Pages

Monday 1 July 2019

Al Risala | July 2019 (الرسالہ،جولائی)

4

-زندہ انسان

5

- اختلافِ رائے

6

- ٹیک اوے

7

- احساسِ محرومی کیوں

10

- معلومات اور تجزیہ

12

- سادگی کی اہمیت

13

- کامیابی کا راز

14

- اصل سبب جہالت

16

- تجربہ سے سبق سیکھیے

17

- مثبت سوچ کی ضرورت

18

- ڈی کنڈیشننگ

19

- آزادی کا دور

20

- ایک نصیحت

21

- عذر کیا ہے

22

- تعلیم یافتہ کون

24

- کامیاب زندگی کا اصول

26

- کامیاب فارمولا

28

- مس ایڈونچرزم

29

- بڑا آدمی کون

30

- ایک نصیحت

31

- سیکھنے کا عمل

32

- نزاع کا معاملہ

33

- دو قسم کے مسئلے

34

- صحیح طرزِ فکر

35

- گفتگو کااصول

36

- مشورہ یا باہمی مشاورت

37

- ایک لفظ کا فرق

38

- کھونے میں پانا اور پانے میں کھونا

39

- تخلیقی مشورہ

40

- فطرت کو موقع دو

41

- غصے کا ظاہرہ

42

- آنکھوں کے بغیر

43

- باس اِز آلویز رائٹ

44

- آدابِ تنقید

45

- پازیٹیو تھنکنگ، پازیٹیوزم

45

- اپنے خلاف

47

- منفی تجربہ

48

- اسٹیج کا فتنہ

49

- سمجھدار انسان

50

- لرننگ اسپرٹ


زندہ انسان

لبید بن ربیعہ بن مالک العامری (وفات 41ھ) قدیم عرب کے ایک مشہور شاعر تھے۔ ان کا شمار اصحاب المعلقات میں سے ہوتا ہے۔فتح مکہ سے پہلے انھوں نے اسلام قبول کیا۔شمس الدین الذہبی نے تاریخ الاسلام (4/55) میںلکھا ہے کہا جاتا ہے کہ اسلام کے بعد انھوں نے شاعری چھوڑ دی، اور کہاا للہ نے مجھے اس کے بدلے قرآن دے دیا ہے(أَبْدَلَنِی اللَّہُ بِہِ الْقُرْآنَ)، اور کہا جاتا ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد انھوں نے صرف ایک شعر کہا تھا ،جو یہ ہے:
مَا عَاتَبَ الْمَرْءُ الْکَرِیمُ کَنَفْسِہِ وَالْمَرْءُ یُصْلِحُہُ الْقَرِینُ الصَّالِحُ
حضرت لبید نے اپنے شعر میں جو بات کہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ شریف آدمی احتسابِ غیر کے بجائے احتساب خویش کے معاملے میں زیادہ حساس ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی غلطی پر گرفت کرتے ہوئے نرمی کا انداز اختیار کر سکتا ہے، مگر جب معاملہ خود اپنی غلطی کا ہو تو وہ اس کے لیے بے رحم محاسب بن جاتا ہے۔شعر کے دوسرے مصرع میں انھوں نے صحبت کی اہمیت بتائی ہے، آدمی اگر زیادہ دیر تک برے کی صحبت اختیار کرے تو اندیشہ ہے کہ وہ بھی برا بن جائے، اور جب آدمی اچھے انسان کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس کی صحبت کے اثر سے وہ بھی ایک اچھا آدمی بن جاتا ہے۔
خلیفہ ثانی عمربن الخطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک بار حضرت لبید سے کہا کہ اپنے کچھ اشعار سنائیے۔ حضرت لبید نے جواب دیا کہ اللہ نے جب مجھ کو بقرۃ اور آل عمران جیسی سورتوں کی تعلیم دی تو اس کے بعد میرے لیےمناسب نہیں کہ میں شعر کہوں (مَا کنت لأقول شعرا بعد أن علمنی اللہ البقرة وآل عِمْرَان) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر،جلد3، صفحہ 1337۔
یہ بات بظاہر قرآن کے مقابلے میں ہے، مگر وسیع تر معنی میں اس کا تعلق دوسری حقیقتوں سے بھی ہے۔ ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے اس کا تعلق قرآن کے سامنے خاموشی اختیار کرنے سے ہے، اور وسیع تر انطباق کے لحاظ سے ہر حق کے سامنے اپنی زبان بند کر لینے سے۔
واپس اوپر جائیں

اختلافِ رائے

ایک بار میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ اہلِ مغرب کی ترقی کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا — اختلافِ رائے (dissent) کو انسان کا مقدس حق قرار دینا۔ یہ بلاشبہ ایک درست بات ہے۔ لیکن وہ مغربی فکر کی بات نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ اِس قانون کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اختلافُ أمتى رحمةٌ (کنزالعمال، حدیث نمبر 28686)۔ یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔
اختلاف رائے کا اظہار ہمیشہ تنقید (criticism)کی صورت میں ہوتا ہے۔ مگر تنقید خواہ وہ کسی شخص کے حوالے سے کی گئی ہو، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے مطالعے کی ایک صورت ہوتی ہے۔ تنقید کا اصل مقصد کسی موضوع پر کھلے تبادلۂ خیال (open discussion) کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ تنقید کا مقصد یہ ہے کہ مختلف ذہن (mind)دیانت دارانہ طورپر (honestly)اپنے نتیجۂ ٔتحقیق کو بتائیں، اور پھر دوسرے لوگ دیانت داری کے ساتھ اُس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ اِس طرح کا آزادانہ تبادلہ خیال ذہنی ارتقا (intellectual development) کا لازمی تقاضا ہے۔
علم اپنی نوعیت کے اعتبار ایک لامحدود موضوع ہے۔ یہ بات مذہبی موضوع پر بھی اُسی طرح صادق آتی ہے، جس طرح سیکولر موضوع پر۔ اختلافِ رائے بلاشبہ ایک رحمت ہے۔ اختلاف رائے ہر حال میں مفید ہے۔ اِس معاملے میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اختلاف کرنے والا مسلّم دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرے، وہ الزام تراشی کا طریقہ اختیارنہ کرے۔
اختلافِ رائے کے فائدے بے شمار ہیں۔ اِس سے مسئلہ زیر بحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ اِس سے تخلیقی فکر (creative thinking) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اِس کے ذریعے لوگوں کو موقع ملتاہے کہ وہ دوسرے کے نتیجۂ فکر سے فائدہ اٹھائیں۔ اِس سے مسئلہ زیرِ بحث کے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ٹیک اوے

ایک سفر کے دوران میں لندن میں تھا۔ایک روڈ پر چلتے ہوئےمجھے دکھائی دیا کہ ایک دکان کے سامنے ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا ہے، جس پر نمایاںالفاظ میں یہ لکھا ہوا تھا:
Takeaway
یعنی کھانے کا سامان جو خرید کر لے جایا جائے۔ وسیع تر استعمال کے اعتبار سے اس کا انطباق (application) ریڈنگ مٹیریل کے اوپر بھی ہوتا ہے، یعنی آپ نے کوئی مضمون یا کتاب پڑھی، اور اس میں آپ کو ایک بامعنی بات ملی، تو آپ کہیں گے کہ اس تحریر میں میرے لیے یہ ٹیک اوے تھا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ دوکان کے بارے میں تو یہ لفظ صد فیصد صحیح ہے۔ آپ جب کسی دکان پر جائیں، تو وہاں قیمت ادا کرتے ہی وہ چیز آپ کو مل جائے، جو آپ کو مطلوب تھی۔ ہر دوکان پر وہ ٹیک اوے موجود ہوتا ہے، جس کے لیے وہ دوکان کھولی گئی ہے۔ کوئی دوکان ایسی نہیں، جہاں آپ کا مطلوب ٹیک اوے موجود نہ ہو۔
لیکن جب آپ کسی جریدہ یا کسی کتاب میں لوگوں کی تحریروں کو پڑھیںتو ، کم ازکم راقم الحروف کے تجربے کے مطابق، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہاں قاری کو کوئی بامعنی ٹیک اوے ملے۔ آپ جو چیز پڑھیں گے، اس میں الفاظ کی بھرمار تو ضرور ہوگی، لیکن کوئی بامعنی ٹیک اوے (meaningful takeaway) مشکل ہی سے ملے گا۔
ٹیک اوے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں آپ کو ذہنی غذا (intellectual food) ملتی ہے۔ اس میں آپ کو کوئی ایسی وزڈم ملتی ہے، جس کو آپ اپنی زندگی میں اپلائی کرسکیں۔ اس میں آپ کو اپنے سوالات کا جواب ملتا ہے، جو آپ کے ذہن میں وضوح (clarity) میں اضافہ کرنے والا ہے۔ جس تحریر میں قاری کو کوئی ٹیک اوے نہ ملے، وہ گویا الفاظ کا جنگل ہے، جہاں دہرانے کے لیے تو بہت سی باتیں ہوں لیکن لینے کے قابل کوئی بات نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں

احساسِ محرومی کیوں

ایک آدمی کا قصہ ہے۔ وہ غریب گھر میں پیدا ہوا۔ سفر کرنے کے لیے اس کے پاس اپنے دو پیروں کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ اس کو کہیںجانا ہوتا تو وہ پیدل سفر کرکے جاتا۔ وہ دیکھتا تھا کہ دوسرے لوگ سواریوں پر چل رہے ہیں۔ وہ اکثر سوچتا کہ کاش میرے پاس ایک بائسکل ہوتی تو میں بھی سواری پر چلنے کے قابل ہوجاتا۔
اس نے پیسہ اکھٹا کرکے اپنے لیے ایک بائسکل خریدی۔ اب وہ بائسکل پر سفر کرنے لگا۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ وہ دیکھتا کہ دوسرے بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر سائکل ہے۔ اس نے سوچا کہ کاش، میرے پاس بھی موٹر سائکل ہوتی تو سفر کرنا زیادہ آسان ہوجاتا۔ اس نے دوبارہ کوشش کی۔ آخر کار اس کے پاس دو پہیوں والا اسکوٹر ہوگیا۔
شروع کے چند دن اس کے لیے بہت خوشی کے دن تھے۔ لیکن جلد ہی اس کے دل میںایک اور خواہش جاگ اٹھی۔ اس نے سوچا کہ دوسرے کئی لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر کار ہے، لیکن میرے پاس نہیں۔ اب اس نے ایک نئی کوشش شروع کردی۔ ایک عرصے کے بعد اس کی یہ کوشش کامیاب ہوئی، یہاں تک کہ اس نے ایک چھوٹی موٹر کار خریدلی۔
مگر اب بھی اس کی خواہشوں کی حد نہیں آئی۔ اب وہ بڑی موٹر کار کی تمنا کرنے لگا۔ آخر کار وہ دن آیا جب کہ اس کے گھر کے سامنے ایک بڑی کار آکر کھڑی ہوگئی۔ اِسی کے ساتھ اس کا کاروبار بھی بڑھا۔ یہاں تک کہ اس نے دوسری کار اور تیسری کار بھی خرید لی، مگر اب وہ بوڑھا ہوچکا تھا۔ آخر کار وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ گیا اور پھر اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر مرگیا۔
موت سے ایک دن پہلے اس کا ایک دوست اس سے ملا۔ وہ دیر تک اس کے پاس رہا۔ گفتگو کے دوران دوست نے اس سے کہا کہ تم ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ پھر تم نے کاروبار کیا۔ تمھارا کاروبار ترقی کرتا گیا، یہاں تک کہ آج تمھارے پاس مادّی اعتبار سے بہت سی چیزیں ہیں۔ کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ دنیا میں میری سب خواہشیں پوری ہوگئیں۔ بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے آدمی نے کہا کہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب میںایک محرومِ تمنا آدمی کی حیثیت سے مررہا ہوں:
Now I am dying as a case of unfulfilled desires.
یہ کہانی صرف ایک انسان کی کہانی نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کی کہانی ہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی پوری عمر اِس کوشش میں گزار دیتا ہے کہ اس کے دل میں جو خواہشیں چھپی ہوئی ہیں وہ پوری ہوں۔ مگر ہر انسان اس احساس کے ساتھ مر جاتا ہے کہ اس کی خواہشیں پوری نہیں ہوئیں۔ اِس معاملے میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
دوسری طرف حیوانات کو دیکھیے۔ حیوانات بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ بھی کچھ دن جیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں، لیکن کوئی بھی حیوان اِس دنیا میں احساسِ محرومی کے ساتھ نہیںمرتا۔ وہ پیدا ہوکر کچھ دن جیتا ہے اور پھر اِس طرح مرجاتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کے بارے میں کسی بھی قسم کا غم یا افسوس نہیںہوتا۔
انسان اور حیوان میںیہ فرق کیوں ہے۔ اس کا سبب دونوں کے ذہنوں کے فرق میں پایا جاتا ہے۔ حیوان کا ذہن، انسان کے ذہن سے مکمل طورپر مختلف ہوتا ہے۔ حیوان خواہ کوئی بھی ہو، اس کا ذہن حال رُخی ذہن(present-oriented mind) ہوتا ہے۔ اِس بنا پر حیوان کو جو کچھ مل جائے اُسی کو وہ کافی سمجھتا ہے۔ ہر حیوان صرف آج میںجیتا ہے۔ حیوان کے ذہن میںکَل یا مستقبل کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے حیوان کو ملے ہوئے سے زیادہ کی کوئی فکر بھی نہیں۔
اِس کے مقابلے میں انسان کا ذہن مستقبل رُخی ذہن (future-oriented mind) ہے۔ وہ آج پر قانع نہیںہوتا، بلکہ وہ کَل کے بارے میں بھی فکر مند رہتا ہے۔ اور وہ حال کے ساتھ مستقبل تک کامیاب رہنا چاہتا ہے۔ چوں کہ موجودہ دنیا میں انسان کو یہ طویل کامیابی حاصل نہیں ہوتی، اس لیے ہر انسان کا مقدّر بن گیا ہے کہ وہ احساسِ محرومی کے ساتھ دنیا سے چلا جائے۔
تاہم یہ مسئلہ حقیقی نہیں، وہ صرف بے خبری کا نتیجہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کا عرصۂ حیات(life span) ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ جب آدمی مرتا ہے تو وہ ختم نہیںہوتا، بلکہ وہ اگلے مرحلۂ حیات میںداخل ہوجاتا ہے۔خالق کے کریشن پلان (creation plan) کے مطابق، موت سے قبل کی زندگی ٹسٹ دینے کی زندگی ہے، اور موت کے بعد کی زندگی ٹسٹ کے مطابق، اپنا انجام پانے کی زندگی۔ انسان کا ذہنی تناؤ، یا اس کا احساس محرومی صرف اس لیے ہے کہ وہ خالق کے تخلیقی نقشے کو سمجھ کر اپنی رائے نہیں بناتا۔ وہ ایسا کرتا ہے کہ جو کچھ خالق نے اس کے لیے بعد ازموت مرحلۂ حیات میں مقدّر کیاہے، اس کو وہ قبل از موت مرحلۂ حیات میں پالینا چاہتا ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی حقیقتِ واقعہ کو سمجھے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ جو کچھ اس کو کَل ملنے والا ہے، وہ اس کو آج ہی پالینا چاہے۔ جو آدمی درخت لگانے کے دن پھل کا طالب بن جائے اس کے حصے میں صرف مایوسی آئے گی۔ اس کے برعکس، جو آدمی درخت کی تکمیل پر اس کا پھل لینے پر راضی ہوجائے، اس کے لیے نہ کوئی تناؤ ہے اور نہ کوئی افسوس۔
ذہنی تناؤ دراصل چاہنے اور پانے کے درمیان فرق کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اِس فرق کو مٹا دیجئے اور پھر ذہنی تناؤ کا مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا۔
ے ےےےے
فارسی کا ایک مثل ہے یک من علم را، دہ من عقل می باید۔ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے ۔یہ بات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی بولنے سے زیادہ سوچے، وہ بولنے سے زیادہ تجزیہ (analysis)کرے، اس کے اندرپازیٹیو تھنکنگ پائی جاتی ہو، وہ نفرت اور تعصب سےخالی ہو، اس کے اندر وہ صفت ہو تی ہے،جس کو حدیث میں دعا کی شکل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاللَّہُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتّباعہ، وأرنا الباطل باطلا، وارزقنا اجتنابہ ، وَلَا تَجْعَلْہُ مُلْتَبِسًا عَلَیْنَا فَنَضِلَّ(تفسیر ابن کثیر، 1/427)۔ یعنی اے اللہ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے اوپر مبہم نہ بنا کہ ہم گمراہ ہو جائیں۔ اسی طرح یہ دعا اللَّہُمَّ أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ (تفسیر الرازی، 13/37) ۔ یعنی اے اللہ، مجھے چیزوں کو اسی طرح دکھا، جیسا کہ وہ ہیں۔
واپس اوپر جائیں

معلومات اور تجزیہ

ایک صاحب نے ایک جریدہ دکھایا۔ اس میں سید جمال الدین افغانی کے بارے میں ایک مفصل مضمون تھا۔ اس مضمون کا خاتمہ اس طرح ہوا تھا: سید جمال الدین افغانی نے زندگی کے آخری ایام استنبول میں سخت ذہنی اذیت میں گزارے۔ ان کی زندگی کا واحد مقصد عالم اسلام کا اتحاد تھا جو یہاں پورا ہوتا نظر نہ آتا تھا۔ خفیہ طور پر ان کی جاسوسی بھی کی جاتی۔ آخر اسی کرب میں 1897 کو بعمر اٹھاون برس سرطان کے عارضہ میں انھوں نے استنبول میں وفات پائی۔
سید جمال الدین افغانی کو اپنے زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ افغانستان، مصر، ایران، ترکی وغیرہ میں ان کو بہت زیادہ مواقع ملے۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ ہر ملک سے نکال دیئے جاتے کیوں کہ وہ جہاں پہنچتے وہاں وہ حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقریر شروع کردیتے۔ سیدجمال الدین افغانی کی شخصیت کے بارے میں لوتھروپ سٹوڈراڈ نے درست طور پر لکھا ہے: ان کے خیال کے مطابق، مغرب مشرق کا دشمن ہے۔ یوروپ کے سینے میں آج بھی وہی صلیبی روح کام کررہی ہے جو راہب پطرس کے زمانہ میں مصروف کار تھی۔ اہلِ مغرب میں اب بھی وہی تعصب جاری وساری ہے۔ یہ ہر طریقہ سے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کی تحریکات کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عالم اسلام پر واجب ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے متحد ہوجائے۔
سید جمال الدین افغانی اپنی غیر معمولی مقبولیت کے باوجود مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس کا سبب تلاش کرتے ہوئے ایک بنیادی بات میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ ان کے اندر غیر معمولی حافظہ تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی کتاب ایک بار پڑھنے کے بعد ان کے سینے میں محفوظ ہوجاتی تھی، مگر میرے علم کے مطابق وہ تدبر کی صفت سے خالی تھے۔ جن لوگوں کا حافظہ بہت اچھا ہو، وہ ہر مجلس میں معلومات کا انبار بکھیرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی معلومات سے متاثر ہوکر ان کو بڑا عالم مان لیتے ہیں۔ مگر حقیقی عالم وہ ہے جس کے اندر تجزیہ اور تحلیل (analysis) کی صفت ہو، اور میرے علم اور تجربہ کے مطابق فطرت کا یہ اصول ہے کہ جس کے اندر غیر معمولی حافظہ ہوتا ہے اس کے اندر تجزیہ کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔
کسی شخص کو حافظہ کی قوت حاصل ہوتو اس کے دماغ میں معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ اکھٹا ہو جائے گا۔ اُس کی گفتگو اور اس کی تقریر و تحریر میں معلومات کی کثرت دکھائی دینے لگے گی۔ عام لوگ اس کو ایک قابل انسان سمجھنے لگیں گے۔ مگر اس کی معلوماتی بارش سے کوئی فصل نہیں اُگے گی۔ حتیٰ کہ اگر آپ سننے والوں سے پوچھیں کہ جس کی تقریر کی تم تعریف کررہے ہو اُس کی تقریر کا خلاصہ کیا تھا تو یہ لوگ اُس کا کوئی خلاصہ بتانے میں ناکام رہیں گے۔
تجزیہ کے بغیر معلومات کی حیثیت ایک جنگل کی ہے۔ تجزیہ کیا ہے۔ تجزیہ یہ ہے کہ مختلف معلومات کاگہرا مطالعہ کرکے اُس کا نتیجہ نکالا جائے۔ مثلاً ہندستان کی آزادی سے پہلے ایک سیاسی لیڈر کی تقریر بہت مقبول ہوئی۔ اُن کا حافظہ اتنا زبر دست تھا کہ وہ محض اپنی یادداشت سے انگریزی حکومت کے خلاف زبردست معلوماتی تقریر کرتے اور پھر یہ کہہ کر لوگوں کو مسحور کردیتے :
Slavery or freedom, choose between the two.
حالاں کہ اگر انہیں بصیرت کی نظر حاصل ہوتی اور وہ حقیقی واقعات کی روشنی میں فیصلہ کرپاتے تو اس کے بجائے شاید وہ یہ کہتے:
Non-corrupt British rule or corrupt Indian rule—choose between the two.
وہ تمام لیڈر جنہوں نے قوموں کو تباہی سے دوچار کیا، وہ وہی لوگ تھے جن کے پاس حافظہ تو تھا مگر اُن کے پاس تجزیہ کی طاقت موجود نہ تھی۔ اس بنا پر وہ حالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھ نہ سکے۔ حافظہ بھیڑ اکھٹا کر سکتا ہے۔ مگر تجزیہ اور تحلیل کے بغیر کسی نتیجہ خیز جدوجہد کا ظہور ممکن نہیں۔
ے ے ے
اس دنیا میں ہر منفی واقعہ میں مثبت پہلو موجود رہتا ہے۔ اگر آپ اس مثبت پہلو کودریافت کرسکیںتو آپ کو کسی کے خلاف شکایت کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

سادگی کی اہمیت

سادگی کی اہمیت کسی انسان کے لیے اتنی زیادہ ہے کہ اس کا کوئی بدل نہیں۔ سادگی اعلیٰ کامیابی کا زینہ ہے۔ جو شخص سادگی کو اختیار نہ کرسکے وہ یقینی طورپر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
سادگی محض ایک اخلاقی صفت نہیں۔ سادگی ایک مکمل طرزِ حیات ہے۔ سادگی آدمی کو اس سے بچاتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کا کوئی حصہ بے فائدہ طورپر ضائع کرے۔ سادہ آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنے وقت کو زیادہ مفید طورپر استعمال کرے۔ سادگی دوسرے لفظوں میں، وقت اور مال کو زیادہ بہتر طورپر مینج (manage) کرنے کا فن ہے۔
سادگی کا تعلق ہر چیز سے ہے۔ لباس، کھانا، فرنیچر، سواری، مکان، تقریبات، وغیرہ۔ زندگی کی ہر سرگرمی میںآدمی کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب رہتا ہے۔ یا تو وہ تعیش اور نام و نمود کے پہلو کو سامنے رکھے اور اپنا مال ان میں خرچ کرتا رہے۔ یا وہ صرف اپنی ناگزیر ضروریات کو دیکھے اور اپنے مال کو صرف حقیقی ضرورت کی مدوں میں خرچ کرے۔
غیر ضروری مدوں میں اپنا مال خرچ کرنے کا نقصان صرف یہ نہیں ہے کہ اس میںآپ کا مال غیر ضروری طورپر ضائع ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ جو لوگ ایسا کریں، وہ مادی نمائش کی چیزوں میں الجھے رہتے ہیں۔ ان کا فکر سطحی چیزوں سے اوپر نہیں اٹھ پاتا۔ اس کا نقصان اسے اس شدید صورت میں بھگتنا پڑتا ہے کہ اس کا ذہنی ارتقا(intellectual development)رک جاتا ہے۔ ایسا انسان بظاہر زرق برق چیزوں کے درمیان دکھائی دیتا ہے ۔ مگر اپنے ذہن کے اعتبار سے وہ حیوان کی سطح پر جینے لگتا ہے۔ وہ اعلیٰ ذہنی ترقی سے محروم رہ جاتا ہے۔
سادگی روحانیت کا لباس ہے۔ سادگی روحانی انسان کا کلچر ہے۔ سادگی ربانی انسان کی غذا ہے۔سادگی فطرت کا اصول ہے، سادگی سنجیدہ انسان کی روش ہے، سادگی ذمہ دارانہ زندگی کی علامت ہے، سادگی بامقصد انسان کا طرزِ حیات ہے۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا راز

گورنمنٹ سروس میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کو شکست ملازمت (break in service) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دس سال سے ملازمت میں ہیں، اور ایک دن چھٹی لیے بغیر دفتر میں حاضر نہ ہوں تو آپ کی مدت ملازمت کا شمار ازسرِ نواگلے دن سے ہوگا۔ پچھلے دس سال کی مدت حذف قرار پائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آپ کی سینیریٹی کا تعین پچھلے دس سال کو چھوڑ کر کیا جائے گا۔ یہ سرکاری ملازمین کے لیے ایک سخت سزا ہے۔ وہ کسی ایسی غلطی کا تحمل نہیں کرسکتا، جو اس کے لیے شکست ملازمت کا سبب بن جائے۔اس لیے ہر ملازم آخری حد تک یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ شکستِ ملازمت کے اس قانون کی زد میں نہ آئے۔
اسی طرح ایک اور چیز ہے، جس کو شکستِ تاریخ(break in history) کہا جاسکتا ہے۔ ہر آدمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ ایک تاریخ بناتا ہے۔ اگر درمیان میں وہ اپنے پیشہ یا اپنے مقام کو بدل دے تو یہ اس کے لیے شکستِ تاریخ کے ہم معنٰی ہوگا۔ ایسی تبدیلی کے بعد وہ اپنی بنائی ہوئی تاریخ سے کٹ جائے گا۔ حالاں کہ عملی اعتبار سے زندگی کی کامیابی میں تاریخ کی بہت اہمیت ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ بہت زیادہ سوچ کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کرے۔ وہ جب ایک کام شروع کردے تو اس کے بعد وہ اس کو ہر گز نہ چھوڑے۔ وہ اتار اور چڑھاؤ کو برداشت کرتے ہوئے اپنے کام میں لگا رہے۔ اسی استقلال کے نتیجے کا نام کامیابی ہے۔ جو لوگ بار بار اپنے کام کو بدلیں، وہ اپنی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔
آدمی کی تاریخ اس کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اسی تاریخ سے سماج کے اندر اس کی پہچان بنتی ہے۔ اسی تاریخ سے اُس کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔ اسی تاریخ سے لوگوں کے نزدیک اُس کا درجہ متعین ہوتا ہے۔ اسی تاریخ کے مطابق، لوگ اس سے معاملہ کرتے ہیں۔ یہ تاریخ لازمی طورپر تسلسل چاہتی ہے۔ جس تاریخ میں تسلسل نہ ہو وہ تاریخ ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

اصل سبب جہالت

27 فروری 2002ء کو مغربی ہندستان کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایک واقعہ ہوا۔ کچھ لوگوں نے مشتعل ہوکر ٹرین کے ایک ڈبّہ میں آگ لگادی جس میں تقریباً ساٹھ ہندومسافر جل کر مرگئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آگ لگانے والے لوگ مسلمان تھے۔ اُس کے بعد مارچ2002ء میں گجرات کے مختلف شہروں میں فرقہ وارانہ فساد بھڑک اُٹھا۔ اس فساد میں تقریباً ایک ہزار مسلمان مار ڈالے گئے، اور اُن کے بہت سے گھروں اور دکانوں کو آگ لگادی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ گجرات میں اس فساد کو کرنے والے لوگ ہندو تھے۔
مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ دونوں واقعات کو کرنے والا ایک ہی مشترک گروہ تھا، اور وہ ہے جاہل اور بے پڑھے لکھے لوگوں کی بھیڑ۔ گودھرا ریلوے اسٹیشن پر جن لوگوں نے ٹرین کے ڈبہ میں آگ لگائی، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ مسلمان۔ اسی طرح ریاست گجرات میں جن لوگوں نے جگہ جگہ خونی فساد کیا، وہ بھی اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ ہندو۔ یہ لوگ اگر تعلیم یافتہ ہوتے تو ایسا واقعہ کبھی پیش نہ آتا۔
تعلیم یافتہ انسان اور غیر تعلیم یافتہ انسان میں کیا فرق ہے۔ وہ شعور اور بے شعوری کا فرق ہے۔ غیر تعلیم یافتہ انسان اپنے نا پختہ شعور کی بنا پر صرف اپنے جذبات کو جانتا ہے۔ اس کے برعکس تعلیم یافتہ انسان اپنے پختہ شعور کی بنا پر اپنے جذبات کے ساتھ اُس کے نتائج (consequences) کو بھی جانتا ہے۔
اسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ غیر تعلیم یافتہ انسان کے جذبات کو اگر ٹھیس لگتی ہے، تو وہ بھڑک کر متشددانہ کارروائی کرنا شروع کردیتاہے، خواہ اُس کا نتیجہ زیادہ بڑے نقصان کی صورت میں خود اُس کو بھگتنا پڑے۔ اس کے برعکس اگر تعلیم یافتہ انسان کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے، تو وہ حکمت اور تحمل سے کام لیتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی شعوری بیدار ی کی بنا پر زندگی کی اس عالمگیر حقیقت کو جانتا ہے ——چھوٹے نقصان کو برداشت کرلو تاکہ تمہیں بڑے نقصان کو برداشت نہ کرنا پڑے۔
ایک بڑے شہر کے ریلوے پلیٹ فارم پر دو تعلیم یافتہ آدمی آگے پیچھے چل رہے تھے۔ پیچھے والے مسافر کے ہاتھ میں ایک بڑا بیگ تھا۔ اُس نے تیزی سے آگے بڑھنا چاہا۔ اس کوشش میں اُس کا بیگ اگلے آدمی سے ٹکراگیا۔ اگلا آدمی اچانک پلیٹ فارم پر گر پڑا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ صرف یہ تھا کہ پیچھے والے نے معذرت کے انداز میں کہا کہ ساری(sorry) ۔ اس کے بعد آگے والے نے نرمی کے ساتھ کہا کہ اوکے(okay) اور پھر دونوں خاموشی کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
اس کے برعکس اگر یہ دونوں مسافر جاہل اور بے شعور ہوتے تو دونوں غصّہ ہوجاتے۔ ایک کہتا کہ تم اندھے ہو۔ دوسرا کہتا کہ تم پاگل ہو۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے لڑ جاتے، خواہ اس لڑائی کا نتیجہ یہ ہو کہ دونوں کی ٹرین چھوٹ جائے، اور وہ اپنی منزل پر پہنچنے کے بجائے اسپتال میں داخل کر دیے جائیں۔
اصلاح کا حقیقی طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے۔ اس قسم کے تمام جھگڑوں کی جڑ جہالت ہے۔ اس لیے اس وقت کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں فرقوں میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ پورے ملک کو مکمل طورپر تعلیم یافتہ بنا دیا جائے۔ یہی مسئلہ کی اصل جڑ ہے اور اس جڑ کو ختم کرکے فساد کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ہندستان کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ریاست کیرلا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کیرلا میں جھگڑے اور فساد جیسے واقعات پیش نہیں آتے۔ اسی ملکی تجربہ میں مسئلہ کا حل چھپا ہواہےــــــلوگوں کو تعلیم یافتہ بنائیے ، اور اس کے بعد فرقہ وارانہ جھگڑے اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔
جارج برناڈ شا نے کہا تھا کہ جس آدمی کے پاس بھُلا دینے کے لیے کچھ نہیں وہی سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ انسان ہے۔ مستقبل کی تعمیر صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ پچھلی باتوں کو بھُلا دیا جائے، اور بھلانے کی یہ حکمت صرف وہی لوگ جانتے ہیں جن کو ان کی تعلیم نے باشعور بنادیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

تجربہ سے سبق سیکھیے

تجربہ (experience) ہمیشہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں، جو اپنے تجربے کو سبق بنا سکیں۔ تجربہ ہر انسان کی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ ہوتا ہے۔ تجربہ انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔ لیکن عام طور پر لوگ تجربہ سے مثبت فائدہ حاصل نہیں کر پاتے۔ اس لیے کہ وہ تجربہ کو شکایت کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ صرف دوسرے کی غلطی کی بنا پر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایسے کسی واقعے میں دونوں فریق کا حصہ ہوتا ہے، کسی کا کم کسی کا زیادہ۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ جب کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کو یک طرفہ طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی کو حذف کرکے سارے معاملے کو دوسرے کی غلطی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی تقریباًننانوے فیصد مثالوں (cases) میں پیش آتا ہے۔
مگر اس طرح یک طرفہ رائے قائم کرنا،قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اصحابِ رسول جیسے سارے لوگ ہوں، تب بھی ناخوش گوار واقعات میں کچھ نہ کچھ اپنا حصہ شامل رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غزوۂ احد کا واقعہ ہے۔ اس غزوہ میں اصحابِ رسول کو ابتداءاً کامیابی ہوئی، لیکن بعد کو خود اپنی ایک غلطی سے سخت نقصان اٹھانا پڑا (آل عمران،3:152-153) ۔
تجربے کو سبق (lesson) بنائیے، تجربے کو شکایت(complaint) نہ بنائیے۔ تجربے کو سبق بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے ایک منفی واقعہ کو مثبت واقعہ میں تبدیل کردیا، آدمی نے اپنے نقصان کو دوبارہ اپنے لیے فائدہ بنالیا۔ اس کے برعکس، جو لوگ تجربے کو شکایت اور نفرت کا ذریعہ بنا لیں، انھوں نے گویا نقصان کے بعد ملنے والے فائدہ سے بھی اپنے کو محروم کرلیا۔ انھوں نے پہلے موقع کو بھی کھویا، اور دوسرےموقع کو بھی کھو دیا۔
واپس اوپر جائیں

مثبت سوچ کی ضرورت

مثبت سوچ (positive thinking) کا مطلب کیا ہے۔ اس سے مراد وہ سوچ ہے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو۔ جس میں شکایت اور احتجاج کے بجائے، مکمل طور پر حقیقتِ واقعہ کی بنا پر رائے قائم کی جائے۔ مثبت سوچ وہ ہے جو ہر قسم کے فخر اور تعصب سے خالی ہو۔ مثبت سوچ دوسرے الفاظ میں مبنی بر حقیقت سوچ کا نام ہے۔
مثبت سوچ کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ منفی سوچ سے منفی شخصیت بنتی ہے، اور مثبت سوچ سے مثبت شخصیت۔ مثبت سوچ فطرت کی آواز ہوتی ہے، اور منفی سوچ ابلیس کی آواز۔ مثبت سوچ انسان کو پاکیزہ شخصیت بناتی ہے، اور منفی سوچ اس کی شخصیت کو آلودہ شخصیت بنادیتی ہے۔ مثبت سوچ والے آدمی کو جنت میں بسانے کے لیے منتخب کیا جائے گا، اور منفی سوچ والا آدمی ہمیشہ کے لیے جنت میں داخلے سے محروم رہے گا۔
منفی سوچ سے بچنا ، اور مثبت سوچ کا طریقہ اختیارکرنا، اتفاق سے نہیں ہوتا۔ یہ خصوصیت آدمی کے اندر اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ باشعور ہو، جب وہ شعوری طور پر اپنے آپ کو ایسا بنانے کی کوشش کرے۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی برابر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔
مثبت سوچ کا معاملہ، مثبت سوچ برائے مثبت سوچ نہیں ہے۔ یعنی مثبت سوچ بذاتِ خود اصل مقصود نہیں ہے، بلکہ مثبت سوچ کا فائدہ یہ ہے کہ مثبت سوچ والا آدمی ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچ جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس مقصد کے لیے خالی ہوجاتا ہے کہ وہ صرف ضروری باتوں میں اپنے ذہن کو مشغول کرے، وہ غیر ضروری باتوں میں اپنے وقت کو ضائع نہ کرے۔ مثبت سوچ آدمی کو بامقصد انسان بناتی ہے۔ مثبت سوچ آدمی کو ایسی مصروفیت سے بچاتی ہے جس کا کوئی فائدہ ، نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔
واپس اوپر جائیں

ڈی کنڈیشننگ

پیاز کے اوپر ایک کے بعد ایک پرت ہوتی ہے۔ اگر ان پرتوں کو ہٹائیں تو ہٹاتے ہٹاتے اس کا آخری حصہ آجائے گا جو پیاز کا داخلی مغز ہے۔ یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ فطرت صحیح پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ماحول کے اثر سے اس کے اوپر خارجی افکار چھانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ آدمی کی داخلی فطری شخصیت بالکل ڈھک جاتی ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی متعصبانہ طرزِفکر کا کیس بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی اپنی ساری عمر انہی تعصبات کے تحت سوچتارہتا ہے اور آخرکار مر جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے  من شبّ علی شیٔ شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جو ان ہوتا ہے اسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)
یہ صورتِ حال ہر آدمی کومطابقِ واقعہ سوچ (as it is thinking) سے محروم کردیتی ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہے۔ ہر آدمی پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد گہرائی کے ساتھ اپنا جائزہ لے۔وہ اپنی کنڈیشننگ کی دوبارہ ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنی شخصیت پر چڑھی ہوئی اوپری پرتوں کو ہٹائے، یہاں تک کہ اس کی اصل فکری شخصیت اس طرح کھل جائے کہ وہ تعصبا ت سے پاک ہو کر سوچنے لگے۔ یہ اپنی مصنوعی شخصیت کو دوبارہ حقیقی شخصیت بنانے کا عمل ہے، جو ہر شخص کی ایک لازمی ضرورت ہے۔
اپنی کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ کرنے کا یہ عمل بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے خلاف ایک ذہنی محنت (intellectual labour) کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو اپنی مانوس اور محبوب سوچ کو ذبح کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے آپ پر بلڈوزر چلانا پڑـتا ہے۔ تاہم یہی واحد عمل ہے، جو آدمی کو متعصبانہ یا غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ عمل گویا اپنافکری آپریشن کرنے کا عمل ہے۔ یہ بلا شبہ ایک مشکل ترین کام ہے۔ مگر اس کام کے بغیرکوئی بھی شخص بے آمیز سوچ کا مالک نہیں بن سکتا۔ اس معاملہ میںکوئی بھی دوسری چیز فکری تطہیرکا بدل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

آزادی کا دور

ایک مرتبہ مغرب کے ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دنیا میں تہذیب کا دور جو آیا ہے، وہ کیسے آیا ۔ اس نے کہا کہ فرانس میں جمہوریت کا دور آنے کے بعد اس انقلاب کے بعد پہلی بار یہ ہوا کہ اختلافِ رائے (dissent) کو ایک ناقابل تنسیخ حق کا درجہ مل گیا۔ جب ایسا ہوا تو دنیا میں آزادیٔ فکر کا دور آگیا۔ اس آزادیٔ فکر سے تمام ترقیاں وجود میں آئیں۔ اس آزادیٔ فکر سے لوگوں کو موقع ملا کہ وہ ہر شعبے میں آزادانہ طور پر تلاش و جستجو کریں، اس طرح علم کے بند دروازے کھل گئے، اور ہر قسم کی ترقیاں بلاروک ٹوک ہونے لگیں۔
ترقی ایک فکری عمل ہے۔ فکری عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو آزادانہ طور پر اپنا عمل کرنے کا موقع ملے۔ آزادیٔ فکر کے بغیر علم کے تمام دروازے بند رہتے ہیں، جب کہ آزادیٔ فکر کے ماحول میں علم کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں لمبی مدت تک علم کو ترقی نہیں ہوئی۔ اس کا سبب یہی تھا کہ اہلِ علم کے لیے آزادانہ جستجو کے مواقع حاصل نہ تھے۔ جدید دور میں جب آزادانہ فکر کے مواقع کھلے تو ہر شخص مسابقت کی دوڑ میں مشغول ہوگیا۔ اس طرح تدریجی پراسس کے تحت علم کی دنیا میں ترقیاں ممکن ہوگئیں۔
علمی ترقی دراصل انسان کے پوٹنشل (potential)کو بروئے کار لانے کا نام ہے، اور پوٹنشل کو بروئے کار لانے کا یہ معاملہ صرف آزادانہ ماحول میں ممکن ہوتا ہے۔ جہاں آزادی نہ ہو، وہاں علمی اور فکری ترقی بھی رک جائے گی۔اس معاملے میں کسی کے خلاف جارحیت ایک ایسی چیز ہے، جس پر پابندی لگائی جائے ۔ اس معاملے میں صحیح اصول یہ ہے کہ جب تک آپ پرامن انداز میں اپنا کام کررہے ہیں،تو آپ کو کامل آزادی حاصل رہے گی، آپ کی آزادی پر باپندی صرف اس وقت لگ سکتی ہے، جب کہ آپ کسی دوسرے شخص کے خلاف جارحیت کا انداز اختیار کریں۔ مثلا ًمارنا، پیٹنا، یا تشدد کرنا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ایک نصیحت

29جولائی 2018 کو ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ ان کو نصیحت کرتے ہوئے میں نے کہا: میری پہلی نصیحت آپ کو یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی اچھا عذر ہو تب بھی آپ اس کو استعمال نہ کیجیے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ فرض کیجیے کہ آپ سے ایک غلطی ہوگئی، اور آپ کا احساس یہ ہے کہ اس کی ایک معقول وجہ تھی۔ ایسے موقعے پر عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ لوگ فوراً عذر پیش کرنے لگتے ہیں کہ فلاں وجہ سے ایسا ہوا، اور فلاں وجہ سے ایسا ہوا— ہوئی تقصیر تو کچھ باعث تقصیر بھی تھا۔
یہ طریقہ مکمل طور پر تر ک کرنا ہے۔ آپ صرف یہ دیکھیے کہ کیا دوسرے لوگ اس کو غلطی بتا رہے ہیں۔ اگر آپ کے نزدیک وہ غلطی نہ ہو، تب بھی فوراً اس کو مان لیجیے۔ کوئی عذر پیش کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کیجیے۔ جب بھی کسی شخص کو آپ سے شکایت ہوجائے تو ہمیشہ اپنی غلطی کو آپ دریافت کیجیے۔ دوسرے کی غلطی بتانے کے بجائے، خود اپنی غلطی کو دریافت کرنے کا طریقہ اختیار کیجیے۔ایسے موقعے پر اگر کچھ اور آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو آپ دوسرے شخص کے لیے دعا کرنا شروع کردیجیے۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو اپنے آپ سے یہ بتائیے کہ دوسرے شخص نے آپ کے ساتھ جو قابل شکایت بات کی ہے، وہ جان بوجھ کر نہیں کی ہے، بلکہ بے خبری کی بنا پر کی ہے۔
یہ سمجھ لیجیے کہ دوسرے کی غلطی بتانے سے کبھی شکایت کا ماحول ختم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، اگر اعتراف کا طریقہ اختیار کریں، تو اس کا فوری فائدہ آپ کو یہ حاصل ہوتا ہے کہ آپ اور دوسرے شخص کے درمیان چین ری ایکشن (chain reaction) کی صورت حال بننے نہیں پاتی۔ بلکہ بات وہیں کی وہیں ختم ہوجاتی ہے۔یاد رکھیے، زندگی جینے کے لیے ہے، اور اعتراف کا طریقہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ کسی رکاوٹ کے بغیر زندگی کے مواقع کو آخری حد تک اَویل (avail)کرسکیں۔ زندگی ایک چانس ہے۔ کوئی اس کو افورڈ نہیں کرسکتا کہ وہ اس چانس کو کھودے۔ یہ چانس آپ کے دروازے کو صرف ایک بار کھٹکھٹاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عذر کیا ہے

عذر (excuse) کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب کوئی ضروری کام انجام نہ دے سکے، تو اپنی اس غلطی کا جواز (justification) بیان کرنے کے لیے اس کا کوئی ایسا سبب بیان کرے، جو صرف ایک کہنے کی بات ہو، اس کا کوئی حقیقی سبب نہ ہو۔ گویا عذر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہمیشہ ایک بے بنیاد سبب (false excuse) ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کبھی عذر سے خالی نہیں ہوسکتی۔ عذر زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس لیے عذر کبھی سچا عذر نہیں ہوتا۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ عذر کو عذر نہ بنائے، بلکہ منصوبہ بندی کے ذریعے عذر کو عملاً غیر موثر بنادے۔
مثلاً آپ کواپنے وعدے کے مطابق کہیں جانا تھا، اور پھر روانگی سے کچھ پہلے بارش شروع ہوجائے۔ اب ایک انسان وہ ہے جو بارش کو عذر بنا کر گھر میں بیٹھ جائے۔ ایسا آدمی ایک کمزور آدمی ہے۔ سچا انسان وہ ہے جو ایسے موقع پر مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ یاتو چھتری کا استعمال کرکے ٹھیک ٹائم پر اپنے وعدہ کے مقام پر پہنچے، اور اگر بالفرض وہ ایسا نہیں کرسکتا تو بارش ہونے کی صورت میں وہ فوراً صاحب ملاقات کو فون کرے، اور اس کو موجودہ صورتِ حال سے واقف کرائے۔
اس دنیا میں کوئی عذر حتمی عذر نہیں ہے۔ ہر عذر مینیجیبل عذر(manageable excuse) ہوتا ہے۔عذر انسان کے لیے عمل میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ ذہن کو زیادہ متحرک کرنے کا ایک موقع ہے۔ با اصول آدمی وہ ہے، جو عذر پیش آنے کی صورت میں اپنے ذہن کو استعمال کرکے مزید غور کرے۔ وہ عذر کو مینج (manage) کرکے اس کو حل کرنے کی تدبیر دریافت کرے۔ وہ عذر کو تدبیر ِکار کا مسئلہ سمجھے، نہ یہ کہ اس کو ناقابلِ حل مسئلہ سمجھ کر بے عملی کا طریقہ اختیار کرے۔ عذر نئی تدبیر کا طالب ہے، نہ کہ کام نہ کرنے کا بہانہ۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم یافتہ کون

تعلیم یافتہ سے ہماری مراد ڈگری یافتہ نہیں ہے، بلکہ شعور کا مالک ہونا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جس سماج میںلوگ پڑھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، یعنی مصلحین اور عام لوگوں کے درمیان فکری بُعد(intellectual gap) ۔ ہمیشہ اور ہردور میں مصلحین ہوتے ہیں، لیکن اگر سماج میں تعلیم عام نہ ہو تو لوگ ان مصلحین کی باتوں سے فائدہ نہیں اٹھاپاتے۔ اس بنا پر سماج میںتربیتِ شعور کا عمل رُک جاتا ہے۔ یہی خاص حکمت ہے جس کی بنا پر تمام اعلیٰ دماغ لوگ عمومی تعلیم کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم کا مقصد جاب(job) حاصل کرنا ہے۔ میرے نزدیک جاب کا مسئلہ ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہاں مصلحین ;کو ایسے لوگ مل جاتے ہیں، جو کسی بات کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ اس کے برعکس بے پڑھے لکھے سماج میںایسے افراد موجود نہیںہوتے۔ غیر تعلیم یافتہ سماج میں لوگ ایک چیز اور دوسری چیز کا فرق نہیں سمجھتے۔ وہ معاملات کا گہرا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ مثلاً اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں میں قیادت کافقدان ہے۔ حالاں کہ یہ ایک غیر واقعی بات ہے۔ ہندستانی مسلمانوں میںاصل مسئلہ فقدانِ قیادت نہیں ہے، بلکہ فقدانِ قبولیتِ قیادت ہے۔ ہمارے یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُن افراد کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے، جو ہائی پروفائل میں بولتے ہوں، حالاں کہ دانش مند ہمیشہ لو پروفائل میں کلام کرتا ہے۔
اسی طرح باہمی نزاعات میں لوگ اکثر آئیڈیل سلوشن کی بات کرنے لگتے ہیں، حالاں کہ اس طرح کے معاملات ہمیشہ پریکٹکل سلوشن کے ذریعہ طے ہوتے ہیں۔اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ اکثر لوگ جب قومی معاملات میں بولتے یا لکھتے ہیں تو وہ غیرمفاہمانہ انداز میں کلام کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی لوگ خود اپنے ذاتی مسائل کو مفاہمت اور مصالحت کے ذریعہ حل کرتے ہیں۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی کی جبلّت (instinct) ہی رہنمائی کے لیے کافی ہے، جو ہر ایک کو حاصل ہوتی ہے، مگر ملّی اور قومی معاملات میں مفاہمت اور مصالحت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ شعور درکار ہے، جو ایک کم تعلیم یافتہ معاشرہ میںلوگوں کو حاصل نہیں ہوتا۔
ضروری اعلان
مولانا وحید الدین خان صاحب کی منتخب کتابوں کا سیٹ مسجد اور مدرسے اور لائبریری میں پہنچانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔
(1) بڑا سیٹ ، 21 کتابیں، خاص رعایتی قیمت 1000/- مع پوسٹل چارج
(2) چھوٹا سیٹ، 9 کتابیں، خاص رعایتی قیمت 500/- مع پوسٹل چارج
جو حضرات اپنے خرچ پر ان سیٹ کو کسی مسجد یا مدرسے یا لائبریری میں گفٹ کرنا چاہتے ہیں، وہ گڈورڈبکس ، نئی دہلی میں درج ذیل نمبر پر رابطہ قائم کریں
+91 85888 22672
ے ے ے ےےے
ماہنامہ الرسالہ کو مسجد ، مدرسے اور لائبریری میں پہنچانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔
خاص رعایتی سبسکرپشن قیمت برائے ایک سال 150/-
جو حضرات کسی مسجد یا مدرسے یا لائبریری میں اپنے خرچ پر جاری کرانا چاہتے ہیں، وہ اس نمبر پر رابطہ قائم کریں
+91 85888 22679
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی کا اصول

26 جنوری 2003 کو میں دہلی سے احمد آباد گیا۔ راستہ میں انڈین ائرلائنز کی فلائٹ میگزین Swagat کا شمارہ جنوری 2003 دیکھا۔ اس میں ایک مضمون کا عنوان یہ تھا —خواب پورا ہوگیا:
A Dream Comes True
اس میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر ودیا ساگر تعلیم کے میدان میں خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔ ان کا شوق یہ تھا کہ نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ اس قابل بنائیں کہ وہ کامیاب زندگی گزار سکیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے راجستھان کے شہر الور میں ایک اسکول قائم کیا۔ اس اسکول کا نام ساگر اسکول ہے۔ مضمون نگار (Aditi Bishnoi) نے اسکول کی visit کی۔ ان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ودیا ساگر نے کہا —ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اچھے انسان بنائیں، جن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ زندگی میںہر صورت حال کا سامنا آسانی اور خود اعتمادی کے ساتھ کر سکیں:
Our aim is to produce good human beings capable of tackling all situations in life with ease and confidence (p. 88)
میں سمجھتا ہوں کہ ایجوکیشن خواہ وہ فارمل ایجوکیشن ہو یا انفارمل ایجوکیشن، دونوں ہی کا سب سے اہم نشانہ یہی ہونا چاہیے۔ اسکول اورمیڈیا دونوں کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے اندر وہ شعور پیدا کریں، جس کے ذریعہ وہ زندگی کے مسائل کا سامنا کامیابی کے ساـتھ کرسکیں۔
اس سلسلہ میں کلیدی بات یہ ہے کہ یہ دنیا لین دین کے اصول پر قائم ہے۔ جیسادینا ویسا پانا۔ اس دنیا میں کامیابی کا سب سے یقینی فارمولا یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ آپ وہی سلوک کریں جو آپ خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو کبھی کسی سے شکایت نہیں ہوگی۔
بزنس میںکہا جاتا ہے کہ کسٹمر فرنڈلی(customer friendly) بنو، تمہارا کاروبار ترقی کرے گا۔ جو اصول تجارت میںکامیابی کے لیے مفید ہے وہی پوری زندگی کے لیے مفید ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہر ایک کے لیے کامیاب زندگی کا عمومی فارمولا یہ ہے —تم ہمیشہ انسان دوست بن کررہو:
Be always insan friendly.
دوسروں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہر ایک آپ کے لیے مددگار (cooperative) بن جاتا ہے اور جب پورا سماج آپ کے لیے مددگار بن جائے تو فطری طورپر یہ ہوگا کہ آپ کا ہر کام آسانی کے ساتھ ہونے لگے گا۔ یہ احساس آپ کے اندر خود اعتمادی پیدا کرے گا کہ آپ جو کام بھی کریں اس میںدوسروں کی طرف سے آپ کے لیے کوئی غیر ضروری رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔
دوستانہ رویہ کا کوئی محدود مفہوم نہیں ۔ کسی سے میٹھی بات بولنا بھی دوستانہ رویہ ہے، راستہ سے رکاوٹ ہٹادینا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی کو ایک اچھا مشورہ دینا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی کے خلاف اپنے دل میں برا خیال نہ رکھنا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی سے شکایت کے باوجود دل میں تلخی نہ رکھنا بھی دوستانہ رویہ ہے، خیر خواہی کے جذبہ کے تحت کسی کے لیے دعا کرنا بھی دوستانہ رویہ ہے، ضرورت کے وقت کسی کے کام آنا بھی دوستانہ رویہ ہے، وغیرہ۔کسی کو دکھ نہ پہنچائیے، آپ کو بھی کسی سے دکھ کا تجربہ نہیں ہوگا۔ ہر ایک کے لیے نفع بخش بن جائیے، آپ کو بھی ہر ایک سے نفع ملنا شروع ہوجائے گا۔
تعلیم کا مقصد ملازمت نہیں، تعلیم کا مقصد لوگوں کو با شعور بنانا ہے۔ یعنی ایسا انسان جو معاملات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ جانے، جو حالات کا تجزیہ کرکے صحیح نتیجہ تک پہنچ سکتا ہو۔ باشعور انسان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ جذباتی اقدام نہ کرے۔ وہ صحیح وغلط اور ممکن و ناممکن کے درمیان فرق کرسکے۔ ایسا انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ استحصالی لیڈروں کے بہکاوے میں نہ آئے۔ وہ خود اپنی عقل کے تحت درست فیصلہ کرے۔ ایسا ہی انسان وہ انسان ہے جس کو حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ انسان کہا جاسکے۔ اسکول اور میڈیا دونوں کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے انسان پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب فارمولا

بنگلور کے ڈاکٹر احمد سلطان انوکھی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ٹیپو سلطان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر ان کامزاج بر عکس طور پر یہ تھا کہ محبت سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ 13 دسمبر 1999 کو تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔
وہ جب بھی دہلی آتے تو مجھ سے ملتے اور اپنے ’ ’ کامیاب فارمولہ‘‘ کی سبق آموز مثالیں بیان کرتے۔ مثلاً ایک بار ان کے صاحبزادے رات کے وقت گاڑی لے کر باہر نکلے۔ وہ گیارہ بجے واپس آئے تو وہ گاڑی باہر کھڑی کر کے گھر میں داخل ہوئے، اور تیزی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ تھوڑی دیرکے بعد دروازے پر دستک کی آواز آئی۔ڈاکٹر احمد سلطان صاحب نے دروازہ کھولا تو دو ہندو نوجوان باہر کھڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے غصہ کے لہجے میں بتایا کہ آپ کے صاحبزادہ نے ہمارے اسکوٹر کو ٹکر ماری، اور پھر بھاگ آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کوئی جواب دینے کے بجائے نرمی سے کہا کہ اندر تشریف لائیے ، بیٹھ کر بات ہوگی۔ دونوں اندر آگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو ایک میز کے کنارے کرسی پر بٹھایا اور کہا کہ اس وقت سردی کا موسم ہے۔ آئیے ہم لوگ پہلے چائے پئیں پھر بات کریں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کا غصہ ختم ہو چکا تھا، دونوں خوش خوش واپس چلے گئے۔
ایک بار ایک ہندو نوجوان ان کے پاس آیا۔ اس نے رو کر کہا کہ میں ایک بڑے مسئلہ سے دوچار ہوں۔ آپ میرا مسئلہ حل کیجیے۔ اس نے بتایا کہ مجھ سے ایک غلطی ہوگئی۔ اس کے بعد میرے باپ نے مجھ کو گھر سے نکال دیا۔ چھ مہینے ہو چکے ہیں اور ابھی تک وہ راضی نہیں ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تم انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرو۔ تم خاموشی سے جاؤ، اور اپنے باپ کے قدموں پر سر رکھ کر کہو کہ اے باپ، میری غلطی کے لیے مجھے معاف کر دیجیے۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ اپنے گھر گیا تو اس کے باپ نے اس کوڈانٹا۔ بیٹا کوئی جواب نہ دیتے ہوئے باپ کے قدموں پر گر پڑا۔ اس کے بعد باپ کا جذبہ ٔ پدری ابھر آیا۔ اس نے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ چند منٹوں کے اندر ساری بات ختم ہوگئی۔
ایک بار ڈاکٹر صاحب ایک شہر میں گئے۔ وہاں کے مسلمانوں نے بتایا کہ جلد ہی یہاں کٹر ہندوؤں کا ایک جلوس نکلنے والا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ زبردست تیاری کر رہے ہیں۔ وہ اپنا جلوس مسلم محلہ سے لے جائیں گے، اور کوئی نہ کوئی بہانہ نکال کر فساد کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ لوگ میرا ایک مشورہ مان لیجیے، اور پھر یہاں کوئی فساد نہیں ہوگا۔ آپ لوگ ایسا کیجیے کہ جس دن جلوس نکلنے والا ہو، بازار سے دو درجن پھولوں کے ہار لے آئیے۔ جب ان کا جلوس آپ کی مسجد کے سامنے پہنچے تو آپ لوگ پھولوں کا ہار لے کر باہر آئیں، اور جو ہندو جلوس کے آگے آگے چل رہے ہیں، ان سے کہیں کہ ہم آپ کا سواگت کرتے ہیں، اور پھر ان کے گلے میں ایک ایک ہار ڈال دیں۔ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ جس دن وہاں ہندو مسلم ٹکراؤ ہونے والا تھا، وہ ان کے لیے ہندو مسلم ملاپ کا دن بن گیا۔
ایک بار بنگلور میں وہ اپنے گھر کے قریب سڑک پر چل رہے تھے۔ پیچھے سے شہر کے ایک ہندو کی گاڑی آئی، جو مسلمانوں کا مخالف سمجھا جاتا تھا۔اس کی گاڑی ڈاکٹر صاحب سے ٹکرا گئی اور ڈاکٹر صاحب سڑک پر گر پڑے۔ ان کو کئی جگہ زخم آئے۔ مذکورہ ہندو اپنی گاڑی روک کر ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ آپ میری گاڑی پر بیٹھ جائیں، میں آپ کولے کر اسپتال چلتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ تم فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ یہ مسلم علاقہ ہے۔ مسلمانوں نے اگر تم کو دیکھ لیا تو وہ تم کو مارے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے سخت اصرار کر کے اس کووہاں سے بھیج دیا۔ اس کے بعد مذکورہ ہندو ہمیشہ کے لیے ڈاکٹر صاحب کا دوست بن گیا۔
ڈاکٹر سلطان کے دل میں کسی کے لیے نفرت نہ تھی۔ وہ ہر ایک کو پیار ومحبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذکورہ کامیاب فارمولہ اپنانے میں کامیاب ہوگئے۔اس دنیا میں محبت سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مگر نادان لوگ نفرت کو سب سے بڑا ہتھیا ر سمجھ لیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مس ایڈونچرزم

انسان فطری طور پر باہمت (adventurist) پیدا ہوا ہے۔ اگر آدمی ہمت والا نہ ہو تو وہ کوئی اقدام نہیں کرے گا، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کوئی کام اپنی زندگی میں نہیں کرپائے گا۔ فطرت (nature) آدمی کو ابھارتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کسی کام میں لگائے۔ وہ کچھ کرنے والا بنے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو مفید کام میں لگائے۔
اس جذبہ کی بنا پر آدمی فطری طور پر ایڈونچرسٹ (adventurist) بن جاتا ہے۔ وہ اقدام کا طریقہ اختیارکرتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ایڈونچرزم بہت آسانی سے مس ایڈوینچرزم بن جاتا ہے، اور پھرآدمی کے حصہ میں فائدہ کے بجائے نقصان آتا ہے۔ ایڈونچر اور مس ایڈونچر کے درمیان ایک باریک لائن (thin line) ہے، جو ایک دوسرے کو جدا کرتی ہے۔وہ یہ کہ ایڈونچرزم ہمیشہ ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) ہونا چاہیے، نہ کہ محض جوش کے تحت کیا ہوا اقدام عمل ۔ جوش کے تحت کیا ہوا اقدام ہمیشہ ناکام ہوتا ہے، اور ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) اقدام ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔
ضروری ہے کہ آدمی کے اندر جوش کے ساتھ عقل بھی ہو۔ وہ اقدام کے جذبے کے تحت یہ بھی جانے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے، اور کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں۔ کیا چیز اس کے بس کی ہے، اور کیا چیز عملاً اس کے بس سے باہر ہے۔ کسی بھی کام میں پیشگی طور پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا چیز آدمی کے لیے ممکن العمل (possible) ہے، اور کیا چیز نہیں۔
کسی آدمی کے لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ ایسا کام کرے، جو اس کے بس کا کام ہو۔ جو کام اس کے بس کا نہ ہو، اس کو کرنے سےبہتر ہے کہ آدمی سرے سے کام ہی نہ کرے۔ کام نہ کرنے سے جو چیز پیش آتی ہے، وہ صرف کمی ہے۔ لیکن جوش کے تحت کود پڑنا، اس سے زیادہ غلط ہے، اور وہ ہے —ناقابل تلافی نقصان ۔
واپس اوپر جائیں

بڑا آدمی کون

ایک صاحب نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں۔ اس کے اندر میں فائٹنگ اسپرٹ (fighting spirit) نہیں پاتا، اور دنیا میں ترقی کے لیے فائٹنگ اسپرٹ ضروری ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے آپ کی اس رائے سے اتفاق نہیں۔ اس دنیا میں ترقی کے لیے زیادہ بڑی صفت خود اعتمادی (self confidence) ہے۔خود اعتمادی کا مطلب ہےاپنے بل پر کام کرنا، دوسرے پر بھروسہ کرکے چھلانگ نہ لگانا۔ فائٹنگ اسپرٹ والا آدمی اکثر یہ غلطی کرتا ہے کہ وہ ایسی چیز سے ٹکرا جاتا ہے، جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو۔
اس کی ایک مثال امریکا کے محمد علی کلے (1942-2016)کا کیس ہے۔ وہ اپنی حد پر قائم نہیں رہا، وہ مس ایڈوینچرزم کا شکار ہوا۔ یہاں تک کہ پارکنسن کا مریض بن گیا، اور اپنے آپ کو کنگ آف دی ورلڈ کہنے والا انسان بےبسی کی حالت میں مرگیا۔ اس کے برعکس، دوسری مثال جے آر ڈی ٹاٹا (1904-1993)کی ہے۔وہ ویزن(vision) والا انسان تھا۔ وہ مسلمہ طور پر خود اعتمادی کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس نے نہایت درست پلاننگ کی، اور صنعت کے میدان میں بڑی ترقی حاصل کی، وہ دنیا سے گیا تو اس نے اپنے پیچھے ایک صنعتی ایمپائر چھوڑا۔
عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ایک ممیز صلاحیت ہوتی ہے، تو اسی کے ساتھ کچھ مشترک صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک ایڈونچرسٹ آدمی آسانی سے مس ایڈونچرزم کا شکار ہوجاتا ہے۔ مگر جس آدمی کے اندر خود اعتمادی کی صلاحیت ہو، وہ عام طور پر حقیقت پسند بھی ہوتا ہے۔ اس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا منصوبہ حقیقت پسندانہ منصوبہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کے بارے میں زیادہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ سے اپنے آپ کو بچائے گا۔ کامیابی کے لیے صرف ایک صلاحیت کافی نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر مجموعی اعتبار سے کچھ مثبت صلاحیتیں موجود ہوں۔
واپس اوپر جائیں

ایک نصیحت

ہر انسان کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کودریافت(discover) کرے۔ یہ کسی آدمی کے لیے اس کی زندگی کی ابتدا ہے۔ اگر آپ سیلف ڈسکوری کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی چوائس لے لیں۔ تو ایسےچوائس کے لیے مقدر ہے کہ وہ آپ کو غیر مطلوب انجام کی طرف لے جائے ۔ اس منفی ریزلٹ کے بعد آپ چاہیں گے کہ آپ سیکنڈ چوائس لیں ۔ لیکن سیکنڈ چوائس آپ کو دوسری ناکامی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ وہ ہے کہ آپ ریلسٹک اپروچ کو اختیار کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آئڈیلزم ہمیشہ ناکامی کی طرف لے جاتا ہے ، جب کہ پریگمیٹک اپروچ کامیابی کی طرف۔ لیکن یہ آئیڈیل ٹرم میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ پریگمیٹزم کے سنس میں ہوتا ہے۔
جب آپ کوئی کام شروع کریں اور اس میں آپ کامیاب نہ ہوں، تو کبھی یہ غلطی نہ کیجیے کہ اپنی ناکامی کا الزام آپ دوسروں کو دینے لگیں۔ ناکامی جب بھی ہوتی ہے، آپ کی اپنی کسی کوتاہی کی بنا پر ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی کوتا ہی کو دریافت کرلیں تو آپ کے لیے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ اپنی زندگی کی دوسری پلاننگ (replanning) زیادہ صحیح بنیادوں پر کریں، اور اس طرح پہلی ہار کو دوسری مرتبہ جیت میں تبدیل کرلیں۔
اپنی غلطی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا، ایک بے فائدہ کام ہے۔ اس کے برعکس، جب آپ اپنی ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کریں تو یہ کوشش آپ کو اس قابل بناتی ہے کہ آپ دوسری بار اپنے کام کی زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرکے اپنے آپ کو کامیاب بناسکیں۔ جو آدمی آپ کی ناکامی کا الزام کسی دوسرے شخص کو دے ، وہ آپ کا دشمن ہے۔ ایسا آدمی آپ کو اس قابل بننے سے روکتا ہے کہ آپ اپنی غلطی کی اصلاح کریں، آئندہ اپنی غلطیوں کو دہرانے سے بچیں۔ اپنی غلطی کا الزام دوسروں کو دینا صرف وقت کا ضیاع ہے۔ بزدل آدمی اپنی غلطی کا الزام دوسروں کو دیتا ہے، اور بہادر آدمی اپنی غلطی کو مان کر اپنے آپ کوزیادہ صحیح پلاننگ کے قابل بنا لیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سیکھنے کا عمل

عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اپنی غلطی کی صفائی پیش کرتے رہتے ہیں۔وہ کوئی نہ کوئی پہلو نکال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ غلطی میری نہیں تھی، بلکہ دوسروں کی تھی۔ وہ غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائےہمیشہ غلطی کی توجیہہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلطی کے اعتراف کو وہ اپنی کمزوری سمجھتے ہیں، اور غلطی کا اعتراف نہ کرنے کو اپنی بڑائی۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنے کو سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بڑائی کو برقرار رکھا۔
مگر یہ دانش مندی کی بات نہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کو جانے۔ وہ غلطی کرنے کے بعد فوراً یہ کہہ دے کہ میں غلطی پر تھا(I was wrong)۔ غلطی کو نہ ماننا گویا غلطی کے اوپر قائم رہنا ہے، اور غلطی کو مان لینا یہ ہے کہ آدمی نے غلطی کرنے کے بعد فوراً اپنی اصلاح کرلی، اور اس طرح اپنے لیے شخصیت کے ارتقا (personality development) کے پراسس کو نان اسٹاپ (non stop) طور پر جاری رکھا۔
بڑی بات یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے آپ کو بے خطا ثابت کریں۔ اگر آپ اپنے کو بے خطا ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں، تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ آپ جہاں پہلے تھے، وہیں اب بھی باقی رہیں گے۔ اس لیے زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آپ کے اندر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج ہو۔ آپ بےجھجھک یہ کہہ سکیں کہ میں غلطی پر تھا۔
اس مزاج کا فائدہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ نئی بات سیکھتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کا ارتقا (personality development) بلا رکاوٹ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ غلطی نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جہاں کل تھے، وہیں آج بھی بر قرار ہیں۔ اس کے برعکس، غلطی ماننے کا یہ فائدہ ہے کہ آپ کی ترقی کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔ آپ کے اندر لرننگ (learning)کے پراسس میں کبھی جمود نہ آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

نزاع کا معاملہ

یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی دو یا زیادہ آدمیوں کے درمیان کوئی نزاع ہو، تو معمولی بات پر وہ بھڑک اٹھتا ہے، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آخری حد تک پہنچنے سے پہلے وہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی نادانی ہے، جو پوری تاریخ میں ایک ہی انداز پرجاری رہی ہے، اور آج بھی جاری ہے۔ تجربہ بتاتا ہےکہ جب تک نزاع کی صورت پیدا نہ ہو، فریقین نارمل انسان نظر آتے ہیں۔ لیکن اختلاف کی صورت پیدا ہونے کے بعد اچانک دونوں فریق غیر نارمل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ نارمل انداز میں سوچیں، اور پرامن بات چیت سے نزاع کو ختم کرلیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ نزاع سے پہلے معاملہ عقل کے درمیان ہوتا ہے، لیکن نزاع شروع ہونے کے بعد عقل پس پشت چلی جاتی ہے،ا ور دونوں فریق ایگو کے زیرِ اثر آجاتے ہیں۔ پہلے اگر وہ نتیجہ کو سامنے رکھ کر سوچتے تھے، تو اب وہ جذبات کے زیر اثر سوچنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ معاملے کو عقل کی حد میں رکھا جائے، اس کو جذبات تک پہنچنے نہ دیا جائے۔ اس معاملے میں فارمولا یہ ہے :
When one's ego is touched, it turns into super ego, and the result is breakdown.
اگر فریقین ٹھنڈے ذہن کے ساتھ نتیجہ کو لے کر سوچیں تو ان کو سمجھ میں آجائے گا کہ نزاع جاری رکھنے کا انجام دونوں کے حق میں برا نکلے گا۔ دونوں کے حق میں صرف نقصان آئے گا۔ دونوں میں سے کسی کو بھی کوئی فائدہ ملنے والا نہیں۔ معاملے پر عقلی انداز میں سوچنا، دونوں کو ایک ہی انجام تک پہنچاتا ہے۔وہ یہ کہ نزاع کا جاری رکھنا، کسی کے حق میں اچھا نہیں ۔ جب کہ نزاع کو پہلی فرصت میں ختم کرلینا، دونوں کے لیے مفید ہے۔ نزاع کا واحد حل صرف یہ ہے کہ نزاع کو پہلی فرصت میں بلاشرط ختم کردیا جائے ۔ اس حکمت کو ملحوظ رکھا جائے تو انسان بہت سے نقصانات سے بچ جائے گا۔ یہ نزاع کے مسئلے کا سب سے زیادہ آسان حل ہے۔
واپس اوپر جائیں

دو قسم کے مسئلے

اجتماعی زندگی میں جو مسئلے پیش آتے ہیں، وہ عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں— مبنی بر غصہ، مبنی بر انٹرسٹ۔ ایک قسم کامسئلہ وہ ہے، جو اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آپس کے تعلقات میں کبھی کوئی بات ایک شخص کو بری لگتی ہے، اور وہ افنڈ (offend) ہوجاتا ہے۔ ایسا غصہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ اعراض (avoidance)کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے وقت گزرنے دیجیے۔ وقت کے گزرنے پر وہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ وہ ایسا ہوجائے گا، جیسے کہ وہ تھا ہی نہیں۔ ایسے مسئلے کے لیے صرف یہ کافی ہے کہ آدمی وقتی طور پر چپ ہوجائے۔ جو مسئلہ صرف چپ ہوجانے سے ختم ہوجانے والا ہو، اس کو انسان کیوں سنجیدہ انداز میں لے، اور اس کو طول دے۔
دوسرا مسئلہ وہ ہے جو مبنی بر انٹرسٹ ہوتا ہے۔ یعنی ایک آدمی آپ سے اس لیے غصہ ہوتا ہے کہ آپ اس کو وہ چیز نہیں دے رہے ہیں، جو چیز وہ چاہتا ہے کہ اس کو ملے۔ ایسا غصہ بہت دیر پا ہوتا ہے۔ وہ صرف اس وقت ختم ہوتا ہے، جب کہ فریقِ ثانی کو ا س کی مطلوب چیز مل جائے۔ اس طرح کے مسئلے میں دانش مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی اصولی طور پر پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)کا طریقہ اختیار کرے۔یعنی وہ فوراً یک طرفہ (unilateral)بنیاد پر معاملے کو ختم کردے۔ وہ اس کو اپنے حق(right) کامسئلہ نہ سمجھے۔ بلکہ اس معاملے میں غیر ضروری ٹکراؤ سے بچ کر اپنے آپ کو مزید نقصان سے بچالے۔
ایسے معاملے میں دیکھنے کی چیز صرف یہ ہوتی ہے کہ کیا قابل عمل ہے، اور کیا قابل عمل نہیں۔ جو قابل عمل ہو، اس کو اختیار کیجیے، خواہ بظاہر وہ آپ کے موافق ہو یا آپ کے خلاف۔ ایسے معاملے میں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ نتیجہ کے اعتبار سے کیا طریقہ ممکن ہے، اور کیا طریقہ ممکن نہیں۔ ایسے معاملے میں آپ صرف یہ کیجیے کہ ممکن کو اپنا لیجیے، اور جو عملاً ناممکن ہے، اس کو چھوڑ دیجیے۔ کیوں کہ ناممکن پر اصرار کرنے سے صرف نزاع میں اضافہ ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

صحیح طرزِ فکر (right thinking) حکیمانہ طرزِ فکر کی ایک اعلیٰ قسم ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں جیتے ہیں، یا صبح و شام گزارتے ہیں، اس میں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ مخلوط (mixed) حالت میں ہیں۔ اس بنا پر بظاہر چیزوں کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چیزوں کے بارے میں صحیح رائے اس وقت قائم ہوتی ہے، جب کہ آپ چیزوں کو الگ الگ کرکے دیکھ سکیں۔ اس طرح تجزیاتی مطالعے کے بغیر آدمی کے اندر صحتِ فکر پیدا نہیں ہوسکتی، وہ مبنی بر واقعہ سوچ کا حامل نہیں بن سکتا۔
مثلاً ایک شخص اپنے بارے میں یا اپنی کمیونٹی کے بارے میں یہی کہے گا کہ ہمارے اوپر ظلم ہورہا ہے۔ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ تمھارے باپ دادا کا جو اسٹینڈرڈ تھا، کیا تمھارا اسٹینڈرڈ اس سے کم ہے۔ وہ جواب دے گا کہ نہیں اس سے تو بہت اچھا ہے۔ مثلاً میرے باپ دادا بائیسکل پر سفر کرتے تھے، آج میں کار پر سفر کرتا ہوں۔ میرے دادا کے زمانے میں بچے معمولی مدرسے میں پڑھتے تھے، آج وہ شہر کے ایک اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ میرے دادا کچے گھر میں رہتے تھے، آج میں اور میرے بچے پکے گھر میں رہ رہے ہیں، وغیرہ۔ اب اگر آپ اس سے پوچھیں کہ جب تمھاری فیملی کا اسٹینڈرڈ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے، تو ظلم کہاں ہورہا ہے۔ اب وہ حیران ہوجائے گا، اور کہے گاکہ میں نے اس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ اصل مسئلہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے۔ لوگوں کے اندر صحیح طرز فکر نہیں ہے۔ اس لیے لوگ شکایت میں جی رہے ہیں، حالاں کہ انھیں شکر میں جینا چاہیے۔ صحیح طرزِ فکر تجزیاتی فکر کا نام ہے۔ اگر آپ کے اندر ڈی ٹیچڈ تھنکنگ (detached thinking)ہو، اگر آپ تجزیاتی انداز میں سوچنا جانتے ہوں، تو آپ درست طرزِ فکرکے حامل بن سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

گفتگو کااصول

عام طو رپر ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے کوئی گفتگو کی جائے، اور درمیان میں کوئی ایسی بات آجائے جو بظاہر صاحبِ گفتگو کے نقطۂ نظر کے خلاف ہو، تووہ فوراً اس کے دفاع میں بولنے لگتا ہے۔ یہ طریقہ علمی گفتگو کا طریقہ نہیں۔علمی گفتگو کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو درمیان میں کاٹے بغیر غیر جانبدارانہ انداز میں سنیں۔ دونوں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ گفتگو کا مقصد میوچول لرننگ (mutual learning) ہو، نہ کہ دوسرے کی بات کو کاٹنا، اور اپنی بات کو صحیح ثابت کرنا۔
گفتگو کا معیار (criterion) یہ ہونا چاہیے کہ دونوں فریق نے اپنے علم میں کیا اضافہ کیا۔ دونوں فریق نے کیا نئی بات سیکھی۔ دونوں فریق نے گفتگو کے موقع کو کس طرح ذہنی ارتقا (intellectual development) کے لیے استعمال کیا۔
دو آدمیوں کے درمیان گفتگو کا مقصدمناظرہ (debate)نہیں ہوتا، بلکہ شخصیت کا ارتقا (personality development) ہوتا ہے۔ کوئی آدمی جتنا جانتا ہے، وہی جاننے کی حد نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جاننے کا سمندر بہت وسیع ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر گفتگو کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے ، جس سےاس کے علم میں اور اضافہ ہو، اس کی تخلیقی فکر (creative thinking) اور زیادہ ہوجائے۔
اس کے تجربات کی فہرست میں نئےآئٹم شامل ہوں۔ زندگی کی پلاننگکے لیے اس کے تجربات کا دائرہ (vista) اور وسیع ہوجائے۔ اس کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرے۔ وہ پہلے سے زیادہ پختہ انسان (mature person)بن کر ابھرے۔ وہ اپنے بارے میں اور دوسرے کے بارے میں زیادہ واقفیت حاصل کرے۔وہ ماضی اور حال کے بارے میں زیادہ جاننے والا بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

مشورہ یا باہمی مشاورت

مشورہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔مشورہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک باہمی مشاورت ہے، یعنی دوسرے کو کچھ دینا اور دوسرے سے کچھ لینا۔مشورہ اگر حقیقی اسپرٹ کے ساتھ کیا جائے تو دونوں پارٹیوں کے لیے ذہنی ترقی (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔مشورہ کی اصل اسپرٹ باہمی مشاورت (mutual consultation) ہے۔
مشورہ میں دو پارٹیاں ہوتی ہیں۔ اس میں بظاہر ایک پارٹی دینے والی (giver) اور دوسری پارٹی لینے والی (taker) ہوتی ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ دو طرفہ لین دین (mutual exchange) کا معاملہ ہے۔ مشورہ صرف مشورہ نہیں، بلکہ وہ باہمی لین دین (mutual exchange) کا معاملہ ہے۔ مشورہ کی صحیح اسپرٹ ہو تو جو بظاہر دینے والا ہے، وہ عین اسی وقت لینے والا بھی ہوگا، اور جو لینے والا ہے، وہ عین اسی وقت دینے والا بھی ہوگا۔
حضرت عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتاہے کہ کان یتعلم من کل احد(وہ ہر ایک سے سیکھتے تھے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انٹرایکشن کے وقت وہ باہمی لین دین کی اسپرٹ کے ساتھ انٹرایکشن کرتے تھے۔ اس طرح ہر انٹرایکشن دو طرفہ بن جاتا تھا۔ وہ ہر انٹرایکشن میں دوسرے سے کچھ لیتے تھے، اور عین اسی وقت وہ دوسرے کو کچھ دیتے تھے۔ یہی مطلب ہے میچول کنسلٹیشن کا ۔
موجودہ زمانے میں اسی عمل کو ڈائلاگ کہا جاتاہے۔ ڈائلاگ مباحثہ یا مناظرہ سے الگ ہوتا ہے۔ ڈائلاگ ایک تخلیقی عمل (creative practice) ہے۔ صحیح ڈائلاگ اس وقت وجود میں آتا ہے، جب کہ دونوں پارٹیوں میں اس قسم کی دو طرفہ اسپرٹ پائی جاتی ہو۔ ڈائلاگ اگر مباحثہ اور مناظرہ بن جائے، تو اس سے کسی پارٹی کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس، اگر ڈائلاگ میں دو طرفہ تعلم (mutual learning) کی اسپرٹ موجود ہو، تو ڈائلاگ دونوں فریقوں کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ایک لفظ کا فرق

ایک صاحب جن کی تعلیم ایک مدرسہ میں ہوئی ہے۔ 12 دسمبر 2017 کوان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے 2005 میں میں آپ سے ملا تھا۔ اس وقت میں نے کہا تھا کہ میرے اندر احساسِ کمتری بہت زیادہ ہے۔ اس کا کوئی حل بتائیے ۔ میں نے کہا کہ آپ صرف ایک لفظ بدل دیجیے۔ ابھی تک آپ احساسِ کمتری کا لفظ بولتے ہیں۔ آج سے آپ احساسِ غلطی کا لفظ بولنا شروع کردیجیے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کا سارا معاملہ درست ہوجائے گا۔
آج کی ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ یہ بات آپ نے ایک ڈائری میں لکھی اور وہ ڈائری مجھ کو دے دی۔ اسی وقت سے میںنے اس نصیحت کو پکڑلیا ہے۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی غلطی کو دریافت کرتا ہوں، اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے سارے معاملات درست ہوگئے۔ گھر کے معاملات بھی، پڑوسیوں کے معاملات بھی، اور مسجد اور مدرسے کے معاملات بھی۔ پہلے میں برابر ٹینشن میں رہتا تھا، اب مجھے کوئی ٹینشن نہیں۔ کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ کسی سےکوئی جھگڑا نہیں۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو میں خود ہی سوچ کر اس کو درست کرلیتا ہوں۔ اب سب لوگ مجھ سے خوش رہتے ہیں۔ جب کہ پہلے ہر شخص کو مجھ سے شکایت ہوتی تھی۔
یہ کرشمہ صرف ایک پر حکمت بات کا تھا ۔ وہ یہ کہ اس سے پہلے و ہ غلط تقابل (comparison)کا شکار تھے۔ اب انھوں نے احساس کمتری کے جملے کو بدل کر احساسِ غلطی بنا لیا۔ پہلے وہ دوسروں کے خلاف سوچا کرتے تھے، اب وہ اپنی اصلاح آپ کے انداز میں سوچنے لگے۔ بظاہر یہ ایک لفظ کا فرق تھا، لیکن یہ لفظ اتنا زیادہ پرحکمت تھا کہ اس نے ان کی پوری زندگی کو بدل دیا۔ ان کو منفی شخصیت (negative personality)سے نکال کر مثبت شخصیت (positive personality) بنا دیا۔
واپس اوپر جائیں

کھونے میں پانا اور پانے میں کھونا

زندگی میں دو قسم کے واقعات پیش آتے ہیں۔ زندگی میں آدمی کچھ حاصل کرتا ہے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھودیتا ہے۔ دونوں قسم کے واقعات زندگی کا لازمی حصہ ہیں ۔کسی بھی شخص کی زندگی ان سے خالی نہیں ہوتی۔ جب آپ زندگی میں کچھ حاصل کرتے ہیں تو یہ یاتو آپ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتا ہے، یا کچھ اتفاقی واقعات آپ کے لیے مساعد (support)بن جاتے ہیں، اس لیے آپ کو کامیاب کردیتے ہیں۔جب آپ کامیاب ہوں تو یہ دریافت کیجیے کہ آپ کی کامیابی میں کن عوامل (factors)کا دخل ہے۔ ان عوامل کو اگر آپ دریافت کرسکیں تو آپ زندگی کی ایک حکمت (wisdom) کو دریافت کریں گے، جس کو آپ اپنی بعد کی زندگی میںبھی استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ عوامل ایک اعتبار سے فطری عوامل ہوتے ہیں، اور دوسرے اعتبار سے وہ زندگی کی حکمت کو بتاتے ہیں۔
یہی معاملہ کھونے کا ہے۔ جب آپ کھوتے ہیں، وہ سادہ معنوں میں کھونا نہیں ہوتا، بلکہ آپ کے لیے ایک تجربہ (experience) ہوتا ہے۔ کھونے کی صورت کو آپ تجربے میں ڈھال دیجیے۔ اس طرح کھونا بھی آپ کے لیے ایک اعتبار سے پانا بن جائے گا۔ زندگی کی حکمت اگر آپ کے لیے ایک ریڈی میڈ وزڈم ہے، تو تجربہ آپ کے لیے ایک ذخیرہ کیے ہوئے (stored) وزڈم کی حیثیت رکھتا ہے۔ زندگی ایک نازک آرٹ ہے۔ زندگی میں پانا بھی آپ کے لیے کھونا بن سکتا ہے، اور اسی طرح کھونا بھی آپ کے لیے پانا بن سکتا ہے۔ اگر آپ پانے کے واقعے میں وزڈم کا عنصر دریافت نہ کرسکیں، تو آپ نے کوئی بڑی چیز نہیں پائی۔ آپ زندگی کے حاشیے پر پہلے بھی تھے، اور اب بھی وہیں پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کھونے کے واقعے کو تجربے میں نہ ڈھال سکے تو آپ ڈبل محرومی کا شکار ہوگئے۔ ایک تو وہ جس کو آپ نے کھودیا، اور دوسرا وہ جس کو آپ کھونے کے باوجود پاسکتے تھے، اس کو بھی آپ پانے سے محروم رہے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی مشورہ

اگر آپ کسی کو اس کی کمی بتائیں ، تو آپ نے اس کو کچھ نہیں دیا ، بلکہ اس سے کچھ چھین لیا۔ اس کو آپ نے کمتری کے احساس میں مبتلا کردیا۔ اس کے بجائے، اگر آپ کی ملاقات کسی نوجوان سے ہو، اور آپ اس سے کہیں کہ زندگی میں ٹاپر (topper)بنو، تو آپ نے اس سے ایک اچھی بات کہی۔ لیکن آپ کا یہ قول کوئی تخلیقی مشورہ (creative advice) نہیں ہے۔ تخلیقی ایڈوائس وہ ہے، جو سننے والے کے اندر کوئی نیا داعیہ (incentive) پیدا کرے۔
مثلاً اگر آپ نوجوان سے یہ کہیں کہ تم ابھی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں ہو، تم کو چاہیے کہ تم سب سے پہلے اپنی ذات کا مطالعہ کرکے یہ معلوم کرو کہ تمھارے اندر کون سی خاص صلاحیت ہے۔ کیوں کہ خالق جب ایک انسان کو پیدا کرتا ہے، تو وہ اس کو کوئی خاص صلاحیت عطا کرتا ہے، تاکہ وہ دنیا میں کوئی نادر (unique)کام انجام د ے سکے، ایسا کام جو کسی نے اب تک انجام نہیں دیا۔ جو آدمی اپنی اس صلاحیت کو دریافت کرے، وہ ضرور کامیاب ہوگا، کیوں کہ ایسا کرکے وہ اپنے خالق کی خصوصی مدد کا مستحق بن جاتا ہے۔ پھر اس خاص صلاحیت کے مطابق، اپنے عمل کی پلاننگ (planning) کرو۔ تمھارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تم اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچاؤ۔ کیوں کہ ڈسٹریکشن تم کو بھر پور پلاننگ سے محروم کردے گا۔ اگر کسی نوجوان کو یہ مشورہ دیں تو یہ ایک تخلیقی مشورہ ہوگا۔
تخلیقی مشورہ صرف مشورہ نہیں ہے، بلکہ وہ لائحۂ عمل بھی ہے۔ وہ آدمی کو صرف بتاتا نہیں ہے، بلکہ وہ آدمی کی مدد بھی کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیقی مشورہ وہ سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے، جو ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو دے سکتا ہے۔ کسی کو تخلیقی مشورہ دینا کوئی آسان کام نہیں۔ تخلیقی مشورہ وہی آدمی دے سکتا ہے، جو اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے تیار کرے، جو دوسرے انسان کا سچا خیرخواہ ہو، جو خود پہلے وہ کام کرے، جس کا مشورہ وہ دوسرے آدمی کو دے رہا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فطرت کو موقع دو

ترقی کے ہر میدان میں عمل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ فطرت کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ فطرت کے راستے میں اگر رکاوٹ نہ ڈالی جائے تو ہر کام نہایت درست طریقے سے ہوگا۔ فرد کی ترقی یا سماج کی ترقی کا راز یہ ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ فطرت کا طریقہ یہ ہے— کم سے کم مداخلت، زیادہ سے زیادہ آزادی۔
مثلاً اگر بچے کے ساتھ لاڈ پیار نہ کیا جائے، تو بچہ ذاتی محرک کے تحت ہر کام اچھی طرح انجام دیتا رہے گا۔ سماجی عمل میں مداخلت نہ کی جائے تو سماج چیلنج - رسپانس (challenge-response) کے پراسس کے تحت اپنے آپ ترقی کرتا رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت سے بڑا کوئی معلم نہیں۔ فطرت سے بڑا کوئی منصوبہ ساز نہیں۔ جس طرح بہتا ہوا پانی اپنے آپ اپنا راستہ بنالیتا ہے، اسی طرح فطرت اپنے آپ ترقی کا راستہ تلاش کرلیتی ہے۔
فطرت (nature) خالق کی تربیت یافتہ رہنما ہے۔ فطرت کو پیدائشی طور پر معلوم ہے کہ اس کو کس طرح چیلنج کا سامنا کرنا ہے۔ اس کو کیا کرنا ہے، او ر کیا نہیں کرنا۔ فطرت کو معلوم ہے کہ مسائل کے درمیان کس طرح مواقع کو تلاش کرنا ہے، اور اس کو منصوبہ بند انداز میں کیسے اپنی موافقت میں اویل (avail) کرنا ہے۔ فطرت ایک خود کار معلم ہے۔ جس طرح جسم کے ’’ڈاکٹر‘‘کو معلوم ہے کہ اس کو جسم کا داخلی نظام کس طرح چلانا ہے، اسی طرح فطر ت کو معلوم ہے کہ خارجی مواقع کی تنظیم کرتے ہوئے کس طرح اس کو اپنے موافق استعمال کرنا ہے۔
کسی ملک کو ترقی کی طرف لے جانے کے لیے سرکاری پلاننگ کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آزادانہ ماحول کی ضرورت ہے۔ آزادانہ ماحول میں مسابقت (competition) کا رجحان اپنے آپ ملک کا رہنما بن جاتا ہے۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے سرکاری کنٹرول کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ ضرورت ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

غصے کا ظاہرہ

غصہ (anger) کیا ہے۔ غصہ دراصل جذباتی ہیجان کا دوسرا نام ہے، جو ذہن (mind) کو نہایت گہرائی کے ساتھ متحرک کرنے والا ہے:
Anger is an emotional outburst that triggers deeper parts of the mind.
انسان کا ذہن بے شمار صلاحیتوں کا مالک ہے، مگر عام حالت میں ذہن کے بیشتر حصے خوابیدہ حالت میں رہتے ہیں۔ غصہ آدمی کے ذہن کے تمام حصوں کو متحر ک اور بیدار کردیتا ہے۔ غصہ وقتی طور پر manکوsuper man بنا دیتا ہے۔ غصہ کی حالت میں آدمی نارمل حالات کے مقابلے میں زیادہ سوچنے والا بن جاتا ہے۔ غصہ ایک ایسی حالت کا نام ہے، جیسے کوئی غیر متحرک بم اچانک پھٹ پڑے۔
غصہ کے وقت آدمی کے ذہن کے بہت سے گوشے کھل جاتے ہیں، جو عام حالت میں بند پڑے ہوئے تھے۔غصہ آدمی کے تجزیہ (analysis)کرنے کی صلاحیت کو بڑھا دیتا ہے۔ غصہ اپنی ذات میں کوئی برائی کی چیز نہیں۔ غصہ کے لیے یہ ضرورت نہیں کہ اس کو ختم کیا جائے، بلکہ غصہ کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ جب غصہ آئے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ غصہ کو چینلائز (channelize) کرنے کی کوشش کیجیے، یعنی غصہ کو تعمیری رخ کی طرف موڑ دیجیے۔
غصہ کو تعمیری رخ پر موڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ جب آپ کو غصہ آئے تو آپ چپ ہوجائیں۔ چپ ہوتے ہی اپنے آپ غصے کا رخ بدلنا شروع ہوجائے گا، اور پھر آپ کو یہ موقع مل جائے گاکہ آپ غصے کو تعمیری رخ دے دیں۔ غصے کے وقت ایک بے حد قیمتی چیز آدمی کے دماغ سے ریلیز ہوتی ہے۔ اس کو اینگر انرجی (anger energy)کہا جاتاہے۔ اینگرانرجی آپ کے جسم سے نکلنے والی سب سے بڑی طاقت کانام ہے۔ اینگر انرجی کو برباد ہونے سے بچائیے۔ اینگر انرجی کو صحیح رخ پر موڑ دیجیے۔ اینگر انرجی کو منضبط (controlled) انداز میں استعمال کیجیے،ا ور پھر غصہ آپ کے لیے ایک صحت مند ظاہرہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

آنکھوں کے بغیر

مرکزِ اطلاعات، فلسطین کی رپورٹ کےمطابق، مراکش کے جنوبی شہر یرکان سے تعلق رکھنے والا عبدالرحمن اوزار نابینا ہونے کے باوجود متعدد عالمی زبانوں فرانسیسی، جرمن، انگریزی، اور اسپانوی وغیرہ میں ماہر ہے۔ پیدائش کے دو ماہ بعد ایک بیماری کے سبب وہ بصارت سے محروم ہوگیا، لیکن اس کا نابینا پن اس کے حصولِ علم کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔ میٹرک تک ممتاز نمبروں سے کامیابی نے اس کے حوصلوں کو مہمیز کیا۔ قاضی عیاض یونیورسٹی ، مراکش میں فرانسیسی ادب کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا، طب کی تکمیل کے بعد اسلامیات میں گریجویشن اور اس کے بعد قوانینِ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اس کے علاوہ موسیقی اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا کورس کیا۔ وہ حافظ بھی ہے۔(اخبار مشرق، دہلی، بحوالہ ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ،فروری 2018) ۔
یہ واقعہ انسان کے پوٹنشل (potential)کو بتاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان بے پناہ امکانات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، کوئی انسان محروم انسان کی حیثیت سے پیدا نہیں ہوتا، محرومی کسی واقعہ کا نتیجہ نہیں ہے، وہ صرف بے خبری کا نتیجہ ہے۔ حتی کہ کوئی حادثہ انسان کے لیےفطری امکانات کو ختم نہیں کرتا۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی بے حوصلہ نہ ہو، بلکہ اپنے فطری امکانات کو دریافت کرے، اور مثبت ذہن کے ساتھ اس کی منصوبہ بندی کرے۔ تاریخ میں ایسی مثالیں بہت ہیں، جب کہ ایک مرد یا عورت کو کوئی حادثہ پیش آیا۔ اس حادثہ نے اس کو بظاہر معذور (disabled) بنا دیا۔ لیکن انسان نے اپنی ری پلاننگ کی۔ اس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اگر چہ بظاہر وہ ایک معذور انسان ہے، لیکن وہ ایک اور پہلو سے پوری طرح ڈفرنٹلی ایبلڈ انسان (differently abled person) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا سفر کبھی رکتا نہیں۔ اگر اس کی پہلی پلاننگ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو، تو وہ دوسری پلاننگ (re-planning) کے ذریعہ اپنے آپ کو کامیاب بنا سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ ہررکاوٹ کے بعد اپنے سفر کو از سر نو جاری رکھنے کا آرٹ جان لے۔
واپس اوپر جائیں

باس اِز آلویز رائٹ

باس از آلویز رائٹ(Boss is always right)—کمپنی کلچر کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اس اصول کے بغیر کوئی اجتماعی کام نظم و ضبط کے ساتھ انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اسی لیے ہر اجتماعی کام میں ایک شخص کو ذمہ دارِ اعلی بنایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ذمے دارِ اعلی پر اعتماد کرنا پڑتا ہے کہ وہ صحیح فیصلہ لے گا۔ بوقتِ فیصلہ باس کو کلی اختیار حاصل ہوتا ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ بعد کو باس کا احتساب کیا جائے، اور باس سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ اپنے فیصلے کا جواز ذمے دار لوگوں کو بتائے۔
جو شخص کسی کمپنی میں کوئی جاب کرے، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ باس از آلویز رائٹ کے اصول کو بلاشرط مانے۔ اس اصول کے معاملے میں کسی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔ کیوں کہ اس معاملے میں اگر استثنا کے اصول کو مانا جائے، تو کمپنی کا کام درست طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ جو آدمی کسی کمپنی میں جاب کررہا ہو، اس کو یہ اختیار تو حاصل ہے کہ وہ جاب کو چھوڑدے، لیکن اس کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ باس از الویز رائٹ کے اصول کو ماننے سے انکار کردے، یا جاب پر رہتے ہوئے،اس کی خلاف ورزی کرے۔
باس اِز آلویز رائٹ کوئی عقیدے کی بات نہیں، یہ ایک پریکٹکل وزڈم کی بات ہے۔کوئی آدمی جو کسی کمپنی میں جاب کررہا ہو، یہ اس کی ذاتی ذمے داری ہے کہ وہ کمپنی کے قواعد کو جانے، وہ کمپنی کے اصول و ضوابط کو پوری اسپرٹ کے ساتھ اپنائے۔ کوئی شخص جو کمپنی کے جاب میں ہو، اگر وہ اس اصول کی خلاف ورزی کرے، تو اس کو لازماً اس کا نقصان بھگتنا پڑے گا۔ یہ کمپنی کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اس معاملے میں کارکن کو اس کی غلطی پر سزا دے، یا وہ اس کو معاف کردے۔اسی طرح یہ کارکن کی اپنی ذمے داری ہے کہ وہ کمپنی کے ضوابط سے مکمل طور پر باخبر رہے، تاکہ وہ پوری طرح ان ضوابط کا پابند ہو سکے۔ اس معاملے میں کارکن کی طرف سے کوئی عذر قابل قبول نہیں۔ اس معاملے میں کارکن کی صرف ذمے داری ہے، کارکن کا کوئی ناقابل تنسیخ حق (irrevocable right) نہیں۔
واپس اوپر جائیں

آدابِ تنقید

تنقید (criticism) ایک جائز فعل ہے۔ ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص پر تنقید کرے۔ لیکن تنقید کا ایک متعین اصول ہے۔ متعین اصول کے مطابق جو تنقید کی جائے، وہ ایک جائز تنقید ہے۔ لیکن جس تنقید میں متعین اصول کی رعایت نہ ہو، وہ تنقید نہیں، بلکہ تنقیص ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، تنقید بلاشبہ جائز ہے، لیکن تنقیص بلاشبہ ایک ناجائز فعل ہے۔
جائز تنقید اور ناجائز تنقید یا تنقیص میں کیا فر ق ہے۔ ناجائز تنقید یہ ہے کہ آپ کسی شخص کے اوپر تنقید کریں، لیکن یہ تنقید آپ اپنے الفاظ میں کریں۔ یعنی ایسا ہو کہ تنقید تو دوسرے کی ہو، اور الفاظ اس کے اپنے ہوں تو ایسی تنقید جائز نہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ ایسا کریں کہ کسی شخص کے اوپرتنقید کریں، تو اس کے اپنے ثابت شدہ الفاظ پر مبنی ہو ۔ایسی تنقید ایک جائز تنقید ہے ۔مثلاً آپ کسی شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کے اندر قول و فعل کا تضاد ہے، تو یہ تنقید صرف اس وقت جائز ہوگی، جب کہ آپ زیر تنقید شخص کے قول یا فعل سے اس قسم کا ثابت شدہ حوالہ پیش کریں۔ اگر آپ کے پاس ثابت شدہ حوالہ نہ ہو تو آپ کو ایسی تنقید کرنے کا ہر گز کوئی حق نہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ قرآن و حدیث کا نام لیتا ہے، لیکن بات خود اپنی پیش کرتا ہے تو آپ کو اس روش کی کم از کم ایک متعین اور محدد (specific)مثال پیش کرنی ہوگی۔ ثابت شدہ مثال کے بغیر ایسی تنقید صرف ایک بے بنیاد الزام ہے، وہ ہرگز تنقید نہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کے پاس ڈبل معیار ہوتا ہے، ایک معیار اپنے لیے، اور دوسرا معیار دوسروں کے لیے۔ تو یہ تنقید بھی صرف اس وقت ایک جائز تنقید ہے، جب کہ زیر بحث شخص کے بارے میں ایک ثابت شدہ مثال دیں، ایسی مثال جو ناقابل تردید حوالوں پر مبنی ہو۔ صرف ایسی تنقید ، تنقید ہے۔ جس تنقید کے ساتھ ایسا ثبوت موجود نہ ہو، وہ سبّ وشتم اور عیب جوئی اور الزام تراشی ہے، نہ کہ واقعی معنوں میں ایک جائز تنقید۔
واپس اوپر جائیں

پازیٹیو تھنکنگ، پازیٹیوزم

پازیٹیو تھنکنگ اور پازیٹیوزم (positivism)، دونوں ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔ پازیٹیو تھنکنگ انگریزی ڈکشنری کا ایک عام لفظ ہے، جب کہ پازیٹیوزم ایک خالص فلسفیانہ اصطلاح (philosophical term)ہے۔ پازیٹیو تھنکنگ کا مطلب ہے، مثبت طرزِ فکر، یعنی منفی طرزِ فکر سے پاک سوچ۔ یہ اس انسان کی صفت ہے، جو بے آمیز سوچ (unbiased thinking) کا مالک ہو، جو شکایتی نفسیات سے پاک ہو۔
اس کے برعکس، پازیٹیوزم ایک فلسفیانہ اصطلاح (term) ہے۔ پازیٹیوزم کا بانی فرانسیسی ماہر سماجیات اور فلسفی آگسٹ کامٹے (Auguste Comte) ہے۔یہ نظریہ انیسویں صدی کے وسط میں فروغ پایا۔ پازیٹیوزم کے مطابق، واحد مستند علم، سائنس کا علم ہے، اور یہ علم خالص سائنسی طریقے سے نظریات کے مثبت تصدیق سے حاصل ہوسکتا ہے:
Positivism is the view that the only authentic knowledge is scientific knowledge, and that such knowledge can only come from positive affirmation of theories through strict scientific method.
مثبت طرز فکر (positive thinking)ایک علاحدہ اصطلاح ہے۔ یہ سنجیدہ انسان کی ایک صفت ہے۔ ایسا انسان، جو بے آمیز انداز میں سوچتا ہے، جو موضوعی (objective)انداز میں رائے قائم کرتا ہے، اس کی رائے مبنی بر حقیقت رائے ہوتی ہے، اس کی رائے بے لاگ رائے ہوتی ہے، اس کا نقطۂ نظر خالص فکری نقطۂ نظر ہوتاہے۔ اس طرزِ فکر کو دوسرے الفاظ میں ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking) کہا جاسکتا ہے، یعنی کسی کمی زیادتی کے بغیر عین حقیقتِ واقعہ کے مطابق سوچنا۔ پازیٹیو تھکنگ ایک عام فکر ہے، جب کہ پازیٹیوزم ایک فلسفیانہ اسکول کا نام ہے۔ پازیٹیوزم کے مطابق، معتبر علم صرف سائنسی علم ہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اپنے خلاف

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بظاہر دوسرے کے خلاف بولتا ہے۔ لیکن اس کی بات خود اپنے خلاف ہوتی ہے۔ اکثر آدمی’’وہ‘‘ کی زبان بولتا ہے۔ مگر جو بات وہ کہتا ہے، وہ عملاً ’’میں‘‘ کی زبان میں ہوتی ہے۔ یعنی آدمی ایک ایسی بات کہتا ہے، جس میں اس کی زد بظاہر ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ دوسرے کے خلاف ہوتی ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف اس کے اپنے خلاف ہوتی ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ اللہ کے نزدیک ہر معاملے میں انسان کی نیت کو دیکھا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی نے بولنے سے پہلے کیا سوچا۔ اس کی کون سی سوچ تھی، جس کے تحت اس کی زبان سے وہ الفاظ نکلے جن میں اس نے کوئی بات کہی تھی۔ اسی بات کو ایک فارسی شاعر نے ان الفاظ میں کہا ہے: کجا میں نماید، کجا میں زند۔
یعنی تیر چلانے والا بظاہر کسی اور طرف نشانہ لگاتا ہے، لیکن وہ اپنے تیر سے جس کو مارنا چاہتا ہے، وہ کوئی اور ہوتا ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو جانے کہ آدمی جب بھی کوئی بات کہتا ہے تو اس سے پہلے وہ سوچتا ہے۔ سوچنا پہلے ہوتا ہے، اور بولنا اس کے بعد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات جو آدمی بولتا ہے، اس کے ذریعہ وہ خود اپنا کردار بنا رہا ہوتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ ہر بولنا ایک عمل ہے۔ بولنے کے دوران آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے، مثبت تعمیر یا منفی تعمیر، کبھی شعوری طور پر اور کبھی غیر شعوری طور پر۔
ہر عورت اور مرد کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مثبت بنیادوں پر تعمیر کرے۔ مثبت بنیاد پر تعمیر وہ ہے جس میں انسان کی نفسیات یا تو اللہ رب العالمین سے تعلق کی بنیاد پر بن رہی ہو، یا انسان سے محبت کی بنیاد پر۔ تعمیر خویش کی یہی اصل بنیادیں ہیں۔ آدمی کو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرکے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اللہ سے تعلق کی بنیاد پر اپنی تعمیر کررہا ہے یا انسان سے خیر خواہی کی بنیاد پر۔ ہر عورت اور ہر مرد کو انھیں دو بنیادوں پر اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

منفی تجربہ

منفی تجربہ (negative experience) صرف منفی تجربہ نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک صدمہ (shock)ہے۔ صدمہ کا تجربہ انسانی ذہن کے لیے ایک فکری طوفان (storm) کے ہم معنی ہوتا ہے، کبھی چھوٹا اسٹارم اور کبھی بڑا اسٹارم۔ منفی تجربہ کے وقت انسان کے ذہن میں طوفان (storm) پیدا ہوتا ہے۔ وہ در حقیقت ایک توانائی (energy) کے اخراج (release) کا واقعہ ہے۔ یہ صدمہ انسان کے لیے مطلق معنوں میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔
اگر آپ اس صدماتی انرجی (shocking energy) کو مثبت رخ پر موڑ سکیں تو ہر صدمہ آپ کے لیے انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ کے سوچنے کی طاقت، آپ کے تجزیہ (analysis)کی طاقت کچھ بڑھ جائے گی۔ آپ کا ذہن غیر تخلیقی ذہن سے بڑھ کر تخلیقی ذہن (creative mind) ہوجائے گا۔ آپ کے ذہن کی ایسی کھڑکیاں کھل جائیں گی، جو اس سے پہلے بند پڑی تھیں۔آپ کسی بھی وقت اس حقیقت کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ نے کسی سے ایک بات کہی۔ وہ آدمی آپ کی بات کو سن کر غصہ ہوگیا۔ اس نے آپ کو اس کا سخت جواب دیا۔ اس وقت آپ جوابی غصہ نہ کریں، اور ٹھنڈے طریقے سے مثبت انداز میں غور کریں۔ آپ بہت جلد محسوس کریں گے کہ آپ کی قوت تفکیر بڑھ گئی ہے۔ آپ کے ذہن میں نئے نئے پوائنٹ آرہے ہیں۔ آپ کی بات خود آپ کے لیے زیادہ قابل فہم بن رہی ہے۔ آپ کے ذہن کی تخلیقیت میں اضافہ ہورہا ہے۔
جب بھی آپ کو کسی بات سے صدمہ پہنچے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ آپ چپ ہوجایئے۔ آپ ری ایکشن کے بجائے، خاموشی کا طریقہ اختیار کیجیے۔ آپ ایک شخص پر سوچنے کے بجائے اصل ایشو پر سوچنا شروع کردیجیے، اور پھر جلد آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے آپ کی سوچ کے بند دروازے اچانک کھل گئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اسٹیج کا فتنہ

موجودہ زمانے میں ایک نیا فتنہ پیدا ہوا ہے، جس کو اسٹیج کا فتنہ کہا جا سکتا ہے۔ جس آدمی کے اندر شاندار شخصیت ہو، جو اچھا بولنے کی صلاحیت رکھتاہو، جو لوگوں کو خوش کرنے کا فن جانتا ہو، جو عوام پسند لہجہ میں بول سکے، اس کو فوراً اسٹیج مل جاتا ہے۔ اسٹیج ملتے ہی آدمی کی انا (ego) بوسٹ (boost) ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ واپس لوٹنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔
اسٹیج ایکٹوزم کے بظاہر دوسرے بہت سے فائدے ہیں— عوامی مقبولیت، ہر جگہ پذیرائی اور ہر قسم کے دنیوی ساز و سامان، وغیرہ۔ یہ چیزیں اس کے اندر مصنوعی شخصیت بنانے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسی میں کنڈیشنڈ ہوجاتا ہے۔ جب یہ درجہ آجائے تو اس کے اندر محاسبہ کا ذہن ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں درست راستے پر ہوں۔ مجھے اپنے اندر کوئی تبدیلی لانے کی ضرورت نہیں۔
جو آدمی مین آف اسٹیج (man of stage)بن جائے، وہ بظاہر کامیاب نظر آتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ سب سے زیادہ ناکام انسان ہوتا ہے۔ اس کے اندر تنقید سننے کامزاج ختم ہوجاتاہے۔ اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رک جاتا ہے۔ وہ تخلیقی فکر(creative thinking) کے قابل نہیں رہتا۔ وہ صرف آج (today) میں جینے لگتا ہے، کل (tomorrow) کی سوچ اس کے اندر ختم ہوجاتی ہے۔ وہ دوسروں کے اندر جینے لگتا ہے، خود اپنے آپ میں جینا کیا ہے، وہ اس سے نا آشنا ہوجاتاہے۔
ایسا آدمی بظاہر پاتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک محروم انسان ہوتا ہے۔ اس کو ہر جگہ انسانوںکی بھیڑ ملنے لگتی ہے، لیکن فرشتوں کی صحبت اس کو حاصل نہیں ہوتی۔ وہ مادی اعتبار سے بھر پور ہوتا ہے، لیکن روحانی (spiritual) اعتبار سے وہ ایک خالی انسان ہوتا ہے۔ وہ بظاہر سب کچھ ہونے کے باوجود حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں

سمجھدار انسان

سقراط (Socrates ) 399 قبل مسیح کا مشہور یونانی فلسفی ہے۔ اس کی زبان یونانی زبان تھی۔ اس کے ایک قول کا عربی زبان میں اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے:الإنسان الذکی یتعلم من کل شیء ومن کل أحد۔ یعنی سمجھ دار انسان ہر چیز سے ، اور ہر ایک سے سیکھتا ہے۔
سمجھدار (ذکی)انسان وہ ہے جو ذہنی اعتبار سے ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ جو ذہنی ارتقا کے مراحل کو طے کرچکا ہو۔ ایسے آدمی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کی اخذ (grasp)کی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ باتوں کو سنتے ہی اس کے گہرے مفہوم تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ ظاہری معنی سے گزرکر بات کے گہرے پہلوؤں کو دریافت کرلیتا ہے ۔
کوئی آدمی سمجھدار کیسے بن سکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ آدمی اپنی کمیوں کو دریافت کرنے کا زیادہ سے زیادہ شائق بن جائے۔ اپنی کمیوں کو دریافت کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تعلم (learning) کی صفت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آدمی کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ کسی نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر دوسروں سے سیکھنے لگتا ہے۔ کسی قسم کی بڑائی کا جذبہ اس کے لیے ذہنی ترقی میں رکاوٹ نہیں رہتا۔ وہ اتنا زیادہ متلاشی (seeker) بن جاتا ہے کہ جب بھی کوئی وزڈم کی بات اس کے سامنے آتی ہے، تو وہ کسی رکاوٹ کے بغیر فوراً اس کو قبول کرلیتا ہے۔
نفسیاتی رکاوٹ یہ ہے کہ آدمی کے اندر یہ ذہن بن جائے کہ وہ جانتا ہے۔ یہ ذہن مزید سیکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے، جو اپنے’’نہیں‘‘ کو جانے۔ جو آدمی ’’نہیں‘‘ کو جانے گا، وہ گویا پیشگی طور پر وزڈم کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایسا آدمی ہر ایک سے سیکھے گا، ایسا آدمی ہر تجربے سے سبق حاصل کرے گا، ایسا آدمی ’’میں جانتا ہوں‘‘کی نفسیات سے پاک ہوگا۔ اس لیے وہ ہر وقت جاننے اور سیکھنے کے لیے تیار رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

لرننگ اسپرٹ

زندگی میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ (learning spirit) ہو۔ جس آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ ہو، وہ برابر ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) کبھی رکتا نہیں۔اس کے ذہنی سفر میںہمیشہ کاما (comma) آتا ہے، نہ کہ فل اسٹاپ(full stop)۔ ذہنی سفر میں رکاوٹ صرف ایک چیز سے آتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ کے اندر غلطی کے اعتراف کا مادہ نہ پایا جائے۔ اپنی غلطی کا اعتراف آدمی کے ارتقائی سفر کو برابر جاری رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر یہ کہنے کی ہمت نہ ہو کہ میں غلطی پر تھا (I was wrong)، وہ کبھی ذہنی ارتقا کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کی کھڑکیاں ہمیشہ کھلی رکھے۔ وہ ہر لمحہ نئی چیز سیکھنے کا طالب بنا ہوا ہو۔ اس قسم کی طلب آدمی کو ذہنی ترقی کے سفر میں آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس، جب آدمی کے اندر سیکھنے کی یہ طلب باقی نہ رہے، تو اس کے اندر جمود (stagnation)پیدا ہوجاتا ہے۔ بظاہر وہ زندہ ہوتا ہے، لیکن اس کی زندگی ایک قسم کی حیوانی زندگی بن جاتی ہے، نہ کہ صحیح معنوںمیں انسانی زندگی۔
جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کے ذہنی ارتقا کا سفر بلاروک ٹوک برابر جاری رہے۔ ا س کو اپنے ذہن کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ اس کو اسپرٹ آف لرننگ میں جینا چاہیے۔ اس کو کسی نئی بات کو لینے میں کبھی ہچکچانا نہیں چاہیے۔ خواہ وہ بات اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اسپرٹ آف لرننگ کی ایک پہچان یہ ہے کہ آدمی کم بولے اور زیادہ سنے ۔ وہ مونو لاگر (monologuer) نہ ہو، بلکہ وہ ڈائیلاگر (dialoguer) ہو۔ وہ جب کوئی نئی بات سنے تو وہ اس کو رد کرنے کے جذبے سے نہ سنے، بلکہ اس کو سننے کے بعد وہ اس پرکھلے ذہن کے ساتھ غور کرے۔ ایسے آدمی کی پہچان یہ ہے کہ وہ بولے کم ، اور سوچے زیادہ۔
پختگی یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر قابو پالے اور اختلافات کو تشدد اور تخریب کے بغیر دور کرسکے۔ پختگی تحمل اور برداشت کا نام ہے اور اس صلاحیت کا کہ وقتی خوشی کو دیر طلب مقاصد کے لیے قربان کردیا جائے۔ پختگی اس استعداد کا نام ہے کہ کسی تلخی کے بغیر، ناخوش گوار اور مایوس کن حالات کا مقابلہ کیاجائے۔ پختگی انکساری کا نام ہے۔ ایک پختہ شخص یہ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ ’’میں غلطی پر تھا‘‘۔ پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی ان چیزوں کے ساتھ پُر امن طورپر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔
Maturity is the ability to control anger, and settle differences without violence or destruction. Maturity is patience, the willingness to give up immediate pleasure in favour of the long-term gain. Maturity is the capacity to face unpleasantness and disappointment without becoming bitter. Maturity is humility. A mature person is able to say, “I was wrong”. Maturity is the ability to live in peace with things we cannot change.
پختگی در اصل حقیقت واقعہ کے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ وہ ساری صفتیں جن کو پختگی کہا جاتا ہے وہ سب حقیقت واقعہ کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت واقعہ کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کو جانے کہ کہاں اس کی حد ختم ہوتی ہے اور کہاں سے دوسری طاقتوں کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اُس کے لیے ممکن ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں۔حقیقتِ واقعہ کا اعتراف آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اقدام سے پہلے اُس کے انجام کو سوچے، وہ اپنے عمل کی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں