ کی تحریک غیرحکومتی افراد چلا رہے ہیں نہ کہ کوئی قائم شدہ حکومت۔
انتفاضہ سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ راستہ کھلاہوا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے لیے پر امن تحریک چلائیں مگر کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار اٹھانا ان کے لیے جائز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

محترمہ صوفیہ حیدر السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مورخہ ۲۳ جنوری ۲۰۰۵ ملا۔ آپ کے حالات معلوم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کی مدد فرمائے اور آپ کے کل کوآپ کے آج سے بہتر بنائے۔
زندگی ایک امتحان ہے۔ زندگی ہر ایک کے لیے وہی ہے جو کسی دوسرے کے لیے ہے۔ زندگی کو خوشگوار بنانے کا راز یہ نہیں ہے کہ ناخوشگواریوں کا خاتمہ ہوجائے۔ بلکہ اس کا راز یہ ہے کہ آدمی ناخوشگواریوں میں جینا سیکھ لے۔ وہ منفی تجربات کو مثبت سبق میں ڈھال لے۔
یہی الرسالہ مشن کا مقصد ہے۔ الرسالہ کاکوئی بھی شمارہ پڑھئے تو آپ کواس میں یہی میسج ملے گا۔ مثال کے طورپر الرسالہ دسمبر ۲۰۰۴ کے صفحہ اول پر یہ پیغام درج تھا:
’’ماضی کی تلخ یادوں کو بھلانا ہی مستقبل کی طرف کامیاب اقدام کی پہلی شرط ہے‘‘۔
مجھے آپ کے حالات کا صحیح اندازہ نہیں۔ مگر ایک عمومی بات یہ ہے کہ زندگی ہر ایک کے لیے دوسرے موقع (second chance) کو استعمال کرنے کا نام ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی پہلے موقع کو کھوتا ہے۔ جو شخص پہلے موقع کو سبق میں ڈھال سکے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ دوسرے موقع کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرسکے ۔الرسالہ ایک اعتبار سے فطرت کے ابدی قانون کا تعارف ہے۔ اور فطرت کا قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر عسر کے ساتھ یسر لگا ہوا ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی عسر اتنا بڑا نہیں کہ وہ یسر کے امکانات کو یکسر ختم کردے۔میں عرض کروں گا کہ آپ کسی بھی حال میں ہمت نہ ہاریں۔ آپ اپنے ذہن کی طاقتوں کو پھر سے مجتمع کریں۔ آپ اپنی زندگی کی از سرِنو منصوبہ بندی کریں۔ جب آپ ایسا کریں گی تو مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے حالا ت میں نئے امکانات کو دریافت کرلیں گی۔ آپ ایک ایسا نقطۂ آغاز پالیں گی جس سے چل کر آپ دوبارہ اپنی مطلوب منزل تک پہنچ سکیں۔
نئی دہلی، ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ وحید الدین
ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کے وطن ناگپور سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کا نام یہ ہے: ’’حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب عرف علی میاں صاحب کے خطوط حضرت مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب کے نام‘‘۔
۳۹۳ صفحات کی یہ کتاب ستمبر ۱۹۹۹ میں چھپی ہے۔ اس مجموعہ میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کے ۲۲۱ خطوط شامل ہیں۔ اس کے خط نمبر ۱۱۳ میں راقم الحروف کی کتابوں کے بارے میں منفی رائے دیتے ہوئے تحریر ہے:
میں یہ خط اس ضرورت سے بھی لکھ رہا ہوں کہ میرے پاس حیدر آباد سے ایک فہیم و سنجیدہ دوست کا خط آیا ہے کہ ’’ندوۃ ایجنسی‘‘ کے نام سے سیدجمیل الدین صاحب کی طرف سے جو اشتہار شائع ہوا ہے اس کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں میری کتابوں کے علاوہ جہاں بعض اور دوسرے حضرات کی تصنیفات کا تذکرہ ہے ان میں مولوی وحید الدین خاں کی کتابوں کے دستیاب ہونے کا بھی اعلان ہے۔ میں سید جمیل الدین صاحب کو براہِ راست نہیں لکھنا چاہتا۔ آپ اشارہ کردیں کہ مولوی وحیدالدین خاں صاحب کے بہت سے خیالات سے اتفاق نہیں، ہماری اور ان کی کتابوں کا جوڑ نہیں۔ اس لیے آئندہ سید جمیل الدین صاحب اس کا لحاظ رکھیں، آپ اپنے انداز میں مناسب طریقہ سے لکھ دیجئے گا۔ مجھے مولوی وحید الدین خاں صاحب سے کوئی ذاتی خصومت نہیں۔ لیکن ان کے خیالات میں سخت ناہمواری اور بے اعتدالی ہے اور سلف و مجاہدین و شہدائے اسلام سے بدعقیدگی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۲۰۴)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی اس بات پر مجھے کوئی ذاتی شکایت نہیں البتہ اس کو پڑھ کر تعجب ضرور ہوا۔ یہ الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت مولانا اس چیز سے کس قدر محروم تھے جس کو حدیث میں بصیرت زمانہ کہاگیا ہے۔ حضرت مولانا یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ادارہ کی کتابوں کو نہ پڑھیں۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ آچکا ہے کہ لوگ صرف ہمارے ادارہ ہی کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ حضرت مولانا کے مذکورہ الفاظ تاریخ کے دھارے سے ٹکرانے کے ہم معنٰی ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی شخص اتنا طاقتور نہیں کہ وہ تاریخ کے دھارے سے ٹکرا سکے۔
یہ بلا شبہہ نہایت اہم بات ہے۔ کوئی شخص آج اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے۔ مگر عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب کہ یہ حقیقت اتنی زیادہ مبرہن ہوچکی ہوگی کہ اس کو نہ ماننا خود اپنی بے خبری کے اشتہار کے ہم معنٰی بن جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ سلطان ٹیپو سے لے کر یاسر عرفات تک کازمانہ وہ زمانہ تھا جب کہ ساری دنیا کے مسلمانوں پر جہاد (بمعنیٰ قتال) کا نقطۂ نظر چھایا ہوا تھا۔ ساری دنیا کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ مسلح جہاد ہی مسلمانوں کے مسئلہ کا واحد حل ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، ہر عمل کو جاری رکھنے کے لیے اس کی پشت پر ایک ایسا لٹریچر درکار ہوتا ہے جو اس کے لیے فکری تائید کا کام کرے۔ پچھلے زمانہ میں پیدا ہونے والا جہادی لٹریچر یہی کام کررہا تھا۔ اس بنا پر مسلمانوں کے درمیان اس کو عمومی مقبولیت حاصل ہوئی۔
مگر اب عسکریت پسندی کا یہ دور ختم ہوگیا۔ اس لیے اب وہ لٹریچر بھی غیر متعلق (irrelevant) بن چکا ہے جو مسلح جہاد کے لیے فکری جواز (ideological justification) فراہم کررہا تھا۔ شہدائے سیاست کو ماڈل بنا کر جو نام نہاد انقلابی لٹریچر تیار کیا گیا تھا وہ حالات کی تبدیلی کے بعد اب ایک فرسودہ (obsolete) لٹریچر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
مسلح جہاد کی مکمل ناکامی کو دیکھ کر ا ب ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایک نیا ذہن ابھرا ہے۔ یہ امن پسندی کا ذہن ہے۔ اب ساری دنیا کے مسلمان مسلح طریق کار کو چھوڑ کر پر امن طریق کار کو اپنا رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا ثبوت پوری مسلم دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نئے لٹریچر کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا لٹریچر جو پر امن طریق عمل کے حق میں فکری تائید فراہم کرتا ہو۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہمارے ادارہ نے جو لٹریچر تیا رکیا ہے وہ عین یہی لٹریچر ہے۔ وہ پر امن طریق عمل کے حق میں طاقتور فکری تائید کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے ادارہ کی مطبوعات وقت کی مانگ کا جواب ہیں۔ اور جوچیز وقت کی مانگ کا جواب ہو اس کو کسی مخالف کی مخالفت یا کسی مفتی کا فتویٰ لوگوں تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔
اس سلسلہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ حضرت مولانا علی میاں نے راقم الحروف کی کتابوں کے بارہ میں جو منفی رائے دی ہے وہ مکمل طورپر بلا دلیل ہے۔ میرے علم کے مطابق، حضرت مولانا نے نہ اس مجموعۂ خطوط میں اور نہ اپنی کسی دوسری تحریر میں یہ بتایا ہے کہ میرے کون سے خیالات ہیںجوان کے نزدیک غلط ہیں اور وہ کس دلیل کی بنیاد پر غلط ہیں۔ حضرت مولانا کی یہ روش یقینی طورپر غیر اسلامی ہے۔
اس دنیا میں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے بعد کسی بھی شخص پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ مگر ناقد کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ اپنی تنقید کے حق میں باقاعدہ حوالہ دے اور دلیل کے ذریعہ اُس کو برحق ثابت کرے۔ مدلل تنقید بلا شبہہ ایک جائز فعل ہے لیکن غیر مدلل تنقید یقینی طورپر جائز نہیں۔ حدیث کے مطابق، ایک مسلمان کی عِرض دوسرے مسلمان پر حرام ہے (کل المسلم علی المسلم حرام، دمہ ومالہ وعرضہ) مذکورہ قسم کی غیر مدلل تنقید بلا شبہہ ایک مسلم کی عِرض پر حملہ ہے۔ حضرت مولانا کا مذکورہ مکتوب اسی محرم فعل کے ارتکاب کے ہم معنٰی ہے۔ اس معاملہ میں کوئی بھی توجیہہ اس کے جواز کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔
نئی دہلی ، ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ وحید الدین
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۹

۱۔ کیرالا کے شانتی گری آشرم کی طرف سے کوٹایم (Kottayam) میںایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع امن اور روحانیت تھا۔ اس میں سابق صدر مسٹر کے آر نارائنن بھی شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور وہاں کے اجلاس میں حصہ لیا۔ یہ سیمینار ۳۔۵ جنوری ۲۰۰۵ کو منعقد کیا گیا۔ اس سفر کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۲۔ انڈین ایکسپریس نئی دہلی کے نمائندہ اروناوا داس گپتا (Arunava Dasgupta)نے ۷ جنوری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر حج کے مقصد کے بارہ میں تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ حج کا مقصد انسانی اور روحانی بنیاد پر لوگوں کا اتحاد ہے۔
۳۔ سب ٹی وی(نئی دہلی) کے تحت ۱۰ جنوری ۲۰۰۵ کو ان کے اسٹوڈیو میں جَن سنسد کا پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع یہ تھا: فیملی پلاننگ اور اسلام۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام میں زندگی کو ختم کرنا حرام ہے خواہ وہ بعد از وضع حمل ہو یا قبل از وضع حمل۔ مگر جہاں تک منع حمل کی تدابیر کا تعلق ہے، وہ اسلام میں جائز ہے۔
۴۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۲ جنوری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر موہن مشرا تھے۔ سوالات کا تعلق عورتوں کے مسجد میں نماز پڑھنے سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ مردوں کے لیے مسجد میں جاکر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ مگر عورتوں کے لیے مسجد میں نماز پڑھنا اختیاری ہے۔ اس معاملہ میں عورتوں پر کوئی پابندی نہیں۔ مزید بتایا گیا کہ مکہ اور مدینہ کی مسجدیں جو نمائندہ مساجد کی حیثیت رکھتی ہیں وہاں روزانہ پانچ وقت مسلم خواتین آکرجماعت کے ساتھ نماز پڑھتی ہیں۔
۵۔ ٹیڈ سیونسن(Ted Sevensson) سویڈن کے رہنے والے ہیں۔ وہ لندیونیورسٹی (Lund University) میں ایک ریسرچ اسکالر ہیں۔ اُن کی ریسرچ کا موضوع یہ ہے:
Muslim Identity in India
۱۳ جنوری ۲۰۰۵ کو انہوں نے اس سلسلہ میں صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی اور اپنے موضوع پر ان کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کے دوران بتایا گیا کہ انڈیا میں مسلمانوں کا مستقبل نہ صرف محفوظ ہے بلکہ یہاں وہ ترقی کررہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ انڈیا کے مسلمانوں پر برطانی مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی کا نظریہ منطبق ہوتا ہے۔ غیر مسلم اکثریت ان کے لیے ایک نعمت ہے۔ کیوں کہ اس بنا پر وہ چیلنج کی حالت میں ہیں اور اس چیلنج کی بنا پر وہ دن بدن تخلیقی اقلیت(creative minority) بن رہے ہیں۔ آخر میں ان کو مندرجہ ذیل کتاب دی گئی:
Indian Muslims: A Positive Outlook
۶۔ سائی بابا انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ۱۸ جنوری ۲۰۰۵ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس کے تحت نوودے ودیالیہ اسکولوں کے پرنسپل اکھٹاہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے وہاں خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا عنوان یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
انہوں نے اس موقع پرآدھ گھنٹہ تقریر کی اور اس کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ اسلام میں بنیادی انسانی اقدار کی تعلیمات کیا ہیں۔ شرکاء کے درمیان اسلامی مرکز کی دعوۃبک لٹ تقسیم کی گئیں۔
۷۔ مسٹر عبد اللہ نعیم ابراہیم مالدیپ کے رہنے والے ہیں۔ وہ آفاتھس (Aafathis)ڈیلی نیوز کے مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے ۱۸ جنوری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ اسلامی مرکز کے لٹریچر کو کس طرح مالدیپ کی زبان میں منتقل کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ عرصہ سے وہ الرسالہ اور الرسالہ مطبوعات کے مضامین مالدیپی زبان میں شائع کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب وہ اسلامی مرکز کی کچھ کتابوں کا مالدیپی زبان میں ترجمہ چھپوانے کا انتظام کررہے ہیں۔
۸۔ فرنچ نیوز ایجنسی (AFP) نئی دہلی، کی نمائندہ پینی میکرا (Peni Macrae) نے ۱۸ جنوری ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو گودھرا کے حادثہ کے بارے میں تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ بنرجی کمیشن کی رپورٹ سے گودھرا حادثہ کے بارے میں جو لوگ ماخوذ ہیں کیا ان کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اس کے جواب میں کہا گیا کہ انڈیا میں عدالتی فیصلے زیادہ ترٹیکنیکل گراؤنڈ پر ہوتے ہیں اور ٹیکنیکل گراؤنڈ میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ خلاف توقع نہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کمیشن کی رپورٹ کا کتنا اثر عدالتی فیصلہ پر پڑے گا۔
۹۔ سمیاودیا وہار (Somaiya Vidyavihar) کی طرف سے بمبئی میں ۲۰، ۲۱، ۲۲ جنوری ۲۰۰۵ کو ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کا موضوع یہ تھا:
Religions as Instruments of Social Transformation
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی اور اسلام کی روشنی میں موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اس سفر کے موقع پر بہت سے ہندوؤں اور مسلمانوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور ملک و ملت کے مسائل پر ان سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔
۱۰۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور ٹمپل آف انڈر اسٹینڈنگ کے تعاون سے نہرو یونیورسٹی میں ۲۴ جنوری ۲۰۰۵ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس کا عنوان تھا:
Interfaith Harmony and Social Cohesion
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ سماجی اتحاد کا فارمولا یہ نہیں ہے کہ مذہبی اختلاف کو مٹایا جائے بلکہ اس کا قابل عمل فارمولا صرف یہ ہے کہ لوگوں کے اندر باہمی احترام کا مزاج پیدا کیاجائے، یعنی:
Follow one and respect all
۱۱۔ زی ٹی وی (نئی دہلی) اور اسٹار ٹی وی نے ۴ فروری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ دونوں کا موضوع ایک تھا۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے ہائی کورٹ کی بلڈنگ سے قریب کی ایک مسجد کے بارے میں حکم جاری کیا تھا کہ ظہر اور عصر کی نماز کے لیے وہاں لاؤڈاسپیکر پر اذان نہ دی جائے کیوں کہ اس کی آواز سے ہائی کورٹ کے کام میں خلل پڑتا ہے۔ اس پر پٹنہ کے مسلمانوں نے مظاہرے کیے۔ اس مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ انڈیا ایک سیکولر کنٹری ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کو یہاں کے قانون کی اسی طرح پابندی کرنا چاہیے جس طرح وہ دنیا کے دوسرے سیکولر ملکوں میں قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ اولاً تو اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور اگر بالفرض وہ ضروری ہو تو اس کا نفاذ مسلم ملکوں میںکیا جانا چاہیے نہ کہ سیکولر ملکوں میں۔
۱۲۔ جے پور میں ۱۲۔ ۱۳ فروری ۲۰۰۵ کو ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس کا انعقاد مائی ہندستان اے پیس موومنٹ(My Hindustan A Peace Movement) کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس سیمینار کا موضوع امن اور فرقہ وارانہ اتحاد اور حب الوطنی کو فروغ دینا تھا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں خصوصی مقرر کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مگر بعض اسباب سے وہ اس میں شریک نہ ہوسکے۔ البتہ اُنہوں نے ایک پیغام بھیج دیاجو سیمینار میں پڑھ کر سُنایا گیا۔ وہ پیغام یہ تھا:
میرے نزدیک بھارت کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ Separatist Tendency ہے۔یہ tendency ٹو نیشن ـتھیوری کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ مہاتما گاندھی نے اس با ت کو بھر پور طورپر محسوس کیا تھا۔ چنانچہ آزادی کے وقت انہوں نے کہا تھا:
Hindus and Musalmans should learn to live together in peace and harmony. Otherwise I should die in the attempt
میںنے اپنی زندگی کو اسی مشن کے لیے وقف کررکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کی ہر سنستھا کو چاہیے کہ وہ اس کو پوری اہمیت کے ساتھ لے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں میل ملاپ سارے معاملہ کی جڑ ہے۔ میں مسلمانوں کو یہ پیغام دیتا رہا ہوں کہ وہ negative thinking کو مکمل طورپر ختم کردیں اور صد فی صد positive thinking کو اپنائیں۔ یہی مسلمانوں کے لیے اچھا ہے۔ یہی تمام فرقوں کے لیے اچھا ہے اور یہی ملک کے لیے اچھا ہے۔ ہمارا مستقبل سب سے زیادہ جس چیز سے جڑا ہوا ہے وہ یہی ہے۔ اسی سوچ سے سچی حب الوطنی پیدا ہوگی۔اسی سوچ سے سارے معاملات درست ہوں گے۔ (۱۱ فروری ۲۰۰۵ )
۱۳۔ جاپان فاؤنڈیشن کے تحت ۱۷۔۲۰ فروری ۲۰۰۵ کو بنارس میںایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس میں انڈیا او رجاپان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ڈسکشن کا موضوع یہ تھا:
Changing Dynamics of Hinduism and Islam
صدر اسلامی مرکز کو اس سیمینار میںشرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر وہ بعض وجوہ سے اس میں شریک نہ ہوسکے۔ البتہ موضوع پر دو صفحہ کی ایک تحریر انہیں بھیج دی گئی جس کو سیمینار میںپڑھ کر سنایا گیا۔
۱۴۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۰ فروری ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ ۱۰ محرم کو لکھنؤ میں تعزیہ کے جلوس کے سلسلہ میں شیعہ۔ سنّی جھگڑا ہوگیا۔ اس میں کچھ افراد مارے گئے۔ یہ انٹرویو اسی کے بارے میں تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ تعزیہ کے جلوس کے سوال پر اکثر فساد ہوتا ہے۔ یہ سراسر غیر اسلامی ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ جلوس کو بند کرنے یا اس کی روٹ بدلنے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہیں وہ اس پر صبر وتحمل کا طریقہ اختیا رکریں۔
۱۵۔ ہندی روزنامہ نو بھارت ٹائمس (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر رندھیر کمار نے ۲۲ فروری ۲۰۰۵کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوال و جواب کا تعلق زیادہ تر صوفی ازم سے تھا۔ بتایا گیا کہ ہندستان میں ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان میل ملاپ بڑھانے کی تدبیر یہ ہے کہ یہاں صوفی کلچر کو زندہ کیا جائے۔ صوفی کلچر صلح کُل پر مبنی ہے۔ صوفی تعلیمات یہ ہیں کہ ہر ایک کے ساتھ محبت اور رواداری کا معاملہ کیا جائے۔ صوفی کلچر کا ایک چھوٹا سا نمونہ اب بھی صوفیوں کے مزار پر دیکھا جاسکتا ہے ۔یہاں آج بھی ہندو اور مسلمان دونوں کے درمیان میل ملاپ کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ اسی میل ملاپ کو پورے ملک میں عام کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ کشمیر کے مسئلہ کا حل وہی ہے جو پنجاب میں خالصہ تحریک کے مقابلہ میں اختیار کیا گیا۔ یعنی لوگوں کی سوچ کو بدل کر ان کے اندر سے علیٰحدگی کا رجحان ختم کرنا۔
۱۶۔ صدر اسلامی مرکز کی تقریروں کے کچھ ویڈیو کیسیٹ تیار کیے جارہے ہیں۔ فی الحال دو ویڈیو کیسیٹ تیار ہوا ہے۔ ایک کا عنوان ہے، حج کی حقیقت اور دوسرے کا عنوان ہے، نماز کی حقیقت۔ اسی طرح دوسرے اسلامی موضوعات پر بھی ویڈیو کیسٹ انشاء اللہ تیار کیے جائیں گے۔ اس سلسلہ میں مزید تفصیل دفتر سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
۱۷۔ چند نئی کتابیں تیار ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک نشانِ منزل ہے۔ دو سو آٹھ صفحہ کی یہ کتاب زیر طبع ہے۔ یہ کتاب راز حیات اور کتابِ زندگی کے انداز پر لکھی گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں