Pages

Friday 1 July 2022

Al Risala | July - August 2022 (الرسالہ،جولائی، اگست)

4

-اللہ کی محبت

5

- طوفان کا سبق

6

- انسان کا درجہ

7

- ماننے سے پہلے تحقیق

8

- تنقید، تنقیص

9

- ڈی کنڈیشننگ کی ضرورت

10

- ایثارِ نفس

11

- لالچ کا نقصان

12

- اعلیٰ اخلاق

13

- ناپ تول میں فرق کرنا

14

- مشقتوں کے درمیان

15

- مشکل میں آسانی

16

- ایج شاک

18

- الفاظ، الفاظ، الفاظ

19

- مطالعۂ حدیث، شرح مشکاۃ المصابیح

26

- اللہ کی مدد

28

- مستقبل کی دنیا

31

- ذہن سازی، بزور نفاذ

33

- ایک سوال

35

- ڈائری 1986

42

- داعیانہ کردار

48

- خبرنامہ اسلامی


اللہ کی محبت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہےعَنْ أَبِی أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ، قَالَحَبِّبُوا اللہَ إِلَى عِبَادِہِ، یُحِبَّکُمُ اللہُ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7461 )۔ یعنی ابو امامہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہااللہ تعالی کو لوگوں کے نزدیک محبوب بناؤ، اللہ تم لوگوں سے محبت کرے گا۔ایک اور روایت میں یہ اضافہ ہےوَحَبِّبُوا النَّاسَ إِلَى اللہِ یُحْبِبْکُمُ اللہُ (الاولیاء لابن ابی الدنیا، حدیث نمبر 43)۔ لوگوں کو اللہ کے نزدیک محبوب بناؤ، اللہ تم سے محبت کرے گا۔
یہ دراصل دعوت کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوتی کلام کو ایسے انداز میں ہونا چاہیے کہ اس سے لوگوں کے اندر اللہ کی محبت پیدا ہو۔ دعوت کا پر محبت اسلوب بلاشبہ سب سے زیادہ اعلیٰ اسلوب ہے۔ انسان کو پیدا ہونے کے بعد ہر لمحہ خدا کی نعمت کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دریافت کرتا ہے کہ پوری کائنات اس کےلیے کسٹم میڈ بنائی گئی ہے۔ جب انسان اس حقیقت کو دریافت کرے گا تو وہ فطری طور پر اس کائنات کے خالق سے محبت کرے گا۔ خاص طور پر اللہ کی نعمتوں کا ذکر کیا جائے تو بلاشبہ یہ انسان کے اندر اللہ کی محبت جگانے والی باتیں ہیں۔اسی طرح لوگوں کو قرآن کی یہ آیت سنائی جائے قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
اس سے لوگوں کے اندر اللہ کی بے پناہ محبت پیدا ہوگی۔ اس سے لوگوں کے اندر وہ اسپرٹ جاگے گی، جس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے مَا أُحِبُّ أَنَّ لِیَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا بِہَذِہِ الْآیَةِ(مسند احمد، حدیث نمبر 22362)۔ یعنی مجھے پسند نہیں ہے کہ اس آیت کے بدلے میرے پاس دنیا اور دنیا کی ساری چیزیںموجودہوں۔
واپس اوپر جائیں

طوفان کا سبق

30 مئی 2022 کو دہلی میں طوفان آیا، جس کی وجہ سے دہلی میں کافی نقصان ہوا۔ انگریزی روزنامہ ٹائمس ناؤ (Times Now) کی ویب سائٹ پریہ خبر اس عنوان کے تحت شائع ہوئی — شدید بارش اور اولوں کے طوفان نے دہلی اور این سی آر میں تباہی مچائی، بجلی کی سپلائی متاثر، کاریں ٹوٹے ہوئے درختوں کےنیچے دب گئیں
Power outages, cars trapped under fallen trees as heavy rain, hailstorm lash parts of Delhi-NCR (https://rb.gy/or3all)
اسی طرح مئی 2022 میں بہار میں طوفان آیا تھا، اس کی خبر اس طرح آئی تھی بہار شدید طوفان کی زد میں ہے، آسمانی بجلی گرنے سے بھاری نقصان ہوا۔ طوفان سے بہار کے 16 اضلاع میں موجود ہزاروں افراد متاثرہوئے ہیں۔ طوفانی ہواؤں کے باعث درجنوں مکانات تباہ ہوئے جب کہ ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں (www.rb.gy/i20kry)۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے انسان قدرتی آفات کے آگے کتنا بے بس ہوجاتا ہے۔
قدرتی آفات انسان کی نظروں کے سامنے رونما ہوتے ہیں۔وہ گھر جس کو ایک انسان محنت اور محبت سے بناتا ہے، اس کوقدرتی آفات اس طرح تہس نہس کردیتےہیں، جس طرح سرکاری مشنری غیرقانونی طور پر تعمیر شدہ گھروں کو توڑ دیتی ہے، اور انسان بالکل بے بس بنا ہواہوتا ہے، گویا کہ گھر پر اس انسان کا کوئی حق نہ ہو۔ وہ انسان انتہائی بے بسی کے ساتھ اپنے گھر کوٹوٹتے ہوئےدیکھتا رہتا ہے۔
یہ صرف طوفان کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ انسان اگر غور کرے تو وہ ہر اعتبار سے عاجز ہے۔ وہ زمین پر موجود لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا ،یہاں تک کہ لائف سپورٹ سسٹم کے اندر بھی خالی آنکھوں سے نہ دکھائی دینے والا ایک حقیر وائرس (مثلاً کووڈ 19) اس کو بے بس اور لاچار کردیتا ہے۔یہ واقعات سبق دیتے ہیںکہ انسان دنیا کا ماسٹر نہیں ہے، اس دنیا کا ماسٹر اللہ رب العالمین ہے، جو اس کو چلا رہا ہے۔ انسان کے لیےیہی سزاوار ہے کہ وہ اس خالق کے آگے اپنے آپ کو سرینڈر کرے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں

انسان کادرجہ

قرآن کی سورہ التین میں انسان کے بارے میں ایک فطری قانون بیان کیا گیا ہے۔ بعض تاریخی شہادتوں کو پیش کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہےلَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ فِیٓ أَحۡسَنِ تَقۡوِیمٖ۔ ثُمَّ رَدَدۡنَٰہُ أَسۡفَلَ سَٰفِلِینَ۔ إِلَّا ٱلَّذِینَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ فَلَہُمۡ أَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُون ( 95:4-6)۔ یعنی، ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال کیے تو ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجرہے۔
قرآن کی ان آیتوں میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے امکان(potential) کے اعتبار سے اعلیٰ ترین مخلوق کادرجہ رکھتا ہے۔کوئی انسان، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس دنیا میں جب آتا ہے، تو وہ لامحدود امکان (unlimited potential) لے کر آتا ہے۔ مگر اس امکانی درجہ تک صرف وہ لوگ پہنچیں گے جو خدا کے تخلیقی اسکیم کو شعوری طور پر سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں۔ جو لوگ ایسا نہ کر سکیں وہ سارے امکان کے باوجود محرومی کا کیس بن کررہ جائیں گے۔
امکان خدا کا عطیہ ہے ۔ لیکن امکان کو پہچاننا، اور اس کوواقعہ بنانا ہمیشہ انسان کا اپنا کام ہوتا ہے۔ جو آدمی اپنے ذاتی حصہ کی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام رہے وہ ہمیشہ کے لیے ناکام ہو گیا، کوئی دوسری چیز اس کو اس انجام سے بچانے والی نہیں۔ انسان کو صرف اس اِمکان کو پہچاننا ہے ۔ پہچاننے کے بعد اس کے امکانا ت فطرت کے زور پر اَن فولڈ (unfold) ہونے لگتے ہیں، اور یہ سلسلہ تاعمر جاری رہتا ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
اپنے امکان کو واقعہ بنا نے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی غور وفکر کے ذریعہ اپنے بارے میں تخلیق کے نقشہ کو سمجھے۔ پھر وہ اس تخلیقی نقشہ سے کامل رعایت کرتے ہوئے اس کے مطابق اپنی عملی سرگرمیاں جاری کرے۔ وہ حق اور ناحق میں فرق کرنا جانے ، وہ ناحق سے دور رہتے ہوئے اپنے آپ کو حق کا پابند بنائے۔
واپس اوپر جائیں

ماننے سے پہلے تحقیق

قرآن کی سورہ الحجرات میں اجتماعی زندگی کے بارے میں ایک اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ کسی بات کو صرف سن کر نہ مان لیا جائے۔ مذکورہ آیت کاترجمہ یہ ہے’’ اے ایمان والو، اگرکوئی فاسق تمہارے پاس خبرلائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلیاکرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کونادانی سے کوئی نقصان پہنچادو، پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتا نا پڑے‘‘(49:6)۔
لوگ جب مل جل کر رہتے ہیں تو اجتماعی زندگی کے نتیجہ میں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک کو دوسرے کی طرف سے بار بار خبریں پہنچتی ہیں۔ ان خبروں پر سننے والے کاردعمل کیا ہونا چاہیے اسی کی با بت ایک اصول مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ سننے والا جب کسی بات کو سنے تو ماننے سے پہلے اس کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بغیر صرف سننے کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کی جائے۔
تجربہ بتا تا ہے کہ اکثرایک کی بات دوسرے تک صحیح شکل میں نہیں پہنچتی ۔ بات کو پہنچانے والا درمیانی شخص اکثربات کو بدل دیتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر بات کاایک بیک گرائونڈیا موقع ومحل ہوتا ہے۔ مگر بات کو نقل کرنے والا اکثرایسا کرتا ہے کہ وہ بیک گرائونڈ کو بتائے بغیر مجردشکل میں بات کو بیان کر دیتا ہے۔ اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بات اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے کچھ ہوتی ہے اور سننے والے تک پہنچ کر وہ کچھ اور ہوجاتی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر سننے والا آدمی غلط رائے قائم کرتا ہے اور غلط اقدام کر ڈالتا ہے جس کانتیجہ آخر کار اس صورت میں نکلتا ہے کہ آدمی اپنے کیے پر شرمندہ ہوتا ہے، حالاں کہ اب وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
یہ مسئلہ ہر سماج میں پیش آتا ہے۔ اس کاحل صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر یہ مزاج بنائے کہ وہ صرف سن کر کسی بات کو نہ مان لے۔ ماننے سے پہلے وہ ضروری تحقیق کرے۔ اور اگر وہ تحقیق نہیں کر سکتا تو ایسی حالت میں اس کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ سنی ہوئی بات کو بھلا دے۔ وہ اس پر نہ کوئی رائے قائم کرے اور نہ اس کی بنیاد پر کسی اقدام کامنصوبہ بنائے۔
واپس اوپر جائیں

تنقید، تنقیص

قرآن کی سورہ الحجرات میں اجتماعی زندگی کےکچھ آداب بتائے گئے ہیں۔ اس آیت کاترجمہ یہ ہے’’ اے ایمان والو، نہ مرددوسرے مردوں کامذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کامذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو‘‘۔(49:11)
قرآن کی اس آیت میں اس اجتماعی مسئلہ کاذکر ہے جو اکثر ایک اور دوسرے کے درمیان اختلاف کی صور ت میں پیدا ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اختلاف پیش آتے ہی دوسرے کو غلط اور اپنے کو صحیح سمجھ لیتے ہیں۔ اس نفسیات کے تحت یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کامذاق اڑانے لگتا ہے۔ وہ اس کی طعنہ زنی کرتا ہے۔ وہ اس کو برے نام سے پکار نے لگتا ہے۔ وہ اس کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ چیزیں سماج کے اندرنفرت پیدا کردیتی ہیں۔خوشگوار باہمی تعلقات کاخاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہ ایک سماجی بگاڑ ہے جس کا برانتیجہ ہر ایک کو بھگتنا پڑتا ہے۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ لوگ صرف رایوں کے اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے کی ذات کے بارے میں برا گمان قائم نہ کریں۔ اختلاف کے وقت لفظی ریمارک دینے سے مکمل پر ہیز کریں۔ اس کے بجائے وہ ایسا کریں کہ جب کسی سے اختلاف پیدا ہو تو سنجید گی اور غیر جانبداری کے ساتھ اس پر غور کریں اور پھر اپنی بات کو دلیل کے انداز میں بیان کریں۔ علمی تنقید میں کوئی حرج نہیں ،مگر کسی کی ذات کی تنقیص یقینی طور پر بری چیز ہے اور انسان کی اجتماعی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
اجتماعی زندگی میں لوگوں کا سابقہ ایک دوسرے کے ساتھ جس چیز میں پڑتا ہے وہ زبان ہے۔ زبان کا غلط استعمال آپس میں تلخی پیدا کر دیتا ہے اور زبان کا درست استعمال آپس میں محبت کو بڑھاتا ہے۔ زبان سے آدمی صرف کچھ الفاظ بولتا ہے مگر یہ الفاظ عملی اعتبار سے بڑے بڑے نتائج پیدا کرتے ہیں، اچھے بھی اور برے بھی ، خواہ خاندانی زندگی ہو یا وسیع ترمعنوں میں سماجی زندگی، ہر جگہ زبان کا استعمال بے حد اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ زبان کے استعمال میں بے حد محتاط رہے۔
واپس اوپر جائیں

ڈی کنڈیشننگ کی ضرورت

قرآن کے مطابق، جنت میں داخلہ ان افراد کو ملے گا، جنھوں نے دنیا میں اپنا تزکیہ کیا ہوگا۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیںوَذَلِکَ جَزَاءُ مَنْ تَزَکَّى (20:76) ۔ یعنی ،اور یہ (جنت) جزاء ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنا تزکیہ کیا۔اس آیت میںجس تزکیہ کا ذکرہے اس کو انسانی زبان میں ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
ڈی کنڈیشننگ دوسرے الفاظ میں سیلف کریکشن (self-correction) کے عمل کا نام ہے۔ آدمی اپنے بچپن اور جوانی کی عمر میں ذہنی اعتبار سے غیر پختہ (immature) ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں وہ تجزیہ کرنے اور صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر آدمی اپنے ماحول کے اعتبار سے متاثر ذہن (conditioned mind)بن جاتا ہے۔اس حقیقت کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان پیدائشی طور پرفطرت صحیحہ پر ہوتا ہے۔ مگر ماحول سے متاثر ہو کروہ غیر فطری زندگی اختیار کرلیتا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔
اس کو نفسیات کی اصطلاح میں کنڈیشننگ(conditioning) کہتے ہیں۔اس کنڈیشننگ کی بنا پر آدمی اس قابل نہیں رہتا کہ وہ چیزوں کو بے آمیز صورت میں دیکھ سکے۔ وہ چیزوں کو ویسانہیں دیکھتا جیسا کہ وہ ہیں۔ بلکہ وہ چیزوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسا کہ اس کاذہن اس کو دکھانا چاہتا ہے۔اس لیے صحیح طرز فکر یاآبجیکٹیو تھنکنگ(objective thinking) کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر آدمی اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے ۔ وہ اپنے ذہن کے اوپر پڑے ہوئے مصنوعی پردوں کو ایک ایک کرکے ہٹادے، اور دوبارہ اپنے آپ کو فطری شخصیت بنائے۔خود احتسابی کایہ عمل ہر آدمی کو لازماً کرنا ہے۔ اس ڈی کنڈیشننگ کے بغیر کوئی آدمی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ وہ حقیقت شناس بنے، وہ چیزوں کے بارے میں بالکل درست رائے قائم کر سکے۔دوسرے الفاظ میں، ڈی کنڈیشننگ کے بغیر کوئی انسان فطری شخصیت یامزکیٰ شخصیت نہیں بن سکتا ۔
واپس اوپر جائیں

ایثارِنفس

قرآن کی سورہ الحشر میں اعلیٰ انسانوں کی صفات بتائی گئی ہیں۔ ان اعلیٰ صفات میں سے ایک صفت ایثارِنفس ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہےوَیُؤۡثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِہِمۡ وَلَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَة (59:9)۔ یعنی، ’’ اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر مقد م رکھتے ہیں۔ اگر چہ وہ خود ضرورت مند ہوں‘‘۔یہ آیت اگرچہ انصارِ مدینہ کے ریفرنس میں ہے، مگر اس کا حکم عام ہے۔
ایثارِنفس ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ ایثارِ نفس کا مطلب ہے ، اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دینا ۔ اپنے حق میں کمی کرکے دوسرے کاحق پورا کرنا۔ یہ صفت ایک فرد کے لیے اعلیٰ انسانیت کامظاہرہ ہے، اور سماجی اعتبار سے وہ سماج کی مجموعی ترقی کا ضامن ہے۔یہی وہ عالی حوصلگی ہے جو کسی گروہ کو تاریخ ساز گروہ بناتی ہے۔
انسانیت کی مجموعی ترقی کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہی صفت ہے۔ جس سماج کے افراد میں یہ مزاج ہو کہ وہ اپنے آپ کو بھلا کردو سرے کی مدد کریں۔ وہ اپنی سیٹ کوخالی کر کے دوسرے کو بیٹھنے کی جگہ دیں۔ وہ دوسرے کی خوبی کا اعتراف کرکے اس کو آگے بڑھائیں تو ایسے سماج میں مجموعی ترقی کا عمل کامیابی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔
جس سماج میں یہ صفت ہو اس میں آپس کی محبت بڑھے گی۔ لوگ ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گے۔ سماج کے لوگوں میں حسد اور بغض اور خود غرضی جیسی برائیوں کی جڑکٹ جائے گی ۔ ایسے سماج میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پرورش پائیں گے ۔ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی ہو گی ۔ ایسا سماج گویا ایک خاندان کی مانند ہو گا جس میں لوگ بھائی بہن کی طرح مل کررہیں گے۔
ایثارِ نفس بظاہر ایک قربانی ہے۔ مگر اسی میں ذاتی فائدہ کا راز بھی چھپا ہوا ہے۔ جو آدمی دوسروں کے ساتھ ایثار کا معاملہ کرے وہ دوسروں کے دل کو جیت لیتا ہے، اور جب دلوں کو جیت لیا جائے تو اس کے بعد کوئی اور چیز جیتنے کے لیے باقی نہیں رہتی۔
واپس اوپر جائیں

لالچ کانقصان

قرآن میں ایک ایسی اخلاقی برائی کی نشاندہی کی گئی ہے جو انسان کی کامیابی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیںفَٱتَّقُواْ ٱللَّہَ مَا ٱسۡتَطَعۡتُمۡ وَٱسۡمَعُواْ وَأَطِیعُواْ وَأَنفِقُواْ خَیۡرًا لِّأَنفُسِکُمۡۗ وَمَن یُوقَ ‌شُحَّ نَفۡسِہِ فَأُوْلَٰٓئِکَ ہُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ (64:16)۔ پس تم اللہ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے۔ اور سنو اور مانو اور خرچ کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اور جو لوگ اپنے جی کے لالچ سے بچا لیے گئے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
شُحّ نفس کا مطلب ہے حرص (greed)، یعنی اپنی ضرورت سے زیادہ کا خواہش مند ہونا۔یہ دراصل دل کی تنگی ہے۔ انسانوں میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ تنگ دل اور فراخ دل۔ تنگ دل انسان وہ ہے جو اپنی ذات کے دائرہ میں محدود ہوکر سوچے۔جس کا مقصد صرف اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا ہو۔ یہی وہ آدمی ہے جو لالچ یا شح نفس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
کوئی شخص جب بھی کوئی فائدہ حاصل کرتا ہے تو وہ سماج کے مجموعی تعاون کی مدد سے حاصل کرتا ہے۔ ایسی حالت میں لالچ یاتنگ دلی کامطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے لیے تو سماج سے لینا چاہتا ہے مگر وہ خود سماج کو دینا نہیں چاہتا ۔ اس قسم کی خود غرضی کبھی کسی کے لیے مفید نہیں ہو سکتی ، نہ فرد کے لیے اور نہ قوم کے لیے۔یہ حقیقت ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہےالْیَدُ ‌الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَى (صحیح البخاری، حدیث نمبر1427)۔ یعنی، دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
اس دنیا میں کامیابی صرف وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو کھلا دل رکھتے ہوں۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ جتنا بڑا دل اتنی بڑی کامیابی ۔ بڑے دل والا آدمی اس بات کا حوصلہ رکھتا ہے کہ وہ دوسروں کی رعایت کرے۔ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچا کر خوش ہو۔ وہ شکایت کے باوجود دوسروں کے ساتھ بہتر معاملہ کرے۔ وہ معاملات کو بلند سطح سے دیکھے ۔ جس آدمی کے اندر یہ اعلیٰ صفات ہوں وہ لوگوں کے درمیان باعزت درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ اور جو آدمی دوسروں کے درمیان باعزت درجہ حاصل کرلے اس کی کامیابی کوکوئی روکنے والانہیں۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ اخلاق

سورہ القلم میں اعلیٰ اخلاق اور بلند کر دار اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اس کو انسانیت کا اعلیٰ مرتبہ قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیںوَإِنَّکَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ(68:4)۔ یعنی، اور بے شک تم ایک اعلیٰ اخلاق پر ہو۔
افراد کے اندر اچھا اخلاق ہونا کسی سماج کو اچھا سماج بناتا ہے۔ اور افراد کے اندر برا اخلاق ہونا کسی سماج کو برا سماج بنا دیتا ہے۔ اخلاق دراصل، داخلی احساس کا خارجی اظہار ہے۔ داخلی سطح پر کوئی انسان جیسا ہوگا، اُس کا اثر اس کے خارجی برتاؤ پر پڑے گا۔
اس آیت میں بظاہر رسول سے خطاب ہے ۔مگر وہ ہر انسان کے لیے ایک عمومی تعلیم ہے۔ وہ ہر انسان کو اعلیٰ انسان بننے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کرعمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی اور بھلائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی ، بلکہ وہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے۔ خواہ دوسرے اس کے ساتھ برائی ہی کیوں نہ کررہے ہوں۔
اعلیٰ انسان کا اخلاق یہی دوسرااخلاق ہوتا ہے ۔ اس قسم کااخلاق کسی انسان کے بارے میں یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک بااصول انسان ہے۔ ایسا اخلاق اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کی شخصیت حالات کی پیداوار نہیں بلکہ وہ خوداپنے اختیار کردہ اعلیٰ اصول کی پیداوار ہے۔ جس انسان کے اندر اس قسم کا اعلیٰ اخلاق ہو وہی حقیقی انسان ہے اور جس آدمی کے اندریہ اعلیٰ اخلاق نہ پایاجائے وہ انسان کی صورت میں ایک حیوان ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
اعلیٰ اخلاق کی صفت انسان کو حیوان سے جد اکرتی ہے۔ حیوان مساویانہ اخلاق کی سطح پر جیتے ہیں۔ کوئی ان کو نہ چھیڑے تووہ بے ضرررہیں گے اور اگر کوئی ان کو چھیڑدے تو وہ اس کے لیے ضرر رساں بن جائیں گے۔ اعلیٰ انسانی اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویہ سے بلند ہو کر اپنا رویہ بنائے۔ دوسرے لوگ خواہ اس کے ساتھ اچھے نہ ہوں مگر وہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے۔
واپس اوپر جائیں

ناپ تو ل میں فرق کرنا

قرآن کی کچھ آیتوں میں زندگی کی ایک حقیقت کوبیان کیا گیا ہے۔ ان آیتوں کے الفاظ یہ ہیں وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِینَ ۔ ٱلَّذِینَ إِذَا ٱکۡتَالُواْ عَلَى ٱلنَّاسِ یَسۡتَوۡفُوْنَ ۔ وَإِذَا کَالُوہُمۡ أَو وَّزَنُوہُمۡ یُخۡسِرُونَ(83:1-3)۔ یعنی، خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورالیں۔ اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو گھٹا کر دیں۔
قرآن کی ان آیتوں میں ناپ اور تول کی مثال سے ایک سماجی برائی کی نشاندہی کی گئی ہے۔قرآن میں اس کو تطفیف کے لفظ میں بتایا گیا ہے ۔ اس میں اس کردار کاذکرہے جس کایہ حال ہو کہ اس کو جب اپنے لیے لینا ہو تو وہ بھر پور طور پر لے۔ اور جب دوسروں کو دینا ہو تو وہ کمی کرکے دوسروں کو دے ۔ یہ تفریق ایک ایسی اخلاقی برائی ہے جو آدمی کو تباہی کے سواکہیں اور نہیں پہنچاتی۔
اس معاملہ کا تعلق زندگی کے تمام پہلوئوں سے ہے۔ مثلاً خوداپنی تعریف سننے کا حریص ہونا مگر دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنے میں بخل کرنا۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے خوب ہوشیار ہونا مگر دوسروں کے مفاد کو سمجھنے کے لیے نادان بن جانا ۔ معاملات میں اپنے لیے رعایت چاہنا اور دوسروں کو رعایت دینے کے لیے تیار نہ ہونا۔ اپنی ذات کے معاملہ میں حساس ہونا اور جب معاملہ دوسروں کا ہو تو بے حس بن جانا۔ اپنے لیے انصاف چاہنا اور دوسروں کے ساتھ بے انصافی پرراضی رہنا۔ یہ تو جاننا کہ مجھے کیا پسند ہے ، مگر دوسروں کی پسند اور ناپسند کے بارے میں بے خبر رہنا۔ اپنی عزت خطرہ میں ہوتو اس کو برداشت نہ کرنا مگر دوسروں کی عزت پر حملہ ہو تو اس کے بارے میں بے حس بن جانا، وغیرہ۔
اپنے اور غیر میں اس قسم کا ہر فرق تطفیف ہے۔ جس آدمی کے اندر اس قسم کا مزاج ہووہ کبھی ترقی کے اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس قسم کامزاج آدمی کے اندر اعلیٰ صفات کی پرورش میں مستقل رکاوٹ ہے۔ اور جس آدمی کے اندر اعلیٰ صفات کی پرورش رک جائے اس کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی ترقی کے اعلیٰ مراحل طے کرنے سے محروم رہے اور آخر کار وہ اسی حال میں مرجائے۔
واپس اوپر جائیں

مشقتوں کے درمیان

قرآن کی سورہ البلد میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔ اس قانون کا تعلق تمام انسانوں سے ہے، خواہ وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی ، خواہ وہ بظاہر اچھے ہوں یا برے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے ’’ ہم نے انسان کو مشقت میں پیداکیاہے‘‘(90:4)۔
قرآن کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا یا گیا ہے کہ یہاں انسان کے ساتھ بار بار پرمشقت حالات پیش آئیں، اس کو مختلف قسم کی مشکلات سے گزرنا پڑے۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ کسی بھی تدبیر کے ذریعہ اس قانون کو بدلانہیں جا سکتا۔ ہر انسان کو لازماًاس امتحان سے گزرنا ہے۔ اس دنیا میں مشقتوں سے فرار ممکن نہیں۔
یہ ایک عام انسانی تجربہ ہے کہ زندگی مشقتوں سے خالی نہیں ۔ علمی تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہوا ہے ۔ روسی ماہر نفسیات نمیلو(Anton Vitalievich Nemilov, 1879-1942)نے لکھا ہے — یہ ناقابل تصور ہے کہ انسانی زندگی المیہ سے خالی ہو 
Human life is unthinkable without tragedies, without the tragic element. The more highly developed and nearer to perfection man is, the greater are the possibilities for tragic conflicts. (Biological Tragedy of Woman, p. 13-14)
مشقت جب خود فطرت کے قانون کے مطابق ، انسا نی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے تو ہمیں اس کو مان کر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے، نہ کہ اس کا انکار کر کے ۔ زندگی کو اس نہج پر کیوں بنا یاگیا۔ یہ خو دانسان کے فائدے کے لیے ہے۔ مشقتیں انسان کو انسان بناتی ہیں۔ جو انسان مشقتوں کاتجربہ نہ کرے وہ زندگی کی گہری حقیقتوں سے بے خبر رہے گا۔ مشقت ایک کورس ہے جو آدمی کو گہری حقیقتوں سے واقف کراتا ہے۔ وہ آدمی کے چھپے ہوئے امکانات کو ظہور میں لاتا ہے۔ وہ کسی آدمی کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ مشقت زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کے ہم معنی ہے۔ مشقت ہر قسم کی ترقیوں کازینہ ہے، جہاں مشقت نہیں وہاں ترقی بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مشکل میں آسانی

قرآن کی سورہ الانشراح میں موجودہ دنیا میں جاری فطرت کے ایک اٹل قانون کا بیان ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر خاتمہ ایک نئے امکان کو لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں کسی کے لیے کسی بھی حال میں مایوسی کی ضرورت نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کابیان یہ ہے’’ پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘( 94:4-5)۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کے ایک راز کوکھولا گیا ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی مسئلہ کبھی اکیلا نہیں آتا، اس کا حل بھی ساتھ آتا ہے۔ اس دنیا میں ہرڈس ایڈوانٹج (disadvantage) کے ساتھ ایڈوانٹیج (advantage)موجود ہے۔ اس دنیا میں ہر مائنس پوائنٹ (minus point) کے ساتھ پلس پوائنٹ شامل ہے۔ اس دنیا میں ہر نقصان کے ساتھ فائدہ کا ایک امکان چھپا ہوا ہے۔
مشکلات اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی مصیبت یابرائی نہیں، مشکلات انسانی زندگی کے لیے ایک ترقیاتی کورس ہے۔مشکلات انسانی شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔مشکلات کے درمیان انسان کو وہ سبق اور وہ تجربہ حاصل ہوتا ہے جو اس کے ذہنی ارتقاء کے لیے ضروری ہے۔مشکلات انسان کے ذہن کو جگاتی ہیں۔مشکلات انسان کو سنجیدہ بناتی ہیں۔ مشکلات انسان کو حقیقت پسند بنانے کاذریعہ ہیں۔ مشکلات سے گزرنے کے بعد انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں جن کو احتیاط، ضبط نفس، ڈسپلن، احساس ذمہ داری اور اعتراف کہاجاتا ہے۔ جولوگ مشقت کے کورس سے نہ گزریں وہ سطحی انسان بن کررہ جائیں گے۔ ایسے لوگ انسانیت کے اعلیٰ درجہ تک نہیں پہنچ سکتے۔
موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا یا گیا ہے کہ یہاں کوئی حالت یکساں طور پر باقی نہ رہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ہر تاریکی اپنے ساتھ روشنی لے آتی ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اس کوکوئی سٹ بیک (setback) پیش آئے تو وہ نہ گھبرائے اور نہ وہ مایوس ہو۔ اگر وہ اپنے ہوش وحواس کو برقرار رکھے تو بہت جلد وہ دوبارہ اپنے حق میں ایک نیا امکان پالے گا۔ وہ اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرکے دوبارہ ترقی اور کامیابی کی منزل پرپہنچ جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ایج شاک

آئزک نیوٹن ( 1643-1727)کو ایپل شاک کا تجربہ پیش آیا۔ اس تجربے نے اس کو قوت کشش(gravity) کے انکشاف تک پہنچایا۔ یہ انکشاف انسانی تاریخ میں ایک عظیم دریافت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح بڑھاپا کسی انسان کے لیے ایک ایسا شاک ہے، جو اس کی پوری سوچ کو جگا دیتا ہے۔ اس سے آدمی اگر سبق سیکھے تو وہ انسان کو جنت تک پہنچا دےگا ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہےطُوبَى لِمَنْ طَالَ عُمْرُہُ، وَحَسُنَ عَمَلُہُ(الزھد والرقائق لابن المبارک، حدیث نمبر 1340)۔ اس کے لیے خوش خبری ہے، جس کی عمر لمبی ہو، اور اس کے عمل اچھے ہوں۔
انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں اس کے لیے ایک کسٹم میڈ یونیورس موجود ہے ۔ انسان کے لیے آکسیجن کا انتظام ہے، جس کے بغیر اس کی زندگی محال تھی۔ اس کے لیے پانی اور غذائی اشیا فراہم ہورہی ہیں۔ اس طرح کی چیزیں زمین پر اپنے آپ موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ بے شمار چیزیں ہیں، جس کو انسان اپنی عقل اور تجربہ کے ذریعے دریافت کرتا ہے۔ مثلاً کمپیوٹر اور بجلی جیسی سائنسی ایجادات۔
مثلاًسائفَن صفائی کی ایک سادہ تکنیک ہے، جو واش روم میں کوئی مسئلہ پیدا کیے بغیر اس کی گندگی کو پوری طرح صاف کردیتا ہے۔ سائفن جیسی تکنیک جس کی مدد کے لیے زمین میں ایک طرف گریویٹیشنل پل کا نظام موجود ہے، اور دوسری طرف فضائی دباؤ (atmospheric pressure) ہے، جس کی وجہ سے انسان کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ آلودگی سے پاک زندگی گزارسکے۔
Siphon: a tube used to convey liquid upwards from a reservoir and then down to a lower level of its own accord. Once the liquid has been forced into the tube, typically by suction or immersion, flow continues unaided.
پیڑ پودے سے لے کر سائفن (siphon) اور کمپیوٹر تک ہر چیز خالق کی اعلیٰ منصوبہ بندی کی مثال ہے۔ سورج کی روشنی اور چڑیوں کا چہچہانا اور زمین پر اورسمندروں میں قسم قسم کے جاندار، وغیرہ۔ اس قسم کی ان گنت حیات بخش چیزیں اس کائنات میں ہیں، دنیا کا ہر انسان بلا استثنا ہر لمحہ جزئی یا کلی طور پر ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جدید دور میں جس سائنسی برانچ کے ذریعہ ان حقائق کی اسٹڈی کی جاتی ہے، اس برانچ کو ایکولوجی (Ecology)کہتے ہیں۔یعنی وہ سائنسی طریقِ مطالعہ جس میں کسی ماحول میں رہنےوالےجاندار مخلوقات ( بشمول انسان )اور بے جان مخلوق ( پیڑ، پودے، پہاڑ وغیرہ)کے ایک دوسرے پر اثرات اورتعلقات کی تحقیق کی جاتی ہے
Ecology, also called bioecology, bionomics, or environmental biology, study of the relationships between organisms and their environment.
Ecology is the study of organisms and how they interact with the environment around them.
اللہ نے جس عالم کو تخلیق کیا، اس کے ہر جزء پر خالق کی شہادت ثبت (stamped) ہے۔یہ تخلیقات انسان کو اس کے خالق کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کائناتی نشانیوں کے ذریعہ اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ اس کی دریافت اتنی زیادہ گہری ہو کہ وہ أَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأَنّک تَرَاہُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر50) کا کیس بن جائے۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو۔ بات صرف عبادت کی حد تک نہ ہو، بلکہ خدا اس کا واحد کنسرن (sole concern) بن جائے۔وہ ہر چیز میں اللہ کی کار فرمائی کا مشاہدہ کرے۔ اس کے لیے اللہ کا معاملہ صرف رسمی عقیدہ کا معاملہ نہ رہے، بلکہ اللہ اس کے لیےایک زندہ عقیدے کا معاملہ بن جائے۔
مگر انسان ان نشانیوں کے درمیان بے خبری کی زندگی گزارتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہوجاتا ہے، اور پھر بڑھاپا اس کے لیے ایک شاکنگ تجربہ بن کر یاد دلاتا ہے کہ خالق کے کتنے انوکھے انعامات ہیں۔ مگر وہ اس کے ذریعے خدا کو جاننے کے معاملے میں اندھا بہرا بنا رہا ۔ اس کے بعد بڑھاپا آخری وارننگ کے لیے آتا ہے۔ حدیث میں ہےمَنْ عُمِّرَ سِتِّینَ سَنَةً، أَوْ سَبْعِینَ سَنَةً، فَقَدْ عُذِرَ إِلَیْہِ فِی الْعُمُرِ(مسند احمد، حدیث نمبر9251)۔ یعنی جس کوساٹھ سال یا ستر سال کی عمر دی گئی، اس کے لیے عمرکے معاملے میں عذر پورا کردیا گیا۔
جو خدائی نشانیوں (آیات) کے باوجود اس زمین پر بے خبر بنا رہے، اس کے بعداس کے لیے قیامت کا دھماکہ ہے ، جو انسان کوآخری طور پر جگاتا ہے۔ لیکن اس وقت انسان کا جاگنا اس کے کچھ کام نہیں آتا۔ (19 اگست 2020)
واپس اوپر جائیں

الفاظ، الفاظ، الفاظ

کچھ لوگ بولتے ہیں، وہ مسلسل طور پر بولتے ہیں، ان کے الفاظ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ لیکن یہ الفاظ معانی سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں نہ کوئی تجزیہ(analysis) ہوتا ہے، نہ کوئی وزڈم (wisdom) ، نہ کوئی گہری معنویت۔
یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پاس الفاظ کا کبھی ختم نہ ہونے والا ذخیرہ ہوتا ہے، لیکن یہ الفاظ حکمت سے خالی ہوتے ہیں۔ آپ ان کی باتوں کو گھنٹوں سنتے رہیے، لیکن ان کی باتوں میں آپ کو کوئی حکمت یا کوئی لرننگ کی بات نہیں ملے گی۔ حتی کہ آپ اس سے بھی بے خبر رہیں گے کہ انھوں نے کیا کہا۔ ان کی باتوں میں آپ کو کوئی ٹیک اوے (takeaway)نہیں ملے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پاس حافظہ (memory)ہوتا ہے، مگر ان کے پاس دانش مندی (wisdom) نہیں ہوتی۔ ان کے پاس گہرا مطالعہ نہیں ہوتا۔
فارسی کا ایک مثل ہے یک من علم را، دہ من عقل می باید۔ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے ۔یہ بات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی بولنے سے زیادہ سوچے، وہ بولنے سے زیادہ تجزیہ کرے، اس کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) پائی جاتی ہو، وہ نفرت اور تعصب سےخالی ہو، وہ چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے۔اس کے اندر وہ صفت موجودہ ہو ،جس کو حدیث میں دعا کی شکل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاللَّہُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتّباعہ، وأرِنَا البَاطِلَ بَاطِلاً،وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہ، وَلَا تَجْعَلْہُ مُلْتَبِسًا عَلَیْنَا فَنَضِلَّ (تفسیر ابن کثیر، 1/427)۔ یعنی اے اللہ، ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے اوپر مبہم (ambiguous)نہ بنا کہ ہم گمراہ ہو جائیں۔ اسی طرح یہ دعااللَّہُمَّ أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ (تفسیر الرازی، جلد 13، صفحہ 37) ۔ اے اللہ، مجھے چیزوں کو اسی طرح دکھا، جیسا کہ وہ ہیں۔
واپس اوپر جائیں

مطالعۂ حدیث

شرح مشکاۃ المصابیح
0001
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔ اور آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ پس جس آدمی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے۔ اور جس آدمی کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔ (متفق علیہ)
ہر عمل کا ایک ظاہری نقشہ (form) ہوتاہے۔ مگر کوئی عمل صرف اپنے نقشہ یا خارجی صورت کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر عمل کی قیمت اس داخلی کیفیت یا اس قلبی محرک کے اعتبار سے ہوتی ہے جو عمل کے وقت آدمی کے اندر پایا جائے۔ مثلاً ہجرت یا ترک وطن اگر کسی دنیوی مقصد کے لیے ہو تو آدمی کو صرف اس کا مطلوب دنیوی مقصد حاصل ہوگا۔ اور اگر اس کی ہجرت کسی دینی مقصد، مثلاً حق کی اشاعت کے لیے ہو تو ایسی صورت میں آدمی کو حق کی اشاعت کا انعام دیا جائے گا۔
0002
عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتےہیں  ایک دن جب کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، اچانک ایک آدمی ہمارے سامنے آیا، بہت سفید کپڑوں والا اور بہت سیاہ بالوں والا۔ اس کے اوپر سفر کا کوئی نشان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اور ہم میں سے کوئی شخص اس کو پہچانتا نہ تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے گھٹنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے سے ملادیے۔ اور اپنے دونوں ہاتھ آپ کے دونوں زانو پر رکھ دیے۔ اور کہا کہ اے محمد، مجھے اسلام کے بارےمیں بتائیے۔ آپ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوة ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔ اور بیت اللہ کا حج کرو اگر اس کی استطاعت رکھتے ہو۔ آنے والے آدمی نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ ہم کو اس آدمی پر تعجب ہوا کہ وہ پوچھتا بھی ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ آنے والے نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا یہ کہ تم ایمان رکھو اللہ پر اور فرشتوں پر اوراللہ کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور تم ایمان رکھو تقدیر پر ، اس کے خیر پر اور اس کے شر پر۔ آنے والے نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ آنے والے نے کہا کہ اب مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، پس اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ آنے والے نے کہا  اب مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا کہ پوچھا جانے والا اس معاملہ میں پوچھنے والے سے زیادہ باخبر نہیں۔ آنے والے نے کہاکہ پھر اس کی نشانیوں کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا، یہ کہ لونڈی اپنے آقا کو جنم دے۔ اور تم دیکھو کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن والے مفلس، بکریوں کو چرانے والے، عمارتوں پر فخر کررہے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آنے والا چلا گیا۔ میں کچھ دیر وہاں ٹھہرا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اے عمر، کیا تم جانتے ہو کہ یہ آنے والا آدمی کون تھا۔ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ جبریل تھے۔ وہ آئے تاکہ تم کو تمہارا دین سکھائیں (مسلم)۔
یہ حدیث کسی تشریح کے بغیر واضح ہے۔ اس میں احسان کی بابت جو کچھ کہا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ عبادت وہ ہے جب کہ عبادت کے ساتھ گہری معرفت شامل ہو جائے۔ عابد کے اندر خدا کی موجودگی (presence) کا اتنا شدید احساس ہو گویا کہ وہ اس کو براہ راست دیکھ رہا ہے۔ اگر کسی کے اندر یہ اعلی معرفت موجود نہ ہو تو دوسرے درجہ میں یہ ہونا چاہیے کہ اس کو بالواسطہ معرفت کا درجہ حاصل ہو۔ اگر قلبی احساس کے اعتبار سے اس کو خدا کی قربت حاصل نہیں ہے تو وہ سوچ کے اعتبار سے اس کا تصور اپنے ذہن میں قائم کرے۔
اس حدیث میں اللہ رب العالمین کی موجودگی (presence of God) کے دو درجے بتائے گئے ہیں۔ ایک ہے، کیفیت کے درجے میں اللہ رب العالمین کی معرفت، اور دوسرا ہے، علم کے درجے میں یہ سوچ پیدا ہونا کہ میں اگر چہ اللہ کا مشاہدہ نہیں کرسکتا، لیکن اللہ خود اپنے مقام سے مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ وہ مجھ سے کامل طور پر باخبر ہے۔
اسی طرح قیامت کا معاملہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو اس حدیث میں قیامت کی ابتدائی نشانی بتایا گیا ہے۔ وہ علامتیں اگر ظاہر ہوجائیں تو انسان کو کم سے کم یہ کرنا ہے کہ وہ قیامت کے معاملے میں چوکنا ہوجائے۔ وہ مزید اضافے کے ساتھ قیامت کے بارے میں سوچنے لگے۔
0003
مذکورہ حدیث (0002)کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کسی قدر اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اس میں ہے کہ "اور جب تم دیکھو ننگے پاؤں، ننگے بدن، بہرے اور گونگے زمین کے بادشاہ ہیں۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کے بارے میں خدا کے سوااور کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے قرآن کی آیت (31:34)تلاوت فرمائی بیشک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحم میں ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بیشک اللہ جاننے والا، باخبر ہے(متفق علیہ) ۔
اس روایت میں قیامت کی پیشگی نشانیاں بتائی گئی ہیں۔ لوگوں کا شاندار عمارتیں بناکر ان پر فخر کرنا اور عوام کا بادشاہ بن جانا۔ یہ دونوں نشانیاں دراصل صنعتی دور کی پیشین گوئی ہیں۔ جدید صنعتی ترقیوں کے بعد دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا ہے جس کو اقتصادی انفجار (economic explosion) کہاجاسکتا ہے۔ اس انقلاب نے ہر ایک کے لیے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ وہ اپنے لیے پر فخر عمارتیں کھڑی کرسکے۔ اسی طرح جدید انقلابات کے نتیجہ میں وہ چیز ظہور میں آئی ہے جس کو ڈیموکریسی کہاجاتا ہے۔ اس نے پہلی بار یہ کیا کہ عوام کو حاکمیت کا حق دے دیا، جب کہ اس سے پہلے وہ شاہی خاندان کا حق سمجھا جاتا تھا۔
0004
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا۔ اور زکاة ادا کرنا۔ اور حج کرنا۔ اور رمضان کے روزے رکھنا (متفق علیہ)
اسلام کے پانچ ارکان جو حدیث میں بتائے گئے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا ایک ظاہری فارم (form)ہے۔ شہادت کی ظاہری صورت زبان سے کلمہ کے الفاظ کی ادائیگی ہے۔ اسی طرح نماز اور زکاة اور حج اور روزہ کی ظاہری صورتیں ہیں جو کہ معلوم ہیں۔ اسی کے ساتھ ان میں سے ہر ایک کی ایک اسپرٹ یا داخلی کیفیت ہے۔ کلمہ کی داخلی حقیقت یہ ہے کہ آدمی کو شعوری دریافت کے درجہ میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری کی معرفت حاصل ہوجائے۔ اسی طرح نماز کی حقیقت عجز اور خشوع ہے۔ زکاة کی حقیقت دوسرے انسانوں کے حق میں نفع بخشی ہے۔ حج کی حقیقت سارے اہل ایمان کا ایک فکری مرکز سے جڑ جانا ہے۔ روزہ کی حقیقت صبر ہے۔ یہ پانچ چیزیں گویا پانچ روحانی قدریں (spiritual values)ہیں۔ انہیں پانچ خصوصیات کے مجموعے سے وہ زندگی بنتی ہے جس کو اسلامی زندگی کہا جاتا ہے۔
0005
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان کی 70 سے زیادہ شاخیں ہیں۔ ان میں سے اعلیٰ چیز یہ کہنا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سب سے ادنیٰ یہ ہے کہ آدمی راستے کی تکلیف دہ چیز ہٹا دے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (متفق علیہ)
ایک آدمی کو جب ایمان کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کی زندگی کے ہر بڑے اور چھوٹے شعبہ میں اس کا اثر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اللہ کی نسبت سےاس کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ اس کا سینہ اللہ کی صفاتِ کمال کے احساس سے بھر جاتا ہے۔ انسان کے لیے اس کا خیر خواہی کا جذبہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ وہ نامعلوم راہ گیروں کی راہ کی رکاوٹوں کو بھی دور کرنے لگتا ہے۔ اس کی حساسیت اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہو اور صرف اس وقت مطمئن ہو جب کہ وہ اپنی غلطی کی تلافی کرلے۔
0006
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلم وہ ہے جس کی زبان سے اور جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔ اور مہاجر (وطن چھوڑنے والا) وہ ہے جو اس چیز کو چھوڑ دے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے (البخاری) ۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں یہ ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مسلمانوں میں کون بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں (مسلم)۔
ایک شخص جب سنجیدہ طور پر اور شعوری فیصلہ کے ساتھ اسلام کو اختیار کرتا ہےتو اس کے لازمی نتیجہ کے طورپر اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ اب وہ ایک با اصول انسان بن جاتاہے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے ماتحت سمجھنے لگتا ہے، نہ کہ اس سے آزاد۔ یہ تبدیلی اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زبان اور اپنے ہاتھ کا استعمال ذمہ دارانہ طورپر کرے۔ اپنی زبان سے دوسروں کو دکھ پہنچانا یا اپنی طاقت کا بے جا استعمال کرنا اس کو ایسا معلوم ہونے لگتا ہے جیسے کہ یہ دوسروں کے خلاف اقدام نہیں ہے بلکہ خود اپنے خلاف اقدام ہے۔ کیوں کہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ ایسا ہر فعل اس کو خدا کی پکڑ کا مستحق بنا دےگا۔
ہجرت محض ایک مقام کو چھوڑ کر دوسرے مقام پر جانے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیر مطلوب روش کو چھوڑ کر مطلوب روش اختیار کرنے کا نام ہے۔ ہجرت کا انعام اسی شخص کو ملے گا جو ہر اس چیز کو چھوڑ دے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے۔
0007
انس رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (مکمل)ایمان والا نہیں جب تک اس کا یہ حال نہ ہوجائے کہ میں اس کے لیے اس کے باپ اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہوجاؤں (متفق علیہ)۔
ایمان کا یہ فطری نتیجہ ہے کہ آدمی کو پیغمبرخدا صلى اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوجائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان ایک عظیم نعمت ہے جو کسی آدمی کو گمراہی کی تاریکی سےنکال کر ہدایت کی روشنی میں لاتا ہے۔ جو اس کو جہنم کے راستوں سے ہٹا کر جنت کے راستوں پر گامزن کرتا ہے۔ ہدایت کی یہ نعمت کسی آدمی کو براہِ راست آسمان سے نہیں ملتی بلکہ پیغمبر خدا کے ذریعہ سے ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسچا مومن یہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کےپیغمبر کا اس کے اوپر عظیم ترین احسان ہے۔ یہ احساس اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ خدا کے بعد سب سے زیادہ اس کے رسول سے محبت کرے۔ اس کے سینہ میں پیغمبر خدا کی محبت کا لازوال چشمہ جاری ہوجائے۔
0008
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں جس آدمی کے اندر ہوںوہ ایمان کی لذت کو پالے گا۔ جس کے لیے اللہ اور رسول تمام دوسری چیزوں سے زیادہ محبوب ہو جائیں۔ جو کسی بندے سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے۔ جو کفر کی طرف دوبارہ لوٹنے کو اتنا ہی ناپسند کرے جتنا کہ وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے، جب کہ اللہ نے اس کو اس سے بچا لیا (متفق علیہ)۔
ایمان یہ ہے کہ آدمی کو اس سچائی کی معرفت ہوجائے کہ اس دنیا میں خدا کا انکار سب سے بڑی محرومی ہے، اور خدا کا اقرار سب سے بڑی طاقت۔ ایسا ایمان جب کسی انسان کو دریافت کے درجہ میں حاصل ہوتا ہے تو وہ ایک مختلف انسان بن جاتا ہے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ محبوب خدا و رسول بن جاتے ہیں۔ اور اس کے لیے سب سے ناپسندیدہ چیز یہ ہوجاتی ہے کہ وہ دوبارہ سچائی سے محروم ہو کر اس صورتِ حال سے دوچار ہوجائے جس میں وہ پہلے مبتلا تھا۔ اس احساس کی خارجی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ انسانوں سے اس کی محبت اور خیرخواہی تمام تر اسی ایمانی محبت کے تابع ہوجاتی ہے۔
0009
عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھا جو اللہ کو اپنا رب بنانے پر راضی ہوگیا۔ اور اسلام کو اپنا دین بنانے پر اور محمد کو اپنا رسول بنانے پر (مسلم) ۔انسان پیدائشی طورپر سچائی کا متلاشی ہے۔ کسی انسان کی تلاش جب اس کو ایمان تک پہنچاتی ہے تو یہ واقعہ اس کے لیے سب سے بڑی طلب کو پالینے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ وہ خدا کو اور خدا کے رسول کو اور خدا کے دین کو اپنے دل کی گہرائیوں میں اس طرح اتار لیتا ہے جیسے کہ اس کو کوئی بے حد لذیذ چیز مل گئی ہو۔
0010
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ کوئی بھی یہودی یا نصرانی جو میرے پیغام کو سنے پھر وہ مرجائے اور وہ اس پر ایمان نہ لایا ہو جس کو دے کر مجھے بھیجا گیا ہے تو وہ آگ والوں میں سے ہوگا۔ (مسلم)
پیغمبر اسلام کے بعد اب کسی کے لیے نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ آپ پر ایمان لائے ا ور آپ کی بتائی ہوئی تعلیم پر عمل کرے۔ اب پچھلےمذاہب کی آسمانی کتابیں صرف گزری ہوئی تاریخ کا حصہ ہیں، نہ کہ خود انسانوں کے لیے خدا کے دین کا ماخذ۔ کیوں کہ پچھلے نبیوں کی تعلیمات اب صرف محرف (distorted )صورت میں باقی ہیں، جب کہ پیغمبر اسلام کا لایا ہوا دین ہر قسم کی تحریف سے مکمل طورپر پاک ہے۔ دین خداوندی کےغیر محرف ایڈیشن کی موجودگی میں اس کا محرف ایڈیشن اپنے آپ غیر معتبر ہوجاتا ہے
0011
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین قسم کے لوگ ہیں جن کے لیے دوہر اجر ہے۔ اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا پھر وہ محمد پر ایمان لایا۔ اور وہ مملوک غلام جو اللہ کا حق ادا کرے اور اسی کے ساتھ اپنے آقاؤں کا بھی۔ اور وہ آدمی جس کے پاس ایک باندی ہو جس سے وہ تمتع کرتا تھا پھر اس نے اس کی تربیت کی اور اچھی تربیت کی۔ اور اس نے اس کی تعلیم دی اور بہتر تعلیم دی ۔ پھر اس نے اس کو آزاد کیا اور اس سے نکاح کرلیا (متفق علیہ)۔
آدمی ایک کام کو جائز اور درست سمجھ کر اس میں مشغول ہو۔ تو وہ اس سے پوری طرح مانوس ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے کسی نئی نیکی کو دریافت کرنا اور اس کو عملاً اختیار کرنا بظاہر ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔ ایسی حالت میں جو آدمی اپنے مانوس دائرہ سے نکل کر ایک اور نیکی کو دریافت کرے اور اس کو اپنی زندگی میں شامل کرے اس نے گویا حق کے راستے میں دوہری منزلیں طے کیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے آدمی کے لیے دوہرا انعام مقرر کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی مدد

فطرت کا ایک قانون قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہےیَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ (47:7)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جمادے گا۔
اس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاحْفَظِ ‌اللہَ یَحْفَظْک ‌احْفَظِ ‌اللہَ تَجِدْہُ تُجَاہَک (مسند احمد، حدیث نمبر 2669)۔ یعنی اللہ کی حمایت کرو، اللہ تمھاری حفاظت کرے گا، اللہ کی حمایت کرو، تم اس کو اپنے سامنے پاؤگے۔ وفی روایۃاحْفَظِ اللہَ ‌یُکْرَمْ ‌مَا ‌بِک (الاِبانة لا بن بطة، حدیث نمبر 1504)۔یعنی، اللہ کی حمایت کرو، اللہ تم کو عزت عطا کرے گا۔
اللہ کی مدد یا اللہ کی حمایت کا مطلب ہے، اللہ کے مشن کو اپنا مشن بنانا، اور اپنی جان و مال کی طرح بلکہ ان سے بڑھ کر خدائی مشن کی حفاظت و اشاعت کرنا۔ اصل یہ ہے کہ واقعات کو ظہور میں لانے والا خدا ہے۔ مگر وہ واقعات کو اسباب کے پردہ میں ظہور میں لاتا ہے۔ یہی معاملہ دین کا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ باطل کا زور ختم ہو اور حق کو دنیا میں استحکام حاصل ہو۔ مگر اس واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کچھ ایسے افراد درکار ہیں جو اس خدائی عمل کا انسانی پردہ (human face) بنیں۔ یہی وہ معاملہ ہے جس کو یہاں خدا کی نصرت کرنا کہا گیا ہے۔
مجھے اپنی زندگی کا ایک واقعہ یاد آتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے دین کی مدد کے معاملے میں خدا کی مدد کی حقیقت کیا ہے۔ غالباً 1948 کا واقعہ ہے۔ اس کو میں نے اپنی کتاب "قرآن کا مطلوب انسان" میں ان الفاظ میں نقل کیا ہےضلع اعظم گڑھ کے رُوواں نامی بستی کے باہر ایک باغ کے پاس کھلے میدان میں جماعت اسلامی کا ضلعی ماہانہ اجتماع ہورہا تھا۔ ظہر کاوقت تھا۔ اذان ہوچکی تھی، ایک بڑے درخت کے نیچے فرش بچھا ہوا تھا، جہاں کچھ لوگ سنتیں پڑھ رہے تھے، اور کچھ لوگ نماز کے وقت کا انتظار کررہے تھے۔ اتنے میں ایک حادثہ پیش آیا۔ اجتماع کے قریب ایک بڑا سا گڑھا تھا، جس کے عین کنارے سے راستہ گزرتا تھا۔ اس راستہ پر ایک بیل گاڑی جارہی تھی۔ جیسے وہ گڑھے کے کنارے پہنچی، اس کا ایک پہیہ پھسل گیا، اور پوری گاڑی کروٹ ہوکر گڑھے میں اس طرح گرگئی کہ ایک پہیہ اوپر کھڑا تھا، اور دوسرا نیچے دبا ہوا تھا۔ جیسے ہی ہم میں سے کچھ لوگوں کی نظر اس پر پڑی ، وہ اس کی مدد کے لیے دوڑ پڑے۔ گاڑی سامان سے لدی ہوئی تھی۔ بیل بھی گاڑی میں پھنسے ہوئے تھے۔ بظاہر سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ چند لوگ اس مسئلہ کو حل کیسے کرسکیں گے۔ مگر یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا، بلکہ فی الفور اقدام کرنے کا وقت تھا۔ مدد کے لیے آنے والے فوراً بچاؤ کےکام میں لگ گئے۔ کچھ نے نیچے سے زور لگایا، اور کچھ نے اوپر سے پکڑ کر گاڑی کو اٹھانا شروع کیا۔ میں ان لوگوں کے ساتھ تھا، جو گاڑی کو نیچے سے اٹھانے کی کوشش کررہے تھے۔
اس کے بعد ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا۔ یکایک ہم نے دیکھا کہ گاڑی اٹھا کر اوپر رکھ دی گئی ہے۔ چند آدمی جو اس کام میں لگے تھے، ان سب کا متفقہ احساس تھا کہ گاڑی ہم نے نہیں اٹھائی، بلکہ وہ تو کسی اور نے اٹھا کر رکھ دی ہے۔ نیچے ہاتھ دینے والوں کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اوپر سے کوئی اس کو کھینچے چلاجارہا ہے، اور جو لوگ اوپر تھے ان کو ایسا محسوس ہورہا تھا گویا گاڑی نیچے سے اٹھتی چلی آرہی ہے۔
یہ واقعہ واضح (illustrate) کرتاہے کہ خدا کی مدد کا مطلب کیا ہے۔یہ میری زندگی کا ایک حقیقی تجربہ تھا۔ اس سے میں نے دریافت کیا کہ خدا کی نصرت کیسے آتی ہے۔اصل یہ ہے کہ دنیا میں خدا کی جو مدد آتی ہے، وہ ہمیشہ اسباب کے پردے میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اپنی استطاعت کے مطابق پوری تدبیر کرنی پڑتی ہے۔ یعنی کام کو انجام دینے والےبظاہرہیومن فیس (human face) ہوتے ہیں، لیکن باعتبار حقیقت وہ منصوبہ اصلاً فرشتوں کے ذریعے انجام پاتا ہے ۔کیوں کہ یہ فرشتے ہیں، جواللہ کے حکم سے ساری دنیا کا نظام چلارہے ہیں۔
اب اگر کچھ انسان زمانی مواقع کے اعتبار سےخدا کے منصوبہ کو دریافت کریں، اور اس کے لیےجدوجہد کریں تو عین اسی وقت یہ ہوگا کہ خدا کے فرشتےخصوصی طور پروہاں آکراس انسان کی مدد کریں گے۔یہی مطلب ہےانسان کی جانب سے خدا کی نصرت کا، اور خدا کی جانب سے انسان کی مدد کا۔
واپس اوپر جائیں

مستقبل کی دنیا

Emerging New World
موجودہ زمانے میں دو مختلف آئڈیالوجی اُبھری— سیکولرآئڈیالوجی اور مذہبی آئڈیالوجی۔ سیکولرآئڈیالوجی سے مرادوہ آئڈیالوجی ہے جو خالصتاً انسانی عقل (reason) کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ اِس کے مقابلے میں مذہبی آئڈیالوجی ہے، یعنی انسانی اضافوں سے پاک خدائی دین ،جو پیغمبر کی رہ نمائی کے تحت بنی۔ موجودہ زمانے کا یہ ایک عجیب ظاہرہ ہے کہ سیکولر آئڈیالوجی اب اپنی مایوسی کے آخری دور میں پہنچ رہی ہے۔ اِس کے برعکس، تمام قرائن (clues) بتارہے ہیں کہ مذہبی آئڈیالوجی نئی صبح کی مانند انسان کے اوپر طلوع ہونے والی ہے، بلکہ وہ طلوع ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
جدید مادّی ترقیوں کے بعد سیکولر مفکرین نے یہ یقین کرلیا کہ بہت جلد ہمارے سیّارۂ زمین (planet earth) پر وہ بہتر دنیا بننے والی ہے، جس کا خواب ہزاروں سال سے انسان دیکھتا رہا ہے۔ اِس آئڈیالوجی کی ایک نمائندہ کتاب فیوچر شاک (Future Shock) ہے، جس کو اُس کے مصنف الون ٹافلر (Alvin Toffler) نے پہلی بار 1970 میں شائع کیا۔یہ کتاب شائع ہوتے ہی بیسٹ سیلر بن گئی۔اِس کتاب میں مصنف نے یقین کے ساتھ یہ پیشین گوئی کی تھی کہ دنیا تیزی کے ساتھ انڈسٹریل ایج سے ترقی کرکے سُپر انڈسٹریل ایج میں داخل ہونے والی ہے۔ یہ سویلائزیشن کا اعلیٰ ترقی یافتہ مرحلہ ہوگا، جب کہ انسان کی تمام مادّی خواہشیں اپنا مکمل فلفل مینٹ (fulfillment) پالیں گی۔
مگر اکیسویں صدی کاآغاز اِس قسم کے تمام اندازوں کے خاتمے کے ہم معنی بن گیا۔ اب شدت کے ساتھ وہ ظاہرہ پیدا ہوا جس کو گلوبل وارمنگ کہاجاتا ہے۔ انڈسٹریل سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی (pollution) نے سیارۂ زمین پر ایسے حالات پیدا کیے، جب کہ یہ دنیا انسان کے لیے قابلِ رہائش (habitable) ہی نہیں رہے گی۔ میڈیا میں مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ تمام دنیا کے سائنس دانوں نے گہری ریسرچ کے بعد یہ پایا ہے کہ ہماری زمین میں موسمیاتی تبدیلی (climatic change) اِس خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب وہ ناقابلِ تبدیلی (irreversible) ہوچکی ہے۔
یہ سائنس کی زبان میں قیامت کی پیشین گوئی ہے، یعنی زمین پر موجودہ حالات کا خاتمہ اور ایک نئی تاریخ کا آغاز۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (18 نومبر 2007) نے گلوبل وارمنگ کے موضوع پر ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اِس رپورٹ کے عنوان کے لیے اُس نے بامعنی طور پر اِن الفاظ کا انتخاب کیا تھا— قیامت اب زیادہ دور نہیں
Doomsday not Far
یہ صورتِ حال ایک طرف سیکولر آئڈیالوجی کو منسوخ کررہی ہے، اور دوسری طرف وہ ہم کو یہ قرینہ (clue) دے رہی ہے کہ اِس معاملے میں مذہبی آئڈیالوجی زیادہ درست اور مبنی بَرحقیقت ہے۔ مذہبی آئڈیالوجی جو پیغمبروں کے ذریعے معلوم ہوئی، وہ یہ ہے کہ موجودہ سیارۂ زمین اِس لیے بنایا ہی نہیں گیا کہ یہاںانسان اپنے لیے مادی جنت کی تعمیر کرسکے۔ یہاں کے ناقص اسباب یقینی طور پر کسی مفروضہ مادی جنت کی تعمیر میں رکاوٹ ہیں۔
اِس معاملے میں درست اورمطابقِ واقعہ بات یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے تمام اسباب، امتحانی پرچے (test papers) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں جو چیزیں انسان کو ملی ہیں، وہ بطور انعام نہیں ہیں۔ اگریہ چیزیں بطور انعام ہوتیں تو وہ اپنی ذات میںکامل ہوتیں۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، یہاں کی ہر چیز ناقص ہے اور اِن چیزوں کا ناقص ہونا یہ بتاتا ہے کہ یہی نظریہ درست ہے کہ یہ چیزیں امتحانی پرچے کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ انسان کو انعام کے طورپر نہیں دی گئیں۔
یہ قرینہ (clue) یہ ثابت کرتا ہے کہ اِس معاملے میں پیغمبرانہ نظریہ ہی صحیح نظریہ ہے، یعنی یہ کہ موجودہ دنیا غیر معیاری دنیا (imperfect world) ہے۔ اِس کے بعد ایک اور دنیا بنے گی جو اِس دنیا کا معیاری ورزن (perfect version) ہوگا۔ موت کے بعد بننے والی اِس معیاری دنیا میں وہ لوگ جگہ پائیں گے جو موجودہ امتحانی دنیا میںاپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرچکے ہوں۔
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تمام سیکولر فلسفی اور مفکر اور سماجی رہنما ہزاروں سال سے یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ موجودہ دنیا میں منصفانہ سماج (just society) بنائیں، مگر ساری کوششوں کے باوجود اُنھیں کامیابی نہ ہوسکی۔ برعکس طور پر یہ ہوا کہ ساری دنیا میںانارکی اور کرپشن اور استحصال(exploitation) اور بددیانتی پھیل گئی۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں اِس معاملے میںمزید اضافہ ہوا۔ حتی کہ تمام قرائن کے مطابق، اب یہ ناممکن ہوچکا ہے کہ منصفانہ سوسائٹی کی تعمیر کے مقصد کو حاصل کیا جاسکے۔ جدید ترقیوں نے لوگوں کے بگاڑ میں صرف اضافہ کیا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسان کا ضمیر ایک منصفانہ سماج چاہتا ہے۔ یہ ضمیر کبھی ختم نہ ہوسکا۔ یہ ضمیر جس طرح پہلے لوگوں کے اندر موجود تھا، اُسی طرح وہ آج بھی پایا جاتا ہے۔ اب موجودہ حالات میں منصفانہ سماج کا قیام عملاً ناممکن ہوچکا ہے۔ مثلاً موجودہ عدالتی نظام اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ اُس سے اب انصاف کی امید ہی نہیں کی جاسکتی۔ قوانین کی بھر مار کے باوجود صرف بے انصافیوں میںاضافہ ہورہا ہے۔
یہ معاملہ دوبارہ ایک قرینہ (clue) ہے جو پیغمبرانہ تصور کی تائید کرتا ہے، یعنی یہ کہ مجرموں کو سزا دینا اور سچے انسانوں کو اُن کے کیے کا انعام دینا، موجودہ محدود دنیا میں ممکن ہی نہیں۔ انسانی ضمیر کے اِس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک اور دنیا درکار ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں خود خدا ظاہر ہو کر سب کا حساب لے اورانصاف کو قائم کرے۔ یہ صورتِ حال اِس پیغمبرانہ تصور کی تائید کرتی ہے کہ موت کے بعد ایک یومُ الحساب (Day of Judgement) آنے والا ہے۔ اُس وقت خدائی طاقت کے ذریعے منصفانہ سماج کا وہ قیام ممکن ہوجائے گا، جو انسانی طاقت کے ذریعے موجودہ دنیا میں ممکن نہیںہوا تھا۔
پیغمبرانہ آئڈیالوجی کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دَور ہیں— قبل از موت دورِ حیات، اور بعد از موت دورِ حیات۔ اب یہ آخری طورپر ثابت ہوچکا ہے کہ قبل از موت دورِ حیات اپنی محدودیتوں کی وجہ سے اُس کامل دنیا کی تعمیر کے لیے ناکافی ہے جو انسان کا ضمیر چاہتا ہے۔ یہ مطلوب دنیا بلا شبہ بنے گی، لیکن وہ موت کے بعد کے وسیع تر دورِ حیات ہی میں بن سکتی ہے— یہ مطلوب دنیا ایک زیرِ تعمیر دنیا (world in the making) ہے۔ اب وہ دن زیادہ دور نہیں، جب کہ یہ بننے والی مطلوب دنیا مکمل ہو کر ہمارے سامنے آجائے۔
واپس اوپر جائیں

ذہن سازی، بزور نفاذ

عائشہ بنت ابی بکر (وفات 58ھ)کو اسلام کی تاریخ میں خاتون‌ِاوّ‌ل‌(First Lady)کا مقام حاصل ہے۔ وہ خلیفۂ اوّل ابوبکر صدیق کی صاحبزادی تھیں پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ‌محترمہ‌بنیں‌۔وہ قرآن کی ایک بڑی عالمہ تھیں‌۔ علم حدیث میں ان کو مجتہدا نہ مقام حاصل تھا‌۔
عائشہ صدیقہ کوپیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طویل عرصہ تک انتہائی قریبی صحبت کا موقع حاصل ہوا۔چنانچہ انھوں نے بہت سی گہری حکیمانہ باتیں دریافت کیں، ان میں سے ایک یہ ہے۔ عائشہ صد یقہ کہتی ہیں کہ قرآن میں سب سے پہلے وہ سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہو گئے (حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الْإِسْلَامِ)تو حرام اور حلال کے احکام اترے۔ اور اگر پہلے ہی یہ اتر تاکہ تم لوگ شراب نہ پیو تو ضرور وہ کہتے کہ ہم شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر یہ اتر تا کہ تم لوگ زنا نہ کرو تو ضرور وہ کہتے کہ ہم کبھی زنا نہ چھوڑیں گے ( لاَ نَدَعُ الْخَمْرَ أَبَدًا‏وَ لاَ نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا)صحیح البخاری، حدیث نمبر 4993۔
مذکورہ روایت میں بے حد اہم بات بتائی گئی ہے۔یہ روایت بتاتی ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کے لیے اسلام کا طریقہ کیا ہے۔ یعنی وہ طریقہ جس کے ذریعہ کسی معاشرہ میں مثبت اورحقیقی نتائج برآمد کیے جا سکتے ہیں اور انسانی معاشرہ میں حقیقی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ وہ طریقہ ایک لفظ میں یہ ہے کہ پہلے فکری مہم کے ذریعہ افراد کے ذہن کو بدلنا اور پھر قبولیت کے بعداجتماعی سطح پر احکامِ شریعت کو نافذ کرنا۔
عجیب بات ہے کہ یہ حقیقت عائشہ صد یقہ نے پیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالہ صحبت میں جان لی تھی اور امت کو اس سے باخبر کر دیا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما اور مفکرین سارے قرآن و حدیث کو پڑھنے کے باوجوداس اہم حقیقت سے بے خبر رہے اور اب تک بے خبر ہیں ۔ وہ ایک کے بعد ایک مسلم ملکوں میں اقتدار پر قبضہ کر کے اچا نک اسلامی شریعت کے نفاد کی کوشش کررہے ہیں ۔ مگر ہر بار یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ لوگ ، عائشہ صدیقہ کے الفاظ میں،یہ کہہ کرشرعی احکام قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں— ہم (اپنی پرانی روش)کبھی نہ چھوڑیں گے ۔ اس ناکامی کا سبب یقینی طور پر یہی ہے کہ ذہن سازی کا کام کیے بغیر شرعی احکام کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔
معاشرہ کی اصلاح کا نقطۂ آغاز(starting point)کیا ہے۔ اس کو پیغمبر اسلام کے واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ہجرت سے پہلے جب آپ مکہ میں تھے تو وہاں کے سرداروں نے آپ کو حکومت کی پیش کش کی۔انھوں نے کہاکہ اگر تم اس کے ذریعہ سے عزت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا سرداربنالیں گےاور اگر حکومت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپناحاکم بنانے کے لیے تیار ہیں( وَإِنْ کُنْتَ تُرِیدُ مُلکًا مَلَّکْنَاک عَلَیْنَا)۔ آپ نے فرمایا میں تمھارے اوپر حکومت نہیں چاہتا۔ لیکن اللہ نے مجھے تمھاری طرف بطور رسول بھیجا ہے(وَلَکِنَّ اللہَ بَعَثَنِی إلَیْکُمْ رَسُولًا)سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ262-63۔ دوسرے الفاظ میں، تم لوگ میری بات سنو، اور خدا پر ایمان لاؤ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب سے اسلامی تحریک کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی تحریک کا نقطۂ آغاز حکومت یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اسلامی تحریک کا اصل نقطۂ آغاز فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا ہے، ایک ایک فرد کے ذہن کی تشکیل نو (re-engineering of the mind) کرنا ہے۔ اسلامی تحریک کا فارمولا دو نکات (points)پر مشتمل ہے— فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا، اور پولٹکل سسٹم کے معاملے میں حالتِ موجودہ کو تسلیم کر لینا
Change in personality, status quoism in political system
اسلامی تحریک کی یہی فطری ترتیب ہے۔ اگر اِس ترتیب کو بدل دیا جائے، یعنی اگر پولٹکل سسٹم کو بدلنے سے تحریک کا آغاز کیا جائے تو سوسال کی جدوجہد کے بعد بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ فرد کی تبدیلی سے آغاز کرکے نظام کی تبدیلی تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اگر نظام کی تبدیلی سے آغاز کیا جائے تو ایسی تحریک کسی انجام تک پہنچنے والی نہیں۔ ایسی تحریک صرف تباہی میںاضافہ کرے گی، اِس کے سوا اور کچھ نہیں — حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کے بگاڑ کا تعلق سوچ سے ہے۔ اصلاح کا راز یہ ہے کہ انسانی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔ انسانی سوچ کو بدلے بغیر کوئی بھی اصلاح ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک سوال

افغانستان میں طالبان اقتدار حاصل کرنے کے بعدیہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ اسلامی قانون نافذ کریں گے۔ اِس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟(ایک قاری الرسالہ، دہلی)
جواب
موجودہ زمانے میں افغانستان کے مسئلہ کو بہت بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف اِس لیے پیدا ہوا کہ وہاں کے مسلم لیڈروں نے دانشمندی کا طریقہ اختیار نہیں کیا،نہ مذہبی لیڈروں نے اور نہ سیکولر لیڈروںنے۔اگر افغانستان میںسیاسی معاملے میں خیرالشّرَّین(دو برائیوں میں سے کمتربرائی)کو اختیار کرنے کا اصول اپنایا جاتا تو یہ مسئلہ بہت پہلے ختم ہو چکا ہوتا۔ یعنی سیاسی معاملے میں اسٹیٹس کوازم کا طریقہ اختیار کرنا، اور اپنی توانائی کو تخریب کے بجائے تعمیر میں لگانا۔
صحیح البخاری ( حدیث نمبر 4993)میں حضرت عائشہ کا بیان ذکرکیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دلوں کو بدلا، اس کے بعد شرعی قانون پر عمل کرنے کا حکم دیا۔دلوں کو بدلنا یعنی ذہن سازی کرنا۔ افغانستان کے طالبان اِس کے برعکس ، بم اور گن اور بندوق وغیرہ کے ذریعے اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی فرق یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ طالبان اسلامی قانون کے نفاذ میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ وہ اپنی انتہا پسندانہ اور متشددانہ کاروائیوں کے ذریعے افغانستان میں جو چیز لائیں گے ، وہ صرف تباہی ہوگی۔وہ نہ کوئی دینی تربیت کر سکیں گے اور نہ کوئی مادی تعمیر۔
ذہن سازی کے بغیر اگر قانون نافذ کیا جائے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے، اس کو ذیل کے واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔انڈیا کےمشہورانگریزی صحافی مسٹر خشونت سنگھ (1915-2014)نے لکھا ہے کہ میں ہندستان سے پاکستان گیا۔ جب ہمارا ہوائی جہاز لاہور کی فضا میں پہنچا تو جہاز میں اناؤنسر نے اعلان کیا کہ پاکستان میں شراب ممنوع ہے۔ کوئی مسافر شراب کی بوتل کے ساتھ پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتا۔آپ لوگوں میں سے جس شخص کے پاس شراب ہو وہ اس کو جہاز کے عملے کے پاس جمع کردے۔ مسٹر خشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ میرے پاس شراب کی ایک بوتل تھی۔ یہ بوتل میں نے حسبِ اعلان ہوائی جہاز کے عملے کے حوالے کردیا۔ مگر اس کے بعد جب میں لاہور کے اندر داخل ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ بلیک مارکیٹ میں شراب نہایت فراوانی کے ساتھ بک رہی ہے، اور میں بلیک سے جتنی چاہے شراب خرید سکتا ہوں۔
یہ واقعہ میں نےایک عالم دین کو سنایا، اور کہا کہ موجودہ زمانے میں جن مسلم ملکوںمیں شراب بند کی گئی ہے، وہاں اس کا یہی انجام ہوا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے لوگوں کا ذہن بنایا اس کے بعد شراب کی حرمت کا اعلان کیا (مسند احمد، حدیث نمبر 8620)۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں پہلے اس کے موافق ذہنی فضا بنانی پڑے گی۔ محض قانون کے زور پر لوگوں کو شراب نوشی سے روکا نہیں جاسکتا۔
انھوں نے کہا کہ مگر یہ طریقہ ہم کو اسلاف کے یہاں نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال تک قانون ہی کے زور پر شراب کو روکا جاتا رہا۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ پہلے ذہنی فضا بنائی جائے اس کے بعد شراب پر پابندی لگائی جائے۔
میںنے کہا کہ پچھلے زمانے پر موجودہ زمانہ کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ پچھلا زمانہ وہ ہے، جب کہ اسلامی روایات کا تسلسل برابر جاری تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں اسلامی روایات کا تسلسل یکسر ٹوٹ گیا ہے۔ اب دوبارہ وہی ضرورت پیش آگئی ہے، جو رسول اللہ کے زمانےمیں تھی۔ اب ہمیں دوبارہ اسلامی روایات قائم کرنی پڑیں گی، اس کے بعد ہی قانون کا نفاذ مفید ہوسکتا ہے۔ کیوںکہ قانون ہمیشہ روایات کے زورپر نافذ ہوتاہے، اورموجودہ زمانے میں شراب بندی کے قانون کے لیے روایات کا زور موجود نہیں ہے۔
اسلامی مشن کا نشانہ فرد (individual) کو ربانی انسان بناناہے، نہ کہ نظام (system) کو۔ اسلام کا مقصد انسان کا تزکیہ کرکے اس کو جنتی انسان بنانا ہے ، نہ کہ سسٹم کو اسلامائز کرنا۔ مثلاً تقویٰ، معرفت، دعوت، حسنِ اخلاق، خیرخواہی ، وغیرہ کا ذہن انسان کے اندر پیدا کرنا۔ جب انسان کے اندر یہ ذہن پیدا ہوجائے تو وہ خود بخود دوسرے اسلامی احکام کو مان لیتا ہے، جیسا کہ شراب کی حرمت کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ڈائری 1986

18جنوری1986
میری ڈائری میں2جولائی،1983 کی تاریخ میں ایک لمحاتی تجربہ ان الفاظ میں لکھا ہوا ہے آج میں صبح کے وقت دہلی میں اپنے کمرہ کے باہر سورج کی روشنی میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اچانک میرے اوپر وہ تجربہ گزرا، جوگویا ایک حدیث قدسی کی تصدیق تھی۔
یہ قدسی حدیث الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ حدیث کی کئی کتابوںمیں بیان کی گئی ہے۔مثلاً صحیح البخاری، مسند احمد وغیرہ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا‌مَا ‌یَزَالُ ‌عَبْدِی ‌یَتَقَرَّبُ ‌إِلَیَّ ‌بِالنَّوَافِلِ ‌حَتَّى ‌أُحِبَّہُ، فَأَکُونَ أَنَا سَمْعَہُ الَّذِی یَسْمَعُ بِہِ، وَبَصَرَہُ الَّذِی یُبْصِرُ بِہِ، وَلِسَانَہُ الَّذِی یَنْطِقُ بِہِ، وَقَلْبَہُ الَّذِی یَعْقِلُ بِہِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7833)۔ یعنی، میرا بندہ برابر نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہو، پس میں اس کا سمع (کان) بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کی زبان بن جاتاہوں جس سے وہ بولتا ہے، اور اس کا دل بن جاتاہوں، جس سے وہ سمجھتا ہے۔
اس حدیث میں انہی ایمانی کیفیات کو الفاظ کی شکل میں بتایا گیاہے جو ایک مومن بندے پر گزرتے ہیں۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ جیسے ایک لمحہ کے لیے میرا دیکھنا میرے لیے، بلاتشبیہ، خدا کا دیکھنا بن گیا ہے۔مگریہ تجربہ میرے لیے خدا کی ذات پر یقین میں اضافہ کا ذریعہ بن گیا۔میں نے کہا کہ خدایا، میں اپنے عاجز مطلق ہونے اور تیرے قادر مطلق ہونے کا اقرار کرتا ہوں اورتیری ساری صفات پر کامل یقین رکھتا ہوں ۔یہ رمضان1403ھ کی 21 تاریخ تھی۔اس دن شام کو میں نے افطار کرتے ہوئے پانی پیا۔ٹھنڈا شفاف پانی جب میرے حلق سے گزرا تو مجھ پر ایک عجیب لمحاتی احساس طاری ہوا۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ پانی کا گھونٹ میرے لیے ہدایت میں تبدیل ہو گیا۔پانی کا حلق سے اترنا میرے لیے ہدایت اترنے کے ہم معنیٰ بن گیا۔پانی اورہدایت میرے اندر تھوڑی دیر کے لیے ایک ہوگئے۔
ایک صاحب سے ان تجربات کا ذکر ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ وہی ڈاکٹرسی وی رمن (وفات 1970ء) والا معاملہ ہے۔نوبل انعام یافتہ سائنس داں ڈاکٹر رمن سے کسی نے کہا کہ سائنس دانوں کی دریافتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اکثر اتفاقاً ہوئی ہیں۔سائنس داں تجربات کرتا رہتا ہے کہ اتفاق سے کوئی چیز سامنے آ جاتی ہے اور وہ ایک نئی دریافت بن جاتی ہے۔ڈاکٹر رمن نے جواب دیا— ہاں،مگر ایسا اتفاق صرف سائنس دانوں ہی کو پیش آتا ہے
But it only happens to scientists
یہ تجربات اگرچہ لمحاتی ہوتے ہیں۔مگر یہ لمحات اسی شخص پر گزرتے ہیں جو برسوں سے اپنی زندگی اسی رخ پر لگائے ہوئے ہو۔
20جنوری1986
ایک اخبار میں آزادی سے پہلےکی ایک رپورٹ پڑھی کہ 1945 میں جنرل شاہ نواز خان (1914-1983)، کرنل پریم سہگل (1917-1992)،اور کرنل گربخش سنگھ ڈھلوں (1914-2006) گرفتار ہوئے تھے۔ان پر برطانوی راج کے خلاف بغاوت کا الزام تھا۔اس کے بعد مقدمہ چلا جس میں وہ رہا ہو گئے۔لال قلعہ سے رہائی کے بعد صبح سویرے وہ لاہور اسٹیشن پہنچے۔یہ 1946 کا واقعہ ہے۔اس روز لاہور اسٹیشن پر اتنی زبردست بھیڑ تھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔لاہور اسٹیشن کی طرف جانے والی تمام سڑکیں ان لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں جو سہگل ، ڈھلوں اور شاہ نواز کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہو رہے تھے۔جب گاڑی پلیٹ فارم پر رکی تو عوام نے نعرہ لگایا
لال قلعہ سے آئی آواز سہگل ڈھلوں شاہ نواز
تینوں ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ریل کےڈبے سے باہر آئے۔دوسرے ہی لمحے آزاد ہند فوج کے ان جیالوں کو پھولوں کے ہاروں سے اس طرح لاد دیا گیا کہ وہ پھولوں کے تین ڈھیر دکھائی دینے لگے۔سہگل، ڈھلوں،شاہ نواز، ہندوستان میں ہندو،سکھ،مسلم اتحاد حاصل کرنے کے مضبوط ارادے کے علامت تھے۔’’ہندو مسلم سکھ اتحاد‘‘ آزادی سے پہلے کے ہندوستان میںجتنا با معنٰی لگتا تھا آج وہ اتنا ہی بے معنی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی سے پہلے سب کا نشانہ خارجی اقتدار تھا۔آزادی کے بعد سب کا نشانہ داخلی مخالفت بن گیا۔جو لوگ خارجی نشانہ پر متحد تھے وہ داخلی نشانہ پر آتے ہی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔صرف جدا نہیں ہوئے بلکہ آپس میں لڑنے لگے— اس دنیا میں وہی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے جو انقلاب سے پہلے بھی تعمیری نشانہ دیتی ہو اور وہ انقلاب کے بعد بھی لوگوں کو تعمیری نشانہ دے۔ایسی تحریک صرف وہی ہو سکتی ہے جو آخرت کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔
21جنوری1986
20جنوری 1986 کی صبح کو میں انڈین ایئر لائنز کی فلائٹ نمبر439 کے ذریعے دہلی سے حیدرآباد گیا اور 21 جنوری کی شام کوفلائٹ نمبر539 سے واپسی ہوئی۔دہلی سے حیدرآباد جاتے ہوئے جہاز کے اندر حسب معمول اعلانات شروع ہوئے۔اناؤنسر نے دوسری باتوں کے ساتھ کہا— کیپٹن مصطفیٰ جہاز کے پائلٹ ہیں
Captain Mustafa is in command
انڈین ایئر لائنز میں،میںنے بہت سفر کیے ہیں۔ مگر ’’کیپٹن مصطفیٰ‘‘ جیسا لفظ پہلی بار سننے میں آیا۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اب اس ملک کی اعلیٰ سروسوں میں داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔وہ تاریک ماضی سے نکل کر روشن مستقبل کی طر ف بڑھ رہے ہیں۔
جن لوگوں کے پاس مسلمانوں کے بارے میں صرف ’’نکالے جانے‘‘ کی خبریں ہیں، انہیں ’’داخل کیے جانے‘‘ کی خبروںکا بھی اظہار کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو تصویر کا دوسرا رخ معلوم ہو سکے۔ ہندوستان کے مسلم لیڈر ملک کے اندر اور ملک کے باہر صرف ایک ہی بات کرنا جانتے ہیں اور وہ تعصب اور امتیاز ہے۔وہ تصویر کے دوسرے رخ کا مطلق ذکر نہیں کرتے۔قرآن کے الفاظ میں یہ لوگ مطففین ہیں اور خدا کے قانون میں مطففین کے لیے ہلاکت ہے، نہ کہ نجات۔
اس سفر میں حیدرآباد میں ایک تجربہ گزرا جس کے بعد میری زبان پر یہ الفاظ تھے اس دنیا میں آدمی کو مستقبل کی خاطر ماضی کو بھولنا پڑتا ہے۔یہاں آدمی کو سبھی کچھ چھوڑنا پڑتا ہے تاکہ وہ دوبارہ پاسکے۔یہاں رکنا پڑتا ہے تاکہ از سر نو آگے بڑھنے کا راستہ کھلے۔یہاں دینا پڑتا ہے تاکہ دوبارہ اضافہ کے ساتھ مل سکے۔یہاں چپ رہنا پڑتا ہے تاکہ آدمی کوبولنے کے لیے الفاظ مل سکیں۔یہ دنیا کھو کر پانے کی جگہ ہے۔یہاں دے کر لیا جاتا ہے۔
اس سفر میں میرا ایک اورتاثر یہ ہے یہ ممکن ہے کہ آپ کسی چیز پر بلا استحقاق قبضہ کر لیں مگر یہ ناممکن ہے کہ آپ کسی چیز پر اپنے بلا استحقاق قبضہ کو باقی رکھ سکیں۔
22جنوری1986
ایک مقام کے مسلمان نے بتایا کہ ان کے یہاں عیدگاہ کی بنیاد ڈالی جا رہی تھی اور اس موقع پربستی میں شیرینی تقسیم ہونے والی تھی۔مذکورہ مسلمان نور محمد نے اپنے ایک ہندو پڑوسی سے کہا کہ تم بھی چلو اور اپنے حصے کی شیرینی حاصل کرو۔ہندو نے عذر کیا۔بار بار پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم لوگ مسجد اور عید گاہ کی نیو میں گائے کی سینگ ڈالتے ہو اور اس کا بال اس کے اندر دفن کرتے ہو۔ایسی حالت میں ایک ہندو کیسے وہاں جا سکتا ہے۔اس نے مزید کہا کہ عید گاہ کا مطلب ہم کو بتایا گیا ہے’’عید گائے‘‘۔یعنی جس کی بنیاد میں گائے دفن کی جائے وہ عید گاہ ہے۔ایک اور مسلمان نے بتایا کہ مسجد میں اذان ہو رہی تھی۔موذن نے کہا کہ’’اللہ اکبر،اللہ اکبر‘‘۔یہ سن کر ایک ہندو بولامیاں جی،اکبر بادشاہ تو کب کا مر گیا،ابھی تک تم لوگ اسی کو پکارے جا رہے ہو۔
یہ باتیں بظاہر بہت لغو معلوم ہوتی ہیں۔مگر اس کی ذمہ داری کم از کم 50 فیصد خود مسلمانوں پر بھی ہے۔مسلمانوں نے اسلام کا حقیقی تعارف اس ملک کی بڑی آبادی کے سامنے پیش نہیں کیا، مگراپنی جھوٹی سیاست سے ہزاروںانسان کےدلوں میں نفرت پیدا کی۔اسی کی وجہ سے ان کے درمیان ایسے قصے مشہور ہوئے۔جب دو قوموں میں نفرت ہو تو اسی طرح جھوٹی باتیں ایک دوسرے کے خلاف پنپنے لگتی ہیں۔
1947سے پہلے کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے۔ایک کانگریسی مسلمان نے ایک مضمون شائع کیا۔یہ مضمون اصلاً ادب کے موضوع پر تھا۔مگر اس میں ضمناً انگریزی تہذیب کا بھی مذاق اڑایا گیا تھا۔مضمون نگار نے لکھا تھا کہ انگریزی زبان ایسی بری زبان ہے کہ اس میں جاکر سیدھے الفاظ بھی بگڑ جاتے ہیں۔مثلاً الہ آباد انگریزوں کی زبان میں آل بیڈ(Allahbad)بن جاتا ہے اور لالہ ان کی زبان میں پاپی(Poppy) کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
دوسروں کےبوائق (شر)سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی سب سے آسان تدبیر یہ ہے کہ اپنے بوائق سے دوسروں کو محفوظ رکھا جائے۔اس معاملہ میں شکایت اور احتجاج سے کوئی فائدہ نہیں۔
23جنوری1986
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی بربادی کی واحد سب سے بڑی وجہ ان کا جھوٹا فخر ہے۔موجودہ زمانہ میں مسلمان دوسروں سے پیچھے ہو گئے۔وہ دور جدید میں ترقی کی بنیاد کھو بیٹھے۔مگر شاعروں اور خطیبوں نے انہیں جھوٹے فخر کی غذا دے کر مدہوشی میں مبتلا کردیا۔ظفر علی خان نے مولانا حالی کے خلاف بہت سی نظمیں لکھی تھیں۔ایک بار انہوںنے لکھا
ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے میدان پانی پت کی طرح پائمال ہے
حالی چونکہ پانی پت کے رہنے والے تھے اسی لیے ردیف و قافیہ ملا کر ان کے خلاف ایک شعر تیار ہو گیا۔انہی ظفر علی خاں کا ایک شعر ہے
چلے ہم لکھنؤ سے بارہ بنکی مسلماں سیر ہیں ہندو چھٹنکی
حقیقت کے اعتبار سے معاملہ اس شعر کے بالکل برعکس ہے۔مگر بارہ بنکی اور چھٹنکی (چھٹانک بھر ، معمولی، حقیر) کا قافیہ شاعر کے لیے کافی ہو گیا کہ وہ حقیقت واقعہ کے خلاف ایک بات ثابت کر کے لوگوںسے خراج تحسین حاصل کر سکے۔
24جنوری 1986
برادرم جناب محسن عثمانی صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوںنے ایک صاحب کا تاثر بیان کیا۔یہ تاثر انہیں کے الفاظ میں یہ تھا— ’’دوسرے علما کی تحریروں سے اسلاف پر اعتماد پیدا ہوتا ہے اوروحیدالدین خاں کی تحریروں سے اسلاف پر بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے‘‘۔
میں نے کہا کہ یوں نہ کہیے۔ بلکہ اس طرح کہیے— ’’دوسرے علما کی تحریریں اسلاف تک پہنچا کر چھوڑدیتی ہیں اور وحیدالدین کی تحریریں آدمی کو آگے خدا تک لے جاتی ہیں‘‘۔
دور زوال میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ قومیں خدا سے کٹ کر اپنے افراد پر اٹک جاتی ہیں۔وہ اپنے بزرگوں میں جینے لگتی ہیں۔بزرگوں کا تذکرہ، بزرگوں کی عظمت سے فخر کا جذبہ لینا،بزرگوں کی کہی ہوئی باتوں سے وابستہ ہو جانا،یہی بعد کے لوگوں کا دین ہوتا ہے۔ایسی حالت میں جب ان کے سامنے براہ راست خدا کی بڑائی بیان کی جاتی ہے اور ان کو براہ راست قرآن و سنت کی طرف بلایا جاتا ہے تو ایسے لوگ اس قسم کی باتوں سےاجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ایسا دین ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ میں اپنی تحریروں میں اپنی ذات کی طرف نہیں بلاتا بلکہ خدا کی طرف بلاتا ہوں۔پھر لوگوں کو کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی غلطی ہے۔کیا خدا کی طرف بلانا بھی ایسی چیز ہے جس میں کوئی غلطی ہو؟
25جنوری1986
آج پرنسپل نفیس احمد صدیقی(نظام الدین ایسٹ) تشریف لائے۔ان کے پاس السٹریٹڈ ویکلی (دسمبر1985) کی کاپیاں تھیں جن میں مسٹر ارون شوری (پیدائش 1941)نے مسلم پرسنل لا پر تین قسطوں میں مضمون شائع کیا ہےاور شاہ بانو کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کودرست ثابت کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ شاہ بانو کو طلاق کے بعد ان کا شوہر پانچ سو روپے ماہانہ مستقل گزارہ دے۔
میں نے کہا کہ اس معاملے میں رائے قائم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ایک نقلی ، دوسرا عقلی۔ نقلی اعتبار سے طلاق کے بعد گزارہ دینے کا اصول قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔قرآن اور حدیث میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔تمام فقہا اس پر متفق ہیں کہ طلاق سے پہلے عورت کے لیے نفقہ ہے اور طلاق کے بعد عورت کے لیے متاع۔
شریعت میں نفقہ کا لفظ مینٹیننس(Maintenance)کے لیے ہے اور متاع کا لفظ پراوزن (Provision)کے لیے۔مگر ایک مولوی آدمی مینٹیننس کو وقتی رقم اور پراوزن کو مستقل گزارہ کے معنی میں بولے تو انگریزی داں طبقہ اس کا مذاق اڑائے گا۔مگر عربی الفاظ(نفقہ اور متاع) کے سلسلے میں انگریزی داں حضرات یہی غلطی کر رہے ہیں۔وہ قرآن سے متاع کا لفظ لیتے ہیں اور اس کو اس مفہوم میںاستعمال کرتے ہیں جس کے لیے شریعت میں نفقہ کا لفظ آیا ہے۔
دوسری بات میں نے یہ کہی کہ عقلی معیار پر ان حضرات کا نقطۂ نظر درست ثابت نہیں ہوتا۔جدید مغربی دنیا نے اس اصول کو اختیار کیا کہ مرد پر لازم ہے کہ وہ طلاق کے بعد بھی اپنی سابقہ بیوی کو گزارہ دے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی سوسائٹی میںپچاس فیصد سے زیادہ لوگ بے نکاح عورتوں کے ساتھ رہنے لگے تاکہ علیحدگی کی صورت میں وہ عورت کو گزارہ دینے کے قانون سے بچ جائیں۔ یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ طلاق کے بعد گزارہ کو لازم قرار دینا مسئلہ کو ختم نہیں کرتا بلکہ وہ مسئلہ کو اور بڑھا دیتا ہے۔
26جنوری 1986
عبداللہ مصطفی صاحب ایک امریکی نو مسلم ہیں۔ان کا سابق نام اسٹیواسکلر تھا اور ان کا سال پیدائش1947ہے۔انہوں نے 1969میں اسلام قبول کیا۔اسلام قبول کرنے کے بعد وہ گیارہ سال تک مختلف مسلم ملکوں کا سفر کرتے رہے۔اسی درمیان میں انہوں نے عربی اتنی سیکھ لی کہ وہ عربی زبان میں بخوبی گفتگو کر سکتے ہیں۔وہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں سے بے حد شاکی ہیں۔میں نے پوچھا کہ مسلم ملکوں کا سفر کرنے کے بعد آپ کا آخری تاثر کیا تھا۔انہوں نے جواب دیاکہ (مسلمانوں کو دیکھ کر) میں بہت زیادہ دل شکستہ ہوگیا تھا، یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ میں اسلام سے نکل جاؤں گا
کنت محزوناً جداً حتی ظننت ان اخرج من الاسلام
ان کا خیال ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا اصل مرض پیرانوئیا (paranoia)ہے۔یعنی جھوٹی بڑائی کا جنون۔مسلمان فرضی طور پر اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں اور جب دنیا ان کی فرضی بڑائی کو تسلیم نہیںکرتی تو وہ ساری دنیا کے خلاف جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔وہ ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔
وہ اردو نہیں جانتے، اس لیے ہمارے لٹریچر سے براہ راست واقفیت حاصل نہیں کر سکتے۔ تاہم کئی ملاقاتوں میں، میں نے اپنے لٹریچر کا خلاصہ ان کے سامنے رکھا۔وہ بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے جو افکار ہیں انہی افکار پر مبنی لٹریچر آج مغربی قوموں میں اسلام کے تعارف کے لیے درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب شہید وغیرہ کی کتابوں کے ترجمے انگریزی زبان میں کیے گئے ہیں،مگر وہ مغرب میں اس کی تبلیغ کے لیے کارآمد نہیں۔کیونکہ ان میں اسلام کو قومی فخر کے انداز میں پیش کیا گیا ہے، نہ کہ اس اصولی اور فطری انداز میں جیسے کہ آپ پیش کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

داعیانہ کردار

سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کی چیرپرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے سی پی ایس لیڈیز ٹیم کے ایک آن لائن پروگرام میں مندرجہ ذیل تقریر کی تھی
مولانا وحیدالدین خاں صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ "دعوت الی اللہ کا مشن اختیار کرنے کے لیے داعیانہ کردار ضروری ہے۔ جو شخص دعوتی عمل کا کریڈٹ لینا چاہتا ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کرے"۔ہم داعیانہ کردار کو رسول اللہ ﷺ اور اصحابِ رسول کے نمونہ سے بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ رسول اللہ کے زمانے میں بار بار ایسا ہوتا تھا کہ مدعوغصہ ہوجاتے تھے۔ لیکن آپ اور آپ کےا صحاب اعراض کا طریقہ اختیار کرتے تھے۔
مثال کے طور پر مصعب بن عمیر خدا کا پیغام پہنچانے مدینہ گئے تھے ۔وہاں قبیلہ اوس کے ایک بڑے سردار اسید بن حضیر کو جب ان کی دعوتی سرگرمیوں کی خبر ہوئی تو بہت غصہ ہوئے کہ تم ہماری عورتوں اور ہمارے بچوں کو بہکانے آئےہو (فَوَقَفَ عَلَیْہِمَا مُتَشَتِّمًا، فَقَالَمَا جَاءَ بِکُمَا إلَیْنَا تُسَفِّہَانِ ضُعَفَاءَنَا) ۔ مصعب بن عمیر نے بہت ٹھنڈے طریقے سے جواب دیا کہ پہلے آپ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری بات سنیں، پھر اس کے بعد آپ جو فیصلہ کریں وہ مجھے منظور ہوگا۔ اسید بن حضیر نے کہا کہ تم نے بہت انصاف کی بات کہی اور سننے کے لیے بیٹھ گئے۔ اس کے بعد مصعب بن عمیر نے قرآن کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے اس کے بعد کہا’یہ کلام کتنا عمدہ اور کتنا اچھاہے‘(مَا أَحْسَنَ ہَذَا الْکَلَامَ وَأَجْمَلَہُ)، اور وہ مصعب بن عمیر کے ساتھی بن گئے (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 436)۔ اس طرح بہت جلد مدینہ کے تمام باشندے آپ کے فولڈ میں آگئے۔
یہی سارے صحابہ کا طریقہ تھا، وہ غصے کا جواب غصے سے نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ وہ اس بات کے بہت زیادہ حریص تھے کہ خدا کے بندوں کو خدا کا پیغام پہنچایا جائے۔اگر وہ غصہ کا طریقہ اختیار کرتے تو حالات دعوتی عمل کے لیے نارمل نہ ہوپاتے ۔ اس وجہ سے وہ ہر موقع پر اوائڈنس کا طریقہ اختیار کرتے تھے، اور آخری حد تک صبر و برداشت کے اصول پر قائم رہتے تھے۔
رسول اللہ کے زمانے میں اس قسم کی اور بھی مثالیں ملتی ہیں۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف علاقوںمیں تبلیغی و فود بھیجے تھے ۔مثلاًآپ نے اپنے دو صحابہ حضرت ابو موسی اور حضرت معاذ بن جبل کو اسلام کی تبلیغ کے لیے یمن بھیجا۔ ان دونوں کو بھیجتے ہوئے آپ نے یہ نصیحت کی’’تم لوگ آسانی پیدا کرنا مشکل پیدا نہ کرنا، تم لوگ خوش خبری دینا، لوگوں کو متنفر نہ کرنا (یَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا) ‘‘صحیح البخاری، حدیث نمبر 3038 ۔انھوں نے انتہائی نرمی سے لوگوں سے بات چیت کی۔ تمام لوگ متاثر ہوگئے، اور پیغمبر اسلام کے سچے ساتھی بن گئے۔
لیکن موجودہ دور میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ میری ایک دوست بتا رہی تھیں کہ انھوں نے اپنے بچے کے لیے ایک مولوی صاحب کو لگایا کہ وہ ان کو دین اسلام کی باتیں بتائیں۔ لیکن وہ آتے ہی بچوں کو جہنم سے ڈرانے لگے، ان کو ڈوز اینڈ ڈونٹز (do’s and don’ts) کی زبان میں دین کی باتیں بتانے لگے ۔یہ بچے انگلش اسکول کے پڑھنے والے تھے، ان کو اس قسم کی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں، انھوں نے مولوی صاحب سے پڑھنے سے انکار کردیا ۔ اگر مولوی صاحب ان کو پیراڈائز کی باتیں بتاتے، دین کی باتوں کو ریزن آؤٹ کرکے بتاتے تو ان کے اندر دلچسپی پیدا ہوتی، اور وہ مولوی صاحب کی باتوں کو سمجھتے ۔ تو یہی وہ حکمت ہے،جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم لوگ آسانی پیدا کرو، مشکل پیدا نہ کرو، لوگوں کو خوشخبری دو ،ان کو متنفر نہ کرو۔
اسلام دین فطرت ہے، وہ ہر آدمی کی فطرت کی آوازہے۔ اسلام کو قابلِ قبول بنانے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ لوگوں سے معتدل تعلقات قائم کیے جائیں۔ اور اسلام کے مثبت پیغام سے انھیں با خبر کردیا جائے۔قرآن کی سورہ الاحزاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے دعوت کے آداب بتائے گئے ہیں۔ اس کاایک جزء یہ ہے’’ان کے ستانے کو نظر انداز کرو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو، اللہ بھروسے کے لیے کافی ہے (وَدَعْ أَذَاہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّہِ وَکَفَى بِاللَّہِ وَکِیلًا)33:48۔ ‘‘
اس آیت کے مطابق، جب کوئی آدمی دعوتی کام کرے گا تو ضرور ایسا ہوگا کہ مدعو کی طرف سے زیادتیاں پیش آئیں گی۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ ان زیادتیوں کو نظر انداز کرے۔ مدعو اگر ہماری دعوت کو سن کر ردِ عمل کا اظہارکرتا ہے تو اسے اعراض کرتے ہوئے ہمیں اپنی دعوتی مہم کو جاری رکھنا ہے۔
قرآن کی سورہ طٰہٰ آیت 44میں بتایا گیاہے کہ اللہ تعالی نے جب حضرت موسی کو فرعون کی طرف اپنے پیغام کے ساتھ بھیجا تو ان کو بطور خاص یہ حکم دیا تھا’’پس اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘ اب آپ سوچیے کہ ایسا جابر اور ڈکٹیٹر حکمراں، جس نے سب سے بڑا رب ہونے کا دعوی کیا تھا ۔ اس نے کہا تھاأَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلَى(79:24)۔یعنی، میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں۔ اس کے بارے میں بھی اللہ تعالی کہہ رہے ہیں کہ اس سے نرمی سے بات کرنا، جب کہ اللہ تعالی کے علم میں سب کچھ تھا کہ وہ سرکش ہے اور خدا کے پیغام کوماننے والا نہیں، پھر بھی اللہ نے اس کے ساتھ نرمی اختیار کرنے کا حکم دیا۔
لہٰذاداعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کو بہت زیادہ یاد کرے اور وہ یہ سمجھ کر دعوت کا کام کرے کہ وہ خدا کا کام کررہا ہے۔ تو خدا کے کام میں اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچے، کوئی مسئلہ پیدا ہوتاہے تو وہ ری ایکٹ نہیں کرے گا، وہ ہر حال میں خوشی خوشی کام کرے گا کہ اس نے اپنے رب کے لیے کام کیاہے۔ اگر آسانی سے کام ہوجاتا تو اس کا اتنا ثواب نہیں ہوتا۔ لیکن جب اس کے لیے کچھ مصیبت اٹھانا پڑے، کچھ تکلیف اٹھانا پڑے تو اس کا ثواب بہت زیادہ ہوگا۔
نرمی اس لیےہےکہ مدعو بھی انسان ہی ہے، اس کا غصہ جو دکھائی دیتا ہے وہ اس کا اوپری اوپری رویہ ہوتا ہے، اس کی اندرونی فطرت میں وہ صلاحیت موجود رہتی ہے کہ کوئی حق بات اگر معقول انداز میں کہی جائے تو اس کی فطرت اس کو مجبور کرے گی کہ وہ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرے۔ اس کے برعکس، اگر ہم بھی غصہ ہونے لگیں، ہم بھی اپنے ایگو سے مغلوب ہوکر کوئی ردعمل ظاہر کریں تو مدعو کا کانشنس نہیں جاگےگا، تاکہ وہ ایک ریشنل اور لاجیکل بات کو مان لےجو اس کی فطرت کی آواز ہے ۔ اس کو ایک ضد ہوجائے گی، اوروہ بات کو نارمل طریقےسے نہیں لے پائے گا۔
ایک بار میں نئی دہلی کے ایک پارک میں گئی ، جس کا نام لودھی گارڈن ہے۔ وہاں میں نے قرآن اور لٹریچر ایک سردار جی اور ان کی فیملی کو دینا چاہا۔ سردار جی نےسختی سے کہا کہ ہم کیوں لیں آپ کی کتاب، کیا آپ ہماری کتاب پڑھتی ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم ہرچیز پڑھتے ہیں آپ دیجیے۔ پھر انھوں نے کہ آپ ’ست سری اکال‘ کہیں گے۔ ہم نے کہا کہ ہاں ہم کہیں گے، ہم نے دہرا دیا۔ اسی طرح سے انھوں نے اپنے مذہب کی کئی باتیں پوچھیں ،اب وہ مجھے یاد نہیں، میں نے نرم انداز میں سب کا جواب دیا۔وہ لوگ بہت خو ش ہوگئے۔ سب نے ہماری کتابیں بہت خوشی خوشی لیں۔
قرآن کی سورہ النساء میں پیغمبر اسلام سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ جوتمھارے مخالفین ہیں، تم ان سے اعراض کرو اور ان کو نصیحت کرو، اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے(4:63)۔ "مخالفین سے اعراض کرو"کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بحیثیتِ انسان ان کو کمتر سمجھ کر نظرانداز کرو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مخالفت پر ری ایکٹ نہ کرو۔ یعنی مخالفت کا منفی اثر نہ لو۔ اور اگر تم نے ذرا بھی بحث ومباحثہ کیاتو ڈسکشن کا موضوع بدل جائے گا۔ اسی لیے اپنے موضوع پر قائم رہنے کے لیے ہمیں اعراض کرنا چاہیے، اسی وجہ سے بہت زیادہ اعراض کی تلقین کی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اعراض کرتے تھے، آپ کے صحابہ اعراض کرتے تھے۔ اِس کے لیے سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اپنی انا (ego) کو کنٹرول کیا جائے۔ اس کے بعد دعوت کے باقی سارے آداب خود بخود پیداہوجائیں گے۔
قرآن کی سورہ النحل میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اچھے طریقے سے بحث کرو‘‘ (16:125)۔ بحث (جدال احسن )کا مطلب ہےڈسکشن اور ڈائلاگ ۔ اچھے طریقے سے بحث کرو، یعنی اگر وہ غیر ضروری بحث کریں تب بھی تمہارا انداز نرم رہے۔ وہ ٹیڑھی بات کریں، تب بھی اس کا جواب سیدھے طریقے سے دیا جائے۔ ان کے سخت الفاظ سن کر بھی اپنی زبان سے نرم الفاظ نکالنا ہے۔ اگر دوسرا پرووک (provoke)کرنا چاہے تو بھی داعی کو پرووک نہیں ہونا ہے۔یہ داعی کا کردار ہے کہ مدعو کی طرف سے پیش آنے والی ہر تکلیف پر صبر کرے۔ مدعو سے حساب چکانے کے بجائے ایسے تمام معاملات کو خدا کے خانے میں ڈال دے۔ جو انسان صحیح معنی میں اللہ سے ڈرنے والا ہوتا ہے اس کے اندر یہ کردار پیداہوجاتا ہے ۔ اس کو یہ گہرا یقین ہوتاہے کہ یہ خدا کا پیغام ہے اور وہ خدا کے لیے یہ کام کررہا ہے تو اس کو ہر حالت میں اس کام کو بحسن خوبی انجام دینا ہے۔
ہر پیغمبر نے یہی کہا کہ میں تمہارے لیے ناصح ہوں اور امین ہوں۔ ناصح کالفظی مطلب ہے خیرخواہ، اور امین کا مطلب ہے امانت دار۔ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسرے کا ہمدرد ہو، وہ اس کا بھلا چاہنے والا ہو۔منصوبۂ تخلیق کے مطابق، وہ تمام انسانوں کو پرامن انداز میں ہدایت پہنچانے کا حریص ہو۔ یہ خیر خواہی اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ مدعو کی منفی روش سے بے پروا ہو کر یک طرفہ طور پر اس کی ہدایت کا حریص بنا رہے۔چنانچہ داعی اپنی تنہائیوں میں مدعو کے لیے دعا کرتاہے۔ وہ سوچتا ہے کہ میں کون سا انداز اختیار کروں کہ میری بات مدعو کے لیے زیادہ سے زیادہ قابلِ فہم ہوجائے۔ یہ ساری چیزیں اسی وجہ سے ہیں کہ اس کے اندر انسانی ہمدردی کا بہت گہرا جذبہ ہوتا ہے ۔ یہ چیز اس کو مدعو کی زیادتیوں کو نظر انداز کرنے والا بناتی ہے۔ اگر مدعو کڑوا بول بولے تب بھی داعی میٹھا بول بولتاہے۔اس بات کو آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے اپنا بچہ ہوتا ہے کتنا ہی غلط کام کرے تو اسے نرمی سے سمجھایا جاتا ہے ،سختی نہیں کی جاتی ہے۔کیونکہ ماں باپ کو بچوں سے جو گہرا تعلق ہوتا ہے وہ والدین کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بہت نرمی سے اپنے بچے کو سمجھائیں، تاکہ بات اس کے دل میں اتر جائے۔
یہی معاملہ داعی اور مدعو کا ہے۔ داعی کے دل میں مدعو کی شفقت اتنی بڑھی ہوئی ہونی چاہیے کہ وہ کسی بھی حال میں مدعو سے نفرت نہ کرے ۔ہر حال میں وہ اس کی ہدایت کا حریص ہو، تنہائیوں میں وہ اس کے لیے دعا کرے۔ایسی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ دعا کرنے کے بعد جب دعوت دی گئی تو ان کے دل میں بات اتر گئی۔ مثلاً ابوہریرہ کی ماں کا واقعہ جو صحیح مسلم (حدیث نمبر 2491)میں بیان کیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور صحابہ کی پوری زندگی میں طرح طرح کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ایک کتاب ہے حیاۃ الصحابہ، اس کے مصنف مولانا زکریا کاندھلوی صاحب ہیں۔ اس میں صحابہ کے بہت سے واقعات ہیں، یعنی وہ کتنا زیادہ اس بات کے لیے بے چین رہتے تھے کہ لوگوں کو کیسے ہدایت کا پیغام پہنچا یا جائے۔کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ خدا کا پیغام ہے اور اس کے پہنچانے پر ان کو خدا کے یہاں کتنا زیادہ اجر ملے گا۔ ان کے سامنے خدا اور اس کی جنت ہوتی تھی۔ اسی لیے وہ بے چین رہتے تھے کہ اس پیغام کولوگوں تک ہر حال میں پہنچانا ہے۔
سادگی ، سنسیرٹی (sincerity)، ماڈسٹی (modesty)اور انسانی خیرخواہی اور لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا۔ یہ نمونے ہیں جو ہمیں صحابہ کی زندگیوں میں ملتے ہیں۔اس کے لیے صرف یہ شرط ہے کہ داعی اپنی انا کو ختم کردے، تواضع کے ساتھ رہے، اورسادگی (simplicity) کا طریقہ اپنائے ۔ صحابہ کرام نے اپنے زمانے میں دنیا کے بڑے حصے میں لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ان کی سادگی اور تواضع کو دیکھ کر لوگ متاثر ہوجاتے تھے۔ ان صفات کو ہمیں اپنی زندگی میں اپنانا ہوگا۔ ایک اچھا داعی بننے کے لیے یہ صفات نہایت ضروری ہیں۔ آج لوگ اپنے اور غیر (we and they) کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ یہ روش خیر خواہی کی قاتل نفسیات ہے، یہ دعوتی عمل کے لیے انتہائی نقصان دہ روش ہے۔
ابتدائے اسلام میں جب مسلمان انڈیا آئے، تو وہ سب سے پہلے کیرالا آئے۔ وہاں انھوں نےقومی شناخت کے نام پر اپنے آپ کو مقامی آبادی سے الگ نہیں کیا، بلکہ وہ مقامی لوگوں سے مل جل کر رہے ، یہاں تک کہ انھوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں بھی کیں۔ اس وجہ سے وہاں پر ان کے لیے خدا کا پیغام پہنچانابہت آسان ہوگیا ۔ اگر وہ اپنا الگ کلچر چلاتے، اپنے اور غیر کی نفسیات میں جیتے، جیسے آج کل مسلمان اپنا الگ کلچر چلاتے ہیں تو صحابہ قدیم دور میں دعوت کا کام نہیں کرپاتے۔ اپنے اور غیر کی نفسیات سے دوریاں بڑھتی ہیں۔ اس لیے ہمیں واپس جانا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اور ان کے صحابہ کی زندگیوںکو جاننا ہے، وہاں سے اپنے لیے عملی نمونہ تلاش کرنا ہے۔ آج کے قومی رہنماؤں میں ایسی مثالیں نہیں ملیں گی ۔ وہاں آپ کو حقیقی اسلام نہیں ملے گا۔ اس وجہ سے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو پڑھنا چاہیے،صحابہ کی زندگیوں کو پڑھنا چاہیے۔ اس سے آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ داعیانہ کردار کیا ہوتا ہے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 277

■ سی پی ایس انٹرنیشنل دہلی سے ہفتہ وار پروگرام کا سلسلہ جاری ہے جیسا کہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کی حیات میں جاری تھا۔ یہ پروگرام اتوار کے دن ساڑھے دس بجے فیس بک (fb.com/maulanawkhan)پر لائیو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں ڈاکٹر فریدہ خانم اور ڈاکٹر ثانی اثنین خان خطاب کرتے ہیں۔ 5 جون 2022 کو ڈاکٹر ثانی اثنین خان صاحب نے "پیغمبر یوسف کے قصہ کا سبق" کے عنوان سے خطاب کیا۔
■ گڈورڈ بکس، نئی دہلی نے دنیا کی 30 سے زیادہ زبانوں میں تراجم قرآن کے علاوہ بریل ترجمۂ قرآن بھی شائع کیا ہے۔ سی پی ایس دہلی کے ممبرمسٹر محمد عمار نے 7 دسمبر 2021 کو بلائنڈ ریلیف ایسوسی ایشن، نئی دہلی کی لائبریری کے لیے ایک بریل قرآن بطور گفٹ دیا۔ تاکہ وہ لوگ بھی خدا کے پیغام سے باخبر ہوں، جو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
■ دعوت امت مسلمہ کا مشن ہے۔ یہ عمل شعوری منصوبہ بندی چاہتا ہے۔ شعوری منصوبہ بندی کا مطلب ہے دعوت کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا جائے۔اس تعلق سے یہاں ایک تجربہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔21 اکتوبر 2021شہر وانمباڑی( تمل ناڈو) سے ایک صاحب کا کال آیا۔ انھوں نےبتایاکہ علاج کےلیے میرا ایک غیر مسلم ڈاکٹر سے اپوائٹمنٹ ہےاور میری خواہش ہے کہ میں انھیں انگریزی ترجمۂ قرآن دوں۔ اگر آپ کے پاس سعودی عرب کا انگریزی ترجمہ قرآن اویلیبل ہو تو برائے مہربانی مجھے ایک عدد دیجیے۔ یاددہانی کے لیے انھوں نے کئی مرتبہ فون بھی کیا۔ بہت تلاش کے بعد وہ ترجمۂ قرآن مل سکا۔ ویسے سی پی یس انٹرنیشنل کی جانب سے کئی زبانوں میں تراجم قرآن دستیاب ہیں۔مگر ان کے جذبے اور مطالبے کی قدر کرتے ہوئے میں سعودی عرب سے چھپے ہوئے قرآن کی تلاش میں تھا۔ جب مجھے یہ نسخہ مل گیا تو میںنے یہ کیا کہ گڈورڈ بکس سے طبع شدہ ترجمۂ قرآن بھی ساتھ لے گیا ۔ اورسعودی والے ترجمۂ قرآن کے ساتھ میں نے سی پی ایس کے ترجمۂ قرآن کی ایک کاپی بھی ان کو دی۔ وہ بہت خوش ہوئے اورکہا کہ سی پی ایس کا ترجمۂ قرآن ہینڈی اوربہت خوبصورت ہے۔ کیا اس کی مزید کاپیاںمجھے مل سکتی ہیں۔میں نے اس ترجمۂ قرآن کی مزید کاپیاں اور وہاٹ از اسلام نامی کتاب ان کو دے دی۔
اس واقعہ سے میری سمجھ میں آیا کہ دعوت کی شعوری منصوبہ بندی کا مطلب کیا ہے۔ یعنی ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں، علاج ہو یا تجارت یاکوئی اور معاملہ، غیرمسلموںسے ہمارا تعلق لازمی طور پر قائم ہوتاہے۔ اگر پیشگی طور پر ہم کچھ پرنٹڈ دعوتی لٹریچرمثلاً ترجمہ قرآن ، وغیرہ اپنے پاس رکھ لیں تو ہر مسلم اپنا دعوتی رول ادا کرسکتا ہے۔ کیوں کہ مدعو تک خدا کا پیغام ، یعنی قرآن پہنچانا داعی کی ذمہ داری ہے۔مگر خدا کے پیغام کو ماننا یا اس کا انکار کرنا مدعو کے ہاتھ میںہے ۔ آپ کے پاس جو بھی ترجمۂ قرآن میسر ہو اس کو دینے کی کوشش کریں۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ مدعو کی قابلِ فہم زبان میں ہو۔ اگر امت مسلمہ اس دور میں صرف اتنا کام کردے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت تمام کرنے کے مترادف ہوگا (مولانا اقبال احمدعمری، عمرآباد، تامل ناڈو)۔
■ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، طارق بدر صاحب! اللہ تعالی آپ کو ڈھیر ساری خوشیاں نصیب کرے۔ کیوںکہ آپ مولانا وحید الدین صاحب کے مشن کو عام کرنے میں سرگرم ہیں۔ اللہ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس مشن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں۔ اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اس میں ہماری فلاح ہے۔ جس طرح مولانا صاحب کو پڑھتے ہوئے میرے ایمان کو تقویت ملتی ہے، کسی اور عالم دین کو پڑھنے سے اس طر ح مجھے ایمانی تقویت نہیں مل پاتی ہے۔ میں مولانا صاحب کی فکر سے میں بہت زیادہ متاثر ہوں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں مولانا کی تعلیمات کو عام کروں۔ آج کے فتنہ وفساد والے دور میں میں مستقل طور پر اپنے آپ کو ان کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے لگانا چاہتا ہوں ۔ اس کے لیے مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے مولانا کی بنیادی فکر رکھنے والی تصانیف بھیج دیں(سجاد حمزہ، بونیر،کے پی کے)۔
■ الرسالہ ( اکتوبر - دسمبر 2021) مطالعہ کرنے کا موقع ملا ۔اس میں ایک مضمون ہے ’’الحاد یا ڈی کنڈیشننگ‘‘ ۔ یہ ایک مبنی بر حقیقت اور حکمت سے بھر پور مضمون ہے۔ اس مضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے اس روشنی میں اپنے کچھ دعوتی تجربات شیئر کر رہا ہوں۔ گزشتہ رمضان میں قرآن کی کافی تعداد میں ریکوسٹ موصول ہوئیں۔ ناگپور ٹیم نے کچھ قرآن بذریعہ پوسٹ بھیج دیےاور بہت سے قرآن میں نے ساجد احمد خان صاحب کے ساتھ مل کر ذاتی طور پر پہنچائے۔ قرآن کی ریکوسٹ زیادہ تر سیکولر تعلیم حاصل کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی تھیں۔ اس میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان نوجوانوں میں قرآن کو سمجھنے کی چاہ بہت زیادہ ہے۔ اس لیے انہوں نے قابلِ فہم زبان میں قرآن کا مطالبہ کیا۔ بعض لڑکیوں نے تو یہاں تک کہا کہ ہماری تعلیم انگریزی زبان میں ہوئی ہے۔ قرآن کے ترجمے زیادہ تر اردو زبان میں ہیں، اس لیے قرآن کو سمجھنے کے لیے ہم نے اردو زبان سیکھی۔ اس تجربے سے مولانا صاحب کی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’’ ماڈرن ایجوکیشن کے ادارے اپنی حقیقت کے اعتبار سے ’ قتل گاہ‘ نہیں ہیں، بلکہ وہ تطہیر ذہن (ڈی کنڈیشننگ ) کے ادارے ہیں۔ ذہنی تطہیر کے اس عمل کی بنا پر ایسے لوگ اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ کسی بات کو زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ سمجھ سکیں‘‘۔ بعض نوجوانوں سے گفتگو کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ آبائی طور پر ملا ہوا مذہب شاید ان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کر پا رہا ہے اور وہ اپنے مائنڈ کی ری انجینئرنگ کرکے اسلام کو ری ڈسکور کرنا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ بقول مولانا صاحب ’’ان کے گھر اور ان کے ماحول نے ان کے اندر اپنے آبائی مذہب کے لیے جو عقیدت پیدا کی تھی، اس کو جدید تعلیم نے ختم کر دیا، گویا کہ ان کی فطرت کے اوپر جو روایتی پردہ پڑگیا تھا، وہ ہٹ گیا اور وہ اپنی اصلی فطرت کے قریب آگئے‘‘۔ چنانچہ ناگپور ٹیم نےیہ پلان بنایا ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوںتک سی پی ایس مشن کو پہنچایا جائے۔ قرآن کے لیے ریکوسٹ کرنے والے ان نوجوانوں کا ایک واٹس اپ گروپ بنایا گیا ہے جس میں مولانا وحید الدین خاں صاحب کے آڈیوز، وڈیوز اور مضامین شیئر کیے جاتے ہیں، جس سے ان کو مزید فائدہ حاصل ہوتا ہے (محمد عرفان رشیدی، کامٹی، ناگپور)۔
■ 1 نومبر 2021 سی پی ایس امریکا کے ایک ممبر نے ہارورڈ ڈیونٹی اسکول کیمبرج، بوسٹن کے سامنےتقسیم قرآن کا ایک اسٹال لگایا۔ کافی لوگ اسٹال پر آئے اور ترجمۂ قرآن اور اسلام کے تعارف پر مبنی لٹریچر حاصل کیا۔ایک اکیڈمک اسٹاف نے بتایا کہ وہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کو پہلے سے جانتے ہیں، اور ان کی کتابیں پڑھ چکے ہیں (خواجہ کلیم الدین، امریکا) ۔
ث بتاریخ 5دسمبر سے 10 دسمبر 2021 تک آندھرا پردیش کے چند علاقوں ،بھیماورم، نڈدول، راجمندری، تانوکو اور وشاکھاپٹنم کادورہ ہوا، اورعلماحضرات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان تمام حضرات کے ساتھ سی پی ایس مشن کے تعلق سے گفتگو ہوئی ۔ٹرین میں ایک خوشگوار تجربہ پیش آیا۔ اس بنا پرہم سفر غیر مسلموںکے درمیان آسانی سے دعوتی کام کا موقع ملا۔ ہوا یہ کہ ٹرین میں میرے پڑوس کی سیٹ پر کچھ غیر مسلم مسافر تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ میری سیٹ وہ لے لیں، اور مجھے کوئی اور سیٹ دیں۔ مگر مجھے دیکھ کر وہ کہنے میں جھجک رہے تھے۔ میں نے ان کے ارادہ کو سمجھ کر فوراً ان سے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں آپ جیسا چاہتے ہیں، وہ میں کردیتا ہوں ۔میں آپ کے لیے نوپرابلم پڑوسی بن کر رہوں گا۔یہ سن کر وہ بہت زیادہ خوش ہوئے، اور تمام لوگ میرے دوست بن گئے۔ انھوں خوشی خوشی میری باتیں سنی، اورترجمۂ قرآن کریم ، اور دیگردعوتی لٹریچر قبول کیا۔وشاکھاپٹنم میںسی پی ایس مشن کے ممبران عبد المبین صاحب، نورمحمد صاحب، ڈاکٹر یاسین اور عبدالشکور صاحب ان تمام سے ملاقات ہوئی۔ سب نے اپنے دعوتی تجربات بتائے اور خدا کے پیغام، قرآن کو ساری انسانیت تک پہنچانے کا ازسر نوعہد کیا۔ان حضرات سے جو گفتگو ہوئی وہ یہ تھی کہ دعوت میں استقامت کی ایک ہی شرط ہے۔ یعنی ہماری ذمہ داری یہی ہے کہ مدعو تک قرآن کا پیغام پہنچایا جائے اور ان کی ہدایت کے لیےاللہ سے دعا کرتے رہیں۔اس حقیقت کو ہم اصولی طور پر اچھی طرح جان لیں۔ اگراس سے زیادہ کوئی نتیجہ ہم چاہتے ہوں تو ہمیں مایوس ہونا پڑے گا ۔ کیوں کہ قرآن (28:56) کے مطابق، دعوت وتبلیغ ہماری ذمہ داری ہے ، مگرہدایت دینا اللہ کا معاملہ ہے۔ (مولانا اقبال احمدعمری، عمرآباد، تامل ناڈو)۔
ث 25 دسمبر 2021 کوکرسمس کے موقع پر گلمرگ میں سیاحوں کی کافی بھیڑ تھی۔ اس مناسبت سے سی پی ایس کشمیر کےتین ممبر ان حمید اللہ حمید صاحب، اعجاز احمد صاحب، اور مختار احمد صاحب گلمرگ گئے اور سیاحوں کے درمیان تراجم قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچرتقسیم کیا ۔کافی اچھا رسپانس ملا ۔ گلمرگ کلب میں ایک ہفتہ کا Christmas and New year festival رکھا گیا تھا ،جس میں کثیر تعداد میں ممتاز شخصیات شریک ہوئے تھے۔ ان سب کو دعوتی لٹریچر پیش کیا گیا جو انہوں نےانتہائی خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
■ سی پی ایس (سہارنپور) کی ایک ٹیم نے ڈاکٹر محمد اسلم خان کی قیادت میں 31 مارچ 2022 کو نگینہ، دھام پور اور دیوبند کا دورہ کیا۔ دھام پور میں مختلف لوگوں سے ملاقاتیںہوئیں۔ مثلاً جناب ماہتاب صاحب (ممبر سی پی ایس دھام پور)، ڈاکٹر سکندر، ڈاکٹر ورما، ڈاکٹر سمن، ڈاکٹر آصف، مسٹر ارشاد ملتانی، مسٹر شاہنواز زیدی، ایڈووکیٹ نوید، اور مسٹر جاوید، وغیرہ۔ ان تمام لوگوں کے ساتھ سی پی ایس مشن کو لے کر گفتگو ہوئی، اور ان کو دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ پھر وہاں سے دارالعلوم دیوبند میں جانا ہوا۔ وہاں کی لائبریری میں مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابوں کا سٹ دیا گیا۔ اس کے علاوہ دیوبند میں موجود دیگر علما کرام سے ملاقاتیں ہوئیں۔
واپس اوپر جائیں